فوج قدیم ہندوستان کا ایک اہم ادارہ تھا جس کی بدولت حکمران رعایا پر اپنا اقتدار قائم رکھتے تھے۔ فوج کو مختلف طرح کےجنگی حالات سے نمٹنےکے لیے قائم کیاگیا تھا۔ اس ضرورت نے کھشتریہ ذات (Ksatriya)یا جنگجو ذات کو جنم دیا ، اور کھشترم دھرم(Ksatram Dharman) کو جنگ کے بنیادی فرائض کے بارے میں رہنمائی کرنے پر مجبور کیا تھا۔ عسکریت پسندی کو فروغ دینے کے لیے ضروری تعلیم، مشق اور نظم و ضبط صرف کھشتریہ ذات کے لوگوں تک ہی محدود تھی۔ دوسری ذاتوں میں عسکریت پسندی کے رویے کو پھیلانے سے توروک دیا گیا تھالیکن کھشتریوں کا غلبہ دوسری ذاتوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک خطرے کی حیثیت اختیار کر گیاتھا۔ فوج کو حکمران طبقے کے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ قدیم ہندوستانیوں نے جنگ کے لیے بہت سے اخلاقی قوانین تشکیل دئیے تھے لیکن لڑائیوں کے دوران انہوں نے کبھی بھی ان قوانین پر عمل نہیں کیا تھا۔
قدیم ہندوستان میں فوج کو عموماً چارمندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:
فوج کےمختلف حصوں کی افادیت کا انحصار موسموں اور ان کاروائیوں کی نوعیت پر ہوتا تھاجس میں فوج مصروف عمل ہوتی تھی۔ چنانچہ ایک ایسی فوج جس میں رتھ اور گھڑسوار غالب تھے ، ایک اچھی اور مؤثر فوج کہلاتی تھی ۔ جبکہ ایسی فوج جس میں بڑی تعداد میں پیادہ سپاہی ہوں، برسات کے موسم میں بہتر تصور کی جاتی تھی ۔ پیادہ فوج بھی مختلف نوعیتوں کی تھیں۔ چانکیہ(Chankya)نے ان کو باقاعدہ سپاہی،کرائے کے سپاہی، جنگی شراکت داروں کی طرف سے مہیاکیے گئے سپاہی ، دشمن کے ملک سے بھرتی شدہ سپاہی، حلیف ملک سے بھرتی شدہ سپاہی ، اور جنگلی قبائل سے بھرتی شدہ سپاہیوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ملک کی فوج کا مرکزی حصہ بہادر ترین لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ جنگ کے میدان میں تجربہ کار فوجیوں کو سامنے اور اہم مقامات پر تعینات کیاجاتا تھا جبکہ کرائے کے فوجی عام طور پر عقبی حصے میں کھڑے ہوتے تھے۔ گھڑسوار فوج کا ایک بہت اہم حصہ تھے جو تیز رفتار حرکت کر سکتے تھےاور اسے دشمن کے اہم مقامات پرقابض ہونے ، خزانے کی حفاظت ، دشمن کی رسد ختم کرنے ، دشمن کی افواج کے خلاف حملے کرنے اور پسپاہونے والے دشمن کا پیچھا کرنے کے لیے ایک خاص یونٹ سمجھا جاتا تھا۔ ایک وسیع سلطنت کو زیر دست رکھنے کے لیے ایک بڑی گھڑسوار فوج کا ہونا ضروری تھا۔ چندر گپت کی فوجی طاقت کا انحصار اس کے گھڑسوار دستوں کی برتری پرہی تھا۔1
جنگجوعَلم اٹھائے جنگی میدان کی طرف رواں دواں ہوتے تھے۔ عَلم کے لیے بہت سے جھنڈے استعمال کیے جاتے تھے۔ جنگ کے آغاز کا اشارہ دینے کے لیے زور سے ڈھول پیٹا جاتا تھا۔سپاہیوں کے جسم زرہ اور سر خود سےمحفوظ ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حفاظت کے لیے ڈھال بھی استعمال کی جاتی تھی۔کمان ایک لمبی لکڑی سے تیار کی جاتی اور اس کی ڈوری گائے کی آنت سے بنائی جاتی تھی۔ 2
ہندوستانی فوج کا سب سے چھوٹا دستہ یعنی ایک پتّی میں ایک رتھ گاڑی ، ایک ہاتھی ، تین گھوڑے ، اور 5 سپاہی شامل ہوتے تھے۔ تمام فوجیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کماندار جرنیلوں کے ذریعے کی جاتی تھی، جن کا درجہ ان کے زیرِکمان فوج کی تعداد پر منحصرہوا کرتا تھا۔ بادشاہ کے وزراء زیادہ تر جرنیلوں کے عہدے پر فائز ہوتےتھے۔ ایک عام سپاہی سے لے کر سپہ سالار تک تمام فوجی باقاعدگی سے ہر ماہ اپنی تنخواہ وصول کرتے تھے۔ ولی عہد شہزادہ جو عام طور پر بادشاہ کےبعد فوج کا سپہ سالار تھا ، ہر مہینے پانچ ہزار (5000) سونے کے سکے وصول کرتا تھا۔اسی طرح ہرعہدیدار کی تنخواہ اس کے عہدے کے مطابق مقرر تھی۔3
جنگ کے اختتام پر شکست خوردہ دشمنوں کو دی جانے والی سزائیں بہت ظالمانہ ہوا کرتی تھیں۔ بازو کاٹ دینا ، جسم سے کھال اتارنا ، گوشت کو ٹکڑوں میں کاٹنا ، ہڈیوں کو توڑنا وہ سزائیں تھیں جو دشمنوں کو دی جاتی تھیں۔ 4 ایک جنگجو جب مکمل طور پر ہتھیاروں سے لیس ہوتا تو زرہ، بکتر ،خود اوراپنے ہاتھ کو بچانے کے لیے ایک ہاتھ یا بازو کی زرہ پہنتا تھا۔ تیر میں سرکنڈھے کی لکڑی استعمال ہوتی تھی اور نوک یا تو سینگ کی ہوتی یا دھات کی استعمال کی جاتی تھی ۔ زہر آلود تیربھی بعض اوقات استعمال میں لائےجاتے تھے۔ 5
پیدل سپاہیوں کے پاس تیر کمان ہوتے جس سے وہ مسلسل تیر اندازی کرتے تھے۔کچھ کے پاس نیزے بھی ہوتے تھے۔اس کے علاوہ ان کےپاس تلواریں بھی ہوتی تھیں جس سےدشمن سے دوبدو لڑائی کی جاتی تھی۔ گھڑسواروں کے پاس دو نیزے ہوتے تھے۔ ان میں ایک بڑا اور دوسرا نسبتاًچھوٹا ہوتا تھا۔ 6
بحریہ کا استعمال فوجیوں کو دور دراز کے میدانوں تک پہنچانے کے لیے کیا جاتا تھا اور اس کا مقصد بحری قزاقوں کو تباہ کرکے بحری اور دریائی تجارتی راستوں پر حکومتی تجارت کو تحفظ دینا تھا ۔ بحری جنگی جہاز لڑائیوں میں بھی استعمال ہوتے تھےالبتہ بحری جنگیں زمینی لڑائیوں کے مقابلے میں بہت ہی کم رہی ہیں۔ قدیم ہندوستانی زمین پر لڑنے کو ترجیح دیتے تھے، سمندری جنگ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ بحری جہاز زیادہ تر جزیروں کو فتح کرنے کے لیے استعمال کیے جاتےتھے ۔7
ہندوستانی فوجیوں کو باقاعدہ فن ِحرب کی تربیت دی جاتی تھی اور انہیں جنگی حکمت عملیوں میں ماہر بنا دیا جاتا تھا۔ دشمن سے لڑتے وقت کس قسم کی جنگی حکمت عملی اپنانی چاہیے اس سے متعلق کوتلیہ چانکیہ لکھتا ہے:
حملہ آور کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے حریف کی بابت بھی جزئیات کے ساتھ آگاہی حاصل ہونی چاہیے۔ پیش قدمی سے قبل مندرجہ ذیل امور پر خوب غور و فکر کرلینا چاہیے:
مذکورہ بالا جنگی پہلوؤں کا بغور تعین کرنے کے بعد (اگر ضروری ہو تو) پوری قوت سے پیش قدمی کرنی چاہیے، دوسری صورت میں لڑائی سے باز رہنا ہی بہترہے۔8
ارتھ شاستر میں کوتلیہ چانکیہ لکھتا ہےکہ:
" مہم جوئی کا ارادہ ہو تو ایسی زمین کا انتخاب کیا جانا بہتر ہے جو فاتح (حملہ آور) کو دولت اور حکومت بڑھانے کے مفید مواقع اور ماحول فراہم کرسکتی ہو۔ جہاں اس کی فوج با آسانی پیش قدمی کرسکے اور اس کے برعکس حریف کی عسکری قوت کے مزاج سے (وہ زمین یا خطہ) ہم آہنگ نہ ہو۔ اگر پیش قدمی کرتے وقت ان خصوصیات کا حامل علاقہ مہیا ہو تو بہتر ہے اگر اس زمین کی خصوصیات اس کے الٹ ہوں تو فاتح (حملہ آور) نقصان اٹھائے گا۔ اگر موزوں اور ناموزوں خصوصیات پیش قدمی کے لیے منتخب کی گئی زمین میں متوازن ہوں تو درمیانےدرجے کے نتائج برآمد ہوں گے۔ "9
وہ مزید لکھتا ہے کہ قبائلیوں،غیر ملکیوں، حلیف فوج، خصوصی تربیت یافتہ دستوں، کرائے کے سپاہیوں اور عقبی دستوں سے ہی لڑائی لڑی جاتی ہے۔مندرجہ ذیل صورتوں میں عقبی فوجی دستوں کو محاذ پر تعینات کرنا چاہیے:
چانکیہ کے مطابق جنگ سےپانچ سو کمان کے فاصلہ پر قیام گاہ قائم کی جائے اور غیر معمولی سپاہیوں پر مشتمل کچھ دستوں کو خفیہ طور پر الگ کرکے کسی ایسے مقام پر تعینات کردیا جائے جو حریف کی نظر میں نہ آسکیں۔ برا وقت آن پڑے تو یہ منتخب دستے حالات کا رخ تبدیل کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اس کے بعد جرنیل فوج کی باقاعدہ قیادت سنبھال کر پیادہ فوج کے اراکین کو ایک دوسرے سے ایک شم ( 14اُنگل) کے فاصلہ پر صف بند کرائے۔ سواروں کو تین شم (42اُنگل) کے فاصلہ پر منظم کیا جائے۔ رتھوں کو چار 4 شم ( 56اُنگل) کے فاصلہ پر ترتیب دیا جائے اور ہاتھیوں کو اس سے دو گنا یا تین گناہ زیادہ فاصلے (112اُنگل یا168 اُنگل) پر رکھا جائے، اس نوعیت کی تنظیم کے بعد آپسی گھمسان پیدا نہیں ہوتا اور لشکر با آسانی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ 11
اہل ہند کے ہاں زمانۂ قدیم کی جنگوں کی بہت اہمیت ہے۔کتب تواریخ سے پتہ چلتاہے کہ بعض قدیم جنگیں تو ان کی مذہبی تعلیمات کا حصہ تھیں ۔ اہل ہند کی معلوم تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ خطۂ ہند کے اولین حکمران بادشاہ برہمن سے لے کر اشوک تک تمام حکمرانوں نے اس خطۂ ہند میں اپنی حکومت کے استحکام کےلیے کئی جنگیں لڑیں جس کی بدولت ان کی سلطنت وسیع ہوتی گئی اور ان حکمرانوں کا دائرۂ اقتدار بھی بڑھتاچلاگیا۔ ان جنگوں میں کئی ایک غیر معلوم ہیں تاہم بعض ایسی بھی ہیں جن کا تھوڑا بہت ذکر تاریخ میں اب بھی محفوظ ہے۔
رگ وید، یجروید، سام وید اور اتھروید ان چاروں ویدوں کے حوالۂ جات سے اچھی طرح اندازہ ہوا ہے کہ آریاوٴں کے جذبات کیا تھے اور کس لیے وہ جنگ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اُن لوگوں سے جو رنگ و نسل وطنیت و مذہب میں اُن سے مختلف تھےنفرت کرتے تھے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینا چاہتے تھے۔ آریاوٴں کےجذبات و اندرونی غضب سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمنوں کو مغلوب کرلینے کے بعد اُنہوں نے وہی سب کچھ کیا ہوگا جس کا بار بار اظہار منتروں میں کرتے رہے ہیں۔ ان منتروں سے یہاں کے قدیم باشندوں کے حالات پر بھی کافی روشنی پڑتی ہے کہ وہ حملہ آوروں سے زیادہ متمدّن اور مہذب تھے۔ سیم وزر، وسیع مکانات اور مویشیوں کے گلّوں کے مالک تھے۔ شاید اسی دولت کی فراوانی اور تنعّم کی زندگی نے ان کی جنگی صلاحیت کو کمزور کردیا تھا کہ وہ آریاوٴں کا کامیاب مقابلہ نہ کرسکے اور شکست کھانے کے بعد جنگلوں اور پہاڑوں کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔12
اہلِ ہند کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی جنگ مہا بھارت کہلاتی ہے۔جو کہ ہندوؤں میں مشہور ومعروف اور مذہبی اہمیت کی حامل ہے۔ ارجن کے پوتے کی خواہش پر اس جنگ کی روئداد بیاس نامی عالم نے رقم کروائی جو خود اس جنگ میں شریک تھا اور اس کتاب کانام مہابھارت رکھا۔ 13
آسن دیوت یا ہستناپور میں ایک ریاست قائم ہوئی تھی جہاں کورو خاندان کے راجہ حکومت کرتے تھے۔ ان راجاؤں میں ایک راجا وِچِتر دِیرِیہ تھا جس کے دو بیٹے تھے، بڑا دھرتر راشٹر(Dhritasrashtra) اور چھوٹا پانڈو (Pandvas)بڑے کی اولاد کوروؤں کے نام سے اور چھوٹے کی پانڈوؤں کے نام سے مشہور تھی۔یہ مہا بھارت انہیں لوگوں کے درمیان برپا ہوئی تھی۔
چونکہ دھرترراشٹر پیدائشی اندھا تھا اس لیے باپ کی موت کے بعد چھوٹا بیٹا پانڈو ہستناپور کا راجہ ہوا۔ اِن دونوں بھائیوں میں دھرترراشٹر بہت ہی کثیر الاولاد یعنی سو (100) بیٹوں کا باپ تھا جو کوروؤں کے نام سے مشہور تھے۔ پانڈو کے صرف پانچ بیٹے یدھشتر ،بھیم ، ارجن ، نکل اور سہدیو تھے جو پانڈوؤں کے نام سے یاد کیے جاتے تھے۔ اِن چچازاد بھائیوں کے درمیان سخت عداوت تھی۔ خصوصیت کے ساتھ دریودھن جو کوروؤں میں سب سے بڑا تھا، پانڈوؤں کو ہمیشہ نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ اتفاقاً اسی اثنا میں پانڈو کا انتقال ہوگیا اور دھرترراشٹر کو حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینی پڑی۔ 14اس واقعہ نے ان کی دشمنی کو اور بھی تیز کردیا یہاں تک کہ دریودھن نے اپنے چچازاد بھائیوں یعنی پانڈوؤں کو ایک لاکھ15 کے مکان میں ٹھہراکر انہیں جلادینے کی کوشش کی۔ مگر اُن کو اِس کا علم پہلے ہی ہوچکا تھا اس لیے آفت آنے سے پیشتر ہی وہ بھاگ نکلے اور ایک عرصۂ دراز تک جنگلوں میں مارے مارے پھرے۔16 اسی بادیہ پیمائی کے زمانے میں ایک دن انہیں خبر ملی کہ بانچال کا راجہ دروپد اپنی بیٹی دروپدی کا سوئمبر کررہا ہے اور اس نے یہ شرط لگائی ہے کہ جو شخص بانس پر ناچتی ہوئی مچھلی کو محض اس کے سائے کو دیکھ کر، جو تیل کے اوپر پڑرہا ہوگا، نشانہ بنائے گا اسی سے وہ اپنی بیٹی سے شادی کرے گا۔ اس خبر کو سن کر یہ پانچوں بھائی بھی سوئمبر میں شریک ہوئے ۔ارجن نے تیراندازی کے جوہر دکھاتے ہوئے اُس مچھلی کو نشانہ بنالیا چنانچہ حسب وعدہ راجہ نے اپنی لڑکی اُس کے حوالہ کردی جو ان پانچوں بھائیوں کی مشترکہ بیوی بن گئی تھی۔17
دروپدی اُس عہد کی روایتی اطاعت گزاری کو قائم رکھتے ہوئے اس حیثیت کو قبول کرلینے پر مجبور تھی۔ اس واقعہ کے بعد پانڈوؤں نے پانچال کے راجہ کا سہارا لے کر کوروؤں سے اپنی سلطنت کا مطالبہ کیا جس کو ان لوگوں نے بالجبر تسلیم کیا اور آدھی سلطنت بانٹ کر انہیں دیدی۔ سلطنت مل جانے کے بعد پانڈوؤں نے اندر پرستھ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور شان کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔18 چند سال بعد اُنہوں نے راجسویگیہ کرنا چاہا جس کے معنی یہ تھے کہ پورا ہندوستان اُن کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے مگر کرو ان کی اس حیثیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دشمنی تو پہلے ہی سے تھی اُن کے اس حوصلے اور منصوبے نے عداوت کی آگ کو اور بھڑکادیا چنانچہ کوروؤں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جنگ میں پانڈوؤں کا مقابلہ آسان نہیں ہے حیلے سے کام نکالنے کی کوشش کی اور یدھشتر کو جوا کھیلنے پر راضی کیا ۔ جوئے میں یدھشتر اپنی سلطنت، گھربار یہاں تک کہ دروپدی کو بھی ہارگیا۔ نیز اس شرط کو ماننے پر مجبور ہوا کہ وہ بارہ (12) سال تک اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگل میں رہے گا اور ایک سال کسی راجہ کی ملازمت کرے گا۔ چنانچہ بارہ (12) سال تک وہ جنگل میں رہا اور ایک سال گمنام طور پر متسیا کے راجہ ویرات کی نوکری کی۔ تیرہ (13) سال گزرنے کے بعد وہ پھر سلطنت کا دعویدار ہوا مگر کوروؤں نے اس کے مطالبے کو ٹھکرادیا۔ ایسی حالت میں پانڈوؤں نے ہندوستان کے راجاؤں سے مددطلب کی اور طاقت کے ذریعے اپنی سلطنت پر قبضہ کرلینے کی کوشش کی۔19 کورُک شیتر کے میدان میں راس کماری سے لے کر ہمالیہ تک کے تمام راجہ جمع ہوئے۔20 اٹھارہ دنوں تک گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی جس میں لاکھوں انسان مارے گئے۔21بالآخر کورؤں کو شکست فاش ہوئی اور اُن کی جماعت کے کل تین بہادر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اس جنگ کے بعد یدھشتر ہستناپور کا راجہ ہوگیا اس نے راجسویگیہ کیا اور پورے ہندوستان سے اپنی سیادت تسلیم کرائی ۔22 کچھ دنوں بعد وہ بھی تخت تاج چھوڑ کر اپنے بھائیوں کے ہمراہ ہمالیہ کی طرف چلا گیا ۔23 اور ارجن کے پوتے پرکشت کوہستناپور کی حکومت سونپ دی تھی۔24
مہا بھارت کے بعد دوسری رزمیہ کتاب رامائن ہے جو رام چندر کی جلاوطنی اور سیتا کی گرفتاری و رہائی سے متعلق ہے۔ گنگا اور گنڈک کے طاس میں آریاوٴں کی ایک ریاست کوشل نامی تھی جس کا دارالحکومت ایودھیا تھا جہاں سوریہ ونش خاندان کا راجہ حکومت کرتا تھا۔ اِن راجاؤں میں ایک راجہ دشرتھ تھا جس کی تین بیویاں تھیں کوشلیہ،سمترا اور کیکئی، اِن تینوں سے اس کے چار بیٹے پیدا ہوئے تھے۔ کوشلیہ سے رام، سمترا سے لکشمن اور شتروگھن اور کیکئی سے بھرت ان چاروں میں رام چندر سب سے بڑا عقلمند اور باپ کا چہیتا تھا۔ ان کی شادی متھلا کے راجہ جنک کی بیٹی سیتا سے ہوئی تھی۔25راجہ دشرتھ رام ہی کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے، مگر ان کی بیوی کیکئی اس پر راضی نہ تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بھرت باپ کی جگہ لے۔ چنانچہ ایک دن اس نے راجہ سے درخواست کی کہ اس کی دو باتیں منظور کی جائیں۔ راجہ نے منظور کرنے کا وعدہ کرلیا جب اسے یقین ہوگیا کہ راجہ اپنے وعدوں سے نہیں پھرے گا تو اس نے بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھرت راج گدّی پر بیٹھے اور دوسری یہ کہ رام چندرکو چودہ (14) سال کے لیے جلاوطن کردیا جائے۔ اس درخواست کو سن کر راجہ کو سخت قلق ہوا مگر وہ وعدہ کرچکا تھا اس لیے اسے رد نہ کرسکا۔ دوسری طرف رام چندر کو جب معلوم ہوا کہ اُس کے باپ نے اس طرح کا وعدہ کرلیا ہے تو اس نے تخت سے علیحدگی اور جلاوطنی پر آمادگی کا اظہار کیا اور سیتا ولکشمن کے ساتھ جنوبی ہند کی طرف چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جلاوطنی کا زیادہ حصہ اس نے چھتیس گڑھ اور گوداوری کے وسطی حصے ”جنس تھان“ یا پنچاوتی میں گزارا تھا۔ جنس تھان میں راکشسوں کی نوآبادی بتائی جاتی ہے ۔ وہاں رام چندر کا جھگڑا انہیں راکششوں سے ہوگیا اور ایک جنگ میں اُنہوں نے کافی راکششوں کو قتل کیا۔ جب اس کی خبر راکششوں کے راجہ راون کو ہوئی تو اس نے انتقام میں رام کے خیمے پر حملہ کردیا اور سیتا کو، جو تنہا تھی نکا لے بھاگا۔26 دوسری روایت کے مطابق راون سیتا کے حسن پر فریفتہ ہوگیا تھااور ہرن کی شکل میں رام کے خیمے کی طرف آیا۔ رام نے اسے ہرن سمجھ کر شکار کرنا چاہا اور تیر کمان لے کر اس کے تعاقب میں دور نکل گیا۔ جب اس کو واپس آنے میں دیر ہوئی تو لکشمن بھی بھائی کی تلاش میں باہر چلا گیا اور گھر میں سیتا تنہا رہ گئی۔ ابھی وہ دونوں باہر ہی تھے کہ راون جو پہلے ہرن بنا ہوا تھا دیو بن کر سیتا کے پاس آیا اور اُسے لے بھاگا۔ 27
سیتا کی گرفتاری کے بعد رام نے بندروں کے بادشاہ ہنومان کی حمایت حاصل کی اور اسی کی مدد سے لنکا پر چڑھائی کی۔28 راون رام کی فوج کا مقابلہ نہ کرسکا اور مارا گیا۔ اس کے قتل کے بعد رام نے اس کے بھائی بھبھیکن کو لنکا کا راجہ مقرر کیا اور خود سیتا کے ساتھ ہند واپس چلا آیا۔29اس اثنا میں ان کی جلاوطنی کا زمانہ بھی ختم ہوگیا اور وہ ایودھیا آکر تخت پر متمکن ہوگیا۔ 30جیسا کہ اوپر کے واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے قصّے میں فریضی، ظنی اور تخیلاتی باتوں کو حقیقت کی طرح پیش کیا گیا ہے بالخصوص راون کا ہرن بننا اور پھر دیوبن جانا اور رام کا ہنومان کی حمایت کو حاصل کرنا مگر کیونکہ ہندو اس کہانی کو اپنی مذہبی داستانوں میں شمار کرتے ہیں اس لیے اس کو من و عن نقل کیا گیا ہے ورنہ ان داستانوں میں موجود سُقم اور نقائص کسی بھی باشعور انسان سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔
ایران کے ملک کو فتح کرنے کے بعد سکندر نے ہندوستان کا ارادہ کیا۔ اس کی غرض یہ تھی کہ تمام ایشیا کو فتح کرلے۔ اُس وقت پنجاب چھوٹی چھوٹی خودمختار حکومتوں میں منقسم تھا جن میں سخت باہمی رقابت تھی اور اس وجہ سے سکندر نے بآسانی انہیں زیر کرلیا تھا۔ سکندر ایک لاکھ بیس ہزار(1,20,000) فوج کے ساتھ آیا جس کی اصل یونانی تھے۔ لیکن اُس میں کثرت سے ایرانی سپاہی بھی شریک تھے۔ اُس کے ساتھ راستہ دکھانے والے بھی موجود تھے اور وہ بعض راجاؤں کے ساتھ بالخصوص ٹیکسلا کے راجہ سے خط و کتابت کرچکا تھا۔سکندر بلخ سے روانہ ہوکر اس شہر تک آیا جس کا موجودہ نام کابل ہے۔ ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد وہ دریائے سندھ سے پار ہوکر پورس سے مقابل ہوا جس کا ملک جہلم اور چناب کے بیچ میں تھا۔ 31سکندر نے راجہ پورس کی تیس ہزار (30،000 ) پیادہ، چار ہزار (4000 ) شہسواروں،تین سو (300 ) رتھوں اور دوسو (200 ) ہاتھیوں پر مشتمل فوج کو شکست دی۔ بھرپور مزاحمت اور آخری دم تک لڑنے کے بعد پورس نے آخر کار ہتھیار ڈال دئے۔32
اس کے بعد کشمیر کے راجا اور دیگر راجاؤں نے اپنے اطاعت نامے بھیجے۔ کئی لڑائیاں لڑتا ہوا سکندر دریائےبیاس تک پہنچا۔ یہاں آکر اُس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کیا اورسکندر نے اس مقام پر اپنی فتح کی یاد میں کچھ عمارتیں تعمیر کروائی۔33
چندرگپت مہاراج نندا کی ایک داسی کا بیٹا تھا اور بچپن اس کا محل میں بسر ہوا تھا۔ نندا مہاراج اس کا سوتیلا بھائی تھا جو اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوگیا تھا۔ چندرگپت فوج کا سپہ سالار تھا لیکن اسے اپنے تخت کے لیے خطرہ جان کر نندا مہاراج نے اسے گرفتار کرنا چاہا۔ چندر گپت اس سازش کی قبل از وقت اطلاع پاکر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔چانکیہ اور چندرگپت موریہ نے ٹیکشاشلا (موجودہ ٹیکسلا)میں راجہ پرواتکا کی مدد سے مہاراج نندا کو شکست دینے کے لیے ایک بڑی فوج تیار کی جسے ابتدائی جھڑپوں میں شدید ناکامی کا سامنا ہوا۔ اتحادی فوج کو تب تک کامیابیاں حاصل نہیں ہوئی جب تک چانکیہ نے اپنی جنگی حکمت عملی میں تبدیلی نہیں کی۔ وہ نندا سلطنت کے مرکزی علاقے مگدھ پر یورشیں کر رہے تھے جہاں تمام تر قوت مرتکز تھی اور جہاں غلبہ پانا دشوار تھا۔ جب کہ سرحدی علاقوں میں یہ ارتکاز ایسا گہرا نہیں تھا اور وہاں آسانی سے جنگ جیتی جا سکتی تھی۔ یوں سرحدوں پر موجود علاقوں پر یورشیں شروع کی گئیں۔ساتھ ہی ساتھ چانکیہ نے مختلف حیلوں سے مہاراج نندا کی اپنے حلیفوں سے ان بن پیدا کرادی۔ جنگ میں جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو چندرگپت موریہ کا پلڑا بھاری رہا اور وہ نندا سلطنت کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔
اس نے اپنے دور حکومت میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں جن میں سب سے اہم جنگ اسے سکندر کے سالار سلوکس (Seleucus)سے لڑنی پڑی ۔ سلوکس (Seleucus)نے مغربی و وسطی ایشیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے بعدتین سو پانچ (305 ) قبل مسیح میں ہندوستان کی طرف قدم بڑھایا اور سکندر کے مفتوحہ علاقے کو دوبارہ فتح کرنے کی کوشش کی۔ مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پنجاب کی سرزمین میں چندرگپت کی فوج سے شکست کھانے کے بعد وہ ایک شرم ناک معاہدہ کرلینے پر مجبور ہوا تھا جس کے ذریعے وہ نہ صرف ہندو مقبوضات ہی سے بلکہ کابل، قندھار، ہرات اور بلوچستان سے بھی دستبردار ہوگیا۔34 نیز تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے اُس نے اپنی بیٹی کی شادی چندرگپت سے کردی اور ایک سفیر میگاستھینیز (Megasthenes) کو اس کے دربار میں بھیجا جس نے اُس عہد کے حالات تفصیل کے ساتھ قلمبند کیے تھے۔ 35
چندر گپت بے شک سکندر سے بڑا جنگجو تو نہیں لیکن اس سے اچھا حکمران ضرور تھا۔ کھشتری چندرگپت کو مگدھ حکمرانوں نے وہاں سے جلاوطن کردیا تھا حالانکہ چندر گپت ان کا قریبی رشتے دار تھا۔ اپنے شاطر اور تیز فہم مشیر کو تلیہ چانکیہ کی مدد سے چندرا نے ایک چھوٹی سی فوج کو منظم کیا اور سکندر کی قلعہ بند فوج کو شکست سے دوچار کرکے آزاد ہند کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے بعد اس نے مگدھ راجد ھانی پاٹلی پترکی طرف پیش قدمی کی۔ وہاں انقلاب برپا کیا، شاہی گدی سنبھالی اور موریا سلطنت کی داغ بیل ڈالی جس نے بعد میں ہند اور افغانستان پر حکمرانی کی۔ چندرنے بہت کم عرصے میں اس وقت کی دنیا کی سب سے مضبوط اور مستحکم حکومت بنا ڈالی تھی۔ 36
اشوک ،چندرگپت کا پوتا تھا جس کی تاج پوشی کی رسم (269قبل مسیح ) میں ادا کی گئی تھی ۔37 اشوک نے پہلے تو اپنے باپ اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام ہندوستان کی فتح کو مکمل کیا۔ اس نے دوسو پچپن (255) قبل مسیح میں مدراس کے مشرقی ساحلی علاقے میں واقع شہر کلنگ (Kalinga)پر حملہ کیا اوراسے فتح کر لیا ۔ لیکن وہ جنگی تباہ کاری اور خون ریزی سےاس قدر متنفر ہواکہ اس سے مکمل دست بردار ہوگیا۔ اس نے بدھ مت کے پرامن نظریات کو اپنا لیا اوراعلان کیا کہ اب اس کی فتوحات فقط مذہبی فتوحات ہی ہوں گی۔ 38
پشی متر برہمن خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے تقریباً چونتیس (34) سال (185- 151قبل مسیح) حکومت کی اور اس طویل عہد میں بڑی بڑی معرکہ آرائیاں کیں۔ سب سے پہلی جنگ اُس کو کلنگ کے راجہ کھارویل سے کرنی پڑی جس نے مگدھ پر حملہ کرکے اسے (پشی متر) پاٹلی پتر سے نکال دیا۔ مگر جب وہ لوٹ کھسوٹ کر واپس ہوگیا تو پھر واپس آکر اس نے اپنی سلطنت کے منتشر پرزوں کو جمع کرنے کی کوشش کی۔ مگر ابھی وہ طاقت کو مجتمع بھی نہ کرسکا تھا کہ کابل و ملک سندھ کا حاکم ،منینڈر جو بلخ کے فرمانروا کا عزیز تھا ،پوری طاقت کے ساتھ شمالی ہند پر حملہ آور ہوا۔ کاٹھیاوار، متھرا اور اودھ پر قبضہ کرنے کے بعد، اس نے پاٹلی پتر پر چڑھائی کی دھمکی دی۔39ایسے نازک موقع پر پشی متر کے پوتے وشوامتر نے جو وذیسہ یعنی مشرقی مالوہ کے حاکم اگنی متر کا بیٹا تھا، بڑی بہادری سے کام لیا اور منینڈر کو شکست دے کر اُسے آگے بڑھنے سے روک دیا مگر سندھ و کابل کا علاقہ یونانیوں سے نہ چھین سکا۔ اس واقعہ کے دو سال بعد ایک سو اننچاس (149)قبل مسیح میں پشی متر کی موت واقع ہوئی اور اُس کا بیٹا اگنی متر پاٹلی پتر کے تخت پر بیٹھا۔چند سال کی حکومت کے بعد اس کی بھی موت واقع ہوگئی ۔ آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ پشی متر کی موت کے بعد ہر طرف فتنہ و فساد پھیل گیا، کوئی مرکزی طاقت ایسی نہ رہی جو امن و امان قائم کرسکے۔40
دورِ قدیم سے ہی ہندوستان بیرونی حملہ آوروں کی شکار گاہ بنا رہا اور طاقتور جنگجو وحشی قبائل کے خلاف ویسی مزاحمت نہ کر سکا جیسی کرنی چاہئے تھی۔ اس کی ایک وجہ مختلف مذاہب، ذاتوں اور ثقافتوں کی تقسیم تھی جس نے اس خطے کے لوگوں کو کبھی متحد نہ ہونے دیا یوں کبھی بھی یہاں مضبوط سیاسی اتحاد قائم نہ ہو سکا نتیجتاًعدم استحکا م اور انتشار نے معاشرے کوانتہائی کمزور کردیا تھا۔41 دوسری اہم وجہ فوج کی پست ذہنی اور اخلاقی سطح تھی۔اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی ناانصافیاں اور بلا جواز جنگ مسلط کرنے کی پالیسیوں نے بھی سپاہ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔اسی وجہ سے یہ خطّہ ہمیشہ عدم استحکام اور سیاسی انتشار کا شکار نظر آیا۔تقسیم اور انتشار کا عمل ہندوستان کے زوال کا سبب بنا۔اگر وہاں کے اہلِ علم و دانش اپنا فرض نبھاتے اور اہل ہند کو ذات پات کی تقسیم اور جاہ و منصب کی لا حاصل جدوجہد سے روکتے تو حالات اتنے سنگین نہ ہوتے جتنے کے تاریخ کے صفحات میں منقول ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل ہند ہمیشہ ہی تباہی کا شکار رہے اور کسی مسیحا کی آمد کے منتظر رہے ۔