Encyclopedia of Muhammad

اہل عرب کی فراست و ذہانت

عربوں کا ذ ہن نہایت تیز اور حافظہ بے حد قوی تھا ،ان کے شعر اءاپنے مضبوط حافظہ کی بنیاد پرطویل قصیدں کو زبانی پڑھا کرتے تھے ۔اس قوی حافظہ کاسبب منجملہ اسباب کے یہ تھا کہ ان کی فکری قوتیں اور فطری صلاحتیں خیالی فلسفوں اور منطقی قیل و قال میں ضائع نہیں ہوئی تھیں ۔ اہل عرب کی فراست و ذہانت عدیم النظیر تھی۔ مؤ رخین نے بے شمار ایسے واقعات اپنی کتابوں میں تحریر کیے ہیں جن سے ان کی فراست و ذہانت کا بخوبی علم ہوتا ہے ۔ان واقعات کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اہل عرب کی قوت حافظہ انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی اور ساتھ ہی ساتھ فراست وذہانت بھی اعلیٰ ترین تھی۔

قتل کا معمہ

ایک امیرشخص اپنے دو غلاموں کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوا ۔ جب آدھے راستے میں پہنچے تو غلاموں نے اپنے مالک کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کو مالک بھی بھانپ گیا۔مالک نےدونوں غلاموں سے کہا کہ اگر تم مجھے قتل کرنے کا عزمِ مصمم کرچکے ہو تو میرے گھر جاکر میری دو نوں بچیوں کو یہ شعرسنادینا، ان کےمعلوم کرنے پر مالک نے درج ذیل شعر پڑھا :

  من مبلغ الحيين أن مهلهلاً
لله دركما ودر أبيكما.1

ان دونوں غلاموں نے جب یہ سنا تو ایک دوسرے کو کہا کہ اس میں کوئی خطرے کی بات نہیں، یہ بے ضرر سا شعرہے ، جس سے اس کی آخری حسرت بھی پوری ہو جائے گی اور ہمیں بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ جب وہ واپس لوٹیں گے تو اس کے گھر جا کر اس کی بیٹیوں کو اس کی طرف سے یہ شعر سنادیں گے۔جب وہ سفر سے واپس لوٹے تو حسب وعدہ اس کے گھر گئے، اس کی بڑی لڑکی سے ملاقات کی اور کہا تمہارے والد کو اس چیز نے آلیا جس سے کسی کو مفر نہیں یعنی موت۔ اس نے ہم سے عہد لیا تھا کہ جب ہم واپس آئیں تو تمہیں اس کا یہ شعر سنائیں چنانچہ انہوں نے یہ شعر پڑھ کر اس کی بڑی لڑکی کو سنایا۔ بڑی لڑکی نے کہا، اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے باپ مجھے آگاہ کر نا چاہتا تھا لیکن تم ذرا صبر کرو، میں اپنی چھوٹی بہن کو بلا لاؤں ۔ وہ اس کو بلا کر لے آئی، اسے واقعہ بھی بتایا اور شعر بھی پڑھ کر سنایا۔ اشعار کا سننا تھا کہ سنتے ہی اس نے اپنی اوڑھنی اتاری اور آہ و فغاں شروع کر دی۔

اس نے کہا: اے گروہ عرب! ان دونوں نے میرے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے؟ وہ کہنے لگی اس شعر کے دونوں مصرعے نا مکمل ہیں۔ دونوں مصرعے دوسرے مصرعےکے محتاج ہیں۔ اس شعر میں پہلے اور دوسرے مصرع میں کوئی مناسبت نہیں ، در حقیقت یہ دو شعر ہیں۔ اس شعر میں دونوں شعروں کا ایک ایک مصرع مذکور ہے اور دوسرا مصرع مقدر ہے۔ انہوں نے پو چھا یہ شعر کیسے ہونے چاہئیں ؟ اس نے کہا پہلا شعر یوں ہونا چاہیے:

  من مبلغ الحيين أن مهلهلا
أمسى قتيلا بالفلاة مجندلا
لله دركما و در أبيكما
لا يبرح العبدان حتى يقتلا.2
  کون شخص ہے جو میری دونوں زندہ بچیوں کو اطلاع دے کہ ان کا باپ مہلہل قتل کر دیا گیا ہے اور اس کی لاش جنگل میں مٹی سے آلودہ پڑی ہوئی ہے؟ اے بچیو!تم دونوں کی خوبیاں اور تمہارے باپ کی خوبیاں الله کے لیے ہیں۔ ان غلاموں کو ہر گز نہ چھوڑا جائے یہاں تک کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ 3

یہ سن کر لوگوں نے غلاموں سے تفتیش کی جس وجہ سے انہوں نے قتل کا اعتراف کرلیااور بطورِ قصاص ان دونوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔4اس واقعہ سے عرب قوم کی فراست و ذہانت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک کم عمر بچی نے غیر واضح صورتحال سے اس راز کا پردہ چاک کیا جو جنگل میں دفن کردیا گیاتھانیز اس طرح حقیقت حال کو آشکار کر کے اپنے والد کے قاتلوں سے قصاص بھی لےلیا۔

نادر واقعہ

عرب کی فراست وذہانت کا ایک نادروبےمثال ایسا واقعہ بھی منقول ہے جس کا تعلق حضورﷺکےآباءو اجداد میں سے ایک بزرگ حضرت نزار کی اولادسےہے۔ اسے تاریخ کی نادر کتابوں نے ذکر کیاہےچنانچہ الشجرۃ النبویہ فی نسب خیر البریہ،5اعلام النبوۃ ،6 ,المنتظم فی تاریخ الملوک والامم7اورالکامل فی التاریخ میں معمولی اختلاف کےساتھ درج ذیل واقعہ منقول ہوا ہے:

  وكان لنزار أربعة أولاد: مضر وربيعة وأياد وأنمارلما حضرته الوفاة أوصى بنيه وقسم ماله بينھم فقال: يا بني هذه القبة، وهي من أدم حمراء، وما أشبھها من مالي لمضر فسمي مضر الحمراء، وهذا الخباء الأسود وما أشبھه من مالي لربيعة، وهذه الخادم وما أشبھها من مالي لإياد، وكانت شمطاء، فأخذ البلق والنقد من غنمه، وهذه البدرة والمجلس لأنمار يجلس عليه، فأخذ أنمار ما أصابه، فإن أشكل في ذلك عليكم شي واختلفتم في القسمة فعليكم بالأفعى الجرهمي فقيل لمضر: من أين عرفت الخمر؟ فقال: لأني أصابني عطش شديد وقيل لربيعة فيما قال، فذكر كلاما، وأتاهم الجرهمي وقال: صفوا لي صفتكم، فقصوا عليه قصتھم، فقضى بالقبة الحمراء والدنانير والإبل، وهي حمر، لمضر، وقضى بالخباء الأسود والخيل الدهم لربيعة، وقضى بالخادم، وكانت شمطاء، والماشية البلق لإياد، وقضى بالأرض والدراهم لأنمار.8
  نزار کے چاربیٹے تھے مضر،ربیعہ، ایاداورانمار، جب نزار کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اس نے انہیں وصیت کرتےہوئے کہا: اے میرےبیٹوں! یہ سرخ گنبد(لال کھال کا خیمہ)اور میرےمال میں جوکچھ اس جیساہےمضرکےلیے ہے،اسی لیے مضر الحمراء کہلایا،یہ اونٹوں کی سیاہ پشم (اُون)اورمیرےمال میں جوکچھ اس جیساہےوہ ربیعہ کاہے،یہ خادمہ اورمیرےمال میں جوکچھ اس جیسا ہےایادکاہے(وہ سفیداورسیاہ بالوں والی تھی)پس اس نے اس کی بھیڑبکریوں سے سیاہ دھبوں والی اورنقدی لےلی، دس (10) ہزاردرہم والی تھیلی اورمجلس جس میں وہ بیٹھےگاانمارکاہے۔ پس انمار نے جو اس کے حصہ میں آیا لےلیا، نزار نے کہااگر تم میں اس تقسیم کے بارےمیں کوئی اختلاف ہوتوافعی جرہمی کےپاس چلےجانا۔پس ان کےمابین اختلاف ہوگیااوروہ افعی جرہمی کی جانب روانہ ہوگئے۔ دورانِ سفر مضر نے چری ہوئی گھاس دیکھ کرکہا: بلاشبہ یہ گھاس کانےاونٹ نے چری ہے۔ربیعہ نے کہا: وہ ٹیڑھے سینےوالاہے۔ایادنےکہا: وہ دُم کٹاہے۔انمارنےکہا: وہ بھاگاہواہے۔ابھی وہ سب ذراآگےچلےتھےکہ انہیں ایک آدمی اپنی سواری پرسوار ملااس نے ان سے اپنےاونٹ کےبارےمیں پوچھا تو مضرنے اس سے کہا: کیاوہ کاناہے؟اس نے کہا: ہاں۔ربیعہ نےکہا: کیاوہ ٹیڑھےسینےوالاہے؟اس نےکہا: ہاں۔ایادنےکہا: کیاوہ دُم کٹاہے؟اس نےکہا: ہاں۔انمارنےکہا: کیاوہ بھاگاہواہے؟اس نے کہا: ہاں!یہ تمام میرےاونٹ کی صفات ہیں مجھے اس کےبارےمیں بتاؤ۔انہوں نے قسم کھائی کہ انہوں نے اونٹ نہیں دیکھا۔پس وہ شخص یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمام صفات تو میرےاونٹ کی ہیں ان کے ساتھ چل پڑا۔اب یہ تمام مل کرچل پڑے یہاں تک کہ وہ نجران میں افعی جرہمی تک پہنچے۔اونٹ والےنےجرہمی سے اپنا معاملہ بیان کیا۔جرہمی نے ان سےکہا: تم نے کیسے اس کے اونٹ کی صفات بغیردیکھے بتائیں؟مضرنے کہا: میں نے دیکھاکہ وہ ایک جانب سے گھاس چرتاہےدوسری جانب سےچھوڑدیتاہے، میں سمجھ گیاکہ یہ کاناہے۔ربیعہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ اس کےایک پاؤں کا نشان مکمل اوردوسرےکا ادھوراہےمیں نے جان لیاکہ وہ ٹیڑھےسینے والاہے(جس کی وجہ سے اس کا ایک پاؤں مکمل زمین پرنہیں رکھاجاتا)۔ ایاد نےکہا: میں نے جاناکہ وہ دُم کٹاہےکیونکہ اس کی لید(گوبر)پھیلی ہوئی ہونےکی بجائےمجتمع (اکٹھی)ہےاگر اس کی دُم ہوتی تو گوبردُم کے ہلانے کی وجہ سے مجتمع نہ ہوتا۔انمارنےکہا: میں نے جاناکہ وہ بھاگاہواہے کیونکہ وہ(پکڑےجانےکےخوف سے) کبھی تو گھاس کےجھنڈسےچرتا اورکبھی خراب اورسوکھی جگہ سے چرتا۔ پس جرہمی نےاونٹ والےسےکہا: انہوں نے تیرااونٹ نہیں دیکھاتم کسی اورسےپوچھو۔پھر اس نے ان سےپوچھاوہ کون ہیں؟انہوں نے بتایا کہ وہ کون ہیں،جرہمی نے انہیں خوش آمدیدکہتے ہوئے کہا: تم اس قدر دانشمندہونےکےباوجودبھی میری حاجت محسوس کرتےہو؟اس نے انہیں کھانےکی دعوت دی 9تو انہوں نےخوب کھایاپیا۔مضرنے کہا: میں نے آج جیسی بہترین شراب کبھی نہ دیکھی اگر یہ قبر پرنہ اگائی گئی ہوتی۔ربیعہ نے کہا: میں نے آج جیسالذیذگوشت کبھی نہ کھایااگر یہ کتیاکے دودھ پرنہ پلاہوتا۔ ایاد نے کہا: میں نے آج تک ایسی مہربانی کرنےوالاشخص نہیں دیکھاسوائےاس کےکہ وہ اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب ہوتاہے۔10انمارنےکہا: میں نے آج تک کوئی کلام ہماری حاجت کےلیےنفع بخش نہ سنا بہ نسبت ہماری گفتگوکے۔جرہمی نے ان کی گفتگو سنی تو متعجب ہوااوراپنی والدہ کے پاس آیا اوراس سےمعاملہ دریافت کیا۔اس نےبتایاکہ وہ ایک بادشاہ کےنکاح میں تھی، اس کے ہاں اولادنہ ہوتی تھی تو اس نے ایک آدمی سےبدفعلی کی جس سے وہ حاملہ ہوئی۔اس نے شراب بنانےوالےسےشراب کےمتعلق پوچھاتو اس نےبتایاکہ میں نے یہ بیل تمہارےباپ کی قبرپراگائی تھی۔اس نے گوشت کےمتعلق رکھوالےسےپوچھاتواس نے بتایاکہ بکری کو کتیاکےدودھ پرپالاگیاہے۔مضرسےکہاگیا: تونےشراب کےبارےمیں کیسےجانا؟ اس نے کہا: مجھے شدیدپیاس محسوس ہوئی۔ربیعہ سے اس کے قول کےبارےمیں پوچھاگیاتواس نے کلام کیا۔پھر جرہمی ان کے پاس آیا اورکہا: تم لوگ مجھے اپنا معاملہ بیان کرو۔ پس انہوں نے اپنا قصہ بیان کیا۔اس پر اس نےمضر کےلیےقبہ حمراء، دنانیراوراونٹ مقررکیے(یہی حُمر ہیں)اورربیعہ کےلیےخباء اسودیعنی سیاہ گھوڑےمقررکیےاورخادم (جوسفید وسیاہ بالوں والی بوڑھی تھی)اورسفیدوسیاہ دھبےوالےمویشی ایادکےلیے مختص کیےجبکہ زمین اوردرہم انمارکےلیے مختص کیے۔

اس مذکورہ بالا اقتبا س میں چاروں بھائیوں کے اقوال کی مزید وضاحت مذکورنہیں ہے بس سرسری سا ذکر ہے جبکہ الشجرۃ النبویۃ فی نسب خیر البریۃمیں ان کے اقوال کی وضاحت کچھ یوں مذکور ہے:

  بم علمتم ذلك؟ فقال مضر: رأيت اللحم فوق الشحم، فعلمت أنه غذي بلبن الكلبة لأن لحوم الكلاب فوق شحمها وقال ربيعة: إن الخمر توجد في الإنسان فرحاً، ورأيت هذه الخمر توجد حزناً، فعلمت أنھا اكتسبت من ثرى القبر حزناً وقال إياد: إني رأيت باطن الخبز لا يروي من الثريد ولا يتجاوز عن ظاهره وقال أنمار: رايتك أضفتنا وقدمت لنا الطعام ولم تحضر معنا عليه لغير شاغل، فعلمت أن هذا من لؤم الآباء، ولكن من انتسبت إليه كريم فقيضت عليك بذلك. فقال الأفعى: ارحلوا فما أنتم إلا شياطين.11
  تم نے یہ سب کیسے جان لیا؟ مضر نے کہا: میں نےدیکھاکہ گوشت چربی کے اوپرہےپس میں سمجھ گیاکہ یہ بکری کتیاکے دودھ پرپلی ہےکیونکہ کتوں کا گوشت چربی کے اوپرہوتاہے۔ ربیعہ نے کہا: شراب انسان میں فرحت(سرور) پیداکرتی ہےجبکہ اس شراب نےاداسی پیداکی تومیں سمجھ گیا کہ یہ قبرکی مٹی کی اداسی ہے۔ایاد نے کہا: میں نےدیکھا کہ روٹی کا اندرونی حصہ ثریدسےنم(گیلا)نہیں ہوتااوراوپری پرت سےتجاوزنہیں کرتا(اس لیے میں سمجھاکہ اس روٹی کا آٹاحائضہ عورت نے گوندھاہے)۔انمارنے کہا:میں نے تمہیں دیکھاکہ تم نے ہماری میزبانی کی اورہمیں کھاناپیش کیا مگرکوئی مشغولیت نہ ہونے کےباوجودبھی خود ہمارےساتھ شریک نہ ہوئےتو میں سمجھ گیاکہ یہ آباءکی ملامت(نسب میں خرابی) کی وجہ سے ہے، لیکن تم جس سے منسوب ہوتےہو وہ توکریم ہے اسی لیے میں نے تمہارےبارےمیں یہ فیصلہ کیا۔ افعی جرہمی نے کہا: شیطانوں چلےجاؤ یہاں سے۔

اس قصےمیں اہل عرب کی اعلی فراست وذہانت کا ثبوت ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فراست وذہانت میں عرب کا مد مقابل نہیں تھا اور یہی وجہ ہےکہ تاریخ میں اس جیسے کئی اہم ترین واقعات آج تک مذکور ہیں۔

عصا کے اشاروں سے قتل روکنا

اہل عرب کی فراست وذہانت کا یہ عالم فقط عام حالات میں نہیں تھا بلکہ مخصوص حالات جن میں عموما حواس جواب د ے جاتے ہیں مثلاً مقتل میں کھڑے ہوکر بھی اہل عرب اپنی اسی فطانت وذہانت کا استعمال کرتےتھے اور اپنے سمیت دوسروں کی جان بھی بچالیتےتھے۔اس حوالہ سے تاریخِ عرب کاایک اہم واقعہ کتب تاریخ میں منقول ہے جس کو نقل کرتے ہوئے صاحب بلوغ الارب لکھتے ہیں:

  ومما یدل علی غزارة فهم العرب ودقیق نظر هم ما اختصوا به من قرع العصا وھو اشد انواع الرموز استخراجاً واصعبھا استنباطاً لخلوہ من النطق وللاقتصارفيه علی مجرد الفعل فانه اشارة بالفعل دون القول فقال سعد: اتاذن لی فاكلمه؟ قال: ان كلمته قطعت لسانک قال: فاشیر الیه؟ قال: ان اشرت الیه قطمت یدک قال فاومیء الیه؟ قال: اذن انزع حد قتیک قال فاقرع له العصا؟ قال: اقرع فتناول عصا من بعض جلسائه فوضعھا بین یدیه واخذ عصاہ التی كانت معه واخوہ قائم فقرع بعصاہ العصا الاخری قرعة واحدة فنظر الیه اخوہ ثم او مأ بالعصا نحوہ فعرف انه یقول مکانک ثم قرع العصا قرعة واحدة ثم رفعھا الی السمائ ثم مسح عصاہ بالاخری فعرف انه یقول قل له لم اجد جدبا ثم قرع العصا مرارا بطرف عصاہ ثم رفعھا شیئا فعرف انه یقول ولا نباتا ثم قرع العصا قرعة واقبل بھانحو النعمان فعرف انه یقول كلمه، فاقبل عمرو بن مالک حتی وقف بین یدی النعمان فقال له النعمان ھل حمدت خصبااوذممت جدبا فقال عمرو لم اذممم جدباولم احمد بقلا الارض مشکلة لاخصبھا یعرف ولا جدبھا یوصف رائدھا واقف ومنکرھا عارف وآمنھا خائف فقال النعمان: اولی لک بذلک نجوت فنجا وھو اول من قرعت له العصا.12
  جو با ت عربوں کے جودت فہم اور دقت نظر پر دلالت کرتی ہے وہ ان کا لاٹھی ٹھکرانے کا مخصوص طریقہ ہے ۔ واقعہ کی اصلیت سمجھنے کے ضمن میں یہ مشکل ترین طریقہ ہے اور استنباط کے اعتبار سے نہایت دشوار، اس لیے کہ یہ گفتار سے عاری ہے اور یہاں محض فعل پر اکتفا کیا جاتا ہے زبان پر نہیں یعنی صرف فعل سے اشارہ کر دیا جاتا ہے ۔ بنو قیس بن ثعلبہ کا دعوی ہے کہ سب سے پہلے سعد بن مالک بن ضبیعہ بن قیس بن ثعلبہ نے اپنے بھائی عمرو بن مالک کے لیے لاٹھی کو ٹھکرایا تھا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب نعمان کی ملاقات سعد سے ہوئی۔ اس کے ساتھ کچھ ایسے گھوڑے تھے جنہیں وہ با گ سے پکڑ کر ساتھ لیے جا رہا تھا، کچھ بغیر زین کے تھے اور انہیں کھلا چھوڑا ہوا تھا ۔ جب وہ نعمان کے پاس پہنچا تو اس نے اس سے ان گھوڑوں کے متعلق دریافت کیا ۔ سعد نے کہا کہ میں ان گھوڑوں کو اس لیے ساتھ نہیں لایا کہ ان کی حفاظت کروں اور بغیر زین کے اس لیےنہیں رکھا کہ ان کو ضائع کر دوں ۔ اس کے بعد نعمان نے اس سے اپنی زمین کے متعلق پوچھا : کیا وہاں اس قدر بارش ہوئی ہے کہ اس کا اثر قابل تعریف ہو اور وہ درختوں کو سیراب کر دے ؟سعد نے کہا:بارش تو بہت ہے مگر گھاس ابھی چھوٹی ہے،جنہیں بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے وہ شب بھر بیدار رہتے ہیں ، جن میں طاقت ہے وہ سیر شکم ہو کر سو جاتے ہیں ۔ جس زمین میں خاردار درخت ہیں وہاں کی چراگاہیں بھری پڑی ہیں اور صحن تر ہیں ۔ رہی وادی تو وہاں کے حوض اونچے ہی ہوتے ہیں ( کیونکہ وہاں زیادہ بارش نہیں ہوتی ) بھیڑ بکریاں پانی پینے سے پرہیز کرتی ہیں مگر پھر بھی پانی پینا بالکل بند نہیں کر دیتیں اور چر چکنے کے بعد دانت دکھانے لگتی ہیں ۔ نعمان نے اس کی چرب زبانی پر حسد کرتے ہوئے کہا: تیرے باپ کی قسم تو تو بہت ہی فصیح و بلیغ ہے لیکن اگر تو چاہے تو میں تم سے ایک ایسی بات کہوں جس کا تم جواب نہ دے سکو۔ سعد نے کہا: مجھے منظور ہے بشرطیکہ اس میں نہ افراط پائی جائے نہ حد سے تجاوز ۔ اس پر نعمان نے ایک نوکر کو حکم دیا کہ سعد کو تھپڑ مارے۔ نعمان کا مقصد یہ تھا کہ سعد جواب میں زیادتی کرے تو اسے قتل کرنے کا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ پھر پوچھاکہ اس کا کیا جواب ہے ؟ سعد نے جواب دیا ،"سفیہ مامور"یعنی یہ ایک بیوقوف شخص ہے جسے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ الفاظ ضرب المثل بن گئے ۔ نعمان نے نوکر کو ایک اور تھپڑ مارنے کو کہا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر پوچھا کہ اس کا کیا جواب ہے ؟ سعد نے جواب دیا ،" لونھی عن الا ولی لم یعد للا خریٰ" یعنی اگر اسے پہلی بار منع کر دیا جاتا تو دوبارہ ایسا نہ کرتا ۔ یہ الفاظ بھی ضرب المثل بن گئے ۔ نعمان نے کہاكہ "ایک اور مار " تو اس نے ایسا ہی کیا ۔ پوچھا ،اس کا کیا جواب ہے ؟ اس نے کہا،"ملکت فاسجح "یعنی جب تمہیں قدرت حاصل ہوجائے تو نرمی برتو ۔ یہ الفاظ بھی ضرب المثل بن گئے ۔ اس پر نعمان نے کہا ، " تم نے ٹھیک کہا ہے ، اب بیٹھ جاؤ " ۔ اس کے بعد کچھ مدت تک سعد اس کے پاس رہا ۔ پھر نعمان کو خیال آیا کہ کسی رائد (یعنی سبزہ جو) کو چراگاہ کی تلاش میں بھیجے ۔ اس نے سعد بن مالک کے بھائی عمرو بن مالک کو بھیجا تو اسے دیر ہو گئی اور نعمان کو ناگوار گزرا لہذا اس نے قسم کھالی کہ خواہ وہ آکر گھاس کی تعریف کرے خواہ مذمت ، میں قتل کیے بغیر نہ رہوں گا۔ جب عمرو آ یا اور نعمان کے پاس پہنچا اس وقت اس کے پاس اور لوگ بھی موجود تھے ۔ حاضرین میں سعد بھی بیٹھا ہوا تھا اور اسے نعمان کی قسم کا بھی علم ہو چکا تھا ۔ سعد نے عمرو سے بات کرنے کی اجازت چاہی مگر نعمان نے جواب دیاکہ اگر تو نے اس سے بات کی تو تمہاری زبان کاٹ دوں گا۔ سعدنے کہا ، تو کیا پھر اشارہ کر سکتا ہوں؟ نعمان نے کہا کہ اگر اشارہ کیا تو ہاتھ کاٹ دوں گا ۔ سعد نے کہا ، تو کیا پھر آنکھ سے اشارہ کر سکتا ہو ں ؟ نعمان نے کہا ، تو پھر میں تمہاری دونوں آنکھیں نکال دوں گا ۔ سعد نے کہا ، تو کیا لاٹھی ٹھکور سکتا ہو ں ؟ اس نے کہا ،"ہاں " ۔ سعد نے کسی پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے لاٹھی لی اور اسے اپنے سامنے رکھ دیا پھر اپنی لاٹھی لی جو اس کے پاس ہی پڑی تھی ۔ اس کا بھائی کھڑا ( دیکھ رہا )تھا ۔اس نے اپنی لاٹھی سے دوسری لاٹھی کو ایک بار ٹھکورا، اس کے بعد بھائی نے اس کی طرف دیکھا پھر لاٹھی سے اس کی طرف اشارہ کیا،جس سے وہ سمجھ گیا کہ وہ مجھے کہ رہا ہے کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہو ۔ اس کے بعد پھر ایک بار لاٹھی کو ٹھکورا پھر اسے آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر دوسری لاٹھی سے اپنی لاٹھی کو ناپا۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ مجھے کہہ رہا ہے کہ یوں کہو: میں نے خشک سالی نہیں پائی۔ اس کے بعد اپنی لاٹھی کی نوک سے دوسری لاٹھی کو کئی بار ٹھکورا ۔ پھر اسے تھوڑا سا اونچا اٹھایا جس سے وہ سمجھ گیا کہ وہ کہہ رہا ہے ، اور" نہ گھاس "۔ اس کے بعد پھر ایک بار لاٹھی کو ٹھکورا اور لاٹھی لے کر نعمان کی طرف بڑھا۔ جس سے وہ سمجھ گیا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ اب اس سے بات کرو۔ اس کے بعد عمرو بن مالک آگے بڑھا اور نعمان کے سامنے آکر ٹھہر گیا۔ نعمان نے پوچھا ، " کیا تجھے عمدہ قابل تعریف شادابی ملی یا قابل مذمت خشکی " ؟ عمرو نے جواب دیا ،"نہ تو خشکی کو قابل مذمت پایا اور نہ ہی شادابی کو قابل تعریف پایا۔ زمین مشتبہ ہے نہ اس کی سرسبزی کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی اس کی خشکی بیان کی جا سکتی ہے۔ اس میں جو آب و گیاہ کی تلاش میں جائے وہ کھڑا رہ جائے ، جو نہ پہچانے وہ بھی جائے اورجو سب سے زیادہ امن میں ہو وہ بھی ڈرے ۔(یہ سن کر نعمان) نے کہا ، تمہارا ستیاناس ہو تم بچ نکلے چنانچہ وہ بچ گیا۔

عرب میں یہ پہلا شخص تھا جس کے لیے لاٹھی کو ٹھکورا گیا اور ا س سے عرب کی ذہانت وفطانت کا واضح ترین ثبوت ملتا ہے۔

بیٹی کو نصیحت

اسی طرح ایک بدوی ماں کی اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کی گئی نصیحتیں بھی بالعموم عرب معاشرہ کی ذہانت وفطانت اور بالخصوص بدوی عرب کےتفوق کو واضح کرتی ہیں۔اس نصیحت بھری گفتگو کو صاحب ضیاء النبی نے بھی اپنے تبصرہ اور ترجمہ کے ساتھ نقل کیا ہے چنانچہ پیر محمد کرم شاہ الازہری اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  رشتہ ازدواج کی اہمیت کے پیش نظر زمانہ جاہلیت کی زیرک مائیں اپنی بچیوں کی شادی کے بعد انہیں رخصت کرتے وقت جو پندو نصائح کرتی تھیں انہیں پڑھ کر ان کی ذہانت وفراست پر حیرت ہوتی ہے۔ آج جب کہ علم نفسیات اپنے عروج پر ہے اور اس کے ماہرین، نفسیاتِ انسانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف لوگوں کو مختلف حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑے قیمتی مشورے اور زریں ہدایات دیا کرتے ہیں، میں ایک عرب ماں کی نصیحت آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو اس نے اپنی بچی کی شادی کے موقع پر اسے رخصت کرتے ہوئے کی۔ آپ اسے غور سے پڑھیں، ازدواجی زندگی کے نازک ترین مسائل کے بارے میں ایک(عربی) بدوعورت کی دقت نظر کو دیکھ کر آپ یقیناً ششدر ہو کر رہ جائیں گے۔۔۔عوب بن محلم، ایک عرب سردار تھا۔ ریاست کندہ کے بادشاہ، حارث بن عمرو نے اس کی لڑکی کی بہت تعریف سنی۔ اس نے ایک دانا اور تجربہ کار عصام نامی عورت کو عوف کی بچی کو دیکھنے کے لیے بھیجا۔ عصام نے واپس آکر اس بچی کا سراپا جس انداز سے بیان کیا اور اس کے خصائل وشمائل کا جامع تذکرہ کیاتو وہ اس کو پسند آگئی اور رشتہ طے ہوگیا، رسم نکاح کے بعد ماں نے اپنی لخت جگر کو رخصت کرتے وقت جو نصیحت کی، اس کا متن مع ترجمہ آپ کی توجہ کے لیے پیش خدمت ہے جو کہ گو یا عربی ادب کا ایک شاہکار ہے۔13

پھر انہوں نے واقعہ کو صاحب بلوغ الارب14 کے حوالہ سے نقل کیا ہے ،یہی واقعہ صاحب الفاخر 15نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے نیز صاحب مجمع الامثال نے بھی چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  اى بنیه!ان الوصیة لو تركت بفضل ادب تركت لذلک منک ولکنھا تذكرة للغافل ومعولة للعاقل ولو ان امراة استغنت عن الزوج لغنی ابویھا وشدة حاجتھما الیھا كنت اغنی الناس عنه ولکن النساء اللرجال خلقن ولھن خلق الرجال اى بنیه! ان كفارقت الجوالذى منه خرجت وخلفت العش الذى فیه درجت الی وكرلم تعرفیه وقرین لم تالفیه فاصبح بملکه علیک رقیبا وملیکا فکونی له امةیکن لک عبدا وشیکا یابنیة! احملی عنی عشر خصال یکن لک ذخرا وذكرالصحبة بالقناعة والمعاشرة بحسن السمع والطاعة والتعھد لموقع عینیه والتفقد لموضع انفه فلا تقع ویناہ منک علی قبیح، ولا یشم منک الا طیب ریح والکحل احسن الحسن والماء اطیب الطیب المفقود والتعدھ لوقت طعامه والھدو عنه حین منامه فان حرارةالجوع ملھبة ونغیص النوم مبغضة والاحتفاظ ببیته وماله والارعاء علی نفسه وحشمه وعیاله ولاتفشی له سرا ولا تعصی له امرا فانک ان افشیت سرہ لا تامنه غدرہ وان عصیت امرہ او غرت صدرہ اتقی مع ذلک الفرح ان كان طرحا، والاكتاب عندہ ان كان فرحا، فان الخصلةلاولی من التقصیر والثانیة من التکدیر وكونى اشد ماتکونین له اعظاما یکن اشد مایکون لک اكراما واشد ماتکونین له موافقة اطول ماتکونین له مرافقة واعلمی انک لا تصلین الی متحبیین حتی توثرى رضاہ علی رضاک وھواہ علی ھواک فیما احببت وكر هت واللّٰه یخیرلک.16
  اے میری پیار بچی! اگر وصیت کو اس لیے ترک کردینا روا ہوتا کہ جس کو وصیت کی جارہی ہے وہ خود عقل مند اور زیرک ہے تو میں تجھے وصیت نہ کرتی لیکن وصیت غافل کے لیے یادداشت اور عقل مند کے لیے ایک ضرورت ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے اس لیے مستغنی ہوسکتی کہ اس کے والدین بڑے دولت مند ہیں اور وہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیر رکھتے ہیں تو تو سب سے زیادہ اس بات کی مستحق تھی کہ اپنے خاوند سے مستغنی ہوجائےلیکن حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور مرد عورتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔اے میری نورِ نظر! آج تو اس فضا کو الوداع کہہ رہی ہے جس میں تو پیدا ہوئی۔آج تو اس نشیمن کو پیچھے چھوڑ رہی ہے جس میں تونے نشوونما پائی۔ایک ایسے آشیانہ کی طرف جارہی ہے جسے تو نہیں جانتی۔اور ایک ایسے ساتھی کی طرف کوچ کررہی ہے جس کو تو نہیں پہچانتی۔پس وہ تجھے اپنے نکاح میں لینے سے تیرا نگہبان اور مالک بن گیا ہے۔تو اس کے لیے فرمانبردار کنیز بن جا، وہ تیرا وفادار غلام بن جائے گا۔ اے میری لخت جگر! اپنی ماں سے دس باتیں یاد کرلے، یہ تیرے لیے قیمتی سرمایہ اور مفید یادداشت ثابت ہوں گی۔تمہاری رفاقت قناعت سے دائمی بنے گی اور باہمی میل جول اس کی بات سننے اور اس کا حکم بجالانے سے پُر مسرت ہوگا۔ جہاں جہاں اس کی نگاہ پڑتی ہے ان جگہوں کا خاص خیال رکھ اور جہاں جہاں اس کی ناک سونگھ سکتی ہے اس کے بارے میں محتاط رہ تاکہ اس کی نگاہ تیرے جسم اور لباس کے کسی ایسے حصہ پر نہ پڑے جو بدنما اور غلیظ ہو اور تجھ سے اسے بدبونہ آئے بلکہ خوشبوسونگھے۔ اس بات کا خاص خیال رکھنا۔سرمہ حسن کی افزائش کا بہترین ذریعہ ہے اور پانی گمشدہ خوشبو سے بہت زیادہ پاکیزہ ہے۔ اس کے کھانے کے وقت کا خاص خیال رکھنا اور جب وہ سوئے اس کے آرام میں مخل نہ ہونا، کیونکہ بھوک کی حرارت شعلہ بن جایا کرتی ہے اور نیند میں خلل اندازی بغض کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کے گھر اور مال کی حفاظت کرنا، اس کی ذات کی، اس کے نوکروں کی اور اس کے عیال کی ہر طرح خبر گیری کرنا۔ اس کے راز کو افشامت کرنا، اس کی نافرمانی مت کرنا، اگر تو اس کے راز کو فاش کردے گی تو اس کے غدر سے محفوظ نہیں رہ سکے گی اور اگر تو اس کے حکم کی نافرمانی کر ے گی تو اس کے سینہ میں تیرے بارے میں غیظ وغضب بھر جائے گا۔ جب وہ غمزدہ اور افسردہ ہو تو خوشی کے اظہار سے اجتناب کرنا اور جب وہ شاداں وفرحاں ہو تو اس کے سامنے منہ بسور کرمت بیٹھنا۔ پہلی خصلت آدابِ زوجیت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے اور دوسری خصلت دل کو مکدر کردینے والی ہے۔جتنا تم سے ہوسکے اس کی تعظیم بجالانا وہ اسی قدر تمہارا احترام کرے گا۔جس قدرتم اس کی ہم نوا ہوگی اسی قدر ہی وہ تمہیں اپنا رفیق حیات بنائے رکھے گا۔اچھی طرح جان لو! تم جس چیز کو پسند کرتی ہو اسے نہیں پاسکتی جب تک تم اس کی رضا کو اپنی رضا پر اور اس کی خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح نہ دو خواہ وہ بات تمہیں پسند ہو یا ناپسند۔ اے بیٹی! اللہ تعالیٰ تیرا بھلا کرے۔17

یوں یہ لڑکی اپنے شوہر کے پاس پہنچی اور اپنی ماں کی کی گئی نصیحتوں پر عمل پیرا رہ کر اس نے کامیاب زندگی گزاری اور اس کے بطن سے یمن کے سات (7) بادشاہ پیدا ہوئے۔18

ابن قیم نے بھی اپنی کتاب الاذکیاء میں ایک مکمل فصل کے تحت عرب کے ذہین وفطین افراد کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے تین واقعات ذیل میں نقل کیے جارہے ہیں ۔ابن قیم اہل عرب کے ذہین ترین افراد کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  عن أبي حاتم الأصمعي قال حدثنا شيخ من بني العنبرة قال أسرت بني شيبان رجلا من بني العنبر فقال لهم أرسل إلى أهلي ليفدوني قالوا ولا تكلم الرسول إلا بين أيدينا فجاؤه برسول فقال له ائت قومي فقل لهم أن الشجر قد أورق وأن النساء قد اشتكت ثم قال له أتعقل قال نعم اعقل قال فما هذا وأشار بيده قال هذا الليل قال أراك تعقل انطلق فقل لأهلي عروا جملي الأصهب واركبوا ناقتي الحمراء وسلوا حارثة عن أمري فأتاهم الرسول فأرسلوا إلى حارثة فقص عليھم الرسول القصة فلما خلا معهم قال أما قوله أن الشجر قد أورق فإنه يريد أن القوم قد تسلحوا وقوله أن النساء قد اشتكت فإنه يريد أنھا قد اتخذت الشكا للغزور وهي الأسقية وقوله هذا الليل يريد يأتوكم مثل الليل أو في الليل وقوله عروا جملي الأصهب يريد ارتحلوا عن الصمان وقوله اركبوا ناقتي يريد اركبوا الدهناء فلما قال لهم ذلك تحملوا من مكانھم فأتاهم القوم فلم يجدوا منھم أحدحدثنا ابن الأعرابي عن بعض مشايخه أن رجلا من بني تميم كانت له ابنة جميلة وكان غيورا فابتنى لها في داره صومعة وجعلها فيھا وزوجها من أكفائه من بني عمها وأن فتى من كنانة مر بالصومعة فنظر إليھا ونظرت إليه فاشتد وجد كل واحد منھما بصاحبه ولم يمكنه الوصول إليھا وأنه افتعل بيتا من الشعر ودعا غلاما من الحي فعلمه البيت وقال له ادخل هذه الدار وانشد كأنك لاعب ولا ترفع رأسك ولا تصوبه ولا تومئ في ذلك إلى أحد ففعل الغلام ما أمر به وكان زوج الجارية قد أزمع على سفر بعد يوم أو يومين فأنشد الغلام يقول
لحى الله من يلحي على الحب أهله
ومن يمنع النفس اللجوج هواها
قال فسمعت الجارية ففهمت فقالت
إلا إنما بين التفرق ليلة
وتعطى نفوس العاشقين مناها
قال فسمعت الأم ففهمت فأنشأت تقول
إلا إنما تعنون ناقة رحلكم
فمن كان ذا نوق لديه رعاها
قال فسمع الأب فأنشأ يقول
فأنا سنرعاها ونوثق قيدها
ونطرد عنھا الوحش حين أتاها
فسمع الزوج ففهم فأنشأ يقول
سمعت الذي قلتم فها أنا مطلق
فتاتكم مهجورة لبلاها
قال فطلقها الزوج وخطبھا ذلك الفتى وأرغبھم في المهر فتزوجهاحدثنا عيسى بن عمر قال ولي إعرابي البحرين فجمع يھودها وقال ما تقولون في عيسى بن مريم قالوا نحن قتلناه وصلبناه قال فقال الإعرابي لا جرم فهل أديتم ديته فقالوا لا فقال والله لا تخرجون من عندي حتى تؤدوا إلي ديته فما خرجوا حتى دفعوها له.19
  ابو حاتم اصمعی کہتے ہیں کہ ہم سے بنی عنبر کے ا یک شیخ نے بیان کیا کہ بنو شیبان نے بنی العنبر کے ایک شخص کو قید کرلیا۔ اس نے ان سے کہا میں اپنے خاندان والوں کے پاس قاصد بھیجنا چاہتا ہوں تاکہ وہ میرا فدیہ ادا کردیں۔ انہوں نے کہا بشرطیکہ قاصد سے جو گفتگو کرنا ہو وہ ہمارے سامنے کرو۔ پھروہ قاصد کو لے آئے۔ اس نے قاصد سے کہا کہ میری قوم سے جاکر کہنا" ان اشجر قداورق" یعنی درختوں پر پتے آگئے، "وان النساء قد اشتکت" یعنی عورتیں بیما ر ہوگئیں (یہ وہ ترجمہ ہے جو سننے والے ظاہر ی الفاظ کے اعتبار سے سمجھیں گے) پھر اس قاصد سے پوچھا کہ تو سمجھتا ہے؟اس نے کہا ہاں سمجھتا ہوں۔اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کیا ہےتو اس نے جواب دیا کہ یہ رات ہے۔ کہنے لگا کہ مجھے اطمینان ہوگیا کہ تو سمجھتا ہے (دل کی بات یہ تھی کہ اب یہ اطمینان ہوگیا کہ بے وقوف ہے جو کلمات میں کہوں گا وہ میرے مقصد پر مطلع ہوئے بغیر ضرور پہنچاد ے گا ) ۔اب تو روانہ ہوجا اور میرے متعلقین سے یہ کہہ دے کہ "میرے بھورے اونٹ کی پشت سے بوجھ اتار لو" (متبادر معنی یہ ہیں کہ اس کو فروخت کرکے میرے فدیہ کی رقم کا انتظام کرو) اور میری سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہوجاؤ اور حارثہ سے میرے معاملہ میں پوچھو۔ قاصد یہ پیغام لے کر قوم کے پاس پہنچ گیا۔ قوم نے حارثہ کو بلالیا (یہ وہاں کا ایک ذہین شخص تھا)۔ اس کے سامنےقاصد نے پوری بات بیان کردی توحارثہ نے قوم سے تنہائی میں بیان کیا: "ان الشجر قداورق" سے اس کی مراد یہ ہے کہ قوم (بنو شیبان ) مسلح ہوچکی ہے۔ (جب کہ کوئی شخص مسلح ہوجائے تو کہا جاتا ہے"اورق الرجل" ) اور اس کا یہ کہنا کہ"ان النساء قد اشتکت" کا (یہاں اشتکت کے معنی بیمار ہوگئیں نہیں ہیں بلکہ ) یہ مطلب ہے کہ انہوں نے جنگ کے لیے شکا ( پانی کے چھوٹے مشکیزے) فراہم کرلیے ہیں ۔ اس کےا س اشارہ سے کہ "یہ رات ہے "یہ مراد ہے کہ یہ تم پر رات کی طرح یا رات کو چھا جائیں گے اور ا س کا یہ کہنا کہ "عرواجملی"اس کا مطلب یہ ہے کہ تم سب صمان سے کوچ کر جاؤ (صمان اس گاؤں کا نام ہے) اور اس کا یہ کہنا کہ"ارکبوا ناقتی الحمراء"اس سے مراد یہ ہےکہ تم جلد میدان کی طرف نکل جاؤ (جہا ں کی گھاس سرخ ہے)۔ جب یہ مطلب انہوں نے سمجھ لیا تو سب اپنے مکانوں سے نکل گئے پھر جب قوم نے حملہ کیا اور لوگ وہاں پہنچے تو وہاں ان کو ایک بھی نہ ملا۔۔۔ابن الاعرابی نے ہمیں یہ حکایت سنائی جو ان کو ان کے مشائخ سے معلوم ہوئی تھی کہ قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص تھا جس کی ایک خوبصورت بیٹی تھی اور یہ شخص غیرت مند تھا۔ اس نے اپنے مکان میں ا یک کمرہ بنوادیا جو بیٹی اور اس کے شوہر کے لیے خاص کردیا تھا۔ یہ شوہر اس کے خاندان سےتھا یعنی اس لڑکی کے چچا کی اولادمیں سے تھا۔ اب یہ حال پیش آیا کہ قبیلہ کنانہ کے ایک نوجوان کا اس کمرہ کی جانب سےگزر ہوا، اس کی نظر اس لڑکی پر اور لڑکی کی نظر اس پر پڑی جس سے دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی شدید محبت پیداہوگئی۔اس نوجوان کا اس تک پہنچنا کسی طرح ممکن نہیں تھا تو اس نے (اظہار محبت اور پیغام کے لیے) یہ صورت نکالی کہ ایک شعر بنایا اور قبیلہ کےا یک بچےکو سکھایا ، اس کو یہ سمجھایا کہ کھیلنے کے حیلہ سے تو اس گھر میں چلا جا اور اس شعر کو اس طرح پڑھتا رہے کہ نہ سرکو اوپر اٹھانا، نہ کسی سے مخاطب ہوکر پڑھنا اور نہ کسی کی طر ف اشارہ کرنا۔ لڑکے کو جس طرح سمجھایا تھا اس نے اسی طرح کیا اور اس لڑکی کا شوہر ایک دو دن کے بعدا یک سفر کا عزم کیے ہوئے تھا۔لڑکے نے یہ شعر پڑھنا شروع کیا:
خدا برا کر ے اس شخص کا جو محبت پر اہل محبت کو برا کہتا ہے اور کون شخص ہے جو نفس حریص کو اس کی خواہش کو روک سکے۔
لڑکی نے جب یہ شعر سنا تو سمجھ گئی اور یہ شعر کہا:
خبردار رہ! جدائی کی صرف ایک رات باقی ہے (کیونکہ شوہر سفر میں جانے والا ہے) ا ور عاشقوں کے نفوس کو ان کی تمنائیں دی جائیں گی۔
ماں نے سنا تو وہ سب کچھ سمجھ گئی اور اس نے یہ شعر کہا:
ارے تم نے کوچ کرنے کے لیے ناقہ کی نیت کر رکھی ہے لیکن جو ناقہ کا مالک ہے وہ اس کے پاس ہی اس کی نگہداشت کرتا ہے۔
باپ نے بھی سنا اور سب کچھ سمجھ گیا۔ اس نے یہ شعر کہا:
ہم اس کو چرائیں گے اور اس کی نگہداشت کڑی کردیں گے اور جو وحشی اس کے قریب آئے گا اس کو بھگادیں گے۔
شوہر نے بھی یہ اشعار سن لیے اور سب واقعہ سمجھ گیا تو اس نے یہ شعر کہا:
جو کچھ تم سب نے کہا وہ میں نے سن لیا میں اس کو آزاد کیے دیتا ہوں تاکہ وہ عورت چھوڑی ہوئی بن کر اپنے ابتلاء کے باعث تمہارے پاس آسکےچنانچہ شوہر نے طلاق دے دی اور اس نوجوان نے اس کے پاس اپنا رشتہ بھیج دیا اور مہر پر راضی کرلیا پھر اس سے نکاح ہوگیا۔۔۔عیسیٰ بن عمر نے بیان کیا کہ ایک اعرابی کو بحرین کا والی (گورنر) بنادیا گیا۔ اس نے وہاں کے سب یہودیوں کو جمع کرلیا اور کہا تم عیسیٰ بن مریم ()کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے ان کو(معاذ اللہ) قتل کرکے سولی پر لٹکادیا۔ یہ سن کر اس نے کہا پھر تو یہ ضروری بات ہے کہ تم نے اس کی دیت (خون بہابھی) ادا کی ہوگی؟ ان لوگوں نے جواب دیا "نہیں" تواعرابی نے کہا تو واللہ تم یہاں سے نہیں جا سکتے جب تک اس کی دیت نہ دے دوگےتو جب تک ان سے دیت نہ وصول کرلی جانے نہ یا۔

مذکورہ بالا واقعات سےاہل عرب کی ذہانت وفطانت کا دیگر اقوام کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ اظہار ہوتا ہے۔وہ عام طور پر معمولی حالات میں بھی حد درجہ ذہانت وفطانت کا استعمال بے دھڑک کرلیا کرتے تھے اور خاص طور پر کئی مشکل ترین معموں کو آن واحد میں ہی حل کرلیا کرتے تھے ۔جس حال میں عام انسانی ذہن کام کرنا ترک کردیتا ہے وہاں اہل عرب خاص طور پر اپنے ذہنوں کو بنا کسی مشقت کے استعمال میں لے آتےتھےکیوں کہ عرب فطرت کے قریب تر زندگی گزاررہے تھے ۔

قوت حافظہ

ذہانت وفطانت اورفہم و فراست کے علاوہ الله تعالیٰ نے اہل عرب کو قوت حافظہ میں بھی ارزانی و فرا وانی عطا٫ فرمائی تھی۔ اہل عرب کے حافظے ضرب المثل تھے۔شعراء جاہلیت کے ادبی کارنامے اورقصائد ودیوان آج بھی ایک مستند ذخیرہ سمجھے جاتے ہیں جبکہ مسلمہ بات یہ ہے کہ ایام جاہلیت ہی میں انہیں کتابت کے ذریعہ مکمل طور پر محفوظ نہیں کیا گیا تھا جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ان کے بے نظیر حافظے میں محفوظ تھے اور وہاں سے ہی نسلوں میں سینہ بسینہ منتقل ہوئے تھے۔اسی طرح اپنے آباؤ اجداد کے شجر ہائے نسب ان کو زبانی یاد رہتے، واقعات کے تسلسل کو زبانی یاد رکھنا بھی ان کا خاص حصہ تھا ۔اسی وجہ سے بعض عرب کتابت پر حفظ کو ترجیح دیتے تھے چنانچہ ابن عبدالبر نےاس حوالہ سے مکمل ایک فصل لکھی ہے جس میں سے چند اقتباسات یکجا نقل کیے جارہے ہیں جن سے اندازہ ہوگا کہ اہل عرب کے ہاں عام طور پر حفاظت علم کا ذریعہ زبانی یاد کرنا تھا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  وقال أعرابي:«حرف في تامورك خير من عشرة في كتبك»...ومما ينسب إلى منصور الفقيه من قوله:
علمي معي حيث ما يممت أحمله بطني وعاء له لا بطن صندوق
إن كنت في البيت كان العلم فيه معي
أو كنت في السوق كان العلم في السوق
...قال أبو عمر: من ذكرنا قوله في هذا الباب فإنما ذهب في ذلك مذهب العرب لأنھم كانوا مطبوعين على الحفظ مخصوصين بذلك وهذا مشهور أن العرب قد خصت بالحفظ كان بعضهم يحفظ أشعار بعض في سمعة واحدة.20
  ایک دیہاتی نے کہا: تیرے دل میں ایک حرف کا محفوظ ہونا کتابوں کی دس باتوں سے بہتر ہے ۔۔۔ اور منصور فقیہ کی طرف منسوب اشعار میں سے چند یہ ہیں:
میں جہاں جاتاہوں میراعلم میرے ساتھ ہوتاہے،میراباطن اسکا محافظ ہے نہ کہ شکم صندوق ۔
اگر گھر میں رہتاہوں تو علم میرے ساتھ ہے اور بازار جاؤں توبھی وہ میرے ساتھ جاتاہے۔۔۔
(مؤلف)ابوعمرونے کہا کہ اس باب میں جن لوگوں کا قول ہم نے ذکر کیا وہ تمام عربوں کے مذہب کے مطابق اسی طرف گئے ہیں کیونکہ اہل عرب کی عام عادت تھی کہ وہ چیزوں کوزبانی یاد رکھتے اور اس سلسلہ میں ان کو خاص امتیاز حاصل تھا یہ بات بھی مشہور ہے کہ اہل عرب حافظہ (کی زیادتی میں) خاص امتیازی شان کے حامل تھے جن میں سے بعض تو ایک ہی مرتبہ سننے سے لوگوں کے اشعار یاد کرلیا کرتے تھے۔

اگرچہ وہ لکھنے اور پڑھنے سے عاری تھے لیکن اپنی یادداشت کے بل بوتے پر انہوں نے اپنی جنگوں اور دیگر اہم واقعات کی تفصیلات کو محفوظ رکھا تھا ۔ وہ صرف اپنے سلسلہءِ نسب سے ہی پوری طرح باخبر نہ تھے بلکہ اپنے گھوڑوں کے نام اور ان کے نسب ناموں کو بھی پوری طرح جانتے تھے۔اس حوالہ سے مزید تفصیلات سمیت اہل عرب کی قوت حافظہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے محمود شکری آلوسی لکھتے ہیں:

  فلان الغالب مهم امیون لا یقرؤون ولا یکتبون بل ان جمیع عرب البوادى كذلك ومع ھذا حفظوا علی سبیل التفصیل ایامهم و حروبھم ووقائعهم وما قبل فیھا من شعرو خطب وماجرى من الفاخرات والمنافرات بین قبائلهم وضبطوا انسابھم واسماء فرسانھم الذین نزلوا فی میادین حروبھم وانھم من اى قبیلة والی اى اب ینتھون من الآباء الاولین واسلافهم السابقین وكان احدهم یقول الشعر بلغت ابیاته ما بلغت فما هم الا ان سمعوہ فانتقش فی صحائف خواطرهم وتمثل فی خیالهم وبالجملة العرب احفظ الناس ولا یکاد یترى فی ذلک الا من عدم الاحساس حتی ان فی كتاب الوشی المرقوم: ان الھمدانی ادعى انه لم یصل الی احد من اخبار العرب والعجم الا بالعرب و بین ذلک علی اتم وجه واثبته ثم قال: والعرب اصحاب حفظ وروایة وفی مقدمة اقوم المسالک نقلا عن تاریخ دردى وزیر المعارف الممومیة بفرنساان للعسل عندهم ثمانین اسما وللثعبان مائتین وللاسد خمسمائة لجمل الفا وكذا السیف وللداھیة نحو اربعةالاف اسم ولا جرم ان استیعاب مثل ھذہ الاسماء یستدعى حافظة قویة وللعرب من قوة الحافظةوحدة الفکر مالا یسع احدا انکارہ انتهى نقل ماھو المقصود مما اعترف به ھذا الفاضل مع كونه من صمیم اھل اوربا مما للعرب من قوة الحافظة التی لم تکن لغیرهم من الامم.21
  اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اکثریت اُمّی لوگوں کی ہے جو نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے بلکہ صحراء نشین عرب تو سارے کے سارے ایسے ہی تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی مشہور جنگوں، لڑائیوں اور واقعات کو بالتفصیل زبانی محفوظ کیااور ان شعروں اور خطبوں کو بھی محفوظ کیاجو ان موقعوں پر کہے گئے۔ اسی طرح ان مفاخرات اور منافرات کو بھی محفوظ کیا جو ان کے قبائل کے مابین رونما ہوئے۔ انہوں نے اپنے ان نسب ناموں کے علاوہ ان گھوڑوں کے ناموں کو بھی محفوظ کیاجو ان کے جنگی میدانوں میں اترے نیز اس بات کو بھی محفوظ کیا کہ وہ کس قبیلے سےتھے اور وہ اولین آباء اور گزشتہ اسلاف میں سے کس مورث تک پہنچتےتھے۔ جب کوئی شاعر شعر کہتا، خواہ اشعار کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہوتی، جونہی یہ ان اشعار کو سنتے وہ ان کے ذہنوں کے صحیفوں پر نقش ہوجاتے اور ان کے خیال میں تِمثال (صورت) کی طرح باقی رہتے۔ اس بات میں ان کے قبائل کے عام اور خاص، چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت سب برابر تھے۔ اس ضمن میں نہ کسی کو کوئی شبہ ہے اور نہ کسی صاحب نظر کو کوئی شک ہے۔ جب کبھی ان کے یہاں کوئی عجیب واقعہ پیش آتا یا کوئی ا نوکھا نکتہ پیدا ہوتا تو وہ ضرب المثل بن جاتا اور ایسے اقوال قبائل میں مشہور ہوجاتے، یہی وجہ ہے کہ یہ واقعات ان کے ذہن سے غائب نہ ہوسکتے تھے اور نہ ہی طویل مدت گزر جانے کے باوجود ان کے خزائن خاطر سے نکل سکتے۔بعد کے آنے والے لوگوں نے ان کے ایام جنگ اور واقعات کے متعلق جو کچھ معتبر لوگوں سے حاصل کیا اور جو کچھ روایت کرنے والوں کی زبانی سنا اسے جمع کردیا، ان کی امثال اور ان کے اشعار کو بھی جمع کردیا، جس سے کئی مجموعے اور کئی جلدیں تیار ہوگئیں یہاں تک کہ یہ شمار و حصر کے دائرے سے نکل گئیں۔ یہ مجموعے جو ہم تک پہنچے ہیں بمقابلہ ان کے جو ہم تک نہیں پہنچے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرے کی حیثیت رکھتے ہیں یا پہاڑ اور چٹیل میدانوں کے مقابلہ میں ایک ذرے کی ماہیت۔ ان کے ابتدائی زمانے کے اشعار، محاورے اور واقعاتِ جنگ ان کے چلے جانے کے ساتھ ہی ضائع ہوگئے۔ یہ سب کچھ ان کے سینوں ہی میں رہا، ہم تک نہ پہنچا۔ بہت سے علوم و فنون کو وہ اپنے ساتھ کفنوں میں لے گئے کیونکہ انہیں کوئی ایسا شخص نہ ملا جو ان کے حقوق کی حفاظت کرتا اور انہیں ضائع ہونے سے بچالیتا۔ ہر شاعر کا ایک راویہ (اشعارکو کثرت سے یاد کرکے نقل کرنے والا) ہوتا تھا جو اپنے شاعر کا ہر قول محفوظ کرتا اور ان اشعار کو یاد کرلیتا جو مختلف موقعوں پر پڑھے جاتے تھے، مثلا جب وہ حملہ کرتا اور جولانی دکھاتا، ہر راویہ کو رجز قصائد اور دیگر اقسام کے اشعار کی اتنی تعداد یاد ہوتی کہ حصر و شمار سے باہر ہے۔ ۔۔ مختصر یہ کہ عربوں کاحافظہ جملہ اقوام سے زیادہ تیز تھا۔ اس امر میں صرف اسی شخص کو شک ہو گا جو احساس سے محروم ہوگا۔ یہاں تک کہ کتاب الوشی المرقوم میں منقول ہے کہ ہمدانی نے دعویٰ کیا:عربوں اور عجمیوں کے جو حالات لوگوں تک پہنچے ہیں وہ صرف عربوں کے ذریعے پہنچے ہیں۔ اس نے یہ بات بڑی وضاحت اور دلیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کے بعد کہا ہے کہ عرب بڑے حافظے والے اور صاحب روایت لوگ تھے۔ اقوام المسالک کے مقدمے میں فرانس کے وزیر ِمعارفِ عمومیہ دردی کی تاریخ سے نقل کرکے لکھا گیا ہے کہ ۔۔۔ان کے ہاں شہد کے اسی( 80) نام ہیں، اژدہا کے دو سو( 200)، شیر کے پانچ سو(500) اور اونٹ کے ایک ہزار(1000) اور اتنے ہی تلوار کے نام ہیں۔ مصیبت کے لیے تقریبا چار ہزار(4000) نام ہیں اور یہ ایک یقینی امر ہے کہ ان تمام ناموں کو یاد رکھنے کے لیے حافظے کا قوی ہونا ضروری ہے۔ عربوں کی قوت حافظہ اور تیزی فکر سے انکار کرنے کی کسی میں مجال نہیں جس قدر عبارت یہاں نقل کرنا مقصود تھی وہ کردی گئی ہے جس کے ذریعے اس فاضل نے خالص یورپی ہونے کے باوجودعربوں کی اس قوت حافظہ کو تسلیم کیا ہے جو دوسری قوموں کے ہاں نہ تھی۔ 22

اسی طرح ان کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ وہ گھوڑا جو میدان جنگ میں غیر معمولی شجاعت اور کار کردگی کا مظاہرہ کر تا اس کے نسب سے وہ پوری طرح واقف رہتے تھے۔ 23یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی قوم قوت حافظہ میں اہل عرب کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتی تھی۔

ان مذکورہ تفصیلات واقتباسات سے اہل عرب کے طبعی رجحان کا بخوبی علم ہوجاتاہے اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہےکہ اہل عرب علم کو کتابت سے مقید رکھنے کے عادی نہ تھے۔ درحقیقت معاملہ بھی یہی ہے کہ آدمی کی جس ماحول میں نشوونما ہوتی ہے وہ اسی کا خوگر بنتاہے اور جس قوت سے زیادہ کام لیاجائے اسی میں جلا ا ور وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ اقوام عالم میں مختلف قسم کی صلا حیتوں اور خصوصی میدانوں میں مہارتوں کے مناظر جوآئے دن دیکھے جاتےہیں وہ اسی ماحول کا اثر ہوتا ہے جوان کا ملی وقومی ورثہ چلاآ رہا ہوتا ہے ۔ علم وفن سے تعلق رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ عربوں کا عام مذاقِ علمی تھا جس سے کام لےکر انہوں نے علوم ومعارف کے دریابہائے جن کا منہ بولتا ثبوت آج کا سرمایہ علم وفن ہے ۔رسول مکرم ﷺکی آمد وبعثت کےبعد اہل عرب اسلام لے آئے اور رسول مکرمﷺنے ان کی ذہنی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں قوتِ حافظہ کی اسی خوبی کو قرآن حفظ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دلائی جو اسلامی شریعت کی حفاظت میں بہت کارآمد ثا بت ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ رسول مکرم ﷺنے انہیں قرآن مجید اوراس کی تفسیر وتبیین لکھنے کا حکم صادرفرمایا جس سے ان میں زبانی یادداشت سمیت عام طور پر لکھنے کا رواج بھی چل پڑاجواسلامی شریعت واحکام سمیت کئی مروجہ اسلامی علوم کو معرض وجود میں لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

موجودہ دور کے عرب یقیناً ان تمام صلاحیتوں سے آج بھی کسی نہ کسی حد تک آراستہ وپیراستہ ہیں لیکن یہ بات یقیناً تشویشناک ہے کہ اتنی ذہین و فطین قوم کہ جس کی تاریخ اشارات و کنایات یہاں تک کہ عصا کے اشاروں سے بھی مشکل ترین مسائل حل کرنے سے بھری پڑی ہے وہ آج کی جدید بین الاقوامی سیاست اور یہود، ہنود اور نصاریٰ کی چال بازیوں میں اس قدر الجھ گئی ہے کہ اسے اپنے اور پرایوں کا فرق بھی معلوم نہیں ہو رہا ۔ موجود ہ عرب دنیا اسلامی ممالک کے برخلاف ہندوستان اور غیر اسلامی ریاستوں سے اپنے تعلقات روز بروزبڑھا کر اربوں ریال اور ڈالرز کی سرمایہ کاری ان ممالک میں کر رہی ہے جن کی اسلام اور مسلمان دشمنی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور اس کے بر عکس وہ مسلمان ممالک جو مالی اعتبار سے نسبتاً کمزور ہیں مگر ایمانی اعتبار سے عربوں کےہم مذہب ہیں اہل عرب آج ان کی طرف نگاہِ التفات ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ اہل عرب اپنی تاریخ بھلا بیٹھے ہیں یا پھر ان میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت ماند پڑچکی ہے ورنہ کوئی بھی عقل مند و دانا قوم اپنے دشمن کو مضبوط کرنے اور اپنے کلمہ گو بھائیوں کو کمزور دیکھنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی ہے۔اس کا نتیجہ آج پوری امت مسلمہ کا عمومی زوال ہے کیونکہ حضورﷺ کو عرب قوم میں بھیجنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ آپ ﷺ ان عربوں کی مذکورہ عظیم صلاحیتوں اور صفات کو اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق کے حق میں استعمال کرواتےجو آپ ﷺ نے کروائیں بھی جس کے فوائد ساری دنیا نے اسلام کی صورت میں حاصل کیے تھے مگر عربوں کی موجودہ غفلت، دنیا پرستی اور آرام پرستی نے آج پھر سے اسلام کو کمزور کر دیا ہے جس کا قرض چکانے کا وقت یقیناً آ چکا ہے اور عربوں کو اب اپنے منصب کو دوبارہ سنبھال کر امتِ مسلمہ کی قیادت کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

 


  • 1 شیخ ابن سعید الا ندلسی، نشوۃ الطرب فی تاریخ جاھلیۃ العرب، ج -1، مطبوعۃ: مکتبۃ الاقصی، عمان، الاردن، 1982م، ص: 646
  • 2 ایضا
  • 3 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ج-1،مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2013ء ،ص:285
  • 4 السید محمود شکری الآلو سی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج -1، مطبوعۃ:دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، 2012 م، ص:32 -33
  • 5 جمال الدين يوسف بن حسن ابن المبرد، الشجرة النبوية في نسب خير البرية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1426ه، ص:132
  • 6 أبو الحسن علي بن محمد الماوردي، أعلام النبوة، مطبوعة: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان،1409ه ، ص:186 -187
  • 7 أبو الفرج عبد الرحمن بن علي ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1412ه، ص:233 -234
  • 8 أبو الحسن علي بن أبي الكرم ابن الأثير الجزری، الكامل في التاريخ، ج-1، مطبوعة: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1417ه، ص:632 -633
  • 9 الشجرة النبوية في نسب خير البریۃ ميں ہے كہ افعی جرہمی نے ان كو كهانے كئ دعوت دی ان پر ايك آدمی(بطور جاسوس) نظر ركهنے كو متعين كرديا ۔(جمال الدين يوسف بن حسن ابن المبر د الشجرۃ النبویۃ فی نسب خير البريہ : دارالكتب العلمية بيروت ، لبنان، 1426ھ ، ص : 132)
  • 10 الشجرۃ النبویۃ فی نسب خیر البریۃ میں ایاد کا قول یہ ہے کہ میں آج جیسی روٹی کبھی بھی نہیں کھائی اگر اس کا آٹا گوندھنے والی عورت حائضہ نہ ہوتی ۔ (جمال الدین یوسف بن حسن ابن المبرد ، الشجرۃ النبویۃ فی نسب خیر البریۃ مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان ، 1426ھ،ص:132)
  • 11 جمال الدين يوسف بن حسن ابن المبرد، الشجرة النبوية في نسب خير البرية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1426ه، ص:133
  • 12 السيد محمود شكري الآلوسي، بلوغ الارب في معرفة احوال العرب، ج-1، مطبوعة: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، القاهرة، مصر،2012م،ص: 33 -34
  • 13 پیر محمد کرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء،ص:310-311
  • 14 سیدمحمودشکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ :اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء،ص:19
  • 15 أبو طالب المفضل بن سلمة، الفاخر، مطبوعۃ: دار إحياء الكتب العربية، بیروت، لبنان، 1380ھ،ص:186
  • 16 أبو الفضل أحمد بن محمد الميداني، مجمع الأمثال، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:262
  • 17 پیر محمد کرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ،پاکستان، 2013ء ،ص:311-314
  • 18 سیدمحمودشکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ :اردو سائنس بورڈ ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص:19
  • 19 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی ابن الجوزی، کتاب الاذکیاء، مطبوعۃ: مکتبۃ الغزالی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:87-91
  • 20 ابو عمرویوسف بن عبداللہ ابن عبد البر القرطبی، جامع بیان العلم وفضلہ، حدیث:379 -384، ج-1، دار ابن الجوزي، الریاض،السعودية،1994 م،ص:294 -295
  • 21 السيد محمود شكري الآلوسي، بلوغ الارب في معرفة احوال العرب، ج-1، مطبوعة: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، القاهرة، مصر،2012م،ص: 38 -40
  • 22 سیدمحمودشکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ :اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص:73-76
  • 23 پیر محمد کرم شاه الازہری ، ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج-1، مطبو عہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء ، ص:288