حضور نبی کریم کی محبت اور تعظیم ایمان ہے اور اس تعظیم کے مختلف طریقے مسلمانوں میں رائج ہیں ۔ان میں سے ایک کھڑے ہوکر درود سلام پڑھنا بھی ہے جوخصوصاً ساعتِ ولادت میں مسلمان کھڑے ہوکر پڑھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں غایتِ تعظیم کا ایک انداز کھڑے ہوکر سلام یا خراجِ عقیدت پیش کرنا بھی ہے۔کسی بھی ملک کا ترانہ پیش کیاجائے تو بڑے سے بڑا آدمی خواہ مہمان ہویا میزبان جب تک ملکی یا قومی ترانہ پڑھاجاتا ہے وہ کھڑے ہوکر ادب واحترام سےترانہ پڑھتا یا خاموش رہتا ہے۔ترانہ کا احترام اتنا کیاجاتا ہے کہ ہرحرکت کو روک کر کھڑے ہوکر با ادب طریقہ سے ترانہ پیش کیا جاتا ہے۔ترانہ میں ادب واحترام کا یہ پہلو اختیا رکرنااس ملک جس کا ترانہ پڑھا جارہا ہے کا احترام گردانا جاتا ہے۔سرورِ عالم کا ادب واحترام مسلمان کے لیے ہر دوسری چیز سے بڑھ کر ہے جس کی وجہ سے وہ بارگاہِ رسالت مآب میں کھڑے ہو کر سلام پیش کرنا زیادہ بہتر تصوّرکرتا ہے ورنہ سلام تو پاکی کی حالت میں بیٹھ کر بھی پیش کیاجاسکتا ہے۔ بعض لوگ اس کو بھی ناجائز کہتے ہیں بلکہ بعض تو اس کو شرک تک کہہ دیتے ہیں۔ یہ لو گ کہتے ہیں کہ مسند احمد میں حضرت عبادہ کی روایت سے فرمان نبوی موجود ہے جس میں نبی مکرم نے ارشاد فرمایا:
لایقام لى إنما یقام للّٰه تبارك وتعالىٰ.1
میرے لیے قیام نہ کیاجائے کیونکہ قیام فقط اﷲ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے ۔
یعنی اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ قیام تعظیمی فقط اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے لہذا کسی اور کے لیے قیام تعظیمی شرک ہے۔2
اس حدیث اور اسی طرح کی دیگر احادیث جن سے استدلال کرکے قیامِ تعظیمی کو شرک و بدعت کہا جاتا ہے اس کی صحیح تشریح اور وضاحت اس مقالے کے آخر میں بیان کی جائے گی۔سر دست سب سے پہلے قیامِ میلاد اور قیام تعظیمی کی وضاحت اور اس کے شرعی دلائل بیان اور اس سے متعلقہ چیزیں بیان کی جارہی ہیں۔
محفلِ میلاد النبی میں بہ حالت قیامِ حضور نبی اکرم کی ذات ستودہ صفات پر سلام عرض کرنا محبان مصطفی کا خاصہ ہے اور یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ جس طرح حضور کی حیات ِ ظاہری میں آپ کی تعظیم وتوقیر اہل اسلام پر واجب تھی اور صحابہ کرام نہایت محتاط رہتے کہ آپ کے ادب واحترام میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے، اسی طرح آج بھی آپ کی تعظیم وتوقیر اُمت پر واجب ہےجیساکہ اﷲ تبارک وتعالیٰ اس کا حکم دیتےہوئےارشاد فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِى وَلَا تَجْھرُوْا لَه بِالْقَوْلِ كجَھرِ بَعْضِكمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ2 3
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔
اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ صحابہ کرام کو نبی مکرم کی بارگاہ کے آداب اور آپ سے گفتگو کا طریقہ سکھا رہا ہے کہ جب تمہیں وہاں شرف باریابی نصیب ہو اور ہم کلامی کی سعادت حاصل ہو تو خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب نبی کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے ورنہ ذرا سی غفلت اور بے پروائی سے تمہارے سارے اعمال حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام ضائع ہوجائیں گے۔
یہ حکم جس طرح آپ کی حیات ظاہری میں قابل اطاعت تھا بالکل اسی طرح نبی مکرم کے وصال کے بعد بھی اسی طرح قابل اطاعت ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
وقال العلماء: یكره رفع الصوت عند قبره صلى اللّٰه عليه وسلم كما كان یكره فى حیاته صلى اللّٰه عليه وسلم لأنه محترم حیا وفى قبره صلى اللّٰه عليه وسلم دائماً.4
اہل علم نے (اس آیت کے اترنے کی وجہ سے) یہ بات کہی ہے کہ حضور نبی کریم کے روضۂ انور کے پاس بھی بلند آواز سے اپنی طرف متوجہ کرنا منع ہے جیسا کہ آپ کی حیات طیبہ میں ممنوع تھا اس لیے کہ جب آپ حیات ظاہری میں محترم ہیں تو اپنے روضۂ انور میں بھی ہمیشہ کے لیے محترم ہیں۔
اسی حوالہ سےامام قاضی عیاض لکھتے ہیں:
واعلم أن حرمة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بعد موته و توقیره و تعظیمه لازم كما كان حال حیاته وذالك عند ذكرہ صلى اللّٰه عليه وسلم و ذكر حدیثه وسنته وسماع اسمه وسیرته ومعاملة آله وعترته وتعظیم أھل بیته وصحابته.5
جان لو بے شک نبی کریم کی عزت وحرمت اور آپ کی تعظیم وتوقیر آپ کی وفات کے بعد بھی اسی طرح ضروری و لازم ہے جس طرح آپ کی ظاہری حیات میں ضروری و لازم تھی اور اس کا اظہار خاص طور پر آپ کے ذکر مبارک اور آپ کی حدیث شریف کی تلاوت اور آپ کی سنت اور آپ کے نام مبارک اور آپ کی سیرت طیبہ کے سنتے وقت ہونا چاہیے۔
امام اسماعیل حقی قرآن کریم کی آیت مبارکہ"و ما کان لکم ان تؤ ذوا رسول اﷲ" 6 کے تحت اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:
والحاصل أنه یجب على الأمة أن یعظموہ علیه الصلوة والسلام ویوقروه فى جمیع الأحوال فى حال حیاته و بعد و فاته فإنه بقدر ازدیاد تعظیمه و توقیره فى القلوب يزداد نورالایمان.7
اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ امت محمدیہ (علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم ) پر حضور اکرم کی تعظیم و توقیر ہر حالت میں واجب ولازم ہے آپ کی حیات ظاہری میں بھی اور آپ کے وصال کے بعد بھی کیونکہ دلوں میں جتنی حضوراکرم کی تعظیم بڑھے گی اتنا ہی نورِایمان بڑھے گا۔
محفل میلاد یا محفل نعت کے دوران آپ پر سلام پڑھتے وقت احتراماً کھڑے ہونا اسی ادب وتعظیم کا تسلسل ہےاور اس پر یقیناً انوار وبرکات الہٰیہ کا نزول ہوتا ہے کیونکہ یہ حکم شرع کی پاسداری ہےاور ادب کا یہ خوشنما انداز یقیناً جاری رہنا چاہیےکیونکہ قیام سے خود قیام نہیں بلکہ حضور اکرم کی ذات کا ادب متصوّر ہے جو نصِّ قرآنی کی روشنی میں مسلمان کے ایمان کا حصّہ ہے۔
قیامِ میلاد حضور نبی کریم کی تشریف آوری کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ہی میلاد منانے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ اس مجلس میں تشریف لارہے ہیں اور آپ کی آمد پر قیام کررہے ہیں بلکہ یہ قیام میلاد دراصل قیام محبت، فرحت اور خوشی کے اظہار کے لیے ہیں۔اسی طرح خصوصی طور پر مسلمان اس گھڑی میں محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور نبی کریم اس دنیا میں تشریف لائے اور شرکائے محفلِ میلاد صرف علامتی طور پر حضور نبی کریم کے ذکر کے احترام میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پیش کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کسی ملک کے جھنڈے کو سلام اور سیلوٹ علامتی ہوتا ہے اور اصل مقصود اس ملک کی عزت و توقیر ہوتی ہے۔
محفلِ میلاد میں قیام ذکرِ حبیب کے ادب اور ولادت پاک کو یاد کرنے کے لیے ہوتا ہے۔بے شک حضور کی ولادت باسعادت اس قدر شانِ جمال اور عظمتِ بے مثال کی حامل ہے کہ اس کا ذکر بھی بہت فضیلت کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی تعظیم اِس اَمر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم کھڑے ہوکر آپ کی ذات والا صفات پر سلام پیش کریں، آپ کے اَوصافِ حمیدہ کی تحسین کریں اور ذکرِ حبیب میں نہایت درجہ اَدب وتعظیم کا مظاہرہ کریں جو قیام میں عملاً کیاجاتا ہے۔
وہ ساعتیں جب اس دنیائے آب وگل میں آپ کی تشریف آوری ہوئی اور آپ اپنے دامن میں بے انتہاء خوشی ،مسرت اور فرحت کی دولت لے کر منصّہ عالم پر ظہور پذیر ہوئے ان ساعتوں میں اس متاعِ عظیم کی یاد میں قیام کرنا اور آپ کی محبت میں سرشارہو کر میلاد پڑھنا سرورِ ایمان کا اِظہارہے۔احادیث اس قیام کا جواز فراہم کرتی ہیں اوربارگاہِ رسالت میں صلوٰۃ وسلام اور نعت و قصائدپیش کرنا سنت قرار پاتا ہے جس کی تائید تمام ائمہ حدیث کی روایات اور اَقوال سے ہوتی ہے۔ 8
اس مسئلۂِ قیامِ میلاد کا تعلق بھی اسی تعظیمِ رسول کے ساتھ ہےکیونکہ مسلمان حضور کے ذکر کے وقت تعظیماً ومحبتاً کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق عبادت کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ مسلمان قیامِ عبادت نہیں کرتے بلکہ قیام تعظیمی کرتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
قیام کی متعدد صورتوں میں سے ایک قیامِ سلام ہے۔ حضور نبی اکرم کی ذات ستودہ صفات پر صلوٰۃ وسلام اَدب وتعظیم سے سرشار کیفیت میں کھڑے ہوکر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ قیام متعدد درجاتِ قیام کا مجموعہ ہےمثلاً قیامِ محبت، قیامِ فرحت، قیامِ تعظیم، قیامِ ذکر اور قیامِ صلوٰۃوسلام۔ جب محفلِ میلاد میں قیامِ سلام کی بات کی جاتی ہےجس میں حضور کی بارگاہ میں سلام پڑھا جاتا ہے تو پھر قیام اور عدمِ قیام کی تمیز پر مبنی ساری بحث محض سعی لاحاصل ہے۔ اس کا میلاد سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ قیام، قیامِ استقبال ہے ہی نہیں ۔ درحقیقت یہ قیام، تعظیم کےلیے ہوتا ہے بلکہ اس پر مستزاد قیامِ فرحت اور قیامِ محبت اس کا محرک ہے۔ قیام کی یہ تمام صورتیں بلاخوفِ تردید حضور نبی اکرم کی سنت پر مبنی ہیں اور اس پر کسی قسم کی اختلاف رائے موجود نہیں ہے۔
قیام میلاد ایک مستحب اور محبوب عمل ہے نہ فرض ہے اور نہ ہی کوئی شخص اس کو واجب سمجھتا ہے چنانچہ مفتی احمدیار خان نعیمی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں پر محض بہتان ہے کہ وہ قیامِ میلاد کوواجب سمجھتے ہیں۔ نہ کسی عالم دین نے لکھا کہ قیام واجب ہے اور نہ تقریروں میں کہا، عوام بھی یہی کہتے ہیں کہ قیام اور میلاد شریف کارِ ثواب ہے ۔ 9
اس مسئلہ میں مستند علماء کی جتنی بھی کتب دستیاب ہیں ان سب میں قیامِ میلادالنبی کے بارے میں صرف استحباب کا دعویٰ موجود ہےاور یوں تمام علماءاس پر متفق ہیں کہ قیامِ میلاد صرف مستحب ہے۔امام احمد رضا خان القادریسے سوال ہوا کہ قیام مولود شریف فرض ہے ، واجب ہے یا سنت ہے؟تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ قیام مجلس مبارک مستحب ہے۔10 اسی طرح حضرت علامہ سیّد دیدار علی شاہ محدث الواری لکھتے ہیں کہ قیام ہذا کا مستحب و مستحسن ہونا ثابت ہے۔ 11
یعنی قیامِ میلاد النبی ایک مستحب امر ہے جس میں استحباب تعظیم و توقیرِ نبی کی وجہ سے ہے نہ کہ اس سے بڑھ کر واجب یا سنت وغیرہ جس کی تصریح علمائے اسلاف نے اپنی اپنی کتب میں بیان فرمادی ہے۔
ایک امر ہے تعظیم اوردوسرا امر ہےعبادت، عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کی کی جاتی ہے اور تعظیم دین میں ہر افضل شخص کی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پرایک مقدس جگہ ہے وہاں عبادت کرنے کے فوائد اور زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن اس جگہ کی عبادت نہیں کی جاتی بلکہ اس جگہ سے برکت حاصل کی جاتی ہے البتہ اس جگہ کی تعظیم کی جاتی ہے ۔اس کی مزید وضاحت ایک حدیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے جس کو امام ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے خبردی :
أن عتبان بن مالك وهو من أصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ممن شھد بدراً من الأنصار أنه أتى رسول صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: یارسول اللّٰه قد أنكرت بصرى وأنا أصلى لقومى فإذا كانت الأمطار سال الوادى الذى بینى وبینھم لم أستطع أن آتى مسجدهم فأصلى بھم ووددت یا رسول اللّٰه أنك تأتینى فتصلى فى بیتى فاتخذه مصلى قال: فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: سأفعل إن شاء اللّٰه. قال عتبان: فغدا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبوبكر حین أرتفع النھار فاستأذن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فأذنت له فلم یجلس حین دخل البیت ثم قال: أین تحب أن أصلى من بیتك؟ قال: فأشرت له إلى ناحیة من البیت فقام رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فكبر فقمنا فصففنا فصلی ركعتین ثم سلم.12
حضرت عتبان بن مالک انصاری رسول اﷲ کے اصحاب میں سے ہیں اور وہ ان انصار میں سے ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے تھے وہ رسول اﷲ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! میری بصارت بہت کم زور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارش ہوتی ہے تو میرے اور ان کے درمیان جو وادی ہے وہ بہنے لگتی ہے اور میں ان کی مسجد میں جانے کی اور انہیں نماز پڑھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یا رسول اﷲ! میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں پس میں اس جگہ کو مصلیٰ بنالوں ۔ راوی نے کہا کہ پس رسول اﷲ نے فرمایا میں ان شاء اﷲ عنقریب ایسا کروں گا۔ حضرت عتبان نے بیان کیا پس دوسرے روز دن چڑھنے کے بعد رسول اﷲ اور حضرت ابوبکر صدیق آگئے اور رسول اﷲ نے اجازت طلب کی تو میں نے آپ کو اجازت دی۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد رسول اﷲ بیٹھے نہیں اور فرمایا تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہوکہ میں نمازاداکروں؟میں نےگھر کی ایک جانب آپ کو اشارہ کیا پس رسول اﷲ کھڑے ہوگئے اور آپ نے تکبیر پڑھی پھر ہم بھی کھڑے ہوگئے اور ہم نے صف بنائی آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیردیا ۔
اﷲ کے سوا عبادت کی نیت سے کسی کے لیے سجدہ کرنا کفر ہے اورسجدہ اﷲ ہی کو کیا جاتا ہے۔ یہ صحابی رسول اﷲ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے گھر میں ایسی جگہ مختص کررہے ہیں جہاں نبی کریم کے پائے اقدس لگے ہوں ۔ ایک طرف فاروق اعظم جیسے عظیم صحابی ابراہیم کے پائے اقدس لگنے والی جگہ کو مصلیٰ بنارہے ہیں تو دوسری طرف جلیل القدر صحابی رسول حضرت عتبان بن مالک انصاری حضور نبی کریم کے پائے اقدس لگنے والی جگہ کو۔اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام نووی لکھتے ہیں:
فى هذا الحدیث أنواع من العلم وفیه التبرك بآثار الصالحین وفیه زیارة العلماء والصلحاء والكبار وأتباعھم وتبریكھم إیاهم.13
اس حدیث میں کئی قسم کے علوم و معارف ہیں اور اس میں بزرگان دین کے آثار سے تبرک اور علماء، صلحاء اور بزرگوں اور ان کے ماننے والوں کی زیارت اور ان سے برکات کا حصول ثابت ہے۔
اور ایسا کیوں نہ ہو کہ نبی مکرم سے منسوب ہر چیز کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے اور اس کی تعظیم بھی کی جاتی ہے چانچہ اسی حوالہ سے قاضی عیاض مالکی فرماتے ہیں:
ومن إعظامه وإكباره إعظام جميع أسبابه، وإكرام مشاهده وأمكنته من مكة والمدينة، ومعاهده وما لمسه صلى اللّٰه عليه وسلم أو عرف به.14
حضور کی تعظیم وتوقیر میں سے یہ بھی ہے کہ حضور کےتمام ترمتعلقات جیسےمکّہ اورمدینہ میں حضور کے مکانات، وہ اشیاء جن کو حضور سے نسبت رہی اور جن کوحضور نے مس فرمایا اور جوحضور کی نسبت سے مشہورہوئی ان سب کی تعظیم کرے۔
اصحابِ رسول عبادت تو اﷲ کی کررہے ہیں مگر اس جگہ کی تعظیم کر رہے ہیں جہاں سرکار دو عالم نے سجدہ کیا ہے۔یہی تعظیم اور عبادت میں فرق ہے گو کہ بظاہر دونوں ایک جیسے ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور وہ فرق کرنے والی چیز نیت ہے کہ اگر قیام عبادت کی نیت سے ہو تو شرک اور اگر فقط تعظیم کی نیت سے ہوتو جائز۔
قیامِ تعظیمی کا معنی یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں عظمت والے لوگوں کو آتا دیکھ کر ان کے استقبال اور ان کی تعظیم میں کھڑے ہوجائیں ۔اسی حوالہ سے بیان کرتے ہوئے محمد روح اﷲ نقشبندی لکھتے ہیں:
یہ قیام تعظیم کے لیے ہے جس سے احترام کا اظہار ہوتا ہے جیسے امتی کا قیام نبی کے لیے ،اولاد کا والدین کے لیے، مریدین کا شیخ کے لیے، شاگردوں کا استاد کے لیے اور چھوٹوں کا بڑوں کے لیے ۔یہ قیام کسی کی عزت و کرامت اور شرف بزرگی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور کسی کے تقدس واحترام کے پیش نظر بھی۔ 15
اس قیام تعظیمی کی دو قسمیں ہیں جن میں ایک حرام اور دوسری جائز ہے۔حرام کا حکم اس شخص کے حق میں ہے جو تکبر کی وجہ سے یہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں۔جواز کا حکم اس شخص کے حق میں ہے جس کے لیے تعظیم کی غرض سے لوگ کھڑے ہوں لیکن خود اس کے دل میں اس کی طلب نہ ہو جیسے کسی ولی اﷲ، عالم دین، ماں باپ وغیرہ کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا وہ اسی میں شامل ہے۔اسی طرح عبادت کی نیت سے قیام کرنا صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اس کے سوا کسی کے لیے بھی عبادت کی نیت سےکھڑا ہونا شرک و کفر ہے ۔
شریعت میں قیام یعنی کھڑا ہونا چھ طرح کا ہے۔ قیام جائز ،قیام فرض، قیام سنت، قیام مستحب، قیام مکروہ، قیام حرام اوران میں سے ہر ایک کے پہچاننے کا قاعدہ بھی مختلف ہے ۔ ان قواعد سے قیام میلاد کا حال خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ یہ قیام مستحب ہے۔
دنیاوی ضروریات کے لیے کھڑا ہونا جائز ہےجس کی سینکڑوں مثالیں معاشرہ میں موجود ہیں مثلاً کھڑے ہوکر عمارت بنانااور دیگر دنیاوی کاروبار کرنا وغیرہ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوة فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰه وَاذْكرُوا اللّٰه كثِيْرًا لَّعَلَّكمْ تُفْلِحُوْنَ10 16
پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اب ظاہر ہے کہ یہ منتشر ہونا کھڑے ہوکر ہوگا جس سے رزق تلاش کیا جائےگا لہذا یہ قیام یا دیگر ضروریات کے لیے اس جیساقیام جائز ہے۔ اسی طرح جب اپنے استاذ یا باپ یا کسی دوست کو ملنے کے لیے جاتے ہیں تو جب ملاقات ہوتی ہے تو پہلے کھڑے کھڑے سلام کہتے ہیں اور جس کو ملنے کے لیے جاتے ہیں وہ بھی استقبال کرتے ہوئے کھڑے ہوکر سلام کا جواب دیتا ہے یہ سب کچھ جائز ہے۔
شرعی طور پر قیام کی دوسری قسم فرض ہے جو پنج وقتہ نماز اور واجب نماز میں ہوتا ہے کیونکہ اس قیام کا حکم فرض نماز ادا کرنے کےلیے باری تعالیٰ نے دیا ہےچنانچہ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَقُوْمُوْا لِلّٰه قٰنِتِيْنَ238 17
اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔
یعنی اگر کوئی شخص قدرت رکھتے ہوئے بیٹھ کر نمازادا کرے تو یہ نماز ادا نہ ہوگی کیونکہ فرض و واجب نماز میں قیام فرض ہے جس کو بنا شرعی عذر ترک نہیں کیا جاسکتا۔
چند موقعوں پر کھڑا ہونا سنت ہے اولاً تو کسی دینی عظمت والی چیز کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا ۔اسی لیے آب زمزم اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہوکر پینا مسنون ہے چنانچہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں :
سقیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من زم زم فشرب وهو قائم.18
میں نے حضوراکرم کو زم زم سے پلایا تو حضور اکرم نے کھڑے ہوکر اسے پیا۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:
رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یشرب من ماء زم زم قائماً.19
میں نے حضور کو کھڑے ہوکرزم زم کا پانی پیتے ہوئے دیکھا۔
اسی طرح وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہوکر پینا بھی مسنون ہے چنانچہ حضرت امام حسین بیان کرتے ہیں :
دعانى أبى على بوضوء فقربته له فبدأ فغسل كفیه ثلاث مرات قبل أن یدخلھما فى وضوئه ثم مضمض ثلاثاً واستنثر ثلاثا ثم غسل وجھه ثلاث مرات ثم غسل یده الیمنى إلى المرفق ثلاثا ثم الیسرى كذلك ثم مسح برأسه مسحة واحدة ثم غسل رجله الیمنى إلى الكعبین ثلاثا ثم الیسرى كذلك ثم قام قائما فقال: ناولنى فناولة الذى فیه فضل وضوئه فشرب من فضل وضوئه قائما فعجبت فلما رآنى قال: لا تعجب فإنی رأیت أبا ك النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یصنع مثل ما رأیتنى صنعت یقول لوضوئه هذا ویشرب فضل وضوئه قائما.20
میرے والد حضرت علی نے مجھ سے وضو کا پانی طلب کیا تو میں نے وضو کا پانی لاکر حاضر خدمت کیا۔ آپ نے وضو کی ابتداء یوں کی کہ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی کی اور تین دفعہ ناک صاف کی۔ پھر تین دفعہ منہ دھویا پھر دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا بعد ازاں بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا۔ پھر اپنے سر ِمبارک پر ایک دفعہ مسح کیا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور پانی پکڑانے کا حکم فرمایا۔ میں نے وہی برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا حاضر خدمت کیا۔ آپ نے کھڑے کھڑے اس میں سے پانی پیا۔ مجھے تعجب ہوا پھر آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا حیران نہ ہو! کیونکہ میں نے تمہارے نانا جان حضور کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیتے تھے۔
امام طحاوی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ 21 اسی طرح حضور اکرم کے روضہ مبارکہ پر اﷲ تبارک وتعالیٰ حاضری نصیب فرمادے تو نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑاہونا سنت ہے چنانچہ فتاوی عالمگیری میں کتاب الحج کے آخر میں نبی مکرم کے روضۂ مبارکہ کی زیارت کے آداب کو بیان کرتے ہوئے یہ مسئلہ ذکر کیا گیا ہے:
ویقف كما یقف فى الصلوة ویمثل صورته الكریمة البھیة كأنه نائم فى لحده عالم به یسمع كلامه.22
روضہ مطہرہ کے سامنے ایسے کھڑا ہو جیسے کہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور اس جمال پاک کا نقشہ ذہن میں جمائے گویا کہ سرکار اپنی قبر انور میں آرام فرما ہیں۔ اس کو جانتے ہیں اور اس کی بات سنتے ہیں۔
اسی کو بیان کرتے ہوئے ملاعلی قاری مکی فرماتے ہیں:
أنه صلى اللّٰه عليه وسلم عالم بحضورك وقیامك وسلامك أى بل بجمیع أفعالك وأحوالك وأرتحالك ومقامك.23
بے شک رسول اللہ تیری حاضری اور تیرے کھڑے ہونے اور تیرے سلام بلکہ تیرے تمام افعال واحوال وکوچ ومقام سے آگاہ ہیں۔
ایسا اس لیے کیاجاتا ہے کہ روضہ اقدس پر کھڑے ہوکر درود وسلام پیش کیا جاتا ہے اور یہ نظرانہ پیش کرنا حضرت عبداﷲ بن عمر کا طریقہ بھی ہے جس کوبیان کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن دینار بیان کرتے ہیں:
رأیت عبداللّٰه بن عمر یقف على قبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ویصلى على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وأبى بكر و عمر.24
میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کو حضور کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے دیکھا اور وہ حضور ﷺ،حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق پر درود (و سلام) پڑھتے تھے۔
اسی طرح حضرت نافع بیان کرتے ہیں :
أن ابن عمر كان إذا قدم من سفر دخل المسجد ثم أتى القبر فقال: السلام علیك یا رسول اللّٰه السلام علیك یا أبا بكر السلام علیك یا أبتاه.25
بے شک حضرت عبداﷲ بن عمر جب سفر سے واپس آتے تو حضور کی مسجد میں داخل ہوتے پھر قبر انور کے پاس آکر فرماتے السلام علیک یا رسول اﷲ! السلام علیک یا ابا بکر! السلام علیک اےاباجان۔
امام عبد الزارق نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔26اسی حوالہ سے امام ذہبیلکھتے ہیں:
فمن وقف عند الحجرة المقدسة ذلیلا مسلما مصلیا على نبیه فیا طوبى له فقد أحسن الزیارة وأجمل التذلل والحب وقد أتى بعبادة زائدة على من صلى علیه فى أرضه أو فى صلاته إذ الزائر له أجر الزیارة وأجر الصلاة علیه والم صلى علیه فى سائر البلاد له أجر الصلاة فقط فمن صلى علیه واحدة صلى اللّٰه علیه عشرا.27
کس قدر خوش نصیب ہے وہ انسان جو حجرہ اقدس کے پاس تضرع و عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوکر آپ پر درود وسلام کی ڈالیاں نچھاور کرے اس لیے کہ اس نے اچھی طرح زیارت کی ،تضرع و انکسار کی دولت اور کمال محبت سے سرشار رہا ۔اس نے اس شخص سے بہتر عبادت کی جس نے اپنی سرزمین پر یا اپنی نماز میں حضور پر درود و سلام پیش کیا اس لیے کہ زیارت کرنے والا زیارت اور آپ پر درود بھیجنے کا اجر پاتا ہے اور دوسرے شہروں میں درود بھیجنے والے صرف درود بھیجنے کا اجر پاتے ہیں تو جو شخص ایک بار حضور پر درود بھیجتا ہے اﷲ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔
اسی حوالہ سے ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں:
فإذا أتینا المسجد النبوى
صلینا التحیة أولاً ثنتان
ثم انثنینا للزیارة نقصد القبر
الشریف ولو على الأجفان
فنقوم دون القبر وقفة خاضع
متذلل فی السر والإعلان
فکأنه فی القبر حى ناطق
فالواقفون نواكس الأذقان
ملكتھم تلکالمهابة فاعترت
تلک القوائم كثرۃ الرجفان .28
جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کریں۔پھر روضہ انور کی زیارت کا قصد کریں چاہے پلکوں پر چل کر ہی حاضری کا شرف کیوں نہ حاصل کرنا پڑے۔پھر باطنا ً وظاہرا ًانتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔یہ احساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضور اپنی قبر ِانور میں زندہ ہیں اور کلام فرماتے ہیں پس (وہاں) کھڑے ہونے والوں کا سر (ادباً تعظیماً) جھکا رہے۔ بارگاہ نبوی میں یوں کھڑے ہوں کہ رعب مصطفی سے پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہوں۔
یعنی نبی مکرم کی قبر انوار پر درود وسلام کا نظرانہ پیش کرتےہوئے وہاں تعظیماً قیام کرنا وہ بھی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر یہ سنت ہے کیونکہ تعظیم ِ رسول کا یہی تقاضہ ہے جیساکہ میلاد النبی میں قیام بھی اسی تعظیم کے سبب کیا جاتا ہے۔اسی طرح مومنین کی قبروں پر فاتحہ پڑھے تو قبلہ کو پشت اور قبر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونا سنت ہے چنانچہ عالمگیری میں ہے:
یخلع نعلیه ثم یقف مستدبرالقبلة مستقبلاً لوجه المیت.29
اپنے جوتے اتاردے اور کعبہ کی طرف پشت اور میت کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو۔
اسی طرح امام طحطاوی لکھتے ہیں:
والمستحب فى زیارة القبور أن یقف مستدبر القبلة مستقبلاً وجه المیت وأن یسلم.30
زیارت قبور کے وقت مستحب ہے کہ قبلہ کی طرف پشت اور میت کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اور سلام کرے۔
شافعی مذہب کے مشہور اور مستند محدث امام یحییٰ بن شرف الدین نووی بھی لکھتے ہیں:
المستحب فى زیارة القبور أن یقف مستدبر القبلة مستقبلاً وجه المیت یسلم.31
زیارت قبور کے وقت مستحب ہے کہ قبلہ کی طرف پشت اور میت کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اور سلام کرے۔
اسی طرح مسجد جاتے وقت درود شریف پڑھنے کا حکم ہے تو مسجد میں آنے والا کھڑے کھڑے ہی اس پر عمل پیرا ہوگاتو گویا حالت قیام میں ہی نبی اکرم نے خودپر "صلوٰۃ و سلام"پڑھا جس سے معلوم ہوا کہ قیام کی حالت میں "صلوٰۃ و سلام" پڑھنا بھی سنت ہے ۔اس حوالہ سے منقول روایت کو حضرت ابو حمید الساعدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد فلیسلم على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ثم لیقل اللّٰھم افتح لى أبواب رحمتك وإذا خرج فلیقل اللھم إنی أسألك من فضلك.32
جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو حضور نبی اکرم پر سلام بھیجے پھر کہے اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں ۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
اذا دخل احد كم المسجد فلیسلم على النبی صلى اللّٰه عليه وسلم ولیقل اللّٰھم افتح لى ابواب رحمتک واذا خرج فلیسم على النبی صلى اللّٰه عليه وسلم ولیقل اللھم اعصنی من الشیطان الرحیم 33
جب تم میں کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہے کہ وہ حضور نبی اکرم پر سلام بھیجے اور یہ کہے اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب باہر نکلے تو حضور نبی اکرم پر سلام بھیجے اور کہے اے میرے اللہ مجھے شیطان مردود سے بچا۔
اسی طرح خطیب جب خطبۂِ جمعہ میں درود شریف پڑھتا ہے تو منبر پر کھڑے ہوکر ہی پڑھتا ہے تو ان تمام تر تفصیلات سےمعلوم ہوا کہ مذکورہ قیام سنت ہیں۔
شرعی طور پر قیام کی ایک قسم مکروہ قیام کی ہے جو کہ چند جگہوں پر کیا جاتا ہے۔ اولاً آب زمزم اور وضو کے سوا کسی دوسرے پانی کو پیتے وقت کھڑا ہونا بلاعذر مکروہ ہے۔ دوسرے دنیادار کی تعظیم کے لیے دنیاوی لالچ سے کھڑا ہونا بلاعذر مکروہ ہے۔ تیسرے کافر کی تعظیم کے لیے اس کی مالداری کی وجہ سے کھڑا ہونا مکروہ ہےچنانچہ اس حوالہ سے فتاوی عالمگیری میں مذکور ہے:
وإن قام تعظیما له من غیر أن ینوى شیئًا مما ذكرنا أو قام طمعاً لغناہ كره له ذلك.34
اگر کسی کافرکے لیے سوائے مذکورہ صورتوں کے تعظیماًکھڑا ہو یا اس کی مالداری کے طمع میں کھڑا ہو تو مکروہ ہے۔
اسی طرح جو شخص اپنی تعظیم کرانا چاہتا ہو تو اس کی تعظیم کے لیے بھی کھڑا ہونا مکروہ ہے۔اب تک کی ذکر کردہ تفصیل سے قیام کی چند اقسام واضح ہوگئیں ،اب درجِ ذیل سطور میں قیام تعظیم اور اس کے شرعی احکام کے حوالہ سے جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔
پہلے اس قیام کے جواز کے حوالہ سے چند روایات درج کی جارہی ہیں تاکہ اس کا شرعی حکم سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہو چنانچہ حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں :
لما نزلت بنو قریظة على حكم سعد هو ابن معاذ بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وكان قریباً منه فجاء على حمار فلما دنا قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: قوموا إلى سیّد كم.35
جب بنو قریظہ ابن معاذ حضرت سعد کے فیصلہ (کو مان کر قلعہ) سے اتر آئے اور رسول اﷲ نے ان کو بلایا تھا اور وہ آپ کے قریب تھے تو وہ ایک گدھے پر سوار ہوکر آئے پس جب وہ قریب پہنچے تو رسول اﷲ نے فرمایا : اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
امام بیہقی اس حدیث مبارکہ کو یوں نقل کرتےہیں:
فلما دنا قریباً من المسجد قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: للأنصار قوموا إلى سیّد كم أو خیركم.36
جب حضرت سعد مسجد نبوی کے قریب پہنچے تو نبی کریم نے انصار سے فرمایا اپنے سردار یا اپنے میں سے بہترین شخص کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔
یعنی خود نبی مکرم نے حضرات صحابہ کرام کو اپنے سردار کےلیے کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے اور امام بیہقی نے اس کو اپنا مستدل بھی بنایا ہے۔
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی شافعی نے اپنی تین کتابوں میں اس حدیث مبارکہ کو لانے سے پہلےاس کےلیے درج ذیل نام سے ایک باب باندھاہے:
باب ما یذكر فى القیام لأهل العلم وغیرهم على وجه الإكرام.37
آدمی کا اہل علم وغیرہ کے لیے بطور تعظیم واکرام کھڑے ہونےکا باب۔
اسی طرح اپنی دوسری کتاب میں اس کے لیے یوں باب باندھا ہے:
فصل فى قیام المرء لصاحبه على وجه الإكرام والبر.38
آدمی کا اپنے دوست یا ساتھی یا بزرگ کے لیے بطور تعظیم و اکرام کھڑے ہونےکی فصل۔
اور اسی طرح اپنی تیسری کتاب میں اس حدیث کےلیے یوں باب باندھاہے:
باب قیام الرجل لأخیه على وجه الإكرام.39
اپنے بھائی کے لیے تعظیماً کھڑے ہونےکا باب۔
عام طور پرمحدثین کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ حدیث سے اخذ کردہ مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے اس کے نام سے باب باندھ کر اس کے ذیل میں اس حدیث کو ذکر کرتےہیں جیساکہ امام بیہقی نے بھی یہی کیا ہے۔
اسی حدیث مبارکہ سے امام ابن بطال نے بھی استدلال کیا ہے جس کو بیان کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانیلکھتے ہیں:
قال ابن بطال فى هذا الحدیث: أمر الإمام الأعظم بإكرام الكبیر من المسلمین ومشروعیة إكرام أهل الفضل فى مجلس الإمام الأعظم والقیام فیه لغیره من أصحابه والزام الناس كآفة بالقیام إلى الكبیر منھم.40
امام ابن بطال نے کہا کہ حضرت سعد کی حدیث سے ثابت ہوا کہ سربراہ مملکت کو مسلمان بزرگ کی تعظیم کا حکم دینا چاہیے اور سربراہ مملکت کی مجلس میں ارباب فضیلت کی تکریم کرنا اور ان کے لیے قیام کرنا مشروع ہے۔ اور تمام لوگوں پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنے بزرگ کے آنے پر اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔
یعنی اس مذکورہ حدیث مبارکہ سے امام ابن بطال نے بھی قیام تعظیمی کے جواز کا ہی استدلال کیا ہے جیساکہ دیگر ائمہ نے اسی مسئلہ کواخذ کیا ہے۔
اس مذکور ہ حدیث میں نبی کریم نے صحابہ کرام سےحضرت سعد بن معاذ کے لیے فرمایا کہ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو ۔امام نووی بھی اس حدیث سے مذکورہ استدلال کرتے ہیں چنانچہ وہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
فیه إكرام أهل الفضل وتلقیھم بالقیام لھم إذا أقبلوا هكذا احتج به جماهیر العلماء لاستحباب القیام قال القاضى ولیس هذا من القیام المنھى عنه وإنما ذاك فیمن یقومون علیه وهو جالس ویمثلون قیاما طول جلوسه قلت القیام للقادم من أهل الفضل مستحب وقد جاء فیه أحادیث ولم یصح فى المنھى عنه شئى صریح وقد جمعت كل ذلك مع كلام العلماء علیه فى جزء وأجبت فیه عما توهم المنھیى عنه.41
اس ارشاد میں اصحاب فضیلت کی تکریم ہے اور جب وہ آئیں تو ان کے آنے پر کھڑے ہونے کی تعلیم اور تلقین ہے جمہور علماء نے اس حدیث سے قیام تعظیم کو ثابت کیا ہے۔ قاضی عیاض مالکی نے کہا ہے کہ یہ وہ قیام نہیں ہے جو ممنوع ہے جو قیام ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص بیٹھا ہو اور جب تک وہ بیٹھا رہے لوگ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے رہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اصحاب فضلیت جب آئیں تو ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا مستحب ہے اس کے ثبوت میں بہت احادیث ہیں اور اس کی ممانعت میں کوئی صحیح اور صریح حدیث نہیں ہے اور میں نے اس مسئلہ میں ایک رسالہ لکھا ہے جس میں احادیث اور عبارات علماء کو جمع کیا ہے اور مانعین کے توہمات کا زالہ کیا ہے۔
ان تمام تر عبارات ِ ائمہ اسلاف سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم نے صحابہ کرام کو حضرت سعد بن معاذ کے لیے قیام کا حکم دیا اور اس سے تمام ائمہ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ کسی صاحب فضیلت کے لیے قیام تعظیمی کرنا جائز ہے۔
قیامِ تعظیمی نہ یہ کہ صرف جواز کا درجہ رکھتا ہے بلکہ یہ صحابہ کرام کی بھی سنت ہے کیونکہ صحابہ کرام حضور اکرم کے لیے تعظیماً کھڑے ہوتے تھے چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یجلس معنا فى المجلس یحدثنا فإذا قام قمنا قیاماً حتى نراه قد دخل بعض بیوت أزواجه.42
رسول اﷲ ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھا کرتے ہم سے گفتگوکے لیے۔ جب آپ کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ اپنی کسی زوجہ مطہرہ کےحجرہ میں داخل ہوجاتے ۔
امام احمد بن حنبل نے مسند احمد 43 اورامام نسائی نے اپنی دو کتابوں سنن نسائی 44 اورسنن الکبریٰ میں 45اس حدیث کو روایت کیا ہے اوریہ حدیث صراحتاً قیام تعظیمی پر دلیل ہے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ"حتی نراہ قد دخل بعض بیوت ازواجہ"یعنی "یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ اپنی کسی زوجہ مطہرہ کےحجرہ میں داخل ہوجاتے" میں واضح ثبوت ہے کہ صحابہ کرام اس وقت تک سرکار دو عالم کی تعظیم میں کھڑے رہتے جب تک کہ سرکار اپنے گھر میں داخل نہ ہوتے اور یہی قیام تعظیمی ہے جوکہ در حقیقت صحابہ کرام کی سنت ہے۔
اسی طرح اس حدیث مبارکہ کو جس دوسری سند سے روایت کیاگیا ہےاس میں یہ الفاظ آتے ہیں "قمنا لہ"یعنی صحابہ کرام فرماتے ہیں ہم سرکار دو عالم کے لیے کھڑے ہوتے تھے جو کہ قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں :
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذا قام قمنا له.46
جب رسول اﷲ کھڑے ہوتے تو ہم بھی حضور (کی تعظیم) کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :
كنا نقعد مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بالغدوات فإذا قام إلى بیته لم نزل قیاما حتى یدخل بیته.47
ہم صبح کےاوقات میں نبی کریم کے ساتھ مسجد نبوی میں ہی بیٹھا کرتے تھے جب آپ گھر جانے کے لیے کھڑے ہوتے تو جب تک آپ اپنے گھر میں داخل نہ ہوجاتے ہم کھڑے رہا کرتے تھے۔
حدیث مبارکہ میں موجود الفاظ"لم نزل قیاما حتی یدخل بیتہ"کے الفاظ کے ساتھ امام بیہقی ،48امام ابن عساکر 49اور امام سیوطی 50 نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔یہ روایت بھی قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہے۔اسی طرح امام ابن مفلح مقدسی نے قیام تعظیمی کے جواز پر جن احادیث کو پیش کیا ہے ان میں سے ایک یہ حدیث مذکورہ بھی ہے۔51
اسی طرح حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :
ما رأیت أحدا أشبه سمتا ودلا وهدیا برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى قیامھا وقعودها من فاطمة بنت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قالت وكانت إذا دخلت على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قام إلیھا فقبلھا وأجلسھا فى مجلسه وكان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إذا دخل علیه قامت من مجلسھا فقبلتة وأجلسقة فى مجلسھا.52
میں نے چال چلن و خصلت و عادت اور اٹھنے بیٹھنے میں رسول اﷲ کا مشابہ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ جب وہ آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور آپ بھی جب ان کے پاس تشریف لےجاتےتو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوتیں بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتیں ۔ 53
اس میں بھی قیام تعظیمی کی صراحت موجود ہے چنانچہ اسی حوالہ سے ملا علی قاری اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
فیه ایمآء إلى ندب القیام لتعظیم الفضلآء والكبرآء.54
اس میں اشارہ ہے کہ اکابر وفضلاء کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا مندوب ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے بھی یہی معلوم ہوا کہ فضلاء کے لیے قیام تعظیمی جائز ہے۔
حدیثِ جبریل 55 جس میں حضرت جبریل نے ایک آدمی کی شکل میں آکر حضوراکرم سے سوالات کیے تھے اس میں بھی قیام تعظیمی پر دلیل موجود ہے اور اسی وجہ سے اس کو ذیل میں مکمل ذکر کیاجارہا ہے چنانچہ امام حارثی روایت کرتے ہیں:
عن أبى حنیفة عن علقمة عن یحیى بن یعمر قال: بینا مع صاحب لى بمدینة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذ أبصرنا بعبد اللّٰه بن عمر فقلت لصاحبى هل لك أن نأتیه فنسأله عن القدر؟ قال: نعم فقلت: دعنى حتى أكون أنا الذى أسأله فإنى أعرف به منك قال: فانتھینا إلى عبد اللّٰه فقلت: یا أبا عبدالرحمن إنا نتقلب فى هذه الأرض فربما قدمنا البلدة بھا قوم یقولون لا قدر فبما نرد علیھم؟ قال: أبلغھم منى أنى منھم برى ولو أنى وجدت أعوانا لجاهدتھم ثم أنشأ یحدثنا قال: بینما نحن مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مومعه رهط من أصحابه إذا أقبل شباب جمیل أبیض حسن اللمة طیب الریح علیه ثیاب بیض فقال: السلام علیك یارسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم السلام علیكم قال: فرد علیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورددنا معه فقال: أدنو یارسول اللّٰه؟ قال: أدنه فدنا دنوة أو دنوتین ثم قام موقراً له ثم قال: أدنو یارسول اللّٰه؟ فقال: أدنه فدنا حتى الصق ركبته بركبة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: أخبرنى عن الإیمان قال: أن تؤمن باللّٰه وملائكته وكتبه ورسله ولقائه والیوم الآخر والقدر خیرہ وشره من اللّٰه فقال: صدقت قال فعجبنا من تصدیقه لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قوله صدقت كأنه یعلم قال: فاخبرنى عن شرائع الإسلام ماهى؟ قال: إقام الصلوة وایتاء الزكوة و حج البیت لمن استطاع إلیه سبیلا وصوم رمضان والاغتسال من الجنابة قال: صدقت فعجبنا لقوله صدقت قال: أخبرنى عن الإحسان ما هو؟ قال: الإحسان أن تعمل للّٰه كأنك تراه فان لم تكن تراه فانه یراك قال فاذا فعلت ذلك فانا محسن قال نعم قال صدقت قال فاخبرنى عن الساعة متى هى قال ما المسئول عنھا باعلم من السائل ولكن لھا شرائط فقال ان اللّٰه عنده علم الساعة وینزل الغیث ویعلم ما فى الارحام وما تدرى نفس ماذا تكسب غداً وما تدرى نفس باى ارض تموت ان اللّٰه علیم خبیر قال صدقت ثم انصرف ونحن نراہ قال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على بالرجل فقمنافى إثرہ فما ندرى أین توجه ولا رأینا شیئا فذكرنا ذلك للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: هذا جبرئیل أتاكم یعلمكم معالم دینكم واللّٰه ماأتانى بصورة إلا وأنا أعرفه فیھا إلا عذه الصورة.56
حضرت امام ابو حنیفہ علقمہ بن مرثد الحضرمی سے وہ یحییٰ بن یعمر سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں میں اپنے ہمراہی کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ طیبّہ میں قیام پذیر تھا کہ اچانک حضرت عبداﷲ بن عمر نظر آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا چاہتے ہو کہ ہم ان کے پاس جاکر تقدیر کا مسئلہ پوچھیں۔اس نے کہا جی ہاں! میں نے کہا رہنے دو میں خود جاکر ان سے پوچھتا ہوں تمہاری نسبت میرا ان سے زیادہ تعارف ہے ، یحییٰ بن یعمر بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم حضرت عبداﷲ بن عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا اے ابو عبد الرحمن! ہم ایسی قوم ہیں کہ اس زمین پر سفر کرتے رہتے ہیں تو بعض اوقات ہم ایسے شہر میں جاتے ہیں جہاں ایک قوم تقدیر کا انکار کرنے والی ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو ہم کیا جواب دیں۔انہوں نے فرمایا ان لوگوں سے کہہ دو کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں اور اگر مجھے مدد گار (ساتھی) مل گئے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔پھر آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی، ارشاد فرمایا کہ ہم صحابہ کی ایک جماعت رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک نہایت سفید رنگ کا شخص جس کی زلفیں کندھوں پر لٹکی ہوئیں، خوشبو میں مہکتا ہوا سفید کپڑے پہنے ہوئے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قریب آکر السلام علیک یا رسول اﷲ اور السلام علیکم کہا رسول اﷲ نے بھی سلام کا جواب دیا اور ہم نے بھی پھر اس نے ادب سے کہا کہ کیا میں قریب آسکتا ہوں یا رسول اﷲ؟ تو آپ نے فرمایا آجاؤ تو وہ ایک دو قدم اور قریب ہوا۔ پھر کھڑے ہوکر دوبارہ پوچھا کہ یا رسول اﷲ کیا اور قریب ہوجاؤں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں قریب آؤ وہ قریب آبیٹھا۔ اور اپنے گھٹنے حضور کے گھٹنوں سے جوڑ لیے۔ پھر بولا مجھے ایمان کی حقیقت بتائیے؟ آپ نے فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر کے خیر و شرہونے کی دل سے تصدیق کرو۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔حضرت عبداﷲ کہتے ہیں کہ اس کا صدقت کہنا اور رسول اﷲ کی تصدیق کرنا ہمارے لیے حیرانی کا باعث ہوا۔ گویا کہ وہ پہلے سے جانتا ہے۔ پھر کہنے لگا مجھے ارکان اسلام کے بارے میں بتائیے؟ آپ نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زکوۃ اداکرنا، بیت اﷲ کا حج کرنا جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت سے غسل کرنا۔اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا اور راوی فرماتے ہیں: ہمیں اس کی تصدیق پر تعجب ہوا گویا وہ جانتا ہے۔پھر اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے کہ وہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو ہر عمل کو اس طرح سر انجام دے کہ گویا اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اگر تجھ کو یہ حالت نصیب نہ ہو تو کم از کم یہ خیال کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: جب میں اس طرح عمل کرنے لگوں تو میں محسن ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے عرض کی : آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں کہ وہ کب وقوع پذیر ہوگی؟ آپ نے فرمایا : جس سے سوال کیا جارہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا لیکن اس کی کچھ علامات نشانیاں ہیں پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی" بے شک قیامت کا علم اﷲ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اور کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کس سرزمین پر مرے گی، بے شک اﷲ تعالیٰ بہت جاننے والا خوب بتانے والا ہے"۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور ہم اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس بلا لاؤ۔ چنانچہ ہم اس کے تعاقب میں جانے کے لیے کھڑے ہوگئے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس طرف چلا گیا ہے اور نہ ہم اس کا کچھ نشان پاسکے سو ہم نے یہ بات نبی کریم سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے وہ تمہیں تمہارے دین کے احکام سکھانے آئے تھے۔ اﷲ کی قسم وہ جس شکل و صورت میں بھی میرے پاس آئے میں نے انہیں پہچان لیا ماسوا اس شکل و صورت کے۔
مسند امام اعظم کی دیگر مرویات میں بھی "ثم قام موقراً لہ"کے الفاظ موجود ہیں چنانچہ امام ابن خسرو بلخی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم نے اس آنے والے سے ارشاد فرمایا:
أدنه فدنا رتوة أو رتوتین ثم قام.57
قریب ہوجاؤ چنانچہ وہ ایک دو قدم آگے ہو گیا پھر نبی کے سامنے تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔
اسی طرح ان الفاظ کومسند امام اعظم کے ایک اور راوی امام خوار زمی نے بھی روایت کیاہے 58 اوراس حدیث مبارکہ کے الفاظ "ثم قام موقرا لہ"میں قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہے۔
اس حدیث کو مسند احمد میں بھی نقل کیا گیا ہے جس میں امام احمد بن حنبل ان الفاظ کو بھی نقل کرتے ہیں:
قالذلك مراراً ما رأینا رجلا أشد توقیراً لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا.59
اس نے تکرارکےساتھ یہ کہاکہ ہم نے اس سے زیادہ نبی کریم کی عزت و توقیر کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔
امام ابن طہمان خراسانی کی روایت میں درج ذیل الفاظ منقول ہیں:
ولا أشد توقیراً لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم منه.60
اور(ہم نے) اس سےزیادہ رسول اللہ کی تکریم کرنےوالانہیں دیکھا۔
امام مروزی کی روایت میں تو یہاں تک منقول ہے کہ اس کی رسول اللہ کے لیےبے حد تعظیم و توقیر دیکھ کرہمیں حیرانی ہوئی چنانچہ ان کی روایت میں درج ذیل الفاظ منقول ہیں :
ثم قام فتعجبنا لتوقیره رسول اللّٰه.61
پھروہ کھڑاہو اوراس کےرسول کریم کی ایسی توقیرکرنےپرہم حیران تھے ۔
ان مذکورہ تمام مروی عبارات سے یکساں طور پر یہ بات سامنے آتی ہےکہ قیام تعظیمی کےلیے کھڑا ہونا جائز ہے اور اس میں اور قیام عبادت میں یہی فرق ہے کہ عبادت کے لیے قیام اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ مختص ہے جبکہ قیام تعظیمی کسی بھی صاحب فضیلت کے لیے کیا جاسکتا ہے جس میں شرعی طور پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں :
أن جنازة مرت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقام فقیل: إنھا جنازة یھودى فقال إنا قمنا للملائكة.62
حضور نبی کریم کے پاس جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے ۔آپ سے کہا گیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے تو آپ نے فرمایا ہم فرشتوں کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔
امام نسائی نے اپنی دو کتابوں میں سنن نسائی63 اورسنن الکبریٰ 64میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اوراس حدیث میں موجود "انا قمنا للملائکۃ"کے الفاظ قیام تعظیمی پر صریح دلیل ہیں۔فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے پر کئی احادیثیں موجود ہیں جن میں یہ واضح موجود ہے کہ قیام تعظیمی حضور نبی کریم اور صحابہ کرام کی سنت مبارکہ ہے۔
یہ کھڑے ہونے کا حکم فرشتوں کی تعظیم کے لیے تھا اور خود بھی حضور نبی کریم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے اور صحابہ کرام کو بھی فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا حکم دیتے بلکہ ایک حدیث میں اس طرح بھی مروی ہے کہ حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں :
خرجنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى جنازة فرأى ناسا ركبانا فقال: ألا تستحیون أن ملائكة اللّٰه على أقدامھم وأنتم على ظھور الدواب.65
ہم نبی کریم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک ہوئے پس لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا کیا تم حیا نہیں کرتے کہ خدا کے فرشتے اپنے قدموں پر ہیں (یعنی پیدل چل رہے ہیں) اور تم جانوروں کی پیٹھوں (یعنی پشتوں) پر سوار ہو۔
امام ابوداؤد اس حدیث کو اپنی سند سے یوں روایت کرتےہیں:
عن ثوبان أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أتى بدابة وهو مع الجنازة فأبى أن یركبھا فلما انصرف أتى بدابة فركب فقیل له: فقال أن الملائكة كانت تمشى فلم أكن لأركب وهم یمشون فلما ذهبوا ركبت.66
حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم کے پاس جانور لایا گیادرآنحالیکہ آپ جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ نے سوار ہونے سے انکار فرمایا پھر جب آپ لوٹے تو آپ کے پاس جانور لایا گیا توآ پ اس پر سوار ہوگئے ۔اس کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ فرشتے اس جنازے کے ساتھ چل رہے تھے اس لیے میں سوار نہیں ہوا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں۔پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہوگیا۔
ان تمام احادیث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ کسی کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا جائز ہے خواہ وہ آنکھوں کے سامنے موجود نہ ہو تب بھی کھڑا ہواجاسکتا ہے۔
اگر وہ ذات جس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہواجائے وہ آنکھوں کے سامنے موجود نہ بھی ہو تب بھی اس کےلیے قیام تعظیمی جائز ہے چنانچہ اس حوالہ سے ذیل میں درج حدیث مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن عمرو بیان کرتے ہیں:
سأل رجل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال یا رسول اللّٰه تمر بنا جنازة الكافر أفنقوم لھا؟ فقال: نعم قوموا لھا فإنكم لستم تقومون لھا إنما تقومون إعظاماً یقبض النفوس.67
ایک آدمی نے نبی پاک سے پوچھا یا رسول اﷲ! اگر ہماے پاس سے کسی کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم کھڑے ہوجائیں؟ نبی پاک نے فرمایا:ہاں اس وقت بھی کھڑے ہوجایا کرو تم کافر کے لیے کھڑے نہیں ہورہے تم اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہورہے ہو جو روح کو قبض کرتی ہے۔
امام طحاوی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے 68 اور اس میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ کسی ایسے شخص کے لے قیامِ تعظیمی کرنا جو کہ آنکھوں کے سامنے موجود نہ ہو تب بھی یہ قیام تعظیمی کرنا جائز ہے۔
اسی طرح کوئی کسی پیارے کا ذکر سنے یا کوئی اور خوشی کی خبر سنے تو اسی وقت کھڑا ہوجانا بھی مستحب اور سنت صحابہ ہونے کے ساتھ ساتھ سنت اسلاف رحمۃ اللہ علیہم بھی ہےچنانچہ اس حوالہ سے صریح حدیث درج ذیل ہے جس ميں منقول ہے کہ نبی کریم کی وفات کے بعد حضرت عثمان انتہائی غمزدہ تھے یہاں تک کہ حضرت عمر کے گزرنے اور ان کے سلام کرنے کا بھی انہیں معلوم نہ ہوسکا۔پھر حضرت ابو بکرکی بیعت خلافت کے بعد جب حضرت عثمان سے حضرت ابوبکر نے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا مجھے معلوم ہی نہیں کہ حضرت عمر کب گزرے اور انہوں نے کب سوال کیا۔پھرحضرت عثمان نے شیطانی وساوس کے بارے میں حضرت ابو بکر سےکہا:
توفى اللّٰه عزوجل نبیه صلى اللّٰه عليه وسلم قبل أن نسأله عن نجاة هذا الأمر قال أبوبكر قد سألته عن ذلك قال فقمت إلیه فقلت له بأبى أنت وأمى أنت أحق بھا.69
اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنے پاس بلالیا اور میں آپ سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس (شیطانی وساوس) سے صحیح سالم نجات پانے کا کیا راستہ ہوگا؟ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نبی سے معلوم کرچکا ہوں یہ سن کر میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ اس کے متعلق دریافت کرنے کے زیادہ حقدار تھے۔ 70
امام ابوبکر عبد الرزاق نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے71 اور اس میں وضاحت بھی موجود ہےکہ حضرت عثمان نے نبی مکرم سے سوال نہ کرسکنے کی حسرت کی بنا پر صدیق اکبر سے اپنا مدعا بیان کیااورجواب ملنے پر حضرت عثمان فرطِ محبتِ رسول میں کھڑے ہوگئے تھے اور قیامِ میلاد النبی بھی اسی فرطِ محبتِ رسول کی وجہ سےہوتا ہے۔
محفل میلاد النبی میں قیام درج ذیل وجوہات کی بنا پر کیا جاتا ہے جن کی تفصیل بالترتیب ذیل میں ذکر کی جارہی ہیں:
میلاد شریف میں درود و سلام کھڑے ہوکر پڑھنا ایک مستحب عمل ہے۔ اس میں معلم و مقصود کائنات کی تعظیم اور توقیر بھی ہے اور آپ سے محبت کا اظہار بھی کیونکہ معلمِ کائنات کی محبت اصلِ ایمان ہے۔میلاد مصطفی ہو یا قیام میلاد وغیرہ یہ سب حضور نبی کریم کی تعظیم و محبت سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر وہ تعظیم جائز ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو چنانچہ امام احمد رضا خان القادری لکھتے ہیں:
نبی کی تعظیم و توقیر مسلمان کا ایمان ہے اور اس کی خوبی قرآن عظیم سے مطلقاً ثابت ہے۔۔۔پس بوجہ اطلاق آیات حضور اقدس کی تعظیم جس طریقے سے کی جائے گی حسن و محمود رہے گی اور خاص خاص طریقوں کے لیے ثبوت جدا گانہ درکار نہ ہوگا۔ ہاں اگر کسی خاص طریقہ کی برائی بالتخصیص شرع سے ثابت ہوجائے گی تو وہ بے شک ممنوع ہوگا جیسے حضور اقدس کو سجدہ کرنا یا جانوروں کو ذبح کرتے وقت بجائے تکبیر حضور کا نام لینا۔ 72
حضور کی تعظیم ومحبت ایمان کی اصل ہے اﷲ رب العالمین کی محبت و عظمت کے بعد مومن کے پاس اصل سرمایہ رسول اﷲ کی محبت و عظمت ہے۔ آپ کی محبت ہی کی وجہ سے ہر اس شے کی عظمت و محبت ہوگی جسے رسول اﷲ کی جانب ادنی انتساب اور وابستگی ہوگی۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہم پر اپنی ذات اقدس اور اپنی وحدانیت کی تصدیق کے ساتھ دیگر اشیاء لازم کیں ہیں مثلاً ہمارے دلوں میں اس کی تعظیم، اجلال، ہیبت، خوف، رضا، توکل وشکر ہو ہماری زبانوں پر اس کی ثناء، ذکر، حمد وقرأت اور ہمارے جوارح سے نماز جیسے اعمال ہوں۔اسی طرح اس نے اپنے نبی کی ذات کی اور رسالت کی تصدیق کے ساتھ یہ چیز بھی لازم کی ہے مثلاً ہمارے دلوں میں ان کی تعظیم، توقیر ومحبت، ہماری زبانوں پر درود، اذان، نماز، خطبہ میں شہادت رسالت اور ہمارے جوارح پر لازم ہے کہ ہم آپ کو اپنی ہر شیٔ سے مقدم جانیں اور آپ کے لیے ہر شیٔ قربان کردیں ۔ اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کے لیے ہم پر فرض کیا اسے نبھائیں ۔اسی حوالہ سے امام زرقانی لکھتے ہیں:
اعلم أن المحبة كما قال صاحب "المدارج" هى المنزلة التى يتنافس فيھا المتنافسون وإليھا يشخص العاملون، وإلى علمھا شمر السابقون وعليھا تفانى المحبون وبروح نسيمھا بروح العابدون فھى قوت القلوب وغذاء الأرواح وقوة العيون وهى الحياة التى من حرمھا فھو من جملة الأموات والنور الذى من فقده فى بحار الظلمات والشفاء الذى من عدمه حلت بقلبه جميع الأسقام واللذة التى من لم يظفر بھا فعيشه كله هموم وآلام وهى روح الإيمان والأعمال والمقامات والأحوال التى متى خلت منھا فھى كالجسد الذى لا روح فيه تحمل أثقال السائرين إلى بلد لم يكونوا إلا بشق الأنفس بالغيه وتوصلھم إلى منازل لم يكونوا بدونھا أبدًا وأصليھا وتبوؤهم من مقاعد الصدق إلى مقامات لم يكونوا لولا هى داخليھا وهى مطايا القوم التى سراهم فى ظھورها دائمًا إلى الحبيب وطريقھم الأقوم الذى يبلغھم إلى منازلھم الأولى من قريب تاللّٰه لقد ذهب أهلھا بشرف الدنيا والآخرة إذ لھم من معيةمحبوبھم أوفر نصيب.73
جان لو کہ بے شک مصطفی کی محبت (جیسا کہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں کہا ہے) ایسا بلند مرتبہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے میں سبقت کرنے والے سبقت لے جاتےہیں اور اس کے حاصل کرنے میں عاملین مجتہدین اپنی نظریں اٹھاتے ہیں اور اس کی معرفت کے لیے سابقین کوشش کرتے ہیں ، اسی حب مصطفی کے عالی رتبہ حاصل کرنے میں عشّاقانِ سیّدِ عالم ایک دوسرے سے غلبہ چاہتے ہیں۔ اسی حب نبوی کی نسیم کی راحت سے عابد لوگ راحت پاتے ہیں۔ یہ حضور کی محبت دلوں کی خوراک ، روحوں کی غذا اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ یہ حب محبوب خدا وہ حیات ہے جو اس سے محروم ہے وہ مُردوں میں شمار ہے۔ یہ وہ نور ہے کہ جس کے پاس یہ مفقود ہے تو وہ تاریکیوں (ظلمات) کے سمندروں میں غرق ہے۔ یہ وہ شفا ہے جس کے پاس یہ معدوم ہے تو اس کے دل میں تمام امراض طویلہ داخل ہوگئے۔ یہ وہ لذّت ہے جو اس سے محروم رہا تو اس کا سلب عیش غموں اور دردوں والا ہوا۔ یہ حب حبیب خدا ایمان، اعمال (صالحہ) ،مقامات (عُلیہ)، حالات (رفیعہ)، کی وہ روح ہے جب یہ چاروں اس حب نبی سے خالی ہوں تو یہ چاروں چیزیں اس جثہ کی طرح ہیں کہ جس میں روح نہ ہو۔یہ سرکار کی محبت آپ کےشہرکی طرف سیر کرنے والوں کے بوجھ کو اٹھاتی ہے جس تک وہ اپنی جانوں کومشقت دیے بغیر نہیں پہنچ سکتے اور یہ حب نبی ان کو ایسے منازل عالیہ و مقامات رفیعہ تک پہنچادیتی ہے کہ اس حب رسول کے بغیر وہ کبھی ان منازل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ یہ حب محبوب خدا ان کو ملیک مقتدر کے حریم قدس میں مجالس صدق کے ایسے مقامات میں بٹھاتی ہے کہ وہ واصلین حضرت الوہیت اس حب حبیب کے بغیر کبھی اس میں داخل نہ ہوسکتے۔ یہ حب مصطفی قوم واصلین الی اﷲ کی وہ سواری ہے کہ ان کو اپنے ظہور اور نورانیت میں رات کے اول اور درمیانے اور آخری حصہ میں ہمیشہ محبوب حقیقی کے میدان قرب میں سیر کراتی ہے ۔ یہ وہ مضبوط راستہ ہے کہ ان کو پہلی منزل یعنی بہشت میں عنقریب بغیر دخول عذاب کے پہنچادے گا۔ اﷲ کی قسم محبین و عشاقانِ سیّد عالم دارین کا شرف لے گئے اس لیے کہ ان کو حب حبیب خدا کی وجہ سے معیت محبوب سے وافر حصہ ملا (اگرچہ بظاہر دور ہیں بباطن ہر وقت پیش حضور ہیں)۔
اسی طرح نبی کریم کی محبت کے حوالہ سے حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
لا یؤمن أحدكم حتى أكون أحب إلیه من والده و ولده والناس أجمعین.74
تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کے والدین، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے عزیز تر نہ ہوجاؤں۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں نبی کریم نے فرمایا:
ثلاث من كن فیه وجد حلاوة الإیمان: أن یكون اللّٰه ورسوله أحب إلیه مما سواهما، وأن یحب المرء لا یحبه إلا للّٰه، وأن یكره أن یعود فى الكفر كما یكره أن یقذف فى النار.75
تین باتیں جس میں ہوں گی وہ حلاوت ِایمان پاجائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مؤمن کے نزدیک اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے کرے ۔ تیسری بات یہ کہ کفر سے نجات پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتاہو۔
اس حدیث میں ایمان کی بنیاد اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ کی محبت کو بتایا گیا ہے اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کرکے اس کی غیر معمولی اہمیت بھی بتادی گئی ہےجس سے واضح ہوجاتا ہے کہ محبت رسول اصل ایمان ہے۔ اسی حوالہ سے علامہ سراج الدین شامی لکھتے ہیں:
إن اللّٰه تعالٰى أوجب على المؤمنین أن یحبوا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فوق محبة الآباء والأبناء والأزواج والعشیرة والتجارة والأموال وأوعد من تخلف عن تحقیق ذلك بالعقاب فقال سبحانه: قل إن كان آباء كم وأبناء كم وإخوانكم الآیة ولاریب أن أسباب المحبة ترجع إلى أنواع الجمال والكمال والنوال كما قرره الإمام الغزالى وغیره. فإذا كان الرجل یحب لكرمه أو بشجاعته أو لحلمه أو لعلمه أو لتواضعه أو لتعبده أو تقواه أو لزهده وورعه أو لكمال عقله أو وفور نعمه أو جمال أدب أو حسن خلقه أو فصاحة لسانه أو حسن معاشرة أو كثرة بره و خیره أو لشفقته ورحمته أو نحو ذلك من صفاة الكمال فكیف إذا تأصلت واجتمعت هذه الصفات الكاملة وغیرها من صفات الكمال فى رجل واحد وتحققت فیه أوصاف الكمال ومحاسن الجمال على أكمل وجوهھا ألا و هوالسیّد الأكرم سیّدنا محمدصلى اللّٰه عليه وسلم الذى هو مجمع صفات الكمال ومحاسن الخصال قد أبدع اللّٰه تعالى صورته العظیمة وهیئته الكریمة وطوى فیه أنواع الحسن والبھاء بحیث یقول كل من نعته لم یرقبله ولا بعده مثله.76
اﷲ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر یہ لازم و واجب کردیا ہے کہ وہ نبی کریم کو اپنے والدین، اولاد، بیوی، خاندان، تجارت اور اموال سے بڑھ کر محبوب سمجھیں اور اس کے خلاف کرنے والے کو عذاب کی وعیدسنائی ہے۔ارشاد ربانی ہے: اے محبوب فرمادیجیے اگر تم اپنے والدین اولاد اور بھائی۔۔۔ (الی آخر الآیۃ) اور اسباب محبت کی وجوہ یہ ہی ہوسکتی ہیں حسن وجمال، کمال اور احسان۔ امام غزالی وغیرہ نے بھی یہی بیان کیا ہے۔ جب کسی آدمی سے اس کی ایک صفت کی وجہ سے محبت کی جاتی ہے مثلاً اس کاکرم یا اس کی بہادری، حلم یا علم ،تواضع یا عبادت وتقویٰ اور زہد وورع، کمالِ عقل یابہتر فہم ، جمالِ ادب یا حسنِ اخلاق، فصاحتِ زبان یابہتر برتاؤ ، کثرت ِنیکی یاشفقت و رحمت یا اس کی مثل کسی اور وجہ سے۔پھر جب یہ تمام صفات ایک شخصیت میں جمع ہوجائیں اور یہ تمام اوصاف و محاسن اپنے شباب وکمال پر بھی ہوں تو اس وقت اس شخصیت سے محبت کا عالم کیا ہوگا ۔یہ شخصیت ہمارے آقا کی ہے کیونکہ آپ تمام صفات کاملہ اور محاسن فاضلہ کے جامع ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی عظیم ہیت و صورت اتنے احسن انداز پر بنائی ہے کہ تمام حسن وجمال کی خوبیاں اس طرح جمع ہوگئی ہیں کہ آپ کا وصف بیان کرنے والا ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ آپ کی مثل نہ کبھی پہلےدیکھا اورنہ بعد۔
حضور کی تعظیم ومحبت ایمان کی اصل ہے اور کھڑے ہوکر درود شریف پڑھنا یہ بھی حضور سے محبت کی ایک دلیل ہے۔ نیز اس عمل میں حضور کی محبت آپ کے ادب اور اجلال کا اظہار ہے اور ہر وہ فعل جس سے حضور کے ادب اور اجلال کا اظہار ہوتا ہو اس کا کرنا فقہاء کے نزدیک مستحسن ہے چنانچہ امام الہمام حنفی لکھتے ہیں:
و ما یفعله بعض الناس من النزول بقرب من المدینة والمشى على أقدامه إلى أن یدخلھا حسنٌ، وكل ما كان أدخل فى الأدب والإجلال كان حسنا.77
بعض لوگ مدینہ کے قریب سواری سے اترجاتے ہیں اور پیدل چل کر مدینہ میں داخل ہوتے ہیں ان کا یہ فعل مستحسن ہے اور ہر وہ فعل جس کا حضور کے ادب اور اجلال میں زیادہ دخل ہو اس کو کرنا مستحسن ہے۔
اسی طرح اس حوالہ سے امام ابن حجر مکی الہیتمی لکھتے ہیں:
جس نے رسول اﷲ کی تعظیم و شان میں مبالغہ کیا ہر اس طریقہ سے جس سے تعظیم میں اضافہ ہو اور یہ مبالغہ ذات باری تعالیٰ تک نہ لے جائے تو وہ حق تک پہنچا اور اس نے اﷲ کی ربوبیت اور رسول اﷲ کی رسالت کی حدوں کی پاسداری کی اور یہ وہ قول ہے جو کہ افراط و تفریط سے مبرّاءاور پاک ہے۔78
اﷲ رب العالمین کی محبت و عظمت کے بعد مومن کے پاس اصل جو سرمایہ ہے وہ رسول اﷲ کی محبت و عظمت ہے اور جس قدر یہ محبت و عظمت دل و دماغ میں راسخ ہوگی اسی قدر دیار رسول کی زیارت کی اہمیت اور فوقیت نمایاں اور آشکارا ہوگی۔ اﷲ رب العالمین کی محبت و عظمت کے ساتھ رسول اﷲ کی محبت و عظمت ایک لازمی اور فطری تقاضا ہے اور رسول اﷲ کی محبت و عظمت کے بعد ہر اس شے کی عظمت و محبت ہوگی اور شوق واشتیاق ہوگا جسے رسول اﷲ کی جانب ادنی انتساب اور وابستگی ہوگی۔ 79 اسی طرح امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
ثم إعلم أن كل ما مال إلى التعظیم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا ینبغى لاحد البحث فیه ولا المطالبة بدلیل خاص فیه فإن ذلك سوء أدب فقل ما شئت فى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على سبیل المدح لا حرج.80
پھر اس بات پر یقین رکھ کہ (ہرقول، فعل، تقریر، تحریر) وہ چیز جو حضور کی تعظیم کی طرف مائل ہو کسی کو بھی اس میں بحث ومباحثہ سے گریز کرنا چاہیےاور نہ ہی اس ضمن میں کسی مومن کی یہ شان ہے کہ وہ رسول اللہ کی تعظیم پر دلیل کو طلب کرےکیونکہ یہ بلاشک وشبہ بے ادبی ہے توجوجی چاہے حضور کے حق میں بطریق مدح بیان کر کہ اس میں کسی قسم کا حرج نہیں۔
اس حوالہ سے امام سبکی لکھتے ہیں:
أمر علی الدیار دیار لیلی
أقبل ذا الجدار و ذا الجدار
و ما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا .81
میں لیلیٰ کے مکانات پر سے گزرتا ہوں تو اس دیوار اور اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں۔ مکانات کی محبت نے میرے دل کو نہیں گھیرا، لیکن اس کی محبت نے جو ان مکانات میں رہا۔
ان تمام مذکورہ بالا عبارات کا خلاصہ یہ ہوا کہ نبی اکرم کی محبت چونکہ اصل ایمان ہے لہذا آپ سے ادنی تعلق رکھنے والی اشیاء کی تعظیم بھی ایمان ہی کاحصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ میلاد النبی میں قیام کرتے ہوئے آپ پر درود وسلام پڑھاجاتا ہے اور یہ قیام بھی اسی تعظیم وتوقیر رسول کے سبب ہے۔
ذکر ولادت پر کھڑا ہونا سنت سلف صالحین ہے تمام مسلمان میلاد شریف کو بڑی عقیدت سے مناتے تھے اور اس میں قیام بھی کرتے تھے چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی جلیل القدر محدث کا بھی یہی عمل رہا ہے۔
نبی اکرم کی ولادت کے تذکرہ والی مجلس میں خود شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ آپ بھی اس میں قیام فرماتے تھے چنانچہ اپنی کتاب میں خود اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
اے اﷲ میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جسے آپ کے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں میرے تمام اعمال میں فساد نیت موجود رہتی ہے۔ البتہ مجھ حقیر فقیر کا ایک عمل صرف تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی وانکساری محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک پر درود و سلام بھیجتا رہا ہوں۔اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے زیادہ تیری خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے؟ اس لیے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی بیکار نہ جائے گا بلکہ یقیناً بارگاہ میں قبول ہوگا اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے ذریعہ دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔82
یعنی شیخ عبد الحق محدث دہلوی کو اپنے اعمال جن میں علم ِحدیث وفقہ وغیرہ کی خدمت شامل ہے ان سب کے باوجود اس پر ناز ہے کہ وہ میلاد شریف مناتے ،اس میں قیام کرتے ہوئےدرود شریف پڑھتے ہیں ۔ یعنی تقریباًپانچ سو (500) سال پہلے بھی ہندوستان کی سرزمین پر میلاد شریف اور اس میں قیام کو بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم مناتے تھے اور اس میلاد اور قیام کو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک محبوب اور مقبول عمل سمجھتے تھے۔
ساتویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث امام سبکی سے بھی حضور نبی کریم کا ذکرِ مبارک سن کر تعظیماً کھڑے ہونا ثابت ہے ۔آپ مسلمہ امام، محقق، حافظ، مفسر، مجتہد، متکلم، أصولی، نحوی، مناظر، قاضی القضاۃ اورشیخ الاسلام ہیں اور آپ کا پورانام تقی الدین أبو الحسن علی بن عبد الکافی سبکی شافعی ہے۔آپکے بحرالعلوم ہونے پر سب کا اتفاق ہے چنانچہ صاحب طبقات الشافعیۃ اس کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ولایختلف اثنان فى أنه البحر الذى لایساجل فى ذلك.83
کسی کا اس میں اختلاف نہیں کہ آپ(علوم کا ) ایسا سمندر ہیں جن کااس (میدان)میں کوئی مقابلہ نہیں۔
اسی طرح امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں:
الإمام المجمع على جلالته واجتھاده.84
وہ امام (سبکی )جن کی جلالتِ علمی و اجتہاد پر اجماع ہے۔
ایک اور مقام پر امام تاج الدین سبکی تحریرفرماتے ہیں:
ولا یختلف اثنان فى أنه أعلم أهل الأرض فى كل علم.85
اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ آپ تمام علوم میں اہلِ زمین کےسب سے بڑے عالم ہیں۔
اتنے بڑے عالم نے بھی آپ کے تذکرہ کے وقت قیام کیا ہے اور آپ کے ساتھ ساتھ تمام ہم عصر علماء نے بھی اسی طرح قیام کیا چنانچہ امام برہان الدین الحلبی لکھتے ہیں:
ومن الفوائد انه جرت عادة كثیر من الناس بذكر وضعه صلى اللّٰه عليه وسلم أن یقوموا تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم وهذا القیام بدعة لا أصل لھا أى لكن هى بدعة حسنة لأنه لیس كل بدعة مذمومة وقد قال سیّدنا عمر فى اجتماع الناس لصلاة التراویح نعمت البدعة وقد قال العز بن عبد السلام أن البدعة تعتریھا الأحكام الخمسة وذكر من أمثلة كل مایطول ذكره ولا ینا فى ذلك قوله صلى اللّٰه عليه وسلم إیاكم ومحدثات الأمور فإن كل بدعة ضلالة وقوله صلى اللّٰه عليه وسلم من أحدث فى أمرنا أى شرعنا مالیس منه فھو ورد علیه لأن هذا عام أرید به خاص فقد قال إمامنا الشافعى قدس اللّٰه سره ما أحدث و خالف كتابا أوسنة أو إجماعا أو أثرها فھو البدعة الضلالة وما أحدث من الخبر...لم یخالف شیئا من ذلك فھو البدعة المحمودة وقد وجد القیام عند ذكر اسمه صلى اللّٰه عليه وسلم من عالم الأمة ومقتدى الأئمة دینا وورعا الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشایخ الإسلام فى عصر وفقد حكى بعضھم أن الإمام السبكى اجتمع عنده جمع كثیر من علماء عصره فانشد منشد قول الصرصرى فى مدحه صلى اللّٰه عليه وسلم:
قلیل لمدح المصطفی الخط بالذھب
علی ورق من خط أحسن من كتب
وأن ینھض الأشراف عند سماعه
قیاما صفوفا أو جثیا علی الركب
فعند ذلك قام الإمام السبكى رحمه اللّٰه وجمیع من فى المجلس فحصل أنس كبیر بذلك المجلس ویكفى مثل ذلك فى الاقتداء.86
اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہ عادت جاری ہوگئی ہے کہ جب حضور کی پیدائش مبارک کا ذکر سنا فوراً حضور کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور یہ قیام بدعت ہے۔ جس کی کوئی اصل نہیں۔ یعنی بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔حضرت عمر نے تراویح کی جماعت قائم کرکے فرمایا یہ اچھی بدعت ہے اور علامہ عزالدین ابن سلام نے فرمایا بدعت کی پانچ قسمیں ہیں اور بدعت کی یہ اقسام رسول اﷲ کی اس حدیث کے خلاف نہیں ہیں جس میں آپ نے فرمایا کہ نئے کاموں سے بچو کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور جس نے ہمارے امر (دین) میں ایسا کام ایجاد کیا جو اس سے نہ ہو وہ مردود ہے۔ ان احادیث میں بدعت کا عام معنی نہیں بلکہ خاص معنی مراد ہے (یعنی بدعت سیئہ) ہمارے امام شافعی نے فرمایا جو چیز کتاب، سنت، اجماع یا اقوال صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعت ضلالہ ہے اور جو نیک کام ایجاد کیا جائے اور وہ ان (اصول شرعیہ) کے خلاف نہ ہو بدعت محمودہ ہے۔حضور کے ذکر مبارک کے وقت (آسمانی مخلوقات اور ملائکہ کا)قیام پایا گیا ہے۔ امت محمدیہ کے جلیل القدر عالم امام تقی الدین سبکی جو دین اور تقویٰ میں ائمہ کے مقتداء ہیں ،اس پر ان کے دور کے ہمعصر تمام علماء و مشائخ اسلام نے ان کی اتباع کی چنانچہ منقول ہے کہ امام سبکی کے پاس ان کے ہمعصر علماء کرام بکثرت جمع ہوئے۔ ایک مداح رسول نے حضور کی مدح میں امام صرصریکے یہ اشعار پڑھے: اگر چاندی پر سونے کے حروف سے بہترین کاتب حضور کی مدح لکھے تب بھی کم ہے۔ بیشک عزت و شرف والے لوگ حضور کا ذکر جمیل سن کر صف بستہ قیام کرتے ہیں یا گھٹنوں پر دوزانو ہوجاتے ہیں۔یہ اشعار سن کرامام سبکی اور تمام اہل مجلس مشائخ وعلماء بھی کھڑے ہوگئے اور اس وقت بڑا انس حاصل ہوا۔ مجلس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس قسم کے واقعات مشائخ علماء کی اقتداء کے بارے میں کافی ہوتے ہیں۔
اس حوالہ سے امام احمد رضا خان القادری تحریر کرتے ہیں کہ یہ امام صرصری صاحب قصیدہ نعتیہ وہ ہیں جنہیں علامہ محمد بن علی شامی نے سبل الہدی والرشاد میں اپنے زمانہ کا حسان اور حضور کا محبِ صادق فرمایا اور امام اجل حضرت امام الائمہ تقی الملۃ والدین سبکی کی جلالت شان ورفعت مکان تو آفتاب نیروز سے زیادہ روشن ہے یہاں تک کہ مانعین کے پیشوا مولوی نذیر حسین دہلوی اپنے ایک مہری فتوے میں ان کوبالاجماع امامِ جلیل و مجتہدِ کبیر تسلیم کرتے ہیں اور اس زمانے کے اعیانِ علماء و مشائخِ اسلام کا ان کے ساتھ اس پر موافقت فرمانا بحمداﷲ تعالیٰ متبعین سلف صالحین کے لیے ایک کافی سند ہے جس کو دیکھتے ہوئے علامہ حلبی نے ارشاد فرمایاکہ اقتداء کے لیے اس قدر کثیر علماء کا عمل کافی ہے۔87
جن اشعار کو سن کر بطور تعظیماً امام سبکی کھڑے ہوئے تھے یہ اشعار بقول امام ذہبی " سیّد الشعراء" 88 امام صرصری حنبلی کے قصیدہ کے ہیں جن کے بارے میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں:
الصرصرى المادح یحیى بن یوسف بن یحیى بن منصور بن المعمر بن عبد السلام الشیخ الإمام العلامة البارع جمال الدین أبو زكریا الصرصرى الشاعر المادح الحنبلى البغدادى وشعره فى مدائح رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مشھور ودیوانه فى ذلك معروف غیر منكور ولد سنة ثمان وثمانین وخمسمائة وسمع الحدیث والفقه واللغة ویقال أنه كان یحفظ صحاح الجوهرى بكمالھا وصحب الشیخ على بن ادریس تلمیذ الشیخ عبد القادر وكان ذكیا یتوقد ینظم على البدیھة سریعا أشیاء حسنة فصیحة بلیغة وقد نظم الکافى للشیخ موفق الدین بن قدامة ومختصر الخرقى وأما مدائحه فى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فیقال أنھا تبلغ عشرین مجلدا.89
امام یحییٰ بن یوسف بن یحییٰ بن منصور بن المعمر بن عبد السلام شیخ امام علامہ، جو کئی قسم کے علوم میں یکتا فاضل تھے جمال الدین ابو زکریا الصرصری فاضل مادح، حنبلی، بغدادی، آپ کے اشعار کا بڑا حصہ حضور نبی کریم کی مدح میں ہے اور آپ کا دیوان اس بارے میں مشہور و معروف ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ لغت میں آپ کو صحاح الجوہری مکمل طور پر حفظ تھی اور آپ نے شیخ عبد القادر کے شاگرد شیخ علی بن ادریس کی صحبت اختیار کی۔ آپ تیز فہم تھے اور نور سے منورتھے اور آپ فی البدیہہ سرعت کے ساتھ فصیح و بلیغ اشعار نظم کرتے تھے اور آپ نے موفق الدین بن قدامہ کی تالیف الکافی اور مختصر الخرقی کو بھی نظم کیا ہے اور حضور نبی کریم کے بارے میں آپ کی جو مدائح ہیں ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بیس جلدوں تک پہنچتی ہیں ۔
امام صرصری نے نبی اکرم کی خواب میں زیارت بھی کی تھی چنانچہ امام ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں:
أبوزكریا شاعر العصر وصاحب الدیوان السائر فى الناس فى مدح النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فكان حسان وقته… وكان قد رأى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى منامه وبشره بالموت على السنة ونظم فى ذلك قصیدة طویلة معروفة.90
ابوزکریا شاعر ِعصراورحسّانِ وقت نعت نبی کےایسےشاعرتھےجن کا دیوان لوگوں میں رائج رہا۔انہوں نے نبی کریم کو خواب میں دیکھاآپ نے انہیں موت بر سنت کی خوشخبری دی، انہوں نےاس پرمشہورطویل قصیدہ تحریرفرمایا۔
اسی طرح یحیی بن یوسف اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وكان قدر آہ صلى اللّٰه عليه وسلم فى منامه قال الشیخ رحمه اللّٰه تعالىٰ ورضى عنه فلما رأیته صلى اللّٰه عليه وسلم قبلت فمه الشریف وقلت أشھد أن هذا الفم الذى أنزل علیه الوحى وقال لى صلى اللّٰه عليه وسلم وأنا أشھد أنك مت على السنة بلفظ الماضى فاستیقظ من منامه وشرع فى نظم هذه القصیدة الشریفة بمدحه صلى اللّٰه عليه وسلم ویذكر فیھا اعتقادہ ویمدح الصحابة العشرة كل واحد منھم على انفرادة.91
انہوں نے نبی اکر م کو خواب میں دیکھاتھا۔ شیخ رحمہ اللہ نے کہاجب میں نے آپ کودیکھاتو میں نے ان کےمنہ شریف کابوسہ لیااورکہامیں گواہی دیتاہوں کہ بےشک یہ وہ منہ مبارک ہےجس پروحی نازل ہوئی(اورانہوں نے مجھ سے فرمایا)اورمیں گواہی دیتاہوں کہ تم سنت پرفوت ہوئےہو۔ماضی کےلفظ سےفرمایا۔پس وہ(شیخ)نیندسےبیدارہوگئےاورنبی کریم کی شان میں قصیدۃ شریفہ لکھنا شروع کردیا۔جس میں وہ اپناعقیدۃ بیان کرتےہیں اورفردافردا عشرہ مبشرہ کی بھی مدح سرائی کرتے ہیں۔
علامہ خلیفہ رومی اپنی مشہور کتاب "کشف الظنون" میں امام صرصری حنبلی کے اس دیوان کے بارے میں لکھتے ہیں:
دیوان الصرصرى هو الشیخ جمال الدین أبى زكریا یحیى بن یوسف الصرصرى الضریر الحنبلى المتوفى سنة ست و خمسین وستمائة فى الزهد ومدح النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.92
دیوان صرصری جمال الدین ابو زکریا یحیى بن یوسف صرصری الضریر حنبلی متوفی چھو سو چھپن (656ھ) زہد اورنبی کریم کی نعت ومدح میں تالیف ہے۔
یعنی کہ امام تقی الدین السبکی امام صرصری جو انتہائی متقی وعالم شخص تھے ان کے کہے گئے اشعار پر نہ یہ کہ صرف خود تعظیماً کھڑے ہوئے بلکہ آپکی اقتداء میں تمام موجود معاصرعلمائےعظام نے بھی قیام کیا ۔
قیام میلادالنبی کے مستحسن ہونے کے بارے میں مدینہ منوّرہ کے عظیم عالم دین امام علامہ سیّد جعفر بن حسن برزنجی المدنی المتوفی 1177ہجری لکھتے ہیں:
قد استحسن القیام عند ذكر مولد الشریف ائمة ذو روایة ودرایة طوبى لمن كان تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم غایت مرامه ومرماه.93
بے شک حضور کے ذکر ِولادت کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن سمجھا ہے جو صاحب روایت ودرایت تھے تو شادمانی اس کے لیے ہے جس کی مراد و مقصودخالصتاً حضور کی تعظیم ہے۔
اسی طرح شیخ عبد الرحیم السیوطی الجرجانی المالکی اپنی کتاب"شرح المولد البرزنجی" میں لکھتے ہیں:
أى عدہ حسنا وحكم باستحبابه شرعا.94
یعنی انہوں نے اسے حسن شمارکیا اورشرعی طورپرمستحب ہونےکا حکم دیا۔
نیز یہی امام جعفر بن حسن ابن عبد الکریم الشہیر بالبرزنجی نےچارسو( 400) سے زائد اشعار پر مشتمل ایک مبارک قصیدہ لکھا ہے جس کا نام "محل القیام"رکھا ہے اور اس میں یہ شعرکہاہے:
وقد سن أھل العلم والفضل والتقی
قیاماً علی الأقدام مع حسن إمعان .95
اہل علم وفضل وتقوی نے حسن سماعت کےساتھ پیروں پرکھڑےہونےکوایجادکیاہے۔
گویہ مولود اور قیام و سلام آج سےتقریباًدو سو پینتالیس( 245) سال پہلے سر زمین مدینہ پر لکھا گیا ہے جسے امام یوسف نبہانی نے اپنی کتاب جواہر البحارمیں مکمل نقل کیاہے اور ابتدا میں اس بارے میں یوں تحریر فرمایا ہے:
هذا المولود الشھیر الذى لیس له نظیر وهو مخترعة فیما أعلم.96
یہ مولود مبارک مشہورو معروف ہے اس کی کوئی مثل نہیں اور یہ ایجادکیاہواہےمیرےعلم کےمطابق۔
ان مذکورہ تمام عبارات سےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم کے تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے لیے تعظیماً کھڑے ہونا یہ ائمہ اسلاف کا طریقہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ خصوصا امام حلبیکے اقتباس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کے ذکر ولادت کے وقت کھڑا ہونا یہ معروف طریقہ ہے اور امام سبکی اور دیگر ان کے ہمعصر علماء اسلام اس کے لیے کھڑے ہوتے تھے اور اقتداء کےلیے اتنی قدر کافی ہے۔97
یہ قیام کرنا فرشتوں کا عمل ہے یعنی فرشتے کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھتے ہیں تو جو کوئی بھی کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھتا ہے وہ فرشتوں کی سنت پر عمل کرتا ہے چنانچہ امام دارمی ایک روایت نقل کرتے ہیں جس کے لیے انہوں نے پہلے اس نام سے باب باندھا کہ "باب ما اکرم اﷲ تعالیٰ نبیہ صلى اللّٰه عليه وسلم بعد موتہ"یعنی "یہ باب نبی اکرم کے وصال کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آپ کوجو بزرگی عطا کی اس بارے میں ہے "اور پھر اس کے تحت یہ حدیث مبارکہ روایت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:
عن نَبْیه بن وهب أن كعبا دخل على عائشة فذكروا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال كعب ما من یوم یطلع إلا نزل سبعون ألفا من الملائكة حتى یحفوا بقبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم ویصلون على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حتى إذا أمسوا عرجوا وهبط مثلھم فصنعوا مثل ذلك حتى إذا انشقت عنه الأرض خرج فى سبعین ألفا من الملائكة یزفونه.98
نبیہ بن وہب بیان کرتے ہیں حضرت کعب سیّد ہ عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے لوگوں نے نبی کریم کا تذکرہ چھیڑا تو حضرت کعب نے کہا: روزانہ ستر ہزار فرشتے نیچے اترتے ہیں اور نبی کریم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں وہ اپنے پَر اس کے ساتھ مس کرتے ہیں اور نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ شام کے وقت وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے نیچے اترتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ جب نبی کریم کی قبر مبارک (قیامت کے دن) کشادہ ہوگی آپ -ستر ہزار فرشتوں کے جلوس میں باہر تشریف لائیں گے۔
قاضی ابن اسحاق 99 اورقاضی ابو الشیخ اصفہانی ان دونوں ائمہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے100 جس سے واضح ہورہا ہے کہ روزانہ ستر ہزار ملائکہ نبی اکرم کے روضہ انور کو گھیر تے اور آپ پر درود وسلام پیش کرتے ہیں۔اس کی شرح کرتے ہوئےامام ملا علی قاری لکھتے ہیں:
یحیطوا (بقبر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضربون بأجنحتھم) أى للطیران حوله أو فوقه یلتمسون بركته وقربه ونوره.101
رسول اﷲ کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور قبر مبارک کے ارد گردیا اوپراڑنے کے لیےاور انوارِ قبر سے برکت حاصل کرنے کے لیےاپنے پروں کو قبر شریف پر مارتے ہیں۔
خود اﷲ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سرکار دو عالم کی وفات کے بعد بھی آپ کی تعظیم کروارہے ہیں اور وہ بھی کھڑے ہوکر درود شریف کے ذریعے یعنی ستر ہزار (70000) فرشتے صبح کو آتے ہیں جو کھڑے ہوکر درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں پھر وہ شام کو چلے جاتے ہیں اور دوسرے ستر ہزار فرشتے شام کو آتے ہیں اور صبح تک کھڑے ہوکر درود و سلام پیش کرتے ہیں۔جس سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر باادب درود و سلام پڑھنا یہ فرشتوں کے عمل کےموافق اور سنت ہے۔اسی طرح حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا:
إن اللّٰه وكل بقبرى ملكا أعطاه أسماع الخلائق فلا یصلى على أحد إلى یوم القیامة إلا أبلغنى باسمه واسم أبیه هذا فلان بن فلان قد صلى علیك.102
بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتے کو مقرر فرمایا ہےجس کو تمام مخلوق کی سماعت عطا کی ہے۔ پس میری امت میں سے قیامت تک جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر کہے گا اے محمد( )! فلاں فلاں شخص نے آپ پر درود پڑھا ہے۔
اس تقرری کی وضاحت ایک دوسری روایت میں مروی ہے جس میں قیام کی صراحت ہے چنانچہ منقول ہے کہ نبی مکرم نے ارشاد فرمایا:
إن اللّٰه تعالى أعطى ملكا من الملائكة أسماء الخلق فھو قائم على قبرى إلى يوم القيامة لا يصلى على أحد صلاة إلا سماه باسمه واسم أبيه.103
بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے ملائکہ میں سے ایک فرشتہ کو تمام مخلوقات کے نام دیے ہیں اور وہ تاقیامت میری قبر پر کھڑا ہوا ہے۔جو بھی کوئی مجھ پر درود پڑھتاہے تو وہ فرشتہ (مجھے)اس کا اور اس کے والد کا نام بتاتا ہے۔
اس کی شرح کرتے ہوئےامام زرقانی لکھتے ہیں:
أى قوة یقتدربھا على سماع ما ینطق به كل مخلوق من إنس وجن وغیرهما.104
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے کو ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ انسان اور جن اور اس کے سوا تمام مخلوق الہٰی کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو سنتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں موجود"فھو قائم علی قبری"اور اسی طرح "وکل بقبری ملکا" کے الفاظ کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھنے کے جواز پر واضح دلیل ہیں اوراس سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے یہ فرشتہ کھڑے ہوکر نبی کریم کی بارگاہ میں درود شریف پڑھتا ہے ،امتیوں کا سلام ان کا نام بمع والد کا نام لےکر عرض کرتا ہے اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھنا یہ فرشتوں کا طریقہ ہے اور اس لیے قیام میلاد میں کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھاجاتا ہے کہ یہ فرشتوں کی بھی سنت ہے۔
کئی روایات میں منقول ہے کہ حضور اکرم نے اپنے اوصاف ، اپنا نسب شریف اور اپنا تذکرۂولادت منبر پر کھڑے ہوکر بیان کیا ہے تو گویا کہ کھڑے ہوکر رسول اکرم کا اپنی ولادت کاتذکرہ کرنا ہی قیام میلاد کی اصل ہے۔ اس حوالہ سے کئی احادیث مروی ہیں جن میں آپ نے اپنے اوصاف اور ولادت کا تذکرہ فرمایا ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں مروی ہے :
العباس الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فكانه سمع شیئا فقام النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على المنبر فقال من انا قالوا انت رسول اللّٰه علیك السلام قال انا محمد بن عبداللّٰه بن عبدالمطلب ان اللّٰه خلق الخلق فجعلنى فى خیرهم ثم جعلھم قبائل فجعلنى فى خیرهم قبیلة ثم جعلھم بیوتا فجعلنى فى خیرهم بیتا وخیرهم نفسا.105
حضرت عباس بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے گویا کہ انہوں نے کوئی بات سنی تھی۔ نبی اکرم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا میں کون ہوں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں آپ پر سلام ہو۔ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبداﷲ بن عبد المطلب ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے بہترین رکھا۔ پھر ان کے دو گروہ بنائے تو مجھے اچھے گروہ میں رکھا۔ پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا۔ پھر ان کے خاندان بنائے تو مجھے ان میں سے اچھے خاندان میں رکھا۔ اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔
امام احمد بن حنبل نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے106 جس میں واضح ہے کہ نبی مکرم نے کھڑے ہو کر اپنی ولادت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں منقو ل ہے کہ نبی مکرم نے ارشاد فرمایا:
انى عند اللّٰه مكتوب بخاتم النبيين، وان آدم لمنجدل فى طينته وساخبركم باول ذلك: دعوة ابى ابراهيم وبشارة عيسى ورؤيا امى التى رات حين وضعتنى انه خرج منھا نور اضاءت لھا منه قصور الشام.107
بلا شبہ مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت خاتم النبیین لکھا گیا تھا جب حضرت آدم مٹی میں گوند ے ہوئے تھےاور عنقریب میں تمہیں اس معاملہ کی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم کی دعا ،حضرت عیسی کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کاوہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا کہ ان کے بطن ِ مبارک سے ایسا ایک نور نکلا جس سے ملک ِشام کے محلات جگمگا اٹھے۔
اسی حوالہ سےبیان کرتے ہوئے واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا :
إن اللّٰه اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفى من بنی إسماعيل كنانة، واصطفى من بني كنانة قريشاً، واصطفى من قريش بنى هاشم، واصطفانى من بني هاشم.108
بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم کی اَولاد میں سے اِسماعیل کو منتخب فرمایا، اِسماعیل کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو،قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں مجھے منتخب فرمایا۔
حضرت ابو ہریرہ نے یوں روایت کیا ہے:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال:بعثت من خیر قرون بنى آدم قرنا فقرنا حتى كنت من القرن الذى كنت فیه.109
رسول اللہ نے فرمایا میری پیدائش بنی آدم کے اس خاندان میں ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں بنی آدم کی جماعتوں میں افضل رہا ہے یہاں تک کہ میں اس جماعت میں پیدا ہوا جس میں پیدا ہوا۔
مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ خود حضورِ اکرم نے اپنا حالِ ولادت ِباسعادت مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر مختلف انداز سے کئی بار ذکر فرمایاہے۔جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم اپنے تذکرۂِ ولادت جمعۃ المبارک کے خطبات میں کیا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ قیام کی حالت میں ہی ہوتا ہے اوررسول اللہ کایہ قیام فرمانا میلاد شریف میں قیام میلاد پر صریح ثبوت ہےچونکہ خود نبی اکرم نے اپنا میلاد کھڑے ہوکر بیان فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ امتی بھی قیام کی حالت میں آپ کا تذکرہ کرتے ہیں اور اسی حالت میں درو و سلام بھی پڑھتے ہیں۔
اس قیام میلاد النبی کے جواز کی چھٹی وجہ یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ شرعًا تو رسول اللہ کی تعظیم مطلوب وممدوح ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانان عالم اس قیام کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ اس قیام کا مقصد حضورنبی کریم کی تعظیم ہے اور اکثر بلاد وامصار میں قیام کا عمل جاری ہے۔ شرق اور غرب کے علماء نے اسے مستحسن سمجھا ہے اور جس چیز کو مسلمان مستحسن سمجھیں وہ خدا کے نزدیک بھی اچھی ہے چنانچہ اس حوالہ سے روایت کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن مسعود ارشاد فرماتے ہیں:
مارآه المسلمون حسناً فھو عنداللّٰه حسن.110
جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔
یہی وجہ ہےکہ علمائےامت کا تعامل بھی ایک دلیل کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ امت مسلمہ کے کثیر علمائے امت نے اس قیام میلاد کو مستحسن کہاہے اور حدیث مذکور کے تناظر میں ان کثیر علماء امت کا اس عمل کومستحسن کہنا اس کے جواز کے لیے کافی ہے کیونکہ اس طر ح کا تعامل ،اجماع کے قائم مقام ہوتا ہے چنانچہ امام ابن ہمام حنفی ایک مقام پرلکھتے ہیں:
التعامل كالاجماع.111
تعامل امت اجماع کی طرح ہے۔
اسی لیے اس قیام میلاد النبی کے جواز پر علماء امت کا تعامل اجماع کی جگہ ہے اور اس قیام کے جواز پر گویا کہ اجماع ہے۔یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی کتب میں بے شمار مقامات پر اس حدیث سے یہ استدلال ملتا ہے چنانچہ امام سرخسی لکھتے ہیں:
لكنه استحسن وجوزه لأنه عمل الناس وقد استحسنوه وقد قال صلى اللّٰه عليه وسلم مارآه المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن.112
مگراس کو مستحسن کیا اورجائزقراردیاکیونکہ یہ لوگوں کاعمل ہےاورانہوں نے اسےمستحسن قراردیاہے اور تحقیق نبی کریم نے فرمایا بھی ہے کہ جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔
اسی طرح امام بابرتی حنفی ایک مقام پر لکھتے ہیں:
وما لم ینص علیه فھو محمول على عادات الناس لأنھا أى عادات الناس دلالة على جواز الحكم فیما وقعت علیه لقوله علیه الصلوةوالسلام ما رآه المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن.113
اورجس پر کوئی نص(دلیل شرعی)موجودنہ ہووہ عمل لوگوں کی عادات پرمحمول ہےکیونکہ لوگوں کی کوئی بھی عادت جوازکےحکم پردلیل ہےجس کےبارےمیں نبی کریم کافرمان موجود ہے کہ جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔
اسی مذکورہ حدیث اور فقہاء کے استدلال سے واضح ہوتا ہے کہ قیام میلاد النبی جائز ہے اور اس پر عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علمائےعظام کا تعامل بھی موجود ہے جو کہ جواز کے لیے کافی ہے۔114
محافل میلاد النبی میں کیے جانے والا قیام چونکہ تعظیم رسول کے لیے ہوتا ہے اوراﷲ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو حضور نبی کریم کی تعظیم کا حکم دیا ہے لہذایہ قیام تعظیم میں شامل ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو نبی کریم کی تعظیم کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰك شَاهدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا8 لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْه وَتُوَقِّرُوْه وَتُسَ بِّحُوْه بكرَة وَّاَصِيْلًا9 115
بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔
خالق ِکائنات عزوجل نے تعظیم مصطفی کو واجب اور ضروری قرار دیا کہ اس کے بغیر تکمیل ایمان ناممکن ہے اور تعظیم رسول کے حکم کو مطلق رکھا کہ تم تعظیم کا جو بھی طریقہ اختیار کرو وہ درست ہے چنانچہ امام سیوطیلکھتے ہیں:
عن ابن عباس فى قوله و تعزروه یعنى الإجلال و توقروه یعنى التعظیم یعنى محمدا صلي اللّٰه عليه وسلم.116
عبداﷲبن عباس سے، اﷲ کے اس فرمان"وتعزروہ" کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہاں اس سے تعظیم مراد ہےاور "وتوقروہ" کے معنی بھی تعظیم کے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ حضوراکرم کی تعظیم کی جائے۔
اسی آیت کی تفسیر میں اما م مبرد کے قول کو نقل کرتے ہوئےعلامہ ملا علی قاری لکھتے ہیں:
قال المبرد وتعزروه اى تبالغوا فى تعظیمه.117
امام مبرد نے کہا "و تعزروہ" کا معنی ہے آپ کی تعظیم میں مبالغہ کرو۔
اسی طرح مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ صاوی مالکی لکھتے ہیں:
ویؤخذ من هذه الآیة أن من اقتصر على تعظیم اللّٰه وحده أوعلى تعظیم الرسول وحده فلیس بمؤمن بل المؤمن من جمع بین تعظیم اللّٰه تعالى وتعظیم رسوله ولكن التعظیم فى كل بحبه فتعظیم اللّٰه تنزیھه عن صفات الحوادث و وصفه بالكمالات وتعظیم رسوله اعتقاد أنه رسول اللّٰه حقا وصدقا لكافة الخلق بشیرا و نذیرا إلى غیر ذلك من أوصافه السنیة وشمائله المرضیة.118
اس آیت یعنی" وتعزروہ وتوقروہ "سے ثابت ہوا کہ جوصرف تعظیم خداکرے یا صرف تعظیم رسول کرے وہ مومن نہیں۔ بلکہ مومن وہ ہے جو تعظیم خدا وتعظیم مصطفی دونوں کرے۔ لیکن ہر ایک کی تعظیم اس کی شان کے مطابق ہوگی پس اﷲ تعالیٰ کی تعظیم رب کو صفات حوادث سے منزہ بتانا اور وصف کمالات سے موصوف ماننا ہے اور تعظیم رسول یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھنا کہ حضور اﷲ کے سچے رسول ہیں تمام مخلوق کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔ علاوہ ازیں حضور کے عالی مرتبہ اوصاف اور پسندیدہ خصلتوں کا معتقد ہو۔
یعنی اس عبارت کاخلاصہ یہ ہے کہ اوّل یہ لوگ اﷲ ورسول پر ایمان لائیں،دوم یہ کہ حضرت محمد مصطفی کی کمال تعظیم وتوقیر کریں اور سوم یہ کہ خالق کائنات کی عبادت واطاعت میں رہیں۔ ان ہر سہ بنیادی مقاصد دینیہ کی ترتیب ملاحظہ ہوکہ سب سے پہلے ایمان کو اور سب سے آخر میں اپنی عبادت کو اور بیچ میں حضور کی کمال تعظیم وتوقیر کو رکھا ہےگویاتعظیمِ رسول ایمان وعبادت میں ایسی ہے جیسے بدن میں جان یا مکان میں مکین۔
قیام میلاد النبی عظمت رسول کے استعارہ کی حیثیت اختیار کرچکاہے اور جس چیز کو بھی دینی عظمت حاصل ہو وہ شعائر اﷲ میں شامل ہوجاتی ہے جس کی تعظیم کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ تعظیم ہی تقوی کی نشانی ہے جیسا کہ اللہ تباک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
َمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰه فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ32 119
اورجوشخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتاہےتویہ( تعظیم) دلوں کےتقوی میں سےہے۔
یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اورمناسک وغیرہ کی تعظیم کرنا جواللہ یا اللہ والوں کےساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانےجاتےہیں اوریہ تعظیم وہی لوگ بجالاتےہیں جنہیں دلوں کا تقویٰ نصیب ہوگیاہو اور ذکر ولادت بھی شعائر اﷲ ہے لہٰذا اس کی تعظیم کرنا بھی دلوں کے تقوی میں شامل ہے اور اس کےلیے بہترین طریقہ قیام ہی ہے۔ان تمام مذکورہ بالا وجوہات سے میلاد النبی کے قیامِ تعظیمی کا جواز و استحسان واضح ہوگیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ تعظیم تو شرعا مطلوب و محمود ہیں اور صحابہ کرام سمیت ملائکہ بھی تعظیم مصطفی میں قیام کرتے ہیں جس کو امت مسلمہ نے اپنی محافل میلاد میں اپنایا ہوا ہے۔
شیخ الدلائل شیخ عبد الحق محدث آلہ آبادی نے اپنی کتاب "الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الأعظم صلي اللّٰه عليه وسلم"میں پورا ایک باب باندھا ہے جس میں انہوں نے قیام کے وقت ذکرِ ولادت کے جواز کے بارے میں تقریبا دس صفحات پر مشتمل داد تحقیق پیش کی ہے۔اس میں آپ علامہ محمد کرامت علی دہلوی کی کتاب"السیرۃ المحمدیۃ و الطریقۃ الأحمدیۃ‘"سےایک اقتباس نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
جرت عادة كثیر من الناس أنه إذا سمعوا بذكر وضعه أن یقوموا تعظیما له وقد وجد القیام عند ذكر اسمه الشریف من الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشائخ الإسلام فى عصره.120
لوگوں کی یہ عادت جاری ہے کہ جس وقت اس عالم میں آپ کی تشریف آوری کا ذکر سنتے ہیں تو آپ کی تعظیم کے واسطے قیام کرتے ہیں اور آنحضرت کے اسمِ مبارک کے ذکر کے وقت امام سبکیسے قیام پایا گیا ہے اور اس امر میں علماء وقت نے ان کی اتباع کی ہے۔
اسی حوالہ سےحضرت شاہ احمد سعید مجددی فاروقی لکھتے ہیں:
باقى ماند كلام درقیام وقت ذكر ولادت شریف آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم پس بدانید كه قیام براى تعظیم سرور عالم صلى اللّٰه عليه وسلم درحالت حیات آنجناب از صحابه كرام ثابت گردیده است عن أبی هریرة قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یجلس معنا فى المسجد یحدثنا فإذا قام قمنا قیاما حتى نراه قد دخل بعض بیوت أزواجه مشکاة المصابیح واعلم أن حرمة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بعد موته وتعظیمه وتوقیره لازم كما كان حال حیاته وذلك عند ذكره صلى اللّٰه عليه وسلم وذكر حدیثه وسنته وسماع اسمه وسیرته ومعاملة آله وعترته وتعظیم أهل بیته وصحابته شفا.121
رہا آنحضرت کے تذکرۂِ ولادت مبارکہ کے وقت کھڑا ہونے کا مسئلہ تو حضور سرورِ عالم کی حیات طیبہ میں آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ہم آپ کے ساتھ مسجد میں باتیں کیا کرتے تھے جب حضور کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے تاوقتیکہ حضور اپنی کسی زوجہ محترمہ کے حجرۂ ِمبارکہ میں داخل ہوجاتے۔یہ جان لو! حضور کی تعظیم وتوقیر جس طرح حیات طیبہ میں لازم تھی اسی طرح بعد از وصال بھی لازم ہے اور حضور سیّد عالم کی تعظیم اس وقت ہوگی جب آپ کا ذکر کرے، حدیث بیان کرے، آپ کی سنت بیان کرے یا آپ کا اسم شریف اور سیرت پاک سنے۔
اسی طرح شیخ الدلائل نےحضرت علامہ عثمان بن حسن دمیاطی شافعی ازہری مکی جوعلامہ احمد زینی دحلان مکیکے استاد اور علوم میں ماہرِ فن تھے 122 ان کا اقتباس نقل کیا ہےجس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
القیام عند ذكر ولادة سیّد المرسلین صلى اللّٰه عليه وسلم أمر لاشك فى استحبابه واستحسانه و ندبه یحصل لفاعله من الثواب الأوفر والخیر الأكبر لأنه تعظیم أى تعظیم للنبى الكریم ذى الخلق العظیم الذى أخرجنا اللّٰه به من ظلمات الكفر إلى الإیمان و خلصنا اللّٰه به من نار الجھل إلى جنات المعارف والإیقان فتعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم فیه مسارعة إلى رضاء رب العلمین وإظھارأ قوى شعائر الدین ومن یعظم شعائر اللّٰه فإنھا من تقوى القلوب ومن یعظم حرمة اللّٰه فھو خیر له عند ربه.123
قرأ ت مولد شریف میں ذکر ولادتِ سیّد المرسلین کے وقت حضور کی تعظیم کے لیے قیام کرنا بے شک مستحب و مستحسن ومندوب ہے جس کے کرنے والےکو ثوابِ کثیر و فضلِ کبیر حاصل ہوگا کہ وہ تعظیم ہے ۔کیسی ہی تعظیم ہےاس نبی کریم صاحب ِخلقِ عظیم کی جن کی برکت سے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نےہمیں ظلماتِ کفر سے نورِ ایمان کی طرف لایا اور ان کے سبب ہمیں دوزخِ جہل سے بچا کر بہشت معرفت و یقین میں داخل فرمایا تو حضور اقدس کی تعظیم میں خوشنودی رب العالمین کی طرف دوڑنا ہے اور قوی ترین شعائرِ دین کا آشکارا ہونا ہے اور جو تعظیم کرے شعائر خدا کی تو وہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے اور جو تعظیم کرے خدا کی حرمتوں کی تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے یہاں خوب بہتر ہے۔
اسی طرح اس قیام کے استحسا ن کے بارے میں بیان کرتے ہوئے امام احمد رضا خان القادری تحریر فرماتے ہیں:
قد اجتمعت الأمة الحمدیة من أهل السنة والجماعة على استحسان القیام المذكور وقد قال صلى اللّٰه عليه وسلم: لا تجتمع أمتى على الضلالة.124
بے شک امت مصطفی سے اہل سنت و جماعت کا اجماع واتفاق ہے کہ یہ قیام مستحسن ہے اور بے شک حضور فرماتے ہیں: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔
شیخ امام ابو زید کی طرح امام علامہ مدالقی نے بھی قیام میلاد کو مستحسن لکھا ہے چنانچہ وہ تحریرفرماتے ہیں:
جرت عادة القوم بقیام الناس إذا انتھى المداح إلى ذكر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم وهى بدعة مستحبة لما فیه من اظھار السرور والتعظیم.125
یعنی عادت قوم کی جاری ہے کہ جب مدح خواں ذکرِ میلاد حضور تک پہنچتا ہے تو لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں اوریہ بدعت مستحبہ ہے کہ اس میں نبی کی پیدائش پر خوشی اور حضور کی تعظیم کا اظہار ہے۔
ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ کبار علمائےکرام اس قیامِ میلاد کے نہ صرف جواز کے قائل ہیں بلکہ وہ اس قیام کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں۔
اسی قیام میلاد النبی کے استحسان کے حوالہ سے خاتمۃ المحدثین مولانا سیّد احمد زینی دحلان مکی قدس سرہ اپنی کتاب مستطاب "الدرالسنیہ " میں تحریر فرماتے ہیں:
ومن تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم الفرح بلیلة ولادته وقراءة المولد والقیام عند ذكر ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم وإطعام الطعام وغیر ذلك مما یعتاد الناس فعله من أنواع البر فإن ذلك كله من تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد أفردت مسألة المولد و ما یتعلق بھا بالتالیف واعتنى بذلك كثیر من العلماء فألفوا فى ذلك مصنفات مشحونة بالأدلة والبراهین فلاحاجة لنا إلى الإطالة بذلك.126
امورِتعظیمِ حضور میں سے حضور کی شب ولادت کی خوشی کرنا اور مولد شریف پڑھنا اور ذکر ولادت اقدس کے وقت کھڑا ہونا اور مجلس شریف میں حاضرین کو کھانا کھلانا اور ان کے سوا نیک اعمال جو مسلمانوں میں رائج ہیں وہ سب حضور کی تعظیم سے ہیں اور یہ مسئلہ مجلس میلاد اور اس کے متعلقات کا ایسا ہے جس میں مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں اور بکثرت علمائے دین نے اس کا اہتمام فرمایا اور دلائل وبراہین سے بھری ہوئی کتابیں اس میں تالیف فرمائیں ہیں۔پس ہمیں اس مسئلہ میں تطویل کلام کی حاجت نہیں۔
یعنی شیخ زینی دحلان کی نظر میں بھی یہ قیام مستحب ہے اور اس مسئلہ میں بکثرت علماء اعلام نے تالیفات رقم کی ہیں جن سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا ہے۔
اسی طرح شیخ المشائخ، خاتمۃ المحققین، إمام العلماء، مفتی الحنفیۃ بمکۃ شیخ علامہ جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی اپنے فتاویٰ میں قیام میلاد کے استحسان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
القیام عند ذكر مولد ه الأعطرصلى اللّٰه عليه وسلم استحسنه جمع من السلف فھو بدعة حسنة.127
حضور اکرم کی ولادتِ مبارکہ کے ذکر کے وقت قیام کو ایک جماعتِ سلف نے مستحسن کہا ہے پس وہ بدعت حسنہ ہے۔
اسی طرح مذکورہ فتوی کی تصدیق کرنے والےشیخ مفتی مالکیہ حسین بن ابراہیم مکی مالکی خود ایک جگہ فرماتے ہیں:
استحسنه كثیر من العلماء وهو حسن لما یجب علینا تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم.128
اسے بہت سےعلماء نے مستحسن رکھا اور وہ حسن ہے کہ ہم پر حضور کی تعظیم واجب ہے۔
ان مذکورہ علمائے اعلام کے فتووں کے موافق نبی کریم کی تعظیم میں قیام ِمیلاد مستحسن ہے جس میں کئی علماء کرام کا اجماع شامل ہے۔
اسی طرح مفتی شیخ حسین ابراہیم مغربی مالکی اپنے فتاویٰ"قرۃ العین بفتاویٰ علماء الحرمین"میں میلاد میں قیام کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
وأقول: قد جرى على استحسان ذلك القيام تعظيمًا له صلى اللّٰه عليه وسلم عمل من يعتد بعمله فى أغلب البلاد الإسلامية، وهو مبنى على ما للنووى من جعل القيام لأهل الفضل من قبيل المستحبات إن كان للاحترام لا للرياء وألف فى ذلك جزءًا مستقلاً وأقوى ما استدل به حديث البيھقى فى سننه أن عائشة قالت: ما رأيت أحدًا كان أشبه كلامًا وحديثًا من فاطمة برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وكانت إذا دخلت عليه رحب بھا وقام إليھا فأخذ بيدها وقبلھا….وبالجملة فالقیام عند ذكر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ووضع امه له تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم بدعة حسنة.129
اورمیں کہتاہوں کہ: نبی کریم کی تعظیم کےلیےکھڑےہونےکاعمل مستحسن ہےجوبھی اس کی رغبت رکھتاہےبلاداسلامیہ میں اسےکرتاہے۔یہ امام نووی کی رائےپرمبنی ہے۔ اہل فضل وعلم کےنزدیک اگریہ محض احترام کی خاطرریاء سےپاک ہوتومستحب ہے اورانہوں نے اس بارےمیں مستقل جزء تالیف فرمایا۔اوراس میں سب سےقوی دلیل امام بیہقی کی وہ حدیث ہےجس سےاستدلال فرمایا وہ ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ کی روایت جس میں آپ نے فرمایا: میں نے انداز گفتگو اورکلام میں رسول اﷲ کے مشابہ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ جب وہ آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے۔۔۔ اجمالی طورپر یہ ہےکہ نبی کریم کی ولادت اوراس وقت جس میں آپ کی والدہ نے آپ کوجنم دیااس وقت کھڑےہوکرتعظیم کرنابدعت حسنہ ہے۔
اسی طرح سراج العلماء عبداﷲ سراج مکی مفتی حنفیہ تحریر فرماتے ہیں:
توارثه الأئمة الأعلام وأقره الأئمة والحكام من غیر نكیر منكر ورد رآد ولھذا كان حسنا ومن یستحق التعظیم غیره صلى اللّٰه عليه وسلم ویكفى أثر عبداللّٰه بن مسعودما رآه المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن.130
یہ قیام مشہورو معروف اماموں میں متوارث چلا آتا ہے اور اسے ائمہ و حکام نے برقرار رکھا اور کسی نے رد وانکار نہ کیا لہٰذا یہ مستحب ٹھہرا اور حضور کے سوا اور کون مستحق تعظیم ہے اور سیّدنا عبداﷲ بن مسعود کی حدیث کافی ہے کہ جس چیز کو اہل اسلام نیک سمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی نیک ہے۔
اسی طرح علامہ سیّد احمد بن علوی مالکی نے اپنی کتاب"حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم" میں میلاد شریف میں کھڑے ہوکر درود و سلام کے جواز پر پورا ایک باب درج ذیل نام سے باندھا ہے:
باب استحسان العلماء لقیام المولد وبیان وجوهه.131
علماء کامیلادنبوی میں قیام کومستحسن قراردینااوراس کی وجوہات بیان کرنےکاباب۔
شیخ علوی مالکی نےاس باب میں کافی دلائل سے اس قیامِ میلاد النبی کا جواز واستحسان ثابت کیا ہے۔ اسی طرح مفتی عمر بن ابی بکر شافعی نے اس کے استحباب واستحسان پر تصریح فرمائی ہے۔ فتاوائے علمائے حرمین محترمین میں مفتیِٔ مکّہ معظّمہ مولانا محمد بن حسین کتبی حنفی اور رئیس العلماء شیخ المدرسین مولانا جمال حنفی اور مفتیِٔ مالکیہ مولانا حسین ابراہیم مکی اور سیّد المحققین مولانا احمد بن زین شافعی اور مدرس مسجد نبوی مولانا محمد بن محمد غرب شافعی اور مولانا عبد الکریم بن عبد الحکیم حنفی مدنی اور فقیہ جلیل مولانا عبد الجبار حنبلی بصری نزیل مدینہ منوّرہ اور مولانا ابراہیم بن محمد خیار حسینی شافعی مدنی کی مہریں ہیں اور اصل فتویٰ مزین بخطوط ومواہیر علمائے ممدوحین فقیر نے بچشم خود دیکھا اور مدتوں فقیر کے پاس رہا جن میں اکثر مسائل ِمتنازع فیہا پر بحث فرمائی ہے۔ 132
اسی طرح علمائے مدینہ کے نزدیک بھی قیام ِمیلاد النبی مستحب ہے اور یہ نبی اکرم کی تعظیم کا ایک سبب ہے چنانچہ اس حوالہ سے امام احمد رضا خان القادری تحریر فرماتے ہیں:
والحاصل أن ما یصنع من الولائم فى المولد الشریف وقرآءته بحضرة المسلمین وانفاق المبرات والقیام عند ذكر ولادة الرسول الأمین صلى اللّٰه عليه وسلم ورش ماء الورد والقاء البخور و تزیین المكان و قرآءة شى من القرآن والصلوة على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم واظھار الفرح والسرور فلا شبھة فى أنه بدعة حسنة مستحبة وفضیلة شریفة مستحسنة.133
خلاصہ مقصود یہ ہے کہ میلاد شریف میں ولیمے کرنا اور حال ولادت مسلمانوں کو سنانا اور خیرات ونیک اعمال بجالانا اور ذکر ولادت رسول امین کے وقت قیام کرنا اور گلاب چھڑکنا اور خوشبوئیں سلگانا اور مکان آراستہ کرنا اور کچھ قرآن پڑھنا اور نبی کریم پر درود بھیجنا اور فرحت و سرور کا اظہار کرنا بے شک بدعت حسنہ مستحبہ،باعث ِفضل وشرف اور استحسان ہے۔
اسی طرح درج ذیل فتوی پر مولانا عبد الجبار وابراہیم بن خیار سمیت تیس(30) علماء کی مہریں ہیں اور فتوائے علمائے مکّہ معظّمہ میں میلاد و قیام کا استحباب علمائے سلف سے نقل کرکے فرماتے ہیں:
فالمنكر لھذا مبتدع بدعة سیئة مذمومة لإنكاره على شى حسن عند اللّٰه والمسلمین كما جاء فى حدیث ابن مسعود قال: ما رآه المسلمون حسنا فھو عند اللّٰه حسن. والمراد من المسلمین هھنا الذین كملوا الاسلام كالعلماء العالمین و علماء العرب و المصر والشام والروم والاندلس كلھم رواه حسنا من زمان السلف إلى الآن فصار الاجماع والأمر الذى ثبت به اجماع الأمة فھو حق لیس بضلال قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا تجتمع أمتى على الضلالة فعلى حاكم الشرع تعزیر المنكر.134
پس مجلس وقیام کا منکر بدعتی ہے اور اس منکر کی بدعت سیئہ ومذمومہ کہ اس نے ایسی چیز پر انکار کیا جو خدا اور اہل اسلام کے نزدیک نیک تھی جیسا کہ حدیث ابن مسعود میں آیا ہے کہ جس چیز کو مسلمان نیک اعتقاد کریں وہ خدا کے نزدیک نیک ہے اور یہاں مسلمانوں سے کامل مسلمان مراد ہیں جیسے علمائے باعمل اور اس مجلس و قیام کو عرب و مصر و شام وروم و اندلس کے تمام علمائے سلف نے آج تک مستحسن جانا تو اجماع ہوگیا اور جو امر اجماع امت سے ثابت ہو وہ حق ہے گمراہی نہیں۔ رسول اﷲ فرماتے ہیں میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ پس حاکم شرع پر لاز م ہے کہ منکر کو سزا دے۔
اس فتویٰ پر حضرت سیّد العلماء احمد دحلان مفتی شافعیہ و جناب عبد الرحمن سراج مفتی حنفیہ و مولانا حسن مفتی حنابلہ و مولانا محمد شرقی مفتی مالکیہ سمیت مزید پینتالیس (45) علماء کی مہریں ہیں۔پھر اس کے بعد آپنے مکی و مدنی وفرنگی محلی کے درج ذیل علمائے اعلام کے نام نقل کیے ہیں جو اس قیام کے جواز و استحباب کے قائل ہیں:
(1)محمد امین مفتی حنفی ۔(2) جعفر حسین البرزنجی مفتی شافعی ۔(3) عبد الجبار مفتی حنبلی۔ (4) جمال الدین سیّد ۔(5) ابراھیم بن خیار۔(6) سیّد یوسف ۔(7) السیّد محمد علی۔(8) السیّد عبداﷲ بن سیّد احمد ۔(9) محمد بن احمد رفاعی۔(10) عمر بن علی۔(11) علی حریری ۔(12) سیّد مصطفی۔(13) سراج احمد۔ (14) حسن ادیب ۔ (15) ابوالبرکات ۔ (16) عبدالقادر مشاط۔(17) حضرت سیّد سالم ۔(18) احمد الحبشی ۔ (19) محمد نور سلیمانی ۔(20) عبدالرحیم البرعی۔(21) محمد عثمان کردی ۔ (22) قاسم ۔(23) عبد العزیز ہاشمی ۔ (24) یوسف رومی۔ (25) محسن ۔(26) مبارک بن سعید۔(27) حامد ۔(28) محمد ہاشم بن حسن۔(29) عبداﷲ بن علی۔(30) عبدالرحمن الصفوی ۔
اسی طرح علماء مکّہ معظّمہ میں یہ شامل ہیں: (1) حضرت عبدالرحمن سراج حنفی۔ (2)حضرت احمد دحلان مفتی شافعی ۔(3)حضرت حسن مفتی حنبلی ۔ (4)حضرت محمد شرفی مفتی مالکی ۔(5) حضرت عبدالرحمن جمال حنفی ۔ (6)حضرت حسن طیب حنفی۔(7) حضرت سلیمان عیسیٰ حنفی ۔ (8)حضرت عبدالقادر خوگیر حنفی۔ (9)حضرت ابراہیم القیس حنفی۔ (10) حضرت محمد جاراﷲ حنفی۔ (11) حضرت احمداﷲ عثمانی حنفی ۔(12)حضرت عبدالقادر شمس حنفی (13) حضرت عبدالرحمن آفندی حنفی ۔(14)حضرت احمد ابو الخیر حنفی ۔(15) حضرت عبدالقادر مکی حنفی ۔ (16) حضرت محمد سعید حنفی ۔ (17)حضرت عبدالمطلب حنفی (18) حضرت کمال احمد حنفی ۔(19)حضرت الادیب محمد سعید حنفی ۔ (20)حضرت علی جودہ حنفی۔ (21)حضرت سیّد عبداﷲ کوشک حنفی ۔ (22)حضرت حسین عرب حنفی ۔ (23)حضرت ابراہیم نوموسی حنفی۔ (24)حضرت احمد امین حنفی۔ (25)حضرت شیخ فردوس حنفی۔ (26) حضرت عبدالرحمن عجمی حنفی ۔ (27)حضرت عبداﷲ قماشی حنفی۔(28) حضرت محمد بااجل حنفی۔(29) حضرت عبداﷲ مشاط حنفی ۔ (30) حضرت محمد سیوطی حنفی۔(31) حضرت علی رہتی شافعی ۔(32)حضرت محمد صالح زواری شافعی۔(33) حضرت محمد حبیب اﷲ شافعی ۔(34) حضرت احمد النحراوی شافعی۔(35)حضرت عبداﷲ زواری شافعی۔(36) حضرت سلیمان عقبی شافعی ۔(37)حضرت سیّد عمر شبطی شافعی ۔(38) حضرت عبدالحمید عثمانی شافعی ۔(39)حضرت مصطفی عقیقی شافعی۔ (40) حضرت منصور شافعی (41)حضرت منشاوی شافعی (42) حضرت محمد راضی شافعی ۔135ان تمام علماء اور دیگر کئی دیا ر وامصار کے علماء اعلام کے جواز واستحسان پر دیے گئے فتاوؤں کا تذکرہ کرنےکے بعد آخر میں امام احمد رضاخان القادری تحریر فرماتے ہیں:
بالجملہ سردست اس قدر کتب وفتاوے ،افعال واقوالِ علماء ائمہ سے اس قیام مبارک کے استحسان و استحباب کی سند صریح حاضر ہے جس میں سو (100) سے زائد ائمہ و علماء کی تحقیق و تصدیق روشن و ظاہر ہے۔ساتھ ہی ساتھ رسالہ غایۃ المرام میں علمائے ہند کے فتوے چھپے ہیں جس میں پچاس (50) سے زیادہ مہر و دستخط ہیں۔ اب مصنف انصاف کرے آیا اس قدر علماء مکّہ معظّمہ ، مدینہ منوّرہ، جدہ ،حدیدہ ،روم، شام، مصر ،دمیاط، یمن، زبید، بصرہ، حضرموت ، حلب ، حبش، برزنج ، برع ، کر د ،داغستان ،اندلس اور ہند کا اتفاق ارباب عقول کے لیے قابل قبول نہ ہوگا۔ 136
ان تمام مذکور ہ بالا اقتباسات ، اقوال ائمہ اور مختلف ممالک کے مفتیان عظام کے فتاووں سے یہ بات بالکل بدیہی طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ میلاد النبی میں قیام کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ یہ ایک مستحب امر ہے اور اس میں شرعی ممانعت نہیں ہے۔اس کے استحباب کی وجہ نبی مکرم کی تعظیم ہے جو کہ شرعی طور پرمطلوب و مقصود ہے اور اسی وجہ سے مختلف ممالک کے مسلمان اور خصوصا ًعلمائے اعلام اس قیامِ میلادالنبی کو بنظرِ استحسان جانتے ہیں اور جس کو مسلمان استحسان کی نظر سے دیکھیں وہ بقول ابن مسعود اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں بھی مستحسن سمجھا جاتا ہے۔137
اسی طرح یہ قیامِ میلاد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کے ہاں بھی بنظر استحسان ہی دیکھا جاتا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے خودلکھتے ہیں کہ فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں۔ 138
اسی طرح اس قیامِ میلاد النبی کے بارے میں کلا م کرتے ہوئےمولانا اشرف علی تھانوی تحریر فرماتے ہیں:
اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیے نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے کیونکہ ایسے امور سے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہےجیسے قیام مولد شریف۔ اگر آنحضرت کےنام کی تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں اگر اس سردار عالم و عالمیان (روحی فداہ) کے اسم گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا۔139
کھڑے ہوکر درودوسلام پڑھنے اور بالخصوص ساعتِ ولادت میں کھڑے ہوکر درود و سلام پڑھنے کو بعض لوگ شرک تک کہہ دیتے ہیں ۔ ان کے بقول ان کی دلیل مسند احمد میں حضرت عبادہ کی روایت ہے جس میں درج ذیل فرمان نبوی موجود ہے:
فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : لایقام لى إنما یقام للّٰه تبارك وتعالىٰ.140
رسول اﷲ نے فرمایا :میرے لیے قیام نہ کیا کریں کیونکہ قیام فقط اﷲ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے ۔
حدیثِ مبارکہ کے درج بالا حصہ سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامِ تعظیمی فقط اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے لہذا کسی اور کے لیے تعظیماً قیام کرنا شرک کے مترادف ہے۔141
اس اعتراض کے جواب میں اولاً بات یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ"لایقام لی انما یقام ﷲ تبارک وتعالیٰ" مکمل حدیث ہے ہی نہیں بلکہ حدیث کے بعض الفاظ ہیں جنہیں سیاق کلام سے علیحدہ کر کے مذکورہ مطلوبہ مفہوم مرادلیا گیا ہے جو کہ حقیقی طور پر غیر تحقیقی رویہ ہے۔اصل حدیث مبارکہ تحریر کرنے کے بعد مذکورہ اعتراض کا جواب دیا جائےگا۔روایت میں منقول یہ ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی نے حضور نبی کریم کے خلاف باتیں کیں اس کے جواب میں یہ فرمایا گیا تھا:
فقال أبوبكر: قوموا نستغیث برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا المنافق فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لا یقام لى إنما یقام للّٰه
پس حضرت ابوبکر نےفرمایا اٹھواس منافق پررسول اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ کرتےہیں۔پس رسول اللہ نےفرمایا: میرےلیےکھڑانہیں ہواجاتابلکہ اللہ کےلیےکھڑےہواجاتاہے۔
اس حدیث میں قیام ِتعظیمی کی بات ہی نہیں ہو رہی چنانچہ محمد بن عبد الوہاب اس حدیث کے مشابہ مسند احمد کی حدیث کو یوں نقل کرتے ہیں:
وقد كان فى زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم منافق یؤذى المؤمنین فقال بعضھم قوموا بنا نستغیث برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا المنافق فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أنه لا یستغاث بى وإنما یستغاث باللّٰه.142
نبی اکرم کےزمانےمیں ایک منافق تھا جومؤمنین کو ایذا دیاکرتاتھاپس بعض مؤمنین نےکہاکہ اٹھواس منافق پررسول اللہ سےاستغاثہ کرتےہیں۔ اس پرنبی اکرم نےفرمایاکہ مجھ سے استغاثہ نہیں کیاجاتابلکہ اللہ سےاستغاثہ کیاجاتاہے۔
یہاں"قام" کا معنی قیام ہے ہی نہیں بلکہ مدد کرنے کے ہیں چہ جائیکہ اس سے قیامِ تعظیمی کے خلاف پر دلیل قائم کی جائے کیونکہ یہ مفہوم دیگر مذکورہ احادیث کے برخلاف اور متعارض ہے۔مذکورہ حدیث سے قیام تعظیمی مرادلینا درج ذیل حدیث مبارکہ کے بھی خلاف ہے جس میں حضرت عبداﷲ بن عمر بیان کرتے ہیں:
سأل رجل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال یارسول اللّٰه تمر بنا جنازة الكافر أفنقوم لھا؟ فقال نعم قوموا لھا فإنكم لستم تقومون لھا إنما تقومون اعظاماً للذى یقبض النفوس.143
ایک آدمی نے نبی پاک سے پوچھا یا رسول اﷲ! اگر ہمارے پاس سے کسی کافر کا جنازہ گزرے تو کیا ہم کھڑے ہوجائیں؟ نبی پاک نے فرمایا ہاں اس وقت بھی کھڑے ہوجایا کرو تم کافر کے لیے کھڑے نہیں ہورہے تم اس ذات کی تعظیم کے لیے کھڑے ہورہے ہو جو روح کو قبض کرتی ہے۔
اس حدیث میں قیام کی اجازت موجود ہے اگرچہ کہ کافر کے جنازہ کی بنا پر نیت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت و جلالت ہوگی لیکن نفس قیام کی اجازت دینا معترضین کے اختراعی مفہوم کو رد کررہاہےکیونکہ ان کے نزدیک قیام عبادت ہے اور عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہےلہٰذا کسی اور کے لیے قیام شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے حضور کے میلاد کی محفل میں قیام ناجائز ہے۔ یہ اعتراض لغو ہے کیونکہ اگر قیام عبادت کا حصہ ہے اور صرف خدا کے لیے ہے تو پھر قعود یعنی بیٹھنا اور لیٹنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کی رُو سے یہ تینوں ہی اﷲ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہیں چنانچہ عقلمند افراد کی نشاندہی کرتے ہوئےارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِيْنَ يَذْكرُوْنَ اللّٰه قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِھمْ 144
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اﷲ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
اس آیہ کریمہ میں عبادت اور ذکر الٰہی کرنے کی تین حالتیں بیان ہوئی ہیں اٹھنا، بیٹھنا اور لیٹنا۔ اگر قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے تو پھر بیٹھنا اور لیٹنا کس کے لیے ہے؟ آیت کی رُو سے بیٹھنا بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہوگیا اور لیٹنا بھی اﷲ کے لیے خاص ہوگیا۔اب اگر قیام کو شرک مان لیا جائے تو قعود اور لیٹنے کی حالتیں بھی شرک قرار پائیں گی کیوں کہ یہ بھی ذکر الٰہی اور عبادت الٰہی کا جزو ہیں ؟ لہٰذااس سے یہ واضح ہوا کہ ان حرکات وسکنات کو صرف عبادت اور ذکر الٰہی کے لیے خاص کردینا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حالتیں فی نفسہ عبادت ہیں نہ ان کا شرک سے کوئی تعلق ہے کیوں کہ عبادت میں اصل چیز سنت اور نیت ہے جس کے بارے میں حضور کا فرمان ہے:
إنما الأعمال بالنیات.145
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
کوئی عمل نیت کے بغیر مقبول نہیں ہوتا لہٰذا دورانِ قیام ہاتھ باندھنے کا بھی عبادت سے کوئی تعلق نہیں جب تک کہ اس میں نیت کو شامل نہ کرلیا جائے۔ از روئے فقہ وشرع قیام کے فرائض وواجبات میں ہاتھ کا باندھنا شامل نہیں بلکہ قیام محض کھڑے ہونے کی حالت کو کہتے ہے۔ یہ ایک جداگانہ عمل ہے جس کا ہاتھ باندھنے یا نہ باندھنے سے کوئی تعلق نہیں۔ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی طریقوں میں وہ جس طرح بھی قیام کریں سب حالتیں فقہ کی رُو سے جائز ہیں۔ کون سی حالت اﷲتعالیٰ کے لیے ہے اور کون سی اﷲ تعالیٰ کے لیے نہیں، اس کے تعین کا دار ومدار نیت پر ہے، اگر قیام عبادت کی نیت سے کیا جائے تو پھر اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک ہوگا، اگر تعظیم کے لیے ہو تو پھر شرک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عبادت اور تعظیم میں یہ فرق بہرحال ملحوظ رکھنا لازمی ہے کہ یہ حالت عبادت کے لیے ہے اور یہ تعظیم کے لیے۔ اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ عبادت کا تعلق نیت سے ہے قیام سے نہیں، قیام مطلق کھڑے ہونا ہے، اس کا ہاتھوں کے ساتھ تعلق نہیں، کھولے جائیں یا باندھے جائیں برابر ہے۔
اگر ہم اَرکان نماز پر غور کریں تو نماز کی حالتوں میں قیام کے بعد رکوع وسجود، قومہ اور قعدہ اس کا حصہ ہیں۔ قیام نماز کا حصہ ہے تو قعود بھی نماز کا حصہ ہے، قیام عبادت ہے تو قعود (بیٹھنا) بھی عبادت ہے، قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے تو قعود بھی اُسی کے لیے ہے۔ یہ سب حالتیں نماز کے فرائض وواجبات میں شامل ہیں اور قابل غور بات یہ ہے کہ تشہد میں اﷲ تعالیٰ نے حضور پر سلام بھیجنا بھی شامل کردیا ہے اور اسے نماز کا جزوِ لاینفک بنادیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ حالتیں غیر خدا کے لیے شرک ہوتیں تو آپ نماز میں شرک کے مرتکب ہورہے ہوتے مگر ایسا نہیں کیوں کہ یہ حالتِ قعود وقیام اﷲ تعالیٰ کے لیے عبادتاً ہیں اور رسول اﷲ کے لیے تعظیماً ہیں اگر دوران نماز حالت قعود میں حضور پر درود وسلام عبادت الٰہی شمار نہیں ہوا تو نماز سے باہر قیام کو عبادت الٰہی کیسے تصور کرلیا جائے۔اس تمام تر بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قیام فی نفسہ عبادت نہیں ہے بلکہ اس کے عبادت قرار پانے کا دارومدار نیت پر ہے۔ قیام ایک جائز عمل ہے خواہ وہ تعظیم کے لیے ہو یا نہ ہو۔146
بعض لوگ کسی کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کو جائز نہیں سمجھتے ۔ ان لوگوں کی طرف سے جو شبہات پیش کیے جاتے ہیں اور اپنے دلائل میں وہ جن احادیث مبارکہ کو بنیاد بناکر اپنے مؤقف پر استدلال کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں چنانچہ صحابہ کرام کو کوئی بھی شخص رسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا لیکن اس کے با وجود حضرت انس فرماتے ہیں:
وكانوا إذا رأوہ لم یقوموا لما یعلمون من كراهیته لذلك.147
وہ لوگ جب آپ کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ اسے ناپسند کرتے ہیں۔
اسی طرح امام ولی الدین تبریزی کی روایت میں اس طرح کے قیام کی مذمت کے بارے میں یہ روایت مروی ہے:
من سره أن یتمثل له الرجال قیاماً فلیتبوأ مقعدہ من النار.148
جس کو پسند ہو کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں وہ اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈے۔
اسی طرح اس قیام کی مذمت میں حضرت ابی امامہ کی روایت میں یوں منقول ہے:
لا تقوموا كما یقوم الأعاجم.149
عجمی لوگوں کی طرح نہ کھڑے ہوا کرو۔
معترضین کہتے ہیں کہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ زندگی میں بھی اگر کوئی بڑا آدمی آئے تو اس کی تعظیم کے لیے کھڑا نہ ہواجائے چہ جائیکہ میلاد شریف میں تعظیمی قیام کیا جائے کہ اس میں تو حضور آتے بھی نہیں ہیں تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟
مذکورہ بالااحادیث میں مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا گیا ورنہ جن احادیث میں قیامِ تعظیمی کے جواز کو بیان کیا گیا ہے اس کے خلاف ہوگا بلکہ ان احادیث میں حسب ذیل امور سے ممانعت ہے اپنے لیے قیام چاہتا ہو اورلوگ دست بستہ سامنے کھڑے ہوں اوراسی طرح لوگ کھڑے ہوں اور پیشوا درمیان میں بیٹھا رہے اس طرح کے دونوں قیام منع ہیں۔
حضرت انس کی روایت کردہ پہلی حدیث جس میں منقو ل ہے کہ صحابہ کرام آپ کو دیکھ کر اس لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ آپ اسے ناپسند کرتے ہیں۔150اس پہلی حدیث کے ماتحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
وحاصل آنكه قیام وترك قیام بحسب زمان واحوال واشخاص مختلف گر دو وازیں جا است كه گاهے نه طروند.151
خلاصہ یہ ہے کہ قیام تعظیمی کرنا اور نہ کرنا زمانہ اور حالات اور اشخاص کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح صحابہ کرام نے کبھی تو حضور کے لیے قیام کیا اور کبھی نہ کیا ۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کبھی تو حضور کی تشریف آوری پر کھڑے ہوجاتے تھے اور کبھی نہیں کیونکہ حالتیں مختلف ہوتی تھیں ایسا نہیں تھا کہ کھڑے ہوتے ہی نہیں تھے جیساکہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں ہے کہ جب نبی مکرم کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے۔152
اسی طرح دوسری حدیث جس میں منقول ہوا کہ جس کو پسند ہو کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں وہ اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈے153 اور تیسری حدیث جس میں منقول ہے کہ عجمی لوگوں کی طرح نہ کھڑے ہوا کرو 154 ان دونوں احادیث کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
قیام مكروه بعینه نیست بلكه مكروه محبت قیام است از كسیكه قیام كرده شدہ است برائے وى اگردے محبت قیام نه دار وقیام برائے وى مكروه نبود قاضى عیاض مالكى گفته كه قیام منھى عنه درحق كسى است كه نشسته باشد وایستادہ باشد پیش وے مردم تانشتن وى چنانكه دو حدیث بیابد درقیام تعظیم برائے اهل دنیا بجھت دنیائے ایشاں وعید شدید وارد شدو مكروه است.155
خود قیام مکروہ نہیں بلکہ قیام چاہنا مکروہ ہے اگر وہ قیام نہ چاہتا ہو تو اس کے لیے مکروہ نہیں ہے۔ قاضی عیاض نے فرمایا کہ قیام اس کے لیے منع ہے جو کہ خود تو بیٹھا ہو اور لوگ کھڑے ہوں اور دنیا داروں کے لیے قیام تعظیمی میں وعید آئی ہے اور وہ مکروہ ہے۔
یعنی شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی بیان کردہ تشریحات کاخلاصہ یہ ہے کہ اولاً تو مطلق قیام منع نہیں ہے اور دوم یہ کہ خود قیام مکروہ نہیں بلکہ قیام چاہنا مکروہ ہے جس پر حدیث کے الفاظ"من سرہ أن یتمثل لہ الرجال قیاماً"صریح دلیل ہیں یعنی کبروغرور اور ریاء کے لیے قیام مکروہ ہےنہ کہ مطلق قیام منع ہے۔اسی طرح اس مفہوم کو بیان کرتے ہوئے محدث امام بیہقی شافعی لکھتے ہیں:
فإنما هى واللّٰه أعلم إذا كان القیام على وجه التعظیم لا التكریم مخافة الكبر.156
بلاشبہ وہ اللہ ہی بہترجانتاہے(کہ حضور کا قیام سے منع کرنا) اس تعظیم کے لیے تھا جس میں تکبر کا اندیشہ ہو نہ کہ تکریم کی وجہ سے۔
اسی طرح امام طبری ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إنما فیه نھى من یقام له عن السرور بذلك لا من یقوم إكراما له.157
اس میں اس کے لیے قیام کرنے سے ممانعت ہے جو اس قیام سے خوش ہوتا ہو اور اس کو منع نہیں فرمایا جو کسی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوتا ہو۔
اسی حوالہ سے امام ابو القاسم عبد الرحمن السہیلی جواز کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وليس هذا بمعارض لحديث معاوية عنه صلى اللّٰه عليه وسلم أنه قال: من سره أن يمثل له الرجال قياما فليتبوأ مقعده من النارويروى: يستجم له الرجال لأن هذا الوعيد إنما توجه للمتكبرين وإلى من يغضب أو يسخط ألا يقام له وقد قال بعض السلف يقام إلى الوالد برا به وإلى الولد سرورا به وصدق هذاالقائل فإن فاطمة رضى اللّٰه عنھا كانت تقوم إلى أبيھا صلى اللّٰه عليه وسلم برا به وكان هو صلى اللّٰه عليه وسلم يقوم إليھا سرورا بھا رضى اللّٰه عنھا، وكذلك كل قيام أثمره الحب فى اللّٰه والسرور بأخيك بنعمة اللّٰه والبر بمن يحب بره فى اللّٰه تبارك وتعالى، فإنه خارج عن حديث النھى واللّٰه أعلم.158
یہ حدیث حضرت معاویہ سے مروی حدیث کے معارض نہیں جس میں ہے "جسے یہ پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے" ایک روایت میں ہے " یستجم لہ الرجال"کیونکہ یہ وعید متکبروں کے لیے ہے یا ان لوگوں کے لیے ہے کہ اگر لوگ ان کے لیے کھڑے نہ ہوں تو وہ غضبناک اور ناراض ہوجائیں۔بعض علمائے سلف نے فرمایا نیکی کی نیت سے والد کے لیے کھڑا ہونا اور خوشی کے اظہار کے طور پر بیٹے کے لیے کھڑا ہونا ٹھیک ہے۔یہ قول اس وجہ سے سچا ثابت ہوجاتا ہے کیونکہ حضرت فاطمہ حضور کو دیکھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں مقصود آپ کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی تھا اور حضور حضرت فاطمہ کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے مقصود ان کی آمد پر خوشی کا اظہار تھا اسی طرح ہر وہ قیام جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کے نتیجہ میں ہو(مسلمان) بھائی پر اﷲ کی نعمت(کی وجہ سے) اس پر خوشی کے اظہار کے طور پر ہو اور اﷲ کی رضا کی خاطر اس کے ساتھ حسن سلوک کے طور پر ہو جو اس حسن سلوک کو پسند کرتا ہو تو یہ جائز ہوگا یہ صورتیں حضرت معاویہ سے مروی حدیث کی نہی سے خارج ہوں گی۔واللہ اعلم۔
انہی احادیث کی تشریح کرتے ہوئےامام ابن الملک حنفی لکھتے ہیں:
وهذا الوعید فیمن سلك فیه طریق المتكبرین لقرینة السرور للمثول واما اذا لم یطلب ذلك وقاموا من تلقاء انفسھم طلبا للثواب والتواضع فلاباس به.159
اوریہ وعید اس کےلیےہے جومتکبروں کاراستہ اختیارکرے۔کھڑےہونےوالےکی تمثیل کرنے والے کے لیےخوشی کےقرینہ کی وجہ سے۔جبکہ اگرآنےوالا اس کی طلب نہ رکھےاوراستقبال کرنےوالےخودبخودثواب کی طلب اورانکساری سےکھڑےہوجائیں تو حرج نہیں۔
اسی طرح اس مفہوم کی تائید میں امام نووی لکھتے ہیں:
قال القاضى عیاض لیس هذا من القیام المنھى عنه وانما ذلك فیمن یقومون علیه وهو جالس و یمثلون له قیاماً طول جلوسه.160
قاضی عیاض نے فرمایا کہ یہ قیام ممنوع قیاموں میں سے نہیں۔ممانعت جب ہے کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوں اور وہ بیٹھا ہو۔ اور لوگ اس کے بیٹھے رہنے تک کھڑے رہیں۔
مذکورہ بالا محدیثین کی عبارات سے واضح ہوا کہ ایسے قیام کی ممانعت ہے جس سے تکبر کا شیبہ ہو نہ کہ مطلق قیام کی ممانعت اور اس مفہوم کی تائید حدیث مبارکہ میں موجود تشبیہ سے بھی ہورہی ہے کہ عجمی اپنے بادشاہوں کے سامنے ان کے تکبر کی وجہ سے بیٹھتے نہیں تھے جس سےنبی مکرم نے روکا ہے ۔وہ قیام جو تکریم و تعظیم کےلیے ہو اس کا تو خود نبی مکرم نے صحابہ کرام کو حکم دیا ہے جیساکہ انصار صحابہ کو حضرت سعد بن معاذ کی تکریم وتعظیم کے لیے قیام کا حکم دیتے ہوئےارشاد فرمایا تھا کہ اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔161ا س سے معلوم ہوا کہ اصل قیام ممنوع نہیں ہے بلکہ وہ قیام ممنوع ہے جس سے تکبر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوجیساکہ عجمی بادشاہوں کےلیے یہ قیام ہوتا تھا۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوا کہ ان دونوں حدیثوں میں خاص قسم کے قیام سے ممانعت ہے جس میں تکبر کا شائبہ ہو جبکہ محافل میلادالنبی کا قیام ان میں سے ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو تعظیم رسول کے سبب ہے جو شرعاً مطلوب ہے۔
نبی کریم نے جو اپنے لیے قیام کو ناپسند فرمایاوہ آپ کی تواضع اور آپ کا انکسار تھاورنہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کی تعظیم کا حکم دیا ہے چنانچہ قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد واضح ہے:
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِه وَعَزَّرُوْه وَنَصَرُوْه وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِى اُنْزِلَ مَعَه اُولٰۗىِٕك همُ الْمُفْلِحُوْنَ157162
پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
سو نبی کریم کی تعظیم کے لیے قیام خواہ آپ کی حیات مبارکہ میں ہو یا بعد از وصال ہو ہر دو صورتوں میں جائز اور مستحب ہے۔پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی کے لیے قیام کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور ان میں اکثر صورتیں متفق علیہ ہیں اور ان کا حکم واضح ہے مثلا ًسردار بیٹھا ہے اور حاضرین تعظیم وتکریم میں مسلسل کھڑے ہیں تو یہ صورت بالاتفاق ناجائز ہے۔اسی طرح آنے والے کے دل میں تکبر وبڑائی ہو اور وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تویہ صورت بھی بالاتفاق ناجائز ہے۔اگر آنے والے کے دل میں تکبر پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے قیام مکروہ ہے۔تاہم کسی آنے والے کے اکرام میں کوئی آدمی کھڑا ہوتا ہے اور آنے والے کے دل میں نہ اپنے لیے اس قیام تعظیمی کی خواہش ہے اور نہ تمنا اس صورت میں جمہور علماء فرماتے ہیں کہ یہ قیام تعظیمی جائز ہے۔
دل میں تکبراور غرور ہونا اور بات ہے اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر غرور اور تکبر نہ آئے تو اس وقت قیام تعظیمی جائز ہے۔ ہاں انسان کو دل میں یہ خواہش قطعاً نہیں رکھنی چاہیے کہ لوگ اس کے سامنے بالکل بے جان ہوکر کھڑے رہیں اگر کوئی اس نیت سے کسی کو کھڑا کرتا ہے یا کسی کا کھڑا ہونا پسند کرتا ہے تو اس وقت اس کے لیے وہی وعید ہے جو حدیث پاک میں ہے۔ اگراس کےبرعکس کسی نے قیام کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کے قیام سے اسے تکبر اور غرور آیا البتہ دوسرے احباب نے فقط اس عزت وبزرگی کی خاطر ایسا کیا تو یہ قیام ہرگز ممنوع نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہے۔
اسی قیام کےحوالہ سے کلام کرتےہوئےامام ابو الولید بن رشد نے قیام کی چار قسمیں بیان کی ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
إن القیام على أربعة أوجه: الأول: محظور، وهو أن یقع لمن یرید أن یقام إلیه تكبرا وتعاظما على القائمین إلیه والثانى: مكروه وهو أن یقع لمن لا یتكبر ولا یتعاظم على القائمین، ولكن یخشى أن یدخل نفسه بسبب ذلك ما یحذر، ولما فیه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز وهو أن یقع على سبیل البر والإكرام لمن لا یرید ذلك، ویؤمن معه التشبه بالجبابرة والرابع: مندوب وهو أن یقوم لمن قدم من سفر فرحا بقدومه لیسلم علیه أو إلى من تجددت له نعمة فیه نیه بحصولھا أو مصیبة فیعزیه بسببھا.163
قیام کی چار قسمیں ہیں:پہلی قسم یہ ہے کہ اس شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا ممنوع ہے جو اپنے تکبر اور بڑائی اور اپنی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں۔دوسری قسم یہ ہے کہ اس شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے جو نہ تو تکبر کرتا ہے اور نہ کھڑے ہونے والوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو لیکن یہ خدشہ ہو کہ وہ بھی ان میں داخل ہوجائے گا جن کے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت ہے۔تیسری قسم یہ ہے کہ اس شخص کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا جائز ہے کہ لوگ نیکی کے قصدسے اور اس کی تکریم کے لیے کھڑے ہوتے ہوں اور اس شخص کا یہ ارادہ نہ ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں اور وہ متکبرین کے ساتھ مشابہت سے مامون ہو۔چوتھی قسم یہ ہے کہ اس شخص کے لیے کھڑا ہونا مستحب ہے جو کسی سفر سے آیا ہو اور اس کے آنے کی خوشی پر اس کے لیے قیام کیا جائے تاکہ اس کو سلام کرےیا جس شخص کو نئی اور تازہ نعمتیں ملی ہوں تو وہ ان نعمتوں کے حصول پر اس کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑا ہویا جو شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی تعزیت کے لیے کھڑا ہو۔
قیام کی اِس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر ذات کے لیے قیام اُس کے مرتبہ کے لحاظ سے جائز ہے۔ شاگرد اپنے استاد کے لیے اَدباً اور تعظیماً کھڑا ہوتا ہے ،میزبان مہمان کے اِستقبال کے لیے کھڑا ہوتا ہے،مرید شیخ کے لیے محبت رکھتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے اور بیٹا باپ کے لیے ادباً کھڑا ہوتا ہے قیام کی یہ تمام صورتیں جائز ہی نہیں حباً واجب ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں پائی جاتی لہٰذا اگر ان تمام ذاتوں کے لیے ادباً تعظیماً، اکراماً اور فرحت محسوس کرتے ہوئے کھڑا ہونا جائز ہے تو پھر حضورا کرم کے لیے بدرجہ اَولیٰ جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ جب مسلمانان عالم آپ کے میلاد پر قیام کرتے ہیں تو یہ محبت، فرحت اور خوشی کے اِظہارکے طور پر کرتے ہیں، ہم اِس گھڑی کو اپنے تصور وتخیل میں رکھتے ہوئے محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور اس دنیائے آب وگل میں تشریف لائے اور اس طرح کا قیام امت مسلمہ کے بڑے اور جلیل القدر ائمہ اسلاف سے ثابت ہے اور اسی وجہ سے مسلمانان عالم کے نزدیک محافل میلاد میں تعظیمی قیام مستحسن جانا جاتاہے۔