Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم فارس کی مذہبی رسومات

انسان ہمیشہ سے کسی نہ کسی چیز کو افضل و اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا چلا آیا ہے ،جو چیز بھی اسے طاقتور محسوس ہوتی اس کی عبادت شروع کردی جاتی،کبھی چاند و سورج کی پرستش کی تو کبھی آگ و پانی کو عبادت کے لائق سمجھنا شروع کردیا،کبھی اپنے آباؤ اجدادکو خدائی درجہ دیا تو کبھی بتوں کی پوجا کوباعث نجات گردانا، الغرض انسان اپنی فطرتِ عبادت کو کسی نہ کسی صورت میں بروئے کار لاتا رہا ہے۔دنیا کی دیگر اقوام کی طرح اہل فارس بھی مختلف اشیاء کی عبادات سرانجام دیتے رہے تھے۔ فارسیوں نے جو طریقۂ عبادت اختیار کیا ہوا تھا اس امر کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ جب بھی انسان نے خدائی تعلیمات اور نظام میں ذاتی خواہشات کے مطابق تحریفات کرنے کی مذموم کوشش وہ گمراہی و بے دینی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوتے چلے گئے۔اہل فارس کی عبادات کے ذکر سے پہلے مناسب ہے کہ ان کے آتش کدوں اور دیگر عبادت گاہوں کا ذکر کردیا جائے:

آتشكدوں كی بناوٹ

اردا شر (Ardashir) کا دادا اصطخر میں اناہتا (Anahita)کے معبد کارئیس تھا اور ساسانی خاندان کو اس معبد کے ساتھ خاص لگاؤ تھا ، پس معلوم ہوا کہ خاص خاص دیوتاؤں کے خاص خاص معبد تھے، لیکن پھر بھی یہ قرین قیاس ہے کہ تمام معبد بطور عمومی تمام زرتشتی خداؤں کی پرستش کے لیے وقف تھے اور یہ کہ تمام معبد ایک ہی نقشے پر تعمیر کیے جاتےتھے۔عبادت کی مرکزی جگہ آتش گاہ تھی جس پر مقدس آگ ہمہ وقت روشن رہتی تھی، عام طور پر آتشکدے کےکمرے ہشت پہلو اور دروازے آٹھ رکھے جاتے تھے، اس نمونے کا قدیم آتشکدہ آج بھی شہر یزد میں موجود ہے۔ مسعودی نے اصطخر کے قدیم آتشکدے کے کھنڈرات کا حال بیان کیا ہے جس کو اس کے زمانے میں لوگ مسجدِ سلیمان سمجھتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے اس عمارت کو دیکھا ہے یہ اصطخر سے تقریباً ایک فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ ایک قابلِ تعریف عمارت اور ایک شاندار معبد ہے، ستونی پتھروں کے ٹکڑوں پر تراش خراش کا کام اس نفاست اور خوبصورتی سے کیا گیا تھا کہ ان کے طول و عرض کی بناوٹ انسانی اذہان کو ورطئہ حیرت میں مبتلا کردیتی تھی۔ ستونوں کے بالائی سرے پر گھوڑوں اور دیگرجانوروں کے خوبصورت مجسمے نصب کیے گئے تھے جن کی جسامت اور شکلیں حیرت میں ڈالنےکی صلاحیت رکھتی تھیں۔ عمارت کے ارد گرد ایک وسیع خندق اور فصیل بھی موجود تھی جس کو پتھر کی بھاری بھاری سلوں سےتعمیر کیا گیا تھا۔ اس پر برجستہ تصاویر نہایت کاریگری سے بنائی گئی تھیں۔ آس پاس کے رہنے والے لوگ ان کو پیغمبروں کی تصویریں سمجھتے تھے۔نقش رستم میں شاہانِ ہخامنشی کے مقبروں کی منبت کاری میں چند آتشگاہوں کی برجستہ تصویریں کنندہ ہیں جن پر آگ جلتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ آتش گاہ کی شکل ان قربان گاہوں کی نقل ہے جو اقوامِ مغربی ایشیا کے معبدوں میں پائی جاتی تھیں، وہ اصل میں قربانی پیش کرنے والی اشیا کے لیے میزیں ہوا کرتی تھیں۔ نقش رستم میں دو بہت بڑی بڑی آتش گاہیں صیقل شدہ چبوترے پر ایک چٹان میں سے تراش کر بنائی گئی تھیں۔اس کا بالائی حصہ جو دندانہ دار ہے چارستونوں پر دھرا معلوم ہوتا تھا جو پتھر میں سے تراش کر برجستہ بنائے گئے تھے۔ آتشِ سرمدی کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کہ اس پر کوئی ایسی تعمیر کردی جائے جو اسے مرورِ زمانہ کی آفات سے محفوظ رکھ سکے۔ بعض لوگوں کا خیال تھاکہ پتھر کی وہ عمارت جو نقش رستم میں شاہی مقبروں کے بالمقابل موجود ہے اور جس میں مرورِ زمانہ سے گڑھے پڑگئے ہیں، آتش گاہ ہی کا نمونہ ہے، وہ ہخا منشی دور کی تعمیرات میں سے ہیں اور فارسی اس کو کعبۂ زرتشت کے نام سے موسوم کرتے تھے۔

شریعت زرتشتی میں چونکہ یہ قاعدہ مسلم ہوچکا تھا کہ سورج کی روشنی آتش مقدس پر نہیں پڑنی چاہیے لہٰذا نئی ساخت کے آتش کدے تعمیر ہونے لگے ۔ان عمارتوں کے عین وسط میں ایک مکمل تاریک کمرہ تعمیر کیا جاتا تھا جس کے اندر آتش دان رکھا جاتا تھا۔ صوبۂ فارس کے فرترک (گورنر) جو شاہان سلوکی کے باجگذار تھے ان کے سکوں کے پشت کی جانب آتش کدے کی تصویر کنندہ تھی۔ تین آتش دان جو معمول کے اعتبار سے آتش کدے کے اندر رکھے تھے وہ اس تصویر میں دروازے کے اوپر دکھائے گئے تھے ، بائیں طرف ایک پجاری کو کھڑا دکھایا گیا تھا اور دائیں جانب ایک جھنڈے کی شکل تھی۔ اردا شراوّل کے سکّوں میں آتش گاہ کی جزئیات نمایاں طور پردکھائی دیتی تھیں، نیچے کی جانب تین پائے دکھائے گئے تھے جو کہ یقیناً دھات کے بنے ہوئے تھے، ان پر ایک چبوترہ تعمیر تھا جس کی بالائی سطح پر آتش مقدس کے شعلے بھڑکتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ لیکن اس کے جانشین شاپور اوّل (Shahpur-I)کے سکوں میں تین پایوں کو مٹا کراس کی جگہ ایک بڑے مربع نماستون کوشامل کردیا گیا تھا۔ آتش گاہ کے دو نوں ا طراف دو انسان ہاتھ میں ایک لمبا عصا یا نیزہ لیے کھڑے نظر آتے تھے۔عہد موٴخر کے تمام ساسانی بادشاہوں کے سکوں پر آتش گاہ کا یہی نمونہ دیکھنے میں آتا تھا۔ بعض اوقات آگ کے شعلوں میں ایک سر بنا ہوا بھی نظر آتا ، جو غالباً آوز (خدائے آتش) کی تصویر مانی جاتی تھی۔ ابتدائی دور سے تعلق رکھنے والےبادشاہوں کے سکوں پر (یزدگرد دوم کے زمانے تک) اکثر اوقات حاشیے پر لفظ "آتش" اور اس کے بعد مضاف الیہ کے طور پر صاحبِ سکہ کا نام کندہ کیا جاتاتھا۔ 1

متھرا دیوتا کا معبد

ماراغیغ (Maragheh) کا شمار فارس کے قدیم شہروں میں ہوتا تھا ، اس کے اردگرد مضافاتی علاقوں میں متھرا دیوتا کے معبد تعمیر تھے۔ ان میں سے ایک عبادت خانہ ماراغیغ (Maragheh) کے شمالی حصے میں موجود ورجوئے(Verjouy) نامی دیہات سے تقریباً چار (4) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ متھرائزم (Mithraism)یعنی آفتاب پرستی کے پیروکار وں نےاس عبادت خانے کو آرسیسڈ(Arsacid)خاندان سلاطین کے دور (248 -224قبل مسیح) میں تعمیر کیا تھا۔اس معبد کی تعمیر کے لیےزمین پر موجود ضخیم پرت دار چٹان کو کاٹ کر غار کی شکل دی گئی اور اس میں داخل ہونے کے لیے 5.40 میٹر چوڑا راستہ بنایا گیا تھا، غار کے اندر درمیانی مقام تک پہنچنے کےلیے ڈھلوان نما بند تعمیر کیا گیا اور چھت کوہلالی چاند نما ہئیت میں تشکیل دیا گیا تھا۔داخلی احاطہ کی چھت زمین سے 2.5 میٹر بلند اور لمبائی 17.60 میٹر رکھی گئی تھی۔ مرکزی راستے سے زمین کے اندرمتعدد غاروں کے لیے راستہ نکالا گیا جو زمین کے اندر تعمیر کیے گئے گنبد نما چھت کے کمروں کی طرف جاتا تھا۔2

عبادات

فارسی کھلے میدان اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنی عبادات بجا لاتے تھے ۔ انہوں نے اپنے معابد کو زمین بوس کردیا تھا جسے بعد میں ڈیریس نے دوبارہ تعمیر کروایا اور تمام معامالات واپس پرانے طرز پر لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ڈیریس (Darius) معبد کے لیے عمومی اصطلاح بولا جانے والا لفظ ایادانا(ayadana) استعمال کیا کرتا تھا۔ یہ قدیم فارسی زبان کے لفظ یادا (yada) سے ماخذ تھا جس کا معنی "عبادت کرنا "تھا۔ دیگر متبرک جگہوں کو"کوسوکم(kusukum) "یا" ہیپی دانوس (hapidanus) "کہا جاتا تھا۔ اس مقام سے خوراک کی ترسیل کا کام بھی کیا جاتا تھا۔ 3

آہورا مزدا (Ahura Mazdā) کی سات تخلیقات(سبزہ، جانور، زمین، پانی، تانبا، آگ اور انسان) کوسانس اور تھوک کی غلاظت سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی تھیں ۔عمومی طور پر اس طرز کی روک تھام کو روز مرّہ کے امور کی انجام دہی کے دوران بجا لانا مشکل محسوس ہوتا تھا لیکن سانس اور تھوک کو نکالنے میں حد درجہ احتیاط کی جاتی تھی کہ کہیں کسی مقدس عنصر یا شے سے چھو نہ جائے۔ مذہبی رسوم یا عبادات کی انجام دہی کے دوران ان افعال کی روک تھام میں زبردستی سختی کی جاتی تھی۔4

قدیم فارس میں مقدس ہستیوں کی عبادات معابد اور قربان گاہوں میں نہیں کی جاتی تھیں اور نہ ہی وہاں کے باشندے بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے بلکہ وہ لوگ چٹیل اور صاف کھلے میدانوں میں عبادات اور دیگر اعلیٰ مرتبے کی مذہبی رسوم اد اکیا کرتے تھے۔ عبادت کے مقام کو معین کرنے کے لیے خاص مذہبی رسم اد ا کی جاتی اور ایک گھیرا بنایا جاتا تھا۔ جن مذہبی رسومات کی انجام دہی کی اجازت دی جاتی ان میں نہ نظر آنے والی خدائی قوتیں ، آگ اور پانی کی پرستش کی جاتی تھی۔ آگ کسی قریبی رہائش گاہ سے اور پانی قریبی تالاب سے حاصل کر لیا جاتا تھا۔ بہرحال مذہبی آگ اس علاقے میں کم مقدار میں کسی انگھیٹی میں لازمی روشن رکھی جاتی تھی۔مسلسل جلنے والی آگ کو آتش دان میں جلایا جاتا تھا۔ گھر میں آگ اس موقع پر روشن کی جاتی جب کوئی شخص اپنے گھر کو مزین کرنےاور پوری زندگی کوروشن رکھنے کا خواہشمند ہوتا تھا۔ فارسیوں کے نزدیک یہ عمل گھر میں روحانی قوت کی موجودگی کی علامت تھی ۔ آگ کی دیکھ بھال میں بہت زیادہ احتیاط برتی جاتی تھی ،خشک لکڑیوں سے آگ کو بھڑکایا جاتا، اس کے علاوہ آتش دان میں لوبان اور دیگر خوشبو دار اشیاءکے ساتھ قربانی کے لیے پیش کیے گئے جانوروں کی چکنائی بھی ڈالی جاتی تھی۔ 5

زرتشی مذہبی کتب میں تفصیلا ً اس حوالے سے ذکر ملتا ہے کہ آہورا مزدا (Ahura Mazdā)انسانوں کی عبادات اور دعاؤ ں کو سنتا ہےحتی کہ ہمارے دل و دماغ میں جو خیالات پنپ رہے ہوتے ہیں اس پر بھی اس کی نظر ہوتی ہے۔مثبت افکار کی حامل سوچ کو بھی عبادت کا درجہ دیا جاتا اور اسے خدائے اہورا مزدا کے قرب کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا تھا۔6لیکن بعد کے ادوار میں آہورا مزدا (Ahura Mazdā) کے ماننے والوں نے مزید خداؤں کی بھی پرستش کرنا شروع کردی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک سنگین حماقت اور جرم تھا جس کے سبب لاکھوں فارسی راستے سے بھٹک کر گمراہیوں کے اندھیرے میں غرق ہوگئے تھے۔

عبادات کی بجا آوری کے دوران ایک ہاتھ میں گٹھڑی(barsoms) جبکہ دوسرا ہاتھ عبادتی علامت کے طور پر بلند رکھا جاتا تھااس دوران اہل فارس اپنی پگڑی کے نچلے کپڑے سے ناک اور منہ کو ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ ماگی(Magi)اس ریت پر عمل پیرا تھے کہ جب بھی وہ مقدس آگ کے سامنے کھڑے ہوتے تو اپنا منہ ڈھانپ لیا کرتے تاکہ ان کی سانس سے کہیں آگ آلودہ نہ ہوجائے۔بارسم نامی ایک اور علامت تھی جو اس بات کو ظاہر کرتی تھی کہ پجاری مذہبی رسوم ادا کرنے کے عمل میں شامل ہیں۔آمو دریا کے خزانوں سے ملنے والی منتی سونے کی تختیوں کے متعلق یہ خیال کیاجاتا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ معابد میں دی جاتیں اور مذہبی پیشواؤں کے سامنے بھی پیش کی جاتی تھیں۔ فارسیوں کے پجاری میڈیائی طرز کے کپڑے زیب تن کیا کرتے تھے ، کچھ پادام7 (padam)8بھی استعمال کیا کرتے تھے جس میں سر پر باندھنے کے لیے کپڑا بھی موجود ہوا کرتا تھا، اس کے علاوہ ان میں باسم بھی موجود ہوا کرتا تھا۔بعض اوقات ان کے لباس میں تزین و آرائش کے لیے ڈوریاں اور پرندوں کی تصاویر کی نقش و نگاری بھی کی جاتی تھی۔ 9

چار بڑی عبادات

تمام عبادات یسنا (زرتشتیوں کی عبادت کی کتاب )کےطریقے اور دعاؤں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ۔ زرتشت مذہب کے ماننے والے انہیں اپنی انفرادی عبادات میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ تمام عبادات کے اسماء ان کے ابتدائی کلمات پر رکھے گئے تھے۔

اہونا وائریو (Ahuna Vairyo)

یہ عبادت زرتشیوں کے نزدیک سب سے اہم تصور کی جاتی تھی ،ان کا یہ نظریہ تھا کہ اس کی ادائیگی کا طریقہ ان کے پیغمبر نے خود ترتیب دیا تھا۔ اس کی انجام دہی دیگر عبادات و ریاضت کی ضرورت کو بھی پورا کردیا کرتی تھی۔ ان مذہبی تحاریر کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی کیے گئے تھے، آگے ذکر کیے جانے والے عباداتی کلمات ایس انسلر(S. Insler) سے اخذ شدہ ہیں:

  "وہ ہمارا سردار ہے اور منصف بھی ہےاور سچائی سے ہم آہنگ ہوکر منتخب شدہ ہے۔ وہ اچھے مقاصد کے لیے زندگی جینے کی طاقت دینے والاہے۔آہورا مزدا (Ahura Mazdā)اور خدا کا چنا ہوا جس نے اسے غریبوں کا پیشواء بنا کر بھیجا ہے۔"

ائریی میشیو (Airyemaishyo)

یہ عبادت گتھک اوستائی(Gathic Avestan) زبان میں موجود تھی اور اسے خصوصی طور پر شادیوں میں پڑھا جاتا تھا:

  "خدا کرے کہ ایریمن(Airyaman) زرتشت کے مردوں اور عورتوں کی مدد کے لیے آئے اور اچھے مقاصد کےحصول میں ہماری امداد کرے۔ ہمارا باطن اس انعام کو قبول کرنے کے لیے منتخب کرلیا جائے، اس کے لیے ہم سچائی کے ابد ی اجر کے متلاشی ہیں جسے خدائے آہورا مزدا نے سوچا ہوا ہے۔"

اشیمووہو (Ashemvohu)

زیادہ تر عبادات کا اختتام اشیمووہو (Ashemvohu) عبادت پر کیا جاتاتھا۔اس عبادت کے الفاظ ایک منتھرا (Manthra)کا تاثر دیا کرتے تھے اور اسے" آشا(Asha)"کے تصور کو اذہان میں پختہ کرنے کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ اس کا ترجمہ بھی متعدد زبانوں میں کیا گیا تھا۔ اس کا منتر کچھ یوں پڑھا جاتا تھا۔

  "آشا اچھی ہے، آشا بہت اچھی ہے۔ اگر ہم اس کی خواہش کریں تو آرزو کے مطابق ہماری ہوجائے گی۔ آشا کا تعلق آشا ویہشتا (Asha Vahishta)سے ہے۔"

یینہے ہتم(Yenhe Hatam)

یہ عبادت روزانہ اجتماع کے آخر میں ادا کی جاتی تھی:

  "وہ تما م مردو زن جن کے متعلق خدا آہورا مزدا (Ahura Mazdā)جانتا ہے کہ حقیقت میں سب سے بہترین عبادت کیا ہے، ہم ان سب کی پرستش کرتے ہیں۔"10

کستی عبادات

زرتشی مذہب کے ماننے والے ہر شخص پر دن کے 24گھنٹوں میں 5مرتبہ عبادت بجا لانا لازمی امر قرار دیا گیا تھا۔ عبادت سے پہلے ہر شخص"گاہ(gah)" آگ(اصل آگ، چراغ، سورج اور چاند) کے سامنے اس وقت تک کھڑا رہتا جب تک روحانی طور پر مکمل پاک و صاف نہیں ہوجاتا تھا۔ وضو میں سب سے پہلے اپنا چہرہ دھوتا پھر ہاتھ اور پاؤں دھوتا۔تمام اوقات کی عبادتوں میں بنیادی مذہبی رسم مقدس ڈوری"کستی(kusti)" کو کھولا اور بند کیا جاتا تھا۔کستی کو تین مرتبہ متبرک قمیص "سدراف(sudraf)"کے اوپر کمر کے گرد لپیٹ کر آگے اور پیچھے سے گٹھان باندھ دی جاتی تھی۔جیسے ہی کوئی شخص کستی کو اپنے جسم سے کھولتا تو وہ اپنی حفاظت کو ضائع کردیا کرتا اور "کیمنا مزدا(Kemna Mazda)" کے کلمات پڑھا کرتا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ دن کی درمیانی عبادت جس کا نام"اہرمزد کھودے(Ohrmazd Khoday)" تھا،کے دوران کستی دوبارہ باندھ دی جاتی تھی۔یہ عبادت تمام "خوردا اوستا(Khorda Avestas)" میں موجود ہے اور اسی سے مزید کم درجہ کی عبادات اخذ کی گئیں تھیں۔ مقدس ڈوری مرد و عورت دونوں ایک ہی طریقے پر باندھا کرتے تھے۔ 11

اجداد پرستی

عام عقیدہ یہ تھا کہ روحیں دوقسم کی ہوتی ہیں،خبیث او رسعید یا نیک اوربد ۔ نیک روحیں آباء واجداد کی تصور کی جاتی تھیں جو ان کے گمان کے مطابق وقتاً فوقتاً اپنے عزیزوں کے آڑے آتی ہیں اور لوگ مشکل وقت میں ان سے رجو ع کرتے تھے،آباء پرستی اسی عقیدے کی پیداوار تھی۔12پُر کھوں کی روحوں کی ضیافت بھی قدیم مذاہب کی یاد گار ہے ،فارس کے مجوسی" ہمسپت سید یا "کے ایام میں کھانے پکواکردَخموں اور گھروں کی چھتوں پر رکھ دیا کرتے تھے تاکہ کہیں مردوں کی روحیں بھوکی پیاسی نہ لوٹ جائیں۔13

آگ کی پوجا

زرتشت کی تعلیمات میں آگ کی تقدیس کا تصور موجود تھا ۔ مذہبِ زر تشتی میں آگ کا رتبہ عناصر میں سب سے بلند و بالاتھااور اہل فارس کے ہاں آگ مقدس سمجھی جاتی تھی۔ ساسانی اوستا کے تلف شدہ حصّوں میں بہت سے مقامات ایسے تھے جن میں آتشِ مقدس کا ذکر تھا۔اس میں مقدس آگ کے احسانات اور انسان کےذمّہ اس کے حقوق و فرائض بھی بیان کیے گئے تھے۔ 14 قدیم فارسیوں کا یہ عقیدہ تھاکہ مقدس آگ آہورا مزدا (Ahura Mazdā)کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔ 15آگ کی پرستش قدیم آریائی دور کی بنیادی عبادات میں شمار کی جاتی تھیں اور ان کا یہ ماننا تھا کہ"ماگی(Magi)" کو نئی زندگی اسی کے ذریعے ملی تھی۔ وہاں گھروں، دیہات ، اور صوبائی سطح پر مقدس آگ روشن کرنے کا سلسلہ تھا۔ اس میں سب سے متبرک اور پاک "فرباغ(Farrbagh)" مذہبی پیشوا کی جانب سے جلائی جانے والی آگ کو تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ "غنسناسپ(Ghusnasp)" جنگجوؤں کی آگ، اور "برزن میہر(Burzen Mihr)" کسانوں کی آگ کو بھی اہم اور قابل تعظیم سمجھا جاتا تھا۔16

تقدیس آب(پانی)

اہل فارس سب سے زیادہ پانی کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ پانی کے ساتھ منہ دھونے سے بھی پرہیز کیاکرتے تھے۔ سوائے پینے یا پودوں کو دینے کے علاوہ کسی اور غرض سے اسےنہیں چھوتےتھے۔ وندیداد میں مذہبی رسوم ِتطہیر کے لیے پانی کے استعمال کی سب ہدایات لکھی گئی تھیں۔ تطہیر کے لیے اگر کوئی چیز پانی سے زیادہ مؤثر شے سمجھی جاتی تھی تو وہ گائے کا پیشاب تھا۔17

مقدس مٹی

پانی کی طرح مٹی کی غیر معمولی تقدیس کا رواج بھی عام تھا۔ حتیٰ کہ مردے کوزمین میں دفنانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ فارسیوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح مٹی کا تقدس پامال ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مٹی پاک و مقدس چیز ہےلہٰذا اگر اس میں مردے کو دفنایا گیا تو یہ ناپاک ہوجائے گی۔ گویا مٹی کو پلید ہوجانے سے بچانے کے لیے لازم تھا کہ اس میں کسی مردے کو دفن نہ کیا جائے کیوں کہ ایسا کرنے سے دھرتی ماتا کی پَوِتَرتا کو دھچکا لگتا ہے۔ جب اس مردہ جسم کے چھونے سے مٹی نجس ہوجاتی تھی تو آگ اس سے بھی کہیں زیادہ طیب و طاہر تھی۔ اس کی حرمت و تقدیس کو بچانے کے لیے مردے کو جلادینا بھی ناممکن تھا۔ اس پر مستزادیہ کہ اس مردے کو پانی سے غسل دینے کی بھی ممانعت تھی کہ ایسا کرنے سے یقیناً پانی ناپاک ہوجاتا ہوگا۔ مردے کو دریا برد بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اسے غرقِ آب کرنا بھی ممکن نہ تھا۔18 اس لیےاہل فارس اور زرتشی بالخصوص اپنے مردوں کو گدوں کی غذا بنانے کے لیے پیش کر دیا کرتے تھے وہ اپنی کم عقلی کی بنیاد پر انسانی جسم کی تضحیک اور اسکو مسخ کرنے پر راضی تھے مگر آگ ،پانی اور مٹی سے اسکے مس ہونے کو غیر مذہبی سمجھا کرتے تھے ۔

مذہبی پیشوا

فارسی مذہب میں پیشواؤں کو "ماگی" (Magi) کہا جاتا تھا۔ اس لفظ کو "ماگو" (Magu) سے اخذ کیا گیا تھا جس کامعنی مذہبی پیشوا کے تھے۔قدیم میڈیائی دور میں ان مذہبی پیشواؤں کو خواب کی تعبیر بتانے والا اور شاہی مشیر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔19

مغ… ماگی… مجوس… مغاں

مغ اصل میں اس قبیلے کا نام تھا جس کے ہاتھ میں مذہب کی تمام اجارہ داریاں تھیں۔ یہ لوگ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک تو تھے ہی لیکن تمام تر مذہب کا ٹھیکہ بھی انہی لوگوں نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ پوری سلطنت کے مذہبی رہنما یہی لوگ تھے، کسی اور قبیلے یا خاندان کا کوئی بھی فرد نہ کسی مذہبی امر میں دخل اندازی کرسکتا تھا اور نہ اس مقدس پیشے کو اختیارکرسکتا تھا۔ تمام قوم کےجائز و ناجائز معاملات انہی کے ہاتھ میں تھے اور کسی امر کا مشروع یا غیر مشروع ہونا اور کسی فعل کا لائق ِمذمت ہونا یا قابل تقلید ہونا ان کے اشارہ ِٴابرو پر موقوف تھا۔ غرضیکہ ہر حلال وحرام کے مالک یہی لوگ تھے۔یہ قبیلہ ماگی یا مغاں کہلاتا تھا، انہیں مغ بھی کہتے تھے۔ ان میں منتخب شدہ مذہبی رہنما موبد کہلاتے تھے اور ان کا سردار "موبداں موبد "کہلاتاتھا۔ فارس میں یہ لوگ درج ذیل امور کی انجام دہی کے ذمہ دار تھے:

  1. شادی بیاہ اور ولادت و مرگ وغیرہ کی جمیع رسوم کی ادائیگی یہی کرسکتے تھے۔
  2. دیوتاؤں کے لیے قربانیاں دینے کا حق صرف انہی کے لیے محفوظ تھا۔ لہٰذا کوئی اور شخص یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتا تھا بلکہ قربانی پیش کرنے والا خود بھی ایسا کرتا تو قربانی قابل قبول تصور نہیں کی جاتی تھی۔
  3. عوام کے تنازعات اور ان کے فیصلے انہی کے دم قدم سے تھے۔
  4. کسی بھی امر کے جواز کی سند انہی پر موقوف تھی۔
  5. عوام کے معاملات انہی کی کہانت و نجومیت کے مرہون منت تھے۔
  6. تمام مذہبی کَفَّاروں اور نذر ونیاز وغیرہ کی خطیر رقوم پر تصرف کااختیار انہی کو حاصل تھا۔
  7. ہر شخص کی آمدنی کا دسواں حصہ مذہب کے نام پر اسی قبیلے کے لیے مختص تھا۔
  8. شر کے خالق خدا " اہرمن"کے شر سے حفاظت اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک ان کی تائید و حمایت حاصل نہ ہوپاتی۔
  9. خالق خیر"آہورامزدا(Ahura Mazdā)"کے لیے کی جانے والی کوئی عبادت اس وقت تک مقبول تصور نہیں کی جاتی جب تک کہ یہ رہنمابیچ میں واسطہ یا وسیلہ نہ بن جاتے یعنی اگر یہ راضی ہیں تو کامیابی ہے وگرنہ سب ناکام و نامراد اور ازلی خائب و خاسر ہیں۔
  10. صرف انہی روحوں کو تقدس و پاکیزگی اور طہارتِ باطنی نصیب ہوسکتی تھی جن پر ان کی دعاؤں کا سایہ ہوتا تھا ورنہ شقاوت ہی نصیب ہوتی ۔
  11. حشر کی بلاتاخیر تکالیف سے چھٹکارا حاصل ہونا بغیر ان ماگیوں کی امداد کے کسی بھی صورت ممکن نہ تھا۔
  12. ان کے ہاں جائیدادیں اور جاگیریں صرف مغوں کے لیے وقف تھیں۔ اس طرح یہ طبقہ جاگیرداروں میں بھی داخل تھا۔
  13. ان کی بے حد تعظیم اورغیر معمولی عزت کرنا ہر شخص پر لازم تھا۔ ان کے قابل عزت بن جانے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ مذہبی امور کی انجام دہی ان ہی پر موقوف تھی لیکن اس کے علاوہ ان کی جائیدادیں اور ان کا مال و متاع کا مالک ہونا بھی ایک ایسا اضافی امر تھا جس کی بنا پر عوام کی گردنیں ان کی بارگاہ میں جھکی رہتی تھیں اور یہ خدائی کے منصب پر جلوہ گر ہوکر عوام کی عزت نفس کو اپنی انا کے الاؤ میں جھونکتے رہتے تھے۔
  14. عوام میں اثر و رسوخ ،اعلیٰ خاندان و جاگیردار اور معاشی وسائل کی فراوانی ایسے امور تھے جنہوں نے مذہبی رنگ کے ساتھ مل کر اور مذہبی ٹھیکیداروں نے ان امور کے ساتھ مل کر انہیں اس درجہ طاقتور بنادیا تھا کہ حکومتوں کے الٹ پھیر اور بادشاہوں کے عروج و زوال میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا تھا۔ گویا یہ ایک فیصلہ کن سیاسی قوت بھی بن چکے تھے کہ شاہی خاندان کو بھی ان کی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ سرپرستی کرنا پڑتی تھی۔
  15. سب سے بڑا فتنہ یہ تھا کہ اس ایک خاندان کے علاوہ کسی اور فرد بشر کو اس بات کی جرأت نہ تھی کہ مذہبی پیشوابننے کا خواب بھی دیکھ سکے۔ اس کا معنی یہ تھا کہ ان مخصوص مذہبی رنگ ڈھنگ کے لوگوں نے باقاعدہ طور پر خاندانی تفوق کو انتہائی بے بنیاد بناکر طبقات کی تقسیم کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
  16. مقصد براری کے لیے اپنا خاندانی نسب نامہ بھی کسی فرضی مافوق الفطرت قسم کی ماورائی صلاحیتوں کی حامل شخصیت سے جوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ افسانوی شخصیت منوش چتر کی تھی۔ اس کو عام طور پر منو چہر بھی کہا جاتا ہے۔

مذہبی اجارہ داری فارس کی پوری معاشرتی زندگی کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اور اس کے جو نتائج حاصل ہورہے تھے وہ چنداں حوصلہ افزا نہ تھے بلکہ کئی حوالوں سے حوصلہ شکن تھے کہ اس فضائے جبر میں ایک مثالی معاشرے کے قیام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس اجارہ داری کے نتائج مرتب ہورہے تھے۔ 20

بچے کی پیدائش

حاملہ عورت کے حمل کو جب پانچواں اور ساتواں مہینہ مکمل ہوجاتا ، اس وقت زیادہ تر زرتشی گھرانے خالص مکھن سے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے۔ اور جب بچے کی ولادت کا عمل مکمل ہوجاتا تو ایک دفعہ پھر چراغ روشن کردیا جاتا تھا۔ جس کمرے میں عورت کو زچگی کے لیے ٹھہرایا جاتاوہیں تین دن تک مسلسل چراغ کوجلنے دیا جاتا تھا۔ بعض گھرانے دس دن تک چراغ کو بجھنے نہیں دیتے اور کچھ گھرانے اسے چالیس دن تک روشن رکھا کرتے تھے۔اس رسم کے حوالے سے ایک وضاحت یہ ملتی ہے کہ آگ کا شعلہ تکلیف اور نقصان پہنچانے والی شیطانی قوتوں کے اثرات سے حفاظت کرتا تھا۔بچے کی پیدائش کے بعدعام طور پر عورت مزید 40 دن تک اس کمرے میں مقید رہتی تھی تاکہ ہر طرح کی ناپاکی و نجاست سے پاک و صاف ہوجائے۔ مدت مکمل ہوجانے کے بعد پاکی حاصل کرنے اور لوگوں سے میل جول بحال کرنے کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔پیدائش کے لیے کمرے میں مقیم ہونے کے دوران عورت کو الگ برتنوں میں کھانا مہیا کیا جاتا اور ملاقات کے خواہشمند افراد حتی کہ علاج کی سہولت فراہم کرنے والوں کو بھی کمرے میں جانے سے پہلے خاص قسم کا وضو کرنا پڑتا تھا۔ اس کےاستعمال شدہ بستر کی چادریں اور کپڑوں کو بھی ضائع کردیا جاتا تھا۔ 21

سالگرہ

بچے کی پہلی سالگرہ کا دن بہت اہم تہوار تصور کیا جاتا تھا۔ اس دن بچہ کو آتشکدے لے جایا جاتا جہاں اس حوالے سے مذہبی تقریب کاانعقاد کیا جاتا تھا ، اس کے لیے برکتوں کی دعائیں مانگی جاتیں اور مقدس آگ کی راکھ کو ماتھے پر لیپاجاتا تھا۔ 22

تجہیز و تکفین

زرتشیوں کی مقدس کتاب میں زرتشت کو آہورا مزدا(Ahura Mazdā) سے تمام مرجانے والے انسانوں کے اجسام کے متعلق سوال کرنے والا بتایا گیا ہے کہ انسانی مردہ جسم کتنی مدت تک زمین پر سورج کی روشنی میں خاکستر ہوجائے گا؟کتنی مدت تک کوئی شخص زمین میں مدفون ہوگا؟ اور کسے "دخمہ"(dakhma) پر رکھا جائے گا۔ اس کا جواب وہ یوں دیتا ہے کہ زمین پر ایک سال، قبر میں پندرہ (15)سال تک انسانی جسم رہے گا اور دخمہ پر اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک جسم ریزہ ریزہ نہ ہوجائے۔اسی لیے یہ کہا جاتا تھا کہ دخمہ میں جسم کا تحلیل ہوجانا ایک بڑی خوبی ہے اور جو شخص اس عمل سے گزرتا وہ اپنے گناہوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے والا تصور کیا جاتا تھا۔23

مردے کی تجہیز و تکفین میں سب سے پہلے انسانی جسم کو سیدھا لٹایا جاتاتاکہ زندگی دینے والے سورج کی شعاعیں اس پر متواتر پڑ رہی ہوں، یوں روشنی کا ایک راستہ بن جاتا جس کے ذریعے روح بلندی پرقائم "کنوٹ پل(Cinvat Bridge)" 24کی جانب پرواز کرجاتی تھی۔رزتشی روایات میں اسے "ہوراداراسا"(hvaradarasa) کے نام سے موسوم کیا گیا تھا اور فارسی زبان میں اسے "خورسید نگارے" (khorsed nigari)یعنی افشاں کی اعلی خوبیوں کا حامل سورج کی جانب سے تھاما گیا"کہا جاتا تھا۔ سورج کی شعاعیں"اسپانٹا(spanta)" کی تخلیق کے لیے مددگار تصور کی جاتی تھیں، اس کے علاوہ مردہ جسم میں موجود شیطانی طاقتوں کی نجاست و آلودگی کو بھرپور طاقت سے جلا ڈلنے والی قوت مانی جاتی تھی۔مزید یہ کہ پرندوں اور درندوں بالخصوص گدوں کے لیے بطور غذا مردے کو پیش کرنے سے فاسد و ناقص گوشت تیزی سےنیست و نابود ہوجاتا تھا۔بعض اوقات گھنٹوں کی جگہ منٹوں میں گوشت کا صفایا ہوجاتایوں زمین ،آگ اور پانی آلودہ ہونے سے بچ جایا کرتے تھے۔

اس رواج کے مکمل ہوجانے کے بعد اگلا مرحلہ کتے کی منہ دکھائی(سگ دید) کی تقریب منعقد کی جاتی تھی۔ اس کے لیےایک ایسا کتّا چنا جاتاجس کی چار آنکھیں (دو آنکھوں والا ایسا کتا جس کی آنکھوں کے عین اوپر دھبے ہوں) ہوں مردے کے چہرے کے عین سامنے لا کر کھڑا کردیا جاتا تاکہ وہ اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہے۔اس رسم کی بہت سی توجیہات پیش کی جاتی تھیں، قدیم دور میں اس بات کو جانچنے کے لیے یہ عمل کیا جاتا کہ مردے میں زندگی مفقود ہوچکی ہے یا ابھی اس کے کچھ آثار باقی ہیں۔سگ دید کی رسم متعدد مرتبہ دہرائی جاتی تھی۔ پہلی منہ دکھائی کی رسم کے بعد آگ کو کمرے کے اندر گلدان نما برتن میں جلایا جاتا تھا۔عمومی طور ہر مذہبی پیشوا آگ کے روبرو بیٹھ کر مقدس تحاریر پڑھتے ہوئے سندل کی لکڑی اور بَخُور یا لُبان کی خوشبودار دھونی سے آگ کو مسلسل روشن رکھتےتھے۔

تقریباً ایک گھنٹے تک یا مردے کے جسم کو لے جانے سے پہلےدو شخص اور جسم بھاری ہونے کی صورت میں چار افراد لوہےکاتابوت تھامےہلکی آواز میں مردے کے جسم کی سپردگی کے عزم کو دہراتے ہوئےکمرے میں داخل ہوتے اور تابوت کو مردے کے برابر رکھ کر خاموشی سے برابر میں بیٹھ جایا کرتے تھے یہ افراد سوائے چہرے کےپورے جسم پر سفید پوشاک زیب تن کرتے تھے ۔مردے کو اٹھانے والوں کا اس عزم کو دہرانا آہورا مزدا (Ahura Mazdā)اور دیگر خدائی قوتوں کی اجازت لینے، اور ماضی و حال کے اہم مذہبی پیشواؤں کو اس عمل میں شامل کرنے کے سلسلے میں لازمی قرار دیا جاتا تھا۔

دوپجاری کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر"اہوناوئریا (Ahuna Vairya)"کی عبارات پڑھا کرتے تھے۔ آدھی عبارات پڑھنے کے بعد ایک منٹ کا وقفہ لیا جاتا جو اس بات کی علامت سمجھا جاتا کہ مردے کے جسم کو پتھر کی سلوں سے اٹھا کر لوہے کےتابوت پر رکھ دیا جائے۔جب پجاری اپنی بقیہ مذہبی عبارات مکمل کرلیا کرتے توسگ دید کی رسم دوبارہ دہرائی جاتی اور اس وقت گھر میں تمام افراد جمع ہوتے اور متوفی کا آخری دیدار کرتے اور اسے عزت و توقیر سے نوازتے تھے۔

آخر میں مردے کے جسم کو تابوت میں بحفاظت کپڑوں میں باندھ کر تابوت میں رکھ کر دخمہ کی جانب لے جایا جاتا تھا۔ دخمہ ایک بہت ضخیم گول برج نما عمارت کہلاتی تھی جسے عموماً بلند سطح یا کسی پہاڑ پر تعمیر کیا جاتا تھا۔ اس میں مردوں کے اجسام سورج کی روشنی میں اور پرندوں کے کھانے کے لیےکھلے رکھ دیے جاتے تھے۔ برج میں داخل ہوتے وقت آخری بار سگ دید کا عمل ایک بار پھر دہرایا جاتاتھا۔ اس کے بعد مردے کے تمام کپڑے اتار دیے جاتے اور اسے سورج کی روشنی میں گدھوں کی خوراک کے لیےبرہنہ رکھ دیا جاتا تھا۔ جب جسم کا گوشت مکمل ختم ہوجاتا تو جسم کی بقیہ ماندہ ہڈیوں کوخشک ہونے کے لیے کچھ وقت چھوڑ دیاجاتا ، اس کے بعد چونے اور فاسفورَس سےبھرے ہوئےگہرے کنویں میں ان ہڈیوں کو پھینک دیا جاتا تھا۔25

ہرمرنے والے مرد اور عورت کے ساتھ ہی یہ بھیانک اور گھناؤنا فعل کیا جاتا تھا جسکے بارے میں صرف پڑھنے سے ہی انسانی روح کانپ اٹھے ،زرتشتیوں نے نہ تو کبھی اس گھناؤنے فعل سے اجتناب برتا اور نہ ہی کبھی اس پر کوئی علمی انداز میں غور و فکر کرنےکی کوشش کی جس آ گ، پانی، ہوا اور مٹی کو مقدس گردانتے ہوئے وہ اپنے مردے کے ناپاک وجود سے انکومحفوظ کرنے اور رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے یہ وہ ہی ساری اشیاء ہیں جن کو اللہ نے اس انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے اسکی خدمت کے لیے بنایا تھا ،زرتشت اور دوسرے تمام اہل دانش جنہوں نے وحی الہی سے ہٹ کر کوئی فلسفہ یا نظام دیا اس میں ہمیں اسی طور کی گھناؤنی حرکتیں اور خوفناک رسومات عام نظر آتی ہیں ،جن کا بطلان اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ کیااور وہ اہل فارس جو اس قسم کے گھناؤنے عمل کو مذہبی نام دیکر کیا کرتے تھے ،انہیں انسانی جسم اور روح کی پاکیزگی کے پورے فلسفے سے روشناس کرایا جسکے نتیجے میں جوق در جوق اہل فارس حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ایسی تمام خرافات سے اللہ نے انکو نجات دی ۔

قربانی

قدیم اہل فارس اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ خداؤں کو خوش کرنا ایک ضروری امر ہے یوں وہ اپنی نوازشات اور برکات کے دروازے انسان پر کھول دیتے ہیں۔ جب انسان کھیتی باڑی کے کام میں مالی طور پر مستحکم ہوجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے باغ میں سے پھلوں اورمویشیوں کو بطور شکرانہ خدا کے حضورقربانی کے لیے پیش کرے۔ انسانوں کی بڑھتی ہوئی ترقی و خوش حالی کے ساتھ بیش قیمت کھانے کی اشیا کے استعمال سے مختلف مہنگے پکوان اور شراب تیار کی جاتیں اور انھیں خدا کے حضور مناجات کرتے ہوئے اس مقدس مقام پر جہاں اس مذہبی رسم کا عمل کیا جانا قرار پاتا، اس عقیدے کے ساتھ آگ پر پکنے دیا جاتا کہ ہماری قربانی آگ کے ذریعے جنت میں منتقل ہوجائے۔ خداؤں کے علاوہ قدیم فارسی باشندے فوت شدہ افراد کے لیے بھی بھینٹ پیش کیا کرتے تھے۔ فارسی افراد قربانی کے لیے دودھ، پگھلا ہوا مکھن،اناج، سبزیاں، بھیڑ اور بکری کا گوشت، گھوڑے ، بیل اور خوش کرنے والا "سوما۔ہاؤما (Soma-Haoma)"نامی قیمتی مشروب تیار کیا کرتے تھے۔یہ تمام رسومات انتہائی محنت و مشقت اور دل جمعی کے ساتھ اداکی جاتی تھیں تاکہ ان کی دعائیں اورقلبی خواہشات مقبول ہوں، ان کے گناہ معاف ہوں اور جہنم کے عذاب سے خلاصی حاصل ہوسکے۔اس کے بعد قربانی دینے والےافرادنذرانے کے لیے پیش کیے گئے پکوان اور مشروبات کو تناول کرتے تاکہ انعام سے لطف اندوز ہوا جاسکے۔ قربانی کے لیے مختص مقام پر نذر کیے گئے جانوروں کے خون کی بو ہر طرف پھیلی رہا کرتی تھی۔ان کا یہ نظریہ تھا کہ زرتشت ان قربانیوں کے بدلے ان کی عبادات کو پاک کرتا ہے۔

زمانہ بعد کی اوستائی تحاریر(Avestan Text) میں قربانی پیش کرنے کی تقریب کو ترتیب دینے اور قائم کرنے کےفرائض انجام دینے کے لیےمخصوص افراد معین ہوا کرتے تھے۔ اس گروہ کے سربراہ کو "زاؤٹر(Zaotar)" یعنی قربانی پیش کرنے والا کہا جاتا تھا۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ زاؤٹر آہورا مزدا (Ahura Mazdā)کے جلوے کو تلاش کرتا اور اس سے دیرپا رابطہ قائم رکھنے میں معاون و مددگار ہوا کرتا تھا۔ اوستائی تحاریر(Avestan Text) میں قربانی کے لیے پیش کیے جانے والے پکوان اور مشروبات کو"میزدا (myazda)" کہا جاتا تھا۔اس میں یہ بھی تحریر تھا کہ "میزدا" کے ذریعےآہورا مزدا (Ahura Mazdā)اور آشا (Asha)کو خراج عقیدت اور عہد وفاداری پیش کرنے والا ایماندار اور ثابت قدم نمک حلال شخص ہی پیش کرنے کے لائق تھا۔بعد کے دور میں "دراؤناہ (Draonah)"نامی مقدس کُلچَہ قربانی کے لیے لازمی شے مقرر کردی گئی تھی۔ 26

تہوار

قدیم 1000سالہ قبل مسیح دور سے تعلق رکھنے والی اوستائی تحاریر (Avestan Text) اس جانب بھی اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ فارسی چھ (6)مختلف موسمی تہوار قدیم روحانی زراعتی جنتری (کلینڈر) کو مد نظر رکھتے ہوئے منایا کرتے تھے۔اوستائی(Avestan) مقولہ "یائریااساہےرتاؤ( yāiriia aṣ̌ahe ratauuō) "میں جس کا معنی "موسمی "اور"صحیح اوقات " تھا، دونوں مذہبی تہوار اور ان کے اوقات تفصیل سے درج تھے۔ فارسی عبادتی تحاریر "افریناگنی گہنبار(Afrınaganı Gahanbar)میں ترتیب وار تین (3)مذہبی تہواروں کی تاریخ درج تھیں جن کی شروعات بہار کے موسم کے درمیانی حصہ"مئےدیوئی زرےمئیا(Maidiioi.zarəmaiia)"سے ہوا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر پانچ (5)تہواروں کی تفصیل یہ ہے: "مئےدیوئی سیما(Maidiioišəma)"گرمیوں کے دریانی حصہ میں؛"پائےتشاہیا(Paitišhahiia)" فصل کاٹنے کے وقت؛"ایاتھریما(Aiiāθrima)" مویشیوں کے واپس آنے؛ اور "مئےدیائےریا(Maidiiāiriia)"سال کے درمیانی حصہ یعنی سردیوں میں منائے جاتے تھے۔ اور سال کا سب سے آخری مذہبی تہوار موسم بہار سے پہلے منایا جاتا تھا جسے "ہاماسپتھ مئےدائیا(Hamaspaθ‐maedaiia)" کے نام سےموسوم کیا جاتا تھا لیکن اس لفظ کے معنی واضح نہیں تھے۔ تہواروں کے متعلق ابتدائی تحاریر میں "ہاماسپتھ مئےدائیا(Hamaspaθ‐maedaiia)" تہوار کو منانے کی مدت دس (10)یوم درج تھی۔ یہ تہوار زندہ، مرجانے والے اور آئندہ پیدا ہونے والی تمام پاک روحوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اس تہوار میں "فراؤیوے سیس (frauuaṣ̌is)"کاادب و تعظیم اور چڑھاوے کے ساتھ استقبال کیا جاتا اور زندہ اور مرجانے والوں کی روحوں میں برکت داخل کرنے کے لیے مناجات پیش کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس کو منانے کا مقصد دنیا میں خوشحالی اور فائدے کی راہ کوہموار کرنا تھا۔ 27

ان تہواروں میں کچھ ایسے امور بھی ترتیب دئے جاتے کہ ان چھ (6)موسمی تہواروں میں سے ہر ایک کسی ایسی تخلیق کی جانب منسوب ہوجائے جس کا تعلق "امئےسا سپینتاز (Aməṣ̌a Spəṇtas)"سے ہو۔ ان میں"مئےدیوئی زرےمئیا(Maidiioi.zarəmaiia)"نامی تہوار کو آسمان سے نسبت دی جاتی تھی اور بعد میں آنے والے بقیہ پانچ تہواروں کو بالترتیب پانی ، زمین ، پودے، جانور اور انسانوں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ آگ زرتشت کی تخلیق کائنات میں ساتواں عنصر تصور کیا جاتا تھا اور اس کی عبادت" جشن نوروز (Nowrūz)" میں کی جاتی تھی جس کا معنی "نیا دن" کیا جاتا تھا۔فارسیوں کے نزدیک جشن "نوروز "سال کا پہلا دن ہوا کرتا تھا۔اس تہوار کے متعلق یہ تاثر قائم تھا کہ یہ بہت قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے ، بہرحال اس کا ذکر کسی اوستائی تحاریر (Avestan Text)میں نہیں ملتا۔ زرتشت مذہب جس طرح عروج پاتا رہا ، جشن" نوروز "کی حیثیت بھی اسی طرح بڑھتی چلی گئی اور اس میں آہورا مزدا (Ahura Mazdā)کی تخلیقی عمل کی خوشیاں منائی جاتی تھیں۔

مہراگن(Mehragan) نامی تہوارجسے قدیم پارسی "متھراکنا(Mithrakana)" کے نام سے جانتے تھے، سال کے ابتدائی اہم تہواروں میں سے ایک تصور کیا جاتا تھا۔ جشن نوروز موسم بہار کے درمیانی حصے میں منایا جاتا تھا۔ اصل میں فارسی، ہندی آریاؤں کی طرح نئے سال کی ابتدا کا وقت موسم بہار کے اختتامی وقت کو تصور کیا کرتے تھے، یوں "متھرا (Mithra)"کا سالانہ تہوار بقیہ تہواروں میں اہم تصور کیا جاتا تھا۔ قدیم فارسی دور میں "متھراکنا" اور "نوروز" ریاستی سطح پر منائے جانے والے تہواروں میں اہم سمجھے جات تھے۔ قدیم فارسی تہوار "مہراگن" اس وقت اپنے عروج کو پہنچ جاتا جب ایک بیل کو مذہبی رسم کے طور پر قربان کردیا جاتا تھا۔ فارسی باشندے زرتشی "مہراگن"نامی تہوار جانوروں کی قربانی کر کے منایا کرتے تھے، عموماً ان جانوروں میں بھیڑ اور بکری شامل ہوتی تھیں۔"مہراگن" ایک ایسا تہوار تھا جس میں پجاری آہورا مزدا (Ahura Mazdā)کی رسمی عبادت کو ترک کیا کر تے اور اسے متھرا کی جانب منسوب کیا کرتے تھے۔ 28 فارسیوں کے دیگر مذہبی تہواروں کے متعلق سیرت انسائکلو پیڈیا کی پہلی جلد میں زرتشت کے باب کے تحت تفصیلات ذکر کی گئیں ہیں۔

قدیم فارس میں ادا کردہ مذہبی عبادات کے ذریعے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی کہ وہ بہت زیادہ پاک اور معقول ہیں لیکن اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ تمام رسومات انسانیت اور انسانی معاشرے کی تذلیل کا باعث تھیں۔ فارسی باشندے اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ ان مذہبی رسومات کی ادائیگی سے خدا خوش ہوتا ہے حالانکہ خدا کے خوش اور غضبناک ہونے کا معیار انسانی پسند و ناپسند پر مبنی اعمال نہیں بلکہ خدا کی نازل کردہ وحی ، شریعت، الحامی قانون اور وقت کے پیغمبر کا اسوہ اور طرز عمل ہوا کرتا ہے۔ اس حقیقت سے ان کے بعض پجاری اچھی طرح واقف تھے لیکن ذاتی مفادات اور دنیاوی فائدے کی خاطر لوگوں کو لگے بندھے انداز میں رسوم و رواج کا پابند بنا ئے رکھنا شاید ان کی مجبوری تھی یا پھر حق سے نا واقفیت یا جہالت کی وجہ سے وہ خدائی اور انسانی احکامات و معاملات میں فرق کے تمیز سے نابلد تھے ۔انہیں وجوہات کی بنا پر قدیم فارسی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا۔

 


  • 1 پروفیسر آرتھرکرسٹن سین، ایران بہ عہد ساسانیان (مترجم: ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، پاکستان، 1992ء، ص:210-212
  • 2 Quoted by Afshin Tavakoli in the Daily Iran Newspaper, Dated: 16th May 2004, The Circle of Ancient Iranian Studies: http://www.cais-soas.com/CAIS/Archaeology/Ashkanian/verjuy_mithra_temple.htm Retrieved: 04-03-2019
  • 3 John Curtis & Nigel Tallis (2005), Forgotten Empire: The World of Ancient Persia, The British Museum Press, London, U.K., Pg. 151-152.
  • 4 S. A. Nigosian (1993), The Zoroastrian Faith: Tradition & Modern Research, McGill-Queen’s University Press, Montreal, Canada, Pg. 108.
  • 5 Mary Boyce (1975), Journal of the American Oriental Society: On the Zoroastrian Temple Cult of Fire, American Oriental Society, Michigan, USA, Vol. 95, No. 3, Pg. 455.
  • 6 Maneckjee Nusservanji Dhalla (1938), History of Zoroastrianism, Oxford University Press, New York, USA, Pg. 70.
  • 7 ایک سفید کپڑے کا ٹکڑا جسے فارس کے پجاری اپنے منہ کو ڈھانپنے کے لیے پہنا کرتے تھےتاکہ مقدس آگ ان کی سانس سے آلودہ نہ ہوجائے ۔
  • 8 Albert De Jong (1997), Traditions of the Magi: Zoroastrianism in Greek and Latin Literature, Brill, Leiden, Netherlands, Pg. 150.
  • 9 John Curtis & Nigel Tallis (2005), Forgotten Empire: The World of Ancient Persia, The British Museum Press, London, U.K., Pg. 152.
  • 10 Mary Boyce (1990), Textual Sources for the Study of Zoroastrianism, The University of Chicago Press, Chicago, USA, Pg. 56-57.
  • 11 Mary Boyce (1990), Textual Sources for the Study of Zoroastrianism, The University of Chicago Press, Chicago, USA, Pg. 58.
  • 12 علی عباس جلا لپوری ،کائنات اور انسان ، مطبوعہ:تخلیقات ،لاہور ،پاکستان ،2004ء،ص:14
  • 13 علی عباس جلا لپوری ،رسوم اقوام، مطبوعہ:تخلیقات ،لاہور ،پاکستان ،2013ء،ص:71
  • 14 پروفیسر آرتھرکرسٹن سین، ایران بہ عہد ساسانیان (مترجم: ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، پاکستان، 1992ء، ص:189-191
  • 15 George Foot Moore (1912), The Harvard Theological Review: Zoroastrianism, Harvard Divinity School, Massachusetts, USA, Vol. 5, Pg. 190.
  • 16 S. A. Cook, F. E. Adcock, M. P. Charlesworth & N. H. Baynes (1934), The Cambridge Ancient History: The Imperial Crisis and Recovery, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Vol. 12, Pg. 119.
  • 17 پروفیسر آرتھرکرسٹن سین، ایران بہ عہد ساسانیان (مترجم: ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، پاکستان، 1992ء، ص:189
  • 18 علی عباس جلا لپوری ،کائنات اور انسان ، مطبوعہ: تخلیقات ،لاہور ،پاکستان ،2004ء،ص:40
  • 19 John Curtis & Nigel Tallis (2005), Forgotten Empire: The World of Ancient Persia, The British Museum Press, London, U.K., Pg. 151.
  • 20 ڈاکٹر محمد طاہر القادری ،سیرۃ الرّسولﷺ ،ج- 4، مطبوعہ: منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور ،پاکستان، 2013ء، ص:476-480
  • 21 S. A. Nigosian (1993), The Zoroastrian Faith: Tradition & Modern Research, McGill-Queen’s University Press, Montreal, Canada, Pg. 98.
  • 22 Ibid, Pg. 99.
  • 23 Mary Boyce (1996), A History of Zoroastrianism: The Early Period, Brill, Leiden, Netherlands, Vol. 1, Pg. 326-327.
  • 24 روایت کی رو سے"کنوٹ پل(Cinvat Bridge)"کا معنی"تفریق کرنے والاپل" کیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اسے"جوڑنے والا یا جمع کرنے والا" کہاجاتا ہے۔ یہ پل اس دنیا سے دوسری دنیا تک رہنمائی فراہم کرتا ہے، تمام مرجانے والے جانداروں کی ارواح کو اس پل سے گزرنا لازم ہے۔یہ پل کائنات سے پہاڑ کی بلند ترین سطح "ہربرز(البرز)" پر واقع ہےجسے Čagād ī Dāitī کہا جاتا ہے، اس کاجنوبی حصہ جنت جانے والے راستے کی جانب رہنمائی فراہم کرتا ہے، دوسرا حصہ شمال کی جانب جبکہ اس پل کے نیچے، زمین کی تہہ میں، جہنم واقع ہے۔[Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/cinwad-puhl-av Retrieved: 03-03-2019.
  • 25 S. A. Nigosian (1993), The Zoroastrian Faith: Tradition & Modern Research, McGill-Queen’s University Press, Montreal, Canada, Pg. 102-103
  • 26 Maneckjee Nusservanji Dhalla (1938), History of Zoroastrianism, Oxford University Press, New York, USA, Pg. 73-74.
  • 27 Michael Stausberg, Yuhan Sohrab – Dinshaw Vevaina & Anna Tessmann (2015), The Wiley Blackwell Companion to Zoroastrianism, Wiley-Blackwell, Oxford, U.K., Pg. 380-381.
  • 28 Richard Foltz (2013), Religions of Iran: From Prehistory to Present, Oneworld Publications, London, U.K., Pg. 29-30.