اسلام میں روزہ کا مطلوب بندہ مؤمن کو بھوک وپیاس سےتکلیف دینا نہیں بلکہ اسے اللہ تعالی کے احکامات ومنہیات کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرناہے ۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح اپنےآپ کو غاروں اور کنوؤں میں بھوکا پیاسا رکھ کر خود اپنی وضع کردہ عبادات کے ذریعہ تقرب الی اللہ کا دعوی کرنا کسی بھی طور پر اسلام کا مطلوب نہیں ہے ۔ مسلمان جس طرح روزہ اللہ تعالی کاحکم سمجھ کر رکھتا ہے ویسے ہی سحر و افطار میں کھانا پینا بھی اس کے حکم کی بجا آوری اور اس کے رسول کی سنت کی اتباع میں کرتا ہے ۔
سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يدعو في شهر رمضان إلى السحور، قال: "هلموا إلى الغداء المبارك " . 1
میں نے سنا کہ رسول اللہ رمضان المبارک کے مہینہ میں ان الفاظ کے ساتھ سحری کی طرف بلارہے تھے ،”آؤ بابرکت کھانے کےلیے“۔
رمضان المبارک کی سحری محض شکم سیری نہیں ہے بلکہ سحری کھانے والوں کو فرشتوں کی دعا کا مستحق ٹھہرا کر اس عملِ اَکْلُ وشُرب کو بذات خود عبادت قرار دیا گیاہے۔اس حوالہ سے آپ کا ارشاد گرامی سحری کھانے والوں کےلیے یہ ہے:
إن اللّٰه وملائكته يصلون على المتسحرين. 2
بلا شبہ اللہ تعالی (رحمت نازل فرماتے ہیں)اور اس کے فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں سحری کھانے والوں کےلیے۔
زبان رسالت نے سحری کو بابرکت کھانا اس لیے کہا ہے کہ روزہ دار اس کھانےکی برکت کو پورا دن اپنے جسم میں توانائی کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ یہ مسنون کھانا پینا انسان کو جسمانی ضعف سے بچا کر پورے دن اپنے کام کاج اور عبادت کی ادائیگی کےلیے متحرک رکھنے میں مدد دیتا ہے۔اسی لیے سحری کے متعلق ارشاد نبوی ہے:
تسحروا فإن في السحور بركة . 3
سحری کھایا کرو،کیوں کہ سحری کے کھانےمیں برکت ہوتی ہے۔
سحری کھانا مسلمانوں کاوہ مخصوص مذہبی شعار وعمل ہے جس کی برکتوں سے یہود ونصاریٰ سمیت روزہ رکھنے والی تمام دوسری اقوام محروم ہیں۔ اس حوالہ سے حضرت عمرو بن العاص آپ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:
فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب، أكلة السحر. 4
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کےدرمیان فرق، سحری کا کھانا ہے۔
ایک مقام پر آپ سے سحری کھانے والوں کے لیے برکت کی دعا بھی منقول ہے۔ آپ نے فرمایا:
اللّٰهم بارك لأمتي في سحورها، تسحروا ولو بشربة من ماء، ولو بتمرة، ولو بحبات زبيب، فإن الملائكة تصلي عليكم. 5
اے اللہ میری امت کی سحری (کھانے) میں برکت عطا فرما، (اور پھر فرمایا) سحری کھایا کرو اگر چہ ایک گھونٹ پانی ہو،یا ایک دانہ کھجور کا ہو،یا چند دانے کشمش کے ہوں،کیوں کہ فرشتے تمہارے لیے (اس عمل کی وجہ سے ) استغفار کرتے ہیں۔
مسلمان دن بھر روزہ رکھنے کے بعدافطار کرکے اپنے روزہ کو مکمل کرتا ہے کیوں کہ روزہ کی تکمیل کےلیے بندہ ءِ مومن سے یہی مطلوب ہے کہ وہ حکم خداوندی کی بلا چوں وچراں اطاعت کرے۔لہذا مغرب ہونے کے بعد روزہ کی حالت میں مزید وقت بلا عذر گزارنا اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے ۔اس لیے افطار میں جلدی کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ مسند البزار کی روایت میں ہے:
يقول اللّٰه عز وجل: إن أحب عبادي إلي، أعجلهم فطرا. 6
اللہ تعالی فرماتے ہیں! بلاشبہ میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔
افطاری کے متعلق آپ نےایک اور موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا :
لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر . 7
لوگ اس وقت تک خیر پر قائم رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
گویا سحری کی پابندی کرنا اور افطار میں تعجیل کرنا یہ دونوں اعمال تربیت نفس کا حصہ اور اسلامی تعلیمات کا مطلوب ہیں تاکہ بندہ اپنے رب کے احکامات کی بجا آوری کرکے اپنے رب کو اسکی بندگی کا ثبوت دے سکے۔