Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

قدیم مصر کےمذہبی عقائد

قدیم مصریوں کےعقائد مشرکانہ تصوّرات ات پر مبنی تھے اوران کے ساتھ متعدد رسومات کا ایک پیچیدہ گٹھ جوڑ تھا۔ یہ تمام تصوّرات مصری تہذیب کا ایک لازمی حصہ تصوّرات کیے جاتے تھے۔ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ ان کے لاتعداد معبودان باطلہ قدرتی طاقتوں کے زیر اثر ہیں اور وہ ہر امر سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے دیوتاؤں کو اس امید کے ساتھ پوجتےاور ان کے نام پر چڑھاوے دیتےتھے کہ اس کے بدلے دیوتا انہیں اچھا انعام دیں گے۔ عام طور پر مذہبی رسومات بادشاہانِ مصر کی زیر نگرانی ادا کی جاتی تھیں۔ بادشاہ کے بارے میں یہ تاثر قائم تھا کہ وہ بادشاہت کے منصب پر براجمان ہونے کی وجہ سے خدائی طاقت کا حامل ہوتا ہے۔ فرعون مصر لوگوں اور خداؤں کے درمیان ایک وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔ اس قوم کے پاس انبیاء کرام بھی تشریف لائے جنہوں نے انہیں سیدھی راہ پر چلنے کی دعوت دی تھی لیکن بہت کم ایسے لوگ تھے جنہوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ کثیر لوگوں نے انبیاء کرام کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور صدیوں تک گمراہی و بے دینی میں پڑے رہنے کے سبب اپنی دنیا اور آخرت برباد کر بیٹھے تھے۔

مصریوں نے بھی دیگر قدیم اقوام کی مثل اپنے خداؤں کو ارد گرد موجود قدرتی مظاہر میں ڈھونڈا تھا۔ان کے نزدیک درخت، چشمے، پتھر، پہاڑ، پرندے اور دیگر درندے انسان کی مثل مخلوق ہی تھے لیکن وہ ایسی پوشیدہ طاقتوں کے حامل تھے جو انسان کے پاس موجود نہیں تھیں۔ ان طاقتوں سے مرعوب ہوکر قدیم مصریوں نے مظاہر قدرت اور جانداروں کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔1یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ مذہب قدیم مصری تہذیب کا بنیادی حصہ تھا اور وہ اپنی مذہبی رسومات انہیں عقائد کے مطابق انجام دیتے تھے۔مذہبی عقائد ریاستی سطح پر مانے جاتے تھے ۔ ان کا بادشاہ خدا اور مصری عوام کے درمیان تعلق قائم کرنے کا وسیلہ تصوّر کیا جاتا تھا، ان کے معابد بادشاہوں کی تکریم و تعظیم میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ اس حوالے سے بھی نایاب ثبوت ملے ہیں کہ عام لوگ اپنے بزرگوں اور خاص دیوی دیوتاوٴں کی عبادات گھروں میں انجام دیتے تھے۔

قدیم مصری بت پرست بھی تھے۔ یہ لوگ دو ہزار سے زیادہ دیویوں اور دیوتاؤں کو پوجتے تھے۔ 2ایک اور روایت کے مطابق مصری 2200دیوتاؤں کی عبادت کرتے تھے۔ ہر گاؤں ،قصبہ اور شہر کا خدا الگ تھا اور ہر دیوتا کی ایک بیوی بھی تھی۔ شیطان کے وجود کو بھی مانا جاتا تھا۔3ان دیویوں اور دیوتاوٴں کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا جنت اور زمین کے نیچے موجود ہیں ۔ کچھ مصری یہ عقیدہ بھی رکھتے تھےکہ آسمان ایک دوست نما وسیع و عریض گائے ہے جو انسانوں کے اوپر موجود ہے اور اسے دیوتاؤں نے اٹھا رکھا ہے۔ سارے ستارے اس کے پیٹ پر موجود ہیں جس کے نیچے سے روزانہ سورج طلوع ہوتا ہے۔ دیگر لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ جنت ایک انتہائی لمبی عورت ہے جو دنیا کے اوپر جھکی ہوئی ہے اور اسے ایک دیوتانے اٹھا یا ہوا ہے۔ سورج کو بھونرا یا پروں والی ڈسک سمجھتے تھے جو اس لمبی عورت کے بدن اور ٹانگوں کے نیچے موجودہے۔4 قدیم مصری قوم کے لیے خداؤں کی تعداد میں کثرت کوئی پریشانی کا باعث نہیں تھی ۔ وہ لوگ تو بعض اوقات پرانے خداؤں کو نئے خداؤں کی محبت میں چھوڑ بھی دیا کرتے تھے۔5

دیوی اور دیوتا

قدیم مصری تہذیب میں سینکڑوں دیویوں اور دیوتاؤں کا تصوّر موجود تھا۔ مصر کے خداؤں کی تین خاص اقسام تھیں۔ ان میں گھریلو، شہری اور ریا ستی خدا شامل تھے۔6ان تمام دیوتاؤں کی تفصیل درج ذیل ہے:

آتوم(Atum)

اسم آتوم(Atum) کلیت کا تصوّر ان معنوں میں دیتا تھا کہ یہ ایسی اکملیت ہے جو قطعی ہے اور ناقابل تبدیل ہے۔ آتوم(Atum) کو "ہیلیپو لیس کے دیوتا (Lord of Heliopolis) "کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا جو سورج کی پرستش کاسب سے بڑا مرکز تھا۔ مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ سب سے پہلے آتوم (Atum)پانی سے بذات خود وجود میں آیا، پھر اس نے مصر کے متعدد خداؤں کو تخلیق کیا تھا۔7

خداوٴں کو پیدا کرنے کے لیےآتوم (Atum)نےاپنے عضو تناسل کو ہاتھ میں پکڑا اور اسے جنسی تسکین کے عروج تک پہنچایا، جب وہ تسکین پاگیا تو اس سے نکلنے والے قطروں سے مزید دیوتاوٴں کی پیدائش ہوئی تھی گویا مشت زنی کی تاریخ کی ابتداء مصریوں کے سب سے پہلے خدا یعنی آتوم (Atum)سے شروع ہوئی تھی اور ہر دور میں اس لعنتی فعل کو کرنے والوں کا اولین استاد مصریوں کاخود ساختہ خدا آتوم (Atum)تھا جس نے سب سے پہلے اس فعل قبیح کی ابتداء کی جسکے کرنے والے کو حدیث ِرسول ﷺ میں ملعون قرار دیا گیا ہے ۔مخلوقات کو پیدا کرنے میں ہاتھ کے استعمال کا یہ طریقہ خط ِتصویر یعنی ہیرو گلافس (Hieroglyphs)میں خدا کے نام سے لکھا ہے۔ اس کے بعد آتوم(Atum)کے نطفہ سے دو اولین روحانی قوتیں"شو (Shu)" اور "تفنوت(Tefnut) "پیدا ہوئیں۔ یہ دونوں روحانی قوتیں بقیہ تمام دیوتاؤں کی آباؤ اجداد قرار پائی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک ملی جلی لیکن قدرے مختلف تفصیل یہ بھی ہے کہ آتوم (Atum)کی جو اولاد پیدا ہوئی وہ "شو (Shu)" اور "تفنوت(Tefnut) " کے ناموں سے ملتےجلتے اسماء پر مشتمل تھی۔یہ دونوں خدائے آتوم (Atum)کے نطفہ کےتصوّرات کومزید آگے بڑھانے کا سبب بنی تھیں ۔8

شو (Shu) اور تفنوت(Tefnut) کو ایک منفرد سائیکل نما سواری پر لے جایا گیا پھر ان کے ملاپ سے ایک بیٹا "گب(Geb) ،دنیا کا خدا" اور ایک بیٹی "نوت(Nut)،آسمان کی دیوی" پیدا ہوئے۔ ان کے آنے سے کائنات کے مختلف عناصرجیسے روشنی، ہوا ، نمی، زمین اور جنت کی تکمیل ہوئی تھی حالانکہ پانی ،پانی کے موجود ہونے کی جگہ اور سائیکل نما وہ سواری جس پر شو اور تفنوت سوار ہوئے تھے وہ اوپر بیان کردہ تفصیل کے مطابق پہلے سے موجود تھے ۔"گب(Geb)" اور "نوت(Nut) "کے مزید دو بیٹے "اوزیریس(Osiris)"اور سیتھ(Seth) " اور دو بیٹیوں "ایزیس (Isis)" اور"نفتیس(Nephthys)" کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہ چاروں کائناتی دیوی دیوتا نہیں تھے۔ ان خداؤں نےتسعی ہیلیپولیٹن (Heliopolitan Ennead) مصری علم الاساطیر میں 9 دیوتاؤں کے مجموعے کو ترتیب دیا تھا۔ یہ ہیلیپولیٹانی نظریہ آفرینش کائنات کے پیدا ہونے اوربننے کے متعلق نظریہ کے اساطیر کی اختراع کے حوالے سے سب سے مشہور روایت مانی جاتی ہے۔ اوزیریس(Osiris) کی ایزیس(Isis)سے شادی ہوئی، اور سیتھ(Seth) نفتیس(Nephthys) کا شوہر ہوگیا تھا۔خاندان اوزیریس(Osiris)کی یہ اساطیر قدیم مصر کی مذہبی روایات میں سے سب سے قوی ماخذ کے طور پر جانی جاتی ہے۔9

خدائے آتوم(Atum) کو مصر کے بادشاہوں کا باپ بھی کہا جاتا تھا۔ اسی لیے آتوم(Atum) سے حفاظت کی دعا اس اہرام کے لیے مانگی جاتی تھی جہاں پر بادشاہ کو دفن کیا جاتاتھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ حیات بعد الموت میں آتوم (Atum)اپنے بیٹے (مردہ بادشاہ) کو گلے لگاتا ہے اور اسے آسمانوں کی طرف کواکب کے سربراہ کے طور پر لے جاتا تھا۔ بادشاہ کے متعلق یہ بھی تصوّرات قائم تھا کہ جادو کی طاقت استعمال کرنے سے اس کی طاقت آتوم(Atum) کی قوت سے بڑھ سکتی ہےاور وہ خود سب سے اعلی دیوتا بن کر آتوم(Atum) کی طرح تمام دیوتاؤں پر راج کر سکتا ہے۔ سیاسی طور پر آتوم (Atum)دیوتا کے لیے لازمی تصوّرات کیا جاتا تھاکہ وہ بادشاہ کی رسم تخت نشینی میں بذات خود موجود ہوتاتھا۔ اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ آتوم (Atum)ہی اصل خالق تھا اور فرعونی طاقت کا اصل ماخذتھا۔10 جو کہ ایک نہایت ہی غیر سنجیدہ اور بے بنیاد بات تھی کیونکہ جو خود اپنے وجود میں آنے کے لیے دوسری اشیاء کا محتاج ہو وہ خدا اور قادر مطلق ہونا تو درکنار بلکہ محتاج اور دوسروں پر انحصار کرنے والا ہوتا ہے جیسا کہ آتوم (Atum)کی تاریخ سے واضح ہے ۔

اوزیریس (Osiris)

اوزیریس (Osiris)زمین کا دیوتا اور آسمان کی دیوی کی وہ اولاد تھا جس نے انسان کے روپ میں مصر کی پہلی بادشاہت سنبھالی اور اپنی خدائی فطرت کا اظہار شفقت اور محبت سے کیا تھا۔ 11اس کے جسم کو ممی کی پٹیوں میں لپٹا ہوا دکھایا جاتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں بادشاہت کا عصا ہوتاہے۔ اس کے تاج کو آتیف(Atef) کہا جاتا تھا۔ اس کی بنیاد بھیڑ کے دو سینگوں سے بنی ہوئی تھی جس کے اوپر ایک لمبا مخروطی مرکز ی پارہ موجود تھا جو کہ دونوں طرف پروں کو سہارا دیے ہوئے تھا۔ 12

پتاح (Ptah)

پتاح(Ptah) جس کو" فتھاح"(Phthah)بھی کہا جاتا تھا ،چیزوں کی ماہیت تبدیل کرنے والا، براہ راست سورج اور چاند کو بنانے والا مانا جاتا ہے۔ اس کو ہر آغاز کا باپ، آسمانوں کے دیوتاؤں میں سے پہلااور سچائی کا خدا بھی کہا جاتا تھا جو دنیا کو اپنے ہاتھوں سے ٹھیک کرتا تھا۔13حالانکہ اوپر دی گئی تفصیل کے مطابق پہلا خدا آتوم (Atum)تھا اور اگر یہ سچائی کا تھا تو بعض جھوٹ ،دھو کے اور فریب کے خدا بھی اسکے ہاں موجود تھے ۔

مقامی دیوتا

کچھ دیوتاؤں کو صرف مقامی اہمیت حاصل تھی ۔ان کے خاص مقامات پر مندر موجود تھے جہاں ان کو پوجا جاتا تھا۔ جیسے کہ سوبک(Sobek) مگر مچھ نما دیوتا سیتھ (Seth)کی ہی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اس کے کئی مقامات پر مندر پائے جاتے تھے۔ مونتو(Montu) باز کے سر والا جنگ کا دیوتا مانا جاتا تھا۔ اس کی آرمنٹ (Armant)میں پرستش کی جاتی تھی لیکن عہد شاہی کے گیارہویں دور میں مونتو(Montu)دیوتا کو شاہی سلسلوں کے محافظ کے طور پر مانا جانے لگا تھا۔

گھریلو دیوتا

کچھ دیوتا ایسے بھی تھے جو صرف گھروں کی حد تک پوجے جاتے تھے۔ ان میں سے مشہور ترین خدا بیس(Bes) اور اس سے منسلک تاؤرت(Tauert)دیوی تھی۔ظاہری طور پر بیس(Bes)کو ایک بد شکل بونا بنایا گیا تھا جو ایک پروں کا تاج پہنا ہوا تھا۔ یہ دیوتا بچوں کی حفاظت کرتا اورعورتوں کی وضع حمل کے وقت ان کی حفاظت کرتا تھا۔ تاؤرت(Tauert)دیوی کو ایک حاملہ سمندری گینڈی کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔یہ زرخیزی کی علامت تھی اور تمام عورتیں خواہ ان کا تعلق شاہی خاندان سے ہو یا عام عوام سے، یہ دیوی ان کےوضع حمل میں مدد کرتی تھی۔ 14

حاپی(Hapi)

ابتدائی شاہی دور میں اوزیریس (Osiris)کو دریا یا پانی کا خدا تصوّر کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسے ہیپ (Hap)یا حاپی(Hapi) دریائے نیل یا پانی کے دیوتا کے طور پرتصوّرات کیا جانے لگا تھا۔ دریائے نیل اور نیل دیوتا کا قدیم نام ہیپ (Hap)تھا اور ممکنہ طور پر قدیم مصری باشندوں نے دریائے نیل کو یہی نام دیا تھا۔اس کی قدامت کے بارے میں یہ کہا جاتاتھا کہ یہ شہنشاہی دور سے بھی پہلے پایا جاتا تھا۔اس دیوتا کو ایک مرد کی صورت دی گئی تھی لیکن پستان عورت کے دیے گئے تھے جس سے یہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ اس کے پاس اولاد کی زرخیزی کے حوالے سے طاقت موجود ہے۔ 15

حورس(Horus)

حورس(Horus) شمسی دیوتا تھا جس کا شمار قدیم ترین مصری دیوتاؤں میں کیا جاتا تھا۔ اس کو سونے کا حورس(Horus of Gold) یا حور نبتی(Hor-Nubti) یعنی شیطانی دیوتا ،سیتھ (Seth)کو نیست و نابود کرنے والا کہا جاتا تھا۔ کچھ دیو مالائی کہانیوں میں حورس (Horus)کو ایزیس(Isis) دیوی کا بیٹا بھی قرار دیا گیا ہے اور دیگر مقامات پر حاتھور(Hathor) کا بیٹا قرار دیا گیا ہے۔ اس دیوتا کو بزرگ حورس (Horus the Elder)بھی کہا جاتا تھا جس سے مراد یہ لیا جاتا تھا کہ یہ ایک اچھی قوت ہے جو شیطانی قوتوں سے لڑتی رہتی ہے۔16

حاتھور (Hathor)

حاتھور(Hathor) قدیم مصر میں جنسی محبت کی عظیم ترین دیوی مانی جاتی تھی۔ اس دیوی کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ موسیقی اور رقص کے ذریعے لوگوں کے محبت کے جذبات بھڑکاتی تھی۔ پیار و محبت کی شاعری میں حاتھور(Hathor)دیوی کو سونا یا جنت کی عورت کہا جاتا تھا۔ دیومالائی کہانی کے مطابق حورس(Horus) اور سیتھ(Seth) دیوتا کے درمیان طاقت کی جنگ میں جنوبی مصر کی دیوی نے اپنے روٹھے ہوئے باپ دیوتا را (Ra) کو خوش کرنے کے لیے یہ عمل کیا کہ اس کے سامنے برہنہ اتنا ناچی کہ اس کا والد ہنس پڑا اور ٹھیک ہوگیا۔ حاتھور(Hathor) دیوی کے مذہب میں موسیقی کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔

حاتھور(Hathor) کی تعظیم میں ایک خاص رقص کیا جاتا تھا جس کی تصاویر درباریوں کے مقبروں پر کندہ کی گئی تھیں۔ اس دیوی کی یاد میں ایک مخصوص تہوار بھی منایا جاتا تھا جس میں شہزادیاں رقص کرتی تھیں۔ 17ناجائزجنسی تعلق اور اس طرح کے ناچ گانے ہمیشہ سے انسانوں کی کمزوری اور شیطان کے ورغلانے کا سب سے طاقتور ہتھیار رہا ہے ۔ اس طرح کی بےہودہ رسومات اور اساطیری کہانیوں کا مقصد صرف انسانوں کو سیدھی راہ سے بھٹکا کر گمراہیوں کی اتاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ان قبیح افعال میں ملوث ہوکر انسان معاشرے کی تباہی اور اخلاقی گراوٹ کا سبب بن کراپنی اور ملک و قوم کی تنزلی کا باعث بنتا ہے اور اپنے رب کے نافرمان بندوں میں شامل ہوکر عذاب کا حقدار ٹھہرتا ہےلیکن مصری اہل علم و دانش اور بالخصوص ان کا مذہبی طبقہ کیونکہ خود عیاش اور بد قماش تھا اس لیے انہوں نے ایسی تمام لغویات کو خوب فروغ دیا یہاں تک کہ سگی ماں، بہن اور بیٹیوں تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جس کی بنیاد من گھڑت کہانیوں پر رکھی گئی تاکہ ان کی حرام کاری اور بد فعلیوں کو سند ِجواز میسر آسکے۔

ایزیس(Isis)

ایزیس (Isis)قدیم مصریوں کی دیوی تھی۔اس دیوی کو تمام فراعین مصر کی والدہ تصوّرات کیا جاتا تھا۔ اس کے نام کا ایک مطلب "تخت کی رانی" (Queen of Throne) بھی تھا ۔ اس کی علامات میں بچھو، پتنگ اور خالی تخت شامل تھے۔ تاریخ میں اس دیوی کو ماں، بیوی اور ایک ایسی محافظہ کہ طور پر پیش کیا گیا ہے جو دوسروں کے فائدوں کو اپنے مفاد پر فوقیت دیتی تھی۔ اس دیوی کو تمام دیوتاوٴں کی ماں بھی تصوّرات کیا جاتا تھا۔18اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ مقدس اپیس بچھڑے(Apis Bull)کو بھی اسی نے جنا تھا لہٰذا ایزیس (Isis)دیوی کو ایک گائے کےروپ میں بھی دکھایا جاتا تھا۔اس کے علاوہ عمومی طور پر ایزیس(Isis) کو ایک ایسی عورت کے روپ میں دکھایا جاتا تھا جس کے سر پر گائے کے سینگ اُگے ہوتے تھے۔ 19

انوبیس(Anubis)

انوبیس(Anubis)کو حیات بعدالموت کا رہنما سمجھا جاتا تھا۔ابتدائی ادوار سےمصری لوگوں کا عقیدہ تھا کہ یہ دیوتا حنوط سازی کے مراحل کی صدارت کرتا ہے ۔ اسی بناء پر لوگ اس دیوتا سے مرنے والے کےلیے بہت سی دعائیں کرتے تھے۔20 اس دیوتا کو ایک بیٹھے ہوئے کالے کتے کے طور پر یا ایک کتے کے سر والا انسان دکھایا گیا ہے۔انوبیس (Anubis)دیوتا کے مجسمے کا سیاہ رنگ لاشوں کے گلنے سڑنے کے رنگ اور وادیٴ نیل کی زرخیز مٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رکھا گیا ہے۔ 21

ثالوث(Trinity)

شہر تھیبس (Thebes)میں تین دیوتاؤں کا ایک مجسمہ تھا جسے ثالوث کہا جاتا تھا۔ ثالوث شوہر آمون (Amun) دیوتا، بیوی مَت(Mut) دیوی اور ان دونوں کا بیٹا خونس (Khons) کا مجموعہ تھا۔ مصری دیوتاؤں کے اس مجموعے کو سب سے زیادہ مقدس و محترم مانتے تھےاور یہی وہ تصوّرات ثالوث یا تثلیث(Trinity) تھا جوہندؤں اور رومیوں کے ذریعے عیسائیت میں منتقل ہوا تھا اور اس نے عیسائیت کی توحید پر مبنی حقیقی تعلیمات کو مکمل مسخ کر کے رکھ دیا۔

دیوتا سیتھ(Seth)

سیتھ (Seth)بدی کا دیوتا تصوّر کیا جاتا تھا۔ وہ دیوتا اوزیریس (Osiris)کا ہم زلف تھا اور اسی نے اوزیریس (Osiris)کو دغا دے کر مار ڈالا تھا۔ اس کو ہکسو س (Hyksos)کے لوگ پوجتے تھے اور اس کی ماں ختیاس کے نام پر قربانیاں بھی دیتے تھے۔

مات (Maat)

دیوی مات (Maat) قانون کی دیوی تھی اور سورج دیوتا یعنی را (Ra) کی بیٹی سمجھی جاتی تھی۔ اس کی صورت عورت کی سی تھی جس کے سر پر قانون کا تاج رکھا ہوتا تھا۔

خنسو (Khunsu)

دیوتا خنسو (Khunsu) چاند سے منسوب تھا اور آمون (Amun) دیوتا کا بیٹا تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس کی مورت اس طرح بناتے تھے کہ دھڑآدمی کا اور سر باز کا تھا۔ یہ اپنے سر پر چاند اٹھائے دکھائی دیتا تھا۔ اس کے دیگر ناموں میں نفر (Nafr) اور صتپ (Satp) اہم ہیں۔

خنمو (Khanmu)

دیوتا خنمو(Khanmu)کا دھڑ آدمی اور چہرہ بھیڑ جیسا تھا۔ اس کے سر پر ایک مقدس تاج ہوتا تھا جس کی حفاظت سانپ کرتا تھا۔ اس میں دیوتا آمون(Amun) اور فتاح(Ptah) کی کچھ صفات موجود تھیں۔ مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ خنمو (Khanmu)نے ہی اوزیرس (Osiris)دیوتا کی بکھری ہوئی ہڈیاں جمع کی تھیں۔اس کا بت ہمیشہ ہرے رنگ میں رنگا رہتا تھا۔ 22

ہیکا (Heka)

ہیکا (Heka)وہ دیوتا تھا جو آتوم (Atum)کے اذن سے وقت کی ابتدا میں پیدا ہوا تھا۔ اس دیوتا کی پیدائش کا مقصد کائنات میں اعلی قدرتی قوت کو سرایت کروانا اور دیگر خدائی طاقتوں اور بنی نوع انسان کو کارآمد بنانا تھا۔ اہرامی تحاریر میں ہیکا(Heka)دیوتا کو دھمکانے والی طاقت بھی بتایا گیا تھا۔ بک اوف گیٹز(Book of Gates) میں ہیکا(Heka) کو سورج دیوتا کی کشتی میں سوار رات میں نچلی دنیا میں سے سفر کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ ہیکا (Heka)وہ دیوتا تھا جس نے ایزیس (Isis)کے بیٹے کی تخت نشینی اور علامتی طور پر اپنی ذات کے فرعونِ مصر ہونے کا اعلان اس طور پر کیا جب اس نے ایزیس(Isis) کے بیٹے کو اپنے بازوٴں میں اٹھایا ہواتھا۔ 23

دیگرمذاہب

دیوتاؤں کےعلاوہ بھی اہلِ مصر کے نزدیک کئی مظاہرقدرت،مخلوقات اورشخصیات خدائی درجہ پرفائز تھیں۔ جن کی پرستش اورخوشنودی قدیم مصری باشندوں کی اولین ترجیح تھی۔ اسی بنیاد پر ان کے مذاہب استوارتھے۔

شاہ پرستی

قدیم مصری معاشرے میں سربراہِ مملکت کو خدا کا نائب اور جانشین تسلیم کیا جاتا تھا اور مصری حکمران کو فرعون کا لقب دیاجاتا تھا ۔ اہل مصرکے حکمران کی مرکزی حیثیت کے متعلق غلام باری لکھتے ہیں:

  پرانے مصر کی تہذیب میں فرعونوں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مصر میں فرعونوں کو سورج کا بیٹا خیال کیا جاتا تھا۔ مصر کے دیوتاؤں میں فرعون کو بھی ایک دیوتا تصوّرات کیا جاتاتھا۔ دیگر دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کے لیے بھی الگ مندر بنائے گئے تھے۔ فرعون کے سر کا تاج اس کی الوہیت کا نشان تھا۔ فرعون کی اطاعت ہر مصری باشندے پر فرض تھی۔مندروں کی حفاظت اور قربانی کے لیے کاہن مقرر تھے۔ ان کا ہنوں کا ذریعہء معاش اس جائیداد کی آمدنی تھی جسے فرعون مندروں کے نام وقف کر دیتے تھے۔ 24

حیوان پرستی

قدیم مصری باشندےجانوروں کے مختلف اوصاف کو خدائی صفات تصوّرات کیا کرتے تھے۔فراعین مصر کی تصاویر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل مصر کے نزدیک سانپ طاقت کا منبع تصوّرات کیا جاتا تھا لہذا جملہ فراعین مصر کی تصاویر میں ان کے چہروں کو سانپ کے چہروں کی طرح پیش کیا جاتا تھا یعنی کہ جانوروں کی شکلوں کو بت بناکر اس کی عبادت کی جاتی تھی۔ لہذا مصری قوم میں بت پرستی کی مختلف صورتیں نظر آتی تھیں ۔

پرانے مصری اپنے دیو تاؤں کی شکل و صورت کو اس طرح ظاہر کرتے کہ جسم تو جانور کا اور سر انسان کا ہوتا اور کبھی جسم انسان اور سر جانور کا ہوا کرتا تھا ۔ 25ان کے نزدیک سانپ ، نیولا، گوبر میں پیدا ہونے والا بھنورا، سب کو تقدس حاصل تھا اور تقریبا کل 31 جانور تھے جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔ 26

بعد میں ان دیوتاؤں کوانسانوں کا روپ دیا جانےلگاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی شکل کا مجسمہ بنایا جاتا لیکن اس کو جانوروں والے کچھ نقش بھی دے دئےجاتے تھے۔جیسے کسی دیوتا کا سر کتے جیسا بنایا جاتااور جسم انسان جیسا، یا جسم کسی پرندے کی مانند ہوتا اور دھڑ انسان کی طرح بنایا جاتا تھا۔ 27

کواکب پرستی

مصری قوم آفتاب پرستی میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ کواکب پرستی میں بھی مبتلا تھی۔ مصری اس بات کے قائل تھےکہ ان ستاروں کا انسانی زندگی کے نشیب و فراز میں اہم کردار ہوتا ہے ۔اس کے مثبت اثرات کے باعث خوشیاں نصیب ہوتی ہیں اور منفی اثرات کی وجہ سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ۔لہٰذا ستاروں کے مثبت اور منفی اثرات اور اس کی سعد اور منحوس ہونے کے بارے میں علامہ احمد بن ابی یعقوب اپنی کتاب"تاریخ الیعقوبی"میں رقم طراز ہیں:

  ان کا دین کواکب پرستی تھا ۔ وہ لوگ ستاروں سے فیصلے کرنے والے تھے۔ ستارے سعد اور نحس ہوتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ستارے ان کے وہ معبود ہیں جو انہیں زندہ کرتے ہیں ، رزق دیتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں ۔ 28

اس سے ظاہر ہوا کہ مصری قوم کے نزدیک ستاروں کا انسانی زندگی کے عروج و زوال میں اہم کردار تھاجسے سعادت مندی اور بدبختی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔وہ لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول سے اچھا شگون اور نیک تاثرات بھی لیا کرتے تھے۔یعنی کہ مصری قوم سورج کے غروب ہونے کے بعد سورج دیوتا کو راضی کرنے کے لیے دعا و مناجات کا سلسلہ شروع کردیتی تھی کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن ہم پر حملہ کر دے تو اس خطر ناک خدشہ سے بچنے کےلیے وہ سورج کی پوجا کرنے میں مصروف ہو جاتے اور رات بھر دعاؤں اور التجاؤں میں بسر کرتے تھے۔ مصری قوم کے اس عقیدے کے متعلق بوب برئیر (Bob Brier)رقم طراز ہے:

  Egyptians depended on the goodwill of their gods to give them what they wanted. The disappearance of the sun each night, for example, frightened them into imagining that it made a dangerous journey past enemies who tried to prevent its reappearance in the morning so they made offerings to the gods, prayed.29
  اہلِ مصر اپنے خداؤں کی نیک خواہشات پر انحصار کرکے اُن کی مطلوبہ چیز ادا کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ہر رات جب سورج غائب ہوجاتا تو وہ یہ سوچ کر خوف زدہ ہوجاتے کہ وہ خطرناک سفر کا شکار ہوں گے جس طرح ماضی کے دشمن نے سورج کو دوبارہ طلوع ہونے سے روکا تھا۔ اسی لیے وہ خدا کی خدمت میں نذرانے پیش کرتے اور دعائیں کرتے تھے۔

سیراپس (Serapis)نامی نئے دیوتا کا اضافہ

جب سکندر اعظم نے مصر پر قبضہ کیا تو اس کے بعد بہت سے یونانی لوگ مصر میں آکر رہنے لگے۔ اس وجہ سے حکمرانوں نے یہ کوشش کی کہ کچھ ایسے دیوتا متعارف کروائے جائیں جو مصریوں اور یونانیوں دونوں اقوام کو قابل قبول ہوں ۔ بعد میں جب رومیوں نے مصر پر قبضہ کرلیا تو انہوں نے ایک نیا دیوتا متعارف کرایا جس کا نام سیراپس (Serapis)رکھا گیا ۔یہ دیوتا یونانیوں اور مصریوں کو ایک کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔30اس دیوتا کی صورت یونانی طرز کی تھی لیکن نام مصری رکھا تھا۔ اس کے کچھ نقش آپس بیل (Apis Bull) کی طرح تھے ۔ حالانکہ ان کے حکمرانوں نے بڑی کوشش کی کہ لوگ اس دیوتا کو قبول کرلیں لیکن کچھ عرصہ بعد یونانیوں اور مصریوں کے درمیان بنایا گیا مذہبی اتفاق ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا۔31جہاں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مصری یونانیوں کے مذہب کو مکمل طور پر قبول کرنے میں ناکام رہے تھے وہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ لوگ جب چاہتے تب اپنی مرضی سے ایک نیا خدا خود تخلیق کر لیتے اور سادہ عوام کو بے وقوف بنا کر اسکے چکر اور عبادت میں الجھا کر خوب پیسے بٹورا کرتے تھے ۔وہ اپنے بنائے ہوئے خدا کے خود خالق یعنی حقیقی خدا ہوتے مگر دکھاوے کے لیے اس خود ساختہ خدا کے نام پر قربانیاں اور چندے بھی دیتے تاکہ انکی دیکھا دیکھی لوگ اور نذرانے اور چندے دیں اور وہ چپ چاپ ان کو اپنے ذاتی استعمال میں لے آئیں یہ وہ گورکھ دھندہ تھا جو اسلام کے ماقبل سے تقریبا تمام تہذیبوں میں ہی مشترک تھا جس کا خاتمہ حضور ﷺ کی بعثت ِمبارکہ کے ساتھ ہی ممکن ہوسکا کیونکہ اسلام میں مذہبی پیشواکا باقاعدہ کوئی ادارہ نہیں تھا، صرف علم و تقویٰ ہی انسان کو مقتدا اور پیشوا بنانے کے لئے مطلوب معیار رکھا گیاہے ۔

عقیدہ حیات بعد الموت

قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ انسانی جسم میں ایک خاص قوت موجود ہے۔ اس قوت کو وہ کا(ka) کہا کرتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھاکہ یہ خاص قوت ہر انسان کو را (Ra) دیوتا کے حکم سے پیدا ہوتے وقت ہی مل جاتی ہےاور جب تک انسان زندہ رہتا ہے وہ قوت اس کے ساتھ منسلک رہتی ہےاور جب انسان مرجاتا ہے تو کا(ka) نامی قوت اس کا جسم چھوڑ دیتی ہے۔لیکن مذہبی طور پر اس بات کی امید کی جاتی تھی کہ اس قوت کا جسم کے ساتھ تعلق بدستور قائم رہتا ہےاور کسی وقت بھی وہ جسم کو دوبارہ طاقت بھی دے سکتی ہے۔ اسی لیے مردوں کی قبروں میں کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ رکھا جاتا تھا تاکہ مردہ بھوک اور پیاس لگنے کی صورت میں اسے استعمال کرے ۔ اس کے علاوہ قدیم مصری باشندے روح کو بھی مانتے تھے۔ ان کے نزدیک روح موت کے وقت اڑ کر چلی جاتی تھی کیونکہ وہ ایک پرندہ کی مانند ہوتی ہے۔ وہ اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے تھے کہ ممکن ہےکہ مرنے کے بعد وہ اپنے رشتہ داروں کے قریب دوسرے پرندوں کے ساتھ درخت پر کہیں بیٹھی ہو۔32

بادشاہ کی روح کے بارے میں قدیم مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ موت کے بعد اس کی روح جنت کی طرف کشتی میں سفر کرنا شروع ہوجاتی ہے اور اس کی کشتی میں دیوتا اس کے ساتھ سوار ہوتے ہیں اور کچھ وقت کے بعد وہ بادشاہ خود بھی ایک دیوتا بن جاتا ہے۔ اسی لیے ہر بادشاہ کے مقبرے میں بھاری مقدار میں سامان رکھا جاتا تھا۔ جو لوگ اس کے مقبرے پر کام کرتے وہ بھی اس بات کی خواہش کرتے کہ ان کو اپنے بادشاہ کی ہمیشہ کی زندگی میں سے کچھ حصہ بدلے میں مل جائے۔33

قدیم مصری باشندے بنیادی طور پر بت پرست تھے اور اس بت پرستی میں بھی مختلف نوعیتیں اور اقسام پائی جاتی تھیں۔ مصری قوم میں حکمران کو خد ا کا پسندیدہ ترین نائب اور ترجمان تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس کو خدائی درجہ حاصل تھا کہ اس کی جانب سے پیش کردہ ہر حکم کو الہامی اور خدائی حکم تسلیم کیا جاتا تھا۔یہ تمام مذہبی عقائد اہل مصرکے امراء اور پروہتوں کے خود کے بنائے ہوئے تھے تاکہ وہ عوام کو اپنے قابو میں رکھ سکیں اور سکون سے اپنی تمام غیر روحانی ، جنسی، نفسانی خواہشات کی تکمیل کرسکیں۔ا س کے لیے نہ تو ان کو خود ساختہ خدا بنانے میں کوئی شرم آتی تھی اور نہ ہی خود ساختہ خداؤں کی طرف بدکاری،خود لذتی ،ناچ اور شراب کی نسبت کرنے میں کوئی عار محسوس ہوتی تھی ۔رب تعالی کی بندگی کے واضح اور سیدھے راستے سے لا علمی کی وجہ سے قدیم مصری نفس و ہوا کے پجاری تھے اس لیے جو خدا بھی وہ بناتے ان تمام رزیل صفات سے متصف ہی ہوا کرتا تھا ۔

 


  • 1 James Henry Breasted (1912), Development of Religion and Thought in Ancient Egypt, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 4.
  • 2 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 109.
  • 3 پروفیسر بشیر احمد خان، دنیا کی تاریخ،مطبوعہ:مکتبہ نظامیہ،کراچی،پاکستان، 1907ء،ص:25
  • 4 Samuel A. B. Mercer (1949), The Religion of Ancient Egypt, Luzac & Co. Ltd., London, U.K., Pg. 21.
  • 5 Margaret Bunson (2014), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 150.
  • 6 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 150-151.
  • 7 اس عقیدے کو جو مصری دیوتائی نظام کی بنیاد ہے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ گویا مصری آتوم (Atum)کا خدا پانی کو قرار دیتے تھے کیونکہ آتوم بذات خود وجود میں آنے کے لئے پانی کا محتاج ثابت ہوا اور اسکی تخلیق پانی کے وجود پر مبنی تھی ۔ثانیا اس عقیدے کی بنیاد پر یہ اعتراض بھی بالکل واضح ہے کہ پانی کا وجود سب سے پہلے خدا یعنی آتوم (Atum)سے بھی پہلے موجود تھا اور کیونکہ وہ پانی خود کسی جگہ پر موجود تھا اسلئے وہ جگہ بھی پہلے خود یعنی آتوم (Atum)سے پہلے ہی موجود تھی جو کہ بذات خود ایک کم عقلی کی بات تھی مگر مصری اہل ہنرودانش نہ صرف اس عقیدے پر قائم تھے بلکہ اسکے بیان کو اپنی علمی کاوش سمجھتے تھے حالانکہ اس عقیدہ کی کوئی قابل قبول اصل نہ تھی ۔
  • 8 George Hart (2005), The Routledge Dictionary of Egyptian Gods and Goddesses, Routledge Taylor & Francis Group, New York, USA, Pg. 40-41.
  • 9 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 152.
  • 10 George Hart (2005), The Routledge Dictionary of Egyptian Gods and Goddesses, Routledge Taylor & Francis Group, New York, USA, Pg. 41-42.
  • 11 A. Wiedemann (1902), The Ancient East: The Realms of the Egyptian Dead (Translated by J. Hutchison), David Nutt, London, U.K., Pg. 35.
  • 12 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 152.
  • 13 George Rawlinson (1883), Religions of the Ancient World, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 12-13.
  • 14 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 154.
  • 15 E. A. Wallis Budge (1904), The Gods of The Egyptians, The Open Court Publishing Company, Chicago, USA, Vol. 2, Pg. 42-43.
  • 16 Patricia D. Netzley (2003), The Green Haven Encyclopedia of Ancient Egypt, Green Haven Press, Michigan, USA, Pg. 147-148.
  • 17 George Hart (2005), The Routledge Dictionary of Egyptian Gods and Goddesses, Routledge Taylor & Francis Group, New York, USA, Pg. 64-65.
  • 18 Ancient History Encyclopedia (Online Version): http://www.ancient.eu/isis/: Retrieved: 06-06-17
  • 19 Patricia D. Netzley (2003), The Green Haven Encyclopedia of Ancient Egypt, Green Haven Press, Michigan, USA, Pg. 156-157.
  • 20 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 42.
  • 21 Ian Shaw and Paul Nicholson (2002), The British Museum Dictionary of Ancient Egypt, The American University in Cairo Press, Cairo, Egypt, Pg. 34.
  • 22 انجینئرمحمد فرقان سنبھلی، مصرِ قدیم، مطبوعہ: اسلامی کتاب گھر، دہلی ، انڈیا،2003ء، ص:55ـ67
  • 23 George Hart (2005), The Routledge Dictionary of Egyptian Gods and Goddesses, Routledge Taylor & Francis Group, New York, USA, Pg. 67.
  • 24 غلام باری، تاریخ کا مطالعہ، مطبوعہ:مکتبہ اردو، لاہور،پاکستان، 1949ء، ص :20-23
  • 25 ایضاً
  • 26 W. M. Flinders Petrie (1898), Religion and Conscience in Ancient Egypt, Methuen & Co., London, U.K., Pg. 71-72.
  • 27 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 150.
  • 28 احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ الیعقوبی(مترجم: مولانا اختر فتحپوری) ، جـ1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی ، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:271-272
  • 29 Bob Brier And Hoyt Hobbs (2008), Daily Life of The Ancient Egyptians, Greenwood Publishing Group, London, U.K., Pg. 36.
  • 30 Ann M. Nicgorski, The Fate of Serapis: A Paradigm for Transformations in the Culture and Art of Late Roman Egypt, Williamete University, Oregon, USA, Pg. 154.
  • 31 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 179-182.
  • 32 Adolf Erman (1908), A Handbook of Egyptian Religion (Translated by A. S. Griffith), Archibald Constable & Co. Ltd., London, U.K., Pg. 86-87.
  • 33 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 188.