قدیم مصر ی معاشی نظام کے قواعد و ضوابط بالکل منفرد تھےجسے چلانے اور نگرانی کی ذمہ داری خاص انتظامی ماہر ین کے سپرد تھی جس کی سرپرستی فرعونِ مصرخود کرتا تھا ۔ زراعت اور تجارت مصر کے معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے نیز یہی دونوں عوامل اہل مصر کی ترقی اور خوشحالی کےضامن ہونے کے ساتھ ساتھ فراعین مصر کے عظیم منصوبوں کے لیے سرمائے کے حصول اور اس میں اضافہ کا ذریعہ تھے ۔
قدیم مصر کی معیشت گھریلو ضرورتوں کی اشیاءاور علاقائی نوعیت کے مختلف النوع سامان پیدا کرنے کے معاملے میں خود کفیل تھی تاہم اس کا دارومدار بنیادی طور پر زراعت پر تھا۔فصلوں کی کٹائی کی کے بعد سرکاری محصول کی وصولی کی جاتی اورپیداوار کی اضافی مقدار کو رقم کی بجائے اشیا ءسے اشیا ءکے تبادلے (Barter System) اور مستقبل کی ضروریات پورا کرنے کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔انہی وجوہات کی بنا پر مصر میں پیدا ہونے والی اشیا کی انتہائی قلیل مقدار بازاروں میں پہنچا کرتی تھی۔تجارت تھوک فروشوں کے ہاتھوں میں تھی جو بادشاہ یا مرکزی معبدکے احکامات کے مطابق کام کیا کرتے تھے۔اشیا ءکی قلت اوربازار کے تنظیمی نظام میں تعطل کی صورت میں منڈی کی قوتیں بحران ختم کرانے کے معاملےمیں فیصلہ کن کردار ادا کرتی تھیں۔شروع میں تجارت دو طرفہ اشیاءو اجناس کے تبادلے کے ذریعہ ہوا کرتی تھی لیکن وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ اس طریقہ کار میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں جس کے نتیجے میں جب بعد کے ادوار میں غیر ملکی باشندے مصر آنے لگے تو وہاں بھی سکہ (Coin)بطور تجارتی و مالی قدر کے نافذ ہوتا چلا گیا ۔
قدیم مصر کو شمال مشرقی افریقہ کے صحرا میں واقع ایسا نخلستان سمجھا جاسکتا ہےجس کی زراعت اور آبادی کا دارو مدار دریائے نیل کے سالانہ اتار چڑھاؤ پر منحصر تھا۔1 مصر کا اعلی معیارزندگی جس کا عمومی دارومدار تجارت اور محصولات پر تھا دراصل زراعت کے نظام پر ہی انحصار کرتا تھا ۔ 2تاریخی دور کی ابتدا سے پہلے ہی اہل مصر کاشتکاری کے فن سے شناسا ہوچکے تھے۔ تمدنی زندگی کے ارتقا کے ساتھ ساتھ انہوں نے نہ صرف تمام ضروری آلات ایجاد کر لیے بلکہ نہروں کا وسیع نظام بھی قائم کر لیا تھا۔ چند جھیلوں اور نہروں کی تعمیر کے تذکرے بادشاہوں کے کارناموں میں بھی محفوظ ہیں ۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) کی روایت کے مطابق پہلے خاندان کے پہلے حکمراں مینس(Menes)نے ایک بڑا بند لگا کر دریائے نیل کا رخ ممفس(Memphis) شہرکی طرف پھیر دیا تھا۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بند لگانے اور پانی کا رخ پھیرنے کا علم اہل مصر کو بہت پہلے ہو چکا تھا۔ 3
مصر کےبعض حصوں میں جہاں نہریں نہیں پہنچ سکتی تھیں کنوؤں کے ذریعے سیرابی کا انتظام کیا گیا تھا۔ان کی زراعتی پیداوار میں گیہوں ، جَو ، باجرہ اور روئی کوزیادہ اہمیت حاصل تھی ۔ مصر سے غلہ اور روئی کی بر آمد کا بھی پتہ ملتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کی پیداوار ملک کی اپنی ضرورت سے زیادہ تھی ۔ پھر بھی چونکہ ان کی زراعت کا تمام تر دارو مدار دریائے نیل پر تھااس لیے جب کبھی دریا خشک ہو جاتا تھا تو ملک کے اندر قحط سالی ڈیرے ڈال لیتی تھی۔
اتنی وافرپیداوار کے باوجودمصری کسانوں کی حالت بہت ابترتھی جس کی وجہ یہ تھی کہ زمینیں ان کی اپنی نہ تھیں۔ جاگیردار انہیں لگان پر زمین دیتے اور اس کی پیداوار کا بڑا حصہ خود رکھ لیا کرتے تھے ۔مصر میں نہ لگان نقد وصول کیاجاتا تھا نہ مال گزاری ۔ جاگیردار کسانوں سے لگان میں اناج لیتے تھے اور فرعون کو مال گزاری بھی اناج ہی کی صورت میں دی جاتی تھی۔ فصل کے زمانے میں کسانوں کو کھیتی کرنی پڑتی تھی اور فصل کے بعد خالی دنوں میں انہیں زبردستی مزدور بنالیا جاتا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ قدیم مصر میں شاہی عمارتوں، مقبروں اور عمارتوں کی تعمیر کا کام ہمہ وقت جاری رہتا تھاجس کےلیے مزدوروں کی ضرورت پڑتی تھی۔ مزدوروں کی اس ضرورت کو عوام سے بغیر کسی اجرت کے کام کرا کر پورا کیا جاتا تھا۔
قدیم مصر میں آب پاشی کے نظام کی نگرانی ایک اہم حکومتی ذمہ داری تھی ۔ پانی کی فراہمی اور اس سے متعلق امور صوبائی افسران کے سپرد تھے۔اناج صوبوں اور مرکز کے شاہی گوداموں میں ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ مرکز سے محصول جمع کرنے کے لیے حکومتی اہل کار بھیجے جاتے تھے جو اناج اور غلے کی صورت میں ٹیکس اکھٹا کیا کرتے تھے۔مقامی معبدوں کی ملکیت میں ان کی ضروریات اور اخراجات پورا کرنے کے لیے وسیع جاگیریں ہوتی تھیں۔ان معبدوں کے اپنے گودام ہوتے تھے اور یہ بھی اکثرحکومت کو محصول ادا کرتے تھے سوائے اس کے کہ بادشاہ ِوقت خود ان کی کسی خدمت یا کارنامے کے صلے میں انہیں رعایت دے دے۔ 4
قدیم مصر کا نظام ِآب پاشی کافی پیچیدہ تھا۔ اس کا دارومدا رنیل کی طغیانی کے نتیجے میں آنے والی سیاہ زرخیز مٹی پر تھا جو دریا کے دونوں جانب دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ زمینی نالیوں اور چھوٹے چھوٹے بند کے ذریعے زمین کوآبی تقسیم کے لحاظ سے مختلف حجم کے قطعات میں تقسیم کیا گیا تھا۔سیلاب کی صورت میں ان نہروں اور نالیوں کی بدولت جانے والا پانی زمین کو دور تک سیراب کرتا تھا۔سیلابی پانی اپنے ساتھ زرخیزسیاہ مٹی بھی لاتا تھا جو ان نالیوں کی بدولت ان زمینوں تک پہنچتی تھی۔ سیلاب آنے کی صورت میں اضافی پانی انہیں نالیوں سے واپس دریا میں شامل ہو جاتا تھا۔کسان اپنے خاندان والوں کے ساتھ یا مختلف گروہوں کی صورت میں کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ ان کی اور ریاست کی ضروریات کا دارومدار ان ہی فصلوں کی پیداوار پر تھا۔آب پاشی کے ساتھ ساتھ اناج کی زخیرہ اندوزی اور ترسیل کا منظم حکومتی نظام بھی موجود تھا۔ محکمہ زراعت بادشاہ وقت کو جوابدہ تھا جو نظریاتی طور پر تمام مصر کی زمینوں کا اصل مالک تصوّر کیاجاتا تھا۔ مصر کی فصلوں میں اناج اور غلے پر مشتمل زرعی اجناس زیادہ اہم تھیں۔ کسان دو طرح کی گندم اگاتے تھے جن میں سے ایک عام قسم کی گندم (Spelt) تھی جبکہ دوسری قسم جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہونے والی گندم (Emmer) تھی۔گندم کے ساتھ ساتھ جَو کی فصل بھی کاشت کی جاتی تھی۔ یہ دو نوں فصلیں مصر کی خوراک و شراب کی ضروریات پوری کرتی تھیں۔بہت سے مقبروں کی دیواروں پر ان فصلوں کی تیاری کے مختلف مراحل کندہ کیے گئے تھے۔موسم خزاں میں گندم کا بیج بو دیا جاتا تھا۔کسان لکڑی کے ہل استعمال کرتے تھے جنہیں دو گائے یابیلوں سے کھینچا جاتا تھا۔جب فصل تیار ہو جاتی تو مرد مل کر لکڑی کی درانتیوں سے فصل کاٹتے تھے۔ان درانتیو ں کی دھار چقماق کے پتھر کی بنائی جاتی تھی۔
کتان یا پٹسن(Linen) بھی مصر کی ایک اہم پیداوار تھی جو کپڑا بنانے اور دیگر گھریلو استعمالات کے ساتھ ساتھ مردہ انسانی اجسام کو حنوط کرنے کے کام آتی تھی ۔ اسے السی کے پودے (Flax)سے بنایا جاتا تھا۔کپاس کی کاشت قبطی عہد (Coptic Period)کے دوران نیوبیا (Nubia)سے مصر میں متعارف کرائی گئی تھی۔غذائی اجناس اور پٹسن عہدعتیق سے ہی مصر کی اہم پیداوار اور برآمدات رہی ہیں۔ قدیم مصر میں کاشت کاری سال میں ایک ہی مرتبہ کی جاتی تھی۔تاہم دریا اور اس کے طاس کے قریب موجود باغات کو سارا سال پانی فراہم کرناممکن نہیں تھا۔ان باغات کے مالی انتہائی جاں فشانی سے دریا سے پانی بھر کر لاتے تھے ۔اس مقصد کے لیے بڑے برتن استعمال کیے جاتے تھے جو ایک شہتیر کے ساتھ معلق ہوتے تھے جس کی ایک سمت وزنی پتھر منسلک ہوتا تھا۔پتھر پر وزن ڈالنے کی صورت میں بانس یا شہتیر کے دوسرے کنارے پر بندھاپانی سے بھرا ڈول دریا سےباہر آجاتا تھا ۔ اس طرح کے پانی کھینچنے کے ڈول بادشاہتِ جدید (New Kingdom) میں متعارف کرائے گئے تھے ۔ ان باغات میں لوبیا ، دالیں، چنے، میتھی، گاجر ، پیاز، کھیرے، سلاد کے پتےاور دیگر جڑی بوٹیاں اگائی جاتی تھیں۔اس کے علاوہ مخصوص پودوں سے خوشبوئیں اور مختلف طرح کی عطریات، رنگنے کے مصالحے، اور ادویات وغیرہ حاصل کی جاتی تھیں۔قدیم مصر میں زیادہ استعمال ہونے والے تیلوں میں ارنڈی کا تیل، عربی سہنجنا (Arabian Moringa)اور زیتون کا تیل شامل تھے۔پھولوں میں ترنجان(Cornflowers)، گل داوٴدی (Chrysanthemums) اور کنول یا نیلوفر (Lotus) زیادہ اہم تھے ۔یہ پھول باغات میں اگائے جاتے تھے اور ان سے گلدستے اور مالائیں بنائی جاتی تھیں۔ان باغات سے حاصل ہونے والے پھلوں میں انجیر ، انگور ، مصری توت، کھجور اور انار زیادہ اہم تھے۔
ان باغات سے حاصل ہونے والے انگوروں کی بدولت شراب سازی ایک اہم صنعت کی صورت اختیار کر گئی تھی۔مصر میں شراب سازی کا طریقہ تین ہزار قبل مسیح کے قریب ایشیا کے راستے متعارف ہوا تھا۔یوں تو سارا سال ہی انگور، رس اور پھل کے طور پر استعمال کے لیے بیلوں سے چنے جاتے تھے مگر انگورکی فصل کے موسم میں خاص طور پر انگوروں کو شراب کی کشیدکے لیے الگ کیا جاتا تھا اور اس مقصدکے لیے اسے بڑے بڑے امفوری(Amphorae)مٹکوں اور صراحیوں میں ڈالنے سے پہلے ایک خاص عمل سے گزارا جاتا تھا۔یہ صراحیاں نیچے سے نوکدار ہوتی تھیں نیز ان میں یہ شراب عرصہ دراز تک محفوظ رہتی تھی۔ 5
قدیم مصرکی زمین زرخیزاورہموارتھی مگراس میں معدنیات کی فراوانی نہ تھی۔تاریخی نوادرات پر جوتصاویراورنقوش ملتےہیں ان سےنتائج اخذکرتےہوئے ماہرین ِآثاراور علمائےتاریخ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مصر میں معدنیات کی کمی تھی۔6اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بادشاہوں نے جزیرہ نما سینا اور نیوبیاپر قبضہ کر رکھا تھا اور وہیں سے معدنیات حاصل کرتے تھے۔ سینا کی کانوں سے تانبا اور نیوبیاسے سونا نکالا جاتا تھا۔ ان کانوں کی کھدائی کے تذکرے مختلف بادشاہوں کے عہد میں ملتے ہیں ۔ پانچویں خاندان کے عہد حکومت میں ایک مہم ان فلسطینی قبائل کو سزا دینے کے لیے بھیجی گئی جو سینا کی کانوں سے تانبا نکالنے میں رخنہ اندازی کرتے تھے۔7 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معدنیات نکالنے کا کام مصریوں نے بہت پہلے شروع کر دیا تھا ۔ آمون (Amun)دوم و سوم کے عہد میں کانوں کے اندر کھدائی کا کام وسیع پیمانے پر شروع کیا گیاجس سے صنعت و تجارت کو بڑی ترقی حاصل ہوئی تھی۔
معدنیات کی دستیابی نے مصریوں کو صنعت وحرفت کی جانب متوجہ کیا۔ تاریخی دور کی ابتدا سے پہلے وہ ٹن (Tin) اورتانبے (Copper)کو ملاکر کانسی بنانےا ور اس سے تلواریں، ڈھال ، خود، پہیے، نجاری(بڑھئی) کے اوزار، زراعتی آلات اور مختلف قسم کے ظروف ڈھالنے لگ گئے تھے۔پھر وہ حتیوں (Hitties) کے ملک یعنی ایشیائے کو چک سے لوہا در آمد کرنے اور اس سے اوزار اور اسلحہ بنانے لگے تھے۔سلطنت جدید کے دور میں اہل مصر کاجنگی اسلحہ، کاشتکاری کے آلات اور دوسرے اوزار لوہے سے بنائے جانے لگے تھے۔ 8 9
کان کنی مصر میں سب سے مشکل پیشہ تصوّر کیا جاتا تھا۔ کانوں میں کام کرنے والے یہ مزدور سارا سارا دن ان کانوں میں کام کرتے تھے مگر ان کانوں سے نکلنے والے سونے چاندی اور جواہرات میں سے انہیں کچھ نہیں ملتا تھا۔کان کنوں کی حالت انتہائی خستہ ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ میلے کچیلےلباس میں ملبوس پراگندہ سر ہوتے تھے ۔کانوں میں کام کے دوران ان کی زندگی مسلسل خطرے کی زد میں رہتی تھی۔ اکثر انتہائی خطرناک قیدیوں کو بھی ان زیرزمین کانوں کے اندر موجود کال کوٹھریوں میں قید کر دیا جاتا تھا۔10
مصریوں نےجہاں زرعی ومعدنیاتی صنعت کےمیدان میں قدم جمائےتھےوہیں دستکاری کی صنعت بھی ان کےہی دم سےترقی کی راہ پرگامزن ہوئی تھی۔ مرکزی نظام کے تحت مصریوں نے ایک ترقی یافتہ تہذیب کو جنم دیا تھا۔جب یورپ میں لوگ جھیلوں پر رہتے تھے، مصریوں میں عمدہ اور ذہین لوہار، شیشے سے سامان بنانے والے ، ریشم اور سوت سے عمدہ کپڑا تیار کرنےوالے ، سنار اور جوہری ، بڑھئی، موسیقار اور برتن ساز موجود تھے ۔ 11
ان دستکاروں میں بہت بڑی تعداد عورتوں کی بھی تھی۔ قدیم مصر میں عورتیں بہت سے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیتی تھیں۔دیگر شعبوں کے علاوہ شعبۂ طب میں بھی خواتین موجود تھیں۔فن کی طرف میلان رکھنے والی خواتین کل وقتی یا جز وقتی طور پر پھولوں کی تزین و آرائش ، عورتوں کی آرائش، موسیقی،رقص، غنا و گلوکاری اورتصویر سازی کے ساتھ ساتھ مجسمہ سازوں اور جوہریوں کی معاونت کے شعبوں سے وابستہ تھیں۔ مصر کے یہ دستکار ،چاہے مرد ہوں یا عورتیں، اپنے کام میں خود مختار نہیں تھے بلکہ ان کا کام اور کام کرنے کی جگہیں، بادشاہوں، معبدوں، گورنروں یا امیر گھرانوں کی ملکیت ہوتے تھے نیزان دستکاری کے شاہکاروں کے زیادہ تر خریداربھی طبقہ اشرافیہ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔مصری معاشرے کے زیادہ تر افراد جو کہ کسان تھے ان اشیا کو خریدنے اور استعمال کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے تھے۔
قدیم مصر میں سنگتراش، پتھر، لوہا ، لکڑی، ہاتھی دانت اور چکنی مٹی سے مجسمے بنایا کرتےتھے۔ ازخود ایستادہ مجسموں کے علاوہ پتھروں کو کھود کر بھی مجسمے بنائے جاتے تھے جو عموما پتھروں کی ہموار سطح پر بنائے کیے جاتے تھے۔یہ مجسمہ زیادہ تر بڑے بڑے افقی پتھروں پر معبدوں اور قبروں پر بنائے جاتے تھے۔ ازخود ایستادہ مجسمے کئی اجزا سے مل کر بنتے تھے جن میں پتھر ، دھاتیں، لکڑی، ریت اور مٹی کا گارا (Terra-Cotta) اور ہاتھی دانت وغیرہ شامل تھے۔ان مجسموں اور تصاویر میں فرعونوں، ان کے بیوی بچوں، حکومتی افسران ، عام لوگوں اور کثیر اقسام کے جانوروں کی اشکال موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر مجسمےان اشیا ءکی حقیقی قد و قامت کے مطابق بنائے جاتے تھے تاہم کچھ بہت بلند و بالا اور عظیم الجثہ مجسمے بھی ہیں جن میں شہنشاہ آمن حوتپ سوئم(Amenhotep-III)کے دو مجسمے بھی شامل ہیں جن میں سے ہر ایک تقریبا50 فٹ اونچا اور700 ٹن وزنی ہے۔
مصر کے مجسموں میں سب سے بڑا اور مشہورزمانہ ابوالہول(Sphinx) ہے جو کہ مصر کےگیزہ نامی شہر میں واقع ہے۔ اس کی اونچائی 66 فٹ یا 20 میٹر اور لمبائی240 فٹ یا73 میٹر ہے ۔ 12
قدیم مصر ی وادیوں میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑیں، بکریاں اور دیگر مویشی موجود تھے جوچرواہوں کی ملکیت میں تھے۔ چرواہے اپنے جانوروں کے جھنڈ کے ساتھ ہی رہتے تھے اوراپنے جانوروں کے کھانےپینے اور حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ اگر کوئی جانور کسی بھیڑیے یا مگرمچھ کے حملے سے زخمی ہوجاتا تو اس کا مالک اس جانور کو اپنی کمر پر اٹھا کر لےجاتا اور اس کے علاج کا بندوبست کرتا۔ چونکہ جانور کثیر تعداد میں موجود تھےاسی لیے قدیم مصری باشندے ہر جانور کو داغتے تھے۔13
مختلف ملکوں سے مصر میں جو خراج آتا تھااس میں دھاتوں کے علاوہ جواہرات بھی شامل ہوتے تھے۔ فیروزہ ،جزیرہ نما سینا سے آتا تھا پشب سرخ، نوبیا کے سردار لا کر پیش کرتے تھے اور عقیق سرخ، مشرقی صحرا سے جمع کیا جاتا تھا۔ ان قیمتی پتھروں اور دوسرے جواہرات سے مصری اپنے زیورات ، تابوتوں اور دوسری چیز وں کی پچی کاری کیا کرتے تھے۔14 توتنخامون(Tutankhamun) نامی فرعون کے مقبرے سے دریافت ہونے والے جواہرات سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مصر باکمال سنار تھے۔15
قدیم مصر میں امیر و غریب ہر ایک کی حیثیت کے مطابق سستے اور بیش قیمت دونوں طرح کےجواہرات دستیاب تھے۔مہنگے زیورات میں سونے کےہار، کڑے، کانوں کی بالیاں، پازیبیں اور لاکٹ وغیرہ شامل تھے۔سونے کے علاوہ چاندی، تانبے ،پیتل، ایلیکٹرم نامی سونے اور چاندی کے آمیزے،ہاتھی دانت ، رنگے ہوئے قیمتی پتھر، شیشے کے موتی ، سیپیاں، یاقوت، سنگ لاجورد، فیروزہ، عقیق احمر، سنگ مروہ، بلوریں صوان، سنگ مرمر، دھاتی پتھروں اور سنگ مردہ (Quartz) سے بھی مختلف اقسام کے زیورات بنائے جاتے تھے۔ نہ صرف طبقۂ اشرافیہ کے مرد اور عورتیں زیورات پہنتے بلکہ معبدوں میں موجود دیوتاوٴں کے مجسموں کو بھی زیورات سے آراستہ کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ طبقۂ امرا میں مردہ اجسام کو بھی زیورات سے آراستہ کر کے مقبروں میں دفنایا جاتا تھا۔ 16
ہاتھی دانت سے بنی ہوئی بعض چیزیں زمانۂ تاریخ سے بھی پہلے کی ملی ہیں تاہم پرانی سلطنت کے زمانے میں ہاتھی دانت کا استعمال بہت ہی کم ہوگیا تھا۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس زمانے میں مصر ہاتھیوں کی کافی کمی کا شکار ہوگیا تھا لیکن درمیانی سلطنت اور بعد کے زمانے میں پھر سے مصر میں ہاتھی دانت کا رواج ہوگیا تھا۔ ہاتھی دانت بھی ان چیزوں میں سے تھا جو خراج کے طور پر دوسرے ملکوں سے آتی تھیں۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ہاتھی دانت کا خراج صرف نوبیا ہی نہیں بلکہ شام بھی تھاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر میں اس کی نسل ختم ہونے کے بہت بعد تک ہاتھی شام میں پایا جاتا رہا۔ ہاتھی دانت سے بہت سی چیزیں بنتی تھیں یا پھر اس سے بہت سی چیزوں کی پچکاری کی جاتی تھی، مثلاً لکڑی کے صندوق، خود ہاتھی دانت کے صندوق، جن پر سونے اور جواہرات کی پچکاری ہوتی تھی۔ ہاتھی دانت کی پچکاری سے آراستہ کرسیاں، ہاتھی دانت کے بنے ہوئے طرح طرح کے برتن ،تیل نکالنے کے چمچے، سر کے نیچے رکھنے کے لیے لکڑی کے تکیے جن پر ہاتھی دانت کا کام ہوتا تھا، مصر میں عام تھے۔ہاتھی دانت سے تعویذ، چھوٹی چھوٹی مورتیاں، کنگھے ،آئینوں کے دستے، چھڑیاں یا ان کے دستے ، کانوں میں پہننے کی بالیاں، شطرنج کی بساط اور مہرے وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے۔
نجاری کی بڑی بڑی دوکانیں تھیں جن میں ہر قسم کی چیزیں بنائی جاتی تھیں۔ان اشیا میں لکڑی کے کمرے، تابوت، آنتیں رکھنے کے صندوق، دروازے، تخت، سر کے نیچے رکھنے کی لکڑیاں یا چوبی تکیے، جھولے ،کرسیاں، میزیں، صندوق، لاٹھیاں ، چھڑیاں، پنکھوں کے دستے اورآرائش کی چیزیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ عطر دانیاں، تیل دانیاں، سرمہ دانیاں، کنگھیاں اور دروازوں کی چوبی کنجیاں وغیرہ بھی بنائی جاتی تھیں۔
مصر کے کاریگر تیر کمان بنانے میں بھی بڑے استاد تھے۔ فرعون تیر اندازی کے ماہر ہوتے تھے۔ ہر فرعون اپنے لیے الگ کمانیں بنواتا اور فخر کرتا تھا کہ خود اس کے سوا کوئی اور آدمی اس کی کمان کھینچ نہیں سکتا۔ تیر کی انّی پیتل کی ہوتی یا ہڈی کی یا پھر پتھر کی، مگر ہوتی اس قدر مضبوط اور تیز کہ دھات کی موٹی موٹی تختیوں کو بھی توڑ کے پار کر جاتی تھی۔
مصر میں کھال پکانے اور کمانے 17کا ہنر بہت ترقی کر چکا تھا۔ کچی کھالوں کو پہلے تیل میں بھگودیتے پھر بعض خاص مسالوں سے اسے درست کرتے تھے۔ ولکنسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ دباغت کے لیے مصری ایک خاص قسم کی گھاس سے کام لیتے تھے جو ریگستان میں پیدا ہوتی تھی اور جسے کھال سے بال دور کرنے کے لیے بدو آج تک استعمال کرتے ہیں۔ ولکنسن (Wilkinson)نے اس گھاس کا نام پیری پلوسہ سیکیمون(Periploca Secamone) لکھا ہے جسے عربی میں عطفہ یا بلخیّہ کہتے ہیں۔
قدیم مصری عموما ًجوتے نہیں بلکہ چپل پہنا کرتے تھے بالخصوص جو امیروں اور بادشاہوں کے کامدار ہوتے تھے۔ صرف تسموں والےچپل بھی رائج تھے اور اوپر سے بند چپل بھی تاکہ پیر گرد سے محفوظ رہیں۔ چپل سب ہی پہنتے تھے مگر جب اپنے سے بڑے آدمی کے ساتھ ہوتے تو تعظیم کے خیال سے ننگے پاؤں چلتے تھے۔ فرعون کی چپلوں کے تلووں پر دشمنوں کی تصویریں بنائی جاتی تھیں جس کا مطلب یہ تھا کہ فرعون اپنے دشمنوں کو روند رہا ہے۔ چمڑے کی اور بہت سی چیزیں بھی بنتی تھیں، جیسے تسمے، تھیلے وغیرہ ۔ چمڑہ لال رنگ کا بہت پسند کیا جاتا تھا۔قدیم آثار اور دریافت ہونے والی کئی تصویروں میں مصری موچی چپل بنا تے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔
قدیم مصر میں خوشبودار تیل اس طرح بنائے جاتے تھے کہ پہلے روغنی پھلوں کو ایک بڑے ہاؤن میں رکھ کر کوٹا جاتا،دوسرے ہاوٴن میں کوئی تیز خوشبو دار چیز کو ٹی جاتی ،جب دونوں الگ الگ اچھی طریقے سے کوٹ دیا جاتا تو پہلے ہاوٴن کا تیل اور دوسرے ہاوٴن کی خوشبو دار چیز، دونوں کو تیسرے ہاوٴن میں خوب اچھی طرح ملا دیا جاتا تھا،پھر کسی جانور کی چربی آگ پر پگھلائی جاتی اور اس چربی میں تیسرے ہاوٴن کی سب چیزیں انڈیل کر ذرا ہلایا جاتا اور آگ پر سے ہٹالیا جاتا تھا ۔اس طرح خوشبودار تیل بنایاجاتا تھا۔ تیل ٹھنڈا ہو کر گاڑھا ہو جاتا جسے بالوں میں لگایا جاتا تھا۔
مصری عطر استعمال کرتے تھے مگر قرع انبیق(عرق کھینچنے کے بھبکے) سے ناواقف تھے اس لیے وہ خوشبو دار پھول ایک تھیلے میں بھر دیتے تھے۔ تھیلے میں دو کڑے لگے ہوتے اوران میں وہ لمبی لکڑیاں ڈال کر تھیلے کو دو مختلف سمتوں میں زور زور سے ہلاتے تھے ۔ نیچے ایک برتن رکھا ہوتا تھا اور پھولوں کا عرق تھیلے سے اس برتن میں گرتا رہتا تھا۔ اس طرح عطر تیار کرتے تاہم کبھی اس عطر میں چربی بھی ملادی جاتی تھی ۔
مصر میں بہت ہی پرانے وقتوں سے کپڑا بُنا جاتا تھا۔ تصویروں سے یہ عجیب بات ظاہر ہوتی ہے کہ بہت قدیم زمانے میں بننے کا کام صرف عورتیں کرتی تھیں لیکن بعد میں یہ کام مردوں کے لیے خاص ہو گیا تھا۔
مصر میں چٹائیوں کا استعمال عام تھا اور لوگ کرسیوں کے نیچے چٹائیاں بچھاتے تھے ۔ پورے کمرے میں بھی چٹائی کا فرش بچھا دیا جاتا تھا۔ چھتریاں بھی چٹائی سے بنائی جاتی تھیں ۔ سفر کے لیے ایک خاص قسم کی چٹائی ہوتی جو بہت نرم اور لچکدار ہوتی تھی ۔ مسافر اس میں اپنا اسبابِِ سفر باندھ لیتے اور رات کو اسے بچھا کر سو بھی جاتےتھے۔ یہ گویا موجودہ زمانے کا بستر بند تھا۔
بیئر کی صنعت دوسری شرابوں کی طرح عام تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بنائی جانے والی بیئر بھی مصری بڑے شوق سے پیتے تھے۔ اس کی ترکیب یہ تھی کہ جَوکے خوشے ایک دن تک پانی میں بھگوئے جاتے ،پھر سوراخوں والے برتن میں خوشے رکھ کر دوبارہ بھگو دیتے اور چھوڑ دیتےتھے۔ جب یہ سوکھ جاتے تو ان میں سے جَو نکال لیتے پھراسے کوٹتے اور اس میں خمیر ملا دیتے تھے ۔پھر گوندھ کر روٹیاں بنالیتےتھے۔یہ روٹیاں پکائی جاتی تھیں مگر اس طرح کہ اندر کا گودا کچا ہی رہے پھر ہر روٹی کاٹ کر اس کے چار ٹکڑے کر دیتے اور بڑے بڑے برتن کے میٹھے پانی میں یہ روٹیاں ڈال دیتے تھے۔ یہاں تک کہ خمیر پیدا ہو جاتا، پھر روٹیاں ایک بڑی چھلنی میں ڈال دی جاتیں جس کے نیچے برتن ہوتا تھا۔ روٹیاں چھلنی میں زور زور سے ہلائی جاتیں جس سے ان کا رس نکل آتا تھا۔اہل مصر اس رس کو ہنڈیوں اور مٹکوں میں بھر کر رکھ لیتے اور جب چاہتے اسے پیتے تھے ۔ 18
تجارت چاہے مقامی ہو یا بین الاقوامی، ہر قدیم تہذیب کا لازمی جز رہی ہے۔تاریخ ِعالم میں کوئی بھی ملک تمام اشیا ءکی پیداوار میں مکمل طور پر خود انحصاری کا حامل نہیں رہا ہے۔ ہر ملک کو کسی نہ کسی چیز کی کمی کا سامنا رہا جسے پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے کئی چیزیں درآمد کرنا پڑتی تھیں۔مصر اگرچہ بے تحاشہ قدرتی وسائل سے مالا مال تھاتاہم بہت سی چیزوں میں خود کفیل نہیں تھا جس کی وجہ سے اہم اشیائے ضرورت اور سامانِ آسائش کی فراہمی کا انحصار تجارت پر ہی تھا۔
مصریوں کو کاروبار اور تجارت سے دلچسپی تھی تاہم زیادہ تر تجارت خود فرعون کرتے تھے اور اس ذریعہ سے اپنی دولت بڑھاتے چلے جاتے۔19وقت گزرنے کےساتھ ساتھ زراعت اور صنعت کی ترقی کے اور تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔20 شام ، لبنان ، عراق، پنٹ( Punt) اور بحیرۂ روم کےساحلی ممالک سےاہل مصر کے تجارتی تعلقات سلطنت قدیم کے زمانہ ہی میں قائم ہو چکے تھے ۔یہ تجارت بری اور بحری دونوں راستوں سے ہوتی تھی۔ تجارتی قافلوں کے تذکرے مختلف بادشاہوں کے عہد میں ملتے ہیں ۔ سنوفر کے متعلق تحریر ہے کہ اس نے کشتیاں بنوائیں اور ایک بحری مہم لبنان روانہ کی جو دیودار کی لکڑی لے کر واپس ہوئی تھی ۔ 21شامی ساخت کے برتنوں میں شام سے زیتون کا تیل فروخت کے لیے ڈیلٹا کی سر زمین میں برابر آتا رہا تھا ۔ یہ بات دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی آمد و رفت کی دلیل ہے ۔ اس تجارت کی محفوظ ترین راہ سمندر ی راستہ تھا ۔ 22
پانچویں خاندان کے عہد میں بھی لبنان اور شام کی طرف بحری قافلے بھیجے جانے کے ثبوت ملتے ہیں ۔ فیفی اول (Pepi-I)کے عہد میں جنوب کے حاکم یونی نے کشتیاں بنوائیں اورپہلے آبشار کی چٹانوں کو کاٹ کر پانچ دریائی راستے نکالے اور کشتیوں کے ذریعے نیو بیاسے کئی اقسام کے سامان منگوائے تھے۔23 فیفی دوم(Pepi-II) کے مقرر کردہ حاکم حر خوف نے بھی لوبان ، ہاتھی دانت، آبنوس اور چیتے کی کھالیں نیو بیا سے درآمد کیں تھیں ۔ منتو حوطف سوم (Amenhotep-III)کے عہد میں خصوصیت کے ساتھ تجارتی ترقی کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اس نے ارض پنٹ( Punt) کی طرف ایک بحری قافلہ بھیجا جو ہاتھی دانت، لوبان اور مسالے لے کر واپس لوٹا تھا۔24اس کے عہد میں مختلف ممالک کے تجارتی جہاز مال ِتجارت سے لدے ہوئے مصر کی بندر گاہوں پر لگے رہتے تھے۔ اس طرح بکھرے ہوئے متعدد شواہد دوسرے قدیم شہروں سے بھی دستیاب ہوئے ہیں جو مصر کے تجارتی تعلقات کی وسعت کی دلیل ہیں۔25بر آمد کیے جانےو الے سامان میں مختلف نوعیتوں کی مصنوعات، زیورات اور آرائشی سامان شامل تھا۔ تمدن کے قیمتی اور حسین لوازمات بابل ، نینوا اور عراق کے دوسرے شہروں میں بھی پائے جاتے تھے جہاں کے باشندے تہذیب و تمدن کے لحاظ سے مصریوں کے ہمسر تھے ۔ 26
پہلے مصری اتحاد ی دور کے مرتبانوں پر بنائی گئی بے شمار تصاویر میں دریائے نیل میں تیرتی چپووٴں سے چلنے والی کشتیاں دکھائی گئی ہیں ۔ یہ آج کے دور کےانسانی علم کے مطابق اب تک دریافت ہونے والی قدیم ترین کشتیوں کی تصاویر ہیں۔ان تصاویر سے پتہ چلتاہے کہ دریا کے کنارے واقع قصبوں کے درمیان کشتیوں کے ذریعے تیز رفتارتجارتی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ ہر کشتی پر اس قصبے کاعلم نصب ہوتا جس سے وہ کشتی تعلق رکھتی تھی ۔ ہر قبیلے کے علم پر ان کی قبائلی علامت اور نشان واضح ہوتے تھے۔ پہلے اتحادی دور کے قبرستان سے برآمد ہونے والے آثار سے اس طرح کے جھنڈوں والی 300 کے قریب کشتیوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں سے 222 کشتیاں دریائے نیل کے ڈیلٹا کے مغربی خطے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان شواہد سے تجارت میں زیریں مصر کی برتری کی جانب اشارہ ملتاہے۔آثار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بحیرۂ روم (Mediterranean Sea) میں واقع مصری بندرگاہ مغربی ڈیلٹاکےکونے میں پہلے سے موجو دتھی جہاں بعد میں سکندر اعظم نے عہدقدیم کی مشہور ِزمانہ بندرگاہ اسکندریہ کی بنیاد رکھی تھی۔ یوں سکندراعظم کی اس خطے میں آمد سے 3000سال قبل ہی مصری تہذیب و تمدن اور تجارت اس بندرگاہ سے بحری جہازوں کے ذریعے کریٹ (Crete) اور وہاں سے یورپ میں پھیل چکی تھی۔ 27
عہدقدیم کے دوران مصر میں زیادہ تر مبادلۂ اشیا ءکا نظام(Barter System) ہی رائج تھا۔نقد معیشت کا نظام 525 قبل مسیح میں فارسی حملے تک عملی طور پر رائج نہیں ہوا تھا۔اس سے پہلے دو فریقین کے اعتماد سے اشیاءکی قدر و قیمت کا تعین کر کے شے کے بدلے شےکی تجارت کی جاتی تھی۔ تمام بین الاقوامی تجارت مرکزی حکومت کے ماتحت تھی ۔ تمام تجارتی مہمات بادشاہ کی طرف سے روانہ کی جاتی تھیں تاہم حکومتی افسران کی نجی تجارتی مہمات کے شواہد بھی ملے ہیں جنہیں حکومتی محصولات ادا کرنا پڑتے تھے۔حکومت تجارتی قافلوں کی حفاظت کا انتظام کرتی تھی۔ اس مقصد کے لیے نخلستانوں میں قلعہ بندیاں تعمیر کی گئی تھیں نیز سرحدی علاقوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ تجارتی مراکز میں بھی مسلح فوجی گشت اور نگرانی کا انتظام موجود تھا۔ دریائے نیل میں تجارتی مقاصد کے لیے مختلف انواع اور حجم کی کشتیاں استعمال ہوتی تھیں جو لکڑی اور نرسل کے بانسوں سے بنائی جاتی تھیں۔جانوروں اور بھاری سامان کی نقل وحمل اور ترسیل کے لیے بحری جہاز استعمال کیے جاتے تھے۔عہد وسطیٰ کی بادشاہت کے دوران بڑی بڑی کشتیوں میں پتوار (Rudder)بھی استعمال ہونے لگے تھے جن میں سے کچھ کشتیاں60فٹ تک طویل تھیں۔ باربرداری کے لیے گدھے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔اگرچہ پہیہ بادشاہت قدیم میں بھی موجود تھا مگر پہیوں سے چلنے والی گاڑیوں اور چھکڑوں کے وجود کا ثبوت بادشاہتِ جدید میں ہی ملتا ہے جس کی وجہ یہاں کی پتھریلی اور ریتیلی زمین تھی تاہم بڑے بڑے قافلوں میں سامان کی نقل و حمل کے لیے بیلوں سے کھینچے جانے والی مال بردار گاڑیوں کا استعمال بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔28
مقامی تجارت اور سوداگری کبھی بھی مصری معاشرے کا ایک اہم پہلو نہیں بن سکی۔ مصر کے جغرافیائی خدو خال اور برآمدات پر شاہی اجارہ داری کے سبب نجی تجارتی سرگرمیوں کی نمو محدودہی رہی تاہم قدیم مقبروں سے برآمد ہونے والی شبیہات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی منڈیاں تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھیں جہاں کپڑے، کھانے پینے کی اشیاءاور زیورات وغیرہ ایک دوسرے سے تبدیل کیے جاتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ525 قبل مسیح یعنی فارسی دور تک سکوں اور کرنسی کا کوئی نظام وضع نہیں ہوا تھا۔ تاہم بادشاہت ِجدید میں مختلف دھاتوں مثلا سونا ، چاندی اور تانبے وغیرہ کو اشیاءکی قدر کے تخمینے کے لیے معیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا نیز مبادلۂ اشیا ءکا نظام بھی رائج تھا۔یہ ممکن ہے کہ کچھ تھوک فروش تاجر موجود ہوں مگر ان کا ذکر تاریخ میں بہت کم محفوظ ہے۔اشیاکی ترسیل اور نقل و حمل میں تجارت کا کردار زیادہ نہیں تھا جس کی وجہ شاہی تحائف کا نظام تھا جس سے امرا اور شرفا کو کافی آمدنی ہو جاتی تھی۔ باقی افراد کو اجناس کی صورت میں تنخواہیں اور مشاہرے دئے جاتے تھے۔ بادشاہ اور منتظمہ اس بات کا فیصلہ کرتے تھے کہ کونسی اشیاء دوسرے ممالک کو برآمد کرنی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ معدنیات، انگور کے باغات اور کان کنی کے نظام پر بھی ان کا کنٹرول تھا۔سرحدوں پر محصول کی وصولی کے لیے چوکیاں قائم تھیں۔اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ شمال سے آنے والی تجارتی اشیا ءپر 10 فیصد محصول لاگو ہوتا تھا ۔ا سی طرح بحیرۂ روم کے راستے سے آنے والے سامان تجارت پر بھی ٹیکس لاگو ہوتا تھا۔یونانیوں کی مصر میں تجارت کا آغاز چھبیسویں خاندان کے دورحکومت میں ہوا تاہم ان کے لیے ضروری تھا کہ صرف کینوپس (Canopous)شہر کی طرف سے دریائے نیل کے راستے مصر میں داخل ہوں29اوراسکے لیے بھی ان کو بھاری محصولات ادا کرنے پڑتے تھے ۔
پہلے خاندان کے عہد سے ہی مصریوں کی شام ، لیبیا اور نیوبیا کے ساتھ بین الاقوامی تجارت شروع ہو چکی تھی۔کنعان ، شام اور نیوبیا میں مصر کی کئی تجارتی کالونیاں موجود تھیں۔اہل مصر سرکنڈوں کی کشتیوں سے ترقی کرتے کرتے لکڑی کے بڑے جہاز بنانے کے قابل ہو چکے تھے جن کی مسلسل آمد ورفت لبنان میں جاری رہتی تھی جہاں سے دیودار کی لکڑی درآمد کی جاتی تھی۔ 30 مصری تاجر سمندری اور بری دونوں راستوں سے نیوبیا(Nubia)، بائیبلوس (Byblos) اور پنٹ(Punt) کا سفر کرتے اور وہاں کی خاص مصنوعات مصر لاتے تھے۔مصر کی سیاسی حیثیت اور کچھ بنیادی وسائل کی کمی نے اہل مصر کو مسلسل اس بات پر مجبور کئے رکھا کہ وہ قدرتی رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیرونی ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کریں۔اہل مصر نے بری اور بحری راستےتجارتی اور عسکری مہمات کے لیے استعمال کیے تھے۔اسی طرح کان کنی اور معدنیات کی ترسیل کے لیے بھی بحری اور بری دونوں طرح کے ذرائع نقل و حمل استعمال کیے جاتے تھے۔یہ تجارتی امور انتہائی منظم انداز سے سر انجام دئے جاتے تھے تاہم ان میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔اہم تجارتی مہمات کی بادشاہ خود نگرانی کرتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ کسی شہزادے یا اہم حکومتی عہدیدار کوبھی اس مہم کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی جس کے پاس شاہی مہر ہوتی تھی۔بحری تجارتی سفر کی نگرانی پر عموما بحریہ کے کپتانوں کو مقرر کیا جاتا تھا جن کے ہمراہ کاتب اور مترجم ہوتے تھے۔اس کے علاوہ سپاہیوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد بھی ہمراہ ہوتی تھی۔بادشاہتِ جدید میں جنگی قیدیوں کو بھی مزدوروں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔جزیرہ نما سینائی کی طرف بھیجی گئی مہمات میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے جن کا مقصد فیروز ہ (Turquoise) اور تانبے کا حصول تھا۔یہاں ان کی ملاقات دجلہ و فرات کی وادی میسوپوٹیمیا(Mesopotamia) میں واقع شہر سیپار(Sippar) کےتاجروں سے ہوئی جو سنگ لاجورد (Lapis Lazuli) کی تجارت کرتے تھے جو ان تک مختلف تجارتی راستوں سے پہنچتا تھا۔ وہ غالبامصری تاجروں سے فیروزہ (Turquoise) کا تبادلہ سنگ لاجورد (Lapis Lazuli) سے کرتے۔یوں سینائی خطہ(Sinai) کان کنی کے ساتھ ساتھ قیمتی پتھروں کے تبادلے کا مرکز بن گیا تھا۔31
اس قدرتجارتی ترقی کے باوجود مصر میں سکے کا رواج نہ تھا ۔32 ہر جگہ جنس کے بدلے جنس کا اصول کار فرما تھا۔ بادشاہ کے محصولات اور ملازمین کی تنخواہیں بھی جنسوں میں ادا کی جاتی تھیں ۔ تجارتی معاملات اور کاروبار کے اندر کبھی کبھی سونے اور چاندی کی انگوٹھیاں اور اینٹیں بھی تبادلہ میں دی جاتی تھیں ۔ 525 قبل مسیح میں مصر کی سلطنت، فارس کے حکمرانوں کے تحت آگئی تب اس کی معیشت میں بھی سکوں کا استعمال شروع ہوا۔ اس سکہ نما چیز کو ڈیبن(Deben) کہا جاتا تھا اور یہ عمومی طور پر90 گرام تانبہ کا بنا یا جاتاتھا۔اشیا ءاور خدمات کی قدر کا تعین اسی ڈیبن نامی اکائی سے کیا جاتا تھا۔زیادہ قیمتی اشیاءکی قیمت کا تعین سونے اور چاندی کے ڈیبن سے کیا جاتا تھا۔اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگرپیپرس (Papyrus)کےایک طومار کی قیمت ایک ڈیبن ہے اور جوتوں کے ایک جوڑے کی قیمت بھی ایک ڈیبن ہے تو ان دونوں اشیا ءکو ایک دوسرے کے بدلے با آسانی خریدا جا سکتا تھا۔اسی طرح اگر شراب کے تین مٹکوں کی قیمت ایک ڈیبن ہے اور ایک مزدور کی یومیہ اجرت بھی اتنی ہے تو مزدور کو اس کے کام کے بدلے تین مٹکے شراب بھی بطوراجرت دی جاسکتی تھی۔33
مصر کی پوری تاریخ میں فرعونوں نے انفرادی طور پر اشیا ءبنانے والے افراد اور حکومتی افسران پرمعیشت کے تمام شعبوں میں ایک ہی طرح سےباہمی انحصار کے ایک پیچیدہ نظام کے تحت لگان کا نفاذ کیا ہوا تھا۔بادشاہ ِوقت مصر کے تمام خطۂ زمین کے مالک کے طور پر اس بات کا حق رکھتا تھا کہ جسے جہاں چاہے آباد کرے اور بدلے میں جس طرح چاہے زمین کی پیداوار، جانوروں اور مویشیوں، مختلف مصنوعات اور ریاستی منصوبوں کے لیے انسانی محنت کی صورت میں محصول وصول کرے۔ 34لگان اور محصولات کی وصولی کے لیے حکومت اس کام سے تعلق رکھنے والے افراد کی خدمات حاصل کرتی تھی جو مقدار کی پیمائش اور تولنے کے لیے وزن و پیمائش کا ایک خاص نظام استعمال کرتے تھے۔ 35
قدیم مصر میں کسانوں اور عوامی طبقے سے سب سے زیادہ لگان وصول کیا جاتاتھا ۔ اس نظام کا نگران ایک وزیر تھا اور تمام متعلقہ افسران اس کے تحت کام کرتےتھے۔ لگان کا تعین مصری منشیوں کا کام تھا۔ ان منشیوں کو کاتبین (Scribes) بھی کہا جاتا تھا۔ یہ عوام کی زرعی پیداوار، کھیتوں کی حدود اور مال مویشیوں کی تعداد کا ریکارڈ رکھتے اور وقت آنے پر لگان کا تعین کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص لگان نہ ادا کرتا تو اس شخص کو عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جاتاتھا۔ کم سے کم گھر کے ایک فرد پر واجب تھا کہ وہ سرکاری لگان کے طور پر حکومت کے لیے کچھ ہفتوں تک بلا معاوضہ کام کرے۔ ان کاموں میں نہروں کی مرمت، معدنی کانوں میں کھدائی اور مقبروں کی تعمیر وغیرہ شامل تھی۔ تاہم پڑھے لکھے لوگ اس لگان سے بری ہوتےتھے۔ اگر کوئی امیر آدمی چاہتا تو اپنے آپ کو اس لگان سے بچانے کے لیے کسی غریب کو اجارےپر رکھ لیتا تھا۔ اس کے علاوہ لگان کی دو اور صورتیں بھی تھیں۔ ایک تو یہ کہ مفتوحہ سلطنتیں بادشاہ کو قیمتی تحائف پیش کرتیں جن میں قیمتی جواہر، سونا، چاندی وغیرہ شامل ہو تےتھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ تاجروں کی درآمد اور برآمد پر لگان وصول کیا جاتا جو کہ مال کا دسواں حصہ ہوتاتھا۔ ان طریقوں سے مصری شاہی خزانے کی تجوریاں مال و جواہر سے بھری رہتی تھیں اور فراعین اس دولت کو جیسے چاہتے اپنے من پسند کاموں میں خرچ کرتےتھے۔36
ذرائع نقل و حمل کوبھی مصریوں نے غیر معمولی ترقی دی ۔ کشتیاں بنوائیں اورخچروں ،گدھوں ، بیلوں اور اونٹوں سے بار برداری کا کام لیا۔ بوجھ ڈھونے کے لیے گاڑیاں ایجاد کیں جنہیں خچر اور بیل کھینچتے تھے ۔ سب سے اہم یہ کہ ایسے طریقے ایجاد کیےجن کے ذریعے بھاری اور وزنی چیزوں کوبا آسانی اٹھا سکیں اور بلندی پر لے جاکر نصب کر سکیں۔ یہ بات عقل انسانی کو حیران کردیتی ہے کہ ڈھائی ڈھائی ٹن کے پتھر اہرام میں لگے ہوئے ہیں ۔ ان پتھروں کو سینکڑوں فٹ اوپر لے جانا اور پھر اپنی جگہ چُن دینا کوئی سہل کام نہ تھا ۔آج کے انسان کی بھی عقل حیران ہے کہ بغیر میکا نکی طاقت کے کس طرح یہ ممکن ہو سکا؟ دوسرے یہ کہ جو پتھراہرام اعظم میں استعمال ہوئے ہیں وہ دریائے نیل کی دوسری جانب سے لائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں ٹن وزنی ستون اور لاٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے گئے تھے۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم مصر میں نقل و حمل کا بہترین نظام موجود تھا ۔ ہیرو ڈوٹس (Herodotus)کے ایک بیان کے مطابق مصری بھاری پتھروں کو لکڑی کے سہارے اوپر لے جاتے تھے ۔ اُن شہتیروں پر پہلے چربی یا کسی طرح کا روغن لگاتے تھے پھر ہزاروں مزدور مل کر ان شہتیروں کو اوپر کھینچتے تھے ۔ مگر اس نامکمل تفصیل سے جرّاثقال کی پوری کار روائی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ پتھروں کو صرف سرکانا نہیں تھا بلکہ 480فٹ( اہرام اعظم کی بلندی) اوپر لے جانا تھا۔ پھر عمارت کے اندر صحیح مقام پر اس کو رکھنا تھا۔ بہر کیف اگر انہوں نے مشینیں ایجاد نہیں کیں تو کم از کم علم ہندسہ میں اتنی ترقی کر لی تھی کہ اس کی مدد سے اس بظاہرناممکن کام کو سرانجام دیا تھا ۔ 37
یہ بات واضح ہے کہ قدیم مصری معیشت مکمل طور پر فراعین کے ماتحت تھی تاہم اہل مصر زراعت کے اعتبار سے معاشی معاملات میں خود مختار تھے اور معدنیات کے حصول اور دوسری ضروری اشیا کے لیے دیگر ممالک سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس تمام تر خوشحالی کے باوجود فراعین مصر اپنی رعایا سے لگان وصول کرتے تھےتاکہ اپنی ذاتی خواہشات اور مقاصد کو پورا کرسکیں۔ عام عوام سے جبراً زیادہ لگان وصول کیا جاتا جبکہ امرا ء کو کچھ معاملات میں ڈھیل دی جاتی تھی۔ نتیجتاً غریب مزید غریب ہوتا گیا اور حکمران طبقے کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اکثر مفلسی کا عالم یہ ہو جاتا کہ لوگ قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتے اور قرضہ واپس نہ کرنے کے سبب غلام بنا لیے جاتے تھے۔لہذا پناہ دنیاوی ترقی کے باوجود اہلِ مصر کے معاشی نظام میں انسانیت کی فلاح کا عنصر ناپید تھا۔ یہ نظام معیشت شاہی مفادات کے اصولوں پر مبنی تھا جس کا واحد مقصد بادشاہِ وقت کی خواہشات اور اسباب تعیش کی بلا تعطل فراہمی تھا۔بادشاہ کے اخراجات کی نگرانی کا کوئی نظام موجود نہ تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ کو خداکا درجہ حاصل تھا۔عوام حکومتی کارندوں اور ان کے مال و اسباب اور جائیداد کی ملکیت بادشاہ کے پاس تھی اس لیے ان کی حیثیت بادشاہ کی خواہشات کی تکمیل کرنے والے کارندوں سے زیادہ نہ تھی۔ اگر اس نظام کی بنیاد عوام کی فلاح پر رکھی جاتی تو رفتہ رفتہ یہ ایک بہترین نظام بن سکتا تھا جس سے مصر کا مالی طور پر ہر پسماندہ اور غریب طبقہ مستفید ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔مصر اور دیگر قدیم تہذیبوں کی نام نہاد ترقیافتہ معیشتوں میں دور دور تک حقیقی فلاحی منصوبوں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔یہ کھوکھلا نظام خدائے واحد کے بندوں کو حاکم و محکوم میں تقسیم کرنے اور کچھ انسانوں کی لامتناہی خواہشات کی تکمیل کے راستے تلاش کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔دبستان ِتاریخ کے ان گم گشتہ ابواب سے یہ حقیقت واضح طور پرعیاں ہوتی ہےکہ یہ سارے معاشی نظام بظاہر اچھے لیکن حقیقتا ناکام تھے اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو تے چلے گئے اور آج بھی سودی نظام ہی نے دنیا کو جنگی صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے کیونکہ اس میں بھی چند لوگوں کی منفعت کے عوض اکثریت کا استحصال ہی ہوتا ہے ۔