Encyclopedia of Muhammad

عشرہ ذی الحج

ماہ ذی الحج اسلامی سال کا آخری مہینہ کہلاتا ہے‎ ‎جو کہ اُن چار (4) مہینوں میں شامل ہے جن کو قرآن حکیم نے حرمت والا مہینہ ‏قرار دیا ہے۔1 اس کا پہلا عشرہ یعنی ابتدائی دس (10) دن نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان دس دنوں ‏اور اس کی دس راتوں کی قسم کھا کر ان کی اہمیت وفضیلت کو واضح فرمایا ہے۔2 ا س عشرہ میں حج اور قربانی جیسی عظیم الشان ‏عبادات کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ عام مسلمان جو حج بیت اللہ کی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں ان کے لئے اس عشرہ میں دوسرے ‏اعمال حسنہ مثلاً روزہ رکھنا،قیام اللیل کرنا،تسبیح وتہلیل کرنا،تلاوت وذکر کرنا3‏‎ ‎اور تکبیرات تشریق پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔4 دس (10) ذی الحجہ کو مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں جس کو یوم النحر بھی کہا جاتا ہے اور اسی یوم النحر میں حصول ثواب کی نیت سے ‏جانوروں کی قربانی بھی پیش کی جاتی ہے۔5

عشرہ ذی الحج کا ذکرقرآن کریم میں ‏

ماہ ذی الحج میں وقوع پذیرہونے والےفریضۂِ حج اور قربانی کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا گیاہے لیکن خاص ‏طور پر اس کے ابتدائی دس دن اور دس راتوں کی قسم اس کی اہمیت کے پیش نظر ان الفاظ میں ذکر کی گئی ہے:‏

  وَالْفَجْرِ1 وَلَيَالٍ عَشْرٍ26
  اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)، اور دس مبارک راتوں کی قسم۔ ‏

”والفجر“سے مراد یکم ذی الحجہ کی صبح ہے اور”لَیَالٍ عَشرٍ“ کے بارے میں حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عباس سے ‏مروی ہے کہ ان راتوں سے مرادذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔7

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت حدیث میں ‏

حضور نے عشرہ ذی الحج کی اہمیت وفضیلت کو مختلف مقامات پر مختلف الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اک مقام پر ‏آپ نے ان دس (10) دنوں میں کی جانے والی عبادات کو نفلی جہاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت والے عمل کے طور پر بیان کرتے ‏ہوئے ارشاد فرمایا:‏

  ما من ایام العمل الصالح فیھن احب الى اللّٰه من ھذہ الایام العشرة قالوا یا رسول اللّٰه ‏ولا الجهاد فى سبیل اللّٰه الا رجل خرج بنفسه وماله فلم یرجع من ذلك بشىء.8
  ‏ کوئی ایسا دن نہیں جس میں اللہ کے نزدیک ان دنوں سے زیادہ کوئی نیکی محبوب ہو۔ انہوں (صحابہ کرام ) ‏نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ‏بھی سوائے اس کے کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں نکلا اور ان میں سے کچھ بھی لے کر ‏واپس نہ آیا۔(یعنی وہ خدا کی راہ میں شہید کر دیا گیا )‏

اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اللہ کے نام کی سربلندی کے لیے کفار و مشرکین سے جہادکرتا ہے اور اپنی قیمتی جان کا نذرانہ ‏پیش کر کے مجاہد کا عظیم رُتبہ حاصل کرتا ہے مگر اس کے باوجود جو شخص ذی الحجہ کے دس دن اللہ عز وجل کی عبادت اور اس کی ‏اطاعت و بندگی میں گزار دے اس کی یہ نیکیاں اللہ کی راہ میں نفلی جہاد کرنے والےسےبھی بڑھ جاتی ہیں۔

عشرہ ذی الحجہ میں تہلیل و تکبیر اور روزہ رکھنے کی فضیلت ‏

عشرہ ذی الحجہ کےان دس (10) دنوں کی فضیلت باقی ایام سے بہت زیادہ ہے کیوں کہ خود رب تعالیٰ نے ان دس دنوں کی قسم ‏کھائی ہے۔ ان دس دنوں میں ذکرواذکار، نوافل، انفاق فی سبیل اللہ اور باقی عبادات کا اجر بہت بڑھا دیا جاتا ہے۔ ذی الحج کے ان ‏دس دنوں کے متعلق رسو ل اللہ کا ارشاد گرامی ہے:‏

  ما من أيام أفضل عند اللّٰه ولا العمل فيهن أحب إلى اللّٰه عز وجل من هذه الأيام العشر، ‏فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير، فإنها أيام التهليل والتكبير وذكر اللّٰه، وإن صيام ‏يوم منها يعدل بصيام سنة، والعمل فيهن يضاعف سبعمائة ضعف.9
  ان دس دنوں سے بڑھ کر اور ان میں کئے گئے اعمال سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ پاک کے ہاں افضل و محبوب ‏نہیں ہے، لہذا اس میں تہلیل ( لاالہ الا اللہ ) اور تکبیر (اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ ‏اکبر وللہ الحمد) کی کثرت کرو کیوں کہ یہ دن انہی ذکر واذکار کی کثرت کے دن ہیں،اور ان دنوں کا ایک ‏روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے،اور ان دنوں میں نیک اعمال کا ثواب سات سو(700) گنا تک بڑھا دیا جاتا ‏ہے۔

عشرہ ذی الحجہ میں قیام اللیل کی فضیلت

عشرہ ذی الحج میں جس طرح ایک روزہ کا اجر و ثواب ایک سال کے روزوں کے برابرکردیا جاتا ہے ویسے ہی ان دس ایام ‏کی راتوں کی عبادت کا اجر لیلۃ القدر کے اجر کی مثل کر دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:‏

  مامن أيام احب إلى اللّٰه أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها ‏بصيام سنة و قيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر.10
  ‏اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دن جن میں اس کی عبادت کی جائے، ذی الحجہ کے دس دن ہیں کہ اس ‏کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ہر رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔

عشرہ ذی الحجہ میں قیام اللیل کی فضیلت

عشرہ ذی الحج میں جس طرح ایک روزہ کا اجر و ثواب ایک سال کے روزوں کے برابرکردیا جاتا ہے ویسے ہی ان دس ایام ‏کی راتوں کی عبادت کا اجر لیلۃ القدر کے اجر کی مثل کر دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:‏

  مامن أيام احب إلى اللّٰه أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها ‏بصيام سنة و قيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر.11
  ‏ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دن جن میں اس کی عبادت کی جائے، ذی الحجہ کے دس دن ہیں کہ اس ‏کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ہر رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔

یوم عرفہ کی فضیلت ‏

یوم عرفہ یعنی نو (9) ذی الحجہ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی دن افضل و اعلیٰ نہیں۔ شیطان اس دن سے زیادہ کسی بھی ‏دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا کیونکہ اس دن وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف ‏ہوتے دیکھتا ہے۔ عرفہ کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف خاص تجلی فرماتا ہے اور زمین پر موجود حجاج کرام کی وجہ سے ‏آسمان والوں کے سامنے فخرفرماتا ہے۔12سیّدہ عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :‏

  ما من يوم أكثر أن يعتق اللّٰه عز وجل فيه عبدا من النار، من يوم عرفة، وإنه ليدنو عز ‏وجل، ثم يباهي بهم الملائكة...13
  عرفہ سے زیادہ کسی دن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں فرماتا ،اس دن اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کے ‏قریب جلوہ فرماتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ان (حجاج) پر ملائکہ کے سامنے فخر فرماتا ہے ۔۔۔

اسی لئے آپ نے یو م عرفہ کے دن نہ صرف یہ کہ خود دعا فرمائی بلکہ امت کو اس دن کی دعا کی تلقین بھی فرمائی اور ‏اس کے خاص الفاظ بھی سکھائے کہ اس دن کی سب سے بہترین دُعا یہ ہے:‏

  لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى ‏كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.14
  اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس کےلیے بادشاہت ‏ہے۔ وہ ذندگی دیتا اور وہی مارتا ہےاور اسی کے ہاتھ میں ہر خیر ہے ۔ وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت ‏

عرفہ یعنی ذی الحج کی نو (9) تاریخ کے روزے سے متعلق رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے :‏

  وصيام يوم عرفة فإني لأحسب على اللّٰه أن يكفر السنة التي قبله والتي بعده.15
  مجھے اللہ تعالیٰ سے یہ امید ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔

یہ روزہ ہر ملک اور علاقہ کے لوگ اپنے اپنے ملک میں ہونے والی چاند کی نو (9) تاریخ کے حساب سے رکھیں گےنا کہ ‏سعودیہ کے حساب سے کیونکہ بعض احادیث میں روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے یوم عرفہ کے بجائے نو (9) ذی الحجہ کے الفاظ ‏مذکور ہیں۔ 16 یہ روزہ در اصل نو (9) ذی الحجہ کا ہے کیونکہ عشرہ ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن میں سے ہر روزے کی فضیلت احادیث میں ‏مستقل طور پر آئی ہے، اور یہ بات مسلّم ہے کہ ایک سے آٹھ تاریخ تک کے روزوں کی فضیلت پوری دنیا کے مختلف علاقوں کی اپنی ‏تاریخ کے اعتبار سے ہے، لہٰذا نو ذوالحجہ کے روزے کی فضیلت بھی ہر ملک کی اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگی۔

عشرہ ذی الحجہ اور انبیائے

شیخ ابو البرکات نے بالا سنا د حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ ذی الحجہ کے اوّل عشرہ میں اللہ تعالیٰ ‏نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا۔ اسی عشرہ میں حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ‏دوستی سے نوازا اور اسی عشرہ میں حضرت ابراہیم نے کعبہ کی بنیاد رکھی اور اپنے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل کو اللہ کے حکم ‏کے مطابق ذبح کرنے کا قصد فرمایا تھا۔ اسی عشرہ میں حضرت موسیٰ کواللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کی سعادت حاصل ہوئی اور اسی ‏عشرہ میں حضرت داؤود کی لغزش معاف کی گئی۔17

تکبیرات تشریق کا حکم

تکبیرات تشریق نو (9) ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ (13) ذی الحج کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا مرد اور عورت دونوں کے ‏لئے واجب ہے۔18 مردہر فرض نماز کے بعد بآواز بلندیہ تکبیرات پڑھیں گے جبکہ خواتین اپنی آواز کو پست رکھیں ‏گی۔تکبیرات تشریق کے الفاظ یہ ہیں:‏

  اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَاَللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ. 19
  اللہ سب بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں ہے کوئی اس کے علاوہ معبود اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب ‏سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کےلیے ہیں۔

عید الاضحیٰ اور قربانی

مسلمان ماہ ذی الحج کی دس (10) تاریخ کو عید الاضحیٰ مناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور سیّدنا ابراہیم و اسماعیل ‏کی ‏پیش کردہ قربانی کی یاد میں جانورکی قربانی رب کے حضورپیش کرتے ہیں۔اس دن قربانی کا یہ عمل اہل ایمان کو اللہ تعالی کی رضا کی ‏خاطر حضرت ابراہیم واسماعیل کی قربانی کی یاد دہانی کرواتا ۔ ‏ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول ‏ نے فرمایا: ‏

  ما عمل ابن آدم يوم النحر عملا أحب إلى اللّٰه عز وجل، من هراقة دم، وإنه ليأتي يوم القيامة، ‏بقرونها، وأظلافها، وأشعارها، وإن الدم، ليقع من اللّٰه عز وجل، بمكان قبل أن يقع على الأرض، فطيبوا ‏بها نفسا.20
  ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کےدن خون بہانے سے بڑھ کر کوئی کام محبوب نہیں ۔ بے شک وہ جانور قیامت ‏کےدن اپنے سینگ، بال اور کُھر کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں پیش کیاجائے گا، اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی ‏اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتا ہےلہذااسے خوش دلی کے ساتھ کیا کرو۔

 


  • 1 ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-15، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1420 ھ، ص: 524‏‎ ‎‏ ‏
  • 2 القرآن، سورة الفجر89: 1- 2‏
  • 3 ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 3481، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 311‏
  • 4 نظام الدین وجماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ المعروف بالفتاوی العالمکیریۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 167 ‏
  • 5 ابو الحسين أحمد بن محمد القدوري، مختصر القدوري في الفقه الحنفي، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1997م، ص: 208‏
  • 6 القرآن، سورة الفجر89: 1- 2‏
  • 7 أبو الحسن علاء الدين علي بن محمد الخازن، لباب التأويل في معاني التنزيل المعروف بالتفسیرالخازن، ج-4، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1415ھ، ص: 423‏
  • 8 محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی، مشکاۃالمصابیح، حدیث: 1460، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ العصریہ، بیروت، لبنان،2011 م، ص: 474 ‏
  • 9 ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 3481، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 311‏
  • 10 ایضاً، حدیث: 1471، ص: 477‏
  • 11 ‏ أبو بكر عبد الرزاق بن همام الصنعاني،المصنف، ج-5، حديث: 8830، مطبوعة: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 16‏
  • 12 ابوعبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجۃ، حدیث:3014، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 551‏
  • 13 ابو بکر احمد بن الحسین البیھقی، شعب الایمان، حدیث: 3778، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 500‏
  • 14 ‏ ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمۃالنیسابوری، صحیح ابن خزیمۃ، حدیث: 2087، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان،( لیس التاریخ موجودا)، ص: 288‏
  • 15 ابوداؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابی داؤد، حدیث : 2437، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 494‏
  • 16 ‏ سیّد شیخ عبد القادر جیلانی، غنیۃ الطالبین (مترجم حافظ مبشر حسین لاہوری) ، مطبوعہ: نعمانی کتب خانہ ، لاہور پاکستان، سن اشاعت ندارد، ص: 405‏
  • 17 نظام الدین وجماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ المعروف بالفتاوی العالمکیریۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 167‏
  • 18 أبو عبد الله محمد بن محمدالبابرتی، العنایۃ شرح الھدایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجوداً)، ص: 82‏
  • 19 القرآن، سورۃ الصافات 37 : 105-109‏
  • 20 أبو عبد الله محمد بن يزيد ابن ماجۃ القزويني، سنن ابن ماجۃ،حدیث:3126، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية، 2009م، ص: 574 ‏