سیرت طیبہ میں مواخات سے مراد وہ خاص معاہدہ ہے جواکثر سیرت نگاروں کےمطابق ہجرت کےپانچ ماہ، 1 2 جبکہ دیگر کے مطابق نو یا پندرہ ماہ بعد آپ کی زیر نگرانی مہاجرین و انصار صحابہ کرام کے درمیان طے پایا۔3 اس معاہدہ میں مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے ایک مسلمان کو مدینہ کے رہائش پذیر انصاری مسلمان کا بھائی قرار دیا گیا ۔4 اس موقع پر انصار مدینہ نے مکہ مکرمہ سے آنے والے اپنے مسلمان مہاجر بھائیوں کی ایسی بہترین مہمان نوازی کی جس کی مثال تاریخ دنیا میں مفقود ہے5 اور یہ بھائی چارہ اس قدر گہرا تھا کہ مہاجر ین وانصار کے درمیان ایک دوسرے کی میراث تک تقسیم کی جانے لگی تھی۔
اس بھائی چارہ اور اسلامی اخوت کے قائم کرنے کے چند دیگر اسباب بھی تھے جن میں سےاہم درج ذیل ہیں:
1. اہل عرب کا عمومی مزاج یہ تھا کہ ان کے رشتے، تعلقات اورمعاہدات قبائلی عصبیت، مفادات اور اغراض کی بنیاد پر طےکئے جاتے تھے۔ اسی لئےآپ نے جس بھائی چارہ کی بنیاد رکھی اس کے کئی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس بھائی چارے کے ذریعے عصبیت جاہلی پر قدغن لگائی جائے ۔ 6 مہاجرین چونکہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے اہل قریش اپنے مقام کو بلند سمجھتے تھے اس لئےاسلامی بھائی چارہ کے ذریعہ عصبیت کے اس زہر کو ختم کیا گیا 7 اور عملی طور پر ایک نئے بننے والے معاشرے کو یہ تعلیم دی گئی کہ سب سے مضبوط رشتہ اسلام اور ایمان کا ہے جس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
2. مدینہ منورہ آنے والوں کےلیے فوری طور پر نئی بستیوں کا قیام ایک مشکل مرحلہ تھا اور یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ ان کو کہہ دیا جاتا کہ وہاں کی زمینیں خرید کر ان پر اپنی رہائش کا انتظام خود کریں۔ 8اس لیے رسول اللہ نے ہجرت کے بعدمہاجرین وانصارکو حضرت انس بن مالک کے گھر میں جمع کیا9 اور ان کے درمیان اسلامی اخوت اور بھائی چارہ ان الفاظ کے ساتھ قائم فرمایا کہ :
المهاجرون والانصار بعضهم اولیاء بعض فى الدنیا والآخرة. 10
مہاجرین اور انصار دنیاوآخرت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
3. مدینہ منورہ میں اہل ایمان کے علاوہ دیگر اقوام آباد تھیں جن کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھیں۔ اس لیے ابتدائی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ مسلمانوں کو ایک اکائی بنایا جائے تاکہ ان کی آپس کی محبت والفت بھی قائم رہے اور یہ دشمنوں کے خلاف بھی متحد رہیں جس کے لیے مواخات قائم کرنا سب سے بہترین اور موزوں اقدام تھا۔ 11
4. اسلامی بھائی چارہ کے ذریعہ مہاجرین وانصار کے درمیان الفت ومودت کو فروغ دینا تھا اور ایک دوسرے سے قلبی ہم آہنگی کو پیداکرنا تھا ۔ 12
5. نسلی وقبائلی امتیازات کو ختم کرنا مقصود تھا تاکہ کوئی اپنے آپ کو دوسرے سے اعلی وبرتر نہ سمجھے۔ اس لیے حضرت حمزہ جیسے سردار کو حضرت زید بن حارثہ جو کہ اس وقت عقد غلامی میں تھے، کا اسلامی بھائی بنادیا گیا۔ 13
6. مشرکین مسلمانوں کے خلاف ایک صف میں متحد تھے اور ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لیے مسلمانوں کے درمیان ایسی بھائی چارگی کی فضا قائم کرنا ضروری تھی جو مضبوط سنگ بنیاد کا کام دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ مواخات کو اللہ تعالی نے پسند فرمایاا ور مسلمانوں کی تسلی کےلیے یہ آیات مبارکہ نازل فرمائیں:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ 72 14
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی وہی لوگ ایک دوسرے کے حقیقی دوست ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے (مگر) انہوں نے (اللہ کے لئے) گھر بار نہ چھوڑے تو تمہیں ان کی دوستی سے کوئی سروکار نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں اور اگر وہ دین (کے معاملات) میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر (ان کی) مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلہ میں (مدد نہ کرنا) کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح و امن کا) معاہدہ ہو، اور اللہ ان کاموں کو جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
7. مہاجرین کی معاشی ومالی حالت زار کو بھی سنوارا جاسکے کیوں کہ اکثر مہاجرین اپنا مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کررہے تھے جیسا کہ ان کی ہجرت کی کیفیت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ 8 15
(مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول () کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیں۔
اہل سیر نے ان لوگوں کی تعداد مختلف ذکر کی ہے جن کے درمیان رشتہءِ مواخات قائم کیا گیا۔ ایک قول کے مطابق 45 انصاراور اتنے ہی مہاجرین تھے ، جبکہ دوسرے قول کے مطابق 50 مہاجرین اور 50 انصار تھے جن کے درمیان مواخات قائم کی گئی ۔ 16 اس حوالہ سے ایک روایت مقریزی نے نقل کی ہے جس کے مطابق تقریبا 186 اصحابہ کرام کے درمیان مواخوات قائم کی گئی تھی۔ 17
جن صحابہ کرام کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا گیا ان میں سے مشہورحضرت ابوبکر الصدیق کاحضرت خارجہ بن زھیر کے ساتھ، حضرت عمر بن الخطاب کاحضرت عتبان بن مالک کے ساتھ، حضرت ابوعبیدہ بن عبد اللہ بن الجراح کاسعد بن معاذ کے ساتھ، حضرت عبدالرحمن بن عوف کا سعد بن ربیع کے ساتھ، حضرت زبیر بن عوام کا سلامۃ بن سلامہ کے ساتھ، حضرت عثمان بن عفان کا حضرت اوس بن ثابت بن المنذر کے ساتھ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ کاحضرت کعب بن مالک کے ساتھ، حضرت سعد بن زید کا ابی بن کعب کے ساتھ، حضرت مصعب بن عمیر کاابو ایوب خالد بن زید کے ساتھ، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ کاحضرت عبّاد بن بشر بن وقش کے ساتھ، حضرت عمار بن یاسر کا حضرت حذیفہ بن الیمان کے ساتھ، حضرت ابو ذرغفاری کا حضرت منذر بن عمرو کے ساتھ رشتہ اخوت قائم کیا گیا۔ 18
ان اسماء مبارکہ کے علاوہ اہل سیر نے مزید کچھ نام بھی ذکر کیے ہیں جیسا کہ محمد بن یوسف الصالحی کی بیان کردہ فہرست کے مطابق حضرت بلال بن رباح کی حضرت ابی رُویحہ کے ساتھ، حضرت حاطب بن ابئ بلتعہ کی حضرت عویم ابن ساعدۃ کے ساتھ، حضرت عبداللہ بن جحش کی حضرت عاصم بن ثابت کے ساتھ، حضرت عُبیدہ بن الحارث کی حضرت عمیر بن حمام کے ساتھ، حضرت طفیل بن الحارث کی حضرت سفیان بن نسر کے ساتھ، حضرت حصین بن الحارث کی حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھ، حضرت عثمان بن مظعون کی حضرت عباس بن نضلہ کے ساتھ، حضرت عتبہ بن غزوان کی حضرت معاذ بن ماعص کے ساتھ، حضرت صفوان بن وہب کی حضرت رافع بن المعلی کے ساتھ، حضرت مقداد بن عمرو کی عبداللہ بن رواحہ کے ساتھ، حضرت ذی الشمالین بن عبد عمرو کی حضرت یزید بن الحارث کے ساتھ، حضرت ابی سلمہ بن عبد الاسد کی حضرت سعد بن خیثمہ کے ساتھ، حضرت عامر بن ابی وقاص کی حضرت خبیب بن عدی کے ساتھ، حضرت عبداللہ بن مظعون کی حضرت قطبہ بن عامر کے ساتھ، حضرت شماس بن عثمان کی حضرت حنظلہ بن ابی عامر کے ساتھ، حضرت ارقم بن ابی الارقم کی حضرت طلحہ بن زید الانصاری کے ساتھ، حضرت زید بن خطاب کی حضرت معن بن عدی کے ساتھ، حضرت عمرو بن سراقہ کی حضرت سعد بن زید الاشہلی کے ساتھ، حضرت عاقل بن البکیر کی حضرت مبشر بن عبدالمُنذِر کے ساتھ، حضرت عبداللہ بن مخزمہ کی حضرت فروہ بن عمر والبیاضی کے ساتھ، حضرت خنیث ابن حذافہ کی حضرت منذر بن محمد بن عقبہ بن اُحیحہ کے ساتھ، حضرت ابی سبرہ ابن ابی رُھم کی حضرت عبادہ بن خشخاش کے ساتھ، حضرت مسطح ابن اُثاثہ کی حضرت زید بن المزین کے ساتھ، حضرت ابی مرثد کی حضرت عبادہ بن صامت کے ساتھ، حضرت عکاشہ ابن محصن کی حضرت مجذّر ابن ذیاد کے ساتھ، حضرت عامر بن فہیرہ کی حضرت حارث بن الصِمّہ کے ساتھ، حضرت مِحجع کی حضرت سراقہ بن عمرو بن عطیہ کے ساتھ مواخات قائم کی گئی۔ 19
مواخات اور اسلامی بھائی چارہ کامقصد یہ تھا کہ مہاجرین کی تالیف قلب کی جائے اور یہ کہ وہ خود کو کسی پر بوجھ اور دوسروں کے سامنے اپنے کو محتاج نہ سمجھیں۔ اسی لیے رسول اللہ نے انصار کو ترغیب دیتے ہوئےفرمایا:
إن إخوانكم قد تركوا الأموال والأولاد وخرجوا إليكم " فقالوا: أموالنا بيننا قطائع. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم " أو غير ذلك؟ " قالوا وما ذاك يا رسول اللّٰه ؟ قال: " هم قوم لا يعرفون العمل، فتكفونهم وتقاسمونهم. الثمر ". قالوا نعم. 20
تمہارے بھائیوں نے یقینا اپنے مال اور اولادوں کو چھوڑ کر تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔انصار فرمانے لگے (یارسو ل اللہ) ہمارے مال ہمارے درمیان تقیسم ہیں، رسو ل اللہ نے فرمایا: (میں چاہتا ہوں کہ) ان کاکچھ مزید اکرام ہو، وہ کہنے لگے وہ کیا یارسول اللہ ؟ تو آپ نے فرمایا: اہل مکہ زراعت اور باغبانی سے نابلد ہیں تم ان کو کھیتی باڑی کے بغیر پیداوار میں شریک کرلو،انصار نے جواب دیا: یارسول اللہ! ٹھیک ہے (ہمیں منظور ہے)۔
اہل مکہ کا پیشہ چونکہ زراعت اور کھیتی باڑی نہیں تھا اس لیے رسول اللہ نے مہاجرین کی دین اسلام کےلیے قربانیوں کے جذبہ کی قدردانی کرتے ہوئے ان کو انصار کے ساتھ ان کی کھیتی اور زراعت میں شریک کیا ۔ 21
تاریخ میں پہلی باریہ منظر دیکھاگیا کہ باہر سے آنے والے اجنبیوں کےلیے کسی علاقے کے بسنے والوں نے اس درجے کی قربانیاں دی ہوں۔ اہل مدینہ نے ایثار وہمدردی میں محبت واخوت کو اپنی کمال شکل میں برت کر دکھایا حالانکہ مہاجرین وانصار میں نہ پرانی دوستیاں تھیں اور نہ ہی ہر ایک مہاجر کی مدینہ منورہ میں رشتہ داری تھی۔ اسی طرح مہاجرین وانصار قوم ونسل کے اعتبار سے بھی ایک نہ تھے لیکن اس کے باوجود رسول اللہ کی محبت اور تعلیمات کا یہ اثر تھا کہ انصار جو خود اسلام میں نومولود کی حیثیت سے تھے انہوں نے اسلامی رشتہ اخو ت کی لاج اس طرح رکھی کہ وہ دل وجان سے اپنے مہاجر بھائیوں کی مہمان نوازی کی سعادت حاصل کرنے کے لیے خود کو پیش کر رہے تھے ۔ انصار مدینہ میں سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ آنے والے مہاجر مسلمان بھائیوں میں سے کوئی نہ کوئی اس کے حصہ میں ضرور آئے۔ چنانچہ اپنے مہاجر بھائیوں کی مہمان نوازی کے حصول کےلیے انصار مدینہ کے درمیان باقاعدہ طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ ہونے لگا جس کےلیے قرعہ اندازی تک کی نوبت آئی کہ قرعہ میں جس مہاجر کا نام نکلے گا وہ آنے والے مہاجر صحابی کو اپنے گھر لےجائے گا ۔ 22
ایثار وسخاوت کی ایک اعلی مثال حضرت سعد بن ربیع ہیں جن کے ساتھ ان کے مہاجر بھائی حضرت عبد الرحمن بن عوف کا رشتہ اخوت جوڑا گیا تھا۔ حضرت سعد بن ربیع ان سے فرمانے لگے کہ وہ مدینہ کے صاحب ثروت لوگوں میں سے ہیں لہذا حضرت عبد الرحمن بن عوف ان کاآدھا مال لے لیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک کو وہ طلاق تک دینے کو تیار ہوگئے تھے تاکہ عدت کے بعد ان سے حضرت عبد الرحمن بن عوف نکاح فرما لیں ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف نے یہ سن کر ا ن کو دعا دی اور ان کا شکریہ ادا کر کے ان سے فرمایا کہ وہ ان کو بازار کا رستہ دکھا دیں بس یہی ان کے لیے کافی ہے۔23
مودت واخوت کی یہ وہ عدیم النظر مثالیں ہیں جسے پیش کرنے سے عمومی طور پر انسانی تاریخ خالی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ رشتہ مواخات پہلی ہجری میں قائم کیا گیا اور غزوہ بنو نضیر 4 ہجری میں ہوا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھ یہود کا بہت سا مال لگا۔ وہ مال جب رسول اللہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے انصار کو جمع کر کے ان کی تعریف فرمائی اور مہاجرین کے ساتھ کیا ہوا اچھا سلوک بہت زیادہ سراہا اور ان سے انکی رائے دریافت فرمائی کہ اگر وہ سارا مال مہاجرین کے درمیان تقسیم کر لیا جائے اور وہ گھر اور زمینیں جو انہوں نے مہاجرین کو استعمال کےلیے دے رکھی تھیں وہ ان کو واپس کردی جائیں۔ یہ سن کر حضر ت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ فرمانے لگے کہ مہاجرین ان کے بھائی ہیں انہوں نے دین اسلام کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں، اپنا گھر بار چھوڑا ہے، اپنے عزیز واقارب چھوڑے ہیں لہذا آپ ان کادیا ہوا مال بھی مہاجرین کے پاس رہنے دیں اور جو مال غزوہ بنو نضیر سے حاصل ہوا ہے وہ بھی سارا ان مہاجرین کے درمیان تقیسم فرما دیں ۔ آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور خوشی کے اس عالم میں بارگاہ ایزدی میں دست دعا بلند کرکے انصار کے حق میں یہ دعا فرمائی :
اللّٰھم ارحم الانصار وأبناء الانصار وأبناء أبناء الانصار. 24
اے اللہ! انصار پر رحم فرما اور ان کی اولاد اور ان کی آل و اولاد پر بھی رحم فرما۔
باوجود اس کے کہ انصار کی اپنی معاشی، اقتصادی اور مالی حالت خود بھی کوئی زیادہ مضبوط نہیں تھی اور وہ خود بھی فقر وفاقہ میں مبتلا تھے لیکن وہ اس قدر دریا دل او رسخی تھے کہ انہوں نے مہاجرین کواپنے آپ اور اپنی ضروریات پر ترجیح دی چنانچہ رسول اللہ نے حسب منشائے انصار وہ مال مہاجرین میں تقیسم کردیا ۔ 25
اخوت اور بھائی چارہ میں انصار اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ اپنے گھر بار، زمینوں، کھیتی باڑی اور دیگر اشیاء میں مہاجرین کو اپنے ساتھ شریک کرنےعلاوہ باقاعدہ میراث کی تقسیم میں بھی اپنے مہاجرین بھائیوں کو اپنے ساتھ شریک کیاکرتے تھے۔ پھر یہ حکم غزوہ بدر کے موقع پر منسوخ ہوا۔ 26 جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا 33 27
اور ہم نے سب کے لئے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے مال میں حق دار (یعنی وارث) مقرر کر دیئے ہیں، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے سو اُنہیں ان کا حصہ دے دو، بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرمانے والا ہے۔
اس آیت کے نزول کے بعد صرف میراث کا حکم منسوخ ہوا لیکن انصار ومہاجرین کے درمیان باہمی بھائی چارہ بدستور جاری رہا۔ آپ کی تربیت ومحبت کا اثر تھا کہ میزبان، انصارِ مدینہ اور مہمان،مہاجرین مکہ نے اس رشتہ کو خوب نبھایا اور اپنے خونی رشتوں سے بڑھ کر اس برادرانہ تعلق کو اتنی اہمیت دی جو اب قیامت تک کے اہل ایمان کےلیے مشعل راہ اور نمونہ ہے۔