حضرت خالد ابن سعید ان ابتدائی مسلمانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ کے دستِ مبارک پر دین ِاسلام کو قبول کرنے کی سعادت و شرف کو حاصل کیا تھا۔ ان کا پورا نام "خالد ابن سعید ابن العاس ابن امیہ ابن عبدالشمس ابن عبدمناف ابن قصی" تھا۔ 1ان کی والدہ کا پورا نام "امّ خالد بن خبّاب ابن عبد یلیل ابن ناشب" تھا ۔ انہوں نے اپنے بھائیوں میں سب سے پہلے دینِ اسلام کو قبول کیا اور "ابو سعید" کی کنیت سے مشہور ہوئے ۔ 2بعض مؤرخین کے مطابق آپ کا اسلام حضرت ابوبکر صدیق کے فورا ًبعد کا ہے یعنی کہ آپ چوتھے یا پانچویں مسلمان تھے جنہوں نے دینِ اسلام کو قبول فرمایا تھا ۔ آپ کی صاحبزادی امِ خالد بنت خالد سے روایت ہے:
كان أبي خامسا في الإسلام قلت: من تقدمه؟ قالت: على ابن أبي طالب، وابن أبي قحافة، وزيد بن حارثة، وسعد بن أبى وقاص. 3
میرے والد اسلام قبول کرنے میں پانچویں تھے۔ (راوی فرماتے ہیں) میں نے پوچھا :ان سے پہلے (کس نے اسلام قبول) کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: علی ابن ابی طالب، ابن ابی قحافہ، زید ابن حارثہ اور سعد ابن ابی وقاص () نے۔
حضرت خالد ابن سعید کے قبولِ اسلام کی وجہ، آپ کے ایک خواب کو قرار دیا جاتا ہے۔ آپ نے ایک خواب دیکھا تھا جس کے مطابق آپ آگ کےایک گڑھے میں گر رہے تھے جس میں آپ کا والد جو کہ اسلام دشمن تھا وہ آپ کو دھکّا دے رہاتھا اور محمد آپ کو پکڑ کر اس گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش فرما رہے تھے ۔ جب آپ نے یہ خواب دیکھا تو یکدم آپ کی آنکھ کھل گئی اور آپ کو احساس ہوا کہ یہ ایک سچا خواب ہے جس میں آپ کو دینِ اسلام قبول کرنے کا اشارہ موصول ہواہے۔ اس خواب کو دیکھنے کے بعد آپ کی ملاقات حضرت ابوبکر صدیق سے ہوئی جنہوں نے آپ کو دینِ اسلام کا تعارف پیش کیا اور آپ کی رہنمائی رسول اللہ کی بارگاہِ عالیہ کی طرف فرمائی ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو اس بات پر یقین دلایا کہ محمد رسول اللہ کی ذات گرامی ہی وہ بابرکت ذات ہے جو حضرت خالدا بن سعید کو جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتی ہے جب کہ ان کے برعکس ان کا والد جو اسلام دشمن ہے وہ تو خود جہنم میں ہی پھینک دیا جائے گا۔ حضرت خالد ابن سعید اس بات کو سن کر رسول اللہ کی بارگاہ عالیہ میں تشریف فرما ہوئے اور آپ سے اس پورے معاملے کی تفصیل کو بیان فرمایا اور آپ کے پیغام کے حوالے سے دریافت کیا تو نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
أدعو إلى الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله، وخلع ما أنت عليه من عبادة حجر لا يسمع ولا يبصر ولا يضر ولا ينفع ولا يدري من عبده ممن لم يعبده. 4
میں اللہ سے دعا کرتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور (میں) محمد اس کا بندہ اور رسول ہوں کہ وہ تمہیں ان پتھروں کی عبادت سے خلاصی دے جو نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں، نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ ان کا بندہ کون ہے اور کون ان کی عبادت کر رہاہے۔
جب حضرت خالد نے رسول اللہ کی بات کو سنا تو آپ نے دین اسلام کو قبول کر لیا۔
حضرت خالد ابن سعید کا والدابو اُحیحہ جو کہ اسلام دشمن شخص تھا، مکّہ کے معاشرے پر اپنا گہرہ اسرو رسوخ رکھتا تھا۔ اس کے حوالے سے یہ بات مشہور تھی کہ وہ مسلمانوں کے معاملے میں انتہائی سخت ہے اور اسلام کا پکّا دشمن ہے ۔ ابتدا ءًحضرت خالد ابن سعید نے اپنے قبولِ اسلام کو تمام لوگوں سے مخفی رکھا لیکن نورِ ایمان کی روشنی زیادہ دیر تک مخفی نہ رہ سکی اور لوگوں میں یہ خبر عام ہونے لگی کہ حضرت خالد ابن سعید نے دینِ اسلام کو قبول کر لیاہے۔ اس بات کے مشہور ہوتے ہی حضرت خالد ابن سعید نے عوامی مجالس اور دیگر معروف مقامات پر آنے جانے سے پرہیز کر نا شروع کر دیا لیکن آپ کے والد نے آپ کے بھائیوں کی یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ ہر حال میں حضرت خالد ابن سعید کو ڈھونڈ کر اس کے سامنے پیش کریں ۔ بلآخر حضرت خالد ابن سعید اپنے بھائیوں کے ہاتھوں پکڑے گئے جنہوں نے آپ کو آپ کے والد کے سامنے پیش کر دیا جو اس وقت اپنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا نما چھڑی لیے نہایت ہی غصے کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا ۔ جیسے ہی آپ کے والد نے حضرت خالد ابن سعید کو دیکھا تو اس نے آپ کے خلاف مغلظات بکنا شروع کر دیں اور آپ کو اس ڈنڈے نما چھڑی سے مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ مار تے مارتے وہ چھڑی حضرت خالد ابن سعید کے سرِ مبارک پر ٹوٹ گئی جس سے آپ کو شدید تکلیف اوراذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کا والد با ر بار آپ سے یہ مطالبہ کرتا کہ آپ محمد رسول اللہ کے دین کو چھوڑ دیں کیونکہ وہ ان کے (جھوٹے) خداؤں کو برا کہتے ہیں اور آباؤاجدا د کے دین کو غلط گردانتے ہیں ۔ 5حضرت خالد ابن سعید اس کی تمام دی گئی تکالیف اور اذیتوں پر ثابت قدم رہے اور نہایت ہی پُرسکون آواز میں ارشاد فرمایا :
قد صدق والله واتبعته.
اللہ کی قسم انہوں (محمد)نے سچ فرمایا اور میں ان کی اتباع کروں گا۔
آپ کا والد جو اپنی کنیت ابو اُحیحہ سے مشہور تھا آپ کے اس جواب پر مزید اشتعال میں آیا اور آپ کو گالیاں بگتے ہوئے کہنے لگا: ” تم یہاں سے چلے جاؤں جہاں تمہارا دل چاہتا ہے، خدا کی قسم میں تمہارا کھانا پانی بند کر دوں گا“۔ خالد ابن سعید نے یہ بات سنی تو ارشاد فرمایا: اگر آپ میرا کھانا پانی بند کر دیں گے تو کیا ہو ا ؟ اللہ مجھے اپنے فضل سے اس سے بہتر کھانا پانی عطا فرما دے گا اور میں اس کی مدد اور نصرت کے ساتھ زندہ رہوں گا ۔ یہ بات سن کر آپ کے والد نےآپ کو اپنے گھر سے بے دخل کر دیا اور اپنے دیگر بیٹوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تم میں سے کسی نے بھی خالد سے کسی قسم کی کوئی بات یا رشتہ و ناطہ رکھنے کی کوشش کی تو میں اس کے ساتھ بھی یہی سلوک اور برتاؤ کروں گا ۔
جب خالد ابن سعید اپنے والد کے اس ظالمانہ رویے کو بھگت کر اپنے گھر سے نکلے تو رستہ میں آپ کی ملاقات اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل سے ہوئی ۔ ابو جہل جو خالد ابن سعید کے اسلام لانے پر آگاہ تھا ، اس نے آپ کے ایمان لانے کی شدید مذمت کی اور ان سے کہنے لگا کہ تم اپنے باپ کے نہایت ہی نا شکرے اور نا فرمان بیٹے ہو جس نے اُس کی اور اُس کے خاندان کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے ۔ خالد ابن سعید نے جب ابو جہل کی اس بات کو سنا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے خاندا ن کی عزت چھوڑ کر اللہ کی دی ہوئی عزت کو ہمیشہ کے لیے قبول کر لیا ہے ۔ ابو جہل نے جب خالد ابن سعید کی اس بات کو سنا تو غصّے میں کہنے لگا کہ تم ابھی کَم عُمر چھوکرے ہو، جب تمہیں اس کی پاداش میں مخالفت اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو تمہارے لیے اپنے نئے دین پر کاربند رہنا مشکل ہو جائے گا ۔ حضرت خالد ابن سعید اس کی ان باتوں کو سُن کر رسول اللہ کے دربار کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں جا کر مستقل سکونت کو اختیار فرما لیا ۔ جب بھی آپ سے آپ کے خاندان کا کوئی شخص ملتا تو وہ آپ کو طرح طرح کی باتیں سناتا اور آپ کی تذلیل کر تا کہ آپ نے اپنے والد اور اس کے دین کو چھوڑ کر اپنے خاندان اور والد کی عزت کو نقصان پہنچایا ہے اور آپ کو تنبیہ کرتا کہ آپ اپنے والد کے پاس جا کر اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کریں اور اس کے دین کو دوبار ہ قبول کر لیں ۔
ان تمام امور کے دوران ابو جہل ابو اُحیحہ کے گھر جا پہنچا اور طنزیہ لہجے میں اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تم اپنے بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گئے یا تم نے بھی اپنے (جھوٹے ) خداؤں کے بارے میں اپنی رائے کو تبدیل کر لیا ہے؟ جب ابو اُحیحہ نےابو جہل کی اس بکواس کو سناتو غصہ میں کہنے لگا کہ تم نے نہایت ہی سخت بات کی ہے جو میرے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ ابو جہل یہ جواب سن کر طنزاً کہنے لگا : پھر تم نے اپنے بیٹے یعنی خالد ابن سعید کو محمد کی غلامی کے لیے کیوں چھوڑ دیا؟ کیا تم یہ نہیں جانتے کہ قریش تمہاری اتباع کر تے ہیں اور تمہارا بیٹا محمد ( ) کی اتباع کر تا ہے ۔ قریش کے نوجوان تمہارے بیٹے کے اس رویے کی وجہ سے دلیر اور بہادر ہو رہے ہیں کہ جب ابو اُحیحہ کے بیٹے نے اسلام کو قبول کر لیا اور وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو ہم پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ۔ ابو اُحیحہ نے جب یہ بات سنی تو سن کر جواب دیا کہ میں کمزور ہر گز نہیں ہوا اور قریش میری قوت اور طاقت کے بارے میں بخوبی واقف ہیں لیکن تم نے میری تبدیلیِ رائے کے بارے میں جو اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، تو تم مجھے خود بتاؤ کہ مجھے ان حالات میں کیا کر نا چاہیے ؟ ابو جہل نے کہا کہ تمہیں اپنے بیٹے کو پکڑ کر قید کر دینا چاہیے اور اس کے ہر کسی سے ملنے جلنے پر مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے ۔
ابو اُحیحہ نے جب ابو جہل کی بات سنی توجواب دیا کہ میں اس کے خلاف اس سے زیادہ سخت اقدامات پہلے ہی کر چکا ہوں اور میں نے نہ صرف اس کے سر پر، اسے مار مار کر، اپنی لکڑی نما چھڑی کو توڑ ڈالا بلکہ اس کا اپنے گھر میں کھانا پانی تک مکمل بند کر دیا لیکن میں کیا کرو ں کہ اس کے فیصلے اور پایۂِ استقلال میں کوئی جنبش تک نہ لا سکا۔ ابو اُحیحہ مزید کہنے لگا کہ مجھے اپنے بیٹے سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ محمد () اپنے نسب کے اعتبار سے ہم میں سب سے اعلیٰ ہیں، یہ ہمارے درمیان ہی پلے بڑے ہیں اور فصیح الکلام ہیں ، نہایت ہی ایماندار ہیں اور اخلاقیات کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہیں اور وہ ایک نئے مذہب کو لے کر آئے ہیں جس نے ہماری قوم اور اس میں بسنے والے لوگوں کو تقسیم کر دیا ہے اور نوجوان لڑکے اور غلام ان کے حق میں ہیں اور ہمارے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ ابو اُحیحہ نے مزید کہا کہ اگر اس (محمد ) کے خیالات صحیح ہیں اور پھر اس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جو کہ واقعی صحیح ہیں تو پھر یاد رکھو کہ وہ اگر اس مکّہ سے نکالے بھی گئے تو ایک دن ضرور آئے گا کہ وہ بحیثیتِ ایک غالب حکمران کے اس مکّہ میں دوبار ہ داخل ہوں گے اور ہم سب پر حکمرانی کریں گے ۔ ابو جہل نے جب یہ بات سنی تو غصہ میں کہنے لگا کہ ہماری نجات کا واحد رستہ یہ ہے کہ ہم محمد ( ) کو مکّہ سے ہی نکال دیں۔ اس نے کہا کہ اس طرح ہم اپنے لوگوں کو واپس اُن کے پرانے دین اور ان کے آباؤ اجدا د کے دین کی طرف لانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ یہ کہہ کر وہ غصہ کی حالت میں وہاں سے یہ کہتا ہوا لوٹ گیا کہ ہائے افسوس! ابو اُحیحہ کے بڑھاپے نے اس کی رائے اور اس کے ارادے کو تبدیل کر دیا ہے ۔ 6
حضرت خالد ابن سعید ایک طویل عرصہ تک مکّہ کے اطراف میں مختلف مقامات پر اپنے والد اور متعلقین سے چھپ کر اپنی زندگی بسر کرتے رہے ۔ آپ کا والد جو کہ اب اپنے بڑھاپے کی وجہ سے چلنے اور پھرنے کی وجہ سے قاصر ہو چکا تھا جب بھی آپ کو یاد کر تا تو غصہ میں کہتا:
لئن رفعني الله من مرضي هذا لا يعبد إله ابن أبي كبشة ببطن مكة.
اگر اللہ نے مجھے اس مرض سے شفا دی تو ابن ابی کبشہ (یعنی محمد) کے خدا کی عبادت مکّہ کی سرزمین پر نہیں ہوگی۔
جب خالد ابن سعید کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے اپنے والد کے لیے اللہ سے یہ دعا مانگی کہ اللہ میرے باپ کو اس مرض سے کبھی بھی شفا یاب نہ کرنا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو جائے ۔7مؤرخین نے لکھا ہےکہ آپ کی یہ دعا اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی اور ابو احیحہ اسی بیماری میں اس دارِ فانی سے رخصت ہو گیا اور اس کے مرنے کے بعد آپ کے بھائی عمرو ابن سعید نے بھی دینِ اسلام کو قبول کر لیا۔ مؤرخین میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ خالد ابن سعید وہ پہلے صحابی ہیں جنہوں نے اپنے دستِ مبارک سے سب سے پہلے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" تحریر فرمایا ۔ 8
خالد ابن سعید پر گزرنے والے ان حالات کے دوران اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کا اذن آگیا ۔ اعلان نبوت کے پانچویں سال خالد ابن سعید بھی اپنی زوجہ محترمہ امینہ بنت خلف ابن اسعد اور اپنے بھائی عمرو ابن سعید کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت فرما گئے ۔آپ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ میں شامل تھے جنہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت فرمائی ۔ 9خالد ابن سعید تقریباً دس سال تک حبشہ میں رہے 10اور غزوہ خیبر کے بعد ہجرت کے ساتویں سال مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ 11