انسانی زندگی کا بنیادی سرمایہ علم ہے جس پر اس کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ہے۔ حقیقت میں کرۂ ارض میں صرف اہل علم ہی زندہ ہیں جنہیں ان کے چلے جانے کے بعد بھی یاد رکھاجاتا ہے۔ علم انسان کو زندگی اور تابندگی عطا کرنے کے ساتھ خود شناسی، خود آگہی، احساس ذمہ داری، خود مختاری اور آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس جہالت انسان کو مردہ اور دوسروں کا محتاج بنا کر خود مختاری و خودآگہی سے محروم کردیتی ہے اور اسے ذہنی و فکری غلامی پھر جسمانی وسیاسی غلامی میں مبتلا کردیتی ہے۔
اسلام کا نظامِ تعلیم سب سے پہلے انسانی روح کو نفسانی خواہشوں کی غلامی اور مادّیت پرستی کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے تاکہ بندہ رضائے الٰہی کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔ روح کی پاکیزگی کا آئینہ انسانی اخلاق ہیں کیونکہ باطن کی حالت کا اندازہ ظاہری اعمال سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسلامی نصابِ تعلیم میں حُسنِ اخلاق پر بہت زور دیا گیاہے۔ دراصل نظامِ اخلاق ہی ہر فرد اور سماج کی عملی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہے۔ اسلامی نصابِ تعلیم انسان کی اخلاقی زندگی کی تعمیر کرتا ہے اور اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ عملی زندگی میں معاشرے کا ایک مفید بااخلاق اور معزز فرد کہلاسکے۔ تاریخ انسانی اس امر کی شاہد ہے کہ انسانی وضع کردہ نصابی معیارات ضروریاتِ زمانہ کے ساتھ بدلتے رہے ہیں پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ انسانی وضع کردہ نصابی ضابطوں سے تمام انسانی طبقات متفق ہوں۔ اسلام نے ایک جامع نصاب تعلیم دے کر عالم انسان کا ایک بڑا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اسلامی نصابِ تعلیم رضائے الٰہی کو مقصود بناکر اخلاق کے لیےایک ایسا بلند معیار فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقاء کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں نیز خوفِ خدا کے ذریعے اخلاق کو ایسی قوت ِ عمل حاصل ہوتی ہے جو خارجی دباؤ کے باوجود انسان سے اس کی پابندی کراتی ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ بے ضرورت نت نئے اخلاقی فلسفہ پیش نہیں کرتا اور نہ ہی معروف اخلاقی اقدار میں سے بعض کو بلا وجہ گٹھانے اور بعض کوبلا سبب بڑھانے کی بات کرتا ہے۔ ہر جگہ، ہر شعبۂ زندگی میں اسلام اخلاق کو حکمران بناتا ہے اور اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ معاملاتِ زندگی کی باگیں خواہشات، اغراض اور مصلحتوں کےبجائےاخلاقی پیمانوں پر استوار کی جائیں۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اسلام انسانیت سے ایک ایسے نظام زندگی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے جو اچھی اور نیک اقدار پر قائم اور منکرات سے پاک ہو۔ گویا اسلامی نظام تعلیم کا تعلق اللہ اور بندے کے باہمی تعلق کے ساتھ انسانوں کے درمیانی تعلقات سے بھی ہے۔ اسلامی نصاب تعلیم تمام انسانی معاملات میں اخلاقی اصولوں کی روح کو رواں دواں دیکھنا چاہتاہے۔ وہ رحم، عفوودرگزر اور خطا پوشی جیسے پسندیدہ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے بندے میں نیابت ِالٰہی کا رنگ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک صبر، سچائی اور راست بازی، عدل و انصاف، امانتداری، رواداری، احسان، مساوات، اخوت اور تقویٰ پسندیدہ اخلاقی صفات ہیں۔ اچھی صفات کو زندگی کا جزو بنانا اور مذمومہ صفات سے دامن بچانا مومن کی شان ہے۔اسلام کے مطابق بلند اخلاق شرف انسانی کی معراج اور آدمیت کی زیبائی ہے۔ 1
اسلام نے علم کو ویدک مذہب کی طرح صرف برہمنوں تک محدود نہیں رکھا اور نہ ہی صرف طبقۂ اشرافیہ کو مستفید ہونے کا حق دیا جیسا کہ قدیم دور کے سلاطین کا طریقۂ کار تھا بلکہ تعلیم کو جمہوری اور عوامی میراث بنا کر پیش کیا ہے اور ہر خاص و عام کو اسے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔اسلام نے علم کو زندگی اور جہالت کو موت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ موت جسم و جان کی نہیں بلکہ فکر اور روح کی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا ...1222
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔
اعلانِ نبوت کے بعد جب تک رحمت ِ دوعالم حضرت محمد مصطفےٰﷺمدینہ ہجرت نہیں فرما گئے تھے اس وقت تک آج کے دور کی طرح باقاعدہ نظام ِتعلیم قائم نہیں ہوا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قریش کے لوگوں کی طرف سے مسلسل ظلم و ستم تھا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں تھاکہ اہل مکّہ اَن پڑھ یا ناخواندہ تھے۔ در حقیقت اگر زبان، ادب، شاعری اور نثر کی بات کی جائے تو وہ ان خصوصیات میں سب سے بہترین قوم تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے تعلیمی نظام میں بھی (مذکورہ سات قدیم تہذیبوں کے تعلیمی نظام کی طرح) اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ نظام ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا جو اخلاق و کردار، عدل وانصاف ، فلاح و بہبود اور خوشحالی کے اعلیٰ پیمانوں پر پور ا اترتا ہو۔ نتیجتاً جب اسلام کا تعلیمی نظام وجود میں آیا تو معاشرے پر اس کے مثبت اور دوررس اثرات پڑے اور یوں اسے قبولیت ِعامہ حاصل ہوئی۔
اسلام جہالت کے خلاف ایک مستقل جدوجہدکی تعلیم دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام علم و شعور،ترقی اور سائنس کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہا ہے۔ یہ انسان کی ذہنی و فکری سرگرمیوں کی اس درجہ قدر کرتا ہے کہ اسی علم و شعور کے سبب انسان کو فرشتوں سے بھی ارفع و ا علیٰ درجے پر رکھتا ہے۔اسلام کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو عقل کی بالا دستی کو قبول کرے اور علم و شعور کو اتنی اہمیت دے کہ اسے زندگی کے تمام مظاہر سے ارفع و اعلیٰ سمجھے۔3
اسلام کے اس دنیا سے متعلق نظریے میں علم دو اہم حصوں پر مشتمل ہے۔ان میں سے ایک جدیدانسانی علم ہے جبکہ دوسر ا حصہ مذہبی علم پر مشتمل ہے۔ مؤخر الذّکر علم انسانی نشوونما اور اعلی ٰ ترین درجات کے حصول کا ذریعہ ہے۔قرآن مجید میں عام طور پر جہاں علم کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے وہاں یہی علم مراد ہے4جو کہ حضور ﷺکے مشکوۃ ِنبوت سے ماخوذ ہے۔
اسلام صنف و جنس سے قطع نظر ہر انسان پر علم کا حصول فرض قرار دیتاہے۔5 انسان کو" اشرف المخلوقات"یا " تمام تخلیقات میں سب سے بہتر " کہنے کی وجہ بھی علم ہی ہے۔ اس علم سے صرف مذہبی تعلیم ہی مراد نہیں بلکہ کائنات کے مظاہر قدرت،دنیا اور اس کے مختلف اجزا اور شعبوں سے متعلق علم بھی شامل ہے۔علم کے بارے میں امام شافعیفرماتے ہیں:
العِلْمُ عِلْمانِ: عِلْمُ الأَدْيانِ وَعِلْمُ الأَبْدانِ.6
علم دو طرح کا ہوتا ہے: دین سے متعلق علم اور جسم سے متعلق علم۔
اسلامی تہذیب میں تعلیم صرف مذہب تک ہی محدود نہیں ہے۔ کیوں کہ مذکورہ لفظ "ابدان" عربی زبان میں جسم کے لیے استعمال ہوتاہے جو جمع پر دلالت کرتا ہے اور ذہنِ انسانی کو سائنس کی طرف راغب کرتا ہے۔ مزید یہ کہ خودمذہب بھی ایک انتہائی وسیع معنی میں استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ دینِ اسلام نماز اور دیگر عبادات کے ساتھ انسان کے تمام انفرادی و ملی معاملات اور معاشرتی پہلوؤں کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔ یوں امام شافعی سے منسوب مذکورہ بالا حوالہ انسانیت کو ایمانیات، معاشرتی و طبعی علوم اور دیگرتما م اقسام کے نفع بخش علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہےبشرطیکہ وہ وحی الٰہی کے تابع ہوں۔
حضورﷺ نے جو تصور علم دیا تھا اس نے اسلام کی شعوری اور فکری زندگی کو اپنے غیر متبدل راستے پر استوارکر دیا ہے۔7 اسلام کا نظام تعلیم ایک ایسا جامع نظام ہے جو ہم آہنگی کے ساتھ ایک مضبوط شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ یہ تعلیم کا ایسا جامع و ہمہ گیر نظام ہے جو فرد کی کامل تعلیم پر زور دیتا ہے جس میں جسم ، دماغ اور روح شامل ہیں۔ یہ انسانی روح میں نور الٰہی کا ایساشعلہ بھڑکا دیتا ہے جو زندگی کو حقیقی معنی عطا کرتا ہے اور منزل ِمقصود کے حصول کے لیے اسے ہمہ وقت جہدِ مسلسل کی مہمیز دیتی ہے ۔ یہ زندگی کے ہر مرحلے میں مستقل ترقی اور آگے بڑھنےکے لیے مسلسل جدوجہد کی تاکید کرتا ہے۔ انسانی شخصیت کی نمو اور ترقی کا انحصار مستقل جدوجہد پر ہی موقوف ہے۔ اسلام کے مطابق انفرادی شخصیت کی تعمیر ایک مفروضہ نہیں بلکہ کامیابی ہے۔ یہ کامیابی معاشرے کی باطل قوتوں اور خود انسان میں موجود انتشار پھیلانے والے رجحانات کے خلاف جدوجہد اور انتھک کوششوں کا ثمر ہے۔ 8
حکم الٰہی کی اتباع میں فرشتوں کا حضرت آدم کے سامنے سر بسجود ہونا بسبب علم تھاجس سے فرشتے محروم تھے۔9اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ نبئ اکرم ﷺپر نازل ہونے والی پہلی وحی بھی علم کے متعلق تھی ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ1 10
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔
یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔11 وہ قرآن حکیم کی ابتدا کسی بھی آیت کے نزول سے کر سکتا تھا لیکن اس نے یہی آیت کریمہ سب سے پہلے نازل فرمائی ہے ۔اس سے علم و آگہی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یہاں اللہ کے پیغام کا صرف ابلاغ مراد نہیں بلکہ ہر سطح پر پڑھنے اور سمجھنے والے افراد کے ذریعے حق کی تبلیغ ، اس کافروغ ،نشرو اشاعت اور پھیلاوٴمقصود ہے۔ اسی بنا پر تعلیم کا حصول اسلام میں حکم الٰہی کا درجہ رکھتا ہے۔12دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام میں مذہب اور سائنس اپنے الگ الگ راستوں پر نہیں ہیں بلکہ در حقیقت اسلام نے سائنس کے لیے اہم ترغیب اور تحریک فراہم کی ہے۔13
تعلیم کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے نبئ اکرمﷺ کو بھی تعلیم کے لیے دعا کی ترغیب فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا11414
اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے "علماً" کا لفظ ارشاد فرمایا ہےجو کہ نکرہ ہے اور اس کے معنی عمومی علم کےہیں۔ لہذا حضورﷺصرف مذہب کے ساتھ ہر طرح کے علم میں اضافے کی دعا اور اس کی ترغیب فرمایا کرتےتھے۔ مزید یہ کہ قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں واضح ہے کہ ایک ناخواندہ شخص اور ایک صاحب ِ علم شخص کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ایک صاحب ِ علم شخص کو علم سے بے بہرہ شخص کے مقابلے میں کہیں زیادہ ارفع و اعلی ٰ مقام حاصل ہے۔ جیسا کہ کلام ِربانی میں ارشاد ہے:
قُلْ ھلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ9 15
آپ فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ 1116
اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔
اسلامی تہذیب و تمدن میں تعلیم کی اہمیت پر اس حد تک زور دیا گیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو بھی مدینہ کے باشندوں کو تعلیم فراہم کرنے کے عوض رہا کیا گیاتھا۔ اس واقعہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
أسر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يوم بدر سبعين ... وكان أهل مكة يكتبون، وأهل المدينة لا يكتبون، فمن لم يكن له فداء دفع إليه عشرة من غلمان أهل المدينة يعلمهم، فإذا حذقوا فهو فداؤه. 17
رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن ستر قیدی بنائے۔ اہل مکّہ لکھنا جانتے تھے اور اہل مدینہ لکھنا نہیں جانتے تھے ،تو جس کے پاس فدیہ دینے کی اہلیت نہیں تھی ،اسے اہل مدینہ کے دس بچے دے دئیےگئے تاکہ وہ انہیں لکھنا سکھائے، جب وہ بچے لکھنے میں ماہر ہو جائیں گے تو یہی ان کا فدیہ ہوگا ۔
ایسی عمدہ ترین مثال دنیا کی کسی دوسری تہذیب میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔دنیا کی باقی تہذیبوں اور معاشروں نے جنگی قیدیوں کو نہ صرف غلام بنا کر رکھا بلکہ ان کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک روا رکھااور انہیں غلاموں کی منڈیوں میں فروخت کردیا جاتا تھا‘ لیکن مسلمانوں نے نہ صرف غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا بلکہ ان میں سے پڑھے لکھے لوگوں سے تعلیم حاصل کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور ان کے اہلِ علم و دانش کے ساتھ امتیازی سلوک برقرار رکھا۔
اسلام نے حصول علم کے لیے ایسے طریقوں کو واضح کیا جو نہ صرف جدید ترین تھے بلکہ ان کی بدولت تحقیق کی نئی راہیں بھی کھلیں۔ یہ وہ طریقے تھے جنہوں نے نہ صرف انسانیت کوفائدہ پہنچایا بلکہ اسے صحیح راہ پر گامزن بھی کیا۔سب سے پہلے اسلام نے انسانیت پر واضح کیا کہ تمام انسانی علوم بطورِخاص اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کیے گئے ہیں۔ یوں اسلام نے انسان پر یہ واضح کیا کہ جس قدر علم اللہ تعالی نے اسے عطا فرمایا ہےوہ اس سے زیادہ نہیں جان سکتا ہے۔ 18حتی کہ فرشتے بھی صرف وہی جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا ہے۔19 اللہ تعالی کے علم میں سے کوئی کچھ بھی جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ عطا فرمانا چاہے۔ 20درحقیقت انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے وہ علم عطا فرمایا گیا تھا جو عام انسانوں کی دسترس میں نہیں ہے۔21انبیائے کرام اسی عطا کردہ علم میں سے کچھ عام انسانوں میں ان کی اہلیت کے مطابق بھی پھیلاتے ہیں۔ علم کے اہم وسائل و ذرائع کو واضح کرنے کے بعد اسلام نے تعلیم کے حصول کے لیے درج ذیل طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔
اس طریقہ کے مطابق حسی تجربات علم کے حصول کا ذریعہ ہیں22 جن کی بنیادحواسِ خمسہ یعنی قوتِ بصارت،قوتِ شامہ، قوتِ سماعت ، حس ِذائقہ اور لمس کی صلاحیت پر ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انسانوں کو اپنے حواس کے ذریعے علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ انہیں حصول ِ علم کا ایک اہم ذریعہ بنایا گیاہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ 16423
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لیے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔
أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُون 7924
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
پہلی آیت ِ کریمہ میں کچھ مثالیں دی گئی ہیں اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ مثالیں کائنات اور اس کے نظام میں غور و فکر کرنے والے صاحبِ فکر ونظر اور عقل و شعور رکھنے والےلوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ان علامات کو دیکھا ، محسوس کیا، چکھا ، چھوا یا سنا جاسکتا ہے۔ لہذا انسانیت کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ تجرباتی طریقے سے معلومات جمع کریں اور ان میں غور و فکر کرکے نتائج مرتب کریں ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسی نظام کی قابلیت محدود رکھی ہے اور یوں اس بات کا قوی امکان ہےکہ دماغ اپنی محدود صلاحیتوں سے انسانیت کو گمراہ کرسکتا ہے۔اسی لیے دوسری آیت ِ کریمہ میں اللہ نے بنی نوع انسان کو حواس سے حاصل شدہ معلومات میں غور و فکر اور تدبّروتفکر کرنے اور پھر اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے کہ وہ گمراہ نہ ہوں۔ اللہ تعالی نے ان معلومات کے ذریعے بنی نوع انسان کی ہدایت کی طرف راہنمائی فرمائی جو انسان صرف اپنے حسیاتی نظام کے ذریعہ حاصل نہیں کرسکتا تھا‘ لہذا اسلامی نظام نے حسیاتی وصول کنندوں کے توسط سےمواد اکٹھا کرنے اور تحقیق کی ترغیب دی لیکن انسانوں کو نگرانی میں رکھا ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کا تعلیمی نظام انسانیت کی تباہی کے بجائے ان کی بہتری کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔
اس طریقہ کے تحت حصول ِ علم اور اس کی جانچ کا ذریعہ" عقل" ہے۔ 25قرآن پاک میں انسان پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کی پہچان اور دونوں جہانوں میں کامیابی کے لیے اپنی عقل اور استدلال کی مہارت کو استعمال کریں۔ جیسا کہ کلام ِ الہی میں ارشاد ہے:
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ 66 وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ 6726
اور بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں (بھی) مقامِ غور ہے، ہم ان کے جسموں کے اندر کی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں (جو) پینے والوں کے لیے فرحت بخش ہوتا ہے،اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم شکّر اور (دیگر) عمدہ غذائیں بناتے ہو، بیشک اس میں اہلِ عقل کے لیے نشانی ہے۔
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 191 27
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
اس آیتِ کریمہ میں استعمال ہونے والے لفظ "عبرۃ" سے مراد ایک سچائی یا حقیقت کے ذریعے دوسری سچائی تک پہنچناہے، لہذا اگر کسی بھی انسان میں یہ خوبی ہے تو اس کے پاس ترقی کا بہتر موقع ہوگا۔ اس آیت مبارکہ میں اس حقیقت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ لوگ جواپنی آنکھیں اور دماغ کا استعمال نہ کرکے اور دوسرے انسانوں کی اندھی تقلید کرکے اس خوبی کو ختم کردیتے ہیں وہ ترقی اور کامیابی حاصل کرنے سے قاصررہتے ہیں۔28
یہ دنیائے رنگ و بو اور اس میں شامل اشیاءایک ہی رنگ اور ایک ہی عنصر سے تخلیق پا سکتی تھیں لیکن خدا ئے لم یزل نے اس کائنات کو مرقع ِ حسن و جمال بنایا تاکہ نوع ِ بشراپنے استدلال کے شعور کو استعمال کرسکے اور اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب وہ ان چیزوں میں غورو فکر کریں گے تو وہ اس کرۂ ارض اور اس کے باسیوں کو تباہ کیے بغیر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں گے۔دوسری آیت میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان نشانیوں کی مدد سے کوئی بھی آسانی سے حق تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ کہ خدا سے بے نیاز نہ ہو اور مظاہرِ کائنات پر غور و فکر کرے۔
جب انسان نظم ِ کائنات کو بغور دیکھتا ہے تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک ایسا نظم ہے جس میں چاروں طرف حکمت اور ذہانت سے بھرا مقصد سرائیت کرتا نظر آتا ہے ۔ یہ امرسراسر حکمت سے متصادم ہے کہ انسان جو کہ اخلاقی شعور سے آراستہ اور پسند کی آزادی سے مالا مال ہے اورجسے استدلال اور صوابدید کا تحفہ عطا کیا گیا ہے، اسے اپنے اعمال کا جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے۔ اس طرح کا انعکاس لوگوں کے ذہنوں میں اس بات کا پختہ یقین پیدا کرنے کا باعث بنتاہے کہ موت کے بعد کی زندگی ایک حقیقت ہے۔ یہ یقین ایک سچی نعمت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے عذاب سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔29 اسی لیے اللہ نے قرآن پاک کے مختلف مقامات پرغور و فکر ،تفکر وتدبر اور عقل کے بھرپوراستعمال کرنے پر زور دیا ہے تاکہ انسان دونوں جہانوں میں کامیاب ہوسکے۔
مذہب کا ہمارے بنیادی سوالات کے جوابات دینے کا دعویدار ہونا اس کے ماخذ علم ہونے میں موجود ہے۔ دنیا کے اکثر مذاہب اور دین اسلام اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسانی شعور اور استدلال کی صلاحیت اگر اپنی اصل اور کامل صورت میں بھی ہو تو وہ قطعی حقائق کو درست انداز سے جانچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں چاہے اس کا تعلق عقلی استدلال سے ہو یا ریاضیاتی دلائل سے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عقل و شعور اور استدلال کی طاقت ہمیں امید دیتی ہے اور اصل راستے کا علم اور اسے قبول کرنے کے لیےرہنمائی مہیا کرتی ہے۔ ہدایت کا یہ طریقۂ کار اگلی سطور میں بیان کیا گیا ہے: علم کا ہر عمل دو عناصر پر مشتمل ہوتا ہے، ان میں سے ایک کو موضوع اور دوسرے کو مضمون کہا جاتا ہے۔ جہاں تک تعلیمی سلسلے کی بات ہےتو اسے دو طریقوں سے جاری رکھا جاسکتا ہے۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ موضوع، مضمون کو اس کے لوازمات کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ انسان کی بات کی جائے تو وہ اپنے حواس اور قوت استدلال کو استعمال کرکے سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مضمون بذات خود اپنی ذات کو موضوع پر آشکار کردیتا ہے۔
عام طور پر علم کے حصول کے لیے پہلا طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے اور یہ وہی ہے جن پر سائنس اور فلسفہ کا انحصار ہے۔ چونکہ یہ بات واضح ہے کہ محدودیت کے ذریعہ لا محدود یت اور محدود حواس کے ذریعہ لامحدود علم کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ کے محدود علم کے ذریعہ انسانی زندگی کے بنیادی حقائق کی غیر محدود وسعتوں کے ادراک کی کوشش نا کامی ہی پر منتج ہوتی ہے۔
علم کے حصول کا دوسرا راستہ وحی الٰہی پر مبنی مذہب کی صورت میں ہوتا ہے۔ سائنسی میدان میں اس کی حقیقت تجربہ کی بنیاد پر آشکار ہوتی ہے جس سے تمام سائنسدان بخوبی آگاہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے سیارے موجودہیں جو بعید ترین اُفق سے بھی اتنے دور ہیں کہ فلک بینی کے جدید ترین آلات سے ہی انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ سیارے بہت زیادہ لمبے عرصے کے بعد بعید ترین اُفق پر صرف کچھ لمحات کے لیےظاہر ہوتے ہیں تو فلک بینی کے جدید آلات دیکھنے کی بے پایاں صلاحیت اور ہر زاویے سے نظر رکھنے کی بھرپور طاقت کے باوجود صرف قلیل مدت کے لیے ہی سیارے کو دیکھ پاتے ہیں وہ بھی صرف اس صورت میں کہ جب وہ سیارے اپنے اختیار سے خود کو معلوم سے نامعلوم مقام میں منتقل کررہے ہوتے ہیں، پھر جیسے ہی وہ نظر آتے ہیں دوبارہ نامعلوم مقام پر منتقل ہوکر غائب ہوجاتے ہیں۔ ان سیاروں کو صرف انہیں آلات سے نظر جما کر دیکھا جاسکتا ہے جن کی قوت مشاہدہ بالکل کامل ہو جبکہ کم صلاحیت والے دیگر فلک بینی کے آلات صرف اپنی بالادستی یا نام کی بنیاد پر ہی ان کی موجودگی کی توثیق کرسکتے ہیں کیونکہ صرف مشاہدے کے ذریعے ایسے سیاروں کا علم حاصل ہونے کا دعوی ان کے نامعلوم مقام پر منتقل ہوجانے کے بعد صرف قیاس آرائی رہ جاتی ہے۔
ہماری مادی دنیا جو تجرباتی شعور کی دنیا ہے اپنی بے پناہ خصوصیات اور بظاہرانتہائی بڑے حجم کے باوجود نامعلوم اور لامحدود کائنات کا صرف ایک مختصر سا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود یہ دنیا ہماری رہنمائی ایک اہم حقیقت کی طرف کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی تمام اشیاء جو کیفیت اور کمیت یا پھر مقدار میں ہماری اس دنیا سے مختلف اور دور ہیں (یعنی ہمارے لیے ناقابل مشاہدہ اور ناقابل تجربہ ہیں) تو ہمیں ان تمام اشیاء کے متعلق اتنا ہی اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حصول علم کے لیے پہلا طریقہ یعنی کسب،کوشش،مشاہدہ اور تجربہ کے بجائے حقائق کے ادراک کے لیے حصول علم کے اصل اور یقینی ذریعہ وحی کو اہمیت دیں۔(وحی وہ ذریعہ علم ہے جو انسان کی رہنمائی ان ناقابل ادراک اشیاء کی جانب کرتی ہے جہاں تک مادی قوت اور مشاہدہ کے ذریعے انسانی رسائی ناممکن ہے۔)
اسلام وحی پر مبنی ان تمام حقائق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ انہیں قبول کرنے پر بھی زور دیتا ہے ۔ اسلام وجود باری تعالیٰ کی تصدیق کرتا ہے اور برملا اعلان کرتا ہے کہ وہی اللہ ہے جو کائنات کا خالق اور پرورش کرنے والا ہے۔ وہی اللہ ہے جو قادر مطلق، عالم کُل اور ہر شے کا جاننے والا ہے۔ وہی اللہ ہے جو ابتداکی حقیقت کا جاننے والا، قانون دینے والا اور ہر عمل کا جاننے والاہے۔ اس ذات کا علم ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ نہ صرف جاننے والا ہے بلکہ اس نے بنی نوع انسان کو سیدھے راستے پر چلانے اور ان کی بنیادی اور الجھی ہوئی مشکلات کے حل کے لیے وحی نازل فرمائی ہے۔
وحی پر مبنی اس کا پیغام اس مثال سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے جسے سائنسی مباحثے میں بیان کیا گیا ہے۔ الہامی نور انسانیت کے اُفق پر وقتاً فوقتاً ظاہر ہواہےان میں انسان بھی شامل ہیں جیسے آدم ، ابراھیم ، موسیٰ ، عیسیٰ اور ان انوار میں سب سے آخری نور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات مبارک ہے اور ان میں سب سے آخری الہامی کتاب قرآن مجید بھی شامل ہے۔30جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشادِ ربانی ہے:
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ 151 31
جس طرح (منجملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تم میں تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور تمہیں پاک بناتا اور کتاب (یعنی قرآن) اور دانائی سکھاتا ہے، اور ایسی باتیں بتاتا ہے، جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ532
اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا ۔
یہ بات اس حقیقت کی بھی تائید کرتی ہے کہ انسانیت اپنے تجربے اور علم کے ساتھ گمراہی کی گڑہوں میں بھٹک رہی تھی اور انسان خود اپنے بارے میں ، اپنے خالق اور اس کائنات کے بارے میں بے خبر تھا ۔ یہ خدا ہی تھا جس نے انسان کو ہر اس چیز کے بارے میں علم دیا جس سے وہ لاعلم تھا ورنہ انسان کبھی اپنے رب کے بارے میں نہیں جان سکتا تھا۔ اسی علم (وحی )کی بدولت جماعت ِ انبیائے کرام میں تمام انسانوں کے مقابلے میں وہ امتیاز و برتری پیدا ہوجاتی ہے جو ایک کامیاب معاشرہ بننے کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔نیز اس کامیاب معاشرے کی بقاء کے لیے ان کا اخلاق و کردار عام انسانوں کے لیے ایک اسوۂ حسنہ کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ محبوب خدا حضرت محمدمصطفےٰ ﷺکامل اخلاق وکردار کا ارفع و اعلیٰ نمونہ تھے جنہوں نے بنی نوع انسان کے سامنے اسلام کے عملی پہلو وٴں کو اپنے عمل و کردار سے پیش کیا ۔ آپﷺ نے عمدہ اخلاق کی وہ مثال قائم کی جو بلا تفریقِ خطہ و زمانہ آنے والے مسلمانوں کے لیے ہر عہد میں نمونۂ عمل رہی اور جسےہرعہد کے مسلمانوں نے اپناکراس پر عمل کرنے میں فخر محسوس کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے کردار کو فروغ دینے کے لیے سنت ِ رسول ﷺسے حاصل شدہ رہنمائی حکمت عملیوں ، تراکیب اور طریقہ کار سے بھری ہوئی ہے۔33
جب حضرت محمد ﷺمکّہ مکّرمہ میں تھے اس وقت آپ ﷺنے بذات خود ہجرت سے قبل یثرب میں حضرت مصعب بن عمیر کو بطور معلم بنا کر بھیجا تھا۔ ہجرت کے فورا ًبعد آپ ﷺنے دفاعی اور احتیاطی تدابیر میں بے حد مشغولیت کے باوجود مدینہ سے ناخواندگی ختم کرنے کے امورکی نگرانی کے لیے وقت نکالا تھا۔آپ ﷺنے حضرت سعید ابن العاص کو پڑھنے اور لکھنے کی تعلیم دینے کے لیے مقرر فرمایا جو خوشخطی و کتابت میں شہرت رکھتے تھے۔ آنحضرتﷺکو اس معاملہ میں اتنی دلچسپی تھی کہ ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد جب بدر میں فتح ہوئی اور اہل ِ مکّہ کے متعددافراد قیدی بنا لیے گئے تو آپ ﷺنے ان میں سے جو خواندہ تھے ان سےفرمایا کہ ان میں سے ہر ایک فرد مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے تو اسے آزاد کر دیا جائے گا۔
حضرت محمد ﷺنے صفّہ نامی تعلیمی ادارہ قائم کیا جودر حقیقت ایک مکان کامتعلقہ حصہ تھا اور مدینہ منوّرہ میں مسجد نبوی سے منسلک ایک احاطہ تھا۔34یہ نوواردوں اوران مقامی لوگوں کی رہائش کے لیے مختص کیا گیا تھا جو مسکین و نادار ہونے کے سبب اپنے ذاتی گھر کی استطاعت نہیں رکھتےتھے۔ یہ ایک باقاعدہ رہائشی درس گاہ تھی جہاں پڑھنا ،لکھنا ، اسلامی قانون، قرآن مجید حفظ کرنا، تجوید (قرآن کو صحیح طور پر تلاوت کرنے کا طریقہ) اور دیگرمتعلقہ اسلامی علوم پیغمبر ِاکرمﷺ کی براہ راست نگرانی میں سکھائے جاتے تھے۔ آپﷺ نے یہاں مقیم افراد کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں دشواری کا بھی سامنا کیا۔ان ضروریات میں کھانے پینے اور رہائش سمیت روزمرہ کی دیگر ضروریات شامل تھیں۔35 طلبا فارغ اوقات میں کام کرکے گزر بسر کے لیے کوئی ذریعۂ روزگار بھی تلاش کر لیتے تھے۔
صفہ کی اس درس گاہ نے نہ صرف یہاں مقیم طلبا کو تعلیم فراہم کی بلکہ صرف دن ہی دن میں تعلیم حاصل کر کے گھر لوٹ جانے والے (Day Scholars) اور غیر رسمی طور پر آنے والے طلبا کی ایک بڑی تعداد بھی اس کے ثمرات سے مستفید ہوئی۔ صفہ کی درسگاہ میں مقیم طلبا کی تعداد وقتاً فوقتاً مختلف ہوتی رہی اور ایک ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک وقت میں صفہ میں 70 کے قریب طلبا رہائش پذیر تھے 36 جو اس وقت علاقےاوراس زمانے کی صورتحال اور نوزائیدہ مسلم ریاست کے حالات کے مطابق ایک بڑی تعداد تھی۔مقامی آبادی کے علاوہ دور دراز قبائل کے طلبا کے گروہ وہاں آتے ، کچھ عرصہ قیام کرتے ، اپنا درسی نصاب مکمل کرتے اور اپنے وطن لوٹ جاتے تھے۔ اکثر اوقات حضور اکرم ﷺاپنے کچھ تربیت یافتہ ساتھیوں سے کہتے کہ وہ ان قبائلی وفود کے ساتھ سفر کر کے ان کے علاقوں میں جائیں ، وہاں تعلیم کے نظام کو منظم کریں اور اپنا کام مکمل کرنے کے بعد مدینہ واپس لوٹ کر آئیں ۔
مختلف قبائل اور علاقوں کی طرف اساتذہ کی روانگی پوری مدنی زندگی میں حضوراکرم ﷺکی تعلیمی پالیسی کا حصہ رہا۔اس سلسلےمیں بیئرمعونہ کے واقعے کی مثال بھی بہت اہم ہے جہاں آپ ﷺنے اپنے 70 بہترین اساتذۂ قرآن کو روانہ فرمایا تھا۔اتنی بڑی تعداد کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک وسیع و عریض خطے اور ایک بہت بڑے قبیلے کو تعلیم دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ طلبا کی جماعتوں اور گروہوں کی آمد بھی اکثر ہوتی رہتی تھی۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ذاتی طور پر صفہ کی درس گاہ اور وہاں کے قیام و طعام اور دیگر ضروریات کی فراہمی میں دلچسپی لی جہاں عموما ًمقامی اور غیر مقامی طلبا مقیم رہتے تھے۔
صفہ مدینہ منوّرہ کی واحددرس گاہ نہیں تھی بلکہ نہ صرف تمام مساجد میں درس گاہیں موجود تھیں بلکہ صحابۂ کرام نجی طور پر بھی تعلیم دیتے تھے ۔ رحمت ِ دو عالم ﷺکے زمانۂ اقدس میں مدینہ منوّرہ کی کم از کم9 مساجد کا تذکرہ کتب تاریخ و سیر ت میں محفوظ ہےجن میں سے ہرایک عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ درس گاہ بھی تھی۔ مقامی لوگ اپنے بچوں کو بغرض ِ تعلیم و تربیت ان مقامی مساجد میں بھیجا کرتے تھے۔ قبا، مدینہ سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں حضرت محمدﷺبعض اوقات ذاتی طور پر تشریف لے جا تے اور درس گاہ کی نگرانی فرماتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو اپنے ہمسایوں سے سیکھنے کی بھی ہدایت فرمائی۔
آپ ﷺذاتی طور پر بھی درس دیا کرتے تھے اور بہت سے مشہور صحابۂ کرام باقاعدگی سے ان اسباق میں شریک ہوتے اور قرآن مجید اور آپﷺ کی تعلیمات سیکھتے تھے۔ کبھی کبھی آپ ﷺاپنی مسجد میں مطالعاتی دائروں کا معائنہ بھی فرماتے تھے اوراگر وہ کوئی غلطی پاتے تو فوراًہی اسے درست کرنے کے اقدامات فرماتےتھے۔ 37 معلم ِ انسانیت حضرت محمدمصطفے ٰ ﷺنے جن طریقوں سے تعلیم فرمائی ان میں سے کچھ طریقے ذیل میں دئیےگئے ہیں:
آج کے دور کی جدید درسگاہوں میں درس و تدریس اور تعلیم و تعلّم کے سلسلے میں جن قواعد، قوانین، اصول و ضوابط، نفسیاتی اصولوں اور حکمتِ عملیوں کی پیروی کی جاتی ہے ان سب کی اساس انسانیت کے سب سے بڑے ماہر تعلیم،معلم انسانیت حضرت محمد ﷺکی حیات ِ طیبہ اور دین ِ اسلام کی تعلیم،تبلیغ اور ترویج و اشاعت کے دوران اختیار کیے گئے منہاج رسالت ﷺمیں موجود ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے ،پھر ایک شخص داخل ہوا،پس اس نے نماز پڑھی ،پھر نبی ﷺ کو سلام کیا ،پس آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا :لوٹ جاؤ،پھر نماز پڑھوکیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ،سو وہ لوٹ گیا ،پھر اس نے اس طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے نماز پڑھی تھی پھر نبی ﷺ کو سلام کیا ،آپ ﷺ نے فرمایا :لوٹ جاؤ،پس نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ،یہ تین مرتبہ ہوا ،پھر اس شخص نے کہا :اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ! میں اس سے بہتر طریقہ سے نماز نہیں پڑھ سکتا ،سو آپ مجھے تعلیم دیجیے ،پس آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم نماز کی طرف کھڑے ہو ،پس اللہ اکبر کہو ،پھر تم جتنا قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اتنا قرآن پڑھو،پھر تم رکوع کرو حتی کہ تم اطمینان سے رکوع کرو پھر رکوع سے سراٹھاؤحتی کہ تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر تم سجدہ کرو حتی کہ تم اطمینان سے سجدہ کرو ،پھر تم سجدہ سے سر اٹھاؤحتی کہ تم اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو ۔ 38
حضرت محمد ﷺایسے سوالات بھی صحابۂ کرام کے سامنے رکھ دیتے تھے جن کے جوابات وہ خود فراہم نہیں کرتے تھے تا کہ وہ اپنے صحابہ کے علم اور ذہانت کی جانچ کرسکیں۔
حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :بے شک درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہےجس کے پتے نہیں گرتے اور بے شک وہ مسلمان کی مثل ہے (پس مجھے بتاؤ) وہ کون سا درخت ہے ؟لوگوں کا ذہن جنگل کے درختوں میں چلا گیا ،حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا :میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن مجھے (بتانے سے ) حیاء آئی پھر صحابہ نے کہا :یا رسول اللہ ! (ہمیں بتائیے)وہ کونسا درخت ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا :وہ کھجور کا درخت ہے ۔39
پوری دنیا کے کلاس رومز میں اساتذہ کا ایک عام معمول ہے کہ وہ پڑھائی میں اچھے طلبہ کو کمزور طلبا سے الگ کردیتے ہیں ۔کمزور طلبا کو کند ذہن جبکہ تھوڑے ہوشیار طلبہ کو ذہین قرار دے دیا جاتا ہے۔ کمزور طلبا کو کم مشکل درجےکی کلاسوں کو تفویض کر دیا جاتا ہے جہاں ذہنی صلاحیتوں کی پرورش اور نشونما کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا جبکہ ہوشیار طلبہ کو ذہنی صلاحیتوں اور کارکردگی کو نکھارنے کا ہر موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم آپ ﷺنے ذہانت کی سطح، معاشرتی حیثیت یا کسی اور ایسی درجہ بندی کی بنیاد پر طلبا میں فرق نہیں فرمایا جو معاشرے میں تفریق پیدا کرنے کا باعث ہو۔ آپﷺنے کبھی بھی کسی کو دین اسلام سے خارج یا بے دخل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک ایسا پیغام پہنچایا جو پوری انسانیت کا احاطہ کرتاہے۔ 40
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عثمان غنی جیسے صاحب ِ ثروت صحابہ بھی اسی مجلس میں موجود ہوتے جہاں حضرت ابوہریرہ اور حضرت بلال بیٹھتے تھے جو نبئ رحمت ﷺکی مجلس میں برابری و مساوات کی واضح علامت ہے۔ آپ ﷺکی بارگاہ ِ بے کس پناہ میں ذات پات ،نظر یہ و مسلک، مالی و سماجی حیثیت اور ذہنی و علمی سطح کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔
آموزش کے عمل میں دلچسپی پیدا کرنے کا سب سے پُر اثر طریقہ جدید طریقۂ تعلیم میں بھی یہی ہے کہ طلباکے مثبت اقدام کو سراہا جائے اور انہیں انعام و اکرام اور داد و تحسین سے نوازا جائے۔عموماً زیادہ تر لوگ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے اور اُن سے الفت کا برتاوٴ کیا جائے۔ آموزش کے عمل میں لوگ اساتذہ کی تعریف اور منظوری سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں اس میں سے کیا ٹھیک اور کیا غلط ہے اور ان کی کارکردگی کا معیار کیا ہے۔ آپﷺ نے بھی اچھے افعال کی نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ انعام سے بھی نوازا تاکہ لوگوں کو اچھے اور پسندیدہ کام کرنے کی زیادہ ترغیب مل سکے۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں :
ایک دن میں نے ایک برتن میں پانی تیار کیا تاکہ نبی اکرمﷺوضو کر سکیں۔ جب آپ ﷺنے برتن کو دیکھا تو پوچھا کہ اسے کس نے تیار کیا ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں نے اسے تیار کیا ہے تو میرے لیے دعا کی اے اللہ! اس کے دینی فہم اور سمجھ بوجھ میں برکت عطا فرما ۔ 41
طلبا کو استعارات اور تمثیلات کے ذریعے جامع انداز سے موضوع اور اس کی امثلہ کی تفہیم کرا دینا ایک اچھاطریقۂ تدریس ہے۔ استعارہ یا تخیل کی مدد سے دی گئی معلومات ذہن کے لیے مزید قابل دید ہوجاتی ہیں اور انہیں زیادہ دیر تک ذہن نشین رکھا جا سکتا ہے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے آپﷺنے تمثیل و استعارہ کے ذریعےنماز کی اہمیت کو اجاگر کیا:
تم کیا کہو گے اگر کسی آدمی کے گھر کے سامنے کوئی ندی ہوتی اور وہ دن میں پانچ بار اس میں نہاتا ، تو کیا وہ گندہ ہی رہتا؟ وہاں موجود لوگوں نے جواب دیا، نہیں ، اس آدمی پر کوئی گندگی باقی نہیں رہے گی۔ اس پر حضرت محمد ﷺنے فرمایا ،یہی معاملہ روزانہ کی پانچ نمازوں کاہے۔ اللہ تعالی ان کے ذریعہ سے گناہوں کو پاک کرتا ہے۔ 42
درس و تدریس کا ایک نہایت موثر طریقہ عمل کے ذریعہ تعلیم دینا ہے۔ لوگوں کو جو کچھ عملی طور پر سکھایا جاتا ہے وہ اسے نہیں بھولتے۔ آپ ﷺبھی عملی طور پر صحابہ کرام کو کثیراعمال سکھایا کرتے تھے جیسا کہ سنن ابی داؤد کی روایت میں مذکور ہے کہ:
آپ ﷺنے ایک لڑکے کو دیکھا جو ذبح کرنے کے بعد بھیڑ کی کھال اتار رہا تھا تب آپ ﷺنے اس سے فرمایا:آوٴ میں تمہیں سکھاتا ہوں ۔ آپ ﷺنے اپنا ہاتھ بھیڑ کی کھال اور گوشت کے درمیان رکھا اور اسے اتارنا شروع کیا یہاں تک کے بھیڑکی بغل تک پہنچ گئے تب آپ ﷺنے فرمایا: اس طرح کھال اتارو جوان!43
اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن میں آپ ﷺنے اپنے اردگرد موجود افراد کو عملی مثالوں کے ذریعے تعلیم دی ۔مثلاً نماز پڑھنے اور وضو وغیرہ کی تعلیم عملی مثالوں کے ذریعے ہی دی گئی۔اسی طرح آپ ﷺاپنے تربیت یافتہ پیروکاروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ وہ عملی مظاہرہ کرکے دوسروں کی رہنمائی کریں۔
آپ ﷺنے تعلیم دینے کے لیے مختلف فنی طریقۂ کار کا استعمال بھی کیاہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺایک مربع خط بنایا اور اس کے درمیان میں ایک خط بنایا جو مربع سے خارج تھا اور اس مربع کے وسط میں چھوٹے چھوٹے خطوط بنائے مربع کی جانب سے وسط میں ،آپﷺ نے فرمایا :یہ انسان ہے اور یہ اس کی اجل (موت ) اس کا احاطہ کرنے والی ہے یا فرمایا :اس کا احاطہ کر چکی ہے اور یہ خط جو اس مربع سے خارج ہے یہ اس کی امید ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے اعراض (دنیاوی مشکلات ) ہیں اگر وہ مشکل سے نکل جائے تو دوسری مشکل اس کو ڈس لیتی ہے اور اگر وہ اس سے نکل جائے تو یہ مشکل اس کو ڈس لیتی ہے ۔ 44
آپﷺ کا عمومی طریقہ تھا کہ آپ ﷺ ذہین و فطین اشخاص کو ہی تبلیغ دین کی خدمت سر انجام دینے کے لیے مامور فرمایا کرتے تھے ۔ان افراد میں عموماً کسی علاقے، قبیلے یا قصبے کےسربراہ شامل ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ حصولِ علم اورسرکاری درس گاہوں کے امتحانات میں کامیابی کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرنےلگے ۔ یہ کوششیں نہایت ثمر آور ثابت ہوئیں اور خواندگی اتنی تیزی سے پھیل گئی کہ ہجرت کے کچھ عرصے کے بعدہی قرآن مجید میں ہر سودے کے متعلق تحریری دستاویزات تیار کرنے کا استحبابی حکم دیا گیا جن میں کم سے کم دو افراد کی تصدیق لازمی تھی، چاہے وہ معاملہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اس حکم کا نفاذ مسلم ریاست کے باشندوں میں خواندگی کے بڑے پھیلاؤ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔وحی کی کتابت،سیاسی معاہدات اور ریاستی خط و کتابت، فوج کے اندراج، مستقل نمائندگی خاص طور پر مکّہ میں ، صوبوں اور ریاستوں میں رونما ہونے والےواقعات سے مرکزی حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے، مردم شماری کے لیے اور اس طرح کی بہت سے امور کا براہ ِ راست تعلق لکھنے پڑھنے اور خواندگی کی وسیع پیمانے پر توسیع سے تھا۔ تاریخ میں حضور اکرم ﷺ کے 200 سے زیادہ خطوط کا تذکرہ موجود ہے تاہم تب سے اب تک بہت سے خطوط ضائع بھی ہو چکے ہیں ۔
آپ ﷺ نے عرب میں سب سے پہلے مُہر متعارف کرائی ۔ ان مہروں کے آسانی سے پڑھے جانے کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کاغذ کو لپیٹنے سے پہلے اس کی سیاہی کو دھول کے استعمال سے خشک کروتاکہ تم حرف" س" کے تین منحنی شوشوں کو مِٹا نہ دواور اس کے ساتھ ساتھ تحریر پر قلم کا ایک بھی اضافی نشان یا نقطہ بھی نہیں ہونا چاہیے کیو نکہ اس سے دورانِ تحریر کاتب کی لاپرواہی اور کاہلی ظاہر ہوتی ہے۔ اچھا یہ ہے کہ تحریر کے وقفوں کے دوران کان پر قلم ڈال لینا چاہیے کیونکہ یہ لکھوانے والے کے لیے زیادہ یاد دہانی ہے۔ 45
حضور ﷺ قرآن مجید سیکھنے والوں کو کسی ایسے شخص کے پاس جانے کی ترغیب دلاتے تھے جو اس میں مہارت رکھتا ہو۔ اسی طرح ریاضی اور دیگر مضامین کے سیکھنے والوں کے لیے بھی یہی طریقۂ کارتھا کہ انہیں بھی اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ین کے پاس تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔متعدد روایات میں اساتذہ کو کسی بھی قسم کا معاوضہ قبول کرنے سے منع کیا گیا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ استاد کو انعام و اکرام یا تحائف دینے کا سلسلہ عہدِ قدیم سے رائج تھا۔ حضرت عبادہ بن الصامت کا بیان ہے کہ انہوں نے صفہ کی درسگاہ میں قرآن اور فن تحریر کی تعلیم دی اور شاگردوں میں سے ایک نے انہیں کمان پیش کی۔ تاہم حضرت محمد ﷺ نے انہیں طلبا کے تحفے قبول نہ کرنے کا حکم دیا۔
ریاست کے سربراہ کی حیثیت سےحضور ﷺ کو غیر ملکی زبان جاننے والوں کی خدمات کی ضرورت تھی۔اس حوالے سے حضرت زید بن ثابت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ نبی اکرم ﷺ کے مرکزی کاتب ، فارسی ، یونانی ، ایتھوپیائی اور ارمائک سیکھنے کے لیے مشہور تھے اور حضرت محمدﷺکےحکم پر آپ نے کچھ ہفتوں میں عبرانی رسم الخط بھی سیکھ لیاتھا۔ آپ ہی نے حضور ِ اکرم ﷺ کی طرف سے یہود کو خطوط لکھے اور ان کی طرف سے موصول ہونے والے خطوط نبئ رحمت ﷺ کوپڑھ کر بھی سنائے ۔ 46
اسلام کے اوائل میں نصاب کے بجائے اساتذہ ہی بنیادی عنصر تھےمگر بعد میں قرآن و حدیث کو بحیثیت نصاب بھی پڑھایا جانے لگا۔ قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کے علاوہ پیغمبر اسلام ﷺ نے نیزہ بازی ، تیر اندازی ، تیراکی ، قرآنی تناسب میں وراثت کی تقسیم، ریاضیات کے مضامین، فلکیات،علم النسب اور تلاوتِ قرآن کے لیے عملی صوتیات کی تعلیم بھی فرمائی۔ اسلامی نظام تعلیم میں استاد کے اعلیٰ مرتبے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی جاتی تھی۔
مکّہ کے باشندےعرب زبان کو خالص رکھنے اور بچوں کی اچھی صحت کے لیے صحرائی زندگی پربہت زور دیتےتھے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ شہری زندگی برائیوں اور آلائشوں سے پُر ہے لہذا دیہات میں بچوں کی نشونما اچھی ہوگی۔چنانچہ وہ اپنے نومولود بچوں کو کئی سال کےلیے ملک کے اندرونی حصے میں مختلف قبائل کے پاس بھیج دیتے تھے۔ آپ ﷺ خود بھی اس مفید تربیت سے گزرےتھے اور اپنی بعد کی زندگی میں اسے یاد بھی رکھا تھا۔ چونکہ مکّہ کے باشندوں کا بنیادی پیشہ تجارت تھا اس لیے وہاں قافلوں کے رہنماؤں اور قائدین کے پاس نوجوانوں کو تجارت کی تربیت کے لیے چھوڑا جاتا تھا۔
ان ابتدائی دنوں میں بھی بچوں اور بڑوں کی تعلیم کے درمیان کچھ فرق موجود تھا۔ بچوں پرتیر اندازی اور تیراکی سیکھنا لازمی تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سات سال کے لڑکوں کو یہ سکھانا چاہیئےکہ نماز کس طرح ادا کی جاتی ہے اور دس سال کی عمر میں پہنچ کر بھی بچہ اس کو نظرانداز کرے تو انہیں نماز کی ادائیگی پرمجبور کیا جائے۔ 47
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ اسلام نے لڑکے اور لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا تھا۔48 تاہم لڑکیوں کو الگ سے تعلیم دی جاتی تھی۔ حضرت محمد ﷺ نے الگ سے ایک خاص دن مقرر کیاہوا تھا جب وہ خواتین کوخصوصی طور پر درس دیتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتےتھے۔ 49 سُوت کاتنے کو آپ ﷺ نے عورتوں کا خاص پیشہ قراردیا تھا ۔ یعنی خواتین کے لیے اس وقت اور بعد کے ادوار میں تکنیکی تعلیم (Technical Education) کی کوئی ممانعت نہ تھی بلکہ ایسی خواتین جو بوجوہ معاشی خود کفالت کے لیے کوئی ہنر یا فن سیکھنا چاہے ‘ اسلامی ریاست کو اس کی بھرپور سرپرستی کرکے اسے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں مدد دینی چاہیئے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک بیوی کو لکھنے کا فن سکھانے کا کہا۔ یعنی آج کے دور میں کمپوزنگ (Composing)یا ڈیزائننگ (Designing)سمیت وہ تمام علوم و فنون کا حصول جو خواتین کے لیے علمی و عملی طور پر فائدہ کا باعث ہو، اس کی بھرپور اجازت تھی۔ حضرت عائشہ کو ادب، شاعری اور طب کے علاوہ اسلامی فقہ اور دیگر مذہبی علوم میں اتنی مہارت تھی کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا کہ آپ نے نصف انسانی علوم میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ یعنی آج اگر کوئی خاتون صحافی، ڈاکٹر، شاعرہ، اور قانون دان بننا چاہے تو اسلام کے معاشرتی نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے وہ تمام شعبے اختیار کرسکتی ہے۔ البتہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پڑھی لکھی مسلمان عورت کو قرآن پڑھنے اور کسی حد تک اس کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ شریعت کے حلت و حرمت کے احکام سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ مسلمان عورت صرف ڈاکٹر نہیں ہوتی بلکہ وہ مسلمان ڈاکٹر ہوتی ہے، اسی طرح وہ مسلمان صحافی، مسلمان شاعرہ، مسلمان ادیبہ اور مسلمان قانون دان ہوتی ہے۔قرآن مجید نے حضورﷺ کی ازواجِ مطہرات کو خصوصی طور پر یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ دیگر خواتین کو تعلیم دیں 50 تاکہ معاشرے کی تمام خواتین تعلیم یافتہ ہوجائیں۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں غلاموں کو تعلیم فراہم کرنا ضروری ہے اور انہیں آزاد کرنا ایک نیکی ہے۔ حضور اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: " ثلاثة لھم أجران: منھم رجل كانت عنده أمة فأدبھا فأحسن تأديبھا، وعلمھا فأحسن تعليمھا، ثم أعتقھا فتزوجھا فله أجران.51
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تین (قسم کے ) لوگوں کے لیے دو اجر ہیں ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کے پاس ایک باندی تھی ،اس نے اس کو ادب سکھایا تو اچھا ادب سکھایا اور اس کو تعلیم دی تو اچھی تعلیم دی پھر اس کو آزاد کر دیا پھر اس سے نکاح کر لیا تو اس کو دو اجر ملیں گے ۔
اس حدیث میں تعلیم کے حوالے سے اسلام کے بنیادی نظریہ کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ ہر فرد کو تعلیم دی جائے چاہے وہ غلام ہی کیوں نہ ہو نیز دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگوں کو غلامی کے خاتمے کے لیے بغیر کوئی قیمت لیے یا کوئی اور فائدہ اٹھائے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے ۔
آہستہ آہستہ مسلم ریاست جو شروع میں صرف مدینہ شہر کے ایک حصے پر مشتمل تھی، بڑھ کر جزیرہ عرب کے وسیع رقبہ تک پھیل گئی ۔ نہ صرف خانہ بدوش قبائل بلکہ مستقل قصبوں اور شہروں کے باشندوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ اسلامی عقیدےکو قبول کرنے کی وجہ سے وسیع پیمانے پرتعلیمی خدمات کی ضرورت تھی کیونکہ آپﷺ اور بعد میں خلفائے راشدین کے زمانے میں مسلمانوں کے زیرِ اثر علاقہ دس لاکھ مربع میل تک پھیل گیا تھا۔اس لیے اساتذہ کو مدینہ منوّرہ سے اہم مراکز میں بھیجا جاتاتھا اور صوبائی گورنر وں کو مقامی درس گاہوں کی تنظیم اور کنٹرول کا ذمہ دار بنایا گیا تھاتاکہ وہ صحابہ کرام کو احسن طریقے سے میدان تعلیم میں اتار کر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک علم دین اور اسلام کی تعلیمات پہنچا سکیں۔
تاریخی ریکارڈ میں وہ فرائض محفوظ ہیں جو حضرت عمرو بن حزم کو یمن کے گورنر کی حیثیت سے تفویض کیےگئے تھے۔ ان میں مسلم علوم، قرآن وحدیث اور فقہی علم کے پھیلاؤ کے لیے واضح ہدایات تھیں۔ روزانہ وضو ، ہفتہ وار غسل، اجتماعی عبادات، سالانہ روزہ اور کعبہ کی زیارت کے بارے میں تعلیم دینا بھی گورنر کی ذمہ داریوں میں شامل تھا جسے وہ بحسن و خوبی سر انجام دینے کا پابند تھا ۔
صوبائی تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے لیے حضوراکرم ﷺ نے یمن میں تعلیم کا ایک انسپکٹر جنرل مقرر فرمایا تھاجو مختلف اضلاع اور صوبوں کا دورہ کرتا اور اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔52 اس طرح تعلیم کو دور دراز تک پھیلایا گیا اور کارکردگی کی بھی کڑی نگرانی کی گئی۔
قرآن جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اس میں اندھی تقلیدکی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن غور و خوض کرنے اور ذاتی تفتیش پر زور دیتا ہے۔ دنیا کی کسی اور مذہبی کتاب نے قدرتی مظاہر ، سورج ، چاند ، مدوجزر ، ڈھلتی ہوئی شب، طلوع ہوتے ہوئے دن، چمکتے ہوئے ستاروں، اور پودوں اور جانوروں کی زندگی کے مطالعہ پر اتنا زور نہیں دیا جتنا قرآن نے دیا ہے اور نہ ہی ان سب کو قدرت کے قوانین کی شہادت اور خالق کی طاقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ قرآن کے مطابق علم لامتناہی ہے اور پوری کائنات انسان کے تابع کردی گئی ہے جو اس دنیا میں اللہ کا نمائندہ ہے۔
حدیث میں بھی حصول ِ علم کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اور علماکو انسانوں میں سے بہترین اوریہاں تک کہ انبیاءکا وارث اور جانشین بھی قرار دیا ہے۔ 53 لہذا اسلامی ریاست میں تعلیم کا اصل مقصد انسان کو اپنی ذات کی حقیقی ترقی کے لیے اپنے اندرنظم و ضبط پیدا کرنا ہے۔ اس تناظر میں اسے اللہ کی مرضی کے تابع ہونے کے خدائی احکام کو قبول کرنا ہے اور نظم و ضبط کو اختیار کرنا ہے ۔یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اس میں عاجزی و انکساری رچی ہوئی ہو۔ اسلامی تہذیب میں طالب علم کواپنی پوری صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سچ اور جھوٹ، اچھے اور برے اور صحیح و غلط کے درمیان فرق کرنے کے لیےتربیت دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی روحانی وسائل اور ترغیبات بھی فراہم کیےجاتے ہیں جن کے ذریعے وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے محنت کرتاہےجن کی بدولت نچلے درجے کی خواہشات (جنہیں حیوانی محرکات خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں)کی تسکین کے بجائے اطاعت الٰہی کا عنصر غالب آتا ہے۔ 54
اسلامی تہذیب میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے ہر فرد کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر تہذیبوں میں تعلیم کو صرف صاحب ِ ثروت لوگوں کی ایک آسائش بنا دیا گیا تھا۔یہ صرف ان لوگوں کے لیے دستیاب تھی جو اس کو خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامی نظام میں تعلیم صرف ایک مخصوص علاقے تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اسے دور دور تک پھیلایا گیا تاکہ پوری انسانیت اس سے مستفید ہوسکے۔ اسلامی تعلیمی نظام کی وجہ سے جن علاقوں میں تعلیم کم تھی یا ناپید تھی وہ علاقے بھی علم کے مراکز بن گئے تھے۔ اس تہذیب میں امیر ، غریب ، خواتین اور غلاموں سب کے لیے ایک ہی معیارِ تعلیم دیا گیا تھا ۔اسی وجہ سے ریاست مدینہ نے بہت تیزی سے ترقی کی۔اس سے غربت ، جرائم اور دیگر معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہوا۔ مزید یہ کہ اسلامی تہذیب کی مستقل حوصلہ افزائی ہی تھی کہ سائنس اور دیگر شعبوں میں زبردست کامیابیاں حاصل کی گئیں جن کے ثمرات سے پوری انسانیت بہرہ مند ہوئی تھیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ سب سے منفرد بات جو اسلامی تہذیب کے نظامِ تعلیم میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی طریقۂ تعلیم آج بھی اتنا ہی کارگر اور مفید ہے جتنا کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے تھا اور جو بھی جدید تھیوریز (Theories) آج تعلیمی میدان میں پیش کی جا رہی ہیں ان کی اصل اور بنیاد ہمیں رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ تعلیم اور اسلامی نظام ِ تعلیم میں واضح نظر آتی ہیں جو اسلام اور حضورﷺکی نبوت کی ابدیت اور دائمیت کا بیّن ثبوت ہے۔ کیونکہ جدید انگریزی نام رکھنے سے درس و تدریس کے اصول نہیں بدل سکتے اور اسلامی تہذیب نے انسانیت کو اساس اور بنیاد فراہم کی ہے جو قیامت تک معلم اور متعلم دونوں کے لیے کافی و شافی ہے ۔