نزول وحی کے بعد حضورنے صحابہ کرام میں سے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں نازل ہونے والی وحی کو تحریر کرنے پر مامور فرمادیا تھا تاکہ جمیع اہلِ ایمان تک وحی الٰہی اور پیغامِ ربّانی کو صحیح اور باحفاظت طریقہ سے پہنچایا جائے۔ جن صحابہ کرام کوحضورنے اِس مقدس کام کی سعادت کے حصول کے لیےمختلف مواقع پر نامزد فرمایا تھا ان کے اسمائےگرامی درج ذیل ہیں :
قرآن مجید کے مختلف اوقات میں نازل شدہ اجزا کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے اس زمانہ میں چونکہ عرب میں کاغذ کمیاب تھا لہذا کاتبین وحی جن اشیاء کو کتابت کے لیے استعمال کرتے تھے وہ زیادہ تر پتھر کی سلوں اور چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں،بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر مشتمل تھیں۔ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کئے جاتے تھے لیکن زیادہ تر یہ ادوات نبا تاتی اشیا ءاور جانوروں کی کھال یا جھلّی سے بنی ہوئی ہوا کرتی تھیں جنہیں ایک ہی لفظ ”جِلد“سے موسوم کیاجاتا تھا۔ ‘‘جلد “سے بنی ہوئی مختلف اقسام کی یہ اشیاء عمومی طور پر رق، ادیم ،قضیم، عسیب، کرانیف، اکتاف،اقتاب، عظام، لخاف، اضلاع وغیرہ جیسی اشیاء پر مشتمل تھیں جن پر کا تبین وحی قرآن مجید تحریرفرماتے تھے۔ ان اَدواتِ کتابت کے مابین تھوڑا تھوڑا فرق موجود تھا جس کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:
رَق کا لفظ رقیق سے ماخوذ ہے جس کے معنی"باریک "کے ہیں۔اسی لیے"ثوب رقیق " کا معنی باریک کپڑے کے اور"رق "کاغذ کے مشابہ اس چیز کو کہتے ہیں جس پر لکھا جا سکے۔ 2 اسی لیے جب عربی میں کہا جائے (یکتب علی الرق )تو اس کا مطلب ہوتا ہے "جلد رقیق یکتب فیہ "یعنی وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جن کتابوں اور تحریروں کو عرصہ دراز تک محفوظ رکھنا مقصود ہوتا تھا ان کو ہرن کی باریک کھال پر لکھا جاتا تھا۔ یہ کھال خاص طور پر باریک جھلی کی شکل میں تیار کی جاتی تھی اوراس کو عرف ِعام میں "رَق" کہا جاتا تھا اور اہلِ کتاب عام طور پر تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحفِ انبیاء کو اسی " رَق "پر لکھا کرتےتھے تا کہ یہ کتا بیں عرصہ دراز تک محفوظ رہ سکیں۔قرآن کریم کو بھی دوسری اشیا ء کے ساتھ ساتھ اسی باریک چمرے پر لکھا جاتاتھا۔
ادیم سے مراد ایسا سرخ چمڑا تھا جس کو دباغت کے بعد قابلِ تحریر بنایا جاتا تھا چنانچہ کھال کے بالوں کو تیز دھار چھریوں سے چھیل کر صاف کر دیا جاتا تھا۔ پھر اس کو کھردرے پتھر سے رگڑکر خوب چکنا کیا جاتا تھا اور پھر اس سے لکھنے کا کام لیا جاتا تھا۔ حدیث رسول میں بھی اس دباغت شُدہ چمڑے کا ذکر بطورِ کاغذ کے ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے:
فإن المدينة حرم حرمها رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وهو مكتوب عندنا في أديم خولاني،3
بے شک مدینہ منورہ بھی حرم ہے جسے نبی نے حرم قرار دیا ہے اور یہ بات ہمارے پاس چمڑے پر لکھی ہوئی موجود ہے۔
عہدِ نبوی میں قرآن مجید بھی "ادیم "پر لکھا جاتا تھا۔ جیسا کہ درجِ ذیل روایت میں ہے
فأعزم على كل رجل منكم ما كان معه من كتاب اللّٰه شيء لما جاء به، وكان الرجل يجيء بالورقة والأديم فيه القرآن4
پس میں تاکید کے ساتھ تمہیں حکم دیتا ہوں کہ قرآن کریم کا جو حصہ بھی آپ کے پاس ہے (ابتداء وحی سے لے کر اب تک )لے آؤ،اور پھر کوئی چمڑا اور کوئی ورقہ لے کر آتا جس پر قرآن لکھا ہوتا تھا۔
قضیم سفید رنگ کی کھال اور چمڑے کو کہتے ہیں جو چرمی کاغذ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔اسے پہلے تیز دھار چھریوں سے چھیل کر صاف کر لیا جاتاپھر اُس کو کھردرے پتھر سے خوب چکنا کیا جاتا تھااور پکی ہوئی مٹی سے خوب سینک کر سفید اور چمک دار بنادیا جاتا تھا۔اس طرح اس چمڑے کے کاغذ پر حروف ےنقوش زیادہ نفیس اور خوبصورتی سے نقش ہوتےتھے۔قبل از اسلام "قضیم "عرب میں لکھنے کے کام آتا تھا۔اسی طرح ظہور اسلام کے بعد قرآن مجید کی کتابت بھی "قضیم "پر ہوتی تھی۔ ابن شہاب زہری سے مروی ہے:
قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم والقرآن في العسب والقضم والكرانيف. اللخاف5
نبی کریم ﷺکے رحلت فرمانے کے وقت قرآن مجید عسیب ،قضیم اور کرانیف میں محفوظ تھا۔
وحی الہٰی کے نزول کے وقت جن اشیاء پر کتابت کی جاتی تھی اُن میں سے ایک "عسیب" تھاجس کا عمومی ترجمہ کھجور کی شاخ کا وہ حصہ ہے جس پر سے پتے اتار دیئے گئے ہوں" کر نافہ’’ جس کی جمع کر انیف ہے کھجور کی شاخ کاٹ لینے کے بعداس حصہ کو کہتےہیں جو کھجور کے تنے سے متصل رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کو شاخ کی جڑ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ایک مضبوط قسم کی لکڑی کی تختی ہوتی تھی جس کی سطح ملائم اور شفاف ہونے کی وجہ سے اس پر بآسانی کوئی چیز تحریر کی جاسکتی تھی۔ روایت میں مذکور ہے:
ان الوحى كان يكتب على عهد رسول اللّٰه من على العسب والكرانيف6
حضور کے دور مبارک میں وحی الٰہی عسب اور کرانیف پر لکھی جاتی تھی۔
یہ"قتب"کی جمع ہے جس کے معنی اُونٹ کاکجاوہ اور پالان کے ہیں۔ اس میں استعمال ہونے والی لکڑی پر بھی کاتبینِ وحی پیغام الٰہی کو تحریر فرمایاکرتےتھے۔ 7
عظام عظم کی جمع ہے جس سے مراد ہڈیاں ہوتی ہیں۔ عظام میں درج ذیل اشیاء شامل ہوتی تھیں:
اکتاف "کتف" کی جمع ہے جس سے مراد اونٹ یا بکری کے شانے کی چوڑی ہڈی ہے۔ جب وہ سوکھ جاتی تھی تو اس پر لکھا جاتا تھا۔اس کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
الأكتاف جمع كتف وهو العظم الذي للبعير أو الشاة كانوا إذا جف كتبوافيه8
اِکتاف ،کتف کی جمع ہے اور یہ اُونٹ یا بکری کی ہڈی کو کہا جاتا ہے۔ جب وہ خشک ہو جاتی تھی تو پھر اس پر (تحریر وغیرہ )لکھتے تھے۔
دوسری روایت میں حضرت زید سے کتف کے متعلق مروی ہے:
لما نزلت هذه الآية: لا يستوي القاعدون من المؤمنين . دعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم- بالكتف ودعاني وقال:، اكتب...9
جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی(لا يستوي القاعدون۔۔۔فی سبیل اللہ ) تو آپ نے شانہ کی ایک ہڈی طلب فرمائی اور مجھے بلا کر حکم فرمایا کہ اس پر (نازل شدہ وحی )لکھو۔۔۔
اس حوالہ سے ایک اور روایت حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر سے بھی مروی ہے:
لما ثقل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم- دعا عبد الرحمن بن أبي بكر فقال:، ائتني بكتف حتى أكتب لأبي بكر كتابا لا يختلف عليه.10
جب آپ کی طبعیت بوجھل ہوگئی تو آپنے حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر کے ذریعہ مجھے بلاکر فرمایا کہ میرے پاس (بکری یا اُونٹ کے شانے کی) ہڈی لاؤ تاکہ میں ابو بکر کے لیے ایک تحریر نامہ لکھ دوں جس کی وجہ سے اختلاف واقع نہ ہو۔
"ضلع"سے مراد اُونٹ کے پہلو کی ہڈی ہوتی ہے اور اس کی جمع اضلاع آتی ہے۔ یہ وہ ہڈی ہے جس پرعہدِ رسالت میں کتابت ِ وحی ہواکرتی تھی۔ حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے:
فجعلت أتتبع القرآن من صدور الرجال ومن الرقاع ومن الإضلاع ومن العسب11
میں نے قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں سے، (جمع شدہ )اوراق سے، ہڈیوں سے اور خشک ٹہنیوں سے جمع کرنا شروع کیا۔
اہل عرب کے ہاں ہڈیوں پر لکھنے کا رواج اس لیےتھا کیونکہ اس پرلکھی ہوئی تحریرکو زیادہ دیر تک محفوظ رکھا جاسکتا تھا اور اپنی پائیداری میں بھی یہ ہڈیاں بے مثل تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب میں کاغذ پہنچنے کے بعد بھی عہدِ بنوعباس تک ہڈیوں پر لکھا جاتا رہا۔
عہد ِنبوی میں جن اشیاء پر وحی الٰہی لکھی جاتی تھی اِن میں سے ایک" لخاف"بھی تھی۔ یہ "لخفة"کی جمع ہے جو سفید پتھر کی پتلی پٹی یا ٹکڑے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے متعلق ابن الندیم لکھتے ہیں :
وهي الحجارة الرقاق البيض12
اور وہ سفید باریک پتھر ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق نے جب حضرت زید بن ثابت کو جمعِ قرآن کریم کا حکم دیا تو تدوین قرآن کےلیے جمع کردہ ماخذ کے حوالہ سے انہوں نے فرمایا :
فجعلت أتتبعه من الرقاع والعسب واللخاف. 13
تو میں (زید بن ثابت )نے قرآن کریم کو مختلف پتھروں ،اوراق ا ور ٹہنیوں سے جمع کرنا شروع کردیا۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ لخاف ہر گرے پڑے پتھرکو نہیں کہا جاتا اور نہ ہی یہ کوئی عام معمولی پتھر ہوا کرتا تھا بلکہ یہ پتھر کی وہ قسم تھی جسے بڑی ترتیب اور مشقت کے ساتھ کاٹ کر اس سے تختیاں بنائی جاتی تھیں۔آج کے دور میں اس کو سمجھنے کے لیے سنگ مرمر کی مثال دی جاسکتی ہے جو بڑی محنت کے ساتھ تراش خراش کے بعد مختلف خوبصورت سفید اور پتلی تختیوں کی شکل میں تیار کیا جاتا ہے۔"لخاف "بھی اسی طرح کا پتھر تھا جس پر وحی لکھی جاتی تھی۔
قرآن کریم کو ابتدائی زمانے میں مختلف اشیاء پر لکھ کر محفوظ کرنے کا کام بہت اہم تھا کیونکہ اس کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کو محفوظ کیا گیا اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ اُس وقت کاغذ کی عدم دستیابی یا کمیابی کے باعث، کھجور کے پتوں، چمڑے، پتھروں اور ہڈیوں جیسے دیرپا مواد کا استعمال کیا گیا۔ یہ اقدام اس بات کی ضمانت تھا کہ قرآن کا اصل متن محفوظ اور مستند رہے۔ صحابہ کرام کی محنت اور لگن کی بدولت قرآن مجید کا ہر لفظ اسی طرح محفوظ ہواجس طرح اللہ اور اس کے رسول کا حکم تھا اور پھر ان نسخوں کو یکجا کر کے باقاعدہ مصاحف کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ اس تاریخی عمل نے نہ صرف اسلامی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا بلکہ دین اسلام کے بنیادی مصدر کی حفاظت کو یقینی بنایا جو آج بھی اسی اصل شکل میں موجود ہے اور مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔