اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ آخری کتاب قرآن مجید انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق ہدایات و رہنمائی فراہم کرتی ہے۔اس میں جہاں روحانی و اخلاقی معاملات کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں وہیں اجتماعی زندگی کے لیے بھی نظم و نسق کا اہتمام کیا ہے۔اجتماعی زندگی کا نہایت اہم شعبہ انسانی معاشی و اقتصادی معاملات ہیں جس پر اس کی مادّی زندگی کی کامیابی کاانحصار ہے۔اگر معاشی معاملات کمزور ہوں، انسان فقرو فاقہ کا شکار ہو، مادی وسائل ناپید ہوں تو بعض حالات میں دینی تقاضوں کی انجام دہی بھی انتہائی مشکل اور بسا اوقات بعید از امکان ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاں قرآن مجید میں خالص دینی اور روحانی ذمہ داریوں کا ذکر ہے وہیں انسانی معاشی ضروریات اوراس کے تقاضوں کی بات بھی کی ہے کیونکہ انسان خدائی احکامات پر اسی وقت عمل کر سکتا ہے جب اس کو بقدر ضرورت مادی وسائل اور اسباب میسر ہوں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے زمین اور اس کی سب چیزیں خدا نے نوع انسانی کے لیے بنائی ہیں، اس لیے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس حق میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں۔ کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ نہ کسی کو اس معاملے میں دوسروں پر ترجیح ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ کسی شخض، نسل یا طبقے پر ایسی کوئی پابندی ازروئے شرع عائد نہیں ہوسکتی کہ وہ رزق کے وسائل میں سے بعض کو استعمال کرنے کا حقدار ہی نہ رہے، یا بعض پیشوں کا دروازہ ہی اس کے لیے بند کردیا جائے۔ اسی طرح ایسے امتیازات بھی شرعاً قائم نہیں ہوسکتے جن کی بنا پر کوئی ذریعۂ معاش یا وسیلۂ رزق کسی مخصوص طبقے، نسل یا خاندان کا اجارہ بن کر رہ جائے۔ خدا کی بنائی ہوئی زمین پر اس کے پیدا کیے ہوئے وسائلِ رزق میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب انسانوں کا یکساں حق ہے اور اسلام کے مطابق اس کوشش کے مواقع سب کے لیے یکساں کھلے ہونے چاہئیں۔
اگر دنیا کے شواہد کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنی نعمتوں کی تقسیم حکمت کی بنا پر کی ہے اور بعض انسانوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ حسن، خوش آوازی، تندرستی، جسمانی طاقتیں، دفاعی قابلیتیں، پیدائشی ماحول اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب انسانوں کو یکساں نہیں ملیں۔ ایسا ہی معاملہ رزق کا بھی ہے۔ اللہ کی تخلیق کردہ فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو۔ لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطۂ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں جو انسانوں کے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائیں۔ اسلام جس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصولِ رزق کی جدوجہد میں مساوات ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسی قانونی اور رواجی رکاوٹیں باقی نہ رہیں جن کی بنا پر کوئی شخص اپنی قوت و استعداد کے مطابق معاشی جدوجہد نہ کرسکے اور ایسے امتیازات بھی قائم نہ رہیں جو بعض طبقوں، نسلوں اور خاندانوں کی پیدائشی خوش نصیبی کو مستقل قانونی تحفظات میں تبدیل کردیں۔ اس لیے اسلام انہیں مٹاکر سوسائٹی کے معاشی نظام کو ایسی فطری حالت لانا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کے لیے کوشش کے مواقع کھلے ہوں۔ مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ کوشش کے نتائج میں بھی سب لوگوں کو زبردستی برابر کردیا جائے، اسلام ان سے متفق نہیں ہے کیونکہ وہ فطری نامساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ فطرت سے قریب تر نظام صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتدا اسی مقام اور اسی حالت میں کرے جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔
اسلام صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ یہ معاشی دوڑ کھلی اور بے لاگ ہو بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس میدان میں دوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے درد نہ ہوں بلکہ ہمدرد اور مددگار ہوں۔ وہ ایک طرف اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ اپنے درماندہ اور پسماندہ بھائیوں کو سہارا دیں، دوسری طرف وہ تقاضا کرتا ہے کہ سوسائٹی میں ایک مستقل ادارہ ایسا موجود رہے جو معذور اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کا ضامن ہو۔ جو لوگ معاشی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں وہ اس ادارے سے اپنا حصہ پائیں۔ جو لوگ اتفاقاتِ زمانہ سے اس دوڑ میں گر پڑے ہوں انہیں یہ ادارہ اٹھا کر پھر سے چلنے کے قابل بنائے۔ اور جن لوگوں کو جدوجہد کے میدان میں اترنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہو انہیں اس ادارے سے سہارا ملے۔1 اس کی تکمیل کے لیے اسلام نے باقاعدہ قانون سازی کی ہے جو اس کی عالمگیر مقبولیت میں مزید حسن پیدا کردیتی ہے۔
کرۂ ارض پر اللہ تعالی نے بے تحاشہ مادی وسائل پیدا فرمائے ہیں جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہیں۔2 ان وسائل کو انسانی وجود اور بقا کا ذریعہ بنایا ہے۔3 تاہم اس کے ساتھ ساتھ قرآن ِ حکیم یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ انسانوں کو دنیاوی مادی فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ اخروی زند گی سے بھی آگاہ اور باخبر ہونا چاہیے4 کیونکہ اس دنیا کی زندگی عارضی اور فانی ہے۔5 یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو دنیا اور آخرت دونوں کے فوائد کے لیے دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔6
اسلامی کے باقاعدہ معاشی نظام کی ابتدا خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد فرمائی تھی۔اس نظام کا بنیادی طریقہ کار یہ تھا کہ دولت کی گردش صرف طبقۂ امرا تک محدود نہ رہے7 بلکہ معاشی طور پر غیر مستحکم و تنگ دست افراد تک دولت کی منتقلی کا مناسب راستہ فراہم ہو سکے۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسلام نے دوسری تہذیبوں کے طبقۂ اشرافیہ کی طرح دولت مندوں کو بھی اپنےمال و دولت کو برائیوں اور بدکاریوں میں ضائع کرنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی ہے بلکہ اسلام نےاس بات کو یقینی بنایا ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی نہ بڑھنے پائے کہ معاشرہ انارکی کی طرف چلا جائے جہاں غریب طبقے کے حقوق کے استحصال اور ظلم و ستم کی وجہ سے معاشرے کے ان دونوں طبقات میں تصادم کی صورتحال پیدا ہوجائے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر زکوٰۃ کو فرض کیا ہے8تاہم کچھ صدقات کو اختیاری رکھا ہے۔9اس طرح غریب بھی اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں پریشانی و مصیبت سے بچ جاتے ہیں کیونکہ امیر اپنی دولت کے ایک حصے کا ان کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں اور ان کے ساتھ محبت اور بھائی چارے پر مبنی رشتہ قائم کرتے ہیں جبکہ امیر اپنی دولت کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافے کے لیےمحنت کرتے ہیں مگر دولت کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنا سختی سےمنع ہے۔ اسلام میں ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کی سختی سے مذمت کی گئی ہے اور ایسے شخص کو گناہ گار قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس عمل سے مصنوعی طریقے سے قیمتیں چڑھتی ہیں اور سرمایہ دار اپنے سرمائے کے بل بوتے پر زیادہ سے زیادہ اشیائے صَرف خرید کر اپنے گوداموں میں جمع کرلیتے ہیں یہاں تک کہ بازار میں ان کی طلب اور رسد میں فاصلہ بڑھ جاتا ہےاور سرمایہ دار مصنوعی گرانی پیدا کرکے دونوں ہاتھوں سے عوام الناس کولوٹ کر اپنے سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں۔10
عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، قال: لا يحتكر إلا خاطيٴ.11
رسول الله ﷺ نے فرمايا: ذخيره اندوزی صرف گناه گار شخص كرتا ہے۔
جب نبئ اکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اس وقت یہ ایک چھوٹی زرعی شہری ریاست تھی جس کا دارومدار کچھ تجارتی سرگرمیوں پر بھی تھا۔ یہاں جسمانی صحت کےاحوال اتنے ابتر تھے کہ اس خطے کو عموماً یثرب کہا جاتا تھا12جس کا مفہوم بیماریوں کا مسکن اور رونے کی جگہ تھا۔13نبی اکرم ﷺ نے اسے مدینہ کا نام دیا14اور اس کے ریاستی اداروں کی بنیاد رکھنا شروع کی۔اس وقت مدینہ میں سب سے بڑی معاشی قوت یہودی تھے جو بہت زیادہ مالدار تھے۔15حتٰی کہ مدینہ کی تجارتی منڈیوں کاانتظام بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ ان منڈیوں کے قوانین یہی یہودی نافذ کرتےتھے جو سود پر مبنی تجارتی معاملات کو غیر یہودیوں(Gentiles)کی حد تک عام اور جائزسمجھتے تھے۔
مہاجرین (نبئ اکرم ﷺ کے ساتھ ہجرت کرکے یثرب آنے والے اصحاب) کے پاس معاشی ذرائع نہیں تھے اور وہ ایک ادنی اور کم تر حالت کا شکار تھے مگر مدینہ کے مددگاروں (انصار) کی مدد و نصرت سے16اور مکے کے اپنے تجارتی تجربے کی بنا پر انہوں نے مدینہ کی تجارتی منڈی میں نبئ اخرالزمان حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس سے انتہائی ثمر آفریں نتائج برآمد ہوئے تھے۔
قرانِ کریم مسلمانوں کو دوطرفہ باہمی رضامندی سے کاروبار کرنے اور دوسروں کی اشیاء اورملکیتوں کو ظلم و ناانصافی اور غلط طریقے سےغصب کرنے سے بچنے کی ہدایت دیتا ہے۔17جائز و ناجائز اشیاء کے فرق کی واضح انداز سے تعریف کردی گئی ہے۔ 18یوں مسلمانوں کو اپنے معاملات میں صاف و شفاف رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔مثلاً ناپ اور تول کا پورا حساب رکھنے اور ان میں کسی قسم کی کمی یا بددیانتی نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔19ان قوانین کی پابندی کرنے والے ہی سچے مومنین سمجھے جاتے ہیں 20جبکہ جو لوگ ناپ تول میں بددیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں برائی کے راستے پر چلنے والےسمجھے جاتے ہیں 21اور لعنت کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ 22
مدینے کی شہری ریاست میں بسنے والے مسلمان نقد و ادھا ر دونوں طرح سے خریدو و فروخت کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی بھی تاخیر کی صورت میں مقروض شخص سےزیادہ رقم کاتقاضہ یا اس پر جرمانہ عائد نہیں کیا۔ اس کے بجائے اگر مقروض مقررہ مدت میں قرض ادا نہ کر سکتا ہو تو اس صورت میں انہیں اس سے نرمی کرنا سکھایا گیا تھا۔انہیں اس دنیائے فانی اور آخرت کی ابدی زندگی کے بہتر فائدے کے عوض قرض معاف کرنے پر ابھارا گیا۔23یہاں کی تجارتی سرگرمیوں میں غلّے، کپڑے، کھجور، سبزیوں اور پھلوں کی خرید و فروخت شامل تھی۔تاہم شراب (خمر)24 اور خنزیر 25کی تجارت اور سود26کے لین دین پر یکے بعد دیگرے مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں معیشت اور معاشرے کے دوام اور امن و امان کےلیے نقصان دہ اور غریب عوام کے استحصال پر مبنی تھے۔
خرید و فروخت کی بھی کچھ اقسام ممنوع تھیں تاکہ اختلافات اور مسائل سے بچا جا سکے۔ان ممنوعہ اقسام میں ملامسہ، منابذہ ، الحصۃ اور حبل الحبلیٰ وغیرہ شامل ہیں۔ ان اصطلاحات کی تعریفات ذیل میں قارئین کی سہولت کے لیےذکر کی جارہی ہیں۔
یہ خرید وفروخت کی وہ قسم ہے جس میں ایک شخص کسی چیز کو ہاتھ سے چھو لے تو وہ اس چیز کو خریدنے کا پابند ہوجاتا ہے۔وہ اس کی اس سے زیادہ جانچ پڑتال نہیں کرسکتا۔
اس طریقۂ خرید و فروخت میں بیچنے والا اپنی مصنوعات کو ممکنہ خریدار کی طرف پھینک دیتا ہے۔ اگر وہ اسے پکڑتا ہے تو پھر اس پر پابندی عائد ہوتی ہے کہ وہ بغیر معائنہ کیے اوربغیر اس شے سے راضی ہوئے اسے لازماًخریدے۔ 27بیع ملامسہ اور بیع منابذہ اس لیے باطل قرار دی گئی ہیں کہ جب خریدار سودے کو ہی نہیں دیکھے گا تو اس بیع میں دھوکہ ہوگا اور یہ قمار(جوئے) کے مترادف ہے۔28
کنکر پھینک کر خرید و فروخت کا تعین کرنا الحصہ کہلاتا تھا۔خرید و فروخت کی اس صورت میں خریدار مطلوبہ شے کی طرف کنکر پھینکتا تھا مگر اس صورت میں مسئلہ یہ تھا کہ جہاں پتھر گرتا تھا اسے وہ چیز خریدنا لازم تھی چاہے وہ پتھر اس کی مطلوبہ شے پر گرے یا نہ گرے۔ 29
ا س سے مراد اس جانورکی تجارت تھی جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔30
خرید و فروخت کی ان تمام اقسام کی ممانعت اسلام میں کی گئی کیونکہ یہ تضادات اور تنازعات کی طرف لے جاتی ہیں اوران میں غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے جو اختلافات کی طرف لے جاتی ہے اس لیے اسلامی قانون میں ان تمام صورتوں کی ممانعت ہے۔
لغت ميں رِبا سے مراد زيادتی ہے31 اور شرعی اعتبار سے سود سے مراد عاقدین میں سے کسی ایک کے لیے معاوضہ میں وه طے شدہ زيادتی ہے جو بدل سے خالی ہو۔32 مزید فرمایا کہ اصل مال پر زيادتی کو رِبا کہتے ہیں۔33 اس کی دو اقسام ہیں ایک حرام ہے اور دوسری حرام نہیں ہے۔ رِبا حرام ہر وہ قرض ہے جس میں اصل رقم سے زیادہ وصول کیا جائےیا اصل رقم پر کوئی منفعت لی جائے اور رِبا غیر حرام یہ ہے کہ کسی کو ہدیہ دے کر اس سے زیادہ لیا جائے۔34
زمانۂ جاہلیت میں کاروباری قرضوں پر سود لینے کا رواج عام تھا۔ بڑے بڑے تاجر خوردہ فروشوں کے ہاتھ ادھار پر مال فروخت کرتے تھے اور اس پر سود لگاتے تھے، اسی کو رِبا کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے سود کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے، خواہ نجی ضروریات کے قرضوں پر ہو یا تجارتی قرضوں پر ہو، خواہ اس سود سے غریبوں کو نقصان ہو یا فائدہ۔ اللہ تعالیٰ نے امارت کا فرق اور غربت کا فرق کیے بغیر سود کو علی الاطلاق حرام قرار دیا ہے۔35
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
...وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ...27536
اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
عرب سود (رِبا) کو کاروبار کا منافع بخش ذریعہ سمجھتے تھے مگر چونکہ یہ معیشت کے لیے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کےضرورت مند افراد کے استحصال کا ذریعہ تھا اس لیے اللہ عزوجل نے اسے حرام قرار دیا۔ قرآن اس لفظ سے اس زائد رقم کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قرض خواہ، قرض دار سے اصل قرض کی رقم سے زائد وصول کرتا ہے۔37اس کے لیےآج کل کئی خوشنما الفاظ استعمال ہوتے ہیں مثلا انٹرسٹ (Interest)، منافع (Profit)، مارک اپ (Mark-up)اور مانیٹری رینٹ (Monetary Rent) وغیرہ۔
جب اہل ِ عرب کو رِبا میں ملوث ہونے سے منع کیا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ خریدنا اور بیچنا بھی رِبا کی طرح ہی ہے۔38اسی طرح ، اس نقطہ نظر کے حامی آج بھی بحث کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ اگر کسی کاروباری ادارے میں لگائے گئے پیسوں پر منافع جائز ہے تو قرض والے پیسے پر جمع ہونے والے منافع کو غیر قانونی کیوں سمجھا جائے؟ ان کی بحث اس طرح چلتی ہے: ایک ایسا شخص جو اپنا پیسہ منافع بخش طور پرکمرشل انٹرپرائز میں لگا سکتا تھا ، وہ کسی ایسے شخص کو قرض دے دیتا ہے جو نتیجتاً اس سرمائے سے نفع کماتا ہے۔ ایسے حالات میں قرض لینے والا، قرض دینے والے کو نفع کا ایک حصہ کیوں نہیں ادا کرے؟
تاہم ایسے افراد اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ کوئی بھی کاروباری ادارہ ،جس میں کوئی شخص شراکت کرتا ہے ، چاہے وہ تجارتی ہو یا زرعی، اور چاہے کوئی شراکت دار اس میں تنظیمی مہارت یا سرمائے کے ساتھ، یا دونوں کے ذریعہ شراکت کرے، خطرہ سے محفوظ نہیں ہے۔کوئی بھی انٹرپرائز قطعی ضمانت کے ساتھ مقررہ شرح پر منافع حاصل نہیں کرتی ہے۔ پھر اس امر کا کیا جواز ہے کہ کاروباری دنیا کے تمام افراد میں سے صرف سرمایہ کار کو ہی ہر حالت میں ایک مقررہ نرخ پر منافع کا حقدار سمجھا جانا چاہیے اور اسے نقصان کے تمام امکانات سے بچانا چاہیے؟ کون سا عقلی اصول، کون سی منطق، كون سا انصاف کا قانون اور کون سا مستحکم معاشی اصول یہ جواز پیش کرسکتا ہے کہ جو لوگ اپنا وقت، توانائی، صلاحیت اور وسائل صرف کرتے ہیں اور جن کی کوشش اور مہارت سے کاروبار فروغ پاتا ہے، وہ کسی مقررہ شرح پر منافع کی ضمانت نہیں رکھتے ہیں، جبکہ جو لوگ صرف اپنی جمع شدہ رقم میں سے قرض دیتے ہیں وہ نقصان کے تمام خطرات سے پوری طرح محفوظ ہوجاتے ہیں اور مقررہ شرح پر منافع کی ضمانت رکھتے ہیں؟ اور کون سا اصول اس امر کا جواز پیش کرسکتا ہے کہ ایک شخص اپنی رقم ایک صنعتی ادارے کو اگلے بیس سالوں تک قرض دیتا ہے،اور یہ طے کرتا ہے کہ وہ ہر سال اپنے سرمائے پر مقررہ فی صد سود کا حقدار ہوگا، جبکہ اس صنعتی ادارے کے مالکان کے پاس قیمتوں میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی کرنے کا اور ان سے منافع پر پڑنے والے اثرات جاننے کاکوئی ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔39
آج کل تمام دنیا میں جو سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اس کی پرورش کا سب سے بڑا عنصر سود ہے۔ تاجر اور صنعت کار اپنی کاروباری ساکھ کی بنیاد پر بینکوں سے سود پر بڑی بڑی رقمیں حاصل کرتے ہیں پھر ان رقوم سے بھاری صنعتیں قائم کرکےاعلیٰ پیمانے پر تجارت کرتے ہیں۔ بینکوں کا سرمایہ دراصل عام لوگوں سے جمع کیا ہوا مال ہوتا ہے۔ پہلے بینک عوام کو سال کے بعد 6 فیصد سود دیتا تھا اب 6 سے 8 فیصد تک اسی سود کو بینک منافع کا نام دیتا ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو بینک جو رقم قرض دیتا ہے پہلے ان سے 14 فیصد وصول کرتا تھا اب چونکہ ملک میں بلا سود بینکاری کا نظام رائج ہے، اس لیے بینک تاجروں اور صنعت کاروں سے کہتا ہے کہ یا تو حق مضاربت دو ورنہ تمہارے قرض پر 14 فیصد مارک اپ(Mark-up)کردیا جائے گا، چنانچہ بینک ان کے قرض میں 14 فیصد اضافہ کردیتا ہے اور یوں بلا سود بینکاری کے نام سے بینک عوام کے روپیہ پر 14 فیصد وصول کرتا ہے اور 6 تا 8 فیصد عوام کو دے دیتا ہے۔
تاجروں اور صنعت کاروں کو یہ سود اپنی جیب سے نہیں دینا پڑتا بلکہ وہ مصنوعات اور اموالِ تجارت میں اس رقم کو شامل کرکے قیمت وصول کرتے ہیں۔ انہیں 14 فیصد سود ادا کرکے بھی کوئی گھاٹا نہیں ہوتا اور عوام اپنے ہی پیسوں سے تیار کردہ اشیاء کو مہنگے داموں میں خریدتے ہیں اور یوں سود کی بدولت امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا جاتا ہے۔
سودی نظام کی وجہ سے آڑھتی حضرات(کمیشن ایجنٹ) اپنی تجارتی ساکھ کی بنیاد پر بینک سے قرض حاصل کرکے سینکڑوں ٹن غلہ اور کپاس خرید کر بینک کے گوداموں میں رکھوادیتے ہیں۔ جب بازار میں اجناس اور مصنوعات کی قلت ہوتی ہےتو صنعت کار اور آڑھتی حضرات گوداموں سے مال نکال کر کھلے بازار میں لاتے ہیں اور اس عرصہ میں جو ان پر گوداموں کاکرایہ اور دیگر اخراجات لاحق ہوتے ہیں ان اخراجات کو یہ لوگ منافع سمیت اس جنس کی قیمت پر ڈال دیتے ہیں، یہی وجہ ہےکہ 15 روپے کی لاگت کی چیز 100 روپیہ میں بھی بمشکل دستیاب ہوتی ہے اور اس زیادتی کا بار بینک پر پڑتا ہے نہ آڑھتی یا صنعت کار پر بلکہ اس تمام زائد خرچ کا بار عوام اور صارفین پر پڑتا ہے۔ سرمایہ دار بینک کے قرض کے سہارے ایک کارخانہ سے دوسرا کارخانہ لگاتا ہے اور بینک اس قرض کا سود در سود حاصل کرکے چند سال میں اپنی رقم کو دگنا کرلیتا ہےاور ملک کی تمام دولت سمٹ کر چند بڑے بڑے صنعت کاروں اور بینکوں کے پاس اکھٹی ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ صنعت کار اور تاجر پہلے سے زیادہ امیر اور مزدور اور ہاری زیادہ غریب ہوتے جارہے ہیں اور یہ صرف سود کی لعنت کی بدولت ہی ہےجو عوام کے جسم سے خون نچوڑکر سرمایہ داری کو پروان چڑھارہی ہے۔40 اس کی نظیر دیگر قدیم تہذیبوں یعنی قدیم رومی، یونانی اور دیگر قدیم تہذیبوں کے معاشی نظام میں بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے نظام کی بدولت غریب طبقے کے افراد کونہ صرف اپنی دولت سے محروم رکھا گیا تھابلکہ وہ اپنی اولاد، آزادی، وقار اور بعض اوقات زندگی سے بھی محروم کر دیے جاتے تھے۔
اسلام کے سوا دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں ہے جس نے سودی کاروبار سے روکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جس قدر شدت کے ساتھ سود لینے پر وعید سنائی ہے وہ کسی اور گناہ پر نہیں سنائی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ 278فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ 279 41
اے ایمان والوں! اگر تم سچے مسلمان ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود چھوڑدو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ قبول کرلو، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ سود کی حرمت کے بارے میں فرماتے ہیں:
عن جابر، قال: لعن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء.42
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے پر لعنت فرمائی اور سود کھلانے والے پر اور سودی معاملہ کرنےوالے پر اور اس کی گواہی دینےوالوں پر، اور فرمایا: یہ تمام لوگ گناہ میں برابر ہیں۔
اس طرح کے تباہ کن نتائج کی وجہ سے نہ صرف سود پر پابندی عائد تھی بلکہ اس کے قرض دہندگان(Lenders)، قرض لینے والے(Borrowers)، کاتب اور حتی کہ گواہی دینے والوں کو بھی سخت لعنت و ملامت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے۔43
سود کے گناہ کی شدت اور غلاظت و گندگی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ سود کےستر درجات ہیں ، جن میں کم سے کم درجہ اپنی ماں سے زنا کرنا ہے44اور اس شخص کی سزا موت ہے جو خونی رشتہ داروں سے جماع کرتا ہے۔45نبی ِ اکرم ﷺ نے ان لوگوں کو آخرت میں دی جانے والی مختلف سزاوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہےجن کا مشاہدہ انہوں نے معراج کی رات کیا تھا۔ آپﷺنے فرمایا کہ شب ِمعراج انہیں ایک ایسی جگہ لے جایا گیا جہاں لوگوں کے پیٹ سانپوں سے بھرے ہوئے بڑے بڑے مکانوں کی طرح تھے یہاں تک کہ یہ سانپ باہر سے دکھائی دے رہے تھے۔ حضرت محمد ﷺ نے پوچھا: اے جبرائیل !یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں سود میں ملوث رہے تھے۔ 46 البتہ ان انسانوں کو اس وعید سے استثناء حاصل ہے جنہوں نے ماضی میں (وحیِ الہی کے نزول سے پہلے) سود پر مبنی سودے کیے تھے اور اس کی ممانعت کے بارے میں جاننے کے بعد اس عمل کو روک دیا تھا اوراس سے سچی توبہ کر لی تھی ، انہیں بھی سزا دی جائے گی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن ِ مقدس میں ارشاد ِ ربانی ہے کہ اللہ تعالٰی ان لوگوں کو سزا نہیں دے گا47اور وہ بخشے ہوئے لوگوں میں شامل ہیں۔48تاہم ، یہ واضح رہے کہ اسلامی ریاست میں سود کی تمام صورتوں پر مبنی کسی بھی قسم کے لین دین کی ممانعت ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر ، اسلام نے معیشت کی نمو اور بڑھوتری کے لیے اپنے معاشی اطوار اور طریقے دئیے ہیں۔
رِبا یا سود پر پابندی عائد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلامی تعلیمات میں کاروبار کے تمام طریقوں پر پابندی ہےاور یہ کہ لوگ اپنے کاروبار کا آغاز یا اس کی توسیع نہیں کرسکتے۔ اسلام نے صرف ان مالی وسائل اور مالیاتی ذرائع پر ہی پابندی عائد کی تھی جو بنی نوع انسان کے مفادات کے خلاف ہے لیکن ساتھ ہی ان کے قابل عمل حل بھی فراہم کیے ہیں۔اسلام میں مالیات کے ان جائز طریقوں کو مضاربۃ، مشارکۃ، استصناع، سَلَم اور مرابحۃ کے نام سے جانا جاتا ہے49جن کا ذیل میں مختصر طور پر ذکر کیا جارہا ہے:
اسلامی شرعی اصطلاح میں مضاربت اس کام کو کہتے ہیں، جس میں ایک فریق کی طرف سے سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے فریق کی جانب سے عمل اور محنت ہوتی ہے۔50یعنی ایک فرد وہ ہے جس کے پاس پیسہ ہے اور وہ کہیں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، جبکہ دوسرا شخص کام کرنا چاہتا ہے لیکن کاروبار شروع کرنے کے لیے اس کے پاس پیسہ نہیں ہیں۔ لہذا دونوں افراد منافع اور خسارے کا تناسب اور دیگر شرائط طے کرنے کے بعد کاروبار یا تجارت کا معاہدہ کرتے ہیں۔
اس طریقۂ کار کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سرمایہ کار (رب المال یعنی سرمائے کی ملکیت رکھنے والا شراکت دار) بنیادی طور پر ایک خوابیدہ شراکت دار ہوتا ہے اور عملی طور پر کام نہیں کرتا ہے جبکہ دوسرا شراکت دار (مضارِب) اس کام کے ہرعملی پہلو کا انتظام کرتا ہے۔51 لہذا رب المال اور مضارِب دونوں کی مالی أغراض پوری ہوجاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں بھر پور انداز سے معاشی سرگرمی شروع ہوتی ہے جس سے دوسرے کئی لوگوں کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ مضاربہ کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہےکہ اگر اس میں نقصان ہوجائے تو رب المال کو مالی نقصان ہوتا ہےلیکن مضارب کی ساری محنت، اس کا وقت اور صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں، اس لیے وہ اپنی بھرپور کوشش سے کاروبار کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتا ہےجس کے نتیجے میں معاشرے میں کاروبار کی عمدگی کی فضا قائم ہوتی ہے اور لوگوں کو مزید روزگار کمانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔
ا س سے مراد ایسے معاہدے ہیں جنہیں عہد حاضر میں "شراکت داری کا معاہدہ"کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مالیاتی آلہ بھی قرآن حکیم سے ماخوذ ہے۔52 نبئ آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اگر دو افراد ایمانداری کے ساتھ شراکت کا آغاز کریں تو اللہ عزوجل ان کا تیسرا شریک بن جاتا ہے اور ان کے کام میں برکت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے وفادار رہیں۔53مشارکہ میں معاہدے کی تمام شرائط شراکت داروں کی باہمی رضامندی سےطے کی جاتی ہیں اور معاہدہ کسی شراکت دار کی موت، کسی شراکت دار کی دست برداری یا کسی شراکت دار کی معاہدے کے خاتمے کی خواہش پر ختم ہوتاہے لیکن یہ اختتام ایک مناسب متفقہ عمل اور طریقۂ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ مالیاتی وضع صرف دو افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں شامل تمام ممبران اپنی سرمایہ کاری اور سرمائے کی مقدارکے مطابق منافع اور نقصان دونوں کےحصہ دار قرار پاتے ہیں۔
اسلامی فقہاء کے مطابق استصناع سے مراد آرڈر پر چیزیں تیار کرانا ہے۔54اس مالیاتی طریقہ کار کے جواز کا ثبوت رسول اللہ ﷺ کی سنت اور اجماع سے حاصل کیا گیا ہے۔ حضوراکرم ﷺ نے بذاتِ خودایک انگوٹھی اور ایک منبر استصناع کے طریقہِ کار سےبنوایا تھا۔55 اس معاہدے میں شامل افراد میں سے ایک پیدا کار ہوتا ہے (اس میں زراعت سے متعلق پیدا کاروں کو شامل نہیں کیا جاتا ہے) جبکہ دوسرا وہ خریدار ہوتا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق مصنوعات کی تیاری کی فرمائش کرتا ہے اور جب اتفاق رائے ہوجاتا ہے تو ایک معاہدہ کرلیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں صارف جزوی طور پر یا مکمل طور پر پیشگی یا قسطوں میں ادائیگی کرسکتا ہے۔
اجارہ یا کرائے کا معاہدہ بھی ایک عام فروخت کے معاہدے سے ملتا جلتا ہے لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ اس معاہدے میں اثاثے کی ملکیت کرائے پر لینے والے کو منتقل نہیں ہوتی ہے۔کرائے دارصرف ایک مخصوص مدت کے لیے اسے اپنے پاس رکھتا ہے۔56کرایہ ان فوائد پر وصول کیا جاتا ہے جو کرائے دار اثاثہ رکھنے کے دوران وصول کرتا ہے۔57متفقہ مدت کی تکمیل کے بعد اثاثہ مالک کو واپس کردیا جاتا ہے۔
مرابحہ یا ورکنگ کیپیٹل فنانس (Working Capital Finance)ان افراد اور کمپنیوں کے لیے ایک اسلامی مالیات کا ذریعہ ہے جو کیش فلو(Cash Flow)یا نقد رقم کی فراہمی کے حوالے سے کمی کا شکار ہوں تاہم اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے خواہش مند بھی ہوں ۔ اس معاہدے کی رو سے سرمایہ کار ان مصنوعات میں سرمایہ کاری کرتا ہے جو خریدار کو مطلوب ہوتی ہیں وہ ان مصنوعات کو خرید کر منافع کی اعلان کردہ شرح کے ساتھ خریدار کو فروخت کردیتا ہے۔58خریدار سامان لے جاتا ہے لیکن بعد کی تاریخ یا قسطوں میں پہلے سے باہمی طے شدہ شرائط کے مطابق رقم ادا کرتا ہے۔
زراعت کے شعبے میں سَلم کے طریقہ ِ کار پر عموما بہت زیادہ عمل کیا جاتا ہےجہاں خریدار تمام رقم پہلے سے ادا کرتا ہے لیکن بعد کی تاریخ میں پیداوار (فصل) وصول کرتا ہے۔59یہ عمل نبئ اکرم ﷺ کے وقت میں بھی رائج تھا اور آپ ﷺ نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔60اس طریقۂ کار کی بدولت وہ غریب کاشتکار جن کے پاس اپنی زمینوں میں کاشت کاری کے لیے مالی وسائل دستیاب نہیں ہوتے، با آسانی سرمایہ حاصل کر سکتے ہیں۔ نتیجتاًزیادہ معاشی سرگرمیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور فرد اور ریاست دونوں کو (ٹیکس اور پیداوار کی شکل میں) اس سے مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
تجارت اور مالیات کے مذکورہ تمام اسلامی طریقوں سے معاشی سرگرمی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایک جگہ یا ایک ہی ہاتھ میں پیسہ یا وسائل جمع نہ ہونے پائیں۔ ان مالیاتی طریقوں اورآلات کی بدولت نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوتاہے بلکہ طلب و رسد پر نظر ہونےکی وجہ سے اشیا٫ کی قیمتیں بھی قابو میں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی سرگرمی کے نتیجے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور بے روزگاری میں کمی واقع ہوتی ہےاور یوں غربت میں کمی اور فرد کے معیار زندگی میں بہتری آتی ہے۔ اس طرح کے جدید، فلاح و بہبود پر مبنی، معیشت کو فروغ دینے والے طریقۂ کار کا تصور کسی بھی دوسری قدیم تہذیب میں دور دور تک نہیں ملتا۔
اسلامی معاشی نظام نے ہر شہری پرمحصول عائد نہیں کیا بلکہ اس کا اطلاق صرف ان اہل افراد پر کیا گیا تھاجو اس کے متحمل ہیں۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں پر الگ الگ نوعیت کے ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔ غیر مسلم صرف خراج اور جزیہ ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں جبکہ اہلیت رکھنے والے مسلمانوں کو زکوٰۃ، عُشر اور کچھ صدقات ادا کرنا لازمی ہیں۔اس کے علاوہ دوسرے معمولی ٹیکس بھی ہیں، لیکن وہ بھی غریبوں سے زبردستی وصول نہیں کیےجاتے تھے۔ صرف ان ہی لوگوں پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جو اس کی ادائیگی کرسکتے ہیں اور اس کے بدلے میں یہ ٹیکس مسلم ریاستوں کے شہریوں کی بہتری کے لیے استعمال کیےجاتے ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
معاشیات میں اسلام جس مطمح نظر کو سامنے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے پائے۔ وہ چاہتا ہے کہ جماعت کے جن افراد کو اپنی بہتر قابلیت یا خوش قسمتی کی بنا پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت میسر آگئی ہو وہ اس کو سمیٹ کر نہ رکھیں بلکہ خرچ کریں، اور ایسے مصارف میں خرچ کریں جن سے دولت کی گردش میں سوسائٹی کے کم نصیب افراد کو بھی کافی حصہ مل جائے۔ اس غرض کے لیے اسلام ایک طرف اپنی بلند اخلاقی تعلیم اور ترغیب و ترہیب کے نہایت موثر طریقوں سے فیاضی اور حقیقی امدادِ باہمی کی روح پیدا کرتا ہے، تاکہ لوگ خود اپنے میلانِ طبع ہی سے دولت جمع کرنے کو برا سمجھیں اور اسے خرچ کردینے کی طرف راغب ہوں۔ دوسری طرف وہ ایسا قانون بناتا ہے کہ جو لوگ فیاضی کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں، یا جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر مال جمع ہوجائے، ان کے مال میں سے بھی کم از کم ایک حصہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضرور نکلوالیا جائے۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے، اور اسلام کے معاشی نظام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو ارکانِ اسلام میں شامل کردیا گیا ہے۔61
لغت میں زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی، نُمُوّ(Growth)، اضافہ(Increment) اور برکت ہے۔ اصطلاحِ شرعی میں وہ مال جو حد نصاب کو پہنچ چکا ہو اور کسی مستحق کو مال کے اس حصے کا مالک بنا دینا ہے جسے حضورﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔62 زکوٰۃکی ادائیگی ہر عاقل، بالغ، آزاد مسلمان پر فرض ہے جس کا مال نصاب کو پہنچتا ہو ، ضروریات زندگی سے زائد ہو، قرض سے خالی ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو۔ 63سال سے مراد ہجری کے بارہ مہینے ہیں، چونکہ یہ چاند کے حساب سے ہوتے ہیں اس لیے اسے قمری کلینڈر(Luminar Calender) کہا جاتا ہے، کیونکہ بعض دینی احکام جیسے عیدین، رمضان المبارک کے روزے، عدت کے احکام اور حج قمری سال کے متعلق ہیں۔ قمری سال تقریباً354 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ شمسی سال(Gragorian Calender) 365 دنوں کا ہوتا ہے۔ اگر شمسی سال کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے تو قمری مہینوں کے اعتبار سے یہ ایک سال دس دنوں میں ادا ہوئی، دس دن کی زکوٰۃ اس کے ذمے واجب الادا رہے گی۔ یعنی 32 شمسی سال ( جسے عرف عام میں سن عیسوی کہا جاتا ہے) مکمل ہونے پر قمری سال 33 ہوجاتے ہیں اور اس طرح ایک سال کی زکوٰۃ بیچ میں غائب ہوجائے گی جس کا آخرت میں حساب دینا ہوگا۔
مال کے نصاب سے مراد کم از کم مالیت ہے جس کا مالک ہونے سے مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ ناپ تول کے موجودہ اعشاریہ نظام (Matric System)کے اعتبار سے نصاب شرعی کی مقدار یہ ہے: 612.36 گرام یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم یا مالِ تجارت جو اس کی بنیادی حاجت سے زائد ہو یا 87.48 گرام یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم یا مال تجارت جو اس کی بنیادی حاجت سے زائد ہو۔ آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ فقہائے کرام نے کہا ہے کہ اگر اموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا، کچھ چاندی، اور کچھ مال تجارت یا نقد وغیرہ) یا صرف چاندی ہوتو چاندی کے نصاب کا ہی اعتبار ہوگاتاکہ ناداروں کو فائدہ ہو۔64
زکوٰۃ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کی باہمی مناسبت یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ مال کی پاکیزگی کے ساتھ نفسِ انسانی کو بھی پاکیزگی مل جاتی ہے۔ گناہ کی نجاستوں سے دل صاف ہوجاتا ہے، مال و دولت کی محبت کے غلبے، حرص و ہوس اور بخل جیسی اخلاقی برائیوں سے باطن پاک ہوجاتا ہے، سیرت و کردار میں اجلا پن آتا ہے اور فرد کی اصلاح و پاکیزگی سے معاشرے کی ترقی و اصلاح ہوتی ہے۔ مال اور دولت کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے انسان میں حرص، بخل، تکبر، تَمُّر اور فسق و فجور کی رذیل (Vice, Mean) صفات پیدا ہوتی ہیں۔ مالی عبادات کے طور پر اللہ تعالی نے زکوٰۃ فرض کی ہے تاکہ اتفاق فی سبیل اللہ سے ان اخلاقی امراض کا ازالہ ہو اور انسان میں قناعت، جود و سخا، انکسار اور تقوی و حسن عمل کی اعلی صفات پیدا ہوں۔65
زکوٰۃمسلمانوں کی انجمن امداد باہمی(Cooperative Society) ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے لیےبے کاروں کا سرمایۂ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں، بیواؤں اور بے روزگاروں کا ذریعہ پرورش ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ مسلم معاشرے میں کوئی شخص ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے گا۔ ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمان کو فکر فردا سے بالکل بے نیاز کردیتی ہے۔ اگر ایک مسلم فرد مال دار ہو تو اس کو چاہیے کہ دوسروں کی مدد کرے۔ کل اگر وہ مسلم فرد نادار ہوگیا تو دوسرے اس کی مدد کریں گے۔ اس فرد کو یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اگر وہ مفلس ہوگیا تو کیا بنے گا؟ مرگیا تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آپڑی، بیمار ہوگئے، گھر میں آگ لگ گئی، سیلاب آگیا، دیوالہ نکل گیا، تو ان مصیبتوں سے خلاصی کی کیا سبیل ہوگی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ رہا تو کیوں کر گزر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے زکوٰۃایک مسلمان کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کردیتی ہے۔ مسلمان کا کام بس اتنا ہے کہ اپنی جمع کی ہوئی دولت میں سے ایک حصہ دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کرالے۔66
عرب کے خطے کا اکثر حصہ ریتیلی و بنجر زمین پر مشتمل تھا تاہم کچھ حصے پر زرعی اراضی بھی تھی۔ ان زرعی زمینوں میں کھجوروں کے جھنڈ، انگورو ں کے باغات، گندم اور جو کے کھیت اور پھلوں کے باغات تھے۔ ایک خاص مقدار سے زیادہ پیداوار کی صورت میں ان کھیتوں سے حاصل ہونے والی پیداوار پر عشر نامی ایک ٹیکس(محصول) کا اطلاق ہوتا تھا۔67قرآن مجید کے حکم کے ذریعے مسلمانوں کو اس ٹیکس کی ادائیگی کی ترغیب دی گئی تھی۔ 68جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ یہ ٹیکس پوری پیداوار کا 10 فی صد تھا۔69ایسی اشیاء پر ٹیکس نقد رقم کی بجائے جنس کی صورت میں ادا کرنے کو کہا جاتا تھا۔
عرب کے لوگ بھی جانور اور مویشی پالتے تھے۔ اگر یہ جانور کم سے کم ٹیکس کی حد عبور کرجاتے اوراس کے ساتھ ساتھ انہیں عام چراگاہوں پر پالا جاتا تو اس صورت میں بھی محصول ادا کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آمدنی کے دوسرے ذرائع بھی تھے جیسے غیر ملکیوں پر درآمدی ڈیوٹی۔نبئ اکرم ﷺ کےعہدمیں مدینہ میں بین الاقوامی تجارت نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تاہم نبطی (Nabatean)تاجر یہاں گندم، تیل اور زیتون وغیرہ لاتے تھے۔ جو افراد فوجی خدمات انجام نہیں دیتے تھے ان پر بھی ایک طرح کا عسکری ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ آمدنی کا ایک اور ذریعہ وہ معاہدے بھی تھے جو حضور اکرمﷺ اور مختلف علاقوں اور قبائل کے قائدین کے درمیان ہوئے تھے۔70
یہ وہ ٹیکس تھا جو مسلم حکومت میں پرامن طور پر مقیم غیر مسلموں پر عائد کیا گیا تھا جنہوں نے مسلمانوں کی حکومت اور ان کے اقتدار اور اختیار کو قبول کیا تھا۔ اس کے بدلے میں غیر مسلموں کو مکمل تحفظ اور سلامتی سے کاروبار کرنے کی آزادی اور دیگر تمام حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ یہ ٹیکس صرف ان غیر مسلموں سے لیا جاتا جو بالغ اور سمجھدار تھے نیز معذور اور غلام نہیں تھے۔71 اگر کوئی شخص بہت بوڑھا ہو جاتا یا بہت بیمار ہو جاتایا اتنا غریب ہو جاتاکہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر رہتا اور اپنے ہمسایہ غیر مسلموں سے خیرات وصول کرتا تو ایسے شخص کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا تھا۔72درحقیقت ایسے لوگوں کی ضروریات سرکاری خزانے سے پوری کی جاتی تھیں۔73یوں ہی شیر خوار بچوں، خواتین، معذور افراد، انتہائی بیمار افراد اور غلاموں سب کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔
نبی اکرم ﷺ نے اس معاملے میں کڑی سختی کی اور فرمایا کہ جس نے بھی مسلم سرزمین کے غیر مسلم شہریوں (اہل الذمہ) پر ظلم برپا کیا یا ان کی املاک کو نقصان پہنچایا یا ان کے کسی بھی مال پر قبضہ کیا تو اللہ تعالی ان کو قیامت کے دن سخت سزا دے گا۔74 ذخیرۂ حدیث میں یہ بھی روایت ملتی ہے کہ نبئ اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو غیر مسلم شہریوں کی جان، حقوق، مال اور عزت و آبروکی حفاظت کرنے کی ہدایت فرمائی تھی چونکہ اُنہوں نے اِن کی حفاظت کا عہد کیا تھا۔75 یہاں تک حکم دیا گیا تھاکہ اگر وہ اپنی سرزمین میں غیر مسلموں کا دفاع نہ کرسکیں تو مسلمانوں کو جزیہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔76
جزیہ بنیادی طور پر غیر مسلم افراد کی طرف سے مسلم ریاستوں کو تحفظ اور آزادی کے بدلے میں محصول کی ادائیگی تھی۔ مسلمان حکمران ان کی سلامتی کے ذمہ دار تھے اور جنگ کی صورت میں وہ اپنی فوج غیر مسلم ذِمّی ریاستوں کے تحفظ کے لیے بھیجتے تھے۔77 جزیہ کی ادائیگی سالانہ بنیاد پر کی جاتی تھی نیز اس کی مقدار اتنی معمولی تھی کہ دنیا ورطۂ حیرت میں گم ہے۔ امیروں کے لیے یہ رقم 48درہم سالانہ، متوسط طبقے کے لیے 24درہم سالانہ اور نچلے طبقے کے لیے12درہم سالانہ مقرر کی گئی تھی۔78
یہ وہ محصول تھا جس کا اطلاق غیرمسلموں کی فصلوں سے ہونے والی پیداوار پر ہوتا تھا بالکل اسی طرح جیسے"عشر" کا اطلاق مسلمانوں کی زمین سے ہونے والی فصلوں پر تھا79لیکن یہاں بھی مسلمانوں کو خاص طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس ٹیکس کے نفاذ کے دوران غیر مسلموں سے سختی سے پیش آنے سے گریز کریں۔ اگر کہیں غیر مسلموں کی زمین کم پیداوار دے رہی تھی تو اس صورت میں ان سے کم محصول لینے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ محصول ادا کرنے والے کے لیے اس کی ادائیگی ایک مسئلہ نہ بن جائے۔ 80
اسلامی ریاست جس کی بنیاد اللہ تعالی کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نےرکھی تھی وہ تیزی سے پھلی پھولی تھی۔ اس ریاست کا آغاز ہجرت کے پہلےسال سرزمینِ عرب کے ایک چھوٹے سے شہر"مدینہ" کی چند گلیوں سے ہوا تھا لیکن کچھ سال بعد ہی جب محسن ِ انسانیت ﷺ نے اس دنیا ئے فانی سے رختِ سفر باندھا تو پورا جزیرہ نما عرب، جنوبی فلسطین اور عراق کے کچھ حصے اس کی قلمرو میں شامل ہو چکے تھے۔ یوں چند ہی سالوں میں تقریبا دس لاکھ مربع میل کا علاقہ اسلامی ریاست میں شامل ہو چکا تھا۔ یہ عظیم الشان کارنامہ صرف دس سال کے قلیل عرصے میں وقوع پذیر ہوا تھا، یوں اسلامی ریاست کی حدود میں روزانہ اوسطاً 274مربع میل کا حیرت انگیزاضافہ ہوا تھا۔81
بجٹ تیار کرنے والے شخص کو اپنے تمام دستیاب وسائل کے بارے میں سب کچھ جاننا ضروری ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مسلم آبادی کی مردم شماری کا اہتمام فرمایا۔ خلافت عمر میں حیوانات، پھلوں کے درختوں اور دیگر اشیاء کی مردم شماری کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اور نئے حاصل شدہ صوبوں میں قابل کاشت زمین کی پیمائش کی گئی تھی۔ ہمہ وقت پُرعزم،پر جوش اور عوام کی فلاح و بہبود کےلیے مصروفِ عمل خلیفہ عمر کی عادت تھی کہ وہ ٹیکسوں کی وصولی کے بعد مختلف صوبوں کے عوامی نمائندوں کو مدعو کرتے تھے تاکہ معلوم کرسکیں کہ سال کے دوران محصول اکٹھا کرنے والے حکومتی اہلکاروں کے روئیے کے خلاف کوئی شکایت ہے یا نہیں۔82
ریاست کی آمدنی کی صورتحال نہ صرف سال بہ سال بلکہ دن بہ دن تبدیل ہوتی رہتی تھی ۔ کسی بھی سال پورے ملک کے لیے درست اعداد و شمار دینا ممکن نہیں تھا۔صرف اندازاً اعداد و شمار ہی دئیےجاسکتے تھے۔ مثلاً بحرین (اس سے یہاں مراد جزیرہِ بحرین نہیں بلکہ اس سے مراد جدید الاحصاء نامی ضلع ہے جو بحرین کے جزیرے کے سا منے واقع ہے) کی آمدنی 80,000درہم تھی، خیبر کے علاقے نے اپنی زرعی مصنوعات کو سالانہ50فیصد کے تناسب سے دینے پر اتفاق کیا تھا۔ اس سے مسلم حکومت کو سالانہ 20,000وسق (کھجور اور گندم) کی آمدنی ہوتی تھی۔
فلسطین کے علاقوں (جربہ اور ادھ روھ) میں سے ہر ایک نے سالانہ100دینار ادا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ خلیجِ عقبہ پر واقع عیلہ کی بندرگاہ ہر سال 300دینار ادا کرتی تھی۔ یمن میں شامل نجران کا علاقہ ہر سال 2000لباس دیا کرتا تھا جس میں سے ہرملبوس ایک اونس(Ounce) (پونڈ کا سولھواں حصہ )سونے کی مالیت کے برابر قیمت کا حامل ہوتاتھا۔ خلیج عقبہ پر واقع مکنا کی بندرگاہ کھجور کی فصل کا ایک چوتھائی، ماہی گیری کی پیداوار کا ایک چوتھائی، اور خواتین جو کپڑا تیار کرتی تھیں اس کا ایک چوتھائی حصہ بطور ِ محصول بھیجا کرتی تھی تاہم اصل آمدنی کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ یہی حال فدک اور وادئ القرہ کا تھا۔جہاں کےکاشتکاروں کو آدھی فصل بطور ِ محصول دینی پڑتی تھی تاہم اصل رقم کے تخمینے کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔83
ریاست کا اولین فرض یہ دیکھنا تھا کہ اسلامی سرزمین پر کوئی بھی باشندہ روزگار کے ذرائع ، کھانا ، لباس اور رہائش وغیرہ سے محروم نہ رہے۔ اس کے بعد دوسرا اہم فرض حکومتی عہدیداروں کی تنخواہوں کی بروقت فراہمی تھا جن میں عاملین، اکاؤنٹنٹ، اخراجات پر قابو رکھنے والے، اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے والےوغیرہ شامل تھے۔ا س زمرے میں پوری انتظامیہ، سول، فوجی اور سفارتی اداروں کے تمام افراد شامل تھے۔
معیشت کی ترقی اور نمو کے لیے خلیفہ دوم حضرت عمر نے ایک خاص شعبے کا آغاز کیا تھاجس کا مقصد لوگوں کی وقتی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے سرکاری خزانے سے بغیر کسی سود کے قرض دینا تھا۔ اگر کسی شخص کو کسی وقتی ضرورت کے تحت قرض کی ضرورت پڑتی تو وہ اس کی واپسی کے لیے ضروری ضمانتیں فراہم کر کے حکومتی خزانے سے قرض لے سکتا تھا۔خلیفہ خود بھی اپنی نجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس ادارے سے قرض لیتے تھے۔ بلاشبہ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ بغیر سود کے قرض دینے کے عمل کو قومی تحویل میں لینا اسلام میں سود کی ممانعت کے ساتھ لازم و ملزوم تھا۔
یہی خلیفہ عوام کو، یہاں تک کہ تاجروں کو مقررہ مدتوں کے لیے قرض دیتے تھےاور محکمۂ خزانہ (بیت المال)ان کے ساتھ ان کی کاروباری آمدنی کے ایک فیصد میں شریک ہوتا تھا۔ انہوں نے نہ صرف فائدے میں حصہ لیا بلکہ نقصان کی صورت میں بھی شریک رہے۔ ان ریاستی اخراجات کا ایک اور اطلاق ایک قسم کے معاشرتی انشورنس (معاشرتی بیمہ )پر بھی ہوتاتھا۔ اگر کوئی شخص کسی کو غیر ارادی طور پر قتل کرنے کا مجرم پایا گیا اور وہ قانونی طور پر مطلوب خون بہاکی رقم اپنے ذرائع سے ادا کرنے سے قاصر رہا تو حکومت اپنے بجٹ سے اس کی مدد کرتی تھی اور خون بہا کی رقم بیت المال سے ادا کرتی تھی۔ حضور اکرم ﷺ کی اس طرح کے متعدد معاملات میں مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں۔
مزید یہ کہ فوجی دفاع،عملے کے اخراجات، سامان اور ہر طرح کے رفاہی کاموں جیسے طلبا کی مدد کرنا، مساجد کی تعمیرکرنا، مذہبی مقاصد کے سلسلے میں مراعات اور امداددیناوغیرہ جیسے دیگر اخراجات بھی سرکاری اخراجات میں شامل تھے۔84خلیفہ دوم حضرت عمر نے ایک اور معاشرتی ادارہ بھی قائم کیا تھا جس نے ملک کے تمام باشندوں کے لیےماہانہ وظیفہ اوردیگر وظائف کا نظام اس حد تک منظم کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی اس سے مستفید ہوتے تھے۔یہاں تک کہ اگر بچہ پیدا ہوتاتھا تو اسے بھی ایک مخصوص وظیفہ ملنا شروع ہوجاتا تھا جبکہ بالغ افراد کو عام زندگی گزارنے کے لیے کم از کم جو رقم ضروری ہوتی تھی وہ بطور ِ وظیفہ دی جاتی تھی۔85
ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ مغلوب کی کوئی چیز غالب کو دی جائے قمار ہے۔86 قمار‘ قمر سے ماخوذ ہے۔ جو کبھی کم ہوتا ہے اور کبھی زیادہ۔ جوئے کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ جوا کھیلنے والوں میں سے ہر ایک اپنا مال اپنے ساتھی کو دینے اور اپنے ساتھی کا مال لینے کو (شرط کے ساتھ) جائز سمجھتا ہے۔87
عصر حاضر کی طرح زمانۂ جاہلیت میں جُوا اور اس طرح کے دوسرے کھیلوں کو دولت کمانے اور اپنی عورتوں اور بچوں سمیت دیگر لوگوں کے اموال پر قبضہ کرنے کا ایک آسان طریقہ سمجھتے تھے، وہ لوگ اپنے مال اور بیوی کی بھی شرط لگاتے تھے۔88جس کے نتیجے میں نہ صرف مادی نقصان ہوتا بلکہ خاندان بھی تباہ ہو جاتے تھے۔ معاشرے کو ان معاشی اور سماجی نقصانات سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل آیت ِ کریمہ نازل ہوئی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 9089
اے ایمان والو! شراب اور جُوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال ِشیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔
یہ بات مُسَلَّم ہے کہ بیشتر معاشرتی برائیاں قومی دولت کی غلط اور غیر منصفانہ تقسیم سے ہی جنم لیتی ہیں جس کے نتیجے میں کچھ افراد انتہائی دولت مند ہوجاتے ہیں جبکہ باقی تمام لوگ غربت کا شکار ہوکر دولت مندوں کے استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ موقع اور لاٹریوں کے کھیلوں میں جلدی اور آسان فائدہ اٹھانے کے لیے بہت بڑی ترغیب ہوتی ہےتاہم اکثر آسانی سے حاصل کیا گیا فائدہ معاشرے کے لیے برا ثابت ہوتا ہے۔ایک فیصد سے بھی کم لوگ باقی ماندہ ننانوے فیصد کے نقصان کے بدلے ترقی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ننانوے فیصد لوگوں کو غربت کا شکار کرکے ایک فیصد افراد کو مالا مال کیا جاتا ہے تاکہ ننانوے فیصد افراد کو منظم طریقے سے برباد کرکے ایک فیصدافراد ارب پتی بن سکیں۔90
ہمارے زمانہ میں معمّہ اور لاٹری کا رواج ہے۔ معمہ میں یہ ہوتا ہے کہ ایک مقررہ فیس ادا کرکے لوگ اس معمے کو حل کرکے صاحب معمہ کے پاس قسمت آزمائی کے لیے بھیج دیتے ہیں اور لاکھوں شرکاء کی فیسوں کے ذریعہ جو رقوم جمع ہوتی ہے اس میں سے تین چار انعام مقرر كئے جاتے ہیں۔ علمی حیثیت سے تو اس معمے کے بہت سے حل صحیح ہوسکتے ہیں لیکن انعام اس شخص کو ملتا ہے جس کا حل کسی معقول کوشش کی بناء پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے کمپائلر کے مطابق ہو۔ چونکہ معمے میں بھی تملیک کا مدار خطرہ(Risk) پر ہے اس لیے یہ بھی میسر اور قمار ہے اور شرعا ناجائز ہے و حرام ہے۔
اسی طرح لاٹری بھی جوا ہے۔ لاٹری میں بڑے بڑے انعامات کا لالچ دے کر لاکھوں کے ٹکٹ فروخت کیے جاتے ہیں اور ٹکٹوں کے ذریعہ جو رقوم جمع ہوتی ہیں اس میں سے قرعہ اندازی کے ذریعہ چندلاکھ روپے تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ سارے کھیل اور کام جوئے میں داخل ہیں جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ گھوڑ دوڑ کے مقابلوں میں اور بین الاقوامی کھیلوں میں ہار جیت پر جانبین سے شرط لگانا، اسی طرح بارش ہونے یا نہ ہونے پر یا کسی بھی اتفاقی امر پر جانبین سے شرط لگانا صراحتاً سٹہ و جوا ہے اور ناجائز اور حرام ہے۔91
نبی آخرا لزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے عہد میں مسلمان خام دھات یا بازنطینی سکے کو بطور رقم استعمال کرتے تھے۔ اقتصادی لین دین کے لیے تین طرح کی دھات کا استعمال کیا گیا: سونا (دینار) ، چاندی (درہم) ، اور تانبے کے سکے۔ مسلم حکومت نے 18 ہجری کے ابتدائی زمانے ہی میں اپنے درہم بنانا شروع کر دئیے تھے۔حالانکہ بازنطینی سلطنت کے سونے چاندی کے سکوں کو ابھی بھی پوری اسلامی حکومت میں قبول کیا جاتاتھا۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی حکومت سے پہلے سونے کے سکے نہیں بنائے گئے تھےاور 75 یا 76 ہجری میں عبد الملک بن مروان کی مالی اصلاحات تک بازنطینی سکے قبول کیے جاتے تھے۔ ابتدا میں ا ن سکوں کا معیار مستقل نہیں تھا اور وزن بھی مختلف تھا۔ لہذا سکوں سے خام دھات کی طرح برتاؤ کیا گیا اور لوگ ان کو گننے کے بجائے ان کا وزن کرتے تھے۔ پیسوں کی قدر کی پیمائش کرنے کے لیے وزن ایک اہم ترین ذریعہ رہا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کی وجہ سے سکے کا وزن کم ہوجاتا تھا جس کے نتیجے میں اس کی قدر میں بھی کمی آجاتی تھی ۔ یہاں تک کہ درہم کا سرکاری وزن بھی 2.8گرام سے لے کر 3.1 گرام کے درمیان مختلف رہا تھا۔92
روم، یونان، مصر، فارس اور دیگر تہذیبوں کے معاشی نظام کے برخلاف جو اس زمانے کی اعلی طاقت تھے اسلام کا معاشی نظام کچھ منتخب افراد کے بجائے پوری انسانیت کی بہتری کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ اس نے ان تمام باطل نظریات کو مکمل طور پر ختم کردیا جو انسانیت کے مفاد کے خلاف تھے اور جدید اسلوب اور طریقۂ کار متعارف کروائےجن کی بدولت معاشی حلقہ ترقی کرتا رہا۔ اس نظام نے نہ صرف حلال طریقے سے مسلمانوں کو رزق کمانے کا طریقہ سکھایا بلکہ اپنے بہن بھائیوں اور پورے معاشرے کے ساتھ اس کے اشتراک کا طریقہ بھی بتایا۔ مزید برآں، اگر کسی کو اس کے باوجود بھی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے رقم دستیاب نہیں تھی تو اسلامی ریاست اسے رقم فراہم کرنے کی ذمہ دار تھی۔ کسی دوسری تہذیب کے پاس ایسا نظام موجود نہیں تھا اور یہی ایک بڑی وجہ تھی کہ ان کی معیشت غیر مستحکم تھی۔ ان کی معیشتوں میں دولت مند مالدار سے مالدار اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جارہا تھا۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں ایک خاص وقت کے بعد ایک دور ایسا آیا جب معاشرے میں کوئی غریب یا مفلوک الحال نہیں بچا تھا۔ یہ وہ نظام ہے جس نے ماضی میں انسانیت کی تقدیر کو بدل دیا تھا اور اگر آج بھی اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل درآمد کیاجائے تو بلا شبہ اسلام دوبارہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے کیونکہ یہ دنیا کا وہ واحد معاشی نظام تھا جس نے تمام انسانوں کی یکساں طور پر معاشرتی اور معاشی بہبود پر توجہ دی تھی۔