عالمِ اسلام کے لیے نہایت خوش آئند بات آج کے دور میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہر مکتبہءِ فکر کا میلاد النبی کے کسی نہ کسی صورت میں انعقاد پر اتفاق ہے۔کوئی اسے "مولود النبی "کےعنوان سے مناتا ہے توکوئی "سیرۃ النبی "کے نام سے،کہیں اس کا نام" محفلِ ذکرِ رسول " کے طور پر لیاجاتا ہے جبکہ کہیں اسے "مجلسِ اسوۂ حسنہ "کے اور کہیں"سیرتِ طیبہ کانفرنس"کے نام سے اس کو منایا جاتا ہے۔ان تمام طریقوں سے منائے جانے والی مجالس میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ذکرِ رسول کے ذریعہ محبت و اطاعتِ رسول کی طرف رغبت دلانا۔الفاظ و اصطلاحات کے اس اختلاف کو اہلِ علم خوب جانتے ہیں لہذا ان کے لیے یہ عنوان کبھی بھی جنگ وجدل اور افتراق وانتشار کا باعث نہیں رہا لیکن مسلمانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گروہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جو خود اپنے آپ کو قرآن و سنت کا حامل سمجھ کر دوسروں کی تکذیب وتردید کو حق وباطل کا معرکہ سمجھتا ہے چنانچہ میلاد النبی پر ایسے چند افراد کی طرف سے یہ اعتراض بھی کیاجاتا ہے کہ جشن ولادت کو عید کیوں کہتے ہو؟جبکہ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں،پہلی عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحیٰ، یہ تیسری عید، عید میلاد النبی کہیں سے ثابت نہیں ہے اور یہ لوگوں کی اپنی اختراع ہے ؟
ربیع الاوّل اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے اور ربیع کے اصل معنی اس موسم سے متعلق ہیں جس میں زمین بارش کی وجہ سے سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے یعنی موسم ِبہار۔ ظاہری طورنسی 1کے مطابق پر چونکہ ابتدائے زمانہ میں کچھ دنوں تک موسمِ بہار اسی مہینہ میں پڑا اس لیے اس کا نام ربیع الاوّل رکھا گیا۔
اس مہینے کا سب سے زیادہ اور بزرگ شرف یہ ہے کہ حضور نے اس مہینہ میں اپنے قدومِ میمنتِ لزوم سے اس خاکدانِ عالم کو مشرف فرمایا۔ جن کے ظہور کے سبب تمام جہاں پیدا کیے گئے اور آپ کی امت" خیرامۃ " کے شرف سے ممتاز فرمائی گئی چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئےامام ملا علی قاری لکھتے ہیں:
بعض ارباب الحال:
لھذا الشھر فی الاسلام فضل
ومنقبة تفوق علی الشھور
فمولود به واسم ومعنی
وآیات بھرن لدى الظھور
ربیع فی ربیع فی ربیع
ونور فوق نور فوق نور.2
ایک صاحبِ حال نے کیا خوب فرمایا ہے۔اسلام میں اس مہینے کو فضیلت اور شان حاصل ہے۔ جو دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ سو اس میں پیدا ہونے والے کا نام بھی محمد (قابل تعریف) اور معنی (ستودہ ذات و صفات) بھی قابل تعریف اور آپ کے ظہور کے وقت کئی نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ بہار میں بہار، بہار میں بہار، اور نور پر نور، نور پر نور۔
اور اسی مہینے میں آپ بقائے الہٰی کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ شرف سب مہینوں پر سبقت لے گیا۔ اس سارے مہینے میں بالعموم اوربارہ ( 12) ربیع الاوّل کو بالخصوص تمام ممالک کے مسلمان میلاد النبی کی تقریب ِسعید مناتے ہیں۔ جگہ جگہ محافلِ میلاد ومجالسِ ذکر ودرود کا انعقاد ہوتا ہے۔ قریہ قریہ عظیم الشان جلوس نکالے جاتے ہیں۔ بڑے وسیع پیمانے پرخیرات ہوتی ہے۔ طعام وشیرینی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ذکرِ مصطفوی کے اعزاز وشوکت کے لیے محافل وجلوس کی زیب وزینت سے بارگاہ رسالت میں عقیدت کے پھول پیش کرکے محبت ونیاز مندی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ علمائے کرام اور صاحب دل عوام سیرت نبوی وتعلیم محمدی کی روشنی سے اپنی گفتار وکردار کو آراستہ کرتے ہیں اور شکر ِخداوندی بجالاتے ہیں۔ انہی وجوہ سے اس تقریب کو لفظاً عید (خوشی) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
دین اسلام انسانوں کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے کہ جس نے انسانوں کے لیے زندگی کے ہر پہلو کو تفصیلی طور پر بیان کردیا ہے ۔ اسی طرح دین اسلام نے مسلمانان عالم کو غیر مسلموں کے مقابلے میں دوبڑے مذہبی تہوار دیے جن کو عید الفطر اور عید الاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان میں خوشی ومسرت کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ان تہواروں کے علاوہ بھی لفظ عید کا اطلاق ہر خوشی ومسرت اور نعمت کے ملنے والے دن پر کیا جاسکتا ہے۔ شرعی مسائل میں ہزاروں تعبیریں ایسی ہیں جن کی معمولی مناسبت کی وجہ سے شرعی اصطلاحات کے الفاظ کا ان پر اطلاق کیا جاتا ہے اور یہ ہر مکتبِ فکر میں جاری وساری ہے۔
عید میلاد النبی کائنات کی سب سے بڑی عید ہے۔ یہ اس ہستی سے نسبت رکھتی ہے کہ اگر وہ نہ ہوتی تو پھر کوئی اور عید بھی نہ ہوتی اور نہ عید منانے والا ہوتا۔جس ہستی کی برکت سے ہمیں وجود نصیب ہوا، دین اسلام،ایمان، قرآن، رمضان اور معبود حقیقی اﷲ سبحانہ کا عرفان نصیب ہوا، جس کی برکت سے عید الفطر اور عید الاضحی اور ان کی خوشیاں نصیب ہوئیں اسی ہستی کی اس دنیا میں تشریف آوری کا دن مسلمانوں کی پہلی اور سب سے بڑی عید اور خوشی کا دن ہے چنانچہ حدیثِ قدسی میں مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مکرم سے ارشاد فرمایا:
لولاك لما خلقت الأفلاك ولما أظھرت الربوبیة.3
اگر آپ (پیدا)نہ(کیے گئے ) ہوتے تو میں کسی جہاں کوپید انہ کرتااور اپنی ربوبیت (رب ہونے) کی شان ہی ظاہر نہ فرماتا۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایا:
إنه آخر النبیین من ذریتك وإن أمته آخر الأمم من ذریتك ولولا هو یا آدم ما خلقتك.4
وہ تیری اولاد میں سے تمام انبیاء میں سے آخری ہے اور اس کی امت تیری اولاد میں سب سے آخری امت ہے اور اے آدم اگر وہ (محمد) نہ (پیدا کیے گئے ) ہوتے تو میں تم کو بھی پیدا نہ کرتا۔
یعنی رسول مکرم کی تخلیق کے سبب عالم و مافیھا وجود میں لائے گئے اور بالخصوص امت محمدیہ کو خیر الامم کے منصب جلیلہ سے نوازا گیا تو یہ مسرت و خوشی آپ کی ولادت کی وجہ سے ہی ظہور پذیر ہوئی لہذا یوم ولادت عید کا دن ہی ہوا۔اسی حوالہ سے شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
پیدائش کی رات کی فضیلت تو ساری کائنات پر ہے کیونکہ آپ کی وہ ذات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سارے جہان کے لیے رحمت بنایا اور اسی ذات مقدسہ کے صدقہ میں ہی تو زمین وآسمان کی تمام مخلوقات پر اﷲ کی نعمتیں عام ہیں۔5
یہ ارشاداتِ مبارکہ اس حقیقت کو ظاہر کررہے ہیں کہ اگر نبی کریم کی تخلیق نہ کی گئی ہوتی تو یہ کائنات ہی معرض وجود میں نہ آتی، کسی انسان کا وجود نہ ہوتا تو کسی عید کا تصور بھی نہ ہوتا۔یہ تمام عیدیں آپ ہی کے طفیل نصیب ہوئی ہیں۔
ذکرِ نعمت اور تحدیثِ نعمت کے علاوہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی عنایات کریمانہ پر شکر کے اظہار کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس خوشی کا اظہار جشن اور عید کے طور پر کیا جائے۔میلاد النبی کو عید کہنے میں کوئی حرج نہیں ہےاور نہ ہی یہ شرعاً ناجائزہےکیونکہ لفظ عید کا اطلاق ہر نعمت کے ملنے والے دن اور بار بار لوٹ کر آنے والی خوشی کے دن پر کیا جاتا ہے۔عید میلاد النبی میں لفظ "عید" لغوی معنی میں مراد ہے یعنی خوشی نہ کہ شرعی معنی میں یعنی حضور اکرم کی ولادت باسعادت کی خوشی کا موقع اور دن بھی ہر سال ایسے ہی واپس لوٹ کرآتی ہے جس طرح ہر سال عید الفطر اور عید الاضحیٰ لوٹ کے آتی ہے۔
عید میلاد النبی اصطلاحی عید نہیں بلکہ عرفی عید ہے۔جہاں تک عید الفطر اور عید الاضحی کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں یہ دو مخصوص ایّام ہیں جن کے احکام وحدود شرعاً متعین ہیں اور اس طرح کی اور کوئی عید نہیں لیکن یہ سمجھنا کہ ان دو عیدوں کے علاوہ اور کہیں لفظ ِعید کا استعمال نہیں کیاجاسکتااورکسی اور جگہ لفظِ عید کا اطلاق عقیدہ اسلام وسنت کے منافی ہے یہ انتہائی سخت غلطی ہے۔
مسلمان عام طور پر عید کا لفظ اکثر مواقع پر بولتے ہیں حتیٰ کہ وہ چند افراد جو اس کے قائل نہیں وہ بھی " عید میلاد النبی "کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ یہ عرفاً استعمال کیا جاتا ہے۔ عید میلاد النبی بھی اسی طرح کی عید ہے نہ تو اس میں کوئی نماز عیدادا کی جاتی ہے اور نہ ہی اس میں روزہ رکھنا حرام ہے جیساکہ لفظ "جہاد"کی اصطلاح امت مسلمہ میں کفار سے قتال کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے تو کیا "جہاد بالقلم" اور" جہاد باللسان" جیسی اصطلاحیں ایجاد کرنا بھی دین کی تحریف میں شامل ہیں؟ اسی طرح "قیام" کا لفظ نماز میں کھڑے ہونے کی حالت کے لیے مخصوص ہے تو کیا نماز کے علاوہ کھڑے ہونے کی حالت پر "قیام" کا اطلاق کرنا بھی دین میں تحریف ہے؟ علاوہ ازیں سینکڑوں اصطلاحات ایسی ہیں جو ایک مقام پر حقیقتاً اور دوسرے مقام پر مجازاً استعمال ہوتی رہتی ہیں اورآج تک کسی اہلِ علم نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ اسی طرح میلاد النبی پر لفظ" عید "کا اطلاق کرنا ہے جو کہ ہرگز خلافِ شرع نہیں ہے۔
شریعت مطہرہ میں ہزاروں شرعی اصطلاحات کا استعمال غیر اصطلاحی معنوں میں ہوتا ہے جن میں صرف لفظاًاشتراک ہوتا ہے اور ذرہ برابر بھی احکام متعلقہ کا ان پر اجراء نہیں ہوتامثلاً:
ان مذکورہ شرعی اصطلاحات کا غیر شرعی معنوں پر اطلاق یہ واضح کررہا ہے کہ کسی چیز سے مناسبت کی وجہ سے شرعی اصطلاحی الفاظ کا ان پر اطلاق درست ہے اور میلاد النبی پر لفظ"عید" کا اطلاق بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے جو کہ مسلمانوں میں عُرفاً رائج ہے۔
جشنِ میلاد النبی عیدِ شرعی ہے نہ ہی کوئی مسلمان اِسے عید شرعی سمجھتاہےالبتہ یہ عید شرعی سے بھی زیادہ عظمت اور کئی گنا زیادہ قدر ومنزلت والا دن ہے۔ اِس لیے اس دن خوشیاں منانا ایک فطری عمل ہے اور اگر اسے عید مسرت بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ عید میلاد النبی تو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہیں جب کہ محافل میلاد اور آپ کے ذکر اور سیرت کا بیان سال بھر جاری رہتا ہے، اس میں زمان ومکان کی کوئی قید نہیں۔ مگر حضور کی ولادت باسعادت کے دن کو عید کا نام اِس لیے دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ہر بڑی خوشی اور فرحت کے اِظہار کے لیے لفظِ عید استعمال کرتے ہیں۔
یومِ میلادالنبی معروف میں عید کا دن ہے جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے! آپ کا ملنا عید ہے! عربی زبان کا یہ شعر اس معنی کی صحیح عکاسی کرتا ہے:
عید وعید وعید صرن مجتمعة
وجه الحبیب وعید الفطر والجمعة.6
ہمارے لے تین عیدیں اکھٹی ہوگئی ہیں محبوب کا چہرہ، عید الفطر اور یومِ جمعہ۔
حضور نبی کریم کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عید نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ میلاد النبی منانے والوں کےنزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں عید الفطر اور عید الاضحی اور عید میلاد یہ شرعا نہیں ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ "یوم میلاد النبی "کو عید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عید کا لفظ خوشی اور مسرت پر بولا جاتا ہے۔ جس طرح کسی آدمی کو مال ودولت اور اولاد وکاروبار مل جائے تو بولتے ہیں آج اس کی عید ہوگئی۔ معلوم ہوا خوشی اور مسرت والے دن کو عید کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح لغت اور مفسرین ومحدثین کی کتب میں بھی اس کا ذکر موجود ہے چنانچہ علامہ سیّد محمود آلوسی لکھتے ہیں:
ویطلق على نفس السرور العائد.7
یعنی ہر لوٹنے والی خوشی کو عید کہا جاتا ہے۔
حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی لکھتے ہیں:
والعید السرور بعد الغم وقیل یوم السرور.8
یعنی غم کے بعد خوشی ملنے کو عید کہتے ہیں اور خوشی والے دن کو بھی عید کہا جاتا ہے۔
اسی طرح امام خازن فرماتے ہیں:
والعید یوم السرورسمى.9
خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اسی حوالہ سے امام بغوی لکھتے ہیں:
والعید: یوم السرور وسمى به للعود من الفرح إلى الفرح وهو اسم لما اعتدته ویعود إلیك وسمى یوم الفطر والأضحى عیدا لأنھما یعودان فى كل سنة.10
عید کا معنی خوشی کا دن ہے اسے عید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک خوشی سے دوسری تک لوٹاتاہے۔جسے ایک وقت کے لیے مقرر کیا جائے اور وہ بار بار لوٹے اسی کا نام عید ہے۔ اور یوم فطر اور اضحی کو بھی اسی لیے عید کہا جاتا ہے کہ یہ دن ہر سال لوٹتے ہیں۔
اسی حوالہ سے علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
العید مشتق من العود فكل عید یعود بالسرور.11
عید عود (لوٹنے) سے مشتق ہے اور ہر عید سرور(خوشی) کے ساتھ لوٹتی ہے۔
امام ملا علی قاری اس لفظ کے استعمال کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
یستعمل العید فى كل یوم فیه مسرة.12
عید کا لفظ ہر اس دن کے لیے بولا جاتا ہے جس میں کوئی خوشی ہوتی ہے۔
اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئےعلامہ ادریس کاندھلوی لکھتے ہیں:
سمى العید عیدا لأنه یعود كل سنة بفرح جدید.13
عید کا نام عید اس وجہ سے رکھا جاتا ہے کہ وہ ہر سال نئی خوشی کے ساتھ لوٹتی ہے۔
المعجم الوسیطمیں اس حوالہ سے یوں منقول ہے:
(العید)كل یوم یحتفل فیه بذكرى كریمة أو حبیبة.14
عید ہر وہ دن ہے جس میں کریم یا محبوب شخصیت کی یاد میں محفل منعقد کی جائے۔
ان عبارات سے یہ واضح ہوا کہ عید کا اطلاق ہر خوشی ومسرت والے دن پر ہوتا ہے اور وہ دن کہ جس دن کوئی نعمت ملی ہو یا کسی بڑے واقعہ کی یادگار منائی جاتی ہے اس کو عید کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا حضور کی ولادت باسعادت سے بڑھ کر کائنات کو کون سی بڑی نعمت ملی ہے لہذا اس کو عید میلاد النبی کہنا بالکل جائز ودرست ہے اور یہ دین اسلام میں کوئی زیادتی نہیں۔ نیز میلاد النبی کو لفظ عید سے تعبیر کرنا شرعاً کوئی ناجائز نہیں کیوں کہ شریعت اسلامیہ میں ایسی درجنوں مثالیں ملتی ہیں کہ جن پر لفظ عید کا اطلاق ہوا ہے چنانچہ ابوالقاسم امام راغب اصفہانی عید کی تعریف بیان کرنے کے بعد اس پر دلیل دیتے ہوئے درج ذیل آیت کو بطور استشہاد ذکرکرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وعلى ذلك قوله تعالى: أَنْزِلْ عَلَیْنا مائِدَة مِنَ السَّماء ِ تَكونُ لَنا عِیداً.والعید: كل حالة تعاود الإنسان والعائدة: كل نفع یرجع إلى الإنسان من شىء ما.15
اس ضمن میں اﷲعزوجل کا (حضرت عیسیٰکی دعا سے متعلق) ارشاد ہے کہ ہم پر آسمان سے خوان (کھانا)اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لیے )عید ہو ۔ عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور "العائدۃ" ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو۔
علامہ راغب اصفہانی کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں جو لوٹ لوٹ کر آئے اورجس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو،یاجس میں اﷲعزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو اور اسی طرح جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو اس کو عید سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
بارہ(12) ربیع الاوّل کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں کہ ایک مسلمان کے لیے حضور نبی کریمکے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ(12) ربیع الاوّل کو عید کا دن قرار دیا جانا درست ہے۔
نعمت وفرحت کے حصول کا دن بلاشبہ عید کا دن ہے جس کا ثبوت قرآن کریم میں موجود ہے ۔پہلی امتوں میں بھی ادائے شکر کا یہ طریقہ تھا کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی کوئی خاص نعمت میسر آئے تو سابقہ امتیں اس دن کو بطور عید مناتی تھیں اورخوشی والے دن کو عید کہنے کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ جس طرح حضرت عیسیٰ نے اﷲ کی بارگاہ میں جب دعا مانگی کہ ہمارے لیے آسمان سے پکاپکایا کھانا نازل فرما! اور جس دن وہ کھانا اُترے گا وہ دن ہماری عید کا دن ہوگا۔حضرت عیسیٰ کی اس دعا کا ذکر کرتےہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰھمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَةمِّنَ السَّمَاۗءِ تَكوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَة مِّنْك ۰ۚ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ114.16
عیسیٰ ابن مریم () نے عرض کی: اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
امام طبری اس دعا کا معنی بیان کرتے ہوئے امام سدی کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
تكون لنا عیدًا لأولنا وآخرنا یقول: نتخذ الیوم الذى نزلت فیه عیدًا نعظِّمه نحن ومن بعدنا.17
جس دن مائدہ نازل ہو اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے ہم بھی اس دن عید منائیں اور ہمارے بعد آنے والے لوگ بھی۔
واضح ہوا کہ عید کا اطلاق ہر خوشی ومسرت والے دن پر ہوتا ہے اور وہ دن کہ جس دن کوئی نعمت ملی ہو یا کسی بڑے واقعہ کی یادگار منائی جاتی ہے اس کو عید کہہ سکتے ہیں۔
اس آیتِ کریمہ میں موجود جملہ "تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا" سے ثابت ہوا کہ جو نعمت ایک بار نصیب ہوجائے اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہر سال خوشی وفرحت کا اظہار شرعاً جائز ہے۔ مثلاً مائدہ یعنی دسترخوان تو ایک بار آیا مگر حضرت عیسیٰ نے ہمیشہ کے لیے اس دن کو عید قرار دیا۔اسی طرح قرآن مجید ایک بار ماہ رمضان میں اترا اورایک ہی بارشب قدر میں اس کا نزول ہوا مگر تا قیامت یہ ماہ اور رات تاریخی بن گئی اوراس میں عبادات کی جاتی ہیں جس کا ثواب عام ماہ اور عام رات سے کئی گنا زیادہ ہے۔اسی تناظر میں عیدمیلادالنبی کاسالانہ منانا بھی ہے شرعی طور پر درست ہے۔
یہاں مائدہ کی نعمت پر حضرت عیسیٰ ابن مریم اپنی امت کو عید منانے کا حکم فرماتے ہیں جبکہ آمد مائدہ کی فخر کائنات اصل الموجودات حضرت محمد مصطفی کی آمد سے کیا نسبت ہے۔ کہاں آسمانی کھانوں کے دسترخوان کا اترنا اور کہاں مقصود تخلیق کائنات کا دنیا میں تشریف لانا۔ جب عمومی نعمتوں کے نزول پر عید منانا انبیاء کی سنت اور اﷲ کے حکم کی پیروی قرار پائی تو اس نعمت عظمیٰ کے حصول پر یہ امت عید ِسعید کیوں نہ منائے جس کے توسط سے کائنات ہست وبود کو یہ ساری نعمتیں عطا ہوئی ہیں۔
پھر ہمارے نبی تو رحمۃ للعالمین ہیں اور خاتم النبیین ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دین اور آپ کی رحمت نے قیامت تک جاری و ساری رہنا ہے لہذا اس پر تو جتنا بھی مسرت کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔
اس حوالہ سے خود امام طبری اس دعا کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تكون لنا عیدا، نعبد ربنا فى الیوم الذى تنزل فیه ونصلى له فیه، كما یعید الناس فى أعیادهم.18
نزولِ خوان کا دن ہمارے لیے عید ہوجائے اس دن ہم اپنے رب کی عبادت کریں جس میں خوان نازل ہوا اوراس میں ہم اس کےلیےنمازپڑھیں۔ اسی طرح اس دن کو نمازپڑھ کر منائیں جیسےلوگ اپنی عیدوں میں کرتےہیں۔
اس آیت کے تحت امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:
ونزلت یوم الأحد فاتخذہ النصارى عیدا.19
وہ کھانا اتوار کے دن نازل ہوا تو عیسائیوں نے اس دن کو عید بنالیا۔
حضرت عیسیٰ ابن مریم کی مراد یہ تھی کہ وہ نزولِ مائدہ کا دن بہ طورِ عید منائیں اس کی تعظیم و تکریم کریں اﷲ کی عبادت کریں اور شکر بجالائیں۔اس سے یہ اَمر بھی مترشح ہوا کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہوتی ہے اس دن شکر الہٰی کے ساتھ اِظہار مسرت کرنا، عبادت بجالانا اور اس دن کو عید کی طرح منانا طریقہ صالحین اور اہل اﷲ کا شیوہ رہا ہے ۔ امام الانبیاء محسنِ انسانیت حضرت محمد کی اس دنیائے آب وگل میں تشریف آوری کا دن خدائے بزرگ وبرترکی عظیم ترین نعمت اور رحمت کے نزول کا دن ہے کیوں کہ اسے خود اﷲ نے نعمت قرارد یاہے۔ اس لیے حضور نبی کریم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا، شکر الہٰی بجالانا اور اِظہار مسرت وشادمانی کرنا انتہائی مستحسن ومحمود قول ہے اور یہ ہمیشہ سے مقبولانِ الہٰی کا طریقہ رہا ہے۔معلوم ہواکہ ہر خوشی والے دن کو عید کہا جاتا ہے کیونکہ جب ہر چھوٹی موٹی خوشی پر عید کا لفظ بولا جاسکتا ہے تو محبوب کے ملنے پر لفظ عید کیوں استعمال نہیں کیا جاسکتا؟ جب آسمان سے کھانا اترے تو عید بن جائے جب سرورکائنات تشریف لائیں تو وہ دن عید کیوں نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سابقہ امت کی بات ہے جو ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے تو یہ بات بھی لاعلمی پر مبنی ہوگی کیونکہ سابقہ امتوں کی وہ بات جو بغیر تردید کے اسلام نے بیان کی وہ بھی ہمارے لیے حجت ہے۔سابقہ اُمم کی فقہ کے ہم مکلف نہیں لیکن ان کے مسائل واَدلہ ہم اپنے مسائل پر منطبق کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ شریعت اسلامیہ کے منافی نہ ہوں۔جہاں تک بنی اسرائیل سے نقل کا مسئلہ ہے یہ مطلقاً منع نہیں اس میں تفصیل ہے۔ جو مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو اس کو بیان کرنا اور استدلال کرنا درست ہے ہاں اگر وہ مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف ہو تو پھر اس کو نقل کرنا اور بطور استدلال پیش کرنا جائز نہیں چنانچہ مسنداحمد میں حضرت ابوسعید خدری کی روایت میں یوں منقول ہے :
و حدثوا عن بنى اسرائیل ولا حرج.20
اور بنی اسرائیل کے حوالے سے بھی بیان کرسکتے ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔
سیّد احمد حسن دہلوی کی تفسیر"احسن التفاسیر" کے مقدمہ میں ہے کہ صحیح بخاری میں عبداﷲ بن عمرو بن العاص سے جو روایت ہے اس میں اہل کتاب سے اس طرح کی روایت لینے کی اجازت ہے کہ جو قرآن کے موافق ہو۔21
اسی حوالہ سے ماہنامہ " البلاغ" میں عبد الشکور کشمیری لکھتے ہیں کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ کی شریعت کا ہے، امت محمدیہ کے حق میں اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا لیکن معلوم ہونا چاہئیے کہ پہلی امتوں کو جن شرائع اور احکام کی ہدایت کی گئی ہے قرآن نے ان کو نقل کیا ہے وہ ہمارے حق میں بھی معتبر ہیں اور ان کی اقتداء کرنے کا امر ہم کو بھی ہے جب تک کہ خاص طور پر ہمارے پیغمبر یا ہماری کتاب اس حکم سے علیحدہ نہ کرے۔ سابقہ شریعتوں کے جو احکام قرآن پاک میں ذکر کیے گئے ہیں اگر ان کو نقل فرمانے کے بعد کسی قسم کی کوئی نکیر نہیں فرمائی تو ان احکام کی اتباع امت محمدیہ پر بھی واجب اور ضروری ہے اور جن احکام کو ذکر کے ساتھ اس کی تردید کی ہے ان کی اتباع ہم پر واجب نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا حرام ہے۔ 22
اس طرح اہل اسلام کی عید کے متعلق بیان کرتے ہوئےامام اسماعیل حقی لکھتے ہیں:
إن الأعیاد أربعة لأربعة أقوام أحدها عید قوم إبراهیم كسر الأصنام حین خرج قومه إلى عید لھم والعید الثانى عید قوم موسى وإلیه الإشارة بقوله تعالى فى سورة طه قالَ مَوْعِدُكمْ یَوْمُ الزِّینَة والعید الثالث عید قوم عیسى وإلیه الإشارة بقوله تعالى رَبَّنا أَنْزِلْ عَلَیْنا مائِدَة الآیة والعید الرابع عید أمة محمد وهو ثلاثة عید یتكرر كل أسبوع وعیدان یأتیان فى كل عام مرة من غیر تكرر فى السنة فأما العید المتكرر فھو یوم الجمعة وهو عید الأسبوع.23
چار عیدیں چار قوموں کو نصیب ہوئیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم کی عید کہ جب وہ عید کے لیے چلے گئے تو حضرت ابراہیم نے ان کے بت توڑ ڈالے۔حضرت موسیٰ کی قوم کی عید، ان کی عید کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ طہ میں فرمایا"مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّینَۃِ"۔حضرت عیسیٰ کی قوم کی عید، اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا"رَبَّنا أَنْزِلْ عَلَیْنا مائِدَۃً"۔ نبی اکرم کی امت کی عید جو کہ تعداد میں تین عیدیں ہیں۔ ہر ہفتہ میں ایک عید یعنی یوم الجمعہ،سال میں دو دفعہ یعنی عید الفطر اورعید الاضحی۔
امام اسماعیل حقی نے عید کی علت غائی بھی بتادی اور ساتھ ہی یہ بھی ظاہر فرمادیا کہ پہلے ادوار میں عیدین مقرر ہوئیں تو کیوں؟ معلوم ہوا کہ شرعی اصطلاحی الفاظ کا دوسری نیکیوں بالخصوص جن امور کا کسی نعمت سے تعلق ہوان پر اطلاق ہوسکتا ہے جیسے جمعہ کوتیسری عید کہا گیاہے۔پھر اسی آیت کی تفسیر کے آخر میں اسماعیل حقی لکھتے ہیں:
وقد قیل كل یوم كان للمسلمین عیدا فى الدنیا فھو عید لھم فى الجنة یجتمعون فیه على زیارةربھم ویتجلى لھم فیه فیوم الجمعة فى الجنة یدعى یوم المزید ویوم الفطر والأضحى یجتمع أهل الجمعة فیھما للزیارة هذا لعوام أهل الجنة وأما خواصھم فكل یوم لھم عید یزورون ربھم كل یوم مرتین بكرة وعشیا والخواص كانت أیام الدنیا كلھا لھم أعیادا فصارت أیامھم فى الآخرة كلھا أعیادا وأما أخص الخواص فكل نفس عید.24
بعض علماء کہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان کا ہر دن جو یوم عید تھا، جنت میں بھی وہی دن اہل اسلام کے لیے عید کا دن مقرر کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اسی دن اہل اسلام اﷲ تعالیٰ کی زیارت کے لیے جمع ہوں گےاور اس دن اﷲ تمام کو اپنے جلوہ سے نوازے گا۔ بہشت میں جمعہ کو یوم المزید کہا جائے گا پھر وہ اہل جمعہ یوم الفطرو الاضحی بھی اﷲ تعالیٰ کی زیارت کے لیے حاضر ہوں گے۔ یہ اہل جنت کی عوام کےلیےہوگااور خواص کا تو ہر دن عید کا دن ہوگا وہ ہر صبح وشام اﷲ تعالیٰ کی زیارت سے سرشار ہوں گے۔ اس لیے کہ ایام دنیا کا ہر دن ان کے لیے یوم عید تھا تو آخرت میں بھی ان کا ہر دن یوم عید ہوگا اور اخص الخواص کا تو ہر لمحہ عید ہوگا۔
اس عبارت میں صاحب روح البیان نے دو سے زائد عیدیں ذکر فرمائیں ہیں اورنہ صرف ایک کا اضافہ کیا بلکہ لاکھوں اور ان گنت عیدوں کا ثبوت فراہم فرمادیاہے۔جس سے یہ بات واضح ترہوجاتی ہے کہ عید کا لفظ عیدین کے علاوہ استعمال کیا جاسکتا ہے بالخصوص کسی نعمت باری تعالیٰ کے ملنے والے دن پر لہذا یوم میلاد النبی پر عید کا اطلاق روا اور مباح ہے جس کی تائید مذکورہ عبارت سے ہورہی ہے۔
اسی طرح ابو اللیث ثمر قندی اپنی سند سےحضرت انس بن مالک سے روایت کرتےہوئے مسلمانوں کی عیدوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
للمؤمنین خمسة أعیاد الأول كل یوم یمر على المؤمن ولا یكتب علیه ذنب فھو یوم عیده. والثانى: الیوم الذى یخرج فیه من الدنیا بالإیمان والشھادة العصمة من كبد الشیطان فھو یوم عیدہ. والثالث: الیوم الذى یجاوز فیة الصراط ویأمن من أحوال القیامة ویخلص من أیدى الخصوم والزبانیة فھو یوم عیده. والرابع: الیوم الذى یدخل الجنة ویأمن من الحجیم فھو یوم عیدہ. والخامس: الیوم الذى ینظر فیه إلى ربه فھو یوم عیده.25
مومنوں کے لیے پانچ عیدیں ہیں۔ (1)مومن پر دن گزرے اور اس کے(نامہ اعمال میں کوئی) گناہ نہ لکھے جائیں وہ اس کے لیے عید کا دن ہے۔ (2) دنیا سے ایمان اور شہادت کے ساتھ اور شیطان کے مکرو فریب سے محفوظ روانہ ہو وہ بھی اس کے لیے عید کا دن ہے۔ (3) پل صراط سے گزرے اور قیامت کے ڈر اور دشمنوں کے ہاتھ اور زبانوں سے مامون رہے۔وہ دن اس کے لیے عید ہے۔ (4) جنت میں داخل ہو اور جہنم سے مامون ہو وہ دن اس کے لیے عید ہے۔ (5) جس میں اپنے رب کا دیدار کرے وہ دن اس کے لیے عید ہے۔
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہو اکہ یہ کہنا کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں یہ درست نہیں اس لیے کہ ان دونوں عیدوں "عید الفطر اور عید الاضحیٰ" کے علاوہ بھی کئی دوسرے دنوں کے لیے قرآن وحدیث میں عید کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
"عَرَفَۃ"عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ "ع ر ف"سے بنا ہےاوریہ لفظ کسی چیز کے آثار میں تفکر اور تدبر کے ساتھ اس کی شناخت اور ادراک کے معنی میں آتا ہے۔عرفہ کا نام سرزمین عرفات یعنی مکّہ مکرّمہ کی وہ جگہ جہاں حاجی توقف کرتے ہیں اس سے ماخوذ ہے اور عرفات کو اس لیے عرفات کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑوں کے درمیان ایک مشخص اور شناخت شدہ زمین ہے ۔عرفہ کادن اورعرفات کامیدان وہ بابرکت زمان اورمکان ہیں جہاں اﷲتعالیٰ کی جانب سے حضور نبی مکرم پر خوشخبری نازل ہوئی تھی کہ اسلام بحیثیتِ دین کے مکمل اورامت پرشریعت کی تکمیل کی عظیم نعمت پوری ہوئی۔اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں اس حوالہ سے یوں ارشاد فرماتا ہے:
اَلْيَوْمَ اَكمَلْتُ لَكمْ دِيْنَكمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكمْ نِعْمَتِى وَرَضِيْتُ لَكمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.26
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔
اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو تین خوش خبریاں سنائی گئیں ۔تکمیل دین، تکمیل قرآن اور ا ﷲتعالیٰ کا دین اسلام پسند کرنا۔ ان خوش خبریوں سے پہلے ہی مسلمان ان وجوہ کی بنا پر سرشار تھے کہ وہ حضوراکرم کے ساتھ حج کررہے تھے،پھر حج بھی جمعہ کے دن تھا اور آیت کریمہ کے نزول کی جگہ عرفات کا میدان تھا۔خاتم الانبیاء نے خطبہ حجۃ الوداع یہیں ارشاد فرمایا تھا اور اسی دوران آپپر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی تھی۔اسی آیت کریمہ کے بارے میں حضرت عمر فرماتے ہیں:
ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے جب یہ آیت نبی اکرم پرنازل ہوئی۔ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی کریم عرفہ میں تھے چنانچہ امام بخاری نے طارق بن شہاب سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
أن أناسا من الیھود قالوا: لو نزلت هذه الآیة فینا لاتخذنا ذلك الیوم عیدا فقال عمر: أیة آیة؟ فقالوا: (الیوم أكملت لكم دینكم وأتممت علیكم نعمتى ورضیت لكم الإسلام دینا) فقال عمر: إنى لأعلم أى مكان أنزلت أنزلت، ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم واقف بعرفة.27
چند یہودیوں نے کہا کہ اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن عید منایا کرتے۔ حضرت عمر نے فرمایا، کون سی آیت؟ انہوں نے کہا "الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی" ،آج میں نے تم پر اپنے دین کو مکمل کیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول میدانِ عرفات میں کھڑے ہوئے تھے (یعنی حجۃ الوداع میں)۔
اسی طرح صحابی رسول حضرت کعب الاحبار جو اہل ِکتاب کے بڑے عالم تھے وہ ایک دفعہ حضرتِ عمر فاروق سے کہنےلگے کہ میں ایسی قوم کوجانتا ہوں کہ اگر قرآن کی ایک آیت ان میں نازل ہوتی تو وہ اس دن کو بطورِ عید مناتے چنانچہ روایت میں منقول ہے:
عن كعب الأحبار قال: قلت لعمر بن الخطاب: إنى لأعرف قوما لو نزلت عليھم هذه الآية لنظروا إلى يوم نزلت فيه اتخذوه عيدافقال عمر: أى آية؟ فقال: اليوم أكملت لكم دينكم إلى آخر الآية فقال عمر: إنى لأعرف فى أى يوم أنزلت: اليوم أكملت لكم دينكم يوم جمعة يوم عرفة وهخا لنا عيدا.28
حضرت کعب الاحبار سے مروی ہے کہ بلا شبہ میں ایک ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ ضروراس دن کو دیکھتے جس دن یہ نازل ہوئی ہے اور اس دن کو عید مناتے۔حضرت عمر نے دریافت فرمایاکونسی آیت؟تو حضرت کعب الاحبار نےکہا: الیوم اکملت لکم دینکم29 یہ آیت۔حضرت عمر نے فرمایا :میں یقیناً جانتا ہوں کہ الیوم اکملت لکم دینکم یہ آیت کب نازل ہوئی ہے۔یہ آیت جمعہ کے دن یومِ عرَفہ میں نازل ہوئی ہے اور یہ دونوں ہی ہمارے لیے عید ہیں۔ 30
مذکورہ بالا روایت کو ابن جریر31اور ابن ِکثیردونوں حضرات نے بھی نقل کیا ہے۔ 32 انسانیت پر رب کی نعمتیں تو ان گنت ہیں پر "دین حنیف"تاریخ انسانی کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کے کامل ہونے کا مقام میدان عرفات ہے اسی وجہ سے حضرت عمر نے اس کو عید کہا۔
اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ بے شک ہم نے اس دن کو نظر انداز نہیں کیا۔ہم پر اس کے نزول کا وقت اور اس کے نزول کی جگہ پوشیدہ نہیں ہے بلکہ ہم نے اس کے متعلق تمام امور کو یاد رکھا ہواہے۔ حتیٰ کہ نبی کریم کی اس کے نزول کے وقت کی حالت کو بھی جانتے ہیں کہ آپ اس وقت کھڑے تھے۔شیخ قسطلانی مزید تحریر فرماتے ہیں:
فقد اتخذنا ذلك الیوم عیدًا وعظمنا مكانه.33
پس ہم نے اس دن کو عید بنایا ہوا ہے اور اس جگہ کی بھی تعظیم کرتے ہیں۔
اسی طرح اس حدیث کی شرح میں امام بدرالدین عینی لکھتے ہیں:
معناہ: أنا ما تركنا تعظیم ذلك الیوم والمكان أما المكان فھو عرفات وهو معظم الحج الذى هو أحد أركان الإسلام وأما الزمان فھو یوم الجمعة ویوم عرفة وهو یوم اجتمع فیه فضلان وشرفان ومعلوم تعظیمنا لكل واحد منھما فإذا اجتمعا زاد التعظیم فقد اتخذنا ذلك الیوم عیدا.34
اس کا معنی یہ ہے کہ ہم اس جگہ اور دن کی تعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ جگہ عرفات ہےجوحجاج کے لیے بہت عظمت والی جگہ ہے جہاں حج کا سب سے بڑا رکن ادا ہوتا ہے اور وقت جمعہ کا دن اور عرفات کا دن تھا اور وہ ایسا دن ہے جس میں دو فضل اور دو شرف جمع ہوگئے ۔ ان دونوں کی تعظیم واضح ہے۔ جب اس میں دو شرف وفضل جمع ہوگئے تو اس کی تعظیم میں اضافہ ہوگیا تو ہم نے اس دن کو عید بنالیا۔
اسی طرح س حدیث کے تحت امام نووی لکھتے ہیں:
ومراد عمررضى اللّٰه عنه إنا قد اتخذنا ذلك الیوم عیدامن وجھین فإنه یوم عرفة ویوم جمعة وكل واحد منھما عید لأهل الإسلام.35
حضرت عمر کی مراد یہ ہے کہ ہم نے اس دن کو دو وجہوں سے عیدبنایا ہے، کیونکہ وہ عرفہ اور جمعہ کا دن ہے اور یہ دونوں مسلمانوں کے لیے عید کے دن ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت حضرت عمار بن ابی عمار سے بھی مروی ہے جس میں وہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قرأ ابن عباس: "الیوم أكملت لكم دینكم وأتممت علیكم نعمتى ورضیت لكم الإسلام دینا"وعندہ یھودى فقال: لو أنزلت هذہ علینا لاتخذنا یومھا عیدا قال ابن عباس: فإنھا نزلت فن یوم عیدین فن یوم جمعة ویوم عرفة.36
حضرت ابن عباس نے آیت"الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا" پڑھی، ان کے پاس ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: اگر یہ آیت ہم (یہودیوں) پر نازل ہوئی ہوتی تو جس دن یہ آیت نازل ہوئی ہے اس دن کو ہم عید (تہوار)کا دن بنا لیتے یہ سن کر ابن عباس نے کہا: یہ آیت دوعیدوں ہی کے دن نازل ہوئی ہے۔ اس دن جمعہ اور عرفہ کا دن تھا (اور یہ دونوں دن مسلمانوں کی عید کے دن ہیں) ۔
معلوم ہوا کہ جس دن کوئی شرف اور فضل آجائے وہ دن تعظیم والا بن جاتا ہے اور اسے عید قرار دینا درست ہے۔ تو رسول کریم سراپا فضل اور پیکرِ شرف ہیں لہٰذا آپ کی تشریف آوری کے دن کی تعظیم بھی صحیح ہے اور اسے عید قرار دینا بھی مستحسن ہے۔
صحابہ کرام نے مختلف مسرت وخوشی کے مواقع کے لیے عید کا لفظ استعمال کیا ہےجن میں مذکورہ مواقع کے ساتھ ساتھ جمعہ کا دن، عرفہ کادن اور دیگر ایام بھی شامل ہیں۔عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ بھی لفظ عید کا اطلاق دوسرے ایام پر کیا جانا مروی ہے چنانچہ حضرت ابن عبا س سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
إن هذا یوم عید جعله اللّٰه للمسلمین فمن جاء إلى الجمعة فلیغتسل وإن كان طیب فلیمس منه وعلیکم بالسواک.37
جمعہ عیدکادن ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے مسلمانوں کے لیے مقرر کیا ہے، پس جو نمازِ جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہیے کہ وہ غسل کرلے او ر خوشبو لگائے اور تم مسواک کرنے کو لازم کرلو !۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
یوم الجمعة عید فلا تجعلوا یوم عیدكم یوم صیامكم إلا أن تصوموا قبله أو بعده.38
جمعہ کا دن عید کا دن ہے اس لیے اپنی عید کے دن کو روزہ کا دن مت بناؤ البتہ اس کے بعد یا پہلے بھی روزہ رکھو (توٹھیک ہے)۔ 39
ایک دفعہ عید جمعہ کے روز ہوئی تو نبی کریم نے صحابہ کرام سے فرمایا آج کے دن تمہارے لیے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
قد اجتمع فى یومكم هذا عیدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون.40
آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے (صرف عید پڑھ لے کہ یہی نماز) جمعہ کی جگہ پر بھی کفایت کرے گی جبکہ ہم لوگ دونوں نمازیں پڑھیں گے۔ 41
اسی طرح حضرت زید بن ارقم سے اسی بارے میں سوال کیاگیا چنانچہ مروی ہے:
هل شھدت مع رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم عیدین اجتمعا فى یوم؟ قال: نعم قال: كیف صنع؟ قال: صلى العید، ثم رخص فى الجمعة فقال: من شاء أن یصلى فلیصل.42
کیا آپ نے رسول اﷲ کے ہمراہ ایک دن میں اکٹھی دو عیدیں پائیں؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ سائل نے پوچھا کہ رسول اﷲ نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے عید کی نماز پڑھادی اور جمعہ کی رخصت دے دی اور فرمایا جو پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔ 43
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
یا معشر المسلمین، إن هذا یوم جعله اللّٰه عیدا. 44
اے گروہ مسلمین! بے شک اﷲ تعالیٰ نے اس دن کو عید بنادیا ہے۔
ان روایات سے واضح ہواکہ جمعۃ المبارک کے دن کو بھی نبی مکرم نے عید کا دن کہا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ عید کا اطلاق عیدین کے علاوہ بھی ہر اس دن پر کیا جاسکتا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی نعمت میسر آئی ہو۔
اسی جمعۃ المبارک کے دن کے بارے میں یہ بھی منقو ل ہے کہ یہ دن صرف عید ہی نہیں بلکہ دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الاضحی) سے افضل بھی ہے چنانچہ حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
إن یوم الجمعة سیّد الأیام وأعظمھا عند اللّٰه وهو أعظم عند اللّٰه من یوم الأضحى ویوم الفطر.45
جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اﷲ کے ہاں تمام دنوں سے عظیم ہے اور یہ اﷲ کے ہاں یوم الاضحی اور یوم الفطر دونوں سے افضل ہے۔
یعنی یہ اعتراض کہ اسلام میں دو ہی عیدیں ہیں یہ تو دور رہا بلکہ جمعۃ المبارک کو عید کے ساتھ ساتھ افضل دن کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ عیدین سے بھی بڑھ کر جمعۃ المبارک کا مقام ومرتبہ ہے۔
احادیث مبارکہ میں اس چیز کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ جمعہ کو یہ فضیلت اس لیے ملی ہے کہ اس میں عبادت الہٰی کے لیے حضرت آدم کی تخلیق ہوئی۔ باقی دنوں میں دیگر ان اشیاء کو پیدا کیا گیا جن سے انسان استفادہ کرتا ہے اور اس روز خود انسان کو پیدا کیا گیا تو نعمت وجود (جو تمام نعمتوں کی اصل ہے) اس پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا زیادہ اہم ہے لہٰذا اس روز کی عبادت بھی دوسرے ایام سے اولیٰ ہوگی اسی وجہ سے اس دن کو یہ فضیلت بخشی گئی۔
عیدین سے بھی بڑھ کر اس دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن حضرت آدم کی تخلیق ہوئی چنانچہ حضرت اوس بن ابی اوس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
من أفضل أیامكم یوم الجمعة فیه خلق آدم وفیه قبض.46
تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ نے حضور نبی کریم سے پوچھا کہ جمعۃ المبارک کا یہ نام کیوں رکھا گیا تو نبی مکرم نے اس کاجواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لأن فیھا طبعت طینة أبیك آدم وفیھا الصعقة والبعثة....وفى آخر ثلاث ساعات منھا ساعة من دعا اللّٰه عز وجل فیھا استجیب له.47
اس میں تمہارے باپ آدم کا خمیر تیار ہوا( یعنی تخلیق ہوئی)، اسی میں قیامت برپا ہوگی اور اسی میں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔۔۔ اور اس کی آخری تین گھڑیوں میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے۔
یعنی اس جمعۃ المبارک میں حضرت آدم کی تخلیق ہوئی اور اسی میں قیامت برپا ہوگی تب ہی یہ نام رکھا گیا اور اس کو عید کہاگیا ہے۔جب حضرت آدم کی تخلیق کی وجہ سے جمعہ کا دن، عید کا دن ہے تو حضور نبی کریم کی ولادت کا دن بھی بدرجۂ اتم عید کا دن ہوگالہذا یہ کہنا کہ اس دن کو عید کا دن نہیں کہا جاسکتا یہ خلاف حقیقت ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ پھر تو حضور کی بھی روحانی و نورانی تخلیق کے دن کو "عید"کہنا چاہیے تو یہ بات مستحضر رہے کہ رواتِ حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور کی روحانی تخلیق جس وقت کی گئی اس وقت نہ تو ہفتے کے دن موجود تھے اور نہ ہی ان کے کوئی نام متعین ہوئے تھے اس لیے آپ کی ظاہری ولادت کے دن کو ہی یوم عید قرار دیا جاتا ہے جو کہ حضرت انسان کے لیے ممکن ہے اور اس کی بساط کے عین مطابق ہے۔
پھریہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس جمعۃ المبارک میں ہمیشہ ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ مسلمان کی دعا قبول فرمالیتا ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں ارشاد مبارک ہے:
وفى آخر ثلاث ساعات منھا ساعة من دعا اللّٰه عز وجل فیھا استجیب له.48
اور اس کی آخری تین گھڑیوں میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے۔
جب حضرت آدم کے یوم ولادت میں ایسی مستجاب ساعت ہے تو یوم ولادت نبی اکرم کی ساعت کا کیا مرتبہ ہوگا جس میں تمام اولین وآخرین کے سردار کی تشریف آوری ہوئی چنانچہ اسی حوالہ سےامام ابن الحاج لکھتے ہیں:
فلا شك أن من صادف الساعة التى ظھر فیھا علیه الصلاة والسلام إلى الوجود وهو یسأل اللّٰه تعالى شیئا أنه قد نجح سعیه وظفر بمرادہ. إذ أن المعنى الذى فضل اللّٰه تعالى به تلك الساعة فى یوم الجمعة هو خلق آدم علیه الصلاة والسلام فما بالك بالساعة التى ولد فیھا سیّد الأولین والآخرین صلي الله عليه وسلم.49
بلاشبہ جس نے وہ ساعت پائی جس میں رحمت عالم کا ظہور ہوا اور اس نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی تو وہ اپنی مراد پانے میں ضرور کامیاب ہوگیا کیونکہ جب وہ ساعتِ جمعہ جسے تخلیق آدم کی وجہ سے فضیلت حاصل ہوئی اس میں دعا مقبول ہوتی ہے تو کیا عالم ہوگا اس ساعت کا جس میں اولین و آخرین کے سردار کی تشریف آوری ہوئی۔
اس کے بعد یوم میلاد اور یوم جمعہ کے درمیان ایک اور نمایاں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن یوم الجمعة فیه أهبط آدم وفیه تقوم الساعة ویوم الاثنین خیر كله وأمن كله.50
بلا شبہ جمعۃ المبارک کے دن آدم کو زمین پر اتارا گیا اور اسی میں قیامت برپا ہوگی جبکہ پیر کا دن تو تمام کا تمام خیر وامن کا دن ہے۔
یعنی جمعۃ المبارک میں قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا بھی وجود ہے لیکن پیر کے دن میں ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے بلکہ یہ سراسر خیر ہے کیونکہ اس دن رحمۃ للعالمین اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔
عاشورہ کا دن یہود کے لیے آزادی کا دن تھااور یہود اس دن کو عید منایا کرتے تھے۔ اس دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون پر اور جادوگروں پر غلبہ عطا فرمایا تھا اور اسی دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو نیل میں غرق کرکے بنی اسرائیل کو فرعون سے آزاد کیا تھا۔حضرت موسیٰ نے اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھاتھا چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں:
كان یوم عاشوراء تعده الیھود عیدا.51
یہود عاشوراء کے دن عید مناتے تھے۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث مبارکہ میں یوں منقول ہے:
كان یوم عاشوراء یوما تعظمه الیھود وتتخذه عیدا.52
یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔
جس دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون پر اور جادوگروں پر غلبہ عطا فرمایا تھا وہ عاشورا کا دن تھا جس کو قرآن میں "یوم الزینۃ" کہا گیا ہےچنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قَالَ مَوْعِدُكمْ يَوْمُ الزِّيْنَة وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى59.53
(موسیٰ نے) فرمایا: تمہارے وعدے کا دن یومِ عید (سالانہ جشن کا دن) ہے اور یہ کہ (اس دن) سارے لوگ چاشت کے وقت جمع ہوجائیں۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام ابو یعلی نےحضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
أن یوم الزینة الیوم الذى أظھر اللّٰه فیه موسى على فرعون والسحرة وهو یوم عاشوراء.54
جشن کا دن جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون پر اور جادوگروں پر غلبہ عطا فرمایا تھا وہ عاشورا کا دن تھا۔
امام جلال الدین سیوطی نےامام قتادہ اور امام مجاہد سےاس آیت کی تفسیر میں یوں روایت کیا ہے :
فى قوله: (قال موعدكم یوم الزینة) قال: هو یوم عید كان لھم.55
"یوم الزینۃ"سے مراد ان کی عید کا دن ہے۔
یعنی یہود نے اس دن کو عید منایا اور ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نےبھی اس دن کو قرآن مجید میں"زینت و سرور" کا دن کہا جس سےیہ بخوبی واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے دن کو عید کہنا درست ہے۔
"عاشورہ" کا لفظ "عشر" سے ماخود ہے جس کا معنی دن کا عدد ہے اور زمانہءِ جاہلیت میں یہ دس محرم کا نام تھا۔ عاشوراء کی تکریم اس لیے کی جاتی ہے کہ دس محرم کو اﷲ تعالیٰ نے حسب ذیل دس نبیوں پر انعام فرمایا:
(1) دس محرم کو اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی مدد فرمائی ان کے لیے سمندر کو چیر دیا اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا چنانچہ امام ابو یعلی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
فلق البحر لبنى إسرائیل یوم عاشوراء.56
بنی اسرائیل کے لیے عاشوراء کے دن سمندر کو پھاڑا گیا۔
امام بغوی57 اورامام نقاش کے حوالے سے امام ابن عطیہ اندلسی لکھتے ہیں:
جاوزوا البحر یوم عاشوراء.58
یوم عاشوراء کو انہوں نے سمندرپارکرلیا۔
(2) اسی تاریخ میں حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی تھی چنانچہ عبد الغفور بن عبد العزیزنے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
فى أول یوم من رجب ركب نوح السفینة فصام هو وجمیع من مع وجرت بھم السفینة ستة أشھر فانتھى ذلك إلى المحرم فأرست السفینة على الجودى یوم عاشوراء فصام نوح وأمر جمیع من معه من الوحش والدواب فصاموا شكرا للّٰه.59
رجب کے پہلے دن حضرت نوح کشتی میں سوار ہوئے تو آپ نے اور آپ کے ساتھ جمیع اصحاب نے بھی روزہ رکھا۔ کشتی انہیں لے کر چھ ماہ تک چلتی رہی۔ پس وہ سفر محرم کے مہینہ میں جاکر اختتام پذیر ہوا اور کشتی یوم عاشوراء کو جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی۔ تو حضرت نوح نے روزہ رکھا اور جو آپ کے ساتھ وحشیوں اور چوپایوں میں سے تھے انہیں بھی آپ نے حکم دیا چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سب نے روزہ رکھا۔
اسی طرح امام ابوبکر عبدالرزاق نےامام قتادہ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
ركب نوح فى السفینة فى رجب یوم عشر بقین ونزل من السفینة یوم عاشوراء.60
حضرت نوح ماہ رجب میں کشتی میں سوار ہوئے جبکہ اس ماہ کے دس دن باقی رہ گئےتھے اورعاشوراء کے روزکشتی سے اترے۔
اسی حوالہ سےامام واحدی نیشاپوری لکھتے ہیں:
وارسیت على الجودى یوم عاشوراء.61
حضرت نوح کی کشتی یوم عاشوراء کو جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی۔
اسی طرح امام ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:
ونظیر هذا صیام یوم عاشوراء حیث انجى اللّٰه فیه نوحا من الغرق.62
اور اس کی مثال یوم عاشوراء کاروزہ ہےجیساکہ اس روزنوح کو اللہ تعالیٰ نے غرق ہونےسےبچایا ۔
(3)حضرت یونس کو دس محرم کے دن مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی۔
(4)عکرمہ نے بیان کیا کہ حضرت آدم کی توبہ اسی دن قبول فرمائی چنانچہ امام ابوبکرعبدالرزاق نےامام عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
هو یوم تاب اللّٰه على آدم یوم عاشوراء.63
دس( 10) محرم الحرام وہ دن ہے جس دن حضرت آدم کی توبہ قبول ہوئی۔
امام احمد نےاپنی کتاب "الزہد" میں امام قتادہ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
الیوم الذى تاب اللّٰه فیه على آدم یوم عاشوراء.64
وہ دن جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی وہ دس( 10)محرم الحرام کا دن ہے۔
اسی طرح امام ابن عطیہ اندلسی روایت کرتے ہیں:
ان اللّٰه تعالى تاب على آدم فى یوم عاشوراء.65
بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم کی توبہ دس( 10)محرم الحرام کے دن قبول فرمائی۔
(5) حضرت یوسف کو اسی دن کنویں سے نکالا گیا۔
(6) حضرت عیسیٰ اسی دن پیدا ہوئے اور اسی دن ان کو آسمان پر اٹھالیا گیا چنانچہ امام زید فرماتے ہیں:
ولد عیسىٰ ابن مریم یوم عاشوراء.66
حضرت عیسیٰ ابن مریم دس ( 10)محرم الحرام کے دن پیدا ہوئے۔ 67
اسی طرح امام ابو الحسن ماوردی شافعی لکھتے ہیں:
قال الضحاك ولدته فى یوم عاشوراء.68
امام ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت عاشوراء کے دن ہوئی تھی۔
امام جلال الدین سیوطی حضرت ابوہریرہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
والیوم الذى ولد فیه عیسىٰ.69
یہی وہ دن ہے جس میں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔
(7) حضرت داود کی توبہ بھی اسی دن قبول فرمائی۔
(8) حضرت ابراہیم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی۔
(9) اسی دن حضرت یعقوب کی بصارت واپس کی گئی تھی۔
(10) حضرت سیّد نا سلیمان کو اسی دن بادشاہی دی گئی تھی۔
امام قوام السنہ اصبہانی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
یوم عاشوراء الیوم الذى تاب اللّٰه فیه على آدم، والیوم الذى استوت فیه سفینة نوح على الجودى، والیوم الذى فرق اللّٰه فیه البحر لبنى إسرائیل، والیوم الذى ولد فیه عیسى، صیامه یعدل سنة مبرورة.70
یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی اوریہی وہ دن ہے جس میں حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ یہی وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑ دیا۔ اور یہی وہ دن ہے جس میں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے اس دن کا روزہ رکھنا پورےسال کےمقبول روزوں کے برابر ہے۔ 71
ان سب کو ایک ساتھ بیان کرتے ہوئے اور بعض کا اضافہ کرتے ہوئے امام بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
لم سمى اليوم العاشر عاشوراء؟ اختلفوا فيه فقيل: لأنه عاشر المحرم وهذا ظاھر، وقيل: لأن اللّٰه تعالى أكرم فيه عشرة من الأنبياء عليھم السلام بعشر كرامات الأول: موسى عليه السلام فإنه نصر فيه وفلق البحر له وغرق فرعون وجنوده الثانى: نوح عليه السلام استوت سفينته على الجودى فيه الثالث: يونس عليه السلام أنجى فيه من بطن الحوت الرابع: فيه تاب اللّٰه على آدم عليه السلام قاله عكرمة الخامس: يوسف عليه السلام فإنه أخرج من الجب فيه السادس: عيسى عليه السلام فإنه ولد فيه وفيه رفع السابع: داود عليه السلام فيه تاب اللّٰه عليه الثامن: إبراهيم عليه السلام ولد فيه التاسع: يعقوب عليه السلام فيه رد بصره العاشر: نبينا محمد صلي الله عليه وسلم فيه غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر هكذا ذكروا عشرة من الأنبياء عليھم الصلاة والسلام قلت: ذكر بعضھم من العشرة: إدريس عليه السلام فإنه رفع إلى مكان فى السماء، وأيوب عليه السلام فيه كشف اللّٰه ضره وسليمان عليه السلام فيه أعطى الملك.72
دسواں روز عاشوراء کیوں کہلایا؟اہل علم کا اس میں اختلاف ہے، پس کہاگیا کہ کیونکہ یہ دس محرم ہے، یہ توظاہرہےاورکہاگیاکہ کیونکہ اللہ رب العزت نے اس روزدس (10) انبیائےکرام کو دس کرامات عطافرمائیں اسی لیےعاشورہ کہلایا۔ ان میں سب سےپہلے موسیٰ ہیں جن کو اس روزمددوفتح نصیب ہوئی اوران کےلیےسمندرمیں راستہ بنادیاگیاجبکہ فرعون اپنی فوج کےساتھ اس میں غرق ہوا۔دوسرے نوح ہیں جن کی کشتی جودی پہاڑ پرلنگراندازہوئی۔تیسرےیونس ہیں جنہیں اس دن مچھلی کےپیٹ سےخلاصی حاصل ہوئی۔چوتھے حضرت آدم ہیں جن کی توبہ اس روزقبول ہوئی اور اسےعکرمہ نے بیان کیاہے۔پانچویں یوسف ہیں جو اس روز کنویں سےنکالےگئے۔چھٹے عیسیٰہیں جواس روزمیں پیداہوئے اوراسی روزاٹھالیےگئے۔ ساتویں داود ہیں جن کی توبہ اس روز قبول ہوئی۔آٹھویں ابراہیم ہیں جواس روزپیداہوئے۔نویں یعقوب جن کی بینائی اس روز لوٹائی گئی۔دسویں ہمارےنبی سیّد نا محمد مصطفی ہیں جن کواس روز اگلےپچھلےتمام گناہوں سےمعصوم کردیاگیا۔اس طرح علماءنے دس انبیائے کرام کا ذکر کیا ہے۔میں کہتا ہوں کہ بعض نے ان دس میں "ادریس جن کو آسمان کی جانب اٹھالیاگیا، ایوب جن کواس روز میں پریشانی سےنجات ملی اورسلیمان جنہیں اس روز حکومت عطاکی گئی" کوبھی ذکرکیاہے۔
عاشورہ میں کئی انبیاء کرامکو انعامات سے نوازا گیا اور انہوں نے اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کےلیے روزہ رکھا اور اپنی قوم کو بھی اس کا حکم دیا۔بعض نے تو اس دن کو ہی عید منالیا جیسا کہ جب سیّد نا موسیٰ اور ان کی قوم کو دشمن سے آزادی نصیب ہوئی تو اسے عید کے طور پر منایا تو بارہ (12)ربیع الاوّل کو مسلمانوں سمیت تمام انسانیت و مخلوق پر نعمت باری ہوئی ہے تو اس دن کو بھی عید منانادرست ہے ۔
جب مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حضور نبی کریم نے اس دن یہود کے عید منانے کو سنا تو اس پر کسی قسم کی کوئی نکیر نہیں فرمائی اورنہ ہی اس کو رد فرمایا بلکہ اس دن کو عید منانے کاسن کر صحابہ کرام کو روزہ رکھنے کا حکم دیا چنانچہ حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں :
قدم النبى صلي الله عليه وسلم المدینة فراى الیھود تصوم یوم عاشوراء فقال: ما هذا؟، قالوا: هذا یوم صالح هذا یوم نجى اللّٰه بنى إسرائیل من عدوهم، فصامه موسى، قال: فأنا أحق بموسى منكم، فصامه، وأمر بصیامه.73
نبی کریم مدینہ منوّرہ میں تشریف لائے ۔ (دوسرے سال ) آپ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھادن ہے ۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی ۔ اس لیے حضرت موسی نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر حضرت موسیٰ نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر حضرت موسیٰ کے (شریک ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا ۔
ایک روایت میں یہ مضمون یوں منقول ہے:
فقالوا: هذا یوم عظیم أنجى اللّٰه فیه موسى وقومه وغرق فرعون وقومه فصامه موسى شكرا فنحن نصومه فقال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فنحن أحق وأولى بموسى منكم فصامه رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وأمر بصیامه.74
انہوں نے کہا یہ بہت عظیم دن ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی کریم نے فرمایا تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
جبکہ مسند احمد کی روایت میں حضرت نوح کا بطور شکرانہ روزہ رکھنے کا بھی ذکر ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں:
مر النبى صلي اللّٰه عليه وسلم بأناس من الیھود قد صاموا یوم عاشوراء فقال ما هذا من الصوم؟ قالوا: هذا الیوم الذى نجى اللّٰه موسى وبنى إسرائیل من الغرق وغرق فیه فرعون وهذا یوم استوت فیه السفینة على الجودى فصام نوح وموسى شكرا للّٰه فقال النبى صلي اللّٰه عليه وسلم أنا أحق بموسى وأحق بصوم هذا الیوم فأمر أصحابه بالصوم.75
حضور نبی کریم یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور انہوں نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ تو آپ نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچالیا اور فرعون کو اس دن غرق کردیا۔ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھہری۔ تو اس دن حضرت نوح اور حضرت موسیٰ دونوں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔ یہ سن کر حضور نبی کریم نے فرمایا کہ میں حضرت موسیٰ سے حقیقی تعلق کی وجہ سے اس دن کے روزے کا زیادہ حق رکھتا ہوں چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس دن کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
فرعون کو غرق ہوئے طویل عرصہ گزرگیا لیکن چونکہ اس کے غرق ہونے پر حضرت موسیٰ نے نعمت پائی تو ان کی نعمت یابی پر رسول مکرم نے اظہارِ خوشی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ کے لیے اظہارِ مسرت (شکریہ) کے زیادہ حقدار ہیں ۔ حضور نبی کریم بخوبی جانتے تھے کہ یومِ عاشوراء یہودیوں کے نزدیک یومِ عید ہے۔اس لیے آپ نے ان کے عید (خوشی)منانے پر کوئی سوال نہیں کیا بلکہ ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں اِستفسار فرمایا تو انہوں نے "تعظیماً لہ" اور"شکرا لہ" کہہ کر بہ طور تعظیم وتشکر روزہ رکھنے کی توجیہ بیان کی ،جس پر آپ نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔اسی طرح مروی ہے کہ امیر معاویہ نے برسر منبر فرمایا:
إن یوم عاشوراء یوم عید.76
بے شک عاشوراء کا دن (ہمارے لیے) عید کا دن ہے۔
جب عاشوراء کے دن سیّد نا موسیٰ اور ان کی قوم کو دشمن سے آزادی نصیب ہوئی تو اسے عید منایا جاتا ہےاور خود حضور نبی کریم اس کو برقرار رکھتے ہیں جبکہ عید میلاد النبی کے دن پورا عالم اسلام بلکہ پوری آدمیت و انسانیت شیطانی قوتوں سے آزاد ہوئی تھی اور پوری نوع انسانی کو گمراہی سے آزادی ملی تھی لہٰذا یہ دن بدرجہ اولیٰ عید قرار پائے گا جس میں شرعی طور پر بھی کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے۔
اسی عاشورا ء میں نبی مکرم کے روزہ رکھنے کا حکم دینے سے امام ابن حجر عسقلانی نے ایک مسئلہ کا استنباط کیا ہے جس کونقل کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
وقد سئل شیخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل ابن حجر عن عمل المولد فأجاب بما نصه قال: وقد ظھر لى تخریجھا على أصل ثابت، وهو ماثبت فى الصحیحین من أن النبى صلي الله عليه وسلم قدم المدینة فوجد الیھود یصومون عاشوراء فسألھم فقالوا: هذا یومٌ أغرق اللّٰه فیه فرعون وأنجى فیه موسى فنحن نصومه شكرا للّٰه تعالى فیستفاد من فعل ذلك شکرا للّٰه تعالى على ما منّ به فى یوم معین من إسداء نعمة أو دفع نقمة، ویعاد ذلك فى نظیر ذلك الیوم من كل سنة، والشكر للّٰه تعالى یحصل بأنواع العبادات والسجود والصیام والصدقة والتلاوة، وأى نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبى الكریم نبى الرحمة فى ذلك الیوم؟.77
شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد پاک کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا: میں نے اس کا استخراج صحیحین میں مذکور ایک اصل سے ثابت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ نے اس کی بابت دریافت فرمایا تو یہودیوں نے کہا کہ اسی دن فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوا تھا اور حضرت موسیٰ نے اس کے ظلم سے نجات پائی تھی، اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر روزے رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معین دن میں نعمت کے حصول یا مصیبت سے چھٹکارا پانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جانا چاہیے اور سال میں اس دن کے مثل ونظیر کی جب آمد ہو شکر کا اعادہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر عبادت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے یعنی نماز، روزہ، صدقہ اور تلاوت وغیرہ سے اور رحمت عالم کی ولادت سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟
یعنی ابن حجر عسقلانی کا مستدل یہ ہے کہ کسی دن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت پر شکر ادا کرنے کے لیے اس معین دن عبادات اور دیگر نیکیاں سر انجام دینا مباح ہے اور ایسا ہر سال کیا جاسکتا ہے جس میں کسی قسم کی ممانعت نہیں ہےلہذا یوم ولادت پر شکرانہ کے طور پر محافل کا انعقاد کرنا اور اس میں خوشی کا اظہار کرنا بھی اس میں شامل ہے جس پر عید کا لفظ بولا جاسکتا ہے۔
مشرکین مکّہ ہمیشہ سے کعبہ کی تعظیم کرتے تھے ۔اس پر غلاف چڑھاتے تھے اور اس کے سامنے اس طرح ادب سے کھڑے ہوتے تھے جس طرح مسلمان ادب سے کھڑے ہوتے ہیں ۔اس کی تعظیم اور حرمت میں یہ بھی تھاکہ وہ ہر سال دس محرم کو روزہ رکھتے تھے اور کعبہ پر غلاف چڑھاتے تھے چنانچہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :
كان یوم عاشوراء تصومه قریش فى الجاهلیة وكان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم یصومه.78
عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔
جب پہلی بار زمانہ جاہلیت میں کعبۃ اللہ کو غلاف سے ڈھانپا گیا تو یہ دس(10) محرم کا دن تھا۔ اُس وقت سے مکہ کے لوگوں کا یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اسی دن روزہ رکھتے اور یہ ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔ ان کا یہ معمول حضور کی ولادت ِمبارکہ کے بعد بھی جاری رہا اور آپ نے خود بھی کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن روزہ رکھنے کا معمول اپنایا۔ کعبہ پرغلاف چڑھانے کو "کسوۃ الکعبۃ"سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :
كانوا یصومون عاشوراء قبل أن یفرض رمضان وكان یوما تستر فیه الكعبة فلما فرض اللّٰه رمضان قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم من شاء أن یصومه فلیصمه ومن شاء أن یتركه فلیتركه.79
رمضان (کے روزے)فرض ہونے سے پہلے مسلمان عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عاشوراء ہی کے دن (جاہلیت میں)کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان فرض کر دیا تو رسول اللہ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے۔
امام ابن حجر عسقلانی درج بالا حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإنه یفید أن الجاهلیة كانوا یعظمون الكعبة قدیما بالستور ویقومون بھا.80
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اس کی تعظیم کرتے تھے اور یہ معمول وہ قائم رکھے ہوئے تھے۔
ایک اور مقام پر امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
أما صیام قریش لعاشوراء فلعلھم تلقوه من الشرع السالف ولھذا كانوا یعظمونه بكسوة الكعبة فیه.81
یومِ عاشورہ کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔
ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانے کا دن منانے پر امام طبرانی حضرت زید بن ثابت سے درج ذیل قول نقل کرتے ہیں:
لیس یوم عاشوراء بالیوم الذى یقوله الناس إنما كان یوم تستر فیه الكعبة.…وكان یدور فى السنة.82
یومِ عاشوراء سے مراد وہ دن نہیں جو عام طور پر لیا جاتا ہے بلکہ یہ وہ دن ہے جس میں کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم کا آغاز ہوا۔ ۔۔اسی سبب ہر سال اس کی تجدید ہوتی ہے۔
کعبہ پر غلاف چڑھانے کے دن کا اِحترام بعض لوگوں کے لیے باعث خلجان بنتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کو غلاف چڑھا دینے کے بعد معاملہ اپنے انجام کو پہنچا لیکن ہر سال اس دن کی تعظیم واحترام کرنا اس کا کیا مطلب ہے؟ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم کی ولادت چودہ (1400)سو سال قبل ہوئی اورپھر آپ کی بعثت ہوئی۔ آپ نے بحیثیتِ رسول خدا لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دی اوریہ معاملہ بہ خیر انجام پایا۔ اب ہر سال آپ کے یومِ ولادت کے موقع پر محافل میلاد کے اِنعقاد اور جشن عید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ کی سنت اور تعلیمات کی پیروی کی جائے؟
یہ اور اس قبیل کے دوسرے سوالات کے جواب سے پہلے ہر مومن پرلازم ہے کہ وہ رسول معظّم کے مقامِ رسالت سے آگاہ رہے۔ حضور نبی اکرم کے مقصدِ بعثت سے اپنے ذہن کو روشن رکھے۔ نزولِ قرآن اور تشکیلِ اُسوۂ حسنہ کی اَہمیت سے اپنے زاویۂ نگاہ کو منور کرے اور عالم اسلام کے وجود میں آنے کے مراحل کو اپنی سوچوں کا محور بنائے۔ پھر اسے میلاد النبی کی تقریبات کے بارے میں تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ کعبہ کو غلاف چڑھانے کا دن ہر سال آتا تو اہل عرب ہمیشہ اس دن کا کعبہ کی وجہ سے اِکرام کرتے جس کے باعث یہ باقاعدہ سالانہ تعظیم وتکریم کا دن بن گیا اور اسے مستقلاً منایا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ولادت مصطفی کو اگرچہ ایک عرصہ گزرگیا ہے لیکن اس دن کے بار بار آنے سے اس کی تعظیم یا اس پر فرحت کا اظہار اس لیے ضروری ہے کہ ایسےہی ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی باندی حضرت ثویبہ کو آزاد کردیا تھا توہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے۔ خود حضور نے بھی اِس عمل کو جاری رکھا۔ پس ولادتِ مصطفی کے ایک عرصہ گزرجانے کے بعد بھی یوم ولادت کو منانا اور اس پراظہار مسرت وفرحت کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ یہ عمل حضوراکرم کا کسی دن کو منانے کی سنت سے ثابت ہے۔ 83
ذوالحجہ کی دس، گیارہ اور بارہ تاریخ کو ایام نحر کہتے ہیں اور گیارہ ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ ان چاردنوں میں سے پہلا یعنی دسویں ذی الحجہ صرف یوم النحر کہلاتا ہے یوم تشریق نہیں اور تیرھواں دن صرف یوم تشریق ہے یوم نحر نہیں۔ درمیانے دو دن یعنی گیارہ اور بارہ تاریخ یوم نحر اور تشریق دونوں بنتے ہیں۔ سیّد نا عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:
یوم عرفة ویوم النحروأیام التشریق عیدنا أهل الإسلام وهى أیام أكل وشرب.84
یوم عرفہ، یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
خصوصی نعمت کی بناء پر جب ایام تشریق کو عید قرار دیا گیا ہے تو خاص نعمت، سراپا رحمت حضرت محمد رسول اﷲ کی نسبت سے یوم میلاد کو بھی عید قرار دیا جاسکتا ہے جس میں شرعی کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔
حدیث میں ایام تشریق کے لیے "وہی ایام اکل وشرب"یعنی" یہ کھانے پینے کے دن ہیں"کے الفاظ سے بعض مالکی علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ میلاد النبی کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ یہ عید کا دن ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے لہٰذا حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کا دن مسلمانوں کے عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے اس لیے اس دن بھی روزہ رکھنا مکروہ ہے چنانچہ امام عبداﷲ حطاب مالکی لکھتے ہیں:
قال الشیخ زروق فى شرح القرطبیة: صیام المولد كرهه بعض من قرب عصره ممن صح علمه وورعه قال: إنه من أعیاد المسلمین فینبغى أن لا یصام فیه وكان شیخنا أبو عبد اللّٰه القورى یذكر ذلك كثیرا ویستحسنه، انتھى(قلت): لعله یعنى ابن عبادفقد قال فى رسائله الكبرى ما نصه: وأما المولد فالذى یظھر لى أنه عید من أعیاد المسلمین وموسم من مواسمھم وكل ما یفعل فیه ما یقتضیه وجود الفرح والسرور بذلك المولد المبارك من إیقاد الشمع وإمتاع البصر والسمع والتزین بلبس فاخر الثیاب وركوب فاره الدواب أمر مباح لا ینكر على أحد قیاسا على غیره من أوقات الفرح والحكم بكون هذه الأشیاء بدعة فى هذا الوقت الذى ظھر فیه سر الوجود وارتفع فیه علم الشھود وانقشع فیه ظلام الكفر والجحود وادعاء أن هذا الزمان لیس من المواسم المشروعة لأهل الإیمان ومقارنة ذلك بالنیروز والمھرجان أمر مستثقل تشمئز منه القلوب السلیمة وتدفعہ الآراء المستقیمة ولقد كنت فیما خلا من الزمان خرجت فى یوم مولد إلى ساحل البحر فاتفق أن وجدت هناك سیدى الحاج ابن عاشر رحمه اللّٰه وجماعة من أصحابه وقد أخرج بعضھم طعاما مختلفا لیأكلوه هنالك فلما قدموه لذلك أرادوا منى مشاركتھم فى الأكل وكنت إذ ذاك صائمافقلت لھم إننى صائم فنظر إلى سیدى الحاج نظرة منكرة وقال لى ما معناه: إن هذا الیوم یوم فرح وسرور یستقبح فى مثله الصیام بمنزلة یوم العیدفتأملت كلامه فوجدته حقاوكأننى كنت نائما فأیقظنى انتھى. 85
شیخ زروق شرح قرطبیہ میں فرماتے ہیں: حضور کی پیدائش کے دن روزہ رکھنے کو ایسے لوگوں نے جو ان کے زمانے کے قریب تھے اور تقویٰ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے مکروہ قرار دیا ہے چونکہ وہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے چاہیئے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ ہمارے شیخ قوریاس کو بکثرت ذکر کیا کرتے اور اس کو اچھا سمجھتے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن عباد نے اپنے رسائل کبریٰ میں بیان کیا ہے: حضور کی پیدائش کا دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے اور تقاریب میں سے ایک تقریب ہے اور وہ چیز جو فرحت وسرور کا باعث ہو آپ کی ولادت کے دن مباح اور جائز ہے مثلاً روشنی کرنا، اچھا لباس پہننا، جانوروں کی سواری کرنا، اس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ ان امور کے بدعت ہونے کا حکم اس وقت ہے جبکہ کفر وظلمت اور خرافات وغیرہ ظاہر ہونے کا خوف ہو، اور یہ دعویٰ کرنا کہ عید میلاد اہل ایمان کی مشروع تقریبوں میں نہیں، مناسب نہیں ہے۔ اور اس کو نیروزومہرجان سے ملانا ایک ایسا امر ہے جو سلیم الطبع انسان کو منحرف کرنے کے برابر ہے۔ عرصہ قبل میں ایک دفعہ حضور کی ولادت باسعادت کے دن سمندر کے ساحل کی طرف جانکلا، وہاں میں نے الحاج ابن عاشر کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ پایا۔ وہاں ان میں سے بعض نے کھانے کے لیے مختلف قسم کی چیزیں نکالیں اور مجھے بھی اس میں بلایا۔ میں اس دن روزہ سے تھا اس لیے میں نے کہا میں روزہ سے ہوں۔ ابن عاشر نے میری طرف ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور کہا اس کا کیا مطلب ہے۔ آج خوشی اور مسرت کا دن ہے اوراس میں روزہ رکھنا ایسا ہی ناپسندیدہ ہے جیسا کہ عید کے دن۔ میں نے ان کے کلام پر غور کیا اور میں نے اس کو حق پایا گویا کہ میں سورہا تھا پس انہوں نے بیدار کردیا۔
امام عبداﷲ خرشی مالکی لکھتے ہیں:
وكره بعض صوم یوم المولد أى: لأنه من أعیاد المسلمین.86
بعض علماء نے حضور کی پیدائش کے دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے چونکہ وہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے۔
بہر حال اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ یوم ولادت کو عید کی طرح منانا درست ہے اور شرعی دائرہ میں رہتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنا بھی مباح ہے ۔جہاں تک روزہ نہ رکھنے کی بات ہے تو یہ بعض حضرات ائمہ کا مؤقف ہے جبکہ صحیح حدیث اس کے برخلاف ہے جس میں نبی کریم سے مروی ہے کہ آپ یوم ولادت کا روزہ رکھا کرتے تھے87 لہذا اس دن روزہ رکھا جاسکتا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں ہے۔
ان احادیث سے بھی یہی معلوم ہوا کہ عید کا لفظ صرف عید الفطر اور عید الاضحی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ان ایام کے علاوہ بھی دیگر فضیلتوں والے ایام کے لیے عید کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ جمعہ کے دن ، عرفہ کے دن ، عاشورہ کے دن، غلافِ کعبہ چڑھانے کے دن اور ایام تشریق کے لیے کتب احادیث میں عید کا لفظ استعمال ہوا ہے لہذا میلاد النبی کے لیے عید کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
عید الفطر وعید الاضحی کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر عید کا اطلاق آیا ہے بلکہ ازروئے قرآن اور لغت ہر مسرت کے دن کو عید کہا جاتا ہے اور چونکہ حضور کا یوم میلاد سب سے زیادہ خوشی ومسرت کا دن ہے اسی لیے اسے "عید"کہنا ہر طرح سے مبنی بر حقیقت، جائز، صحیح اور مناسب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضراتِ بزرگانِ دین ومحدثین نے صرف یوم میلاد ہی کو نہیں بلکہ ربیع الاوّل شریف کی راتوں کو بھی عید قرار دیا ہے۔اسی طرح محدثین نے اپنی کتب میں میلاد النبی کو "عید"کے لفظ سے تعبیر کر کے اس کو اپنی کتب میں اسی نام سے درج کیا ہےچنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں:
أما أهل مكة.…یزید اهتمامھم به على یوم العید.88
مکّہ مکرّمہ کے مسلمان...ربیع الاوّل میں عید سے بڑھ کر جشنِ میلاد کا اہتمام کرتے ہیں۔
امام زرقانی نے جشن میلاد کے متعلق اہل اسلام کا دائمی عمل نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
فرحم اللّٰه إمرأ اتخذ لیالى شھر مولده المبارك أعیادا لیكون أشد علة على من فى قلبه مرض.89
پس اﷲ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جس نے آپ کے میلاد مبارک کی راتوں کو عیدبنادیا تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ اور بڑھ جائے۔
امام زرقانی کوئی عام محدث نہیں ہیں بلکہ شارح حدیث ہیں اور اپنی کتاب میں (اعیاداً) عیدوں کا لفظ لارہے ہیں جس سے اس بات کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ نہ صرف یوم ولادت بلکہ اس کی راتیں بھی مسلمانان عالم کے نزدیک عید کا درجہ رکھتی ہیں۔
اسی طرح امام جزری فرماتے ہیں:
وإذا كان أهل الصلیب اتخذوا لیلة مولد نبیھم عید الأكبر فأهل الإسلام أولى بالتكریم وأجدر.90
جب اہل صلیب (عیسائیوں) نے اپنے نبی کی پیدائش کی رات کو بڑی عید بنا رکھا ہے تو اہل اسلام اپنے نبی کی تعظیم وتکریم کے زیادہ حقدار ہیں۔
ان مذکورہ بالا عبارات علماء سے یہ واضح ہوا کہ امّت مسلمہ نبی کریم کے یوم ولادت اور آپ کی شب ولادت دونوں کو ہی عید کا درجہ دیتے ہیں اور ان میں عید کی طرح جشن مناکر خوشیوں کا اظہا رکرتے ہیں جس میں شرعی کسی قسم کی کوئی مخالفت نہیں ہے۔
امام ابن الحاج ماہ ربیع الاوّل کی عظمت وشان اور اس میں خلافِ شرع امور پر تنبیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ نے سیّد الاولین والآخرین کی صورت میں ہمیں جس عظیم نعمت سے نوازا ہے اس پر ضروری تھا کہ بطور شکر ہم پر کوئی عبادت لازم قرار دی جاتی مگر یہ رحمتِ مصطفوی کا صدقہ ہے کہ ہمیں اس کا مکلّف نہیں ٹھہرایا گیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وما ذاك إلا لرحمته صلي اللّٰه عليه وسلم أ مته ورفقه بھم لأنه صلي اللّٰه عليه وسلم كان یترك العمل خشیة أن یفرض على أمته رحمة منه بھم كما وصفه المولى سبحانه وتعالى فى كتابه حیث قال (بالمؤمنین رؤوف رحیم).91
اس کی وجہ امت پر نبی اکرم کی رحمت وشفقت ہے اسی لیے آپ بہت سے معاملات کو ترک کردیتے تھے کہ کہیں امت پر لازم نہ ہوجائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ہی کی شفقت کا تذکرہ قرآن میں یوں کیا ہے کہ آپ مومنین پر نہایت ہی مہربان اور رحیم ہیں۔
امام احمد قسطلانی لیلۃ المیلاد کی فضیلت اور اسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإذا كان یوم الجمعة الذى خلق فیه آدم خص بساعة لا یصادفھا عبد مسلم یسأل اللّٰه فیھا خیرا إلا أعطاه إیاه، فما بالك بالساعة التى ولد فیھا سیّد المرسلین ولم یجعل اللّٰه تعالى فى یوم الاثنین یوم مولده صلي اللّٰه عليه وسلم من التكلیف بالعبادات ما جعل فى یوم الجمعة المخلوق فیه آدم من الجمعة والخطبة وغیر ذلك، إكراما لنبیه صلي اللّٰه عليه وسلم بالتخفیف عن أمته، بسبب عنایة وجوده قال تعالى: وَما أَرْسَلْناك إِلَّا رَحْمَة لِلْعالَمِینَ ومن جملة ذلك: عدم التكلیف.92
وہ جمعہ کا دن جس میں حضرت آدم کی ولادت ہوئی اس میں ایک خصوصی گھڑی ہے جس میں کوئی مسلمان جس شے کی دعا کرے وہ اسے عطا کی جاتی ہے تو اس گھڑی کا کیا مقام ومرتبہ ہوگا جس میں تمام رسولوں کے سردار کی تشریف آوری ہوئی اور یومِ میلاد میں یوم جمعہ کی طرح جمعہ یا خطبہ وغیرہ لازم نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے وجودِ رحمت کے اکرام کی وجہ سے امت پر تخفیف ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے اور اسی رحمت کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ کسی عبادت کا مکلف نہیں بنایا۔
یعنی نبی مکرم کے طفیل امت کے لیے آسانی کرتے ہوئے کسی خاص عبادت کا مکلف نہیں بنایا گیا البتہ تحدیثِ نعمت اور رحمت الہٰی پر خوشی و مسرت کے اظہار کا حکم دے کر اسی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔
بعض ائمہ کرام اس دن اپنی خوشی کااظہار یو ں بھی کرتے ہیں کہ سالہا سال سے جاری پڑھائی جس میں چندمخصوص ایام کے سوا کوئی مزیدچھٹی ناقابل برداشت ہوتی اس کے باوجود عید میلاد النبی کی خوشی میں اپنے مدرسوں میں ایک دن کی چھٹی دیا کرتے تھے چنانچہ امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
قال الكمال الأدفوى فى الطالع السعید حكى لنا صاحبنا العدل ناصر الدین محمود بن العماد أن أبا الطیب محمد بن إبراھیم البستی المالكى نزیل قوص أحد العلماء العاملین كان یجوز بالمكتب فى الیوم الذى فیه ولد النبى صلي اللّٰه عليه وسلم فیقول یا فقیه هذا یوم سرور إصرف الصبیان فیصرفنا وهذا منه دلیل على تقریره وعدم انكارہ وهذا الرجل كان فقیھا مالكیا متفننا فى علوم متورعا أخذ عنه أبو حیان وغیرہ ومات سنة خمس وتسعین وستمائة.93
کمال الدین ادفوی نے کتاب "الطالع السعید "میں بیان کیا ہے کہ ہمارے بھروسہ مند دوست ناصر الدین محمود بن عماد نے واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت ابوطیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی جو با عمل علماء میں سے تھے قُوْص تشریف لائے اور میلاد النبی کے دن ایک مدرسے کے پاس سے گذرے تو کہنےلگے: اے فقیہ!یہ سرور و انبساط کا دن ہے لہٰذا آج بچوں کو چھٹی دے دیں پس انہوں نے بچوں کو چھٹی دے دی۔ ان کایہ فعل میلاد النبی کی خوشی کا مثبت اور اس کے عدم ِانکار پر دلالت کرنے والا ہے اور یہ عالم مالکی فقیہ، ماہر فنون اور زہد و تقویٰ کے حامل تھےجن سے ابوحیان نے اکتساب ِعلم کیا اور ان کی وفات چھ سو پچانوے(695ھ) میں ہوئی۔
یعنی اسلاف سے بھی یوم ولادت میں عید کی طرح خوشی کا اظہار کرنا ثابت ہے اور یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ علمائےاسلاف میلاد النبی کے لیے عید کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں چنانچہ شیخ فتح اﷲ بنانی مصری شب میلاد النبی کی اہمیت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
یجب على أمته التى رفعھا اللّٰه به على الأمم أن یتخذوا لیلة ولادته عیدا من أكبر الأعیاد.94
اس دن کے صدقہ میں اﷲ تعالیٰ نے اس امت کو تمام امتوں پر فضیلت عطا کی لہٰذا امت پر لازم ہے کہ وہ اس رات کو سب سے بڑی عید کے طور پر منائیں۔
اسی طرح شیخ ابن عاشر مالکی حضور کی ولادت باسعادت کے دن کے حوالے سے کہتے ہیں:
إن هذا الیوم یوم فرح وسرور.95
بےشک یہ دن خوشی اور مسرت کا دن ہے۔
امام ابن عباد مالکی رسائل الکبریٰ میں لکھتے ہیں:
وأما المولد فالذى یظھر لى أنه عید من أعیاد المسلمین وموسم من مواسمھم وكل ما یفعل فیه ما یقتضیه وجود الفرح والسرور.96
کہ حضور کی پیدائش کا دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے اور تقاریب میں سے ایک تقریب ہے اور وہ چیز جو فرحت وسرور کا باعث ہو آپ کی ولادت کے دن مباح اور جائز ہے۔
اسی طرح امام عبداﷲ خرشی مالکی لکھتے ہیں:
لأنه من أعیاد المسلمین.97
کیونکہ وہ (میلاد النبی ) مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے۔
ان تمام ائمہ کرام نے یوم میلاد النبی کو یوم عید کہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ دوسری عیدیں تو عارضی ہوتی ہیں جبکہ میلاد النبی کی مسرت وخوشی تو دائمی ہے جو کہ عید سے بھی بڑھ کر ہے۔ مذکورہ حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کا یوم ولادت تمام ایام سے عظیم تر ہے اور کوئی جمعہ اور عید اس کے ہم پلہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں انتہائی بڑی خوشی کےلیے لفظ "عید "کے سوا کوئی دوسرا لفظ نہیں ہے ورنہ درحقیقت یوم میلادالنبی عید سے بھی بڑھ کر عظمت و رفعت اور خوشی ومسرت کا حامل دن ہے۔ شیخ محمد علوی مالکی نے لکھا ہےکہ عید کی خوشیاں آتی ہیں اورگزرجاتی ہیں کیونکہ وہ عارضی ہوتی ہیں مگر آپ کی آمد سے مخلوقِ خدا کو جو خوشی (عید) نصیب ہوئی وہ ختم ہونے والی ہی نہیں بلکہ وہ دائمی ہے لہذا یہ عید تمام عیدوں سے بڑھ کرخوشی ومسرت کا سامان لیے ہوئے ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
ونحن لا نرى تسمیته بالعید لأنه أكبر من العید والأعیاد فى الإسلام اثنان عید الفطر و عید الأضحى وهما مرة فى العام أما ذكراه صلي اللّٰه عليه وسلم نھى أكبر من ذلك وأعظم من أن لا تكون فى السنة إلا مرةبل ینبغى للمسلم أن یعیش عمرة كله فى ذكراه صلي اللّٰه عليه وسلم بمحبته وإحیاء سنته و التعلق به وما إلى ذلك.98
ہم یوم ولادت مصطفوی کو عید کا نام نہیں دیتے کیونکہ اس کا درجہ تو عید سے کہیں بلند ہے اسلام میں جو دوعیدیں ہیں عید الفطر اور عید الاضحی وہ سال میں ایک ہی دفعہ آتی ہیں لیکن آپ کا ذکر مبارک اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ سال میں ایک دفعہ ہی ہرگز مناسب نہیں بلکہ ہر مسلمان کو تمام عمر آپ کے ذکر، محبت، سنت پر عمل اور آپ کے ساتھ تعلق میں بسر کرنی چاہیے ۔
مذکورہ بالاتمام تر تفاصیل جس میں قرآن مجید کی آیات اور نبی مکرم کی احادیث کے ساتھ ساتھ علمائےاسلاف کی عبارات بھی ذکر کی گئیں ہیں ان سب کے پیش نظر میلاد النبی کے عید ہونے کے حوالہ سے کئی سوالات واعتراضات ازخود حل ہوجاتے ہیں۔ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور کا ذکرِ خیر ہرحال میں باعثِ برکت وسعادت ہے جس امتی کو یہ نصیب ہوجائے اس پر اﷲ کا فضل واحسان ہے اور یہی میلاد النبی کی اصل ہے جس پر امت مسلمہ عید کی طرح بلکہ اس سےبھی بڑھ کر خوشی مناتی ہے اور اس کو عید میلاد النبی سے موسوم کر کے اپنی اس خوشی کو بیان بھی کرتی ہے جس میں قرآن و سنت اور علمائے اسلاف کی رو سے کوئی قباحت نہیں ہےبلکہ ہر حوالہ سے نہایت مستحسن عمل ہےجس کو آج کے تہذیبی وثقافتی انتشارو فساد کے دور میں مروّج کر کےاور شایان شان طریقہ سے مناکر نوجوان نسل کو دین کے قریب اور حضور کی ذات سے محبت کے فروغ کےلیےایک اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔جس طرح دین کے فروغ و اشاعت کے نام پر مبنی تبلیغی جماعتیں جو حضور کےدورِ مبارک میں اس شکل وصورت،نظم ونسق،ترتیب وترکیب،اصول وضوابط،منہج وطریقہ کار حتی کہ نام واصطلاح کے ساتھ موجود نہ ہونے کے باوجوداور ہزار ہا معاشرتی خرابیوں،خاندانی انتشار اور افتراق کے پیدا کرنے کے باوجودبعض اہلِ علم کی نگاہ میں اسلام کی دعوت کےلیے ناگزیر ہوسکتی ہیں تو اس سے بھی کہیں زیادہ ناگزیر بلکہ ہرحوالہ سے فائدہ مندرسول اللہ کی ولادتِ پاک کی خوشی منانا ہے جس کی پشت پر ہزارہااسلاف ولاکھوں اخلاف علمائے ذی شان کی تصدیقات شامل ہیں۔