رسول اللہ کی ولادت باسعادت عالم اسلام کے لیے بالخصوص اور عالم خلق کے لیے بالعموم عطیہ ءِ خداوندی ہے۔ باری تعالیٰ نے عالم ِارواح میں جماعت انبیاء کرامسے وعدہ لیا کہ وہ اگر آپ کو پالیں توآپ کی مدد ونصرت کرنے کے پابند ہوں گے۔اسی لیےباری تعالیٰ نے سورۃآل عمران میں بیان فرمایا ہے:
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْھدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ812
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول کریم ایسی اشرف و ارفع ذات ہیں جن کی آمد سے کئی ہزار سال پہلے ہی اس بات کا انتظام کردیا گیا کہ آپ کی مدد و نصرت حضرات انبیاء کرام کریں گے۔
مولود شریف کی اصل بھی یہی آیت کریمہ ہےکیونکہ محافلِ میلادمیں بھی حضور کے شمائل، فضائل وخصائل سمیت آپ کی سیرت طیبہ، معجزات اور پیغام(اسلام) کا تذکرہ اورآپ کی توقیر،تعظیم اور نصرت کے لیے حاضرین کو جمع کیا جاتا ہے تاکہ پیغامِ میلاد اور سیرت مصطفی بصورت ذکر عوام و خواص کے اذہان میں تازہ ہوتا رہےاور اس پر عمل کی ترغیب اور شوق بڑھتا رہے۔
جس طرح ہر شعبہ ہائے زندگی دین سے دوری کی وجہ سے تعطّل و بےراہ روی کا شکار ہے بالکل اسی طرح یہ مقدس محافل جو عرصہ دراز تک امت مسلمہ کی ذہنی و شعوری بالیدگی کا سبب اور کارِخیر تھیں، مرور زمانہ کے ساتھ کئی خرافات اور محرما ت کی آماجگاہ بنادی گئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ ان محافل سے اس طرح استفادہ نہیں کر پارہی جیسا کہ متقدمین ان مجالس سے اپنی روحانی بالیدگی ،نفسی طہارت اور اخلاقی بلندی کے لیےاستفادہ کیا کرتے تھے۔
اس اہم موضوع پر اکابر علمائے کرام کے افکار و نظریات کو پیش کیا جا رہا ہےتا کہ لوگ اس کو پڑھ کر اپنی محافل میں ان تمام خرافات و بیہودہ افعال کے ارتکاب سے بچیں اور صحیح معنوں میں ان محافل کی نورانیت اور روحانیت سے مستفید ہوسکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ کے یوم ولادت کے موقع پر مسرت وشادمانی کا اظہار قرآن و سنت اور فقہاء کرام کے اقوال کے مطابق نہ صرف ایمان بلکہ فطرت ِانسانی کا تقاضا بھی ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ کی بعثت کو انسانیت پر اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے احسان اور فضل سے تعبیر کیا گیا ہے اور یقیناً مخلوقات میں آپ کی ذاتِ بابرکت وہ نعمت عظمیٰ ہے، جسے عطا فرمانے کے بعد اللہ رب العزت نے مومنوں پر اظہارِ احسان 3فرمایا ہے۔حالانکہ اللہ جل شانہ نے مومنوں کو اس نعمت کے علاوہ بھی اپنی ان گنت نعمتوں اور فضائل سے نوازا ہے۔4
اسی طرح خود رسالت مآب کی سنت ِمبارکہ ہماری رہنمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ آپ نے بھی اپنے یوم ولادت یعنی پیر کے دن روزہ رکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا۔5آج بھی حرمین شریفین کے مسلمان رسول کی اسی سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پیر کے دن روزے کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اس اظہارمسرت و شادمانی میں ہر خاص و عام کے لیے یہ امر انتہائی اہم ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں شرعی حدودو قیود کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ان کی پاسداری کرتے ہوئے جملہ معاملات ومعمولات کو انجام دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان زندگی کے تمام امور میں ، چاہے اس کا تعلق خوشی سے ہو یا غم سے ،زندگی سے ہو یا موت سے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بیان کردہ اصول و ضوابط کی پیروی کرنے کا پابند ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق کسی مومن یا مومنہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلے کو چھوڑ کر اپنے لیے کسی اور جگہ بھلائی تلاش کرے۔6
عن أبى سعيد الخدرى، عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال: مثل المؤمن ومثل الإيمان، كمثل الفرس فى آخيته يجول، ثم يرجع إلى آخيته، وإن المؤمن يسھو، ثم يرجع إلى الإيمان.7
ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:مومن کی مثال اور ایمان کی مثال کھونٹے میں بندھے ہوئے گھوڑے کی طرح ہےجو اپنے کھونٹے کے ارد گرد چکر لگاتا ہےپھر واپس کھونٹے کی طرف پلٹ آتا ہےاورمومن غلطی کرتا ہے پھر واپس ایمان کی طرف پلٹ آتا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مومن بے لگام اور خود سر گھوڑے کی طرح نہیں ہوتا ، جو ہر کھیت میں چرتا ہے اور حدود سے تجاویز کرتا ہے بلکہ ایک الہٰی ضابطہ کی رسی سےخود کو باندھ کر اسلام کے کھونٹے سے مربوط ہوتا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی حد تک محدود رہتی ہے، جہاں تک وہ رسی ( ضابطہ ءِالہٰی ) اسے جانے دیتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت کردہ ایک حدیث سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا، جب تک ہماری تمام خواہشات آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق نہ ہوجائیں ، چنانچہ حدیث مبارک ہے:
عن ابى محمد عبد اللّٰه عمرو بن العاص قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لایومن احدكم حتى یكون هواه تبعا لما جئت به.8
حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص (کامل ) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس (ہدایت) کے مطابق نہ ہوجائے، جو میں لے کر آیا ہوں ۔
اس حدیث کے معنی بالکل واضح ہیں کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد جب تک جملہ احکام شریعت ، اوامر و نواہی اور حدود و قیود کو دل سے تسلیم کرکے انہیں اپنایا نہ جائے، تب تک ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوسکتا، خاص طور پر اپنی خواہشات کو دینی احکام کے تابع کرنا ایمان میں کامل ہونے کے لیے ایک اہم شرط ہے۔
آج بڑاالمیہ یہ ہے کہ لوگ دین کے کئی معاملات میں نادانستہ طورپر حد سے تجاوز کا شکار ہیں اورمحض اپنی خواہش اور خوش اعتقادی کے نام پر دین میں ایسے امور کو شامل کر رہے ہیں ، جن کی دین میں کوئی حقیقت نہیں ۔ اس سے سب سے بڑایہ نقصان ہورہا ہے کہ دین میں ناپسند یدہ اور غیر شرعی امور کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ علماء حق ہمیشہ ایسے تمام امور کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب عید میلاد النبی کی تقریب بڑی سادگی اور انتہائی مؤدب انداز میں منعقد کی جاتی تھی۔ محلے میں کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا تھا کہ جہاں سال میں کم از کم ایک مرتبہ محفل میلاد کا انعقاد نہ ہو۔ لوگ اس کا انعقاد کرکے حضور سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا کرتے تھے، عام طور پر مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوجاتا یا بچوں کے ذریعے گھر گھر اطلاع دے دی جاتی تھی کہ فلاں نماز کے فوراً بعد فلاں صاحب کے گھر میں محفل میلاد شریف ہے لہٰذا تمام حضرات اس میں شرکت کریں ۔ صاحبِ خانہ عالمِ دین کے لیے ایک مسند اور سامعین کے لیے دریاں وغیرہ بچھادیا کرتے تھے اور اختتام ِمحفل پر حسب توفیق شرکاء محفل کو شیرینی پیش کردی جاتی تھی۔ اس طرح کم سے کم خرچ میں وقت کی پابندی کے ساتھ اور سنتِ سلف صالحین کے مطابق محفل وقوع پذیر ہوجایا کرتی تھی، لیکن مرورِزمانہ کے ساتھ جہاں دوسرے امور میں مصنوعیت اور خود ساختہ نمود و نمائش کا عنصر شامل ہوگیا بد قسمتی سے محفل میلاد جیسا مقدس امر بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا، سادگی و میانہ روی جسے اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں اہمیت دی ہے، اسے نظر انداز کردیا گیا، عام اسپیکر کی جگہ کانوں کا پردہ پھاڑ دینے والے ایکو ساؤنڈ سسٹم نے ، سادہ چوکی اور دریوں کی جگہ قیمتی اسٹیج اور کرسیوں نے لے لی اور برقی قمقموں کا بکثرت استعمال کیا جانے لگا اور سب پر طرہ یہ کہ اول وقت کی بجائے رات گئے تک یہ سب کچھ ہونے لگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر تقریر کی ابتداء ہی رات بارہ بجے کے بعد ہوتی ہے اور صبح تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، جسکی وجہ سے اکثرشرکاء کی فجرکی نماز بھی قضاء ہوجاتی ہے۔
یہی حال جلوسوں کا بھی ہوا کہ ان کی سادگی کو بھی نمود و نمائش اور بے اعتدالیوں سے بدل دیا گیا ، جن کی وجہ سے ان جلوسوں کا تقدس مجروح ہوتا ہے اور جنہیں دیکھ کر کسی کو یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ جشنِ میلادِ مصطفیٰ کا مقدس جلوس ہے، البتہ ایسے جلوس جو علماء کرام کی نگرانی میں نکالے جاتے ہیں ، ان میں کسی حد تک بے اعتدالیوں سے احتراز کیا جاتا ہے۔
درج بالا بے اعتدالیوں کی وجہ سے بہت ساری خرابیاں جنم لے رہی ہیں ،جنہیں ضبط تحریر میں لایا جارہا ہے۔
عام پڑھا لکھا طبقہ اس طرح کی محافل سے بد ظن ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عید میلاد النبی کو بدعت سمجھ کر لوگ اس پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں۔ کبھی سرے سے عید میلاد النبی کی مشروعیت کا ہی انکار کرکے اسے معاذ اللہ بدعت و خرافات قرار دے دیا جاتا ہے تو کبھی 12 تاریخ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ کی ولادت اس تاریخ کی بجائے 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول کو ہوئی اور کبھی یوم وفات کا کہہ کرتاریخِ ولادتِ مصطفیٰ کے حوالہ سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اسی طرح پہلے جو لوگ ہر سال انتہائی کم خرچے پر سادگی کے ساتھ اپنے گھروں و دیگر مناسب جگہوں میں محفل میلاد منعقد کیا کرتے تھے، اب اخراجات میں بے جا اور خود ساختہ اضافے کی وجہ سے چاہت کے باوجود ایسا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لوگ یہ سوچتے ہی رہتے ہیں کہ جب زیادہ پیسوں کا انتظام ہوجائیگا تو کرینگے اور اس مہنگائی کے دور میں یہ خواہش خواب بن کر رہ جاتی ہے، حالانکہ نبی کریم کی ایک حدیث کی رو سے اللہ تعالیٰ ہمارے اموال اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ نیتوں کو دیکھتا ہے کہ ان میں کتنا اخلاص ہے اگرچہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، حدیث شریف میں منقول ہے:
عن ابى هریرة رضى اللّٰه عنه قال قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ان اللّٰه لاینظر الى صوركم واموالكم ولكن ینظر الى قلوبكم واعمالكم.9
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے قلوب اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
لوگ میلاد شریف کی اصل سے دانستہ یا نادانستہ طور پر ہٹتے جارہے ہیں ، حالانکہ ائمہ اسلاف رحمۃ اللہ علیہمکے نزدیک یہ محض تلاوتِ قرآن مجید ، نعت وقصائد، رسول اللہ کی ولادت با سعادت کے واقعات، اخلاق حسنہ اور سیرت طیبہ کو بیان کرنے،غرباء ومساکین میں کھانے کی تقسیم اور ان پر عمل کرنے کا نام ہے ۔امام جلال الدین سیوطیاپنے فتاویٰ میں میلاد کی اصل بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
اصل المولد الذى هو اجتماع الناس وقراة ماتیسر من القراٰن وروایة الاخبار الواردة فى مبداء امر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ماوقع فیه من الایات الخ.10
میلاد شریف کی اصل لوگوں کا جمع ہونا ،آسانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا اور ان آیات و احادیث و روایات کو بیان کرنا ہے، جو آنحضرت کی شان میں وارد ہوئی ہیں ۔
اسی طرح امام سیوطی امام حافظ ابن حجر عسقلانیکی استخراجِ اصلِ عمل مولد کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
والشكر للّٰه تعالى یحصل بانواع العبادة كالسجود والصیام والصدقة والتلاوة واى نعمة اعظم من النعمة ببرور هذ النبى الكریم نبى الرحمة صلى اللّٰه عليه وسلم فى ذالك الیوم .11
اللہ تعالیٰ کا شکر کئی قسم کی عبادات مثلاً صیام ، سجود، تلاوت، صدقہ خیرات وغیرہ کے ذریعے ہوتا ہےاور نبی کریم جو رحمت والے نبی ہیں ، ان کے ظہور سے بڑی نعمت اور کون سی ہوسکتی ہے۔
الحاوی للفتاوی میں ہے۔
عمل المولد الذى استحسانه فانه لیس فیه شئًى سوى قراء ة القرآن واطعام الطعام وذالك خیر و قربة.12
میلاد شریف منانا کہ جس کو ہم نے مستحسن قرار دیا ہے، اس میں قرآن مجید کی تلاوت، ذکر خدا ووذکر رسول اور کھانے کھلانے کے اہتمام کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، اور یہ کام تو کار خیر ہے اور نیکی و قربت الہٰی کا ذریعہ ہیں ۔
لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ میلاد شریف کو درج بالا اقوال کے مطابق کرنے کی کوشش کریں اور حد سے تجاوز نہ کریں۔
رات گئے تک محفل کے انعقاد اور ایکو ساؤنڈ سسٹم کے بے جا استعمال کی وجہ سے لوگوں کو بالعموم اور بیمار بزرگوں کو بالخصوص ذہنی کو فت و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ اس قدر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں کہ غصّے میں رسول اکرم کے ذکر کی اس مقدس محفل ہی کو برا کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ رات جس کوقرآن کی متعدد آیات کریمہ میں سکون وآرام کا ذریعہ قرار دیا گیا ہےلوگوں کے اس عمل کی وجہ سے بے سکونی کا باعث بن جاتی ہے اس حوالے سے چند آیات کریمہ ذیل میں درج کی جارہی ہیں :
ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّھارَ مُبْصِرًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ 1313
وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام پاؤ اور دکھانے والا دن بنایا، بے شک اس میں (غور سے) سننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّھارَ مُبْصِرًا ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 8614
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات بنائی تاکہ وہ اس میں آرام کرسکیں اور دن کو (امورِ حیات کی نگرانی کے لیے) روشن (یعنی اشیاء کو دِکھانے اور سُجھانے والا) بنایا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارا یہ عمل حقوق العباد کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں حضور رحمۃ للعالمین نے امام کو ہدایت دی ہے کہ وہ نماز میں قرأت کو طویل نہ کرے کیونکہ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ لوگ نماز جیسے اہم فرض سے بیزار ہوکر اس سے دور ہوجائیں ۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں منقول ہے:
عن جابر بن عبد اللّٰه قال ان معاذ بن جبل كان یصلى مع النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ثم یاتى قومه فیصلى بھم الصلوة فقرابھم البقرة قال فتجوزرجل فصلى صلٰوه خفیفة فبلغ ذالك معاذا فقال انه منافق، فبلغ ذالك الرجل فاتى النبى فقال: یارسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، انا قوم نعمل بایدینا ونسقى بنوا ضحنا وان معاذا صلى بنا البارحة فقرا البقرة فتجوزت فزعم انى منافق ، فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، یا معاذ! افتان انت ثلاثا، اقرء، والشمس وضحٰھا،15 وسبح اسم ربك الاعلى16 ونحوهما.17
حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت معاذ بن جبل نبی کریم کی امامت میں عشاء کی نماز ( نفل کی نیت سے ) ادا کرتے ، پھر اپنے قبیلے میں آتے اور ان کی امامت کراتے (چنانچہ حضرت معاذ نے ایک رات نبی کریم کی معیت میں عشاء کی نماز ادا کی بعد ازاں اپنی قوم میں آئے، ان کی امامت کرائی) پس انہوں نے سورۃ بقرہ کی قرأت شروع کردی۔ ایک شخص (صف سے) نکلا اور نماز توڑ کر اکیلے کے نماز ادا کی اور چلا گیا ، حضرت معاذ کے رفقاء نے اس شخص سے کہا کہ کیا تو منافق ہوگیا ہے؟ اس نے جواب دیا: نہیں اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو( اس معاملے سے) آگاہ کروں گا، وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! ہم آبپاشی کرنے والے ہیں ، دن بھر کام کرتے رہتے ہیں اور معاذ نے آپ کی امامت میں عشاء کی نماز ادا کی بعد ازاں اپنی قوم میں آئے اور سورۃ بقرہ پڑھنا شروع کردی،( اس پر) رسول اللہ حضرت معاذ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے معاذ ! کیا تم فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو؟ تم" والشمس وضحھا اورسبح اسم ربک الاعلیٰ"(یعنی ان میں سے کوئی ایک) یا اس جیسی کوئی اور سورت پڑھ لیا کرو۔
اسی طرح اس حوالہ سے ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یوں منقول ہے:
عن ابو مسعود ان رجلا قا ل یا رسول اللّٰه انى لاتاخر عن صلاة الغداة من اجل فلان مما یطیل بنا، فما رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى موعظة اشد غضبا منه یومئذ، ثم قال ان منكم منفرین، فایكم، ماصلىٰ بالناس، فلیتجوز، فان فیھم الضعیف والكبیر وذالحاجة.18
حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نےرسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی۔یا رسول اللہ ! میں فلاں شخص کی وجہ سے نماز فجر سے رہ جاتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں طویل نماز پڑھاتے ہیں ، ابو مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو اس دن کے مقابلے میں کبھی وعظ و نصیحت کے موقع پر اتنا غضب ناک نہیں دیکھا، پھر آپ نے فرمایا: تم لوگوں کو دین سے متنفر کرنے والے ہو، پس تم میں سے جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے ( یعنی امامت کرے) تو اسے چاہیئے کہ ( مقدار قرأت میں ) تخفیف کرے کیونکہ ان میں ( یعنی جماعت میں شامل لوگوں میں سے ) بعض لوگ کمزور یا بوڑھے یا کام والے ہوتے ہیں ( یعنی زیادہ دیر تک نماز میں قیام ان کے لیے دشوار ہوتا ہے)۔
درج بالا احادیث کے تناظر میں ہر مسلمان کو اپنے معاملات اور معمولات پر غور کرنا چاہیئے کہ دین جو نماز جیسی اہم عبادت میں میانہ روی اور اعتدال کا حکم دیتا ہے19 اور میانہ روی کو رحمٰن کے بندوں کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جشنِ ولادت مصطفیٰ ﷺ ،و دیگر دینی و سیاسی مجالس اور جلوسوں کے معاملے میں شترِ بے مہار کی طرح اپنے ماننے والوں کو چھوڑ دےاِس مسئلہ کی مزید وضاحت اُس حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہےجس میں نماز جیسی عبادت میں صرف بچوں اور ان کی ماؤں کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے چاہت کے باوجود آپ نے اختصار کی تعلیم دی ۔چنانچہ حدیث مبارکہ میں منقول ہے:
عن انس بن مالك: ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال انى لادخل فى الصلاة وانا ارید اطالتھا فاسمع بكاء الصبى فاتجوز فى صلاتى مما اعلم من شدة وجد امه من بکائه.20
حضرت انس بن مالک سے مروی ہےکہ نبی کریم نے فرمایا : میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور طویل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں لہٰذا نماز میں اختصار کردیتا ہوں کہ جانتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں بے چین ہوتی ہے۔
اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ دوسروں کی تکلیف کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز جیسی اہم عبادت میں بھی نبی مکرم اختصار فرماتے تھے لہذا دیگر عبادات میں بدرجہءِ اتم اس کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
رسول اکرم کی تعظیم کے خاطر قیام و سلام باعثِ ثواب اور مستحسن ہے چنانچہ علامہ سیّد جعفربرزنجی مدنی قدس سرہ عقد الجوہر میں فرماتے ہیں :
قد استحسن القیام عند ذكر ولادته الشریفة ائمة ذو روایة ورویة فطوبى لمن كان تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم غایة مراھه ومرماه خاتمة المحدثین.21
بے شک حضور کی ولادت با سعادت کے ذکر کرنے کے موقع پر ائمہ ءِ روایت اور صاحب مشاہدہ نے قیام کو مستحسن قرار دیا ہے، لہٰذا اس خوش نصیب کیلیے خوشخبری ہو کہ جس کی نگاہ میں آنحضرت کی تعظیم بجا لانا اس کا غایۃ مقصد اور قرارِ نگاہ کا محل ہو۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس مستحب و مستحسن عمل کو کرنے میں بھی اعتدال و میانہ روی کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا بلکہ مجالس و محافل میں قیام و سلام کو اس قدر طول دے دیا جاتاہے کہ لوگ بالخصوص بیمار و بزرگ کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں اور اکتاہٹ کا شکار ہوکر آئندہ اس میں شرکت کرنے سے رک جاتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد سلام پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر ایک کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ مکمل کلام یا زیادہ سے زیادہ اشعار پڑھے، جس کی وجہ سے بہت سا وقت صرف ہوجاتا ہے اور درود و سلام جیسا عقیدت مندانہ عمل مسابقت کی دوڑ کی نذر ہوجاتا ہے۔
یہی حال دعا کا بھی ہے کہ بعض اوقات ایک ایک گھنٹے کی طویل اجتماعی دعا کرائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ دعا جیسی عبادت سے بھی دور ہوجاتے ہیں ۔ دین اسلام میں حکم دیا گیاہے کہ تنہائی میں ہم اپنی عبادت کو جتنا چاہیں طویل کریں ، لیکن اجتماعی صورت میں جو عبادات اداکی جائیں ، انہیں کمزور و نحیف لوگوں کا خیال کرتے ہوئے مختصر کریں لیکن ہم اسکے بالکل برعکس کرتے ہیں ، تنہائی میں کی جانے والی عبادات میں عجلت اور اجتماعی عبادات میں طوالت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔جولوگ ایساکرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قابل گرفت ہونگے۔ واضح رہے کہ اللہ جل شانہ کے نزدیک وہ عمل سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے، جو مداومت وہمیشگی کے ساتھ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو، چنانچہ حدیث شریف ہے:
عن عائشة قالت قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ا حب الاعمال الى اللّٰه ادومھا وان قل.22
حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے ، جو مسلسل کیا جائے ،چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
ملک شام اور دیگر ممالک میں اب بھی رات کے بجائے نمازِ فجر کے فوراً بعد محفل منعقد کی جاتی ہے اور یقیناً نماز فجر کی باجماعت ادائیگی کرنے والے افراد ہی ان محافل میں شرکت کرتے ہونگے۔ اس طرح ان ممالک میں اس محفل سے دوہرا فائدہ حاصل کیا جارہا ہے۔
اکثر و بیشتر یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ جو لوگ رات گئے تک منعقد ہونے والی اس طرح کی محافل میں شرکت کرتے ہیں ان کی فجر کی نماز بھی قضا ہوجاتی ہے(الا ماشاء اللہ ) حالانکہ نماز کی ادائیگی ان سب پر مقدَّم ہے۔ رسول اللہ نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک23 قرار دیا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی محبت کا دعویٰ لے کر محافلِ میلاد شریف کا انعقاد تو کیا جائے اور جس کام کو آپ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا، اسے چھوڑ دیا جائے۔ نماز فجر کے بارے میں کتب فقہ میں یہ مسئلہ صراحتاً مذکور ہے کہ نماز عشاء کو تہائی رات تک موخر کرنا مستحب اور آدھی رات تک مؤخرکرنا مباح ہے، اسی طرح نماز وتر کو آخر رات تک موخر کرنا مستحب ہے لیکن ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی درج ہے کہ جس شخص کو اپنی نیند پر اعتماد نہ ہو اور وتر کو دیر سے پڑھنے کی صورت میں نمازِوتر یا فجر کے قضاء ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ نماز عشا ءاور وتر کو اول وقت میں ادا کرلے۔24
نبی کریم کی ایک حدیث مبارک بھی اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے درج کی جارہی ہے:
عن ابى هریرة قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لولا ان اشق على ٰامتى لامرتھم بالسواك مع الوضوء، لولا ان اشق علىٰ امتى لاخرت صلاة العشاء الىٰ ثلث الیل نصف الیل، فان اللّٰه اوقال ان ربنا تبارك وتعالىٰ ینزل الى سماء الدنیا فیقول: من یسا لنى؟ فاعطیه، من یستغفرنى، فاغفرله، من یدعونى، فاستجب له.25
ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری امت پر مشقت ہوجائے گی تو میں ان کو حکم دیتا کہ ہر وضو کے ساتھ مسواک کریں اور عشاء کی نماز تہائی یا آدھی رات تک موخر کردیتا کہ رب تبارک تعالیٰ آسمان پر خاص تجلیِ رحمت فرماتا ہے او رصبح تک فرماتا رہتا ہے کہ ہے کوئی سائل کہ اسے دوں ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی مغفرت کروں ، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کروں۔
لہٰذا درجِ بالا حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب امت کے مشقت میں پڑجانے کے خوف کی وجہ سے آپ نے ہر نماز کے ساتھ مسواک اور تاخیر عشاء کا حکم نہ دیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محفلِ میلاد النبی دیگر دینی و سیاسی محافل اور شادی کی تقریبات کو اس قدر طول دینے کی اجازت دے دی جائے کہ صبح کی نماز ہی قضاء ہوجائے؟
اسی طرح لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو سالانہ محفلِ میلاد کے انعقاد ہی پر اکتفا ء کرتی ہے جبکہ دین کے اہم فرائض و واجبات کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں ہوتی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مستحبات پر اس طرح عمل، جس سے فرائض وواجبات کا ترک یا ان کی کوتاہی لازم آئے، ازروئے شریعت ناپسندیدہ اور باعث اجر و ثواب نہیں ہیں ۔ لہٰذا لوگوں کے اس عمل کی اصلاح اور فرائض وواجبات کی ادائیگی پر زور دینے کی اشد ضرور ت ہے۔ علماء کرام اپنے بیانات وتقاریر میں اس اہم مسئلے پر روشنی ڈالیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں اس کا سدِّباب مشکل ہوجائیگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والی نسلوں کے نزدیک مستحبات ، فرائض اور واجبات کے درمیان کوئی فرق ہی نہ رہے۔
ایک اہم اور نازک پہلو جس کی طرف خاص طور پر علماء کرام کو توجہ دینے کی ضرور ت ہے وہ یہ ہے کہ کچھ واعظین میلاد النبی کی محافل میں صحابہ کرام کی طرف منسوب میلاد شریف کے فضائل و مناقب پر ایسی روایات بیان کرتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ غیر مستند اور من گھڑت قسم کی روایات ہیں ۔ خاص طور پر خلفاء راشدین سے منسوب ایسی احادیث کو بیان کیا جاتا ہے جن کے غیر مستند اور موضوع ہونے پر محدثینِ کرام کا اتفاق ہے۔
ماہ ربیع الاوّل شریف میں دنیا بھر کے مسلمان حضور کی ولادت با سعادت کے موقع پر حسبِ استطاعت خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔26جلسہ ،جلوس ، چراغاں ، صدقہ و خیرات سب اسی خوشی کے مظاہر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت کے شکریہ کے انداز ہیں اگرچہ بعض افراد کے نزدیک ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ان امور کی وضاحت کے لیے مقررین حضرات اگر ٹھوس علمی دلائل کی روشنی میں اپنا مؤقف پیش کرتے تو اس سے اظہارِ حق واحقاقِ حق ہوتا جبکہ حالت یہ ہے کہ زیادہ ترمقررین غیر مستند کتب کے حوالوں سے فقط عوامی جذبات کی آبیاری کے لیے کمزور دلائل اور جوشِ خطابت پر ہی اکتفاء کر بیٹھتے ہیں جس سےعوام تو خوش ہوجاتے ہیں لیکن معقول ومنقول بات عام وخاص تک نہیں پہنچ پاتی۔مثلا ً علامہ ابن حجر مکی ہیتمی قدس سرّہ ( متوفی 947 ھ) کے نام سے ایک کتاب النعمۃ الکبریٰ علی العالم فی مولد سیّد ولد آدم منظر ِ عام پر آئی ہے، جس میں حضور سیّد عالم کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ مقررین حضرات کے لیے یہ کتاب بڑی دلچسپی کی چیز ثابت ہوئی ۔ اکثر خطباء اس کے حوالے سے اپنی تقریریں فرماتے ہیں حالانکہ علماءِ کبار نے اس کتاب کی علمی اور تحقیقی حیثیت پر کلام فرمایا ہے ۔ اس کتاب میں خلفائے راشدین کے ارشادات سے میلاد شریف پڑھنے کے فضائل اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
جس شخص نے نبی کریم کے میلاد شریف پڑھنے پر ایک درہم خرچ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(حضرت ابو بکر صدیق )
جس شخص نے حضور اکرم کے میلاد شریف کی تعظیم کی اس نے اسلام کو زندہ کیا۔( حضرت عمر فاروق )
جس شخص نے حضور انور کے میلاد شریف کے پڑھنے پر ایک درہم خرچ کیا گویا وہ غزوہ ءِبدر وحنین میں حاضر ہوا۔( حضرت عثمان غنی )
جس شخص نے حضور اکرم کے میلاد شریف کی تعظیم کی ۔ میلاد پڑھنے کے سبب وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ ہی جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا۔ (حضرت علی مرتضیٰ )
اس کے علاوہ حضرت حسن بصری ،جنید بغدادی، معروف کرخی، امام رازی، امام شافعی، حضرت سری سقطی وغیرہم رحمۃ اللہ علیھمکے ارشادات نقل کیے گئے ہیں ۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد چند سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔
عن ابى عثمان الاصبحى قال سمعت ابا هریرة: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سیكون فى امتى دجالون كذابون یحدثونكم ببدع من الحدیث بمالم تسمعوا انتم ولا ابا وكم فا یاكم ،وایاهم لا یفتنونكم.27
ابو عثمان سے مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے میں نے سناوہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: میری امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو تم کو ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء نے ، تم ان سے دور رہنا۔
سوال یہ ہے کہ خلفاء راشدین اور دیگر بزرگانِ دین کے یہ ارشادات امام احمد رضا خان، شیخ عبد الحق محدث دہلوی، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی، ملا علی قاری ، علامہ سیوطی، علامہ نبہانی اور دیگر علماء اسلام کی نگاہوں سے کیوں پوشیدہ رہے؟ جبکہ ان حضرات کی وسعت علمی کے اپنے اور بیگانے سب ہی معترف ہیں ۔
خود ان اقوال کی زبان اور انداز بیان بتارہا ہے کہ یہ دسویں صدی کے بعد تیار کیے گئے ہیں ، میلاد شریف کے پڑھنے پر دراہم خرچ کرنے کی بات بھی خوب رہی ۔ صحابہ کرام کے دور میں نہ تو میلاد شریف کی کوئی کتاب تھی جو پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی میلاد کے پڑھنے کے لیے انہیں دراہم خرچ کرنے اور فیس ادا کرنے کی ضرورت تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ صرف ربیع الاوّل کے مہینے میں ہی میلاد شریف مناتے تھے بلکہ ان کی ہر محفل اور ہر نشست محفل میلاد ہوتی تھی، جس میں حضور کے حسن و جمال ، فضل و کمال اور آپ کی تعلیمات کا ذکر ہوتا تھا۔ آج یہ تصور قائم ہوگیا ہے کہ ماہ ربیع الاوّل اور میلاد شریف میں صرف حضور کی ولادت با سعادت کا تذکرہ ہونا چاہیئے بلکہ بعض اوقات تو موضوعِ سخن صرف میلاد شریف منانے کا جواز ثابت کرنا ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہر مقرر اپنی تقریر میں میلاد شریف کے جواز پر دلائل پیش کرکے اپنی تقریر ختم کردیتا ہے اور جلسہ بر خاست ہوجاتا ہے حالانکہ میلاد منانے کا مقصد تو یہ ہے کہ خدا اور رسول کی محبت مضبوط اور مضبوط تر ہو اور کتاب و سنت کے مطابق عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی قدس سرّہ نے جواہر البحار میں علامہ ابن حجر مکی ہیتمی کے اصل رسالہ "النعمۃ الکبریٰ علی العالم فی مولد سیّد ولد آدم "کی تلخیص میں سندوں کو حذف کردیا ہے۔ ابن حجر فرماتے ہیں :
"میری کتاب واضعین کی وضع اور ملحد و مفتری لوگوں کے انتساب سے خالی ہے ، جبکہ لوگوں کے ہاتھوں میں جو میلاد نامے پائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر میں موضوع اور جھوٹی روایات موجود ہیں ۔"28
اس کتاب میں خلفاءِ راشدین اور دیگر بزرگان دین کے مذکورہ بالا اقوال کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس سے نتیجہ نکالنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ یہ اقوال جعلی ہیں جو علامہ ابن حجر مکی کی طرف منسوب کردیے گئےہیں۔ علامہ سیّد محمد عابدین شامی ( صاحب رد المختار ) کے بھتیجے علامہ سیّد احمد عابدین شامی نے اصل "نعمۃ الکبریٰ" کی شرح "نثر الدر علی مولد ابن حجر "لکھی ۔جس کے متعدد اقتباسات علامہ نبہانی نے جو اھر البحارمیں نقل کیے ہیں ۔ اس میں بھی خلفائےراشدین کے مذکورہ بالا اقوال کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ضرورت ہےکہ محافلِ میلاد میں حضور سیّد عالم کی ولادت با سعادت کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرتِ طیبہ اور آپ کی تعلیمات بھی بیان کی جائیں ۔ میلاد شریف کی روایات مستند اور معتبر کتابوں سے لی جائیں مثلاً المواھب اللدنیہ ، سیرت طیبہ، خصائص الکبریٰ، زرقانی علی المواھب، مدارج النبوۃ اور جواھر البحار وغیرہ۔ اگر صحاحِ ستہ اور حدیث کی دیگر معروف کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے بھی خاصا مواد جمع کیا جاسکتا ہے۔
اگر مواد یکجا مطلوب ہو جس سے با آسانی استفادہ کیا جاسکے تو اس کے لیے ''سیرتِ رسولِ عربی صلى اللّٰه عليه وسلم '' از علامہ نور بخش توکلّی،''میلاد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم'' از علامہ احمد سعید کاظمی، ''الذکر الحسین'' از مولانا محمد شفیع اوکاڑوی ، دینِ مصطفیٰ صلى اللّٰه عليه وسلم از علامہ سیّد محمود احمد رضوی،''حول الاحتفال بالمولد النبوی الشریف'' ا ز محمد بن علوی المالکی الحسنی، ''مولد العروس'' از علامہ ابن جوزی اور ''حسن المقصد فی عمل المولد''از امام جلال الدین سیوطی کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ 29 اسی طرح اس موضوع پر مزید مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب "نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلى اللّٰه عليه وسلم "30 اور مولانا اشرف سیالوی کی کتاب"تنویر الابصار بنور نبی المختار"31 کامطالعہ بھی مفید رہےگا۔
موضوع روایات کو بیان کرنے سے پہلے واعظین کے ذہن میں درجِ ذیل حدیث مستحضر رہنی چاہیے جس میں راوی فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا :
سیكون فى امتى دجالون كذابون یحدثونكم ببدع من الحدیث بمالم تسمعوا انتم ولا ابا وكم فا یاكم، وایاهم لا یفتنونكم. 32
میری امت میں کئی دجال و کذاب عنقریب پیدا ہوں گے جو تم کو ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء نے ، تم ان سے دور رہنا اور وہ تم سے دور رہیں تاکہ وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈالدیں۔
علماءِ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص موضوع (گھڑی ہوئی )احادیث کا علم رکھتا ہے تو اس کےلیے یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں پر ظاہر کیے بغیر اسے بیان کرے جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث ہے :
من حدث عنى بحدیث وهو یرى ٰانه كذب فھو احد الكاذبین.33
(رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ )جس نے میری طرف سے ایسی حدیث بیان کی، جس کے بارے میں جانتا ہو کہ یہ جھوٹی ہے ،تو وہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔
اسی طرح ہمارے پیش ِنظر نبی کریم کی یہ حدیث مبارک بھی رہنی چاہیئے کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا :
ان كذبا على لیس ككذب على احد فمن كذب على متعمدا فلیتبوا مقعده من النار.34
میری طرف جھوٹ کی نسبت کرنا کسی عام آدمی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنے کی طرح نہیں ہے، پس جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی ، تو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ رسول اللہ کی طرف جھوٹی بات کو منسوب کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کے مترادف ہے۔ (معاذ اللہ) اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے رسول کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان کی ہر بات وحی الہٰی پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں غلطی اور جھوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى3اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى435
اور وہ ا(اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ ان کا کہا ہوا وہی ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
امام احمد رضاخان نے مجالس وغیرہ میں موضوع احادیث پڑھی جانے سے متعلق اپنے ایک فتویٰ میں تحریر فرمایا کہ بے اصل و باطل روایات کا پڑھنا سننا حرام و گناہ ہے۔
كما نص علیه علماء القدیم فى كتب الفقه و اصول الحدیث.36
چنانچہ قدیم علماء کرام نے فقہ اور اصول حدیث کی کتابوں میں اس کی صراحت فرمائی ہے ( وا للہ اعلم بالصواب)۔
درج بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہورہی ہے کہ محافل میلاد ہوں یا محافلِ درسِ قرآن وحدیث، ان میں موضوع احادیث کا بیان کرنا سخت حرام اور باعثِ گناہ ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب سب پر لازم ہے ۔ اس سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان محافل و مجالس میں بیان کے لیے صرف متبحر اور مستند علماء کرام کی خدمات لی جائیں ورنہ ان کی کتب سے استفادہ کیا جائے ۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں رسول اللہ کی اس قدر شان و عظمت بیان کی گئی ہے کہ کسی جھوٹی روایت کا سہارا لینا کم علمی کی دلیل ہے ۔ اس حوالے سے علامہ قاضی عیاض مالکی کی شفا ء شریف، شاہ عبد الحق محدث دہلویکی مدارج النبوت اور مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی کی شان حبیب الرحمٰن کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
امام احمد رضا خان نے اس سوال کے جواب میں کہ کن صورتوں میں میلاد شریف کی محفل میں شرکت کرنا ناجائز ہوجاتا ہے ، فرماتے ہیں :
"وہ پڑھنا سننا جو منکراتِ شرعیہ پر مشتمل ہو ، ناجائز ہے جیسے روایاتِ باطلہ و حکایاتِ موضوعہ و اشعار خلافِ شرع خصوصا ً جن میں توہینِ انبیاء و ملائکہ ہو کہ آج کل کے جاہل نعت گویوں کے کلام میں یہ بلائے عظیم بکثرت ہے، حالانکہ وہ صریح کلمہ کفر ہے۔والعیاذ باللہ تعالیٰ ۔ "37
اسی طرح امام احمد رضا خاننے فتویٰ میں روایاتِ موضوعہ کی انتہائی مذمت تحریر فرماتے ہوئے ان روایات کو بیان کرنے اور اس طرح کی محفل منعقد کرانے والوں کے گناہ کو شماریاتی اعتبار سے بیان فرمایا ، جنہیں پڑھ کر ہرذی شعور مسلمان کی ہمت ہی نہ ہوسکے کیونکہ اس طرح کی محفل اسے گناہِ بے لذت لگے گی۔
میڈیا کی ترقی کے ساتھ ایک خرابی یہ پیدا ہوئی کہ مذکور الصدر خصوصیات کے ساتھ ساتھ زرق برق لباس اور خوبصورت چہروں کو (چاہے وہ بناؤ سنگھار سے حاصل ہو) بھی ایک اضافی خصوصیت بنالیا گیا لہٰذا اب کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ میلاد شریف بیان کرنے والا واقعتاً عالم ہے بھی یا نہیں، اسے احادیث موضوعہ اور صحیحہ کی تمیز ہے یا نہیں ؟ لہٰذا عصرِ حاضر میں اور بھی زیادہ احتیاط برتنے کی ضرور ت ہے۔ آپ کے فتویٰ کا اقتباس مِن وعَن درج کیا جارہا ہے:
"روایاتِ موضوعہ پڑھنا بھی حرام، سننا بھی حرام، ایسی مجالس سے اللہ اور حضور اقدس کمال ناراض ہیں۔ ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اور اس حال سے آگاہی پاکر بھی حاضر ہونے والا سب مستحقِ غضبِ الہٰی ہیں یہ جتنے حاضرین ہیں سب وبالِ شدید میں جدا جدا گرفتار ہیں اور ان سب کے وبال کے برابر اس پڑھنے والے پر وبال ہے اور خود اس کا اپنا گناہ اس پر علاوہ اور ان حاضرین و قاری سب کے برابر گناہ ایسی مجلس کے بانی پر ہے اور اپنا گناہ اس پر طرّہ مثلاً ہزار شخص حاضرین ہوں تو ان پر ہزار گناہ اور اس کذّاب قاری پر ایک ہزار ایک گناہ اور بانی پر دو ہزار دو،ایک ہزار حاضرین کے اور ایک ہزار ایک اس قاری کے اور خود ایک اپنا، پھر یہ شمار ایک ہی بار نہ ہوگا بلکہ جس قدر روایاتِ موضوعہ جس قدر کلماتِ نامشروعہ وہ قاری جاہل جری پڑھے گا ہر روایت ہر کلمہ پر یہ حساب و وبال ِعذاب تازہ ہوگا مثلاً فرض کیجئے کہ ایسے سو کلماتِ مردود ہ اس مجلس میں اس نے پڑھے تو ان حاضرین میں ہر ایک پر سو سو گناہ اور اس قاری علم و دین سے عاری پر ایک لاکھ ایک سو گناہ اور باقی پر دو لاکھ دو سو ، وقس علیٰ ہذا، رسول اللہ فرماتے ہیں :
عن ابى هریرة ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال من دعا الى هدى كان له من الاجر مثل اجور من تبعه لاینقص ذالك من اجورهم شیئا ومن دعا الىٰ ضلالة كان علیه من الاثم مثل اثام من تبعه لا ینقص ذالك من اثامھم شیئا.38
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس کے جتنے پیروکار ہوں گے ان سب کے اجر و ثواب کے برابر اس داعی کو بھی ثواب ہوگا اور پیروکاروں کے اجرو ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس کسی شخص نے لوگوں کو گمراہی کی طرف دعوت دی تو جتنے لوگ ان کی اتباع کریں گے، ان سب کے برابر دعوت دینے والوں کو گناہ ہوگا لیکن گمراہی میں اتباع کرنے والوں کے گناہوں میں بھی ذرہ برابر کمی نہ ہوگی۔
آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے میلاد شریف کی اہمیت وفضیلت پر مبنی قرانی آیات اور احادیثِ مبارکہ کو بھیجنے کا رواج ہوچکا ہے لیکن اس میں یہ کوتاہی برتی جارہی ہے کہ بغیر حوالے کےآیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ کو بھیجا جارہا ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بھیجی جانے والی حدیث من گھڑت ہوتی ہے لہٰذا سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کے پیغام بھیجنے سے پہلے لازم ہے کہ اس کی تصدیق کرلی جائے ۔زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ کسی ثقہ اور مستند عالمِ دین یا علمائے کرام کی جماعت کی طرف سے بھیجے جانے والی احادیث کوہی بھیجا جائےجبکہ کس وناکس کی طرف سے بھیجی جانے والی روایات کو بہر صورت آگے نہ بڑھایا جائے۔
بجلی کا بغیر اجازت استعمال بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ لوگ کنڈے لگا کر غیر قانونی طریقے سے بجلی حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے جلسہ و جلوس کے لیے لائٹنگ میں استعمال کرتے ہیں یہ شرعاً اور قانوناً دونوں اعتبار سے ناجائز ہے جبکہ بعض علماءِ کرام اس طرح کنڈے وغیرہ سے بجلی کے حصول کو جائز سمجھتے ہیں لیکن تحریری طور پر کسی نے ابھی تک ایسا نہیں کہا بلکہ زبانی طور پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اس لیے جائز ہے کہ حکومتِ پاکستان جس طرح دوسرے تہوار مثلا ً یومِ آزادی ، یوم ِپاکستان اور عیدین کے موقع پر سرکاری عمارتوں میں چراغاں کرتی ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا تو مقصودِ کائنات فخرِموجودات نبی کریم کے یوم ِولادت پر اس کا استعمال کیسے ناجائز ہوگا۔
اسی حوالہ سے ذیل میں ایک فتوی بمع سوال و جواب درج کیا جارہا ہےجس سے مذکورہ مسئلہ خوب واضح ہوجاتا ہے:
سوال : ربیع الاوّل کا مہینہ آتے ہی شہرِ کراچی میں جگہ جگہ بجلی کے قمقموں سے چراغاں کیا جاتا ہے، 90 فیصد یہ چراغاں بجلی کی چوری سے کیا جاتا ہے رات تو رات دن میں بھی قمقمے روشن ہوتے ہیں ، آپ اس مسئلے پر کیا فرماتے ہیں ؟
جواب : موجودہ دور میں جلوس نکالنا اور چراغاں کرنا، اظہار مسرت اور دین کی شوکت کے اظہار کے معروف و مروّج طریقے ہیں ۔ جیسے جلوسِ میلاد النبی ﷺ، یومِ شوکت اسلام کے نام پر جلوس، جلوسِ عظمتِ صحابہ وغیرہ اسی طرح شادی، نکاح ودیگر تقریبات میں اظہارِ مسرت کے لیے بھی چراغاں کیا جاتا ہے اور مومن کی نگاہ میں آمد مصطفیٰ ولادت ِمصطفی ٰ اور بعثتِ مصطفیٰ سے بڑھ کر کسی دینی خوشی اور سعادت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا میلاد النبی منانااور چراغاں کرناجائز اور مستحب امور ہیں۔
کے ای ایس سی(KESC)یا واپڈا (WAPDA)کے پولوں سے ڈائریکٹ بجلی بلا اجازت لینے پر شرعی ، فقہی چوری کا اطلاق تو درست نہیں ہے کیونکہ سرقہ (چوری ) کی فقہی تعریف یہ ہے کہ ایسا مال جسے مالک نے حفاظت سے رکھا ہو اور اس کی حفاظت کا انتظام کیا ہو۔ اسے مالک کی غفلت سے فائدہ اٹھاکرلے لینا۔اب ظاہر ہے کہ بجلی کے پول اور تاریں کھلی ہوتی ہیں ۔مالِ محفوظ نہیں ہے اور متعلقہ ادارے ایسے استعمال سے غافل نہیں ہوتے، تاہم یہ درست ہے کہ بلا اجازت ڈائریکٹ کنکشن لے لینا، غیر قانونی، غیر شرعی اور لائقِ تعزیر جرم ہے۔لہذا ہل عقیدت و محبت کو چاہیئے کہ وہ رسول اللہ سے اپنی عقیدت و محبت کے اظہار میں حدود ِشرعی کی پاسداری کریں اور متعلقہ اداروں کو چاہیئے کہ وہ ایسے مواقع پر مناسب معاوضہ وصول کرکے عارضی کنکشن کا کوئی قانونی طریقہ وضع کریں ۔ دن میں قمقموں کا روشن کرنا اسراف ہے۔39
درج بالا فتوے کی روشنی میں منتظمین پر یہ لازم ہے کہ یا تو وہ محکمہ بجلی سے بلا معاوضہ استعمال کرنے کی تحریری اجازت لے لیں یا پھر بجلی کے استعمال پر باقاعدہ بل ادا کریں ،بعض احباب کا یہ کہنا کہ جب دوسری جگہوں میں بجلی کا غیر قانونی استعمال ہورہا ہے تو یہاں کرنے میں کیا حرج ہے کیونکہ یہ ایک اچھے اور مستحسن عمل کے لیے کیا جارہا ہے، یہ بالکل ناقابلِ التفات دلیل ہےکیونکہ کسی برائی کو دوسری برائی کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی ایک برائی کو کسی دوسری برائی سے ختم کیا جاسکتا ہے، قرآن مجید میں تو برائی کو اچھائی سے دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ 3440
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو۔
اسی طرح حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰه طَیِّبٌ لَا یَقْبِلُ اِلَّا طَیِّباً.41
بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہےاور وہ پاک چیزوں کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں فرماتا ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰٓاَيُّھا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ26742
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔
لہٰذا مذکورہ بالا حدیث شریف اور آیاتِ مبارکہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ غیر قانونی اور غیر شرعی طریقے سے حاصل کردہ بجلی پاک اور طیب چیز نہیں ہے اس لیے اس سے اگر کوئی نیک کام کیا جائے تو وہ اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ، بلکہ اس طریقے سے حاصل کردہ بجلی سے محافل کے انعقاد پر ثواب کے بجائے گناہ کا ملنا یقینی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی بجلی چوری ہی کہ زُمرہ میں عرف کے مطابق داخل ہوتی ہے جس کا بار مجموعی طور پر اس علاقے کے جملہ صارفین پر ڈالا جاتا ہے جو کہ ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر بلا اجازت ان کے بِلوں میں وصول کیا جاتا ہے اس لیے تقویٰ کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اس امر سے اجتناب کیا جائے۔
عیدِ میلاد النبی و دیگر محافل کے موقع پر خوشی کے اظہار کے لیے چراغاں کرنے کو علماء کرام نے جائز قرار دیاہے لیکن عام مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ چراغاں کرنے میں بھی بے احتیاطی کے شکار ہیں ا ور چراغاں و روشنی کے نام پر اِسراف (فضول خرچی) کے مرتکب ہورہے ہیں کئی دفعہ تو دن کے وقت بھی بجلی کے قمقمے روشن ہوتے ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کی علامتوں میں ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی بلکہ اعتدال و میانہ روی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا 6743
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے۔
اسلام میں اِسراف سے کس قدر روکا گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ نے وضو جیسے مستحسن عمل کے کرنے میں بھی اسراف سے منع فرمایا اگرچہ دریا کے کنارے وضو کیا جائے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے:
عن عبد اللّٰه بن عمرو رضي اللّٰه عنه قال: ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مر بسعد وهو یتوضا، فقال: ماهذا السرف ؟ فقال افى الوضو اسراف؟ قال نعم وان كنت على نھر جار.44
حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ حضرت سعد کے پاس سے گزرے جبکہ وہ وضوکررہے تھے۔ ارشادفرمایا: یہ اسراف کیسا؟ حضرت سعد نے پوچھاکہ کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں اگرچہ تم نہر ِرواں پر بیٹھے وضو کررہے ہو۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید میں فضول خرچی کے لیے دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ایک اور دوسرا "تبذیر" ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جائز امور میں حد سے تجاوز کرنا "اِسراف "ہے جبکہ ناجائز امور میں روپے پیسے خرچ کرنا، "تبذیر"ہےچنانچہ معجم الفقہاء میں ہے:
الاسراف: تجاوز الحد المعتاد فى الانفاق فى الحلال .45
اِسراف سے مرادحلال کاموں میں مقررہ حد سے زیادہ خرچ کرنا ہے۔
اس کے برعکس تبذیر کی تعریف درج ذیل الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
التبذیر، الاسراف المفسد :صرف المال فى الحرام.46
تبذیر سے مراد حرام امور میں مال کا خرچ کرنا ہے ۔
اسی حوالہ سےامام احمد رضا خان سے یہ سوال کیا گیا ہے :
کیا فرماتے ہیں علماءِ کاملین اس مسئلہ میں کہ لوگوں کا ستائیسویں(27) شبِ رمضان المبارک کے موقع پر مساجد کو آراستہ کرنا، روشنیوں کا خصوصی اہتمام کرنا، میلاد شریف کی تقریبات کے لیے مکانات کو سجانا، فانو س اور پھول وغیرہ لگانا ، بزرگان ِ دین کے سالانہ عرسوں میں خانقاہوں اور آنحضرت کے مزار پر انوار پر اس قسم کا بندوبست کرنا سوائے مال وقف کے درست ہے یا حرام ؟ بحوالہ کتب و مدلل جواب مرحمت فرمایا جائے۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحمت فرمائے ۔
آپ اس کے جواب میں چراغاں کے جواز کو بیان کرنے کے بعد آگے تحریر کرتے ہیں ۔۔۔البتہ روشنی کا بے فائدہ اور فضول استعمال جیسا کہ بعض لوگ ختمِ قرآن والی رات یا بزرگوں کے عرسوں کے مواقع پر کرتے ہیں، سیکڑوں چراغ عجیب و غریب و ضع وترتیب کے ساتھ اوپر نیچے اور باہم برابر طریقوں سے رکھتے ہیں محل نظر ہے اور اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ فقہائے کتبِ فقہ مثلا ً "غمزالعیون" وغیرہ میں اسراف (فضول خرچی ) کی بناء پر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں اسراف صادق آئے گا وہاں پرہیز ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ پاک، برتر اور خوب جاننے والا ہے۔
لہٰذا چراغاں کرنے والے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ رات کے وقت ہی قمقمے روشن کریں اور دن نکلنے سے پہلے پہلے وقت مناسب پر ان کو بند کردیا کریں ۔
علاوہ ازیں ان اخراجات میں کمی کرکے بچت مدارسِ دینیہ کے قائم کرنے اور ان کی مزید ترقی میں استعمال کیا جائے۔ خصوصی طور پر ایسے طلباء و علماء کرام جو مطالعہ کا ذوق تو رکھتے ہیں لیکن کتابوں کے خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں، ان کی مدد کی جائے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ علماء کرام کا مطالعہ وسیع ہوگا ، جس سے عام لوگوں کو تقاریر و بیانات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معلومات پر مبنی مواد ملے گا۔ رسول اللہ کے اخلاقِ حسنہ ، سیرتِ طیبہ اور دوسرے اسلامی معاملات پر مبنی لٹریچر اور کتابیں بھی شائع کرائی جائیں ۔
خوشی کے اظہار کے لیےا گرچہ غریبوں، مسکینوں اور عام مسلمانوں کو کھانا کھلانا ایک مستحسن عمل ہے۔ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے بلکہ اسے بہترین اسلام 47قرار دیا گیا ہے ۔ لہذا اہلِ ایمان عام دنوں میں بالعموم اور عید ِمیلاد النبی کے موقع پر بالخصوص اہتمام کے ساتھ غرباء و مساکین میں کھانا تقسیم کرتے رہے ہیں۔48 گھروں میں اس دن خاص طور پر حسبِ توفیق میٹھی چیزیں اور اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں اور غرباء ومساکین کو دینے کے علاوہ ایک دوسرے کے گھر بھی بطور تحفہ بھیجے جاتے ہیں ۔ جس سے نہ صرف آپ کے یومِ ولادت پر خوشی کاا ظہار ہوجاتا ہےبلکہ آپس میں محبت بھی بڑھتی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا:
تھادوا و تحابوا.49
ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو کہ اس سے آپس کی محبت بڑھتی ہے۔
جلوس کے موقع پر بعض اوقات کھانے پینے کی چیزوں کو اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ وہ زمین پر گرتی ہیں۔ نیز چھتوں سے چیزوں کو اس طرح پھینکا جاتا ہے کہ شرکاءِ جلوس کے پاؤں تلے آکر کچلی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے اناج کی بے ادبی ہوتی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اشیاءِ خوردو نوش کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وگر نہ ان سے برکت 50ختم ہوجاتی ہے۔ امام احمد رضا خان نے کھانے پینے کی اشیاء اور لنگر کو لٹانے کے بارے میں کیے گئے سوال پر اپنے ایک تفصیلی فتویٰ میں تحریر فرمایا کہ لنگر کو لٹانا جسے کہتے ہیں کہ لوگ چھتوں پر بیٹھ کر روٹیاں پھینکتے ہیں ،کچھ ہاتھوں میں جاتی ہیں، کچھ زمین پر گرتی ہیں ، پاؤں کے نیچے آتی ہیں ، یہ منع ہے کہ اس میں رزق الہٰی کی بے تعظیمی ہے۔ 51
یہ منظر اس وقت بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب محافلِ میلاد اور اس طرح کی دوسری محافل مسجد میں منعقد کی جاتی ہیں ، تو اختتامِ محفل پر شیرینی کی تقسیم کے وقت ناسمجھ بچے اور بعض اوقات تو سمجھد ار لوگ بھی اس طرح چھینا جھپٹی کرنے لگتے ہیں کہ کبھی کبھی نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسجد میں آواز بھی بلند ہوتی ہے، اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء کے گرنے سے مسجد کا فرش اور قالین وغیرہ آلود ہ ہوتے ہیں۔ ان سب باتوں سے مسجد کا تقدّس مجروح ہوتا ہے۔ مسجد ایک قابلِ احترام جگہ ہے، جہاں شورشرا بے اور فرش وغیرہ کو آلودہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:
عن السائب بن یزید قال: كنت قائما فى المسجد فحبنى رجل فنظرت فاذا هو عمر بن الخطاب اذهب فاتنى ھذین فجئته بھما فقال من انتما اومن این انتما قالا: من اهل الطائف قال لو كنتما من اهل البلد لا وجعتكما، ترفعان اصواتكما فى مسجد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم .52
حضرت سائب بن یزید اپنا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ میں مسجد میں سویا ہوا تھا۔ مجھے ایک شخص نے کنکری ماری، میں جاگا تو وہ حضرت عمر بن خطاب تھے، مجھے فرمایا کہ ان دو آدمیوں کو میرے پاس لاؤ ، جب میں انہیں آپ کے پاس لایا تو حضرت عمر نے ان سے پوچھا : تم کون ہو یا کس جگہ سے آئے ہو؟ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ ہم طائف میں رہتے ہیں ۔ حضرت عمر نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے رہنے والے ہوتے، تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا کیونکہ تم مسجدِ رسول میں بلند آواز سے باتیں کر رہے ہو۔
عن واثلة بن الاسقع ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال: جنبوا مساجد كم صیبانكم ومجانینكم وشرائكم وبیعكم وخصوماتكم ورفع اصواتكم واقامة حدود كم وسل سیوفكم.53
واثلہ بن اسقع سے روایت کی گئی ہے کہ بے شک نبی کریم فرماتے ہیں ،مساجد کو نا سمجھ بچوں اور پاگلوں اور بیع و شراء اور جھگڑے اور آواز بلند کرنے اور حدود قائم کرنے اور تلوار کھینچے سے بچاؤ۔
مسجد چونکہ عبادت و ذکر الہٰی کا مقام ہے لہٰذا مسلمانوں کو اس کی صفائی و ستھرائی کا خاص اہتمام کرنا چاہیئے۔ جیسا کہ حدیث پاک ہے:
عن عائشة : ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم امر بنیان المساجد فى الدور، وامر بھا ان تطیب وتنظف.54
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم فرمایا اور انہیں خوشبو دار اور صاف ستھرا رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت کردہ اس حدیث مبارک کو مد نظر رکھتے ہوئے منتظمین کو چاہیئے کہ وہ مسجد کے اندر شیرینی و غیرہ تقسیم کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ مسجد میں شور شرابہ نہ ہو اور نہ ہی شیرینی اس کے فرش پر گرے اور احتیاط کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیرینی کی تقسیم مسجد کی حدود سے باہر کریں تاکہ سرے سے بے ادبی وکوتاہی کا اندیشہ بھی نہ رہے۔
اسی طرح شیرینی اور لنگر کے لٹانے سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے غرباء و مساکین کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے پر گرتے ہیں ، کئی دفعہ چھینا جھپٹی کی وجہ سے لوگ زخمی بھی ہوجاتے ہیں ۔علاوہ ازیں کمزور اور ناتواں لوگوں کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔ یہ سب احترامِ انسانیت کے بھی خلاف ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ لوگ کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم میں اس بات کا خیال رکھیں کہ اشیائے خور دونوش اس طرح تقسیم کی جائے کہ لوگوں کو احترام کے ساتھ مل جائے۔
آج دنیا میں غربت و افلاس کا دور دورہ ہے، مہنگائی نے ہر ایک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ، جو خطِ غربت سے نیچے اپنی زندگی گزار رہے ہیں ، بھوک سے تنگ آکر خود کشی کر رہے ہیں اور اپنے معصوم سےبچوں کو بازار میں فروخت کرنے پر مجبور ہیں ، لہٰذا ان ناگفتہ بہ حالات میں عید میلاد النبی کے موقع پر خاص طور پر ایسے لوگوں کو تلاش کرکے انہیں اشیائے خور دو نوش پہنچائی جائیں ۔ میلاد النبی کے جلسے میں ہونے والے دوسرے اخراجات میں کمی کرکےانہیں غرباء و مساکین پر خرچ کریں تو یہ زیادہ فائدہ مند ہوگا ۔ اس لیے کہ موجودہ دور میں رسول اللہ کے یوم ولادت پر خوشی و مسرت کے اظہار کا اس سے بہترین طریقہ کوئی اور نہیں ہوسکتا اور اسلام بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ جہاں جس وقت جس کام کی ضرورت ہو، اسے ہی کیا جائے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حقیقی خوشنودی کے حصول کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ محافلِ ایصالِ ثواب ہوں ، جیسے محافلِ میلاد شریف، گیارہویں شریف، مجالس وعظ و نصیحت ، قرآن خوانی کی محافل یا شادی بیاہ ودیگر سماجی تقریبات ، ان سب سے مرد و زن کا ایسا مخلوط اجتماع کہ جن میں خواتین غیر محرم مردوں کے ساتھ بے تکلف اور بے حجاب گھل مل جائیں ، شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے اور خاص طور پر وہ محافل و مجالس جن کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہو ، ان میں بدرجہ اولیٰ ممنوع و ناجائز ہے۔ پہلے ہمارے بزرگ ان امور کا بہت خیال کیا کرتے تھے اور محافل میں مرد و زن کا اختلاط نظر نہیں آتا تھالیکن کچھ عرصے سے یہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ آہستہ آہستہ لوگ اس اہم مسئلے کو نظر انداز کرتے ہوئے میلاد شریف و دیگر محافل میں مرد و عورت کے لیے مخلوط انتظام کررہے ہیں ۔کئی دفعہ تو مرد وعورت ایک ہی اسٹیج پر بیٹھ کر میلاد شریف اور نعت شریف پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بے پردگی اور بے راہ روی پھیل رہی ہے اور یہ کئی قسم کے گناہ کا محرک بھی بن رہا ہے، مثلاً بد نظری اور آزادانہ اختلاط۔ رسول اللہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نگاہوں اور دوسرے اعضاء کی حفاظت بھی لازم ہے کہ بعض اوقات ان کی وجہ سے سنگین گناہ یعنی زنا سرزد ہوجاتا ہے55اور مرد وعورت کے اختلاط میں نگاہوں اور دوسرے اعضاء کی حفاظت بہت ہی مشکل ہوتی ہے، حالانکہ شریعت نے مومن و مومنہ دونوں کو اپنی نگاہوں اور دیگر پردے والے اعضاء کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ.3056
آپ مسلمان مردوں سے کہئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ ان کاموں کی خبر رکھنے والا ہے، جن کو تم کرتے ہو۔
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَھنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَھنَّ اِلَّا مَا ظَھرَ مِنْھا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهنَّ عَلٰي جُيُوْبِھنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَھنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕھنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِھنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕھنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِھنَّ اَوْ اِخْوَانِھنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِھنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِھنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕھنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُھنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْھرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِھنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.3157
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو ، اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
مذکورہ آیات ِکریمہ کی روشنی میں مسلمان مرد وعورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے رویئے اور طرز ِعمل پر نظر ثانی کریں۔ ٹیلی ویژن اور اسٹیج پروگرامز میں یہ کوتاہی واضح طور پر نظر آتی ہے کہ عورتیں اور بچیاں بناؤ سنگھار کے ساتھ ان میں شرکت کرتی ہیں ،جنہیں نا محرم مرد دیکھتے ہیں ۔ اب محافلِ میلاد شریف و دیگر محافل میں بھی یہ بے پردگی نظر آرہی ہے حالانکہ قرآن مجید میں مستثنیات کو چھوڑ کر دوسرے مردوں پر اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے۔
اسلام میں عورتوں کے لیے پردے کی اہمیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ نے نہ صرف بینا ( آنکھوں والے ) نا محرم مردوں بلکہ نا بینا نا محرم کے سامنے آنے سے بھی منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں منقول ہے:
عن ام سلمة انھا كانت عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ومیمونة قالت فبینا نحن عنده اقبل ابن ام مكتوم فدخل علیه وذالك بعد ما امرنا بالحجاب فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم احتجبا منه فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الیس هو اعمى لا یبصرنا ولا یعرفنا فقال لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم افعمیا وان انتما الستما تبصرانه، قال ابو عیسىٰ هذا حدیث حسن صحیح.58
ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہ رسول اللہ کے پاس تھیں کہ اچانک (حضرت عبد اللہ )ابن ام مکتوم سامنے آگئے اور رسول اللہ کے پاس آنے لگے تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں، جو ہمیں نہیں دیکھ سکتے؟ اس کے جواب میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم دونوں ان کو نہیں دیکھ رہی ہو؟
امام احمد رضاخان اپنے ایک فتوے میں رقم طراز ہیں :
عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نا محرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جائے ، حرام ہے۔ نوازل میں امام فقیہ ابو اللیث فرماتے ہیں:
نغمة المراة عورة.
عورت کا خوش آواز کرکے کچھ پڑھنا، "عورۃ "(یعنی محل ستر )ہے۔
امام ابوالبرکات کی نسفی میں ہے:
لا تلبى جھر الان صوتھا عورة.
عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے ، اس لیے کہ اس کی آواز قابلِ ستر ہے۔
رد المختار علامہ شامی ميں ہے:
لا نجیز لھن رفع اصواتھن ولا تمطیطھا ولا تلبینھا وتقطیعھا لما فى ذالك من استمالة الرجال الیھن وتحریك الشھوات منھم ومن هذا لم یجز ان تؤ ذن المراة.59
عورتوں کو اپنی آوازیں بلند کرنا، انہیں لمبا اور دراز کرنا، ان میں نرم لہجہ اختیار کرنا اور ان میں تقطیع کرنا، (یعنی کاٹ کاٹ کر تحلیلی عروض کے مطابق) اشعار کی طرح آوازیں نکالنا، ہم ان سب کاموں کی عورتوں کو اجازت نہیں دیتے،اس لیے کہ ان سب باتوں میں مردوں کا ان کی طرف مائل ہونا پایا جائے گا اور ان مردوں میں جذباتِ شہوانی کی تحریک پیداہوگی ۔ اسی وجہ سے عورت کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اذان دے۔60
لہٰذا دوسرے مسائل کی طرح اس اہم مسئلے پر بھی غور کرنے کی انتہائی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا رواج اس قدر عام ہوجائے کہ آنے والے وقتوں میں اس کو روکنا مشکل ہوجائے کیونکہ آج کل کئی مقامات پر ایسی محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں جن میں خواتین باقاعدہ مائک یا اسکرین پر نعتیں پڑھتی ہیں جن سے ان کی آواز اور چہرہ دونوں نامحرم مرد حضرات کے لیے بے پردہ ہوجاتے ہیں جو کہ سخت گناہ ہیں اور جن سے اجتناب شرعاً لازم ہے۔
کچھ عرصے سے یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جشن ِولادت کی خوشی کے موقع پر ڈھول باجے بجائے جاتے ہیں اور اس پر نوجوان لڑکے رقص کرتے اور تالیاں بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں ،یہ شرعاً ناجائز ہے۔اسی طرح نعت شریف مزامیر یعنی میوزک کے ساتھ پڑھنے کا رواج عام ہورہا ہے۔ مزید برآں اس انداز سے ذکر کے ساتھ نعت پڑھی جاتی ہے کہ سننے والوں کو ڈھول کی آواز سنائی دیتی ہے، یہ بھی ناجائز ہے۔
دف آلاتِ لہوو لعب (کھیل کود) میں سے ہے، جس کا استعمال اغلب احوال میں (اکثر و بیشتر) لہو ولعب کے لیے ہوتا ہے ، لہٰذا دف کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں ۔دف کے بغیر جلا جل ( بغیر جھانجھ ) کی اباحت ( جائز ) بعض احادیث سے ثابت ہے مثلاً :
اعلنوا هذا النكاح واجعلوه فى المساجد واضربوا علیه بالدفوف .61
اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجد میں منعقد کرو اور دفوف کے ذریعے اعلان کرو ۔
لیکن اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہاذا اجتمع الحلال والحرام رجح الحرام( جب حلال و حرام جمع ہوجائیں ، تو حرام کو ترجیح ہوتی ہے )۔ بناء بریں ترجیح جانبِ حرمت کو ہے، جس کی مؤید سرکار ابد المدار کی احادیثِ شریفہ مثلاًامرت بمحق المعازف بعثنی ربی عزوجل بمحق المعازف (مجھے گانے بجانے کے آلات کو مٹانے کا حکم دیا گیا ہے، میرے رب عزوجل نے مجھے گانے بجانے کے آلات کو مٹانے کے لیے بھیجا ہے)، وغیرہما ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ حدیث مذکور"اعلنو ھذالنکاح" میں اجازت استعمالِ دف کی بغرضِ اعلان مفہوم ہوتی ہےجس سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ بعض احوال میں ملا حی کی اجازت ہے مگر اس زمانے میں جبکہ لوگ تصحیح ِنیت سے قاصر اور احکامِ شرع سے غافل لہو و لعب میں منہمک ہیں سبیل الاطلاق منع ہیں ۔ جیسا کہ امام احمد رضاخان نے اپنے رسالہ ہادی الناس فی رسول الاعراس میں افادہ فرمایا ہے ۔ درمختار میں امامِ اعظم ابو حنیفہسے نقل فرمانے کے بعد امام الحصکفی نے فرمایا کہ یہ مسئلہ تمام کھیل کود کے آلات کے حرام ہونے پر دلالت کرتا ہے ،(یعنی مزامیروآلاتِ طرب ولہو نہ کہ عام کھیل کودکے آلات مثلاً گیند،بلّا وغیرہ) جو آواز ان آلات ِلہو کے مشابہ کسی طرح سے پیدا کی جائے ، اس کا بھی وہی حکم ہے ،جو ان لہو سے نکلنے والی آوازوں کا ہے۔
اس کی نظیر گراموفون وغیرہ آلات سے نکلنے والی ان آوازوں کا حکم ہے، جو قطعاً ان آلاتِ لہو سے نکلنے والی آوازیں تو نہیں لیکن بلا شبہ یہ آوازیں ان آلاتِ لہو کی آوازوں کی مثل ہیں ، لہٰذا گراموفون وغیرہ میں ان ملا حی کی آوازیں بھرنا اور انہیں سننا اسی طرح حرام ہے، جس طرح ان ملا حی کا استعمال سننے سنانے کے لیے حرام ہے، سیٹی ایک مخصوص آواز نکالنے کا آلہ ہے ، اس جیسی آواز منہ سے نکالی جائے تو یہ بالعموم طریقۃ فسّاق ہے اور نا جائز ہے لہٰذا ان مندرجہ بالا امور سے روشن ہے کہ دف جیسی آواز نکالنا اگرچہ بغیر استعمالِ دف ہو، ناجائز ہے اور اگر یہ قصداً ہے تو تلہی (کھیل کود)ہے، جو مطلقاً حرام ہے۔ اور اگر ایسی آواز منہ سے بلا قصد نکلتی ہے، تو وہ صورتِ لہو کے مشابہ ہے لہٰذا اس سے بھی گریز کرنا چاہیئے، خصوصا ً ذکر و نعت میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ قصد لہو اور صورتِ لہو دونوں سے پرہیز کیا جائے۔ دف کے استعمال کی رخصت بعض احادیث سے اگر ثابت بھی ہے تو ان اشعار میں ہے، جن کا تعلق ذکر و نعت سے نہیں۔اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ حضور کی اجازت سے حضور کی خدمت میں جب ایک گانے والی نے دف بجایا اور منجملہ اشعار کا یہ مصرعہ پڑھا: وفینا نبی یعلم مافی غد{اور ہمارے درمیان ایسے نبی ( غیب کی خبر دینے والے ) ہیں ، جو آئندہ کل کی بات جانتے ہیں} ۔حضور نے فرمایا :
دعى هذه وقولى بالذى ماكنت تقولین.62
یعنی یہ رہنے دو اور جو پڑھ رہی تھیں وہی پڑھتی رہو۔
کیونکہ صورتِ لہو پر نعت شریف شایان شان نہ تھا یعنی ایک طرف تو اس میں غنا کی مشابہت تھی اور دوسری طرف عاجزی اور تواضع کے خلاف ان اشعار میں وہ باتیں مذکور تھیں جن کا فخریہ ذکر کرنا نبی کو پسند نہ تھا کہ ایسی آواز جو دف وغیرہ کے مشابہ ہو ، منہ سے نکالنا جائز نہیں کہ طریقہءِ فسّاق ہے اور ذکر وغیرہ میں ناجائز ہے ۔ورنہ اوّلا تو یہ مصرع خود بچیوں نے تو بنایا ہی نہیں تھا کیونکہ بچیوں کو اشعار پر اس طرح کی مہارت محال ہوتی ہے ، ثانیاً وہ شعر بنانے والا کوئی کافر و مشرک بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ حضور کو نبی مانتے ہی نہیں تھے۔ اب یہ شعر جس صحابی نے بھی بنایاتھا وہ معاذاللہ مشرک ہو نہیں سکتے تھے اسی لیے حضور نےنہ تو شعر کہنے والے کو بُرا کہا اور نہ ہی خود اس شعر کی کوئی مذمت فرمائی بلکہ صرف اس کو پڑھنے اور گانے سے روکا کیونکہ ا س میں منہ پر تعریف کیا جانا پایا جا رہا تھا جو کہ عاجزی و انکساری کے خلا ف تھا، ثانیاًکھیل کود اور گانے بجانے کے درمیان نعت شریف کا شعر پڑھنا خلاف ادب تھا ، ثالثاً غیب کی نسبت کا کُھلِ عام بلا نسبتِ رب تبارک وتعالیٰ کے اس طرح نبی کی طرف کیا جانا آپ کو نا پسند آیا اور رابعاًاس میں نعت شریف و مرثیہ کو ملا کر پڑھا جا رہا تھا جوکہ ایک غیر مناسب عمل تھا اس لیے نبی نے اس فعل کو کرنے سے ان بچیوں کو روکا اور ان کو ادب کی تعلیم دی کے حضور کی نعت کھیل کود کے انداز میں غنا اور موسیقی کے انداز میں کیے جانے کے بجائے عاجزی تواضع محبت اور ادب کے ساتھ کی جائے جیسا کہ صاحب مرقاۃ اور صاحب اشعۃاللعمات نے اپنی اپنی کتب میں اس حدیث کی شرح میں بیان فرما یا ہے ۔۔
رسول اللہ کی احادیث مبارکہ میں سختی کے ساتھ ڈھول بجانے اور مزامیر سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ دیلمی میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: مجھے ڈھول اور بانسری توڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس چیز کو توڑنے کا حکم رسول اللہ نے دیا، آج ہم اسے ہی آپ کی ولادت کے جشن میں استعمال کر رہے ہیں ۔ یقیناً ہمارے اس عمل پر اللہ تعالیٰ کے حبیب خوش ہونے کے بجائے رنجیدۂ خاطر ہوتے ہوں گےاس لیے اس فعلِ قبیح سے اجتناب کرتے ہوئے میلاد النبی کے موقع پر رقص و سروراور دف باذی سے قطعاً اجتناب کرنا چاہیے۔
ایک اہم مسئلہ خانہ کعبہ و مسجد ِنبوی کے نمونے اور عکس کا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ مسجدِ نبویﷺ ،نعلینِ پاک اور دیگر ِ مقدسہ کا نمونہ اور عکس بنانا ازروئے شریعت جائز ہے۔ہمیشہ سے امت کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اظہارِ محبت اور تسکینِ دل کے لیے اِن مقاماتِ مقدسہ اور متبرک اشیاء کا نمونہ و عکس اپنے گھروں ، دفاتر اور دوسری جگہوں میں آویزاں کرتے ہیں اور اب تو گزشتہ کئی عشروں سے ربیع الاوّل شریف کے مہینے میں راستے اور چوراہوں پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کا ماڈل بناکر رکھ دیا جاتا ہے۔ لوگ دور دراز علاقوں سے آکر ان ماڈلز کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ معاملہ صرف دیکھنے اور آنکھوں کو تسکین پہنچانے تک محدود رہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض افراد اپنی لاعلمی کی بنیاد پر ان ماڈلز کا طواف کرنا شروع کردیتے ہیں اور ان ماڈلز کے اندر خوش اعتقادی کے نام پر گڑیا وغیرہ رکھ دیتے ہیں جو کہ ناجائز ہے۔ مزید ایک اور عجیب معاملہ یہ ہوتا ہے کہ مرد حضرات کے علاوہ خواتین بھی انہیں دیکھنے آتی ہیں۔ جن کے لیے عموماً پردے کا انتظام نہیں ہوتا اور مردو عورت کا اختلاط ہوتا ہے ،یہ سب امور ناجائز ہیں لہٰذا ان خرابیوں پر خصوصی طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
شریعت کے مقاصد میں سے ایک" سدِّ ذرائع"یعنی مفاسد اور خرابیوں کا راستہ روکنابھی ہے۔ لہٰذا اس اہم مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے راستوں اور چوراہوں پر ان مقاماتِ مقدسہ کے ماڈلز کے رکھنے کی ممانعت ہی بہتر ہے کیونکہ موجودہ بے راہ روی کے زمانے میں عوام الناس کو مذکورہ بالا شرعی قباحتوں سے روکنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ قرآن ِمجید اور سنتِ رسول سے بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز فی نفسہ جائز ہو لیکن اس کے نتیجے میں کوئی برائی پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو مصلحت اور سدِّ ذرائع کی غرض سے اسے روکا جاسکتا ہے۔
ربیع الاوّل کے شروع ہوتے ہی، اظہارِ خوشی میں مختلف مقامات پر سبز جھنڈے لگادئیے جاتے ہیں۔ جن میں سے بعض پر گنبد ِخضراء اور نعلینِ شریف کی شبیہ چھپی ہوتی ہےجبکہ بعض پر "سرکار کی آمد مرحبا"،" الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ "اور ان جیسے کلماتِ مقدسہ لکھے ہوتے ہیں، یہاں یہ کوتاہی نظر آتی ہے کہ بعد میں ان جھنڈوں کو ہٹایا نہیں جاتا، لہٰذا وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جھنڈے پرانے اور بوسیدہ ہو کر پھٹ جاتے ہیں یا پھر نیچے گر جاتے ہیں۔ متعدد مرتبہ یہ دلخراش منظر بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سڑکوں پر پڑے نشئی لوگ انہیں اٹھاکر اپنے لیے چادر کے طور استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف جھنڈوں کی بلکہ الفاظِ مقدسہ کی بھی بے ادبی ہوتی ہے۔ عیدِ میلاد النبی کے علاوہ محرم الحرام اور دیگر مواقع پر بھی یہ صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ معاملے میں بھی انتہائی احتیاط ضروری ہے اور وہ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ صرف سبز رنگ کے سادہ جھنڈے لگائے جائیں ، جن پر کچھ بھی لکھا ہوا یا چھپا ہوا نہ ہو اور ان جھنڈوں کو لگانے کے بعد ان کا خیال رکھا جائے اور ربیع الاوّل کے ختم ہوتے ہی انہیں اتار لیا جائے۔اس سے دوہرا فائدہ ہوگا یعنی جھنڈوں کی بے ادبی بھی نہیں ہوگی اور آئندہ سال کے لیے وہ قابلِ استعمال بھی رہیں گے۔
اسی طرح جلسہ وغیرہ کے انعقاد میں ایک کوتاہی یہ بھی نظر آتی ہے کہ اسے شارع ِعام اور بازاروں میں منعقد کیا جاتا ہے۔شارع ِعام اور بازاروں میں شامیانے ، کھونٹے اور پرچم وغیرہ لگادیےجاتے ہیں۔جس کی وجہ سے راہ گیروں اور گاڑی والوں کو گزرنے میں دقت ہوتی ہے، خاص طور پر بیمار و ناتواں اور کمزور لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی اور شرعاً ناجائز ہے۔ اسلام نے توراستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کا حکم دیا ہے نہ کہ انہیں لگانے کا ، ایک حدیث مبارک میں راستے سے تکلیف دہ شئے ہٹانے کو صدقہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا:
یمیط الاذىٰ عن الطریق صدقة.63
راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا صدقہ ہے۔
۔۔۔شریعت میں تو اسی لحاظ سے راستہ میں نماز پڑھنی بھی مکروہ ہوئی نہ کہ بازار کی سڑک پر مجلسِ میلاد چنانچہ درِّ مختار میں ہے:
تكره الصلوة فى طریق لان شغلة بما لیس له لانھا حق العامة للمروره مختصر اً.64
راستے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ راستے اس کام کے لیے نہیں لہٰذا اس کام کا کرنا لوگوں کے گزرنے کے حق کو متاثر کرتا ہے۔
آپ نے گویا درِّ مختار کی عبارت کو نقل کرکے یہ واضح فرمایا کہ نماز جیسی عبادت کی ادائیگی کے لیے جب راستے کا حق معطل نہیں کیا جاسکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میلاد شریف کی محفل کے لیے اس کی اجازت دے دی جائے؟ حالانکہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نماز کی ادائیگی میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا پھر بھی اس سے روکا گیا جبکہ میلاد شریف کے انعقاد کے لیے صبح ہی سے سڑکوں اور راستوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں تو اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
فقہائے کرام نے اپنی کتب میں حقِّ مرور کے عنوان سے راستے کے اس حق کے بارے میں باقاعدہ اصول و ضوابط بیان کیے ہیں ۔ جیسا کہ حنفی فقہ المعاملات کی مشہورومعروف کتاب مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:
ترفع الاشیاء المضرة للمارین ضررا فاحشا.65
ایسی اشیاء جو شارع ِعام سے گزرنے والوں کو تکلیف دیں یعنی انہیں مقصد حاصل کرنے سے روکیں ، ان کو دورکیا جائے گا ۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جلسہءِ میلادِ مصطفیٰ اور دیگر جلسوں کے انعقاد میں ایسی جگہوں کا تعین کریں جو لوگوں کی گزرگاہ نہ ہوں مثلاً گراؤنڈ اور پارک وغیرہ۔
میلادِ مصطفیٰ اور سیرت مصطفیٰ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں یعنی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ میلادِ مصطفیٰ کے بغیر سیرت مصطفیٰ کا کوئی تصور نہیں اور سیرت مصطفیٰ کے بغیر میلاد کا کوئی مقصد نہیں ۔ یہ دونوں دراصل ایک ہی شمع کے دو نور ہیں اور ان ہی سے اسلام کی شمع روشن و منور ہےلیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ آج میلاد شریف کی محافل کو ہی صرف اپنی شناخت بنالیا گیا ہے اور سیرت النبی کی محافل منعقد نہیں کی جاتیں گویا جو سیرت ِرسول پاک کی محفل کا انعقاد کرے گا، وہ منکرِ میلاد ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ، لہٰذا عام مسلمانوں کی اس حوالہ سے ذہن سازی کرنی چاہیئے کہ نہ صرف میلادِ مصطفیٰ کی محافل کا انعقاد کرکے آپ کی بعثت کے مقاصد سے آگہی حاصل کریں بلکہ سیرِت رسول کو جاننے کے لیے سیرت کی محافل بھی منعقد کریں ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ اشتہارات و اعلانات میں صرف عیدِ میلاد النبی کے الفاظ نہ استعمال کیے جائیں بلکہ ان کے ساتھ سیرت رسول بھی لکھا اور کہا جائے تو اس کے دور رس نتائج 66 مرتب ہوسکتے ہیں۔ 67
امام الانبیاءو المرسلین رحمۃ للعالمین سیّد نا محمد رسول اللہ کی ولادتِ باسعادت اور بعثتِ مبارکہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور سورۃ آل عمران 69میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بطورِ امتنان و احسان اس نعمتِ عظمیٰ کا ذکر فرمایا اور سورۃ یونس70 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت پر اہل ایمان کو فرحت و انبساط کا حکم فرمایا اور سورۃالضحیٰ71 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو بار بار بیان کرنے کا حکم فرمایا اور ان احکام کا بہترین مصداق سیّد الانام محمد رسول اللہ کی ولادت باسعادت کی خوشی ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر آپ کے فضائل بیان ہوئے اور خود آپ نے بھی اپنے فضائل بیان فرمائے۔
لہٰذا آپ کے فضائل بیان کرنا اور آپ کی ولادتِ باسعادت کی خوشی منانا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور آپ کی ذاتِ بابرکات سے اظہارِ محبت کا ایک مظہر ہے، اس لیے مسلمانوں میں میلاد النبی کی مجالس کا انعقاد توارُث کے ساتھ ایک شعار کے طور پر رائج رہا ہے اوراَلْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ اِحْسَانِہٖآج بھی یہ مبارک و مسعود سلسلہ جاری و ساری ہے اور اِنْ شَاءَ اللہتاقیامت جاری و ساری رہے گا۔
میلاد النبی کے جلسے جلوس کی بابت دو امور انتہائی اہم ہیں:
جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ972
اور ان(رسول پاک ) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو۔
یعنی رسول اللہ کی تعظیم و توقیر کرو لہٰذا میلاد النبی کی مجالس اور میلاد سے مطلقاً روکنے کا حکم دینا تعظیم و توقیر رسول سے روکنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح حدیث پاک میں منقو ل ہے:
سئل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن صوم یوم الاثنین، قال ذاك یوم ولدت فیه ویوم بعثت فیه او انزل على فیه.73
(پیر کا نفلی روزہ رکھنا رسول اللہ کا معمول تھا تو) آپ سے پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: (میں پیر کا روزہ اس لیے رکھتا ہوں کہ) یہ میری پیدائش کا دن ہے اور اِسی دن میری نبوت کا اعلان ہوا یا اسی دن مجھ پر نزولِ قرآن کا آغاز ہوا۔
اس حدیث سے ایک جماعت علماء نے آپ کی ولادت کی خوشی یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جواز ثابت کیا ہے اور حق یہ ہے کہ اگر اس مجلس میں آپ کی ولادت کے مقاصد اور دنیا کی رہنمائی کے لیے آپ کی ضرورت اور امورِ رسالت کی حقیقت کا بالکل صحیح طریقے پر اس لیے بیان کیا جائے کہ لوگوں میں اس حقیقت کا چرچا ہو اور سننے والے یہ ارادہ کرکے سنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول کے مطابق گزارنا ہیں اور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو،74تو مبارک ہیں ایسی مجلسیں اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے ، بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں۔75
اصلاحِ عقائد پر زور دینے کی اشد ضرورت ہے ، لیکن یہ اس انداز میں نہیں ہونا چاہیے کہ اعمالِ صالحہ کی اہمیت کم کی جائے یا انہیں نظر انداز کردیا جائے اور عوام یہ سمجھنے لگیں کہ جب محض صحتِ عقیدہ نجات کے لیے کافی ہے تو اعمالِ صالحہ کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اعمال کو ایمان کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ یقیناً اعمال کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے اور جہنم کے دائمی عذاب سے نجات کے لیے محض ایمان کافی ہے، ایمان کے ساتھ تقویٰ و پرہیز گاری بھی ہوتو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امیدِ واثق ہے کہ بلاعذاب جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ بعض گناہگار مسلمان یقیناً جہنم میں داخل کیے جائیں گے، جہنم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہے کہ آگ کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس کی گرمی سے اس کا دماغ کھولتا ہوگا۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے اور اپنے حبیب کی شفاعتِ عُظمیٰ کے طفیل بلاحساب داخلِ جنت فرمائے)۔بلاشبہ نعرے اہل سنت کا شعار ہیں، لیکن سیّد المرسلین اور صحابہ کرام کی مبارک زندگیوں میں نعروں سے زیادہ عمل اور اصلاحِ کردار پر زور تھا، آج اس پہلو کو مناسب اہمیت دینا ترک کردیا گیا ہے۔ سیّد نا محمد رسول اللہ کی مکی زندگی کا اکثر حصہ دعوت و ارشاد، کفارِ مکہ کا ستم سہنے اور ہجرت پر منتج ہوا، طائف کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔
مدنی زندگی میں عباداتِ الہٰی کے علاوہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کا معتدبہ حصّہ بدر، احد، خندق، غزوۂ حدیبیہ، فتح خیبر، فتح مکہ اور حنین وتبوک و دیگر غزوات میں گزرا۔ روایات کے مطابق جن غزوات میں سیّد نا محمد رسو ل اللہ نے شرکت فرمائی، ان کی تعداد پچیس(25) ، ستائیس(27) یا انتیس (29)ہے، اگرچہ تمام غزوات میں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ صحابہ کرام کے سرایا کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
میلاد النبی کے جلوس تعظیم و توقیرِ مصطفیٰ کے اظہار کا ایک طریقہ ہیں۔اس لیے ان جلوسوں میں نگاہیں نیچے کرکے زبان پر درود شریف یا نعتِ مصطفیٰ جاری رکھتے ہوئے باوضو اور باوقار انداز میں شرکت کرنی چاہیے کہ اگر کوئی غیر مسلم دیکھے تو کشش محسوس کرے لیکن بعض جلوس اس قدر منفی اثرات کے حامل ہوتے ہیں کہ اغیار کا متاثر ہونا توکجا، خودسنجیدہ مسلمان بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
مسجدِ نبوی اور کعبہ شریف کی شبیہ رکھ کر اس کے اردگرد مردوزن کا اختلاط، بازاروں میں ابتذال اور رزق کی بے حرمتی اس کی چند مثالیں ہیں۔ ان جلوسوں سے دینی فائدہ حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت ِ عملی کی ضرورت ہے۔مستحب اور مستحسن دینی کاموں کو بدعات و خرافات سے پاک رکھنے کا اہتمام بھی ضروری ہے۔76
جشنِ میلادالنبی کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چونکہ حضور کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔78بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ ءِ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلین شرائط میں سے ہیں۔
محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضور چوں کہ خود صفائی کو انتہائی پسند فرماتے تھے، اور جس طرح آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہر طرح کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خیال رکھا جاتا تھا اُسی طرح حضور کی نسبت سے منعقد ہونے والی محافل و مجالس میں بھی کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضور جب چاہیں تو اپنے غلاموں کی ان محافل میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ایک مثال سے اس اَمر کی توثیق کی جاتی ہے :
۔۔۔حضور کی طبیعت مبارکہ اتنی پاک، منزہ اور لطیف تھی کہ آپ لہسن اور پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں آنے سے بھی صحابہ کرام کو منع فرماتے تھے۔ 79 ایسے کئی واقعات ہیں کہ حضور اپنے خاص غلاموں کو جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں ایسی بدبودار اشیاء استعمال کرنے سے روکتے تھے بعداَز وصال بھی اسی طرح حکماً یا اشارتًا منع فرماتے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین کی اٹھائیسویں(28) حدیث میں اپنے والد گرامی شاہ عبد الرحیمر کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں : دو صالح آدمیوں، جن میں سے ایک عالم بھی تھا اور عابد بھی، جب کہ دوسرا عابد تھا عالم نہ تھا، کو ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں حضور نبی اکرم کی زیارت شریف ہوئی لیکن حضور کی مجلس میں صرف عابد کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی، عالم اس سے محروم رہا۔ چنانچہ اس عابد نے بعد میں لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس عالم کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ تو اُسے بتایا گیا کہ وہ حقہ پیتا تھا اور حضور حقہ ناپسند فرماتے ہیں۔ دوسرے دن یہ عابد اس عالم کے پاس گیا تو دیکھا کہ عالم اپنی اس محرومی پر زار و قطار رو رہا ہے۔ جب عابد نے حقیقتِ حال سے اُسے آگاہ کیا اور محرومی کا اصل سبب بتایا تو عالم نے اسی وقت تمباکو نوشی سے توبہ کرلی۔ پھر اگلی شب دونوں نے اسی طرح بیک وقت حضور پر نور کی زیارت کی اور اِس بار عالم کو مجلس میں نہ صرف حاضری کا شرف بخشا گیا بلکہ آقائے دوجہاں نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔۔۔80
بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے : ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے بہت سے ناجائز اور حرام اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ دیتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔
حضور کی ولادت مبارکہ کی خوشی مناتے ہوئے محافلِ میلاد میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوُضو ہو کر شریک ہوں تو یہ اَفضل عبادت ہے۔ میلاد کے جلسے، جلوسوں اور محافل میں سیرت کا ذکرِ جمیل کرنا، لوگوں کو آقائے نامدار حبیبِ کبریا کے حسنِ سیرت و صورت اور فضائل و شمائل سنانا اور حضور کی محبت اور عشق کے نغمے الاپنا ہر سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اِسی میں پوری اُمتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور یہی وقت کی سب سے اہم مذہبی ضرورت ہے۔ ملتِ اِسلامیہ کے واعظین اور مبلغین اگر میلاد اور سیرت کی دو بنیادی حقیقتوں کو الگ الگ کر دیں گے تو عوام الناس تک کلمہ حق کیسے پہنچے گا؟واعظین اور مبلغین اگر دین کا اور حضور کی تعظیم و رسالت کا تحفظ چاہتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی المقدور ناجائز اور خلافِ شرع بدعت، ہرقسم کے منکرات اور فحش اُمور کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔
حکومت کا فرض ہے کہ محافلِ میلاد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرے اور عید میلادالنبی کے نام پر ناچ گانا اور دیگر خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگا دے جس کے خلاف ورزی کرنے والے عناصر کو سزائیں دی جائیں تاکہ جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر قسم کی خرافات اور غیر شرعی اُمور سے پاک رہے۔ 81
مولود کی مقدس محافل کئی بھلائیوں اور خیر کثیر کا مجموعہ ہیں اگر ان کو شایانِ شان طریقہ اور جملہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے منعقد کیا جائے۔اگر اس کے برعکس اِن محافل میں شریعتِ اسلامیہ میں ملحوظ رکھے گئے امور کا خیال نہ کیا جائے مثلاً راستوں کے حقوق کا خیال،دوسرے مسلمانوں کی ایذاء رسانی سے احتراز اور اسی طرح دیگر امورضروریہ ومعاملات واجبہ تو یہ مجالس کارِ خیر کے بجائے کارِ عتاب ہوجائیں گی۔
نبی کریم کی محبت کا تقاضہ فقط یہی ہے کہ اپنی تما م تر خوشیاں اور غم آپ کے لائے ہوئے دین کی مطابق ہی سر انجام دئیے جائیں ۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر خواہشات نفسانی کے سبب اطاعت و اتباع رسول فوت اور مقصدِ محبت وعشقِ مصطفی ضائع ہوجائیگا جو اصل مقصودِ حیات ہے۔ مسلمانان عالم نبی کریم سے تمام اشیاء سے بڑھ کر دل و جان سے محبت کرتے ہیں جس کا اظہار وہ ہر طریقہ سے ہر موقع پر کرتے ہیں۔محافلِ مولود میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ ان محافل کو محرمات و منکرات سے کلیۃً پاک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ جذبہ بھی سلامت رہے اور مجالس مولود کی عظمت و رفعت بھی برقرار رہے۔اہل ِاسلام اپنی نسل نَو کوآپ کی محبت وعظمت سے روشناس کرواسکیں گے اورآپ کی اطاعت واتباع کا جذبہ بھی دلوں میں جاں گزیں ہوسکے گا۔ان تمام متذکرہ باتوں کو اس وقت ہی عملی جامہ پہنایا جا سکے گا جب محافل مولود جملہ دینی آداب کی رعایت کرتے ہوئے منعقد کی جائیں۔
محفلِ میلاد کے بارے میں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اکابرینِ امت نے ناجائز و غیر شرعی امور سے محافلِ میلاد کو پاک رکھنے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے نہ کہ محفلِ میلاد کو ہی ختم کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس حوالہ سےامام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
وقوله: والثانى الخ هو كلام صحیح فى نفسه غیر أن التحریم فیه إنما جاء من قبل هذه الأشیاء المحرّمة التى ضمت إلیه، لا من حیث الاجتماع لإظھار شعار المولد، بل لو وقع مثل هذه الأمور فى الاجتماع لصلاة الجمعة مثلاً لكانت قبیحة شنیعة، ولا یلزم من ذلك تحریم أصل الاجتماع لصلاة الجمعة وهو واضح وقد رأینا بعض هذه الأمور یقع فى لیال من رمضان عند اجتماع الناس لصلاة التراویح فھل یتصور ذم الاجتماع لصلاة التراویح لأجل هذه الأمور التى قرن بھا كلا بل نقول أصل الاجتماع لصلاة التراویح سنة وقربة وما ضم إلیھا من هذه الأمور قبیحٌ شنیع وكذلك نقول: أصل الاجتماع لإظھار شعائر المولد مندوبٌ وقربة. وما ضمّ إلیه من هذه الأمور مذموم وممنوع.82
فاکہانی نے دوسری صورت بیان کی ہے ۔۔۔وہ فی نفسہ صحیح ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میلاد شریعت کے سلسلے میں اجتماع منعقد کرنے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ ان چیزوں کی بناء پر ہے، جو شریعت میں حرام ہیں اور اس مبارک اجتماع کے ساتھ مل گئی ہیں (اور اگر ان چیزوں کو نہ کیا جائے تو میلاد شریف ذکرِ مصطفیٰ کی محفل ہوگی) بلکہ اس قسم کے امور نماز جمعۃ المبارک کے اجتماع پر پیش آئیں تو ظاہر ہے کہ یہ ایک قبیح حرکت اور بری بات ہوگی، مگر اس سے نماز جمعہ کے اصل اجتماع کی مذمت لازم نہیں آتی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قسم کے بعض امور، رمضان المبارک کی راتوں میں بھی پیش آتے ہیں جب لوگ نماز تراویح کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔تو کیاان امور کے ملنے کی وجہ سے تمازِ تراویح کے لیے جمع ہونے کی مذمت کا تصور کیا جائے؟ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ ہم کہیں گے کہ اصل اجتماع ِ تراویح تو سنت اور عبادت کا کام ہے مگر جو مذکورہ بالا قسم کے امور جو اس کے ساتھ مل گئے ہیں وہ قبیح اور شنیع ہیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ میلاد پاک کے سلسلے میں منعقد کیا جانے والے اجتماع تو بذات خود مندوب اور نیکی کا کام ہے مگر مذکورۃ الصدر قسم کے جو دیگر امور اس کے ساتھ مل گئے ہیں وہ مذموم وممنوع ہیں۔
اس مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہے کہ محافلِ میلاد کو غیر شرعی حرکات سے پاک کیا جانا چاہیے نہ کہ بعینہ میلاد النبی کی محفل ہی کو ناجائز و غیر مشروع قرارد ے دیا جائے کہ یہ راہِ اعتدال سے جدا راستہ ہے۔
متاخرین مالکی علمائے کرام میں سے شیخ تاج الدین عمر بن علی المعروف امام فاکہانی نے دعوی کیا ہےکہ میلادالنبی منانا قابل مذمت بدعت ہے اور انہوں نے اس بارے میں کتاب "المورد فی الکلام علی عمل المولد"بھی لکھی ہے۔83 جس کو امام جلال الدین سیوطی نے اپنے رسالے"حسن المقصد فی عمل المولد"میں پورا نقل کیا ہے اور ان کے تمام اعتراضات کے جوابات بھی اسی رسالے میں تحریر کیے ہیں۔84امام فاکہانیر کے علاوہ امام ابن الحاج مکی نے "المدخل" میں بھی میلاد النبی کا رد کیا ہے 85اور اس میں موجود تمام ہی اعتراضات کے جوابات کو امام سیوطینے مذکورہ رسالہ میں قلمبند فرمایا ہے۔86
ان اعتراضات اور جوابات کو امام صالحی نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور ان اعتراضات وجوابات نقل کرنے کے بعد آخر میں اپنی تحقیقی مؤقف کو قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وحاصل ما ذكره: أنه لم یذمّ المولد بل ذمّ ما یحتوى علیه من المحرّمات والمنكرات، وأول كلامه صریح فى أنه ینبغى أن یخصّ هذا الشھر بزیادة فعل البرّ وكثرة الخیرات والصدقات وغیر ذلك من وجوه القربات، وهذا هو عمل المولد الذى استحسنّاه، فإنه لیس فیه شىء سوى قراءة القرآن وإطعام الطعام وذلك خیرٌ وبرّ وقربة وأما قوله آخراً: إنه بدعة: فإما أن یكون مناقضاًَ لما تقدّم، أو أنه یحمل على أنه بدعة حسنة، كما تقدم تقریره فى صدر الباب، أو یحمل على أن فعل ذلك خیر والبدعة منه نیّة المولد كما أشار إلیه بقوله: فھو بدعة بنفس نیته فقط، ولم ینقل عن أحد منھم أنه نوى المولد فظاهر هذا الكلام أنه كره أن ینوى به المولد فقط ولم یكره عمل الطعام ودعاء الإخوان إلیه. وهذا إذا حقّق النظر یجتمع مع أول كلامه لأنه حثّ فیه على زیادة فعل البر وما ذكر معه على وجه الشكر للّٰه تعالى إذ أوجد فى هذا الشھر الشریف سیّد المرسلین صلى اللّٰه عليه وسلم وهذا هو معنى نیة المولد. فكیف یذم هذا القدر مع الحث علیه أولاً؟وأما مجرد فعل البر وما ذكر معه من غیر نیة أصلاً فإنه لا یكاد یتصوّر، ولو تصوّر لم یكن عبادة ولا ثواب فیه، إذ لا یعمل إلا بنیة، ولا نیة هنا إلا الشكر للّٰه تعالى على ولادة هذا النبى الكریم صلى اللّٰه عليه وسلم فى هذا الشھر الشریف، وهذا معنى نیة المولد فھى نیة مستحسنة بلا شك. 87
ان کےکلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے میلاد کی مذمت نہیں کی۔ بلکہ حرمات و منکرات میں سے ان امور کی مذمت کی ہے جو محفل میلاد کے ارد گرد چھاجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام کی ابتداء میں یہ وضاحت کردی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کیے جائیں نیکیاں، صدقات اور خیرات کثرت سے کیے جائیں۔ میلاد پاک کا یہ عمل وہ ہے جسے ہم نے عمدہ سمجھا ہے اس میں قرآن پاک کے پڑھنے کے علاوہ اور کھانا کھلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں یہ بھلائی نیکی اور قربت کا ذریعہ ہے۔انہوں نے آخر میں جو بدعت کہا ہے تو پھر یہ یا تو سابقہ تفصیل کے متناقض ہوگا۔ یا اس سےمراد بدعت حسنہ ہوگی یا اسے اس امر پر محمول کیا جائے گاکہ ایسے امور بجالانا بھلائی ہے جبکہ میلاد کی نیت کرنا بدعت ہے جیسے کہ انہوں نے کہا کہ یہ نفس نیت کے اعتبار سے بدعت ہے کیونکہ اسلاف کرام میں سے کسی نے میلاد کی نیت نہیں کی تھی۔ کلام کا ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے فقط میلاد کی نیت کرنامکروہ سمجھا ہے کھانا کھلانے اور احباب کو دعوت دینے کو مکروہ نہیں سمجھا۔ اگر اسے ان کے کلام کے ابتدائی حصہ سے ملایا جائے جس میں انہوں نے بھلائی کے کاموں پر ابھارا ہے تاکہ اس نعمت کبریٰ کا شکر ادا ہوسکے جو رب تعالیٰ نےسیّد المرسلین کو پیدا فرماکر ہم پرکی ہے۔ میلاد کی نیت کا معنی یہی ہے۔ وہ اس طرح کی مذمت کیسے کرسکتے ہیں حالانکہ پہلے انہوں نے اسی کی ترغیب دی ہے۔نیت کے بغیر بھلائی کے امور کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر تصورہو بھی سکے تو پھر وہ عمل نہ تو عبادت ہوگا اور نہ ہی اس پر اجر وثواب ملے گا۔ کیونکہ نیت کے بغیر کوئی عمل نہیں ہوتا۔ اس مبارک عمل میں نیت یہی ہے کہ انسان رب تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس مبارک مہینہ میں حضور کو پیدا فرمایا ۔ یہ ایک مستحسن نیت ہے۔88
مذکورہ بالا امام صالحی کی تحقیق،امام فاکہی و امام ابن الحجاج کےاعتراضات کےامام سیوطی کی طرف سے دیے گئے جوابات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میلاد النبی پر کیے جانے والے اعتراضات اصلِ میلاد پر نہیں بلکہ میلاد النبی کی محافل میں کیے جانے والے غیر شرعی امور پر ہیں جن کی تنبیہ تمام ائمہ سلف و خلف نے کی ہے۔89
میلادِ مصطفی کی محفل کےاجزاء میں قرآن کی تلاوت، اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد ،اس سے مناجات، رسول مکرم کی نعتیں ، درسِ قرآن اور درسِ حدیث ہوتے ہیں اوراسی طرح رسول اللہ کی تعظیم و توقیر، شان و عظمت، معجزات و کمالات، سیرت و کردار اور ولادتِ باسعادت کے وقت ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو بیان کیا جاتاہے90 اور پھر آخر میں دعا اورصلوٰۃ و سلام ہوتا ہے ۔ یہ پورا عمل یقیناً حضور کی تعظیم اور توقیر کے لیے ہے اوررسول اللہ کی تعظیم اور توقیر لوگوں کے دلوں میں اجاگر و پختہ کرنا شریعت کے مقاصد میں سے ہے تو یہ افعال واعمال بالکل شریعت کے مطابق ہیں ۔پھر اگر یہ انداز نت نئے طرز پر ہوں تب بھی شریعت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ علمائے امت اس نت نئے انداز سے کیے جانبے والے تعظیم وتوقیرِ رسول پر مشتمل اعمال و افعال کو"بدعتِ حسنہ" قرار دیتے ہیں۔91
لیکن اگر میلاد کی محفل میں نعتیں اس انداز میں پڑھی جائیں کہ موسیقی کے انداز پر ہوں یا آلات موسیقی کے ساتھ ہوں، عورتیں نعت پڑھنے والی ہوں جن کی آواز نامحرم مردوں کو جا رہی ہوں، ممنوع ذرائع کا استعمال کیاجائے یا اس طرح محفلِ میلاد منعقد کی جائے کہ زور زور سے اسپیکر پر اس طرح نعتیں پڑھی جائیں کہ بیماروں، بوڑھوں کو تکلیف ہو تو یہ سارے اعمال غلط اور گُناہ ہیں اور اس کو بلا شبہ"بدعت سیئہ" کہیں گے ۔92
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ علماء نے میلاد شریف میں ہونے والی بعض غیر شرعی حرکات کو ناجائز اور بدعت کہا ہے جیسے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط، موضوع اور من گھڑت قصے بیان کرنا، گانے گانا، باجا ، طبلے ،سارنگی اور دیگر آلات سے ناجائز قوالی ودھمال ڈالنا اور ان جیسی دیگر حرکات کرنا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے جشن میلاد شریف بھی ناجائز قرار پاتا ہے۔ مثلاً حج کے موقع پر کئی لوگ چوریاں اور غلط معاملات کر گزرتے ہیں اور مسجد میں لوگ نمازیوں کے جوتے چراکرلے جاتے ہیں تو ان کاموں کی وجہ سے حج اور نماز کو غلط نہیں کہا جائے گا ہاں غلط حرکات کی تردید ضرور کی جائے گی۔ان سب حرکات سے ائمہ سلف نے بھی روکا ہے اور آج بھی علماء ان جیسے غلط امور سے روک رہے ہیں البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ میلاد النبی منانا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا امتِ مسلمہ کے ائمہ اسلاف کے نزدیک مستحسن امر اور رضائے الہٰی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اکرم کی تعظیم و توقیر کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ عملِ میلاد النبی امت مسلمہ کا اجتماعی،تہذیبی اور معاشرتی فعل ہے جس کو امت مسلمہ ابتداء ہی سے مناتی چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی باری تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمی کی وصولیابی پر شکر کے طور پر مناتی رہے گی۔