Encyclopedia of Muhammad

اِسلام کا سیاسی نظام

حضور ﷺ کے اس عالمِ خاکی میں ظہورکے وقت دنیا میں کئی طرح کے سیاسی نظام اور طریقہ ہائے حکومت موجود تھے جن میں جمہوریت (Democracy)، چند سری حکومت (Oligarchy)، جابرانہ و استبدادی حکومت (Tyranny)، بادشاہت و ملوکیت(Monarchy) اور حکومت و اقتدارکے دیگر قبائلی سیاسی نظام شامل تھے۔ان نظاموں میں موجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ ان میں سیاسی قائدین کے انتخاب کے لیے شرط ذاتی صلاحیت، قابلیت اور اہلیت نہ تھی بلکہ خاندانی، حسبی و نسبی طور پر حاکم طبقہ اور اس کی اولاد حقِ حکمرانی اپنی ذات اور شاہی خاندان میں مرتکز سمجھتی تھی ۔ عہدِقدیم کی اکثر تہذیبوں میں کبھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ ایسی ریاست یا نظامِ حکومت قائم کیاجائے جہاں کسانوں اور نچلے طبقے کےعام شہریوں کو بھی حقِ حکمرانی و خوشحالی اور فارغ البالی نصیب ہو سکے۔درحقیقت یہ نظام ہائے حکومت و سیاست صرف ایک خاص طبقے کے کچھ خاص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے تشکیل د ئیے گئے تھے۔انسانیت کی یہ بھی ایک بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ تاریخ کے ہر عہد میں اُن "کچھ خاص لوگوں" میں شامل ہونے کےخاطرلالچ اور ہوس کے شکار انسانوں نے ہر قسم کے جائز و ناجائز حربے استعمال کیے ۔انہوں نے قتل و غارت گری اور ننگِ انسانیت حرکات سے بھی دریغ نہیں کیا۔ کچھ حکمرانوں نے تو بلا دلیل اپنی شہنشاہیت کو قائم کرنے کے لیے یہ اعلان تک کر ڈالا کہ وہ خدا اور دیوتاؤں سے ایک خاص الہامی و روحانی تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ باقی تمام زمینی مخلوقات سے ممتاز و افضل ہیں اسی لیے تمام انسانوں پر صرف انہیں ہی حکومت کرنے کا حق حاصل ہے بلکہ ان کے دنیا میں بھیجے جانے کامقصد ہی لوگوں پر حکومت کرنا ہے حالانکہ تاریخی حقائق اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سے تفویض کردہ حاکمیت کے دعویداروں کا قول، فعل، عمل کردار، اخلاق اور ذاتی سیرت ایک عام اچھے انسان کے برابر بھی نہ تھی چہ جائکہ ان کے اس دعوے کو قبول کرلیا جائے کہ انہیں دوسرے تمام لوگوں کے مقابلے میں شرف و فضل اور امتیاز و انفرادیت بالخصوص حق حکمرانی کے حوالہ سے حاصل ہے۔

اس کے علاوہ بھی کمزور، بے بس و لاچار محکوم انسانوں کا استحصال کرنے کےلیے دوسرے کئی طریقے اور ہتھکنڈے اپنائے گئے جن کی وجہ سے ان لوگوں کا باقی انسانوں پراقتدار قائم و دائم تھا۔کوئی عام انسان نہ تو ان کی مخالفت کرنے کی جرات کر سکتا تھااور نہ ہی ان کی مرضی کے خلاف جا سکتا تھا۔وہ جیسے چاہتے باقی ماندہ کمزور و ناتواں انسانوں پر حکومت کرتے اور انہیں ظلم و بربریت کا نشانہ بناتے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے یہ تمام سیاسی نظام اور طریقہ ہائے حکومت اور دھوکہ دہی ، فریب اور انسانیت کو جھانسہ دینے کے سوا اور کچھ نہیں تھے ۔ ان کا اصل مقصد صرف اور صرف یہ یقینی بنانا تھا کہ طبقہ اشرافیہ کے افراد اپنی قوموں اور قبائل پر باآسانی حکمرانی کرتے رہیں اور لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی قیمت پر سامان نشاط و طرب اور عیش و عشرت کے لوازمات کی بلا تعطل فراہمی جارہی رہے تاکہ بے لگام خواہشات کی نہ ختم ہونے والی آتش ہوس کو ٹھنڈا کیا جاسکے ۔ چاہے وہ قدیم مصر یا روم کی بادشاہت ہو یا یونان کی جمہوریت ، ان میں سے کوئی بھی نظام کسی بھی خطہ زمین میں ایسی مستحکم حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہا جو بغاوتوں ، ظلم و بربریت ، قتل و غارت گری ، دھوکہ دہی ، براور کشی یا ذاتی مفادات کے حصول کی سیاست سے پاک ہو۔ ان کی اخلاقی پستی کا اندازہ ا س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان بادشاہوں میں سے بعض نے حکومت و اقتدار اپنے خاندان میں برقرار رکھنے کے لئے محرمات سے بدکاری (incest) یعنی خونی رشتوں سے نکاح کے نام پر زناتک کا ارتکاب کرنے سے ذریغ نہیں کیا تھا۔

ان سلطنتوں اور ریاستوں میں عوام کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔یہاں تک کہ بعض اوقات شہریوں کو بادشاہوں اور حکمرانوں کی خدمت کے لیے غلام بنالیا جاتا تھا جبکہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات کی تکمیل اور خدمت گزاری کے لیے آزادعورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ بھی باندیوں اور لونڈیوں جیساسلوک کیا جاتا تھا۔صرف اسی پر بس نہیں تھا بلکہ عام عوام پر بھاری محصول عائد کیے جاتے تھے تاکہ اشرافیہ کے ذاتی شاہانہ منصوبوں کی تکمیل اور سامان ِ عیش و عشرت کی فراہمی کےلیے بجٹ کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ مزید برآں، اگر شاہی خاندان میں لڑائی شروع ہو جاتی تو یہ عام مقامی لوگ ہی سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے تھے۔اس دوران ان ہی کے وسائل ضائع ہوتےاور ان پر ہی ہر طرح کاظلم و ستم روا رکھاجاتا تھا۔

اسلام سے قبل عرب کا معاشرہ بھی اسی صورتحال سے دوچار تھا۔ جزیرۂ نما عرب کے سیاسی طور پر غیر متحد ہونے کا سبب دو طرح کا سیاسی نظام تھا۔ قبائل کا اپنا سیاسی نظام تھا جس کے تحت تمام اختیارات کا مالک قبیلےکاسردار ہوتا جنہیں وہ دیگر سرداروں کی مشاورت سے استعمال کرتا تھا۔ سردار کے انتقال کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا جانشین بنتا تھا۔ اس کے علاوہ باقی ماندہ عرب بھی انتشار کا شکار تھا۔ یہ لوگ اس وقت تک انتشار کا شکار رہے جب تک کہ رحمت ِ دو عالمﷺ نے ایک عالمگیر حکومت کی بنیاد رکھ کر اسلامی نظام حکومت کے تحت ان کو متحد نہیں کر دیا۔

اعلانِ نبوت کے بعد نبی آخرالزمان حضورﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کوشہرِ مکّہ کے بت پرستوں کی طرف سےسخت ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔1 اس صورتحال میں آپﷺ نےعرب کے وقتی سیاسی نظام میں ترمیم نہیں فرمائی بلکہ بوجہ حکمت حالات سازگار ہونے کا انتظار فرمایا۔ ہجرتِ مدینہ کےفوری بعدآپﷺنے ایک شہر ی ریاست کی بنیاد رکھ دی جس نے مختصر عرصے میں دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی اور خوشحال ریاست کی صورت اختیار کرلی۔ سب سے پہلے آپﷺنے ہی سربراہ ِ ریاست کی حیثیت سے منصبِ اقتدار سنبھالا۔ آپﷺ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت ابو عبیدہ ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور دیگر ممتاز صحابہ ِکرام کو اپنا سیاسی مشیر مقرر کرکے اہم انتظامی ذمہ داریاں سپرد کیں۔

تصورسیاست

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔2 اسلام مذہبی، معاشرتی، سماجی، اخلاقی، قانونی اور سیاسی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلامی سیاسی نظام بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کے مطابق ہے۔3 انسان میں فطرتاً غلطی اور سہو کا عنصر موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اسےصرف انسانی مرضی و منشاء پر منحصر نہیں رکھا گیا ہے۔4 ساتھ ہی یہ نظام کسی خاص خاندان، طبقے، نسل یا گروہ کو اپنی نسلی برتری کی وجہ سے حکمرانی کا اہل نہیں قرار دیتا بلکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ صرف وہی لوگ اقتدار کے منصب پر فائز ہوں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اللہ تعالی کی رضا و منشاء کے مطابق انسانی فلاحی ریاست قائم ہو۔ مزید براں اسلام اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ہر اہل فرد کو حکمران بننے کا حق حاصل ہےیہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام میں حکمرانی کا حق محض کسی خاص نسل ، طبقے یا کنبے تک محدود نہیں ہے۔

اسلامی سیاسی نظام میں ہر طرح کی خودمختاری، اقتدار اور طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہےجس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسان انفرادی یا اجتماعی دائرہ کار میں مکمل طور پر آزاد انہ قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتاہے بلکہ وہ ہر صورت میں قرآن اور سنت کے قوانین کا پابند ہے۔ یہاں تک کہ ان معاملات میں جہاں قرآن و سنت کے واضح احکامات نہیں مل پاتے وہاں بھی مقرر کردہ قوانین ِشریعت کے مطابق ہی قانون سازی کی جائے گی نیز قرآن و سنت کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی کسی بھی صورت میں نہیں کی جاسکتی۔5

اسلام کا تجویز کردہ سیاسی نظام، نظامِ خلافت کہلاتاہے۔ خلافت عربی زبان کا لفظ ہےجو انسان کی نیابت یا جانشینی (viceregency) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔6اسلامی نقطہ نظر کے مطابق علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت سے دین کو قائم کرنے، ارکانِ اسلام کو قائم کرنے، جہاد اور اس کے متعلق امور یعنی لشکروں کو ترتیب دینے، مجاہدین کے حصے مقرر کرنے اور مالِ غنیمت سے ان کو حصہ دینے، قاضیوں کے تقرر کرنے، ظالموں کو سزا دینے اور حدود قائم کرنے، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں نبئ اکرم ﷺکی نیابت سے روئے زمین کے تمام مسلمانوں کی امارتِ عامہ کو خلافت کہتے ہیں۔7

انسان (جو ہدایت یافتہ اور صحیح راستے پر ہیں) اس زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں8 جو زمین پر اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ وقائم کرنے کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔

ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں

دنیا میں جو بھی ریاست قائم ہوتی ہےوہ امن و دفاع ا ور ملکی مادی خوشحالی کے لیے ہی سعی و کوشش کرتی ہے لیکن جب اسلامی خلافت یا ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ ریاستِ اسلام اپنی حدود میں نفاذِ دین، دینی علوم کی ترویج و اشاعت، ارکان اسلام کا قیام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی سعی، کفار کے خلاف جہاد کا قیام اور قضاء و حدود کا نظام رائج کرے گی 9 نیز اس کے ساتھ ہی مادی خوشحالی پر بھی توجہ دے گی۔ کسی صورت میں بھی ان اہم امور سے غافل و بے پروا نہ ہوگی بلکہ اپنی قوتِ تامہ انہیں مقاصد کے حصول میں صرف کردے گی تاکہ اہل ایمان خود بھی اللہ کے دین پر قائم رہیں اور دیگر اقوام کو بھی دعوت دین اور حق کی شہادت 10کا فریضہ کماحقہ ادا کرنے کے اہل ہوجائیں۔

  1. اللہ کے دین یعنی اسلام کو قائم کرنا۔
  2. صرف اور صرف اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ کا قیام۔
  3. اسلامی ریاست میں اوراس کی حدود سے باہربھی اسلام کی تعلیمات کے بارے میں لوگوں کو آگاہی اور شعور فراہم کرنا
  4. غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے مسلم مبلغین اورمشنریوں کی تیاری ، تربیت اور تعیناتی کا ایک مناسب نظام قائم کرنا
  5. تمام شہریوں کو جدید اور عصری مضامین سمیت مختلف شعبوں میں تعلیم، فنی مہارت اور قابلیت کے حصول کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنا
  6. ایک ایسا ماحول فراہم کرنا جہاں تمام اسلامی ا عمال ، افعال اور طورطریقے بغیر کسی پابندی کے انجام دیے جائیں۔
  7. ایک ایسےصحتمند اور پرامن ماحول کی فراہمی جہاں ہر فرد اپنے آپ کو ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ و مامون محسوس کرے ۔
  8. زندگی کے ہر شعبے اور پہلو میں انصاف مہیا کرنا۔
  9. ایسا ماحول فراہم کرنا جہاں انسان ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہوں اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کے سامنے اپنا سر خم کریں ۔
  10. سود یا ربا سے پاک معاشی نظام مہیا کرنا۔
  11. ریاست کے تمام شہریوں کو مالیاتی اور معاشی ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا۔
  12. تمام غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور عدالتی، معاشی اور معاشرتی خودمختاری کی فراہمی اور انہیں تمام معاشرتی برائیوں سے تحفظ فراہم کرنا۔

اسلامی حکومت کےدنیا کے کسی خاص مقام یا خطے پر قائم ہونےسے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کے قوانین آفاقی ہیں اور ہر انسان کو اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی کےضامن ہیں۔ اسلام میں افرادِ ملت کے حقوق ، زندگی اور عزت و احترام کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے لہذا اسلامی ریاست میں اگرکوئی شخص بھوکا ہے تواسے کھانا مہیا کیا جاتا ہے ، لباس کی کمی کا شکار افراد کو کپڑے مہیا کیے جاتے ہیں اور بیماروں کو علاج معالجہ فراہم کیا جاتا ہے اورضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے۔دوسروں کی ضروریات سے فائدہ اٹھانے والے موقع پرستوں اور غریبوں اور کمزوروں کا استحصال کرنے والے طاقتور افراد ،اداروں اور سرمایا دارانہ عناصر کا قلع قمع کیا جاتا ہے اور انہیں ایک ضابطے کا پابند بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی نظریات ہیں جو اسلامی حکومت کی اساس اور بنیاد ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ایک خطے کا مسلمان دوسرے علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس صورت میں اسے دوسرے خطے کا شہری بھی سمجھا جاسکتا ہے تاہم جغرافیائی اختلافات کی وجہ سے اسلام تفریق پیدا نہیں کرتا ہے۔11

انتظامی طریقۂ کار

قبل از اسلام بدوی قبائل کا انتظامی طریقۂ کار، بنیادی طور پر منتخب سرداروں کی حکومت پر مشتمل تھا جو ترغیب و تحریک کی بدولت اور عوامی رائے کے زیرِاثر حکومت کرتے تھے۔ ذاتی وفاداری کے ذریعے اقتدار و اختیار تشکیل دیا جاتا تھا جس میں رشتہ داری اور برادری ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی تھی یوں مستقل مشاورتی عمل کے نتیجے میں ممتاز خاندانوں سے قائدین کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ اگرچہ قبائلی طریقۂ کار عموماً انتظامی نظام کے تحت نہیں آتے لیکن قبیلوں کے اندرونی نظام کو برقرار رکھنے اور بین القبائل تعلقات استوار رکھنے کے اصول اور طریقۂ کار قبل از اسلام زمانے میں نمایاں اور اہم تھے، جن میں سے بہت سے اصولوں اور طریقوں کو اسلام نےنہ صرف برقرار رکھا بلکہ تقویت بخشی کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں تھے۔اندرونی تنظیم سیاسی اقتدار اوراختیارات کے ساتھ نسبتاً مماثل تھی جو جمہوری مشاورتی عمل کے ذریعہ کام کرتی تھی۔اس قبائلی معاشرے میں قبیلوں کے پاس قانون کے ذریعہ اپنے معاملات کو منظم کرنے اور باضابطہ بنانے کے لیے بہترین طریقہ کار موجود تھے، جن میں ذاتی، خاندانی اور بین القبائلی تنازعات کو حل کرنے کےلیے، اجتماعی ذمہ داری کو برقرار رکھتے ہوئے اور معاوضے کے تسلیم شدہ میزان کے ساتھ، اجتماعی ثالثی کے ضابطے اور قوانین بھی موجود تھے ۔

نبئ اکرمﷺ کے عہدِمبارک میں اور اس کے بعد خلافت راشدہ کے عہدتاباں میں انتظامی ڈھانچے اور طریق کار وحئ الٰہی کی روشنی میں ضروریات کے مطابق مرتب ہوتے رہے اور ترقی پاتے گئے۔بالخصوص حضرت ابوبکر کے عہد میں نمایاں مالیاتی اور انتظامی ڈھانچے مرتب ہوئےاور اہلکار تعینات کیے گئے۔ اس کے بعدحضرت عمر کے ماتحت نئی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے بیوروکریسی میں تیزی سے توسیع کی گئی جس کےلیےمزید ترقی یافتہ انتظامی نظام کی ضرورت تھی۔یہ حضرت عمر ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلامی ریاست کی قانون سازی، منتظمہ اور انتظامی اختیارات کے نظاموں کو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ان سب کا ریکارڈ رکھنے کا نظام، محصول یاٹیکس کا انتظامی ڈھانچہ اور خزانے کا نظام، حکومتی اہلکاروں اور عاملین کا نظام، مردم شماری اور ذرائع اور وسائل کے تخمینے کا نظام، سکہ سازی کا نظام اور قانون کی تدوین و ترتیب کے نظام کو نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کے مطابق تشکیل دیا۔

اسلامی انتظامیہ ان معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی اقدار کے لیے بھی انتہائی نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے جنہیں منتظمین کو ہر صورت فروغ دینا چاہیے۔ اس اخلاقی نظام میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ کس طرح حسن ِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔اس میں طرز عمل، اعمال و افعال اور سوچ سے لیکر سب سے بڑی قدر احسان تک کو شامل کیا جاتا ہے۔12 اخلاص سبھی اعمال میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ استحصال 13اور رشوت ستانی 14کی ممانعت بھی شامل ہے۔ کچھ علماء ان اقدارمیں سے سات بنیادی اسلامی اقدار کی تخصیص کرتے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں ہر ایک کی سوچ و عمل پر حکمرانی کرتی ہیں جو اخلاقی احتساب اور قانون میں شامل ہیں اور جن کا مقصد معاشرتی نظم و ضبط اور توازن کو برقرار رکھنا ہے۔یہ سات بنیادی اسلامی اقدار درجِ ذیل ہیں:

  1. مساوات اور معاشرتی برابری ،
  2. انصاف ،
  3. مہربانی اور شفقت ،
  4. راستبازی اور حقیقی یقین ،
  5. خود پر قابو رکھنا اور خودکو نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھالنا ،
  6. نجی ملکیت کا احترام اور
  7. مستقل سیکھنے کےعمل کے ذریعے ذاتی اور معاشرتی ترقی۔

معاشرتی مساوات کے اصول کی ایک اہم خصوصیت اپنے اردگرد موجود معاشرے میں دوسروں کی فلاح و بہبود پر توجہ دینا ہے جو بڑے پیمانے پر اسلام کے مضبوط اجتماعی رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ انصاف اور احسان کے تصورات کی یوں ترجمانی کی جاتی ہے کہ ان کا مقصد مادی اور روحانی دنیاوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق میں بھی توازن پیدا کرنا ہے۔یہ تصورات نفس پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایک فرد کےخیالات اور عمل کی رہنمائی کرتے ہیں جس سے مفاد پرستی کا خاتمہ ہوتا ہے۔

اجتماعی طور پر انہیں انسانیت کی بہتری کے ضمن میں ایک اہم مقصدکے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس کا موازنہ کسی بھی طرح معاشی منفعت کے حصول کےلیے مرتب کیے گئے نوآبادیاتی نظریہ کے مادیت پرستانہ اقدار سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہر ایسے شخص کا ان اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے جو مسلمانوں کی رہنمائی کا خواہاں ہو۔ تاہم کچھ معاملات میں دوسری انتظامی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اسلامی انتظامیہ ایک مخصوص نقطۂ نظر تشکیل دیتی ہے۔اسلامی نظام اور موجودہ مغربی انتظامی نظام میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ یہ ایک اعتقادی نظام ہے جو ایسی بنیادی اسلامی اقدار پر مشتمل ہے جو تنظیموں کے ارادوں، فیصلے سازی اور اقدامات کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اقدار اس نظام کی تشکیل، اس میں لوگوں کے کام کرنے کے طریقے، معاشرتی تعلقات کی تنظیم، پالیسی و منصوبہ بندی اور اس کے احداف اور ان کے حصول کے طریقۂ کار پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔15

خلیفہ کی شرائط

ایک حقیقی خلافت و امامت کی اہلیت کے لیے سات شرطیں معتبر ہیں:

  1. خلیفہ میں عدالت اپنی جامع شرائط کے ساتھ موجود ہو یعنی وہ شخص مسلمان ہو اور فرائض و واجبات پر ہمیشہ عمل کرتا ہو، سنن و مستحبات کا بکثرت عامل ہواور محرمات ومکروہات تحریمیہ سے دائماً اجتناب کرتا ہواور مکروہات تنزیہیہ سے بکثرت بچتا ہو۔
  2. اس کو اس قدر علم حاصل ہو جس سے وہ پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کرسکتا ہو۔
  3. اس کے حواس سلامت ہوں‘ یعنی سماعت، بصارت، گویائی پوری طرح کام کرتی ہو۔
  4. اس کے اعضاء صحیح اور سلامت ہوں تاکہ وہ بخوبی کام کرسکے۔
  5. وہ صاحب رائے ہو جس سے وہ ملک کے داخلی اور خارجی مسائل کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھا سکے۔
  6. وہ شجاع اور بہادر ہو تاکہ ملت بیضاء کی حفاظت اور دشمنوں سے جہاد میں دلیری سے حصہ لے سکے۔
  7. وہ شخص نسباً قریش سے ہو کیونکہ بکثرت احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔16

علامہ تفتازانی نے ان شرطوں کے علاوہ کچھ مزید شرطیں بھی بیان کی ہیں اور وہ یہ ہیں :

  1. وہ شخص آزاد ہو، کیونکہ غلام اپنے مولیٰ کی خدمت میں مشغول رہتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں حقیر ہوتا ہے۔
  2. وہ شخص مرد ہو، کیونکہ (حدیث صحیح کے مطابق) عورتیں ناقصات عقل اور ناقصات دین ہیں۔
  3. وہ شخص عاقل اور بالغ ہو کیونکہ بچہ اور مجنون ملک اور عوام کی مصلحتوں کو سمجھنے اور ان میں تصرف کرنے سے قاصر ہے۔
  4. خلیفہ کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ہے، کیونکہ خلفاء راشدین معصوم نہیں تھے۔
  5. خلیفہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل ہو کیونکہ حضرت عمر نے انتخاب خلیفہ کے لیے چھ شخص مقرر کیے تھے اور ان میں بعض، بعض سے افضل تھے۔17

اگر کوئی فرد ان بنیادی شرائط پر پورا نہیں اترتا تو وہ امت مسلمہ پر حکمرانی کے لیے نااہل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی خلیفہ یا اسلامی طرزِ حکومت دیگر غیر اسلامی حکومتی نظاموں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت کے بنیادی اصول جو اسے انتظامیہ کی دوسری شکلوں سے ممتاز کرتے ہیں وہ درج ہیں:

  1. العُبودیہ: عبودیت اسلام کا سب سے اہم اصول ہےجو اللہ کی عبودیت، بندگی اور عشق پر مبنی ہے۔
  2. الشُوریہ: فیصلے عقلی و منطقی اصولوں کے مطابق کیے جائیں اور ان سے سب لوگوں کوآگاہ کیا جائے نیز تمام فیصلے ان لوگوں کے مشورے سے کیے جائیں جو علم ، تجربہ اور ہنرمندی و مہارت میں یکتا ہوں ۔
  3. الحُرِّیہ: حقوق العباد اور آزادی کے اصول۔
  4. المُساواۃ: برابری اور مساوات کے اصول۔
  5. العَدَالَۃ: خیالات و افکار اور عمل کی بنیاد انصاف(سچائی، دیانتداری، ایمانداری،قابلِ اعتمادہونا وغیرہ) پر ہو۔18

خلیفہ منتخب کرنے والوں کے لیے شرائط

علامہ ابو الحسن ماوردی نے خلیفہ کو منتخب کرنے والوں کے لیے بھی مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ تین شرائط مقرر فرمائی ہیں کہ:

  1. انتخاب کرنے والے عادل ہوں(یعنی فرائض وغیرہ پر دائمی عمل کرنے والے اور محرمات سے دائماً بچنے والے ہوں۔
  2. ان کو اس قدر علم ہو کہ استحقاق خلافت کی کیا شرائط ہیں اور کون شخص منصب کا اہل ہے اور کون نہیں۔
  3. وہ صحیح رائے اور حسنِ تدبیر کے حامل ہوں تاکہ وہ صحیح تر اور موزوں تر شخص کو منتخب کرسکیں۔19

معیار ِانتخاب

اسلام نے ریاست کے حکمرانوں کے لیے انتخاب کا واحد معیار فراہم کیا جو اقربا پروری، نسل پرستی اور کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک سے پاک تھا۔ اس نے زور دے کر کہا کہ صرف وہی لوگ حکمرانی کے قابل ہیں جو پرہیزگار ہیں اور جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہے نیز اس عہدے کے لیے ضروری ہنراور صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کے برعکس دوسری تہذیبوں میں حکمرانوں کے انتخاب کا مقصدصرف اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ بادشاہ کا اگلا بیٹا تخت کا وارث بن جائے۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ شخص کتنا پڑھا لکھا ہے یا اس کا کردار کیا ہے۔

اسلامی ریاست میں کسی حکمران کے انتخاب کے لیے یہ ترجیح دی جاتی ہے کہ شوریٰ سے مشورہ کیا جائے۔ شوریٰ کی اصطلاح ایک فعل، ایک نظریہ، ایک معاشرتی تکنیک اور ایک سیاسی ادارہ ہے جو اسلامی سیاسی نظام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اسی کی اساس ہے۔ یہ خلافت و نیابت کے نظرئیےکا براہ راست نتیجہ اور اسلامی معاشرے کی بنیادی روح ہے۔20 شوری کے ممبران عملی، باشعور اور پختہ مسلمان21 ہوتےہیں جو ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جنھیں وہ اقتدار اور حکمرانی کا اہل سمجھتے ہیں۔22 شوری کی بنیاد خود حضرت محمد ﷺ نے قائم فرمائی تھی اور وہ اس سے مختلف امور پر مشورہ بھی کیا کرتے تھے۔23

اسلامی حکومت حکمرانوں کے انتخاب کےلیے جمہوریت کے حق میں بالکل نہیں ہے کیونکہ جمہوریت میں کسی دانشور اور پڑھے لکھے متقی پرہیزگار شخص کے ووٹ کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے جتنی کہ ایک جھاڑو دینے والے، سبزی فروش یاایک مکینک کے ووٹ لی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مجرم کا ووٹ بھی وہی حیثیت رکھتاہے۔ بعض علمائے اسلام جنہوں نے طریقۂ انتخاب، عدالتی نظام یا دیگر عناصرِ حکومت کو بظاہر مغربی طرزِ ریاست یا جمہوریت کی مثل ہونے کو جائز قرار دیا ہے ان کے نزدیک بھی ہر مسئلے میں حتمی رائے اور فیصلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہی کیا جائے گا کیونکہ مغربی اقدار کے مطابق ایک غالب گروہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق "صحیح" اور "غلط" کا فیصلہ کرسکتا ہے جو کہ اسلامی نقطہ نظر کے خلاف ہےجہاں یہ حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے۔

خلافت راشدہ، دورِ جدیدمیں استعمال ہونےوالی اصطلاح میں بالکل بھی جمہوری نہیں تھی۔اس میں فیصلہ سازی کا اختیار نبی اکرم ﷺ کے معتبر، تربیت یافتہ، متقی اور ماہر ساتھیوں اور مختلف قبیلوں کے نمائندوں (جو پیغمبر اسلام کے صحابہ بھی تھے اور ان میں سے بیشتراپنے قبائل میں منتخب شدہ اور چنیدہ رہنما بھی تھے) کے ہاتھوں میں تھا۔ اسلامی خلافت کے نظام میں، ریاست کے سربراہ و خلیفہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، اور حضرت علی جیسے متقی، پرہیزگار، عالم، مفکر، مدبر،قابل اعتماد، تربیت یافتہ، نیک اور ہنرمند عملی مسلمان تھے جو کہ موجودہ جمہوری اور صدارتی پارلیمانی نظام میں ناپید ہیں۔

خارجہ پالیسی

مسلم بین الاقوامی قانون اور اس کے احکامات آفاقی سچائیوں پر قائم ہیں۔ مذہب اور نسل سے قطع نظر اس طرح کے احکامات پوری انسانیت پر لاگو ہوسکتے ہیں۔ اسلام کے عالمی نظام کے تصور میں کسی مسلم ریاست کی طرف سے کیا گیا معاہدہ یا عہد، اگر وہ کسی قابل اعتماد، تربیت یافتہ، متقی اور ذمہ دار رہنما کی طرف سے کیا گیا ہو تو پوری جماعت یا امت کو اس پر عمل کا پابند کرتا ہے ۔ اسلام ایک فرد کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی دشمن کو تحفظ کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے چاہے وہ شخص ایک غلام ہی کیوں نہ ہو، ہر صورت میں اس کے عہد کا احترام کیا جاتا ہے۔ سفیر کو ہر طرح کی خلاف ورزیوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا ہے اوروہ نہ صرف مذہب و مسلک کی آزادی سے لطف اٹھاتا ہے بلکہ ہر طرح کی حفاظت اور سلامتی میں اپنے ملک واپس آجاتا ہے۔

اسلام اپنی سرزمین پر بیک وقت کئی طرح کےقوانین کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے جس میں ہر برادری اور مذہب کے لیے خودمختار عدلیہ کا تصور موجود ہے۔ لہذا ایک اجنبی شخص کا تعلق اپنے جرم کی سماعت کےلیے مقرر کردہ عدالت کے دائرہ اختیار سے ہے۔ اسلام کی رواداری، پُر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر مبنی عالمی نظام قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔24

ریاست کی ماہئیت اورفطرت

ریاستِ مدینہ جو حضور اکرم ﷺ نے تشکیل دی تھی مکمل طور پر خدائی قوانین پر مبنی تھی ۔ بے مثال معاشرتی انصاف کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے یہ ایک مثالی ریاست بن گئی تھی۔ یہاں تک کہ حضرت محمد ﷺ نے بھی ہمیشہ خدائی قوانین پر عمل کیا تاکہ اس نئی ریاست کو بادشاہت یا ملوکیت کا درجہ حاصل کرنے سے بچایا جاسکے۔ اس ریاست میں کوئی بھی شہری دوسروں سے افضل نہیں سمجھا جاتا تھا۔یہاں نہ ہی عرب غیر عربوں سے برتر تھے اور نہ ہی گوروں کو کالوں پر25 کوئی برتری حاصل تھی۔ دونوں کو حضرت آدم کی اولاد ہونے کی وجہ سے انسانی برابری کا مقام حاصل تھا۔ یہی اخلاقی بنیاد ہے جو اسلامی ریاست کو جدید ترین ریاستوں سے بالاتر قرار دیتی ہے جو اپنے تمام معاملات میں اخلاقیات کے قوانین کو نظرانداز کردیتی ہیں اور خودمختاری کے تصور کو انسانی پیمانوں اور شرائط پر مبنی تصور کرتی ہیں ۔

خلافت راشدہ کاانتظامی ڈھانچہ

اسلامی خلافت جو ایک بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی چھوٹے چھوٹے صوبوں میں منقسم تھی۔ ان میں سے کچھ باجگزار ریاستیں بھی تھیں 26جن کی ایک بڑی آبادی غیر مسلم تھی۔خلافت کے مرکزی ہیڈ کوارٹر یعنی مدینہ میں ایک مرکزی انتظامیہ واقع تھی جو محکموں کی نگرانی اور ان کے کنٹرول کی ذمہ دار تھی۔ بیشتر ریاستوں میں سب سے بڑا انتظامی کام سرکاری خزانے کے لیے ٹیکس اور محصول وصول کرنا تھا۔ تاریخی ذرائع سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت ٹیکسوں کی جانچ، وصولی اور انتظام کے لیے ایک وسیع و عریض انتظامی نظام موجود تھا۔ اس سسٹم کی اچھی طرح سے نگرانی کی جاتی تھی اور ٹیکس وصول کرنے والے عہدیداروں اورٹیکس بھتہ خوری کے معاملے پر گورنر ہمیشہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے تھے۔27

اگرچہ چھوٹے صوبے مرکزی انتظامیہ کے ماتحت تھے لیکن پھر بھی وہ اپنے اعمال اور کارروائیوں میں ایک حد تک خود مختار تھے۔ ہر ریاست کی اپنی فوج اور پولیس یونٹ ہوتے تھے لیکن وہ ہنگامی صورتحال کی صورت میں مرکز سے مدد طلب کر سکتے ہیں۔ کسی خاص علاقے میں جمع ٹیکس پہلے اس علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جاتا تھا ۔بچ جانے والے محصول کو یا تو سرکاری خزانے میں ریزرو کے طور پر رکھا جاتا تھا یا مرکزی انتظامیہ کو بھیج دیا جاتا تھا۔ مقامی انتظامیہ میں مارکٹ آفیسرز، کاتب، جج (قاضی )، مقامی ایڈمنسٹریٹر اور مقامی نمائندے شامل تھے۔

ممتاز حکمران

قدیم تہذیبوں مثلاً یونانیوں ، رومیوں اور فارسی حکمرانوں کے برخلاف ، مسلم حکمران اپنی پرتعیش طرز زندگی اور ظلم و ستم کی کی وجہ سے مشہور نہیں ہوئے بلکہ ان کی وجۂ شہرت معاشرے اور ریاستی تنظیم میں ان کی عظیم شراکت اور خدمات تھیں۔حضرت محمدﷺ کے بعد چار سب سے نمایاں مسلم حکمران درج ذیل ہیں جنہیں خلفائے راشدین کہا جاتا ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق

حضرت ابوبکر کا اصل نام عبد اللہ بن ابو قحافہ تھا۔وہ 573عیسوی میں پیدا ہوئے اور بالغ افراد میں اسلام قبول کرنے والے پہلے شخص تھے۔28وہ حضرت محمدﷺ کے بعد اسلام کی سب سے ممتاز شخصیت تھے۔ وہ ایک محنتی، عقلمند، دیانتدار اور سچے صحابئ رسولﷺ ہونے ساتھ ساتھ ایک عظیم سیاستدان بھی تھے جواسلام کی تاریخ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ کی رحلت کے بعد وہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ منتخب کیے گئے یوں خلافت راشدہ کی بنیاد رکھی گئی۔29ابو بکر صدیق کی خلافت 2سال 2 ماہ 25 دن تک قائم رہی اور آپ کا دورِ خلافت 632ء سے 634ء تک پھیلا ہوا ہے۔آپ "الصدیق" (سچا شخص) کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ چونکہ آپ حضرت محمد ﷺ کی رحلت کے بعد پہلے حکمران تھے لہذا آپ کوبہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے انتظامی اور عسکری شعبوں میں اپنی بے مثال صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسائل پرکچھ ہی عرصےمیں قابو پالیا۔ اپنے دور حکومت میں انہیں ارتداد کی تحریک سے بھی نمٹنا پڑا جسے انہوں نے بڑے پیمانے پرموثر انداز سے کچل دیا۔ پھر آپ ان قبیلوں کے ساتھ کامیابی سے نمٹے جنہوں نے زکوٰ ۃدینے سے انکار کردیا تھا۔30 مزید یہ کہ آپ کے دور حکومت میں مسلمانوں کو بازنطینی اور فارسی سلطنتوں کے خلاف اہم عسکری کامیابیاں حاصل ہوئیں۔31آپ نے سخت جانچ پڑتال کے بعد قرآن مجید کو کتابی شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا۔ ابتداء میں آپ نے ریاست کے حکمران کی حیثیت سے تنخواہ لینے سے انکار کردیا لیکن حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے مشورے پر آپ نے اپناکپڑے کا کاروبار بند کردیا اور سرکاری خزانے سے ملنے والی معمولی تنخواہ پر گزارہ کیا۔32

حضرت عمر فاروق

حضرت عمر کے والد کا نام خطاب تھا33اور وہ583ء میں پیدا ہوئے۔34آپ کا شمار رسول اللہﷺکے اہم ترین صحابہ میں ہوتاہے۔آپ مسلم تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر اور طاقت ور خلیفہ تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے انہیں الفاروق (حق اور باطل میں تمیز دینے والا) کا لقب عطا فرمایاتھا۔35آپ عدل و فقہ میں ماہر اور انتہائی مردم شناس تھے۔ آپ نے حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد دوسرے خلیفۂ راشد کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ آپ کا زریں دور10 سال کے عرصے پر محیط رہا۔36آپ کی حکومت کے دوران خلافت ِاسلامی کی حدود میں مزید اضافہ ہوا۔آپ ہی کے دورِخلافت میں ساسانی سلطنت مکمل طور پر ختم ہوگئی اور یروشلم مسلمانوں کے زیر اقتدار آیا۔37

آپ انتظامی عدالتوں کے نام سے ریاست کے افسران کے خلاف شکایات کی تفتیش کے لیے خصوصی محکمہ قائم کرنے والے پہلے شخص تھے۔آپ نے ہی وزارت عامہ کے نظام (public ministry system) کا آغاز کیا جہاں تمام فوجیوں اور عہدیداروں کے ریکارڈ رکھے جاتے تھے ۔ وہ پولیس کا ایک مناسب نظام قائم کرنے والے پہلے شخص تھے جس نے شہری نظم ونسق کو قائم رکھا ۔ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ خلافت کے نظام کو سہل انداز سے چلایا جائے آپ نے بڑے علاقوں کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا اور ہرصوبے اور ریاست کے لیے ایک گورنر مقرر کیا۔ آپ کی زرعی اصلاحات میں قحط اور خشک سالی کے دوران اناج کی درآمد اور نہروں کی تعمیر بھی شامل تھی جن کی بدولت پانی کی کمی دور ہوئی اور بنجر علاقے آباد ہوئے ۔

638ءکے قحط کے دوران حضرت عمر نے بصرہ اور مصر سے کھانے پینے کے سامان اور دیگر اجناس کے قافلوں کی روانگی کا حکم دیا اور قحط زدہ علاقوں میں سامان کی تقسیم کی ذاتی طور پر نگرانی کی یوں وہ جزیرہ نماعرب میں لاتعداد انسانی جانیں بچانے میں کامیاب رہے۔38سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت عمر نےپہلی فلاحی ریاست قائم کی۔ ریاست اور عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے بیت المال کا ادارہ بنایا39جس نے دوسرے مساکین کے ساتھ ساتھ مسلم اور غیر مسلم ا فراد خاص طور پرغریبوں ، بوڑھوں ، بیواؤں ، یتیموں اور معذور افراد کی بھرپور اندازسےمدد کی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے خلافت اسلامیہ میں تجارتی سرگرمیوں پر ٹیکس بھی ختم کردیا جس سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملا اور خوشحالی اور فارغ البالی کا دور دورہ ہوگیا اسی وجہ سے آپ کا دور خلافت راشدہ کا دورِ زریں کہلاتا ہے ۔40

حضرت عثمان غنی

643ء میں حضرت عمر کی41 شہادت کے بعد حضرت عثمان کو تیسرا خلیفہ منتخب کیا گیا۔42آپ نبئ اکرمﷺ کے داماد بھی تھے۔43آپ کے دورِ خلافت میں مسلم سلطنت کی حدودمیں مزید توسیع ہوئی اور مسلمانوں نے مغرب میں اناطولیہ اور ایشیاءِ کوچک تک اقتدار حاصل کرلیا۔ آپ کے عہد میں خلافت کی علاقائی حدودوسعت کے اعتبار سے اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ آپ پہلےمسلم حکمران تھے جنہوں نے بحریہ یعنی سمندری فوج کا باقاعدہ قیام عمل میں لائے۔44آپ نے قریش کے لہجے میں قرآن مجید مرتب کرایا۔ حضرت عثمان نے بہت سی معاشی اصلاحات کیں جن کے سبب لوگوں کی معاشی خوشحالی میں اضافہ ہوا۔45

حضرت عثمان غنی ایک نیک دل انسان تھے اور اسلام کے مقصد کے لیے اپنی ذاتی رقم خرچ کرنے میں کبھی نہیں ہچکچاتے تھے ۔46آپ کا شمار حضرت محمد ﷺ کے بزرگ صحابہ میں ہوتا تھا۔ آپ کی خلافت کےآخری ایام میں آپ کے گھر کو باغیوں نے محاصرے میں رکھا جو آپ کوقتل کرکے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ ان باغیوں نے آپ پر بے بنیاد الزامات لگا کر لوگوں کو آپ کے خلاف کرنے کی کوشش کی تاہم آپ نے باغیوں کے نا جائز مطالبات کے سامنے سر نہیں جھکایا۔بالاخر چند باغی پچھلی دیوار سے چڑھ کر گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو شہید کردیا۔47

حضرت علی شیر خدا

حضرت علی ،نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے داماد اور چوتھے خلیفۂ راشد تھے۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد تین دن تک حکومت کا نظام بغیر خلیفہ کے چلتا رہا جس کے بعدحضرت علی کو خلیفہ بننے کا کہا گیا۔ انہوں نے اس پیش کش کو مسترد کردیا اور اس معاملے کو مسلم عوام پر چھوڑ دیا۔48صحابہ کرام کی اکثریت نے انہیں اس عہدے کےلیے ایک بہترین انتخاب سمجھا۔بالاخر مسلمانوں کی مشاورت سے ان کا انتخاب ہو گیا۔ آپ نے مسلم تاریخ کے سب سے مشکل دور میں لوگوں کی رہنمائی کی۔

آپ کا یہ نقطۂ نظر تھاکہ حضرت عثمان کے مقرر کردہ گورنر، اس تمام انتشار کا سب سے بڑا سبب ہیں کیوں کہ انہوں نے حکومتی اعمال کے کام پر نظر نہیں رکھی جس کی وجہ سے وہ اپنی حدود سے تجاوز کرگئے تھے لہذا آپ نے تمام گورنروں کو برطرف کردیا۔ تمام گونروں اور صوبوں کے عوام نے آپ کے حکم کو قبول کیا سوائے حضرت معاویہ ابن ابی سفیان اور اہلِ شام کےجو پہلے حضرت عثمان کی شہادت کا قصاص چاہتے تھے۔49

خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے حضرت علی نے اشرافیہ سے وہ تمام زمینیں واپس لے لیں جو حضرت عثمان نے انہیں عطا کی تھیں۔آپ نے قسم کھائی کہ امراء اور اشرافیہ سے ہر وہ چیز واپس وصول کریں گے جو انہوں نے ناجائز طریقے سے حاصل کی تھی۔ وقت کی ضرورت کے مطابق انہوں نے صوبائی آمدنی پر دارالحکومت کے کنٹرول کی پالیسی میں تبدیلی کی ۔وہ اپنے اپنے علاقوں میں تمام مسلمانوں میں ٹیکسوں کی مساوی تقسیم کو یقینی بناناچاہتے تھے ۔یوں وہ اس انتشار کو ختم کرنے کے خواہاں تھے جو حضرت عثمان کے دور کے آخری برسوں میں شروع ہوا تھا۔ وہ دیوان کی پوری آمدنی کو عام لوگوں، خاص طور پر غریبوں اور ضرورتمندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔

آپ کے دورِ خلافت میں کچھ انتشارپسند گروہوں نےانتشارپھیلانے کا منصوبہ بنایا۔جب وہ ہر طرح سے اپنے منصوبوں میں ناکام ہوگئے تو بالآخر انہوں نے خلیفہ کو شہید کرنے کافیصلہ کرلیا۔ آپ پر علی الصبح فجرکی نماز کے لیے جاتے وقت زہر آلود تلوار سے حملہ کردیا گیا جس کی وجہ سے دودن بعد آپ کی شہادت ہوگئی۔50

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اسلام کا تجویز کردہ اور نبی اکرمﷺ اور خلفائے راشدین کے ذریعہ عملی طور پر پیش کیا جانے والا سیاسی نظام، روم، یونان، فارس اور مصر وغیرہ کے سیاسی نظاموں سے نظریاتی اور عملی طور پر بہت ارفع واعلیٰ تھا۔ اس نظام میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ حکمران کو لا محدود طاقت اور اختیار کے ساتھ بے لگام نہ چھوڑ دیا جائے بلکہ اس کا بھی عام عمّال ِ حکومت کی طرح محاسبہ کیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ موروثی جانشینی کی پالیسی کو بھی ختم کر دیا گیا اور خلیفہ کے انتخاب کو تعلیم یافتہ، دیانت دار، متقی، پرہیزگار، عقلمند اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھوں میں رکھا گیا جنہوں نے عوام کے مفاد میں فیصلے کیے۔ نتیجتاًاسلامی معاشرے میں کم از کم پہلے 30 سالوں میں حکمرانوں کا ایک مضبوط سلسلہ تھا جس نے خداتعالیٰ کا قانون قائم کرکے لوگوں کی بہتری کے لیے کام کیا۔ یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی گئی جس کی کسی بھی دوسری انسانی تہذیب میں مثال نہیں ملتی۔

 


  • 1 ابو الفداء اسماعیل ا بن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-8، مطبوعۃ: دارالطیبۃ للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 514-517
  • 2 القرآن ، سورۃ المائدۃ 5 : 3
  • 3 القرآن ، سورۃالحج 22: 41
  • 4 محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث : 2499، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 748
  • 5 Elisa Giunchi (1994), II Politico: The Political Thought of Abu Ala Mawdudi, Rubbettino Editore, Soveria Manelli, Italy, Vol. 59, No. 2, Pg. 353.
  • 6 لوئیس مولوف، المنجد، مطبوعۃ: دارالاشاعت، کراچی ، پاکستان، 1994ء ،ص: 292-293
  • 7 الامام المحدث الشاه ولی الله الدهلوی، ازالة الخفائ، ج-1، مطبوعۃ: دارالقلم، دمشق، السورية، 2013م، ص: 85
  • 8 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 30
  • 9 لامام المحدث الشاه ولی الله الدهلوی، ازالة الخفائ، ج-1، مطبوعۃ: دارالقلم، دمشق، السورية، 2013م، ص: 89
  • 10 القرآن ، سورۃ النساء 4 : 41
  • 11 سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی نظام ِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، مطبوعہ: اسلامک پبلی کیشنز پرائیوٹ لمٹیڈ، لاہور، پاکستان، 1993ء، ص: 348-355
  • 12 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 195
  • 13 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 188
  • 14 ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی، سنن ابی داؤد ، حدیث : 3580، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 760
  • 15 Eugenie Samier (2017), The Islamic Public Administration Tradition: Historical, Theoretical and Practical Dimensions, Halduskultuur, Talin, Estonia, Pg. 59-62.
  • 16 أبو الحسن علی بن محمد البصري البغدادی، الشهير بالماوردي، الأحكام السلطانية، مطبوعۃ: دارالحديث، القاهرة، مصر، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 19-20
  • 17 ابو موسیٰ سعد الدین تفتازانی، شرح عقائدِ النسفیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ لدھیانوی، کراتشی ، باکستان،2016م، ص: 170
  • 18 Eugenie Samier (2017), The Islamic Public Administration Tradition: Historical, Theoretical and Practical Dimensions, Halduskultuur, Talin, Estonia, Pg. 59-62.
  • 19 أبو الحسن علی بن محمد البصری البغدادی، الشهير بالماوردی، الأحكام السلطانية، مطبوعۃ: دارالحديث، القاهرة، مصر، (ليس التاريخ موجوداً)، ص: 17-18
  • 20 Tauseef Ahmed Parray (2012), World Journal of Islamic History and Civilization: Islamic Democracy or Democracy in Islam – Some Key Democratic Concepts and Notions, IDOSI Publications, Dubai, UAE, Vol. 2, No. 2, Pg. 72.
  • 21 Sulaiman Sheu Adua & Moshood Olayinka Salahu (2018), The Islamic Shura System and the Western Democratic Process: Synergism for Good Governance and Credible Leadership, International Journal of Current Innovation Research, Vol. 4, Issue: 10, Pg. 1360-1361.
  • 22 ابوا لفداء اسماعیل ابن کثیر، البداعیۃ وا لنہایۃ، ج- 7، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص:163
  • 23 القرآن ، سورۃ آل عمران 3 :159
  • 24 Dr.Mohammad Muslehuddin, Islam and its Political System, Islamic Publications (Pvt) Ltd., Lahore, Pakistan, Pg. 55-57.
  • 25 احمد بن محمد ابو عبداللہ الشیبانی، المسند احمد بن حنبل، ج- 38، مطبوعۃ: المؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 474
  • 26 محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج- 3،مطبوعۃ: دارالتراث، بیروت ، لبنان،1387ھ، ص: 607-609
  • 27 Fred M. Donner (1986), Journal of the American Oriental Society: The Formation of the Islamic State, American Oriental Society, Michigan, USA, Vol. 106, No. 2, Pg. 286-287.
  • 28 احمد بن حسین القسطلانی، وسیلۃ الاسلام للنبی علیہ الصلوۃ و السلام، مطبوعۃ: دارالغرائب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1984م، ص: 72
  • 29 احمد بن علی المقریزی، امتاع الاسماء، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،1999م ، ص: 167
  • 30 احمد بن علی المقریزی، امتاع الاسماء، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،1999م ، ص: 167
  • 31 ابن اثیر الجزری، الکامل فی التاریخ ، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العربی، بیروت، لبنان،1997م ، ص: 248-249
  • 32 جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی، تاریخ الخلفاء، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2004م، ص: 63
  • 33 ابوالقاسم علی بن حسن ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج-44، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 11
  • 34 ابو عمر یوسف بن عبداللہ القرطبی الاستعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج-3، مطبوعۃ:دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1144
  • 35 احمد بن محمد ابو عبداللہ الشیبانی ، فضائل الصحابۃ، ج-1، مطبوعۃ:موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1983م، ص:103
  • 36 ابو حاتم محمد ابن حبان البسطی، الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، ج-15، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:34-38
  • 37 جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی، تاریخ الخلفاء، مطبوعۃ:مکتبۃ نزارمصطفیٰ الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2004م، ص: 106
  • 38 ابوالفداءاسماعیل ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ ، ج-7، مطبوعۃ:دارالحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1988م، ص:103
  • 39 عبداللہ ابن محمد ابوبکر ابن شیبۃ، الکتاب المصنف فی احادیث والاثار، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، ریاض، السعودیۃ، 1998م، ص: 452
  • 40 احمد بن یحییٰ البلاذری، فتوح البلدان، مطبوعۃ: دار و مکتبۃ الحلال، بیروت، لبنان ،1988م، ص: 431-442
  • 41 ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج-44، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 463
  • 42 أبو الحسن علی بن أبی الکرم عز الدين ابن الأثیر، الکامل فی التاریخ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 550
  • 43 جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی، تاریخ الخلفاء، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2004م، ص: 117
  • 44 محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج- 4، مطبوعۃ: دارالتراث، بیروت، لبنان،1387ھ، ص: 290
  • 45 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی،ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 87
  • 46 محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث:3701، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 1094
  • 47 ابوالفداءاسماعیل ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج-7، مطبوعۃ: دارالحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1988م، ص: 76-77
  • 48 ابوالفداءاسماعیل ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج-7، مطبوعۃ: دارالحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1988م، ص:222-225
  • 49 محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری، ج- 4،مطبوعۃ: دارالتراث، بیروت ، لبنان،1387ھ، ص: 442-444
  • 50 ایضاً، ص: 145-146