Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم ہندوستان کا معاشرتی نظام

قدیم ہندو تہذیب طبقاتی نظام پر مبنی تھی۔ ان کے ہاں ذات پات کے نظام پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ ہر اونچی ذات والا اپنے سے نچلی ذات والے کو حقیر و پست سمجھتا اور اسے بطورِ خادم دیکھتا تھا۔ ان کے ہاں لوگوں سے میل جول اور مراسم اختیار کرنے میں شخصی درجات اور ذات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ سرکاری عہدے اور دیگر امور پر اعلیٰ طبقات کاقبضہ تھا جسے انہوں نے مذہبی رنگ دے کر مزید مستحکم کردیا تھا۔ عورتوں کی عصمت دری اور ا ن سے جسمانی لذت حاصل کرنے کے لیے من مانے عقائد گھڑے ہوئے تھے اور ان پر عمل نہ کرنے پر انہیں مورد الزام ٹھہرا کر سزا ئیں دی جاتی تھیں۔نچلے طبقات کو اونچی ذات والوں سے میل جول رکھنے یا دوستانہ مراسم اختیار کرنے کی جرأت نہیں تھی۔ایسا کرنے پر نچلی ذات کے لوگوں کوسخت ترین سزا کا مستحق قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں نہ صرف کم ذات ، بدذات ، پلید اور

اَچُھوت
جیسے انسانیت سوز القابات سے موسوم کیا جاتاتھابلکہ بے اعتدالی،ناانصافی،مذہبی اجارہ داری،ہوس پرستی اور ظلم و ستم کا بھی نشانہ بنایا جاتاتھا۔

قدیم ہندوؤں کے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ ہندؤانہ طریقے پر زندگی گزاریں اور اُن رسوم ورواج کی پابندی کریں جو صدیوں سے ان کے ہاں جاری و ساری ہیں۔ مثلاًشادی ومرگ کی رسوم، ذات پات کے نظام کی پابندی وغیرہ ۔یہاں تک کہ مندروں میں مذہب کے نام پر کی جانے والی حیا سوز حرکات کو بھی اچھا تصوّر کرتے تھے۔بڑے مندروں میں بت کے سامنے رقص کرنے والی لڑکیوں کا ایک طائفہ رقص پیش کرتا رہتا تھا۔ جس طرح بادشاہ اپنی کسی کنیز کو اپنے کسی مہمان کی عزت افزائی کے لیے پیش کرتاتھا اسی طرح دیوتا بھی پجاری کو شب بسری کے لیے اپنی دیوداسیوں میں سے کسی ایک کو دے دیتا تھا ۔ اس مذہبی نفس پرستی کا خصوصاًجنوبی ہند میں عام رواج تھا ۔1

خاندانی زندگی

شوہر اور بیوی کے علاوہ گھر کے دیگر افراد جیسے بھائی، بہنیں، بیٹے، اور بیٹیاں بھی خاندان میں شامل تصوّر کی جاتی تھیں۔ عمومی طور پر ان کےآپس میں تعلقات کی مضبوطی کا دارو مدارایک ہی مقام پر یکجا ہوکرافہام و تفہیم سے رہنے اور آپس میں ایک دوسرے کے مددگار اور سہارا بنے رہنےکی وجہ سےہواکرتا تھا۔ بعض اوقات ان کے درمیان جائیداد پر جھگڑے بھی ہوجایا کرتے تھے، خصوصاً زمین کی تقسیم، مویشی، زیبائشی اشیا ءکے لین دین کے معاملات ، اور اسی طرح کی دیگر وجوہات آپس کی رنجشوں کا سبب بنتیں اور بعض اوقات تو معاملہ خاندان میں جدائی کا سبب بھی بن جایا کرتا تھا۔2

آبادی

ایک آزاد تخمینے کے مطابق قدیم ہندوستان ستّر لاکھ(7,000,000) گراماً(زمین کے ٹکڑے) پر مشتمل تھا اور ہر زمین کا ٹکڑا پندرہ (15) سے بیس(20) افراد پر مشتمل تھا۔ اگر ستّر لاکھ(7,000,000)کو پندرہ (15) اور بیس(20)سے ضرب دیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قدیم ہندوستان کی کل آبادی تقریباً دس کڑور پچاس لاکھ (105,000,000) اور چودہ کڑور (140,000,000) کے درمیان تھی۔3

طرِز تعمیر

موہن جو دڑو (Mohenjo-Daro)اور ہڑپہ (Harappa)کی قدیم عمارتوں، سڑکوں اور دوسرے بلدیاتی انتظامات کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں شہر تعمیری منصوبے کے تحت آباد کیے گئے تھے۔وسعت میں ہڑپہ موہن جو دڑو سے بڑا معلوم ہوتا ہے۔ 4 عام طور پر دونوں شہروں کی عمارتیں پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں۔ رہائشی مکانات چھوٹے اور بڑے کثیر تعداد میں تھے۔ سب سے چھوٹا مکان دو کمروں کا تھا اور سب سے بڑے مکان کا رقبہ تینتیس ہزار (33,000) مربع فٹ تھا۔ اینٹیں بھی مختلف پیمانوں کی استعمال کی گئی تھیں۔ بعض لمبائی میں بیس انچ پانچ سوت ، چوڑائی میں پانچ انچ (20.5x5)اور بعض لمبائی میں پچیس انچ دوسوت ، چوڑائی میں آٹھ انچ(25.2x8) کی تھیں۔ اس طرح کی بڑی بڑی اینٹیں خاص خاص ضرورتوں کے لیے مثلاً نالے وغیرہ کے پاٹنے میں استعمال کی گئی تھیں۔ عام طور پر مکانات کی تعمیر میں ، پچیس انچ دوسوت لمبی، پانچ انچ چوڑی (25.2x5) اور پچیس انچ لمبی ،گیارہ انچ چوڑی (25x11)اینٹیں مَصْرَف (استعمال)میں لائی گئی تھیں۔کچی اینٹوں کےپیمانےعموماً یہ ہوا کرتے تھے۔۔۔ پہلاپیمانہ:لمبائی میں تیرہ انچ نو سوت، چوڑائی میں تین انچ پانچ سوت(13.9x3.5)، دوسرا پیمانہ: لمبائی میں سات انچ، چوڑائی میں تین انچ پانچ سوت(7x3.5)تیسراپیمانہ: لمبائی میں پندرہ انچ، چوڑائی میں تین انچ ایک سوت(15x3.1)،اور چوتھا پیمانہ: لمبائی میں پندرہ انچ ، چوڑائی میں سات انچ (15x7) تھا۔ یہ تمام اینٹیں اُسی طرح کے کھلے سانچوں میں ڈھالی گئی تھیں جس طرح کے سانچے آج بھی اس ملک میں مستعمل ہیں۔ اینٹوں کی سطح بہت ہی ہموار و چکنی تھی ۔ پختہ اینٹوں کا رنگ گہرا سرخ تھا۔ کنویں کی تعمیر میں دوسری قسم کی اینٹیں بھی استعمال کی گئی تھیں ۔

قدیم ہندوستان کےمکانات عموماً ایک دوسرے سے الگ تھے اور گھروں میں وسیع صحن تھا۔ اکثر مکانات دو منزلہ تھے اور بلندی پر تعمیرکیے گئے تھے۔ بڑے مکانوں میں پھاٹک سے متصل ایک کمرہ دربانوں کے لیے تھا۔ تقریباً ہر مکان میں ایک کنواں بھی تھا۔ زمین کا فرش مُسَطَّح( ہموار) تھا اوردوسری منزل پر جانے کے لیے اینٹوں کی تنگ سیڑھیاں بنائی جاتی تھیں۔ ان کے بڑے سے بڑے مکان کا دروازہ تنگ اور پست تھا ۔اس دور میں بھی لکڑیوں کے گھر موجود تھے ۔ عام رہائشی مکانات کے علاوہ شہر کے مختلف حصوں میں بڑی بڑی عمارتیں قائم تھیں جوکہ شاہی دفاتر اور حکام کے محلات کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں۔

قدیم ہندوستان میں بڑے بڑے حمام بھی موجود تھے جن کی تعمیر پختہ اینٹوں سے کی گئی تھی۔ موہن جو دڑو کی عمارت کے بیچ میں ایک حوض تھا جو انتیس (29) فٹ لمبا، تئیس (23) فٹ چوڑا اور آٹھ (8) فٹ گہرا تھا۔ حوض کے ہر گوشہ پر اترنے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جس سے ملحق کمروں کا سلسلہ تھا جو شاید غسل کرنے والوں کے کپڑے بدلنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ عمارت کی لمبائی ایک سو اسّی (180) فٹ اور چوڑائی ایک سو آٹھ (108) فٹ تھی جبکہ اس کی دیوار آٹھ (8) فٹ موٹی تھی۔ عمارت کے چاروں طرف پندرہ (15) فٹ چوڑا راستہ تھا جو ایک بیرونی سات (7) فٹ چوڑی دیوار سے گھرا ہوا تھا۔ 5

اس بڑے حمام کے علاوہ ہر مکان میں بھی ایک غسل خانہ موجود تھا۔اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ روزانہ غسل کرنا شاید ان کے مذہب میں داخل تھا۔ مذہبی پیشواؤں سے لے کر عوام الناس تک ہر کوئی روزانہ کسی مقررہ وقت پر حمام میں غسل کرنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ پھر بھی یہ قیاس ہی ہے کیونکہ اب تک کسی

تیرتھ
کے مقام یا مندر کا پتہ نہیں ملا ہےاور نہ اُن کے مذہبی اعتقادات و رسومات سے متعلق خاطر خواہ واقفیت حاصل ہوسکی ہے۔ 6مذکرہ تفصیلات موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے حوالے سے ہیں ورنہ بقیہ قدیم ہندوستان نہایت بےڈھنگے انداز کا بنا ہوا تھا، اس لیے مؤرخین نے اس سے متعلق اپنی تحقیق کو محدود ہی رکھا ہے۔

تہذیب و ثقافت

ہندوؤں کی زندگی میں گانے سننا، کھیل کود، شراب نوشی اور ان جیسی دیگر اشیاء کا عنصر بنسبت دوسری اقوام کے زیادہ پایا جاتا تھا۔جس کا مشاہدہ اہلِ ہند کے تعلیمی نظام میں اس چیز کو داخلِ نصاب کرنے سے بھی ہوتا ہے۔ المسعودی کے مطابق بعض اوقات(ہنود کے ہاں) گانے سننے اور کھیل کود کا سما بھی ہوتا تھاجس کے لیے انہوں نے بہت سے آلات بنا رکھے تھے۔ گانا بجانا ،خوشی اور غمی دونوں میں ہوتا تھا۔بعض اوقات لڑکیوں کو شراب پلا دی جاتی تھی اور وہ بھی مردوں کی موجودگی میں، شراب کے نشے میں بد مست ہوجاتیں اور مرد بھی لڑکیوں کی بدمستی کی وجہ سے مست ہوجاتے تھے ۔7

لباس

البیرونی کے مطابق قدیم ہندوستان کے لوگ دھوتیاں باندھا کرتے تھےاور بعض لوگ صرف دوانگل چوڑی لنگوٹی سے ستر ِعورت کا تکلف کرتے تھے۔ بعض لوگ ایسی شلوار پہنتے جس میں کثیر مقدار میں روئی ٹھونسی ہوتی جس سے کئی لحاف بنائے جاسکتے تھے۔ ز اربند پیچھے کی طرف باندھتے تھے۔ ان کے بٹن بھی پشت کی جانب ہوتےتھے۔ ان کی واسکٹیں بھی عجیب قسم کی ہوتی تھیں۔ بہت تنگ جرابیں پہنتے، غسل کرتے اورپھر صحبت کرتے تھے۔ ان کے مرد عورتوں کی طرح رنگین لباس پہنتے تھے۔ نیز کانوں میں بالیاں، ہاتھوں میں کڑے، انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنتے اور بغیر زین کے گھوڑوں پر سواری کرتے تھے۔ اپنی کمر کے ساتھ ایک خنجر آویزاں رکھتے اور گلے میں

زُنَّار
پہنتے تھے۔ 8

رہن سہن

ہندوؤں کےرہن سہن اوران کی عملی زندگی کے طریقے باقی دنیا سے الگ تھے۔ان کے رہن سہن کے طریقوں میں کچھ باتیں انتہائی عجیب تھیں۔ مثلا ً ولادت کے وقت عورتوں کے بجائے مرد دایہ کا کام کرتے تھے۔ وہ چھوٹے بیٹے کو بڑے بیٹے پر فضیلت دیتے تھے۔ وہ گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت طلب نہ کرتےتھے لیکن گھروں سے نکلتے وقت اذن لیتے تھے۔ مجالس میں چوکڑی مارکر بیٹھتے اور بزرگوں کے سامنے ناک صاف کرنے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کرتے تھے۔ بھری محفل میں جوئیں مارنے سے احتراز نہ کرتے تھے۔ زور سے ریح خارج کرنے کو باعثِ برکت سمجھتے، لیکن چھینک مارنے کو براشگون قراردیتے تھے۔ پارچہ باف (کپڑا بننے والا)کو گندا اور حجام کو نظیف (پاک ) خیال کرتے تھے۔ جو شخص ان کے کہنے پر ان کو پانی میں غرق کردیتا یا آگ میں جلادیتا اس کو اجرت اداکرتے تھے۔ 9

غذا

ہندوستانیوں کی کوئی امتیازی و مخصوص غذا نہیں تھی لیکن چاول، سبزیاں اور مصالحے باقی دنیا سے زیادہ یہاں کھائے جاتے تھے۔ شمالی ہندوستان کے باشندوں کو جنوبی ہند کی غذا اورجنوبی ہند کے رہنے والے کو شمالی ہند کی غذا بد ذائقہ معلوم ہوتی تھی۔ کچھ لوگ گوشت، مچھلی اور انڈوں کو چھوتے بھی نہیں تھے۔ بہت سے ایسے بھی تھے جو گائے کا گوشت کھانے کے مقابلے میں بھوکامرجانا پسند کرتے تھے اور واقعی مر بھی جاتے تھے جبکہ دوسری طرف وہ لوگ تھےجو اس قسم کی پابندیوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ان غذائی روایات کا تعلق ذاتی ذوق و پسند نہیں بلکہ مذہب سے تھا۔

وہ ایسے چبوترے پر بیٹھ کر کھانا کھاتے جو گائے کے گوبر سے لیپا گیا ہوتا تھا۔ مل کر کھانا کھانے کا ان کے ہاں رواج نہ تھا۔ ہر شخص علیحدہ علیحدہ کھانا کھاتا اور جو بچ جاتا اس کو استعمال کرنا ممنوع تھا، اس کو باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ عام طور پر مٹی کے بنے ہوئے برتن ہی ان کے ہاں استعمال ہوتے تھے۔ کھانے کے بعد برتنوں کو بھی وہ باہر پھنکوادیا کرتے تھے۔ پان کا استعمال عام تھا جس سے ان کے دانت سرخ رہتے تھے۔ وہ نہار منہ شراب پیا کرتے اور اس کے بعد کھانا تناول کرتے تھے۔ وہ گائے کا پیشاب بھی چسکیاں لے کر پیتے لیکن اس کاگوشت نہ کھاتے تھے۔10

رگ ویدی دور کے آریائی لوگ جانوروں کے گوشت اور سبزیاں ،دونوں کو غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ بھیڑ اور بکری کا گوشت عام طور پر دیوتاؤں کو نذر کیا جاتا تھا۔پر مسرت تہواروں اور مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے صحت مند اور فربہ بچھڑے کو ذبح کرنا معمول کی بات تھی۔ یہ لوگ گائے کو ذبح نہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے انہیں فائدہ حاصل ہوتاتھا۔ دودھ ان کی روزمرّہ کی خوراک کا اہم جز تھا ۔اس کے علاوہ اناج کے دانوں کو باریک پیس کر آٹے میں ملاتے پھر مزید اس میں دودھ اور گھی ملا کر کیک بھی بنایاکرتے تھے۔رگ ویدی ہندوؤں کی خوراک میں سبزیاں اور پھل بھی شامل تھے۔

مشروب

مشروب میں جھیل کے پانی اور دودھ سے ان کا دل نہیں بھرتا تھا۔اکثر لوگ مشروب کو خمیر کرکے پینے کے عادی تھے۔مذہبی تہواروں میں سوما نامی مشروب بہت پسند کیا جاتا تھالیکن "سورا" جو ایک روحانی مشروب تھا جسے اناج کو کشید کرکے نکالا جاتا تھا، اس کا استعمال بھی عام تھا۔ ہندو مذہبی پیشوا اس مشروب کے نشہ آور ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے اور اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیتے تھے۔ بعض اوقات اس کے استعمال کو جرم بھی قرار دے دیا جاتا تھا لیکن ایسا بہت کم ہوا کرتا تھا۔

کھیل کود اور تفریحات

رِگ ویدی ہندو، بیزار اور بے لطف زندگی کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ خوش اور شادمان رہ کر وقت گزارنے کے بڑے شوقین تھے۔شاداں وفرحاں رہنے کے لیے موسیقی سننے اور ناچنے گانے کا رواج بھی ان میں موجود تھااور ان کا یہ عمل بہت سادہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ موسیقی کے آلات میں ڈرم(دندوبھی)، سنج، ستار(کارکری)، اور بانسری شامل تھے۔ گھوڑا گاڑیوں اور صرف گھوڑوں کی دوڑ کے مقابلوں کے علاوہ، سٹہ بازی تفریح کا بہترین ذریعہ تھا۔ مال و دولت کے نقصان اور دیوالیہ نکل جانے کے نتائج کے باوجود سٹے بازی کی عمارت تفریح کا بہت مشہور مقام سمجھی جاتی تھی اور اس کے علاوہ کھیلوں کے شیدائی وہاں اکثر جایا کرتے تھے اور اس جگہ پر کھلاڑیوں کے لیے پرکشش مراعات کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔11

طبقاتی نظام

قدیم ہندی تہذیب میں طبقاتی نظام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔یہی وجہ تھی کہ اہلِ ہند کے ہاں مختلف اقسام کے کئی طبقاتی نظام پائے جاتے تھے۔اہل ہند نے اپنے معاشرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کررکھا تھااور ہرطبقے کے لیے الگ الگ ذمہ داریاں اور ان کے حقوق متعین کر رکھے تھے۔کئی ہزار سال سے جاری روایتی طبقاتی نظام کی مخالفت کسی نے نہیں کی تھی۔ پستی کے دور میں بھی کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان حقوق وقوانین میں ردوبدل کرسکے۔ البیرونی کے مطابق ہندو اپنے طبقوں اور ذاتوں کو "ورن" یا "رنگ" کہتے ہیں اور نسب کی حیثیت سے"جاتکا" یعنی نام رکھتے تھے۔ ابتداء سے ہی ان طبقوں کی تعداد صرف چار ہے۔(1)سب سے اونچی ذات برہمنوں کی ہے، جن کے بارے میں ہندوؤں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ برہما کے سر سے پیدا ہوئے تھے، سر، حیوانی جسم کا سب سے بلند حصہ ہے اس لیے برہمن اس نوع کا جوہر اور منتخب حصہ ہیں ،اسی لیے ہندو ان کو افضل ترین انسان سمجھتے ہیں۔ اور برہما سے مراد وہ قوت ہے جسے فطرت کہتے ہیں۔(2)ان کے بعد کشتری (چھتری یا کھتری) طبقہ ہے۔ ہندوؤں کے خیال کے مطابق ان کی پیدائش برہما کے کندھوں اور ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ ان کا مرتبہ برہمنوں کے مرتبے سے بہت زیادہ کم نہیں ہے۔ (3)ان کے نیچے ویش ہیں جو برہما کی ران سے پیدا ہوئے تھے۔(4)ان کے بعدشودر ہیں جو برہما کے پیروں سے پیدا ہوئے ۔آخرالذکر دونوں ذاتوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ چاروں طبقے فرق رکھنے کے باوجود شہروں اور دیہاتوں میں مخلوط محلوں میں رہتے ہیں۔

شودروں کے بعد اور ان سے نیچے وہ لوگ ہیں جو " انتیاج" کہلاتے ہیں جو مختلف قسم کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا شمار کسی ذات میں نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص پیشہ سے وابستہ افراد کے طور پر ہوتا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے ان کے آٹھ فرقے ہیں۔ یہ لوگ اپنے درجے کے دوسرے پیشے والوں سے آزادانہ شادی بیاہ کرتے ہیں۔ سوائے دھوبی، موچی اور جلاہے کے جن سے کوئی بھی تعلق رکھنا پسند نہیں کرتا۔ پیشے کی بنیاد پر بنے ہوئے آٹھ (8) طبقے یا فرقے یہ ہیں: (1)دھوبی، (2)موچی، (3)مداری، (3)ٹوکریاں بنانے والے (4) ڈھال بنانے والے، (5)ملاح، (6)مچھیرا، (7)چڑی مار یا شکاری اور (8)جلا ہے۔ چاروں ذات والے ان آٹھ فرقوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ یا اپنی آبادیوں میں رہنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ان کو بستی کے قریب لیکن بستی سے باہر آباد کرتے ہیں۔12

ہاڈی،

ڈوم
،
چنڈال
اور بدھاتو کسی فرقے یا ذات میں شامل نہیں ہیں۔ یہ لوگ گندے کام مثلاً گاؤں کو صاف کرنے اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کو انجام دینے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ سب مل کر ایک واحد فرقہ شمار ہوتے ہیں اور ان میں باہمی امتیاز ن کے کاموں کےاعتبار سے ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی حیثیت ناجائز اولاد کی سی ہے کیونکہ عام خیال کے مطابق ان کا باپ شودر اور ماں برہمنی تھی اور ان کے ناجائز تعلق سے ان کی پیدائش ہوئی اسی لیے یہ برادری سےباہر یے ہوئے ذلیل ہیں۔13

یہ وہ احمقانہ تقسیم تھی جو قدیم ہند میں بدرجہ اتم اور موجودہند میں بھی بہت حد تک پائی جاتی ہے اور ہند کے قدیم و جدید کسی دانشور نے بھی اس لایعنی تقسیم کے بارے میں کبھی تحقیق کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ آیا یہ بات عقلا ً ممکن ہے بھی کہ نہیں کہ برہما کے وجود سے بیان کردہ احوال کے مطابق اقوام کا ظہور ہو مگر اہلِ ہند ماضی کی طرح آج کے جدید دور میں بھی اس بے بنیاد اور لایعنی کہانی پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو صرف ان کی خاندانی پیدائش کی بنیاد پر ادنی ٰاور اعلیٰ گردانتے ہیں جس میں ادنیٰ کا کوئی قصور ہوتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ کا کوئی کمال ۔

بنیاد

منو شاستر وہ بنیادی دستاویز ہے جس نے ہندو سماج میں ذات پات کا نظام قائم کیا تھا۔ اس کی تعلیم دو انتہاؤں پر مبنی تھی ایک انتہا وہ ہے جو برہمن کو اس دھرتی پر ایک اوتار اور ایک دیوتا کے روپ میں پیش کرتی ہے جس میں برہمن کی عظمت، تقدس اور اس کے حد درجہ وسیع حقوق کا بیان تھا اور دوسری طرف وہ انتہا تھی جس میں شودر کو ایک ایسی برائی اور غلاظت کے روپ میں پیش کیا گیا تھا جو برہمن کے لیے باعثِ آزار اور باعثِ مصیبت سمجھے جاتے تھے۔ اس میں شودر کے لیے سخت معاشرتی ، فوجداری اور معاشی ضابطۂ قانون تشکیل دیا تھا 14 جو یقیناً بے بنیاد اور لایعنی تھا۔

ذاتوں کی تقسیم اور ان کی ذمّہ داریاں

مَنو کے نزدیک شودر قوم ذلیل و رسوا قوم تھی جس کی وجہ اعمال نہیں بلکہ ان کی پیدائش تھی۔چنانچہ مَنو میں مذکور ہے:

  برہمن کے نام کا پہلا حصہ تقدس کو ظاہر کرنے والا ہے، کشتری کا طاقت کو، ویش کا دولت کو اور شودر کا ذلت کو۔ہاتھی، گھوڑے، شودر قابل ِنفرت ملیچھ لوگ، شیر ، تیندوے اور سور ( تناسخ کے ) وہ ادنیٰ مدارج ہیں جو تاریکی سے حاصل ہوتے ہیں ۔15

اہل ہند کی مذکورہ تقسیم بنیادی حیثیت کی حامل تھی جس کا اولین مقصد مفادات کی حفاظت تھا۔ان میں سے ہر طبقے کی کچھ ذمّہ داریاں بھی تھیں۔ہندو معاشرہ چار بنیادی ذاتوں میں تقسیم تھا جن کی اپنی اپنی ذمہ داریاں تھیں جو ذیل میں مذکور ہیں:

  1. برہمن طبقے کا کام مذہبی قیادت و سیادت تھا۔
  2. کشتری کا کام فوجی خدمات انجام دینا تھا۔
  3. ویش کا کام تجارت کرنا تھا ۔
  4. شودر کا کام ان تینوں ذاتوں کی خدمت کرنا تھا۔

نيچ ذاتیں اور ان کی حالتِ زار

ہندو معاشرے میں شودر ایک ذات بھی تھی اور ایک علامت بھی جو بہت ساری نيچ ذاتوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ان میں

ڈوم
،
چَمار
،
بھیل
،
بھنگی
،
خاکروب
،
چوہڑے
اور
چنڈال
وغیرہ شامل تھے ۔ ان سب پر شودر کی اصطلاح لا گو ہوتی تھی یعنی "ناپاک لوگ "۔ ان کے لیے دلِت (Dalit) کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی تھی جس کا مطلب تھا"پسے ہوئے لوگ"۔چونکہ ان کی معاشی حالت حد درجہ پست تھی، معاشرتی مقام کوئی نہیں تھا اور وہ جملہ حقوقِ انسانی سے محروم تھے اس لیے "دلِت" کہلاتے تھے ۔ان لوگوں کے لیے حکم تھا کہ گھروں سے نکلتے وقت پیشگی اطلاع دیا کریں تاکہ باہر کے لوگ ان کی آمد سے آگاہ ہوجائیں اور ان کا سامنا کرنے سے بچ جائیں ،لہٰذا ان ذاتوں کے لوگ گھروں سے نکلنے سے پہلے دوبار لگاتار تالی بجاتے تھے یا زور سے آواز دیتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کے آنے کی خبر ہوجائے اور ان کے ساتھ کا آمنا سامنا نہ ہو ۔ یہ وہ لوگ تھے جو انسان نما جانور تصوّر کیے جاتے تھے اور انتہائی
نا گفتہ بہ
حالت میں جی رہے تھے ۔ ان میں سے بعض مستقل خانہ بدوش تھے۔ بعض خرگوشوں اور لومڑیوں کی طرح زمین کھود کر ان میں رہتے تھے اور سانپ ، بلّیاں، چوہے اور چھپکلیاں کھاکر گزارہ کرتے تھے ۔ ہندو معاشرہ مذہب کے نام پر "شودر " کو حیوانی سطح پر رکھے ہوئے تھا۔ 16 اگر کوئی شودر جان بوجھ کر کسی براہمن کو اذیت پہنچادیتا تو سزا کے طور پر پہلے اس کے ہاتھ، ناک اور پیر کاٹے جاتے تھے اس کے بعد اسے قتل کردیا جاتا تھا۔17

تاریخی حوالہ جات کے مطابق، اوائل وقتوں میں شادیوں کا کوئی تصوّر موجودنہیں تھا۔ اس طریقۂ کار کو باقاعدہ ایک نیکو کارسویتاکیتو(Svetaketu)نے بیٹے اور ماں کے درمیان مباشرت کا واقعہ ہوجانے کے بعد متعارف کروایا تھا (جو کہ خود ایک غلیظ الزام ہے)۔ اس کے بعد یہ رسم ہندوؤں میں انتہائی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ہندو معاشرے میں شادی شدہ جوڑوں کو ہی ایک مکمل خاندان کے طور پر دیکھا جاتاتھااور انہیں ہندو مذہبی رسومات اور معاشرتی معاملات میں شرکت کرنے سے کوئی نہیں روکتا تھا۔ "ویواہ"ایک اہم سنسکار(رسم) تھا جو صرف عورتوں کے لیے خاص تھا۔18

نيچ ذات کی عورتوں کو جسم کا بالائی حصہ ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے کہ یہ طریقہ اعلیٰ ذات کی عورتوں کا تصوّر کیا جاتا تھا۔ نيچ ذات کی عورتیں ان سے ہمسری نہیں کرسکتی تھیں ۔ ان عورتوں کو سونے اور چاندی کے زیورات پہننے کا بھی حق نہیں تھا کیونکہ یہ زیورات قیمتی ہوتے تھے جو صرف اعلیٰ ذات کی عورتیں پہن سکتی تھیں ۔

ہر ہندو لازمی طور پر اپنے والدین کی ذات کا ہوتا تھا اوراس کو لازماً اسی ذات میں زندگی گزارنی ہوتی تھی ۔ دولت کی کتنی ہی فراوانی ہو اور صلاحیتوں کا کتنا ہی بھرپور مظاہرہ ہو، اس کی ذات کے مرتبہ کو بدل نہیں سکتا تھا۔ذات سے باہر شادی ممنوع تھی اور اس کی حد درجے حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ راجندرا پانڈے لکھتے ہیں کہ ذات زندگی کے تمام تعلقات اور معاملات پر حکمرانی کرتی تھی۔ زندگی سے پہلے کے معاملات پر بھی اور بعد کے معاملات پر بھی ۔19

نیچ ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ کی روٹی نہیں کھائی جاتی تھی ان کے مٹی کے برتنوں میں پانی بھی نہیں پیاجاتا اور مٹی کا حقہ بھی نہیں لیکن جن کے ہاتھ کی پکی روٹی کھالیتے تھے وہاں ایسا نہیں تھا۔

جاٹ
،
گجر
، روڑ، رہبری اور آہیر آپس میں بغیر کسی کراہت کے کھا پی لیتے تھے ۔مزید یہ کہ یہ لوگ ایک سنار کے گھر کی پکی روٹی کھالیتے تھے مگر اس کے گھر میں بیٹھ کر نہیں کھاتے تھے۔ وہ ایک بڑھئی کا حقہ تو اس سے مل کر پی لیتے تھےمگر بڑھئی بننا پسند نہیں کرتےتھے۔ برہمنوں یا راجپوتوں میں سے کوئی بھی
جاٹ
و
گجر
سے نیچے کسی اور ذات سے نہیں کھاتا پیتا تھا۔ یہ تینوں ذاتیں قانون کی رو سے حقیر ذاتوں سے مل کر نہیں کھاتی پیتی تھیں۔ مندرجہ ذیل ذاتیں تھیں جو اپنے پیشوں کی وجہ سے بالکل ناپاک سمجھی جاتی تھیں اوران کے محض چھو جانے سے کھانا ناپاک ہوجاتا تھا۔ ان میں چمڑا بنانے والے، دھوبی ، حجام ، لوہار ، رنگساز،
خاکروب
، ڈوم اور دھنک شامل تھے۔ کمہار پر بھی ناپاک ہونے کا شبہ کیا جاتا تھا۔ گاؤں کے حقے جو عام طور پر کھلے کمروں اور کھیتوں میں رکھے رہتے تھے عموماً اس ڈور سے پہچانے جاتے تھے جو ان کی
نڑی
سے بندھی ہوتی تھی۔ سرخ ڈور ہو تو ہندو کا حقہ مراد تھا۔ چمڑے کا ٹکڑا ہو تو
چَمار
کا اور تنکا ہوتو
خاکروب
کا ۔اس علامت کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی دوست احباب حقہ پینا چاہے تو بے خبری میں غیر ذات کا حقہ پی کر پلید نہ ہوجائے ۔ گُڑ اورمٹھائی عموماً ہر کسی کے ہاتھ کی کھالیتے تھے بشرطیکہ وہ ثابُت ہو ٹوٹی ہوئی نہ ہو۔

اقتصادی شعبہ میں شودر اور

اَچُھوت
حقیر کاموں پر لگائے گئے یا پھر ایسے پیشوں میں ڈال دئے گئےتھے جو قابل ِ ذلت، گندے اور پلید کردینے والے تصوّر کیے جاتے تھے۔اقتصادی ناہمواری اس لیے بھی پیدا ہوئی کہ وہ بے زمین تھے اور دیہاڑی پر مزدوری کرتے تھے۔سماجی ترقی کے مواقع کو ناقابل ِ حصول تصوّر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی اور اپنی بود و باش میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی اس لیے ان کے حالات اتنے دگر گوں تھے کہ وہ اپنی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ متبادل طریقوں سے آگاہ نہیں تھے بلکہ ضروری وسائل بھی ان کے قبضہ میں نہیں تھے۔سیاسی شعبے میں شودر اور اَچُھوت ان تمام بنیادی حقوق سے محروم کردئےگئے تھے جو ایک مہذب معاشرہ اپنے شہریوں کو دیتا ہے ۔ حجام ، پانی بھرنے والے، درزی وغیرہ ذات کے ہندو ؤں کا کام تو کرتے تھے مگر شودروں اور اَچُھوتوں کے کام سے انکاری تھے، اس لیے کہ یہ وہ لوگ تھے جن کو دیگر عوامی سہولتوں مثلاً ، سڑکوں ، کشتیوں ، کنوؤں اورسکولوں کے استعمال سے منع کردیا گیا تھا۔20

جرائم کا ارتکاب اگر برہمن کرتے تو ان کی سزاؤں میں غیر معمولی نرمی ملحوظ رکھی جاتی تھی۔ اگر نچلے طبقے کا کوئی فرد اعلیٰ طبقہ کے حکم کو پامال کرتا تو اس کے لیے بڑی وحشیانہ اور غیر انسانی سزائیں مقررتھیں۔مَنو جی کے آئین کے مطابق شودروں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ ایسا اجتماع، جس میں نیچ قوم کا کوئی فرد موجود ہو، وہاں برہمن کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ مقدس کتابوں کی تلاوت کرے۔ایک ہی قوم کے افراد میں قانون کی یہ ناہمواری عدل وانصاف کے تصوّر کوہی ختم کردیتی تھی۔ 21

عِصمت فروشی

عِصمت فروشی کے دھندے کو قانونی درجہ دیے جانے کا راستہ مصر ہی سے ہندوستان کی طرف براہمنی دور میں منتقل ہوا تھا۔ دیرگھاتما(Deerghatama) براہمنی دور کا ایک اندھا شاعر اورجنسی تعلقات سے بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والا پروہت تھا ۔یہی وہ شخص تھاجس نے ہندوستان میں عِصمت فروشیکے دھندے کی سرپرستی کی تھی۔ اس کے بنائے گئے قوانین کی بنیاد پر ہی ہندوستان میں عصمت فروشی کا رواج شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے براہمن دور کے آخر میں عصمت فروشی باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرگئی۔

دیومالائی کہانیوں کے مطابق جب دیرگھاتما اپنی ماں کے شکم میں تھا تو اس کے قریبی رشتہ دار نے اس کی ماں کے ساتھ انتہائی شدت سے زیادتی کی تھی اورشاید اسی وجہ سے دیر گھاتما کی فطرت میں ہوس پرستی کا عنصر نمایاں ہوگیا تھا۔اگرچہ دیرگھاتما وید اور ویدنگا کا عالم تھا لیکن اس کے باوجود اس نے جی بھر کر لوگوں میں جنسی تعلق قائم کرنے کے خاص طریقہ کار کا پرچار کیا اور جانوروں کی طرح محرمات کے آپس میں ایک دوسرے سےمباشرت کرنے کےرواج کو عام کیا ۔کچھ عرصے کےبعد اس کی بیوی کے حکم پر اس کے اپنے ہی بیٹوں نے اسے گھر سےنکال دیا ، لیکن اس کے باوجود وہ عصمت فروشی کے پیشے کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ 22

قدیم ہندوستانی دور میں عصمت فروشی کے دھندے کا عملی طور پر نفاذ ان کی مذہبی رسومات سے خاص تعلق رکھتا تھا23اور ہندو معاشرے میں جنسی تعلقات کے اظہار کو زندگی کے ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ بہرحال ان میں جنسی برتاؤ کے اظہار کے مختلف النوع طریقۂ کار موجود تھے۔ ہندوؤں کی کثیر تعداد ایسی تھی جن کو یہ سکھایا گیا تھا کہ جنسی تعلق ایک ایسی مشق ہے جس سے محظوظ ہونا چاہیے نہ کہ انسان اس خواہش کو ضبط کرے۔24ایسی عورت جس کو جنسی تعلق قائم کرنے کے طور طریقوں میں مہارت حاصل ہوتی، اسے ہندو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور وہ اس اعزاز میں بہت فرحت محسوس کرتی تھی۔ عصمت فروشی کا دھنداہندوؤں کےمعاشرتی نظام میں نمایاں حیثیت رکھتاتھا جبکہ ماضی کے پدرسری دور میں کثیر ازواج رکھنے اور حسین عورتوں کے ساتھ رفاقت کو ہندوستان کی اعلیٰ اور پرکشش شہری زندگی کی خصوصیات کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔پیشہ ور عورتیں اور گنیکائیں(ganikas) آزاد عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔25بیوی کو گھر میں رہ کر شرب و طعام کے امور کی نگرانی اور کمسن بچوں کی دیکھ بھال کرنا لازم تھا۔

درباری طوائف ( Courtesan prostitute)
مردوں سے بالکل آزادانہ طور پر گفتگو کرلیاکرتی تھی اور اگر وہ ذہین بھی ہو، تو وہ اپنی ان صلاحیتوں کو استعمال کرکے مستقبل کے ریاستی امور میں ردّو بدل کروانے کی طاقت رکھتی تھی۔26

قدیم ہندوستان میں عِصمت فروش عورتوں کو ان کی مختلف خصوصیات کی وجہ سے قسم قسم کے القابات دئےگئےتھے۔ ان القابی ناموں میں جیسے"بندھکی(Bandhaki) "، ایسی پیشہ ور عورت جس کا کثیر مردوں سے تعلق جذبات بھڑکانے کے حوالے سے ہو، "روپاجیوا (Rupajiva) "، وہ عورت جس کا روزگار اپنی ذات کو حسین اور خوبصورت انداز سے پیش کرنے پر منحصر ہو، "ویشیا(Vesya) "، جو مردوں کے سامنے مختلف روپ بدلتی رہتی ہو کہ لوگوں کو اسے پہچاننا مشکل ہوجائے، "گنیکا (Ganika) "،وہ عورت جو لوگوں کے گروہ میں رہتی ہو اور بہت سے افراد سے جنسی تعلق قائم کرتی رہتی ہو، " ورانگنی (Varangani) "،ایسی عورت جس سے لوگ باری باری جنسی تسکین حاصل کرتے ہوں"، کلتنی یا سمبھلی (Kultani or Sambhali) "،وہ عورت جو دوسرے جذباتی لوگوں کے لیے دلّالی کرتی ہو،" پمسکلی(Pumscali) "، جو مردوں کے پیچھے لگنے والی ہو، "کمبھ داسی اور پرِچارِکا (Kumbhadashi and Paricarika) "،وہ عورت جو لونڈی یا باندی ہو۔ اس کے علاوہ مزیدتین اقسام کی عصمت فروش عورتوں کے حوالے سے بھی ذکر ملتا ہے جس میں " ایک آپرِگِرِہ (Ekaparigraha) " جس کا ایک ہی مرد سے تعلق ہو، "انیک آپرِگرہ(Anekaparigraha) "، جس کا کثیر مردوں سے تعلق ہو، اور "آپرگرہ(Aparigraha) "، جو کسی ایک خاص شخص سے تعلق نہ رکھنے والی ہو شامل ہیں ۔ عصمت فروش عورتوں اور کورٹیزن( ( Courtesan prostitute)) کا وجود قدیم ہندوستانیوں میں روزمرّہ زندگی کا حصہ تھا اورعمومی طور پر لوگ اس کے عادی تھے۔ ان عصمت فروش عورتوں کو جنسی تسکین کی دعوت دینے کے علاوہ بہت سےدیگر معاملات جیسے کہ ثقافت اورعلم و دانش کی علامت بھی گردانا جاتا تھا۔ 27

عورت کا مقام

قوانین ِ ہندومت کی روشنی میں جہاں عورت کے لیے بحیثیت ماں ،بیوی ،بہن وبیٹی اچھےنظریات کا اظہار کیا گیا تھا وہیں مطلقا ًعورت کے لیے منحوس،بے وفا،دغاباز جیسے خیالات کابھی ذکر کیاگیا تھا۔کسی بھی کتاب میں عورتوں کے ساتھ ایسی سختی کا برتاوٴ نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ ہندوؤں کی کتابوں میں تھاپھر بھی ان ہی کا ساطرزِ خیال علی العموم سب مشرقیوں میں پایا جاتا تھا۔ ان کی دانست میں عورت ایک دلپسند مخلوق تھی لیکن اس کی بے وفائی لا علاج تھی۔ مَنو میں ذکر ہے کہ عورتوں کا خاصہ پلنگ سے محبت،بیٹھنے کی چوکی سے محبت، زیور کا شوق، شہوت، غصہ، بُرائی کی طرف میلان، اذیت رسانی سے رغبت اور ضدّی پن ہے۔ پس جب شوہروں کو معلوم ہے کہ خدا وند عالم نے مخلوقات کی پیدائش کے وقت ان کو کیا خصلت عطا کی ہے تو ان کو لازم ہے کہ ان کی حفاظت میں ازحد کوشش کریں۔

پنچ تنتر
کے مختلف مقامات پہ ہے کہ عورت کی طبیعت کا تَلَوُّن (بدلنا) ایسا ہے جیسے سمندر کی موجیں اوراس کے جذبات بالکل بے ثبات جیسے شفق کے بادلوں کی صفیں۔ جب اس کی ہوس پوری ہوجاتی ہے اور مرداس کے کام کانہیں رہتا تو اس سے کنارہ کش ہوجاتی ہے جیسے کوئی اس لاکھ28 کو پھینک دیتا ہے جس پر چھاپا ہوچکا ہو۔ایک سے باتیں کرتی ہے تو دوسرے کی طرف اضطراب کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور دھیان اس کا ہوتا ہے تیسرے کی طرف جس کو وہ دل میں رہنے دیتی ہے۔ فی الحقیقت وہ کون ہے جس کو عورت دل سے چاہتی ہے؟ عورت کو نہ کوئی جبر سے زیر کرسکتا ہے نہ نصیحت سے۔یہ ایک ایسی کائنات ہے کہ کبھی مغلوب ہی نہیں ہوتی۔ شہوت ناک عورت کو جسے ہمیشہ کسی مرد سے لگاؤ رہتا ہے خاندان کی ذلت، دنیا کی ملامت حتیٰ کہ اسیری اور جان کا خطرہ سب کچھ منظور ہوتا ہے۔ جو بات عورت کے دل میں ہوتی ہے وہ اس کی زبان پر آتی توہے لیکن منہ سے باہر نہیں نکلتی اور جو باہر نکلتی ہے اس پر وہ عمل نہیں کرتی۔ جہاں استری(عورت) راج ہو، جہاں کوئی جواری ہو اور جہاں بچہ مالک ہو اس گھر کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔ یہ شوخی کا مسکن ،بے باکی کی نگری، گناہوں کا مخزن، ہزار مکاریوں کا محل ، بدگمانیوں کا ڈیرا ،یہ وہ پٹاری ہے جس میں ہر قسم کا جادو منتر بھرا ہے۔29

مَنو کے قوانین کے مطابق عورت کا چاہے بچپن ہو ، جوانی ہویا بڑھاپا ہو،وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کر سکتی۔ حتی کہ اپنے ذاتی گھر میں بھی کوئی کام اپنی خواہش کے مطابق نہیں کر سکتی ہے۔بچپن میں باپ کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتی، جوانی میں اپنے شوہر کے احکام کی پابند ہے اور جب اس کا شوہر مرجائے تواسے اپنے بیٹوں کے زیر اثر رہنا لازم ہے وہ کبھی بھی خود مختار نہیں ہو سکتی۔30

عورت بحیثیت بیوی

ویدی آریوں میں عام طور پر وحدۃ الازواج کی رسم تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں راجہ اور دولت مندلوگ کئی کئی بیویاں رکھنے لگے تھے۔جس چیز نے آریاوٴں میں کثرتُ الازواج کی رسم کو جاری کیا وہ بیٹوں کی ضرورت تھی۔ جب پہلی بیوی سے صرف لڑکیاں ہوتیں تو پھر اولاد کے لیے دوسری بیوی کرنا لازم آتا۔ ان کے مطابق عورت کی شادی صرف اُسی طبقے میں ہو سکتی تھی جس طبقے سے وہ متعلق تھی اگر ایسا نہ کیا گیا تو جہاں دھرم کے حکم پر عمل صحیح نہ ہو پائے گا وہاں زوجین میں محبت بھی نہ رہے گی۔

شادی بھی اسی قانون کے مطابق یعنی برہمن مرد کی برہمن عورت سے، کشتری مرد کی کشتری عورت سے ،ویش مرد کی ویش عورت سے، اور شودر مرد کی شودر عورت سے ہونی چاہیے۔ 31 ہندو مذہب کے مطابق شوہر والی عورت کے ذمہ کوئی عبادت نہیں تھی وہ شوہر کی خدمت اور سیوا کرے یہ سب سے بڑی عبادت تھی۔مَنو کے قانون کے مطابق کسی قسم کی کوئی قربانی ، وعدہ یا روزہ رکھنے کی عورت کو اپنے شوہر کی رضا مندی کے بغیراجازت نہیں تھی ۔جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار ہوگی وہی جنت کی رفعتو ں سے مشرف ہوگی۔ 32

شادی

شادی مردو عورت کے درمیان مضبوط تعلق کی بنیاد تھی اور ہندوؤں کے معاشرتی ومعاشی دستور میں بہت اہم حیثیت رکھتی تھی۔ یہ صرف مرد اور عورت کے درمیان مضبوط رشتے کی بنیاد ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں کو جوڑنے کا بھی اہم ذریعہ تھی۔ دوانسانوں کے درمیان شادی کے تصوّر کو صرف معاہدے کے طور پر ہی نہیں بلکہ مقدس شعائر کے طور پر بھی تسلیم کرلیا گیا تھا۔33 شادی کے بندھن میں بندھنے والے افراد اس لائق ہوا کرتے تھے کہ وہ مذہبی طور پر شبابِ بلوغت کے تجدد کو حاصل کرلیں جسے "روحانی از سر نو احیاء "کے طور پر جانا جاتا تھا۔شادی کو ایک ایسے واقعے کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا جس میں خاندان ترتیب پاتے اور پرورش پاتے ہوں۔ چونکہ خاندان کو ہندو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر دیکھا جاتا تھااسی لیے بہت سے لوگوں کے نزدیک شادی ہی زندگی کا اہم عنصر تھا۔ 34ہندوستان میں آٹھ (8)اقسام کی شادیاں(ویواہ) رائج تھیں، پہلی چار (4) اقسام معاشرتی طور پر قابل قبول سمجھی جاتی تھیں جبکہ بقیہ چار (4)اقسام کو رد کردیا گیا تھا۔ مقتدر افرادایسی شادی جس میں دلہن کو اغوا کرکے شادی رچائی جائے، معاشرتی طور پر ناقابل قبول شادیوں کی اقسام میں شمار کیا کرتے تھے۔ معاشرتی بنیادوں پر تسلیم کی جانے والی پہلی اور اونچے مرتبہ کی شادی قریب قریب" برہما ویواہ"کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ ایک ایسی شادی ہوتی جس میں لڑکی رنگین خوشنما لباس زیب تن کرتی اور اپنے ہم پلہ مرد سے شادی کرتی تھی۔دوسرے درجے کی شادی کو "دیوویواہ"کا نام دیا جاتا تھا ۔ جائیداد کا مالک ایک پنڈت کو اپنے گھر میں مدعو کرتا اور درخواست کرتا کہ کچھ مذہبی رسوما ت انجام دے۔اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو پنڈت کے عمل کی قیمت کی ادائیگی کے طور پراس کے سپرد کردیا کرتا تھا۔تیسرے درجے کی شادی "اَرْش ویواہ"سے موسوم تھی۔ اس قسم کی شادیوں میں جہیز نہیں دیا جاتا تھا لیکن دلہادلہن کے والدین کو گائے اور سانڈ نکاح کی پیشگی علامت یا ان کی عزت افزائی کے لیے تحفہ کے طور پر دیا کرتا تھا۔ آخر ی قسم کو "پرجاپتی ویواہ" کا نام دیا گیا تھا جس میں دولہے کے گھر والے دلہن والوں کو کسی قسم کا کوئی تحفہ وغیرہ نہیں دیتے تھے۔یہ شادی عام شادیوں کی طرح ہوا کرتی تھی جس میں کوئی گانا بجانا نہیں ہوتا تھا۔ معاشرتی طور پر ناقابل قبول تصوّر کی جانے والی شادیاں تقریباً سماج کی ناپسندیدگی کی بنا پر ہی تھیں جس میں پہلی قسم کی شادی کو" گندھرویواہ" یا محبت کی شادی کہا جاتا تھا۔ دوسرے درجے کی شادی "اَسُر ویواہ" سے موسوم تھی جس کو آسیبی یا تہذیب سے فارغ شادی تصوّر کیا جاتا تھا،اس قسم کی شادی میں ایک مرد یا خاندان ایک لڑکی کو شادی کی غرض سے خریدتے تھے۔تیسری درجے کی شادی کو "راکشس ویواہ" ، شیطانی شادی کہا جاتا تھا جس میں لڑکی کو اغوا کرکے شادی رچائی جاتی تھی۔آخری درجے کی شادی کو "پشاچ ویواہ" یا بھوتوں کی شادی کہا جاتا تھا ، جس میں کچھ قابل کراہت لوگ پہلے تو لڑکی کے ساتھ زیادتی کرتے پھر اپنے جرم کی تلافی کے لیے اسے شادی کی پیشکش کردیا کرتے تھے۔ 35

لڑکی کے لیے کسی اچھے جیون ساتھی کی تلاش ظاہری اور مذہبی طور پر باپ کی ذمہ ہوا کرتی تھی۔36 تاہم ویدک دور میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے شوہر کا انتخاب کرنے کی طاقت حاصل تھی، لیکن یہ دور اور ماحول جس میں عورت کی جنس فائق تھی ، چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں بالکل ختم ہوکر رہ گیا تھا۔شادی کے لیے مرد و عورت کو ایک دوسرے کا انتخاب کرنے کا اختیار دینے کے برعکس ، عموماً خاندان ہی اس کا تعین کیا کرتے تھےاور بچپن ہی میں ان کے مستقبل کے شوہر اور بیوی مختص کرلیا کرتے تھے۔ گوتم کے دھرم سُوتْرمیں پہلے ہی اس امر کا اعلان کردیا گیاتھا کہ لڑکی کی شادی اس کے سنِ بلوغت تک پہنچنے سے پہلے کر دینی چاہیے اور واقعتاً بچوں کی شادیاں بہت کم عمری میں ہی کردی جاتی تھیں۔لڑکی کی عمر جب گیارہ (11) یا بارہ (12) سال کی ہوجاتی تو وہ اپنے شوہر کے گھر منتقل ہوجاتی اور وہیں رہائش اختیار کرلیتی تھی۔نتیجتاً بہت سی لڑکیاں ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے نوجوانی میں ہی بیوہ ہوجاتی تھیں ۔بے اولاد بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت بھی تھی لیکن ایسا زیادہ قابل تعریف سمجھا جاتا تھا کہ وہ عورت اپنی بقیہ پوری زندگی پہلے شوہرکی بیوہ بن کر ہی گزارے چاہے اس کا شوہر شادی کی تین(3) یا چار (4) سال کے بعد کسی بھی بیماری سے مرا ہو۔یہ تصوّر ان میں بہت پختہ تھا کہ وہ عورت جو اپنے سنِ شعور میں ہی اپنے شوہر کو کھودے تو زیادہ بہتریہ سمجھا جاتا اوراس کو اس بات پر اکسایا جاتا کہ وہ خود کو شوہر کی چتا میں جلاڈالے۔37شادی کی تقریب دولہا اور دولہن کے آپس میں ساتھ رہنے کا عہدو پیمان کرنےکے حوالے سے مخصوص تھی۔ 38تقریب کے انعقاد کے لیے ایک سازگار دن کے چناؤ کے بعد ، اس سے پہلے کا ایک دن دولہا سے متعلق تقریب کے لیے مختص کرلیا جاتا تھا ، جو اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ اس نے ویدی ادب کا اکثر حصہ پڑھ کرمکمل کرلیا ہے اور وہ ایک روحانی دائرہ کار میں آچکا ہے۔آگ کی پوجا کی جاتی ، اور پچھلی تقریب میں مختلف جگہوں پر سر کے بالوں کو باند ھ کر لگائی گئی پانچ گرہیں کھول دی جاتی تھیں۔

اس کے بعد ایک فرضی ڈراما انجام دیا جاتا جس میں دولہا دولہن کو ڈھونڈتا تھا لیکن اس کو کوئی دولہن نہیں ملتی تھی، پھر وہ اپنے آپ کو مقدس دریا گنگا کے سپرد کرنے کے لیے تیا رکرتا ، اسی اثنا میں اس کا ایک دوست آتا اور اس سے یہ وعدہ کرتا کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کی اس سے شادی کرے گا۔پھر دولہا گنگا میں جانے کی تیاری کوروک لیتا اور کہتا کہ میں شادی کے لیے تیار ہوں۔ شادی سے کچھ گھنٹے پہلے ، دولہے کا باپ دولہن اور اس گھر کے کسی اور فرد کے لیے ایک خوبصورت جوڑا بھجواتا تھا۔ یہ شادی کے وعدہ کی تکمیل تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس کے بعددولہا اپنے تمام مرد رشتہ داروں اور دوستوں کو ساتھ لے کرایک زبردست جلوس کی صورت میں دولہن کے گھر کی طرف پیش قدمی شروع کر دیتا تھا۔دولہا دولہن کو اس کے گھر سے وصول کرنے کے بعد لوگوں کے درمیان شادی کی تقریب کے لیے بنائے گئے ایک لکڑی کے بنے ہوئے تختہ پر بیٹھ جاتا تھا اور دولہن اس کے ساتھ اس تخت پر بٹھا دی جاتی تھی۔

دونوں خاندانوں کے مذہبی پیشوا ، بزرگ افراد اور جن کو ویدی ادب یاد ہو وہ اس میں کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے اوردولہا دولہن کے آباؤ اجداد کے نام بھی پکارتے رہتے تھے۔ اس کے بعد دولہے کا باپ یا جس کو وہ اجازت دے ، دولہن کے پیر کو پانی یا دودھ سے دھوتا تھا۔ پھر ایک جوت لایا جاتا جس کو دو آدمیوں نے تھاما ہوا ہوتا اسے دولہے کے سر پر تھا ما جاتا اس طرح کہ دولہا اس کے نیچے ہوتا ، اس عمل کے دوران دولہن ویدی ادب کو مسلسل پڑھتی رہتی اور اپنے سر پر پانی ڈالتی رہتی تھی۔ پھر ایک ٹالی کے ذریعے دونوں پر گرہ لگائی جاتی اور یہ شادی کی علامت یا نشان کے طور پر ہوا کرتا تھا۔ ٹالی پتلی دائرے نما سونے کی دھات کا ایک ٹکڑا ہوتا جو ایک رسّی کے ہار کی صورت میں ہوتا تھا اور گلے میں پہنا جاتا تھا۔ پہلے یہ ٹالی تمام مہمانوں کے سامنے سے گزاری جاتی ، ہر کوئی اسے چھوتا اورنئے جوڑے کو خوشحالی اور خوش بختی کی دعائیں دیتا تھا۔

اس کے بعد چاول کی دو بڑی پلیٹیں لائی جاتیں جس کو خاندان کےمذہبی پیشوا مقدس عبارات پڑھتے ہوئے وصول کرتے ، پہلے وہ چاولوں کو ناریل کے خول میں رکھتے اور اس کے بعددولہا اور دولہن کے سروں پر رکھتےتھے۔ اس کے بعددولہا اور دولہن کے کپڑوں کو آپس میں باند دیا جاتا اور ان کا مذہبی پیشوا مقدس عبارات پڑھتا جاتا تھا، پھر آگ کی پوجا کی جاتی تھی۔ شادی کے پہلے دن شام میں دیوتا ؤں کی ایک اور انداز سے عبادت کی جاتی تھی،دولہااور دولہن آگ کے گرد سات چکر لگاتے اور ہر چکر میں کچھ پتھروں کو اپنے پیروں سےایک ساتھ چھوتے تھے۔ یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھی کہ یہ دونوں مرتے دم تک ایک ساتھ رہیں گے۔

یہ تمام رسومات شادی کی تقریب میں بنیادی حیثیت کی حامل تھیں اور یہ شادی کے پہلے پانچ دن تک جاری رہتی تھیں۔ یہ تمام رسومات اصلاً دیوتاؤں کی پرستش پر مبنی تھیں۔ اس میں مقدس عبارات مسلسل پڑھی جاتیں، برہمنوں کو کھانا اور پیسے دئےجاتے اور زبردست جلوس کی صورت میں راستوں پر چلا یاجاتا تھا۔ یہ پہلی اور بنیادی شادی ہوتی تھی اور یہ اس وقت ہوا کرتی جب دولہا اور دولہن بہت چھوٹے ہوتے تھے۔ کچھ سالوں کے بعد جب دونوں میاں اور بیوی کے طور پر ایک ساتھ رہنا شروع کردیتے تو ایک اور شادی کی تقریب منعقد کی جاتی جو تین دنوں تک جاری رہتی تھی ۔ یہ شادی پہلی شادی سے کافی حد تک مماثلت رکھتی تھی لیکن اس میں نمودو نمائش اور خرچہ پہلے کی بنسبت کچھ کم کیا جاتاتھا۔

چھوٹی ذات کے حامل لوگوں میں بھی شادی بہت اہم تقریب سمجھی جاتی تھی، بس فرق صرف اتنا ہوتا کہ اس میں نمودو نمائش اور مقدس عبارات کی تکرار اونچی ذات والوں کی شادیوں کے مقابلےمیں کم کی جاتی تھیں۔ 39

طلاق

شادی کے تصوّر کو شعائرِ مقدسہ کے طور پر قبول کرنے کی بنا پر قدیم ہندوستان میں ہندوؤں کی شادیاں ایک مضبوط اور نہ ختم ہونے والا بندھن تصوّر کی جاتی تھیں۔ شادی ہوجانے پربیوی کے متعلق یہ تصوّر تھا کہ وہ اپنے آپ کو دونوں طریقے یعنی جسمانی اور روحانی طور پرآبائی خاندان سے شوہر کو منتقل کردے۔وہ اپنے شوہر کے خاندان میں شامل ہوجاتی تھی اور اس کے جسم اور خون سے مل جاتی تھی۔ شوہر کی مکمل زندگی کے دوران ،بیوی کے لیے شوہر دیوتا کا درجہ رکھتا تھا جبکہ شوہر کے لیے بیوی اس کا آدھا جسم تصوّر کی جاتی تھی۔ بیوی شوہر کے تمام معاملات میں برابر کی حقدار ہوتی اور اسے شوہر کی خدمت کے علاوہ کسی قسم کی کوئی قربانی یا مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اسی لیے شوہر کے مرجانے کے بعد بیوی کو اس کے آدھے وجود کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ شوہر اور بیوی کا عقد ایک مقدس بندھن ہوتا اور شوہر کے مرنے کے بعد بھی اس تعلق کا وجود تسلیم کیا جاتا تھا۔دونوں جانوں کے بندھن کو اتنا مضبوط تصوّر کیا جاتا کہ شوہر کی وفات کےبعد بھی بیوی دوسری شادی کرنے کے لیے آزاد تصوّر نہیں کی جاتی تھی۔اس طرح شوہر کی زندگی میں کوئی بھی معاملہ ہوجائے، بیوی اور شوہر کے درمیان طلاق نہیں ہوسکتی تھی۔ اس تعلق میں نہ زناکاری فرق لاسکتی تھی، نہ عصمت فروشی، اور نہ ہی تنزلِ رتبہ ہندو ؤں کی شادیوں کو ختم کرسکتا تھا۔ 40

بیوہ کی دوبارہ شادی

ایسی بیوہ جو دوسرے شوہر کی خواہش مند ہو اس کے متعلق واتسیاین کہتا ہے کہ"بیوہ عام طور پر کوئی شادی نہیں کرسکتی تھی، لیکن اگر کوئی عورت اپنا شوہر کھودے، اور وہ اپنی نفسانی خواہش پرقابو نہ رکھ پارہی ہو تو وہ ایک ایسے مردکے ساتھ رہنے کا معاہدہ کر سکتی تھی جو عورت سےنکاح کا طلب گار ہو اور محبت کرنے کے معاملے میں شادی کے لیے موزوں ہو، ایسی عورت کو "پُنَر بُھو" کا نام دیا گیا تھا۔جب" پنر بھو" اپنے محبوب کے گھر کا قصد کرتی تھی، تو وہ منتظمہ کا کردار ادا کرنے والی سمجھی جاتی تھی۔ اس پر لازم تھا کہ وہ اپنے محبوب کی دوسری بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے، ملازموں کے ساتھ فراغ دلی اور اچھے رویے کا مظاہرہ کرے، اور اس کے تمام دوستوں کے ساتھ بہتر برتاؤ رکھنے میں برابری کا مظاہرہ کرے۔ اگر اس کا محبوب اس سے کسی بات میں الجھے یا بحث کرے تووہ اس کو ڈانٹ بھی سکتی تھی۔اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسری بیویوں کے مقابلے میں فنون کی زیادہ معلومات رکھےاور مختلف فنون کا استعمال کرتے ہوئے اپنے محبوب کو خوش رکھنے کے گُر تلاش کرتی رہے۔وہ اپنے محبوب کو چھوڑ بھی سکتی تھی لیکن اس کا یہ عمل اس کی اپنی صواب دید پر ہوتا تھا۔ اسے وہ تمام تحفہ تحائف واپس کرنے ہوتے جو اس کے محبوب نے اسے د ئے ہوتے تھے سوائے ان نشانیوں کے جو دونوں نے ایک دوسرے کو دی ہوں۔ اگر اس کے محبوب نے اسے چھوڑ دیا تو اس پر کسی قسم کی کوئی چیز واپس کرنا لازم نہیں ہوتا تھا"۔ 41

عورت سے مختلف اقسام کے مشتق کیے ہوئے خیالی مترادفات "پراکرت "میں موجود تھے۔ عورت کو "ناری" کہا جاتا کیونکہ مرد کا عورت سے بڑااور خطرناک دشمن کوئی اور نہیں تھا۔ اسے "مہیلا" بھی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنی چال بازی ، دھوکے ، اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور زینت دینے سے مرد کو اپنی طرف مائل کرسکتی تھی۔ اسے " مہیلیا" کے نام سے بھی جانا جاتاتھا کیونکہ وہ بہت بڑے فساد کو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس کو "راما"بھی کہتے تھےکیونکہ وہ اپنی شہوت کو جوش دینے والی حرکات اور اشاروں کے ذریعے مرد سے خوشی حاصل کرتی تھی۔اسے "انگنا" کے نام سے بھی موسوم کیا گیا تھااس لیے کہ وہ مرد کے جسم کو بہت پسند کرتی تھی۔وہ "لَلَنا" بھی کہلاتی تھی کیونکہ وہ گھریلو چپقلشوں میں بھی مرد کو اپنی طرف متوجہ کر سکنے کا فن جانتی تھی، اور خوشی وغمی دونوں میں مرد کا ساتھ دیتی تھی۔ اسے "جوتشی" بھی کہتے تھے، کیونکہ اپنی چال بازیوں اور نت نئے طریقوں سے مرد کو قابو میں رکھتی تھی۔ وہ "ونیتا" بھی کہلاتی تھی کیونکہ وہ چاپلوسی کے مختلف انداز اور چرب زبانی سے مرد کو اپنے کثیر روپ کے ذائقہ چکھاتی رہتی تھی۔42

سوامی دیانند کے مطابق بیوہ سے کوئی رنڈوا ہی شادی کر سکتا تھا، اگر کوئی اس عمل کی خلاف ورزی کرتاتو وہ سمجھتا کہ اُس نے دھرم کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ بیوہ عورت سے کنوارے مرد اور رنڈوے مرد سے کنواری عورت کی شادی جہاں بعیداز انصاف سمجھی جاتی تھی وہاں اَدَھرْم(گناہ ) بھی تصوّر کیاجا تھا۔ 43

چونکہ مَنو کے قانون میں عورت ہمیشہ کمزورو بے وفا سمجھی گئی تھی اور اس کا ذکر ہمیشہ حقارت کے ساتھ آیا تھا لہٰذا زنا کی صورت میں الزام بھی زیادہ تر عورت د پر رکھا جاتا تھا اور اس کے شوہر پر، جس کا فرض تھا کہ اپنی بیوی کی حفاظت کرے۔جیساکہ مَنو میں ہے"جب کوئی کسی کام پر ملک سے باہر جاتا ہے تو اسے چاہیے کہ روانگی سے پہلے اپنی بیوی کے لیے نفقہ کا بندوبست کردے کیونکہ پارسا عورت بھی بلا نفقہ کے خراب ہوسکتی ہے"۔ 44 گویا عورت کی اوقات اس ہندومعاشرے میں ملیچ سے بھی کم تر بلکہ خاکستر تھی خواہ وہ کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو اور پورا ہندوستانی معاشرہ ایک طرف تو اس کی برائی اور خامیاں بیان کرنے میں کوشاں رہتا تھا اور دوسری طرف اسی عورت کو اپنے نفس کی چاہتوں کی بھینٹ چڑھا کر کو زانیہ،کسبی ،فتنہ باز اور چال باز بھی قرار دیتا تھا تاکہ مرد کی حرام کاری اور جرائم کا الزام عورت کے مکر کے نام پر اس کے سر پر تھوپ کر خود کو بری الذمّہ قرار دلوا دیا جائے ،ہندو معاشرہ بھی یونان ،روم ،ایران اور مصر کی طرح عورت کے حقوق کا استحصالی معاشرہ تھا ،جس میں عورت ایک کھلونا تھی جس سے کھیلنے کے بعد یہ کہہ کرجان چھڑا لی جاتی کہ یہ عیب دار ہے اور اس کا مکر اس کی وفاپر غالب ہے ۔

نسل کشی

ہندو معاشرے میں بیٹیوں کو بہت پست نظری سے دیکھا جاتا تھا یہاں تک کہ بعض اوقات انہیں سابقہ زندگی میں کیے گئے گناہوں کی سزا بھی قرار دیا جاتا تھا۔ 45ہندو دیوتاؤں کے قصوں میں بھی اطفال کشی کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں سب سے مشہور قصہ کُنتی (Kunti) دیوی کا ہے۔قدیم ہندو عقائد کے مطابق کنتی دیوی کو ایک نیکو کار سادھونے منتر پڑھنے کو دیا، جس کو پڑھنے سے اس کو یہ طاقت حاصل ہوگئی کہ وہ دیوتا سے بچوں کو حاصل کرسکے۔کنتی اپنی ہی دھن میں اضطراری طور پر منتر پڑھتے ہوئے سورج دیوتا سے فریاد کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے اس کوبیٹا دیا گیا جس کا نام کرن(Karna)تھا۔کنتی خلاف توقع ماں بن جانے سے خوف زدہ ہوگئی کیونکہ اس کی اب تک شادی نہیں ہوئی تھی، اور وہ اس معاملے سے بخوبی آگاہ تھی کہ لوگ اس حوالے سے کیا چہ مگوئیاں کریں گے۔ اس نے ڈر کے مارےاپنے بیٹے کو ایک صندوق میں بند کرکے گنگا میں چھوڑ دیا تھا۔46اسی دیومالائی کہانی سے استدلال کرتے ہوئے اہل ہند نسل کشی میں ملوث تھے اور اس نسل کشی کا شکار اکثر بیٹیاں ہوتیں کیونکہ ان کو ویسے ہی بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

ہم جنس پرستی

ہم جنس پرستی ہندوستان میں موجود تھی 47اور اس حوالے سےذکر دھرم شاستر اور ان کی زرمیہ نظموں ،اَیُر ویدک (Ayurvedic)متون اور کامسوتر (Kamasutra)میں بھی ملتا ہے۔ " واتسیا ین(Vatsyayana) "کی لکھی ہوئی کامسوتر اُن خاص سنسکرت متون میں سے ایک ہے جو ہم جنسی تعلق قائم کرنے کے عمل اور اس کے مختلف اندازکے تجربات کو ذکر کرنے کے حوالے سے اس کی تائید کرتا ہے۔نویں باب میں جس کا نام "اپریشتکا (Auparistaka)"ہے،مساس زبانی کا عمل ہم جنسی تعلق کے دوران تیسرے درجے "تِرْتیاپَرکرتی (Tritıyaprakrti) "کے انسانوں کو ظاہر کرتا ہے۔ 48 قدیم ویدی دور کے ہندوستانی تصوّر ات میں تیسرے درجے کی جنس "تریتاپرکرتی" کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے ۔اس جنس کی تعریف یوں کی ہےکہ" وہ جنس جو نہ مرد ہو اور نہ عورت اور جو مرد اور عورت دونوں کے اوصاف کی حامل جنس ہو"اسے "نپسک(Napuusaka) "کہتے تھے۔ کثیر ماہرین اِن کو اس طرح بھی سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسی جنس ہے جس میں اضافی جنسی ڈھنگ یا تولیدی عمل شامل ہے، جیسے نامرد، مردو عورت دونوں کے لباس پہننے والے افراد، ایک جنس سے دوسری جنس میں مکمل یا جزوی طور پر تبدیل ہونے والے افراد، ہیجڑا اور خصّی وغیرہ شامل تھے۔

زیادہ تر اہل رائے اس تیسری جنس کو ایسے افراد پر مشتمل سمجھتے ہیں جو عام انسانی طبیعت اور جنسی عمل کے برعکس غیر فطری جنسی عمل و طبیعت پر مشتمل ہو، جیسے نامرد، جنس مخالف کے کپڑے پہننے والا، جنس تبدیل کرنے والا(ٹرانسجینڈر)، مردو عورت دونوں کی علامات رکھنے والا (خنثی مشکل) اور آختہ مرد، مزید یہ کہ اس صف میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو ہم جنسی عمل کے عادی ہوں، لیکن ان افراد کو اس تیسری جنس میں شمار نہیں کیا جاتا جو ماضی میں تو ہم جنسی عمل میں ملوث تھے،پر اب نہیں ہیں۔49کامسوتر میں شہری مرد کا دوسرے مرد کے ساتھ مباشرت کرنے کے انداز، اس کے طریقۂ کار اور اس عمل میں مہارت (nagarikas)حاصل کرنے کے حوالے سے بھی تفصیل سے لکھا ہے جس انداز کو اپنا کر وہ آپس میں ایک دوسرے سے لطف اندوزہو سکیں۔ 50

کامسوتر کے لکھاری وتسیا یانا نےخصّی لوگوں کی لنگ بوسی کی مشق کے حوالے سے ایک پوراباب باندھا ہے۔ دیگر جنسی لگاؤ سے متعلق کتابوں میں یہ بھی مرقوم ہے کہ اغلام بازی کا رواج کلنگا (جنوبی اوریسا کی ریاست) اور پنچلا(پنجاب میں ایک مقام) میں عام تھا۔ مجموعی طور پر اگر غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنسی تعلق سے لطف اندوزی حاصل کرنے کے عمل میں صراحتاً کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں تھی اور یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ اس عمل کے ذریعہ انسانوں کی تولید کی جائے 51 یہی معاملہ مردوں کی مثل عورتوں میں بھی عام تھا اور عورتیں بھی آپس میں ناجائز جنسی تعلقات کے معاملات میں مشغول رہا کرتی تھیں۔

نسوانی ہم جنس پرستی

ہندوستان میں نسوانی ہم جنس پرستی کی ثقافت قدیم ویدی دور پندرہ سو (1500) قبل مسیح سے بھی پہلے کی ہے ۔ نسوانی ہم جنس پرستی کا تصوّر جَمی(ہم جنس جڑواں عورتیں) نے پیش کیا تھا ۔ جڑواں کا تصوّر صرف حیاتیاتی شناخت سے متعلق ہی نہیں تھا بلکہ عورت کا دوسری عورت سےکلیتاً یکجا ہونے کے عمل کی طرف بھی نشاندہی کرتاہے جو شہوت انگیزی اور جنسی عمل دونوں کی وسعتوں پر مبنی ہے۔ 52کامسُوتر میں اس حوالے سے پرش روپنا (مرد نما عورت) اور شُویڑِنی(آزاد عورت ) کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ، اور یہی الفاظ نسوانی ہم جنس پرستی کے عمل کے حوالے سے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔اس کی وضاحت کامسُوتر میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے کہ جس میں ایک عورت دوسری عورت کو کسی آلے یا اَپَدَّرْوْیے(Apadravya)کے ذریعے اپنے ساتھ سمو لیتی ہے۔ 53

رادھا جو ہندوں کے دیوتا کرشنا کی گوبی (گوالوں کی لڑکی )تھی ، اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی بہت زیادہ سکھیاں(سہلیاں) تھیں اور بعض معتبر ذرائع اس حوالے سے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس نے اپنی قریبی سہیلہوں کے ساتھ ہم جنسی تعلقات بھی قائم کیے ہوئے تھے۔ گوپی کی اپنی سیہلیوں کے ساتھ دوستی ، سیروتفریح اور کھیل کود کو ہندوستان کے قرون وسطی سے منسلک ویشنو(Vaishnava)ادب میں تصویری صورت میں مرتب کیا گیا تھا اور اس کے اس عمل کو نسوانی جنس پرستی مانا گیا ہے ۔

مہارشی واتسیاین کی تیسری عیسوی میں تحریر کی گئی کتاب کامسُوتر میں معاشرتی رنگ ڈھنگ اور جنسی تعلقات کے فن کے حوالے سے کام کیا گیا تھا۔اس کتاب کی دفعہ 2.8 میں عورت کی انتہائی درجے کی شہوانی قوت کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔ کامسُوتر جنسی تعلق استوار کرنے کے لیے "بجلی کے کڑکے" اور" جنونی سور کے زور دار دھکے " جیسی اصطلاحات کے متعلق بھی وضاحت کرتا ہے، جس میں عورتوں کے آپس میں ہم جنسی مباشرتی تعلقات کے تذکرے موجود ہیں۔ شاہی خاندان کی خواتین کی اپنی خادماؤں سےنسوانی ہم جنسی کے قصّے کسی سے ڈھکےچھپے نہیں تھے۔ ان خادماؤں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ انہیں مردوں کی وضع کے مطابق لباس پہننا ہے اور

صبورا
بھی لگائے رکھنا ہے۔اگر تِرْتیا پَرکرتی tritiyaprakriti(تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد، مخنث)کے حوالے سے بات کی جائےتو ، واتسایانا میں بھی شُویڑِنی svairini(نسوانی ہم جنس پرست عورت)کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے جس میں تھوڑا بہت پُروشِیَت (purushayita)اور جارحانہ طرز عمل کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ شویڑنی ایک آزاد خاتون تھی جس کا کوئی شوہر نہیں تھا، یہ کسی دوسرے کی مدد لیے بغیرتنہا رہتی تھی ۔ عورت کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے میں ہی اسے تسکین اور خوشی ملتی تھی۔ کامسُوتر میں تیرہویں صدی کے حوالے سے "لنگ بوسی" اور اس کے پھیلاؤ پر مشتمل مختلف ابواب کاایک پورا مجموعہ موجود ہے۔

مَنو (100 قبل مسیح سے 100 عیسوی) جو ہندو مذہب کے قوانین کی تدوین کرنے والا ہے، اس کی کتاب میں ہم جنس پرستی کے عمل میں ملوث ہونے والے مرد ہوں یا عورتیں ہوں دونوں کے لیے سخت سزائیں درج تھیں۔اگر ایک اِستِری(عورت) کسی کماری(کنواری) عورت کو مباشرت کرنے کے لیے اکساتی تو سزا کے طور پر اس کو مکمل گنجا کردیا جاتا ، اس کی دو انگلیاں کاٹ دی جاتیں اور اس کو گدھے پر بٹھا کر راستے میں گھمایا جاتا تھا۔ اور اگر یہ عمل دو کنواری لڑکیاں کرتیں تو انہیں دس دس کوڑے مارے جاتے، ان کو دوسو (200)

پڑن
جرمانہ ادا کرنا پڑتااوران کے شادی کے اخراجات دگنے کردیے جاتے۔54مگر ان تمام سختیوں اور سزاؤں کے ڈراوے کے باوجود ہندوستان کی عورتوں میں ہم جنس پرستی عام تھی اور بعض تاریخی قرائن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض مخصوص علاقوں میں یہ لعنت یونان کے لیسبوس (Lesbos) سے بھی زیادہ تھی۔

محرمات سے مباشرت

بہت سے دیگر قدیم مذاہب اور ان کی ثقافت کی طرح قدیم ہندی ثقافتی ادب اور معاشرے میں محرمات سے مباشرت کی موجودگی کاایک مختلف تصوّر موجود تھا ۔ محرمات سے جنسی تعلقات کی ابتدا ایک تسلیم شدہ امر ہے اور اس کا حوالہ ہندوؤں کے کم از کم ایک اساطیری بیانیہ میں ملتا ہے۔ ویدی ادب میں ایک بہت مشہور قصہ ہے کہ دیوتاپرَجاپتی یا برہما نے اپنی ہی بیٹی کومباشرت کے لیے ورغلانے کی کوشش کی تھی تاکہ زمین کو آباد کرنے کے سلسلے کو حرکت میں لانے کی شروعات(Ushas) کی جائے۔55بدھوں کے تانترک نظریات کی طرح ہندوؤں کے تانترک ادب میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ محرمات سے مباشرت ایک مقدس عمل ہے۔ انہیں تانترک نظریات میں یہ بھی مذکور ہے کہ محرمات جن میں ماں، بہنیں، بیٹیاں اور کم درجے کی لونڈیوں شامل ہیں، ان سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا بالکل جائز تھا۔ 56

شراب نوشی

زمانۂ قدیم سے ہندوستان میں شراب نوشی عام تھی ۔بھرابی (جس کا زمانہ 550عیسوی ہے)نے شراب کی لطافت پر ایک قصیدہ لکھا تھااور کالیداس نے اکثر جگہ بعض حالات کے ضمن میں یہ بھی لکھا ہےکہ عورتوں کے منہ سے شراب کی بو آتی تھی۔ تانتراز میں جن کو تقریباً ویدکا درجہ دیاجاتا ہے اور جو الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے حسبِ ذیل عبارت موجودہے"مہادیودیوتا نے اپنی بیوی" پربتی" کواپنا رازدار بنا کر یہ کہا کہ اے میری پیاری!برہمن کی نجات شراب پینے میں ہے۔اےدیوی!بلا شراب پئے تو مذہب کو نہیں سمجھ سکتی اس لیے ایک برہمن کو شراب پینا چاہیے"۔ شراب نوشی صرف آریہ قوم کی خصوصیت نہ تھی بلکہ دیگر اقوام میں بھی اس کا بہت اثر پہنچ گیا تھا ۔چونکہ ان میں تعلیم و تربیت کی کمی تھی اور ان کا معاشرہ ادنیٰ درجہ کا تھا اس لیے ان میں جب شراب نوشی جاری ہوئی تو اس کا ترک کرناان کے لیے امرمحال ہو گیا تھا ۔ 57 گویا اہل ہند کے اخلاقی احوال انتہائی ناقص اور کافی پست تھے۔اس پستی و ذلت کا سبب وہ مذہبی پیشوا تھے جوخواہشات نفسانی کی پیروی میں بگاڑ کے اس اونچے ترین مقام کے ایسے مسند نشین تھے کہ جنہوں نے اپنے ساتھ ساتھ تمام تر پیروکاروں کے معاشرہ کو ہی اس بگاڑ اور پستی و تنزلی کی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

قدیم ہندو معاشرہ میں عورت کو دیکھا جائے تو وہ مجسم پستی وعار کی صورت میں نظر آتی ہے ، مذکورہ حوالہ جات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندو معاشرے میں کن کن مراحل مثلاً سماجی ،معاشی ،معاشرتی،مذہبی ودیگر ہر حوالے سے عورت کا استحصال کس کس طرح کیا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک عورت ایک کھلونا تھی جس کو صرف جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور خواہ اس کا کوئی بھی روپ کیوں نہ ہو اس کو اپنی نفسانی خواہش کی بھینٹ چڑھانا اس معاشرے کا ہر شخص اپنا اولین حق سمجھتا تھا ۔

قدیم ہند کے طبقاتی نظام نے بھی اس کے پورے معاشرے کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا ۔ اس نظام کا بنیادی مقصد برہمنوں کی بالادستی قائم رکھنا اور ان کی شہوانی لذّت کو پورا کرنا تھا۔ اس مقصد کی وجہ سے پورا معاشرہ ظلم و ستم کی آگ میں جلتا رہتا تھا ۔ ایک طرف شودروں کو اذیت دی جاتی تو دوسری طرف عورت کے ساتھ رویہ غلاموں سے بھی بد تر تھا حالانکہ انہیں عورتوں سے ہر طرح کی جنسی تسکین بھی حاصل کی جاتی تھی۔ نتیجتاً ان کے دیگر طبقات یا تو گھٹ گھٹ کر زندگی بسر کرتے رہے یا پھر اپنے مذہب و مسکن کو تبدیل کرکے کہیں اور رہنے لگے اور اسی وجہ سے ان کا معاشرہ ہمیشہ کمزور رہا اور پھر آنے والی تبدیلی کو جلد از جلد قبول کرتا رہا ۔

 


  • 1 James Healings (1980), Encyclopedia of Religion and Ethics, Scholar Press, London, U.K, Pg.239
  • 2 Rama Shankar Taripathi (1942), History of Ancient India, Jahendra Press, Delhi, India, Pg. 32-33.
  • 3 Dr. Pran Nath (1929), A Study in the Economic Condition of Ancient India, Royal Asiatic Society, London, U.K., Pg. 117-118.
  • 4 R. C. Majumdar (1951), The Vedic Age, George Allen and UnWin Limited, London, U.K., Vol. 1, Pg. 170.
  • 5 Ernest Mackay (1948), Early Indus Civilaization, Luzac & Co. Limited, London, U.K., Pg. 21-47.
  • 6 سیّد عین الحق، قدیم مشرق، ج-2، مطبوعہ: مکتبہ فریدی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد) ص: 198-199
  • 7 ابوالحسن علی بن حسین بن علی المسعودی، تاریخ المسعودی (مترجم:پروفیسر کوکب شادابی)، ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 1985ء،ص:99
  • 8 أبو الريحان محمد بن أحمد البيروني، تحقيق ما للهند، مطبوعة: مجلس دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد، الهند، 1377 هـ ، ص: 129
  • 9 ایضاً، ص: 130
  • 10 أبو الريحان محمد بن أحمد البيرونی ،تحقيق ما للهند ،مطبوعة: مجلس دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد، الهند، 1377هـ،ص: 129 -130
  • 11 Rama Shankar Taripathi (1942), History of Ancient India, Jahendra Press, Delhi, India, Pg. 35-37.
  • 12 أبو الريحان محمد بن أحمد البيرونی، تحقيق ما للهند، مطبوعة: عالم الکتاب، لبنان، بیروت، 1430 ھ، ص:70
  • 13 ابو الريحان محمد بن أحمد البيرونی،کتاب الہند (مترجم)،مطبوعہ:بک ٹاک ،لاہور ،پاکستان،2011ء، ص:57
  • 14 میاں محمد اشرف، غلامی ایک تاریخی جائزہ ، مطبوعہ: فروغِ علم اکیڈمی، اسلام آباد،پاکستان،2007ء،ص:427
  • 15 Manu (1886), The Law of Manu (Translated by G. Buhler), Oxford at The Clarendon Press, Oxford, U.K., Pg.35.
  • 16 میاں محمد اشرف، غلامی ایک تاریخی جائزہ ، مطبوعہ: فروغِ علم اکیڈمی، اسلام آباد، پاکستان،2007ء،ص:419-423
  • 17 Nundolal Dey (1903), Civilization in Ancient India, New Arya Mission Press, Calcutta, India, Pg. 140.
  • 18 Klaus K. Klostermmair (1998), A Concise Encyclopedia of Hinduism, Oneworld Publications, Oxford, U.K., Pg. 114.
  • 19 میاں محمد اشرف، غلامی ایک تاریخی جائزہ ، مطبوعہ: فروغِ علم اکیڈمی، اسلام آباد،پاکستان،2007ء،ص:423-424
  • 20 ایضاً،ص:426
  • 21 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی ، ج-1،مطبوعہ :ضیاء القرآن ، لاہور، پاکستان،2013ء،ص:222
  • 22 S. N. Sinha & N. K. Basu (1933), History of Prostitution in India, The Bengal Social Hygiene Association, Calcutta, India, Vol. 1, Pg. 28, 38-40.
  • 23 Cheris Kramarae & Dale Spender (2000), Routledge Encyclopedia of International Women, Routledge, London, U.K., Pg. 1679.
  • 24 Jeffery S. Turner (1996), Encyclopedia of Relationships Across the Lifespan, Greenwood Press, Connecticut, USA, Pg. 58.
  • 25 Melissa Hope Ditmore (2006), Encyclopedia of Prostitution and Sex Work, Greenwood Press, London, U.K., Vol. 1, Pg. 303.
  • 26 Leo Markun (1925), Prostitution in the Ancient World, Haldeman-Julius Company, Kansas, USA, Vol. 286, Pg. 43.
  • 27 James G. Lochtefeld (2002), The Illustrated Encyclopedia of Hinduism, The Rosen Publishing Group Inc., New York, USA, Vol. 2, Pg. 528.
  • 28 ایک گوند جو لاکھ کے کیڑے سے پیدا ہوتا ہے اسے پگھلا کر مہر لگائی جاتی ہے ۔(مولوی فیروز الدین ، فیروز اللغات، مطبوعہ: فیروز سنز لیمیٹڈ، لاہور، پاکستان، 2005، ص:1203)
  • 29 ڈ اکٹر گستاؤلی بان، تمدنِ ہند (مترجم: سیّد علی بلگرامی)،مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:352-353
  • 30 (Manu (1886), The Law of Manu (Translated by G. Buhler), Oxford Clarendon Press, Oxford, U.K., Pg. 195.
  • 31 دیانند سرسوتی، ستیارتھ پرکاش ( مترجم :چموپتی و مہاشہ کرشتن)، مطبوعۃ:منتری آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب، گورودت عھون، لاہور،1946ء ،ص:113
  • 32 Manu (1886), The Law of Manu (Translated by G. Buhler), Oxford Clarendon Press, Oxford, U.K., Pg. 196.
  • 33 Yudit Kornberg Greenberg (2008), Encyclopedia of Love in World Religions, ABC Clio, California, USA, Vol. 1, Pg. 395.
  • 34 James G. Lochtefeld (2002), The Illustrated Encyclopedia of Hinduism, The Rosen Publishing Group Inc., New York, USA, Vol. 2, Pg. 427.
  • 35 David S. Clark (2007), Encyclopedia of Law and Society, Sage Publications, London, U.K., Vol. 1, Pg. 134.
  • 36 Johan Jakob Meyer (1930), Sexual Life in Ancient India: A Study in the Comparative History of the Indian Culture, George Routledge and Sons, London, U.K., Vol. 1, Pg. 54.
  • 37 Paul Masson Oursel (1934), Ancient India and Indian Civilization, Trench Trubner & Co. Ltd., London, U.K., Pg. 78.
  • 38 John Adam (1904), Epochs of Indian History: Ancient India (2000 B.C.-800 A.D.), Longman’s, Green and Co., London, U.K., Pg. 23.
  • 39 Rev. A. D. Rowe (1881), Every Day Life in India, American Tract Society, New York, USA, Pg. 99-101.
  • 40 Indra (1940), The Status of Women in Ancient India, The Minerva Book Shop, Lahore, Pakistan, Pg. 100-101.
  • 41 H. S. Chakladar (1954), Social Life in Ancient India, Susil Gupta Ltd., Delhi, India, Pg. 127-128.
  • 42 Jagdish Chandra Jain (1947), Life in Ancient India as Depicted in the Jain Canons, New Book Company, Bombay, India, Pg. 152.
  • 43 سوامی دیانند سرسوتی، رگ وید،باب ۔ 20،مطبوعہ:نگارشات ،لاہور ،پاکستان،2016ء،ص: 145
  • 44 ڈاکٹر گستاؤلی بان، تمدنِ ہند (مترجم: سیّد علی بلگرامی)،مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:222
  • 45 Helen Tierney (1999), Women’s Studies Encyclopedia, Greenwood Press, Connecticut, USA, Vol. 2, Pg. 737.
  • 46 James G. Lochtefeld (2002), The Illustrated Encyclopedia of Hinduism, The Rosen Publishing Group Inc., New York, USA, Vol.2, Pg. 302.
  • 47 Robert T. Francouer & Raymond J. Noonan (2004), The Continuum Complete International Encyclopedia of Sexuality, Continuum, New York, USA, Pg. 524.
  • 48 Denis Cush, Catherine Robinson & Michael York (2008), Encyclopedia of Hinduism, Routledge, London, U.K., Pg. 354.
  • 49 Jeffery S. Siker (2007), Homosexuality and Religion: An Encyclopedia, Greenwood Press, London, U.K., Pg. 77.
  • 50 George Haggerty (2012), Encyclopedia of Gay Histories and Cultures, Routledge, London, U.K., Pg. 467.
  • 51 Wayne R. Dynes (1990), Encyclopedia of Homosexuality, Routledge, London, U.K., Vol.1, Pg. 587.
  • 52 Bonnie Zimmerman (2000), Encyclopedia of Lesbian Histories and Cultures, Garland Publishing Inc., New York, USA, Pg. 391.
  • 53 Denis Cush, Catherine Robinson & Michael York (2008), Encyclopedia of Hinduism, Routledge, London, U.K., Pg. 461.
  • 54 Yudit Kornberg Greenberg (2008), Encyclopedia of Love in World Religions, ABC Clio, California, USA, Vol. 2, Pg. 362.
  • 55 Yudit Kornberg Greenberg (2008), Encyclopedia of Love in World Religions, ABC Clio, California, USA, Vol. 1, Pg. 320.
  • 56 Hugh B. Urban (2003), Tantra: Sex, Secrecy, Politics, and Power in the Study of Religion, University of California Press, Los Angeles, USA, Pg. 52 & 60.
  • 57 قدیم ہندوستان اور شراب نوشی، ماہانہ معارف اعظم گڑھ، انڈیا، جنوری 1933ء، ص: 54-55