Encyclopedia of Muhammad

استقبال رمضان

جب سے رمضان المبارک کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے گئے تب سے رسول اللہ کا یہ معمول تھا کہ آپ رمضان شریف کے مہینے کی آمد کا شدت سے انتظار فرمایا کرتے تھے۔ آپ اس ماہ کا بھرپور استقبال فرماتے اور مسلمانوں کو اس ماہ میں کثرت کے ساتھ عبادات کی ادائیگی کےلیے ذہنی ونفسیاتی طور پر تیار فرمایا کرتے۔ اسی وجہ سے کتب حدیث میں اس ماہِ مبارک سے قبل دئے جانے والے ان خطبات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں رسول اللہ نے نہ صرف رمضان شریف کی فضیلت اور اہمیت کا ذکر کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کو اس ماہِ مبارک میں کثرت سے عبادات کرنے کی طرف ابھارا بھی ہے۔

رجب سے رمضان تک

رسول اللہ جب رجب کا چاند دیکھتے تو خصوصی دعا کا اہتمام اس طور پر فرماتے کہ ماہ رجب اور شعبان کے ساتھ ساتھ خود رمضان المبارک کو پانے کی آرزو بھی آپ کی بابرکت دعا کاحصہ بن جایا کرتی تھی۔ آپ اکثر زبانِ مبارک سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے:

  اللّٰهم بارك لنا فى رجب وشعبان، وبارك لنا في رمضان. 1
  اے اللہ! ہمارے لیے رجب اورشعبان(کے مہینوں) میں برکت عطا فرما،اور ہمارے لیے ماہ رمضان المبارک کو باعث برکت بنا۔

اور کبھی آپ الفاظ کو بدل کر مذکورہ بالا تینوں مہینوں میں حصول برکت کےلیےاس طرح دعا فرمایا کرتے تھے:

  اللّٰهم بارك لنا في رجب وشعبان، وبلغنا رمضان. 2

آپ کےدعائیہ کلمات میں محض رمضان المبارک کاپالینا مقصود نہیں تھا بلکہ صحت وعافیت کی حالت میں آپ ماہ مبارک کو پانے کی دعا والتجا فرماتے تاکہ کثرت عبادات اور ہمہ وقت کی بندگی بجا لانا سہولت کے ساتھ ممکن ہوسکے۔ آپ کی ایک جامع دعا کے الفاظ یوں بھی منقول ہیں:

  اللّٰهم سلمني لرمضان، وسلم رمضان لي، وتسلمه مني متقبلا. 3
  اے اللہ مجھے رمضان کے لئے سلامت رکھ اور رمضان کو مجھ تک سلامتی کے ساتھ پہنچا،اور رمضان کو مجھ سے مقبول اعمال کے ساتھ قبول فرما۔

اسی وجہ سے رمضان المبارک کے چاند کو دیکھ کر آپ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتےاور خوشی کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے:

  هلال خير ورشد، هلال رشد وخير، هلال خير ورشد، آمنت بالذي خلقك ثلاثا، الحمد للّٰه ذهب هلال كذا وكذا، وجاء هلال كذا وكذا. 4
  یہ خیروبرکت اور نیکی کاچاند ہے، نیکی اورخیر وبرکت کا چاند ہے،خیروبرکت اور نیکی کا چاند ہے، اور (چاند کو مخاطب کرکے )تین بار فرماتےمیں ایمان لایا اس ذات پر جس نے تجھے پیدا کیا،(پھر فرماتے) اللہ کا شکر ہے کہ فلاں مہینہ(شعبان) کاچاند گیا اور فلاں (رمضان المبارک کےمہینہ) کا چاند آیا۔

شعبان المعظم سے رمضان المبارک کے روزوں کی تیاری

رسول اللہ رجب کے مہینہ سے ہی رمضان المبارک کی تیاری شروع فرما دیا کرتے تھے اور شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔ایک مرتبہ جب رمضان المبارک کا مہینہ قریب آگیا تو محض ایک دن پہلے آپ نے تمام صحابہ کرام کو جمع کرکے ان میں رمضان المبارک کے لمحات کو قیمتی بنانے کے بارے میں شوق اور لگن کاجذبہ اس طور پر بیدار فرمایا کہ اس ماہ مبار ک میں سرانجام دئے جانے والے اعمالِ خیر وعبادات کے اجر کو کمال وسعت وکثر ت کے ساتھ کھول کھول کران کے سامنے بیان فرمایا۔چنانچہ اس سلسلے میں حضرت سلمان فارسی سےآپ کا وہ عظیم الشان خطبہ جو آ پ نے جماعت صحابہ کرام کے سامنے ارشاد فرمایااس طرح منقول ہے:

  أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: " يعطي اللّٰه هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن، وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر اللّٰه له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا اللّٰه، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون اللّٰه الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه اللّٰه من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة. 5
  اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جس میں ایک رات (شب قدر) ایسی ہے کہ اس میں عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ اس مہینہ کے دنوں میں روزے فرض ہیں اور اس کی راتوں میں نمازیں پڑھنا بہت زیادہ باعثِ خیر و برکت ہے۔ اس مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہے اور فرض کا اجر وثواب ستر گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں خصوصاً فقراء کے ساتھ مواخات وہمدردی کا مہینہ ہے۔ مومن کا رزق اس مہینہ میں بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ ایک روزے دار کا روزہ افطار کر انے والے کے بہت سے گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے اور دوزخ کی آگ سے رہائی نصیب ہوتی ہے اور خود اس روزہ دار کو اپنے روزہ کا ثواب الگ ملتا ہے اور لطف و کرم یہ ہے کہ روزہ دار کا ثواب بالکل کم نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی کہ ہم میں سے ہر کوئی تو یہ طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کوباقاعدہ افطار کرائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ثواب ہر اس شخص کے لئے ہے جو روزہ دار کو ایک کھجور، ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ سے افطار کروائے۔ اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے رہائی کا پیغام ہے۔ جس نے (اس ماہ میں)اپنے غلام ( یا نوکر یا مزدور) کا بوجھ ہلکا کردیا اس کے گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔ اس مہینہ میں چار کام زیادہ کرو،دو کام وہ ہیں جن سے اپنے رب کو راضی کرو گےاور دو کام وہ ہیں جو ہر بندے کی ضرورت ہیں ،جن دو کاموں سے رب کو راضی کرو گے وہ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ (کی کثرت )ہے اور استغفار ہے۔جودو کام ضروری ہیں،وہ ایک تو جنت کی طلب ہے دوسرا جہنم سے نجات کی دعا ہے۔ جس نے کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر افطارکرایا اللہ تعالیٰ اسے میرےحوض سے پانی پلائے گا جس کے بعد اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔

چاند دیکھ کر رمضان المبارک کا استقبال

آپ اس ماہ مبارک کا باضابطہ استقبال چاند دیکھ کر کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے رمضان المبارک کےچاند کی رویت فرمائی اور اس کے بعد اس ماہ مبارک کی اللہ تعالی کی نگاہ میں عظمت واحترام پر خطبہ ان الفاظ میں ارشاد فرمایا:

  لو يعلم العباد ما رمضان لتمنت أمتي أن يكون السنة كلها، فقال رجل من خزاعة: يا نبي اللّٰه، حدثنا، فقال: " إن الجنة لتزين لرمضان من رأس الحول إلى الحول، فإذا كان أول يوم من رمضان هبت ريح من تحت العرش، فصفقت ورق الجنة، فتنظر الحور العين إلى ذلك، فيقلن: يا رب اجعل لنا من عبادك في هذا الشهر أزواجا تقر أعيننا بهم، وتقر أعينهم بنا. 6
  اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان المبارک (کی برکت ) کیا ہے تو میری امت یہ تمنا کرتی کہ سال بھر رمضان رہتا۔ بنوخزاعہ کے ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی! ہمیں مزید بھی اس بارے میں بتائیں،تو آپ نے فرمایا: جنت سال کے شروع سے آخر تک ماہ رمضان کےلیے سجائی جاتی ہے،جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس سے جنت کے درختوں کے پتے بجنے لگتے ہیں،حورعیناء جب یہ دیکھتی ہیں تو بارگاہ خداوندی میں عرض کرتی ہیں: اے ہمارے رب! ہمارے لیے اپنے بندوں میں سے اس مہینے میں شوہر مقرر فرما ،جن کے ذریعہ ہماری آنکھیں ٹھنڈ سے سرشار ہوں اوران کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔

حضور کا استقبالِ رمضان کےلیےصحابہ کرام کو متوجہ فرمانا

رمضان المبارک کی آمد سے قبل آپ نے صحابہ کرام کو اس ماہ مبارک کے استقبال کی طرف نہایت منفرد انداز میں ان الفاظ کے ذریعہ متوجہ فرمایا:

  ماذا استقبلكم؟ وماذا تستقبلون؟ثلاثا قال: فقال عمر بن الخطاب: أوحي نزل؟ أوعد حضر؟ قال: فقال: إن اللّٰه يغفر في أول ليلة من شهر رمضان لكل أهل هذه القبلة . 7
  تین بار آپ نے (سوالیہ انداز میں پوچھا)تم کس کا استقبال کررہے ہواور کون تمہارا استقبال کرنے والا ہے؟ حضرت عمربن خطاب نے پوچھا: یا رسول اللہ ! کوئی وحی نازل ہوئی ہے ؟ یا کسی دشمن کا سامنا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اللہ تعالی رمضان المبارک کی پہلی رات میں اس قبلہ والوں کی مغفرت فرماتے ہیں ۔

یعنی رمضان المبارک کی عظمت و شان یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے جو اخلاص اور توجہ کے ساتھ اپنی دنیا وعاقبت کی خیر وفلاح چاہتا ہےتورب تعالی اس ماہ کی عبادات کی ادائیگی سے قبل ہی اپنے ایسے مخلص بندوں پر اپنا لطف وکرم بخشش اور مغفرت کے ذریعہ ارزاں فرمادیتا ہے ۔

آپ کے معمولات رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر یکسر بدل جایا کرتےتھےجس کا اثر آپ کی طبیعت ِمبارکہ پر واضح نظر آتا تھا۔ سیدہ عائشہ آپ کی اس کیفیت کا ذکر ان الفاظ میں بیان فرماتی ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا دخل رمضان تغير لونه، وكثرت صلاته، وابتهل في الدعاء، وأشفق منه. 8
  جب رمضان المبارک (کا مہینہ)داخل ہوتا تو آپ کا رنگ مبارک تبدیل ہوجاتااور آپ نمازوں کی کثرت فرماتے،اور دعاوٴں میں خوب آہ وزاری کرتے،اور آپ پر رب تعالی کا خوف اور خشیت (مزید) غالب ہوجایا کرتی تھی۔

حضور کا معمول ماہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی روزہ رکھنے کا تھا لیکن آپ رمضان المبارک کے استقبال کی تیاری کرتے ہوئے شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔حضرت عائشہ اس حوالہ سے آپ کا معمول اس طرح بیان فرماتی ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم، وما رأيت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان، وما رأيته في شهر أكثر صياما منه في شعبان. 9
  حضور کو ہم روزہ رکھتے ہوئے اس طرح دیکھتے گویا کہ اب وہ روزہ رکھنا ترک نہیں فرمائیں گےاور پھر کبھی ہم انہیں روزہ رکھے بغیر اس طرح دیکھتے گویا کہ وہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے اور میں نے حضور اقدس کو نہیں دیکھا کہ آپ نےسوائے رمضان المبارک کے کسی مہینے میں تمام دن روزے رکھے ہوں اور میں نے ایسا بھی کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے شعبان المعظم کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینہ میں روزے رکھے ہوں (سوائے رمضان کے )۔

رمضان المبارک کی آمد سے ماحول میں تبدیلی

اللہ تعالی خود اس ماہ مقدس کا استقبال اہل ایمان کے شوقِ عبادت کو مہمیز دینے کی خاطر اس طرح فرماتا ہے کہ رسول کریم نے فرمایا:

  إذا كانت أول ليلة من رمضان، صفدت الشياطين ومردة الجن، وغلقت أبواب النار، فلم يفتح منها باب، وفتحت أبواب الجنة، فلم يغلق منها باب، ونادى مناد: يا باغي الخير أقبل، ويا باغي الشر أقصر، وللّٰه عتقاء. 10
  جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات کو قید کرلیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا ، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اوران میں سے کوئی دروازہ نہیں بند کیا جاتا،اور ایک پکارنے والا آواز لگاتا ہے،اے خیر کے طالب! آگے بڑھ اور اے شر کا ارادہ کرنے والے ! بس کردے ،اور اللہ کی جناب سے (ان راتوں میں ) بہت سارے لوگ(جہنم سے) رہا کردیے جاتے ہیں۔

حضور اور رمضان المبارک کی شروعات

حضور ماہ رمضان المبارک میں استقبال رمضان کی سعادت کے حصول کے بعد بنفس نفیس خود بھی عبادات کی ادائیگی کےلیے کمربستہ ہوجاتےاور اپنے گھر والوں کو بھی کثرت عبادات کی ترغیب دیا کرتے تھے۔آپ اس ماہ مبارک میں اپنے خانگی معمولات یکسر تبدیل فرمادیا کرتے تھے جسے حضرت عائشہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا دخل شهر رمضان شد مئزره، ثم لم يأت فراشه حتى ينسلخ. 11
  جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتا تو آپ اپنا تہہ بند کَس لیا کرتے تھےاور پھر اپنے بستر پر(شوق عبادات کی وجہ سے) تشریف نہیں لاتے تھے،جب تک رمضان کا مہینہ ختم نہ ہو۔

رمضان المبارک کے مہینہ میں کیے جانے والے اعمال دیگر مہینوں کے مقابلہ میں اجر وثواب کے لحاظ سے کئی گنابڑھ جاتے ہیں۔اس کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی ہےکہ اللہ تعالی بھی بندوں کی طرف سے نیکیوں میں مسابقت(مقابلہ) دیکھنا چاہتا ہے ۔اس سلسلہ میں حضرت عبادہ بن صامت نے آپ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے:

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال يوما وحضر رمضان: أتاكم رمضان شهر بركة، فيه خير يغشيكم الله فيه، فتنزل الرحمة، وتحط الخطايا، ويستجاب فيه الدعاء، فينظر اللّٰه إلى تنافسكم، ويباهي بكم ملائكته، فأروا اللّٰه من أنفسكم خيرا، فإن الشقي من حرم فيه رحمة اللّٰه عز وجل. 12
  رمضان المبارک شروع ہوا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس برکت والا مہینہ آگیا ہے جس میں بھلائی ہے، اور اللہ تعالی اس ماہ میں تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے، اس کی رحمتیں تم پر بکثرت نازل ہوتی ہیں ،تمہاری خطائیں معاف اور دعائیں قبول ہوتی ہیں،اور اللہ تعالی تمہاری (نیکی میں مسابقت) کو دیکھتا ہے،اور فرشتوں پر تمہارے (اعمال خیر کی وجہ سے) فخر فرماتاہے،پس اللہ تعالی کو اپنی ذات سے نیکیوں کی کثرت پر راضی کرنے کی کوشش کرو۔ یقینابدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینہ کو پاکر بھی اس میں اللہ تعالی کی بے پایاں رحمت سے محروم رہا۔

استقبال رمضان اور سخاوت

آپ عام معمولات ذندگی میں بھی سراپا جود وسخا تھے لیکن رمضان المبارک کے آغاز سے ہی آپ کی سخاوت و فیاضی بےمثال ہوجایا کرتی تھی۔آپ کے اس جود وکرم کے سیل رواں کا منظر حضرت عبداللہ ابن عباس اس طرح بیان فرماتے ہیں:

  كان النبي صلى اللّٰه عليه وسلم أجود الناس بالخير، وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل، وكان جبريل عليه السلام يلقاه كل ليلة في رمضان، حتى ينسلخ، يعرض عليه النبي صلى اللّٰه عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل عليه السلام، كان أجود بالخير من الريح المرسلة. 13
  آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،لیکن جب ماہ رمضان آتا اور حضرت جبرئیل آپ سے ملتے، تو آپ کی سخاوت اوربھی زیادہ ہوجاتی اور آپ سے حضرت جبرئیل رمضان المبارک کی ہر رات میں ملتے حتیٰ کے رمضان ختم ہوجاتا۔ نبی ان کے ساتھ قرآن کریم دہراتے اور (ان ایّام میں)آپ کی سخاوت بارش برسانی والی ہواؤں سے بھی زیادہ تیز ہوجا یا کرتی تھی۔

رمضان المبارک کے استقبال سے محروم لوگ

آپ کوہمیشہ یہ فکر لاحق رہتی کہ رمضان المبارک کی گھڑیوں کی کماحقہ قدردانی کی جائے۔یہی وجہ تھی کہ آپ نے اس ماہ مبارک کے ہر لمحے اور ہر عشرے کی عبادات کا اجر وثواب بتا کر امت مسلمہ کو اس ماہ میں عبادات کرنے کی طرف متوجہ فرمایا۔اس کے ساتھ اس ماہ کی اہمیت اور اس میں اللہ تعالی کی رضا کے حصول سے غافل اہل ایمان کوخود اپنی شقاوت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کعب بن عُجرۃ روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:

  «احضروا المنبر» فحضرنا فلما ارتقى درجة قال: «آمين» ، فلما ارتقى الدرجة الثانية قال: «آمين» فلما ارتقى الدرجة الثالثة قال: «آمين»، فلما نزل قلنا: يا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم! لقد سمعنا منك اليوم شيئا ما كنا نسمعه قال: " إن جبريل عليه الصلاة والسلام عرض لي فقال: بعدا لمن أدرك رمضان فلم يغفر له قلت: آمين، فلما رقيت الثانية قال: بعدا لمن ذكرت عنده فلم يصل عليك قلت: آمين، فلما رقيت الثالثة قال: بعدا لمن أدرك أبواه الكبر عنده أو أحدهما فلم يدخلاه الجنة قلت: آمين. 14
  منبر کے قریب ہو جاو۔ ہم لوگ حاضر ہو گئے۔ جب آپ نے منبر کے پہلے درجے پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین۔ جب دوسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین۔ جب تیسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین۔ جب آپ خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اُترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل میرے سامنے آئے تھےجب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔ میں نے کہا آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ آپ پر درُود نہ بھیجے۔ میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے اور وہ انکو راضی کرکے خود کو جنت میں داخل نہ کروالے۔ میں نے کہا آمین۔

گویا رمضان المبارک مسلمانوں کےلیے انمول عطیہ خداوندی ہے جس میں اللہ کو راضی کرکے اپنی بخشش کروانے کے لئے عبادات کی کثرت کرنی چاہیےاور اس کا بھرپور استقبال کرتے ہوئے خود کو عبادت کے لئے تیار کرنا چاہئے ۔

 


  • 1 ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، ج-4، حدیث: 2346، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 180
  • 2 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 3534، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 348
  • 3 أبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، الدعاء للطبرانی، حدیث: 913، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1413ھ، ص: 284
  • 4 أبو بکر عبد اللہ بن محمد ابن أبی شیبۃ، المصنف فی الأحادیث والآثار،حدیث: 29749، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد،الریاض، السعودية،1409 ھ،ص: 94
  • 5 أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري، صحیح ابن خزیمة، حدیث: 1887، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 191
  • 6 ایضاً، حدیث: 1886، ص: 190
  • 7 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الاوسط، حدیث:4935، ج-5، مطبوعۃ: دار الحرمین،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 158
  • 8 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 3353، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 234
  • 9 ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق النیسابوری الاسفرائیینی، مستخرج أبی عوانۃ، حدیث: 2936، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان،1998م، ص: 226
  • 10 أبو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجہ، حدیث: 1642، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:293
  • 11 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، شعب الإیمان، حدیث: 3352، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2003م، ص: 234
  • 12 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، مسند الشامیین، حدیث:2238، ج-3، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984م، ص: 271
  • 13 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، حدیث: 1902، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 306
  • 14 ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث:7256، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 170