سفرِ طائف سے واپسی کے بعداللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمدمصطفیٰ کو بحالتِ بیداری روح وجسدِاطہر کےساتھ بطورِمعجزہ ایک ہی شب میں مسجدِحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور مسجدِ اقصیٰ سے ساتوں آسمانوں سے گزارتے ہوئے لامکاں تک کی سیر کرائی۔ 1 اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کروایا۔ 2 صبح صادق طلوع ہونے سے قبل جب آپ واپس مکہ مکرمہ کی سرزمین پرپہنچے تو اربوں نوری سال کی مسافت رات کے ایک مختصر سے حصے میں طے ہو چکی تھی ۔ یہ محتم بالشان سفر اسراء و معراج کا سفر کہلاتا ہے۔
''اسراء" کا لغوی معنیٰ "رات کو سیر کرانا" ہے، 3 اور اصطلاح میں "اسراء"سے مراد وہ سفر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد کو مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کرایا۔ "معراج" عروج سے ہے، اور عروج کا معنی "بلندی کی طرف چڑھنا "ہے، 4 اور اصطلاح میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کو مسجد اقصی ٰ سے آسمانوں کی جو سیر کرائی اُسے معراج کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ یہ ہے کہ اس نے ہر زمانہ کے انسانی کمالات کے مطابق انبیاء و رُسل کو معجزات دے کر مبعوث فرمایا۔ یہ معجزات انسانی عقل و علم کو عاجز کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء و رُسل کی حقانیت کی دلیل بنے۔ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں جادوگری عروج پر تھی، تو آپ کو عصا مبارک اور ید بیضاء کا معجزہ عطا کیا گیا۔ حضرت داؤد کے دور میں لوہے کی صنعت عروج پر تھی تو آپ کے لیے لوہے کو مسخر کر دیا گیا۔ حضرت سلیمان کا دور اقدس جنات کی طاقت کا مظہر تھا تو آپ کیلئے ہوااور چرندپرند کو مسخر کر دیا گیا۔ حضرت عیسیٰ کے دور میں طب عروج پر تھا تو آپ کو لا علاج بیماریوں حتیٰ کہ مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا گیا۔ 5 حضور نبی اکرم کا زمانہ نبوت چونکہ قیامت تک جاری و ساری ہے اور یہ سائنسی عروج کا زمانہ ہے، جس میں انسان چاند و مریخ پر پہنچ چکا ہے، اس لئے آپ کو معراج کا معجزہ عطا کیا گیا۔ اس سفر میں آپ کو ساتوں آسمانوں اور عرش سے لامکاں تک کی مسافت طے کروائی گئی اور معلوم بلندی سےبھی بلند مقام تک لے جایا گیا اس طرح یہ معجزہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہو گیا۔ اس سفر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس سفر میں خالق کائنات نے اپنے حبیب مکرم کو خاص شان کے ساتھ بلاکراپنے ساتھ ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا اوراپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کا آپ کونظارہ کروایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير 1 6
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
آج سے چودہ سو سال قبل علومِ انسانی میں اتنی گیرائی تھی اور نہ اتنی گہرائی کہ معجزاتِ رسول کا کوئی ادنیٰ جز ہی ان کے فہم و ادراک میں آجاتا، حتیٰ کہ اس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مبادیات تک کا بھی دور دور تک کہیں نام ونشان نہ تھا۔ آج عقلِ انسانی اپنے ارتقاء، اپنی تحقیق اور جستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل ان کی تصدیق و توثیق وحی الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اگر عقلی بنیاد پر دیکھا جائے تو آج سے چودہ سو سال قبل رات کے مختصر سے حصے میں مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدودسے گزر کر لامکاں تک پہنچنا اور پھر اسی لمحے میں اس اربوں نوری سالوں کی مسافت کو طے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پر تشریف لے آنا تو کُجا، محض زمین کی بالائی فضاءکی پرواز کا تصور کرنا بھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتاہے ۔ اسی طرح اگر واقعۂ معراج کو اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ حیطۂ شعور میں لایا جائے تو خلائی سفر کے مخصوص لوازمات کے ساتھ بھی کروڑوں نوری سال کا یہ سفر طے کرنا آج بھی ناممکن ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے جس نے آج سے چودہ سوسال قبل ایک ایسے دور میں جہاں لوگوں کو مکہ مکرمہ سے مسجد اقصی تک جاتے ہوئے چالیس دن لگ جاتےتھے، اس پاک ذات نےیہ مسافت اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد کو رات کے ایک مختصر سے حصے میں طے کراکر صبح صادق طلوع ہونے سے قبل آپ کو واپس مکہ مکر مہ واپس بھی پہنچادیا۔ 7
شعبِ ابی طالب میں رسول اللہ اور آپ کے خاندان کے افراد کو تین سال تک محصور کر کے قریش کے تمام قبائل نےاُن کا ہر طرح سے معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا اور آپ کوطرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں۔ اس ظالمانہ مقاطعہ کےاختتام پر آپ کے دو بڑے سہارے، آپ کی زوجہ حضرت خدیجہ اور آپ کے چچا حضرت ابو طالب انتقال کر گئے۔ ابھی آپ اس سخت ترین صدمہ سے دوچار تھےکہ اہلِ طائف نے آپ کے ساتھ انتہائی توہین آمیز سلوک کیا۔ اِن پے درپے سخت ترین حالات اور مختلف قسم کے صدمات کی وجہ سے آ پ کو بڑا غم اور دُکھ پہنچا۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کےاس غم اور دُکھ کو ہلکا کرنے کے لیے اور آپ کی عظمت و شان اور آپ کے مِشن کی حقانیت کو خوب سے خوب تر واضح کرنے کے لئے آپ کو مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کراکر اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دِکھلائیں، اور اپنے ساتھ ہم کلامی کا شرف عطا فرماکر ماضی کے تمام زخم مندمل فرمادیے، اور آئندہ کے لیے ایک نیا عزم اور نئی ہمت عطا فرمائی۔ 8
علماء سیر کے سن ِمعراج کے بارےمیں متعدد اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک ہجرت سے چھ ماہ پیشتر ،بعض کے نزدیک ہجرت سے آٹھ ماہ قبل،ایک قول کے مطابق ہجرت سے گیارہ ماہ پہلے، ایک قول کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل، بعض حضرات کے نزدیک ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل، بعض علماء کے نزدیک ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ پہلے، کچھ علماء کے نزدیک ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ پیشتر، اور ایک قول کے مطابق ہجرت سے ایک سال اور چھ ماہ قبل آپ کو معراج کرائی گئی۔ 9 راجح قول یہ ہے کہ رسول اللہ کو معراج 11 نبوی میں سفرِ طائف سے واپسی کے بعد اور ہجرت مدینہ سےپہلے ہوئی۔چنانچہ حافظ ابن قیم نے زاد المعاد میں سفر طائف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:
ثم أسري برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بجسده على الصحيح من المسجد الحرام إلى بيت المقدس. 10
پھر (سفر طائف سے واپسی کے بعد)رسول اللہ کو صحیح قول کے مطابق جسم اطہر کے ساتھ مسجد حرام سے مسجدِ اقصی تک سیر کرائی گئی۔
علی بن ابراهيم الحلبی "انسان العیون"میں ابن حزم کی تصدیق اور اس پر اجماع کا دعویٰ بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں :
وكل من الإسراء والمعراج كان بعد خروجه صلى اللّٰه عليه وسلم للطائف. 11
(سفر) اسراء ومعراج رسول اللہ کے سفرِ طائف پر روانگی کے بعد ہوئے ۔
علامہ ابن اثیر نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ اسراء ومعراج کا واقعہ ہجرت سے تین سال قبل یعنی 11 نبوی میں پیش آیا ہے۔ 12
معراج کے مہینے کے بارے میں ربیع الاول، ربیع الثانی، رجب، رمضان اور شوال کے اقوال ہیں۔ 13 مشہور 27 رجب کی رات ہے۔چنانچہ علامہ زرقانی فرماتے ہیں:
كان ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل الناس. قال بعضهم: وهو الأقوى؛ فإن المسألة إذا كان فيها خلاف للسلف، ولم يقم دليل على الترجيح واقترن العمل بأحد القولين أو الاقوال، وتلقى بالقبول فإن ذلك مما يغلب على الظن كونه راجحا. 14
27 رجب کی رات کو معراج ہوئی ہے، اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہی سب سے قوی قول ہے، اس لیے کہ جب کسی مسئلے میں سلف کا اختلاف ہو اور ترجیح کی کوئی دلیل نہ ہو اور لوگوں کا عمل دو قولوں یا کئی سارے اقوال میں سے کسی ایک قول کے ساتھ مل جائے اور اسے تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو ایسے قول کے راجح ہونے کا غالب گمان ہوتا ہے۔
شب معراج کو رسول اللہ اپنی چچازاد بہن حضرت امّ ہانی کے مکان میں آرام فرما رہے تھےجو شعبِ ابی طالب کے پاس تھا۔ نیم خوابی کی حالت تھی کہ اچانک مکان کی چھت میں شگاف ہوا اور جبریل تشریف فرما ہوئے۔ اُن کے ہمراہ اور بھی فرشتے تھے۔ اُنہوں نے آپ کو نیند سے بیدار کیا اور اپنے ساتھ مسجد حرام لے گئے۔ آپ پر اونگھ کا اثر تھا، اس لیے وہاں جا کر آپ حطیم میں پھر سے لیٹ گئے اور دوبارہ آپ کی آنکھ لگ گئی ۔ 15
حطیم میں آپ کی آنکھ لگنے کے بعد جبریل نے آپ کو دوبارہ جگایا اور آپ کو زم زم کے کنویں پر لے گئے۔ وہاں اُنہوں نے آپ کو لٹا کر آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور قلب مبارک کو نکال کر اُسے زم زم کے پانی سے دھویا، 16 اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس ایمان اور حکمت سے آپ کے قلبِ اطہر کو بھر اگیا، بعد ازاں اُسے دوبارہ اُس کی جگہ رکھ کر سینہ مبارک کوپہلے کی طرح ٹھیک کر دیا گیا۔ 17
شق صدر کے بعد سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا، جسے بُراق کہا جاتا ہے۔ یہ ایک جنتی جانور تھا، جو خچر سے کچھ چھوٹا اور گدھے سے کچھ بڑا، سفید رنگ کابرق رفتار جانور تھا۔ اس کی برق رفتاری اس قدر تھی کہ ہر قدم منتہائے بصر پر پڑتا تھا۔ 18 اس جانورپر رسول اللہ سے پہلے بھی انبیاء کرام سوار ہوتے رہے تھے۔ 19 اُسے لگام لگی ہوئی تھی اور اس کی زین کَسی ہوئی تھی۔جب رسول اللہ اُس پر سوار ہونے لگے تو وہ شوخی کرنے لگا۔ اُس موقع پر جبریل نے اُس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ:
أبمحمد تفعل هذا؟ فما ركبك أحد أكرم على اللّٰه منه. 20
تو محمد کے ساتھ شوخی کرتا ہے؟ تیرے اوپر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کو محمد سے زیادہ معزز ومکرم ہو۔
یہ سنتے ہی بُراق شرم سے پسینہ پسینہ ہوگیا۔ پھر جبریل امین نے آپ کوبُراق پر سوار کرایا، اور خود بھی آپ کے ساتھ مسجد اقصیٰ روانہ ہوئے۔ 21
براق پر سوار ہونے کے بعد جب آپ سفر پر روانہ ہوئے توراستے میں ایک ایسی زمین پرگزر ہوا جس میں کھجور کے درخت بکثرت تھے۔ جبریل کے کہنے پر آپ نے وہاں اتر کر نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کے بعد جبریل نے بتایا کہ یہ یثرب یعنی مدینہ طیبہ ہےجہاں آپ ہجرت کریں گے۔ بعد ازاں جبریل کے کہنے پر آپ نے مدین کے علاقے میں نماز پڑھی جو شجرۂ موسیٰ کے قریب واقع ایک جگہ تھی۔وہاں سے روانہ ہوئے تو ایک اور زمین پر پہنچے۔ وہاں بھی آپ نے نماز پڑھی۔ اس جگہ کے بارے میں جبریل نے بتایا کہ یہ بیت اللحم ہے 22 یعنی وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے بیان فرمایا کہ جس رات آپ کو اسراء کرائی گئی، اس رات آپ کا گزر سرخ ٹیلے کے قریب موسٰی پر ہوا۔ آپ نے حضرت موسٰی کو دیکھا، وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ 23
آپ مسجدِ اقصیٰ پہنچے، اور بُراق سے اترکراسے اس حلقہ سے باندھا جس سے سابقہ انبیاء کرام اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ بعد ازاں آپ مسجد میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ باہر نکلے تو جبریل نے آپ کو دو پیالے پیش کیے، جن میں سے ایک پیالہ شراب کا تھا اور دوسرا دودھ کا تھا۔ آپ نے دونوں کو ملاحظہ فرمانے کے بعد دودھ والا پیالہ لےلیا۔ 24جس پر حضرت جبریل امین نے فرمایا:
الحمد للّٰه الذي هداك الفطرة، لو أخذت الخمر لغوت أمتك. 25
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے فطرت کی طرف آپ ()کی رہنمائی فرمائی، اگر آپ () شراب لے لیتے تو آپ() کی امت گمراہ ہوجاتی۔
بعض روایات میں پانی اور شہد کا ہونا بھی آیاہے۔ نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برتن سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پیش کیے گئے تھے یعنی کُل چار برتن پیش کیے گئے تھےاور ان برتنوں کا پیش ہونا دو مرتبہ ہوا ہے۔ ایک مرتبہ مسجد اقصیٰ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ 26
جب آپ مسجدِ اقصیٰ پہنچے تو وہاں اللہ رب العزت نے آپ کے اعزاز میں تمام انبیاء کرام کو جمع فرمایا۔ انبیاء کرام کے جمع ہوجانے کے بعدباقاعدہ اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی۔جب تمام انبیاء کرام صف باندھ کر کھڑے ہوگئے تو حضرت جبریل نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو آگے بڑھایا۔آپ نے سب کو نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو جبریل نے آپ کو بتایا کہ جتنےنبی آپ سے قبل دنیا میں مبعوث کیےگئے ان سب نےآج آپ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ہے۔ 27 اس موقع پر فرشتے بھی آسمان سے نازل ہوئے تھےاور انہوں نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی تھی۔بعد ازاں حضور نے ارواحِ انبیاء کرام سے ملاقات فرمائی، اور تمام انبیاء کرام نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ 28
حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کی حمد یوں بیان کی:
الحمد للّٰه الذي اتخذني خليلا، وأعطاني ملكا عظيما، وجعلني أمة قانتا، واصطفاني برسالاته، وأنقذني من النار، وجعلها علي بردا وسلاما. 29
تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ کو اپنا خلیل بنایا اور مجھ کو ملک عظیم عطا فر مایا اورمجھے امام اور پیشوا بنایا اور آگ کو میرے لیے ٹھنڈا اور سلامتی کا ذریعہ بنایا۔
حضرت ابراہیم کے بعد حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی یوں حمد کی بیان کی:
الحمد للّٰه الذي كلمني تكليما، واصطفاني، وأنزل علي التوراة، وجعل هلاك فرعون على يدي ونجاة بني إسرائيل على يدي. 30
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے کلام فرمایا، مجھے اپنی رِسالت اور کلمات کے لئے منتخب فرمایا، مجھ پر تورات نازِل فرمائی، میرے ہاتھ پر فِرعون کو ہلاک فرمایا اور میرے ہی ہاتھ پر بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔
بعد ازاں حضرت داؤد نے اللہ تعالیٰ کی یوں حمد بیان کی:
الحمد للّٰه الذي جعل لي ملكا وأنزل علی الزبور، وألان لي الحديد، وسخر لي الجبال، يسبحن معي والطير، وآتاني الحكمة وفصل الخطاب. 31
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بادشاہت عطا فرمائی، مجھ پر زبور نازِل فرمائی، لوہے کو میرے لئے نرم فرما دیا، میرے لئے پرندوں اور پہاڑوں کو مسخر فرما دیا،جو میرے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں، اور مجھے حکمت اور فصلِ خطاب عطا فرمایا۔
اس کے بعد حضرت سلیمان نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی:
الحمد للّٰه الذي سخر لي الرياح، والجن والإنس، وسخر لي الشياطين يعملون ما شئت من محاريب، وتماثيل، وجفان كالجواب، وقدور راسيات، وعلمني منطق الطير، وأسال لي عين القطر، وأعطاني ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي. 32
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے لئے ہواؤں، جنوں اور انسانوں کو مسخر فرما دیا۔ اورشیاطین کو بھی اس طرح سے میرے لیےمسخر فرما دیا کہ اب یہ وہ کام کرتے ہیں جو میں ان سے چاہتا ہوں مثلاً بلند وبالا مکانات تعمیر کرنا، تصویریں بنانا، بڑے بڑے حوضوں کے برابر پیالے اور ایک ہی جگہ جمی ہوئی دیگیں بنانا۔ اورمجھے پرندوں کی بولی سکھائی، میرے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرمائی جو میرے بعد کسی کے لئے نہیں۔
پھر حضرت عیسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی:
الحمد للّٰه الذي علمني التوراة والإنجيل، وجعلني أبرئ الأكمه والأبرص، وأحيي الموتى بإذنه، ورفعني وطهرني من الذين كفروا، وأعاذني وأمي من الشيطان الرجيم، فلم يكن للشيطان علينا سبيل. 33
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تورات اور انجیل سکھائی، مجھے پیدائشی اندھے اور کوڑھ کے مرض والے کو تندرست کرنے والا اور اپنے حکم سے مُردوں کو زندہ کرنے والا بنایا، مجھے آسمان پر اُٹھایا، مجھے کافِروں سے پاک کیا، مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے پناہ عطا فرمائی جس کی وجہ سے اُسے ہم پر کوئی راہ نہیں۔
جب مذکورہ بالا انبیاء اللہ رب العزت کی حمد و ثناء بیان کرچکے توآپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ان الفاظ میں بیان فرمائی:
الحمد للّٰه الذي أرسلني رحمة للعالمين، وكافة للناس بشيرا ونذيرا، وأنزل علي الفرقان، فيه تبيان كل شيء، وجعل أمتي خير أمة أخرجت للناس، وجعل أمتي وسطا، وجعل أمتي هم الأولون وهم الآخرون، وشرح لي صدري، ووضع عني وزري، ورفع لي ذكري، وجعلني فاتحا وخاتما. 34
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور تمام انسانوں کے لئے خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔مجھ پر حق وباطِل میں فرق کرنے والی کتاب نازل فرمائی، جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے۔ میری امّت کو لوگوں کی نفع رسائی والی بہترین امّت بنایا، اورمیری امّت کو درمیانی امّت اور(مرتبہ میں) اول اور (ظہور میں) آخری امت بنایا۔ میرے لئے میرا سینہ کُشادہ فرمایا، مجھ سے بوجھ کو دُور فرمایا، میرے ذِکْر کو بلند فرمایا اور مجھے فاتِح اور خاتم (النبیین) بنایا۔
جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء مکمل کرلی تو اس کے بعد حضرت ابراہیم نے تمام انبیاء کرام کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا:
بهذا فضلكم محمد. 35
ان ہی کمالات کی وجہ سے محمد نے تم سب پر فضیلت پائی ہے ۔
جب رسول اللہ بیت المقدس کے مشاغل سے فارغ ہوئے تو اس کے بعد جنت الفردوس سے موتیوں کی ایک سیڑھی لائی گئی، جو انتہائی خوبصورت تھی ۔اُس کے ذریعے آپ جبریل کی معیت میں آسمانوں کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کے دائیں جانب بھی فرشتوں کی ایک جماعت تھی اور بائیں جانب بھی فرشتوں کی ایک جماعت تھی۔ 36 اس اثناء میں بُراق بدستور مسجدِ اقصی کے دروازے پر اُسی سابقہ حلقے کے ساتھ بندھا ہوا تھا تاکہ آسمانوں کے سفر سے واپسی پر اُس کے ذریعے مکہ مکرمہ واپس لوٹاجاسکے۔ 37بڑی عظمت و شان کے ساتھ آپ آسمانِ اول پر پہنچے۔ جبریل نے دروازہ کھُلوایا، وہاں کے فرشتوں نے آپ کوخوش آمدید کہا۔ آپ آسمان میں داخل ہوئے تو وہاں آپ کی ملاقات حضرت آدم سے ہوئی۔ آپ نے اُن کو سلام کیا۔ اُنہوں نے سلام کا جواب دیا اورخوش آمدید کہا اور آپ کے لیے دُعاء خیر کی۔ 38
آپ نے دیکھا کہ حضرت آدم کی دائیں جانب بھی کچھ صورتیں ہیں اور بائیں جانب بھی کچھ صورتیں ہیں۔ جب وہ دائیں جانب نظر ڈالتے ہیں تو خوش ہوتے اور ہنستےاور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو روپڑتے۔ حضرت جبریل نے بتلایاکہ دائیں جانب ان کی نیک اولاد کی صورتیں ہیں، یہ اصحاب یمین اور اہل جنت ہیں اوران کو دیکھ کر آدم خوش ہوتے ہیں اور بائیں جانب اولادِ بد کی صورتیں ہیں۔ یہ اصحاب شمال اوراہل نار ہیں، ان کو دیکھ کر یہ روتے ہیں۔ 39
بعد ازاں آپ جبریل کی معیت میں یکے بعد دیگرے باقی آسمانوں پر تشریف لے گئے اور وہاں بھی مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی۔ چنانچہ دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ وحضرت یحییٰ سے، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف سے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس سے،پانچویں آسمان پر حضرت ہارون سے،چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم سےآپ کی ملاقات ہوئی۔ آپ نے سب کو سلام کیا۔ سب نے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہا ۔ 40
حضرت ابراہیم کے ساتھ جب رسول اللہ کی ملاقات ہوئی تو اُس وقت وہ بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور فرشتوں کی عبادت گاہ ہے جو خانہ کعبہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر موجود ہے۔ حضرت جبریل نے رسول اللہ کو بیت المعمور کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون ألف ملك، إذا خرجوا لم يعودوا إليه آخر ما عليهم. 41
یہ بیت المعمور ہے، جس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کرتے ہیں، جب فرشتوں کی کوئی ایک جماعت یہاں ایک بار عبادت کرکے نکل جائے تو پھردوبارہ کبھی اس کی باری نہیں آتی۔
حضرت ابراہیم نے دورانِ ملاقات آپ سے فرمایا کہ اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ جنت کی مٹی بہت زرخیز اور اس کا رقبہ بہت وسیع ہے۔ اس لیے اس میں خوب شجر کاری کرویعنی کثرت سے سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر 42 اور لاحول ولا قوة إلا بالله پڑھو،کیوں کہ یہی جنت کی شجر کاری ہے۔ 43
بیت المعمور کے بعد آپ کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ یہ ساتویں آسمان پر بیری کا ایک درخت ہے۔ زمین سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ جاکر سدرۃ المنتہیٰ پر رُک جاتی ہے، پھر وہاں سے اوپر اُٹھائی جاتی ہے۔ اسی طرح ملأ اعلیٰ سے جو چیزاترتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر آکر ٹھہر جاتی ہے، پھر وہاں سے نیچے اترتی ہے، اس لیے اس کو سدرۃ المنتہیٰ کہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ اس بیری کے درخت کے بیر ہجر نامی مقام کے مٹکوں جیسے بڑے بڑے ہیں۔ اُس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے لمبے لمبے ہیں اور اس کی جڑ سے چار دریا نکل رہے ہیں، جن میں دو ظاہر اور دو پوشیدہ ہیں۔ آپ كے پوچھنےپر جبریل نے بتایا کہ پوشیدہ دو دریا جنت کے دریا ہیں، جب کہ ظاہر دو دریا ،دریائے نیل اور دریائے فرات ہیں۔ 44 اس درخت کو مختلف قسم کی اشیاء نے ڈھانپ رکھا تھا۔ 45 صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جس وقت اس درخت کو اللہ کے حکم سے کوئی شے ڈھانپ لیتی تو وہ تبدیل ہوجاتا، اور اُس وقت جو اُس کا حسن ہوتا اُسے مخلوق میں سے کوئی بھی بیان نہیں کرسکتا۔ 46
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آپ نے حضرت جبریل کو اُن کی اصل صورت میں دیکھا ۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى 13 عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى 14 47
اور تحقیق دوسری مرتبہ اُنہوں نے اُس (فرشتے) کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔
اور حدیث شریف میں رسول اللہ نے فرمايا:
رأيت جبريل عند سدرة المنتهى، عليه ست مائة جناح، ينتثر من ريشه التهاويل: الدر والياقوت . 48
میں نے جبریل امین کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، اُن کے چھ سو پر تھے اور اُن کے پروں سے موتی، یاقوت اور لعل بکھر رہے تھے۔
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جنت بھی ہے، 49 اس لیےیہاں آپ کو جنت کی سیر بھی کرائی گئی۔ آپ نے دیکھا کہ جنت میں خوبصورت موتیوں کے شامیا نے تنے ہوئے تھے،اور اس کی مٹی مشک کی تھی۔ 50 جنت میں سیر کے دوران آپ کی نظر ایک نہر پر پڑی، جس کے دونوں کناروں پر خالی موتیوں کے قبے نصب تھے۔ آپ کے دریافت کرنے پر جبریل نے بتایا کہ یہ وہی نہرِ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا کی ہے۔ 51
آپ کو سفرِ معراج میں جہنم کا مشاہدہ بھی کرایا گیا۔آپ نے دیکھا کہ نافرمان لوگوں پر اللہ کے غضب، غصہ اور ناراضگی کی وجہ سے جہنم کی آگ خوب جوش مار رہی تھی، اور اس قدر گرم تھی کہ اگر اس میں پتھر اور لوہا ڈالا جاتا تو اُنہیں بھی جلا کر بالکل ختم کردیتی۔ بعد ازاں اُسے آپ کے سامنے سے ہٹادیا گیا۔ 52
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جب جنت اور جہنم کے مشاہدہ سے آپ فارغ ہوئے تو جبریل نے آپ سے عرض کیا کہ میرا انتہائی مقام یہی ہے۔ میں اگر یہاں سے آگے جاؤں گا تو جل جاؤں گا۔ یہاں سے آپ تنہا ہی اپنے رب سے ہم کلامی کے لیے آگے بڑھیں۔حضور نے فرمایا کہ اگر آپ کی کوئی حاجت ہو تومجھے بتائیں تاکہ وہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کروں۔اس پر جبریل امین نےعرض کیا کہ آپ اپنے رب سے میرے لیے یہ اختیار مانگ لیجیے کہ میں قیامت کے دن پل صراط پر اپنے پَر پھیلا کر کھڑا ہوجاؤں، تاکہ آپ کی امت کے لوگ میرے پروں سے ہوکر خیریت سے گزر سکیں۔ 53
لکھتے وقت قلم سے ایک خاص قسم کی آواز نکلتی ہے،جس کو صریف الاقلام کہتے ہیں۔معراج کے موقع پر جنت وجہنم کا مشاہدہ کرنے کے بعد جب جبریل امین سدرۃ المنتہیٰ کے پاس رہ گئے تو آپ کے پاس ایک بدلی (بادل کی مثل سواری) لائی گئی۔ 54 اس کے ذریعے رسول اللہ کو ایک ایسے مقام پر لےجایا گیا جہاں لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تقدیر کو نقل کرنے والےفرشتوں کے قلموں کی آواز آپ نے سماعت فرمائی۔ 55چنانچہ حدیث شریف میں رسول اللہ نے فرمایا :
ثم عرج بي، حتی ظھرت لمستوي أسمع فیه صریف الأقلام. 56
پھر مجھے اوپر لے جایا گیا، یہاں تک کہ میں ایک ایسی جگہ جا پہنچا، جہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔
مقام صریف الاقلام سے آگے رسول اللہ کو نور کے پردوں میں لے جایا گیا، چنانچہ آپ نے نور کے ستر ہزار پردے پار کیے،جن میں سے ہر پردہ اپنی مثال آپ تھا۔ ہر پردے اور حجاب کی موٹائی اتنی تھی کہ ایک اندازے کے مطابق ہر پردے کو پار کرنے کے لئے پانچ سو سال لگ جائیں۔ اس مقام پر آپ کو کسی فرشتے کی موجودگی کا احساس نہیں رہا، جس کی وجہ سے آپ کو وحشت محسوس ہوئی۔ چوں کہ آپ کوحضرت ابوبکر کے ساتھ خاص اُنس اور لگاؤ تھا ، اس لیے آپ کی وحشت دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب سےحضرت ابوبکر کی آواز میں ندا کی گئی ۔ اس ندا میں پکارنے والے نے آپ کو ٹھہرنے کے لئے کہا اور پھر اس نے بتایا کہ آپ کا رب آپ پر صلاۃپڑھ رہا ہے یعنی آپ پر اور آپ کی امت پر اپنی خاص رحمت بھیج رہا ہے۔بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے قریب کیا اور ہم کلامی اور قربت خاص کےشرف سے نوازا۔ 57
یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب اطہر پر مختلف علوم بھی القاء فرمائے۔ ان میں کچھ علوم وہ تھے جن کو بوجوہ چھپائے رکھنے کا حق تعالیٰ نے حکم دیا۔ اسی طرح کچھ وہ علوم تھے جن کے بارے میں دوسروں کو بتانے یا نہ بتانے کا حق تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا۔ کچھ وہ علوم تھے جن کو اپنی امت کے خاص اور عام سب لوگوں کو پہنچانے کا حکم فرمایا۔ بعد ازاں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ جبریل نے جو کچھ مانگا میں نے اس کو دے دیا، لیکن صرف ان لوگوں کے حق میں جنہوں نے آپ سے محبت کی اور آپ کے ساتھی ہوئے۔58
اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر رسول اللہ کو تین عظیم تحائف سے نوازا۔ ایک تو آپ کو پچاس نمازیں عطا فرمائیں، یعنی دن رات میں آپ اور آپ کی امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔دوسرا آپ کو سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کا تحفہ عنایت فرما یا، جن میں اس امت پر حق تعالیٰ کی طرف سے کمال رحمت، لطف و عنایت، تخفیف وسہولت، عفو ومغفرت اور کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کا مضمون ہے۔تیسرا تحفہ آپ کو یہ عطا کیا گیا کہ آپ کی امت میں سے جو بھی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف فرما دے گا 59یعنی گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافروں کی طرح ہمیشہ جہنم میں نہیں رکھے گا۔ 60کسی کو انبیاء کی سفارش سے، کسی کو فرشتوں کی سفارش سے، کسی کو صالح مؤمنین کی سفارش سے اور کسی کواپنی خاص رحمت وعنایت سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا۔ غرض جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا بالآخر اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمادے گا۔61
اللہ تعالیٰ کی طرف سےاس مقام قرب میں گوناگوں الطاف وعنایات سے نوازے جانےاور قیمتی تحائف دیے جانے کے بعدآپ بصد ہزار مسرت و ابتہاج واپس ہوئے۔ جب حضرت موسیٰ کے پاس سے آپ کا گزر ہوا تو ان کےدریافت فرمانے پر آپ نے بتایا کہ دن رات میں پچاس نمازوں کا تحفہ ملا ہے۔ موسیٰ نے فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کر چکا ہوں۔ آپ کی امت ضعیف اور کمزور ہے، وہ اس فریضہ کو انجام نہیں دے سکے گی، اس لیے آپ اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں۔ حضور واپس گئے اور حق تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی، تو حق تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ پھر موسیٰ کے پاس آئے، انہوں نے پھر یہی بات کہی۔ آپ پھر تشریف لے گئے اور تخفیف کی درخواست کی، حق تعالیٰ نے مزید پانچ نمازیں کم کردیں۔ پھر موسیٰ کے پاس آئے،اُنہوں مزید تخفیف کی درخواست کا مشورہ دیا۔ غرض اس طرح متعدد بار تخفیف کے بعد جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ دن، رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک نماز دس نمازوں کے برابر ہے یعنی پانچ نمازیں ثواب میں پچاس کے برابر ہیں۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ جو شخص کسی نیکی کے کام کا محض ارادہ کرے اور پھر وہ نیکی کا کام نہ کرے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو ارادہ کرنے کے بعد اس نیکی کے کام کو کر بھی لے تو اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملےگا۔ اور جو شخص کسی گناہ کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو اسے کوئی گناہ نہ ملے گااور اگر ارادہ کرنے کے بعد وہ گناہ کا کام کرلے تو صرف ایک ہی گناہ شمار ہوگا۔ اس کے بعد جب آپ حضرت موسیٰ کے پاس آئے تو اُنہوں نے پھر سے مزید تخفیف کی درخواست کا مشورہ دیا لیکن اس بار آپ نے یہ کہتے ہوئے انکار فرما دیا کہ انہوں نے بار باررب تعالیٰ کے حضور تخفیف کی درخواست کی، اب مزید تخفیف کی درخواست کرنے میں آپ کوحق تعالیٰ سے حیا آتی ہے۔ 62 اس طرح سے آپ آسمانوں سے واپس ہوئے، اولاً بیت المقدس میں آکر اترے اور وہاں سے براق پر سوار ہو کر صبح سے پہلے مکہ مکرمہ واپس پہنچ گئے ۔ 63
صبح ہوتے ہی رسول اللہ نےاس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کیاکہ قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے، وہ لوگ آپ کو جھٹلائیں گے اور مزید اذیت دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اُنہیں ضرور اس کی خبر دیں گے۔ چنانچہ آپ خانہ کعبہ تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے پاس قریش کے بڑے بڑے رؤساء جمع تھے۔ 64 آپ مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ 65 کفارو مشرکین یہ سن کر ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابوجہل نے آپ سے استفسار کیا کہ کیا آپ پوری قوم کے سامنےیہ بات کہنے کے لئے تیار ہیں۔ جس پر آپ نے اسے مثبت جواب عطا فرمایا۔ ابوجہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع ہوگئے تو آپ سے سارا واقعہ بیان کرنے کو کہا۔ آپ کے بیان پرکفار تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے ۔
ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔ انہوں نے حضور سے کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ آپ اس سے پہلے بیت المقدس نہیں گئے۔اگر واقعی آپ کی بات سچی ہے اور آپ واقعی گزشتہ رات بیت المقدس گئے ہیں تو بتائیےکہ اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں۔ آپ نے بیت المقدس کو دیکھا تو تھا لیکن خوب اچھی طرح اس کی ہر ہر چیز کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ نہیں کیا تھا۔ اس لئے جب آپ اس حوالے سے بےچین ہوئے تواللہ جل شانہ نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے اس طرح پیش فرمادیا کہ قریش مکہ جو کچھ بھی پوچھتے رہے آپ بیت المقدس کو اپنے سامنے دیکھ کراس کا جواب دیتے رہے۔ جب آپ نے بیت المقدس کی سب علامات بتادیں تو وہ لوگ جو آپ کی بات میں شک کرنے کی وجہ سے بیت المقدس کی نشانیاں دریافت کر رہے تھے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! بیت المقدس کے بارے میں آپ نےسب ٹھیک ٹھیک بیان فرمایاہے۔ 66
مزید تفصیلات کی آگاہی کے لئے وہ راستے میں موجود اپنے قافلوں کا احوال دریافت کرنے لگے تو آپ نے ایک قافلے کا احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا اس لئے آپ نے قافلے والوں کو بتایا کہ انکا اونٹ فلاں جگہ پر ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے۔ واپسی پر آپ نے دیکھا کہ وہ مقامِ ضجنان پے سورہے ہیں۔ایک برتن میں پانی تھا جسے انہوں نے کسی چیز سے ڈھانک رکھا تھا تو آپ نے اس کا ڈھکن ہٹایا اور پانی پی کر اسی طرح ڈھانک دیا جس طرح سے ڈھکا ہوا تھا۔ 67 68 آپ نے مزید فرمایا کہ وہ قافلہ ابھی تنعیم کی گھاٹی سے ظاہر ہونے والا ہے۔ان کے آگے آگے ایک چتکبرے رنگ کا اونٹ ہے، اس کے اوپر سامان کے دو بورے ہیں، ایک سیاہ رنگ کا، اور دوسرا سفید رنگ کا ۔ یہ بات سن کر وہ لوگ جلدی جلدی تنعیم کی گھاٹی کی طرف چل دیے۔ وہاں دیکھا کہ واقعی مذکورہ قافلہ آرہاہے اور اس کے آگے وہی اونٹ ہے۔ جب قافلہ قریب پہنچا تو ان لوگوں نے قافلے والوں سے پوچھا کہ انہوں نے کسی برتن میں پانی رکھا تھا۔ انہوں نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک برتن میں پانی ڈھانک دیا تھا، پھر دیکھا کہ وہ برتن اسی طرح ڈھکا ہوا ہے، لیکن اس میں پانی نہیں ہے۔ پھر قافلہ والوں سے سوال کیا گیاکہ کیا ان کا کوئی اونٹ بدک گیا تھا۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک اونٹ بدک کر چلا گیا تھا، پھر انہوں نے ایک آدمی کی آواز سنی جو انہیں بلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ تمہارا اونٹ ہے، یہ آواز سن کر انہوں نے اپنا اونٹ پکڑ لیا۔ 69جب کفارِ قریش نے دیکھا کہ قافلہ والوں نے بھی آپ کی تصدیق کردی توکہنے لگے کہ ولید ٹھیک کہتا ہے، ایسی بات تو پہلے کبھی کسی سے نہیں سنی اور آپ کو جادوگر کہہ کر آپ کی تکذیب کرنے لگے۔ 70
ام المؤمین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہےکہ جب نبی کریم کو مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی گئی، او رآپ نے صبح لوگوں کو خبر دی، تو مؤمنوں میں سے بعض نے تصدیق کی اوربعض تذبذب کا شکار ہوگئے۔اسی اثناء میں کچھ مشرکین حضرت ابو بکر صدیق کے پاس آ کر کہنے لگےکہ کیا وہ اس بات کی تصدیق کر تے ہیں جو آپ نے کہی ہے کہ اُنہوں نے راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کی۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا:
أَوقال ذٰلک؟
کیا واقعی آپ نے یہ فرمایا ہے؟
اُن لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا:
لئن كان قال ذٰلک لقد صدق.
اگر آپ ( )نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔
لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آ گئے؟ آپ نے فرمایا:
نَعَمْ! إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك أصدقه بخبر السماء في غدوة أو روحة. 71
جی ہاں! میں تو ان کی آسمانی خبروں کی بھی صبح وشام تصدیق کرتا ہوں اور یقیناً وہ تو اِس بات سے بھی زِیادہ حیران کُن اور تَعَجُّب خیز ہے۔
واقعۂ معراج کی اس طرح سے فوراً تصدیق کرنے کی وجہ سے آپ کو صدّیق کا لقب ملا ۔
سفرِ معراج میں رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دِکھائیں اور بہت سارے عجیب وغریب مشاہدات کرائے جو احادیث اور شروح احادیث میں جگہ جگہ منتشر ہیں۔ کچھ مشاہدات کا تذکرہ اوپر واقعہ معراج کے ضمن میں ہوا اور کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
معراج کی رات مسجدِ اقصیٰ کی طرف جاتے ہوئےرسول اللہ کا گزر ایک عورت پر ہوا،جس کے اوپر ہرطرح کی زیب وزینت کا سامان تھا اور اس نے اپنے ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔وہ آپ کو پکار رہی تھی اور آپ کو اپنی طرف بُلا رہی تھی لیکن آپ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی، اور برابر چلتے رہے۔ مسجد اقصیٰ پہنچنے کے بعد جبریل نے آپ کو بتایا کہ وہ عورت دنیا تھی جو مزین ہوکر آپ کے سامنے آئی تھی۔ اگرآپ اس کی آواز پر ٹھہر جاتے تو آپ کی امت دنیا کوآخرت پر ترجیح دیتی ۔ 72
معراج ہی کی رات مسجدِ اقصی کی طرف جاتے ہوئے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص راستے سے ایک طرف کو ہٹ کر آپ کو آواز دے رہا ہے اور اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ جبریل نے آپ سے عرض کیا کہ آپ چلتے رہیئے۔ چنانچہ جتنا اللہ تعالیٰ نے چلانا چاہا آپ چلتے رہے۔ بیت المقدس پہنچنے کے بعد جبریل نے آپ کو بتایا کہ وہ راستے سے ایک طرف کو ہٹ کر آپ کو پکارنےوالاشخص ابلیس تھا، جو آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتاتھا۔ 73
بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے ایک جگہ رسول اللہ نے اپنے دائیں طرف سے ایک شخص کےپکارنے کی آواز سنی ۔ آپ نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور برابر چلتے رہے۔ پھر اپنے بائیں طرف سے بھی ایک شخص کے پکارنے کی آواز سنی، جو آپ کو ٹھہرنے کے لئے اور رکنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ آپ نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں کی اور برابر چلتے رہے۔ بیت المقدس پہنچنے پر جبریل نے بتایا کہ وہ دائیں طرف سے آپ کو پکارنے والا شخص یہودیت کا داعی تھا، اگر آپ اس کی آواز پر ٹھہر جاتے تو آپ کی امت یہودی ہوجاتی۔ اور بائیں طرف سے آپ کو پکارنے والا شخص نصرانیت کا داعی تھا، اگر آپ اس کی آواز پر ٹھہر جاتے تو آپ کی امت نصرانی بن جاتی۔ 74
معراج کے سفر میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے آپ کا گزر تین لوگوں پر ہوا۔ یکے بعد دیگرےاُن میں سے ہر ایک نے آپ كو سلام كیا۔جبریل کے کہنے پر آپ نے ہر ایک کو سلام کا جواب دیا۔ بیت المقدس پہنچنے پر جبریل نے آپ کو بتایا کہ وہ آپ کو سلام کرنے والے تین لوگ حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ تھے۔ 75
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ معراج كی رات آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ جب جبرئیل سے آپ نےان کے بارے میں دریافت کیا توانہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو تو بھلائی کا حکم دیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے، اور اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور اس پرعمل نہیں کرتے ہیں۔ 76
حضرت انس سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات آپ کاگزر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے، اور وہ ان سےاپنے چہروں اورسینوں کو چھیل رہے تھے۔ جب آپ نے جبریل سے ان کے بابت دریافت کیا تو جبریل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں، یعنی ان کی غیبت کیا کرتے ہیں، اور ان کی بے آبروئی و بے عزتی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ 77
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات آپ کا کچھایسے لوگوں پر گزرہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے انسانوں کے رہنے کے گھر ہوتے ہیں۔ اُن کے پیٹوں میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے۔آپ نے جبریل سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے سود خور لوگ ہیں جو سود کا کاروبار کیا کرتے تھے اور سود کھایا کرتے تھے۔78
معراج کی رات آپ نے ایسی قوم کو دیکھا جن کےہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے، اور اُن کے منہ میں پتھر ٹھونسے جارہے تھے جو دوسری جانب ان کے مخارج سے نکل رہے تھے۔ یہ سزا اِسی طرح مسلسل جاری تھی۔ آ پ نے ان کے بابت جبریل سے دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ناحق طور پر یتیموں کا مال کھاکر اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں اورعنقریب یہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ 79
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے معراج کے سفرمیں پیش آنےوالے احوال بیان کرتے ہوئے ایک بات یہ بھی ارشاد فرمائی کہ آپ معراج کی رات جس آسمان سے بھی گزرتے تووہاں کے فرشتے آپ کو یہ تاکید کرتےکہ آپ اپنی امت کو حجامہ یعنی پچھنے لگانے کا حکم دیجئے کیوں کہ یہ بہترین علاج ہے۔ 80
معراج کی رات رسول اللہ نے ایک ایسی قوم کو دیکھاکہ جو ایک ہی دن میں تخم ریزی بھی کر لیتے ہیں اور ایک ہی دن میں کھیتی کاٹ بھی لیتے ہیں، اور کاٹنے کے بعد پھر کھیتی ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے پہلے تھی۔ آپ نے ان کےبارے میں جبریل سے دریافت فرمایاتو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔ ان کی ایک نیکی سات سو گنا تک بڑھادی جاتی ہے اور یہ لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا بدل انہیں عطا فرماتا ہے۔ 81
معراج کی رات آپ کا ایک ایسی قوم پر بھی گزر ہوا جن کے سرپتھروں سے کچلے جارہے تھے اور کچلے جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے جیسے پہلے تھے، اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا۔ آپ کےدریافت فرمانے پر جبریل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نمازوں سےبوجھل ہوجاتے ہیں یعنی نماز میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں 82یہ ان کی سزا ہے کہ اللہ کے فرشتے ان کے سروں کو کچل رہے ہیں اور یہ عمل تسلسل سے جاری ہے۔
معراج ہی کے سفر میں رسول اللہ کا ایک اور قوم پر گزر ہوا ۔ آپ نے دیکھا کہ ان کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں، اور وہ اونٹوں اور بیلوں کی طرح چَرتے ہیں، اور ضریع اور زقوم یعنی کانٹے دار اور خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھار ہے ہیں۔ آپ کے دریافت فرمانے پر جبریل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ نہیں دیتے تھے۔ 83
سفرِ معراج میں آپ کا ایک قوم پر گزر ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا تازہ گوشت رکھا گیاہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا گیاہے۔ یہ لوگ سڑا ہوا ، کچاگوشت کھا رہے ہیں، اور پکا ہوا تازہ گوشت نہیں کھاتے۔ آپ کے دریافت فرمانے پر جبریل نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے وه اشخاص ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورتیں موجود تھیں مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ شب باشی کرتے تھے اور صبح تک انہی کے پاس رہتے تھے اور یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہروں کو چھوڑ کر کسی زانی اور بد کار شخص کےساتھ رات گزارتی تھیں۔ 84
معراج کی رات آپ کا ایک ایسی لکڑی پر گزر ہوا جو راستے میں کھڑی تھی اور جو بھی کپڑا یا کوئی اور شے اس کے پاس سےگزرتی اُسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتی۔ آپ کے دریافت کرنے پر جبریل نے بتایا کہ یہ آپ کی امت میں سے ان لوگوں کی مثال ہے جو راستے میں بیٹھ کر لوگوں کے اموال لوٹتے ہیں یعنی ڈاکہ زنی کرتے ہیں۔ 85
ایک شخص پر آپ کا گزر ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ اس کے پاس لکڑیوں کا بہت بڑا گٹھا ہے۔ وہ اسے اُٹھا نہیں سکتا، لیکن چاہتاہے کہ اُسے اور زیادہ بڑھائے۔ آپ کے دریافت فرمانے پر جبریل نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں، یہ ان کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا مگر مزید امانتوں کا بوجھ اپنے سر لینے کو تیار ہے۔ 86
دورانِ سفر آپ کا ایک ایسے سوراخ پر گزر ہوا جو چھوٹا سا تھا۔ آپ نے دیکھاکہ اس میں سے ایک بڑا بیل نکلا۔نکلنے کے بعد وہ بیل چاہتا تھا کہ جہاں سے نکلا ہے وہی پھر داخل ہو جائے، لیکن وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔آپ کے استفسار کرنے پر جبریل نے بتایا کہ یہ وه شخص ہے جو کوئی بڑی گناہ کی بات کہہ دیتا ہے پھر اس پر نادم ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو واپس کر دے، مگر اس کے واپس کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ 87
معراج کی رات آپ ایک ایسی وادی پر پہنچے جہاں خوب اچھی مشک کی خوشبو اورعمدہ آواز آرہی تھی ۔ آپ کے دریافت فرمانے پرجبریل نے بتایا کہ یہ جنت کی آواز ہے، وہ اللہ سبحانہ تعالی سےکہہ رہی ہے کہ جو لوگ اس کے اندر رہنے والے ہیں ان کو جلد اس میں داخل فرما کر اپنا وعدہ پورا فرما۔ 88
اس کے بعد آپ کا گزر ایک اور وادی پرہوا، وہاں صوت منکر یعنی اک ایسی آواز سنی جوآپ کے لئے کافی ناگوار تھی۔ آپ کے دریافت فرمانے پرجبریل نے بتایاکہ یہ جہنم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کر رہی ہے کہ جو لوگ میرے اندر رہنے والے ہیں ان کو لے آ اور اپنا وعدہ پورا فرما۔ 89
شبِ معراج ، جنت کی سیر کرتے کرتے ایک جگہ رسول اللہ کو انتہائی عمدہ خوشبو آئی۔ آپ نے اُس کے بارے میں حضرت جبریل سے دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک دن یہ خاتون فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھیں کہ کنگھی ہاتھ سے گر پڑی۔ اس پر انہوں نے کہا: بسم الله۔ فرعون کی بیٹی نے جو یہ سنا تو تلملا اٹھی اور کہنے لگی جس کاتونے نام لیا کیا وہ میرا باپ ہے؟ اس نیک بندی نے جواب دیا:
لا، ولٰكن ربی ورب أبیك الله.
نہیں،میرا اور تمہارے باپ کا رب اللہ ہے۔
خادمہ کا جواب سن کر فرعون کی بیٹی مزید ورطۂ حیرت میں پڑ گئی اور غصے سےلال پیلی ہوکردھمکی دیتے ہوئے کہنے لگی کہ وہ اپنے باپ کو اس کی خبر ضرور دے گی۔ جب اس نے فرعون سے اس واقعے کا ذکر کیا تو وہ سخت برہم ہوا اور جلدی سے اسے دربار میں بلوا کر پوچھا کہ کیا اس کے سوا بھی کوئی رب ہے۔جب اس نے فرعون کے سامنے توحید باری تعالی کا اظہار کیا تو فرعون نے تانبے کےدہکتے ہوئے برتن میں اس بی بی کو اس کے بچوں سمیت پھینکنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر اس اللہ والی نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا کہ اسکی اوراس کے بچوں کی ہڈیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا کر کے ایک جگہ دفن کیا جائے ۔ پھر اس کے سامنے اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس دہکتے ہوئے برتن میں پھینکا جانے لگا۔ آخر جب اس کے شِیر خوار بچے سمیت اسے پھینکا جانے لگا تو وہ اپنے اس بچے کی وجہ سے قدرے ہچکچائی۔ توفیق الہی سے وہ نومولود گویا ہوا:
يَا أمه! اقْتحمي؛ فإن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة.
اے ماں ! کود جاؤ ، بلاشبہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں ہیچ ہے۔
چنانچہ اپنے بچے کی یہ بات سن کر اس نے بھی آتشیں برتن میں چھلانگ لگا دی ۔سید نا ابن عباس کا قول ہے کہ بچپن میں چار بچوں نے کلام کیا: عیسی ابن مریم نے، صاحب جریج نے، حضرت یوسف کے گواہ اور دختر فرعون کی خادمہ کے بیٹے نے۔ 90
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں جنت میں داخل ہوا ، وہاں میں نے ایک محل دیکھا، جو سونے اور موتیوں سے بنا ہوا تھا۔میرے دریافت کرنے پر مجھے بتا یا گیا کہ یہ عمر بن خطاب کا محل ہے۔ پھر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ کہ اس محل میں داخل ہونے میں عمر بن خطاب کی غیرت کے سوا کوئی شے مانع نہیں تھی۔ جس پرحضرت عمر نے بےتاب ہوکر فرمایا کہ بھلا وہ آپ سےکیوں کرغیرت کرسکتے ہیں۔ 91
حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ معراج کی رات آپ جنت میں داخل ہوئے تو آپ نے ایک کونے سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ آپ کے دریافت فرمانے پر جبریل نے آپ کو بتایا کہ یہ بلال کے چلنے کی آہٹ ہے۔ پھر صبح کوآپ نے لوگوں کو اس کی خبر دی اور فرمایا کہ بلال کامیاب ہوگئے۔ 92
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ معراج کی رات انہوں نے غمیصاء بنت ملحان جن کو رمیصاء بھی کہا جاتا ہے، ان کے قدموں کی آہٹ سنی جو حضرت انس بن مالک کی والدہ تھیں۔ 93
حضرت ابوسعید خدری کی ایک طویل حدیث ہے۔ اس میں رسول اللہ معراج کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آپ جنت میں داخل ہوئےتو آپ نے ایک سرخ وسیاہ رنگ کی آمیزش والی خوبصورت لڑکی دیکھی۔ جب آپ نے اسکے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ زید بن حارثہ کی حور ہے۔ چنانچہ آپ نے زید بن حارثہ کو اس کی خوشخبری سنائی۔ 94
معراج کی رات رسول اللہ نے جہنم میں ایک شخص کو دیکھا، جس کا رنگ سرخ، آنکھیں نیلی، بال گھنگھریالے تھے اور وہ بُرے حال میں تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں جبریل سے دریافت فرمایا، توانہوں نے بتایاکہ یہ حضرت صالح کی اونٹنی کا قاتل ہے۔ 95
معراج کے موقع پر رسول اللہ نے مسیح دجال کو بھی دیکھا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہےکہ معراج کی رات آپ کا گزر ایک ایسے آدمی پر ہوا جس کے بال انتہائی گھنگھریالےتھے۔ اس کی دائیں آنکھ بھینگی تھی، جیسے خوشۂ انگور میں سے ابھرا ہوا دانہ ہوتا ہے۔ آپ نے جبریل سے اس کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مسیح دجال ہے۔ 96
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے نزدیک رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کیا ہے۔ 97 چنانچہ حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ میں ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے فرمایا:
يا أبا عائشة، ثلاث من تكلم بواحدة منهن فقد أعظم على اللّٰه الفرية، قلت: ما هن؟ قالت: من زعم أن محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على اللّٰه الفرية، قال: وكنت متكئا فجلست، فقلت: يا أم المؤمنين، أنظريني، ولا تعجليني، ألم يقل اللّٰه عز وجل: {ولقد رآه بالأفق المبين}، {ولقد رآه نزلة أخرى}؟ فقالت: أنا أول هذه الأمة سأل عن ذلك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: إنما هو جبريل، لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين، رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض، فقالت: أو لم تسمع أن اللّٰه يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير}، أو لم تسمع أن اللّٰه يقول: {وما كان لبشر أن يكلمه اللّٰه إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم}؟ الحدیث. 98
ترجمہ: اے ابو عائشہ (یہ حضرت مسروق کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں جس نے ان میں سے کوئی ایک بات بھی کی، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ میں نے پوچھا کہ : وہ کیا ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں بتائے کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا، میں ٹیک لگائے ہوئے تھا ، اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا : اے ام المؤمنین ! مجھے مہلت دیجیے اور جلدی نہ کیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا : ولقد رآه بالأفق المبين، ولقد رآه نزلة أخرى کہ آپ نے اسے افق مبین میں دیکھا۔اور دو بار دیکھا۔ آپ فرمانے لگی کہ: اس امت میں سے میں پہلی ہوں جس نے رسول اللہ سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا۔ حضور نے فرمایا: وہ جبریل ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا جس پر وہ پیدا ہوئے تھے۔ میں نے انہیں اس حالت میں دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کی جسامت نے تمام آسمان اور زمین کو گھیر رکھا تھا۔ اے مسروق ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا: لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر؟ (ترجمہ: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں، وہی ہے نہایت باریک بین خبردار۔) اور کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا: وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب أو يرسل رسولا فيوحي بإذنه ما يشاء إنه علي حكيم (ترجمہ: کسی انسان کو یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سےکلام کرے مگر بذریعہ وحی یا پس پردہ یا کوئی فرشتہ بھیجے) ۔
مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ، بڑی شدت کے ساتھ رسول اللہ کے اپنے رب کو دیکھنے کا انکار کرتی تھیں۔اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی سورۃ النجم کی آیت: ماکذب الفؤاد ما رأی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ نے حضرت جبریل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے:
عن عبد اللّٰه، {ما كذب الفؤاد ما رأى} قال: رأى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم جبريل في حلة من رفرف قد ملأ ما بين السماء والأرض 99
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ انہوں نے سورۃ النجم کی آیت: ماکذب الفؤاد ما رأی کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ نے جبریل کو ایک ریشمی پوشاک میں دیکھا کہ انہوں نے آسمان اور زمین کے مابین خلاء کو پُر کردیا۔
جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت ابوذر ، حضرت کعب ، حضرت حسن بصری ، امام احمد بن حنبل ، ابوالحسن الاشعری اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت کے نزدیک رسول اللہ نے معراج کی شب اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ 100 چنانچہ حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:
قال: رأى محمد ربه، قلت: أليس اللّٰه يقول: {لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار} قال:ويحك، ذاك إذا تجلى بنوره الذي هو نوره، وقد رأى محمد ربه مرتين. 101
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ: کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں : لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر (ترجمہ:آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، اوروہ آنکھوں کا احاطہ کرلیتا ہے، وہ مہربان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔)؟ آپ نے فرمایا : تیرا بھلا ہو! یہ اس وقت ہے کہ جب وہ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا خاص نور ہے۔ حضور نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن شقیق فرماتے ہیں:
قلت لأبي ذر، لو رأيت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لسألته فقال: عن أي شيء كنت تسأله؟ قال: كنت أسأله هل رأيت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألت، فقال: رأيت نورا. 102
میں نےحضرت ابوذر سے عرض کیا کہ اگر میں رسول اللہ کی زیارت کرتا تو میں آپ سے ایک بات کے متعلق پوچھتا۔ حضرت ابوذر نےفرمایا: کون سی بات کے متعلق پوچھتے؟ میں نے عرض کیا کہ : میں یہ پوچھتا کہ کیا آپ ( ) نےاپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ: میں نے حضور سےاس کے متعلق پوچھا کہ کیا آپ ()نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو حضور نے فرمایا کہ میں نے نور دیکھا ہے۔
علامہ بدرالدین عینی اپنی شرح عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:
وحكى عبد الرزاق عن معمر عن الحسن أنه حلف أن محمدا رأى ربه. 103
عبد الرزاق نے معمر سے نقل کیا ہے کہ حضرت حسن بصری قسم کھا کے فرماتے تھے کہ نبی اکرم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
علامہ عینی ایک اور روایت بھی ذکر کرتے ہیں:
وأخرج ابن خزيمة عن عروة بن الزبير إثباتها وكان يشتد عليه إذا ذكر له إنكار عائشة، رضي اللّٰه تعالى عنها. 104
ابن خزیمہ نے حضرت عروہ بن زبیر سے رؤیت کا اثبات نقل کیا ہے اور یہ کہ جب حضرت عروہ کے سامنے حضرت عائشہ کے انکار کا ذکر ہوتا تو وہ رؤیت کے اثبات میں اور بھی شدت اختیار فرماتےتھے۔
قاضی عیاض مالکی نے اپنی کتاب"الشفاء" میں حضرت معاذ کی روایت نقل کی ہے:
عن معاذ عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قال رأيت ربي. 105
حضرت معاذ نبی اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
مسند احمد میں اسی طرح کی مرفوع روایت حضرت ابن عباس سےنقل کی گئی ہے:
عن ابن عباس، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: رأیت ربی تبارك وتعالیٰ. 106
حضرت ابن عباس نبی اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
قاضی عیاض مالکی ابن اسحاق سے نقل کرتے ہیں:
وذكر ابن إسحاق أن ابن عمر أرسل إلى ابن عباس رضي اللّٰه عنهما يسأله هل رأى محمد ربه فقال نعم والأشهر عنه أنه رأى ربه بعينه روي ذلك عنه من طرق. 107
ابن اسحاق نے ذکرکیا ہےکہ حضرت ابن عمر نے حضرت ابن عباس کے پاس یہ پوچھنے کے لیے کسی کو بھیجا کہ کیا محمد نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا: جی ہاں۔ اور اُن سے مختلف طرق سے مروی مشہور روایت یہی ہے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا۔
ابن خزیمہ نے حضرت انس سے نقل کیا ہے:
عن أنس قال: رأي محمد ربه. 108
حضرت انس نے فرمایا کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مروزی سے امام احمد کا قول نقل کیا ہے:
عن المروزي قلت لأحمد: إنهم يقولون : إن عائشة قالت : من زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم على اللّٰه الفرية . فبأي شيء يدفع قولها؟ قال :بقول النبي صلى اللّٰه عليه وسلم رأيت ربي. قول النبي صلى اللّٰه عليه وسلم أكبر من قولها. 109
مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ جس نے یہ کہا کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا۔ تو حضرت عائشہ کے اس قول کا جواب کس چیز سے دیا جائے؟ تو آپ نے فرمایا کہ نبی اکرم کے اس ارشاد"رأیت ربی" کے ساتھ حضرت عائشہ کے قول کا جواب دیاجائے، اور نبی اکرم کا قول حضرت عائشہ کے قول سے بہت بڑا ہے۔
امام نووی نےمذکورہ مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ رؤیت باری تعالی کے بارے میں کئی ساری روایات کی بنیاد پر اکثر علماء کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ حضور نے معراج کے موقع پر اپنی مبارک آنکھوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
فالحاصل: أن الراجح عند أكثر العلماء : إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه بعيني رأسه ليلة الإسراء لحديث بن عباس وغيره مما تقدم. وإثبات هذا لا يأخذونه إلا بالسماع من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم. 110
پس حاصل یہ ہے کہ ابن عباس کی حدیث اور دوسری احادیث جو گزرگئی ہیں کی بنیاد پر اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ معراج کی رات رسول اللہ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ اور اس بات کا اثبات رسول اللہ سے سنے بغیر حاصل نہیں کیاجاسکتا۔
جہاں تک حضرت عائشہ کے قول کی بات ہے تو ان کے پاس اپنے اس قول پر کوئی مرفوع حدیث نہیں ہےجس میں رسول اللہ نے فرمایا ہو کہ میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا ہے بلکہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد تھا جو انہوں نےفرمایا اور جب کسی صحابی یا صحابیہ کے قول میں کوئی اور صحابی اس کی مخالفت کرے تو پھر اس کا قول حجت نہیں رہتا۔ یہاں مسئلہ ہذا میں ابن عباس اور دیگر کئی صحابہ کرام نے ام المؤمنین حضرت عائشہ سے اختلاف کیاہے۔اور پھر حضرت ابن عباس نے تو رسول اللہ کی طرف ایک ایسی بات کی نسبت کی ہے جو عقل وقیاس کی بنیاد پرنہیں کی جاسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس کے پاس ضرور کوئی مرفوع حدیث تھی۔ 111
نیز مسند احمد کی روایت جو اوپر ذکر ہوئی اس میں حضرت ابن عباس رسول اللہ سے مرفوعاًنقل کرتے ہیں کہ آپ نے خود فرمایا کہ آپ نے اپنے رب کودیکھا 112 نیز قاضی عیاض نے حضرت معاذ سے بھی اسی طرح کی مرفوع حدیث نقل کی ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ 113
اب ایک جانب ام المؤمنین حضرت عائشہ کا قرآن کریم کی آیتوں سے استدلال ہے اور دوسری جانب رسول اللہ کی مرفوع حدیث ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں رسول اللہ کی مرفوع حدیث کو ترجیح حاصل ہوگی۔ 114 نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی کوئی مرفوع حدیث ذکر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے صرف سورۃ النجم کی آیت کی تفسیر کی ہے کہ ان کے نزدیک سورۃ النجم کی مذکورہ آیت میں جبریل کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ 115
حضرت عائشہ نے جوپہلی آیت استدلال میں پیش فرمائی اس میں اللہ تعالیٰ کے ادراک کی نفی ہے، اور ادراک کسی شے کے مکمل احاطہ کو کہتے ہیں۔ تو آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے مکمل احاطہ کرنے کی نفی ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مکمل احاطہ آنکھیں نہیں کرسکتیں اور مکمل احاطہ کی نفی سے بغیر احاطہ رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی۔ دوسری روایت میں تین صورتوں کے علاوہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام کی نفی ہےکہ تین صورتوں کے علاوہ کسی اور صورت میں اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کی کسی بشر میں طاقت نہیں۔ اورکلام کی نفی سے بھی بغیر کلام رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی۔ 116
مذکورہ بالادلائل اور توضیحات سے ثابت ہوا کہ اکثرعلمائے امت کے نزدیک راجح قول یہ ہی ہے کہ نبی اکرم نے معراج کی رات اپنے رب کا دیدار کیا ہے 117 اور اسی اختصاص کی وجہ سے قرآن کریم میں اس واقعے کو نہایت عظمت اور شان سے بیان کیا گیا ورنہ جبرئیل امین تو ایک دن میں بھی کئی کئی بار دربار رسالت میں حاضری کے شرف سے بازیاب ہوا کرتے تھے ان کی زیارت یا ملاقات کے ذکر کو اس مہتم بالشان طریقے سے کرنے کی قرآن حکیم میں حاجت نہ تھی۔
جمہور اہل سنت کے نزدیک رسول اللہ کوبیداری کی حالت میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ معراج کرائی گئی ، چنانچہ ملا جیون فرماتے ہیں:
و الأصح أنه كان فى اليقظة و كان بجسده مع روحه، و عليه اهل السنة والجماعة فمن قال: انه بالروح فقط أو في النوم فقط فمبتدع، ضال، مضل، فاسق. 118
اصح قول یہ ہے کہ حضور کو معراج شریف حالتِ بیداری میں جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ ہوئی، یہی اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے، لہٰذا جو شخص کہے کہ معراج صرف جسم کے ساتھ ہوئی یا نیند کی حالت میں ہوئی وہ بدعتی، گمراہ، گمراہ گر اور دائرہ اطاعت سے خارج ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے لفظ "سبحان "استعمال کرنا یہ حقیقت واضح کر رہا ہے کہ یہ صرف خواب کا واقعہ نہیں تھا،کیونکہ لفظ "سبحان "کسی بڑی حقیقت اور کسی عجیب وغریب بات کے متعلق اطلاع کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ محض خواب ہوتا تو اسے لفظ "سبحان " سے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ خواب میں لمبے سے لمبا سفر کرلینا کوئی تعجب کی بات نہیں۔نیزقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسراء کا واقعہ بیان کرتے ہوئےرسول اللہ کے لیے لفظ "عبد"استعمال کیا ہے۔اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ سفر بیداری کی حالت میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ تھا،کیونکہ لفظ "عبد" روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔ 119 صرف روح کو لفظ "عبد"سے تعبیر نہیں کیا جاتا ۔
سورۂ اسراء میں رب تعالیٰ نے اس با برکت سفر کو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش قرار دیا ہے 120 اور یہ سفر آزمائش تب ہی ہو سکتا ہے جب معروف طریقے سے ہٹ کر خلاف عادت طریقہ پر ہو اور وہ طریقہ حالت بیداری میں روح اور جسم سمیت معراج کرانا ہے۔خواب میں اس طرح کے مشاہدات معروف ہیں۔
سورہ نجم میں معراج کے موقع پر دیکھی ہوئی نشانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ یہاں نشانی سے مراد معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہوتا ہے جو خرق عادت ہو۔جب کہ خواب کی حالت میں ہونے والے مشاہدات کو کوئی خرق عادت نہیں کہہ سکتا۔ 121 اگر معراج کا واقعہ خواب ہوتا تو کفار اتنے شد ومد کے ساتھ اس کا انکار ہر گز نہیں کرتے کیوں کہ خواب میں ایساہوجانا تو کسی بھی عاقل شخص کے نزدیک ناممکن نہی،بلکہ عجیب بھی نہیں۔ 122 اسی بناء پرحافظ ابن حجر علمائے امت کا اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کو اسراء اور معراج بعد از بعثت ایک ہی رات میں حالت بیداری میں روح و جسم سمیت کرائی گئی۔ محمد ثین، فقہاء اور متکلمین میں سے جمہور کا یہی موقف ہے اور اس کے متعلق متواتر اور صحیح احادیث واضح طور پر مذکور ہیں۔ اس لیے اس سے اعراض یا اس میں تاویل کرناکسی طرح بھی روا نہیں، کیونکہ عقلی طور پر ایسا ہونا ہر گز نا ممکن نہیں ہے۔ 123 ابن تیمیہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ سلف اور خلف میں جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ آپ کو معراج حالت بیداری میں کروائی گئی تھی۔ 124
باقی جن روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو خواب کی حالت میں معراج کرائی گئی تھی تو ان میں یوں تطبیق کی جاسکتی ہے کہ ممکن ہے پہلے خواب میں آپ کو معراج کراکر جسمانی معراج کےلیے تیار کرایا گیا ہو اور جسمانی معراج کے لیے تعلیم دی گئی ہو اور پھر بعد میں آپ کو حالتِ بیداری میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ حقیقی طور پر معراج کرائی گئی ہو۔ 125
ملاحدہ نے حضور کی معراج جسمانی پر جو اعتراضات کیے ہیں ان سب کا اجمال یہ ہے کہ فلسفہ قدیمہ تو اجرام فلکیہ میں خرق و التیام کو محال بتلاتا ہے اور فلسفہ جدیدہ افلاک کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا جب آسمان کا وجود ہی ثابت نہ ہوا تو معراج جسمانی کا ثبوت کس طرح ہوگا؟ نیز قدیم وجدید فلسفہ دونوں اس پر متفق ہیں کہ زمین سے کچھ او پر کرہ ٔزمہریر ہے اور قدیم فلسفہ کے نزدیک کرۂ ناری ہے اور ان دونوں مقاموں سے کسی جسم عنصری کا صحیح سالم اور زندہ گزرنا محال ہے لہذا عروج جسمانی بھی محال ہو گا۔ بعض کہتے ہیں کہ جسم ثقیل کےلیےاس قدر بلند اور تیز رفتارسفر کرنا عقلاً ناممکن ہے۔
ان تمام اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ یہ سب استبعادات اور توہمات ہیں عقلاً ان میں سے کوئی بات بھی محال نہیں۔ جوملاحدین ان چیزوں کے محال ہونے کا مدعی ہیں ان کے پاس ان باتوں کے لئے کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ تمام انبیاءو مرسلین اور تمام کتب سماویہ اس پر متفق ہیں کہ قیامت قائم ہوگی۔ اور آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی ہے:
إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ 1 126
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔
إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ 1 127
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔
اور حضرات انبیاء ومرسلین کا امرِ محال کے وقوع پر متفق ہونا قطعاً محال اور ناممکن ہے اور فلسفہ قدیم نے جو افلاک کے خرق اور التیام کے محال ہونے کے دلائل ذکر کیے ہیں حضرات متکلمین نے ان کا کافی اور شافی جواب دیا ہے۔ رہا فلسفہ جدید کا افلاک کے وجود کو نہ تسلیم کرنا سو یہ افلاک کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ تمام عقلاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی چیز کا نظر نہ آنا یا اس کا ثابت نہ ہونا اس کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا، ورنہ زمین اور آسمان کی ان ہزار ہا چیزوں کا انکار لازم آئے گا جو ہماری نظر ، عقل اور علم سے مخفی اور پوشیدہ ہیں ۔نیز عقلاء اس پر بھی متفق ہیں کہ کسی کا جہل اور عدم علم دوسرے پر حجت نہیں۔