حضور کی مبارک رانیں بھی جسم کے دوسرے حصوں کی طرح سفید، چمکدار اور متناسب تھیں۔آپ کا حسنِ جسمانی ایساتھاکہ اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی سوائےاس کے کہ کہاجائے حضور کاجسم اطہر نورانی تھاجس سے نورکی شعاعیں ظاہر ہوتی تھیں۔آپ کا جسم مبارک معطرتھاجس سےخوشبوؤں کے لپیٹےنکلتےتھے۔ایسابابرکت تھاجس سےکوئی شےمس ہوجاتی وہ بابرکت ہوجاتی۔
حضرت انس سے روایت ہے: حضور غزوہ خیبر کے لیے گئے تو ہم نے صبح کی نماز، خیبر کے نزدیک اندھیرے میں ادا کی۔ پھر حضور سوار ہوئے، حضرت طلحہ آپ کے پیچھے بیٹھے اور میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا حضور خیبر کی گلیوں میں جارہے تھے اور میرا گھٹنا آپ کی ران مبارک سے لگتا تھا:
ثم حسر الازار عن فخذہ حتى انى انظر الى بیاض فخذ نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.1
پھر آپ کے ہاتھ لگنے سے آپ کی تہبند رانِ مبارک سے سرکی تو میری نظر آپ کی رانِ مبارک اور اس کی سفیدی پر پڑی۔
امام بیہقیلکھتے ہیں:
وكان عبل ماتحت الازار من الفخذین والساق.2
آپ کے جسم اطہر کا وہ حصہ جو تہبند کے نیچے آتا تھا مثلا ران مبارک اور پنڈلیاں مبارک وہ سفید تھیں۔
محدثین کرام رحمۃ اﷲ علیھم نے بیان کیا ہے کہ جب حضور محفل میں جلوہ افروز ہوتے تو بعض کے اقوال کے مطابق رانیں شکم اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں لیکن بعض محدثین کا کہنا ہے کہ کبھی حضور گھٹنوں پر زوردے کر بھی تشریف فرما ہوتے۔
حضرت ابوامامہ حارثی بیان کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یجلس القرفصاء.3
رسول اﷲ جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو رانین شکم اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی"قرفصاء" کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یه نیند تكیه زده بردو زانو وچسپاند وانھارا بشكم وردرآید كفھاى ھر دو دست دربغل دست راست دربغل چب ودست چب دربغل راست.4
اس طرح بیٹھنا کہ بوجھ دونوں زانوؤں پر ہو اور ران کے شکم کے ساتھ متصل دونوں ہاتھ اس طرح بغل میں ہوں کہ دایاں بائیں بغل اور بایاں دائیں بغل میں ہو۔
حضرت قبلہ بنت مخرمہ بیان کرتی ہیں کہ:
رات رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو قاعد القرفصاء.5
رسول اﷲ کو دیکھا کہ آپ قرفصاء (یعنی رانین شکم اطہر کے ساتھ لگی ہوئی) کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
حضور کےجسم مبارک کی تابانی،تروتازگی،لچک، چمک اورہیبت وجلال کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ حضورِدوعالم جس انداز میں بھی تشریف فرما ہوتے باوقاروباکمال نظرآتے تھے۔ واضح رہے کہ آقائے کریم کمال درجہ کے حیا دار تھے۔ اسی لیے آپ اپنے لباس اور جسم مبارک کا خصوصی خیال فرماتے تھے کہ جسم اقدس کا کوئی بھی حصہ جو (سترِ عورت) میں آتا ہو وہ ظاہر نہ ہونے پائے اسی لیے کم لباسی اور عریانی کو آپ شدید ناپسند فرمایا کرتے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں حیا کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا ، الحیاء شعبۃ من الایجان ، حیا ایمان کا حصہ ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر تجھ سے حیاء رخصت ہوجائے تو پھر تو جو چاہے کرے۔ اس تناظر میں حضور نبی کریم کی ران مبارک کا اس طرح ظاہر ہونا کہ کوئی دوسرا شخص اس کو دیکھے، بظاہر قابل قبول بات نہیں لگتی لیکن آپ کا کشف ساق ارادی و اختیاری ہرگز نہ تھا بلکہ غیر ارادی اور فطری تھا کیونکہ دوران سفر وہ بھی کسی جانور کی پشت پر بیٹھ کر سفر کی صورت میں لباس کا دائیں سے بائیں طرف سرک جانا، اٹھ جانا، اڑجانا، ڈھیلا ہوجانا، ایک طرف لپٹ جانا وغیرہ ایسے معاملات ہیں کہ اس کو آج کے ہوائی جہاز، ٹرین، بس اور کاروغیرہ کے سفر پر ہرگز قیاس نہیں کیا جاسکتا جہاں مسافر ہوا کے بے رحم تھپیڑوں سے بالکل محفوظ و مامون بیٹھا رہتا ہے اور ساتھ ہی موسم کی شدت و تمازت سے بھی بچا ہوا ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کے کپڑے بھی اس کے غیر ارادی اعمال کی وجہ سے دائیں بائیں الٹے نا پلٹنے، گرنے سے بچے رہتے ہیں ۔ لہٰذا حضور کا لباس مبارک جسم اقدس کے کسی حصہ سے سرک جانا غیر ارادی تھا۔
دوسری بات یہ تھی کہ رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کے سراپا کو قیامت تک محفوظ کرنا تھا۔ اس لیے بامر خداوندی آپ کا لباس مبارک اس طور پر آپ کی ران مبارک سے سرکا کہ صحابی کی نظر بھی اس پر بے اختیار پڑی اور پھر صحابی نے اس کو آگے بھی جوں کا توں بیان فرما دیا۔ لہٰذا آپ کی رانِ مبارک کے کشف کا معاملہ آپ کے جسم مبارک کے اعضاء کی کیفیت کو خدائی انتظام کے طور پرہی دیکھنا چاہیے۔