ہندوستان میں مذہب ایک طریقۂ زندگی اور معاشرے کا بنیادی جز سمجھا جاتا تھا ۔ شادی بیاہ کا معاملہ ہو ، سیاست ہو ، تعلیم ہو یا روزمرہ کی زندگی ہو اہلِ ہند کے لیے ان کا مذہب ہی زند گی کے ہر شعبے میں بنیادی اہمیت رکھتا تھا ۔اہل ِ ہند مذہبی طور پر بھی دنیا کی سب سے زیادہ متنوع قوم تھی جہاں مذہب کی بنیادیں بہت گہری تھیں۔اہم معاملہ یہ تھا کہ قدیم ہندوستان کی مذہبی رسومات اور ان کے دیومالائی تصوّرات ،انسانوں کی بنائی ہوئی خود ساختہ وہ عبادتیں تھیں جن کی کوئی الہامی حیثیت نہیں تھی نیز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہو چکا تھا۔اگر کبھی ان کے پاس الہامی مذہب اور وحی موجود بھی تھی تو انہوں نے اسے پسِ پشت ڈال کر خود ساختہ عقائد،مذہبی رسومات اور عبادات گھڑ لی تھیں جن کی بنیاد ذات پات کے نظام ، برہمنوں کے مالی فائدے اورعوام کی توہم پرستانہ سوچ سے فوائد اٹھانے پر مشتمل تھی۔
اہل ِ ہند کے مذہبی نظام میں مندر سب سے اہم مقام تھا جسے عبادت کی جگہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مندروں کا وجود ہندوستان میں تقریباً دو ہزار سال سے موجود ہے۔ یہاں عام طور پر درس گاہیں قائم تھیں اور انہیں میں قربانی و چڑھاوے کی رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ یہ مندر لکڑیوں سے تعمیر کیے گئے کمروں اور غاروں میں بنائے جاتے تھے۔ ان کی تعداد بہت کم تھی ، ان میں پوجا نہیں بلکہ قربانی اور دیگر رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ بعدازاں گپت عہد کے بعد مندروں کی تعمیر کو تقویت ملی اور بہت سے مندر تعمیر کیے گئے۔ غاروں کی طرز پر تعمیر شدہ مندروں کا رجحان چھٹی صدی عیسوی تک قائم رہا۔ اس کے بعد بڑے اور اونچے مندر بنانے کا رواج ہوا جواب تک موجود ہے۔ چنانچہ آج ہندوستان سمیت سری لنکا، تھائی لینڈ، برما، نیپال، چین میں بہت سے بڑے مندر قائم ہیں لیکن اب ان میں قربانی کے بجائے بت پرستی کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔قدیم ہندوستان کے مندروں میں دیوتاؤں کےمجسموں کے علاوہ مختلف حیوانات کی شکل و صورت کی بنائی ہوئی مورتیوں کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔ پوجا کی رسم میں مورتیوں کے سامنے گھنٹیاں بجائی جاتیں، پھولوں کا ہار، غذاؤں اور خوشبوؤں کا نذرانہ پیش کیا جاتاتھا۔ ان کے حضور سجدے کیے جاتے تھے اوران کی مقدس ادبیّات سے مناجات پڑھی جاتی تھیں۔ ان مورتیوں سے مرادیں بھی مانگی جاتی تھیں۔1
آریاؤں کے کوئی باقاعدہ مندر یا زیارت گاہیں نہیں تھیں۔ قربانیاں کھلے آسمان تلے یا ہموار قطعے پر پیش کی جاتیں جو اردگرد کی زمین کے درمیان نمایاں ہوتا تھا۔ اس قطعے میں سات اصل مخلوقات کو علامتی انداز میں نمائندگی دی گئی تھی۔ مٹی ، برتنوں میں پانی، چولہے میں آگ، چقماق کے چاقو کی صورت میں آسمان، سوم پودے کے گودے کی صورت میں پودا، بیل اور پروہت کی صورت میں انسان اور دیوتاؤں کو بھی وہاں موجود تصوّر کیا جاتا تھا۔ "ہوترپجاری "(منتر پڑھنے کا ماہر) بھجن گا کر دیوتاؤں کو ضیافت کے لیے بلاتا تھا۔ ان کے عقیدے کے مطابق دیوتا قربان گاہ کے گرد پھیلائی گئی تازہ گھاس پر آبیٹھتے اور بھجن سنتے تھے۔ آخر میں ابتدائے آفرینش والی قربانی دہرائی جاتی تھی۔ مویشی ذبح ہوتے، سوم کے پھول کا رس نکالا جاتا اور پجاری قربانی کے جانوروں کے بہترین حصے آگ میں ڈالتے، تاکہ اگنی دیوی (آگ کا خدا) انہیں دیوتاؤں کی دنیا تک پہنچا دے۔ تقریب کا اختتام ایک مقدس اجتماعی دعوت پر ہوتا تھا جب پجاری اور شرکا مل کرنظر نہ آنے والے وہاں موجود دیوتاؤں کےساتھ کھانا کھاتے، نشہ آور سوم رس پیتے اور ہستی کی ایک اور جہت کا شیطانی تجربہ کرتے تھے۔ 2
آریائی دیوتاؤں کی پرستش کا بنیادی طریقہ قربانی تھا۔ اگرچہ ہندوستان پر تسلط کے ابتدائی دنوں میں آریائی بنیادی طور پر خانہ بدوش لوگ تھےلہٰذا انہوں نے اپنے دیوتاؤں کے لیے معبد قائم نہیں کیے بلکہ کھلی جگہوں پر بنائی گئی قربان گاہوں پر ان کے لیے قربانیاں پیش کرتے رہے۔ یہ زیادہ تر جانوروں کی قربانیاں ہوتی تھیں لیکن اس میں دودھ کی بنی ہوئی اشیاء مثلاً مکھن وغیرہ بھی دیوتاؤں کو پیش کیا جاتا تھا۔3
سنسکرت میں پنڈت کا مطلب "ایک پڑھا لکھا عالم شخص" ہے۔ پنڈت عالم اور استادہوتا تھا ۔وہ برہمن ہوتا اور خاص طور پر سنسکرت میں مہارت رکھتا تھا۔اس کے علاوہ مقدس علم کی مختلف شاخوں پر بھی عبور رکھتا تھا۔پنڈت عموماً سنسکرت کی تعلیمات اور مذہبی علم کے روایتی طریقوں ، خاص طور پر مذہبی متن کوحفظ کرنےاور روایتی علم کی منتقلی میں مشغول رہتے تھے۔ پنڈت فنون لطیفہ جیسے کلاسیکی موسیقی ، شاعری اور ناچ وغیرہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔4
پجاری کے بنیادی معنی ایک ایسے شخص کے تھےجو پوجا (عبادت) کرتا ہے۔ عام طور پر یہ لفظ کسی بھی عبادت کرنے والے کے لیے بولا جاسکتا تھالیکن اصطلاحی طور پراس سےمراد ایسا شخص تھا جو عبادت کو اپنا ذریعۂ معاش بنالے۔یا تو وہ کسی مندر میں پجاری کی حیثیت سے لوگوں کو عبادت کراتا تھا ، یا کسی مذہبی ماہر کی حیثیت سے دوسروں کی تقاریب میں مذہبی خدمات انجام دیتاتھا۔5
پوجا کے لیے کسی طرح کی شبیہ کی ضرورت ہوتی تھی ، جس کا تصوّر دیوتا کی موجودگی کے طور پر ہوتا تھا۔ شبیہ سازی کے لیے خاص قواعد موجود تھے جن کے مطابق ان شبیہات اور مجسموں میں استعمال ہونے والے مادّے ،اس کی ساخت اور بناوٹ سے لے کراس کی تزین و آرائش تک کے قواعد موجود تھے ۔ ان معبودوں کی انسانی ساختہ شبیہ انتہائی تقدیس کی حامل سمجھی جاتی تھی اوراسے خدا کی موجودگی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ ہندو بعض خدا کو مستقل شبیہات میں موجود مانتے تھے اور کچھ کو صرف عبادت کے وقت کی مدت کے لیے تصوّر کرتے تھے۔ اگر کسی شبیہ یا مجسمےکو بڑا نقصان پہنچ جاتا تو اس کی عبادت ترک کر دی جاتی تھی۔ ہندو مندروں کو بنیادی طور پر دیوتاؤں کی شبہیات یا مجسموں کا گھرسمجھا جاتا تھا ۔ ان مجسموں کو نہلانا ، کھانا کھلانا ، کپڑے پہنانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا عبادت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ تر ہندو باشندے گھروں میں دیوتاؤں کی شبیہ رکھتے تھےاور ان کے سامنے باقاعدہ عبادت کیا کرتے تھے۔6
قدیم ہندوستان میں پیشہ ور پجاریوں کی سرپرستی میں مندروں کے اندر کچھ خاص رسمیں انجام دی جاتی تھیں ۔ بنیادی رسم پوجا اورمورتی کی عبادت کرنا تھی۔ پوجا کے دوران دیوتا کے مجسمےکے ساتھ شاہی مہمان کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ دیوتا کو نہلایا جاتا، لباس وپھولوں کے ہار سے آراستہ کیاجاتا اوراسے کھانا پینا پیش کیاجاتا تھا ۔ دیوتاوٴں کے مجسموں کو جلوسوں میں اٹھاکر لے جایا جاتا تھا اور اس دوران دیوتاؤں پرچھتریوں سے سایہ بھی کیاجاتا تھا(کہ کہیں دھوپ لگنے سے ان کو بخار نہ ہوجائے۔) ان کی تفریح کے لیے موسیقی اور ناچ کر کرتب پیش کیا جاتا تھا۔ کاہن دیوتاؤں کو پھل ، پھول یا ناریل کے نذرانے پیش کرتے تھے۔ رسم کا آخری حصہ آرتی (Arati)کہلاتاتھا۔7
آرتی، روشنی کے ساتھ کسی دیوتا کی پوجا کرنے کاعمل کہلاتا تھا اور ہندوؤں کی عبادت کا ایک لازمی پہلو تھا۔ پوجا کی رسومات کے اختتام پر ، جن دیوتاؤں کی پوجا کی جارہی ہوتی انہیں روشنی کا نذرانہ پیش کیا جاتا تھا۔ ایک تھال پر ایک یا زیادہ، عام طور پر پانچ روشنیاں رکھی جاتی تھیں جنہیں دیوتا کے سامنے دائرے کے انداز میں گھڑی کی حرکت کے انداز میں لہرایا جاتا تھا ۔یہ پانچ روشنیاں زمین ، ہوا، آگ ، پانی اور آسمان کے پانچ عناصر کی علامات ہوتی تھیں۔ یہ ایک ساتھ مل کر کائنات کی کلیت اور اس میں موجود ہر چیز کی نمائندگی کرتی تھیں۔دیوتاوٴں کی توجہ کے حصول کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتی تھیں اور مذہبی گیت گائے جاتے تھے۔ہر دیوتا کے الگ الگ گیت مختص تھے۔یہ عبادت کی اختتامی رسم تھی جس کے آخر میں عبادت کرنے والوں کی دونوں آنکھوں کے درمیانی حصے پر ایک سرخ نشان لگایا جاتا جسے "تِلَک" کہا جاتا تھا۔آخر میں پرساد تقسیم کیا جاتا تھا جو عموماً وہی پھل ،پھول یا کوئی اور کھانے کی چیز ہوتی تھی جو تھوڑی دیر پہلے دیوتا کو نذرانے میں پیش کی گئی ہوتی تھی ۔8
گھریلو عبادات میں مندر کی روایت جیسی بہت سی خصوصیات تھیں۔ ہر گھر میں گھریلو دیوتاؤں کےلیے ایک حصہ مخصوص تھا جو عموماً ایک خاص کمرے میں یا کمرے کے اندر کسی حصے میں معین کردیا جاتا تھا ۔ گھریلو قربان گاہ میں عام طور پر دیوتاوٴں کے متعدد مجسمے رکھے جاتےتھے وہاں آکر خاندان کے افراد مختلف دیوتاؤں کی پوجا کرسکتے تھے۔ لوگوں کاایک منتخب دیوتا ہوتا تھا جس کے ساتھ ان کا ایک خاص رشتہ تھا۔ یہ بھی ممکن تھاکہ ایک خاندان میں شیوا(Shiva)ان کا اعلیٰ دیوتا ہو لیکن ایک بھائی کی بیوی اس خاندان سے ہوتی جو دیوی دُرگہ(Durga) کے ساتھ عقیدت رکھتی ہواور دوسرا بھائی کرشنا (Krishna)کا پجاری ہو۔ لہٰذا تینوں دیوتاؤں کو خاندانی قربان گاہ پر مجسمے یا تصویروں کی شکل میں ترتیب سے رکھا جاتا تھا۔اس کے علاوہ خاص خصوصیات کے حامل دیوتا بھی پائے جاتے تھے۔ گنیشا(Ganesha) رکاوٹوں کو دور کرنے والا دیوتا اور علم کی دیوی سرسوتی (Sarasvati) کے مجسمے بھی گھروں میں عام تھے۔اس کے علاوہ اپنے بزرگوں کی تصاویر اور مقدس نقوش بھی عام پائے جاتے تھے۔ 9
پہلے کے زمانے میں دسہرہ (Dussehra)کے تہوار ( جو عام طور پر اکتوبر اور نومبر کے اندر ہوتا ہے) کےموقع پر جنگجو طبقوں کے درمیان ایک عام رواج ہتھیاروں کی پوجا کا تہوار تھا۔ان میں دو مختلف طرح کےاساطیری افسانے پائے جاتے تھے،یہ دونوں برائی پر بھلائی کی فتح کی علامت تھے۔اس تہوار کو اس دن کے طور پر منایا جاتاتھا جب دیوتا راما (Rama) نے شیطان راوانا (Ravana)کو مار ڈالا تھا۔اس کا تعلق مہیشاسورا(Mahishasura) نامی راکشس پر دیوی کی فتح سے بھی تھا۔ اس تہوار کا تعلق فوجیوں اور جنگ سے تھا ۔اس تہوار کودیوتا کی علامت کے طور پر اس کے ہتھیاروں کی پوجا کرنے کا دن سمجھا جاتا تھا۔ ہندوؤں کے مقبول عقیدےکے مطابق اس تہوار کے دن شروع ہونے والی کسی بھی کوشش کو کامیابی حاصل ہوتی تھی ۔ اسی وجہ سے دسہرا کاتہوار فوجی مہم شروع کرنے کا ایک پسندیدہ دن مانا جاتا تھا۔ چونکہ دسہرہ مون سون کی بارشوں کے خاتمے کے بعد آتا تھا اس لیے اس میں کوئی بھی سفر تقریباً ناممکن تھا ۔ اس لیے جنگی تناظر میں بھی یہ ایک مناسب وقت سمجھا جاتا تھا 10جس کی ایک مثال موجودہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی مشہور و معروف تصویر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جس میں وہ کلا شنکوفیں رکھ کر انکی پوجا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
قدیم ہندوستانی وید ک کسی حد تک قربانی پیش کرنے والا مذہب تھا اور اگنی (Agni)اور سوما (Soma)دیوتاؤں کے ساتھ وابستہ تھا۔ قربانی کا تہواراصل میں دیوتاؤں کے لیے ایک عید سمجھا جاتا تھاجن میں قربان گاہ کے سامنے مقدس گھاس پر کھانے کے نذرانے (کیک ، دودھ ، مکھن ، گوشت اور صوما پینا) رکھا جاتا تھا ۔ خداؤں کو متاثر کرنے کے لیے آہستہ آہستہ قربانی ایک جادوئی گُربن گئی تھی اسی لیے ویدک قربانی کی دعاؤں میں عاجزی یا رجوع کے جذبے کا اظہار نہیں کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ویدک زبان میں لفظ "شکر" نامعلوم تھا۔ اس وجہ سےدیوتاؤں کی حیثیت محض انسان کے خادموں جیسی رہ گئی تھی جو قربانی کے بدلے ہر کام کرنے کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے جبکہ پیچیدہ رسومات ادا کرنے والےاعلیٰ کاہنوں یا برہمنوں نے آہستہ آہستہ خود خدائی وقار حاصل کرلیا تھا۔
قربانیوں کی اصل پیش کش کبھی آگ کے بغیر نہیں ہوتی تھی ۔ یہ گھروں میں یا کھلی ہوا میں ہوتی تھی۔ مختلف اقسام کی قربانیوں میں دوزیادہ اہمیت کی حامل تھیں: سوما کی قربانی اور گھوڑے کی قربانی۔ سوما (Soma/Agnistoma) ایک امرت تھا جو کچھ پودوں کو دبانے سے حاصل کیا جاتا تھا ۔ سوما (Soma/Agnistoma) کی قربانی، یا دیوتاوٴں کی بارگاہ میں اس کی پیش کش، موسمِ بہار میں ہوتی تھی۔ یہ قربانی سارا دن جاری رہتی تھی۔اس دن لوگوں کے لیے عام تعطیل ہوتی تھی۔ دن کے دوران کچھ وقفوں سے سوماکے ساتھ ساتھ مختلف خداؤں کو کیک ، دودھ اور گیارہ نر بکروں کی قربانی بھی پیش کی جاتی تھی ۔ دیوتا (خاص طور پر اندرا) نشہ آور سوما پینے کے لیے بے چین تصوّر کیے جاتےتھے۔گھوڑے کی قربانی (اشوامیدھا) ایک بادشاہ کے حکم پر عمل میں لائی گئی تھی اور تمام لوگوں نے اس میں حصہ لیا تھا۔
قدیم ہندوستانیوں کا خیال تھاکہ پہلے گھوڑوں کی قربانی کے بجائے انسانی قربانی مقبول تھی ۔بعد میں دیوتاوٴں نے گھوڑے کی قربانی قبول کر لی پھر بھیڑ ، بکری اور بالآخر چاول اور جَوکی بھی ۔ چنانچہ ان کے مذہب کےمطابق چاول اور جَو سے بناایک قربانی کا کیک بھی جانوروں کی قربانی کی طرح اہمیت کا حامل تھا۔11
انسانی قربانی کی ایک قسم ستی کی رسم بھی تھی۔ ستی ایک بیوہ کو جلانے یا خود سوزی کی رسم تھی جس میں ایک بیوہ شوہر کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کے موقع پراس کی چتا میں ساتھ جل کر اس کے مہلک گناہوں کو پاک کرسکتی تھی۔ قدیم ہندووٴں کے عقائد کے مطابق اس عمل سے بیوی اپنے شوہر کے ساتھ جنت میں خوشی سے زندگی گزارنے کا اجر پاتی تھی۔12کیتھاری قبیلے میں تو ستی کو باقاعدہ قانون بنادیا گیا تھا۔برہمنوں نے پہلے تو اس کی مخالفت کی لیکن بعد میں اس کو یہ کہ کر اپنالیا کہ اس ستی کی رسم سے رشتہءِ ازدواج پختہ ہوجاتا ہے اور اگلے جنموں میں بھی ان کا رشتہ برقرار رہتاہے۔راجھستان کی ملکائیں اپنے راجاوٴں کی حتمی شکست کی بنا پر اس رسم کو اجتماعی طور پر ادا کرتی تھیں ۔ اس اجتماعی رسم کی ادائیگی کو "جوہر "کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا جو ان کے لیے باعث فخر ہوا کرتا تھا۔13
شوہر کی موت کے ساتھ ہی عورت کے سامنے دو راستے رکھے جاتے تھے۔ یا تو وہ اپنے شوہر کی چتا پر جل کر مرجائے اورستی کہلائے یا ساری عمر دُکھ بھگتتی رہے۔یہ رسم ِبدبرہمنی دورِ تمدّن سے شروع ہوئی تھی۔ بیوہ کا سرمونڈ کر اسے گنجا کردیا جاتا تھا۔ وہ صرف صبح کے وقت روکھی سوکھی کھاسکتی تھی اور ہر وقت میلے کچیلے کپڑے پہنے رہتی تھی۔ لوگ اس کے سائے کو بھی منحوس سمجھتے تھے۔ ان ہی مصائب سے نجات پانے کے لیے موت کو زندگی پر ترجیح دے کر عورتیں ستی ہوجاتی تھیں۔برہمن ذات کے لوگ عورت کو ستی کی ترغیب اس لیے دیتے تھے کہ اس کے جل مرنے کے بعد اس کے زیورات اور متروکہ سامان ان ہی کو ملتا تھا۔ بعض اوقات نوجوان بیواؤں کو ان کی مرضی کے برخلاف گھسیٹ کر چتا پر لے جایا جاتا جہاں انہیں رسیوں میں جکڑ دیا جاتا تھاکہ مبادا آگ سے گھبراکر کہیں بھاگ نہ جائیں۔ جو عورت کسی حیلے بہانے سے بھاگنے میں کامیاب ہوجاتی تو اسے ذات سے خارج کرکے چماروں کے سپرد کردیا جاتا تھا۔14
اگر کسی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتیں تو ستی ہونے کا اعزاز سب سے بڑی بیوی کو ہوتا اور دیگر بیویاں الگ الگ جلائی جاتی تھیں۔ غیرمعمولی حالات میں ایسی بیویاں اپنی زندگی بھر کے اختلافات اور عداوت ختم کردیتی تھیں اور اسی آگ میں اپنے شوہرکے ساتھ جلنے کا انتظام کرلیتی تھیں۔15 قدیم ہندو معاشرے میں عورت کو ہوس پرستی کا آلۂ کار سمجھا جاتا تھا۔ اسے نہ ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا نہ معاشرے میں کوئی عزت کا مقام دیا جاتا تھابلکہ محض اسے اپنے آرام و آسائش کے لیے زندہ رکھا جاتا اور جب مطلوبہ نتائج حاصل ہوجاتے اور وہ ان کی کسی قبیح و شنیع تسکین کا ذریعہ نہ رہتی تو زندہ رہنے کا حق بھی اس سے چھین لیا جاتا اور مسلسل طعنۂ و تشنیع کے ذریعے زندگی گزارنا محال کردیا جاتا تھا جس پر وہ زندہ رہنے پر مرنے کو ترجیح دیتی تھی۔
انسانی قربانی کے متعلق ہندومت کی تعلیمات میں ہےکہ "بلاشبہ انسان قربانی کے جانوروں میں سے پہلا ہے"۔16 خاص طور پر دُرگا کے مندرکے متعلق بھی مشہور ہے کہ وہاں روزانہ ایک انسان کو دیوتاوٴ کے نام پر بھینٹ چڑھا دیا جاتاتھا۔17
مدھیہ پردیش کے کئی مندروں میں بھی انسان کی بَلی(قربانی)دی جاتی تھی ۔ ویسے بھی ہندوؤں میں دولت حاصل کرنے کے لیے جو کئی قسم کے تنترک (جادو) کیے جاتےتھے اُن کے لیے انسانی خون ضروری سمجھا جاتاتھا۔عمارات کی مضبوطی کے لیے سنگ دل ہندو کم سن بچوں کا خون اور ننھے منے اجسام بنیادوں میں چن دیتے تھے۔18جنوبی ہندکے گونڈ اور ماریا قبائل فصلیں لگاتے وقت جو ان لڑکی کو قربان کرتے تھے۔ اس لڑکی کو کھمبے سے باندھ دیتے اور قبیلے کے سردار باری باری اس پر خنجر کے وار کرکے اس کا بہتا ہواخون کھیتوں میں چھڑکتے تھے۔ 19
کچھ اہلِ علم کی تحقیق کے مطابق آریاوٴں کا اصلی مذہب عقیدۂ توحید تھا۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ویدوں، پاتنجلی اوربھگوت گیتا سے حوالے پیش کیے ہیں۔ جب مہابھارت کی جنگ ہوئی تو بڑے بڑے عالم، راجہ، رشی، مہارشی، مہا بھارت کی جنگ میں مارے گئے تو ویدوں کی تعلیم اور آریا ئی عقائد کی اشاعت بند ہوگئی تھی ۔ مذہب خاص لوگوں کے قبضہ میں آگیا جو من گھڑت عقیدوں کی تبلیغ کرنے لگے تھے۔ برہمنوں نے اپنی روزی کا بندوبست کرنے کے لیے کھشتری اور دوسری قوموں کو یہ پیغام دیا کہ ہم ہی تمہارے معبود ہیں، ہماری خدمت کے بغیر تم کو سکون حاصل نہیں ہوگا۔اس طرح یہ لوگ توحید پرستی سے شرک اور توہم پرستی کی طرف آگئے۔ یہاں تک کہ ان کے بگڑے ہوئے عقائد نے عجیب وغریب صورت اختیار کرلی جس کے ذکر سے ہی جبینِ حیا عرق آلود ہوجاتی ہے۔ اُس زمانے میں ہندوستان کے اندر ایک ایسا مذہب پیدا ہوگیا تھا جو صرف خواہشاتِ نفسانی پر مبنی تھا۔ اس میں شراب کی پوجا کی جاتی تھی اور ایک برہنہ مرد کے ہاتھ میں تلوار دے کر اس کو مہادیو کہہ کر اور ایک ننگی عورت کو دیوی قراردے کر ان دونوں کی پوجا کی جاتی تھی۔20
مندروں میں مردوزن کی برہنہ تصویریں اور مجسمے اب بھی دیکھنے والوں کو محوِ حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا یہ وہ عبادت گاہیں ہیں جن کا مقصد پاکیزہ سیرت کی تعمیر اور اخلاق کی تطہیر تھا؟ان مقامات پر اس قسم کے ہیجان انگیز اور اخلاق سوز مجسموں کو لوگ تقدس کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی پوجا پاٹ کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔جب ان کے معبودوں کی عریانی کا یہ عالم تھا تو ان کے پجاریوں کی اخلاق باختگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ 21صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عبادت جیسی اہم شے کو برائیوں کی آماجگاہ بنادیا گیا تھا۔ مہاراشٹر اور کرناٹکا میں رینوکا دیوی کے آگے لڑکیاں اور عورتیں عریاں ہوکر پوجاکرتی تھیں ۔22
مندروں میں عورتو ں کا وجود سوائے ہوس پرستی، ناچ گانے کے کچھ اور نہ تھا اوریہ خرابی ان کے راجاؤں کی پیدا کی ہوئی تھی۔ مندروں میں جو عورتیں رہتی تھیں وہ گانے ،ناچنے اور دل بہلا نے کی غرض سے رکھی جاتی تھیں۔ ان کے راجاؤں نے ان کو شہروں کے واسطے آرائش اور لوگوں کے واسطے عیش ونشاط اور آزاد روی کا ذریعہ بنا دیا تھا جس سے ان کا مقصود ان کے ذریعے سے خزانے کا فائدہ اور جو کچھ خزانے سے فوج کے واسطے باہر جاتا تھا،اس کو جرمانے اور محصول کے ذریعے خزانے میں واپس لانا تھا۔ اس کے علاوہ ایک غرض یہ بھی تھی کہ فوج کے بن بیاہے سپاہی ان دیوداسیوں سے اپنی جنسی ہوس کو پورا کرسکیں اور عام رعایا کی حفاظت ہو۔23
دوسری معاصر اقوام کی طرح قدیم ہندوؤں میں بھی مذہبی عصمت فروشی کو فروغ حاصل تھا۔ مندروں میں سیکڑوں نوجوان دیوداسیاں پروہتوں (مذہبی پیشواؤں)اور یاتریوں(زیارت کرنے والوں)کی تسکینِ ہوس کیا کرتی تھیں۔ پروہتوں نے لو گوں کو اس بات کا یقین دلارکھا تھا کہ جو شخص اپنی بیٹی دیوتا ؤں کو بھینٹ کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ چنانچہ توہم پرستی کا شکار راجے اور اُمرا اپنی بیٹیاں مندروں میں وقف کردیتے تھے ۔ ان لڑکیوں کو رقص وسرور کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دیوداسیاں صبح وشام دیوتاؤں کی آرتیاں اُتارتیں اور گاتی بجاتی تھیں۔ یاتری معاوضہ دے کر اُن سے مستفید ہوتے تھے۔عصمت فروشی کی یہ کمائی پروہتوں کی جیب میں جاتی تھی۔ مندروں کا ماحول نہایت ہوس پرورتھا۔پروہت دیوتاؤں کی جنسی بے راہ روی کے افسانے مزے لے لے کر سناتے تھے۔ لنگ(عضو تناسل) اور یونی (عورت کی شرم گاہ) کے مجسموں کو دیوتاؤں کی طرح پوجا جاتا تھا۔درودیوار پر جنسی ملاپ کے مختلف آسن پوری تفصیل دکھاتے تھے جنہیں دیکھ کر لوگوں کی ہوس کو اشتہا کی آگ لگ جاتی تھی۔ اُن کے بھڑکے ہوئے جذبات کی تسکین کا وافر سامان دیوداسیوں کی صورت میں موجود ہوتاتھااوریہ مقدس کسبیاں(طوائفیں) ناچتے وقت نہایت ترغیب انگیز طریقوں سےاپنا بھا ؤ بتاتی تھیں۔24
قدیم ہندوستان میں کئی مقامات ایسے تھےجنہیں مذہبی تقدّس واحترام حاصل تھا اور وہاں جمع ہو کر یہ لوگ مختلف عبادتیں بجا لاتے تھے جن میں سے چند ایک کی تفصیل درج ذیل ہے:
بھارت میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مذہبی میلہ "کُمبھ" میلے کے نام سے موسوم تھا اور الہ آباد کے شہر میں مقدس دریا گنگا اور جمنا کے سنگم پر منعقد کیا جاتا تھا۔ یہ میلہ کثیر لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا۔25کُمبھ اہلِ ہندکے یہاں مذہبی نوعیت کا سب سے بڑا اجتماع اور تقدس کا حامل سمجھا جانے والا میلہ تھا۔ لاکھوں ہندو زائرین اور سادھو کُمبھ کے میلے کے موقع پر دریائے گنگا میں نہاتے تھے اور یہ خیال کرتےتھے کہ اس طرح ان کےگناہ دھل جاتے ہیں اور جنت کا راستہ کھل جاتا ہے۔
گنگا شمالی بھارت اور بنگلہ دیش سے گزرنے والا ایک دریا ہے۔ قدیم ہندو مذہب میں اسے اہم اور مقدس سمجھتے ہوئے اس کی پوجا کا رواج عام تھا۔ عام عقیدے کے مطابق اس دریا میں غسل کرنے سے انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا تھا۔ ہندؤوں کی سبھی اہم کتابوں میں ہمیں اس دریا کا ذکر ملتا ہے۔ چونکہ یہ دریا گناہوں سے پاک سمجھا جاتا تھا اس لیے بہت سے ہندو یہاں غسل کرتے تھے۔
اہل ہندکے ہاں جہاں دیگر اشیاء مقدّس ومتبرک تھیں وہیں چند درخت بھی پائے جاتےہیں جو ان کی خود ساختہ عبادتوں کا محوربنےہوئے تھے۔ ہندوؤں کے ہاں بہت سے درختوں اور پودوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا اور ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس پوجا کا پس منظر یا تو دیوتاوٴں کی نمائندگی تھایا اس درخت سے کسی دیوتا کاکوئی خاص تعلق سمجھا جاتا تھا۔ درخت اور پودے اگانا ، ان کا احترام کرنا اور ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا ہندو اعتقادات میں شامل تھا۔ ہندؤوں کے ہاں اہم مقدس درخت تلسی، پیپل، برگد، نیم وغیرہ تھے۔26
اس کے علاوہ قربانی کے طورپراستعمال ہونےوالا ایک پوداتھا جس کا نام سوم یا سوما تھا۔ ایک اور سیال جو بظاہر بھینٹ کے طور پر استعمال ہوتا تھا، مقدس پودے سوما(Soma)کا رس تھا۔ سوم پودے کی حقیقی شناخت جدید دنیا کے لیے ختم ہوچکی ہے۔ قدیم متن اسے مقدس پودے کے طور پر بیان کرتے ہیں جو اندر دیوتا نے زمین پر بھیجا تھا۔ سوم رس کو پجاری کے لیے نہایت لذیذ اور قوّت افزا بیان کیا جاتا تھا۔ پجاری نہ صرف خود اسے پیتاتھا بلکہ دیوتاؤوں کو بھی ساتھ شریک کرتا تھا۔ 27
اہلِ ہند کے چند مشہورمذہبی مقدّس مقامات تھے جہاں ہزاروں برس سے وہ اپنےمعبودوں کے حضورماتھاٹیکتے چلےآرہے تھے۔ان کےبھجن گاکر، ناچ کر، قربانیاں چڑھاکر، نذرانے دےکر، چڑھاوے چڑھاکر،پوجاکرکے انہیں راضی کرنے کی کوششیں کرتے تھے۔وہ معبود لکڑ، پتھر،جانور، شجر،انسان یا اس کاکو ئی عضو،دریا،آسمان کسی بھی شکل میں ہوہندؤوں کا منظورِنظر تھا۔اس کی خوشنودی کی خاطر جان کانذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔اس غرض کےلیے انہوں نے کروڑوں روپےخرچ کرکےمندر اور عبادت خانے تعمیر کیے تھے۔جوان کی مرادوں، دعاؤں اورتمنّاؤں کا مرجع بنے ہوئے تھے۔
اہل ِ ہند کے زیادہ تر تہوار توہم پرستانہ روایات اور شرکیہ عبادتوں پر مبنی تھے جن کے دوران وہ دیوتاوٴں کی خوشنودی کے لیے عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے تھے۔اہل ہند کے قدیم مشہور تہذیبی وثقافتی تہوار وں میں سے چنددرج ذیل ہیں:
جب کلیاں کِھل جاتیں اور کھیتوں کا سبزہ زردی میں تبدیل ہونے لگتا تو اس وقت یہ تہوار منایا جاتاتھا۔ اس موسم میں کاشتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پیدا ہوتی تھی۔ وہ
بسنت پنچمی میں وشنو بھگوان کو پوجا جاتا تھا ۔ اس روز مالی امرا کے روبرو
یہ تہوار مناکر وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ اصلی آرام کا زمانہ شروع ہونے والا ہے۔اس موقع پر دعا اور خیرات ہوتی تھی۔
جب کھیت کٹنے شروع ہوتے اور چند روز میں اناج لوگوں کے گھروں میں پہنچ جاتا تھا ،اس عین خوشی کے زمانے میں سری رام چند جی مہاراج کے اوتار کا دن آتا تھا تاکہ وہ ایامِ راحت میں رہنما بن کر دولت مندی کی آفات سے اسی طرح حفاظت کرے جس طرح بھادو میں عین مصیبت کے وقت رہنمائی کے واسطے سری کرشن مہاراج کا جنم ہوا تھا۔
جب کھیتوں میں اناج کی ابتدا ہوتی اور کاشتکار کو اطمینان ہونے لگتا کہ اس کی محنت کا نتیجہ جلد پیدا ہونے والا ہےتب وہ اپنے آپ کو دولت مند تصوّر کرتا تھا ۔ان کا خیال تھا کہ اگر کافی انتظام اور راج نیت (قوانینِ حکومت و سلطنت) قائم رہے تو دولت راحت کا خاص ذریعہ ہے ورنہ یہی مصیبت کی اصلی جڑبن جاتی ہے۔ اسی لیے ہندو بھاگن میں دولت مند ہونے سے پہلے مہاشیوراتری کا تہوار مناتے تھے۔
شیوجی راج نیت کی اصلی مورت تھے اور ان کی تصویر نہایت دلچسپ اور قابل غور تھی یہ برہماجی کے بیٹے زمانۂ مستقبل کے مظہر سمجھے جاتے تھے ۔ ان کے جسم پر بھبھوت رمی سانپ لپٹے ہوئے تھے۔ گلے میں زہر بھرا رہنے سے اس کا رنگ نیلا تھا۔ ماتھے پر چندرما (چاند) تھا جو امرت یعنی آبِ حیات برسا رہا تھا۔ سر پر
دکّن میں اس روز پوترا یعنی نیا
ہولی کا تہوار پورے چاند کے مہینے میں
اس تہوار کو روایتی و سماجی اختیارکے انداز کو تبدیل کرنے کاذریعہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ خواتین کو اپنے شوہروں کی سرزنش اور ان کی توہین کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بعض اوقات سڑکوں پر گروپوں میں طلبا اپنے اساتذہ سے بدتمیزی کر سکتے تھے اور چھوٹے بچے اکثر وہاں سے گزرتے بڑوں پر کیچڑ اچھالتے بلکہ کچرا تک پھینک دیتےتھے۔32
دیوالی کو روایات میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہےسب سے مشہور متبادل " دِیپاوَلی" تھا یعنی تیل کے دیوں(لیمپ) کی ایک قطار۔ اس طرح دیوالی روشنی کا ایک تہوار تھا۔ یہ تقریباً پانچ (5) دن تک جاری رہتاتھا ، حالانکہ اس تہوار کا بنیادی حصہ تین(3) دن تک تھا۔ یہ اشوینا اور کارتیکا (اکتوبر کے مہینے) کے قمری مہینوں کے موقع پرشروع ہوجاتا تھا۔33یہ ہندوستانی تہواروں میں سب سے مشہور تھا۔ یہ خوشی اور یکجہتی کا تہوار تھا جو پورے ہندوستان میں نوجوان اور بوڑھے ، امیر اور غریب سب لوگ مناتے تھے۔ یہ ہندوؤں کے لیے اتنا ہی اہم تھا جتنا کرسمس عیسائیوں کے لیے ہے ۔ یہ تاریکی اور برائی پر روشنی اور اچھائی کی فتح کا جشن تھا۔ 34
مذکورہ بالا تاریخی شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ زمانۂ قدیم میں اہل ہند کی تہذیب وثقافت نامکمل تھی جو آج بھی اسی طرح نا مکمل ہے۔ہندی تہذیب وثقافت اور اس سے وجود میں آنے والا تمدّن بذاتِ خود وضاحت کررہا ہے کہ ہندی معاشرت کاتقریباً ہر پہلو ہی نہایت عجیب و غریب اور علم و عمل سے متصادم تھا۔ قدیم ہندوستان میں جسم فروشی ، قتل وغارت گری، ظلم اور معاشی اور مذہبی استحصال کے ذرائع کو بعض استحصال ی طبقوں نے مذہبی رسومات کا نام دے دیا تھا۔ ہندو مذہب کے نام پر عام لوگوں کو لوٹا جارہا تھا اور مذہبی طبقہ مختلف بہانوں سے ان سےمال بٹور رہا تھا ۔ قدیم ہندوستان میں مذہب زیادہ سے زیادہ تجارتی سرگرمی تھا اور خالق کو جاننے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے علاوہ سب کچھ تھا۔ انہیں عقائد اور رسومات کی وجہ سے پورا معاشرہ ذات پات میں منقسم اورعجیب و غریب کاموں میں ملوث تھا۔ اس باطل نظام نے انسانی عقل کو اتنا مفلوج کردیا تھا کہ اہلِ خانہ یہ اعزاز سمجھتے تھے کہ کسی پجاری نے ان کی نو عمر بیٹی کوبے آبرو کردیاہے۔ شوہرکی لاش کے ساتھ بیوی کو جلانے کو عقیدت سمجھا جاتا تھا ۔ یہ چیزیں خالص برائی کے سوا کچھ نہیں تھیں جن کا مقصد انسانیت کو تباہ کرنا تھا جو یقیناً شیطان صفت لوگوں کی تسکین کا باعث تھا۔ اگر کوئی چیز صرف ذاتی لالچ اور خواہش کی تکمیل کی طرف لے جاتی ہے تووہ کبھی بھی دین نہیں ہوسکتی۔ دین ہمیشہ خدا کی مرضی کے تابع ہوتا ہے اور یہ پیغام اللہ کے رسولوں نے مستقل طور پر دیا تھااور اس کی حتمی شکل حضرت محمد نے اسلام کے کامل نظام کی صورت میں پیش فرمائی تھی جوقیامت تک انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔