کوئی کتنا ہی بزرگ اور کیسا ہی محبوب کیوں نہ ہو لیکن طبعی اور فطری طور پر اس کے فضلات بول وبراز، پسینہ، رینٹھ، تھوک وغیرہ موجبِ نفرت ہی ہوتے ہیں۔ عقیدت اور چیز ہے لیکن کثیف اور غلیظ چیزوں سے طبعی طور پر نفرت کا ہونا امرِ طبعی ہے ۔ صحابۂ کرام حضورنبی کریم کے فضلات شریفہ، بول وبراز وپسینہ کورغبت اور چاہت کے ساتھ حاصل کرتے تھے، حضور کے لعاب مبارک اور بینی مبارک کی ریزش کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے تھے۔ صحیح البخاری شریف "کتاب الشروط" کے باب "الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اھل الحرب وکتابۃ الشروط" میں ایک طویل حدیث میں واقعہ حدیبیہ کا بیان ہے اس حدیث میں حضرت عروہ بن مسعود کو کفار مکہ کا حضور نبی کریم کی طرف گفتگو کے لیے بھیجنے اور عروہ کا واپس آکر وہاں کے حالات کا بیان ہے۔ اس کا کچھ حصہ ملاحظہ فرمائیں:
وجعل یكلم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فكلما تكلم اخذ بلحیته والمغیرة بن شعبة قائم على راس النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومعه السیف و علیه المغفر فكلما اھوى عروة بیده الى لحیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ضرب یده بنعل السیف وقال له آخر یدك عن لحیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم…الخ. فرجع عروة الى اصحابه فقال اى قوم واللّٰه لقد وفدت على الملوك ووفدت على قیصر وكسرى والنجاشى واللّٰه ان رایت ملكا قط یعظمه اصحابه ما یعظم اصحاب محمد محمداً صلى اللّٰه علیه وسلم ان تنخم نخامة الا وقعت فى كف رجل منھم فذلك بھا وجھه وجلدہ واذا امرھم ابتدروا امره واذا توضا كادوا یقتتلون على وضوئه واذا تكلم خفضوا اصواتھم عنده وما یحدون الیه النظر تعظیماً له … الخ.1
(اس حدیث مبارکہ کو روایت کرنے والے حضرت مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں) پھر وہ (عروہ بن مسعود) نبی پاک سے بات کرررہا تھا وہ جب بھی بات کرتا تو آپ کی مبارک ڈاڑھی کو پکڑتا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ حضور نبی کریم کے سر کے پاس کھڑے ہوئے تھے ان کے پاس تلوار تھی اور ان کے سر پر خود تھا پس جب بھی عروہ اپنا ہاتھ نبی پاک کی مبارک ڈاڑھی کی طرف لے جاتا وہ اپنی تلوار کے پچھلے حصہ کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ رسول اﷲ کی مبارک ڈاڑھی سے اپنا ہاتھ پیچھے کرو… الخ۔پھر عروہ اپنی قوم کی طرف واپس گئے اور کہا: اے لوگو! اﷲ کی قسم! میں بادشاہوں کے پاس گیا ہوں اور میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں اور اﷲ کی قسم! میں نے ہرگز نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کی اس کے لوگ اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا) محمد ( ) کے اصحاب (سیدنا) محمد ( ) کی کرتے ہیں وہ جب بھی بلغم تھوکتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی مرد کے ہاتھ میں آجاتا ہے وہ اس بلغم کو اپنے چہرے اور اپنے بدن پر ملتا ہے اور جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو ء کرتے ہیں تو وہ ان کے وضوء کا بچا ہوا پانی لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے ہیں گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے سامنے وہ سب اپنی آوازوں کو پست کردیتے ہیں اور وہ ان کی تعظیم کے لیے ان کو نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔
صحابۂ کرام کیسی رغبت اور شوق کے ساتھ حضور ریزش بینی کو اپنے بدن اور چہروں پر ملتے تھے۔ امام بیہقی کی روایت میں یہی بات یوں مذکور ہے:
فواللّٰه ما تنخم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم نخامة الا وقعت فى كف رجل منھم فدلك بھا وجھه وجلده.2
خدا کی قسم حضور نے بینی مبارک کی کوئی ریزش نہیں پھینکی لیکن وہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر پڑی جس کو اس نے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔
امام بدر الدین عینی حنفی اس کی پاکی کےحکم کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فیه طھارة النخامة والشعر منفصل.3
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناک کی ریزش اور جو بال جسم سے جدا ہوں وہ پاک ہیں۔
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں:
وفیه طھارة النخامة والشعر والمنفصل والتبرك بفضلات الصالحین الطاھرة.4
اس حدیث میں ریزش اور جدابال کی طہارت کا ثبوت ہے اور صالحین کے فضلات طاہرہ سے تبرک حاصل کرنے کا ثبوت ہے۔(مگر فرقِ مراتب کے لحاظ کے ساتھ)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اقدس کی بینی مبارک کی ریزش بھی پاک و صاف تھی اور صحابۂ کرام اس کو تبرک کے طور پر اپنے ہاتھوں اور جسموں پر ملا کرتے تھے۔