Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺ اور کرسمس

بعض لوگ سمجھتے اورکہتے ہیں کہ جشن میلاد النبی منانا سراسر عیسائیوں کی تقلید ہے اس لیے کہ عیسائی سیّدنا مسیح کی ولادت کا دن مناتے ہیں اور یہ سب کچھ نصاریٰ کی تقلید و نقل میں کیا جاتا ہے۔ جس طرح نصاریٰ سیّدناعیسیٰ کی میلاد(جس کو عرفِ عام میں کرسمس کہا جاتا ہے)مناتے ہیں بعینہ اسی طرح مسلمان بھی رسول اللہ کا میلاد مناتے ہیں اور میلاد کی ہر چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں لہٰذا یہ عیسائیوں کی رسم ہے جس سے اجتناب کرنا لازمی و ضروری ہے کیونکہ مسلمانوں کو یہود و نصاری کی پیروی تو دور کی بات ان کی مشابہت سے بھی منع کیا گیا ہے۔اسی اعتراض کو شیخ ملا علی القاری نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔1

بادی النظر میں مذکورہ بالا اعتراض لاعلمی کی بنا پر پیدا ہوا ہے اور یہ اعتراض در حقیقت مسلمانوں پر عظیم بہتان ہےکیونکہ ائمہ اسلاف مثلاً امام ابو شامہ،2 امام فخر الدین رازی،3 امام جلال الدین سیوطی،4 ابن حجر الہیتمی،5 علامہ سخاوی،6 ابن جوزی،7 اما یوسف شامی،8 شیخ اسماعیل حقی 9 اور دیگر کبار فقہاء ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم حضوراکرم کی ولادت کی تقریب منانے اور اس میں جمع ہونے کو بہتر عمل قراردینے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو نبی کریم کی تعظیم میں شامل قرار دیتے ہیں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ائمہ اسلاف نے العیاذ باللہ نصاریٰ کی پیروی و تقلید کو تعظیم مصطفی میں شامل قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو بہتر بھی کہاہے جو کہ قرآنی نصوص کے خلاف ہے؟

صاف ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ معترضین کا یہ کہنا کہ میلاد النبی منانا عیسائیوں کی طرح حضرت عیسٰی کی ولادت کی تقریب سے مشابہہ ہے تو یہ "قیاس مع الفارق "ہےیعنی دو مختلف الحقیقت چیزوں کو ایک جیسا قرار دینا ہےاور اس کی غلط مثال دینا ہے کیونکہ نصاری حضرت عیسٰی کا یوم پیدائش یعنی کرسمس ڈےالعیاذ باللہ ان کے خدا یاا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا ہونے کے لحاظ سے مناتے ہیں اور اسلام نے اس کو کفر قرار دیا ہے چنانچہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کفر کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

  لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۭ 10
  بیشک ایسے لوگ (بھی) کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تین (معبودوں) میں سے تیسرا ہے، حالانکہ معبودِ یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

یعنی نصاریٰ جو حضرت عیسی کو بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کا برگزیدہ رسول و نبی ماننے کے مذکورہ بالا کفر کرتے ہیں اور اسی لحاظ سے ان کا یومِ پیدائش مناتے ہیں۔لیکن نصاریٰ کے بر عکس مسلمان سیّدنا محمد رسول اللہ کی ولادت پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے بندے اور اس کےمقرب رسول ہیں اور اﷲتبارک وتعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں میں افضل بنایا اور آپ کو وہ سب کچھ عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں عطا فرمایا۔یہ وجہ ہے کہ میلاد النبی کی محافل میں قرآن کی تلاوت اور نبی کریم کی نعت کے ساتھ ساتھ آپ کے ولادت کے احوال اور آپ کے فضائل بیان کیے جاتےہیں جن کو بیان کرنے کا مقصد ہی توحید الہٰی کے ساتھ نبی رحمت کی رسالتِ عامہ کو بیان کرنا ہوتا ہے۔اس تفصیل سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ کتنا بڑا فرق ہے مسلمانوں کا اپنے نبی کا یوم ولادت منانے اورنصاریٰ کا حضرت عیسٰی کی پیدائش کا دن منانے میں۔ وہ لوگ العیاذ باللہ حضرت عیسی کوخدایا خدا کا بیٹا مان کر ان کا یومِ پیدائش مناتے ہیں جبکہ اس کے برعکس مسلمان اﷲ تبارک وتعالیٰ کا مقرب بندہ،محبوب رسول اور مخلوق پر نعمتِ عظمی مان کر آپ کا یوم ولادت مناتےہیں ۔

ملا علی القاری کا اعتراض اور اس کا جواب

اس مقام پر ملا علی القاری نے بھی یہی اعتراض وارد کیا ہے کہ ہمیں نبی مکرم نے اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا ہے لہذا میلاد النبی منانے میں بھی مشابہت ہے مخالفت نہیں ہے چنانچہ شیخ ابن جزری کی اس موقف پر کہ جب نصاری اپنے نبی کا میلاد مناتے ہیں تو مسلمان تو اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ اپنے نبی کی تعظیم میں اس عمل مولد کو سر انجام دیں اس پر اعتراض کرتے ہوئے ملا علی القاری تحریر فرماتے ہیں:

  قلت لیکن یرد علیه انا مامورون بمخالفة اھل الکتاب ولم یظھر من الشیخ لھذا السوال جواب.11
  میں (یعنی ملا علی قاری)کہتا ہوں کہ اس موقف پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ ہمیں تو اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیاگیا ہے (تو اس عمل میں مطابقت کیسے ممکن ہے؟)شیخ جزری سے اس سوال کا جواب ظاہر نہیں ہوا۔

اس اعتراض کے جواب سے پہلے یہ ذہن نشین رہے کہ ملا علی القاری بذاتِ خود میلاد النبی کے جواز کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ آپ نے اس کے جواز کے حوالہ سے ایک کتاب بنامِ"المورد الروی فی المولد النبوی صلي الله عليه وسلم" بھی تحریرفرمائی ہے جس میں ممالک اسلامیہ میں منائے جانے والی میلاد النبی کی محافل کی نوعیت وکیفیت کو بیان کیا ہے اور دیگر ائمہ کبار کے حوالہ سے قرآن وحدیث سے اس کا جواز بھی ثابت فرمایا ہے البتہ اس مقام پر صرف یہ کہنا چاہا ہے کہ اس موقف پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے جس کا جواب شیخ نے نہیں دیا ۔تفصیلی جواب تو ذیل میں آرہا ہے البتہ یہاں صرف یہ کہنا مناسب رہے گا کہ اہل اسلام کو اہل کتاب کی ہر بات میں مخالفت کا حکم نہیں دیا گیا ہے بلکہ بقول علامہ شامی حرام ومکروہ اعمال اور ان کے شعائر دینیہ میں مخالفت کا حکم دیاگیا ہے12 جبکہ میلاد النبی منانا حرام ومکروہ نہیں بلکہ مستحب کام ہے۔ 13دوسری بات یہ ہے کہ قرآن و سنت میں دیگر انبیاء کرام کے میلاد کا ذکر موجود ہے14بالخصوص حضرت عیسی کے میلاد کا ذکر قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے 15 جو کہ امت کے لیے حجتِ شرعی ہے لہذا اہل کتاب میلاد منائیں یا نہ منائیں یا جس بھی طرز وفکر سے منائیں اس سے مسلمانوں کے میلاد النبی منانے پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ عقلاً بھی یہ بات قابلِ غور ہے کہ کیا اگر اہل کتاب نماز پڑھتے ہیں تو ہم نماز چھوڑ دیں ، وہ روزہ رکھتے ہیں تو ہم روزہ چھوڑد یں ، وہ صداقات دیتے ہیں تو ہم زکوٰۃ چھوڑ دیں علیٰ ھذا القیاس اس لیے اس مسئلہ میں حتمی بات ابن عابدین شامی ہی کی ہے جس میں حرام و مکرو ہ اعمال اور ان کے شعائرِدینیہ میں اجتناب کا بالخصوص حکم موجود ہے ورنہ عاشورہ کے روزے کی طرح عمل ترک نہیں ہو گا بلکہ اس میں احسن اضا فہ کر کے مخالفت کی جائے گی۔

حدیث مشابہت کی غلط تشریح

رہی بات اس حدیث مبارکہ کی جو معترضین اور ملا علی القاری اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں جس کو مسند احمد میں یوں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ نے کسی قوم سے مشابہت کے حوالہ سے ارشاد فرمایا:

  من تشبّه بقوم فھو منھم. 16
  جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ ان میں سے ہے۔

اس حدیث کے تنا ظر میں معترضین کا یہ کہنا کہ چونکہ عیسائی اپنے نبی کا میلاد مناتے ہیں اگر مسلمان بھی اپنے نبی کا میلاد منائیں گے تو یہ ان کے ساتھ مشابہت ہوجائے گی لہٰذا میلاد النبی منانا منع ہے تو اس بارے میں حقیقت یہ ہے کہ میلاد النبی کو عیسائیوں کا طریقہ کہہ کر اس حدیث سے استدلال کرنا بالکل غلط ہےکیونکہ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں جو کہ مذکورہ بالا معترضین کا اختراع کردہ ہےکیونکہ ہر مشابہت منع نہیں بلکہ کسی قوم کی مشابہت ان کی بری باتوں اور برے کاموں میں منع ہے نہ کہ مطلقاً مشابہت۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو کہ کفار کی دینی یا قومی علامت بن چکا ہو جس کو دیکھ کر لوگ اسےکافر قوم کا آدمی سمجھیں جیسے کہ دھوتی، چوٹی، زنار، وغیرہ ورنہ مسلمان بھی آب زمزم مکّہ معظمہ سے لاتے ہیں اور ہندو بھی گنگا جل لاتے ہیں،مسلمان حج کےموقع پر حج کی رسوم اد اکرتےہیں اورہندو بھی کمبھ کے میلہ میں جمع ہوکر مذہبی رسوم کی ادائیگی کرتےہیں، ہم بھی منہ سے کھاتے اور پاؤں سے چلتے ہیں کفار بھی یہی کرتے ہیں،ہم بھی لباس پہنتے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے ہیں لیکن اس مشابہت کو کوئی بھی ذی شعور شخص مذکورہ بالا حدیث کے تحت سمجھتے ہوئے ممنوع قرار نہیں دے سکتا کیونکہ یہ تشریح غیر معقول ہے۔

مشابہت کا صحیح مفہوم

پھر معترضین کے اس رویہ سے ایک لازمی اشکال یہ پیداہوتا ہے کہ نصاری بھی روزہ رکھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں،لباس پہنتے ہیں، اب اگر میلاد النبی منانا صرف اس لیے منع ہے کہ نصاری بھی اپنے نبی17 کا یوم ولادت خدا کے بیٹے کے طور پر مناتے ہیں نہ کہ اپنے نبی کے طور پر یہی چیز مابہ الامتیاز کا درجہ رکھتی ہے۔ (ادارہ) ] کا میلاد مناتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی روزے رکھنے، کھانا کھانے اور لباس پہننے سے بچنا چاہیے کیونکہ ان تمام باتوں میں بھی مشابہت موجود ہے جبکہ ایسا کوئی بھی ذی شعور انسان نہیں کہہ سکتا لہذا صرف تقریبِ میلاد ہی کی مشابہت سے حدیث بالا کے تناظر میں مشابہت کا حکم لگانا درست نہیں ہے کیونکہ اس مشابہت سے مراد کسی قوم کے شعارِ دینی میں مشابہت ہے جیسے زنار باندھنا ، صلیب پہننا اور ان جیسے دیگر شعائر میں مشابہت اختیار کرناہے۔اس مذکورہ تشریح کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی ہوجاتی ہے جس میں منقول ہے کہ نبی مکرم نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھا چنانچہ اس حدیث میں مروی ہے کہ نبی مکرم نے خودعاشورہ کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کوبھی یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا حالانکہ اس میں مشابہتِ یہود تھی چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:

  مر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أناس من الیھود قد صاموا یوم عاشوراء، فقال: ما هذا من الصوم؟ قالوا: هذا الیوم الذى نجى اللّٰه موسی وبنی إسرائیل من الغرق، وغرق فیه فرعون، وهذا یوم استوت فیه السفینة على الجودى، فصام نوح وموسی شکرا للّٰه، فقال النبی صلى اللّٰه عليه وسلم أنا أحق بموسی، وأحق بصوم هذا الیوم، فأمر أصحابه بالصوم.18
  حضور نبی کریم یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور انہوں نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ تو آپ نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچالیا اور فرعون کو اس دن غرق کردیا۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھہری۔ تو اس دن حضرت نوح اور حضرت موسیٰ دونوں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا۔ یہ سن کر حضور نبی کریم نے فرمایا میں حضرت موسیٰ کے لیے اس دن کا روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس دن کے روزے کا حکم فرمایا۔

اسی طرح یہود کی کتابت کے بارے میں حضرت زید سے ارشاد فرمایا کہ اسے سیکھو چنانچہ روایت میں منقول ہے :

  أمرنی رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن أتعلم له كلمات من كتاب یھود قال: إنی واللّٰه ما آمن یھود على كتاب قال: فما مربی نصف شھر حتی تعلمته له قال: فلما تعلمته كان إذا كتب إلى یھود كتبت إلیھم، وإذا كتبوا إلیه قرأت له كتابھم. 19
  حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں یہود کی تحریر پر اعتماد و اطمینان نہیں کرتا(لہذا تم اسے سیکھو) چنانچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ کے خاطر اسے(جلد ہی ) سیکھ لیا۔ کہتے ہیں: پھر جب میں نے سیکھ لیا اور پھرآپ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوتا تو میں لکھ کر ان کے پاس بھیج دیتا اور جب یہودیوں نے کوئی چیز لکھ کر آپ کے پاس بھیجنی ہوتی تو میں ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ کو سنا دیتا ۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ حضور نے ایک اچھے عمل میں مشابہت سے منع نہیں فرمایا بلکہ حضور نے خود بھی روزہ رکھا اور روزے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔اسی طرح ضرورت کی بنا پر یہود کی کتابت کو بھی سیکھنے کا حکم دیا تاکہ خط وکتابت اعتماد کے ساتھ ہوتی رہےتو اس سے واضح ہوا کہ ممنوع مشابہت فقط کسی بھی قوم کے شعائر دینی میں مشابہت ہے جس سے اسلامی شعائر کی پامالی ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً مشابہت جیساکہ معترضین کا اختراعی مفہوم ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضور اکرم نے اپنے عمل سے یہ ضابطہ بھی بیان فرمادیا کہ جس دن ﷲ کی کوئی نعمت حاصل ہوتواسے یادرگار کے طور پر مناتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنا جائز ہے جس سے بخوبی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عملِ خیر میں مشابہت سے یہ حکم جاری کرنا کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے انتہائی کم علمی ہے کیونکہ صحابہ کرام نے خود حضوراکرم کے ساتھ آپ کے حکم کی وجہ سے اس عمل خیر میں یہود کی مشابہت کی ہے البتہ فرق پھر بھی رکھا کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے جبکہ نبی مکرم نے دودن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

حدیث مشابہت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ شامی لکھتے ہیں:

  فإن التشبه بھم لا یکرہ فى كل شیء، بل فى المذموم وفیما یقصد به التشبه. قال هشام: رأیت على أبی یوسف نعلین مخصوفین بمسامیر، فقلت أترى بھذا الحدید بأسا؟ قال لا قلت: سفیان وثور بن یزید كرها ذلک لأن فیه تشبھا بالرهبان؛ فقال كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یلبس النعال التی لھا شعر وإنھا من لباس الرهبان. فقد أشار إلى أن صورة المشابھة فیما تعلق به صلاح العباد لا یضر، فإن الأرض مما لا یمکن قطع المسافة البعیدة فیھا إلا بھذا النوع. 20
  اہل کتاب سے مشابہت اختیار کرنا ہر چیز میں مکروہ نہیں ہے بلکہ مذموم چیزوں اور جن میں تشبہ مقصود ہوتا ہے ان میں مکروہ ہے۔امام ہشام کہتے ہیں میں نے امام ابو یوسف کو میخوں کے ذریعہ جوڑے ہوئے جوتے پہنے دیکھا تو پوچھا: کیا آپ کی رائے میں اس لوہے میں کوئی حرج ہے؟ فرمایا نہیں میں نے عرض کیا امام سفیان اور امام ثور بن یزید اسے مکروہ سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس میں راہبوں سے مشابہت پائی جاتی ہے؟ فرمایا نبی کریم بالوں والے جوتے پہنتے تھے اور یہ بھی راہبوں کا پہنا وا ہے۔چنانچہ امام ابویوسف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بندوں کی بھلائی سے متعلق چیزوں میں مشابہت کی صورت مضر نہیں ہے اس لیے کہ زمین کی لمبی مسافت اس قسم کے جوتوں کے بغیر طے کرنا ممکن نہیں ہے۔

جب صاحب شریعت نے عمل خیر میں مشابہت سے منع نہیں کیا بلکہ یہود سے بڑھ کر محبت کا اظہار کرتے ہوئےروزہ رکھنے کا حکم دیا 21 تو اس اعتراض کی کیا گنجائش باقی رہی؟ یاد رہے کہ اسلام نے کافر کے ساتھ جس مشابہت سے منع کیا وہ یہ ہے کہ اس کا ہر وہ عقیدہ وعمل جو اسلام کے منافی ہو اس سے احتراز لازمی ہے اگر کسی نے ایسے معاملات میں ان سے مشابہت اختیار کی تو اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی ہوگی۔ یہی وجہ ہے وہ ائمہ کرام جو احکام شریعت کے مزاج شناس ہیں،ان کی میلاد مصطفیٰ کے بارے میں رائے اس رائے سےیکسر مختلف ہے جو اعتراض کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ان ائمہ کی رائے کا مفہوم یہ ہے کہ جب عیسائی اپنے نبی کے یوم میلاد کو عید کے طور پر مناتے ہیں تو اہل اسلام کو اپنے نبی کے یوم میلاد کو اس سے بڑھ چڑھ کر منانا چاہیےاور یہ کفار کے ساتھ مشابہت نہیں بلکہ شیطانی قوتوں کو زندہ درگور کرنا ہے۔چنانچہ صاحب لواء الحنفیہ شیخ ملا علی القاری شیخ ابن جزری کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  ولولم یکن فى ذلک الا ارغام الشیطان وسرور اھل ایمان قال یعنی الجزرى و إذا كان أهل الصلیب اتخذوا لیلة مولد نبیھم عیدًا أكبر فأهل الإسلام أولى بالتکریم وأجدر. 22
  اور اس(محفل میلاد)میں شیطان کےلیےغم اوراہل ایمان کےلیے فرحت ہے ۔شیخ ابن جزری مزید فرماتے ہیں کہ جب عیسائی دنیا اپنے نبی کے یوم میلاد کو بڑی عید قرار دیتے ہیں تو اہل اسلام تو اپنے نبی کے یوم میلاد کی تکریم کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔

یعنی شیخ ابن جزری نے مشابہت کے پہلو سے قطع نظر یہ بات کہی ہے کہ میلاد النبی میں چونکہ نبی مکرم کی تعظیم و توقیر ہے لہٰذا جب نصاریٰ حضرت سیّدنا عیسٰی کا یوم ولادت (نعوذ با اللہ) انہیں خدا کا بیٹا سمجھ کر جو ش وخروش سے مناتے ہیں تو اہل اسلام تو اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ میلاد النبی منائیں اور اس پر خوشی کا اظہار کریں کہ اس میں تعظیم مصطفی کا پہلو زیادہ واضح اور نمایا ں ہے ااور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت بھی موجود ہے کہ ہم محمد رسول اللہ کو (نعوذ با اللہ) خدا کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا بر گزیدہ بندہ اور رسول مانتے ہیں اور ان کے والدین کریمین کا ذکرِ خیر اسی وجہ سے کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے قلوب و اذہان میں آپ کی بزرگی کے ساتھ ساتھ آپکی بندگی کی صفت بھی ہمیشہ واضح رہے ۔

 


  • 1 نور الدين علی بن سلطان القاری،الورد الروی فی المولد النبویﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م، ص:79
  • 2 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:174
  • 3 شھاب الدین احمد بن حجر ہیتمی،النعمۃ الکبری علی العالم فی مول سیّد ولد آدمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول ، ترکی، 2003 م،ص:6
  • 4 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی ابکر السیوطی،الحاوی للفتاوٰی، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م ، ص:182
  • 5 شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی، النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سیّدولد آدمﷺ ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول، ترکی، 2003 م، ص:7
  • 6 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:174
  • 7 ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، مولد العروس، مطبوعۃ: قادری رضوی کتب خانۃ، لاہور، باکستان،2011م، ص:207
  • 8 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشادفی سیرۃ خیرالعبادﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013 م، ص:365
  • 9 ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فی تفسیر القرآن، ج-9، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:56
  • 10 القرآن، سورۃ المائدۃ 5: 73
  • 11 نورالدين علی بن سلطان القاری،المورد الروی فی المولد النبویﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان،2011م، ص:79
  • 12 ابن عابدین محمد أمین بن عمر الشامى، رد المحتار علی الدر المختار، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1992م، ص:624
  • 13 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:123
  • 14 القرآن، سورة الهود71:11
  • 15 القرآن، سورة مريم33:19
  • 16 أبو عبدﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:5114، ج-9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالة، بیروت، لبنان،2001م، ص: 123
  • 17 حالانکہ ماقبل میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ نصاری حضرت عیسی [symbol, ur, 9
  • 18 أبو عبدﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 8717، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 335
  • 19 أبو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، جامع الترمذي، حدیث:2715 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:808
  • 20 ابن عابدین محمد أمین بن عمر الشامي، رد المحتار علی الدر المختار، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،1992م، ص:624
  • 21 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، حدیث:3397، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:569
  • 22 نور الدين علی بن سلطان القاری،الورد الروی فی المولد النبویﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م،ص:79