Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

قدیم مصرکاعسکری نظام

پہلے فرعون کے دور میں زیریں اور بالائی مصر کےسیاسی اتحاد سے مصر کی ترقی اور شان و شوکت کے عہد کا آغاز ہو ا تھا جو تقریبا تین ہزا ر سال تک جاری رہا۔اس دوران کئی مستحکم بادشاہتیں قائم ہوئیں تاہم کچھ درمیانی ادوار عدم استحکام کا شکار بھی رہے جنہیں تاریخ ِمصر میں عہد زوال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔قدیم مصر کی تاریخ میں ا س طرح کے تین ادوار کا ذکر ملتا ہے جن میں مصر سیاسی افراتفری اور انتشار کا شکار رہا۔ بعد ازاں بادشاہت جدید کے سنہری دور کے بعد مصر بیرونی طاقتوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا اور بالآ خر 31قبل مسیح میں رومیوں کے مصر پر قبضے سے فرعونوں کی حکومت کا باضابطہ خاتمہ ہو گیا تھا ۔دراصل مصر کی عسکری طاقت اور اس کا نظم ہی تھا جس نے مصر کو اپنے عہد کی ایک بڑی طاقت بنا دیا تھا۔ عہدقدیم کی مصری فوج اعلیٰ انداز سے مرتب شدہ تھی تاہم یہ بھی حقیقت تھی کہ ان کے مقابلے میں بادشاہتِ جدید کی مصری افواج زیادہ منظم اور تربیت یافتہ تھیں۔

دفاعی جغرافیہ

نیل کی وادی صحراوٴں سے گھری تھی جو قدرتی طور پر اسے بیرونی حملہ آوروں سے تحفظ فراہم کرتی تھی۔ ان صحراوٴں کو عبور کرنا آسان نہیں تھا اسی لیےبڑی حملہ آور فوجیں مصر پر حملے سے گریزاں رہتی تھیں ۔ صحرا کے باشندے خانہ بدوش قبائل پر مشتمل تھے جو کبھی کبھار وادئ نیل کی زرخیز زمینوں پر حملہ کر کےان پر قابض ہونے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن طاقتورمصری افواج ہمیشہ ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا کرتی تھیں۔ دریائے نیل کے ڈیلٹا کی مشرقی اور مغربی حدودکے ساتھ ساتھ مصریوں نے مورچے اور سرحدی حفاظتی قلعے تعمیر کیے ہوئےتھے جوچھوٹی نوعیت کے حملوں سے بچا وٴ کا اچھا ذریعہ تھے لیکن اگر دشمن کی کسی بڑی فوجی پیش قدمی کا پتہ چلتا تو ان قلعوں سے مصری فوج کی طرف مدد کاپیغام بھیجا جاتاتھا۔ مصرکے شہر فصیلوں اور دیگر حفاظتی اقدامات سے محروم تھے۔مصری افواج ملکی حدود کی حفاظت کے ساتھ ساتھ قریبی علاقوں کی بے رحمانہ فتوحات اور سلطنت کے توسیعی منصوبوں پر بھی مصروف عمل رہتی تھی۔ان فتوحات کے دوران بچوں اور عورتوں کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا جاتا تھا۔ فوج کو ذاتی و سیاسی مقاصد کے لیےبھی استعمال کیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا زیاں معمول کی بات تھی۔ مصری شاہی ادوار سے قبل کے صوری آثارو نقوش اور آثارقدیمہ کے ورثہ اور دیگر ذرائع سے بالائی مصر میں چھوٹی مرکزی حکومتوں کی توسیع اور عسکری سرگرمیوں کے واضح شواہد ملتے ہیں۔ 1

افواج

پیشہ ورانہ افواج کا شمار قدیم مصر کے ان اداروں میں ہوتاتھاجو بیرونی قوتوں سے تعلق کے نتیجے میں درجہ بہ درجہ وجود میں آئی تھیں۔ مصری عسکری قوت کی ابتدا سے ہی اہم ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ملک کی سرحدی خود مختاری اور سالمیت کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ نئے علاقے فتح کرکے مصری ریاست کی حدود میں اضافہ کرےاور زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل تک رسائی ممکن بنائے۔ 2تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ دورمتوسط کی بادشاہت سے پہلے شہریوں اور فوج میں کوئی خاص امتیاز نہیں تھا۔ مصری فوج مقامی جنگجوؤں اور غیر ملکی باشندوں پر مشتمل تھی جن کا کام صحرائی علاقوں سے معدنیات نکالنا اور بڑے بڑے تجارتی قافلوں کی حفاظت کرنا تھا۔3

ہائکسوس (Hyksos)نے پندرہویں اور سولہویں شہنشاہیت کے درمیانی دور میں مصر فتح کیا جس کے بعد آنےوالے حکمرانوں ، خصوصا ًاٹھارہویں دور کے بادشاہ نے ایک پیشہ ور قومی فوج کی ضرورت محسوس کی ۔ بعد کے ادوار میں خاص طور پر عہد جدید کے حکمرانوں نے مصر کو ایک بہترین عسکری قوت بنانے کا تہیہ کرلیا تھاتاکہ اسے غیر ملکی حملوں سے بچایا جاسکے۔ عسکری تنظیم کی اس کاوش کو شہنشاہ آموسس اول (Amosis-I)نے عملی جامہ پہنایااور ماہر فوجی افسران اور پیشہ ور سپاہیوں پر مشتمل ایک منظم قومی فوج تشکیل دی تھی ۔ 4

مصرکی ان پیشہ ور افواج کا سربراہ بادشاہ ِ وقت ہوا کرتاتھا جو بذات خود میدان ِجنگ میں ان کی قیادت کرتا تھا۔تاہم جنگی مہمات کی اکثر ذمہ داری بادشاہ کے عسکری امور کےوزرا ءسنبھالا کرتے تھے۔ ان کےساتھ ساتھ شہزادے اورفوج کے جرنیل بھی خاص اہمیت کے حامل تھے جو بادشاہ کی غیر موجودگی میں فوج کی کمان سنبھالتے تھے۔مصری فوج میں عہدوں کے حساب سے درجہ بندی موجود تھی جس کے مطابق لیفٹیننٹ کمانڈر کے عہدے کے فوجی افسران جرنیل رینک کے افسران کو براہ راست جوابدہ تھے۔ ایک فوجی جرنیل عموما افواج کے مختلف نوعیت کے فوجی دستوں او ر خصوصی دستوں کی سربراہی کرتا تھا ۔ ان فوجی افسران کے القابات اور عہدوں کا تعین ان کے زیرکمان موجود فوجیوں کی تعداد کے مطابق کیا جاتا تھا۔5

ایک فوجی ڈویژن میں عموما چار ہزار پیادہ سپاہی اور ایک ہزار رتھ گاڑیاں (chariots) شامل ہوتی تھیں جنہیں 500 کے دس فوجی دستوں(battalion) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ان دستوں کو 250 فوجیوں پر مشتمل کمپنی، 50 فوجیوں پر مشتمل پلاٹون اور10 فوجیوں پر مشتمل عسکری تنظیم میں تقسیم در تقسیم کیا جاتاتھا۔ فوجی بیرکوں میں قیام کے دوران 10سپاہیوں پر مشتمل پلاٹون کے لیےایک خیمہ مختص کیا جاتا تھا ۔مصری فوجی دستوں کی ان عسکری تقسیمات کو مصر کے اہم دیوتاوٴں سے منسوب کیا جاتا تھا جن میں آمون (Amun)، را(Ra)، پتاح (Ptah) اورسیتھ (Seth) دیوتا قابل ذکر تھے۔ 6

قدیم مصر ی افواج میں شامل ایک عام پیادہ سپاہی کے مقابلے میں بحری افواج میں شامل سپاہیوں کی اہمیت زیادہ تھی۔بحریہ میں عموما نوجوان افسروں کو بھرتی کیا جاتا تھا جنہیں غالبا بحریہ کی مشکل نوعیت کی ملازمت زیادہ تیز و طرار بنا دیتی تھی۔بادشاہت ِمتوسط میں بحری سپاہیوں کے لیےایک نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی تھی جس کے لغوی معنی "چپو چلانے والی جماعت" یا "کشتی چلانے والی جماعت(Rowing Team) "تھا۔ مصری بحری بیڑوں کے کپتان براہ راست بادشاہ کو جوابدہ تھے۔7

عسکری پیشے سے وابستگی غریب خستہ حال نوجوانوں کے لیےدولت وثروت اور معاشرے میں قدر ومنزلت کے دروازے کھول دیتی تھی۔ ایک عام سپاہی کو بھی مال غنیمت میں سے اچھا خاصا حصہ مل جاتا تھا جس میں شکست خوردہ اقوام کےجانور، مویشی، ہتھیار، سونا چاندی اور دیگر سامان شامل ہوتے تھے۔تاہم مصرکےزیادہ تر لوگ غیر ملکی مہمات پر جانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہتے تھے جس کی وجہ ان کا یہ خوف تھا کہ اگر ان کی جنگ کے دوران موت ہو گئی تو ان کے جسم کو مناسب انداز سے دفن نہیں کیا جا سکے گا اور ان پر دعائیں اور منتر وغیرہ نہیں پڑھے جا سکیں گے۔ان کے نزدیک ایسا ہوجانا ان کے ابدی ولافانی زندگی کے مواقع کو کم کردیتا تھا۔اسی وجہ سے ان کے انتہائی عروج کے زمانے میں بھی فوج کی بڑی تعداد مفتوحہ علاقوں، خاص کر نیوبیا(Nubia)سے مستعار لیے گئے سپاہیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔مصری سلطنت کے عہداواخر میں افواج کی زیادہ تر تعداد ایشیا و یونان کی سپاہ پر مشتمل تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ غلاموں اور غیر ملکی قیدیوں کے لیےفوج میں شمولیت کوآزادی کا پروانہ قرار دیا گیا تھا۔8

عہد ِمتوسط میں پیادہ افواج زیادہ تربیت یافتہ نہیں تھیں لیکن بعد کے ادوار میں باقاعدہ تربیت یافتہ خاص سپاہیوں کوہی پیادہ افواج میں شامل کیا جانے لگا تھا۔نیوبیا اور دیگر خطوں سےغیر ملکی سپاہیوں کی بھی ایک بڑی تعداد کوبھرتی کیا جانے لگا۔مصری بادشاہت کےعہدجدید میں فوج میں جبری بھرتی بھی کی جانے لگی یہاں تک کہ رمیسس دوئم(Remeses-II) کے دور میں ہر دس میں سے ایک شہری کو جبرا ًفوج میں بھرتی کیا جانے لگا تھا۔تاہم فوج میں بخوشی شامل ہونے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ رمیسسی دور(Ramesside Period) میں طبقۂ اشرافیہ سےتعلق رکھنے والے فوجی افسران بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔فوج میں شمولیت کو دولت و حشمت ، وسیع جاگیراور سماجی مقام کی ضمانت سمجھا جاتا تھا جو اگلی نسلوں میں بطور وراثت بھی منتقل ہوتا تھا۔ 9

عسکری تربیت کا نظام

قدیم مصر میں بچوں کی عسکری تربیت کا آغاز پانچ سال کی عمر سے شروع کردیا جاتا تھا، لیکن پیشہ ورانہ عسکری ملازمت بیس سال کی عمر میں شروع ہوتی تھی۔بھرتی شدہ سپاہی اپنے آبائی علاقوں کی طرف لوٹنے سے قبل قومی خدمت کے طور پر ایک سال فوج میں خدمات سر انجام دینے کے پابند تھے تاہم تربیت مکمل ہونے کے بعد انہیں کسی بھی وقت طلب کیا جا سکتاتھا۔ 10نئے بھرتی ہونے والے سپاہی اپنے بال بہت چھوٹے کرا لیتے یا سر منڈا لیتے تھے۔ انہیں چمڑے کی بنی ذرہ بکتر، خود اور لکڑی کی چمڑے سے ملفوف ڈھال دی جاتی تھی اور دس دس کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے بیرکوں میں رکھا جاتا تھا۔انہیں کئی اقسام کے ہتھیاروں سے لڑنے کی تربیت دی جاتی تھی جن میں جنگی کلہاڑے، تلواریں ، نیزے، خنجر ، حجری عصااور تیر کمان وغیرہ شامل تھے۔ہر عسکری یونٹ ان میں سے کسی ایک ہتھیار کے استعمال میں خاص مہارت رکھتا تھا۔کچھ دستوں کو خاص قسم کےعسکری مقاصد کی تربیت بھی دی جاتی تھی جن میں خندق اورسرنگ کھودنا، قلعہ شکن مشینوں کا استعمال،سیڑھیاں لگا کر فصیل پر چڑھنا اور دشمن کی فوجوں کی نگرانی اور جاسوسی کرنا وغیرہ کے امورشامل تھے۔جنگی تربیت انتہائی سخت اور مشکل ہوتی تھی جس کے دوران ان نئے بھرتی شدہ سپاہیوں کو تپتے ہوئے صحرا میں بارہ میل کا اوسط فاصلہ ایک دن میں طے کرنا لازمی تھا۔اس کے علاوہ تربیت کے دوران کرائی جانے والی جسمانی مشقیں اورعسکری نظم و ضبط پر عمل کرنا بھی اس تربیت کا انتہائی مشکل پہلو تھا۔ 11

مستعار فوج

ریاستوں ، صوبوں اور قبائل سے مستعار یاکرائے پر لیے گئے فوجی بھی مصر کی افواج کا ایک اہم حصہ تھے۔ قدیم اور متوسط شہنشاہی ادوار میں قومی فوج میں ہر صوبے سے تعلق رکھنے والےکرائے کے فوجی شامل تھےجن کو جنگ کےدوران قومی فوج کی مدد کے لیے کبھی بھی طلب کیا جاسکتا تھا۔ نئی شہنشاہیت کے دور میں بھی یہ کرائے کی فوج جدید مصری افواج کا اہم حصہ تھی۔اس کے علاوہ نیوبیا(Nubia) کے میڈجے(Medjay) قبائل کو فوج اور پولیس میں شامل کیا گیا تھا۔اسی طرح شیردن (Sherden)اور لیبیائی(Libyan)کےجو جنگی قیدی لائے گئے تھے اور دشمن سمجھے جاتے تھے بعد ازاں انہیں بھی فوج میں بھرتی کیا جانے لگا تھا۔ جدید بادشاہت کے دور میں فوج کا بڑا حصہ انہی کرائے کے سپاہیوں پر مشتمل تھا۔یہاں تک کہ امینہوتپ چہارم (Amenhotep-IV)کے دور میں بادشاہ کے ذاتی محافظوں میں نیوبیا، لیبیا اور شام کےفوجی بھی شامل تھے۔لیبیا سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کی اولادیں بائیسویں اور تئیسویں خاندان میں مصر کے حکمران بھی رہے تھے۔ چھبیسویں سے لے کرتیسویں خاندان کے دور میں یونان اور کاریا(Caria) کے سپاہیوں کو بھی مصری فوج میں شامل کیا گیا تھا۔12

بحری افواج

قدیم مصر کی بحری فوج در اصل بری افواج کو وسعت دینے کے نتیجے میں ہی وجود میں آئی تھی۔ بحریہ کی اہم ذمہ داری فوجی دستوں اور رسد کو طویل سمندری راستوں کے ذریعے دور دراز علاقوں تک پہنچانا تھا تاہم کچھ ایسے بھی موقع آئے جب بحری فوج کو بھی جنگ لڑنا پڑی تھی۔بحریہ میں شامل جہاز وں کے ملاح فوجی ہی ہوا کرتے تھے جنہیں جہاز چلانے کی تربیت د ی جاتی تھی۔ بحری اور بری فوج میں اتنی مماثلت تھی کہ ترقی دیتے وقت بحری افسران کو بری فوج میں اور بری فوج کے افسران کو بحری فوج میں ترقی دے دی جاتی تھی۔ 13

بحری فوج کی اہمیت کا اندازہ سب سے پہلے رمیسس سوئم (Rameses-III)کو ہوا تھا۔ اس نے بحیرۂروم (Mediterranean Sea) اور بحیرۂ احمر(Red Sea) میں بحری بیڑے تعمیر کرائے تھے۔14 اٹھارویں خاندان کی حکومت کے دوران مصری بحریہ نے شام کے معرکوں اور مصر ی سلطنت کی تعمیر و استحکام میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اسی طرح بیسویں خاندان کی حکومت کے دوران مصری بحریہ نے سمندری جزائر پر بسنے والی اقوام اور ان کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ بحری فوجیوں اور ملاحوں کی ملازمت سے متعلق قوانین تبدیل ہوتے رہتے تھے تاہم قدیم مصر کی ادبی تحریروں سے بحری زندگی کی مشکلات کابھی پتہ چلتا ہےلیکن سخت جسمانی مشقتوں کے ساتھ ساتھ بحری سپاہیوں کے لیےکچھ رعایات بھی تھیں۔بعد ازاں سلطنت جدید میں انہیں بہت سے فوائد حاصل تھے جن میں مہمات سے حاصل ہونے والے مال غنیمت میں اضافی حصہ، جاگیروں کی آمدنی، محصولات سے استثنا اور کچھ صورتوں میں بادشاہ کی طرف سے بہادری کے صلہ میں ملنے والےسونے کے تحائف بھی شامل تھے۔15

بحری جنگی جہاز

قدیم مصری بحری جہازوں میں چپو اور بادبان دونوں کا استعمال کیا جاتاتھا ۔ ان جہازوں میں بادبان کو دو پائی اسٹینڈ والے مستول ( جو کہ انگریزی حرف تہجی Vکی الٹی شکل جیسا تھا) پر نصب کیا جاتا تھااور یہ ایک ہی بڑا سا چوکور شکل کا بادبان ہوتا تھا۔ چپو استعمال کیے جانے کی صورت میں پورا بادبان نیچے کیا جا سکتا تھا۔بڑے مصری جہازوں میں ایک طرف بیس سے زائد چپو رکھےجاتےتھے جن میں دو یا اس سے زائد جہاز کا رخ موڑنے والے چپو بھی شامل تھے۔ عہد عتیق کے جنگی جہاز اسی نمونے پر تیار کیے گئےتھےتاہم انہیں عام بحری جہازوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور پائیدار بنایا گیاتھا۔عام بحری جہازوں میں جزوی تبدیلیاں کر کے انہیں بھی جنگی مقاصد کے لیےاستعمال کیا گیاتھا۔ان جہازوں میں اگلے اور پچھلے حصے میں بلند عرشے تعمیر کیے گئےجہاں تیر انداز اور نیز وں سے مسلح سپاہیوں کو تعینات کیا جاتا تھا۔جہازوں کی دیواروں کے ساتھ لگے تختے چپو برداروں اور سپاہیوں کو دشمن کے تیروں اور نیزوں سے محفوظ رکھتے تھے۔جہاز کے مستول کی اونچائی پر بھی کئی تیر انداز تعینات ہوتے تھے۔ کچھ جنگی جہازوں میں سامنے کی سمت سطح سمندر کے متوازی لوہے یا کسی اور مضبوط دھات کا ابھرا ہوا نوک دار حصہ بنایا جاتاجوغالبا دشمن کے جہازوں سے ٹکرا کر انہیں تباہ کرنے یا شدیدنقصان پہنچانے، دشمن کے جہاز کے عرشے پراپنے فوجی اتارنے، دشمن کے جہاز کو دلدلی علاقے کی طرف دھکیلنےاور الٹنے کے لیےبنایاگیاتھا۔16

ہتھیار

قدیم مصرکی پیشہ ور مسلح افواج مختلف النوع ہتھیاروں سے لیس تھیں مگر یہ ہتھیار ہمیشہ فوجیوں کی ملکیت میں نہیں رہتے تھے۔ یہ ہتھیار انتہائی سادہ ہتھیاروں سےلے کرمختلف پیچیدہ نوعیت کے جنگی ہتھیاروں پر مشتمل تھے۔17

تیر کمان

قدیم مصری تیر کمان دو حصوں پر مشتمل تھے جن میں سے ایک کمان کا ڈھانچہ تھا جبکہ کمان کادوسرا حصہ ایک ڈورپر مشتمل ہوتا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخ کا پہلا اوزار ہے جس میں توانائی پر ارتکاز کیا گیا تھا۔تلوار اور نیزے کے برخلاف کمان کا یہ فائدہ تھا کہ اس کی مدد سے کافی فاصلے پر موجود دشمن کو قتل یا زخمی کیا جا سکتا تھا۔ابتدائی دو ر کی مصری کمانیں ببول کے درخت یا چند دیگر مقامی درختوں کی لکڑی سے بنائی جاتی تھی ۔دونوں کناروں پر معکوس خم دے کراوپری ہونٹ کی شکل میں ڈھال کر اس کے ڈھانچے کے بالکل قریب ڈور نصب کی جاتی تھی۔ڈوری جتنی زیادہ پیچھے کھینچی جاتی تھی یا جتنا تناوٴبڑھایا جاتا اتناہی دور تک تیر پہنچتاتھا۔قدیم مصری سپاہیوں کے لیےیہ ایجاد بہت سود مند ثابت ہوئی تھی۔تیر کا شافٹ سیدھا، کم وزن اور مضبوط ہوتا تھا جسے عموما نرسل کی لکڑی سے بنایا جاتا تھا۔تیر کی نوک دھات یاچقماق کے پتھر سے بنائی جاتی تھی جو معکوس بیضوی پتے کی طرح یا مثلث کی مانندتکونی ہوتی تھی۔تیر کی پرواز کو سیدھا رکھنےکے لیےاس کے سرے پر مختلف پرندوں کے پر لگائے جاتے تھے جن میں چیل، عقاب اور گدھ وغیرہ شامل تھے۔جنگ کے دوران مصری تیر اندازوں کےچرمی ترکش میں بیس سے تیس کے قریب تیر موجود ہوتے تھے ۔ ترکش کندھوں پر ہونے کی وجہ سے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کا آزادانہ استعمال کر سکتے تھے۔قدیم مصر کے ان تیر اندازوں کو موت کے قاصد کہا جاتا تھا۔

گو پھن

گوپھن اور غلیل بھی کما ن کی طرح ہی کام کرتی تھی۔انہیں چرواہوں نے لومڑیوں کو اپنے غلوں سے دور رکھنے کے لیےایجاد کیا تھا۔ یہ سادہ سا ہتھیار چمڑے کے ایک مستطیل ٹکڑے اور اس سے منسلک دو عدد ڈوریوں پر مشتمل تھا اور دشمن کو دور سے نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ پتھر کو چمڑے کے ٹکڑے پر رکھا جاتااور جب ان دونوں ڈوریوں کو ایک ہاتھ سے بیک وقت کھینچا جاتا تو یہ چمڑے کا ٹکڑا ڈوریوں کے سرے پر چمڑے کےبٹوے کی مانند شکل اختیار کر لیتا تھا ۔ حرکت کی قوت پیدا کرنے کے لیےاسے ادھر ادھر گھمایا جاتا اورا سی دوران ڈور چھوڑ دی جاتی تھی جس کے نتیجے میں چمڑے کے بٹوے کا منہ کھل جاتا اور پتھرانتہائی تیز رفتاری اور قوت سے باہر کی جانب نکلتا تھا۔

دوبدو لڑائی کے ہتھیار

قدیم مصریوں کے پاس دوبدو لڑائی کے بہت سے ہتھیار تھے جن میں سے نیزے کا شمار درمیانی درجے کے ہتھیاروں میں ہوتا تھا۔ اسے بھی تیر کی مانند استعمال کیا جاتا مگر اسے ہاتھ سے پھینکا جاتا تھا۔نیزے میں پانچ فٹ لمبا لکڑی کا دستہ ہوتا جس کے سرے پر دھاتی کونا نصب ہوتا تھا۔اگر کوئی ماہر نیزہ باز اس کا مہارت سے استعمال کرتا تو یہ سو فٹ سے زیادہ فاصلے تک مہلک ثابت ہوتا تھا۔ اس کے مقابلے میں بھالے اور برچھے پھینکنے کی بجائے دوبدو لڑائی کے لیےاستعمال ہوتے تھے۔

دوبدو لڑائی کے قدیم ترین ہتھیاروں میں جنگی عصا(Mace)بھی شامل تھا جو انتہائی سادہ مگر مہلک ہتھیار تھا۔یہ ہتھیار عصا کے سرے پر پتھر نصب کرکے بنایا جاتا تھا جس کا اٹھارہ انچ مختصر دستہ اس کی تیز آزادانہ حرکت کو ممکن بناتا تھا۔ اس کا جان لیوا سرا ناشپاتی یا سیب کی طرح یا گول تراشیدہ پتھر پر مشتمل ہوتا تھا۔اس کا حجم انسانی مکے جتنا ہوتا اور اس کے دستے کےایک سرے پر ایک سوراخ بھی بنایاگیا تھا ۔ یہ ہتھیار کلہاڑی سے مماثلت رکھتا تھا تاہم کلہاڑی کے برخلاف اس کا کام کا ٹنا نہیں بلکہ توڑ پھوڑکر پاش پاش کردینا تھا۔اگرچہ یہ ایک متاثر کن ہتھیار تھا تاہم جب دشمنوں نے اپنے سروں کوآہنی خود سے محفوظ کرنا شروع کردیا تواس کی جگہ جنگی کلہاڑوں نے لے لی تھی۔

دوبدو جنگ کے ہتھیاروں میں مہلک نظر آنے والی تلواریں بھی شامل تھیں جنہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا تاہم ان کی دو اقسام زیادہ استعمال ہوتی تھیں۔ سیدھی تلوار دشمن کے جسم میں خنجر کی طرح گھونپنے کے کام آتی تھی جس کا سر ا آہنی اور نوکدار بنایا جاتاتھا جبکہ اس تلوار کے دونوں ہی سروں کی دھار تیز رکھی جاتی تھی۔اس کے مقابلے میں دشمن پر وار کرنے کے لیےاستعمال ہونے والی تلوار کے ایک سرے پر دھار ،درانتی کی مانند خم دار رکھی جاتی تھی۔یہ دشمن کے جسم کو زخم لگا کر واپس کھینچ لی جاتی تھی۔یہ تلواریں پیتل یا کانسی کے بڑے ٹکڑوں سے بنی ہوتی تھی ۔اس زمانے کے لوہار ان میں مضبوطی پیدا کرنے کے ہنر سے واقف نہیں تھے جس کی وجہ سے یہ تلواریں اتنی مضبوط نہیں تھیں۔یہ جنگ کے دوران نہ صرف ٹیڑھی ہو جاتیں بلکہ ٹوٹ بھی جاتی تھیں۔صدیوں کے عسکری تجربات کے نتیجے میں ارتقا پذیر ہونے والے جنگی کلہاڑے دوبدو لڑائی میں زیادہ قابل ترجیح سمجھے جاتے تھےجس کی وجہ ان کا چھوٹا ، مضبوط ، ضخیم اور پائیدار تیز پھل تھا ۔ کلہاڑے چونکہ کاٹنے کے کام آتے تھے اس لیے ان کے پھل چوڑے اور خم دار رکھے جاتےتھے۔ا ن کلہاڑوں کو لکڑی کے مضبوط دستوں سے پیوست کیا جاتا اور مزید مضبوطی کے لیےایک رسی یا تارسے باندھا جاتا تھا تاکہ دوران ِجنگ یہ دستے سے جدا ہو کر گر نہ سکے۔ زرہ بکتر اور خود ان کلہاڑوں کے خلاف موثر دفاع تھے تاہم بعد کے ادوار میں زیادہ اچھے اور موثر کلہاڑے بنائے جانے لگے تھے۔ ان تمام ہتھیاروں سے بچنے کے لیےڈھال استعمال کی جاتی جو سپاہی کے بائیں ہاتھ میں ہوتی تھی ۔اس کی مدد سے فوجی تیر، تلوار اور کلہاڑے جیسے مہلک ہتھیاروں کے وار روکتا تھا اور سیدھے ہاتھ سے دشمن پر حملہ آو ر ہوتا تھا۔ہر ملک کے باشندوں کی ڈھال مختلف ہوتی تھی جس کی وجہ سے انہیں با آسانی پہچانا جا سکتا تھا۔18

رتھ گاڑی

کاموسے (Kamose) وہ پہلا مصری حکمران تھا جس نے عسکری مقاصد کے لیےرتھوں اور گھڑ سواروں کا کامیاب استعمال کیا تھا۔شمالی علاقوں میں آباد ہائکسوس (Hyksos) قبائل نیفروسے(Nefrusy) کے میدان میں پہلی مرتبہ ان رتھوں کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے تھے۔مصر میں گھوڑے ایشیائی(Asiatics) اقوام نے متعارف کرائے تھےجو غالبا اتنے مضبوط و توانا نہیں تھے کہ دور دراز علاقوں تک سوار کے ساتھ سفر کر سکیں مگر مصریوں نے جلد ہی اس کا حل تلاش کر لیا تھا۔انہوں نے گھوڑوں کو رتھوں میں جوت کر انہیں بہترین انداز سے جنگ کی تربیت دی تھی۔خاص طور پر توتھموسس (Tuthmosis)، توتھموسس سوئم (Tuthmosis-III)، رمیسس دوئم(Ramesses-II) اور رمیسس سوئم(Ramesses-III) کے عہد میں گھوڑوں کو رتھوں کی جنگ کی خاص تربیت دی گئی تھی۔فرعونوں کے دور میں ان جنگی رتھوں پر مشتمل رسالوں کا پورے خطے میں شہرہ تھا جو سلطنت کی تعمیر و بقا کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔19

رتھ عموما دو پہیوں والی ہلکی پھلکی گاڑی ہوتی تھی جسے ایک یا دو گھوڑے کھینچتے تھے۔اس پر عموما دو افراد سوار ہوتے جن میں سے ایک اسے چلانے والا جبکہ دوسرا جنگجو ہوتا تھا جو عموما ًتیر کمان اور نیزوں سے مسلح ہوتاتھا ۔ اس طرح کی رتھیں ایشیا او ر یورپ میں 1700 قبل مسیح سے لے کر500 قبل مسیح کے عرصے کے دوران سب سےبہترین عسکری ہتھیار شمار کی جاتی تھیں۔یہ رتھیں فوجیوں کے لیےایک متحرک چبوترے کی مانند تھیں جس پر سے وہ دشمن پر حملہ کر سکتے تھے۔ان کے بنیادی ہتھیار تیر اور نیزے تھے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہوتی تھی کہ یہ مستقل میدان جنگ کے اندر اور باہر حرکت میں رہتے تھے اور دشمن پرایک فاصلے سے نشانہ بازی کرتے رہتے تھے۔20

اہم جنگیں

مصرکے اردگرد واقع ممالک سے مصری افواج مسلسل دست وگریبان رہتی تھیں۔ان میں بےشمار جنگیں ہوئیں جن میں سے دوجنگیں زیادہ مشہورہیں۔

میگیڈوکی جنگ

1503 قبل مسیح میں تخت نشینی کے پہلے سال ہی ٹیوتھرنوسس سوم(Tuthrnosis III)اپنی پہلی اور سب سے اہم فوجی مہم پر نکلا تاکہ شہری ریاستوں کی اس بغاوت کو کچل سکے جس کو قادیش (Kadesh)کے شہزادے اور متانی (Mitanni)کی سرپرستی حاصل تھی۔ کرمل(Carmel) کے پہاڑی سلسلے میں تین دن کے سفر کے بعد اس کی فوجیں جب ایک تنگ اور طویل درہ عبور کرکے میدانی علاقےمیں اتریں تو اپنے آپ کو ایشیائی فوجی دستوں سے کچھ ہی دور پایا جو کہ میگیڈو(Megiddo) نامی شہر کے سامنے شب بسری کے لیےخیمہ زن تھے۔ اگلی صبح ہوتے ہی توتھرنوسس سوم کی فوجوں نے دشمن پر حملہ کردیا جس کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی تھی جن میں سینکڑوں یا ہزاروں فوجیوں کا شمار ان سرزمینوں کے بہترین جنگجووٴں میں ہوتا تھا اور جو اپنی اپنی رتھوں میں ایستادہ تھے۔ توتھرنوسس سوم کے اچانک حملے کی وجہ سے دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی اور میگیڈو شہر میں اپنے آپ کو قلعہ بند کر لیا۔ اپنے آپ کو بچانے کی جلد بازی میں فوج نے غلطی سے قدیش اور میگیڈوکے بادشاہوں کو باہر ہی چھوڑ دیا تھاجنہیں دشمنوں نےان کے کپڑوں سے گھسیٹ کر فصیل پر چڑھا دیا ۔ سات مہینے کے طویل محاصرے کے بعد شہر پر قبضہ کرلیا گیا اور یوں توتھرنوسس سوم اس جنگ میں فتح یاب قرار پایا تھا۔ 21

قادیش کی جنگ

یہ جنگ مصر کی ایشیا میں وہ فیصلہ کن جنگ تھی جس کی اہمیت میگیڈو کی جنگ کی مثل تھی۔یہ جنگ رمیسس دوئم(Ramesses-II) کی حکومت کے پانچویں سال وسطی شام کے شہر قادیش(Kadesh) میں 1275 قبل مسیح میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ اس جنگ کا شمار مصر کی بڑی جنگوں میں ہو تا ہے۔ اس میں مصریوں نے شام کے علاقے حمص(Homs) کے جنوب مغرب میں واقع دریائے اورنٹس(Orontes River) کے کنارے رمیسس دوئم کی قیادت میں ہتیتی اقوام (Hittites) کا مقابلہ کیا جن کی قیادت مواتالیس(Muwatallis)کر رہا تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں رتھوں کی بڑی جنگوں میں سے ایک ہے جس کے نتیجے میں رمیسس دوئم نے ہتیتی اقوام سے شام کا بڑا علاقہ چھین لیا اورقادیش (Kadesh) شہر پر دوبارہ قبضہ حاصل کرلیا تھا۔ یہ کشت و خون کا وہ دن تھا جب لگ بھگ 5000 رتھوں کو جنگ میں مدمقابل لایاگیا تھامگر اس جنگ کا کوئی حتمی فاتح نہ ہوسکا تھا۔ اس جنگ کو ایک امن معاہدے کےبعد ختم کردیا گیا تھا جسے دنیا کا سب سےپہلا محفوظ شدہ امن معاہدہ قرار دیا جاتا ہے۔22

عسکری زوال

سیاسی اور معاشی زوال کے ساتھ ہی مصر کا عسکری زوال بھی شروع ہو گیا تھا اسی لیے فرعونوں کی آخری جنگیں بوکھلاہٹ کی حالت میں کی گئی دفاعی کوششیں تھیں جن کا وسطی اور جدید بادشاہت کے دور میں لڑی جانے والی جنگوں سےدور دور تک کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔تیسرے عہدزوال کی زیادہ تر عسکری کاروائیاں مصر کی سر زمین پر ہی وقوع پذیر ہوئیں جن میں غیر ملکی حملہ آور پے درپےآنےوالی لہروں کی صورت اپنے قدیم دشمن کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔تہذیب مصر کے زوال کی قطعی وجہ کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے۔اس زوال کی ایک معاشی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ مصر اہم دھاتوں کی پیداواری ضروریات پوری کرنے کے معاملے میں خود کفیل نہیں رہا تھا اور لوہے اور دیگر دھاتوں کی ضرورت پورا کرنے کے لیےایشیائی ممالک پر اس کا انحصار بہت بڑھ گیا تھا۔اسی دوران مصر کا شام پر اثر ورسوخ بھی بہت کم ہو چکا تھا ۔ عسکری حوالے سے دیکھا جائے تو اس بات کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ مصر کے آبائی باشندے طاقت اور اقتدار کے حصول کی خاطر مذہب اور بیوروکریسی کے قدیم طریقوں سے انحراف کرنے لگے تھے اور یوں مصری فوج میں کرائے کے غیر ملکی سپاہیوں اور مصر میں آباد غیر ملکی اقوام کے باشندوں کا خطرناک حد تک غلبہ ہو گیا تھا۔ پچیسویں خاندان کی شام اور فلسطین میں عسکری مہمات نے آشوریوں کے ساتھ ان کے تعلقات خراب کر دیے تھےجس کے نتیجے میں مصر پر آشوریوں کے حملے شروع ہو گئے اور مصری حکومت کمزور ہونے لگی تھی۔ عہداواخر میں مصر کے بہت سے علاقوں کو فتح کر لیا گیا یہاں تک کہ آشوریوں سےشکست کے بعد مصر کی حیثیت بھی شام اور فلسطین کی طرح کی ایک شاہی ریاست کی مانند ہو کررہ گئی اورمصر کی عظیم عسکری قوت قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی تھی۔23

خدائی ہدایت سے بےپہرہ مصری افواج کا مطمح نظر سلطنت کی وسعت اورسونے، چاندی، غلاموں اور لونڈیوں مزعومہ دشمنوں کی زمینوں پر قبضہ ہی رہ گیا تھا ۔ انہیں مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کی خوشحالی اور بہتری سے کوئی سروکار نہیں تھا۔اگرچہ کئی شعبوں میں مصری افواج کا کردار مثالی تھا مگر اخلاقیات اور انسانیت کے اصولوں کی پاسداری انہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی وہ یقیناً اچھے لڑاکا اور ماہر جنگجو تھے لیکن اچھا انسان ہونا اور اچھے اخلاق کے ساتھ مفتوحہ اقوام کا دل جیتنے جیسے احوال ان میں مفقود رہے تھے ۔وہ اپنے دشمن کو انسان سمجھنے کے بجائے اسے جانور اوردرندہ سمجھ کر ان سے قتال کرتے تھے اور جب کسی علاقے کو فتح کرتے تو وہاں کی عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ بھی غیر انسانی رویہ اختیار کرتے تھے جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ انکی تربیت ایک لڑاکا جانور اور درندے کی مانند ہی کی گئی تھی جس کا کام فقط اپنے دشمن کو پچھاڑنا تھا اور وہ تمام انسانی خصائل جن کی تعلیمات کوئی باشعور معاشرہ یا مذہب دیتا ہے وہ ان میں ناپید تھے کیونکہ انکی تربیت نہ تو کسی نبی و رسول کے ہاتھوں ہوئی تھی اور نہ ہی انہوں نے حضرت موسی اور انکی مثل دیگر انبیاء کرام کی صحیح مبنی پر وحی تعلیمات کو اپنایا تھا اسلیے وہ مثل حیوان بلکہ قرآن کی زبان میں بل ھم اضل بن کر رہ گئے تھے ۔

 


  • 1 Allan B. Lloyd (2010), A Companion to Ancient Egypt, Blackwell Publishing, Sussex, U.K., Vol.1, Pg. 425.
  • 2 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 244.
  • 3 Kathleen Kuiper (2011), The Britannica Guide to Ancient Civilizations: Ancient Egypt, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 24.
  • 4 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 271-273.
  • 5 Patricia Netzley (2003), The Green Haven Encyclopedia of Ancient Egypt, Green Haven Press, Michigan, USA, Pg. 198.
  • 6 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 71.
  • 7 Anthony J. Spalinger (2005), War in Ancient Egypt, Blackwell Publishing, Oxford, U.K., Pg. 5.
  • 8 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 87.
  • 9 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 271-272.
  • 10 Charlotte Booth (2007), The Ancient Egyptians for Dummies, John Wiley & Sons Ltd., Sussex, U.K., Pg. 67.
  • 11 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 70-71.
  • 12 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 274-275.
  • 13 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 289.
  • 14 E. A. Wallis Budge (1914), A Short History of the Egyptian People, E. P. Dutton & Co., New York, USA, Pg. 199.
  • 15 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 289-290.
  • 16 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/technology/naval-ship Retrieved: 29-07-2017
  • 17 Charlotte Booth (2007), The Ancient Egyptians for Dummies, John Wiley & Sons Ltd., Sussex, U.K., Pg. 71-73.
  • 18 Bob Brier & Hoyt Hobbs (2008), Daily Life of the Ancient Egyptians, Green Wood Press, West Port, USA, Pg. 249-253.
  • 19 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 81-82.
  • 20 Ancient History Encyclopedia (Online Version): http://www.ancient.eu/chariot/ Retrieved: 19-06-2017
  • 21 Ian Shaw (1991), Egyptian Warfare and Weapons, Shire Publications, Buckinghamshire, U.K., Pg. 47-49.
  • 22 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/event/Battle-of-Kadesh Retrieved: 29-07-2017
  • 23 Ian Shaw (1991), Egyptian Warfare and Weapons, Shire Publications, Buckinghamshire, U.K., Pg. 66-67.