اس امت کے بڑے بڑے علمائےکرام، مفسرین، محدثین، شارحین اور فقہاءرحمۃ اللہ علیہم نے جشن عید میلاد النبی ﷺمنانے کو باعث اجر وثواب لکھا ہے اور ولادت باسعادت کے دن خوشی کا اظہ ار ہر دور کے مسلمانوں میں رائج رہا ہے۔فرحت و سرور کا یہ سلسلہ انفرادی واجتماعی سطح پر کسی نہ کسی صورت میں امت میں چلا آرہا ہے۔ جب اربل کے بادشاہ حضرت ابو سعید مظفر الدین احمد بن علی کوکبری نے اپنے دور میں حکومتی سطح پر عظیم الشان میلاد کی محفل سجائی تو اس دور کے جلیل القدر محدث، امام، حافظ ابو الخطاب عمر بن دحیہ کلبینے جشن عید میلاد النبی ﷺکے اثبات پر کتاب لکھی جس کا نام ''التنویر فی مولد السراج المنیر'' ہے ۔یہ حدیث میں ثقہ اور اپنے دور کے جلیل القدرمحدث تھے۔ امت کا وہ قلیل طبقہ جس نے ہمیشہ نفرت اوررقابت کے ذریعہ وحدتِ امتِ مسلمہ کے آفاقی تصوّر کوپاش پاش کرنے کی کوشش کی ہےانہوں نے دوسرے کلامی واعتقادی مسائل کے ساتھ ساتھ میلاد النبی ﷺمنانے کو بھی ہمیشہ اپنے نشانہ پر رکھا ہےحالانکہ ہر عمل ِ خیر کی طرح میلاد النبی ﷺکی مجالس کے انعقاد پر امت کا ہمیشہ سے اجماع چلا آرہا ہے اور خیر کے کاموں پراجماع امت ِمسلمہ کی وحدت اور پہچان ہے لیکن آج کے دور کے بھی بعض حضرات بدعت کے نام پر، ہر مستحسن عمل پر اس لیے حملہ آور ہیں کہ وہ نئی نسل کو دین سے دور اور کفر و الحاد کے قریب کرکے گمراہ کرنے کے درپے ہیں ۔ چنانچہ یہ گروہ اعتراض کے عنوان سے ہر اس محدّث،مفسّر اور عالمِ دین کو جو ان کے نام نہاد اور مکر وفریب پر مبنی نظریات کی تکذیب وتردید کرتا نظر آئے اس کو فوراًکذّاب،دنیا پرست اورمال وزر پرست سمیت نہایت بیہودہ القابات سے نواز کراپنے تئیں ان کے مقام و مرتبہ کوگرانے اور گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تناظر میں اس گروہ نے جلیل القدر محدّث یعنی حافظ ابو الخطاب عمر بن دحیہ کلبیکے علم وتقویٰ کا انکار کرکے انہیں دنیا پرست اورکذّاب ثابت کرنے کی غیر مقبول کوشش کی جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اورذیل میں اسی اعتراض کے جواب کے حوالہ سے حافظ ابو الخطاب عمر بن دحیہ کلبیکی سوانح حیات ذکر کی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوجائےگا کہ اس جلیل القدر محدّث کے بارے میں معترضین کا اعتراض بے بنیاداور تاریخی وعلمی حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
ان کے صحیح حالات ِزندگی جاننے سےپہلے یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ امام ابن دحیہ کلبی کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا میلاد النبی ﷺسے کوئی تعلق نہیں ہے اورمیلاد النبی ﷺ کے جواز و عدم جوازسے اس کا سرے سے کوئی تعلق نہیں بنتا کیونکہ میلاد النبی ﷺ قرآن و حدیث اور امت کے اجماع سے ثابت ہے ۔ امام ابن دحیہ کلبی سے پہلے بھی کئی علماءعید میلاد النبی ﷺپر کتابیں لکھ چکے تھے جیساکہ بغداد کے جلیل القدر محدّث امام ابن جوزی حنبلی کی کتاب"مولد العروس" اس وقت کافی مشہور ومعروف تھی۔البتہ امام ابن دحیہ کلبی جیسا محدّث اور ان کے دور کے مسلمانوں کے عمل کو بطور تائید پیش کیا جاسکتا ہے کہ صدیوں سے مسلمان عید میلاد النبی ﷺ مناتے چلے آرہے ہیں اور ان میں ایک جلیل القدر محدث عمر ابن دحیہ کلبی بھی شامل ہیں ۔
آپکا نام "عمر" کنیت" ابو الخطاب" ہےاور آپ لوگوں میں " ابن دحیہ کلبی "کے نام سے معروف ہیں جبکہ آپ کا مکمل نام اس طرح ہے:
ابو الخطاب عمر بن حسن بن على بن محمد ابن دحیة الكلبى .1
آپ کا نسب والد کی طرف سے حضرت دحیہ تک جبکہ والدہ ماجدہ کی طرف سے سبط پیمبر ﷺحضرت امام حسین تک پہنچتا ہے چنانچہ اس حوالہ سے شیخ ابو عبد اللہ الابار لکھتے ہیں:
كان يذكر أنه من ولد دحية رضى اللّٰه عنه، وأنه سبط أبى البسام الحسينى.2
یہ بیان کیاجاتاتھا کہ ابو دحیہ حضرت دحیہ کلبی کی اولاد اور حضرت ابو البسام حسینی کے نواسہ ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ آپجب کہیں اپنا نام تحریر کرتےتو ان دو پاکیزہ نسبوں سےتعلق کی وجہ سے خود کو انہی سے منسوب کرتے ہوئے لکھتے چنانچہ ابن الدمیاطی تحریر فرماتے ہیں:
لھذا كان یكتب بخطه ذو النسبین بین دحیة والحسین.3
انہی دو نسبوں میں ہونے کی وجہ سے آپ خود کو"ذوالنسبین ابن دحیہ والحسین "لکھا کرتے۔
یعنی کہ آپکسی بھی مکتوب میں یوں لکھتے کہ میں دو پاکیزہ نسبوں سے تعلق رکھتا ہوں ایک اپنی والد ہ کے نسب سے جونواسہءِ رسول امام حسین تک پہنچتا ہے اور دوسرا اپنے والد محترم کی طرف سے جوصحابی رسولﷺ حضرت دحیہ الکلبی تک پہنچتا ہے۔
ابن دحیہ کلبی کے سن پیدائش کے بارے میں منقول ہے کہ مغرب کے "سبۃ"نامی شہر میں 544ھ کو پیدا ہوئے اس کے علاوہ سن پیدائش کے بارے میں 547ھ کا قول بھی بیان کیا جاتا ہےچنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شیخ محمد زہیر الشاویش لکھتے ہیں:
ولد سنة 544ھ وقیل 547ھ.4
آپ544ھ میں پیداہوئے اوریہ بھی کہاگیاکہ 547ھ میں پیدا ہوئے ۔
اسی طرح سیر اعلام النبلاء میں آپ کا سن ولادت 546ھ نقل کیا گیا ہےاور مذکورہ دونوں تاریخوں كو اس كے بعدذكر كیا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ آپ چھٹی (6)صدی ہجری کے تقریباً وسط میں پید اہوئے اور اپنی مقررہ زندگی گزار کر ساتویں(7) صدی ہجری کی چوتھی(4) دہائی میں وصال فرمایا ۔چنانچہ صاحب سیر النبلاء تحریر فرماتے ہیں:
ان ابن دحية توفى ليلة الثلاثاء رابع عشر ربيع الأول سنة ثلاث وثلاثين وست مائة.5
بلاشبہ ابن دحیہ منگل کی رات چوده (14)ربیع الاول 633ھ میں فوت ہوئے۔
یعنی آپ کی زندگی تقریباً ستاسی(87) سالوں پر مشتمل ہے جس کو تعلیم و تعلم میں گزار کرانہوں نے اس دنیا سے کوچ کیا۔
آپ نے اپنے شہر "سبۃ" میں ہی اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور اسی شہر کے جید علماء سے تعلیم حاصل کی ۔ چونکہ اس دور میں مغرب اور بالخصوص اندلس میں "ظاہری" مذہب رائج تھا اور اکثر علماء اسی مذہب کے پیرو کار تھے لہذا آپ نے بھی اسی مذہب کو اختیار کیا ۔آپ نے شہر کے علماء سے شروع کی تعلیم حاصل اور مکمل فرمانے کے بعدمزیدعلم کے حصول کے لیے اپنے شہر کو چھوڑ کر شہر ِاندلس کا سفر کیا اور یہاں کے نامور محدثین و علماءکی خدمت میں حاضر ہوکر مزید تعلیم حاصل کی جن اساتذہ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
امام عبداللہ بن زرقون ،امام ابو القاسم بن جیش ،امام ابوبکر بن خیر ،امام ابو القاسم بن بشکوال ،امام ابوبکر بن الجد اوران کے علاوہ کثیر محدثین اور فقہاء کرام سے آپ نےمختلف علوم حاصل کیے اور علمِ حدیث نبویﷺ کا سما ع کیا۔6
شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی کواندلس میں خوب علمی شہرت اور پذیرائی ملی اور اس پذیرائی و جلالت ِعلمی کی بنیاد پر آپوہاں کے" دانیہ"نامی ایک شہر کے دو مرتبہ منصب قضاء پر فائز ہوئے چنانچہ محمد زہیر الشاویش آپکے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
كان من أهل سبتة وتولى قضاء دانیة.7
شیخ ابو الخطاب شہر سبتہ کے رہنے والے ہیں اور (اندلس کے شہر)دانیہ کے قاضی بھی بنے۔
اس منصب قضاء کے ساتھ ساتھ آپ نے حدیث نبوی ﷺکی تدریس بھی جاری رکھی چنانچہ کئی محدثین آپ کے شاگرد تھے۔ یہاں اتنا ذکرکرنا کافی ہے کہ عظیم محدث امام ابن الصلاح شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ ہی کے شاگرد ہیں جن سے شیخ ابن الصلاح نے حدیث کی معتبر کتاب " موطا " پڑھی ہے چنانچہ حافظ علم الدین قاسم بن محمد برزالی اس حوالہ سے امام ابن اصلاح سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
سمعت الموطا على الحافظ بن دحیة.8
میں نے موطا حافظ ابن دحیہ سے سنی۔
اسی طرح سیر اعلام النبلاء میں آپ کی جلالت علمی کو بیان کرتے ہوئے صاحب سیر نے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں کہ شیخ ابو الخطاب اپنےزمانہ کے بہت بڑے عالم ہیں اور یہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ ہر خاص وعام کے نزدیک شرف ومنزلت رکھتے ہیں ۔ 9 اس سے آپ کی جلالت ِعلمی آشکار ہوتی ہے۔
آپ نے کئی ملکوں کی طرف علمی افادہ و استفادہ کے لیے سفر کیاجن میں تلمسان، شہر جایہ، تیونس ، نیشاپور، اصبہان،مصر، عراق اور دیگر کئی شہر شامل ہیں جہاں آپ نے لوگوں کواحادیثِ نبوی ﷺ پڑھائی اور اس کے سبب محدث کا لقب پایا چنانچہ اس کو بیان کرتےہوئے امام ابن خلکان لکھتے ہیں:
واشتغل بطلب الحديث فى أكثر بلاد الأندلس الإسلامية ولقى بھا علمائھا ومشايخھا ثم رحل منھا إلى بر العدوة ودخل مراكش واجتمع بفضلائھا ثم ارتحل إلى إفريقية ومنھا إلى الديار المصرية ثم إلى الشام والشرق والعراق (وسمع ببغداد من بعض أصحاب ابن الحصين وسمع بواسط من أبى الفتح محمد ابن أحمد بن الميدانى) ودخل إلى عراق العجم وخراسان وما والاھا ومازندران كل ذلك فى طلب الحديث والاجتماع بأئمته والأخذ عنھم وهو فى تلك الحال يؤخذ عنه، ويستفاد منه.10
اور آپ اسلامی اندلس کے اکثر شہروں میں حدیث کی جستجو میں مصروف رہے اور وہاں کے علماء اور مشائخ سے ملاقات کی۔ پھر آپ وہاں سے عدوہ کےصحرائی علاقوں کی طرف چلے گئے،پھر مراکش آئے اور اس کے فضلاء سے ملاقات کی، پھر افریقہ چلے گئے اور وہاں سے دیارِ مصر گئے۔ پھر شام ،مشرق ، عراق گئے اور بغداد میں ابن الحصین کے ایک دوست سے سماع کیا۔ واسط میں ابو الفتح محمد بن احمد بن امیدانی سے سماع کیااور عراقِ عجم، خراسان ، اس کے اردگرد کے علاقے اور مازندران آئے۔ یہ اسفار طلب حدیث اور اس کے ائمہ سے ملاقات اور ان سے علم حاصل کرنے کے لیے تھا اور اس سفری حالت میں بھی آپ سے علم کا حصول اور استفادہ کیا جاتا تھا۔ur
اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی ایک عظیم اور نامور محدث ہیں جنہوں نے علم حدیث کی طلب میں اپنی مکمل زندگی وقف کی اور ساتھ ہی علم کی اس مقدس راہ میں افادہ و استفادہ کا عمل بھی مسلسل جار ی رکھا۔
امام ابن دحیہ کلبی کے حالات ملاحظہ فرمانے کے بعد اور آپ کے تبحّر ِعلمی جاننے کے بعد اب ان کی ثقاہت کے بارے میں جاننا ضروری ہے ۔آپ کی ثقاہت کے بارے میں امت کے اکثر علماء نے ان کی تعریف کی ہے اور ان کو ثقہ یعنی معتبر مانا ہے۔ اگرچہ بعض علماء ایسے بھی ہے جنہوں نے ان پر جرح بھی کی ہے لیکن اصولِ جرح وتعدیل کے مطابق یہ جرح قابل قبول نہیں چنانچہ شیخ ابن الابار آپ کی شان علمی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
كان بصيراً بالحديث معتنيا بتقييده مكبا على سماعه.12
شیخ ابو الخطاب حدیث کے ماہر ، ان کی قیودات سے واقف اور حصول حدیث پر متوجہ تھے۔
اسی طرح امام ابن دحیہ کلبی کے شاگرد شیخ ابن نجارلکھتے ہیں:
كان حافظا ماهرا فى علم الحديث .13
شیخ ابو الخطاب حدیث کے حافظ اور ماہر تھے۔
نیز علامہ احمد تلمسانی حدیث میں ان کے مقام کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وحدّث وأفاد وكان من أعيان العلماء ومشاهير الفضلاء متقناً لعلم الحديث وما يتعلّق به عارفاً بالنحو واللّغة وأيّام العرب وأشعارها.14
شیخ نے حدیث پڑھائی اور خوب خدمت کی۔ یہ کبار علماء اور مشہور فضلاء میں سے ہیں۔ حدیث نبوی اور اس سے متعلق علوم کے بڑے ماہر، نحو، لغت اور حالات واشعارِ عرب کے عارف تھے۔
اسی طرح امام ابن خلکان دیگر علوم میں آپ کی مہارت کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
كان أبو الخطاب المذكور من أعيان العلماء ومشاهير الفضلاءمتقناً لعلم الحديث النبوى وما يتعلق به، عارفاً بالنحو واللغة وأيام العرب وأشعارها.15
ابو الخطاب مذکور،کبارعلماء اور مشہور فضلاء میں سے تھے ، علم ِحدیثِ نبوی ﷺ اور اس سے متعلقہ امور کے ماہر تھے ۔نحو، لغت، ایام العرب اور ان کے اشعار کے عارف تھے۔ 16
نیز شیخ ابو العباس غبرینی شیخ ابو الخطاب کی ثقاہت اور تبحّر ِعلمی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الشیخ الفقیه الحافظ المتقن النحوى اللغوى التاریخى أبو الخطاب عمر بن الحسن بن علی بن دحیة الكلبى من كبار المحدثین ومن الحفاظ الثقات الإثبات المحصلین.17
شیخ ، فقیہ، حافظ، کامل الضبط، نحو ولغت اور تاریخ کے ماہر، ابو الخطاب عمر بن حسن بن علی بن دحیہ کلبی ہیں اور یہ کبار محدثین اور ثقہ حفاظ اور مستند اساتذہ میں سے ہیں۔
یہاں تک کہ علمائے اہل حدیث میں سے محمد زہیر الشاویش بھی لکھتے ہیں:
كان من حفاظ الحدیث بصیرا به، وبلغة العرب وأشعارها، وأیام الحروب اجتمعت له الإجازات الكثیرة بالروایة عن علماء عصرہ له محفوظات وافیة وأدب ظاهر فصیح العبارة ظاهرى المذهب فى الفقه حصّل من العلوم ما لم یتیسر لغیرہ وكان من أوعیة العلم سریا نبیلا من أعیان العلماء...كان سنیاً مجانباً لأهل البدع.18
شیخ حفاظ حدیث میں سے ہیں اورفن ِحدیث کے ماہر، لغت عرب، اشعار اور اس کی تاریخ کے فاضل ہیں۔اپنے وقت کے علماء سے انہیں روایتِ حدیث کے لیے کثیر اجازات حاصل تھیں اوران کی تصانیف کامل، موقف واضح اور تحریریں شستہ ہیں۔ فقہ میں ظاہری المذہب ہیں انہوں نے ایسے علوم حاصل کیےجو دوسر وں کے لیے ممکن نہیں اور یہ علم کا خزانہ اور چشمہ تھے ،یہ صاحب ثروت وسخاوت اور بڑے فضلاء میں شامل تھے۔۔۔ اہل سنت تھے اور اہل بدعت سے دور رہنے والے تھے۔
ان تمام مذکورہ ائمہ کی عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ انتہائی بلند پایہ عالم، محدّث،لغوی،مؤرخ اور علوم ِنقلی و عقلی کے ماہر عالم تھے جن کی معتبر علماء نے توثیق و تائید بھی کی ہے ۔
امام ابن دحیہ کلبی کی حدیث نبوی ﷺمیں مہارت اور حفظ حدیث میں مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مصرمیں ایک دار الحدیث" الکاملیہ" کے نام سے قائم کیاگیا جس کے پہلے سربراہ و شیخ الحدیث امام ابن دحیہ کلبی ہی تھے چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئےحافظ ابن کثیر اس حقیقت کو یوں آشکار کرتے ہیں:
الحافظ شيخ الديار المصرية فى الحديث وهو أول من باشر مشيخة دار الحديث الكاملية بھا.19
یہ حافظِ حدیث ،دیار ِمصر میں حدیث کے استاذ اور دار الحدیث کاملیہ کے پہلے شیخ الحدیث بھی ہیں۔
انہیں جو دار الحدیث کا سربراہ بنایا گیا یہ فقط تنہا سلطان کا فیصلہ نہ تھا بلکہ اس دور کے تمام محدّثین اور اہل علم کا متفقہ فیصلہ تھا جس کی وجہ شیخ ابن دحیہ کلبی کا تبحّر ِعلمی خصوصا ًعلم حدیث میں مہارت تامہ تھی۔شیخ ابو العباس احمد بن عبداللہ الغبرینی آپ کی رفعتِ علمی اور اس متفقہ فیصلہ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
فرعوا شانه وقربوا مكانه وجمعواله علمائ الحدیث و حضروا له مجلسا أقروا فیه بالتقدم واعترفوا له أنه من أولى الحفظ والاتقان والتفھم وسمعت أنھم ذكروا الأحادیث بأسانید حولوا متونھا وأنه عاد المتون وعرف عن تغییرها ثم ذكر الأحادیث على ما هى علیه من متونھا الأصلیة.20
ان کی شان مشہور اوران کا مقام اونچا ہے۔محدثین نے جمع ہوکر مجلس کا انعقاد کیا جس میں ان کی علمی فوقیت کا اقرار اور یہ اعتراف کیا کہ اس وقت یہ سب سے زیادہ صاحب حفظ وضبط اور صاحب فہم ہیں اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بطور آزمائش محدثین نے کچھ احادیث کے متون لے کر دیگر اسناد کے ساتھ بیان کیا تو وہ اس تبدیلی سے آگاہ ہوگئے اور انہوں نے ان احادیث کو متون اصلیہ کے ساتھ بیان کردیا۔
اسی طرح مصری ریاست کے سلطان، کامل محمدکے علم دوست ہونے اور اس کے سبب شیخ ابن دحیہ کی ان کے ہاں قدر و منزلت کوبیان کرتے ہوئے شیخ موید عماد الدین تحریر فرماتے ہیں:
وكان الملك الكامل ملكاً جليلاً مھيباً حازماًحسن التدبير أمنت الطرق فى أيامه وكان يباشر تدبير المملكة بنفسه واستوزر فى أول ملكه وزير أبيه صفى الدين بن شكر فلما مات ابن شكر لم يستوزر أحداً بعده وكان يخرج الملك الكامل بنفسه فينظر فى أمور الجسور عند زيادة النيل وإصلاحها فعمرت فى أيامه ديار مصر أتم العمارة وكان محباً للعلماء ومجالستھم وكانت عنده مسائل غريبة فى الفقه والنحو يمتحن بھا الفضلاء إذا حضروا فى خدمته وكان كثير السماع للأحاديث النبوية تقدم عنده بسببھا الشيخ عمر بن دحية وبنى له دار الحديث بين القصرين فى الجانب الغربى وكانت سوق الآداب والعلوم عنده نافقة رحمه اللّٰه تعالى.21
سلطان کامل جلیل القدر،بارعب، سنجیدہ فکر اور اعلی تدبیر کے مالک تھے۔ ان کے دور میں مثالی امن تھا اوردیارمصر نے ان کے دور میں خوب ترقی کی۔ یہ اہل علم اور ان کی مجالس سے محبت کرتےاور ان کے ہاں کچھ ایسے عجیب فقہی ونحوی مسائل تھے جو یہ آنے والے علماء سے بطور آزمائش پوچھتے۔ احادیث نبویہ انہوں نے خوب وکثیر حاصل کی تھیں اور اسی وجہ سے ان کے ہاں شیخ عمر بن دحیہ کا مقام سب سےرفیع تھا۔ سلطان نے شیخ کے لیے مغربی جانب قصرین کے درمیان دار الحدیث قائم کیا اور ان کے ہاں آداب وعلوم کی رونق لگی رہتی تھیں۔
اسی طرح سلطان کامل ابن دحیہ کلبی کا بڑا احترام کرتے یہاں تک کہ ان کے جوتے سیدھے کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتےتهے۔یہی وجہ تھی کہ اس قدر و منزلت کی بنا پر موصوف سلطان نےآپ کے لیے دار الحدیث بنایا۔چنانچہ اس حوالہ سےبیان کرتے ہوئے شیخ ابن نجار لکھتے ہیں:
وصادف قبولا من السلطان الملك الكامل محمد بن الملك العادل أبى بكر بن أيوب وأقبل عليه اقبالا عظیما وكان يعظمه ويحترمه ويعتقد فيه ويتبرك به، وسمعت من يذكر أنه كان يسوى له المدارس حين يقوم...وبنى له دارا للحديث كان يحدث بھا.22
سلطان کامل محمد بن سلطان عادل ابوبکر بن ایوب کے ہاں ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ وہ ان کا بہت ہی احترام وعزت کرتے، ان کے عقیدت مند اور ان سے برکات حاصل کرتے۔ میں نے یہ بھی سنا کہ جب قیام فرماتے تو سلطان جوتے سیدھے کرتے، ان کے لیے دار الحدیث بنایا جہاں وہ حدیث پڑھاتے۔
ان تمام مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبیایک نابغۂ روزگار حافظ الحدیث تھے جن کی ثقاہت و تبحّر ِعلمی پر اس وقت کے علماء ومحدثین متفق تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپسلطان ملک اورشاہ اربل دونوں کے ہاں اعلی قدر ومنزلت کے حامل اعلی ترین شخصیت تھے ۔
شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی 604ھ میں خراسان جاتے ہوئے شہر اربل میں تشریف لائےاور وہاں کے حاکم مظفر الدین کوکبری سے آپ کی ملاقات ہوئی۔
یہ بادشاہ جیسا کہ پہلے عرض کی کہ نہایت ہی سخی، صالح، علم دوست، کفایت شعار، سادہ اور رحم دل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کفار کے خلاف جہاد کرنے والوں کی سرپرستی کرتا،اس کے دیگر امور خیر میں سے ایک عظیم کارِ خیر،محفل میلاد کا انعقاد بھی تھا جس میں وقت کے تمام محدثین، علماء اور صوفیہ شریک ہوا کرتےتھے ۔ حافظ ابن دحیہ کلبی نے جب ان کا یہ عمل خیر دیکھا تو خوش ہوئے اور محسوس کیا کہ مجھے اپنا دینی فریضہ نبھاتے ہوئے اس موضوع پر کچھ لکھنا چاہیے تو وہاں کتاب "التنویر فی مولد السراج المنیر" لکھی چنانچہ اس حوالہ سے موصوف کے معاصر شیخ ابن خلکان لکھتے ہیں:
وقدم مدينة إربل فى سنة أربع وستمائة، وهو متوجه إلى خراسان، فرأى صاحبھا الملك المعظم مظفر الدين بن زين الدين رحمه اللّٰه تعالى، مولعاً بعمل مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، عظيم الاحتفال به فعمل له كتاباً سماه "كتاب التنوير فى مولد السراج المنير" وقرأه عليه بنفسه، وسمعناه على الملك المعظم فى ست مجالس فى جمادى الآخرة سنة خمس وعشرين وستمائة.23
604ھ میں خراسان جاتے ہوئے اربل شہر میں آئے اور اس کےحکمران ملک معظم مظفر الدین بن زین الدین کو دیکھا۔ وہ میلاد النبی ﷺ منانے کا بڑا شوقین تھا اور اس کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ پس آپ نے اس کے لیے ایک کتاب تیار کی اور اس کا نام "التنویر فی مولد السراج المنیر'' رکھا اور خود اسے یہ کتاب سنائی۔ اور ہم نے اسے جمادی الآخرۃ 625ھ میں ملک معظم کی چھ(6) مجالس میں سنا۔ 24
اسی طرح شیخ مبارک بن احمد موصلی ابن شعار اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
واتصل سلطانھا الملك المعظم مظفر الدین أبى سعید كوكبرى بن على بن بكتكبین فبالغ فى إكرامه وأنعم علیه إنعاماً عظیماً وصنف له كتابًا سماه كتاب التنویر فى مولد السراج المنیر ویتضمن ذكر ولادة النبى صلي اللّٰه عليه وسلم حین رآہ مغرى مولد النبى صلي اللّٰه عليه وسلم وشدة شغفه بذلك وإصغائه إلیه وهذا كتاب التنویر كنت أحد من سمعه على الملك مظفر الدین فى جمادى الآخرة سنة خمس وعشرین وست مئة برباط الصرفیة بحق روایته عن مصنفه الإمام أبى الخطاب.25
اور ان کا وہاں کے حکمران مظفر الدین ابو سعید کوکبری بن علی بن بکتکبین سے رابطہ ہوا۔ حاکم ان کاخوب احترام بجالایا اور انہیں خوب نعمتوں سے نوازا۔ جب انہوں نے سلطان کو محافل میلاد النبی ﷺ کا شیدائی،اس سے محبت اور نہایت شغف رکھنے والا پایا تو انہوں نے اس کے لیے وہاں یہ کتاب لکھی"التنویر فی مولد السراج المنیر" جو سرور عالمﷺ کے ذکرِ ولادت پر مشتمل تھی۔ بندہ نے یہ "کتاب التنویر" رباط الصوفیہ میں جمادی الاخر 625ھ سن میں سلطان مظفر الدین کے ہاں سامعین کے ساتھ سنی جو مصنفِ کتاب امام ابو الخطاب کی روایت ہی سے تھی۔
یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ شاہ اربل ان کی ملاقات سے پہلے ہی محفل میلاد سجایا کرتے تھےجبکہ یہ کتاب وفتویٰ بعد میں لکھا گیا ہے۔
شاہِ اربل نےجب ان کی لکھی ہوئی کتاب پڑھی تو پڑھ کر بہت خوش ہوئے اورحافظ ابن دحیہ کلبی کو انعام دیاچنانچہ اس حوالہ سے شیخ ابن خلکان لکھتے ہیں:
ولما عمل هذا الكتاب دفع له الملك المعظم المذكور ألف دینار.26
جب آپ نے یہ کتاب تیار کی تو ملک معظم مذکور نے آپ کو ایک ہزار دینار عطا کیے۔
یعنی شاہ اربل نے شیخ ابو الخطاب کی اس خدمتِ دینی کو سراہا اور علم دوستی کا اظہار کرتے ہوئےاس علمی خدمت پر انہیں اس انعام سے بالکل اسی طرح نوازا جس طرح ا س زمانے میں ہر فن کے ماہرین اور ہر علم کے متخصّصین کو گرانقدر عطیات سے نواز کر علم وفن کی سرپرستی کی جاتی تھی۔
اہل علم ہمیشہ سے شیخ ابو الخطاب کی محفل میلاد پر لکھی جانے والی مذکورہ کتاب کی تعریف کرتے رہے ہیں چنانچہ مفسر ِقرآن حافظ ابن کثیر اس کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وقد وقفت على هذا الكتاب وكتبت عنه أشیائ حسنة مفیدة.27
بندہ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور اس سے نہایت ہی خوبصورت ومفید باتیں لکھی ہیں۔
اسی طرح اہل علم نے امام ابن دحیہ کلبی کی دیگر کتب کی بھی تعریف کی ہے چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شیخ ذہبی تحریر فرماتے ہیں:
وله تواليف تشھد باطلاعه.28
اور شیخ کی دیگر تصانیف بھی ہیں جواس بات کی گواہ ہیں کہ ان کی نظر ومطالعہ انتہائی وسیع تھا۔
مذکورہ عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ ابو الخطاب کے علمی ثقاہت کے صرف معاصر ہی نہیں بلکہ ہر دور کے اہلِ علم معترف رہے۔ آپ کی ذات ہمیشہ سے اہلِ علم کے لیے قابلِ قدر اور لائقِ احترام رہی جبکہ آپ کی تصانیف آپ کے گہرے اور وسیع علم کا شاہکار ہیں۔
شیخ ابو الخطاب کی ثقاہت اور کثرتِ مطالعہ کے سبب آپ کی تبحّرِ علمی معاصر علماء کرام میں مقبول ومشہور تھی لیکن اس کے باوجود آپ کے حوالہ سے بعض کتب میں جرح پائی جاتی ہے۔کتبِ اسماء الرجال میں امام ابن دحیہ کلبی پر پائے جانی والی جرح بالکل اسی طرح کی جرح ہے جس سے کوئی بھی بڑی شخصیت محفوظ نہیں کیونکہ شیخ ابوالخطاب ابن دحیہ کے صحیح حالات دیکھ کر ان پر کی گئی جرح کی تین اقسام سامنےآتی ہیں جنہیں بالترتیب ذکر کیا جارہا ہے۔
بعض علماء نے ان کی طرف ایسی چیزیں منسوب کی ہیں جو کسی طرح بھی ایسے جلیل القدر محدث سے متوقع نہیں ہوسکتیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ حدیث گھڑتے تھے ۔اس بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران ِسفر، نماز مغرب میں قَصَر کے بارے میں حدیث گھڑی ہے جبکہ ان کے حالاتِ زندگی جمع کرنے والوں میں سے ایک نے بھی ایسی بات ہرگز نہیں لکھی بلکہ اس بات کی مکمل تردید کی ہے کہ ایسی کوئی بات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچی ہے چنانچہ حافظ عراقی اس جرح کو لکھنےکے بعد ایک شرط لگاتےہوئے لکھتے ہیں:
إن ثبت عنه.29
اگر یہ بات شیخ ابن دحیہ سے ثابت ہوسکے۔
یعنی انہوں نے اس حکایت کو تسلیم کرنے کے بجائے مشکوک قرار دیا اور ان کا یہ شک بالکل درست ہے کیونکہ شیخ موصوف کی زندگی میں ایسی جرح ہرگز ثابت نہیں۔اسی طرح شیخ ابن بیک نے شیخ ابن سیّد الناس سے جب یہی سوال کیا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ابو الخطاب بن دحیہ نے قصر نماز مغرب کے حوالہ سے حدیث گھڑی تھی؟تو انہوں نے جواباً لکھا شیخ ابن دحیہ کے حوالہ سے کچھ باتیں ایسی بیان کی جاتی ہیں جو قابلِ اعتماد نہیں ہیں چنانچہ وہ اس حوالہ سے یوں لکھتے ہیں:
نقلت إلینا مجملة لا مفصلة لا یعول علیھا فى جرح ولا یتسند إلیھا فى قدح واخال من ذلك حدیث المغرب.30
ہمیں ایسی جرحیں موصول ہوئیں جن میں اجمال ہے نہ کہ تفصیل اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ ان پر طعن کے لیے معتمد ہیں ۔میراخیال ہےکہ ان میں سے حدیثِ نماز مغرب بھی ہے۔
اگر کوئی حدیث گھڑنا ہوتی بھی ہے تو کسی ایسے مسئلہ کے بارے میں گھڑی جاتی ہے جس میں اختلاف ہو اور وہ معاملہ عمیق ومخفی ہونہ کہ نماز ِمغرب میں عدم قصر جیسا مسئلہ جومسلّمہ اجماعی معاملہ ہے ۔اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بھی حاسدین کی طرف سے لگایا گیاایک الزام ہے ۔
اس سے بڑھ کر ان کی ثقاہت وحفظ پر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ شیخ المحدثین امام ابن الصلاح نے ان سے "مؤطا "کا درس لیا۔اگر یہ واقعۃً کاذب تھے تو ان سے کم از کم اس جیسے عظیم محدث حدیث کا سبق نہ لیتے اور ان کو اپنا استاد ِحدیث نہ بناتے۔اگر پڑھ چکنے کے بعد ابن دحیہ سے وضعِ حدیث ثابت ہوتی تو ان کی گرفت بھی کرتے اور ان سے اپنے تعلق کی برأت کا اعلان بھی کرتے لیکن صاف ظاہر ہے کہ امام ابن الصلاح سے ایسا کچھ بھی نہ اپنے شیخ کی زندگی اور نہ ہی ان کے وصال کے بعد ثابت ہے بلکہ امام ابن الصلاح تو اپنی تلامذگی کو بارہا بیان کرتے تھےچنانچہ حافظ علم الدین قاسم بن محمد برزالی اس حوالہ سے امام ابن الصلاح سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
سمعت الموطا على الحافظ بن دحیة.31
میں نے موطا حافظ ابن دحیہ سے سنی ۔
اسی طرح جب سلطان کامل نے مصر میں دار الحدیث کا ملیہ قائم کیا تو اس کے اولین سربرا ہ عالم آپ کو بنایا اور ان کی سربراہی کا فیصلہ اس وقت کے تمام محدثین نےایک اجلاس میں مل کر کیا چنانچہ شیخ ابو العباس احمد بن عبداللہ غبرینی اس حوالہ سے لکھتے ہیں :
وحضروا مجلسا اقروا فيه بالتقدم، واعترفوا له إنه من أولى الحفظ والإتقان والتفھم.32
اور محدثین ايك مجلس ميں حاضر ہوئے جس میں ان سب نےان کی علمی فوقیت کا اقرار کیا اور یہ اعتراف کیا کہ یہ صاحبِ حفظ، صاحبِ ثقاہت اورسب سےزیادہ فہیم ہیں۔
اگر آپ حدیث میں کاذب ہوتے تو ان جلیل القدر محدثین کا اجماعی فیصلہ آپ کے حق میں نہ ہوتا جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک جھوٹی جرح ہے۔
شاہ اربلنے ابن دحیہ کلبی کو اپنے ہاں بڑا مقام دیا تھا جس کی وجہ سے کئی علماء ان کے مقام سے خوش نہ تھے اور بالخصوص صفی الدین ابو محمد عبداللہ بن علی المعروف ابن شکر الوزیر اور شیخ ابن دحیہ کے درمیان معاصرانہ چپقلش تھی جس کی وجہ سلطان کامل کے ہاں شیخ کے مقام پرحسد تھا اور اس وجہ سے ہی وزیر مالکی نے مدرسہ قائم کیا اور ابن دحیہسے مقابلہ کے لیے شیخ علی بن المفضل کو وہاں مقرر کیا ۔جس سے مقصود سلطان کامل کے ہاں ابن دحیہکے مقام کو گرانا تھا ۔اس حقیقت کو شیخ ابن سیّد الناس نے ان الفاظ میں ذکر کیا :
كان أبو الخطاب قد نال من الملك الكامل أرفع خطوة لاتكاد تحل لأبى الخطاب إذا دخل علیه حبوة فبلغ فى دولته كل الاقتراح وأمتزج كل منھا بالآخر امتزاج المائ بالراح حتى خص أكابر دولته من ذلك بالدائ الدوى وغص الصفى ابن شكر بصفائ مورد ذلك الود الروى فعالج كل العلاج لیفسد ذلك الامتزاج فكان فى سعیه ذلك أن بنى مدرسة لمذهب مالك و استقدم لھا الحافظ أبا الحسن ابن المقدسى لیزاحم ابن دحیة به ویدحضه عند الملك الكامل فى منصبه فلم یتھیأ ذلك له ولأزحزحه عن تلك المنزلة وكانت تقع فى ذلك من ابن المقدسى فیه أمور ونفثات مصدور یشیعھا من أصحاب أبى الحسن من یعرف ومن لا یعرف ویذیعھا من تنكر منھم ومن تعرف وربما زاد فیھا السامع حین أدى وأتى من حیث لایشعر شیئا أدا وإنما وصلت إلیه مرسلة ونقلت إلینا مجملة لا مفصلة لا یعول علیھا فى جرح ولا يستند إلیھا فى قدح وأخال من ذلك حدیث المغرب.33
شیخ ابو الخطاب نے سلطان کامل کے ہاں ایسا بلند مقام پایا کہ ابو الخطاب کو وہاں سے نیچے لانا دشوار تھا کہ اس حکومت میں ہر لحاظ سے انہوں نے عزت پائی اور وہ ایک دوسرے سے اس طرح شیر وشکرہوئے جیسے پانی اور دودھ حتٰی کہ اکابرینِ حکومت کو اس پر حسد ہوگیا اور خصوصاًصفی بن شکر اسی حسد کی نذر ہوگئے اور وہ اس حسد میں اس قدر آگے بڑھے کہ ان کی کوشش تھی کہ یہ اتصال فساد سے بدل جائے۔ ان کی اس کاوش میں مذہب ِمالکی کے لیے ایک مدرسہ کا قیام بھی ہے جس کے لیے انہوں نے حافظ ابو الحسن بن مقدسی کو بلایا تاکہ ابن دحیہ کا مقابلہ کیا جاسکے اور سلطان کامل کے ہاں ان کی عزت و منصب کوختم کیا جائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے اور نہ ہی اس مقام سے انہیں گرا سکے۔ اس وجہ سے ابن مقدسی سے چند امور اور حسد کی چیزیں صادر ہوئیں، علم رکھنے والے اور نہ علم رکھنے والے اصحاب شیخ ابو الحسن نے انہیں خوب پھیلایا اور ہربری واچھی خبر ان کے بارے میں مشہور کردی۔ متعدد اشیاء سامعین نے اس میں اضافہ بھی کردیں حالانکہ یہ چیزیں متصلاً نہ پہنچی تھیں بلکہ مجمل طور پر ہم تک آئیں لہٰذا جرح میں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی قدح میں سند ،میرے خیال میں انہی میں سے حدیث مغرب گھڑنے کا معاملہ ہے۔
انہی حاسدین نے ان کی عداوت میں جرح کی اور اس کو مشہور کیالہذا یہ جرح قابل قبول نہیں۔اسی طرح شیخ تقی الدین مقریزی شیخ سنہوری کے اتہامات نقل کرنے کےبعد لکھتے ہیں:
انا أبرأ إلى اللّٰه من عھدته وما تجرأ علیه من تقبیح فعلته والحسد دائ لادواء له.34
میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کی ذمہ داری اور ابن دحیہ پر ان کے حملوں سے براءت کا اعلان کرتا ہوں، حسد ایسی بیماری ہے جس کی کوئی دوا نہیں۔
نیز خود یہ جرح کرنے والے ابراہیم بن خلف سنہوری کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں:
دجال فى المغرب أتھمه أبو الحسن بن القطان بالمجازفة والكذب.35
یہ مغرب میں دجال(دھوکہ باز) ہے شیخ ابو الحسن بن قطان کہتے ہیں یہ شخص نہایت ہی غیر تحقیقی اور کاذب ہے۔
جب خود ان پر جرح کرنے والوں کایہ حال ہے تو پھر کس طرح ان کی جرح پر اعتماد کیا جاسکتاہے۔نیز شیخ سنہوری کے ابن دحیہپر انہی بہتانات کی وجہ سے سلطان کامل نے اس کو سزا دی ،کوڑے لگائے ،گدھے پر سوار کیااور شہر میں پھرایا۔چنانچہ شیخ تقی الدین مقریزی اسی سزا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لما ضرب طیف به إلى انتھى إلى منزل ابن دحیة فلما سمع الندائ علیه خرج إلیه وألقى علیه ثوبه وكلم فیه السلطان فخرج أمرہ بالخروج عن الدیار المصرىةفتوجه نحو العراق ثم دخل بلاد العجم وتوفى هناك فى حدود عشرین وست مئة على ما بلغنى.36
جب اسے سزا دیتے ہوئے پھرایا گیا اور وہ ابن دحیہ کے گھر کے پاس پہنچے تو وہ ان کی آواز سن کر باہر آئے اور اپنی چادر ان پرڈال دی اور سلطان سے چھوڑنے کی سفارش کی تو اسے علاقہءِ مصرسے نکال دیا گیا تووہ عراق کی طرف چلے گئے ۔اس کے بعد وہ بلاد عجم میں رہے اور وہاں ہی تقریباً 620ھ میں فوت ہوئے۔
یعنی معلوم ہوا کہ شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ پر کی گئی بعض جرحیں ایسی ہیں جو در حقیقت بغض وعناد کی وجہ سے کی گئیں ہیں اور کرنے والے خود بھی علماء کے درمیان مجروح اور غیر ثقہ ہیں لہذا ایسی جرحیں شیخ ابو الخطاب جیسے عظیم محدث اور عالم کے لیے بہر صورت ناقابلِ اعتبار ہیں۔
شیخ ابو الخطاب چونکہ علماء کے درمیان نہایت ثقہ عالم ہیں جیساکہ اکثر محدثین نے امام ابن دحیہ کلبی کی بڑی تعریفیں کی ہیں اور انہیں ثقہ، محدث، فقیہ، صاحب علم و فضل اور حدیث کا عظیم ماہرتسلیم کیا ہےاور ان کی علمی شان بیان کرتے ہوئےانہیں مختلف الفاظ و القابات سےذکرکیا ہے ۔امام ذہبی جیسے محدث بھی ان کو ان عظیم القابات سے یاد کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:
الإمام العلامة الحافظ الكبیر.37
امام، علامہ، بڑے حافظ۔
نیزیہی امام ذہبی اپنی دوسری کتاب میں انہیں ان القابات سے یاد کرتے ہیں:
الشيخ، العلامة، المحدث، الرحال المتفنن، مجد الدين أبو الخطاب.38
استاذ،علامہ، محدث،حدیث کے لیے کثیر سفر کرنے والے،مختلف فنون کے ماہر، مجدالدین ابو الخطاب۔
امام ابن الصلاح جیسے محدثین ان کے تلامذہ میں شامل ہیں چنانچہ امام تقی الدین فاسی لکھتے ہیں:
بالموطأ سمعه منه أبو عمرو بن الصلاح.39
ابو عمرو بن صلاح نےموطاکواُن سےسنا۔
تاہم بعض علماء ایسے بھی ہیں جنہوں نے امام ابن دحیہ کلبی پر جرح کی ہےجوکہ معمولی جرح ہے اور ایسے جلیل القدر محدّث کے لیے ایسی جرح کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اکثر ائمہ محدّثین کی تعدیل کے مقابلے میں ایسے چند علماء کی جرح غیر مقبول ہے۔اسی حوالہ سے حافظ ابن صلاح اصولِ حدیث پر اپنی مشہور کتاب "علوم الحدیث "میں تحریرفرماتے ہیں:
فمن اشتھرت عدالته بین أهل النقل من أهل العلم و شاع كالشاء علیه بالثقة والأمانة استغنى فیه بذلك عن بینة شاهد بعدالته تنصیصا.40
علمائے اہل نقل میں جس کی عدالت مشہور ہو اور ثقاہت وامانت میں جس کی تعریف عام ہو ،اس شہرت کی بناء پر اس کے بارے میں صراحتاً انفرادی تعدیل کی حاجت نہیں ہے۔
یعنی جیسی جرح ابن دحیہ پر کی گئی ہے وہ قلیل علما ء کی طرف سے ہے جبکہ کثیر علماء ان کی ثقاہت کے معترف ہیں تو ایسی جرح کا کوئی نقصان نہیں ہے جیساکہ شیخ ابو الخطاب پر قلیل جرح کرنے والوں اور کثیر ائمہ کے ثقاہت کے معترفین ہونے کو بیان کرتے ہوئے علامہ احمد تلمسانی لکھتے ہیں:
تكلم فيه جماعة فيما ذكره ابن النجار وقدره أجلّ ممّا ذكروہ.41
ایک جماعت نے ابن دحیہ پرجرح کی ہے لیکن ان کا مقام اس جرح سے کہیں بلند وبالا ہے۔
بعض علماءکی جرح سے تو کوئی بھی محدث محفوظ نہیں یہاں تک کہ مستند اور مشہور ائمہ محدثین کے بارے میں بھی کتب اسماء الرجال میں جرح موجود ہے لیکن ایسی جرح ناقابل التفات ہوتی ہےچنانچہ اسی حولہ سے امام ابن حجر عسقلانیلکھتے ہیں:
سنيا مجانبا لأهل البدع سريا نبيلا عرفنى بحاله وحال أخيه أبى عمر وعثمان الشيخان أبو الخير الغافقى وأبو الخطاب بن خليل وكانا قد صحباهما طويلا وخبراهما جملة وتفصيلا إلا أنھما ذكراهما بإنحرافwel فى الخلق وتقلب له منھما غيرهما ووصفاهما مع ذلك بالثقة والنزاهة الإعتناء والعدالة.42
سنی، اہل بدعت کے مخالف، فاضل ، مجھے ان کے اور ان کے بھائی شیخ ابو عمر و عثمان کے بارے میں دو شیوخ شیخ ابو الحسن الغافقی اور شیخ ابو الخطاب بن خلیل نے بتایا اور وہ ان دونوں کے پاس طویل مدت پڑھتے رہے، انہوں نے ان دونوں کے بارے میں خوب تفصیلاً بتاتے ہوئے نشاندہی کی کہ ان کی طبع اور اخلاق میں سختی تھی اس کے علاوہ ان کا کوئی عیب بیان نہیں کیا ۔انہوں نے ان کوثقہ، عادل، کامل اور علم و تحقیق کا اہتمام کرنے والا قرار دیا۔
یعنی اس طرح کی جرح تو ہر عظیم محدث پر ہوتی ہے جو کہ کثیر ائمہ کے ہاں ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے لائق التفات تک نہیں رہتی اور شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ پر کچھ جرحیں اسی قسم کی ہیں جو کہ قلیل ائمہ نےکی ہیں جبکہ کثیر ائمہ اس جرح کو قبول ہی نہیں کرتے کیونکہ شیخ ابو الخطاب کی قدر اور ثقاہتِ علمی اس سے کئی درجہ بلند ہے۔
تمام مذکورہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ ابو الخطاب عمر بن حسن ابن دحیہ کلبی و حسینی علماء امت کے نزدیک انتہائی جلیل القدر عالم،اصولی،فقیہ،محدث اور نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جن کی ثقاہت و علمی تبحر پر اکثر ائمہ کبار اور ساتھ ساتھ معاصرین بھی متفق ہیں لہذا ایسی قد آور علمی شخصیت پر حاسدین ومبغضین کی جرح کے ماسوا دیگر جرحیں بھی نا قابل قبول ہیں اور اکثر ائمہ نے ان جرحوں کو قابل اعتناء سمجھا ہی نہیں ہے۔ ابّھی اگر معترضین اس جیسی عظیم المرتبت علمی شخصیت کےحوالہ سے شکوک وشبہات پیدا کریں ، انہیں غیر معتبر،ضعیف یا جھوٹا کہیں تو یہ حقیقت کو نہ ماننے والی اور سچائی سے منہ پھیرنے والی بات ہے ۔ان جیسے غیر مناسب اعتراضات سے شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ و الحسین کو ائمہ کبار نے کلیۃ بری قراردیا ہے اور اس براءت سےشیخ کا مقام ومرتبہ اور بھی زیادہ بلند ہوگیا ہے۔