Encyclopedia of Muhammad

حضرت محمد کی نشونما اور رضاعی مائیں

قدیم عرب میں یہ عام دستور تھا کہ جب بھی ان کی ہاں کسی بچے کی ولادت ہوتی تو وہ اس کی بہتر نشوونما کے لیے اس کو دیہی علاقوں میں پرورش کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۔ اس دورا ن ان بچوں کی رضاعت کا بندوبست ان علاقوں میں موجود پیشہ ور خواتین اجرت لے کر فرمایا کرتی تھیں جس سے ایک طرف تو بچوں کی نشوونما دیہاتی علاقوں کی شفاف آب وہوا میں ہوتی اور دوسری طرف ان کی غذا کا بندوبست ان علاقوں میں موجود غریب مگر محبت کرنے والی دایہ اور رضاعی ماؤں کے دودھ پلانے سے ہوتا تھا ۔ عرب کے اسی دستور کے مطابق جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کی رضاعت اور پرورش کی ذمہ داری حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کی گئی جس کو آپ نے نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا۔

دیہی علاقوں میں نومولود بچوں کی نشوونما

اپنے بچوں کی پُرفضا ، شفاف اور بہتر آب و ہوا میں پرورش کروانے کے لیے عرب کے شہروں اور صحرائی علاقے کے لوگ اپنے بچوں کو دیہی اور قدرےسرسبز علاقوں میں بھیجا کرتے تھے ۔ 1روسائے عرب اپنے بچوں کو ان بدوی خواتین کے پاس بہتر نشوونما کے لیے اس لیے چھوڑ دیتے تا کہ وہ دیہاتی آب و ہوا میں پَل کر مضبوط اور صحت مند ہو سکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں رہنے سے جو دوسرا فائدہ ان بچوں کو ہوتا وہ ان کی زبان دانی یعنی ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کا ظہور ہونا تھا کیونکہ دیہاتی علاقوں کی زبان دانی ہر قسم کی بیرونی آمیزش سے پاک ہوتی تھی اور اس میں غیر عربی الفاظ کا دخل تقریباً نا پید ہوتا تھا ۔اس لیے اس ماحول میں پلنے والے بچے عربی زبان بنسبت دیگر بچوں کے بہتر اور اعلیٰ انداز میں بولا کرتے تھے ۔ 2اس بلاغتِ لسانی اور فصاحتِ کلامی کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں سیدنا ابوبکر صدیق نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول میں نے آپ سےبڑھ کر بلیغ اور فصیح کلام کرنے والا کسی کو نہ پایا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا تھا :

  أنا أفصح العرب ةمید أنى من قريش، ونشأت في بنى سعد بن بكر. 3
  کہ میں افصح العرب ہوں اور میں قریش میں سے ہوں اور میری پرورش بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے ۔

مذکورہ بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے علماء فرماتے ہیں کہ اہلِ مکّہ کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنی اولاد کے کھیل کود اور پرورش کے لیے دیہاتی زمین کا انتخاب کیا کرتے تھے اور ان کا یہ عمل قابلِ تعریف اور لائقِ تقلید تھا ۔ جدید دور میں موجود تعلیم و تربیت کے میدا ن سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ اگر نو مولود بچوں کی تربیت دیہی علاقوں میں کی جائے تو اس کے مثبت اثرات نہ صرف ان کی صحت اور مزاج پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی زبان دانی اور قادر الکلامی بھی دیگر بچوں کی نسبت منفرد اور اعلیٰ ہوتی ہے ۔ 4

آپ کی رضاعی ماؤں کے اسما اور ان کی تعداد

عرب کے مروجہ دستور کے مطابق بدوی و دیہاتی خواتین مختلف ایام میں شہروں کا رخ کرتیں اور نومولود بچوں کو معمولی اجرت پر اپنے ساتھ اپنے گاؤں اور دیہات لے جایا کرتی تھیں۔ وہ وہاں پر ان بچوں کی رضاعت اور نشوونما کے انتظامات نہایت ہی محبت اور جانفشانی سے فرمایا کرتی تھیں اور جب بچے تقریبا ًدو سال کے ہو جاتے تو وہ ان کو ان کے والدین کے حوالے کر دیتیں جس کے بدلے میں وہ کوئی خاص رقم نہ وصول کرتیں البتہ جو رقم ان کو مل جاتی اس پر قناعت کر کے اپنا گزر اوقات کیا کرتی تھی ۔ 5

جب آپ کی ولادت ہوئی تو ابتدائی سات (7) دنوں تک آپ کو آپ کی والدہ یعنی حضرت آمنہ نے دودھ پلایا اور ان کے بعد یہ سعادت کئی دیگر خواتین کو حاصل ہوئی جن میں حضرت حلیمہ سعدیہ کا اسم مبارک سر ِفہرست ہے۔ جن خواتین نے حضرت حلیمہ سعدیہ کے علاوہ آپ کو دودھ پلایا ان میں حضرت ثویبہ جو کہ ابو لہب کی کنیز تھیں ،خولہ بنت المنذر ، ام ایمن جن کا نام برکہ بھی آیا ہے ، بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی تین خواتین، بنو سعد سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اور امّ فروہ رضی اللہ عنھنٌ شامل ہیں جن کی کُل تعداد تقریبا ً دس (10) کے قریب بنتی ہے ۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ سعادت حضرت حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آئی جنہوں نے تقریبا ً دو سال تک نبی کو دودھ پلایا۔ 6مذکورہ بالا خواتین میں سے تین (3) خواتین کا ذکر مؤرخین نے بالتفصیل کیا ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

حضرت ثویبہ

یہ ابو لہب کی کنیز تھیں جن کو آپ کی ولادت کی خوشخبری دینے کی وجہ سے ابو لہب نے آزاد کر دیا تھا ۔ 7آپ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور آپ نے مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد باقاعدہ طور پر ہر ماہ ان کے لیے ایک وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جو ان کو پہنچادیا جاتا تھا ۔ 8آپ کا وصال سات (7) ہجری میں ہوا۔

امّ ایمن

حضرت امّ ایمن کا اصل نام برکہ تھا 9لیکن آپ اپنے اصل نام کے بجائے اپنی کنیت امّ ایمن سے مشہور تھیں ۔ آپ اصلاً نبی کے والدِ محترم حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں جو کہ وراثتاً آپ کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ نے بچپن میں آپ کی نہایت محبت اور جانفشانی سے دیکھ بھال فرمائی تھی جس کی وجہ سے آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ"حضرت آمنہ کے بعد یہ میری ماں ہیں"۔ 10جب آپ کا نکاح حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے ہوا تو آپ نے حضرت ام ایمن کو آزاد فرما دیا ۔ 11آپ کا وصال مبارک حضرت عثمان غنی کے دور خلافت میں اس وقت ہوا جب حضرت عمر کے وصال کو فقط بیس (20) روز گزرے تھے۔

حلیمہ سعدیہ

جب آپ کی عمر مبارک فقط آٹھ (8) روز تھی اس وقت مکّہ میں کچھ خواتین اس غرض سے داخل ہوئیں کہ ان کو رضاعت کے لیے کچھ بچے میسّر آ جائیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ جن کا تعلق بنو سعد قبیلہ سے تھا وہ بھی ان خواتین میں شامل تھیں لیکن آ پ کی خوشں بختی یہ تھی کہ آپ کی کفالت اور رضاعت کا تاج آپ کے سرِ مبارک پر سجایا گیا۔ 12آپ کا قبیلہ بنو سعد، قبیلہ ہوازن کی ایک شاخ تھا جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عمر ابن رضا کہالہ بیان کرتے ہیں :

  بطن من هوازن، من قيس بن عيلان، من العدنانية، وهم: بنو سعد بن بكر بن هوازن بن منصور بن عكرمة بن خصفة بن قيس بن عيلان. من أوديتهم: قرن الحبال، وهو واد يجيء من السراة. ومن مياههم: تقتد. وهم أصحاب غنم. وشهر ناس منهم يوم جبلة. وهم حضنة النبي صلى الله تعالى عليه وسلم. وبعث بنو سعد سنة 9 هـ ضمام بن ثعلبة وافدا الى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ليجيب……13
  قبیلہ ہوازن جس کا تعلق قبیلہ عدنان سے تھا وہ قیس ابن عیلان کی اولاد میں سے تھے ۔ ان کا شجرہ نسب بنو سعد بن بكر بن ہوازن بن منصور بن عكرمہ بن خصفہ بن قيس بن عيلان ہے ۔ وہ سِرات سے آنے والے پہاڑی سلسلوں کے درمیان موجود وادی کے رہائشی تھے ۔ وہ جس چشمے سے پانی پیتے تھے اس کا نام" تقتد" تھا ۔ یہ لوگ ( پیشہ کے اعتبار سے ) چرواہےتھے ۔ یہ لوگ یومِ جبلہ سے اپنے تعلق کی وجہ سے مشہور ہوئے اور یہی وہ قبیلہ ہے جس میں آپ نے پرورش پائی ۔ نو (9) ہجری میں بنو سعد قبیلہ کا ایک وفد ضمام بن ثعلبۃکی سربراہی میں آپ سے ملنے کے لیے آیا جس نے آپ کے دست مبارک پر دین اسلام کو قبول کیا ۔۔۔

جب حضرت عبدالمطلب کی ملاقات حضرت حلیمہ سعدیہ سے ہوئی تو آپ نے ان کے نام اور خاندان سے متعلق تفصیلات کو ان سے طلب فرمایا ۔ جب آپ نے حضرت عبدالمطلب کو اپنا نام بتایا اور اپنے قبیلے بنو سعد کا تعرف پیش فرمایا تو حضرت عبدالمطلب مسکرا دیئے اور ارشادفرمایا : بہت خوب! سعادت اورحلم ( جمع ہوگئے ) ، یہ دونوں وہ عظیم صفات ہیں جو اپنے اندر ہر خیر کو سمیٹے ہو ئے ہیں ۔ 14اس کے بعد ہی حضرت عبدالمطلب نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ کو رضاعت اور پرورش کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیا جائے ۔ آپ نے حضرت عبدالمطلب کی اس خواہش کو قبول فرمالیا اور آپ کو لینے کے لیے حجرہ مبارک میں داخل ہو گئیں جہاں آپ سفید دودھیا اونی لباس میں ملبوس تھے اور آپ کے نیچے ریشمی سبز چادر موجود تھی جس میں سے بھینی بھینی مشک کی خوشبو آ رہی تھی ۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے سوتے ہوئے اس معصوم ، خوبصورت اور نہایت ہی متبرک بچے کو دیکھا تو یکدم آ پ کے دل میں یہ چاہت پیدا ہوئی کہ آپ بڑھ کر اس بچے کو چوم لیں لیکن آپ اس معصوم بچے کی نیند کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے آپ نے چومنے سے گریز فرمایا لیکن آپ حضور کو چھوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ جب آپ نے اپنی انگلی سے آپ کو چھوا تو آپ نے اپنی آنکھیں مبارک کھول دیں اور حضرت حلیمہ سعدیہ کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ آپ نے جب آپ کی اس دلکش مسکراہٹ کو دیکھا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آپ نے یکدم بڑھ کر اس معصوم بچے کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس کے بعد وہ اس با برکت بچے کو لے کر اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں ۔ 15

ان دنوں حضرت حلیمہ کے سینے میں اپنے ایک بیٹے کے لئے بھی دودھ موجود نہیں تھا اورنہ ہی آپکے پاس موجود جانوروں کے تھنوں میں اتنا دودھ دستیاب تھا جو اس بچے کی رضاعت کے لیے کافی ہو سکے لیکن جب آپ نے رضاعت کے لیے آپ کو گود لیا توآپ کے وجود مبارک میں اتنا دودھ بھرگیا جو کہ نا صرف رسول اللہ کی رضاعت کے لیے کافی ہوتا تھا بلکہ آپ کے رضاعی بھائی کے لیے بھی کافی و شافی ہو جایا کرتا تھا۔اس کے علاوہ وہ جانور اور مویشی جن کے تھن سوکھ گئے تھے، آپ کی آمد مبارکہ کے ساتھ ہی وہ نہ صر ف صحت مند و توانا ہوگئے بلکہ ان کے تھن بھی دودھ سے بھر گئے تھے ۔ آپ کی ان خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت حلیمہ سعدیہ فرمایا کرتی تھیں کہ جب وہ آپ کو دودھ پلاتیں تو آپ کو اپنی دائیں طرف پیش فرماتیں جس سے آپ دودھ نوش فرمایا کرتے تھے مگر جب وہ آپ کو اپنی بائیں جانب سے دودھ پلانے کی کوشش کرتیں تو آپ اپنا رخِ مبارک پھیر لیا کرتے تھے کیونکہ اس پستان سے آپ کے رضاعی بھائی دودھ پیا کرتے تھے اور یہ بات عدل کے خلاف تھی کہ آپ ان کے حصے سے دودھ پئیں۔ 16

حضرت حلیمہ سعدیہ نے تقریبا ً چوبیس (24) ماہ کا طویل عرصہ آپ کی رضاعت و کفالت فرمائی 17یہاں تک کہ آپ کی مکّہ واپسی کا وقت آن پہنچا ۔ جب آپ حضور کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس پہنچیں توفرطِ محبت سے اس قدر روئیِں کہ حضرت آمنہ مجبور ہو گئیں کہ وہ مزید کچھ عرصہ کے لیے آپ کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس رہنے دیں۔ آپ نے مزیدکچھ عرصہ تک آپ کی نشوونما فرمائی اور پھر واقعۂِ شق الصدر کے بعد بلآخر خوف سے مجبور ہوکر آپ کو ان کی والدہ ماجدہ کے حوالے فرماد یا۔ 18آپ کا وصال نو (9) ہجری میں ہوا اور آپ کی قبر مبارک جنت البقیع میں موجود ہے۔ 19

 


  • 1 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ:دار ابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 72
  • 2 Akber Shah Najeebabadi (2000), The History of Islam, Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 94.
  • 3 أبو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي، شرح السنة، ج- 4، مطبوعۃ: المكتب الإسلامي، دمشق، بيروت، 1983م، ص: 202
  • 4 Dr. Ali Muhammad As-Sallaabee (2005), The Noble Life of the Prophet ﷺ (Translated by Faisal Shafeeq), Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 88.
  • 5 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاءالنبیﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، ص: 66
  • 6 امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-۱، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،2013م، ص: 375-378
  • 7 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج- 2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 183
  • 8 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-5، مطبوعۃ: مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 123
  • 9 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج- 8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1990م، ص: 179
  • 10 عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 290
  • 11 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ، مطبوعۃ:دار النفائس، بیروت، لبنان،1986م، ص: 164
  • 12 شیخ سید احمد بن زینی دحلان المکی، السیرۃ النبویۃ(مترجم: علامہ ذوالفقار علی)،ج-۱ ،مطبوعۃ: ضیاء القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2014م، ص: 64۔65
  • 13 عمر بن رضا عبد الغني كحالة، معجم قبائل العرب القديمة والحديثة، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 513-514
  • 14 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:131
  • 15 ایضاً، ص:132
  • 16 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاءالنبیﷺ، ج- 2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، ص:68
  • 17 محمد بن صامل السلمي، عبد الرحمن بن جميل قصاص، سعد بن موسى الموسى و الآخرین، صحيح الأثر وجميل العبر من سيرة خير البشر (ﷺ)، مطبوعۃ: مكتبة روائع المملكة، جدة، سعودیۃ، 2010م، ص: 82
  • 18 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية،بیروت،لبنان،1996م، ص: 280
  • 19 عبد المصطفٰی اعظمی، جنتی زیور، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ باب المدینہ،کراچی، پاکستان، 2014م، ص: 512