Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی منانے کی شرعی حیثیت

نبی کریم کی ولادت باسعادت یقینی طور پرعظیم عطیۂِ باری تعالیٰ ہے۔جن کے وجود کے طفیل ہی مخلوق ِخداوندی اپنے خالق ِ حقیقی کو پہچانتی و مانتی ہے۔ 1 وہی ذات کریمی جن کو رب العزت نے امّتیوں کے لیے والی و مددگار بنایا ہے 2 اور جن کی بارگاہ کو گناہوں کی معافی کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ 3جن کا جا بجا ذکر قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ رب العزت نے مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔جس کی وضاحت قرآنِ مجید کے اندازِ بیان کے تنوّعات سےہوتی ہے۔ نبی کریم کے میلاد کی شرعی حیثیت واضح ہے کہ شرعی طور پر رسول اکرم کے میلاد کا ذکر کرنا اور اس پر مختلف انداز و اطوار سے خوشی کا اظہار کرنا اسلام کی نظر میں مطلوب و محبوب ہے اوراس کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی مقدمات کو سمجھنا بہت ضروری ہے لہٰذا پہلے ان پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

حضور اکرم ﷺنعمتِ باری تعالیٰ ہیں

بلا شبہ نبی کریم عظیم نعمتِ خداوندی ہیں اور اس کاذکر مختلف انداز سے قرآن مجید میں کیا گیاہے۔مشت از خورما کے مصداق تین آیات بینات ذکر کی جاتی ہیں جس سے اس بات کی وضاحت ہوجائیگی کہ باری تعالیٰ نے جا بجا اپنے کلامِ مقدس میں اپنے محبوب کا تذکرہ انتہائی منفرد انداز سے کیا ہے۔چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

  لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِه وَيُزَكيْھمْ وَيُعَلِّمُھمُ الْكتٰبَ وَالْحِكمَة ۚ وَاِنْ كانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِى ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ164 4
  بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول () بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

اس آیت مبارکہ میں انتہائی منفرد انداز سے باری تعالیٰ نے حضور سیّدنا محمد رسول اللہ کی تشریف آوری کا ذکر فرمایا ہے اور اندازِ بیان میں جو طریقہ اختیار فرمایاگیا ہے وہ یقیناً پورے قرآن ِ مجید میں کہیں بھی اختیار نہیں کیا گیا کیونکہ قرآن میں جابجا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں ،رحمتوں اور برکتوں کا ذکر احسان جتلائے بغیر ہے۔5پر احسان سمجھ رہے تھے اللہ رب العالمین نے ان کو ایمان کی نعمت عظمیٰ عطا فرمانے پر اپنا احسان جتلایاہےلیکن دونوں آیات میں احسان جتلانے کی نوعیت و طریقہ ایک دوسرے سے یکسرا ور بالکلیہ مختلف ہے۔البتہ ان دونوں آیات میں وہ بات جو مشترک ہے وہ رسول اکرم سے محبت و مودّت کا اظہار ہے۔دونوں آیات ِبینات کی ترکیب و تشکیل سے اہل علم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت اپنے محبوب و مکرم رسول سے کس درجہ کی محبت و مودت فرماتا ہے۔واللہ یختصّ برحمتہ من یشاء۔ (ادارہ) ] لیکن یہ وہ خاص مقام ہے جہاں پر رب کریم نے رسول اللہ کی تشریف آوری کا ذکر احسان جتلانے کے ساتھ فرمایاہے۔جس سے بداہۃً اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ باری تعالیٰ کے نزدیک یہی ایک نعمت ہے جس پر احسان جتلانا اس کی شان کے قریب تر ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم کی تشریف آوری کا ذکر انتہائی اعلی و اکمل و ارفع انداز اور باوقارطریقہ سے کیا جائے ۔بلاشبہ مسلمانان ِعالم میلاد النبی کی خوشی کے اظہار میں اس امر اِلہٰیّہ کے مطابق عمل پیراہوتے ہیں جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

  وَاذْكرُوْا نِعْمَتَ اللّٰه عَلَيْكمْ اِذْ كنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه اِخْوَانًاۚ103 6
  اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔

اس آیت کی تفسیر میں امام نسفی 7 اوراسماعیل حقی نے کہا ہے کہ اسلام کےذریعہ تالیف قلب کی گئی ہے۔8امام بیضاوی نے کہاہے کہ تالیف قلب نبی کریم کے ذریعہ ہوئی ہے۔9 امام قرطبی نے تالیف کی وجہ اسلام بتائی ہے اوراتباعِ نبی کریم کو نعمت میں شامل کیا ہے۔10 تاہم صاحب دُرّ منثور اس آیت کریمہ کے ذیل میں اس کی تفسیر کرتے ہوئےرقمطراز ہیں:

  وأخرج ابن أبى حاتم عن أنس قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : يا معشر الأنصار بم تمنون على أليس جئتكم ضلالا فھداكم اللّٰه بى وجئتكم أعداء فألف اللّٰه بين قلوبكم بى قالوا: بلى يا رسول اللّٰه ( صلى اللّٰه عليه وسلم ).11
  ابن ابی حاتم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:اے جماعتِ انصار تم مجھ پر احسان کیوں جتا رہے ہو؟کیا میں تمہارے پاس اس حال میں نہیں آیا کہ تم گمراہ تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔کیا میں تمہارے پاس اس حال میں نہیں آیا کہ تم آپس میں دشمن تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہارے دلوں میں الفت و محبت ڈال دی؟انہوں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول (ایسا ہی ہواہے)۔

اسی طرح ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سرزمینِ حبشہ سے واپس آئے تو نبی اکرم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سلام پیش فرمایا لیکن جواب نہیں آیا کیونکہ نبی اکرم اس وقت عبادت میں مشغول تھے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب رسول اکرم نے سلام کاجواب عنایت فرمایا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے عرض کیا:

  اعوذ من سخط نعمة اللّٰه قال صلى اللّٰه عليه وسلم : وما ذاك؟ ! قال: سلمت علیک، فلم ترد على، قال: إن فى الصلاة لشغلافلم نرد السلام على أحد من يومئذ .12
  میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت کے غضب سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ۔رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ کیا ہوا؟حضرت عبد اللہ بن مسعود نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب عنایت نہیں فرمایا(پہلے تو عنایت فرمادیا کرتے تھے۔اس پر)آپ نے ارشاد فرمایا:بلا شبہ نماز میں انہماک اور توجہ الی اللہ اس بات کی متقاضی ہے کہ آج کے بعد ہم کسی کو بھی نماز کے دوران سلام کا جواب نہیں دیا کریں گے۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہواکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے نبی اکرم کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت فرمایا جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم تر نعمت صرف اور صرف سیّدنا محمد رسول اللہ ہیں۔

مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسلام اور رسول اکرم نعمت ہیں جس کا ذکرمذکورہ آیت میں منفرد انداز سے فرمایا گیا ہے اور جن کے ذریعہ اللہ رب العزت نے باہم قربتوں اور محبتوں کو پیدا فرمایاہے ۔اسی طرح ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ یوں مذکور ہے:

  اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰه كفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَھمْ دَارَ الْبَوَارِ2813
  کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتِ (ایمان) کو کفر سے بدل ڈالا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتار دیا۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حِبر الامّۃ عبداللہ بن عباس کا فرمان ہے کہ اس آیت مقدسہ میں مذکورہ لفظ"نعمۃ اللہ" سے مرادحضرت سیّدنا محمد رسول اللہ ہیں۔ 14مذکورہ آیات کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جن سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور اکرم کو نعمت فرمایا ہے۔

ان باتوں کے سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام میں نعمتوں کےتذکرہ کرنے کے حوالہ سے کیا ہدایات دی گئی ہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے قرآن مجید میں ارشادِباری تبارک وتعالیٰ ہے:

  وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّك فَحَدِّثْ11 15
  اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا چرچا کرنے کا حکم ہے اور یہ امرِ اِلہٰیّہ کی اطاعت و اتباع ہے۔اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ نعمتوں کا نہ صرف چرچا کرنے کا حکم دیاگیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں کو یاد رکھنے کے حوالہ سے بھی ہدایات دی گئیں ہیں۔چنانچہ قرآن مجید میں جن اقوامِ سابقہ کو رب العزت نے اپنی نعمتوں کی یا ددہانی کروائی ہے اس کا ذکر کرنے کا حکم بھی دیا ہےجیساکہ باری تعالیٰ کا ارشادِ مقدس ہے:

  يٰبَنِى اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكرُوْا نِعْمَتِى الَّتِى اَنْعَمْتُ عَلَيْكمْ وَاَنِّى فَضَّلْتُكمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ47 16
  اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی۔

ا س آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی ان نعمتوں کا تذکرہ کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ہے جو ان کے آباءو اجداد پر ہوئیں تھیں جن کے سبب یہ لوگ اس دنیا میں موجود تھے۔اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ نعمتوں کی یاد دہانی اور اس کاتذکرہ کرنا عین منشا باری تعالیٰ کے مطابق ہےلہٰذا مولود النبی کی یاد منانا یہ عین حکم ِ خداوندی کے موافق عمل پیرا ہونا ہے کیونکہ یہ انسانیت پر رب تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ کی یاد دہانی کا ذریعہ ہے۔

قرآن مجید اورواقعات ِسرور و غم کا تذکرہ

رسول اکرم کے میلاد کا ذکر کرنا اور اسے باعث خیر گردانناامت ِمسلمہ کا متفقہ اور بالتسلسل طریقہ رہا ہےکیونکہ اس طرح کی یاد منانے سے قوم وملت اپنے اندر تازگی و فرحت محسوس کرنےکے ساتھ ساتھ نعمتِ باری تعالیٰ کے شکر کی بجا آوری میں مستعد و مشغول رہتی ہے۔اسلام کی نظرمیں واقعات کاذکرفقط قصّہ گوئی نہیں ہے بلکہ ایک نصیحت و عبرت کو حاصل کرنا ہے ۔اسی بات کی طرف درجِ ذیل فرمانِ باری میں اشارہ وحکم ملتا ہے۔چنانچہ اللہ رب العالمین نے سورہ یوسف کو"احسن القصص" 17(سب سے بہترین قصّہ) فرمانے کے بعد اس کے آخر میں ارشاد فرمایا:

  لَقَدْ كانَ فِى قَصَصِھمْ عِبْرَة لِّاُولِى الْاَلْبَابِ11118
  بیشک ان کے قصوں میں سمجھ داروں کے لیے عبرت ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے بعد اس طرف توجہ بھی کرنا لازمی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےقرآن مجید میں کئی طرح کے واقعات ذکر فرمائے ہیں جن میں خوشی و غمی دونوں طرح کے واقعات شامل ہیں۔یہاں صرف ایک آیت ایسی پیش کی جارہی ہے جس میں بیک وقت خوشی وغمی کی یاد دلائی گئی ہے۔مثلا ًسورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کو واقعہ سرور وغم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  وَاِذْ نَجَّيْنٰكمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكمْ ۭ وَفِى ذٰلِكمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكمْ عَظِيْمٌ49 19
  اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے، اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (کڑی) آزمائش تھی۔

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں باری تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پہلے تو ایک عظیم آزمائش سے نجات کی طرف توجہ دلائی جو کہ مسرت کی یاد دلانا ہےپھراس کے بعداس دردناک واقعہ کا ذکر کیاہے جو غم کی یاد د لاتاہے ۔20 یعنی بیک وقت جس طرح یہ آیت کریمہ خوشی کے واقعہ کی یاد دلاتی ہے اسی طرح اس آیت کریمہ میں اِن درناک واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ فرعون کے ایماء پر آل فرعون بنی اسرائیلیوں پر طرح طرح کے مظالم کے ساتھ ساتھ ان کے نومولد لڑکوں کو قتل کردیتے تھے اور نومولد لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے تاکہ ان سے ہر طرح کی خدمات لی جاسکیں۔یقیناً یہ ایک درناک واقعہ تھا بنی اسرائیل کی زندگی میں جس سے باری تعالیٰ نے ان کے آباؤاجداد کو نجا ت عطافرمائی تھی۔مقصود اس سے یہی ہے کہ نجات یافتہ بنی اسرائیل کی اولادکو یاد کروایا جائے کہ کس طرح تمہارے آباؤاجداد پر انعام ِباری تعالیٰ ہوا تاکہ یہ بھی اس کا شکر ادا کریں اور ایمان لے آئیں۔ باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح کے بیشمار واقعات کو بیان فرمایاہے تو گویا گزشتہ واقعات ِسرور وغم کی یاد دہانی اسلام میں مشروع اور ممدوح ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت وعبرت حاصل کریں اور باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔یہ تو اس واقعہ کا ذکر تھا کہ جس میں سرور وغم کی یاد ایک ہی آیت مبارکہ میں ذکر کی گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ایسی کئی آیاتِ مبارکہ مذکور ہیں جن میں فقط کسی خوشی کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور اسی طرح فقط غم والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ان میں سے صرف ایک ایک واقعہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم کو خوشخبری دینے کا تذکرۂ خداوندی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں کئی خوشیوں کے واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے جن میں سےیہاں پر حضرت ابراہیم کو خوشخبری دینے کا تذکرہ پیش کرتے ہیں چنانچہ جب حضرت ابراہیم اپنی عمر کے اواخر میں پہنچے تو ان کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  وَنَبِّئْھمْ عَنْ ضَيْفِ اِبْرٰھيْمَ51 اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْه فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ اِنَّا مِنْكمْ وَجِلُوْنَ52 قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُك بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ53 قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِى عَلٰٓى اَنْ مَّسَّنِى الْكبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ54 قَالُوْا بَشَّرْنٰك بِالْحَقِّ فَلَا تَكنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ55الَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَة رَبِّه اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ5621
  اور انہیں ابراہیم ( ) کے مہمانوں کی خبر (بھی) سنائیے۔ جب وہ ابراہیم ( ) کے پاس آئے تو انہوں نے (آپ کو) سلام کہا، ابراہیم ( ) نے کہا کہ ہم آپ سے کچھ ڈر محسوس کر رہے ہیں۔(مہمان فرشتوں نے) کہا: آپ خائف نہ ہوں ہم آپ کو ایک دانش مند لڑکے (کی پیدائش) کی خوشخبری سناتے ہیں۔ابراہیم ( ) نے کہا: تم مجھے اس حال میں خوشخبری سنا رہے ہو جبکہ مجھے بڑھاپا لاحق ہو چکا ہے سو اب تم کس چیز کی خوشخبری سناتے ہو؟انہوں نے کہا: ہم آپ کو سچی بشارت دے رہے ہیں سو آپ نا امید نہ ہوں۔ابراہیم ( ) نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہے۔

ان مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس خوشی کے واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک اور مقام پر اسی واقعہ کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی زوجۂِ محترمہ کی بھی خوشی کی کیفیت کا ذکر فرمایا ہےچنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

  وَامْرَاَتُه قَاۗىِٕمة فَضَحِكتْ فَبَشَّرْنٰھا بِـاِسْحٰقَ ۰ۙوَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ71قَالَتْ يٰوَيْلَــتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّھذَا بَعْلِى شَيْخًا ۭ اِنَّ ھذَا لَشَىءٌ عَجِيْبٌ72قَالُوْٓا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰه رَحْمَتُ اللّٰه وَبَرَكتُه عَلَيْكمْ اَھلَ الْبَيْتِ ۭ اِنَّه حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ73 22
  اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں، سو ہم نے ان (کی زوجہ) کو اسحاق ( ) کی اور اسحاق ( ) کے بعد یعقوب ( ) کی بشارت دی۔وہ کہنے لگیں: وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی) ہوں اور میرے یہ شوہر (بھی) بوڑھے ہیں؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے۔فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہے۔

ان مذکورہ بالا آیاتِ بینات سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے واقعہ کا تذکرہ کرنا مستحسن اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا بھی اچھاہے جس کو بلا نکیر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔

کفّارِ مکّہ کوقوم لوط کے عذاب کے تذکرہ سے ڈرانا

اسی طرح قرآن مجید کی کئی آیات بینات میں درناک واقعات کا تذکرہ بھی موجود ہے جن میں سے فقط ایک واقعہ کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔کفارِ مکّہ جب رسول اکرم پر ایمان نہ لائے اور اپنی سرکشی میں لگے رہے تو انہیں قوم لوط کےتذکر ہ سے ڈرایا گیا،چنانچہ باری تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

  لَعَمْرُ ك اِنَّھمْ لَفِى سَكرَتِھمْ يَعْمَھوْنَ72 فَاَخَذَتْھمُ الصَّيْحَة مُشْرِقِيْنَ73 فَجَعَلْنَا عَالِيَھا سَافِلَھا وَاَمْطَرْنَا عَلَيْھمْ حِجَارَة مِّنْ سِجِّيْلٍ74 اِنَّ فِى ذٰلِك لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ75 وَاِنَّھا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ76اِنَّ فِى ذٰلِك لَاٰيَة لِّلْمُؤْمِنِيْنَ7723
  (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بیشک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔انہیں طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سخت آتشیں کڑک نے آلیا۔سو ہم نے ان کی بستی کو زِیر و زَبر کر دیا اور ہم نے ان پر پتھر کی طرح سخت مٹی کے کنکر برسائے۔بیشک اس (واقعہ) میں اہلِ فراست کے لیے نشانیاں ہیں۔اور بیشک وہ بستی ایک آباد راستہ پر واقع ہے۔ اس (واقعۂِ قومِ لوط) میں اہلِ ایمان کے لیے نشانی (عبرت) ہے۔

ان مذکورہ بالا آیات مقدسات میں کفار مکّہ کی سرکشی کی روک تھام اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کو بھی اس دردناک واقعہ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ قومِ لوط نے اپنے نبی حضرت لوط کی بات نہ مانی اور کفارِ مکّہ کی طرح سرکشی اختیار کی تو انہیں مذکورہ بالا عذاب دیا گیا لہٰذا کفارِ مکّہ اگر اب بھی نہیں مانیں تو انہیں اپنی سرکشی میں رہنے دیا جائے البتہ اس واقعہ میں اہل فراست اور خصوصًا مؤمنین کے لیے ضرور عبرت کاسامان ہے۔

مذکورہ بالا دونوں سرور و غم کے واقعات کے علاوہ بھی قرآن مجید فرقان حمید میں کئی طرح کے واقعات سرور وغم کا تذکرہ موجود ہے یہاں ان کا تذکرہ کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس بات کی طرف قارئین کو متوجہ کیا جاسکے کہ اسلام میں سرور و غم کے واقعات کا تذکرہ شادگی و نشاۃ اور عبرت کے لیے مستحسن ہے جن سے اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پیغام دینا چاہتا ہے کہ ان واقعاتِ سرور وغم کی یاد تازہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اد ا ہوتا رہے اور اس کی نافرمانیوں سے ہمیشہ ڈر اور خوف محسوس ہو اور ان سے بچا جا سکے۔

احادیثِ رسولﷺمیں واقعاتِ سرور و غم کی یادد ہانی

اب تک جن واقعات کا تذکرہ کیا گیا ان میں قرآنی واقعات کا انتخاب کیا گیا تھا جن سے معلوم ہوا کہ واقعات کی یاد دہانی اسلام میں مستحسن ہے کہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی ترغیب اور معصیت سے اجتناب کی ترہیب میسر آتی ہے۔اب احادیث رسول میں سے چند ایسے واقعاتِ سرور و غم کا تذکرہ کیا جائےگا جن میں سیّدنا محمد رسول اللہ نےاپنے صحابۂِ کرام کوسرور و غم کے واقعات کی یاد دہانی کروائی اور خو دبھی ان کے ساتھ مل کر انعامِ خداوندی پر تشکر کااظہار اور عذابِ خداوندی سے خشیت کا اظہار فرمایا جس کا مقصد اس کے علاو ہ اور کیا ہوسکتا ہےکہ واقعاتِ سرورو غم کی یاد دہانی اسلام میں معتبر ہے اور اس کا مقصد فقط قصہ گوئی نہیں ہے بلکہ انعامِ خداوندی پر اظہارِ شکر اور عذابِ خداوندی پر اظہارِ خشیت ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ایسے کئی واقعات مذکور ہیں جن میں حضور نبی اکرم کے عمل سے اُمت کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ جب کبھی خوشی کا لمحہ یاد کرو تو اس لمحے کی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلو اور جب کوئی لمحۂِ مصائب و آلام یاد آئے تو غم کی کیفیات میں ڈوب جاؤ۔ جب ان لمحات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سمٹی ہوئی کیفیات اس نسبت سے جنم لے رہی ہیں جو ان لمحات کو کسی ہستی سے تھیں۔24 یہاں ان میں سے چند احادیث کا ذکر کیا جارہا ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ یہ یاد دہانی کرنا رسول اکرم کی سنت میں بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب اس حوالہ سے ذخیرۂِ احادیث کو دیکھا جاتا ہے تو جا بجا کئی واقعات موجود ہیں ۔

یومِ موسیٰ منانے کی ہدایت

ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب حضور نبی اکرم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت منقول ہے:

  عن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما، قال: قدم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم المدينة فرأى اليھود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما ھذا؟، قالوا: ھذا يوم صالح ھذا يوم نجى اللّٰه بنى إسرائيل من عدوھم، فصامه موسغ، قال: فأنا أحق بموسی منكم، فصامه، وأمر بصيامه.25
  حضرت ابن ِعباس سے روایت ہے کہ نبی کریم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کوعاشورہ (دسویں محرم الحرام)کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا:یہ کیا ہے؟(اس دن میں روزہ کیوں رکھتے ہو)انہوں نے کہا:یہ مبارک دن ہے۔اس دن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن(فرعون)سے نجات عطافرمائی تھی تو (شکرانہ کے طور پر)حضرت موسیٰ نے اس دن کا روزہ رکھا۔آپ نے ارشاد فرمایا:پھر تو میں تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ پر زیادہ حقدار ہوں توآپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنےکاحکم بھی صادر فرمایا۔

اس روایت کوامام مسلم، 26 ابوداؤد27 اور ابن ماجہ نے بھی اپنی کتبِ حدیث میں نقل کیاہے۔ 28 اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم نے حضرت ِ موسیٰ پر ہونے والے انعامِ خداوندی پر نہ صرف خوشی کا اظہار فرمایا اور خود روزہ رکھ کر شکر ادا فرمایا بلکہ اپنے صحابہ کرام کو بھی اس انعامِ باری تعالیٰ پر شکر ادا فرمانے کےلیے روزہ رکھنے کا حکم صاد ر فرمایا۔ایک روایت میں یومِ عاشورہ کے روزہ رکھنے کی مذکورہ وجہ کے ساتھ دوسری وجہ بھی منقول ہوئی ہے جن سے مزید خوشیوں کا معلوم ہوتا ہےچنانچہ روایت میں منقول ہے:

  عن أبى ھريرة قال: مر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بأناس من اليھود قد صاموا يوم عاشوراء، فقال: ما ھذا من الصوم؟ قالوا: ھذا اليوم الذى نجى اللّٰه موسى وبنى إسرائيل من الغرق، وغرق فيه فرعون، وھذا يوم استوت فيه السفينة علة الجودة، فصام نوح وموسى شكرا للّٰه، فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم : أنا أحق بموسى وأحق بصوم ھذا اليوم فأمر أصحابه بالصوم.29
  حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمچند یہودی افراد کے پاس سے گزرے جنہوں نے یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا ہوا تھا۔تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسا روزہ ہے؟(کس وجہ سے رکھتے ہو)انہوں نے جواب دیا:یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ اور بنی اسرائیل کو سمندر میں غرق ہونے سے بچایا تھا اور اس میں فرعون کو غرق فرمادیا تھا۔یہ وہ دن بھی ہے جس میں (حضرت نوح کی)کشتی جودی نامی پہاڑی پرٹھہرگئی تھی ۔پس حضرت موسیٰاور حضرت نوح نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے اس دن میں روزہ رکھا۔نبی کریم نے (یہ سن کر)ارشاد فرمایا:میں (نبی ہونے کی حیثیت سے)موسیٰ پر زیادہ حق رکھتا ہوں اور اس دن میں روزہ رکھنے کا بھی۔اس وجہ سے آپ نے اپنے صحابہ کرام کو اس دن روزہ رکھنےکا حکم صادر فرمایا۔

اس روایت کو حافظ ابن ِ حجر عسقلانی نے بھی اپنی شرح بخاری میں ذکر کر کے اس حوالہ سے سوال و جواب بھی کیے ہیں اور تشريحی انداز سے کلا م بھی کیاہے۔ 30 مذکورہ بالا روایت واضح کرتی ہے کہ یومِ عاشورہ کاروزہ ایک خوشی والے واقعہ کی یاد دہانی اور شکرانہ کے طور پر رکھا جاتا تھا اور نبی کریم نے بھی اس کو شکرانہ کے طور پر رکھا اور صحابہ کرام کوبھی اس کا حکم صادر فرمایا۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آپ کو یہود ونصارٰی کی مخالفت مرغوب ومحبوب تھی اسی وجہ سےعاشورہ کے روزہ رکھنے کا حکم صادر فرمانے کے بعد صحابہ کرام نے آپ سےعرض کیا کہ اس دن کا روزہ یہود ونصارٰی بھی رکھتے ہیں تو اس سے ان کی موافقت ہورہی ہے، اس کے جواب میں آپ نے یوں ارشاد فرمایا:

  عبد اللّٰه بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول اللّٰه إنه يوم تعظمه اليھود والنصارى فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: فإذا كان العام المقبل إن شاء اللّٰه صمنا اليوم التاسع قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.31
  حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:جب نبی کریم نے دس محرم الحرام کے دن کا روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم بھی صادر فرمایا تو صحابہ کرام نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول بات یہ ہے کہ اس دن کی تعظیم (روزہ رکھ کر) یہود و نصارٰ ی بھی کرتے ہیں(جس سے ان کی اور ہماری موافقت پیدا ہوتی ہے)تو آپ نے ارشاد فرمایا:آئندہ سال جب محرم آئےگا تو ان شاء اللہ ہم نویں کا بھی روزہ رکھیں گے۔ابن عباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال کا محرم نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ کا وصالِ مبارک ہوگیا۔

مذکورہ بالا روایت سے واضح ہوتا ہے کہ بنی اِسرائیل اپنی قومی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے خوشی کے واقعہ کی یاد روزہ رکھ کر مناتے تھے اور نبی نے بھی خوشی کے ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے روزہ رکھا اور مخالفت ِ یہود و نصاریٰ بھی فرمائی۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ نبی نے یہود و نصاریٰ کی موافقت کے خوف سے اس عمل کو ترک نہیں کیا بلکہ اس میں مزید اضافہ فرما کر مخالفت کرنے کا عزم ظاہر فرمایا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر کسی عمل میں کسی غیر کی موافقت بظاہر ہو بھی رہی ہو تو اس عمل کو مکمل تر ک کرنے کے بجائے اس میں مزید کچھ ایسا اضافہ کر دیا جائے جس سے عمل پر دوام بھی حاصل ہو جائے اور غیر کی مخالفت بھی ہوجائے ۔اسی طرح سرور و خوشی کےکئی واقعات احادیث میں موجود ہیں لیکن اس مقام پر مذکورہ واقعہ پراکتفاء کر کے اس بات کو سمجھانا مقصود ہے کہ خوشی کے واقعات کا تذکرہ کرکے نعمت ِباری تعالیٰ پر شکر اور خوشی کرنا رسول اکرم کی سنت مبارکہ ہے۔

مقامِ حجر اور نبی اکرمﷺکا طرزِ عمل

رسول اکرم خوشی کے واقعات کا تذکرہ کر کے اس پر شکر ِخداوندی ادا فرماتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اندوہناک واقعات کا تذکرہ فرماکر خود بھی اور اپنے صحابۂ کرام کو بھی خشیتِ اِلہٰیّہ سےڈراتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی معصیت سے اجتناب کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔چنانچہ روایات میں مذکور ہے کہ سن نو( 9 )ہجری میں تبوک کے سفر کے دوران مسلمانوں نے قومِ ثمود کے دو کنوؤں کے نزدیک پڑاؤ کیا تو حضور نبی اکرم نے اُس مقام کے بارے میں صحابہ کرام سے فرمایا کہ اِس جگہ سیّدنا صالح کی قوم نے اونٹنی کو ہلاک کر دیا تھا اور نتیجتاً عذابِ الہٰی کا شکار ہو گئے تھے۔ آپ نے صحابہ کرام کو صرف ایک کنویں سے اپنی ضروریات کے لیے پانی حاصل کرنے کا حکم دیا اور دوسرے کنوئیں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔

آپ نے جس کنویں سے پانی لینے کا حکم دیا اس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور ایک پورا دن اس اونٹنی کے لیے خاص تھا مگر قومِ ثمود کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس ایک دن میں صرف اونٹنی ہی پانی پئے۔ لہٰذا انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ واقعہ رُونما ہوئے صدیاں بیت چکی تھیں اور وہاں حضرت صالح تھے نہ اُن کی اونٹنی، صدہا سال گزر جانے کے بعد اس کنویں کے پانی میں بھی خاصا تغیر آچکا ہوگا لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کنویں کو اتنی اہمیت دی۔ سبب صرف یہ تھا کہ اس کنویں کوحضرت صالح کی اونٹنی سے نسبت تھی جو برکت کا باعث تھی۔ آپ نے صحابہ کرام کو اس برکت سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ جبکہ قومِ ثمود کے زیر اِستعمال رہنے والے دوسرے کنویں کا پانی استعمال کرنے سے صحابہ کرام کو روک دیا کیوں کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح کی اونٹنی کو آپ کی طرف سے وعیدِ عذاب سنائے جانے کے باوجود ہلاک کر دیا تھا۔ اِس قبیح عمل پر اللہ تعالیٰ نے اس نافرمان قوم پر عذاب نازل کیا اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔ اسی نسبت کے پیش نظر حضور نبی اکرم نے اُس کنویں کا پانی استعمال کرنے سے منع فرما دیا۔ آپ کے اس حکم سے پہلے بعض صحابہ اس کنویں کے پانی کو اِستعمال کر چکے تھے، لیکن آپ نے منع فرمایا تو عرض کرنے لگے : ہم تو آپ کے منع کرنے سے پہلے ہی اس کا پانی استعمال میں لا چکے ہیں، ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی کہ یہ کنواں عذاب میں مبتلا ہونے والی قوم کا تھا۔ اس پر رسول اکرم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے برتنوں میں ذخیرہ شدہ پانی ضائع کر دیں اور اگر اس پانی سے کھانا وغیرہ پکایا ہے تو اسے بھی ضائع کر دیں اور اپنے برتن اُس کنویں کے پانی سے بھر لیں جو حضرت صالح کی اونٹنی کی وجہ سے باعثِ برکت ہے اور اُسی پانی سے اپنا کھانا وغیرہ بنائیں۔ذیل میں اِس پورے واقعہ کو احادیثِ مبارکہ کے الفاظ کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں :

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لما نزل الحجر فى غزوة تبوك، أمرھم أن لا يشربوا من بئرھا، ولا قيستقوا منھا، فقالوا: قد عجنا منھا واستقينا، فأمرھم أن يطرحوا ذلك العجين، ويھريقوا ذلك الماء.32
  رسول اکرم جب غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران مقامِ حجر میں اُترے تو آپ نے صحابہ کرام کو اس کے کنویں کا پانی پینے اور مشکوں میں بھرنے سے منع فرما دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ہم نے تو (آپکے حکم فرمانے سے پہلے ہی) اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور برتن بھی بھر لیے ہیں۔ پس آپ نے انہیں وہ آٹا پھینکنے اور پانی بہا دینے کا حکم فرمایا۔

اس روایت کو قرطبی، 33 بغوی،34 ابن حزم35 اور عسقلانی نے بھی روایت کیا ہے۔36 اس روایت سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم نے ان صحابۂ کرام کو جنہوں نے اپنے برتنوں ،مشکیزوں اور کھانوں میں حجر کے کنویں کا پانی بھرا اور استعمال کرلیا تھا انہیں اس کھانے اور پانی کو بہادینے کا حکم فرماکر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عذابِ ِخداوندی سے ہر دم اور ہر آن ڈرتے رہنا چاہیے اور عذاب الہٰی کی جگہوں کی اشیاء کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ سفر کے دوران پانی جو ضروری و اہم چیز ہے اس کو حاصل کرنا بھی لازمی وضروری تھاتو آپ نے وہیں موجود اس کنویں کے پانی سے نفع اٹھانے کا حکم فرمایا جس سے حضرت صالح کی اونٹنی ایک دن اکیلی پانی پیا کرتی تھی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ لوگ حضور نبی اکرم کے ساتھ قومِ ثمود کی سرزمین حجر پر آئے تو انہوں نے اس کے کنویں سے پانی بھر لیا اور آٹا گوندھ لیا تو روایت میں منقول ہے:

  فأمرھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن يھريقوا ما استقوا من بئرھا، وأن يعلفوا الإبل العجين، وأمرھم أن يستقوا من البئر التى كانت تردھا الناقة.37
  پس رسول اکرم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس پانی کو پھینک دیں جو انہوں نے اس کنوئیں سے بھرا ہے، اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو ڈال دیں۔نیز انہیں حکم دیا کہ وہ اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کریں جس سے (اللہ کے نبی صالح کی) اونٹنی پیتی تھی۔

اس روايت كو ابن حبان 38 اور بيہقی نے بھی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ 39 اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی روایت میں اسی حوالہ سے مزید تفصیل منقول ہے ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کے سال مسلمانوں کا قافلہ مقامِ حجر پر قومِ ثمود کے گھروں کے پاس رُکا تو انہوں نے قومِ ثمود کے مشارِب سے پانی بھر لیا، آٹا گوندھ لیا اور گوشت سے بھری ہانڈیاں آگ پر چڑھا دیں تو:

  فأمرھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فأھراقوا القدور، وعلفوا العجين الإبل، ثم ارتحل بھم حتى نزل بھم على البئر التي كانت تشرب منھا الناقة، ونھاھم أن يدخلوا على القوم الذين عذبوا، قال: إنى أخشى أن يصيبكم مثل ما أصابھم، فلا تدخلوا عليھم.40
  (جب رسول اکرم کو علم ہوا) تو آپ نے انہیں (پھینک دینے کا) حکم دے دیا، تو انہوں نے ہانڈیاں انڈیل دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیا، پھر آپ انہیں لے کر اس کنویں پر تشریف لائے جہاں (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی اور آپ نے انہیں عذاب زدہ قوم کے مقام پر جانے سے روکا۔ فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاؤ جس میں وہ ہوئے تھے۔ پس تم ان (عذاب والی جگہوں) میں داخل نہ ہوا کرو۔

اس روایت کو ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔41اس روایت میں قابل غور بات یہ ہے کہ جس پانی سے روکا جا رہا تھا اس میں ازروئے دین کوئی قباحت و حرمت نہیں تھی بلکہ اس کا پینا اور استعمال کرنا جائز و حلال تھالیکن چونکہ اس پانی کا ایک تعلق ایسی قو م کے ساتھ ہوگیا تھا کہ جس پر معصیت ِ الہٰی کی وجہ سے عذاب نازل ہوچکا تھا اسی وجہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے رسول مکرم نے اپنے صحابۂ کرام کو با وجود پیاسا اور مسافر ہونے کے مذکورہ پانی کے استعمال سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ جب آپ کو علم ہوا کہ آپکے منع کرنے سے پہلے ہی چند صحابۂ کرام نے اس پانی کو استعمال کرنے کےلیے ذخیرہ کرلیا ہےاور اس سے آٹا بھی گوند لیاگیا ہے تو آپ نے ان صحابۂ کرام کو اس پانی اور اس سے گوندھے گئے آٹے اور تیار کیے جانے والے سالن کو بھی انڈیلنے کا حکم ارشاد فرمادیا ۔البتہ اس کے برعکس رسول اکرم نے جس کنویں سے پانی استعمال کرنے کی اجازت عطا فرمائی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دوسرے کنویں کی نسبت حضرت صالح کی معجزاتی اونٹنی سے تھی لہٰذا اس بنا پر رسول مکرم نے اس کی برکت سے فیض یاب ہونے کی ہدایت جاری فرمائی۔

ما قبل مذکور واقعاتِ قرآنی و احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں سرور و غم کے واقعات کا تذکرہ کرنا اور ان کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری کرنا نہ صرف مشروع بلکہ سنت اِلہٰیّہ اور سنت رسول ہے ۔جب گزرے زمانہ کے واقعات کے تذکرہ کا یہ عالم ہے تو زندگی میں جو واقعۂ سرور و غم رونما ہوجائے تو اس کی کیفیت کو طاری کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے اور خصوصاً واقعۂ سرور کہ اس سے انسانی طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس دن اسلام کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت کی تکمیل ہوئی اس دن کو حضرت عمر بطور عید جانتے تھے۔

حضرتِ عمر کا یومِ تکمیلِ دین کو بطورِ عید جاننا

چنانچہ مروی ہے کہ صحابی رسول حضرت کعب الاحبار جو اہل ِکتاب کے بڑے عالم تھے وہ ایک دفعہ حضرتِ عمر فاروق سے کہنےلگے کہ میں ایسی قوم کوجانتا ہوں کہ اگر قرآن کی ایک آیت ان میں نازل ہوتی تو وہ اس دن کو بطورِ عید مناتے۔ چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  عن كعب الأحباررضي الله عنه قال: قلت لعمر بن الخطاب: إنى لأعرف قوما لو نزلت عليھم ھذه الآية لنظروا إلى يوم نزلت فيه اتخذوه عيدافقال عمر: أى آية؟ فقال: اليوم أكملت لكم دينكم إلى آخر الآية فقال عمر: إنى لأعرف فى أى يوم أنزلت: اليوم أكملت لكم دينكم يوم جمعةيوم عرفة وھما لنا عيدا.42
  حضرت کعب الاحبار سے مروی ہے کہ بلا شبہ میں ایک ایسی قوم کو جانتا ہوں کہ اگر ان پر یہ آیت نازل ہوتی تو وہ ضروراس دن کو دیکھتے جس دن یہ نازل ہوئی ہے اور اس دن کو عید مناتے۔حضرت عمر نے دریافت فرمایاکونسی آیت؟تو حضرت کعب الاحبار نے کہا :"الیوم اکملت لکم دینکم"43 یہ آیت۔حضرت عمر نے فرمایا :میں یقیناً جانتا ہوں کہ"الیوم اکملت لکم دینکم"یہ آیت کب نازل ہوئی ہے۔یہ آیت جمعہ کے دن یومِ عرَفہ میں نازل ہوئی ہے اور یہ دونوں ہی ہمارے لیے عید ہیں۔ 44

اسی طرح کی ایک اور روایت منقول ہے جسے صاحبِ ترمذی نے نقل کیا ہےکہ :

  عن عماران ابن عباس رضي الله عنهما قرأاَلْيَوْمَ أَكمَلْتُ لَكمْ دِينَكمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكمُ الْإِسْلَامَ دِينًافقال یھودى: لو نزلت ھذہ الآیت علینا لاتخذنا یومھا عیدافقال ابن عباس رضي الله عنهما فانھا نزلت فى یوم عیدین اثنین یوم عید ویوم جمعة.45
  حضرت عمار سے مروی ہےکہ حضرت ابنِ عباس نےاَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًاکی تلاوت فرمائی ۔تو یہودی نے کہا :اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی توہم اس دن کو ضرور بضرور عید مناتے۔تو حضرت ابنِ عباس نے فرمایا:یہ آیت اس دن نازل ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔ایک عید الاضحٰی کا دن اور دوسرا جمعہ کادن۔

مذکورہ بالا دونوں روایا ت کو ابن جریر 46اور ابن ِکثیردونوں حضرات نے بھی نقل کیا ہے۔ 47 بہر حال اﷲ ربّ العزت کی طرف سے حضور نبی اکرم کے ذریعہ صحابہ کرام کو دین کی تکمیل کا مژدہ ملنے والے دن کو بہ طور عید منانے کے خیال کا حضرت کعب الاحبار کی طرف سے اِظہار اور حضرت عمر فاروق و ابن عباس کی تائید و توثیق اِس اَمر کی دلیل ہے کہ ہماری قومی و ملی زندگی میں ایسے واقعات، جن کے اَثرات کا دائرہ قومی زندگی پر محیط ہو ان کی یاد ایک مستقل یادگار یعنی عید کے طور پر منانا نہ صرف قرآن و سنت کی رُوح سے متصادِم نہیں بلکہ مستحسن اور قومی و ملّی ضرورت ہے۔48

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعات زندگانی سے انسان پر فطری و طبعی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسلام نے بھی اس پر کوئی پابندی عائد نہیں فرمائی بلکہ ان واقعات کا تذکرہ بطور نصیحت اور ترغیب وترہیب کے فرمایا ہے تو بالخصوص واقعۂ میلاد النبی جوتمام تر نعمتوں کا منبع ہے اس کا تذکرہ اور اپنی زندگی میں اس کی وجہ سے خوشی کااظہار کرنا کیوں کر غیر شرعی ہوسکتا ہے بلکہ لامحالہ یہ فطری و طبعی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب ہی کا ذریعہ ہے۔

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ واقعات زندگانی سے انسان پر فطری و طبعی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسلام نے بھی اس پر کوئی پابندی عائد نہیں فرمائی بلکہ ان واقعات کا تذکرہ بطور نصیحت اور ترغیب وترہیب کے فرمایا ہے تو بالخصوص واقعۂ میلاد النبی جوتمام تر نعمتوں کا منبع ہے اس کا تذکرہ اور اپنی زندگی میں اس کی وجہ سے خوشی کااظہار کرنا کیوں کر غیر شرعی ہوسکتا ہے بلکہ لامحالہ یہ فطری و طبعی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب ہی کا ذریعہ ہے۔

میلاد النبیﷺسرور کا سببِ اعظم

مسلمانوں کے لیے واقعاتِ سرور میں سے میلاد النبی کا واقعہ خوشی کا سببِ اعظم ہے۔ میلاد النبی کے جلسہ و محافل میں بھی آپ کی دنیا میں تشریف آوری،دورانِ ولادت اور قبل وبعد کے واقعات کا ذکر کرنا بھی اسی سرور کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے اوران محافل ومجالسِ میلاد النبی سے امتِ مسلمہ اپنے ایمان کی تازگی اور دلی فرحت وسکون کا سامان کرتی ہے۔یہ محافل ومجالس منعقد کرنا یقینی طور سے مستحسن امر ہے جس کی اصل قرآن مجید میں بھی مذکور ہے۔

حضور نبی اکرم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور رحمتِ عالم کی اِس جہانِ فانی میں تشریف آوری ہوئی، اظہار فرحت و خوشی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن نہیں ہو سکتا اوریہ انسان کا خاصہ ہے کہ وہ غم و خوشی کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے۔ غم و خوشی، خوف و سکون اور امید و ناامیدی زندگی کے وہ پہلو ہیں جو انسان کے تصور و تخیل میں جاگزیں ہو کر اس کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان کیفیات سے سرشار ہونے کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ کیفیت کا ظہور نسبت و تعلق سےہوتا ہے۔ حضرت یعقوب بیٹے کی جدائی کے غم میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہ نبی غم کی کیفیت میں ڈوبے رہتے،جب حضرت یوسف نے مصر سےاپنی قمیص آپ کی خدمت میں بھجوائی تو اسے آنکھوں پر لگانے سے حضرت یعقوب کی بینائی لوٹ آئی اور غم خوشی میں بدل گیایعنی پہلے صبر طاری تھا اب شکر طاری ہوگیا۔49یہ سارا کمال نسبت کا تھا،ہماری زندگی کے کئی واقعات ایسے ہیں جن کا محور یہی نسبت ہے۔ ہمارے گھروں میں کون کون سی اَشیاء برسوں سے چلتی آرہی ہیں، ہم انہیں بہ حفاظت رکھتے ہیں اور اپنے والدین یا بزرگوں اور اَقرباء کی نشانیاں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔ ان کے لمس سے وجود میں کیفیت کا ایک باغ کھل اٹھتا ہے۔50

مذکورہ بنیادی مقدمات کی تقدیم کے بعد اصل موضوع یعنی میلاد النبی کی شرعی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں:

میلاد النبی ﷺکی شرعی حیثیت

میلاد النبی حرام و ممنوع نہیں ہے تاہم بعض علماء اسلام نے اس کو بربنائے احتیاط بدعتِ حسنہ شمار کیا ہے۔ اس کی وجہ اصلِ میلاد کا قرون اولی میں ثبوت نہ ہونا نہیں ہے بلکہ مروّجہ طرز پر میلاد منانے کا ثبوت نہ ہونا ہے۔ چونکہ قرونِ اولی میں یہ مروّجہ طرزموجود نہیں تھا اسی وجہ سے اس کوعلماء نے بدعت کہا۔بہر کیف اس حکم سے بھی یہی با ت معلوم ہوتی ہے کہ یہ علماء مولود النبی کو حرام و ممنوع نہیں سمجھتے بلکہ اس کو اچھے کاموں میں ہی شمار کرتے ہیں۔ فی زمانہ میلادالنبی جس طرح مروّج ہے و ہ بھی یقینی طور سے جائز و مستحسن ہے اور باعث خیر و برکت بھی ہے۔ علمائے کرام، محدثین و فقہاء عظام کے اقوال و تحریرات سےاس کا جواز و استحسان ثابت ہوتا ہے ۔اصولی طور پر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ابتداءً احکام شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔پہلی وہ قسم ہے کہ جن کے اوقات، صورت اورقدرمعین ہے اور ان کو سر انجام دینے کے لیے احادیث مبارک میں مکمل تفاصیل بھی موجود ہیں مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، ان کے لیے ضروری ہے کہ شریعت نے جس وقت اور جس طرح سے ان کو ادا کرنے کاحکم دیاہے اِن کواسی طرح ادا کیاجائے۔ان میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہےجیسے کہ نماز کے لیے مقدارمعین ہے کہ دو رکعت سے کم ادا نہ کی جائے، ہر رکعت میں ایک قیام، ایک رکوع، دو سجدے ہوں، پہلے قیام ہو، پھر رکوع ہو، اس کے بعد سجدے ہوں اور پھر ہر دو رکعت کے بعد قعدہ ہواسی طرح باقی ارکان نماز ادا کیے جائیں۔ احکام ِ شرعیہ کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن کا حکم مطلق ہےاور جن کے لیے نہ وقت مقرر ہے اور نہ ہی کوئی خاص شکل و صورت، جیسے تلاوت، ذکرِ الہٰی و ذکررسول اور اسی طرح نبی اکرم پر درود شریف پڑھنا۔ان احکامِ شرعیہ کا حکم یہ ہے کہ کرنے والا ان کو جس وقت اور جب چاہے کسی بھی صورت میں ادا کرسکتا ہے جس کے لیے کوئی خاص مقدار و اشیاء متعین نہیں ہیں۔

پہلی اقسام کے احکام کو شرعی اصطلاح میں مؤقت اور دوسری اقسام کے احکام کو غیر مؤقت کہاجاتا ہے۔غیر مؤقت احکام کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی فر د کو ادا کرے گا تو گویامامور بہ کوہی ادا کرے گا مثلاًکوئی شخص ہر روز بعد نمازِ فجر قبلہ رو ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اب اگر چہ کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں کہیں نہیں ہے کہ بعد از نمازِ فجر تلاوت قرآن لازمی کرو لیکن اس کے باوجود اس شخص کا مذکورہ وقت میں تلاوت کرنا عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ موجب ِثواب او رباعثِ برکت بھی ہے۔ کیونکہ تلاوت کا حکم مطلق یعنی غیر مؤقت ہے کہ جس وقت بھی تلاوت کریں گے وہ جائز ومستحسن ہی شمار ہوگی الا یہ کہ کوئی مانع شرعی موجو دہو۔رسول اکرم کا میلاد بھی اسی دوسری قسم میں داخل ہے۔لہٰذا آپ کی ولادتِ مبارکہ کی خوشی میں ذکرِ میلاد مصطفیٰ کا انعقاد کرنا مستحب ہے اوریہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی مستحب کام کے لیے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص کا پایا جانا ضروری نہیں ہوتا۔البتہ مستحب کام کے لیے قرآن مجید کا سرسری حکم اور اشارہ بھی کافی ہوتا ہے یا ایسی حدیث شریف جس کی سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو وہ کافی ہوتی ہے۔نہ صرف اتنا بلکہ اس سے بڑھ کر اگر قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہ مل رہا ہو تو بھی اس کے لیے محض علماء اسلام کا اس کو اچھا سمجھنا ہی کافی ہوتا ہے۔کیونکہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:

  ماراه المؤمنون حسنا فھوعند اللّٰه حسن.51
  جس کام کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہی ہوتا ہے۔

بہت سے علماء نے اس حدیث مبارکہ کو حضرت سیّدنا عبد اللہ بن مسعود تک موقوف لکھا ہے۔بہر حال کچھ بھی ہو مجتہدین نے اس سے استحباب اخذ فرمایا ہے۔ محفل ِذکرِ میلاد شریف کے لیے قرآن کریم کی قطعی الدلالت آیت یا تصریح اور عبارت کا مطالبہ کرنے کی صورت میں یہ امر پیشِ نظر رہنا نہایت ضروری ہے کہ دلیل ہمیشہ دعویٰ کے مطابق طلب کی جاتی ہے۔اب مذکورہ دعویٰ کے مطابق قرآن و سنت اور علمائےامت کے اقوال و تعامل سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں ۔

میلاد النبیﷺکے استحباب پر قرآنی دلائل

رسول اکرم کی ولادت کی خوشی میں ذکر میلاد النبی خواہ کسی بھی جائز طریقہ سے ہو وہ مستحسن و مستحب کام ہے۔اس حوالہ سے پہلے قرآنی دلائل ذکر کیے جائیں گے جن سے یہ واضح ہوجائےگا کہ نبی اکرم کی ولادت کی خوشی میں ذکرِ میلادِ مصطفیٰ کرنا اور اس پر جائز طریقہ سے خوشی کا اظہار کرنا باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔چنانچہ باری تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

  قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْا ھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ58 52
  فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

اس آیت مبارک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فضل اور رحمت پر خوشی کے اظہار کا حکم دیا ہے اور اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ نبی اکرم کی ولادت ہمارے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل ِ عمیم و عظیم ہے نیز رسول اکرم کو تو خالقِ کائنات نے رحمۃ للعالمین کے مقام پر سرفراز فرمایا ہے 53تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح و عیاں ہوگئی کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فضل ِ باری تعالیٰ اور رحمت باری تعالیٰ پر خوشی کے اظہار کا حکم فرمایا ہے تو اس حکم کا ادنی تقاضہ یہ ہے کہ رسول اکرم جو فضلِ خداوندی ہونے کے ساتھ ساتھ رحمۃ للعالمین بھی ہیں آپ کی ولادت کی خوشی کا اظہار کرنا اطاعتِ امرِ الہٰی ہے اور اس امر کا کم از کم درجہ اباحت و استحباب ہے۔

رسول اکرمﷺفضل و رحمت الہٰی ہیں

رسول اکرم مخلوقات کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل ہیں اس بارے میں قرآن مجید میں کئی آیات مبارکہ دلالت کرتی ہیں۔مذكوره بالا آيت مبارکہ کی روشنی میں صاحب درّ منثور نے بحوالہ خطیب و ابن عساکر حضرت ابن عباس سے روایت نقل فرمائی ہے کہ فضل سے رسول اکرم کی ذات مراد ہے54 اور رسول اکرم کو رحمۃ للعالمین کامنصبِ جلیل و رفیع تو خود خالقِ کائنات نے عطا فرمایا ہے55 لہٰذا واضح ہوا کہ رسول اکرم کی ولادت و بعثت پر خوشی کا اظہار مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی وجہ سے امر الہٰی کی اطاعت و اتباع میں داخل ہے اور مستحسن ومستحب ہے۔

ایک اشکا ل اور اس کا جواب

یہاں پرآیت مذکورہ کے حوالہ سے ایک اشکا ل ذہن میں آنا بدیہی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر فرح کو نا پسند فرمایا ہے۔ جیساکہ سورۃ القصص میں ہے56 اس کے علاوہ ایک مقام پر اس بارے میں یوں ارشاد فرمایا:

  مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَة فِى الْاَرْضِ وَلَا فِى اَنْفُسِكمْ اِلَّا فِى كتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھا ۭ اِنَّ ذٰلِك عَلَى اللّٰه يَسِيْرٌ22لِّكيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰیكمْ ۭ وَاللّٰه لَا يُحِبُّ كلَّ مُخْتَالٍ فَخُـــوْرِۨ2357
  کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری زندگیوں میں مگر وہ ایک کتاب میں (یعنی لوحِ محفوظ میں جو اللہ کے علمِ قدیم کا مرتبہ ہے) اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں (موجود) ہوتی ہے، بیشک یہ (علمِ محیط و کامل) اللہ پر بہت ہی آسان ہے تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ انسان کو جس قسم کی بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ لوح محفوظ میں منجانب اللہ درج ہے تاکہ جو چیزیں تلف ہوجائیں ان پر نہ غم کیا جائے اور جو چیزیں ملیں ان پرنہ ہی خوشی کی جائے ۔اب اشکال یہ ہے کہ ماقبل مذکورہ آیت مبارکہ میں خوشی سے منع کیا گیا ہے اور"فلیفرحوا"والی آیت مبارکہ میں خوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دونوں میں بظاہر تعارض و تناقض ہے۔اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہ اشکال بظاہر نظر آتا ہے لیکن در حقیقت جہاں خوشی منع ہے اس سے مراد اتنی خوشی ہے کہ وہ غرور و تکبر میں بدل جائے اور "فلیفرحوا"والی آیت مبارکہ اس سے متعارض نہیں ہے۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

  ولم یرخص فى الفرح الافى قوله فبذلك فلیفر حوا، ويومئذ يفرح المؤمنون.58
  یعنی اللہ تعالیٰ نےفَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا اورويومئذ يفرح المؤمنون کےعلاوہ کہیں بھی فرحت (یعنی خوشی کے اظہار) کی اجازت نہیں دی۔

امام راغب کے مذکورہ بالا نقطہ کے تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہےکہ جس نعمت پر خوشی کے اظہار کا حکم دیاجا رہا ہے وہ کوئی انتہائی خاص بلکہ اخصّ الخوّاص نعمت ہے اور وہ بلا شبہ کائنات کی عظیم ترین ذات مقدس کی ولادت اور ان کی بعثت ہے۔اس بات کی دلیل کہ آپ کی ولادت وبعثت ہی عظیم ترین نعمت اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا سب سے بڑھ کر فضل ہےوہ آیت مبارکہ ہے جس میں آپ کی ولادت و بعثت پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے احسان جتلایا ہے۔جیساکہ ارشاد ِ باری تبارک وتعالیٰ ہے:

  لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِه وَيُزَكيْھمْ وَيُعَلِّمُھمُ الْكتٰبَ وَالْحِكمَة ۰ۚوَاِنْ كانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِى ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ16459
  بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول () بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

یہ آیت اور اس کا سیاق واضح بتارہا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت و بعثت ایسی عظیم ترین نعمت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر مؤمنین کو متنبہ کرتےہوئے احسان جتلایا ہے تو لا محالہ اس نعمتِ عظمیٰ پر خوشی کا اظہار مستحسن و مستحب امر ہے۔

رسول اکرمﷺکا میلاد شکر باری ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ نے نعمتوں کے مل جانے کے بعد ان پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشادِ باری تبارک وتعالیٰ ہے:

  وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكمْ لَىِٕنْ شَكرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكمْ وَلَىِٕنْ كفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِى لَشَدِيْدٌ760
  اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔

مندرجہ بالا آیت طیبہ میں اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہےکہ نعمتِ اِلہٰیّہ پر شکر ادا کرنے سے نعمت میں زیادتی ہوتی ہےاور کفرانِ نعمت سے عذاب الہٰی کی وعید سنائی گئی ہےکیونکہ انعامات کے حصول پر شکر ادا کرنا نعمت کے نہ صرف باقی رہنے میں معین و مفید ہے بلکہ اس میں اضافے کا سببِ اعظم ہےجبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطاکیے گئے انعامات و اکرامات کی ناشکری کرنا عذابِ الہٰی کا حقدار بننے کے مترادف ہے۔اب اس طرف بھی توجہ فرمائیں کہ نبی اکرم نہ صرف نعمت ہیں بلک وجہ تخلیقِ کائنات61 اور اولاً تجلی الہٰی سے پیدا ہونے 62کی وجہ سے تمام نعمتوں کی اصل بھی ہیں۔جیساکہ امام احمد رضا خان قادری تحریر فرماتے ہیں کہ تمام نعمتیں، تمام کمالات، تمام فضائل متفرع ہیں وجود پر اور تمام عالم کا وجود متفرع ہے حضور کے وجود پر تو سب پر حضور ہی کے طفیل رحمت ہوئی۔63اسی طرح "فلیفرحوا" والی آیت میں موجود لفظ فضل اور رحمت کا مصداق بیان کرتے ہوئے آپ کے تمام نعمتوں کی اصل ہونے کے حوالہ سےبیان کرتے ہوئے مولانا اشرف علی تھانوی تحریر فرماتے ہیں کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور کی ولادت وبعثت ہے،اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ دنیوی ہوں یادینی جس میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہیں۔اس لیے کہ حضور اکرم کا وجود تمام نعمتوں کی اصل ہےتمام رحمتوں اور فضیلتوں کامادہ ہے ،اس تناظر میں یہ تفسیر اجمع التفاسیر ہوجائے گی۔ 64 جب رسول اکرم تمام تر نعمتوں کی اصل ہیں تو آپ کے امتی ہونے کی حیثیت سے آپ کی ولادت و بعثت پر خوشی کا اظہار کرنا بھی گویا تمام نعمتوں کی اصل مل جانے پراللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر اداکرنا ہے کہ اس خالق کائنات نے سیّد الانبیاء کو مبعوث فرماکر امت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم پر عظیم احسان فرمایا ہے اور اس احسان عظیم پر شکر ادا کرتےہوئے ملت اسلامیہ میلاد النبی پر خوشی کااظہار کرتی ہے جو کہ بلا شبہ مستحسن و مستحب امر ہے۔

استحباب میلاد النبیﷺپر احادیثی دلائل

اب چنداحادیث ایسی ذکر کی جارہی ہیں جن سے واضح ہوجائے گا کہ نبی اکرم کی میلاد کی خوشی کا اظہار کرنا شرعی طور پر پسندیدہ ہے اور اس میں امتِ مسلمہ کے خیر القرون کے افراد بھی شریک تھے65اگرچہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ہیئت تبدیل ہوگئی ہے لیکن اصلِ میلاد النبی رسول اکرم 66اور آپ کے صحابہ کرام کے دورِ مبارک سے ثابت ہے۔ 67 اس کی تفصیل یہ ہےکہ رسول اکرم کا معمول تھا کہ آپ ہر پیر کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور جب صحابی نے اس بارےمیں دریافت کرتےہوئےاس کا سبب پوچھا جیساکہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے:

  سئل عن صوم يوم الاثنين؟ قال: ذاك يوم ولدت فیه.68
  رسول کریم سے پیر کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس میں مجھے پیدا کیا گیا ہے۔

اب اس حدیث مبارکہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ نبی اکرم نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ اور سبب اپنی ولادت کریمہ کو بیان فرمایا ہے اور روزہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت و شکرانہ کے لیے ہی رکھا جاتا ہے لہٰذا اس حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوا کہ نبی اکرم کے پیر کے دن اپنی ولادت کے بسبب روزہ رکھنا میلاد النبی کی خوشی کے اظہار کرنے کی اصل ہے اور رسول اکرم کا یہ مذکورہ عمل اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ رسو ل اکرم کی ولادت کی خوشی کرنا مستحسن و مستحب ہے۔

شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی نے حافظ ابن رجب کے حوالہ سے اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے ر سول اکرم کی ولادت کو عظیم ترین نعمت قرار دیا ہےاور اس پر اظہارِ فرحت کو مستحسن کہا ہےچنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:

  وفى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لماسئل عن صیام یوم الاثنین ذلك یوم ولدت فیه وأنزلت على فیه النبوة69 اشارة الى استحباب صیام الأیام التى تجدد فیھا نعم اللّٰه تعالى على عباده فان أعظم نعم اللّٰه على ھذه الأمة اظھار محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لھم وبعثته وارساله الیھم كما قال تعالى: لقد من اللّٰه على المؤمنین اذ بعث فیھم رسولًا من أنفسھم.70 فان النعمة على الأمة بارساله صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم من النعمة علیھم بایجاد السماء والأرض والشمس والقمر والریاح واللیل والنھار وانزال المطر واخراج النبات وغیر ذلك فان ھذه النعم كلھا قد عمت خلقاً من بنی آدم كفروا باللّٰه وبرسله وبلقائه فبدلوا نعمة اللّٰه كفراً وأما النعمة بارسال محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فان بھا تمت مصالح الدنیا والآخرة وكمل بسببھا دین اللّٰه الذى رضیه لعباده وكان قبوله سبب سعادتھم فى دنیاھم وآخرتھم فصیام یوم تجددت فیه النعم من اللّٰه على عباده حسن جیل وھو من باب مقابلة النعم فى أوقات تجددھا بالشكر ونظیر ھذا صیام یوم عاشوراء، حیث نجى اللّٰه فیه نوحاً من الغرق ونجى فیه موسى وقومه من فرعون وجنوده وأغرقھم فى الیم فصامه نوح وموسی علیھم السلام شكراً فمامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم متابعة لأنبیاء اللّٰه وقال للیھود نحن أحق بموسى منكم وصامه وأمر بصیامه.71
  حضور ہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے جب اس کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ان ایام کو جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خاص نعمت سے نوازا ہو روزہ رکھنا مستحب ہے بلاشبہ اس امت کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت آپ کی ذات ہے۔ حضور اکرم کی بعثت اور اس امت مرحومہ میں آپ کو نبی بناکر مبعوث کرنا بلاشبہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہیں میں سے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس امت مرحومہ میں حضور کو مبعوث کرنے کی نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے۔ یہ نعمتیں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں۔ ان میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسل کا انکار کیا اللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن بعثت محمدی وہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا اور آخرت کی مصلحتیں مکمل ہوگئیں۔ اسی کی وجہ سے اللہ کا وہ دین بھی مکمل ہوا جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے منتخب فرمایا: اس کی قبولیت ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔ اس دن ، جس دن بندوں پر اللہ تعالیٰ عظیم احسان فرمائے، روزہ رکھنا اچھا عمل ہے گویا کہ یہ اچھا عمل اس دن ہونے والی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔عاشورہ کے دن کا روزہ بھی اسی وجہ سے رکھا جاتا ہے۔ اس دن حضرت نوح کو غرق ہونے سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون کو سمندر میں ہلاک کیا گیا، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح نے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور آپ نے انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا اور آپنے یہودیوں سے فرمایا ہم تم سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم اس دن روزہ رکھیں جب حضرت موسیٰ نے روزہ رکھا تھا۔ حضور اکرم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 72

اس قول کو آپ نے جواہر البحار73 میں بھی نقل فرمایا ہے۔اس بارے میں تو یقینی طور شک وشبہ نہیں ہے کہ اس امت مرحومہ پر عظیم ترین نعمت اِلہٰیّہ آپ کی بعثت ہے اور یہ نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے کیونکہ یہ نعمتیں تو تمام نوع انسانی کے لیے ہیں جن میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسلکا انکار کیا اوراللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن ولادت رسول اکرم وہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا میں تو کافر فائدہ اٹھا رہے ہیں74 لیکن آخرت میں صرف مؤمنین ہی بہرہ مند ہوں گے تو لامحالہ اس عظیم ذات کی ولادت کی خوشی کرنا بالخصوص مومنین کے لیے مستحسن و مستحب ٹھہرا۔

اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ میلاد النبی نام ہے آپ کی ولادت کے تذکرہ کرنے کا جیساکہ ائمہ اسلام نے اس کی نشاندہی فرمائی ہے کہ محفل میلاد در اصل لوگوں کا اکٹھے ہونا، بسہولت تلاوت قرآن کرنا اور ان احادیث کا بیان کرنا اور سننا ہے جو آپ کی ابتدائی حیاتِ طیّبہ کے بارے میں اور آپ کی ولادت کے موقع پر پیش آنےوالے واقعات کے حوالہ سے منقول ہیں۔75 اب اگر سیرت طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو جابجا یہ واضح نظرآئے گا کہ رسول اکرم نے اپنی ولادت باسعادت کاتذکرہ کئی مقامات پر مختلف انداز سے فرمایا ہے۔چنانچہ جب نبی کریمسے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں تو جواب میں آپ نے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی اس دعا کا ذکر فرمایا جو انہوں نے کعبۃ اللہ تعمیر مکمل کرلینے کے بعد فرمائی تھی اورجس کوقرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی ذکر فرمایا ہے۔ 76 اس کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح ابن مریم عیسی کی اس بشارت کا بھی ذکر فرمایا جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے 77 اور خاص طور پررسول اکرمنے اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ آمنہ کے اس خواب کا بھی ذکر فرمایا جس میں انہیں شام کے محلات چمکتے نظر آئے تھے۔چنانچہ حدیث مبارکہ میں اس سوال کے جواب میں آپ کا یہ جواب منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

  انى عند اللّٰه مكتوب بخاتم النبيين، وان آدم لمنجدل فى طينته وساخبركم باول ذلك: دعوة ابى ابراھيم وبشارة عيسى ورؤيا امى التى رات حين وضعتنى انه خرج منھا نور اضاءت لھا منه قصور الشام.78
  بلا شبہ مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت خاتم النبیین لکھا گیا تھا جس وقت حضرت آدم مٹی میں گوند ے ہوئے تھےاور عنقریب میں تمہیں اس معاملہ کی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم کی دعا ،حضرت عیسی کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کاوہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا کہ ان کے بطن ِ مبارک سے ایسا ایک نور نکلا جس سے ملک ِشام کے محلات جگمگا اٹھے۔

اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کو اپنی ولادت کا تذکرہ مرغوب تھا اور اسی وجہ سے آپ نے سوال کے جواب میں صرف اپنی ابتدائی تخلیقی معاملہ کو بیان کرنے پر اکتفاء نہ فرمایا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنی ولادت با سعادت کا وہ اصل وقت بھی ذکر فرمایا جب آپ اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدہ آمنہ کے بطن مبارک سےاس دنیا میں تشریف لا رہے تھے نیز اس نور کا بھی ذکر فرمادیا جو آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش کے وقت دیکھا تھا۔

اسی طرح کی ایک اور حدیث مبارکہ میں منقول ہے کہ آپ نے اپنی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئےارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےحضرت اِبراہیم کی اَولاد میں سےحضرت اِسماعیل کو منتخب فرمایا پھرحضرت اسماعیل کی اَولاد میں سے بنوکنانہ قبیلہ کا انتخاب فرمایا پھر ان میں سے شاخ ِقریش کو ممتاز فرمایا اور پھر قریش میں سے بنو ہاشم کے معزز خاندان کو مشرف فرمایا اور پھرخاندانِ بنو ہاشم میں سے مجھے( سیّدنا محمد رسول اللہ )کو منتخب فرمایا۔ 79

مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ خود حضورِ اکرم نے اپنی ولادت ِباسعادت کے احوال مختلف مواقع اورمختلف مقامات پر مختلف انداز سے کئی بار ذکر فرمائے ہیں جس سے اس بات کی نشاندہی بدرجہءِ اتم ہوگئی کہ رسول اکرم اپنے تذکرہ ولادت سے خوش ہوا کرتے تھے اور جلیل القدر صحابہ کرام آپ کی خوشی کی خاطر آپ کے ولادت کا تذکرہ کرتے اور سنتے تھے۔

ایک اور حدیث مبارکہ جس سے میلاد النبی کے مستحسن ومستحب ہونے کا معلوم ہوتا ہےوہ رسول اکرم کے مدینہ منورہ آنے کے بعد عاشورہ کاروزہ رکھنا اور اپنے صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دینا ہے اور اس حدیث کو ہی ابن حجر عسقلانی نے میلاد النبی کی اصل قرار دیا ہے جیساکہ بقول شیخ نبہانی ان سے پہلےابن رجب نے پیر کے دن روزہ رکھنے کو اصل ِمیلاد قرار دیا ہے۔80چنانچہ اس حوالہ سے علامہ محمد بن یوسف صالحی شامیتحریر فرماتے ہیں:

  قال: وقد ظھر لى تخريجھا على أصل ثابت وھو ما ثبت فى الصحيحين من أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليھود يصومون يوم عاشوراءفسألھم فقالوا: ھو يوم أغرق اللّٰه فيه فرعون ونجى موسى فنحن نصومه شكرا للّٰه تعالى فقال صلى اللّٰه عليه وسلم: أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْھمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ 81 فيستفاد منه فعل الشكر للّٰه علة ما من به فى يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة ويعاد ذلك فى نظير ذلك اليوم من كل سنة والشكر للّٰه يحصل بأنواع العبادة كالسجود والصيام والصدقة والتلاوةوأى نعمة أعظم من النعمة ببروزھذا النبى نبى الرحمة فى ذلك اليوم؟ وعلى ھذا فينبغى أن يتحرى اليوم بعينه حتى يطابق قصة موسى فى يوم عاشوراءومن لم يلاحظ ذلك لا يبالى بعمل المولد فى أى يوم من الشھر، بل توسع قوم فنقلوه إلى يوم من السنة وفيه ما فيه فھذا ما يتعلق بأصل عمله وأما ما يعمل فيه فينبغى أن يقتصر فيه على ما يفھم الشكر للّٰه تعالى من نحو ما تقدم ذكره من التلاوة والإطعام والصدقة وإنشاد شىء من المدائح النبوية والزھدية المحركة للقلوب إلى فعل الخير والعمل للآخرة وأما ما يتبع ذلك من السماع واللھو وغير ذلك فينبغى أن يقال: ما كان من ذلك مباحا بحيث يقتضى السرور بذلك اليوم لا بأس بإلحاقه به وما كان حراما أو مكروھا فيمنع وكذا ما كان خلاف الأولى.82
  امام(ابن حجر) فرماتے ہیں میں نے اس کا استخراج صحیحین میں مذکور ایک اصل سے ثابت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ نے اس کی بابت دریافت فرمایا تو یہودیوں نے کہا کہ اسی دن فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوا تھا اور حضرت موسیٰ نےاس کے ظلم سے نجات پائی تھی، اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر روزے رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معین دن میں نعمت کے حصول یا مصیبت سے چھٹکارا پانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جانا چاہیے اور سال میں اس دن کے مثل ونظیر کی جب آمد ہو شکرکا اعادہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر عبادت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے یعنی نماز، روزہ، صدقہ اور تلاوت وغیرہ سے۔ نبی مکرم رحمت عالم کی اس دن میں ولادت سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟ لہٰذا مناسب اور بہتر یہ ہے کہ حضور نبی کریم کی پیدائش کے دن ہی میلاد منایا جائے تاکہ یوم عاشورہ میں حضرت موسیٰ کے قصّہ سےمطابقت رہے، اور اگر اس واقعہ سے قطع نظر کرتے ہوئے اس ماہ میں کسی دن بھی میلاد منعقد کرلیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں، بلکہ کچھ لوگوں نے اس میں توسیع کرتے ہوئے صراحت کی کہ سال میں کسی دن بھی میلاد کرسکتے ہیں، لیکن اس میں یوم عاشورہ سے مطابقت نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا کلام صرف انعقاد میلاد سےمتعلق تھا۔ رہا سوال کہ اس میں کیا کرنا چاہیے تو مناسب یہی ہے کہ یہ ایسے افعال اور کاموں تک ہی محدود رہے جن سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا سمجھائے۔ جیسے: تلاوت کرنا، کھانا کھلانا، صدقہ کرنا اور سرکار دوعالم کی شان میں نعتیں پڑھنا اور ایسے قصائد پڑھنا جن سے دل دنیا سے دور ہو ،اچھے کاموں اور آخرت کے لیے اعمال کرنےکی طرف متوجہ ہوجائے۔رہا سماع یا لھو ولعب یا اس کے علاوہ افعال تو مناسب بات یہی ہے کہ جو ان افعال میں سے مباح ہو اور وہ تفریح جو اس خوشی کے موقع کے مناسب ہو تو اس کو اس مولود کے ساتھ ملانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ کام جو حرام یا مکروہ ہو تواس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح خلافِ اولی افعال کا حکم ہے۔83

اس بات کو شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی نے بھی ذکر کیا ہے۔84 عاشورہ کے دن کا روزہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس دن حضرت نوح کو غرق ہونے سے نجات ملی اور اسی دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم نے فرعون سے نجات پائی ۔حضرت موسیٰ اور حضرت نوح نے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور رسول اکرم نے بھی ان انبیاء کرام کی نجات کی خوشی اور اس کے شکرانہ میں اس دن روزہ رکھا ۔مذکورہ باتیں اسی بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ نعمت اِلہٰیّہ پر خوشی کا اظہار اور شکریہ ادا کرنا سنت انبیاء کرام ہے لہٰذارسول اکرم جیسی عظیم ترین نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا مستحسن و مستحب ہی ہے۔

ما قبل میں تمام روایات ایسی تھیں جن میں بنفس نفیس نبی اکرم نے اپنی ولادت کا تذکرہ فرمایا اوراپنی ولادت کی خوشی کے اظہار میں روزہ رکھا تھا۔اب چند احادیث ایسی ذکر کی جارہی ہیں جن میں رسول اکرم کےتربیت یافتہ صحابۂ کرام نے آپ کی ولادت مبارکہ کاوقتاً فوقتاً مختلف انداز سے ذکر فرما یا ہے۔چنانچہ ایک حدیث مبارکہ میں اس حوالہ سے منقول ہے:

  إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خرج على حلقة من أصحابه، فقال: ما أجلسكم؟ قالوا: جلسنا نذكر اللّٰه عز وجل ونحمده على ما ھدانا للإسلام، ومن علينا بك، قال: آللّٰه ما أجلسكم إلا ذالك؟ قالوا: واللّٰه ما أجلسنا إلا ذالك، قال: أما إنى لم أستحلفكم تصمة لكم، ولكنه أتانى جبريل عليه السلام فأخبرنى، أن اللّٰه عز وجل يباھى بكم الملائكة.85
  ایک دن رسول خدا ایک حلقۂ صحابہ میں تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا کہ تم لوگ کیسے بیٹھے ہوئے ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ ہم اللہ تعالیٰ کویاد کرتے اور اس کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ جواس نے اسلام کی طرف ہدایت دی اور آپ کی بعثت کے ذریعہ ہم پر احسان فرمایا ۔تب آپ نے فرمایا: قسم خدا کی کیا تم محض اسی لیے بیٹھے ہو؟صحابہ کرام نے عرض کیا: قسم اللہ تعالیٰ کی ہم اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے تم کو قسم اس لیےنہیں دی کہ مجھے تم پر جھوٹ کا گمان تھا بلکہ میرے پاس ابھی جبریل آئے تھے اور یہ خبر لائے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان تم پر فخر فرماتاہے۔

اس حدیث مبارکہ سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اسلام جیسی عظیم ترین نعمت کے ملنے کا تذکرہ کر رہے تھے وہاں یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ صحابۂ کرام نبی اکرم کی ولادت کے باعث تمام امت پر ہونے والے احسان الہٰی کا بھی تذکرہ کررہے تھے اورمیلاد النبی کی مجالس و محافل میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی اسی اعلی و ارفع نعمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے لہٰذا اس سے واضح ہوا کہ میلاد النبی پر خوشی کااظہار کرنا اور اس کا تذکرہ کرنا مستحسن و مستحب ہے۔

مذکورہ بالا مثال صحابۂ کرام کی اجتماعی صورت میں مجلس منعقد کرکےنثرًا تذکرۂ میلاد النبی کی تھی لیکن چند ایسی روایات بھی منقول ہے کہ جن میں یہ واضح ہوتا ہے کہ بعض صحابۂ کرام اشعار کی صورت میں بھی آپ کی آمد کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت حسان بن ثابت نے بھی بارگاہ رسالت مآب میں اپنی محبت کا اظہار جس انداز سے کیا ہے اس میں بھی آقا کریم کی ولادتِ باسعادت اور آپ کے حسن وجمال کا ذکراشعار کی صورت میں کیا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:

  و احسن  منک  لم ترقطّ  عینی        اجمل    منک    لم تلد      النساء
خلقت   مبرأ   من   كل   عیب        و كانك  قد  خلقت  كما تشاء .86

  آپ جیسا خوبصورت میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ جیسا با جمال کسی عورت کے ہاں پیدا نہیں ہوا۔آپ ہر قسم کے عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔گویا کہ آپ اپنی منشاء کے مطابق ہی پیدا کیے گئے ہیں۔

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے بھی آپ کی بارگاہ عالیہ میں ان الفاظ میں محبت کا اظہار فرمایا:

  روحى  الفداء  لمن  اخلاقه  شھدت        بأنه    خیر   مولود    من    البشر
عمت   فضائله    كل   العباد    كم        عم  البریة  ضوء  الشمس  و القمر
لو  لم   یکن   فیه    اٰیات    مبینه        كانت  بدیھته  تکفى  عن  الخبر.87

  میری روح ا س ہستی پر فداء ہے جس کے اخلاق اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ بنی نوع انسانی میں سب سے افضل ہیں۔ان کے فضائل وکمالات کا چشمہ اور فیض تمام بندوں کو بلا امتیاز اسی طرح سیراب کررہا ہے جس طرح آفتاب وماہتاب کی ضیاء باریاں بلا تخصیص کائنات کے لیے عام ہیں۔ اگر آپ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرنے والی واضح نشانیاں نہ بھی ہوتیں تو خود ان کی ذات ان کے پیغام کی صداقت کے لیے کافی تھی۔

اسی طرح حضرت عباس جب غزوۂ تبوک سے واپس مدینۃ المنورۃ تشریف لائے اور رسول اللہ کی جناب میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول میں آپ کی خدمت میں مدحت سرائی کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے انہیں اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :کرو اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کو ہر خلل سے محفوظ رکھے۔ 88

تو حضرت عباس نے اپنا ایک قصیدہ جو بعض مطالب ِمولود النبی پر مشتمل ہے اسے مجمع صحابہ کرام میں پڑھا ۔امام طبرانی نے بھی اس قصیدہ کو نقل کیا ہے۔89جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

  من  قبلھا  طبت  فی   الظلال   و  فی        مستودع   حیث   یخصف   الورق
ثم      ھبطت      البلاد     لا     بشر        انت   و   لا   مضغة   و   لا   علق
بل    نطفة    تركب    السفین   وقد         الجم     نسرا    و      اهله    الغرق
تنقل     من      صالب     الى    رحم         اذا      مضى      عالم      بداطبق
و     انت     لما     ولدت    اشرقت         الارض  و ضاء ت  بنورک   الافق
فنحن    فى     ذالک    الضیاء    وفى         النور  و سبل  الرشاد  تخترق.90

  اس (دار فانی )سے پہلے آپ سایہ کناں مقامات اور اس جگہ رہے جہاں پتے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے(یعنی جنت میں)۔پھر آپ شہروں میں جلوہ گر ہوئے اس وقت آپ نہ بشر(متجسم شکل)تھے،نہ لوتھڑااور نہ ہی جماہوا خون۔ بلکہ نطفہ تھےجو کشتی پر سوار ہوئے،جس نے نسر (بُت)کا منہ بندکردیا اور اس کے پجاری غرق ہوگئے۔وہ نورایک پشت سے دوسری رحم میں منتقل ہوتا رہا،جب ایک عالم گزرجاتا تو دوسرا گروہ(اس نور کو لیے)ظاہر ہوتا۔جب آ پ کی ولادت ہوئی تو زمین چمک اٹھی اورآپ کے نور سے آفاق جگمگا اٹھے۔ہم اسی اجالے اور روشنی میں ہیں،ہدایت کے راستوں کو طے کر رہے ہیں۔ 91

مذکورہ بالا اشعار میں نبی مکرم کے محترم چچاحضرت عباس نے انتہائی منفرد انداز سے جماعتِ صحابۂ کرام میں رسول اللہ کی موجودگی میں آپ کی اجازت سے آپ کی ولادت باسعادت کو انتہائی عظیم و رفیع اور پاکیزہ و شفاف طریقہ سے بیان فرمایا ہے میلاد النبی میں بھی اسی طرح سرور ِدوعالم کی ولادت مقدسہ کا تذکرہ کیا جاتا ہےجس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ میلاد النبی کا تذکرہ کرنا اور سننا سنت رسول اکرم اور طرز صحابہ ہےلہٰذا میلاد النبی پر خوشی کا اظہار کرنا اور ا س کا تذکرہ کرنا مستحسن ومستحب ہے۔

میلاد النبیﷺکے استحباب پر علمائےاسلام کی آراء

رسول اکرم کی ولادت کی خوشی میں اظہارِ سرور اور مجالس ومحافل کا انعقاد بلاشبہ باعث اجر اور مستحسن عمل ہے اور متقدّمین علمائے اسلام کی رائے میں یہ عمل محمود و مبروک ہے۔ ذیل میں اس حوالہ سے چند علمائے اسلام کی رائے درج کی جارہی ہیں جن سے اس بات کی وضاحت ہوجائے گی۔چنانچہ علی بن ابراہیم حلبی، شارح مسلم امام نووی کے شیخ "امام ابو شامہ" کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں:

  ومن احسن ما ابتدع فى زماننا ما یفعل كل عام فى الیوم الموافق لیوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من الصدقات والمعروف واظھار الزینة والسرور فان ذلك مع مافیه من الاحسان للفقراء مشعر بمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمه فى قلب فاعل ذلك وشكر اللّٰه تعالى على مامن به من ایجاد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الذى ارسله رحمة للعالمین صلى اللّٰه عليه وسلم.92
  ہمارے زمانے میں ہر سال حضور اکرم کی ولادت با سعادت کے دن جو صدقات، اظہار زینت اور خوشی کی جاتی ہے یہ بدعت حسنہ کے زمرے میں شامل ہے(جو کہ مستحبات میں ہی داخل ہے)۔ کیونکہ اس کے ذریعے فقراء کی خدمت کے علاوہ حضور کی محبت اور اس کے کرنے والے کے دل میں آپکی تعظیم وتوقیر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بصورت رحمۃ اللعالمین جو عظیم نعمت عطا فرمائی اس پر شکر کابھی اظہارہوتا ہے۔

اسی طرح اما م یوسف بن صالحی شامی نے حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے رسول مکرم کےمیلاد کی خوشی کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا: میلاد دراصل ایسی بدعت ہے جو قرون ثلاثہ کے مشائخ سے منقول نہیں، اس کے باوجود اس میں کچھ اچھائیاں ہیں اور کچھ برائیاں ہیں لہٰذا اگر کوئی برائیوں سے بچ کر میلاد پاک منائے تو یہ بدعت حسنہ ہے ورنہ بدعت سیئہ۔93اس قول کو امام جلال الدین سیوطی نے الحاوی للفتاوی میں نقل کیا ہے۔94 امام جلال الدین سیوطی نے میلاد النبی کو بدعت حسنۃ مستحبۃ میں شمار کیا ہے95جبکہ آپ نے اپنے ایک فتوی میں میلاد النبی کی اصل کو باقاعدہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت کیاہے جس میں منقول ہے کہ نبی اکرم نے اعلان نبوت کے بعد دوبارہ اپنا عقیقہ فرمایا96حالانکہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ کی پیدائش کے ساتویں دن آپ کا عقیقہ فرمایا تھا اور عقیقہ دوبارہ نہیں ہوتا۔اس مقام پر جلال الدین سیوطی نے رسول اکرم کے دوبارہ عقیقہ کیا جانے کے عمل کو اسی پر محمول کیا ہےکہ آپ نے اپنے رحمۃ للعالمین ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے دوبار ہ عقیقہ فرمایا اور اس لیے بھی تاکہ امت کے لیے ولادتِ پاک پر شکرِ خداوندی بجا لانا جائز ومشروع ہوجائے ۔97 غور طلب بات یہ ہے کہ ایک فتوی میں جلال الدین سیوطی نے جس عمل کی اصل کو حدیث رسول سے ثابت کیا ہے اس ہی عمل کو ایک جگہ بدعت حسنہ شما رکرہے ہیں تو در اصل دونوں اقوال میں امام سیوطی نے اشارہ اس بات کی طرف کیا ہے کہ اصلِ میلاد کا ثبوت تو قرون اولی میں ہے لیکن مروجہ طرز چونکہ نئی ہے لہٰذا یہ بدعت حسنۃ مستحبہ ہے۔

  قال السخاوى ان عمل المولد حدث بعد القرون الثلاثة ثم لا زال أهل الاسلام من سائر الأقطار والمدن الكبار یعملون المولد ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھرعلیھم من بركاته كل فضل عمیم.98
  حضرت علامہ سخاوی فرماتے ہیں :میلاد النبی کا مروجہ عمل قرون ثلاثہ کے بعدوجودپذیر ہوا۔پھر دنیا کے کونے کونے اور مختلف ممالک میں بسنے والے تمام اہل اسلام ہمیشہ سے ربیع الاوّل کے مہینے میں میلاد کی یاد مناتے ہیں اس موقع پر وہ تمام نیک کام کرتے ہیں جو نیکی، خوشی اور محبت کا مظہر ہوتے ہیں وہ صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں میلاد کے چرچے کرتے ہیں جن کی برکات بہرحال ان پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔99

علامہ سخاوی کامذکورہ بالا قول صاحب روح البیان نے بھی نقل کیا ہے100 اور اسی بات کو مواہب اللدنیہ میں شیخ احمد بن محمد قسطلانی نے بھی تحریر فرمایا ہے101 جس کی شرح میں علامہ زرقانی مالکی تحریر فرماتے ہیں:

  والحاصل: ان عمله بدعة لكنه اشتمل على محاسن وضدھافمن تحرى المحاسن واجتنب ضدھا كانت بدعة حسنة ومن لا فلا.102
  خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ یہ عمل مولد شریف بدعت ہے لیکن یہ خوبیوں اور خامیوں دونوں پر ہی مشتمل ہے۔پس جو شخص خوبیوں کو سوچتا اور ان کو سر انجام دیتا ہے اور خامیوں سے اپنا دامن بچا لیتا ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور جو ایسا نہیں کرتا تو یہ بدعت حسنہ نہیں (بلکہ بدعت)ہے۔

مذکور بالا تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہوا کہ نبی اکرم کی ولادت پر خوشی کا اظہا ر کرنا اور آپ کی ولادت کا تذکرہ بصورتِ اجتماعی و انفرادی وہ نہ صرف جائز ومشروع ہے بلکہ شرعی حیثیت میں مستحسن ومستحب بھی ہے اور رہی ان اقوالِ ائمہ سلف کی بات کہ جنہوں نے میلاد النبی کے عمل کو بدعت میں شمار کیا ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ ان کے یہاں بدعت سے مرادبدعتِ حسنہ ہے جو کہ مستحبات میں داخل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے مرورِ زمانہ کے ساتھ متبدل ومتغیر اطوار و طریقوں کی بناپر عوام میں رائج میلاد النبی کے مختلف طریقوں کو بدعت حسنہ فرمایا ہے ورنہ باقاعدہ اصلِ میلاد تو خود رسو ل اکرم اور افضل ترین جماعت ِصحابہ سے ثابت ہے ۔

ایک اہم وضاحت

دنیا بھر کے مسلمان جہاں ربیع الاول شریف میں عید میلاد النبی کا جشن مناتے اور اپنے ہادی و آقا کے حضور نذرانۂِ عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں وہاں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو میلاد یا مولود شریف کی محافل وتقریبات کو اچھا نہیں سمجھتے اور اس نعمت عظمی پر خوشی کے اظہار کوخلافِ سنت یا بدعت وگمراہی قرار دیتے ہیں۔ ان کی طرف سے عموماً جشن عید میلاد النبی پر مندرجہ ذیل اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں:

  1. عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔
  2. میلاد النبی کا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔
  3. میلاد شریف منانابدعت ہے۔
  4. میلاد النبی منانا کرسمس منانے کے مشابہ ہے۔
  5. ابو لہب کے عذاب میں تخفیف خواب کا واقعہ ہے جو حجت نہیں بن سکتا۔
  6. تاریخ ولادت تاریخ وصال ایک ہی دن ہے تو خوشی کے بجائے سوگ منانا چاہیے۔
  7. محفلِ میلاد کا بانی ایک ظالم و فضول خرچ حکمران ہے۔
  8. محفلِ میلاد پر شاہ ِ اربل کو مواد مہیا کرنے والے دنیا پرست عالم تھے۔
  9. میلاد النبی کو عید قرار دینا جائز نہیں ہے۔
  10. مجلسِ میلاد النبی میں کھڑے ہو کر سلام پڑھنا شرک ہے۔
  11. یومِ میلاد النبی پرجلوس نکالنا حرام ہے۔
  12. یومِ میلاد النبی پر چراغاں کرنا ناجائز ہے۔
  13. میلاد النبی کے لیے دن کا تعیین ناجائز ہے۔
  14. میلاد النبی کے دن ایصالِ ثواب ناجائز ہے۔

ان کے علاوہ دیگر جتنے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں ان تمام کا ماحصل مذکورہ بالا اعتراض میں سے کسی ایک ہی کا بیان ہوتا ہے اور اس باب کی اگلی تمام فصول میں انہی اعتراضات کا علیحدہ علیحدہ بالتفصیل جواب دیا گیا اور اسی حوالہ سے متعلقہ چند دیگر چیزوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن سے میلاد النبی کی شرعی حیثیت واضح ہونے کے ساتھ ساتھ میلاد النبی کے استحباب واستحسان کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا اور یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میلاد النبی منانا اور ا س پر خوشی کا اظہار کرنا شرعی طور پرجائز ومستحسن ہے۔

 


  • 1 القرآن،سورۃ الجمعۃ 62: 2- 3
  • 2 القرآن،سورۃالاحزاب6:33
  • 3 القرآن،سورۃ النساء64:4
  • 4 القرآن،سورۃ آل عمران164:3
  • 5 قرآن مجیدمیں ایک اور جگہ احسان جتلانے کاذکر فرمایاگیا ہے،چنانچہ سورۃ الحجرٰت کے آخر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: يمنون عليك أن أسلموا قل لا تمنوا على إسلامكم بل الله يمن عليكم أن هداكم للإيمان إن كنتم صادقين(القرآن،سورۃ الحجرات17:49) ترجمہ: یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔ فرما دیجئے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اﷲ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے، بشرطیکہ تم (ایمان میں) سچے ہو۔یہ وہ دوسرا مقام ہے جہاں ان مسلمانوں پر جو اپنے ایمان لانے کو رسول اللہ[symbol, ur, 1
  • 6 القرآن،سور ۃ آل عمران103:3
  • 7 عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی، مدارک التنزیل و حقائق التأویل، مطبوعۃ:دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص:177
  • 8 ابوالفداء اسماعیل حقی بروسی، روح البیان فی تفسیر القرآن،ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:75
  • 9 ابو سعید عبد اللہ بن عمر الشیرازی البیضاوی، انوار التنزیل واسرار التأویل، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:194
  • 10 ابو عبد اللہ محمد بن احمد القرطبی، مختصر تفسیر القرطبی، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:377
  • 11 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الدر ّالمثور فی التفسیر المأثور،ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2010 م، ص:109
  • 12 ابو حنیفۃ نعمان بن ثابت، مسند الامام الاعظم، مطبوعۃ: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:93
  • 13 القرآن،سورۃ ابرھیم28:14
  • 14 حبر الامۃ عبد اللہ بن عباس ، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،( لیس التاریخ موجودًا)، ص:214
  • 15 القرآن،سورۃ الضحیٰ 93 : 11
  • 16 القرآن،سورۃ البقرۃ14:2
  • 17 القرآن،سور ۃ یوسف3:12
  • 18 القرآن،سور ۃ یوسف111:12
  • 19 القرآن،سورۃ البقرۃ49:2
  • 20 اس آیت کریمہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ انسانی نفسیا ت کے مطابق ایک دردناک واقعہ کی یاد دلانے سے پہلے اس دردناک واقعہ سے نجات کی یاددہانی کروائی جارہی ہے اور اس نجات دہندگی سے بات کی ابتداء کی جارہی ہےجو اپنے اندر غورو فکر کی کئی جہتیں لیے ہوئےہے۔لیکن سردست اس پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ عام کلام نہیں ہےبلکہ کلام باری تعالیٰ ہی ہےجو انسانیت کی مکمل فلاح کے لیے نازل کیا گیا ہے اورجس کے علاوہ کہیں سے بھی فلاح پانا ممکن نہیں ہے۔(ادارہ)
  • 21 القرآن، سورۃ الحجر51:15-56
  • 22 القرآن، سورۃ ھود71:11-73
  • 23 القرآن، سورۃ الحجر72:15-77
  • 24 ڈاکٹر محمد طاہر القادری،میلاد النبیﷺ،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2014ء،ص:121-122
  • 25 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:2004، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:321
  • 26 ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2656، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع،الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:462
  • 27 ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی،سننِ ابی داؤد،حدیث:2442، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع،الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 494-495
  • 28 ابو عبد اللہ محمد بن یزید الشھیر بابن ماجۃ،سنن ِابنِ ماجۃ، حدیث:1734، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص:308
  • 29 ابوعبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:8717، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م،ص:335
  • 30 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-4، مطبوعۃ:دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:247
  • 31 ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2666، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع،الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:463
  • 32 ابوعبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3378، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1999 م، ص:557
  • 33 ابو عبد اللہ محمد بن احمد القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج-10، مطبوعۃ: دار الکتب المصریۃ، القاھرۃ، مصر، 1964م، ص:46
  • 34 ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:212
  • 35 ابو محمد علی بن احمد ابن حزم الاندلسی، المحلی بالآثار، ج-1، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:209
  • 36 ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، تغلیق التعلیق علی صحیح البخاری، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:19
  • 37 ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2981،مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2000م، ص:1290
  • 38 ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد التمیمی، صحیح ابن حبان، حدیث:6202، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص:82
  • 39 ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی، السنن الکبرٰی، حدیث:1115، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص:358
  • 40 ابوعبد اللہ احمد بن محمدالشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:2984، ج-10، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م،ص:191
  • 41 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، تفسیر القرآن العظیم،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1491ھ، ص:394
  • 42 ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی،المعجم الاوسط ،حدیث:830،ج-1،مطبوعۃ:دار الحرمین،القاھرۃ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:253
  • 43 القرآن،سورۃالمائدۃ3:5
  • 44 مذکورہ بالا قول ِعمر و درج ذیل قول ِابن عباس میں دعوتِ نظر و فکر ہے ان لوگو ں کے لیے جو یہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی تو صرف دو عیدیں ہی ہیں ایسے افراد عیدِ اصطلاحی و عیدِ لغوی اور عُرف کے احکامات پر غور کریں۔ (ادارہ)
  • 45 ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، جامع الترمذی، حدیث:3043-3044، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، 2009م، ص: 898 -899
  • 46 ابو جعفرمحمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تأویل القرآن، حدیث:11098، ج-9، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2000م،ص:526
  • 47 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج-3، مطبوعۃ:دار طیبۃ للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 26 -27
  • 48 ڈاکٹر محمد طاہر القادری،میلاد النبیﷺ،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2014ء،ص:125
  • 49 القرآن،سورۃ یوسف93:12
  • 50 ڈاکٹر محمد طاہر القادری،میلاد النبیﷺ،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2014ء،ص:121-122
  • 51 ما لك بن انس بن مالك المدنی، موطاامام مالک براویۃ محمد بن الحسن الشیبانی، حدیث:241، مطبوعۃ: المکتبۃ العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:91
  • 52 القرآن،سورۃ یونس10: 58
  • 53 القرآن، سورۃ الانبیاء107:21
  • 54 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الدر المنثور، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 554
  • 55 القرآن، سورۃ الانبیاء107:21
  • 56 القرآن،سورۃ القصص76:28
  • 57 القرآن، سورۃالحدید57: 22- 23
  • 58 ابو القاسم الحسين بن محمد الاصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ:دار القلم، دمشق، السوریۃ، 1412ھ، ص:628
  • 59 القرآن، سورۃ آل عمران164:3
  • 60 القرآن،سورۃ ابراہیم 14: 7
  • 61 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواھر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010ء، ص:321
  • 62 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:214
  • 63 امام احمد رضا خان القادری،المیلاد النبویۃ فی الالفاظ الرضویۃ،مطبوعہ:قادری رضوی کتب خانہ،لاہور،پاکستان،2010ء،ص:28
  • 64 مولانا اشرف علی تھانوی، مواعظ میلاد النبیﷺ ، مطبوعہ:مکتبہ اشرفیہ، لاہور، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص:84
  • 65 ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:2533، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:1110
  • 66 ایضاً،حدیث:1162 ،ص:477
  • 67 ایضاً،حدیث:2701، ص:1174
  • 68 ایضاً،حدیث:1162، ص:477
  • 69 ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری،جامع صحیح مسلم، حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 70 القرآن ،سورۃآل عمران3: 164
  • 71 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 177 -178
  • 72 شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ (مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:384-385
  • 73 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص:394
  • 74 القرآن،سورۃ الانفال33:8
  • 75 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الحاوی للفتاوی، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 181 -182
  • 76 القرآن، سورۃ البقرۃ129:2
  • 77 القرآن، سورۃ الصفّ6:61
  • 78 ابو حاتم محمد بن حبان الدارمی، صحیح ابن حبان،حدیث:6404، ج-14، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:313
  • 79 ابو عبد اللہ احمد بن محمد شیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، ج-28، حدیث:16987، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م،ص:194
  • 80 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 177 -178
  • 81 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، حدیث:3397، مطبوعۃ:دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:569
  • 82 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:366
  • 83 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور، پاکستان،2012ء،ص:327-329
  • 84 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2010 م، ص:394
  • 85 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001م،ص:49
  • 86 الدکتور محمد سعید رمضان بوطی، مختارات من اجمل الشعر فی مدح الرسولﷺ، مطبوعۃ:دارالمعرفۃ، دمشق، السوریۃ، 1408ھ، ص:10
  • 87 محمد أحمد درنيقۃ، معجم اعلام شعراء المدح النبوىﷺ، مطبوعۃ: دار ومكتبۃ الهلال، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:277
  • 88 ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح زرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 2012م، ص:102
  • 89 ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 4167، ج-4، مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص:213
  • 90 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدٰی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:70
  • 91 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز،لاہور،پاکستان، 2012ء،ص:38-39
  • 92 ابو الفرج علی بن ابراہیم حلبی،انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:123
  • 93 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:366
  • 94 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الحاوی للفتاوی،ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:188
  • 95 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:367
  • 96 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی،السنن الکبری، حدیث: 19273، ج-9، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص:505
  • 97 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الحاوی للفتاوی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:188
  • 98 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:174
  • 99 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی) ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور، پاکستان،2013ء،ص:378
  • 100 ابوالفداء اسماعیل حقی بروسی، روح البیان فی تفسیر القرآن، ج-9، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:57
  • 101 شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:78
  • 102 ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2012 م، ص:263