شعب کے معنی گھاٹی کے ہیں۔ 1 شعب ابی طالب سے مراد حضرت ابو طالب کی ملکیت میں موجود وہ خاص گھاٹی ہے جہاں مسلمانوں کو کفار مکہ کے مظالم سے بچنے کے لئے پناہ لینی پڑی۔ مکہ مکرمہ میں جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسےاہل مکہ کے مسلمانوں پر مظالم بھی بڑھتے چلے گئے۔ اس ظلم وستم کی وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی اس دعوت اور تحریک کو کچل کر ختم کر سکیں۔ آپ اور مسلمانوں کے لیے ان حالات میں مکہ میں زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اس لئے حضرت ابو طالب نے بنو عبدالمطلب سے کہا کہ وہ آپ اور آپ کے رفقاء کوشعب ابی طالب میں لے جا کران کی حفاظت کریں۔ 2 اعلانِ نبوت کے ساتویں سال 3 قریش کے سرداروں نے ایک حکم جاری کیا جس میں قریش کہ تمام افرادکو خاندان بنو ہاشم کے ساتھ سوائے ابو لہب کے ہر قسم کے لین دین سے منع کر دیا گیا 4 اور وہ تما م اشخاص جو شعب ابی طالب میں آگئے تھے ان کے سماجی مقاطعہ کا اعلان کردیا گیا۔
قریش مکہ آپ کی عداوت میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے ایک اجلاس میں اس بات کافیصلہ کرلیا کہ وہ آپ کو نعوذ باللہ شہید کر دیں گے۔ جب حضرت ابو طالب کو اس کی خبر ملی تو آپ نے فوری طور پر اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ وہ حضور کولے کر شعب ابو طالب میں چلے جائیں تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے۔ جب قریش کو حضرت ابو طالب کے اس فیصلےکا علم ہوا تو انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ ان کا منصوبہ جو انہوں نے آپ کے خلاف بنایا تھا ناکام ہو جائےگا۔ اب ان کے پاس کوئی اور رستہ موجود نہ تھا اس لئے انہوں نے درج ذیل سماجی مقاطعہ کا معاہدہ لکھ کر آپ کے قبیلے بنو ہاشم کو تنہا کرنے کی کوشش کی۔ ا بن سعد لکھتے ہیں:
وكتبوا كتابا على بني هاشم ألا يناكحوهم ولا يبايعوهم ولا يخالطوهم. 5
ایک معاہدہ انہوں نے لکھا بنو ہاشم کے خلاف کہ کوئی ان سے نکاح نہیں کرے، نہ خرید وفروخت کرے اور نہ ان سے میل جول رکھے۔
اسی بات کو امام حلبی نے مندرجہ ذیل الفاظ کے ذریعے سے مزید واضح فرمایا ہے :
والتضييق عليهم بمنع حضور الأسواق، وأن لا يناكحوهم، وأن لا يقبلوا لهم صلحا أبدا، ولا تأخذهم بهم رأفة حتى يسلموا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم للقتل. 6
اور ان پر خوب تنگی کی ان کا بازاروں میں پابندی کے ذریعہ، ان سے نکاح وغیرہ نہ کرنے کے ذریعہ، ان کی صلح کبھی بھی قبول نہ کرنے کے عہد کے ذریعے اور ان کے لیے (یہ طے کیا کہ) کسی بھی قسم کی نرمی نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ رسول اللہ کو قتل کےلیے ان کے حوالہ نہ کردیں ۔
بنو ہاشم کے سماجی مقاطعہ کی یہ تحریر اور معاہدہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا گیا تھا جس پر قریش کے تقریبا سارےبڑے سرداروں نے دستخط کئے۔ پھراس معاہدے کو کعبۃ اللہ کی دیوار پر لٹکا دیا گیا تاکہ یہ تمام لوگوں اور بالخصوص اہل مکہ کے لیے مسلسل یاد دہانی کا ذریعہ رہے۔7 چنانچہ قبیلہ بنو ہاشم کو شعب ابی طالب جو شہر مکہ سے کافی قریب ہے، اس میں سماجی مقاطعہ کے ذریعے بالکل تنہا کر دیا گیا تھا۔ 8
یہ مقاطعہ نامہ جسے”الصحیفہ المقاطعہ“ بھی کہا جاتا ہے، اس کو لکھنے والا شخص باختلاف رُوات نصر ابن الحارث یا عامر ابن ہشام یا طلحہ ابن ابو طلحہ تھا۔ ابن سعد اور ابن کثیر کی رائے کے مطابق وہ منصور ابن عکرمہ تھا جس نے اس معاہدے کو مرتب کیا تھا۔ 9 10 آپﷺ نے اس کے اس فعل بد پر آپ نے اس کے لیے بد دعا فرمائی جس پر اس کے دونوں ہاتھ اسی دن جس دن اس نے یہ فتنہ وفساد اور مسلمانوں کی تعذیب کا کام کیا تھا ناکارہ اور شل ہو گئے تھے ۔11 اللہ تعالی کی اس پکڑ کی وجہ سے وہ عرب کے تمام لوگوں بالخصوص قریش کے درمیان منفی ضرب المثل کے طور پر مشہور ہو گیا تھا اور لوگ کہا کرتے تھے کہ منصور آپ اور آپ کے قبیلے کو ستانے والی ظالمانہ تحریر کی وجہ سے اس انجام بد سے دوچار ہو گیا ہے۔ 12
قریش کی جانب سے بنو ہاشم کا یہ مقاطعہ تین برس تک جاری رہا 13 جس کے دوران حضور اور آپ کے صحابہ کرام اور قبیلہ بنو ہاشم کے تمام افراد کو شدید ترین تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔اس معاہدہ کی وجہ سے مسلمان مکہ مکرمہ کی دکانوں سے کسی چیز کو خریدنے سے قاصر تھے جس کے سبب مسلمانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا رہا اور جب مسلمانوں کے پاس ذخیرہ شدہ خوراک ختم ہونے لگی تو وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ زندہ رہنے کے لیے مختلف درختوں کے پتے کھا کھا کر زندہ رہیں۔ 14 بنو ہاشم قبیلے کے خیموں میں سے خواتین اور بچے بھوک و پیاس کی شدت کی وجہ سے تڑپتے اور روتے تھے جن کی آہ و فغاں کافی فاصلے سے سنی جا سکتی تھی۔ان کو کوئی چیز صرف اس صورت میں دستیاب ہوتی تھی جب چوری چھپے کوئی شخص کچھ لا کر انہیں دے دیا کرتا یا قبیلہ بنو ہاشم کے لوگ حج کے دنوں میں کسی اور علاقے میں جا کر کسی دکان یا کسی شخص سے خاموشی کے ساتھ اہل مکہ سے چھپا کر کوئی چیز خرید کر لے آتے۔ 15 مکہ کے علاوہ ارد گرد کے دوسرے علاقوں کی دکانوں اور بازاروں میں بھی ابو لہب نے پوری کوشش کر رکھی تھی کہ مسلمان کسی بھی چیز کو خریدنے نہ پائیں۔اس حوالے سے امام سہیلی نقل کرتے ہیں:
وكانوا إذا قدمت العير مكة يأتي أحدهم السوق ليشتري شيئا من الطعام لعياله فيقوم أبو لهب عدو اللّٰه فيقول يا معشر التجار غالوا على أصحاب محمد حتى لا يدركوا معكم شيئا، فقد علمتم ما لي ووفاء ذمتي، فأنا ضامن أن لا خسار عليكم فيزيدون عليهم في السلعة قيمتها أضعافا، حتى يرجع إلى أطفاله وهم يتضاغون من الجوع وليس في يديه شيء يطعمهم به ويغدو التجار على أبي لهب، فيربحهم فيما اشتروا من الطعام واللباس حتى جهد المؤمنون ومن معهم جوعا وعريا. 16
جب قبائل کے قافلے مکہ آتے (اور بازار قائم کرتے) تو (بنو ہاشم کے) لوگ اپنے گھر والوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے بازار جاتے۔ اللہ کا دشمن ابو لہب آکر ان تاجروں سے خطاب کرتا: اے تاجرو، مسلمانوں کو بیچتے وقت اپنی مصنوعات کی مہنگی قیمت مقرر کرو ، تاکہ وہ تم سے کوئی چیز نہ خرید سکیں۔ تم جانتے ہو کہ میں کتنا مالدار ہوں، اور اپنی بات کو پورا کرنے والا ہوں ، میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اگرتم ان کو کچھ نہیں بیچو گے تو تم کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی قیمتیں اس حد تک بڑھا دیں کہ انہیں دوگنا کر دیا اور (بنو ہاشم کے) افراد کو اپنے بچوں کے پاس خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا جو کہ شدید بھوک کی وجہ سے رو تے رہتے۔ پھر ابو لہب وہ اشیائے خوردونوش اور کپڑے تاجروں سے غیر معمولی قیمتوں پر خریدتا ، جب کہ اس سے مسلمان شدید مشکل کا شکار ہوتے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور پہننے کے لیے محض چند چیتھڑے ہوا کرتے تھے۔
قریش کے اس ظالمانہ رویے کو دیکھ کر حضرت ابو طالب نے مندرجہ ذیل اشعار درد دل کے طور پر کہے تھے:
الا أبلغا عني على ذات نأيها
لؤيا وخصا من لؤي بني كعب
ألم تعلموا أنا وجدنا محمدا
نبيا كموسى خط في أول الكتب
وأن عليه في العباد محبة
ولا خير فيمن خصه اللّٰه بالخب
وأن الذي أضفتم في كتابكم
لكم كائن نحسا كراغبة السقب
أفيقوا أفيقوا قبل أن تحفر الثرى
ويصبح من لم يجن ذنباكذي الذنب
ولا تتبعوا أمر الغواة وتقطعوا
أياصرنا بعد المودة والقرب
وتستجلبوا حربا عوانا وربما
أمر على من ذاقه حلب الحرب
ولسنا ورب البيت نسلم أحمدا
على الحال من عض الزمان ولا كرب
أليس أبونا هاشم شد أزره
وأوصى بنيه بالطعان وبالضرب
ولسنا نمل الحرب حتى تملنا
ولا نتشكى ما ينوب من النكب
ولكننا أهل الحفاظ والنهى
إذا طار أرواح الكماة من الرعب 17
خبر دار ، تم دونوں میری طرف سے بنی لوی اور بالخصوص بنی لوی میں سے بنی کعب کو وہ بات پہنچا دو ، جو ظاہر ہو چکی۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے محمد کو حضرت موسی جیسا ہی پایا ہے جس کا ذکر پہلی الہامی کتابوں میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بندے محبت کے ساتھ آپ () کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے دھوکہ دہی اور بد دیانتی کے لیے مخصوص کر دیا ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں ۔جو کچھ تم نے اپنی تحریر میں لکھا ہے اُونٹنی کے نوزائیدہ بچےکی آواز کی طرح اس کی نحوست کا وبال تم پر پڑے گا۔نیند سے بیدار ہو جاؤ۔ اور ہوش میں آؤ قبل اس کے تمہاری قبر کھودی جائے اور جس نےکوئی گناہ نہیں کیا ، اس کا شمار بھی گناہ گاروں میں ہونےلگے ۔ گمراہ لوگوں کی باتوں کی پیروی نہ کرو اور دوستی اور رشتہ داری کے بعدہمارے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدوں کو نہ توڑو۔جنگ کو دعوت نہ دو اور زور آزمائی کے مواقع پے در پے پیدا نہ کرو۔ اور جنگ ایسی بڑی چیز ہے کہ جس نے بھی اس کا دودھ چکھا ہے، اس نے اسے کڑوا محسوس کیا ہے ۔خانہ کعبہ کی قسم ، ہم ایسے لوگ نہیں کہ مشکلات و مصائب سےگھبرا کر احمد( ) کو تمھارےحوالے کر دیں۔کیا ہمارے باپ ہاشم نے اپنی قوت کو مضبوط نہیں کیا تھا اور اپنے بیٹوں کو یہ وصیت نہیں کی تھی کہ وہ نیزوں اور تلواروں کے استعمال میں مہارت حاصل کریں ۔ہم جنگ سے گھبرانے والے نہیں ، یہاں تک کہ خود جنگ ہی ہم سے اکتا جائے اور ہم پر جو مصیبت بھی آئے ہم اس کے بارے میں شکایت کرنے والے نہیں ہیں۔جب زرہ بکتر پہنے ہوئے جنگی بہادروں کی روحیں رعب اور خوف سے اڑی جاتی ہیں، ہم اس وقت بھی اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اورعقل سے کام لیتے ہیں ۔
اس انتہائی نازک ترین صورتحال میں بھی حضرت ابو طالب اور بنو ہاشم نے کسی قسم کی کمزوری اور مداہنت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ نہایت پامردی اور استقامت کے ساتھ وہ اپنے سابقہ موقف پر ڈٹے رہے کہ وہ کسی بھی صورت میں آپ کو قریش کے حوالے نہیں کریں گے ۔
ان تین سالوں میں حضرت ابوطالب کو یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کہیں کفار اس دوران آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچادیں۔ ہر رات جب سب لوگ سوجاتے توحضرت ابو طالب اپنے بیٹوں یا بھائیوں میں سے کسی کو حکم دیتے تھے کہ وہ جاکر آپ کے جگہ پر سوجائیں تاکہ اگر کفار کسی برے ارادے سے آئیں بھی تو انہیں مقررہ جگہ پر کوئی اور شخص ملے ۔ یہ سلسلہ تین سال تک اسی طرح جاری رہا۔ 18
ایک دن ابو جہل کی ملاقات حکیم ابن حزام سے ہوئی جس کا تعلق بنو اسد قبیلے سے تھا۔ وہ اس وقت اپنے غلام کے ساتھ جا رہا تھا جس نے اپنی کمر پر آٹے کی بوری لاد رکھی تھی۔ ابو جہل نے اس پر یہ الزام لگایا کہ وہ بنو ہاشم کی محصوری میں انہیں آٹا پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے جو قریش کے دشمن ہیں۔ اس بات پر ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔ ابھی ان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ جاری تھا کہ بنو اسد قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک دوسرا شخص ابو البختری شور شرابہ سن کر وہاں چلا آیا اور نزاع کی وجہ دریافت کرنے لگا۔ جب اس نے مکمل بات سن لی تو ابو جہل سے مخاطب ہو کر اس کو کہا کہ آٹے کا تعلق کسی اور سے نہیں بلکہ اس کی خالہ کے ساتھ ہے اور اسے اس لیے یہاں پر بھیجا گیا ہے کہ وہ آٹا وہاں سے وصول کر لے۔ ابوجہل نے یہ سب کچھ سننے کے باوجود ابن حزام کی راہ روک کر اسے جانے سے منع کر دیا۔ اس موقع پر ابوالبختری جو پہلے نہایت سکون سے سب باتوں کا جواب دے رہا تھا، اس نے غصے میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر ابو جہل کے سر پر اس زور سے دے ماری کہ وہ فوراً ہی زمین پر گر پڑا۔ اس کے بعد حکیم ابن حزام اور ابو البختری نے مل کر اسے اپنے پاؤں تلے بھرپور انداز سے روند ڈالا۔اس واقعہ کے وقت حضرت حمزہ قریب ہی میں موجود تھے اور یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ خوش بھی ہو رہے تھے۔ 19
مذکورہ حالات میں آپ کے لئے دعوت اسلام کا کام ممکن نہیں تھا سوائے اس کے کہ آپ چار مقدس مہینوں کا انتظار فرماتے جس میں ہر قسم کی قتل و غارت گری، مخالفین پر حملہ آور ہونا اور اپنے دشمنوں سے بدلہ لینا سختی سے منع تھا۔ یہی وہ مہینے تھے جس میں پورے عرب سے قبائل حج کی ادائیگی کے لیے مکۃ المکرمہ آیا کرتے تھے۔آپ بھی عمومی طور پر انہی مہینوں میں تمام دور دراز سے آنے والےقبائل سے ملاقاتیں کر کے انہیں اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ 20 ان تمام زائرین کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ آپ جن تکالیف اور آزمائشوں سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ ان کی دعوت اسلام ہی ہے چنانچہ اکثر حُجّاج اور زائرین کے دلوں میں رحم دلی کے جذبات کا پیدا ہو جانا اور ان کا اسلام کی طرف مائل ہو جانافطری بات تھی۔چنانچہ وہ آپ کی دعوت کو نہایت سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جس کے فوائد آگے چل کر مسلمانوں کو ہوئے۔
قریش کی طرف سے عائد کردہ سماجی مقاطعہ اور پابندیوں کے وہ نتائج سامنے نہیں آ سکے جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ قریش جن کے بہت سارے عزیز بنو ہاشم کے ساتھ تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی اس معاملے پر سنجیدگی کےساتھ سوچ بچار کرنا شروع کردیا تھا تاکہ ان غیر انسانی اور غیر اخلاقی سماجی پابندیوں کو جلد از جلد ختم کیا جاسکے۔قریش کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ ان سماجی پابندیوں کے باوجود اسلام اور آپ کو پورے عرب میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ گفتگو کا موضوع بنایا جانے لگا۔
وہ شخص جس نے سماجی مقاطعہ کو ختم کرنے کے حوالے سے قریش کے اندر سب سے پہلے اختلاف رائے کو ہوا دی وہ ہشام ابن عمر الہاشمی تھے۔ 21 اس حوالہ سے اس نے سب سے پہلے زہیر ابن ابی امیہ جو بنو مخزوم قبیلے کا رکن تھا، اس سے ملاقات کی ۔زہیر نے ہشام کی پوری بات سن کر کہا کہ وہ اس کی بات کو صحیح سمجھنے کے باوجود خود کچھ نہیں کر سکتا جب تک مزید لوگ ان کا ساتھ اس معاملے میں نہ دیں۔ چنانچہ وہ مل کر مطعم بن عدی، ابو البختری اور زمعہ ابن الاسود کے پاس گئے۔ ان پانچوں افراد نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ مکہ کے شمال میں کسی جگہ پر رات کے وقت آپس میں اس مسئلے کو حل کرنے پر ملاقات کریں گے چنانچہ اس ملاقات کے دوران اس بات کو حتمی شکل دی گئی کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے زہیر پہل کرے گا۔دوسرے دن یہ تمام افراد زہیر کی محفل میں جو کعبۃ اللہ کے ساتھ ہوتی تھی پہنچ گئے۔ اس وقت زہیر سفید لمبے لباس میں ملبوس بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا چنانچہ جب اس نے اپنا طواف مکمل کر لیا تو وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر کے کہنے لگا کہ بنو ہاشم جو شعب ابی طالب میں قحط سالی اور بدحالی کا شکار ہیں جب تک ان کی تکالیف کا مداوا نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ خود نہ کھانا کھائے گا اور نہ پانی پئے گا۔ اس نے مزید کہا کہ جب تک اس ظالمانہ معاہدے کو ختم نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک وہ آرام سے نہیں بیٹھے گا۔اس موقع پر ابو جہل جو بیت اللہ کے ایک کونے پر کھڑا تھا کہنے لگا کہ اس نے غلط بیانی کی ہے اور جھوٹ بولا ہے، یہ معاہدہ کسی صورت میں ختم نہیں کیا جائے گا۔ زمعہ بن الاسود نے ابو جہل کو جواب دے کر کہا کہ وہ بڑا جھوٹا ہے اور وہ اس معاہدے سے بالکل بھی خوش نہیں۔ اس موقع پر ابو البختری نے زمعہ کی بات کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی اس معاہدے سے بالکل خوش نہیں۔ ہشام نے بھی اس موقع پر اسی طرح کہ الفاظ کے ذریعے سے زہیر کے موقف کی بھرپور تائید کی۔ ابو جہل نے موقع، محل اور حالات کی نزاکت کو بھانپ کر فورا کہا کہ یقینا تم لوگوں نے یہ منصوبہ بندی رات میں کہیں پر بیٹھ کر کی ہے۔اس صورتحال میں مطعم ابن عدی اس معاہدے کو لانے کے لیے گیا تاکہ اسے لاکر سب کے سامنے پھاڑ دیا جائے لیکن وہ اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ سوائے لفظ اللہ کے پورے معاہدے کو پہلے ہی دیمک چاٹ چکی ہے۔ 22 چنانچہ باقی ماندہ لوگ جنہوں نے اب تک ہشام کا ساتھ نہیں دیا تھا وہ بھی معاہدے کے قدرتی طور پر ختم ہو جانے کو نیک شگون سمجھ کر ہشام کے ساتھ آملے۔ اس طرح ظلم پر مبنی یہ معاہدہ ایک طویل عرصے کے بعد منسوخ ہو کر اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد کئی قریشیوں پر مشتمل ایک وفد بنو ہاشم کی طرف دوڑ پڑا تاکہ اس معاہدہ کے اختتام پذیر ہونے کی خوشخبری انہیں دی جا سکے چنانچہ جب انہیں یہ خوشخبری سنائی گئی تو اس کہ فورا بعد بنو ہاشم لوٹ کر مکہ واپس آگئے۔
مشہور سیرت نگار ابن اسحاق کے مطابق سماجی مقاطعہ پر مشتمل یہ معاہدہ تھوڑے سے مختلف انداز سے اختتام پذیر ہوا اور وہ یہ تھا کہ اللہ تعالی نے اس معاہدہ پر دیمک کو مسلط کر دیا تھا اور اس دیمک نے اس کا بڑا حصہ کھا کر ختم کر دیا تھا سوائے ان الفاظ کے :
باسمك اللهم اغفر
اے اللہ ہم آپ کے نام سے شروع کرتے ہیں ،تو معاف فرما۔
اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے محبوب کو اس پورے معاملے کی بابت آگاہ فرما دیا۔چنانچہ حضور نے حضرت ابو طالب کو اس بات پر مطلع فرما دیا۔ حضرت ابو طالب نے حضور سے پوچھا کہ یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ اہل مکہ میں سے کسی بھی شخص نے ا ٓکر ان کو اس بارے میں اطلاع نہیں دی ہے، تو حضور نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے انہیں اس واقعے کے بارے میں بذریعہ وحی آگاہ فرمایا ہے۔حضرت ابو طالب نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ آپ ()نے ہمیشہ سچ ہی فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت ابو طالب بذات خود قریش کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں اس بات پر آگاہ کیا کہ ان کے کعبۃ اللہ میں لٹکائے ہوئے اس معاہدے کے ساتھ کیا کچھ ہو چکا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات کی تصدیق کی جائے تو اس معاہدے کے کاغذ کو اٹھا کر کے یہاں لایا جائے تاکہ تمام افراد کے سامنے ان کے اس دعویٰ کی تصدیق ہو سکے۔ انہوں نے مزید یہ فرمایا کہ اگر ان کی بات سچی ثابت ہو جائے تو قریش کو چاہیے کہ وہ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاہدے کو ختم کر دیں اور اگر ان کے بھتیجے کا دعوی غلط ثابت ہوتا ہے تو وہ اس بات پر تیار ہیں کہ وہ آپ کوقریش کے حوالے کر دیں۔چنانچہ جب اس معاہدے کے کاغذ کو سامنے لایا گیا تو وہ بالکل اس طرح تھا جس طرح آپ نے اس کا ذکر کیا تھا لیکن اس کے باوجود قریش میں سے بہت سارے لوگ یہ کہنے لگے کہ یہ جادو کا نتیجہ ہے لہذا وہ اس معاہدے کی پاسداری کرتے رہیں گے یعنی بنو ہاشم کو ظالمانہ مقاطعہ کے نتیجے میں جس ظلم کا سامنا ہے وہ ظلم جاری رہے گا۔اس موقع پر مطعم ابن عدی اور ہشام ابن عمر نے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ مزید ظلم پر مبنی اس معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے اور وہ کسی ایسے شخص کی حمایت اور طرفداری بھی نہیں کریں گے جو اپنے قابل عزت لوگوں کی تکریم نہ کر کے خود اپنی عزت کو گنوانا چاہتا ہو ۔ان کے اس واضح اعلان کے بعد قریش اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کرنے پر راضی ہو گئے اور مسلمانوں پر سے تمام سماجی پابندیوں کو ہٹا دیا گیا۔ 23