اسلام اﷲ تبارک و تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے 1 جو ہر طرح سےمکمل ہونے کی وجہ سے رہتی دنیا تک کے لیے ضابطہ ءِ حیات ہے 2 اور اس کو ماننے والے امتِ وسط ہے جس کو زندگی کے ہر پہلو میں میانہ روی کی ہدایت کی گئی ہے۔3 اسلام ہر معاملہ میں درمیانی راہ کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن سرجس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
السمت الحسن، والتؤدة والاقتصاد جزء من أربعة وعشرین جزء ا من النبوة.4
حسن سیرت (نیک چال چلن)،بردباری اور میانہ روی نبوت کے اجزاء میں سے چوبیسواں( 24 )حصہ ہیں ۔
جس امت کو ہر معاملہ میں میانہ روی کا حکم دیا گیا تھااس کے با وجوداس امت کے بعض افراد اس میانہ روی کو ترک کرتے ہوئے بعض معاملات اور احکام ومسائل میں تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی دوسرے کی مختلف رائے سننے کے بجائے اپنی رائے کو منوانا ہی اصلِ دین سمجھتے ہیں۔اس میں سے ایک مسئلہ لفظِ "بدعت" کے مفہوم کو بے محل اورانتہائی غلط انداز میں پیش کرنا ہے قطع نظر اس کے کہ یہ لفظ قرآن، حدیث، آثار صحابہ اور اقوال اَئمہ ومحدثین میں کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ایسے افرادہر بدعت (یعنی نئے کام) کوگمراہی اور حرام قرار دے کر اُمت کی بھاری اکثریت کو بدعتی قرار دیتے ہیں جس سے نہ صرف اُمت اضطراب وانتشار کا شکار ہوتی ہے بلکہ شرعی تعلیمات واِصطلاحات بھی اِبہام وتشکیک کی گرد میں گم ہوجاتی ہیں۔ یہ اعتراض کہ میلاد النبی منانا بدعت ہے اس کے جواب سے پہلے بدعت کا معنی جاننا ضروری ہے تاکہ جواب بالکل واضح طورپر سمجھ آسکے۔
شریعت اسلامیہ میں لفظِ بدعت کا معنی محض ضلالت وگمراہی یا حرام ومردود نہیں ہےبلکہ یہ بے شمار مواقع پر مباح، جائز اور مشروع اُمور کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ لہذا وہ انتہائی محدود مفہوم میں جو فی زمانہ بدعت کے حوالہ سے خاص نقطہ ءِ نظر رکھنے والے استعمال کرتے ہیں نہایت ہی لا علمی پر مشتمل طرزِ استدلال ہے۔
بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو "بدع" سے بنا ہے اور اس کا معنیٰ نئی بات، نیا دستور ، رسم رواج ،نئی چیز اورکسی سابقہ مادہ، اصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے۔ 5دوسرے لفظوں میں کسی شے کو نیست سے ہست کرنے اور عدم ِمحض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں "ابداع"کہتے ہیں۔6 اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش کو مختلف الفاظ کے ذریعہ بیان فرما یا ہے ،انہی الفاظ میں سے ایک لفظ"بدیع" بھی استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۰ ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَه كنْ فَيَكوْنُ117 7
وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے، اور جب کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے کہ " ہو جا" پس وہ ہوجاتی ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں لفظ بدیع کے استعمال سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان و زمین کو بنا کسی مادہ اور خام مال کے از سرِ نَو پیدا کیا ہے۔اسی لفظ سے "بدعت "کے حوالہ سےامام نووی اس کی لغوی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
كل شیء عمل على غیر مثال سابق.8
ہر وہ چیز یاعمل جو کسی سابق نمونہ کے بغیر ہو۔
یعنی ہر وہ چیز جو مثال یا نمونہ کے بغیر وجو دمیں آئے تو ایسی چیز پر لفظِ"بدعت" کااطلاق درست ہوگا اور یہ مفہوم لغوی اعتبار سے ہے ۔
اس لفظ کا وہ مفہوم و معنی جو اس مقام پر مقصود ہے وہ اس کا "شرعی معنی"ہے۔ اس لفظ کے لغوی و شرعی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
الإِبْدَاع: إنشاء صنعة بلا احتذاء واقتداء ،وإذا استعمل فى اللّٰه تعالى فھو إیجاد الشىء بغیر آلة ولا مادّة ولا زمان ولا مكان، ولیس ذلك إلا للّٰه. نحو قوله تعالى:بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 9 والبدعة فى المذهب: إیراد قول لم یستنّ قائلھا وفاعلھا فیه بصاحب الشریعة وأماثلھا المتقدمة وأصولھا المتقنة.10
"الابداع" کا معنی ہے کسی چیز کو ابتدائی طور پر بغیر کسی مثال کے بنانا اور جب اس کا استعمال اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو تو اس کا معنی ہے کسی چیز کو بغیر آلہ، بغیر مادہ اور بغیر زمان ومکان کے بنانا اور یہ معنی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:"وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے۔"اور شریعت میں بدعت کا معنی ہے کسی شخص کا ایسا قول جس میں اس نے صاحبِ شریعت کی اتباع کی ہو نہ متقدمین کی نہ اصولِ شریعہ کی۔
اسی طرح لغوی عالم علامہ شریف جرجانی اپنی کتاب "التعریفات" میں بدعت کا شرعی معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"البدعة هى الفعلة المخالفة للسنة".11
یعنی بدعت وہ کام ہے جو خلافِ سنت ہو۔
یعنی بدعت کا شرعی معنی ہی یہ ہےکہ وہ خلافِ سنت کام ہو ورنہ فقط نئے کام کو مذموم بدعت میں شامل کرنا غلط ہے اور جنہوں نے بدعت کا شرعی معنی یہ کیا ہے کہ وہ کام جو رسول اللہ کے دورِ مبارک میں نہ ہو تو ساتھ ہی ان ائمہ نے اس کی تقسیم بھی کی ہے چنانچہ اس کا یہ شرعی معنی بتاتے ہوئے اور ساتھ ہی تقسیم بیان کرتے ہوئے امام نووی تحریر فرماتے ہیں:
البدعة بكسر الباء فى الشرع هى احداث مالم یكن فى عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وهى منقسمة الى حسنة وقبیحة.12
بدعت لفظ "باء" کی زیر کے ساتھ شریعت میں ان ایجادات کو کہتےہیں جو رسول اللہ کے دور مبارک میں موجود نہیں تھیں اور وہ منقسم ہیں دو قسموں میں حسنہ اور قبیحہ میں ۔
ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ بدعت کی تعریفِ شرعی معین ہے کہ وہ عمل جو حضور کی حیات ظاہری میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہوئے ہوں بشرطیکہ ان کا اصولِ اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو۔اسی کو واضح کرتے ہوئےامام ابن حجر عسقلانی بدعت اور احداث کا اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے کسی کام پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوگا جس کی اصل، مثال اور نمونہ شریعت میں موجود ہو چنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
محدثة والمراد بھا ما أحدث ولیس له أصل فى الشرع ویسمى فى عرف الشرع بدعة وما كان له أصل یدل علیه الشرع فلیس ببدعة فالبدعة فى عرف الشرع مذمومة بخلاف اللغة فإن كل شىء أحدث على غیر مثال یسمى بدعة سواء كان محمودا أو مذموما.13
محدثہ سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اصطلاح شرع میں "بدعت" کہتے ہیں لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں جبکہ لغوی اعتبارسےبدعت ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے کہتے ہیں خواہ وہ بدعتِ محمودہ ہو یا بدعتِ مذمومہ۔
اسی طرح بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی کا فرق بیان کرتے ہوئے امام ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:
المراد بالبدعة: ما أحدث مما لا أصل له فى الشریعة یدل علیه، فأما ما كان له أصل من الشرع یدل علیه، فلیس ببدعة شرعا، وإن كان بدعة لغة.14
بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس پر کوئی شرعی دلیل دلالت نہ کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس پردلیل شرعی دال ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغۃ بدعت ہو۔
متذکرہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت مترشح ہوجاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب وسنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ "بدعت" ہے لہذا اگر کوئی ایسانیا کام جس کی اصل قرآن و حدیث میں موجو دہو تو اسے "بدعت قراردینا درست نہیں ہے۔پھر یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز وحرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب وسنت کے واضح احکامات سے متعارض ومتناقض ہو جس کو دوسرے لفظوں میں "بدعت سیئہ" یا" بدعتِ ضلالہ"سے تعبیر کیا جاتاہے۔ جبکہ بدعات حسنہ روح تعلیمات دین کو ہر زمان ومکان کے اعتبار سے قابل عمل بنائے رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔یہ بدعات بذات خود مقصود نہیں ہوا کرتیں بلکہ حصول مقصد کا ذریعہ ہوتی ہیں مثلاً آج کے دور میں C-D اورUSB کے ذریعہ قرآن کریم کی تلاوت سننے میں C-D اورUSB بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں بلکہ مقصد قرآن کریم کی تلاوت سننا ہے اور یہ اس کے سننے کا سہل اور آسان ذریعہ ہیں ۔
بدعت کے لغوی وشرعی معنی سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں بدعت کس چیزکو کہا گیا ہے اور رسول کریم نے اس کی بنیاد کس چیز پر رکھی ہے جس کو دیکھتےہوئے صحابہ کرام نے بدعات میں تفریق کو پیش نظر رکھا ۔اس حوالہ سے بنیادی نوعیت کی حدیث جس کو بدعت کے بنیادی مفہوم اور اصل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی وہ روایت ہے جس کو نقل کرتے ہوئے امام بخاری روایت کرتےہیں:
من أحدث فى أمرنا هذا ما لیس فیه فھو رد.15
جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں اصلاً نہ تھی تو وہ مردود ہے۔
اس روایت کو مسند میں امام احمد بن حنبل نے بھی نقل کیا ہے جس میں"ما لیس فیہ"کے بجائے "ما لیس منہ"کے الفاظ منقول ہیں ۔16 ان اَحادیث میں لفظِ "اَحدث" کے بعد خواہ"ما لیس فیہ"کے الفاظ ہوں یا "ما لیس منہ" کے الفاظ دونوں قابلِ غور ہیں۔ عرفِ عام میں "اَحدث" کا معنی "دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا" ہے اور "ما لیس منہ"کا جملہ "اَحدث"کے مفہوم کو واضح کررہا ہے کہ"اَحدث" سے مراد وہ نئی چیز ہوگی جو اس دین میں نہ ہو۔
حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ اگر"اَحدث"سے مراد "دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا" ہے تو جب ایک چیز نئی پیدا ہورہی ہے تو پھر"مالیس منہ یا فیہ" کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیونکہ اگر وہ دین کا حصہ تھی تو اس کو نئی کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ "اَحدث" ذکر کردینے کے بعد اس امر کی ضرورت نہ تھی کہ "ما لیس منہ"کا اضافہ کیا جائے۔ الغرض اس شبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر وہ دین میں سے ہو تو نئی (محدثہ) نہ رہی اور اگر وہ نئی ہے تو "مالیس منہ یا فیہ " کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ متذکرہ بالا حدیث پر فکر وتدبر کرنے اور"مالیس منہ" کے اضافہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ہر نئے کام پر بدعت یعنی بدعت سیئہ کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ بدعت صرف وہ نیا کام ہوگا کہ جس کے لیے دین میں سرے سے کوئی اصل، مثال، دلیل یا حوالہ ہی نہ ہو اور اُسے دین میں یعنی ضروریات دین، واجبات ِاسلام اور اَساسی عقائد شرعیہ میں یوں داخل کیا جائے کہ وہ "اساسیاتِ دین میں اضافہ بن جائے" جس سے دین اسلام کے بنیادی اُصولوں میں اصلا کمی یا بیشی واقع ہوجائے۔ یہ اِحداث دین اسلام کی مخالفت اور دین میں "فتنہ" تصور ہوگا17 جس کی اس حدیثِ مبارکہ میں مذمت بیان کی گئی ہے۔
مذکورہ بالا شبہ کا جواب گو کہ شافی ہے البتہ پھر بھی اسی شبہ کے حوالہ سے ایک روایت بکثرت سنائی جاتی ہے جس سے متذکرہ بالا جواب کالعدم قرار پاتا ہے۔اس روايت كو حضرت جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں جس میں وہ نبی کریم کے خطبہ ارشاد فرمانے کا انداز بیان کرتے ہیں پھر آپ کےچند جملوں کونقل کرتے ہوئے فرماتےہیں:
ويقول صلى اللّٰه عليه وسلم أما بعد، فإن خير الحديث كتاب اللّٰه، وخير الھدى هدى محمد، وشر الأمور محدثاتھا، وكل بدعة ضلالة.18
آپ (یہ بھی ) ارشاد فرماتے امابعد! پس بلا شبہ سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر رہنمائی ( سیّدنا)محمد( )کی رہنمائی ہے۔سب سے بدتر کام (دین میں)نیاکام ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
یہ حدیثِ مبارکہ بَداہَۃًوضاحت کررہی ہے کہ ہر نیا کام گمراہی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قید وغیرہ نہیں ہے لہٰذا یہ کہنا کہ اس کی اصل پہلے سے نہ ہو تو ہی بدعت ہے اس حدیثِ مبارکہ کے خلاف ہے۔
اوّلا اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا شبہ دیگر ماقبل احادیث مذکورہ کے خلاف ہے کیونکہ ان احادیث میں واضح قید موجود ہے جو یوں بیان کی گئی ہے کہ "مالیس منہ یا فیہ"19 یعنی جس کی اصل دین میں موجود نہ ہو۔ثانیاً اس کا جواب یہ ہے کہ ایک اور حدیث مبارکہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصل بدعت وہ ہے جس پر حکم ِ شرعی موجود نہ ہو ورنہ وہ بدعت نہیں ہے،چنانچہ اس حدیث کو نقل کرتےہوئے امام مسلم روایت کرتے ہیں:
أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فھو رد.20
بلا شبہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے کوئی ایسا عمل سرانجام دیا جس پر ہمارا حکم موجود نہیں ہو تو ایسا کام قبول نہیں ہے۔
اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ معلوم ہورہا ہے کہ بدعت کے لیے ضروری ہے کہ حکمِ شرع موجود نہ ہو لیکن اگر حکمِ شرع موجود ہو تب وہ بدعت شمار نہیں ہوگا۔اب یہ جو مذکورہ بالا حدیث میں ارشادفرمایا گیا ہے کہ "کُل بدعۃ ضلالۃ"یہ در اصل "سیئہ" کے بارے میں ہے اورایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اس میں لفظ "کُل"سے مراد "اکثر" ہے اور اہل عرب لفظ "کُل" کا اطلاق اکثریت کےلیے کرتے رہتے ہیں تو گویا کہ یہ عام نہیں ہے بلکہ خاص ہے چنانچہ اس کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے امام نووی تحریر فرماتے ہیں:
هذا عام مخصوص والمراد غالب البدع.21
"کل بدعۃ ضلالہ" اگرچہ عام ہے لیکن یہ مخصوص ہے یعنی ہر بدعت ضلالت نہیں بلکہ غالب بدعۃ ضلالت ہوتی ہے۔
یعنی امام نووی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ " کل بدعۃ "والا جملہ عام نہیں بلکہ خاص ہے یعنی ہر بدعت نہیں بلکہ اکثربدعت گمراہی ہے ۔
ابن منظور افریقی مذکورہ بالا حدیث "کل محدثۃ بدعۃ" کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں بدعت سے مراد خلاف اصولِ شریعت کام ہے جو سنت کے موافق نہ ہوچنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
یحم الحدیث الاخر (كل محدثة بدعة) انما یرید ما خالف اصول الشریعة ولم یوافق السنة.22
دوسری حدیث (یعنی کل محدثۃ بدعۃ) اس سے مراد وہ بدعت ہے جو اصولِ شرع کے مخالف ہو اور سنت کے مطابق نہ ہو۔
اسی حوالہ سےوضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن جزری تحریر فرماتے ہیں:
البدعة بدعتان، بدعة هدى و بدعة ضلال، فما كان فى خلاف ما امر اللّٰه به و رسوله صلى اللّٰه عليه وسلم فھو فى حیز الذم والانكار، وما كان و اقعاً تحت عموم ماندب اللّٰه الیه و حض علیه اللّٰه و رسوله فھو فى حیز المدح، و مالم یكن. مثال موجود كنوع من الجود والسخاء وفعل المعروف فھو من الافعال المحمودة، ولا یجوزان یكون ذالك فى خلاف ماورد الشرع به لان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد جعل لھى فى ذلك ثوابا.23
یعنی بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیِّئَہ۔جو کام اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے اور جو کام کسی ایسے عام حکم کے ذیل سے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ اور اس کے رسول نے اس حکم پر ابھارا ہو تو اس کام کا کرنا محمود ہے۔ جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو، جیسے سخاوت کی اقسام اور دیگر نیک کام تو وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔
اسی طرح مذکورہ قول اور مفہوم کی تائید خلیفۂ دوم حضرت عمر کے دور خلافت میں رونما ہونے والے واقعہ میں استعمال کردہ جملہ سےبھی ہوتی ہے۔امام بخارینے اس واقعہ کو بخاری میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر اپنے دورِ خلافت میں ایک بار مسجد نبوی شریف میں تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ نمازِ تراویح اپنے اپنے طور پر الگ الگ ادا کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت ایک امام کے پیچھے جمع ہو کر نماز تراویح ادا کرنے کا معمول نہیں تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی اکرم نے نماز تراویح کی ترغیب دلائی، صحابہ کرام نماز تراویح پڑھتے تھے مگر نبی اکرم نے تراویح کی جماعت نہیں کروائی ، صرف تین دن ایسا ہوا کہ صحابہ کرام خود ہی جمع ہو گئے اور انہوں نے حضور اکرم کے پیچھے نماز تراویح جماعت سے ادا کی تیسرے دن حضور اقدس نے منع فرما دیا چنانچہ حضور اکرم کے مبارک دَور سے لے کر سیّدنا صدیق اکبر کے دَور تک ایسا کبھی نہ ہوا کہ ایک امام کے پیچھے صحابہ کرام تروایح میں مکمل قرآن پاک ماہِ رمضان میں ختم کرتے ہوں لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق نے یہ خیال کیا کہ ایسا ہو جائے تو اچھا ہے۔ اب بخاری شریف کی اس حدیث پاک کے مطابق آپ نے حضرت اُبی بن کعب کو جو صحابہ کرام میں بہت بڑے قاری تھے انہیں امام مقرر کیا اور تمام صحابہ کرام حضرت اُبی بن کعب کے پیچھے ایک ساتھ مل کر نماز تراویح ادا کرتے۔ یوں جماعت کا اہتمام کرنا اور ایک امام کے پیچھے پورا رمضان تراویح ادا کرنا یہ ایک ایسا نیا طریقہ تھا جو نہ رسول اللہ نے اپنایا، نہ دَورِ صدیق اکبر میں ہوا۔ حضرت عمر نے جب صحابہ کرام کو ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے جو الفاظ کہے اُن الفاظ کو امام بخاری نےیوں روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نے اس جماعت کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:
نعم البدعة هذه.24
کیا ہی اچھی بدعت ہےیہ۔
باجماعت نمازِ تراویح کا یہ عمل بھی سیّدنا فاروق اعظم کے فرمان کی تعمیل میں باقاعدہ وجود پذیرہوا۔ لفظِ بدعت کے مثبت استعمال کی اس سے بڑھ کر اورکیا دلیل ہوسکتی ہے کہ حضرت عمرِ فاروق نے باجماعت نمازِ تروایح جیسی مقدس عبادت کو "نعم البدعۃ"یعنی خوبصورت بدعت کہا ہے۔ اسی قولِ عمر کو دیکھتےہوئے اور باجماعت نمازِ تراویح پر صحابہ کرام کے اجماعِ سکوتی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہوتی بلکہ بعض اچھی بدعت بھی ہوتی ہیں جنہیں بدعتِ حسنہ اور اس کے مقابل بدعتِ سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس روایت میں سیّدنا عمر نے خود "نعم البدعۃ ھذہ" فرماکر بدعت کی تقسیم فرمادی اور یہ ثابت کردیا کہ ہر بدعت، بدعت سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات حسنہ بھی ہوتی ہیں وگرنہ آج تک امت مسلمہ کے جو افراد رمضان المبارک کی بابرکت راتوں میں مساجد میں نماز تروایح کی صورت میں اکھٹے ہوکر قرآن سنتے ہیں یہ بھی ناجائز ہوتا مگر ہمیشہ یہ امر مستحسن رہا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ بدعت حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے یہ محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیّدنا عمر فاروق کے قول پر قائم ہے۔اسی حوالہ سے امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:
عن عمر انه قال فى التراویح نعمت البدعة هذه والتى ینامون عنھا افضل فسماها بدعة یعنى بدعة حسنة وذلك صریح فى انھا لم تكن فى عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد نص على ذلك الامام الشافعى وصرح به جماعات من الائمة منھم الشیخ عز الدین بن عبد السلام حیث قسم البدعة الى خمسة اقسام.25
حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ نے تراویح کے بارے میں فرمایا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سوجاتے ہیں یہ حصہ اس سے بہتر ہے ۔آپ نے اسی وجہ سے اسے بدعت کا نام دیا یعنی بدعت حسنہ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز حضور کے زمانہ میں نہیں تھی۔ اور اس پر امام شافعی نے نص پیش کی ہے اور پھر ائمہ کی جماعتوں نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ان میں سے ایک شیخ عزالدین بن عبد السلام ہیں جنہوں نے بدعت کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔
امام ابن اثیر جزری نے سیّدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
ومن هذا النوع قول عمر: نعمت البدعة هذہ لما كانت من أفعال الخیر وداخلة فى حیز المدح سماها بدعة ومدحھا؛ لأن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لم یسنھا لھم، وإنما صلاها لیالى ثم تركھا ولم یحافظ علیھا، ولا جمع الناس لھا، ولا كانت فى زمن أبی بكر، وإنما عمر جمع الناس علیھا وندبھم إلیھا، فبھذا سماها بدعة، وهى على الحقیقة سنة، لقوله صلى اللّٰه عليه وسلم علیكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدین من بعدى وقوله اقتدوا باللذین من بعدى أبى بكر وعمر وعلى هذا التأویل یحمل الحدیث الآخر كل محدثة بدعة إنما یرید ما خالف أصول الشریعة ولم یوافق السنة.26
اور اِسی قسم (یعنی بدعت حسنہ) میں سے سیّدنا عمر کا یہ قول"نعمت البدعۃ ھذہ"ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے(لغوی اعتبار سے) بدعت کہا جائے گا اور اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نے اس (باجماعت نماز تروایح کے) عمل کو ان کے لیے مسنون قرار نہیں دیا تھا۔ آپ نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لیے جمع کیا۔ اس کے بعد نہ ہی یہ صدیق اکبر کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی۔ پھر سیّدنا عمر نے (اپنے دور میں) لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا حالانکہ حضور کے اس فرمان" تم پر میرے طریقہ اور میرے بعد ہدایت کرنے والے خلفاء کے طریقہ کی پیروی لازم ہے "اور اس فرمان "تم لوگ میرے بعد میرے صحابہ میں سے حضرت ابو بکر و عمر کی اقتداء کرنا " کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث "کل محدثۃ بدعۃ" کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔
اسی طرح ا بن عمر کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے نمازِ چاشت کو بدعت کہا۔ چنانچہ حضرت امام مجاہدفرماتے ہیں:
دخلت انا وعروة بن الزبیر المسجد، فإذا عبد اللّٰه بن عمر، جالس إلى حجرة عائشة، وإذا ناس یصلون فى المسجد صلاة الضحى، قال: فسألناه عن صلاتھم، فقال بدعة ثم قال له كم اعتمر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ؟ قال: أربعا.27
میں اور عروہ بن زبیر مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت عبداﷲ بن عمر حجرہ عائشہ صدیقہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے (ابن عمر سے)اُن لوگوں کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : بدعت ہے پھر اُن سے گزارش کی کہ رسول اﷲ نے کتنے عمرے کیے؟ فرمایا چار۔
اس حدیث میں حضرت عبداﷲ بن عمر کے اسلوب ِ بیان سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک لفظِ بدعت کا استعمال قبیح اور خراب معنی میں نہیں ہوتا تھا اسی لیے جب آپ سے اس طرح مسجد میں نمازِ چاشت پڑھنے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے بغیر کسی تامل کے بے ساختہ فرمایا "بدعۃ" یعنی یہ طریقہ نیا ہے جس کی اصل موجود ہے۔اس معنی کی تائید امام ابن ابی شیبہ کے روایت کردہ اثر سے ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
سألت محمدا عن صلاة الضحى وهو مسند ظھره إلى حجرة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: بدعة ونعمت البدعة.28
میں نے محمد (یعنی ابن عمر ) سے نماز چاشت کے متعلق سوال کیا جب وہ حضور کے حجرہ مبارک کے ساتھ پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے تو انہوں نے فرمایا بدعت ہے اور بہت اچھی بدعت ہے۔
اسی بدعت کے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے امام قرطبی لکھتے ہیں:
كل بدعة صدرت من مخلوق فلا یخلو أن یكون لھا أصل فى الشرع أولا، فإن كان لھا أصل كانت واقعة تحت عموم ما ندب اللّٰه إلیه وخص رسوله علیه، فھى فى حیز المدح. وإن لم یكن مثاله موجودا كنوع من الجود والسخاء وفعل المعروف، فھذا فعله من الأفعال المحمودة، وإن لم یكن الفاعل قد سبق إلیه. ویعضد هذا قول عمر: نعمت البدعة هذه، لما كانت من أفعال الخیر وداخلة فى حیز المدح، وهى وإن كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد صلاها إلا أنه تركھا ولم یحافظ علیھا، ولا جمع الناس، علیھا، فمحافظة عمر علیھا، وجمع الناس لھا، وندبھم إلیھا، بدعة لکنھا بدعة محمودة ممدوحة.29
ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہےپہلےتو اصلِ شریعت میں دلیل سےخالی نہیں ہوتی، اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعالیٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ کواس حکم کےلیےخاص کیا۔ پس یہ بدعت مقام مدح میں ہوگی۔ اور اگر اس کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود وسخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سرانجام دینا افعال محمودہ میں سے ہیں چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کیے ہوں اور حضرت عمر کا قول"نعمت البدعۃ ھذہ"اس عمل(بدعت) کو تقویت دیتا ہے۔ کیونکہ یہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل تھی۔ اور وہ یہ ہے(اس کی مثال یہ ہے) کہ بے شک نبی کریم نے نماز تروایح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک بھی کیاتھا اور اس (جماعت)کی محافظت نہ کی اور لوگوں کو اس کے لیے جمع بھی نہ کیا۔جبکہ حضرت عمر کی(جماعت پر) محافظت اور لوگوں کو اس کےلیےجمع کرنااوراس کومباح کرنابھی بدعت ہے مگر یہ بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے۔
اسی طرح اس حوالہ سے ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں:
أن منھا ما یؤجر علیه صاحبه ویغدر بما قصد إلیه من الخیر ومنھا ما یؤجر علیه صاحبه ویكون حسنا وهو ما كان أصله الإباحة كما روى عن عمر نعمت البدعة هذه وهو ما كان فعل خیر جاء النص بعموم استحبابه وإن لم یقرر عمله فى النص.30
ان میں سےكچھ ایسی ہیں جن پران کےکرنےوالےکواجردیاجاتاہے اورجس خیر کےلیے اس نےارادہ کیاہوتاہےاسےباقی رکھاجاتاہے۔اوران میں سےکچھ ایسی ہیں جنکےکرنےوالےکواجردیاجاتاہےاوروہ اس کےلیےحسن ہوتی ہے،یہ وہ ہوتی ہےجس کی اصل اباحت پرہوتی ہےجیساکہ حضرت سےمروی ہے"نعمت البدعۃ ہذہ"اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی۔
ان مذکورہ بالا روایات اور ائمہ اسلاف کی تشریحات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بدعت کی بھی قسمیں ہیں جس میں اولین بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ ہیں اور اسی قول ِعمر کے تحت علماء نے اس بدعت کے معنی میں غور وفکر کے بعد نتیجہ کے طور پر کئی اقسامِ بدعت کو بیان کیاہے۔
اوّلا علماء اسلاف نے بدعت کی دو قسموں کو واضح بیان کیا ہے چنانچہ ان قسموں کوبیان کرتے ہوئے امام ملا علی قاری بدعت کی دو قسمیں "بدعت واجبہ اور بدعت محرمہ" بیان کرنے کے بعد ان کی مثال دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
البدعة إما واجبة كتعلم النحو لفھم كلام اللّٰه ورسوله وكتدوین أصول الفقه والكلام فى الجرح والتعدیل، وإما محرمة كمذهب الجبریة والقدریة والمرجئة والمجسمة، والرد على هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشریعة من هذه البدع فرض كفایة، وإما مندوبة كإحداث الربط والمدارس، وكل إحسان لم یعھد فى الصدر الأول، وكالتراویح أى بالجماعة العامة والكلام فى دقائق الصوفیة، وإما مكروهةكزخرفة المساجد وتزویق المصاحف یعنی عند الشافعیة وأما عند الحنفیة فمباح،إما مباحة كالمصافحة عقیب الصبح والعصر أى عند الشافعیة أیضا، وإلا فعند الحنفیة مكروه، والتوسع فى لذائذ المآكل والمشارب.31
بدعت واجبہ کی مثال علم النحو کی تعلیم ہے کہ اس کے بغیر کلام اﷲ سمجھنا ناممکن ہے اس لیے کہ قرآنی علوم ومعارف کو سمجھنے کے لیے علم نحو کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اصول فقہ کی تدوین جرح و تعدیل کے قواعد کا مرتب کرنا یہ سب بدعت واجبہ میں داخل ہیں۔بدعت محرمہ کی مثال جبریہ وقدریہ کے مذاہب اور ان کے افکار ونظریات جو قرآن وسنت کے بالکل خلاف ہیں، اسی طرح سے مرجئہ مجسمہ کے مذاہب بدعات محرمہ میں داخل ہیں ان کا رد کرنا بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کی حفاظت کرنا ان بدعات محرّمہ سے فرض کفایہ ہے۔بعض بدعات مستحب ہیں، جیسے سراؤں اور مدارس کا قیام، اسی طرح وہ نیک اعمال جن پر آنحضرت کے زمانہ میں پابندی نہ کی گئی مثلاً نماز تراویح کا اہتمام کے ساتھ با جماعت پڑھنا ،صوفیاء کے دقیق علوم میں مہارت حاصل کرنا وغیرہ۔کچھ بدعات مکروہ بھی ہیں، مساجد کو مزین کرنا، کلام اﷲ پر نقش ونگار بنانا، تزئین وآرائش کے لیے غیر مسنون طریقہ اختیار کرنا یہ شوافع کے ہاں مکروہ ہے جبکہ احناف کے ہاں مباح ہے۔کچھ بدعات مباح ہیں، جیسے صبح نماز کے بعد مصافحہ کرنا، آستینوں کو کشادہ کرنا،عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا یہ شوافع کے ہاں مباح ہے جبکہ احناف کے ہاں مکروہ ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں میں توسیع کرنا ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے۔ 32
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ہر بدعت حرام نہیں بلکہ بعض بدعتیں کبھی ضروری بھی ہوتی ہیں جیسے کہ علم فقہ واصول فقہ وغیرہ۔اسی طرح امام جلال الدین سیوطی بدعت کی تقسیم کو واضح کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
لان البدعة لم تنحصر فى الحرام والمكروه بل قد تکون ایضاً مباحة ومندوبة وواجبة قال النووى فى تھذیب الأسماء واللغات: البدعة فى الشرع: هى أحداث ما لم یكن فى عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وهى منقسمة إلى حسنة وقبیحة وقال الشیخ عز الدین بن عبد السلام رحمه اللّٰه تعالى فى القواعد: البدعة منقسمة إلى واجبة و محرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة قال: والطریق فى ذلك أن نعرض البدعة على قواعد الشریعة، فإذا دخلت فى قواعد الإیجاب فھى واجبة، أو فى قواعد التحریم فھى محرّمة، أو الندب فمندوبة، أو المكروه فمكروهة أو المباح فمباحة وذكر لكل قسم من هذه الخمسة أمثلة إلى أن قال: وللبدع المندوبة أمثلة منھا: إحداث الرّبط والمدارس وكل إحسان لم یعھد فى العصر الأول ومنھا التراویح والكلام فى دقائق التصوّف وفى الجدل ومنھا جمع المحافل للاستدلال فى المسائل33 إن قصد بذلك وجه اللّٰه تعالى.34
کیونکہ بدعت حرام ومکروہ میں ہی مختصر نہیں بلکہ کبھی مباح ہوتی ہے، کبھی مندوب ومستحب اور کبھی واجب تک ہوتی ہے۔امام نوی نے "تہذیب الاسماء واللغات" میں لکھا ہے کہ شریعت میں بدعت اس نوپید اور نوایجاد کو کہتے ہیں جو نبی کریم کے مبارک عہد میں نہ ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ۔شیخ عز الدین بن عبد السلام نے"القواعد" میں بیان کیا کہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔ واجبہ، محرمہ،مستحبہ،مکروہہ اور مباحہ۔مزید فرماتے ہیں: اس کے معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ بدعت کو قواعد شریعہ پر پیش کریں، اگر قواعد ایجاب میں داخل ہو تو واجبہ ، قواعد تحریم میں داخل ہو تو محرمہ، قواعد استحباب میں آئے تو مستحبہ اور اگر قواعد کراہت میں داخل ہو تو مکروہ ورنہ مباح ہے۔ پھر انہوں نے پانچوں قسموں کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے بدعت مستحبہ کے سلسلے میں لکھا ہے: اس کی چند مثالیں ہیں، انہیں میں سے سرائے تعمیر کرانا، مدارس قائم کرنا اور ہر وہ نیکی کا کام جو زمانہ نبوی میں نہیں تھا۔ تراویح کا اہتمام کرنا، تصوف وجدل کے دقائق وغوامض میں غوروخوض کرنا اور مسائل کے استنباط کی محفلیں منعقد کرنا بھی اسی میں شامل ہے اگر ان کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہے۔
اسی حوالہ سے امام شافعی مزید تفصیلات کو بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
المحدثات من الأمور ضربان: أحدهما: ما أحدث یخالف كتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فھذه البدعة الضلالة والثانیة: ما أحدث من الخیر لا خلاف فیه لواحد من هذا فھذه محدثة غیر مذمومة وقد قال عمر فى قیام شھر رمضان: نعمت البدعة هذه یعنی أنھا محدثة لم تكن وإن كانت فلیس فیھا رد لما مضى.35
محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن وسنت یا اثر صحابہ یا اجماع ِامت کے خلاف ہوں، وہ بدعت ضلالہ ہے اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو، پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق نے رمضان میں تروایح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔
یعنی یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہوتی بلکہ بعض بدعات ایسی ہیں جو بھلائی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مختلف حکم رکھتی ہیں جیسے واجب اورمستحب۔اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بدعت صرف ضلالت ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ بھلائی اور خیر پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔
ایسی بدعت جو مستحسن امور کے تحت داخل ہو اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے ٹکراتی بھی نہ ہو تو وہ مشروع ،مباح اور جائز ہے۔ اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بناپر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب وسنت کے ساتھ ناانصافی ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
إن كانت مما یندرج تحت مستحسن فى الشرع فھى بدعة حسنة، وإن كانت مما یندرج تحت مستقبح فى الشرع فھى بدعة مستقبحة.36
اگر یہ بدعت شریعت کے مستحسنات(بھلائیوں) کے تحت آجائے تو "بدعت حسنہ" ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات(برائیوں ) کے تحت آجائے تو یہ "بدعت مستقبحۃ"(یعنی ضلالۃ) ہے۔
بدعت کی مذکورہ بالا قسم یعنی "بدعتِ مستحبہ "جو ترتیب کے لحاظ سے تیسری قسم بنتی ہے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام شہاب الدین قرافی مالکی لکھتے ہیں:
(القسم الثالث)من البدع مندوب إلیه، وهو ما تناولته قواعد الندب وأدلته من الشریعة كصلاة التراویح وإقامة صور الأئمة والقضاة وولاة الأمور على خلاف ما كان علیه أمر الصحابة بسبب أن المصالح والمقاصد الشرعیة لا تحصل إلا بعظمة الولاة فى نفوس الناس، وكان الناس فى زمن الصحابة معظم تعظیمھم إنما هو بالدین وسابق الھجرة ثم اختل النظام وذهب ذلك القرن وحدث قرن آخر لایعظمون إلا بالصور فیتعین تفخیم الصور حتى تحصل المصالح، وقد كان عمر یأكل خبز الشعیر والملح ویفرض لعامله نصف شاة كل یوم لعلمه بأن الحالة التی هو علیھا لو عملھا غیرہ لھان فى نفوس الناس، ولم یحترموه وتجاسروا علیه بالمخالفة فاحتاج إلى أن یضع غیره فى صورة أخرى لحفظ النظام؛ ولذلك لما قدم الشام ووجد معاویة بن أبى سفیان قد اتخذ الحجاب وأرخى الحجاب، واتخذ المراكب النفیسة والثیاب الھائلة العلیة، وسلك ما یسلكه الملوك، فسأله عن ذلك فقال: إنا بأرض نحن فیھا محتاجون لھذا فقال له لا آمرك، ولا أنھاك ومعناہ أنت أعلم بحالك هل أنت محتاج إلى هذا فیكون حسنا أو غیر محتاج إلیه فدل ذلك من عمر وغیره على أن أحوال الأئمة وولاةالأمور تختلف باختلاف الأعصار والأمصار والقرون والأحوال فلذلك یحتاجون إلى تجدید زخارف وسیاسات لم تكن قدیما وربما وجبت فى بعض الأحوال.37
تیسری قسم بدعت مستحبہ ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد استحباب پر مشتمل ہو اورشریعت میں اس کی حمایت میں دلائل موجود ہوں جیسا کہ نمازِ تروایح اور امر صحابہ کے خلاف (مصلحت وخیر کے پیش نظر) حکمران ِوقت، قاضیوں اور اہم منصب داروں کی تصویروں کو آویزاں کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار مصالح اور شرعی مقاصد لوگوں کے دلوں میں حکمرانوں کی عظمت ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ صحابہ کے زمانے میں صحابہ کے دین اور سابق الہجرہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے پھر نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ زمانہ گزرگیا اور نیا زمانہ آگیا اس زمانہ میں لوگ تصویروں کے بغیر کسی کی عظمت نہیں کرتے تھے لہٰذا تصویروں کی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہاں تک کہ متعلقہ مصلحتیں حاصل ہوگئیں اور اسی طرح حضرت عمر خود تو جوکی روٹی اور نمک کھایا کرتے تھے جبکہ اپنے عاملین کے لیے آدھی بکری روزانہ مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دوسرے عاملین بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے جس پر سیّدنا عمر فاروق خود تھے تو عوام الناس کی نظر وں میں گرجاتے اور لوگ ان کا احترام نہ کرتے اور ان کی مخالفت پر اترآتے لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی دوسرے کو کسی اور شکل میں نظام کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے اور اسی طرح جب آپ شام گئے تو آپ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پردہ کیے ہوئے اور پردہ لٹکائے ہوئے تھے اور ان کے پاس خوبصورت سواری اور اعلیٰ رعب دار کپڑے تھے اور آپ اس طرح پیش آتے جس طرح بادشاہ پیش آتے تھے پھر اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم ایسے علاقے میں ہیں جہاں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سیّدنا عمر فاروق نے ان سے کہا کہ نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے احوال کو بہتر جانتے ہو کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں اور اگر ضرورت ہے تو یہ بہتر ہے۔ پس حضرت عمر اور دوسروں کے نظائرسے یہ دلیل ملتی ہے کہ ائمہ کے احوال اور امور سلطنت، زمانے، شہروں، صدیوں کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح انہیں حسن معاملات اور حسنِ سیاسیات میں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ احوال پرانے نہ ہوجائیں اور بعض اوقات یہ مصلحتیں واجب ہوجاتی ہیں۔
اب تک کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہوا کہ ہر بدعت کو گمراہی قراردینا لاعلمی ہےاور اہل علم نے بھی اس کی واشگاف انداز میں مذمت بیان فرمائی ہےچنانچہ علامہ تفتازانی بدعت کی ایسی تعریف کرنے والوں کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
ومن الجھلة من یجعل كل أمر لم یكن فى زمن الصحابة بدعة مذمومة وإن لم یقم دلیل على قبحه تمسكا بقوله إیاكم ومحدثات الأمور و ولا یعلمون أن المراد بذلك هو أن یجعل فى الدین مالیس منه.38
وہ لوگ جاہل ہیں جو ہر اس کام کو بدعت ِمذمومہ قرار دے دیتے ہیں جو صحابہ کرام کے دور میں نہ ہو اگرچہ اس کی قباحت پر کوئی دلیلِ شرعی نہ ہو اور ان کا استدلال حضور کے اس ارشادگرامی سے ہے کہ محدثات سے بچو حالانکہ وہ جانتے نہیں کہ اس سے مراد کسی ایسی شے کو دین میں داخل کرنا ہے جو(اصلِ) دین سے نہ تھی۔
اسی طرح علامہ عبد الحئی لکھنوی اس گروہ کے بارے میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
وما أشنع صنیع علماء زماننا حیث افترقوا فرقتین ففرقة حصر السنة على ما وجد فى العھود الثلثة وجعل ما حدث بعدها بدعة ضلالة ولم ینظر إلى دخوله فى أصول الشرع بل منھم من حضرها على ما وجد فى الزمان النبوى وجوز كون محدث الصحابة بدعة ضلالة وفرقة اعتمد على ما نقل آبائھم وأجدادھم وما ارتكبه مشائخھم وأدخل كثیرا من البدع السیئة فى البدع الحسنة اعتماداً علیھم وإن لم یكن لھاأصل من أصول الشرع.39
ہمارے دور کے علماءکا یہ وطیرہ نہایت ہی غلط ہے کہ ان میں دو فرقے ہیں، ایک نے سنت کو صرف انہی معاملات تک منحصر کردیا ہے جو تین زمانوں میں ہو ا اور اس کے بعد کے معاملات کو بدعت و گمراہی کہا اور یہ غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ یہ معاملہ اصول ِشرع کے تحت آتا ہے یا نہیں بلکہ اس فرقہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو سنت کو حضور کی ظاہری حیات تک ہی محدود رکھتے ہیں اور صحابہ کے ایجاد کردہ طریقوں کو بھی وہ بدعت گردانتے ہیں اور دو سرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے کہ وہ جو کچھ اپنے آباء واجداد سے منقول پاتے ہیں ان پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور اس طرح کئی بدعات سیئہ کو بدعات حسنہ میں شامل کرلیتے ہیں اگرچہ کوئی دلیل شرعی اس پر دال نہ ہو۔
یعنی علمائے اسلاف کی عبارات سے واضح ہوگیا کہ بدعت صرف "سیئہ "میں منحصر نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام سمیت علمائے امت بدعات کی تقسیم کو ثابت فرماتےہیں۔
یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جن علماء دین نے قواعد اور اصول فقہ مرتب کیے ، یا سند حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیاتاکہ صحیح و ضعیف حدیث میں تمیز ہوسکے، یا علم نحو کے قواعد مرتب کیے یا انہیں سہل بنانے کی کوشش کی تاکہ دین کو سمجھنا آسان ہوسکے، یا جن علماء نے باطل نظریات کا رد کرنے کے لیے کتابیں لکھیں، ان سب کا یہ کام کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیونکہ یہ سارا کام عہد رسالت و خلافتِ راشدہ کے بعد کا ہے اور اچھا سمجھ کر کیا گیا ہے، نیز ثواب کی امید پر کیا گیا ہے اور اپنے خود ساختہ طریقے سے کیا گیا ہے تو کیا اس سارے کام کو نہایت قابل نفرت قرار دے دیا جائے؟۔۔۔ دین سے ایک معمولی انس رکھنے والا شخص بھی ظاہر ہے اس سارے کام کو قابل نفرت نہیں کہہ سکتا بلکہ دین کا ادنیٰ طالب علم بھی علمائے متقدمین کے ان علمی کارناموں کی تحسین کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔علاوہ ازیں موجودہ دور میں وعظ و تذکیر کی محافل کے جو نئے انداز اختیار کیے گئے ہیں اور جن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہورہے ہیں کیا ان سب کو اسی طرح کی بدعت قرار دے کر بند کردیا جائے ؟ مثال کے طور پر بعض مساجد میں رمضان المبارک میں نمازِ تراویح میں یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ ہر چار رکعت کے بعد ان رکعات میں تلاوت کردہ آیات کا ترجمہ و تشریح بیان کیا جائے، یہ کام عہد رسالت و خلافت راشدہ میں اس طرز پر اس اہتمام کے ساتھ نہیں ہوا لیکن یہ موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت ہے تاکہ لوگ قرآن سے حقیقی استفادہ کرسکیں اور ان کا تعلق بالقرآن پختہ ہو۔ اب اگر اس عمل کو بدعت کی اس تعریف پر جانچا جائے جو علمائےمتقدمین نے بیان کی ہے تو یہ امر، امرِ مستحسن ہے بلکہ فی زمانہ ضرورت کے لحاظ سے واجب کے درجہ میں نظر آئے گا اور اس کے برخلاف لاعلمی کی بنیاد پر کی گئی تعریفوں کے مطابق پرکھا جائےتو یہ امر بھی ضلالہ میں شمار ہوگا جو کہ خلافِ حقیقت ہے۔صرف یہی نہیں اور بھی بہت سے امور جو بدعاتِ حسنہ میں شامل ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ "ہر بدعت ایک سا حکم رکھتی ہے" یا "بدعت کتنی بھی خوشنما ہو وہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتی" یا " کسی امرِ بدعت کو جو فی نفسہ مستحسن ہے قبول کرلینے کا مطلب دین میں نقص تسلیم کرتے ہوئے اس نقص کی تلافی کی خاطر بدعت کو قبول کرنا ٹھہرے گا" تو جواب میں کہا جائےگا کہ یہ فکر صحیح نہیں ہےبلکہ یہ غلط مفروضوں سے اخذ کردہ غلط نتائج کامبنی بر باطل نتیجہ ہے۔40 اسی حوالہ سےذیل میں" بدعتِ حسنہ " جو کہ بدعت ہی کی ایک قسم ہے اس کے حوالہ سے قرآن و حدیث کے دلائل ذکر کیے جارہے ہیں جن سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں کوئی دشواری باقی نہیں رہے گی۔
ہر عمل کو اِس طرز پر نہیں دیکھا جاسکتا کہ یہ عمل حضور کے زمانہ میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لیے عمل کی ہیئت کبھی رسم ورواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر،کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی عمرانی مصلحتیں۔ قابل غور بات یہ ہوتی ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن وسنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلا واسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن وسنت میں موجود ہے؟ اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن ِ مجید یا سنتِ نبوی سے ثابت ہوجائے تو پھر وہ طعن وتشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن وسنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن وسنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن وتشنیع درست ہے۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہوکر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن وسنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو۔
جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع نہ ہو اور نہ واجب کی طرح ضروری شمار کیا جاتاہو بلکہ عام مسلمان اسےمستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کو سرانجام نہ دینے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو اس نئے مستحسن عمل کرنے کا ثواب ملتا ہے جیسے مسافر خانوں اور مدارس وغیرہ کی تعمیر ۔
پس مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہر وہ اچھا کام جو پہلے نہ ہو بعد میں ایجاد ہوا ہو وہ کام بھی بدعتِ مستحبہ ہے جیسے نمازِ تراویح کی جماعت اور بعض دیگر اعمال جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں ۔اسی چیز کو قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نصاری کے حوالہ سے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا فِى قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْه رَاْفَة وَّرَحْمَة ۰ۭ وَرَهبَانِيَّة ابْتَدَعُوْها مَا كتَبْنٰھا عَلَيْھمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰه فَمَا رَعَوها حَقَّ رِعَايَــتِھا ۰ۚ فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْھمْ اَجْرَهمْ ۰ۚ وَكثِيْرٌ مِّنْھمْ فٰسِقُوْنَ2741
اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الہٰی کے لیے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکی)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الہٰی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں۔
اس آیت کریمہ سے بدعت حسنہ پر استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا معنی حضرت عیسیٰ ابن مریم کے مومن ومتبع امتیوں کی مدح ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن کی مدح فرمائی ہے کیونکہ وہ رافت ورحمت والے تھے اور انہوں نے رہبانیت کی ایجاد کی تھی۔امام راغب اصفہانی "رھبانیت" کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
رھب کا معنی ہے ڈرنا اور خوف جبکہ"ترھیب" کا معنی ہے عبادت کرنا اور "رھبانیت" کا معنی ہے عبادت کے افعال برداشت کرنے میں غلو اور زیادتی کرنا۔ 42 امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
والمراد من الرهبانیة ترهبھم فى الجبال فارین من الفتنة فى الدین، مخلصین أنفسھم للعبادة ومتحملین كلفا زائدة على العبادات التى كانت واجبة علیھم من الخلوة واللباس الخشن، والاعتزال عن النساء والتعبد فى الغیران والكھوف. عن ابن عباس أن فى أیام الفترة بین عیسى ومحمد غیر الملوک التوراة والإنجیل، فساح قوم فى الأرض ولبسوا الصوف وروى ابن مسعود أنه ، قال: یا ابن مسعود: أما علمت أن بنى إسرائیل تفرقوا سبعین فرقة، كلھا فى النار إلا ثلاث فرق، فرقة آمنت بعیسی، وقاتلوا أعداء اللّٰه فى نصرته حتى قتلوا، وفرقة لم یكن لھا طاقة بالقتال، فأمروا بالمعروف ونھوا عن المنكر، وفرقة لم یكن لھا طاقة بالأمرین، فلبس العباء، وخرجوا إلى القفار والفیافى وهو قوله: وجعلنا فى قلوب الذین اتبعوه رأفةإلى آخر الآیة لم یعن اللّٰه تعالى بابتدعوها طریقة الذم، بل المراد أنھم أحدثوها من عند أنفسھم ونذروها، ولذلك قال تعالى بعده: ما كتبناها علیھم.43
رہبانیت سے مراد یہ ہے کہ وہ دین میں فتنوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں چلے گئے اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے لگے اور انہوں نے زیادہ مشقت والی عبادتیں اختیار کیں جو ان پر واجب ہوگئیں، وہ تنہائی میں رہتے تھے، موٹا لباس پہنتے تھے ،عورتوں سے دور رہتے تھے اور غاروں میں عبادت کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اور سیّدنا محمد کےدرمیانی ایامِ فترت میں بادشاہوں نے "تورات" اور "انجیل" کو بدل ڈالا تو ایک قوم نے زمین میں سفر کیا اور موٹے کپڑے پہنے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا :اے ابن مسعود! کیا تم جانتے ہو کہ بنی اسرائیل میں ستر فرقے ہوئے اور تین فرقوں کے سوا سب دوزخی ہیں؟ ایک فرقہ وہ ہے جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لایا اور اس نے حضرت عیسیٰ کی نصرت میں ان کے دشمنوں سے قتال کیاحتیٰ کہ ان کو قتل کردیا گیا، دوسرا فرقہ وہ ہے جس کو قتال کرنے کی طاقت نہ تھی انہوں نے نیکی کا حکم دیا اور بُرائی سے روکا اور تیسرا فرقہ وہ ہے جس کو ان دونوں کاموں کی طاقت نہ تھی انہوں نے موٹا لباس پہنا اور جنگلوں اور صحراؤں میں نکل گئے ان ہی کے متعلق اس آیت میں ذکر ہے : اور ہم نے ان کے پیروکاروں کے دلوں میں شفقت اور رحمت رکھی اور رہبانیت کو انہوں نے از خود ایجاد کیا ہم نے اس کو ان پر فرض نہیں کیا تھا ، مگر (انہوں نے) اﷲکی رضا کی طلب کے لیےاس کو ایجاد کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے یہ بدعت اختیار کی اور اس طریقہ کو ایجاد کیا،اس سے اﷲ تعالیٰ نے ان کی مذمت کا ارادہ نہیں کیابلکہ مراد یہ ہے کہ اس رہبانیت کو انہوں نے اپنی طرف سے اختیار کیا اور اس کی نذر مانی اسی لیے اس کے بعد فرمایا ہم نے اس کو ان پر فرض نہیں کیا تھا۔
یعنی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے رہبانیت کا طریقہ اپنانےپر مذمت نہیں فرمائی جو کہ سراسر بدعت تھا البتہ اس بدعت میں اصل مقصد چونکہ رضائے الہٰی کا حصول تھا تو اس بدعت کو مکمل نہ کرسکنے کی مذمت بیان فرمائی ہے۔چنانچہ اسی حوالہ سے مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے امام قرطبی تحریر فرماتے ہیں:
وهذه الآیة دالة على أن كل محدثة بدعة، فینبغى لمن ابتدع خیرا أن یدوم علیه، ولا یعدل عنه إلى ضده فیدخل فى الآیة وعن أبى أمامة الباهلى واسمه صدى بن عجلان قال: أحدثتم قیام رمضان ولم یكتب علیكم، إنما كتب علیكم الصیام، فدوموا على القیام إذ فعلتموه ولا تتركوه، فإن ناسا من بنى إسرائیل ابتدعوا بدعا لم یکتبھا اللّٰه علیھم ابتغوا بھا رضوان اللّٰه فما رعوها حق رعایتھا، فعابھم اللّٰه بتركھا فقال: (ورھبانیة ابتدعوها ما كتبناها علیھم إلا ابتغاء رضوان اللّٰه فما رعوها حق رعایتھا).44
یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نیا کام (لغتاً)بدعت ہے اور جو شخص کسی بدعت حسنہ کو نکالے اس پر لازم ہے کہ وہ اس پر ہمیشہ برقرار رہے اور اس بدعت کی ضد کی طرف عدول نہ کرے ورنہ وہ اس آیت کی وعید میں داخل ہوجائے گا۔ حضرت ابو امامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ تم نے تروایح کی بدعت نکالی ہے(حالانکہ ) تم پر تراویح فرض نہیں کی گئی تھی، تم پر صرف روزے فرض کیے گئے تھے، اب جب کہ تم نے یہ بدعت اختیار کرلی ہے تو اس پر دوام کرو اور اس کو ترک نہ کرو کیونکہ بنی اسرائیل نے کئی بدعتیں نکالیں جن کو اﷲ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا اور انہوں نے صرف اﷲ کی رضا کی طلب کے لیے یہ بدعتیں نکالی تھیں پھر انہوں نے ان بدعتوں کی اس طرح رعایت نہیں کی جس طرح ا ن کی رعایت کرنے کا حق تھا تو اﷲ تعالیٰ نے ان بدعات کے ترک کرنے پر ان کی مذمت کی اور فرمایا : اور رہبانیت کو انہوں نے از خود ایجاد کیا ہم نے اس کو ان پر فرض نہیں کیا تھامگر (انہوں نے) اﷲکی رضا کی طلب کے لیے (اس کو ایجاد کیا) پھر انہوں نے اس کی ایسی رعایت نہ کی جو رعایت کا حق تھا۔
اسی نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئےعلامہ سیّدمحمود آلوسی لکھتے ہیں:
ليس فى الآية ما یدل على ذم البدعة مطلقا، والذى تدل علیه ظاهرا ذم عدم رعایة ما التزموه.45
اس آیت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ مطلقاً بدعت مذموم ہے بلکہ مذمت اس بات کی فرمائی ہے کہ انہوں نے اﷲ کی رضا کی طلب کے لیے ایک بدعت کو اختیار کیا اور پھر اس کی رعایت نہیں کی۔
امام اسماعیل حقی اس حوالہ سے تفصیل بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ جس طرح تروایح ابتداء میں واجب نہیں تھی پھر بعد میں مسلمانوں نے اس کو پڑھنا شروع کردیا تو اب تراویح شروع کرنے کے بعد ان پر لازم ہوگئی،اسی طرح صلاۃ الرغائب اور شب برأت کے نوافل ہیں۔ یہ نوافل بھی تروایح کے ساتھ ملحق ہیں کیونکہ تروایح کی طرح یہ بھی رات کو پڑھے جاتے ہیں۔ بعض کبارعلماء نے کہا ہے کہ وہ تمام نئے نیک کام جن کو بہ طور عبادت ایجاد کیا گیا ہے وہ سب اس شریعت میں داخل ہیں جن کو انبیاء کرام لے کر آئے ہیں چنانچہ اسماعیل حقی تحریر فرماتے ہیں:
ولم یعب علیھم فعلھا إنما عاب علیھم عدم رعایتھم لھا فى دوام العمل فقط وخلع علیھا اسم البدعة فى حقھم بخلاف هذه الأمة خلع على ما استحسنوه اسم السنة تشریفا لھم كما قال من سن سنة حسنة وما قال من ابتدع بدعة حسنة فافھم فاجاز لنا ابتداع ماهو حسن وسماه سنة وجعل فیه اجرا لمن ابتدعه ولمن عمل به واخبر…وقال بعضھم جمیع ما ابتدعه العلماء والعارفون مما لم تصرح الشریعة بالأمر به لا یكون بدعة إلا أن خالف صریح السنة فإن لم یخالفھا فھو محمود وذلك كحلق الرأس ولبس المرقعات والریاضة بقلة الطعام والمنام والمواظبةعلى الذكر والجھر به على الھیئة المشھوره ونحو ذلك من جمیع أوصافھم فإنھا كلھا نوامیس حكمیة لم یجء بھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى عموم الناس من عند اللّٰه لكونھا طریقة أهل الخصوص السالكین طریق الحق.46
اور اﷲ تعالیٰ نے رہبانیت کی مذمت نہیں کی بلکہ اس بات کی مذمت کی ہے کہ بعد کے لوگوں نے اس کی رعایت نہیں کی اور ان کے ایجاد کیے ہوئے اس فعل پر بدعت کا اطلاق فرمایا ۔اس کے برخلاف ہماری امت نے جس نئے کام کو بطور عبادت ایجاد کیا، اس پر سنت کا اطلاق فرمایا جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا جس نے اسلام میں نیک سنت (طریقہ) کو ایجاد کیا۔ پس نبی کریم نے ہمیں اسلام میں نیک طریقہ نکالنے کی اجازت دی ہے اور اس کا نام "سنت "رکھا ہے اور اس طریقہ کے نکالنے والے اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کو اجر کی بشارت ہے۔بعض علماء نے کہا ہے کہ علماء اور عارفين نے جو تمام ایسی نئی عبادات نکالی ہیں جن کا شریعت میں صراحۃً امر نہیں ہے، وہ بدعت نہیں ہیں،سوا اس کے کہ وہ صریح سنت کے خلاف ہوں،پس اگر وہ نکالی ہوئی نئی عبادات صریح سنت کے خلاف نہیں ہیں تو وہ محمود ہیں، جیسے سرمنڈانا، پیوندلگے ہوئے کپڑے پہننا، کم کھانے اور کم سونے سے ریاضت کرنا اور مخصوص ہیئت کے ساتھ ذکر کرنا ،ذکر بالجہر کرنا اور اس طرح کے اور اوصاف جن کا رسول اﷲ نے عام لوگوں کو حکم نہیں دیا کیونکہ یہ مخصوص سالکین کا طریقہ ہے۔
اس مذکورہ بالاآیتِ مبارکہ کے حوالہ سے پیش کردہ تفاسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مطلقا بدعت کی مذمت بیان نہیں فرمائی بلکہ بدعتِ حسنہ کو ایجاد کرلینے کے بعد اس پر بالدوام عمل پیرا نہ ہونے کو نا پسند فرمایا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بدعت مطلقا مذموم نہیں ہوتی بلکہ بدعت مستحسن و مستحب بھی ہوتی ہے۔47
نبی مکرم کی بعض احادیثِ مبارکہ میں بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ہر بدعت مذموم نہیں ہوتی بلکہ بعض ایسی بدعات بھی ہوتی ہیں جو مستحسن و مستحب ہوتی ہیں اور جن میں امت کے لیے خیر کا پہلو بداہتاًواضح نظر آتا ہے۔ایسی بدعت بلاشبہ مصالح اور مقاصد کے تحت ہی وقوع پذیر ہوتی ہیں چنانچہ ایک مقام پر حضور نے ارشاد فرمایا:
من سن فى الإسلام سنة حسنة، فله أجرها، وأجر من عمل بھا بعده من غیر أن ینتقص من أجورهم شىء، ومن سن فى الإسلام سنة سیئة، كان علیه وزرها، ووزر من عمل بھا بعده من غیر أن ینتقص من أوزارهم شىء48
جو شخص اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے(کوئی اچھی سنت قائم کی) تواس شخص کو اس کاتو ثواب ملے گا ہی ساتھ میں ان کا اجر بھی ملےگاجو اس پر عمل کریں گے حالانکہ عمل کرنے والوں کے ثواب سے کچھ کمی نہیں ہوگی اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ جاری کرے تو اس پر اس کا گناہ بھی ہے اور ان کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔
اس حدیث مبارکہ میں"سنۃ حسنۃ" اور "سنۃ سیئۃ" کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے جب کہ سنن ترمذی کی حدیث میں"سنۃ خیر" اور "سنۃ شر" کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے ۔امام ترمذیاس حدیث کو یوں روایت کرتےہیں:
من سن سنة خیر فاتبع علیھا فله أجره ومثل أجور من اتبعه غیر منقوص من أجورهم شیئا، ومن سن سنة شر فاتبع علیھا كان علیه وزره ومثل أوزار من اتبعه غیر منقوص من أوزارهم شیئا.49
جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کےبغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ)ہو گا اور (دوسرے)جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو گا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو ۔
اس حدیث میں لفظ" سنّ" لغوی معنی کے اِعتبار سے "ابداع" کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی۔ یہاں سے "بدعت حسنہ" کا تصور ابھرتا ہے اور اِسی طرح "من سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ" سے بدعت سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف "سنت" ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جاسکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذاﷲ) اگر اس سے مراد صرف "سنت" ہی ہوتی تو کیا "حسنہ" کہنے کی ضروت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے "من عمل" تو کہہ سکتے ہیں مگر "من سن" کہنے کی کیا ضرورت تھی کیوں کہ حضور کی سنت سے ایک اُمتی کیا "راہ" نکالے لگا؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباعِ رسول کا پابند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ"سنّ" سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے50 جس سے یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی کہ بدعت مطلقاً مذموم نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ جسےحضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے اس حدیث میں بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے۔چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من یتبعه لا ینقص ذلك من أجورهم شیئا، ومن دعا إلى ضلالة كان علیه من الإثم مثل آثام من یتبعه، لا ینقص ذلك من آثامھم شیئا.51
جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی ہو، اور جس نے ضلالت (و گمراہی)کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر گمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو۔
اس حدیث کی اہمیت کے تناظر میں اس کی تشریح کرتے ہوئے امام صالحی شامی لکھتے ہیں:
قال العلماء: هذه الأحادیث من قواعد الإسلام، وهو أن كل من ابتدع شیئا من الشر كان علیه وزر من اقتدى به فى ذلك فعمل مثل عمله إلى یوم القیامة وكل من ابتدع شیئا من الخیر كان له مثل أجر كل من یعمل به إلى یوم القیامة.52
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ حدیثیں اسلام کے قوانین ہیں۔ جو شخص کوئی بری بدعت ایجاد کرے اس پر اس کام میں تمام پیروی کرنے والوں کا گناہ ہے اور جو شخص اچھی بدعت نکالے اسے قیامت تک کے پیروی کرنے والوں کا ثواب ہوگا۔
ان مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو کام رسول اللہ نے نہ کیا ہو مگر وہ خیر پر مشتمل ہو تو اس خیر کے نئے کام کو بعد میں آنے والے سرانجام دے سکتے ہیں۔ یعنی ہر وہ نیا کام جو خیر اور خوبی پر مشتمل ہو اور اس کو سر انجام دینے میں کسی قسم کی شرعی ممانعت نہ ہو تو ایسے کام سے کسی کو نہیں روکا جا سکتاخواہ وہ خیر پر مشتمل نیا کام کسی بھی زمانے میں ایجاد ہو جائے ۔اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جو کام اچھا ہو، قرآن مجید کے مخالف اور منکرات وممنوعات سے نہ ہو ، اگرچہ حضوراکرم ،صحابہ کرام اور سلف صالحین نے نہ بھی کیا ہو تب بھی اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ کرنے والے کو خود اس کے عمل کا ثواب جبکہ آئندہ کرنے والوں کا ثواب بھی دیا جائےگا۔
گزشتہ آیات و احادیث اور ائمہءِ اسلاف کی تشریحات و بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ یہ اصول قائم کرنابالکل غلط ہے کہ جو کام حضور اکرم نے نہیں کیا وہ مطلقاً بدعت ہی ہے اور ان جیسے تمام کاموں سے گریز کرنا چاہیے کہ ایسے نئے کاموں میں اچھائی اور بھلائی ہوتی ہی نہیں ہے۔ مذکورہ دلائل و براہین سے یہ بات واضح ہے کہ حضور اکرم نے امت مسلمہ کو اجازت دی ہے کہ وہ اگر کوئی اچھا عمل شروع کرتے ہیں تو انہیں اور اس اچھے عمل کو سر انجام دینے والوں دونو ں کو اجر و ثواب سے نوازا جائےگا نہ صرف اتنا بلکہ اس اچھے عمل کی ابتداء کرنے والے شخص کو دوہرا اجر بھی ملےگا۔یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے کام جو حضور اکرم نے نہیں کیے لیکن بعد میں صحابہ کرام نے بھلائی اور خیر سمجھتے ہوئے سر انجام دیے ہیں اور ان کے کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا ۔ذخیرہ ءِاحادیث میں اس حوالہ سے کئی شواہد موجود ہیں ان میں سے چند یہاں نقل کیے جارہے ہیں چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لیدع العمل وهو یحب أن یعمل به .53
یعنی حضور نبی کریم کئی کاموں کو پسند کرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔
یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی کام نبی مکرم نے کسی سبب کی بناپر نہیں کیا تو وہ مطلقاً مذموم ہو جیسا کہ مندرجہ بالا حدیثِ مبارکہ سے واضح ہے۔
رسول مکرم کے وصالِ مبارک کے بعد امتِ مسلمہ کی افضل ترین جماعت 54 جو بہترین زمانہ کی جماعت تھی 55 یعنی صحابہ کرام انہوں نے بھی اپنی زندگی میں وہ کارنامہ سر انجام دیے جو سراسردنیوی واخروی خیر وبھلائی پر مشتمل تھے لیکن ایسے کام تھے جو نبی مکرم نے خود انجام نہیں دیے تھےمثلاًنبی مکرم کا چاہت کے با وجود بیت اللہ شریف کی تعمیر حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ ہیئت پر نہ فرمانا کیونکہ آپ یہ چاہتے تھے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ ہیئت پر ہو جس میں خصوصاً آنے جانے کے دو دروازہ تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں نو مسلم دوبارہ تشویش کا شکار ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں آپ نے ایسا نہیں فرمایا لیکن بعد میں حضرت عبد اللہ بن زبیر نے اس تعمیر کو سر انجام دیا۔ 56
اسی طرح نبی مکرم نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کو یکجا نہیں کیا تھا لیکن آپ کے وصال کے بعد حضرت صدیق اکبر کے دور خلافت میں حضرت عمر فاروق نے آپ کو قرآن پاک جمع کرنے کا مشورہ پیش کیا چنانچہ امام شاطبی قرآن کی جمع و تدوین کے حوالے سے لکھتے ہیں:
أن أصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اتفقوا على جمع (القرآن فى) المصحف، ولیس ثَمَّ نص على جمعه وكتبه.57
رسول اﷲ کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہوگئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔
اس عبارت سے واضح ہوا کہ قرآن مجید کو یکجا کرنا بدعت ہی تھا لیکن تھا بدعتِ حسنہ جس کا اوّلاحضرت صدیق اکبر نے انکارکیا اور کہا جوکام حضور نے نہیں کیا وہ میں کیسے کرسکتا ہوں؟لیکن بعد میں آپ نے اس کا حکم صادر فرمایا۔چنانچہ امام ابن حنبل اس روایت کو اپنی سند سے نقل کرتےہوئے یوں روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں:
أخبرنى زيد بن ثابت أن أبا بكر أرسل إليه مقتل أهل اليمامة، فإذا عمر عنده، فقال أبو بكر: إن عمر أتانى، فقال: إن القتل قد استحر بأهل اليمامة من قراء القرآن من المسلمين، وأنا أخشى أن يستحر القتل بالقراء فى المواطن فيذهب قرآن كثير لا يوعى، وإنى أرى أن تأمر بجمع القرآن، فقلت لعمر: وكيف أفعل شيئا لم يفعله رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم؟ فقال: هو واللّٰه خير، فلم يزل يراجعنى فى ذلك حتى شرح اللّٰه بذلك صدرى، ورأيت فيه الذى رأى عمر، قال زيد: وعمر عنده جالس لا يتكلم فقال أبو بكر: إنك شاب عاقل لا نتھمك، وقد كنت تكتب الوحى لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ، فاجمعه.58
راوی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت زید بن ثابت نے خبر دی کہ جب حضرت ابو بکر کی طرف جنگِ یمامہ کے (حفاظ)شہداء کی خبریں بھیجی گئیں تو اس وقت حضرت عمر ان کے پاس موجود تھے تو حضرت ابو بکر نے(مجھ سے)کہا کہ میرے پاس حضرت عمر آئے تھے اور انہوں نے کہا:جنگ یمامہ میں مسلمانوں کے قرآن کے حفّاظ کی بکثرت شہادت ہوئی ہے اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ(آئندہ بھی ) مختلف جگہوں پر ان کی شہادت بکثرت ہوگی جس کی وجہ سے قرآن کا اکثر حصہ محفوظ ہوئے بغیر رخصت ہوجائے گا لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کو یکجا کرنے کا حکم صادر فرمادیں۔میں نے (ان کے جواب میں)کہا کہ میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ نے نہیں کیا؟تو حضرت عمر نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ کام سراسر (امت کےلیے)خیر ہے اور وہ ميرے پاس لگاتار آکر یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کام(کی بھلائی سمجھنے )کے لیے میرے سینہ کو کشادہ فرمادیا اور میں نے بالآخر اس کا م کے کرنے میں اسی (بھلائی) کو دیکھ لیا جو حضرت عمر نے دیکھی تھی۔ حضرت زید بن ثابت نے کہا كہ اس وقت حضرت عمر بھی حضرت ابو بکر کے پاس خاموش بیٹھے تھے۔ پھر حضرت ابو بکر نے(حضرت زید بن ثابت) سے کہا کہ بلا شبہ آپ عقلمند نو جوان ہیں جسے ہم بے عیب جانتے ہیں اور تحقیق آپ رسول اللہ کے حکم پر وحی الہٰی کو لکھا کرتے تھے تو آپ قرآن مجید کو بھی یکجا کریں۔
حضرت ابو بکر صدیق کی اس پیشکش پر حضرت زید بن ثابت نے جو جواب دیا اس کو نقل کرتے ہوئے امام ابن حنبل یوں روایت کرتےہیں:
قال زيد: فواللّٰه لو كلفونى نقل جبل من الجبال، ما كان أثقل على مما أمرنى به من جمع القرآن، فقلت: أتفعلان شيئا لم يفعله رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: هو واللّٰه خير. فلم يزل أبو بكر يراجعنى حتى شرح اللّٰه صدرى بالذى شرح له صدر أبى بكر وعمر رضى اللّٰه عنھما.59
حضرت زید بن ثابت نے جوابا ً کہا:اللہ کی قسم اگر یہ حضرات مجھے پہاڑ کی جگہ پہاڑ منتقل کرنے والے کام کا مکلف بناتے تو یہ مجھ پرقرآن مجید کے جمع کرنے کے حکم سے زیادہ بھاری نہ ہوتا۔میں نے ان حضرات سے کہا کہ کیا آپ دونوں حضرات ایسا کام سر انجام دیں گے جو رسول اللہ نے نہیں فرمایا؟حضرت ابو بکر نےجوابا کہا کہ یہ کام سراسر خیر ہے اور پھر حضرت ابو بکر لگتار (اسی حوالہ سے) مجھے فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس چیز (یعنی قرآن کریم کے جمع کرنے)کے لیے میرے سینے کو کشادہ فرمادیا جس کے لیے حضرات ابوبکر وعمر کے سینے کو کشادہ فرمادیا تھا۔
ان مذکورہ بالا دونوں روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ضروری نہیں کہ جو کام رسول مکرم نے سر انجام نہیں دیا وہ بدعت سیئہ ہی ہو کیونکہ ان روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام کے نزدیک کوئی اچھا کام اگر حضور نے نہ بھی کیا ہو تو بھی اس کو کرلینے میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا کام سر انجام دیناگناہ ہوتا تو صحابہ کرام بالخصوص حضرات شیخین قرآن مجید کویکجا جمع نہ فرماتے۔
رسول مکرم کے وصال کے بعد سر انجام دیے جانے والے بھلائی کے کاموں میں سے ایک کام حضرت عثمانِ غنی کے دورِخلافت میں جمعۃ المبارک کے لیے اذانِ اول60 کا اضافہ کرنا بھی ہے جو کہ امت کی بھلائی کے لیے کیا گیا تھا اور دیگر صحابہ کرام اور بالخصوص باب العلم حضرت علی المرتضی کی موجود گی میں ایجاد ہوا تھا اور آپ کے دورِخلافت میں بھی اس اذان اول کو برقرار رکھا گیا حالانکہ نبی مکرم کے دورِ مبارک میں صر ف ایک اذان ہواکرتی تھی۔یہ وہ بدعت حسنہ ہے جسے حضرت عثمان نے صحابہ کرام کی موجودگی میں امت مسلمہ کی بھلائی کے خاطر ایجاد کیا ہے چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سائب بن یزید اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:
كان النداء یوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عھد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وأبى بكر، وعمر، فلما كان عثمان، وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء قال أبو عبد اللّٰه الزوراء : موضع بالسوق بالمدینة.61
نبی کریم اور ابوبکر وعمر کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری )فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔
اس فعل کے بدعت ہونے کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے امام ابن ابی شیبہ سیّدنا ابن عمر سے روایت کرتے ہوئے ان کا یہ قول نقل کرتےہیں کہ آپ نے کہا :
الاذان الاول یوم الجمعة بدعة.62
جمعہ کی پہلی اذان (یعنی وہ اذان جو وعظ سے پہلے پڑھی جاتی ہے) بدعت ہے۔
یعنی بدعتِ حسنہ کیونکہ حضرت عثمان غنی نے دیگر صحابہ کرام کی موجودگی میں اس کو ایجاد کیا تھا اور امت مسلمہ میں آ ج تک یہ اسی طرح برقرار ہے چنانچہ جمعۃ المبارک کی اذان اول کے حوالہ سے اور ابن عمر کے مذکورہ بالا بدعت والے قول کے حوالہ سے وضاحت کرتےہوئے امام ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:
ومن ذلك: أذان الجمعة الأول، زاده عثمان لحاجة الناس إلیه، وأقره على، واستمر عمل المسلمین علیه، وروى عن ابن عمر أنه قال: هو بدعة، ولعله أراد ما أراد أبوه فى قیام رمضان.63
اور اسی طرح جمعہ کی پہلی اذان ہے جس کو حضرت عثمان نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر زیادہ کیا اور پھر حضرت علی اس پر قائم رہے اور اس پر لوگوں نے عمل جاری رکھا اور ابن عمر سے مروی ہے کہ (آپ نے جمعہ کی دوسری اذان کے بارے میں فرمایا کہ) وہ بدعت ہے۔ شاید ان کی مراد بھی وہی ہو جو ان کے والد کی قیامِ رمضان کے بارے میں تھی۔
یعنی حضرت عمر اور ابن عمر نے بدعت کے لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کیا ہے نہ کہ شرعی معنی میں یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے تراویح کی جماعت کو64 اور حضرت ابن عمر نے جمعۃ المبارک کی اذان اول کو بدعت کہا ہے لیکن اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی اور ا س سے منع بھی نہیں کیا۔
اسی طرح بدعت حسنہ میں سے قرآن کریم پر نقطوں کا لگانابھی شامل ہے۔ صحابہ کرام جنہوں نے رسول کریم کے املا کرانے پر وحی الہٰی کی کتابت کی تھی، انہوں نے باء اور تاء اور ان جیسے دوسرے حروف کو بغیر نقطوں کے لکھا تھا ،یوں ہی جب حضرت عثمان نے مصحف کے چھ نسخے تیار کروائے تھے، جن میں سے ایک نسخہ اپنے پاس رکھا تھا اور باقی کو مکہ مکرمہ ،بصرہ وغیرہ مختلف علاقوں میں بھجوایا تھا تو یہ مصاحف بھی بغیر نقطوں کے تھے۔لیکن ان سب کے بعد سب سے پہلے جس نے مصحف پر نقطے لگائے وہ ایک صاحبِ علم و تقویٰ تابعی تھے جن کا نام یحییٰ بن یعمر تھا۔ چنانچہ امام ابوبکر بن ابی داؤد سجستانی اس حوالہ سے لکھتے ہیں :
أول من نقط المصاحف یحیى بن یعمر.65
جس نے سب سے پہلے مصحف میں نقطے لگائے وہ یحییٰ بن یعمر تھے۔
تب سے آج تک اس بدعتِ حسنہ پر عمل ہوتا آرہا ہے اور اب قرآن مجید کی طباعت میں ان نقطوں کا استعمال تقریباًلازمی ہوگیاہے جبکہ رسول مکرم اور صحابہ کرام کے دور میں یہ کام سر انجام نہیں دیا گیا تھا جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی بھلائی کا کام رسول مکرم کے بعد سر انجام دیا جائے بشرطیکہ دین الہٰی کے مخالف نہ ہو تو جائز و مباح ہے۔66
نبی مکرم کے وصال کے بعد ایجاد شدہ بدعات حسنہ میں سےحضور کے نام مبارک کے ساتھ درود شریف لکھنابھی شامل ہے کیونکہ خود رسول اﷲ نے بادشاہوں اور اُمراء کے نام جو خطوط لکھے ہیں ان میں اپنے نام کے ساتھ درود نہیں لکھا بلکہ آپ صرف یہ لکھا کرتے تھے :
من محمد رسول اللّٰه الى هرقل.67
محمد رسول اﷲ کی جانب سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف۔
اسی طرح بعد میں حضرت خبیب کا وقتِ شہادت دو رکعت نوافل پڑھنا،68 تصنیف و تالیف کی ابتداء میں صلوٰۃ وسلام لکھنا69 اوراذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنا 70بھی انہی بدعاتِ حسنہ میں شامل ہے کیونکہ جو کام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا سمجھا جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
مارآه المسلمون حسناً فھو عنداللّٰه حسن.71
جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲتعالی کے نزدیک بھی اچھی ہے۔
اگر انسان بدعت کے متعلق معلومات نہ رکھتا ہو تو وہ ہر بدعت کو گمراہی سمجھتا ہے اور ہر نئے معاملے کو بدعت قرار دیتا ہے اور ہر ایک کو بدعتی (گمراہ) کہتا ہے اس وجہ سے ہر معاملہ میں یہ سوال کرتا ہے کیا رسول اللہ نے یہ کام کیا؟ اگر نہیں کیا تو یہ بدعت ہے جبکہ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اصولیین کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ گزشتہ مسلمان اگر کسی کام کو اچھا سمجھتے تھے تو وہ کام مستحب شمار کیا جائےگا نہ کہ بدعت۔72 ان تمام ابحاث کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے جید عالم دین شیخ سیّد محمد بن علوی المالکی لکھتے ہیں:
الحدیث كل بدعة ضلالة فلا بد من القول أن المراد بذلك البدعة السیئة التى لاتدخل تحت أصل شرعى وهذا التقیید وارد فى غیر هذا الحدیث كحدیث ولا صلوة لجارالمسجد الا فى المسجد73 فھذا الحدیث مع أنه یفید الحصر فى نفى صلاة جار المسجد الا أن عمومات الأ حادیث تفید تقییده بأن لاصلاة كاملة و كحدیث (لاصلاة بحضرة الطعام)74 قالوا: أى صلاة كاملة وكحدیث (لا یومن أحدكم حتى یحب لأخیه ما یحب لنفسه)75 قالوا: أى إیمانا كاملا. وكحدیث (واللّٰه لا یؤمن واللّٰه لا یؤمن واللّٰه لا یؤمن، قیل: من یا رسول اللّٰه؟ قال: من لم یأمن جاره بوائقه76 وكحدیث (لایدخل الجنة قتات)77 (ولایدخل الجنة قاطع رحم)78(وعاق لوالدیه)79 فالعلماء قالوا: أنه لا یدخل دخولا أولیا أو لا یدخل إذا كان مستحلا لذلك الفعل الحاصل أنھم لم یجروه على ظاھره وإنما أولوه بأنواع التأویل وحدیث البدعة هذا من هذا الباب فعمومات الأحادیث وأحوال الصحابة تفید أن المقصود به البدعة السیئة التى لا تندرج تحت أصل كلى ینتقد بعضھم تقسیم البدعة إلى حسنى وسیئة وینكر على من یقول ذلك أشد الإنكار بل ومنھم من یرمیه بالفسق والضلال وذلك لمخالفة صریح قول الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم (كل بدعة ضلالة) وهذا اللفظ صریح فى العموم وصریح فى وصف البدعة بالضلالة ومن هنا تراہ یقول: فھل یصح بعد قول المشرع صاحب الرسالة أن كل بدعة ضلالة یأتى مجتھد أو فقیه مھما كانت رتبته فیقول: لا لا لیست كل بدعة ضلالة بل بعضھا ضلالة وبعضھا حسنة وبعضھا سیئة وبھذا المدخل یغتر كثیر من الناس فیصیح مع الصائحین وینكر مع المنكرین و یكثر سواد هؤلاء الذین لم یفھموا مقاصد الشریعة ولم یذوقوا روح الدین الإسلامى. ثم لا یلبث إلا یسیرا حتى یضطر إلى إیجاد مخرج یحل له المشاكل التى تصادمه ویفسر له الواقع الذى یعیشه أنه یضطر إلى اللجوء إلى اختراع وسیلة أخرى لولاغا لما یستطیع أن یأكل ولا یشرب ولا یسكن بل ولا یلبس ولا یتنفس ولا یتزوج ولا یتعامل مع نفسه ولا أهله ولا إخوانه ولا مجتمعه هذه الوسیلة هی أن یقول باللفظ الصریح أن البدعة تنقسم إلى بدعة دینیة و دنیویة یا سبحان اللّٰه لقد أجاز هذا المتلاعب لنفسه أن یخترع ھذا التقسیم أو على الأقل أن یخترع هذه التسمیة ولو سلمنا أن هذا المعنى كان موجودا منذ عھد النبوة لكن هذا التسمیة دینیة ودنیویة لم تكن موجودة قطعا فى عھد التشریع النبوى فمن أین جاء هذا التقسیم؟ ومن أین جاءت هذه التسمیة المبتدعة؟ فمن قال: أن تقسیم البدعة إلى حسنة وسیئة لم یأت من الشارع نقول له وكذا تقسیم البدعة الى دینیة غیر مقبولة ودنیویة مقبولة هو عین الابتداع والاختراع.80
حدیث"کل بدعۃ ضلالۃ" سے مراد وہ بدعتِ سیئہ ہے جو اصلِ شرعی کے تحت داخل نہ ہو۔ یہ قید اور اس طرح کی دیگر قیودات دیگراحادیث میں بھی بکثرت وارد ہوئی ہیں جیسا کہ یہ حدیث مبارکہ مسجد کے پڑوسی کی نماز صرف مسجد ہی میں ہوتی ہے۔اس حدیث پاک میں حصر کے ساتھ مسجد کے پڑوسی کی نماز کی نفی وارد ہوئی مگر احادیث کثیرہ کے عموم سے یہ قید اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ لا صلوۃ کاملۃسےنفی کمال کی ہے نہ کہ اصل نماز کی اور جیسا کہ حدیث پاک میں ہےلاصلاۃ بحضرۃ الطعام علماء کرام نے فرمایا اس میں بھی نفی کمال کی ہےبمعنی لا صلوٰۃ کاملۃ اور تیسری حدیث پاک لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ اس میں بھی علماء کرام نے فرمایا کہ مراد لا یومن ایمانا کاملانفی کمال کی ہے اور چوتھی روایت: خدا کی قسم مومن نہیں خدا کی قسم مومن نہیں خدا کی قسم مومن نہیں عرض کیا گیا کہ کون یا رسول اﷲ ؟ آپ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کے ظلم سے مامون نہ ہو۔ اس میں بھی نفی کمال کی ہے اور پانچویں حدیث: جنت میں چغل خوری کرنے والا داخل نہ ہوگا اور جنت میں قطع رحمی کرنے والا اور ماں باپ کا نافرمان داخل نہ ہوگا۔علماء کرام نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لایدخل دخولا اولیا یعنی دخول اولی کی نفی ہے یا پھر یہ ہے کہ بالکل جنت میں داخل نہ ہوگا اگر ان افعال کو حلال سمجھ کر کرے گا۔حاصل کلام یہ ہے کہ علماء کرام نے ان احادیث کو ظاہرپر محمول نہیں کیا اورکسی نہ کسی قسم کی تاویل کی ہے اور کُل بدعۃ ضلالۃ والی حدیث بھی اسی قبیل سے ہے۔ احادیث شریفہ کے عموم اور احوال صحابہ سے یہ بات ثابت مستفاد ہوتی ہے کہ اس بدعت سے مراد بدعت سیئہ ہے جو کسی حاصل ِ کُلی کے تحت مندرج نہ ہو۔بعض لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے قائلین پر بہت شدت سے رد کرتے ہیں بلکہ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو ان پر فسق اور گمراہی کے فتوے لگاتے ہیں اور یہ رد اس لیے کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے رسول اﷲ کے صریح قول اور واضح ارشاد "وکل بدعۃ ضلالۃ" کی مخالفت ہوتی ہے جبکہ یہ قول صراحۃً ہر بدعت کو شامل ہے اور اس کی گمراہی پر بھی صریح ہے اسی وجہ سے تم ان کو یہ کہتا دیکھو گے کہ کیا صاحب شریعت صاحب رسالت کے اس فرمان " ہر بدعت گمراہی ہے " کے بعد کسی مجتہد یا فقیہ جو بھی اس کا رتبہ ہو کا یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ نہیں ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ بعض بدعتیں گمراہی ہیں ،بعض اچھی اور بعض بری ہیں؟۔اس طرح کے اعتراضات کی وجہ سے بہت سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور وہ بھی ان معترضین کے ساتھ چیخ اٹھتے ہیں اور منکرین کے ساتھ وہ بھی انکار کر بیٹھتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی جماعت بڑھتی جاتی ہے جنہوں نے نہ مقاصد شرعیہ کو سمجھا اور نہ دین اسلام کی روح کو چکھا۔پھر چند روز ہی گزرتے ہیں کہ یہی معترضین ایسی مشکل میں پڑجاتے ہیں جس سے بچنے کی راہ نکالنا ان کے لیے دشوار ہوتا ہے اور ان کی روز مرہ کی معاشرت جس کے بغیر ان کے لیے کھانا پینا اور رہنا سہنا بلکہ لباس پہننا اور سانس لینا تک مشکل ہوجائے اور جس حیلہ کے بغیر نہ تو وہ ذاتی اور خانگی معاملات طے کرسکتے ہیں اور نہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے کوئی معاملہ کرسکتے ہیں و وہ حیلہ (بدعت کی تقسیم ماننا ہے )کہ یہ لوگ واضح لفظوں میں کہہ اٹھتے ہیں کہ بدعت کی دوقسمیں ہیں بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ۔ہائے اﷲ ان کھلاڑیوں نے کیسے اپنے نفس کے لیے یہ تقسیم گھڑلی یا کم از کم یہ نام کس طرح گھڑلیا۔ اور اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ چیزیں عہد رسالت میں موجود تھیں تو یہ بدعت کی تقسیم دینیہ اور دنیویہ کی تو عہد رسالت میں ہرگز موجود نہ تھی، تو پھر یہ تقسیم کہاں سے آگئی؟ اور یہ نوایجاد بدعتی نام کہاں سے آگیا؟لہٰذاجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ کی طرف منقسم کرنا شارع کی طرف سے نہیں ہے اس لیے غلط ہے تو ہم ان کو جواب میں کہتے ہیں کہ بالکل اسی طرح بدعت کو ناپسندیدہ بدعت دینیہ اور پسندیدہ بدعت دنیویہ کی طرف منقسم کرنا بھی اختراع اور بدعت ہے۔ اس لیے کہ شارع تو علی الاطلاق فرماتے ہیں کہ وکل بدعۃ ضلالۃ اور یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں ہر بدعت مطلقاً گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت دینیہ اور وہ گمراہی ہے اوربدعت دنیویہ جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔
ان مذکورہ بالا عبارات ،احادیث اور ائمہ اسلاف کے اقوال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بدعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول مکرم کے وصال کے بعد ایسا ایجاد شدہ کام ہوجودین اسلام کے خلاف ہو81 ورنہ صرف یہ کہنا کہ جو کام رسول اکرم نے نہیں کیا بلکہ آپ کے وصال کے بعد وقوع پذیر ہوا تووہ مطلقا بدعتِ مذمومہ ہے انتہائی لاعلمی ہے اور ایسے اقوال کو علمائے شرع نے ناقابلِ توجہ جانا ہے ۔82 اسی کے ساتھ ان اقوال و عبارات سے یہ بھی واضح ہوا کہ نبی مکرم کے وصال مبارک کے بعد اگر کسی بھلے کام کو ایجاد کیا جائے تو ا س کا ثواب دیا جاتا ہے اور آئندہ جو شخص بھی اس بھلے کام کو سر انجام دے گا تو اس کو تو اجر ملےگا ہی 83ساتھ ہی ساتھ ایجاد کرنے والے کو بھی اس کا ثواب دیاجائےگا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ 84
اب تک ذکر کردہ عبارات ا ور ائمہ اسلاف کے اقوال سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بدعت بعد از وصالِ نبوی ایجاد شدہ ایسے کام کو کہا جاتا ہےجو شریعتِ اسلامیہ کے مخالف ہو لیکن اگر وہ ایجاد شدہ کام اسلام کے مخالف نہ ہوبلکہ خیر ہو تو اس کو کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔پھر یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ فقہاء کرام نے قرآن مجید کی ایک آیتِ کریمہ سے اباحت کے حوالہ سے مسلمہ اصول مستنبط کیا ہے جس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
هوَالَّذِى خَلَقَ لَكمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۭ وَهوَبِكلِّ شَىءٍ عَلِيْمٌ2985
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا، پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیے ، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَسَخَّرَ لَكمْ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْه 86
اور اُس نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے۔
ان آیات سے استدلال کرتے ہوئے اصولیین فقہ نے یہ قاعدہ مستنبط کیا ہے کہ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر چیز کو مخلوق کے نفع کے لیے پیدا فرمایا ہے لہٰذاقاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح یعنی جائز ہو یہاں تک کہ شریعت کی طرف سے اس کی حرمت و کراہت واضح کردی جائے۔اسی قاعدہ کو بیان کرتے ہوئے مشہور فقیہ اور اصولی عالم شیخ ملا جیون اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
ففى مسالة ان الاباحة اصل فى الاشیاء قوله تعالى "هو الذى خلق لكم ما فى الارض جمیعا ثم استوى الى السماء فسوهن سبع سموت وهو بكل شى علیم" هذا بیان نعمة یخاطب بھا الكفار اول المومنون او كلاهما والام فى لكم للانتفاع والمعنى خلق جمیع مافى الارض لانتفاعكم فى دنیاكم باستنفاعكم بھا مصالح ابدانكم وفى دینكم بالاستدلال...فیمكن ان یستدل بھا على ان الاصل فى الاشیاء الاباحة...وبالجملة ففى الآیة دلیل على كون الاباحة اصلا فى الاشیاء صرح به صاحب الكشاف حیث قال قد استدل بقوله تعالى "خلق لكم" على ان الاشیاء التى یصلح ان ینتفع بھا ولم تجر مجر المحظورات فى العقل خلقت فى الاصل مباحة مطلقا لكل احد ان یتناولھا وینتفع بھا وقد صرح به صاحب المدارك ایضا حیث قال وقد استدل الكرخى وابوبكر الرازى والمعتزلة بقوله تعالى "خلق لكم" على ان الاشیاء التى یصلح ان ینتفع بھا خلقت مباحة فى الاصل.87
اس مسئلہ کی دلیل کہ "اشیاء میں اصل جواز ہے"باری تعالی کا یہ فرمان ہے"وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا، پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیے ، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے"یہ ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جس کے ذریعہ کافروں ،مومنوں یا دونوں کو مخاطب کیاگیا ہے۔لفظ"لکم"میں لام انتفاعیہ ہے اور آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین میں تمام چیزیں تمہاری دنیاوی منافع کے لیے پیدا کی ہیں کہ اپنےجسموں کےفوائد کے لیے نفع حاصل کرسکو اور دینی منافع کے لیے بھی کہ (شرعی احکام میں)استدلال کرسکو۔۔۔پس اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کرنا ممکن ہے کہ "اشیاء میں اصل جواز ہے"۔۔۔خلاصہ بحث یہ ہے کہ آیت مبارکہ میں اشیاء میں اصل جوازکے ہونے کی دلیل موجود ہے ۔اس کی تصریح کرتے ہوئے صاحب کشاف (جار اللہ زمخشری) نے یوں کہا کہ باری تعالیٰ کے فرمان"خلق لکم" سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ وہ اشیاء جن سے فائدہ حاصل کیا جانا ممکن ہو اور وہ عقلا ممنوعات کے قائم مقام بھی نہ ہوں تو اصل میں انہیں مطلقا جواز کے لیے پیدا کیاگیا ہے کہ ہر ایک شخص کے لیے اس چیز کا استعمال اور اس سے فائدہ حاصل کرنا روا ہے۔اسی کی تصریح کرتے ہوئے صاحب مدارک (امام نسفی)نے کہا کہ امام کرخی ،امام ابوبکر رازی اور معتزلہ نے باری تعالیٰ کے اس فرمان"خلق لکم" سے اس اصول کا استدلال کیا ہے کہ وہ اشیاء جن میں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو در اصل وہ مباح ہیں۔
مذکورہ بالا عبارت میں ایک اصول بیان کیا گیا ہے کہ کوئی بھی چیز اس وقت تک جائز ہوتی ہے جب تک کہ اس کی حرمت کی دلیل موجود نہ ہو البتہ اگر اس کی حرمت یا کراہت کی دلیل شرعی وارد ہوجائے تو پھر وہ چیز حرام یا مکروہ قرار پائےگی لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ چیز جائز ہی رہےگی۔اس مذکورہ بالا اصول کی تائید ایک حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے چنانچہ امام ترمذی اس کو روایت کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ جب حضور سے ایک بار گھی، پنیر اور دیگر کھانے والی چیزوں کے متعلق سوال کیاگیا تو حضور نبی کریم نے فرمایا:
الحلال ما أحل اللّٰه فى كتابه والحرام ما حرم اللّٰه فى كتابه وما سكت عنه فھو مما عفا عنه.88
حلال وہ (چیز) ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں حلال ٹھہرایا ہے اور حرام وہ ہے جسے اﷲ نے اپنی کتاب میں حرام ٹھہرادیا ہے اور وہ اَشیاء جن کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا گیا ہے تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔
اسی طرح اس حوالہ سے ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
إن اللّٰه تعالى فرض فرائض فلا تضیعوها وحرم حرمات فلا تنھكوها وحد حدودا فلا تعتدوها وسكت عن أشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنھا.89
بے شک اﷲ تعالیٰ نے کچھ باتیں فرض کی ہیں۔ انہیں ہاتھ سے نہ جانے دو اور کچھ حرام فرمائی ہیں ان کی حرمت نہ توڑو اور کچھ حدیں باندھی ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور کچھ چیزوں سے بغیر بھولے سکوت فرمایا ہے ان کی کھوج نہ لگاؤ۔
ان احادیث سے بھی مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے مستنبط کیے گئے فقہاء کے اصول کی توثیق وتائید ہوتی ہے اور اس مستنبط اصول کی روشنی میں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ میلاد النبی پر مشروع مروجہ طریقہ سے خوشی کا اظہار کرنے پر چونکہ حرمت و کراہت کی دلیل موجود نہیں ہے کہ شرع نے اس سے منع کیا ہو تو میلاد النبی پر خوشی کا اظہار کرناجائز و مباح ہے نہ کہ حرام ومکروہ کہ ان کی دلیل موجود نہیں ہے ۔البتہ از حد صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مروجہ طرز بدعتِ حسنہ ہے جو در حقیقت ائمہ اسلاف ہی کا قول ہے۔ 90
دین اسلام انسانوں کواﷲ تعالیٰ اور حضور نبی کریم کے ذریعہ ملا اور جب دین اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ تقریباً تمام مسائل اور شرعی اصول بدعت حسنہ کے ذریعہ اضافوں کے ساتھ ملے ہیں چنانچہ اس حوالہ سے چندمثالیں ذکر کی جارہی ہیں:
حضور نبی کریم کے زمانہ میں قرآن اس شکل میں نہ تھا جو اس دور میں ہے قرآن پاک کے حروف مکمل اور بلا شبہ وہی ہیں جس میں ایک حرف کی بھی کمی یا بیشی نہیں ہوئی ہے لیکن اس کو پڑھنے ، سمجھنے اور دوسرے اقوام کی مزید آسانی کے لیے اس پر اعراب وغیرہ لگائے گئے ہیں ۔ اسی طرح اس کے لیے اصول قرآن ،اصول تفسیر ودیگر اس طرح کے کئی علوم وضع کیے گئے اب اس دور میں جو قرآن پاک مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود ہیں وہ کئی بدعات حسنہ کے ذریعہ سے ہوتے ہوئے ملا ہےاور اس کا فیضان کئی بدعت حسنہ کے اضافوں کے ساتھ موجودہ زمانہ تک پہنچا ہے۔یوں اﷲ تعالیٰ کی اس عظیم کتاب کو لوگوں کے سینے تک پہنچانے کے لیے ایک نہیں کئی بدعات حسنہ واجبہ کو عمل میں لاتے ہوئے قرآن پاک کی بڑی خدمت سرانجام دی گئی اورتمام امت مسلمہ نے اس بدعت حسنہ کو قبول کیا۔
اسی طرح احادیثِ مبارکہ ہم تک دوبڑی بدعت حسنہ واجبہ کے ذریعہ پہنچی ہیں ایک سند اور اسماء الرجال اور دوسری حدیث کے معنی کی تفہیم کے لیے اصول فقہ وغیرہ ۔ محدثین نے احادیث کی صحت جانچنے کے لیے اصول وضع کیے جو نہ توحضور اکرم نے بنائے تھے اور نہ ہی صحابہ کرام نے بنائے تھے بلکہ تابعین اور بعد کے محدّثین نے بنائے یعنی دین میں ایک نئی بدعت ایجاد کی گئی اوراس بدعت حسنہ واجبہ کے لیے بہت بڑی محنت کی گئی، دن رات احادیث کو تلاش کیا ایک ایک بات کو چھانٹا ،اس کے لیے بے شمار اصول بنائے اور یوں اس بدعت حسنہ کے ذریعہ سے احادیث کا ذخیرہ امت تک منتقل ہوتا رہا۔اسی حوالہ سے وضاحت کرتےہوئے شیخ عالم آسی تحریر فرماتے ہیں:
مسجدِ نبوی عہدِ رسالت میں سادہ چھپرکی بنی ہوئی تھی۔ عہد خلافت راشدہ میں اس میں ترمیمات کے ساتھ اضافے کیے گئے۔ اس کے بعد عہدِ سلاطین اسلامیہ میں ایسی شان وشوکت اور زینت دکھلائی گئی کہ آج اسلامی دنیا میں اس سے بہتر اور قیمتی پتھروں کی بنی ہوئی کوئی اور مسجد نہیں ہے۔اسی طرح قرآن شریف پر حرکات وسکنات اور اوقاف ورکوعات کی محنت خلفائے بنی اُمیہ کے عہد میں ٹھکانے لگی۔اس کے بعد مفسرین نے اپنے اپنے عہد تالیف میں قرآن وحدیث کے دوسمندروں کو ملاکر مجمع البحرین بنادیا اور وہ تفاسیر لکھیں کہ قرآن و حدیث کے تطابق کی زحمت امتِ محمدیہ سے اٹھادی گئی۔اس کے بعد جب اور بھی سہولت کو مدِ نظر رکھا گیا تو سب سے پہلے شاہ ولی اﷲ نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا۔ جس کی پاداش میں آپ کو حرمین شریفین میں سرچھپانا پڑا۔بعد میں جب لوگوں نے اس"بدعت" کو مفید سمجھا تو خود تراجم میں شروع ہوگئے ۔ان تمام نو پیدا اُمور میں یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام میں تُخم کے طور پر یہ تمام امور ضمنی طور پر موجود تھے۔ بعد میں جب ضرورت محسوس ہوئی اور تمدن کی تلون مزاجی نے رنگ بدلا تو اسی تخم ریزی سے چمن اسلام کو سرسبز کردیا گیا اور وہ مسائل اسلامیہ جو آغاز اسلام میں اجمالی شکل میں تھے یا وہ معمولی حیثیت میں تسلیم کیے گئے ہیں عہد رسالت کے بعد جوں جوں اسلام نے سیاسی، اقتصادی،معاشرتی اور ہمہ گیری کروٹیں بدلیں توساتھ ہی ان اجمالی یا معمولی امور کو زیادہ تفصیل اور اہمیت سے پیش کیا گیا۔اس لیے ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ مفصّلہ بالا اُمور گو تفصیلی حالت میں بدعت ہیں مگر چونکہ اپنی تخم ریزی عہد رسالت میں رکھتے ہیں اس لیے اگر ان کی اپنی اجمالی کیفیت کو ملحوظ رکھیں تو ایک طرح اسلامی امور ہی ہیں اور اسلام سے خارج نہیں ہیں کہ ان کو بدعت خارجی بناکر فتویٰ دیا جائے کہ کل بدعۃ ضلالۃ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے 91 اسی طرح میلاد النبی کا معالہ ہے کہ اس کی اصل قرآن و سنت میں موجود تھی البتہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ کیفیت و طرز متغیر ہوتا رہا جس کو بدعتِ حسنہ کے ذریعہ سے سر انجام دیا جاتا رہا۔
رسول اکرم کی تعظیم وتوقیر شریعت اسلامیہ کی سب سے اہم بنیاد ہے جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْه وَتُوَقِّرُوْه ۰ ۭوَتُسَـبِّحُوْه بُكرَة وَّاَصِيْلًا9 92
تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔
اس آیت مبارکہ میں اہلِ ایمان کو واضح حکم دیا جارہا ہے کہ آپ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان کی تعظیم وتوقیر بھی لازمی کرنی ہے اور قرآن مجید کے اس اصول کے تحت میلاد مصطفی بھی ہے کیونکہ میلادِ مصطفی بھی تعظیم و توقیر کا ایک پہلو ہے جو مومنین کے دلوں میں رسول اکرم کی محبت و اطاعت اور آپ کی عظمت کو پختہ کرتا ہے۔میلاد النبی اگرچہ قرونِ اولیٰ میں اِس شکل میں موجود نہیں تھا جس ہیئت میں آج موجود ہے جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں، اب اس میں فانوس اور چراغاں کرکے مزین کیا جاتا ہے۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں۔اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا، صحابہ کرام اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم اپنے گھروں پر محفلیں منعقد کرتے اور صدقہ و خیرات کرتے تھےاب مرورِ زمانہ کے حساب سے اس میں بھی تبدیلی واقع ہو گئی ہے جس میں اسٹیج بنانا اور پنڈال وغیرہ سجانا داخل ہے لیکن چوں کہ قرآن حکیم کی تلاوت، ذکرِ الہٰی، تذکر ہ ءِ رسالت، ثنا خوائی مصطفی ، صدقہ وخیرات کرنا، فقراء ومساکین کو کھانا کھلانا جیسے اَعمال اِس جشن کے مشمولات ہیں اور ان میں سے کوئی اَمر بھی شریعت میں ممنوع نہیں لہٰذا یہ ایک جائز، مشروع اور مستحسن عمل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اَدوار کے لوگ اپنے رسوم ورواج اور ثقافت کے مطابق نعمتِ عظمیٰ ملنے کے دن شکر الہٰی بجا لاتے تھے جب کہ موجودہ دور میں جس طرح زندگی کے ہر گوشہ میں تبدیلی رُونما ہوئی ہے اُسی طرح جشن میلاد النبی منانے کے اَطوار بھی تبدیل ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر کوئی کام اچھا ہواگرچہ کہ اسے حضور نے نہ بھی کیا ہو تو اسے کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسا عمل کرنے والے کو ثواب بھی ملتا ہے۔ اب چند محدثین، مفسرین اور اکابر علماء کے حو الہ جات ذکر کیے جارہے ہیں جن سے یہ واضح ہوجائےگا کہ میلاد شریف منانا مستحسن فعل ہے اور منانے والے اجر وثواب کے بھی مستحق ہیں چنانچہ امام ظہیر الدین تحریر فرماتے ہیں:
وهى بدعة حسنة إذا قصد فاعلھا جمع الصالحین والصلاة على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإطعام الطعام للفقراء والمساكین، وهذا القدر یثاب علیه.93
یہ بدعت حسنہ ہے۔ بشرطیکہ میلاد کی محفل کرانے والا، پاکباز افراد کو جمع کرے۔ حضور پر درود پاک پڑھیں۔ فقراء اور مساکین کو کھانا کھلائیں۔ اس مقصد پراسے ہر وقت اس کا ثواب ملے گا۔ 94
اسی طرح شیخ نصیرالدین تحریر فرماتے ہیں:
هذا اجتماع حسن یثاب قاصد ذلك وفاعله علیه، إلا أن سؤال الناس ما فى أیدیھم بذلك فقط بدون ضرورة وحاجة سؤالٌ مكروه، واجتماع الصّلحاء فقط لیأكلوا ذلك الطعام ویذكروا اللّٰه تعالى ویصلّوا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یضاعف لھم القربات والمثوبات.95
یہ ایک عمدہ اجتماع ہے، اس کے انعقاد کرنے والے کو عمدہ ثواب ملے گا۔ لیکن اس میں لوگوں کا بلا ضرورت مانگنا مکروہ ہے۔ جبکہ پاکباز افراد کا ایسا اجتماع جس میں وہ کھاناکھائیں، رب تعالیٰ کا ذکر کریں، حضور پر درود پاک پڑھیں،اس سے اس شخص کے اجروثواب میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔96
اسی حوالہ سے امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:
هو من البدع الحسنة التى یثاب علیھا صاحبھا، لما فیه من تعظیم قدر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإظھار الفرح والاستبشار بمولده الشریف.97
یہ میلادبدعت حسنہ میں سے ہے جس پر اسے سرانجام دینے والوں کو ثواب بھی دیا جائے گا کیونکہ اس میں حضور نبی کریم کی تعظیم وتوقیر اور میلاد النبی پر خوشی ومسرت کا اظہار ہوتا ہے ۔
شیخ حلبی میلاد النبی کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
أى لكن هى بدعة حسنة، لأنه لیس كل بدعة مذمومة.98
ہاں مگریہ بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔
اسی حوالہ سےامام زرقانی لکھتے ہیں:
فھو بدعة وفى أنھا حسننة.99
یہ نیا طریقہ ہے لیکن اچھا طریقہ ہے۔
لیکن یاد رہے کہ یہ بدعتِ حسنہ کا حکم طرزِ میلادالنبی کے حوالہ سے ہے ورنہ اس کی اصل قرآن و حدیث سے پیش کی جاچکی ہے۔اسی حوالہ سے امام ابو شامہ مقدسی لکھتے ہیں:
ومن أحسن ما ابتدع فى زماننا.100
ہمارے دور میں جوکچھ بھی ایجاد ہوا ان میں یہ (میلاد النبی کا اہتمام) ایک اچھا طریقہ ہے۔
امام صدر الدین جزری فرماتے ہیں:
یثاب الإنسان بحسب قصده فى إظھار السرور والفرح بمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم .101
میلاد النبی پر انسان کو ثواب بقدر خوشی ومسرت کا اظہار کرنے پر ملتا ہے۔102
امام احمد رضا خان قادری لکھتے ہیں:
آخر روضۃ النعیم میں جو فتاوی علماء کرام مطبوع ہوئے ان میں مدینہ منورہ کےحضراتِ علماء کےفتوی میں محفل میلاد شریف کی حسن وخوبی ثابت کرنے کے بعد یوں مذکور ہے:
والحاصل أن ما یصنع من الولائم فى المولد الشریف وقراء ته بحضرة المسلمین وانفاق المبرات والقیام عند ذكر ولادة الرسول الأمین صلى اللّٰه عليه وسلم ورش ماء الورد والقاع والبخور وتزیین المكان و قرآءة شى من القرآن والصلوٰة على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم واظھار الفرح والسرور فلا شبھة فى أنه بدعةحسنة مستحبة وفضیلة شریفة مستحسنة.103
خلاصہ یہ ہے کہ میلاد شریف میں ولیمے کرنا اور حال ولادت مسلمانوں کو سنانا اور خیرات ومبرات بجالانا اور ذکر ِولادتِ رسولِ امین کے وقت قیام کرنا اور گلاب چھڑکنا اور خوشبو ئیں سلگانا اور مکان آراستہ کرنا اور قرآن پڑھنا اور نبی پر درود بھیجنا اور فرحت وسرور کا مظاہره کرنا بے شک بدعت حسنہ مستحبہ ہے اور فضیلت ِشریفہ مستحسنہ ہے۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
إما محبة للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمًا واللّٰه قد یثیبھم علن هذه المحبة والاجتھاد.104
البتہ (میلاد پاک) حضور کی محبت وتعظیم کی وجہ سے منانے والوں کو اﷲ ضرور ثواب دیتا ہے۔
ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ حضور کی ولادتِ مبارکہ منانا اس پر خوشی ومسرت کا اظہار کرنا،لوگوں کو اکھٹا کرکے اجتماع وجلسہ کا اہتمام کرنا اور ذکرِ ولادت وتقسیمِ لنگر تمام امور جائز، درست اور پسندیدہ ہیں۔ ان میں کوئی برائی نہیں ہے اور ان اعمال کو سرانجام دینے والوں کو بارگاہ ربوبیت سے اجر وثواب بھی ملتا ہے۔رہا یہ معاملہ کہ بعض اہل علم نے اسے بدعتِ مذمومہ 105کہا ہے تو ان کی تصانیف کےمطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے محفل میلاد کو ہرگز برا نہیں کہا بلکہ جو غیر شرعی حرکات بعض جہلاء کی طرف سے اس میں شامل کردی جاتی ہیں انہیں برا کہا ہے اور ایسا کہنا بالکل بجا اور ضروری ہے جو کہ امام سیوطی 106سمیت دیگر ائمہ اسلاف نے وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔107
بعض لوگ جشنِ عید میلاد النبی کو تو بدعت اور گمراہی کہتے ہیں لیکن خود سیرت النبی108 اور ختم بخاری109 اوران جیسی دیگر محافل 110 کی تقریب مناتے ہیں جبکہ یہ بھی بدعت ہی ہے لیکن اسی طرز کی محافلِ میلاد کو بدعتِ سیئہ کہتے ہیں تو ان کا یہ طرزِ عمل در حقیقت پرکھ اور جانچ پڑتال کے دوہرے معیار کے گواہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس سے اجتناب کی ضرورت ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رسول مکرم کے میلاد کی خوشی منانا اور اس پر پُر جوش لیکن مشروع طریقہ سے مسرت کا اظہار کرنا یہ بدعت نہیں بلکہ مستحب ومستحسن امر ہے جس کی اصل قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ اکابر ین امت کے طرز عمل اور کتب و تاریخ سے مسلّم ومتواتر ہے البتہ اس میں جہلاء کی طرف سے کی جانے والی حرکات و سکنات ممنوع ہیں۔جن ائمہ اسلاف نے میلاد النبی کو بدعت کہاہے تو ان کی مراد طرزِ میلاد ہے جو کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے لیکن نفسِ میلاد جائز و مستحب و متحسن ہےاور خود خضور اور ان کے صحابہ سے ثابت ہے ۔