Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

تاریخِ مصر

ازمنہ قدیم سے ہی انسا ن اور دریاوٴں کا باہمی گہرا تعلق رہا ہے۔انسانی تاریخ کےحجری عہد کے دوران مختلف دریاؤں کے مثلثی دہانے (Delta) میں انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی اور نمو ہوئی ہے۔ دجلہ ، فرات ،سندھ ، ہوانگ ہو اورنیل نامی اہم دریاوٴں کے مثلثی دہانوں (Delta) نے اپنی زرخیزی کے باعث پتھر کے عہد کے انسانوں کو اپنی طرف مائل کیا اور دورِ قدیم کےانسانوں نے ان دریاوٴں کے اطراف و جوانب کو آباد کیا اور یوں زراعت اور دوسرے فنون کو ترقی حاصل ہوئی۔براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں دریائے نیل کےکناروں پرآباد انسانی بستیاں وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے قصبوں،شہروں اورپھرایک بڑی سلطنت کی شکل اختیارکرگئیں جو مصر کے نام سے مشہورہوئی تھی۔ مصر کاشمار دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔اس تہذیبی ورثے کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اس خطے میں بسنے والے انسانوں کے کارنامے ،نوادرات اور یادگاریں آج تک دریافت ہو رہی ہیں۔ان نوادرات اور انسانی ہنر کے نمونوں نے ماہرین آثار قدیمہ کو ایک ایسےسحر میں مبتلا کر رکھا ہے جو اس تہذیب کے رازوں سے پردے اٹھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

تحفہ ِ نیل کہلانے والی تہذیب ِ مصر ہزاروں سال قبل برِ اعظم افریقہ کے شمال مشرقی حصے پرنمو پذیر ہوئی اورباقی دنیاسے بالکل الگ تھلگ رہ کر ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔مصر کے لیےاستعمال ہونے والا انگریزی لفظ Egypt یونانی زبان کے لفظ Aigyptos کی ایک شکل ہے جو دریائے نیل پر واقع شہر ممفس(Memphis) یا ہائیکوپتاح (Hiku Ptah) کے لیےاستعمال ہوتا تھا، جس کے معنیٰ روح کی حویلی یا روح کا مسکن لیا جاتا تھا۔تاہم یہاں کے باشندے اپنے علاقے کو مصر کہتے تھےجبکہ فراعنہ کے زمانے میں اسے خم یا خیمت (Khem or Khemet) کہا جاتا تھا۔ 1

میلکولم۔ بی۔ رسل(Malcolm B. Russell) نامی مورخ کے بقول بھی مصر کا انگریزی نام اِجیپٹ (Egypt) قدیم مصر کے دارالحکومت ممفس (Memphis) کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے کھنڈرات آج کےجدید قاہرہ کے قریب موجود ہیں۔ 2

وجہ تسمیہ

مصر کو مصر اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اسی شہر میں مصر بن بیصر بن حام نے سکونت اختیار کی تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ نوح کے ساتھ کشتی میں سوار تھا اورحضرت نوح نے اس کے حق میں دعائے برکت فرمائی تھی جسے اللہ جل شانہ نے قبول فرما کر مصر بن بیصر بن حام کو برکت مرحمت فرمائی تھی۔3 مصر بن بیصر کے اس خطے میں رہائش اختیار کرنے کے باعث اس شہر کا نام مصر پڑگیا تھا جسے قبطی زبان میں خیم (Khem)کہا جاتا تھا ، یہیں حضرت موسیٰ کو ٹوکرے میں بہتے ہوئے دریائے نیل سے باہر نکالا گیا تھا ۔اس جگہ کو مصر یم بھی کہتے تھے جسے آگے چل کر مصر کہا جانے لگا تھا۔4

اس تفصیل سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ مصر خواہ کسی فرد کا نام ہو ، شہرکا نام ہو،دارالحکومت کا نام ہو یا دریا کا نام ہو لیکن اس کا تاریخی اور عرفی اطلاق برِ اعظم افریقہ کے شمال مشرقی حصے پر واقع ملک مصر اور اس کے قرب و جوارپر مشتمل ایک وسیع خطے پر ہوتا ہے جہاں قدیم ترین انسانی تہذیب اور سیاسی نظم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

آغاز تمدن

ماہرین تاریخ مصر کی تہذیب کو بہت قدیم تصوّر کرتے ہیں تاہم اس کی تاریخ کا باقاعدہ آغاز کم و بیش 3000قبل مسیح سے ہوتا ہے۔5بعض تاریخ دان مصر کی تاریخ کو اس سے بھی قدیم تصوّر کرتے ہیں جن میں مغربی تاریخ دان پروفیسر فلنڈرس پیٹرائے (Prof. Flinders Petrie) بھی شامل ہیں۔ فلنڈرس کے بقول مصری تمدن کا آغاز قریباً 10000سال قبل مسیح میں ہوا تھا6تاہم اہل مذہب اور اہل اخبار وسیر نے اس خطے کی تاریخ کو حضرت نوح کے پوتے بیصر بن حام کی طرف منسوب کیا ہے۔ المسعودی کے مطابق مختلف مذاہب کے اہل علم و اخبار وسیر نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی اولاد میں سے بیصر بن حام بن نوح بابل (Babylon) چھوڑنے کے بعد سب سے پہلے اپنے اہل و عیال سمیت مصر کے مغربی نواحی علاقے کے قریب آباد ہوا تھا۔7 تاریخ الیعقوبی کے مطابق مصر اس کا سب سے بڑا بیٹا تھا جسے اس نے اپنا جانشین بنایا تھا۔ مصر نے اپنے اور اپنے بیٹوں کے لیے چاروں اطراف سے دو ماہ کی مسافت کا علاقہ لے لیا جسکا منتہیٰ الشجر تین سے لے کر رفح اور العریش کے درمیان اسوان تک طولاً اور برقہ سے ایلہ تک عرضاً تھا۔ مصر اپنے باپ کے بعد ایک عرصہ تک بادشاہ رہا ۔8

المسعودی کے مطابق مصر بن بیصر کے چار بیٹے تھے۔ قبط، شمعون، اتریب اور وصا۔ اس نے مصر کو ان چاروں میں برابر برابر تقسیم کرکے وہاں کی حکمرانی بھی اسی لحاظ سے انہیں سونپ دی تھی۔ چنانچہ مصر کے چار علاقے اشمون، قبط، اتریب اور وصا انہیں کے نام سے منسوب چلے آ رہے تھے۔ مصر میں قبط کی نسل سب سے زیادہ پھلی پھولی۔بعد ازاں اس میں دوسرے بھائیوں کی اولاد شامل ہوجانے سے ان کے انساب خلط ملط ہوگئےلیکن سارا مصر عموماً اقباطِ مصر ہی کے زیر تسلط رہا۔اس کی واحد وجہ اولاد قبط کی کثرت تھی، لیکن ان سب بھائیوں کی اولاد مصر میں ہمیشہ اولادِ مصر بن بیصر بن حام بن نوح ہی کہلاتی رہی اور اب تک کہلاتی ہے۔9

علاوہ ازیں اہل مصر کے جدِّ اعلیٰ کے متعلق طبری کی رائے یہ ہے کہ ان کا تعلق قوط بن حام بن نوح سے ہے۔قوط بن حام بن نوح نے بخت بنت تاویل بن ترس بن یافث بن نوح سے شادی کی جس سے قوط کاا یک بیٹا قیط پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہی دراصل قبط ہے۔10با الفاظ دیگراہل مصر کا تعلق قیط سے ہے کہ جن کو تاریخ میں قبط کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کی اولاد کو قبطی(Copts)کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ ابن خلدون کے مطابق قبطی کنعان بن حام کی اولاد سے ہیں۔11

مغربی مورخین اور ماہرین ِ آثارِ قدیمہ مصر ی تمدن کو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کرتے ہوئے اس کی تاریخ کو ہزاروں سال قدیم قرار دیتے ہیں۔ ایچ-جی-ویلز (H. G. Wells)کے مطابق وادئ نیل کے قریب جس دور میں لوگ زراعت کے لیے آباد ہوئے اور شہری ریاستوں کی بنیاد رکھی وہ 6000سے 3000قبل مسیح کا درمیانی دور تھا۔12تاہم ولیم میک گاگی(William Mcgaughey)کےمطابق قدیم مصر کے علاقے میں 4000قبل مسیح کے آس پاس دریائے نیل کے ساتھ ساتھ بہت سےمقامات پر چھوٹی چھوٹی انسانی بستیاں آباد ہوگئی تھیں جن کے باشندے عام طور پر ایک ہی قبیلے کے لوگ تھے۔یہ سب ایک ہی علامت کو مانتے ، ایک ہی سردار کی اطاعت کرتے اور ایک ہی طرح کےرسوم و رواج پر عمل پیرا تھے۔13

ابتدائی دور

تاریخ کے ماہرین کا خیال ہے کہ قدیم حجری عہد میں وہاں کے پہاڑوں پر پرانی قومیں ابتدائی قسم کی زندگی بسر کرتی تھیں۔ سب سے آخری قدرتی انقلاب کے زمانہ میں دریائے نیل پیدا ہوا جو ایک لمبے قطعۂ اراضی کو سیراب کرتا ہوا ساڑھے تین ہزار میل تک چلا گیا۔ اس دریا کے سیلابوں نے وہاں کی زمین کو اس قدر زرخیز بنادیا کہ نہ صرف قدیم عہد حجری کے لوگ پہاڑوں سے وادیٔ نیل میں آباد ہوتے گئے بلکہ مشرق کی طرف سے بحر روم (Mediterranean Sea)کے گرد کی قومیں اور جنوب کی جانب سے افریقہ کی قومیں وہاں جمع ہوکر کھیتی باڑی کے کاموں میں بالخصوص جَوکی کاشت میں مصروف ہوئیں اور زراعت ہی کی بدولت مالا مال ہوئیں ۔14

زمانہ قدیم میں یہاں بسنے والے لوگ شمال مشرقی افریقہ کے حجری دور کے باشندوں کے جانشین تھے جوا س خطےپر کافی بڑے علاقے میں پھیل گئے تھے ۔صحرائےصحارا(Sahara Desert) کے مکمل خشک ہونے کا عمل تیسری صدی قبل مسیح تک مکمل ہوا تھا۔خیال ہے کہ اس موسمی تبدیلی کے نتیجے میں وہاں سے لازمی طور پر ہزاروں لوگوں نے نیل کی وادی کی طرف ہجرت کی جس کے نتیجے میں حجری دور کےخانہ بدوش شکاری قبائل جو اس وقت تک کھیتی باڑی کی طرف مائل نہیں ہوئے تھے یہاں آکر آباد ہونے لگے ۔ماہرین تاریخ کا خیال ہے کہ اس خطےکے جنوبی علاقے میں جو کہ سوڈان (Sudan)تک چلا جاتا ہے، کھیتی باڑی کا آغاز 5000قبل مسیح کے آس پاس ہوا تھا۔یہاں کی زیادہ تر فصلیں مشرق وسطیٰ کے خطےسے تعلق رکھتی تھیں اسی لیے خیال کیا جاتا ہے کہ کاشت کاری کے طور طریقے وہیں سے یہاں پہنچےتاہم یہاں کی تہذیب بہت حد تک خودکفیل تھی۔15

مصر پر سکندرِ اعظم کے حملے تک 30 خاندان حکومت کر چکے تھے۔اندازہ یہ ہے کہ پہلے خاندان کی حکومت 3400قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی۔تاہم مصر کے اثری انکشافات اس تہذیب کا سراغ اس سے بھی بہت پیچھے لے جاتے ہیں۔یہ خطہءزمین باقاعدہ خاندانوں کی حکومت سے بہت پہلے تہذیب و تمدن کی زندگی سے آشنا ہو چکا تھا۔مصرکی قدیم تاریخ کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:

خاندانی بادشاہتوں سے ماقبل کا دور

مصر پر باقاعدہ خاندانی بادشاہت سے پہلے کا زمانہ تقریبا 4400 قبل مسیح میں کھیتی باڑی کی ابتدا سے لے کر3050 قبل مسیح میں مصری بادشاہوں کے پہلے خاندان کی تخت نشینی اور ریاست کے قیام تک کا درمیانی عہد تھا۔ ماہرین تاریخ نے اس دور کی کچھ خصوصیات بیان کی ہیں جواسے پہلے گزرنے والے جدید حجری دور(Neolithic Era)اور بعد میں آنے والےپیچیدہ و منظم خاندانی حکومتوں کے دور (Dynastic Era)سے ممتاز کرتیں ہیں۔ گو اس عہد کا کوئی قابل ذکر واقعہ محفوظ نہیں ہے تاہم اس عہد کی نمو پذیر ثقافت میں ایک تسلسل نظر آتا ہے جو اسے دیگر ادوار سے یکسرممتاز کرتا ہے۔جدید حجری عہد کی بہت سی خصوصیات اس عہد میں بھی پائی جاتی تھیں تاہم یہ خصوصیات بالائی مصر کی تہذیب سےکچھ مختلف تھیں ۔اس دور میں مصر کی تہذیب میں ولولہ انگیزی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ثقافتی عناصر کی نمو بھی ہوئی جنہوں نے اسے شام اور مشرقِ قریب کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے مقابل لا کھڑا کیا، تاہم بعد میں یہ تہذ یب مادی ترقی اور شان و شوکت میں ان تہذیبوں سے بھی آگے نکل گئی تھی۔16

پہاڑوں اور سطح مرتفع کی بلندیوں کو چھوڑ کر نیل کی سرسبز وادیوں میں اتر آنے والے شکاری قبائل کو تحفظ اورکثرت و فراوانی کے احساس نے یہیں آباد ہونے کی طرف مائل کیا۔ مصر کی یہ ابتدائی انسانی آبادیاں تمام مصر میں یکساں نوعیت کی نہیں تھیں، تاہم اس دور کی تہذیب کی ثقافتی کڑیاں جوڑ کر بالائی اور زیریں مصر کی ثقافتی منظر کشی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔17 جیمز ہینری بریسٹڈ (James Henry Breasted)کے مطابق بالائی اور زیریں مصر کی مملکتیں ہی اس خطے کی ابتدائی تہذیبیں تھیں جن کا دور حکومت 5000 قبل مسیح تک محیط ہے۔ان حکومتوں کی ابتدا پتھر اور تانبے کے دور سے ہوئی اوروہ کئی صدیوں تک قائم رہیں۔18

ابتدائی موروثی بادشاہتیں

عہدقدیم یا مورثی حکومتوں کے نام سے جانا جانے والا یہ عہدخاندانی حکومتوں کے پہلے اور دوسرے سلسلے پر مشتمل تھا جسے 350قبل مسیح تا 2686قبل مسیح شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم ان دونوں خاندانوں کی حکومت کے تواتر سے پہلے، ما قبل ازمورثی عہد کے اواخر میں، ایک اور خاندان کی حکومت رہی جسے صفر خاندانی حکومت (Dynasty 0) کہا جاتا ہے۔موروثی عہد سے پہلے کے یہ بادشاہ ایبیڈوس (Abydos) کے علاقے میں مدفون ہیں جن میں سے کچھ کے نام اس عہد کے کتبوں سے معلوم ہوئے ہیں۔ابتدائی موروثی حکومت دریائے نیل کے مثلثی دہانوں (Delta)سے شروع ہو کرسیلابی پانی سے سیراب ہونے والے میدانی علاقوں میں تقریبا 1000کلو میٹر تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس پہلے خاندان کی حکومت کے قیام سے قدیم مصر کی تہذیبی ترقی کا مرکز جنوب سے شمال کی طرف منتقل ہو گیا تھا۔یہ ابتدائی مصری حکومت ،مرکزی نظام کے تحت چلائی جانے والی ریاست تھی جسے یہاں کے بادشاہ ممفس (Memphis) پایہِِ تخت سے کنٹرول کرتے تھے ۔ابتدائی موروثی ریاست کے قیام کو ہی قدیم مصری تہذیب کا نقطہء آغاز مانا جاتا ہے۔

پہلی موروثی خاندانی حکومت اور اس سے ماقبل کی خاندانی حکومت یعنی(Dynasty-0)کے ادوار میں مصری حکومت اور اقتدار کے زیریں نیوبیا(Nubia) کے علاقے تک وسعت کے آثار بھی ملتے ہیں۔اس کے علاوہ اس عہد میں جزیرہ نما سینا کےشمالی علاقے اور فلسطین کے جنوبی علاقے میں بھی اہل ِ مصر کے اقتدار کے شواہد ملتے ہیں۔ مصر کے ایک بڑی ریاست بننے کے بعد یہاں کے حکمران نیوبیا کے تجارتی راستوں کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے جہاں سے سامان آسائش میں استعمال ہونے والا خام مال لایا جاتا تھا ۔ان تجارتی ضروریات کی رسد کو بلا تعطل پورا کرنے لیےانہوں نے زیریں نیوبیا کے علاقے پر حملہ کرکے اسے زیر نگیں کر لیا تھا۔

ممفس(Memphis) میں پہلے عہدِ موروثیت کی قبریں اور مقبرے دریافت ہوئے ہیں جو اس شہر کی بنیاد کا پتہ دیتے ہیں۔ اہم حکومتی عہدیداروں کے مقبرے سقارہ(Saqqara) کے علاقے میں ملے ہیں۔ان آثار سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ ممفس اس عہد کا انتظامی و ثقافتی مرکز اور سب سے اہم شہر تھا۔اس کے علاوہ مصر کےوسیع علاقے میں انتظامی مقاصد کے لیےاور بھی بہت سے اہم شہر تعمیر کیے گئے تھے، اس لیےمصر کو بغیر شہروں کی تہذیب کہنا بالکل غلط ہے۔ اس عہد میں زیادہ تر لوگ کاشتکاری سے وابستہ تھے۔ریاست کی بنیاد غلے اور اناج کی کاشت پرتھی۔حکومت کاشتکاری کے نظام کی دیکھ بھال کرتی تھی جس سے پیداوار میں بے تحاشہ اضافے کے ساتھ ساتھ مصری تہذیب و تمدن کی بھی نمو ہوئی تھی۔

اس عہد کے آغاز سے ہی بادشاہت کا ادارہ طاقتور اور مضبوط تھا۔ اس دور کی قدیم مشرقی دنیا میں بادشاہت کے ادارے کی اتنی اہمیت اور کنٹرول کہیں اور نظر نہیں آتا۔بادشاہ کو خاص اہتمام کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ بادشاہ دنیا سے چلے جانے والےانسانوں اور پاتال یا عالم اسفل کی طاقتوں کے درمیان رابطے کاذریعہ ہے۔ ان کے اس زمینی اور کائناتی نظام پر یقین کی وجہ سے ان کے ریاستی نظام میں کافی ہم آہنگی آگئی تھی۔تاہم یہ قدیم مصر کی تاریخ کا وہ واحد دور تھا جس میں شاہی جنازے کےساتھ زندہ انسانوں کو بھی قربان کر کے دفن کر دیا جاتا تھا تا کہ وہ بادشاہ کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد اس کی خدمت کر سکیں۔ غالبا سرکاری حکام، مذہبی رہنماوٴں ، خادموں اور شاہی خاندان کی عورتوں کو بھی بادشاہ کے ساتھ ہی دفن کردیا جاتا تھا۔اس موروثی عہد کے دوسرے خاندان کے عہد میں متوسط طبقے کے مقبروں میں لکڑی اور گوند کا ستعمال بڑھ گیا تھاجو مصر کے لبنان سے تعلقات اور تجارت بڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔اس دور میں فن تعمیر، فنون لطیفہ اورقدیم سلطنت سے منسلک عقائد میں واضح ترقی ہوئی تھی۔یہ دور یکجہتی سے فوائد حاصل کرنے کا دور تھا۔نوکر شاہی کو منظم اور وسیع کرکے یہ مقاصد با آسانی حاصل کیے جا سکتے تھے۔اس عہد میں عوام پر ٹیکس لگائے گئے تاکہ حکومت کا نظام اور منصوبے وسیع پیمانے پرچل سکیں۔حکومت کی طرف سے جبری بھرتیاں بھی کی گئیں جن کا مقصد عظیم الشان شاہی یادگاریں تعمیر کرنا اور فوج کے لیےسپاہی فراہم کرنا تھا۔ ابتدائی دور کےفن تحریر نے ریاست کی تنظیم میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔جب ا س عہد کے بادشاہوں کا زمین،ذرائع اور عمّال پر اقتدار اور اثر و رسوخ بڑھ گیا تو بادشاہ کے خدا یا دیوتا ہونے کے تصوّر نے بادشاہوں کےاقتدار کو مزید استحکام دیا اور یوں فرسودہ عقائد کے ایک ایسے نظام کی بنیاد پڑی جس نے لوگوں کو بلاچون و چراں بادشاہوں کے حکم کی تعمیل اور ان کی غلامی کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ 19

قدیم بادشاہت کا دور

قدیم بادشاہت سے مراد تین ہزار قبل مسیح سے دو ہزار قبل مسیح کا درمیانی دور تھا۔جب مصر کی تہذیب پہلی مرتبہ ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بام ِعروج پر پہنچی۔اس کے بعد وسطی بادشاہت اور جدید بادشاہت کےادوار آئے جنہوں نے نیل کی نچلی وادی میں مادی و تہذیبی ترقی کومنتہائے کمال تک پہنچا دیا تھا۔قدیم بادشاہت میں تیسرے خاندان سے لے کربادشاہوں کے چھٹے خاندان تک کا دور شامل ہے جس کی ابتدا 2686 قبل مسیح اورانتہا 2181قبل مسیح تصوّر کی جاتی ہے۔ یہ دور مصر میں امن و خوشحالی کا دور تھاجس کے بعد کا عہد تفرقہ اور تہذیبی تنزلی کا شمار کیا جاتا ہے۔اسےماہرین مصریات کے نزدیک دور ِ متوسط اول (First Intermediate Period) کہا جاتا ہے۔

دور قدیم کی ان بادشاہتوں میں بادشاہ (جسے ابھی تک فرعون نہیں کہا گیا تھا) کو ایک مجسم خدا تصوّر کیا جاتا تھا جو اپنی رعایا میں شامل انسانوں پر زندگی اور موت کا اختیار رکھتا تھا۔ وہ ان کا مالک تصوّر کیا جاتا تھا اور ان کی خدمات اور دولت جب چاہے لے سکتا تھا۔ دور ِ قدیم کے تیسرے خاندان کے پہلے بادشاہ جوسر (King Djoser) کے عہد میں سلطنت کا مرکز ممفس(Memphis) شہر منتقل کیا گیا تھا۔سقارہ(Saqqara) کے علاقے میں وسیع رقبے پر تعمیرات کاآغاز ہوا ۔ پتھروں سے نئے انداز کی عمارتیں جنہیں مرحلہ واراہرام(Step Pyramid) کہا جاتا تھا،تعمیر کرنے کا سہرا بادشاہ جوسر کے ماہر تعمیرات ایمہوٹیپ (Imhotep) کے سر جاتا ہے۔اس دور میں بہت سے اہرام بنائے گئے اسی لیے اس دور کو اہراموں کی تعمیر کا دور بھی کہا جاتا ہے۔

پہلا عہدِ زوال و انتشار

عہدمتوسط کی اصطلاح جدید ماہرین کی وضع کردہ ہے جس سے مراد قدیم بادشاہت کے زوال اور دورِمتوسط کی بادشاہت کے درمیان کا دور ہے تاہم اس کی ابتدا و انتہا کے بارے میں رائے مختلف ہے۔کچھ ماہرین تاریخ اس میں ساتویں سے لے کر دسویں خاندان تک کو شامل کرتے ہیں اور اسے 2181 قبل مسیح سے 2040 قبل مسیح کا دور قرار دیتے ہیں۔تاہم دیگر ماہرین مصریات اس عہد کو 2160 قبل مسیح سے 2055 قبل مسیح شمار کرتے ہیں اور نویں ، دسویں اور گیارہویں شاہی خاندان کو اس میں شامل کرتے ہیں۔اس عرصے میں بادشاہ کمزور ہو گئے اور صوبائی رہنما جنگجو قائدین کے طور پرمضبوط ہوئے تاہم یہ بد انتظامی اور انتشار کا دور تھا۔یہ عہد تقریبا 140 سال پر محیط تھاجس کے اختتام پر تین طاقتور بادشاہ اینتف اول (Intef-I) ، اینتف دوئم (Intef-II) اور اینتف سوئم(Intef-III)گزرے جنہوں نے تھیبز (Thebes) کو اپنی متوازی حکومت کا پایہ تخت بنالیا تھا۔یہ تینوں جنگجو بادشاہ تھے جنہوں نے قدیم مصر کےپایہ تخت ہیراکلیوپولس (Heracleopolis) پر حملے کیے اور ایک متوازی حکومت قائم کرلی تھی۔ان کے بعد ان کے جانشین منتوہوتپ (Montuhotep) اول اور دوئم نے ہیراکلیوپولس شہر پر موثر حملے کر کے قبضہ کرلیا تھا۔یوں انہوں نے مصر کو متحد کیا جس کے نتیجے میں خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔20

بادشاہت کا عہد ِ وسطیٰ

گیارہویں خاندان کے آخری بادشاہ کو اس کے وزیر نے قتل کردیا اور شاہِ امینی مہت اول (King Amenemhet-I) کے نام سے تخت نشین ہو کر بارہویں خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ امینی مہت اول (King Amenemhet-I) اور اس کے جانشینوں کے دور کو ماہرین مصریات نے عہد وسطیٰ کی بادشاہت کا نام دیا تھا۔اس دور میں قدیم بادشاہت کی طرح مصر دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ ممفس (Memphis)کے شمال میں کچھ فاصلے پر اشتاووی (It-towy) کے مقام پر نیا دارلخلافہ بنایا گیا۔ امینی مہت اول(King Amenemhet-I) نے ولی عہدی اور نیابت کا نظام متعارف کروایا اورا پنی حکومت کے بیسویں سال اپنے بڑے بیٹے کو اپنا نائب نامزد کیا تاکہ تخت کے معاملے میں ہونے والی رقابتوں سے بچا جا سکے۔یہ رسم اس خاندان کے دور حکومت میں ہمیشہ جاری رہی جس کی وجہ سے اقتدار پُر امن طریقے سے منتقل ہوتا رہایہاں تک کے امینی مہت اول (King Amenemhet-I) کے قتل جیسے پر تشدد واقعات کے بعد بھی اقتدار پُر امن طریقے سے منتقل ہوگیا۔ اسی دور میں سینیوس رت سوئم (Later Senusret-III)نے اشرافیہ کی طاقت کو کم کیا اور کسانوں اور ہنر مندوں پر مشتمل متوسط طبقے کو اشرافیہ کے متبادل کے طور پرسامنے لےآیا ۔

وسطی دور کی بادشاہت میں مذہبی اور دنیاوی مقاصد کے لیے نئی عمارتوں کی تعمیر کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی پیش رفت ہوئی اور بائبلوس(Byblos)اور فوئنشیا(Phoenecia)کے ساتھ تجارتی معاہدات کی تجدید کی گئی تھی ۔ بحر اسود(Black Sea) کے ساحلی علاقے میں واقع پنٹ(Punt)نامی شہر کی طرف عسکری مہم بھیجی گئی۔ دریا کے ساتھ ساتھ بہت سے قلعے تعمیر کیے گئے جن کا مقصد مقامی لوگوں پر اپنی عسکری طاقت کا رعب ڈالنا ، پانی کے راستے کی حفاظت کو یقینی بنانا اور نیوبیا(Nubia) سے ہونے والی تجارت کو محفوظ بنانا تھا۔ان بادشاہوں نے حکومت اور نظامِ سلطنت کی بنیاد قدیم سلطنت کے نقشِ قدم پررکھی۔ بارہویں خاندان نے بھی اہرام کے بڑے بڑے کمپلیکس تعمیر کیے۔ اشتاووی (It-towy) شہر کا مرکزی قبرستان اللیشت (el-Lisht) کے قریب دریافت ہوا ہے جہاں امینی مہت اول (King Amenemhet I) اور سینیوس رت اول (Senusret I) کے اہرام موجود ہیں۔21

دوسرا عہدِ زوال و انتشار

یہ دورعہد وسطیٰ کی بادشاہی کے خاتمے اور سلطنت جدید کے قیام کے درمیانی عرصے یعنی 1650 قبل مسیح سے لے کر1550 قبل مسیح تک محیط تھا۔یہ دور سیاسی ابتری اور کشمکش کا دور تھا۔یہ عہد بارہویں خاندان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ شروع ہوا اور ہائیکسوس (Hyksos) قبائل کی مصر سے جلا وطنی اور اٹھارہویں خاندان کی حکومت کے ساتھ اس کا اختتام ہوا۔اس دور میں مصر کی سیاسی ابتری کا یہ عالم تھا کہ 153سال میں 60بادشاہوں نے حکومت کی تھی۔اس دور کےزیادہ تر بادشاہ فوج یا عدالتوں کے با اثر عہدیدار رہے تھے ۔اس دور میں فوج اور دیگر ملازمتوں میں شام کے لوگوں کو بھی شامل کیا گیا جس کی وجہ سے کچھ بادشاہ غیر مصری بھی گزرے ۔تاہم سیاسی طور پر یہ عدمِ استحکام کا دور رہا تھا۔ 22

پندرہویں اور سولہویں خاندان کی حکومت کے دوران ہائیکسوس (Hyksos)قبائل نے مصر کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر پر حملہ کردیا۔فلیویس جوزفس (Flavius Josephus)نے مانیتھو (Manetho)کےحوالے سے نقل کیا ہے کہ کسی نامعلوم نسل کے لوگوں نے توتیمایوس بادشاہ (King Tutimaios)کے دور میں بغیر کسی تنبیہ کے اچانک حملہ کردیا تھا۔انہوں نے شہروں کو جلایا، مندروں کو تباہ کیا، لوگوں کا قتل عام کیا اور بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا تھا۔حملہ آوروں نے اپنے ہی لوگوں میں سے سالیتس(Salitis)نامی ایک شخص کو بطور بادشاہ ِمصر منتخب کردیا تھاجس نے ممفس شہر سے حکومت کی، پورے مصر پر ٹیکس نافذ کیا اور چھاوٴنیاں تعمیر کرائیں۔ سالیتس نے مقامی فن اور ہنر مندی کی حوصلہ افزائی کی ،مندر تعمیر کرائے اور مصریوں کے شاہی خدا"را(Ra)" کی پرستش کو فروغ دیا ۔اس عہد کے اواخر میں ہایئکسوس (Hyksos)قبائل اور مقامی لوگوں میں کشیدگی بڑھ گئی۔ غیرملکیوں کی حکومت اور انتظامی عہدوں پر کثرت کی وجہ سے مقامی لوگ حکومت سےنالاں رہنے لگے۔ سترہویں خاندان کےمقامی ثیبانی(Theban)حکمرانوں نے ان قبائل کو مصر سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا جس کے بعدحکمرانوں کے اٹھارہویں خاندان نے جدید بادشاہت کی بنیاد رکھی تھی۔23

بادشاہت جدید

1550 قبل مسیح سے 1069 قبل مسیح تک کا دور قدیم مصر کی بادشاہت کا عہدِ جدید کہلاتاہے۔ یہ خوشحالی اور سیاسی استحکا م کا دور تھا۔اس عہد کا بانی بادشاہ اہموس اول(Ahmose I) تھا جس نے مشرقی ڈیلٹا میں حکومت قائم کر لینے والے ہائیکسوس (Hyksos) قبائل سے مصرکو آزاد کرایا اور ایک مرتبہ پھر مصر کو متحد کردیا تھا۔اس دور میں فوج مضبوط ہوئی اور فتوحات کا سلسلہ آگے بڑھا۔فن تعمیر میں ترقی ہوئی اور نئی عمارات تعمیر کی گئیں۔ اس دور میں کئی بادشاہ گزرے جن میں ملکہ حتشپت(Queen Hatshepsut) اور ریمسی دور(Ramesside Period)کے کئی بادشاہ شامل تھے۔آخری بادشاہ ریمسس یازدھم(Ramses-XI) نے اقتدار دو پروہتوں کے حوالے کردیا جنہوں نے اسے دوحصوں میں بانٹ لیا تھا۔ 24 یوں اقتدار مندروں کے پجاریوں کے ہاتھوں میں چلے جانے سے مصر کا انحطاط شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں مصر ایک بار پھر زوال و انتشار کے اندھیروں میں ڈوب گیا تھا۔

تیسرا عہدِ زوال و انتشار

تیسرا عہد متوسط 1069 قبل مسیح سے لے کر664 قبل مسیح تک کا دور تھا۔ اس دور کی ابتدا سمیندس (Smendes) بادشاہ سے ہوئی جس نے اکیسویں خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔اس نے خود کو ریمیسی خاندان کا جانشین ثابت کرنے کے لیےریمسس یازدھم (Ramses-XI)کی بیٹی سے شادی کر لی تھی۔ 25 اس دور میں کافی سیاسی انتشار اور افراتفری رہی جس سے فائدہ اٹھا کرپچیسویں خاندان کے عہد کے دوران 671 قبل مسیح میں آشوری بادشاہ ایسارہدون(Esarhaddon) مصر پر حملہ کرکے ممفس (Memphis)پر قبضہ کرلیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔اس عہد میں مصر کے گورنروں کا انتخاب آشوری بادشاہ اپنی مرضی سے مقامی افراد میں سے کرتےتھے۔ اسی دوران آشوربانیپال (Ashurbanipal) نے 622 قبل مسیح میں ممفس شہر پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تاہم سیاسی افراتفری کے باوجود اس دور میں بھی مندروں،اہراموں اور مقبروں کی تعمیر جاری تھی۔26

عہدِ آخر

525 قبل مسیح سے 332 قبل مسیح کے درمیان کا زمانہ قدیم مصر کے عہدِ آخر کے نام سے موسوم ہے۔27 اس دور کا آغاز نیوبیا(Nubia) کے خاندان کی حکومت سے ہوا تھا۔ اس عہد میں سامیٹیکس اول (Psammetichus-I) نے مصر کو متحد کیا اور مضبوط فوج تشکیل دی۔اس نے آشوریوں کو بے دخل کر کے اپنے شاہی خاندان کی حکومت قائم کی تھی۔اس کےبعد ستائیسویں خاندان کی حکومت کا دور رہا جو فارسی حکمرانوں کاد ورکہلاتا ہے ۔یہ عہد525 قبل مسیح سے 404 قبل مسیح تک رہا۔یہ غیر مقامی حکمران تھے جن کے دور میں مصرمیں خوشحالی اور استحکام رہا۔اس عہد کے دوران انتیسویں خاندان کے بانی نیپرائیٹس اول (Nephrites I) نے مصرکو دوبارہ مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی۔28

بطلیموسی (Ptolemy) عہد

بطلیموسی عہد کا آغاز322 قبل مسیح میں سکندر اعظم (Alexander the Great)کی مصر میں آمد سے ہوا اور اختتام 30 قبل مسیح میں روم کے مصر پر قبضے سے ہوا تھا۔اس عرصے کے دوران 332 قبل مسیح تا 304 قبل مسیح تک مقدونیائی بادشاہوں (Macedonian Kings)جب کہ304 قبل مسیح سے30 قبل مسیح تک بطلیموسی بادشاہوں (Ptolemaic Pharaohs)کی حکومت رہی تھی۔اسی دور میں سکندر اعظم نے 331 قبل مسیح میں اسکندریہ (Alexandria)نامی شہر اور بندرگاہ کی بنیاد رکھی تھی۔29 بطلیموس اول (Ptolemy-I) نے فرعون کا لقب اختیار کر لیا جس کی وجہ سے اسے عوام میں مذہبی مقبولیت حاصل ہوگئی تھی۔ بطلیموس نے مصری دیوتاؤں کے مندر تعمیر کرنا شروع کیے جس سے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا ۔اس دور میں کافی یونانی یہاں آباد ہوئے۔ بطلیموس نے یہاں موجود کھیتی باڑی کے طریقوں میں بہتری پیدا کی۔ اس نے علم و فن کی قدر کی اور اہل علم کو مصر میں خوش آمدید کہا۔ خاص طور پر اسکندریہ کے کتب خانہ اور عجائب گھر کا قیام یہاں کی علمی ترقی کا سنگ میل ثابت ہوا تھا۔ اس دوران اقتدار کے حصول کے لیےخاندانی چپقلشیں بھی جاری رہتیں۔30 بطلیموسی عہد کے آخری دو عشرے انتہائی عدم استحکام کا شکار رہےاور حکومتی معاملات میں روم کی مداخلت بڑھتی چلی گئی تھی۔3147 قبل مسیح میں کلیوپیٹرا(Cleopatra)کی استدعا پر جولیئس سیزر(Julius Caesar)نے اسے مصر کی حکومت واپس کرد ی مگر کلیوپٹرا کے مارک اینٹونی(Mark Antony) کے ساتھ تعلقات کا انجام اس خاندان کی حکومت کے خاتمے پر ہوا تھا۔ اس وجہ سے انٹونی اورکلیو پٹرا نے خود کشی کرلی تھی۔ 27 قبل مسیح میں اگسٹس(Augustus) جب سلطنت ِ روم کا پہلا شہنشاہ بنا تو اس نے مصر کو ایک صوبے کے طور پر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا یوں مصر کی آزاد حیثیت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔32

جغرافیہ

قدیم سر زمین مصر بر اعظم افریقہ میں ارضِ کنعان سے ملی ہوئی دریائے نیل کے کنارے کنارے دور تک پھیلتی چلی گئی تھی۔یہاں کے باشندے قدیم الایام میں بڑے قابل اور صاحب علم و فن مشہورتھے۔ 33 مصرکا علاقہ وادی نیل کے اس حصے پر مشتمل تھاجو ڈیلٹا (Delta)سے اسوان تک پھیلا ہوا تھا۔ قدیم مصری زبان میں اس علاقے کو کیمٹ(Kemet) بھی کہا جاتا تھا جس کے معنی"سیاہی مائل زمین"کے لیے جاتےتھے۔ وادی کی لمبائی 550میل تھی۔ جنوب میں اس کی چوڑائی کا اوسط بارہ میل کے قریب تھا، اس میں کل 13,000 مربع میل رقبہ قابلِ کاشت تھا۔ابتدا میں وادی کے دوحصّے تھے ایک ڈیلٹا(Delta)یعنی مصر ِزیریں، دوسرا اصل وادی یعنی مصر بالا یا مصر صعید۔34

وادیٔ نیل دو طبعی حصول میں بٹی ہوئی تھی۔ زیر یں مصر کے ان خطوں میں جو سمندر کے قریب تھے، جاڑوں میں خوب بارش ہوتی تھی۔تاہم مصری ہوا کی خشکی ہی نےقدیم مصری مجسموں ، تحریروں اور رنگوں کو محفوظ کر رکھا تھاجن پر ہزاروں سال گزر چکے ہیں۔35ان اشیا ءکے ساتھ ساتھ موجود تحریریں اس امر کا ثبوت پیش کرتی ہیں کہ دور قدیم میں مصری باشندوں کا رہن سہن کیا تھا۔ صحرائی ریت نے قبل از تاریخ کے مصر اور اس کے باشندوں کی با قیات کو بھی محفوظ رکھا ہے۔ ریت کے وسیع و عریض سمندرسے لاکھوں سال پرانے منقش برتن، سنگی آلات، اوزار ،ہتھیاراور مجسمے بر آمد ہوئے ہیں جن سے محققین اور مؤرخین کو وادی نیل میں قبل از تاریخی دور کی زندگی کی کہانی کے ٹکڑوں کو یک جا کرنے میں بہت مددملی ہے۔36

مصرکا محل وقوع دفاعی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی محفوظ اور سود مند تھا۔ بے انتہا سرسبزو شاداب ہونے کے باوجود مصر اپنے ملک کی سرحدوں پر وسیع ریگستانوں کی موجودگی کی وجہ سے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ تھا۔اس طرح اس کی تہذیب بغیر کسی خلل کے ترقی کرتی جارہی تھی۔37مزید برآں جب ہم قدیم مصر کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طور پر مصر صحرائی علاقے پر مشتمل تھاجہاں گرم اور خشک ہوائیں چلتی تھیں ۔وہاں کے باشندوں کی بنیادی ضرورتوں کا انحصار دریائے نیل سے سیراب کردہ فصلوں پرتھا۔ وہ کاشت کاری کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھےنیز ہر سال دریائے نیل کی تلاطم خیز موجوں سے پیدا ہونے والی طغیانی مصری قوم کے لیے برکت اور خوشحالی کا باعث بنتی تھی۔ دریائے نیل ہر سال طغیانی پر آکراہل مصرکے کھیتوں کی آبیاری کرتا تھا جس سے ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی تھیں۔اسی اطمینان و فارغ البالی نے ان کی نسلوں کو پروان چڑھایا تھا ۔ 38

دریائے نیل

المسعودی کے مطابق نیل کا پانی اور مٹی وہ دو بنیادی عوامل ہیں جن کے وجود سے مصر آباد ہوا اور ابھی تک آباد ہے۔مصر کی زراعت کا دارومدار دریائے نیل سے آبپاشی پر تھا۔ اہل مصر کوپینے کا پانی بھی یہی دریا مہیا کرتا تھا۔ اس لیے اس دریا کو اہل مصراپنے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے تھے۔لیکن اس کی طغیانی سمندری طوفانوں سے کم نہیں ہوتی تھی جس سے قریبی شہر تک غرقاب ہو جاتے تھے ۔ کبھی کبھی اس کی طغیانی سے چوتھائی مصر زیر آب آجاتا تھا ۔ ان ایام کو اہل مصر وبائی ایام کہتےتھے ۔ یہ حالت اس وقت ہوتی جب نیل کا پانی اپنی معمولی سطح سے اٹھارہ گز تک بلند ہو جاتاتھا ۔ نیل کی طغیانی سے اہل مصر کے دوسرے نقصانات کے علاوہ سرکاری محصولات پر بھی اثر پڑتا تھا ۔جب دریائے نیل کا پانی اپنی معمولی سطح سے بھی کم ہو جاتا تو اہل مصر وہاں سے پانی لے کر اسے پینے کے لیے ذخیرہ کر لیتے تھے ۔ یہ میٹھا پانی بے حد صاف ہوتا تھاا ور اس پر اہل مصر بجا طور پر فخر کرتے تھے ۔ دریائے نیل مصر کے علاوہ ساحلی علاقوں کی دوسری بستیوں کو بھی سیراب کرتا تھااور ان کی زراعت کے لیے آبپاشی کے بھی کام آتا تھا۔39

دریائے نیل کی وادی کی زرخیزی نے ان انسانوں کو جو غذا کی تلاش میں خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کر رہے تھے اپنی طرف متوجہ کیا اور افریقہ ، مغربی ایشیا اور عرب کے لوگ یہاں آکر آباد ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ابتدا میں وہ وادی جسے دریائے نیل شاداب کر رہا تھا ریگستانی علاقوں کے درمیان تھی اسی لیے کافی عرصہ تک محفوظ رہی تھی۔ جو قبیلے اور لوگ یہاں آکر آباد ہو گئے وہ عرصہ دراز تک امن کی زندگی بسر کرتے رہے۔ کاشتکاری کےساتھ ساتھ انہوں نے اپنے رہنے سہنے کے طریقوں کو مستقل شکل دی اور تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھی تھیں۔ 40

مصر کو دنیا کا سب سے بڑا نخلستان کہا جاتا ہے ۔ تاہم دریائے نیل میں برسات کے موسم میں آنے والی طغیانی سے گیہوں ، کپاس، گنے وغیرہ کی فصلیں کاشت کی جاتی تھیں۔ قدیم مصر آج کل کے مصر سے بہت کچھ مختلف تھا ۔بارشیں متواتر ہوتی تھیں اور دریائے نیل کا دہانہ ابھی نہیں بنا تھا ۔ وادی نیل کے اندرونی حصے تک سمندر موجز ن تھا ۔ دونوں طرف سطح مرتفع تھی جس پر گھاس کے میدان تھے ۔ اس زمانے کے باشندے شکار کھیل کر اور مویشی پال کر گزر اوقات کرتے تھے ۔ وہ پتھر کے کلہاڑے اور تیر کمان سے کام لیتے تھے ۔ ماقبل تاریخ کے اس انسان کے آثار ریت کے تودوں کے نیچے مدفون ملے ہیں۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ جغرافیائی تبدیلیاں رہ نما ہوئیں جن سے بارشیں رک گئیں ، دریائے نیل میں ہرسال طغیانی آنے لگی اور اس کا مستقل دہانہ بن گیا تھا ۔ لوگوں نے دریا کے کناروں پر بستیاں بسالیں اور کھیتوں کو نیل کے پانی سے سیراب کرکے گہیوں کی کاشت کرنے لگے ۔41

دریائے نیل کو چونے کے پتھر کے ویران پہاڑی سلسلوں نے اپنے دامن میں لےرکھا تھا۔ دونوں پہاڑی سلسلے کہیں آگے بڑھتےاور کہیں پیچھے ہٹ جاتے تھےتاہم اُن کے درمیان اوسط فاصلہ سات میل تھا۔شمال میں وہ بکھرتے بکھرتے غائب ہوجاتے تھےاوربحر روم تک محیط ایک دلدل نما میدان شروع ہوتاتھا۔ دریائے نیل میں جنوب کی طرف جائیں تو گرینائٹ (Granite)کے پہاڑ آجاتے ۔ یہ پہاڑ ایک دوسرے کے قریب آتے آتے باہم ضم ہوجاتے تھے۔ اس درمیانی گھاٹی میں سے سیلاب کے موسم میں دریا تیزی سے بہتا ہوا وادی میں داخل ہوتا اور شمال کی سمت کو چلا جاتا تھا۔ موسم سرما اور بہار میں دریا خشک اور گرد بھرے میدان میں دھیرے دھیرے بہتا تھالیکن موسم گرما میں زیادہ اور تیز پانی آنے پر یہ سب کچھ بالکل بدل جاتاتھا۔ سب سےپہلے دریا کا رنگ سُرخ اور پھر سبزی مائل ہوجاتا اور انجام کار وہ اپنے کناروں سے باہر نکل کر وادی کو پہاڑوں کے دامن تک بھردیتا تھا۔ پوری وادی ایک وسیع و عریض جھیل کی شکل اختیار کرلیتی جس سے دیہات جزائر کی طرح ابھرے ہوئے محسوس ہوتے تھے، کیونکہ یہ دیہات مصنوعی ٹیلوں پر تعمیر کیے گئے تھے۔ دریائے نیل کے سوتے افریقہ کے قلب میں واقع دو بڑی بڑی جھیلوں میں تھے۔ جب خط استوائی افریقہ کے اوپر سے بخارات بھرے بادل گزرتے تو پانی برساتے۔ اس کے نتیجے میں دس ماہ تک بارش ہوتی رہتی۔ پانی بہہ کر جھیلوں میں آتا اور وہ اپنا اضافی پانی باہر نکال دیتیں جو شمال کی سمت دریائے نیل کی صورت میں بہنے لگتا ۔ جب یہ دریا خشک زمین سے گزرتا تو اس کا پانی جذب ہوجاتا، لیکن پانی آنےکا سلسلہ بدستورجاری رہتا اور جھیل چاڈ سے لے کر بحر روم تک محیط صحرا میں آگے بڑھتا چلا جاتا تھا۔

دریائے نیل کا وجود عظیم جھیلوں کا مرہونِ منّت تھا، لیکن سیلاب آنے کی وجہ الگ تھی۔ دریائے نیل اور خلیج عرب کے دہانے کے درمیان ایتھوپیا کی مرتفع زمینیں واقع تھیں جو سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلندی تک چلی جاتی تھیں۔ بحر ہندسےآنے والے بادل شمال کی سمت سفر کے دوران ان پہاڑوں سے ٹکراتے تھے۔ بادل پانی برساتے اور موسم برسات میں دو دریا ویرانے میں سے گزر کر دریائے نیل میں آگرتے تھے۔ عظیم دریا نیوبیائی صحرا کو پار کرنے کے دوران پتھریلی دیواروں کے درمیان شمال کی سمت بڑھتا اور مصر کی زیریں زمینوں میں پہنچ کر کناروں سے باہر بہنے لگتا تھا۔ دو ایتھوپیائی ندیاں اہم اور انوکھی حصہ داری کرتی تھیں۔ سفید نیل کا پانی شفاف تھا لیکن اٹبارا(Atbara)اور نیلا دریائی نظام ابائی سینیائی مرتفع زمینوں سے موٹی کالی ریت بھی ساتھ بہا لاتا تھا۔ یہ ریت انجام کار زرخیز مٹی کےطورپر زمین ِمصر پر پھیل جاتی تھی۔ پانی اترنے پر کسان زرخیز مٹی میں بیچ ڈالتے اور انتظار کرنے لگتے کہ کب سورج کی توانائی فصلیں اگائے گی۔ 42

مصر کی مستحکم آب و ہوا اور موسم نے قدیم بادشاہت کے ادوار میں مصری ثقافت اور تہذیب کی نمو میں اہم کردار ادا کیا تھاتاہم مصری حکمرانوں کے ظلم و ستم اور غیر انسانی رویوں نے یہاں کبھی بھی عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم نہ ہونے دی۔توہم پرستی نے اپنے جیسے انسانوں کو خدائی کے مرتبے پر فائز کرا دیا جس نے شاہی خاندان کو عام افراد سے الگ مافوق البشر مخلوق بنا دیا تھا، نیزخدائی کے دعوے نے بادشاہوں کے اختیار کی ہوئی حدود اور اور جوابدہی کے تما م راستے مسدود کردیے تھے۔ بعد ازاں حکومت مندروں کے پجاریوں کے ہاتھوں میں آنے سے ایوانِ حکومت میں شمشیر وسنان کی جگہ طاوس و رباب نے لے لی۔ریشہ دوانیوں اور دسیسہ کاریوں نے ملک کی جمیعت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئےتھے۔ملک کے ہر گوشے پر جمود و تعطل کا دور دورہ ہو گیا اور شاہرائے تہذیب پر قیادت کا شرف بخشنے والے اوصاف اور سرگرمیاں ہمیشہ کے لیے سرد پڑ گئی تھیں ۔مصری عوام ہر عہد میں بادشاہ کی خدمت کے لیےہمہ تن وقف رہی تھیں ان کی زندگی بادشاہوں کی غلامی کرتے گزری اور وہ ہمیشہ ہی ظلم و ستم کا شکار رہے۔اسی ظلم وستم ، توہم پرستی اور بے اعتدالی کے باعث بالآخر یہ تہذیب بھی انسانی تاریخ کا گمشدہ ورق بن کر رہ گئی تاہم اس کی عظمت ِرفتہ کے عبرت انگیز نقوش اب بھی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے والوں کے لیےنشان عبرت ہیں۔

 


  • 1 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 115.
  • 2 Malcolm B. Russell (2014), The Middle East and South Asia, Rowman & Littlefield Publishers, Maryland, USA, Pg. 47.
  • 3 عبد الرحمٰن ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون(مترجم:حکیم احمد حسین الہ آبادی) ،ج-1،مطبوعہ: نفیس اکیڈمی ،کراچی،پاکستان،2003ء ،ص:118
  • 4 مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی اور مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی،تاریخ ملّت، ج-7 ،مطبوعہ: ندوۃ المصنفین ،دہلی، انڈیا، 1956 ء، ص:19
  • 5 معارف اعظم گڑھ ، اعظم گڑھ، انڈیا، مارچ، 2000ء،ص:168
  • 6 پروفیسر بشیر احمد خاں، دنیا کی تاریخ، مطبوعہ: مکتبہ نظامیہ، کراچی، پاکستان، 1957ء،ص:22
  • 7 ابوالحسن علی بن حسین المسعودی، تاریخ مسعودی(مترجم: پروفیسرکوکب شادانی)، ج- 1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، ص: 289
  • 8 احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ الیعقوبی(مترجم: مولانا اختر فتح پوری) ،ج.1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی،کراچی ، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:268
  • 9 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، تاریخ مسعودی(مترجم: پروفیسرکوکب شادانی) ،ج- 1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان،1985ء، ص :289
  • 10 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ، تاریخ طبری(مترجم: ڈاکٹرمحمد صدیق ہاشمی) ،ج -1، مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2004ء،ص :140
  • 11 ابو زیدعبد الرحمٰن ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون(مترجم:حکیم احمدحسین الٰہ آبادی)، ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی ، پاکستان،2003ء، ص:113-114
  • 12 ایچ جی ویلز، مختصر تاریخ عالم(مترجم: محمد عاصم بٹ)،مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان ، 1996 ء، ص:71
  • 13 ولیم میک گاگی، انسانی تہذیب کے پانچ دور (مترجم: حسن عابدی)، مطبوعہ: مشعل بکس، لاہور ، پاکستان، 2005ء، ص:73
  • 14 مولانا سید طفیل احمد منگلوری، قدیم شہنشاہیاں، مطبوعہ:اکیڈیمی آف ایجوکیشنل ریسرچ،آرمی پریس،کراچی، پاکستان،1959ء، ص:11-12
  • 15 Kathleen Kuiper (2011), The Britannica Guide to Ancient Civilizations: Ancient Egypt, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 31.
  • 16 Douglas J. Brewer (2005), Ancient Egypt: Foundations of a Civilization, Pearson Education Limited, Edinburgh, U.K., Pg. 72.
  • 17 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 117.
  • 18 James Henry Breasted (1944), Ancient Times: A History of the Early World, Ginn and Company, New York, USA, Pg. 54.
  • 19 Kathryn A. Bard (1999), Encyclopedia of the Archeology of Egypt, Routledge Taylor & Francis Group, New York, USA, Pg. 33.
  • 20 Patricia D. Netzley (2003), The Green Haven Encyclopedia of Ancient Egypt, Green Haven Press, Michigan, USA, Pg. 117.
  • 21 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 84-85.
  • 22 Kathryn A. Bard (1999), Encyclopedia of the Archeology of Egypt, Routledge Taylor & Francis Group, New York, USA, Pg. 57.
  • 23 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 87-89.
  • 24 Patricia D. Netzley (2003), The Green Haven Encyclopedia of Ancient Egypt, Green Haven Press, Michigan, USA, Pg. 212-213.
  • 25 Nicolas Grimmel (1992), A History of Ancient Egypt (Translated by Ian Shaw), Black Well Publishing Ltd., Oxford, U.K., Pg. 311.
  • 26 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 94-95.
  • 27 Ancient History Encyclopedia (Online Version): http://www.ancient.eu/Late_Period_of_Ancient_Egypt/: Retrieved: 31-05-2017
  • 28 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 112-113.
  • 29 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt, Oxford University Press, New York, USA, Vol. 3, Pg. 76.
  • 30 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 99-100.
  • 31 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt, Oxford University Press, New York, USA, Vol. 3, Pg. 80.
  • 32 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 100.
  • 33 محمد عبد الحلیم شرر، عصر قدیم،مطبوعہ: سٹی بک پوائنٹ،کراچی، پاکستان، 2005ء،ص:12
  • 34 ولیم ایل لینگر، انسائیکلو پیڈیا تاریخِ عالم(مترجم: مولانا غلام رسول مہر) ، ج- 1،مطبوعہ :شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، پاکستان،1959ء، ص: 35-41
  • 35 غلام باری، تاریخ کا مطالعہ، مطبوعہ:مکتبہ اردو، لاہور،پاکستان، 1949ء ، ص : 16
  • 36 ذوالفقار ارشد گیلانی ،تاریخ کا سفر ، مطبوعہ:علم دوست پبلیکیشنز، لاہور،پاکستان ،2003ء ، ص: 419 -420
  • 37 جان ایس ہائی لینڈ،مختصر تاریخِ تمدن (مترجم:سید مبارزت الدین رفعت)،مطبوعہ:انجمن ترقئ اردو ،کراچی،پاکستان، 1956ء،ص:20
  • 38 محمد عبد الحلیم شرر، عصر قدیم،مطبوعہ : سٹی بک پوائنٹ، کراچی، پاکستان،2005ء،ص:12-14
  • 39 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی،تاریخ المسعودی (مترجم:پروفیسر کوکب شادانی)،ج-1،مطبوعہ: نفیس اکیڈمی،کراچی، پاکستان،1985ء،ص :280-281
  • 40 پروفیسر عمر زبیری، قدیم تہذیبیں اور مذاہب، مطبوعہ :دارالشعور، لاہور،پاکستان،2005ء،ص:32
  • 41 علی عباس جلالپوری،روایاتِ تمدّنِ قدیم ،مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:39
  • 42 جان جی جیکس ، انسان خدا ور تہذیب (مترجم : یاسرجواد) ، مطبوعہ : نگارشات ، لاہور ، پاکستان ،2005،ص:246-247