Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبیﷺ اور جلوس

(حوالہ: علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:35، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 1011-1041)

بارہ(12) ربیع الاوّل مسلمانوں کے لیے بڑا خوشی کا دن ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے کسی نہ کسی رنگ میں سرور دو عالم کی ولادتِ مقدسہ مناتے رہے ہیں جن کو عام طور پر جشن میلاد النبی یاعید میلاد النبی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔محفل میلاد شریف مسلسل اسلامی ممالک میں منعقد کی جاتی رہی ہے اور مسلمانانِ عالم ہمیشہ سےبارہ ( 12)ربیع الاوّل کو بڑے اہتمام ، جوش وخروش اور شان وشوکت کے ساتھ اس دن کو بطور جشن کے مناتے آرہے ہیں کیونکہ ولادت کے شکرانہ کے لیے خود حضور نبی کریم نے ہر پیر کے دن روزہ رکھا ہے چنانچہ جب نبی کریم سے اس بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:

  فیه ولدت .1
  اس دن میری ولادت ہوئی۔

اسی لیے مسلمانان عالم یوم ولادت میں خوشی وسرور کا اظہا ر کرتےہیں جو کہ جشن کی طرح ہوتا ہے چنانچہ محمد زاہد الکوثری لکھتے ہیں:

  العادة المتبعة فى البلاد الإسلامیة الاحتفاء بالمولد الشریف فى اللیلة الثانیة عشرة من شھر ربیع الاوّل . 2
  بلاد اسلامیہ میں یہ مسلسل عمل رہا ہے کہ مسلمان ہمیشہ سےبارہ ( 12 )ربیع الاوّل کی رات کو محفل میلاد کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ بھی خوشی منانے کا ایک انداز ہے کہ نعمت عطا کرنے والےاللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ ِعالیہ میں ہدیہ ءِشکر پیش کیا جاتا ہےاور اس نعمت کا چرچا اور تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس مبارک دن کو مسلمان رب تعالیٰ کی نعمتِ کبریٰ یعنی رسول مکرم کے ملنے کی وجہ سے کئی طریقوں سے اظہارِ خوشی کرتے ہیں۔پہلے مسلمان صرف محافل کا انعقاد اور صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے پھر بعد میں اہل محبت نے اس خوشی میں جلوس نکالنا شروع کیا۔ جلوس کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے افراد کا کسی خاص موقع پر اکٹھے ہوکر گزرگاہوں میں آناجانا اور بازاروں یا راہوں سے گزرنا۔ اس جلوس میں نعت خوانی ہوتی تھی، قصیدہ بردہ شریف پڑھا جاتا تھا اور علماء کرام تقریریں کرتے تھے۔ نمازوں کے اوقات میں نماز پڑھی جاتی تھی اور کوئی غیر شرعی حرکت نہیں ہوتی تھی۔ اس جلوس کو فرض، واجب اور سنت کا درجہ نہیں دیا جاتا البتہ رسول اﷲ کے ذکر کی تعظیم اور آپ کی عظمت کے اظہار کے لیے جلوس نکالا جاتا ہے کیونکہ آج کل کسی شخص کی عظمت وشوکت کے اظہار کا ایک ذریعہ جلوس بھی ہے لہذا اس امرِ کے پیش نظر جلوس نکالنا بلاشبہ ایک امر مستحسن ہے۔عید میلاد النبی کے موقع پر جلوس نکالنے سے فقط اﷲ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ حضرت محمد رسول اﷲ کا چرچا کرنا مقصود ہےاورزیادہ سےزیادہ لوگوں کو اس میں شامل کرکے حضور اقدس کے ساتھ اپنی محبت وعقیدت کا اظہاراور خداوند قدوس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا مطلوب ہے۔

ولادتِ شریفہ کا جلوس

اس جلوسِ میلاد میں تمام افراد انتہائی خوشی ومسرت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں کیونکہ نبی کریم کی ولادتِ مقدسہ کے موقع پر فرشتوں کی ٹولیاں بھی اسی طرح نکلی تھیں چنانچہ روایت میں مروی ہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ فرماتی ہیں :

  وإذا قائل یقول: خذوا عن أعین الناس، قالت فرأیت رجالا قد وقفوا فى الھواء بأیدیھم أباریق فضة.3
  اور ایک کہنے والا کہہ رہا تھا (فرشتو!) انہیں (محمد رسول اﷲ) کو پکڑ کر لوگوں کی آنکھوں سے دور لے جاؤ، آپ فرماتی ہیں میں نے کچھ لوگ (حوریں اور فرشتے) دیکھے کہ ہوا میں (تعظیم کے لیے ) کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں چاندی کی صراحیاں ہیں۔

اسی طرح ایک روایت میں یوں مذکور ہے :

  فلما ولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم امتلأت الدنیا كلھا نورا، وتباشرت الملائکة.4
  جب نبی کریم کی ولادت ہوئی تو ساری دنیاروشن ہوئی اور فرشتوں نے ایک دوسرے کے سامنے خوشی کا اظہار کیا۔

اسی حوالہ سے ابن جوزی ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں کہ ان مبارک ومسعود لمحات میں فرشتے دائرے کی صورت میں حضرت آمنہ کے اردگرد کھڑے ہوگئے اورانہوں نے خوشی اور فرحت کے ساتھ حضور نبی معظم کی ذات اقدس کے لیے اپنے پَر پھیلائے چنانچہ تسبیح وتہلیل کرنے والے فرشتگان یوں قطار اندرقطار اُترآئے کہ انہوں نے بحروبر اور نشیب وفراز سمیت تمام مقامات کو بھردیا۔حضرت سیّدہ آمنہ مزید فرماتی ہیں کہ میں فرشتوں کی جانب دیکھتی کہ وہ حضور پر نور کی بارگاہ جہاں پناہ میں قطار اندر قطار اور فوج در فوج حاضر ہورہے تھے۔ 5

اسی طرح نبی کریم کی ولادت کے وقت خوشی و مسرت کے لمحات کا ذکر ِکرتے ہوئے امام ابن حجر مکیلکھتےہیں:

  حضور اکرم کی ولادت کی خبر سن کر تمام ملائکہ پروردگارِ عالم کی حمدوثناء میں رطب اللسان ہوگئے۔۔۔ فرشتے ایک دوسرے کو نبی مختار آقائے نامدار محمد مصطفی کی آمد آمد کی خوشخبریاں دینے لگے۔۔۔راوی فرماتے ہیں کہ جب جبرئیل اہل آسمان سے فارغ ہوئے تو اﷲتعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ایک لاکھ فرشتوں کو لے کر زمین پر اتریں پھر یہ فرشتے زمین کے تمام گوشوں میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جزیروں اور سمندروں اور تمام اطراف واکناف عالم میں پھیل جائیں یہاں تک کہ ساتوں زمینوں کے باشندوں اور مستقر حوت (جہاں مچھلیاں ٹھہری ہوئی ہوتی ہیں) کے رہنے والوں کوحضور کی تشریف آوری کی بشارت دیں۔ 6

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ولادتِ مبارکہ کے موقع پر نہ صرف فرشتوں کا جلوس حاضر ہوا تھا بلکہ جنتی خواتین اور حورانِ بہشت بھی جمع ہوکر نکل آئی تھیں چنانچہ حضرت سیّدہ آمنہ فرماتی ہیں:

  ثم رأیت نسوة كالنخل طوالا…فقلن لى نحن آسیة امرأة فرعون ومریم ابنة عمران وهؤلاء من الحور العین.7
  میں نے دیکھا کہ حسین وجمیل عورتیں جو قد کاٹھ میں کھجور کے درخت کے مشابہ تھیں (انہوں نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا، میں حیران تھی کہ وہ کہاں سے آگئیں اور انہیں اس واقعہ ولادت کی خبر کیسے ہوگئی)، تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم آسیہ زوجہ فرعون اور مریم بنت عمران ہیں اور یہ ہمارے ساتھ جنت کی حوریں ہیں۔

بفضل اﷲ تعالیٰ جب رسول اﷲ کی ولادت مبارک ہوئی تو کائنات کی ہر شے نے اپنی فرحت ومسرت کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ موجودات کی بڑی بڑی چیزیں ہی کیا ننھی ننھی چڑیوں نے بھی آمد مصطفی پر اپنی فرحت کا اظہار کیا اور پھر حور انِ فلک اور ملائکہ نے اجتماعی صورت میں جائے ولادت پرحاضری کا شرف حاصل کیا۔ اسی ہیئت کو آج جلوس کا نام دیا جاتا ہے۔

گنبدِ خضراء کے زائر فرشتوں کا جلوس

یہ ملائکہ کاجلوس نبی مکرم کی ولادت ہی کے وقت نہیں تھا بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی روزانہ یہ جلوس آپ کے مزار انور پر حاضر ہوتا ہے اور جو ایک دفعہ جلوس حاضر ہوجائے تو تا قیامت ملائکہ کے جلوسوں کی کثرت کی بنا پر دوبارہ حاضر نہیں ہوپاتا چنانچہ اس کو اپنی سند سے نقل کرتے ہوئے امام دارمی روایت کرتے ہیں :

  ان كعبا دخل على عائشة فذكروا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال كعب ما من یوم یطلع إلا نزل سبعون ألفا من الملائكة حتى یحفوا بقبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم ویصلون على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتى إذا أمسوا عرجوا وهبط مثلھم فصنعوا مثل ذلك حتى إذا انشقت عنه الأرض خرج فى سبعین ألفا من الملائكة یزفونه.8
  حضرت کعب سیّدہ عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں نے نبی کریم کا تذکرہ چھیڑا تو حضرت کعب نے کہا روزانہ ستر ہزار(70000) فرشتے نیچے اترتے ہیں اور نبی کریم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں۔ وہ اپنے پَر اس کے ساتھ مس کرتے ہیں اور نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے نیچے اترتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ جب نبی کریم کی قبر مبارک (قیامت کے دن) کشادہ ہوگی، آپ ستر ہزار فرشتوں کے جلوس میں باہر تشریف لائیں گے۔

امام ابن اسحاق 9اور شیخ اصفہانی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔10اس حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے امام ملا علی قاری لکھتے ہیں:

  یحیطوا (بقبر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم) أى للطیران حوله أو فوقه یلتمسون بركته وقربه ونوره.11
  فرشتےرسول اﷲ کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور (قبر مبارک کے اوپر سے گردو غبار صاف کرنے کے لیے یا انوار قبر سے برکت حاصل کرنے کے لیے ) اپنے پروں کو قبر شریف پر مارتے ہیں۔

یعنی خود اﷲتبارک و تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سرکار دو عالم کی ولادت مبارکہ کی طرح آپ کے وصال کے بعد روزانہ جلوس بھیجنے کے سبب آپ کی تعظیم کروارہا ہے گویا محبوب کریم کی عظمت ومرتبت اورآپ پر صلوٰۃ پیش کرنے کے لیے صبح وشام فرشتوں کے جلوس نکلتے رہتے ہیں اور روز قیامت اپنے آقا کی شان وفضلیت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر آپ کو اپنے نوری "جلوس"کے جھرمٹ میں ہی لے کر چلیں گے۔

جلوسِ معراج

جب خدائے لم یزل نے اپنے رسول افضل کو لامکاں کی سیر کرائی تو اس وقت بھی "جلوس"کے مظاہرے ہوئےچنانچہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں:

  ونزل جبریل ومیكائیل وإسرافیل ومع كل واحد منھم سبعون ألف ملك.12
  اور حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل (آپ کو لینے کے لیے ) اترے اور ان میں ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے۔

شب معراج جشن آمد محبوب کے موقع پر آسمانوں کو مختلف عبارات کے ساتھ سجایا گیا۔بحکمِ خداوندی آسمانوں کے راستوں کو سجایا گیا اور ان راستوں پر محرابیں بنائی گئیں،پھران محرابوں پرتختیاں آویزاں کی گئیں جن پر مختلف آیات بھی لکھی ہوئی تھیں چنانچہ اس کو نقل کرتے ہوئے علامہ عبد الرحمن صفوری فرماتے ہیں کہ پہلے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِهٖ6213
  وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔

دوسرے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ 10714
  اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

تیسرےآسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  يٰٓاَيُّھا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا 4515
  اے نبیِ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

چوتھے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا116
  تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں جس نے اپنے (محبوب و مقرّب) بندے پر کتابِ (عظیم) نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔

پانچویں آسمان پرجوتختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ3317
  وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے ۔

چھٹے آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 12818
  بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مؤمنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

ساتویں آسمان پرجو تختی لگائی گئی اس پر یہ آیت تحریر تھی:

  سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَى119
  وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی ۔

یہ تمام انتظامات اور تیاریاں نبی مکرم کے جلوسِ شبِ معراج کے موقع پر کی گئی تھیں ۔20 میلاد النبی کےموقع پرطغرے،کتبے،بینر،پلے کارڈ،لکھی ہوئی تختیاں،محرابیں نیز ان کی سجاوٹ اورگزرگاہوں پر چراغاں یہ سب آج کا مسلمان اپنے نبی کریم کی ولادت کی خوشی میں اسی لیےکرتا ہےکہ رب تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کو بھی حضور اکرم کے استقبال کا یہ طریقہ محبوب ہے۔

میدانِ حشر میں جلوس کی کیفیت

قیامت کے دن جب کُل کائنات، میدانِ حشر میں جمع ہوگی تو آپ کی تعظیم وتکریم کے لیے ایک نہایت ہی عظیم الشان جلوس ہوگا جس میں جھنڈابھی بلند ہوگا، نعت خوانی بھی کی جائیگی اور انسانوں اور فرشتوں کی بڑی تعداد بھی شرکت کرےگی چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:

  أنا أول الناس خروجا إذا بعثوا وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطیبھم إذا أنصتواوأنا مبشرهم إذا أبلسوالواء الكرم یومئذ بیدى ومفاتیح الجنة بیدى.21
  میں لوگوں میں سب سے پہلے اٹھایاجاؤں گا جب انہیں اٹھایا جائے گا اور میں ان کا قائد ہوں گا جب وہ وفد (جمع) ہوکر چلیں گے اور میں ان کا خطیب ہوں گا جب وہ خاموش ہوں گے اور میں ان کو بشارت دینے والا ہوں گا اور جب وہ مایوس ہوجائیں گے اور کرامت کا جھنڈا(بھی) میرے ہاتھ میں ہوگا اورجنت کی چابیاں اس دن میرے پاس ہوں گی ۔

اسی حوالہ سے حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

  أنا سیّد ولد آدم یوم القیامة ولا فخر، وبیدى لواء الحمد ولا فخر، وما من نبى یومئذ آدم فمن سواہ إلا تحت لوائى، وأنا أول من تنشق عنه الأرض ولا فخر.22
  قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں، میرے ہاتھ میں حمد (و شکر) کا پرچم ہو گا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی (اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔

یعنی قیامت میں مذکورہ جلوس جس میں اول تا آخر تمام انسان جمع ہوں گے ان کےاس عظیم جلوس کی قیادت نبی مکرم خود فرمائیں گے۔

معمولاتِ جلوس

میلاد النبی کے دن مسلمان اظہارِ خوشی کے لیے جو جلوس نکالتے ہیں اس میں مندرجہ ذیل کام ہوتے ہیں:

  1. لوگ ایک منظم جلوس کی شکل میں راستوں اور بازاروں سے گزرتے ہیں۔
  2. نبی مکرم کی آمد مبارک کی خوشی میں پرچم کشائی کی جاتی ہے۔
  3. خوشی کے ترانے اور محبوب کریم کی آمد وتشریف آوری کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
  4. آپ کی تعریف و توصیف بیان کرنےکےلیے نعت خوانی ہوتی ہے۔

جشنِ آمد رسول کا جلوس نکالنااب تقریباتِ میلاد کا ضروری حصّہ بن چکا ہے اور حضور نبی کریم کی محبت میں مسلمانانِ عالم جشن عید میلاد النبی کا جلوس نکالتے ہیں۔مسلمانوں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام کی سنت ہے جو عہد رسالت مآب میں موجود تھا کیونکہ عہد رسالت میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام شریک ہوتے تھے۔

عہدِ رسالت مآب کے جلوس

حضور نبی کریم جب مکّہ مکرّمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منوّرہ میں تشریف فرما ہوئے تو تمام اہل مدینہ نے اس وقت ایک نہایت ہی تزک واحتشام اور اہتمام وانصرام کے ساتھ ایک منظم جلوس کا انعقاد کیا، جس میں اجتماع عظیم، پرچم کشائی، نعت خوانی، خوشی کے ترانے اور محبوب مکرم کی آمد وتشریف آوری کے نعرے سبھی کچھ موجودتھے۔واضح رہے کہ اس وقت کی سادگی کے پیشِ نظرجو رنگ ونورجلوس میں نظرآتا ہے وہ اس طور پر نہیں تھا لیکن جملہ اجزائے جلوس اس میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔اس حوالہ سے روایت میں منقول ہے کہ جب حضور نبی کریم اپنے قدوم میمنت لزوم سے مدینہ طیبہ کو مشرف فرمانے کے لیے پابرکاب تھے تو حضرت بریدہ اسلمی اپنے ستر ساتھیوں کے ہمراہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور انہوں نے آپ سے عرض کیا:

  لا تدخل المدینة إلا ومعك لواء قال: فحل عمامته، ثم شدها فى رمح، ثم مشى بین یدیه.23
  آ پ مدینہ پاک میں جھنڈے کے بغیر داخل نہیں ہوں گے پھر انہوں نے اپنا عمامہ کھولا اسے اپنے نیزے سے باندھا اور (لہراتے ہوئے) آپ (کی سواری) کے آگے آگے چلنے لگے۔

معلوم ہوا کہ حضرت سیّدنا بریدہ اسلمی صحابی رسول نے ستر( 70)آدمیوں کا جلوس آپ کی آمد کی خوشی میں نکالا جس میں جھنڈے بھی لہرائے گئے۔

صحابہ کرام کا جلوس اور نعرے

ان دنوں جب حضور کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی تو مدینہ منوّرہ کے مرد و زن،بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ ودل فرشِ راہ کیے آپ کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر جمع ہوجاتے اور دوپہر تک "آمدِ محبوب "کا انتظار کرکے حسرت ویاس کے ساتھ واپس لوٹ آتے چنانچہ امام نورالدین حلبیلکھتے ہیں:

  ولما سمع المسلمون بالمدینة بخروج رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من مكة كانوا یغدون كل غداة إلى الحرة ینتظرونه حتى یردهم حرّ الظھیرة.24
  ادھر جب مدینے کے مسلمانوں کو آنحضرت کی مکے سے روانگی کی خبر ہوئی تووہ آپ کے انتظار میں ایک ایک پَل گننے لگے اور آپ کی راہ دیکھنے کے لیے روزانہ صبح ہی سے باہر نکل کرحرہ کے مقام پر آجاتے اور جب دوپہر کو دھوپ کی تیزی ناقابلِ برداشت ہوجاتی تو واپس مدینے چلے جاتے۔25

لیکن حضور کی مدینہ تشریف آوری کے دن جب وہ واپس ہونے لگے تو ایک یہودی جو کسی مقصد کے لیے وہاں کسی ٹیلے پر چڑھا تو اس نے رسول اﷲ اور آپ کے ساتھیوں کو سفید لباس پہنے ہوئے اور ان سے سراب کو ہٹتے ہوئے دیکھا تو وہ ضبط نہ کرسکا اور بلندو بالا آواز سے اہل مدینہ سے یوں گویا ہوا:

  یا معاشر العرب هذا جدكم الذى تنتظرون فثار المسلمون إلى السلاح فتلقوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بظھر الحرة فعدل بھم ذات الیمین حتى نزل بھم فى بنى عمرو بن عوف وذلك یوم الاثنین من شھر ربیع الأول.26
  اے عرب کے لوگو! تمہارے وہ بزرگ آگئے ہیں جن کا تمہیں انتظار تھا ۔پس مسلمان اپنے اپنے ہتھیار لے کر دوڑے اور سیاہ پتھریلی زمین پر رسول اﷲ کا استقبال کیا، آپ نے ان کے ساتھ دائیں طرف کا راستہ اختیار کیا حتیٰ کہ آپ نے ان کے ساتھ بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا اور یہ ربیع الاوّل کے مہینے کا پیر کا دن تھا۔

حضرت انس کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ بنوعمرو بن عوف کے ہاں آپ چودہ (14) راتیں قیام فرمارہے پھر آپ نے بنو نجار کے لشکر کو پیغام بھیجا یہاں تک کہ وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آپہنچے۔ چنانچہ مروی ہے:

  رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على راحلته وأبو بكر ردفه وملأ بنى النجار حوله حتى ألقى بفناء أبى أیوب.27
  رسول اﷲ اپنی سواری پرہیں، ابوبکر صدیق آپ کے پیچھے اور بنونجار کا لشکر آپ کے ارد گرد ہے حتیٰ کہ آپ نے حضرت ابوایوب انصاری کے صحن میں پڑاؤ ڈالا۔

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔28 اسی حوالہ سے حضرت عبداللہ بن سلام روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

  لما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة انجفل الناس إلیه وقیل: قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فجئت فى الناس لأنظر إلیه.29
  رسول اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اورکہاگیاکہ:اللہ کے رسول آ گئےچنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں۔

سنن الترمذی کی دوسری روایت میں یوں منقو ل ہے:

  لما كان الیوم الذى دخل فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة أضاء منھا كل شیء .30
  جس دن حضور مدینہ تشریف لائے تو حضور کی تشریف آوری سے (مدینہ کی) ہر چیز روشن ہوگئی۔

آپ کی آمدپر اہل مدینہ کی فقید المثال خوشی کو بیان کرتے ہوئے امام نورالدین حلبی لکھتے ہیں:

  وسرى السرور إلى القلوب بحلوله صلى اللّٰه عليه وسلم فى المدینة فعن البراء، قال: ما رأیت أهل المدینة فرحوا بشىء فرحھم برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وعن أنس بن مالك قال: لما كان الیوم الذى دخل فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة أضاء منھا كل شىء وصعدت ذوات الخدور على الأجاجیر: أى الأسطحة عند قدومه صلى اللّٰه عليه وسلم یعلنّ بقولھن: طلع البدر علینا.31
  آنحضرت کے مدینہ منوّرہ پہنچے پر لوگوں کے دلوں میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی، چنانچہ حضرت براء سے روایت ہے کہ میں نے مدینے والوں کو آنحضرت کی آمد پر جتنا خوش اور مسرور دیکھا اتنا کبھی کسی موقعہ پر نہیں دیکھا۔حضرت انس سے روایت ہے کہ جب وہ دن آیا جس میں آنحضرت مدینے میں داخل ہوئے تو خوشی ومسرت کی وجہ سے گویا سارا شہر جگمگانے لگا، عورتیں چھتوں پر چڑھ کر آنحضرت کی تشریف آوری کا خوشنما منظر دیکھنے لگیں اور بلند آوازسے نغمے گا گا کر آپ کو خوش آمدید کہنے لگیں۔ 32

اہل مدینہ کی عورتیں آمد محبوب پر خوش ہوکر نغمہ سرائی کرتی تھیں اور آپس میں آپ کے متعلق پوچھتی تھیں کہ ان میں سے کون سے ہمارےرسول مکرم ہیں چنانچہ اس خوشی کو بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

  إن العواتق لفوق البیوت یتراء ینه یقلن: أیھم هو؟ أیھم هو؟ 33
  عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں ایک دوسرے کو دیکھ کر پوچھتیں دیکھو! ان میں سے کون ہے؟ان میں سے کون ہے؟

یعنی اہل مدینہ پرخوشی کا عالم طاری تھا کہ آج ہمارے یہاں خدا کا برگزیدہ پیغمبر رونق افروز ہونے والا ہے۔ سڑکیں، گلیاں، بازار اور مکان کی چھتیں پٹی پڑی تھیں اور جدھر نظر اٹھائیں ادھر انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ اس تزک واحتشام کے ساتھ آپ مدینہ میں داخل ہوئے۔ 34

جب نبی مکرم قبا سے اس جلوس نما قافلہ کے ساتھ پابہ رکاب ہوکر مدینہ منوّرہ پہنچے تو ہر ایک کی زبان پر فرط ِمحبت کی بنا پرایک نعرہ تھا چنانچہ اس حوالہ سے نقل کرتے ہوئے امام نورالدین حلبی لکھتے ہیں:

  ولما ركب صلى اللّٰه عليه وسلم وخرج من قباء وسار سار الناس معه مابین ماش وراكب أى ولازال أحدھم ینازع صاحبه زمام الناقة شحا: أى حرصا على كرامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیما له حتى دخل المدینة قال: وصار الخدم والصبیان یقولون: اللّٰه أكبر جاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم جاء محمد صلى اللّٰه عليه وسلم ولعبت الحبشة بحرابھا فرحا برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم .35
  جب آنحضرت سوار ہوکر قبا سے نکلے اور مدینے کی طرف چلے توآپ کے ساتھ بہت سے آدمی بھی تھے جن میں سوار بھی تھے اور پیدل بھی تھے ان میں ہر شخص دوسرے سے الجھ رہا تھا کہ آنحضرت کی اونٹنی کی لگام پکڑ کر چلنے کی سعادت اسے حاصل ہو، یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ مدینہ منوّرہ میں داخل ہوگئے۔(راوی کہتےہیں) مدینے کے سب لوگ اور بچے بڑے اس وقت یہ کہتے جاتے تھے:اﷲ اکبر، رسول ﷲ تشریف لے آئے،محمد آگئےاورحبشیوں نے آپ کی آمد کی خوشی میں نیزہ بازی کے کمالات اور کرتب دکھلائے۔ 36

ان روایات میں جلوس، اجتماع اور لشکر کا پورا پورا حلیہ ونقشہ موجود ہے جس میں شرکاءِ جلوس نبی مکرم کی آمد مبارک پر نعروں کے ساتھ مدینہ میں داخل ہورہے تھے اور جلوس میلاد النبی میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔

آمدِ مصطفیﷺپر صحابہ کا جشن

نبی مکرم کی آمدِ مدینہ پر اہل ِمدینہ نے انتہائی مسرت اور عظیم جشن کا اظہار کیا تھاجیساکہ روایت گزری کہ انہیں آپ کی آمد سے زیادہ کسی چیز پر ایسی خوشی اور فرحت نہیں ہوئی۔ اسی طرح حضرت انس کی روایت میں اس حوالہ سے یوں منقول ہے:

  لما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة لعبت الحبشة لقدومه فرحا بذلك لعبوا بحرابھم.37
  جب رسول اللہ مدینے آئے تو حبشی آپ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلے۔

اس کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں:

  لفرحھم بقدوم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وظھور سرورهم به.38
  انہوں نے رسول اﷲ کی تشریف آوری پرفرحت اور آپ کی آمد پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایسا کیا تھا۔

روایت میں مذکور حبشیوں کے کھیلنےکی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے امام ملا قاری لکھتے ہیں:

  لعبت الحبشة أى رقصت .39
  آپ کی آمد پرمدینہ کے حبشیوں نے رقص کیا۔

واضح رہے کہ یہاں رقص سے آج کل کا مفہوم مراد نہیں بلکہ حبشیوں نے جونیزوں سے کھیلتے ہوئے اچھل کود کا مظاہرہ کیا تو اس جزوی مشابہت کو رقص کہا گیا جس کو نبی مکرم کی آمد کی خوشی میں سرانجام دیاگیا تھا ۔اس سے واضح ہوا کہ آمد مصطفی پر اس طرح کی خوشی کرنا جو یقینی طور پر جلوس میں کی جاتی ہے وہ جائز ومستحسن ہے۔

مدینہ منوّرہ میں نبی کریم ﷺکی آمد

حضور نبی کریم جس روز مدینہ طیبہ تشریف لائے وہ بارہ( 12) ربیع الاوّل پیر ہی کا دن تھا اور اسی دن صحابہ کرام نے حضور کی آمد کی خوشی میں یہ جلوس نکالا تھا چنانچہ حضرت عاصم بن عدی کہتے ہیں:

  قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الأول فأقام بالمدینة عشر سنین. 40
  حضور نبی کریم مدینے میں پیر کے دن جب ربیع الاوّل کی بارہ( 12)راتیں گزرچکی تھیں آئے تھے اور آپ مدینے میں دس سال رہے۔

امام واقدی، 41 امام ابن حبان42اورامام ابن اسحاق 43 نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔اسی حوالہ سے نقل کرتے ہوئے امام ابن ہشام لکھتے ہیں:

  قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدینة یوم الاثنین حین اشتد الضحاء وكادت الشمس تعتدل لثنتى عشر ةلیل‏ة مضت من شھر ربیع الأول.44
  رسول اﷲ بارہ( 12)ربیع الاوّل بروز پیر مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ دوپہر کا وقت تھا اور سورج عین سر پرآنےوالا تھا۔

یعنی اس دن حضور اکرم مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو صحابہ کرام نے حضور نبی کریم کی آمد پر فرحت ومحبت میں جلوس نکالا اور یا محمد، یا رسول اﷲ کے نعرے بلند کیے ۔جس طرح موجودہ مدارس کو "مدرسہ صفہ" کی نقل تسلیم کیا جاتا ہے بعینہ موجودہ زمانے میں حضور کی اس جہانِ رنگ بو میں تشریف آوری پر جلوس نکالنا ، بارہ(12)ربیع الاوّل کو مدینہ منوّرہ میں آپ کی آمد پر صحابہ کرم کے جلوس نکالنے کی ہی نقل ہے۔

جلوسِ صحابہ اورحدیثِ تقریری

علم ِحدیث کی روشنی میں " تقریر"سے مراد یہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اﷲ کے سامنے کوئی عمل کیا اورآپ نےصحابہ کرام کو اس سے منع نہیں فرمایا تو یہ اس عمل کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔ اور علمائے محدثین اس عمل کو "حدیث تقریری" سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ جواز فعل کی دلیل ہے۔ چنانچہ امام شمس الدین سخاویاس حوالہ سے لکھتےہیں:

  والحدیث ضد القدیم واصطلاحا ما أضیف إلى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قولاً له أو فعلاً له أو تقریراً أو صفة حتى الحركات والسكنات فى الیقظة والمنام.45
  جس قول ،فعل ،تقریر (سکوت) ، صفت، یہاں تک کہ سونے اور جاگنے کی حرکات و سکنات کی نسبت اور اضافت حضور نبی اکرم کی طرف ہو وہ حدیث کہلاتی ہے۔

یعنی جو حدیث رسول اﷲ کی طرف منسوب ہو اس کی تین قسمیں ہیں:

  1. پہلی وہ حدیث جو رسول اﷲ کا قول مبارک ہو۔
  2. دوسری وہ حدیث جو رسول اﷲ کا فعل مبارک ہو۔
  3. تیسری وہ حدیث جو تقریری ہو یعنی کوئی قول جو آپ کے سامنے کہا گیا ہو یا کوئی فعل جو آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو اور آنحضرت سے اس پر انکار منقول نہ ہو۔46

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مدینہ منوّرہ میں حضور نبی کریم کی آمد پر خوشی اور محبت کے اظہار کے لیے صحابہ کرام کا جلوس نکالنا اور آپ کا صحابہ کرام کے اس فعل پر خاموشی اختیار فرمانااس بات کی واضح دلیل ہےکہ قیامت تک جو مسلمان بھی کسی خوشی ومسرت یا کسی نعمت کے حصول کے موقع پر حدود شرعیہ کے اندر رہ کر جلوس نکالیں گے وہ جائز ومستحسن امر ہوگا اور حضورِ اکرم سے بڑھ کر اﷲ تبارک وتعالیٰ کی اور کون سی نعمت ہوگی جن کی اس جہان آب وگل میں آمد کے موقع پر مسرت وشادمانی کے لیے جلوس نکالا جائے۔

جلوس میں نعرے لگانا

جلوسِ میلاد النبی میں آپ کی آمد کی خوشی میں ایسے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں جن سے شرکاء جلوس میں ایک ولولہ اور جوش و جذبہ ابھرتا ہے اور وہ آپ کی آمد کے حوالہ سے مزید خوش و خرم ہوتے ہیں ۔ان نعروں کی اصل صحابہ کرام کے وہ نعرے ہیں جو انہوں نے رسول مکرم کے مدینہ منوّرہ آتے وقت لگائے تھے ۔چنانچہ حضرت براء بن عازب کی روایت میں منقول ہے:

  فصعد الرجال والنساء فوق البیوت وتفرق الغلمان والخدم فى الطرق ینادون: یا محمد، یا رسول اللّٰه، یا محمد، یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.47
  مرد وزن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے۔سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے یا محمد! یا رسول اﷲ! یا محمد! یا رسول اﷲ ۔

امام رویانی کے مطابق اہلیان مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگارہے تھے:

  جاء محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم .48
  اﷲ کے رسول حضرت محمد تشریف لے آئے ہیں۔

اسی طرح صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اﷲ نے جب حرہ کی جانب نزول فرمایااور پھر انصار کو پیغام بھیجا تووہ نبی کریم کی خدمت میں یوں نعرہ لگاتےہوئے حاضر ہوئے:

  فقیل فى المدینة: جاء نبى اللّٰه، جاء نبى اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فأشرفوا ینظرون ویقولون: جاء نبى اللّٰه، جاء نبى اللّٰه .49
  پس مدینہ میں گونج پڑگئی اﷲ کے نبی آگئے، اﷲ کے نبی آگئے، لوگ اونچی جگہوں پر چڑھتے،آپ کی زیارت کرتے اور یہ نعرے لگاتے اﷲ کے نبی آگئے، اﷲ کے نبی آگئے۔

صحابہ کرام کے مذکورہ الفاظ نعروں کی شکل میں تھے جن کا داعیہ فقط محبتِ رسول تھی اور اسی وجہ سے اہلِ ایمان جلو س میلاد النبی میں آمد مصطفی کے نعرے لگاتے ہیں اور ا س سے ان کی خوشی مزید دوبالا ہوجاتی ہے۔اسی طرح ان روایات کو ملانے سے اہل مدینہ کے درج ذیل نعرے سامنے آتے ہیں جو انہوں نے "آمد رسول "پر لگائے تھے:

  یا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم          یا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.50
جاء       نبى       اللّٰه       صلى       اللّٰه       عليه       وسلم         جاء       نبى       اللّٰه      صلى       اللّٰه        عليه       وسلم.51
                                        جاء  محمد   رسول   اللّٰه   صلى   اللّٰه   عليه   وسلم  اللّٰه   اكبر.52

آج میلاد النبی کے جلسہ، محفل، جشن اور جلوس میں بھی انہی الفاظ و مضمون سے آمد مصطفی کے نعرے لگائے جاتے ہیں جن پر اہلِ مدینہ کا عمل اور رسول اﷲ کی مہرِ تصدیق ثبت ہے۔

جلوسِ میلاد میں نعت خوانی

محافلِ میلاد النبی کا ایک اہم ترین عنصر حضور کی مدح سرائی اور نعت خوانی ہے۔ اہل اسلام محافلِ نعت منعقد کرکے اپنے محبوب پیغمبر کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔نعت مصطفی کو ئی نیا عمل نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔

دورِ صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے ہر دور کے جملہ صالحین امت ،محبین حضور اکرم اورتمام اکابر وائمہ اسلاف میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے کسی نہ کسی طرح نعت خوانی کا حصہ بن کر حضور اکرم کی نعت خوانی نہ کی ہو۔ کچھ نے نعتیں لکھیں، کچھ نے چھاپیں اور شائع کیں، کچھ نے نعتیں پڑھیں ، کچھ نے نعتیں سنیں اور محافل منعقد کیں۔ اس معنی میں پوری امت حضور کی نعت خواں ہے اوراس پر سب کا اتفاق واجماع ہوا۔ پھر بعض تو ان میں اس حوالہ سے ضرب المثل اور عالمی شہرت ومقبولیت کے مالک وحامل ہیں جیسے وہ اصحاب کرام جو شعراء دربار رسالت ہیں مثلاًحضرت حسان بن ثابت نیز عارف رومی، مولانا جامی، امام بوصیری وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم۔

نعت خوانی حضور نبی کریم کا ذکر ہے جوکہ مطلوب ِشرع ہے یعنی اﷲ یہی چاہتا ہے کہ حضور کے تذکرے ہوتے رہیں چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ارشادفرمایا:

  وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ453
  اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔

اسی رفعت شان کے متعلق حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا:

  أتانى جبریل فقال: إن ربى وربك یقول: كیف رفعت ذكرك؟ قال. واللّٰه أعلم. قال: إذا ذكرت ذكرت معى.54
  میرے پاس جبرائیل امین آئے اور کہا بیشک میرا اورآپ کا رب فرماتا ہے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذکر کیسا بلند کیاہے میں نے کہا اﷲ خوب جانتا ہے فرمایا کہ جب میرا ذکر ہوگا تو میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر بھی ہوگا۔

اسی حوالہ سے امام قاضی عیاضایک مقام پر لکھتے ہیں:

  ومن علاماته مع كثرة ذكره تعظیمه له.55
  آپ کی ذات اقدس سے محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ کثرت سے آپ کا ذکر ہو نیز آپ کی تعظیم ہو۔

اس آيت كی تفسیر میں شیخ محمود آلوسی بغدادی لکھتے ہیں:

  وأى رفع مثل أن قرن اسمه علیه الصلوة والسلام باسمه عزوجل فى كلمتى الشھادة وجعل طاعته طاعته وصلى علیه فى ملائكته وأمرالمؤمنین بالصلوة علیه. وخاطبه بالألقاب كیا أیھا المدثر یا أیھا المزمل یا أیھا النبى یا أیھا الرسول وذكره سبحانه فى كتب الأولین وأخذ على الأنبیاء وأممھم أن یؤمنوا به صلى اللّٰه عليه وسلم.56
  او ر اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمہ شہادت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملادیا۔ حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپ پر درود بھیجا اور مومنوں کو درود پاک پڑھنے کاحکم دیا اور جب بھی خطاب کیامعزز القاب سے مخاطب فرمایا جیسے"یایھا المدثر یا ایھا المزمل، یا ایھا النبی، (و) یا ایھا الرسول" ۔ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپکاذکر ِخیر فرمایا۔ تمام انبیاء اور ان کی امتوں س،ے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔ آج دنیا کا کوئی آباد ملک ایسا نہیں جہاں روزو شب پانچ بار حضور کی رسالت کا اعلان نہ ہورہا ہو۔

یعنی نبی مکرم کے رفعتِ ذکرکا انتظام خود خالق کائنات نے فرمادیا ہے اور شب وروز اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر کے ساتھ ساتھ نبی مکرم کا ذکر بھی جوڑدیا ہے ۔جلوس میلا دمیں جو نعت خوانی ہوتی ہے وہ بھی اسی رفعت ذکر کا ہی ایک طریقہ ہے جو کہ شرعاً محمود ہے۔

نعت خوانی خدا کا ذکر ہے

کائنات کا ہر فرد چونکہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے لہٰذا جس کسی کی بھی تعریف کی جائے وہ درحقیقت اﷲ کی تعریف ہوگی۔ حضوراکرم اﷲ کی قدرت کا سب سے بڑا شاہکار ہیں اور اسی وجہ سے اﷲ تبارک وتعالیٰ کی سب سے بہترین اور سب سے بڑی تعریف وہ ہوگی جو حضوراکرم کے حوالہ سے ہوگی۔نعت خوانی حضور نبی کریم کا ذکر اﷲ تبارک وتعالیٰ کی نعمت عظمی ہونے کی وجہ سے در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کا ذکر ہے چنانچہ حدیث قدسی میں منقول ہے:

  جعلت تمام الإیمان بذكرك معى وقال أیضاً: جعلتك ذكرا من ذكرى فمن ذكرك ذكرنى.57
  (خالق کائنات نے ارشاد فرمایا) میں نے ایمان کا مکمل ہونا اس بات پر موقوف کردیا ہے کہ (اے محبوب) میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکربھی ہو۔ میں نے تمہارے ذکر کواپنا ذکر ٹھہرادیا ہے۔ پس جس نے تمہارا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ 1058
  بیشک اللہ نے تمہاری (ہی) طرف نصیحتِ (قرآن) کو نازل فرمایا ہے۔اور رسول () کو (بھی بھیجاہے) جو تم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں ۔

اس کے تحت تفسیر روح المعانی میں ہے کہ اس آیت میں ذکر سے مراد نبی کریم ہیں۔ "رسولا" اس کا بدل ہے جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ حضور خود اﷲ کا ذکر ہیں یعنی حضور کو جس بھی جہت سے دیکھا جائے تو اس سے اﷲ یاد آتا ہے59 تو گویا نبی مکرم کی تعریف و توصیف کرنا در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد بیان کرنا ہے کیونکہ مخلوق کی تعریف خالق ہی کی تعریف ہے۔

نعت خوانی مطلوبِ شرع

نعت خوانی آپ کی ذات اقدس سے محبت میں اضافہ کا باعث ہے تو وہ اس حوالہ سے بھی مطلوب ہوئی چنانچہ شارح بخاری امام قسطلانی لکھتے ہیں:

  ومن أقوى أسباب ما نحن فیه سماع الأصوات المطربة بالإنشادات بالصفات النبویة المغربة المعربة.60
  حضور کی طرف شوق وانجذابِ قلب وجوشِ محبت حاصل کرنے کا ایک قوی سبب یہ ہے کہ حضور والا کی نعت شریف مختلف صاف الحانوں میں طرب آمیز آوازوں سے سنی جائے۔

حضور نبی کریم حضرت حسان کے لیے مسجد شریف میں منبر شریف رکھواتے تاکہ اس پر بیٹھ کر حضرت حسان نعتیہ اشعار پڑھیں چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضع لحسان منبرا فى المسجد یقوم علیه قائما یفاخر عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أو قالت: ینافح عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ویقول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إن اللّٰه یؤید حسان بروح القدس ما یفاخر، أو ینافح عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.61
  رسول اللہ حضرت حسان کے لیے مسجد میں منبر رکھتے تھے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ کے لیے فخریہ اشعار پڑھتے تھے۔ یا وہ اپنی شاعری کے ذریعہ رسول اللہ کا دفاع فرماتے تھے۔ اور رسول اللہ فرماتے تھے: اللہ حسان کی مدد روح القدس (جبرائیل)کے ذریعہ فرماتا ہے جب تک وہ (اپنے اشعار کے ذریعہ) رسول اللہ کی جانب سے فخر کرتے یا آپ کا دفاع کرتے ہیں۔

اسی طرح حضرت مالک بن عوف نے بھی نبی مکرم کی نعت خوانی کی ہے چنانچہ امام ابن حجر عسقلانیلکھتے ہیں:

  فقال مالك بن عوف یخاطب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من قصیدة:
ما إن رأيت ولا سمعت بواحد      فى   النّاس   كلھم  كمثل  محمّ
دأوفى فأعطى للجزيل لمجتدى      ومتى تشأ يخبرك عمّا فى غد .62
  حضرت مالک بن عوف حضور نبی کریم کو اپنے قصیدے میں مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے سب لوگوں میں (سیّدنا)محمد () جیسا نہ کوئی دیکھا نہ سنا وہ جب دیتے ہیں تو بہت عطا کرتے ہیں (اے انسان تو) جب چاہے، رسول اﷲ تجھے کل (یعنی قیامت) تک کی خبر دے سکتے ہیں۔

یہ سیّدنا مالک بن عوف کا کلام ہے جو انہوں نے حضور کے پاس پیش کیا ، صحابہ کرام نے بھی سنا اوران کے اس کلام کو حضور نے برقرار رکھا تو یہ حدیثِ تقریری ٹھہری جس سے واضح ہوا کہ نعت خوانی کرنا مطلوب شرع ہے اور صحابہ کرام کا طریقہ محبت بھی ہے۔

حضرت سواد بن قارب اسلام لانے سے پہلے کاہن تھےاوراس وقت جنات ان کے تابع تھا ۔اس نے باربار ان سے کہا حضوراکرم کی بارگاہ میں حاضری دے کر اسلام لاؤ چنانچہ وہ حاضر ہوئے اور آپ کی شان میں قصیدہ تیار کرکے گئے ۔جب آپ اسلام لائے تو قصیدہ پیش کیاجسے سن کر آپ اتنا مسکرائےکہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔سیّدنا سواد بن قارب نے جو قصیدہ حضور اکرم کی بارگاہ میں پیش کیا تھا اس کے اشعار یہ تھے:

                                فأشھد       أن       اللّٰه       لاشى       غیره
                              و    إنك      مأمون    على      كل     غائب
                              و  إنك   أدنى   المرسلین   وسیلة   إلى   اللّٰه
                              یا        ابن        الأكر     مین      الأطایب
                              فمرنا    بما    یأتیك    یا   خیر   من     مشى
                              و   إن    كان    فیما   جاء شیب    الذوائب
                              و  كن   لى   شفیعاً    یوم    لا   ذو  شفاعة
                              سواك    بمغن    عن    سواد    بن    قارب
ففرح رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأصحابه بمقالتى فرحا شديدا حتى رؤى الفرح فى وجوھھم.63
  پس میں شہادت دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی رب نہیں ہے اور آپ جملہ غیوب واسرار پر اﷲ تعالیٰ کے امین ہیں۔ بے شک آپ تمام رسولوں سے زیادہ قرب کا وسیلہ ہیں۔ اے معزز اور اچھے آباؤ اجداد کے نور نظر!لہٰذاآپ ہم کو اس بات کا حکم دیجئے جو آپ کے پاس آتی ہیں، اگرچہ اس حکم کی تعمیل میں بال سفید ہوجائیں۔ اور اس روز آپ میرے شفیع بنیں جس دن آپ کے سوا کوئی سفار ش کرنے والا نہ ہوگا اور کوئی سواد بن قارب کی طرف سے استغناء (کی سفارش) نہ کرسکے گا۔ حضرت سوادبن قارب نے جب ایمان افروز قصیدہ پڑھا اور شرف اسلام سے مشرف ہوئے تو رسول اکرم کا چہرہ انور خوشی سے چودھویں کے چاندکی طرح چمکنے لگا اور صحابہ کرام بھی انتہائی فرحت ومسرت کا اظہار فرمانے لگےجو انکے چہروں سے ظاہر تھی ۔

جب نبی مکرم نے یہ قصیدہ سنا تو حضوراکرم بے انتہاء خوش ہوئےاورآپ نے حضرت سوادبن قارب کو اس نعت خوانی پر فلاح دارین کی خوشخبری عطا فرمائی چنانچہ حدیث مبارکہ میں حضرت سواد سے منقول ہے :

  قال فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتى بدت نواجذه وقال لى افلحت یا سواد.64
  انہوں نےکہا:پس رسول اللہ مسکرادیےیہاں تک کہ آپ کی داڑہیں مبارک نظرآگئیں اور آپ نے مجھ سے فرمایا کہ: اے سواد تم کامیاب ہوگئے۔

یعنی نبی مکرم اپنی نعت خوانی پر خوش ہوتے تھے اور آپ نعت خوانوں کو آپ کی مدح سرائی پر انعامات سے بھی نوازتے تھے ۔

حضرت عباس کی نعت خوانی

حضرت عباس نے غزوہ ءِتبوک سے حضور کی واپسی کے موقع پر آپ سے آپ کی شان میں اپنا نظم کردہ ایک طویل قصیدہ پیش کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور دعا بھی دی کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے منہ کو خندہ وفرحاں رکھے اور اسے بگڑنے سے محفوظ رکھے۔ انہوں نے بہت بڑے اجتماع میں قصیدہ سنایا جس کے تین اشعار یہ تھے:

  وردت      نار    الخلیل     مكتتما      فى    صلبه   أنت   كیف   یحترق
وأنت لما ولدت  أشرقت الأر ض      فضاءت      بنور    ك     الأفق
فنحن   فى    ذلك    الضّیاء    وفى      النسّور وسبل الرشاد نخترق .65
  حضرت ابراہیم کو جب آگ کے الاؤ میں ڈالا گیا تو آگ میں ان کے نہ جلنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ ان کی پشت میں (بصورت نور) جلوہ گر تھے۔ اور آپ کی جب ولادت باسعادت ہوئی تو آپ کے نور سے روئے زمین اور آسمان کے افق منور ہوگئے۔ آج ہم جو گمراہی سے بچے ہوئے اور ہدایت کی راہ پر گامزن ہیں تو یہ سب حضور کی لائی ہوئی روشنی کی بدولت ہے۔

یعنی نبی مکرم کی مدح سرائی میں آپ کی ولادت کا تذکرہ تو کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کے نور منور کی وجہ سے حضرت ابراہیم کی آتش نمرود سے نجات دہندگی کو بھی آپ کی برکت قرار دیا۔

حضرت علی کی نعت خوانی

اسی طرح حضرت علی المرتضی نے آپ کی نعت خوانی کی ہے چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضور کی دعا سے باران رحمت ہوئی۔ اس موقع پرآپ نےارشاد فرمایاکہ اگرمیرے چچا ابو طالب زندہ ہوتے تو اس منظرسے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔ ایسے موقع پر وہ چند اشعار حضوراکرم کی شان میں پڑھتے جنہیں آپ نے سننے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضرت علی نے اپنے والد محترم حضرت ابو طالب کے نبی مکرم کی شان میں کہے گئے مدحیہ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا:

  وأبیض یستسقى الغمام بوجھه      فى   ثمال  الیتامى  عصمة  للأرامل
یلوذ به  الھلاك  من آل  هاشم      فى فھم عنده  فىنعمة وفواضل.66
  وہ حسن وجمال کے پیکر جن کے رخ زیبا کے طفیل بارش طلب کی جاتی ہے، یتیموں کے مأوی، بیواؤں کے ملجاء، بنوھاشم کے تباہ حال لوگ بھی جن کی پناہ ڈھونڈیں اور ان کے ریزہ خوار ہوں۔

اسی طرح بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام کو حضور کی نعت گوئی اور نعت خوانی کاشرف حاصل ہوا ہے چنانچہ امام ابن سیرین عہد نبوی کے نعتیہ شعراء میں سے چند کا ذکر یوں کرتے ہیں:

  كان شعراء النبى صلى اللّٰه عليه وسلم حسان بن ثابت، وكعب بن مالك، وعبد اللّٰه بن رواحة، فكان كعب بن مالك یخوفھم الحرب، وكان حسان یقبل على الأنساب، وكان عبد اللّٰه بن رواحة یعیرهم بالكفر.67
  حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبداﷲ بن رواحہ کا شمار نبی کریم کے شعراء میں ہوتا تھا۔ پس حضرت کعب بن مالک دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے اور حضرت حسان ان کے نسب پر طعن زنی کرتے، اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔

ہر چند کہ یہ خوشی کے ترانے اور آمد مصطفی کے نعرے "نعت خوانی" کے زمرہ میں ہی آتے ہیں لیکن اہل مدینہ نے صرف انہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ الگ سے نعت خوانی بھی کی اورچھوٹے بڑے بچوں نے مل کر آپ کی مدینہ منوّرہ آمد کی خوشی میں درج ذیل اشعار بھی پڑھے:

  طلع       البدر      علينا      وجب     الشكر     علينا
وجب     الشكر     علينا      ما     دعا     للّٰه     داع
أيھا     المبعوث     فينا      جئت بالأمر المطاع .68
  ثنیات الوداع کی طرف سے چودھویں رات کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے، جب تک اﷲ تعالیٰ کو پکارنے والا اس سرزمین پر باقی ہے ہم پر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔اے مبارک آنے والے جو ہم میں پیغمبر بناکر بھیجے گئے ہیں آپ ایسے احکام لے کر آئے ہیں جن کی پیروی اور اطاعت واجب ہے۔ 69

اسی طرح بنونجار کی بچیوں نے الگ سے یہ اشعار بھی پڑھے تھے:

  نحن   جوار   من   بنى   النجار          یا   حبذا   محمد   من   جار .70
  ہم بنونجار کی بچیاں ہیں۔ (مبارک ہو!) اےکاش کہ(سیّدنا) محمد() ہمارےپڑوسی ہوں۔

حضور نبی کریم نے بنی نجار کی بچیوں کی نعت خوانی سن کر ارشاد فرمایا:

  أتحببننى؟ قلن: نعم یا رسول اللّٰه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأنا واللّٰه أحبّكنّ ،قالھا ثلاثا.71
  کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ انہوں نے عرض کی ہاں! یا رسول اﷲ! آپ نے فرمایا قسم بخدا! میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ آپ نے تین بار فرمایا۔

خلاصہءِ بحث یہ ہے کہ ممدوحِ خالق کائنات رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی کی مدح خوانی کرنا،آپ کی نعت پڑھنا، سننا اور محافل نعت منعقد کرنا قرآن وسنت کے عین مطابق جائز اور مطلوب اَمر ہے۔یہ عمل قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جاری ہے جو ایک سچے اور کامل مومن کی نشانی ہے اور جلو سِ میلاد میں بھی یہ نعت خوانی ہوتی ہے جو کہ شرعی طور پر محمود ومطلوب ہونے کی وجہ سے قابل استحسان ہے اور اس میں العیاذ باللہ کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

اہل مدینہ نے ان اشعار میں اپنے عزمِ مصمم کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ آپ کی آمد پر شکر اور جشن منانا اس وقت تک واجب ہے جب تک کوئی ایک مسلمان بھی خدا کی دعوت دینے کے لیے دنیا میں موجود رہے گا۔ یعنی یہ خوشیاں، یہ مسرتیں، یہ جشن ، یہ نعت خوانی اور آمد مصطفی کے یہ نعرے قیامت تک جاری وساری رہیں گے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان میلادِ مصطفی کے جلسوں، محفلوں اور جلوسوں میں انہی جذبات واحساسات کا اظہارکررہے ہیں۔ 72

میلادِ پاک کا جلوس اور اہلِ حرمین کا عمل

اہل حرمین میلاد پاک کی خوشی میں مختلف محافل کے ساتھ چراغاں کرتے اور جلوس نکالتے تھے جس میں علماء، مشائخ اور شہر کی تمام معزز شخصیات کے علاوہ حاکم وقت بھی شرکت کرتے اور صرف اہل مکّہ ہی اس میں شریک نہ ہوتے بلکہ دور دراز دیہاتوں سے لوگ آتے حتیٰ کہ جدہ شہر سے لوگ جلوس میں شرکت کرنے کے لیے آتے تھے۔ اس میں بعض لوگوں کے ہاتھوں میں فانوس ہوتے، بعض کے ہاتھوں میں جھنڈے ہوتے ۔یہ جلوس مسجد حرام سے شروع ہوتا اور سڑکوں اور شاہراہوں سے گزرتا ہوا محلہ بنی ہاشم میں مولد پاک پر جاتا وہاں جلسہ عام ہوتا اور پھر وہاں سے یہ جلوس مسجد حرام آتا جہاں بادشاہِ وقت علماء ومشائخ کی دستار بندی کرتا۔ آخر میں دعا ہوتی اور بعد ازاں لوگ اپنے گھروں کو رخصت ہوتے۔73اسی حوالہ سے بیا ن کرتے ہوئے علامہ قطب الدین لکھتے ہیں:

  یستجاب الدعاء فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وهو موضع مشھور یزار إلى الآن.74
  حضور کی ولادت گاہ پر دعا قبول ہوتی ہے۔یہ مقام نہایت مشہور ہے جس کی آج تک زیارت کی جاتی ہے۔

علامہ زرقانی نے بھی بیان کیا ہے کہااہلِ مکّہ دسویں صدی ہجری میں محفل میلاد کا انعقاد خوشی و مسرت سے کیا کرتے تھے جو جشن کا سماں پیش کرتی تھیں چنانچہ علامہ زرقانی مالکیتحریر فرماتے ہیں:

  يحتفلون يھتمون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم ويتصدقون فى لياليه بأنواع الصدقات، ويظھرون السرور به ويزيدون فى المبرات ويعتنون بقراءة قصة مولده صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم، ويظھر عليھم من بركاته كل فضل عميم.75
  لوگ آج بھی میلاد النبی کے مہینہ میں اجتماعات و محافل کا اور دعوتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں انواع واقسام کے صدقات و خیرات کرتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔کثرت سے نیکیاں کرتے اور مولود النبی کے واقعات کا خصوصی طور سے تذکرہ کرتے ہیں اور ان پر منجانب اللہ برکات اور بے پناہ فضل و احسان کا ظہور ہوتا ہے۔

علامہ قطب الدین حنفی نےبھی اہلِ مکّہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  يزار76مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم المكانى فى الليلة الثانية عشر من شھر ربيع الأول فى كل عام، فيجتمع الفقھاء والأعيان على نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمكة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الكثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفھم بالأعلام الكثيرة ويخرجون من المسجد إلى سوق الليل ويمشون فيه إلى محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلى لمسجد الحرام ويجلسون صفوفاً فى وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدى ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلى الناس على عادتھم، ثم يمشى الفقھاء مع ناظر الحرم إلى الباب الذى يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون وهذه من أعظم مواكب ناظر الحرم الشريف بمكة المشرفة ويأتى الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسكان الأودية فى تلك الليلة ويفرحون بھا.77
  ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاوّل کی رات حضور کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم ،حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی، بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔

امام ابن ظہیرہ مولد النبی کے حوالے سے اہل مکّہ کا معمول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  جرت العادة بمكة فى لیلة الثانى عشر من ربیع الاوّل فى كل عام أن قاضى مكة الشافعى یتھیاء لزیارة هذا المحل الشریف بعد صلوة المغرب فى جمع عظیم منھم الثلاثة ا لقضاة وأكثر الأعیان من الفقھاء والفضلاء وذوى البیوت بفوانیس كثیرة وشموع عظیمة وزحام عظیم ویدعى فیه للسلطان ولأمیر مكة وللقاضى الشافعى بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام ثم یعود منه إلى المسجد الحرام قبیل العشاء ویجلس خلف مقام الخلیل بإزاء قبة الفراشین ویدعو الداعى لمن ذكر آنفا بحضور القضاة وأكثر الفقھاء ثم یصلون العشاء وینصرفون ولم أقف علی أول من سن ذلك سألت مؤرخى العصر فلم أجد عندهم علماء بذلك.78
  ہر سال مکّہ معظمہ میں بارہ (12)ربیع الاوّل کی رات کو اہل مکّہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ قاضی مکّہ جو کہ شافعی ہیں مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جمِّ غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں ۔ان لوگوں میں تینوں مذاہب فقہ کے آئمہ، اکثر فقہاء، اور اہل شہر شامل ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ پھر وہاں مولد شریف کے موضوع پر خطبہ ہوتا ہے۔ اور پھر بادشاہ وقت امیر مکّہ اور قاضی شافعی (منتظم ہونے کی وجہ سے)کے لیے دعا کی جاتی ہے اور یہ اجتماع عشاء تک جاری رہتا ہے۔ اور عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں۔ مقام ابراہیم پر اکٹھے ہوکر دعا کرتے ہیں، اس میں بھی تمام قاضی اور فقہاء شریک ہوتے ہیں، پھر عشاء کی نماز ادا کی جاتی ہے اور پھر الوداع ہوجاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرخین سے پوچھنے کے باوجود اس کا علم نہیں ہوسکا۔

ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ اہل مکّہ خود بھی اورآس پاس کے دیگر بستیوں کے رہنے والے بھی میلاد النبی کا جلوس نکالا کرتے تھے اور اس میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ علمائے عظام اور مشائخ مکّہ بھی انتہائی مسرت اور ادب کے ساتھ شامل ہوتے تھے لہذا جلوس میلاد امت کے اوائل دور سے ہی جاری و ساری ہے اور اس کی وجہ فقط تعظیم رسول ہے۔

جلوس نکالنا ثقافت کا حصہ ہے

اگر یومِ وطن منانا ثقافتی نقطہءِ نظر سے درست ہے تو حضور کے میلاد کا دن جو انسانی تاریخ کا اہم ترین دن ہے وہ بھی منانا درست ہے ،اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دن بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اور موقعوں پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پربھی چراغاں ہو سکتا ہے ،اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت وافتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم کی ولادت کے دن بھی اپنی عزت اور افتخار کو نما یا کرنے کے لیے اس کو بھی امت کی سطح پر منایا جا سکتا ہے ،جس طرح ان ثقافتی مظاہر پر کسی استدلال کی ضرورت نہیں اسی طرح میلاد النبی کے جلوس کے جواز پر بھی کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور احتجاج دونوں موقعوں پرجلوس نکالنا بھی فی زمانہ ثقافت کا حصہ بن گیا ہے۔ حضور کے میلاد پراگر جلسہ وجلوس اور صلوٰۃ وسلام کا اہتمام کیاجاتا ہے تو اس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔

آج کے دور میں اگر اہل عرب جلوس نہیں نکالتے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ موجودہ عرب کی ثقافت میں جلوس نہیں جبکہ عجم کی ثقافت میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ میں لوگ میلاد مناتے ہیں لیکن جلوس نکالنا ان کے ثقافت میں بھی نہیں جبکہ یہاں تو ہاکی،فٹبال اور کرکٹ کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے کہ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے امیدواران کا استقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور ان کا اصل مقصد حضور نبی اکرم کی ولادت کی خوشی منانا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے۔ 79

مذکورہ تما م تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی مکرم کی آمد پر جلوس نکالنا صحابہ کرام کی سنت ہے اور اسی سنت صحابہ کرام کی بنیا دپر امت مسلمہ کے اوّلین دور میں بھی آپ کی ولادت پر جلوس نکالے جاتے تھے اور اب بھی آپ کی محبت و مودت میں اہل اسلام جوش و خروش سے اس میں شامل ہوتے ہیں اور آپ کی نعت خوانی کے ساتھ ساتھ آپکی آمد کے نعرے بھی لگاتے ہیں اورباری تعالیٰ کی اس نعمت عظمی کے ملنے پر رب تبارک وتعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اس میں تمام شامل چیزیں شرعا جائز ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت یا ممانعت نہیں ہے ۔

 


  • 1 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:22550، ج-37، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 م، ص: 244
  • 2 شيخ محمد زاهد الكوثرى، مقالات الكوثرى، مطبوعة: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:369
  • 3 أبو سعد عبد الملک بن محمد الخرکوشی، شرف المصطفی، ج-1، مطبوعۃ: دار البشائر الإسلامیۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودية، 1424ھ، ص: 354
  • 4 أبو العباس أحمد بن علی تقی الدین المقریزی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال والأموال والحفدۃ والمتاع، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999 م، ص: 59
  • 5 ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی،مولد العروس (مترجم: پروفیسر دوست محمد شاکر)،مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:29-79
  • 6 شہاب الدین احمد بن حجر الہیتمی، نعمت کبریٰ (مترجم: سالک فضلی) ،مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ، پاکستان، 1398 ھ،ص: 47-48
  • 7 أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م ، ص: 210
  • 8 أبو محمد عبد اﷲ بن عبد الرحمن الدارمی، سنن الدارمی، حدیث:95، ج-1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 2000م، ص: 228
  • 9 أبو إسحاق إسماعیل بن إسحاق المالکی، فضل الصلاۃ علی النبیﷺ، حدیث: 102، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1977م، ص: 83
  • 10 أبو الشيخ محمد عبد اﷲ بن محمد الأصبهانى، العظمۃ، حدیث:537، ج-3، مطبوعۃ: دار العاصمۃ، بیروت، لبنان،1408ھ، ص: 1018
  • 11 نور الدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، حدیث: 5955 ، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2002م، ص: 3842
  • 12 أبو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:106
  • 13 القرآن، سورۃ الجمعۃ 62 :2
  • 14 القرآن، سورۃ الأنبیاء 21: 107
  • 15 القرآن، سورۃ الأحزاب 33: 45
  • 16 القرآن، سورۃ الکہف 18: 1
  • 17 القرآن، سورۃ التوبۃ 9: 33
  • 18 القرآن، سورۃ التوبۃ 9: 128
  • 19 القرآن، سورۃ الاسراء 17: 1
  • 20 عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری، نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس، ج-2، مطبوعۃ: المطبعۃ الکاستلیۃ، مصر، 1283ھ، ص: 104
  • 21 أبو بكر أحمد بن عمرو البزار، مسند البزار، حدیث: 6523، ج-13، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودية، 2009م، ص: 131
  • 22 أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 3148، ج-5، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 159
  • 23 أبو الشيخ محمد عبد اﷲ بن محمد الأصبهانى، أخلاق النبی وآدابہ، حدیث: 788، ج-4، مطبوعۃ: دار المسلم للنشر والتوزیع، الرياض، السعودية، 1998م، ص: 65
  • 24 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص: 71
  • 25 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،پاکستان،2009ء، ص: 139
  • 26 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3906، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:60-61
  • 27 ایضاً، صحیح البخاری، حدیث: 3932، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:67-68
  • 28 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 13208، ج-20، مطبوعۃ، موسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 430
  • 29 أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2485، ج-4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 233
  • 30 ایضاً، سنن الترمذی، حدیث: 3618، ج-6، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 17
  • 31 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 2013م،ص: 74
  • 32 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،پاکستان،2009ء، ص: 139
  • 33 أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-3، مطبوعۃ:دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 241
  • 34 علامہ حفظ الرحمن، نور البصر فی سیرۃ خیر البشر، مطبوعہ: عارفہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص: 87
  • 35 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 2013م،ص: 79
  • 36 ایضاً (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،پاکستان،2009ء، ص: 152
  • 37 أبو محمد عبد الحمید بن حمید الكشى، المنتخب من مسند عبد بن حمید، حدیث: 1239، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ، القاہرۃ، مصر، 1988م، ص: 371
  • 38 أبو زکریا یحییٰ بن شرف النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج-18، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی ، بیروت، لبنان، 1392ھ،ص:151
  • 39 نور الدین علی بن سلطان محمد الملا القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 3848
  • 40 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 511
  • 41 أبو عبد الله محمد بن عمر الواقدی،المغازی، ج-3، مطبوعۃ: دار الأعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 1088
  • 42 أبو حاتم محمد بن حبان الدارمي، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 139
  • 43 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 269
  • 44 أبو محمد عبد الملک بن ہشام المعافرى، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی وأولادہ بمصر،1955م، ص: 590
  • 45 أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوی، فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1403ھ، ص: 10
  • 46 سلطان محمود جلالپوری، اصطلاحات المحدثین، مطبوعہ: دار الحدیث ، ملتان،پاکستان،1986 ء، ص:6
  • 47 أبو یعلی أحمد بن علی الموصلی، مسند أبى یعلی، حدیث: 116، ج- 1، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م،ص: 107
  • 48 اأبو بکر محمد بن ہارون الرُّویانی، مسند الرویانی، حدیث: 329، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، القاہرۃ، مصر، 1416ھ، ص:231-232
  • 49 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3911، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:62-63
  • 50 أبو یعلی أحمد بن علی الموصلی، مسند أبى یعلی، حدیث: 116، ج- 1، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م،ص: 107
  • 51 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3911، ج-5، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان،1422 ھ، ص:62-63
  • 52 أبو بکر محمد بن ہارون الرُّویانی، مسند الرویانی، حدیث: 329، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، القاہرۃ، مصر، 1416ھ، ص:231-232
  • 53 القرآن، سورۃ الشرح 94: 4
  • 54 أبو یعلی أحمد بن علی الموصلی، مسند أبى یعلی، حدیث: 1380، ج- 2، مطبوعۃ: دار المأمون للتراث، دمشق، السورية، 1984م،ص: 522
  • 55 قاضی عیاض بن موسی یحصبی المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دارالفيحاء، عمان، الأردن،1407ھ، ص:59
  • 56 شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الألوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج-15، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415 ھ، ص: 389
  • 57 قاضی عیاض بن موسی یحصبی المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1، مطبوعۃ: دارالفيحاء، عمان، الأردن،1407ھ، ص: 63
  • 58 القرآن، سورۃ الطلاق65: 10-11
  • 59 شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الألوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج-14، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415 ھ، ص: 336
  • 60 شیخ أحمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، (ليس التاريخ موجودًا)،ص: 644
  • 61 أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2846، ج-4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 435
  • 62 أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، الإصابۃ فی تمیز الصحابۃ، ج-5، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 743
  • 63 أبو الحسن علی بن محمد الماوردی، أعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دار ومکتبۃ الہلال، بیروت، لبنان، 1409ھ، ص: 170
  • 64 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ ، ص: 254
  • 65 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 470
  • 66 أبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، الدعاء للطبرانی، حدیث:2180، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1413ھ، ص:597-598
  • 67 أبو الحسن علی بن أبی الکرم عز الدين ابن الأثیر،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994 م ، ص: 461
  • 68 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 2013م،ص: 74
  • 69 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (مترجم: محمد اسلم قاسمی)، ج-3، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان،2009ء، ص: 144
  • 70 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ ، ص: 508
  • 71 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 274
  • 72 ابو الحقائق غلام مرتضی ساقی مجددی، آؤ میلاد منائیں، مطبوعہ: صراط مستقیم پبلی کیشنز ، لاہور،پاکستان، 2009ء، ص: 150
  • 73 مفتی محمد خان قادری، محفل میلاد پر اعتراضات کا علمی محاسبہ، مطبوعہ: کاروان اسلام پبلی کیشنز ، لاہور،پاکستان، 2010ء،ص:124-127
  • 74 قطب الدین محمد بن أحمد نہروانی، إعلام بأعلام بیت اﷲ الحرام، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،(ليس التاريخ موجودًا)، ص: 392
  • 75 أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2012م،ص:262
  • 76 یہ عبارت قدیم مخطوطہ میں تو موجود ہے لیکن مکتبۃ التجاریۃ مکۃ المکرمۃکی مطبوعہ کتاب میں یہ عبارت نہیں ہے۔وہاں صرف یہ عبارت مندرج ہے"وھو موضع مشھور یزار الی لان"۔واللہ اعلم کہ یہ عبارت جان بوجھ کر نہیں ڈالی گئی یا پھر کسی وجہ سے طبع ہونے سے رہ گئی۔(محمد بن احمد النہروانی،کتاب الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام،مطبوعۃ:مکتبۃ التجاریۃ،مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:392) ادارہ میں ایک مطبع نسخہ بصورت سوفٹ کاپی موجود ہے جو مکّہ مکرّمہ سے شائع ہوا ہےاور وہیں سے مذکورہ بالا مکمل عبارت مأخوذ ہےجس کا حوالہ ذیل میں دیا گیا ہے۔(ادارہ)
  • 77 قطب الدین محمد بن احمد نہروانی،کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام فى تاريخ مکۃ المشرفة، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ، المکۃ المکرمۃ، ا لسعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 355 -356
  • 78 محمد بن محمد ابن ظہیرة القرشى، الجامع اللطیف فی فضل مکۃ وأھلھا وبنا ء البیت الشریف، مطبوعۃ: مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:285-286
  • 79 ڈاکٹر محمد طاہر القادری، میلاد النبی ﷺ، مطبوعہ: منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2005ء، ص: 704-705