Encyclopedia of Muhammad

انگشتانِ مصطفٰی

حضور دو عالم نور مجسم کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے نورِ نبوّت کے ساتھ ساتھ نورِ ظاہری بھی بدرجہ اتم عطا فرمایا۔ اللہ ربُّ العزّت نے آپ کو ظاہری و باطنی طور پر علی اَکمل الوجہ سراپائے حسن و کمال و جمال تخلیق فرمایا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روم روم نہایت حسین و لطیف تھا ۔ چہرۂ انور پر تجلّیات ربّانی ظاہر و عیاں رہتیں تھیں۔ رُخِ انور پرکسی کی نگاہ پڑجاتی تو وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں سرخی کے ڈورے حُسن و جمال کے عروج پر پہنچے رہتے۔یہی نہیں فرطِ رحمت سے اگر کسی شٔے کو چُھو لیتے تو وہ بابرکت ہوجاتی، کسی بچے کے سَر پر ہاتھ رکھ دیتے تو اس کی مہک کئی روز برقرار رہتی۔ انگشت مبارک جس جانب فرمادیتے معجزات کا ظہور ہوجاتا۔ حضور کےدستِ اقدس تو کیا محض انگشتان مبارک کے کئی معجزات واقع ہوئے۔

اوصافِ انگشتِ نبی

آپ کی انگلیوں کے اوصاف ایسے تھے کہ قدرے لمبی، قوی اور زیباتھی۔ آپ کی مبارک انگلیوں کے اوصاف مولائےکائنات علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیان کرتے ہوئےفرمایا:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شَثْنُ الكفَّین والقدمین سائل الأطراف.1
  رسول اکرم کی باکر امت ہاتھ اور قدم گدازتھےاورانگلیاں مبارک طویل تھیں۔ 2

معجزاتِ انگشتِ طیّبہ

حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اﷲ کا معجزہ کہ اﷲ کے حکم سے آپ نے پتھر پر اپنا عصا مبارک مارا تو پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ قرآن حمید میں اللہ تعالیٰ نے اس معجزہ کو یوں ذکر فرمایا ہے:

  فَانْفَجَرَتْ مِنْه اثْنَتَا عَشْرَة عَینًا 60 3
  پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔

بلاشبہ یہ حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اﷲ کا بہت بڑا معجزہ تھا مگر یہی معجزہ حضور نبی کریم کے دست مبارک پر اس طرح ظاہر ہوا کہ آپ کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں :

  ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم دعا باناء من ماء فاتى بقدح رحراح فیه شىء من ماء فوضع اصابعه فیه قال انس: فجعلت انظر الى الماء ینبع من بین اصابعه. قال انس: فحزرت من توضا ما بین السبعین الى الثمانین.4
  بے شک حضور نے پانی کا برتن منگایا تو ایک کشادہ پیالہ لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا حضور نے اس میں اپنی انگلیاں رکھ دیں حضرت انس نے کہا: میں اس پانی کی طرف دیکھ رہا تھا جو حضور کی انگلیوں سے ابل رہا تھا۔ حضرت انس نے کہا: میں نے اندازہ کیا جن لوگوں نے اس پانی سے وضو کیا ان کی تعداد ستر سے اسی تک تھی۔

ایک اورروایت میں حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم و حانت صلوة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم یجدوه فاوتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بوضوء فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى ذلك الاناء یده وامر الناس ان یتوضووا منه قال: فرایت الماء ینبع من تحت اصابعه حتى توضووا من عند اخرھم.5
  میں نے حضور کو دیکھا اس وقت نماز عصر کا وقت آچکا تھا۔ صحابہ کرا م نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر انہیں نہ ملا۔ حضور کے سامنے تھوڑا سا پانی پیش کیا گیا تو حضور نے اپنا دست مبارک اس میں ڈالا اور لوگوں سے ارشاد فرمایا: اب وضو کرتے جاؤ۔ حضرت انس کا بیان ہے: میں نے حضور کی انگلیوں سے پانی ابل ابل کر نکلتے دیکھا اور تمام صحابہ کرام نے اس سے وضو کیا۔

حضور نبی کریم کی انگشت ہائے مبارک سے کثیر مقامات پر پانی جاری ہونے کے معجزہ کو صحابہ کرام کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں حضرت انس ، حضرت جابر ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابو یعلی ، حضرت ابورافع ، خادم رسول حضرت عبداﷲ بن خطب ، حضرت حبان بن بج اور زیاد بن حارث صدائی شامل ہیں۔ایسے مواقع جن میں وضوء کے لیے پانی کم ہوگیا یاپینےکو میسر نہ تھاتو سرکار دو عالم نےچُلُّوبھرپانی کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھا جس سےآپ کی انگلیوں مبارک سے چشمے کی طرح پانی اُبلنے لگااورقلیل پانی کثیرہوگیا۔ ایک موقع کےمتعلق حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوجاتا۔

حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:

  عطش الناس یوم الحدیبیة والنبى صلى اللّٰه علیه وسلم بین یدیه ركوة فتوضا فجھش الناس نحوه فقال: مالكم؟ قالوا: لیس عندنا ماء نتوضا ولا نشرب الا ما بین یدیك. فوضع یده فى الركوة فجعل الماء یثور بین اصابعه كامثال العیون، فشربنا وتوضانا قلت: كم كنتم؟ قال: لو كنا مائة الف لكفانا كنا خمس عشرة مائة.6
  حدیبیہ کے روز لوگوں کو پیاس لگی اور حضور کے پاس ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی جس سے حضور نے وضو فرمایا پھر لوگ آپ کے گرد ہوکر جمع ہوگئے دریافت فرمایا: تمہیں کیا درپیش ہے؟ عرض گزار ہوئے ہمارے پاس وضو کے لیے پانی نہیں ہے، بس یہی ذرا سا پانی ہے جو حضور کے حضور رکھا ہوا ہے۔ پس آپ نے اپنا دست مبارک چھاگل میں ڈالا تو آپ کی انگشت ہائے مبارک سے چشمہ ابل پڑا ۔ پس ہم نے پیا اور وضو کیا میں (سالم راوی) نے دریافت کیا: تم اس وقت کتنے تھے؟ کہا: اگر ہم ایک لاکھ ہوتے تب بھی پانی سب کے لیے کافی ہوتا جبکہ ہم پندرہ سو تھے۔

امام مسلم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔7

حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:

  قد رایتنى مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وقد حضرت العصر ولیس معنا مآء غیر فضلة فجعل فى انآء فاتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم به فادخل یده فیه وفرج اصابعه ثم قال: حى على اھل الوضوء البركة من اللّٰه. فلقد رایت المآء یتفجر من بین اصابعه، فتوضا الناس وشربوا فجعلت لاآلو ما جعلت فى بطنى منه فعلمت انه بركة، قلت لجابر: كم كنتم یومئذ؟ قال: الفا واربعمائة. تابعه عمرو عن جابر وقال حصین و عمرو ابن مرة عن سالم عن جابر: خمس عشرة مائة. وتابعه سعید بن المسیب عن جابر.8
  میں نے حضور کی معیت(ساتھ) میں دیکھا کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا لیکن ذرا سے بچے ہوئے پانی کے سوا وضوکےلیےکچھ نہ تھا جو ایک برتن میں جمع کرکے نبی کریم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔حضور نے اپنا دست مبارک اس میں داخل کیا اور پھر انگشت ہائے مبارک کھول دیں۔ پھر ارشاد فرمایا : وضو کرنے والے آئیں اور اﷲ کی برکت سے فائدہ اٹھائیں۔ پس میں نے دیکھا کہ پانی حضور کی انگشت ہائے مبارک سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے۔ پس لوگوں نے وضو کیا اور پانی پیا۔ چنانچہ میں نے اپنا پیٹ بھرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کیونکہ میں جان چکا تھاکہ یہ پانی بابرکت ہے۔ میں (سالم بن الجعد) نے حضرت جابر کی خدمت عرض کی :اس روز آپ کتنے حضرات تھے؟ انہوں نے فرمایا: چودہ سو۔ عمرو بن دینار نے بھی حضرت جابر سے اس کی روایت کی ہے۔ حصین بن عمرو بن مرہ نے سالم سے اور انہوں نے حضرت جابر سے پندرہ سو حاضرین کی روایت کی ہے اور اسی طرح سعید بن مسیب نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ مزید بیان کرتے ہیں:

  كنا ألفا وأربعمائة یعنى: یوم عز الماء، فدعا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمیضأة من ماء، فجعل فیھا كفه، فجعل الماء یفور من بین أصابعه، فاغتسلوا وتوضؤوا وشربوا.9
  جس دن پانی کم تھا اس دن ہماری تعداد ایک ہزار چار سو تھی،حضور نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اس میں اپنی ہاتھ مبارک ڈال دیا، آپ کی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے، صحابہ کرام نے دھویا، وضو کیا اور پیا بھی۔

حضرت جابر بن عبداﷲ کی ایک اورروایت ہے۔فرمایا:

  أصابنا عطش فجھشنا فانتھینا إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، فوضع یده فى تور، فجعل یفور كأنه عیون من خلل أصابعه، وقال: اذكروا اسم اللّٰه. فشربنا حتى وسعنا وكفانا.10
  حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں۔ ہمیں پیاس لاحق ہوئی ہم گھبراگئے اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور نے اپنا دست اقدس ایک برتن میں رکھا تو وہ پانی یوں جوش مارنے لگا جیسے وہ چشمہ ہو جو آپ کی انگلیوں میں سے نکل رہا تھا۔ حضور نے ارشاد فرمایا: اﷲ کا نام لے کر اس پانی کو استعمال کرنا شروع کرو۔ہم نے وہ پانی پیا۔ یہاں تک کہ وہ ہم سب کے لیے کافی ہوگیا۔

حضرت علقمہ بیان کرتے ہیں:

  سمع عبداللّٰه بخسف فقال: كنا اصحاب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم نعد الایات بركة وانتم تعدونھا تخویفا انا بینما نحن مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولیس معنا ماء فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: اطلبوا من معه فضل ماء.فاتى بماء فصبه فى الاناء ثم وضع كفه فیه، فجعل الماء یخرج من بین اصابعه، ثم قال: حى على الطھور المبارك و البركة من اللّٰه تعالى. فشربنا. وقال عبداللّٰه: كنا نسمع تسبیح الطعام وھو یؤكل.11
  حضرت عبداﷲ بن مسعود نے کہیں زمین دھنسنے کے بارے میں سنا تو ارشاد فرمایا: ہم حضور کے اصحاب ظاہر ہو نے والی نشانیوں کو برکت شمار کرتے تھے جبکہ تم انہیں خوف زدہ کرنے والی چیز سمجھتے ہو۔ ایک مرتبہ ہم حضور کے ہمراہ تھے۔ ہمارے پاس پانی موجود نہیں تھا۔ حضور نے ارشادفرمایا: کسی کےپاس اضافی پانی ڈھونڈو۔ وہ پانی لایا گیا، حضور نے اسے برتن میں انڈیلا پھر آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس میں رکھا، آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے لگا۔ حضور نے ارشاد فرمایا: بابرکت طہارت دینے والے پانی کی طرف آؤ اور برکت اﷲ کی طرف سے ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں: پس ہم نے پانی پیا۔حضرت عبداﷲ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ کھانے کی تسبیح سن لیا کرتے تھے جبکہ اس کھانے کو کھایا جارہا ہوتا تھا۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود بیان کرتے ہیں:

  كنا مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فلم یجدوا ماء فاتى بتور فادخل یده، فلقد رایت الماء یتفجر من بین اصابعه، ویقول: حى على الطھور والبركة من اللّٰه عزوجل. قال الاعمش فحدثنى سالم بن ابى الجعد قال: قلت لجابر: كم كنتم یومئذ؟ قال: الف و خمسمائة.12
  ہم نبی کریم کے ہمراہ تھے لوگوں کو پانی نہ ملا تو آپ کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ نے اپنا دست اقدس اس میں ڈال دیا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں سے پھوٹ کر نکل رہا تھا اور آپ فرمارہے تھے: آؤ پاکیزگی اور اﷲکی برکت کی طرف۔

اعمش بیان کرتے ہیں: انہیں سالم بن ابی الجعد نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر سے پوچھا: آپ اس دن کتنی تعداد میں تھے؟ انہوں نے فرمایا: پندرہ سو۔

چُلُّو بھر پانی کثیرہوگیا

حضرت زیاد بن حارث صدائی فرماتے ہیں: حضور ایک سفر میں طلوع فجر سے پہلے رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا بہت تھوڑا ہے جو آپ کو کافی نہ ہوگا فرمایا اس کو ایک برتن میں ڈال کر لے آؤ! فرماتے ہیں میں لے آیا:

  فوضع كفه فى الماء فرأیت بین إصبعین من أصابعه عینا تفور فقال: ناد فى أصحابى من كان له حاجة فى الماء فنادیت فیھم فأخذ من أراد منھم فقلنا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إن لنا بئرا إذا كان الشتاء وسعنا مائھا واجتمعنا علیھا وإذا كان الصیف قل ماؤھا فتفرقنا على میاه حولنا وقد أسلمنا وكل من حولنا لنا عدو، فادع اللّٰه لنا فى بئرنا أن یسعنا ماؤھا فنجتمع علیھا ولا نتفرق فدعا بسبع حصیات فعركھن فى یده ودعا فیھن ثم قال: اذھبو بھذه الحصیات فإذا أتیتم البئر فالقوا واحدة واحدة واذكروا اسم اللّٰه. قال الصدائى ففعلنا ما قال لنا فما استطعنا أن ننظر إلى قعرھا یعنى البئر.13
  تو آپ نے اپنا دست مبارک اس میں رکھا میں نے دیکھا کہ آپ کی دو انگلیوں کے بیچ میں سے چشمہ جوش مارنے لگا تو آپ نے فرمایا :لوگوں میں پکار دو(اعلان کردو) جس کو پانی کی حاجت ہوآجائے۔ میں نے پکارا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس پانی میں سے لیا یہ دیکھ کر ہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہمارے قبیلہ میں ایک کنواں ہے موسم سرما میں تو اس کا پانی ہم سب کو کافی ہوتا ہے اور جب موسم گرما آتا ہے تو اس کا پانی بہت کم ہوجاتا ہے۔ ہم لوگ متفرق ہوکر جہاں پانی پاتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں اب چونکہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اس وجہ سے اطراف کے قبیلے ہمارے دشمن ہوگئے ہیں۔ آپ دعا فرمائیں کہ ہمارے کنوئیں کا پانی ہمیں کافی ہوجائے اور ہم ایک ہی جگہ جمع رہیں،متفرق ہونے کی ضرورت نہ ہو۔ حضور نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا: یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو۔ فرماتے ہیں: جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اس ضمن میں امام طبرانی کی روایت میں ہے:

  أتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فبايعته، فبلغنى أنه یرید أن یرسل جیشا إلى قومى، فقلت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم! رد الجىش، فأنا لك بإسلامھم وطاعتھم، قال: افعل. فكتب إلیھم، فأتى وفد منھم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بإسلامھم وطاعتھم، فقال: یا أخا صداء! إنك لمطاع فى قومك. قلت: بل ھداھم اللّٰه وأحسن إلیھم قال: أفلا أؤمرك علیھم؟ قلت: بلى، فأمرنى علیھم، فكتب لى بذلك كتابا، وسألته من صدقاتھم، ففعل، وكان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یومئذ فى بعض أسفاره، فنزل منزلا فأعرسنا من أول اللیل، فلزمته وجعل أصحابه ینقطعون حتى لم یبق معه رجل منھم غیرى، فلما تحین الصبح أمرنى فأذنت، ثم قال لى: یا أخا صداء! معك ماء؟ قلت: نعم! قلیل لا یكفیك. قال: صبه فى الإناء ثم ائتنى به. فأتیته، فأدخل یده فیه، فرأیت بین كل إصبعین من أصابعه عینا تفور قال: یا أخا صداء! لولا أنى أستحىى من ربى لسقینا واستقینا، ناد فى الناس من كان یرید الوضوء. قال: فاغترف من اغترف، وجاء بلال لیقیم، فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: إن أخا صداء أذن، ومن أذن فھو یقیم…الخ.14
  راوی (زیادبن الحارث الصدائی)فرماتے ہیں: میں نبی کریم کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بیعت کی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ میری قوم کی طرف ایک لشکر بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! لشکر کو واپس فرما دیں میں اپنی قوم کے اسلام اور فرما نبرداری کی آپ سے ضمانت لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے ایسا کرلو۔ آپ نے قوم کی طرف ایک خط لکھا (کچھ عرصہ بعد ) اس قوم میں سے ایک وفد نبی کریم کی خدمت میں مسلمان ہوکر فرمانبرداری کے ساتھ حاضر ہوا حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا: اے صداء 15کے رہنے والے تم اپنی قوم کے پیشوا ہو (کہ ان سب نے تمہاری بات مان لی) تو میں نے عرض کی :نہیں! بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ہدایت عطا فرمائی ہے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ فرمایا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ان سب کا امیر نہ بنادوں؟ تو میں نے عرض کی: ٹھیک ہے ۔پھر آپ نے مجھے ان سب کا امیر بنا دیا اور اس حوالے سے مجھے ایک خط بھی لکھوا کر عنایت فرمایا ۔میں نے ان سب کے صدقات کے بارے میں بھی آپ سے دریافت کیا تو آپنے جواب عطا فرما دیا ۔اس دوران نبی کریم اپنے کسی سفر میں تھے تو آپ نے ایک مقام پر پڑاؤ فرمایا اور رات کے ابتدائی حصہ میں آپ نے آرام فرمایا تو میں آپ کے ساتھ ہی رہا ۔آپ کے صحابہ جدا ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ کے ساتھ میرے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا ۔پس جب صبح کا وقت نمودار ہوا تو مجھے آپ نے اذان کا حکم دیا تو میں نے اذان دی۔ پھر آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے صداء کے رہنے والے کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کی: ہے! لیکن آپ کے لیے ناکافی ہے۔ آپ نے فرمایا: اسی تھوڑے پانی کو کسی برتن میں ڈال کر میرے پاس لے آؤ۔ میں نے ایسا کیا اور آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ داخل فرمایا۔ میں نے آپ کی انگلیوں میں سے ہر دو انگلیوں کے درمیان ایک چشمہ پھوٹتا ہوا دیکھا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اے صداء کے رہنے والے اگر مجھے اپنے رب سے حیا ء نہ ہوتی تو ہم ضرور سیراب رہتے اور دوسروں کو سیراب کرتے (لیکن میں حکم ربی کا فرمانبردار ہوں) لوگوں میں اعلان کردو کہ جو وضو کرنا چاہے(تو آکر کرلے)۔روای کہتے ہیں: جس جس نے بھی چاہا وضو کرلیا اور پھر حضرت بلال آگے بڑھے تاکہ اقامت کہیں، نبی کریم نے ارشاد فرمایا : بے شک صداء کے رہنے والے نے اذان دی ہے وہی اقامت کہےجس نے اذان دی۔۔۔الخ’’

ایک مشکیزہ اور پوری جماعت

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں:

  دعا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بلالاً فطلب بلال الماء ثم جآء فقال: لا واللّٰه ما وجدت الماء. فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: فھل من شن؟ فاتاه بشن، فبسط كفه فیه فانبعثت تحت یدیه عین. قال: فكان ابن مسعود یشرب وغیرہ یتوضا.16
  حضور نے حضرت بلال کو بلایا۔ حضرت بلال پانی ڈھونڈنے گئے۔ پھر آکر عرض کی: اﷲ کی قسم! کہیں پانی نہیں ملا۔ حضور نے دریافت فرمایا: کیا کوئی مشکیزہ ہے؟ حضرت بلال آپ کے پاس ایک مشکیزہ لے کر آئے۔ حضور نے اپناہاتھ اس میں ڈالا تو آپ کے ہاتھ سے چشمہ جاری ہوگیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: حضرت ابن مسعود نے اس پانی کو پیا اور دیگر حضرات نے وضو کیا۔ ’’

امام طبرانی نے حضرت ابن ابی لیلیٰ انصاری سے اسی طرح انگشتان مبارکہ سے پانی جاری ہونے کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے وہ کہتے ہیں :

  فرایت الماء ینبع من بین اصابع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى روى القوم وسقوا ركابھم.17
  میں نے دیکھا کہ نبی اکرم کی انگلیوں سے چشمہ جاری ہے یہاں تک کہ پورے لشکر نے سیراب ہوکر پیا اور انہوں نے اپنی سواریوں کو بھی پلایا۔

حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں:

  خرج مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى سفر فعرسوا فقال: یا قوم! كل رجل یلتمس فى اداوته. فلم یجدوا غیر واحد، فصبه فى اناء ثم قال: توضؤوا. فنظرت الى الماء وھو یفور من بین اصابعه حتى توضأ الركب اجمعون، ثم جمع كفه فما خلتھا الا النطفة التى صبت اول مرة.18
  ایک سفر میں وہ رسول اﷲ کے ساتھ چلے ایک مقام پر رات گزاری تو حضور نے فرمایا: لوگو! اپنے اپنے برتنوں میں پانی دیکھو۔ بجز ایک آدمی کے کسی کے پاس پانی نہ تھا۔ اسی کا پانی لے کر برتن میں ڈالا پھر فرمایا: لوگو! وضو کرو۔ میں نے دیکھا تو پانی نبی اکرم کی انگشت ہائے مبارکہ سے ابل رہا تھا، حتیٰ کہ پورے قافلے نے اس سے وضو کیا۔ پھر حضور نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا تو وہ اتنا ہی رہ گیا جتنا پہلی دفعہ حضور نے برتن میں ڈالا تھا۔ ’’

ایک انگشت مبارکہ کا اعجاز

حضرت ابو عمرو انصاری نے بیان فرمایا:

  كنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى غزوة غزاھا واصابت الناس مخصمة ثم دعا بركوة فوضعت بین یدیه ثم دعا بماء فصبه فیھا ثم مج فیھا وتكلم بماء شاء اللّٰه ان یتكلم ثم ادخل خنصره فیھا. فاقسم باللّٰه! لقد رایت اصابع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تتفجر بینابیع الماء ثم امر الناس فشربوا وسقوا وملاوا قربھم واداویھم، فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذه ثم قال : اشھد ان لا اله الا اللّٰه وان محمداً عبده ورسوله. لا یلقى اللّٰه بھما احد یوم القیامة الا دخل الجنة.19
  ہم ایک جنگ میں رسول اﷲ کے ساتھ شریک تھے۔ لوگوں کو شدید بھوک اور پیاس محسوس ہوئی تو حضور نے چمڑے کا ایک برتن منگوا کر سامنے رکھا پھر اس میں پانی کی کلی فرمائی اور کچھ پڑھا بعد ازاں حضور نے اس میں اپنی چھوٹی انگلی ڈالی۔ میں حلفاً کہتا ہوں : میں نے حضور کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے نکلتے دیکھے۔ حضور نے لوگوں کو حکم دیا : پانی پی لیں نیز اپنے مشکیزوں میں بھر لیں۔ لوگوں نے حکم کی تعمیل کی۔ حضور یہ معجزانہ منظر دیکھ کر مسکرا پڑے یہاں تک کہ حضور کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ. جو آدمی ان دو شہادتوں کے ساتھ اﷲ سے ملے گا اﷲ قیامت کے دن اسے جنت میں داخل کرے گا۔

حبان بن بح بیان کرتے ہیں:

  اسلم قومى فاخبرت ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جھز الیھم جیشا فاتیته فقلت له: ان قومى على الاسلام. فقال: كذلك؟ قلت: نعم. قال: فاتبعته لیلتى الى الصباح فاذنت بالصلاة لما اصبحت واعطانى اناء فتوضات فیه فجعل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اصابعه فى الاناء فانفجر عیونا قال: من اراد منكم ان یتوضا فلیتوضا.20
  میری قوم نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ حضور نے میری قوم کی طرف ایک لشکر روانہ فرماناہے تو میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ ! میری قوم مسلمان ہے۔ حضور نے فرمایا:ایسا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر میں صبح تک حضور کے ساتھ رہا۔ صبح ہوئی تو میں نے اذان کہی۔ حضور نے مجھے ایک برتن عطا فرمایا تاکہ وضو کروں۔ حضور نے اس برتن میں اپنی انگلیاں ڈالیں جن سے چشمے بہہ پڑے۔ حضور نے اعلان فرمایا: جو وضو کرنا چاہے وضو کرے۔

انگشتِ مبارکہ سے چاند کا چلنا

حضور کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب نے فرمایا:

  یا رسول اللّٰه دعانى الى الدخول فى دینك امارة لنبوتك رایتك فى المھد تناغى القمر وتشیر الیه باصبعك فحیث اشرت الیه مال.قال: انى كنت احدثه ویحدثنى ویلھینى عن البكاء واسمع وجبته حین یسجد تحت العرش.21
  یا رسول اﷲ ! مجھے تو آپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی، میں نے دیکھا کہ آپ گہوارے میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند جھک جاتا تھا۔ حضورنبی کریم نے فرمایا: میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آواز کو سنا کرتا تھا۔

حضور نے فرمایا کہ میں چاند کے زیر عرش سجدہ کرنے کے دھماکے کو سنتا ہوں۔

چاند دوپارہ ہوگیا

حضور کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ ہے جسے ’’شق القمر‘‘ کہتے ہیں، صحابہ کرام اور تابعین رحمہم اللّٰه کی ایک جماعت سے صحیح احادیث مبارکہ میں اس معجزہ عظیمہ کا بیان سلف سے خلف تک مشہور ہے۔

کفار مکہ آپ کو (معاذاﷲ) جادو گر کہتے تھے جب انہیں علم ہوا کہ جادو کا اثر اجرام فلکی پر نہیں ہوسکتا تو وہ حضور کی خدمت میں آگئے اور نبوت پر نشانی طلب کی آپ نے فرمایا تم کیا چاہتے ہو؟ ابو جہل نے کہا اگر تم چاند کے دو ٹکڑے کردو تو ہم آپ کو نبی تسلیم کرلیں گے۔

  فاشار النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بسبابته الى القمر فانشق القمر.22
  آپ نے اپنی مبارک انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو چاند دوٹکڑے ہوگیا۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:

چاند پھٹنے کا وہ قصہ ہے جو خرپوتی نے شرح قصیدہ بردہ میں نقل فرمایاکہ ابو جہل نے والی یمن حبیب ابن مالک کو لکھا، کہ تیرا دین مٹایا جارہا ہے جلد آ، حبیب یہ پیغام پاکر فوراً مکہ مکرمہ آیا، ابو جہل نے حضور کے متعلق بہت سی غلط باتیں کہیں، ابو جہل کا مقصد یہ تھا کہ حبیب کا اہل مکہ پر اچھا اثر ہے، یہ لوگوں کو سمجھا دے، کہ یہ دین قبول نہ کریں، حبیب نے کہا دونوں فریق کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، میں چاہتا ہوں، کہ حضور کا بھی کلام سن لوں، حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میں یمن سے آیا ہوں اور دیدار کرنا چاہتا ہوں۔

حضور مع صدیق اکبر اس مجلس میں تشریف لے گئے، جب پہنچے، تو تمام مجلس میں ہیبت چھاگئی، اور کسی کو کچھ عرض کرنے کی ہمت نہ ہوئی ، آخر حضور نے خود ہی دریافت فرمایا، کہ تم کیا دریافت کرنا چاہتے ہو؟ حبیب نے ہمت کرکے عرض کیا، کہ حضور نے دعویٰ نبوت فرمایا، اور نبوت کے لیے معجزہ ضروری ہے، فرمایا جو تو کہے وہ معجزہ دکھایا جائے، عرض کیا کہ میں تو آسمان کا معجزہ چاہتا ہوں، پھر یہ پوچھنا چاہتا ہوں، کہ میرے قلب میں تمنا کیا ہے؟ فرمایا چل! کوہ صفا پر تشریف لے جاکر پورے چاند کو اشارہ کیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، یہاں تک کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک دوسری طرف۔

پھر فرمایا کہ اے حبیب! دوسری بات بھی سن! تیری ایک لڑکی ہے ہمیشہ بیمار رہتی ہے، ہاتھ پاؤں سے معذور ہے، تو چاہتا ہے کہ اس کو شفا ہوجائے، اس کو بھی شفا ہوئی، یہ سنتے ہی حبیب بے اختیار اٹھے :

  لَآ اِلٰه اِلَّااللّٰه مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه.

جب گھر پہنچے، تو رات کا وقت تھا، دروازے پر آواز دی، وہ معذور لڑکی جو زمین سے اٹھ نہ سکتی تھی اٹھ کر آئی اور دروازہ کھولا، باپ کو دیکھ کر پڑھنے لگی:

  لَآ اِلٰه اِلَّااللّٰه مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه.23

حبیب نے پوچھا کہ بیٹی! تو نے یہ کلمہ کہاں سے سنا؟ تو کہنے لگی:

میں نے خواب میں ایک چاند سی صورت والے کو دیکھا، جو فرماتے ہیں، کہ بیٹی تیرے باپ تو مکہ میں آکر مسلمان ہوئے، اور تو یہاں کلمہ پڑھ لے، تو تجھ کو ابھی شفا ہوجائے، میں جو صبح کو اٹھی، تو کلمہ زبان پر جاری تھا، اور ہاتھ پاؤں سلامت تھے۔

اس واقعہ کو علامہ عمر بن احمد خرپوتی نے قصیدہ بردہ کی شرح میں نقل کیا ہے:24

بنی احمس کےسوار

حضرت جریر فرماتے ہیں:

  قال لى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم: الا تریحنى من ذى الخلصة؟ وكان بیتا فى خثعم یسمى الكعبة الیمانیة فانطلقت فى خمسین ومائة فارس من احمس وكانوا اصحاب خیل وكنت لا اثبت على الخیل فضرب فى صدرى حتى رایت اثر اصابعه فى صدرى وقال: اللّٰھم ثبته واجعله ھادیا مھدیا. فانطلق الیھا فكسرھا وحرقھا ثم بعث الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال رسول جریر: والذى بعثك بالحق ما جئتك حتى تركتھا كانھا جمل اجرب. قال: فبارك فى خیل احمس ورجالھا خمس مرات. 25
  حضور نبی کریم نے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاتے؟ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم میں ایک مکان تھا جو کعبہ یمانیہ سے موسوم تھا۔ حضرت جریر بن عبداﷲ بجلی نے کہا: میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر گیا۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور میں گھوڑے پر نہیں ٹھہرسکتا تھا۔ حضور نبی کریم نے میرے سینہ پر اپنا دست ِاقدس مارا حتیٰ کہ آپ کے انگلیوں مبارکہ کے نشان میں نے اپنے سینہ میں دیکھے۔اور فرمایا: اے اﷲ! اس کو گھوڑے پر ثابت رکھ اور اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ کر۔ حضرت جریر بن عبداﷲ نے کہا:میں کعبہ یمانیہ کی طرف چل دیا اور اس کو توڑدیا اور جلادیا۔ پھر حضرت جریر نے رسول اﷲ کی خدمت میں قاصد بھیجا۔ اس نے عرض کیا :اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں گویا کہ میں اس ذوالخلصہ کوخارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آیا ہوں۔( یعنی جیسے خارشی اونٹ بوجہ خارش سیاہ ہوجاتا کعبہ یمانیہ بھی جل کر اس طرح ہوگیا ہے۔) حضرت جریر نے کہا: آپنے قبیلہ احمس کے سواروں اور پیادوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔

امام احمد کی روایت میں ہے:

  فضرب فى صدرى حتى رایت اثر اصابعه فى صدرى.26
  حضور نبی کریم نے میرے سینہ پر اپنا دست اقدس مارا حتیٰ کہ آپ کی انگلیوں مبارکہ کے نشان میں نے اپنے سینہ میں دیکھے۔

حضور اکرم کی انگشتِ مبارک بھی منبع فیوض و برکات تھیں اسی لیے ان سے آپ کی پوری زندگی میں معجزات کا ظہور ہوتا رہا۔ آپ نے انگشتانِ مبارک سے پاک و صاف پانی کے ایسے چشمے جاری فرمائے کہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں صحابہ اس سے سیراب ہوئے پتھروں سے پانی نکلنا اگرنقلاً و عقلاً قبول کیا جاسکتا ہے تو سید دو عالم کی انگشتانِ مبارک سے پانی نکلنا بھی کسی صاحب عقل و خرد کے لیے عجیب بات ہرگز نہیں ہوسکتی حضور کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق کی انگشتانِ مبارک میں پکڑے قلم سے دریائے نیل جیسے عظیم الشان دریا کو جاری ہونے کا باذنِ الٰہی حکم دے سکتے ہیں تو حضور کے لیے اپنی انگشتانِ مبارک کی حرکت سے پانی کا ظہور اور اجراء کیا مشکل تھا آپ کی انگشتِ مبارک کے اشارے سے چاند کا ٹکڑے ہونا یا بچپن میں چاند کا آپ انگلشتانِ مبارک کی حرکت کے ساتھ حرکت کرنا آج اکیسویں صدی کے انسان کے لیے سمجھنا بہت آسان ہے (Remote Control Technology) نے ہر چیز کو ہاتھ سے کھولنے اور بند کرنے کے (Manual) تصور کو اذکارِ رفتہ بنا دیا ہے۔ کھلونوں (Toys) سے لیکر T.V/ A.C/Bulb/ پنکھے ، گاڑیاں ، ہوائی جہاز، گھروں ، دفتروں کے دروازے وغیرہ (Remote Control) سے کھلنے اور بند ہونے کا منظر آج تقریباً ہر شخص اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اب سائنس نے مزید ترقی کرکے خلا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں میل کے فاصلوں پر بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کو زمین کے خلائی مراکز سے کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سیاروں میں واقع ہونے والی تکنیکی خرابیوں کو زمین پر بیٹھے بیٹھے صحیح کردیا جاتا ہے۔ اگرآج کا انسان اپنی بنائی ہوئی اشیاء کو ہزاروں بلکہ لاکھوں میل کے فاصلے سے حرکت دے سکتا ، چلاسکتا، چڑھا سکتا ہے ، اتار سکتا ہے، تو اللہ کے بنائے ہوئے سیاروں کو ربِ حقیقی کے سب سے بڑے نبی و پیغمبر اپنی انگشت ِ مبارک سے کیوں حرکت نہیں دے سکتے۔ اس میں آخر حیرانگی کی کون سی بات ہے ! آج ویسے بھی انگوٹھے (Thumb) کے ذریعے ہر قفل کھلتا ہے اور مردہ مصنوعات میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ آقائے کریم کی انگشتِ مبارک کی حرکت سے اگر اللہ کی رحمت کے خزانے پانی کی شکل میں جاری ہوگئے یا چشمے پھوٹ پڑے تو کون سی انہونی بات ہوگئی۔ الغرض انگشتان مبارک کا یہ وہ اعجاز تھا جو خود آپ کے معجزات میں ایک چھوٹا سا معجزہ تھا۔ جبکہ آپ (صلی اللہ ) کی انگشتِ شہادت نے چاند جیسے دور سیّارے کو دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا۔ حضور معجزہ شق القمر (چاند کا دو ٹکڑے ہونا) یہ وہ معجزہ ہے جسے آپ نےچاندنی رات میں کفار مکہ کے اصرار پر کھلی آنکھوں سے لوگوں کو دکھایا اور پھر اس پر شہادت طلب فرمائی ۔ بیرون عرب سے بھی مسافروں اور تاجروں نے اس رات اس واقعے کی تصدیق کی تھی اور تو اور ہندوستان کے مہاراجہ ’’الیباء‘‘ نے بہ چشم خود یہ نظارہ دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوا کراسے دستاویز بنادیا۔ (ہندوستان کی معروف اور مستند تاریخ کی کتاب ‘‘تاریخِ فرشتہ’’ میں اس کا ذکر بتفصیل موجود ہے ۔واضح رہے مذکورہ راجہ اسی بنا پر مسلمان ہوگیا تھا۔

 


  • 1 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:53
  • 2 امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال مصطفیٰﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ: حامد کمپنی، لاہور، باکستان، 2002 ء ،ص:453
  • 3 القرآن، البقرہ2: 60
  • 4 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 200، مطبوعۃ: دار السلام، ص :39
  • 5 ایضاً، ص :340
  • 6 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3576، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 2005ء، ص :875
  • 7 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 1856، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص: 834-835
  • 8 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 5639 ،مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان ، 2005ء، ص :1442
  • 9 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:2753، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف الریاض، السعودیۃ، 1985ء، ص :353-354
  • 10 عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن دارمی المقدمۃ، حدیث:27، ج -1، مطبوعۃ:دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ، ص :27
  • 11 ایضاً، ص:28
  • 12 ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی، سنن النسائی، حدیث: 77، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :16
  • 13 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :69
  • 14 حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر، حدیث: 5285، ج- 5، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، 1983ء، ص :262
  • 15 صُداء( صاد کی پیش کے ساتھ) ملکِ یمن میں ایک محلے کا نام ہے جہاں مذکورہ بالا حدیث کے راوی حضرت زیاد بن الحارث رہتے تھے ۔(ابوالحسن علی بن عزالدین الشھیر بابن الاثیرالجزری،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-2، مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:332)
  • 16 عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن دارمی المقدمۃ، حدیث :25، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ، ص:26
  • 17 ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر ، حدیث: 6420، ج -7، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، 1983ء، ص: 76
  • 18 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ،ص: 70
  • 19 ایضاً، ص :71
  • 20 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :75-76
  • 21 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 41
  • 22 مفتی محمد خان قادری، شاہکارِ ربوبیت ،مطبوعہ: کاروان اسلام پبلی کیشنز ،لاہور، پاکستان، 2005ء، ص :327
  • 23 مفتی احمد یار خان نعیمی، شانِ حبیب الرحمن ،مطبوعہ: مکتبہ اسلامیہ ، لاہور،پاکستان، 1391ھ،ص :243-244
  • 24 عمر بن احمد خرپوتی، عصیدۃ الشھدۃ شرح قصیدۃ البردۃ ،مطبوعہ: نور محمد کتب خانہ ،کراچی،پاکستان،( سن اشاعت ندارد)، ص: 133-134
  • 25 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3020، ج -4، مطبوعۃ: دمشق، سوریا، 1422ھ،ص :62
  • 26 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث :19204، ج-31، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :539