اہلِ تاریخ و نسب کے یہاں اہل ِ عرب کی تیسری قسم ''عرب ِمستعربہ'' کہلاتی ہے جنہیں بعض اوقات ''عرب المتعربہ'' اور ''عربِ تابعہ '' کے نام سے بھی موسوم کیاجاتا ہے۔عربِ مستعربہ کی اصطلاح عرب کے ان باشندوں اور اقوام کےلیے استعمال کی جاتی ہےجن کے آباء واجداد کی اصل زبان عربی نہیں تھی بلکہ خطہ ِ عرب میں آباد ہونے کے بعد انہوں نےیہاں آباد لوگوں سے عربی زبان سیکھی اور پھر اپنی زبان کی بجائےاسے ہی اختیار کر لیا ۔عرب مستعربہ میں عام طور پر بنو اسماعیل بن ابراہیم کو شامل کیا جاتا ہے۔تاہم کچھ اہلِ تاریخ بنو قحطان بن عابر بن شالح کو بھی عرب ِ مستعربہ میں شمار کرتے ہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح بنو اسماعیل نے عربی زبان قبیلہِ جرہم سے سیکھی تھی اسی طرح بنو قحطان نے عربی زبان اپنے دور کے عربِ عاربہ سے سیکھی تھی تاہم اہلِ تاریخ اور محققین کے ایک بڑے گروہ نے بنو قحطان کو عاربہ میں شمار کیا ہے اور بنو اسماعیل کو عربِ مستعربہ میں ۔1 اس لیے یہاں بنو قحطان کو بطورِ عرب ِ مستعربہ ذکر نہیں کیا جارہا۔
عربِ عاربہ میں ''بنو اسماعیل ''کے علاوہ جن گروہوں کو شمار کیا گیا ہے ان میں ''بنو قطورا''، '' بنو ادوم'' (Edom) یا عیسو (Esau) یعنی اولاد ِ ادوم بن اسحاق بن ابراہیم ، بنی حاران یعنی لوط کی اولاد اور ''بنی ناحور ''یعنی حضرت ابراہیم کے بھائی ناحور کی اولاد شامل ہیں کیونکہ ان کی زبان بھی عربی نہیں تھی تاہم انہوں نے خطہِ عرب میں آباد ہونے کے بعد یہاں کے مقامی قبائل سے عربی زبان سیکھی تھی اور اسے ہی بطورِ زبان اپنا لیا تھا۔ حضرت اسماعیل کی مادری زبان عبرانی یا سریانی تھی ۔جب ابنِ قحطان کا قبیلہ بنو جرہم اس مقام پر وارد ہوا جہاں مکہ شہر آباد ہے تب وہاں اسماعیل اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ پہلے ہی سے سکونت پذیر تھے۔اس قبیلے نے بھی حضرتِ ہاجرہ کی اجازت سے وہیں سکونت اختیار کرلی اور بعد میں اسماعیل کی شادی بھی قبیلہ جرہم میں ہوئی۔اسی قبیلے سے اسماعیل اور ان کی اولاد نے عربی زبان سیکھی جس وجہ سے ان کو"عرب مستعربہ"کہاجاتاہے۔2 المسعودی لکھتے ہیں:
وولد إسماعیل یسمون العرب المستعربة.3
حضرت اسماعیل کی آل عرب مستعربہ کہلاتےہیں۔
بنی اسماعیل کے مستعربہ کہلائے جانے کی وجہ کے بارے میں مورّخین میں کچھ اختلاف بھی ملتا ہے۔ بعض مورخین نے کہا ہے کہ ان کو مستعربہ اس لیے کہا گیا ہے کہ حضرت اسماعیل سریانی زبان بولتے تھے۔ جب بنوجرہم، جو قحطانی تھے مکّہ مکرمہ آکر ان کے ساتھ رہنے لگے تو حضرت اسماعیل کی شادی ان کی ایک خاتون سےہوئی اور حضرت اسماعیل اور ان کے بیٹوں نے عربی زبان سیکھ لی ،اس لیے ان کو عرب مستعربہ (بعد میں عرب بننے والے) کہا گیا جبکہ عربِ عاربہ کا معنی اصل عرب ہے۔ اسی طرح ابن سعید اندلسی لکھتے ہیں:
العرب المستعربة ھم بنو إسماعیل بن إبراھیم عليھما السلام قیل لھم ذلک لأنھم تعلموا من أخوالھم جرھم بن قحطان العاربة.4
عرب مستعربہ بنو اسماعیل بن ابراہیم کہلاتے ہیں، انہیں عرب مستعربہ اس وجہ سےکہاگیاکہ انہوں نے اپنے ننہیال جرہم بن قحطان عربِ عاربہ سے (ان کی زبان)سیکھی۔
نیز اسی طرح ابو الفداء عماد الدین لکھتے ہیں:
وقیل لھم العرب المستعربة لان اسماعیل لم تکن لغته عربیة بل عبرانیة ثم دخل فی العربیة فلذالك سمی ولدہ العرب المستعربة.5
انہیں عربِ مستعربہ کہاگیاکیونکہ حضرت اسماعیل کی زبان عربی نہیں تھی بلکہ عبرانی تھی، پھر آپنےعربی سیکھی چنانچہ آپ کی آل عربِ مستعربہ کہلائی۔
تاہم بعض علماء اس بات سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلخالص عرب تھے نہ کہ مستعربہ ۔ڈاکٹر شوقی خلیل اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
عرب مستعربہ ایک خودساختہ کہانی ہے جسے بعض مورخین نے ذکر کیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کا دور خالص عربی دور ہے جو عربیت میں کسی کا محتاج نہیں تھا اور ان کا سریان یا یہود سے کوئی تعلق نہ تھا۔6
مذکورہ بالا دونوں اقوال مورخین اور محدثین نے بیان کیے ہیں اور دونوں نے اپنے اپنے موقف پر دلائل بھی دئیے ہیں جن میں تطبیق اس طرح کی جاتی ہے کہ حضرت اسماعیل کی مادری زبان تو سریانی ہی تھی اور جرہم قبیلہ میں بچپن گزارنے سے آپ نے ان سے عربی بھی سیکھی تھی تاہم فصیح عربی آپ ہی نے سب سے پہلے بولی تھی جو بذریعہ وحی آپ کو سکھائی گئی تھی۔ آپ کی عربی اتنی فصیح تھی کہ جرہم قبیلہ کے لوگ بھی آپ کی زبان مبارک سے عربی زبان کی فصاحت وبلاغت سن کر حیران ہوتے تھے۔ ابن حجر عسقلانی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
بعد تعلمه أصل العربیة من جرھم الھمه اللّٰه العربیة الفصحة المبینة فنطق بھا.7
بنو جرہم سے اصل عربی سیکھ لینے کے بعد اﷲ نے واضح اور فصیح عربی ان کی طرف الہام کی کہ جسے انہوں نے بولنے میں اختیار کیا۔
اس حوالہ سے ڈاکٹر جواد علی بھی لکھتے ہیں:
وإسماعیل ھو أول من نطق بالعربیة الخالصة الحجازیة التی أنزل علیھا القرآن.8
حضرت اسماعیل نے سب سے پہلے خالص عربی حجازی زبان میں کلام کیاجس میں اللہ تعالی نے قرآن کریم نازل فرمایا۔
اس قول کے اعتبار سے حضرت اسماعیل وہ پہلے فرد تھےجنہوں نے سب سے پہلے فصیح عربی بولی اور پھر اسی کا رواج ہوگیا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد کے ادوار میں جزیرہِ عرب کے شمالی حصے کے اکثر عرب اسی مستعربہ کی قسم میں شامل کیے جاتے ہیں خواہ وہ شہری ہوں یا بدوی اور مآرب کا بند ٹوٹنے کے بعد یمن کے عربوں کی بھی ایک بڑی تعداد ان ہی کے ساتھ خلط ملط ہوگئی تھی جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
حضرت ابراہیم کی اولاد میں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق کو شہرت ملی اور دونوں کی نسلیں خوب پھلی پھولیں۔ حضرت اسماعیل کی نسل بنو اسماعیل یا بنی اسماعیل اور حضرت اسحاق کی نسل ان کے بیٹے حضرت یعقوب (اسرائیل) کی طرف منسوب ہوکر بنی اسرائیل کہلائی۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان دونوں نسلوں کے درمیان دوری اور منافرت پیداہوگئی یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے تمام فضیلتیں اپنی جانب منسوب کرلیں اور حضرت ابراہیمکی شخصیت کے ان پہلوؤں پر پردہ ڈال دیا جن سے حضرت اسماعیل کی فضیلت کا کوئی پہلو نکلتا تھا۔قرآن کریم نے جہاں کتب سابقہ کی دوسری بہت سی تحریفات کی اصلاح کی وہیں حضرت ابراہیم کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جنہیں بنی اسرائیل نے نظر انداز کردیا تھا۔ 9
عرب کی تاریخ کے اعتبار سے چونکہ آپہی کی نسل سے بنو اسماعیلو بنو اسحاقوبنوقطورا پیدا ہوئے تو اس لحاظ سے عرب مستعربہ کا تعلق آپ سے ہی بنتا ہے اور یوں آپعرب ِمستعربہ کے جد اعلی کہلاتے ہیں۔ عربِ عاربہ میں سے جرہم قبیلے کے ساتھ حضرت اسماعیلکے تعلقات استوار ہوئے تو انہوں جرہم سے عربی زبان سیکھ لی ۔آپ کی اولاد شمالی عرب کے ایک بڑے علاقے میں پھلی پھولی تاہم حضرت ابراہیم کے خاندان اور ان کے اہلِ قرابت کی نسلوں کا قیام زیادہ تر جنوبی شام اور شمالی حجاز میں رہا۔ حضرت ابراہیم کی حیات تک ان کا خاندان عراق ہی میں آباد رہا۔ ان کا وطن شہر"أور" تھاجو خلیجِ عرب میں اس وقت ایک بندرگاہ کی حیثیت رکھتا تھا لیکن اب اس کا جائے وقوع بصرہ سے کچھ فاصلے پر بتایا جاتا ہے ۔حضرت ابراہیم کی اسماعیلکے سوا بقیہ اولاد اور وہ خود شام و فلسطین میں رہے تاہم ان کی اولاد میں سے ایک شاخ شمالی حجاز کے بعض حصّوں میں بھی پھیلی۔10اس ہجرت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف انداز سے ذکر فرمایاگیا ہے ۔قرآن مجیدمیں مذکور ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کی مشرکانہ رسوم اور غیر اللہ کی پرستش کے خلاف دلائل دیے اور انہیں توحید باری تعالیٰ کی دعوت دی تو انہوں نے حضرت ابراہیمکو آگ میں ڈال دینے کی دھمکی دی جس کو قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیاہے :
قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ 97 فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ 98وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ 99 11
وہ کہنے لگے: ان کے (جلانے کے) لئے ایک عمارت بناؤ پھر ان کو (اس کے اندر) سخت بھڑکتی آگ میں ڈال دو۔غرض انہوں نے ابراہیم () کے ساتھ ایک چال چلنا چاہی سو ہم نے اُن ہی کو نیچا دکھا دیا (نتیجۃً آگ گلزار بن گئی)۔پھر ابراہیم () نے کہا: میں (ہجرت کر کے) اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا ۔
جب آپ معجزانہ طور پرآگ سے محفوظ رہے تو اس کے کچھ عرصے بعد آپ ملکِ شام کی طرف ہجرت فرما گئے۔حضرت ابراہیم نےشام میں قیام کیا اور آپ کے ہمراہ آپ کے بھتیجے حضرت لوطبھی تھے یوں یہ دونوں حضرات مع خاندان کے شام میں مقیم رہے۔ بعد میں اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے صرف حضرت اسمٰعیل اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو وسط حجاز میں لے جا کر بے آب وگیاہ وادی میں آباد کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے:
رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ37 12
اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل ) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔
یہیں حضرت اسماعیل نے پرورش پائی ، بڑے ہوئے اور پھر یہیں آپکی شادی بنو قحطان کے قبیلہ جرہم میں ہوئی جن سےآپ کی نسل پھلی پھولی اور اطرافِ عرب میں پھیل گئی اور آپ کی اولاد کو بعد کے ادوار میں "عرب مستعربہ "میں شمار کیا گیا۔ عرب ِ مستعربہ کےمختلف قبائل کی نسبت حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹوں کی طرف کی جاتی ہے اور ان کی اولاد کو عربِ مستعربہ شمار کیا جاتا ہے۔ شيخ احمد مغنيہ حضرت اسماعیل اور ان کے بیٹوں کی تفصیل کے بیان میں لکھتےہیں:
ثم مرت رفقة من جرھم أو أهل بيت منھم، ونزلوا أسفل مكة، فرأو الطير حائمة فقالوا: لا نعلم بھذا الوادي ماء، ثم أشرفوا فرأوا المرأة وابنھا فنزلوا معھما ھنالك فشب إسماعيل بينھم وتعلم اللغة العربية منھم، وأعجبوا به كثيراً، وتزوج إمرأة منھم وھي: الحنفاء بنت الحارث بن مضاض الجرھمي، فولدت له اثني عشر ذكراً وھم: قيدار، ونابت، وأدبيل، ومبشام، ومسمع، ودوما، ومسا، ومداد، وتيما، ويطور، ونافس وقيدما.13
پھر جرہم کاایک گروہ یا ان کےاہل وعیال کاوہاں سےگزرہوا،وہ مکہ کےقریب رکےتوانہوں نے پرندوں کومنڈلاتےدیکھاتوکہنےلگے:اس وادی میں ہم نےکبھی پانی نہیں دیکھاپس وہ وہاں گئےتو ایک عورت اوراس کےبیٹےکووہاں پایااوروہیں ان کےپاس پڑاؤڈال دیا۔حضرت اسماعیل انہیں میں جوان ہوئے اوران سےعربی زبان سیکھی، وہ بھی آپ کو بہت پسندکرتےتھے۔آپنے ان میں ایک عورت الحنفاء بنت الحارث بن مضاض جرہمی سےنکاح کیا،پس ان سےآپ کےبارہ بیٹےہوئےجویہ ہیں:قیدار، نابت، ادبیل، مبشام، مسمع،دوما، مسا، مداد، تیما، یطور،نافس اورقیدما۔
ڈاکٹرجوادنے حضرت اسماعیلکی زوجہ اوراولادکےنام مختلف ذکرکیےہیں وہ لکھتے ہیں:
ويذكر أھل الأخبار أن "إسماعيل" ولد من زوجه "رعلة"، اثني عشر رجلًا ھم: "نابت" وكان أكبرهم، و"قيذر" و"أذبل"، وميشا، ومسمعا، وماشى، ودما، وأذر، وطيما، ويطور، ونبش، وقيذما وأكثر ھذه الأسماء ورودًا في الكتب العربية نابت وقيذروقد أخذ النسابون ھذه الأسماء من التوراة، فقد جاء فيھا: "ھذه أسماء بني إسماعيل بأسمائھم على حسب مواليدھم: نبايوت بكر إسماعيل، وقيدار، وأدبئيل، ومبسام، ومشماع، ودومة، ومسا، وحدار، وتيما، ويطور، ونافيش، وقدمة.14
اہل اخبارذکرکرتےہیں :حضرت اسماعیل کےہاں ان کی بیوی"رعلہ"سےبارہ بیٹےپیداہوئےجویہ ہیں:نابت جو سب سےبڑاتھااورقیذر،اذبل، میشا،مسمعا،ماشی، دما،اذر،طیما،یطور،نبش اورقیذما۔ عربی کتب میں ان ناموں میں سے کثرت سےواردہونےوالےنابت اورقیذرہیں۔ اہل انساب نےیہ نام تورات سےحاصل کیےہیں پس تورات میں ہےکہ"بنواسماعیل کےناموں کی یہ ترتیب اُن کی ولادت کی ترتیب کے اعتبارسے ہے۔کتاب مقدس تورات میں اسماعیل کے بیٹوں کےناموں کی ترتیب ان کی پیدائش کےمطابق یہ ہے:نبایوت جواسماعیل کاپہلوٹاتھا، قیدار،ادبئیل، مبسام، مشماع، دومہ، مسّا، حدد، تیما، یطور،نفیس اورقدمہ۔
تاریخی روایات میں حضرت اسماعیل کی اولاد کےناموں میں اختلاف ضرور موجود ہے مگر یہ امر متفق علیہ ہے کہ آپکے بارہ (12) بیٹے تھے اور کیونکہ یہ شمالی عرب تھےجوجانوروں کےچارہ اورپانی کی تلاش میں ایک مقام سےدوسرےمقام کی طرف مستقل منتقل ہوتےرہتےتھےاس لیےیہ جزیرہ عرب میں پھیل گئے ۔ طبری، ابن اسحاق کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نابت و قیدر سے عرب کی نسل کو بڑھایا۔ 15 اس کو ابن اثیر نے اپنی کامل میں بھی نقل کیا ہے۔16 اولاد ِ اسماعیل کے پھیلنے کے حوالہ سے احمد مغنیہ تحریر فرماتے ہیں:
افترق ولد إسماعيل عليه السلام يطلبون السعة في البلاد.17
حضرت اسماعیل کی اولادآسودگی کی غرض سےپورےخطہ میں پھیل گئی۔
اسی حوالہ سے ڈاکٹراحمد شلبی لکھتےہیں:
لم تتسع مكة لعرب الشمال فبدأوا يھاجرون للبحث عن مساقط الماء ومنابع العشب، فنزل عبد القيس البحرين، ونزل بنو حنيفة اليمامة، ونزل بنو هوازن بنواحي أو طاس شرقي مكة.18
شمالی عرب کے باشندوں کےلیے مکہ کی زمین کافی نہ رہی تووہ پانی اورچارہ کی تلاش میں ہجرت کرناشروع ہوئے،پس عبد القیس بحرین میں، بنو حنیفہ یمامہ میں اورمکہ کی شرقی وادی یانواح میں بنوہوازن آبادہوئے۔
پانی اور چراہ گاہوں کی تلاش نے بنو اسماعیلکو ہجرت پر مجبور کردیا نتیجتاً وہ منتشر ہو گئےتاہم ان کےکچھ قبائل یہیں قیام پذیررہےاوربیت اللہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔تاریخ العرب القدیم میں ہے:
وحبس قوم أنفسهم على الحرم، فقالوا: لا نبرح من حرم اللّٰه.19
اورایک قوم، حرم بیت اللہ سےجانےسےرکی رہی یہ کہتےہوئےکہ ہم اللہ کےگھرسےہرگزنہ جائیں گے۔
بیت اللہ کی خدمت اوربقعہ حجازکی حکومت اسماعیل کےسپردتھی اس لیے ان کی وفات کےبعدبھی یہ ان میں ہی رہی اگرچہ بعد میں کچھ شاخیں نقل مکانی کرگئیں ۔ مضاض بن عمرو بنو جرہم میں سے پہلا شخص تھا جس نے بیت اللہ کی ذمہ داری نبھائی۔ ابو البقاءوضاحت کرتے ہوئےلکھتےہیں:
إن نابت بن أسماعيل ولي سدانة البيت بعد أبيه عليه السلام، فلما ھلك نابت كان ولده أطفالاً فتولى السدانة أخواله من جرھم، وكان أول من ولي ذلك منھم مضاض بن عمرو بن غالب الجرھمي، ثم بنوه بعده كابراً عن كابر فمن ثم صارت جرھم ولاة الحرم.20
نابت بن اسماعیل اپنےوالدکےبعدبیت اللہ کی خدمت کاذمہ داربنا،جب اس کاوصال ہواتواس کےبچےچھوٹےتھےاس لیےبیت اللہ کی خدمت کی ذمہ داری جرہم میں اس کےننہیال نےسنبھالی۔ان میں سب سےپہلےجس نے ذمہ داری لی وہ مضاض بن عمروبن غالب الجرہمی تھاپھراس کےبیٹوں میں وراثت دروراثت خدمت کی ذمہ داری منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ جرہم ہی حرم بیت اللہ کےوالی بن گئے۔
ابن جوزی نےبھی اپنی کتاب میں اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔21بیت اللہ کی خدمت گزاری کا مطلب حجاز کی حکومت کا والی بننا تھا یوں ان کا اقتدار اور حکومت مضبوط ہوتے گئے۔ ا بن الوردی لکھتے ہیں کہ حجاز کی حکومت کےمعاملہ میں مؤرخین کااختلاف ہے ۔وہ تحریر کرتے ہیں:
واختلف المؤرخون في أمر الملك على الحجاز بين جرهم وبين إسماعيل فمن قائل كان الملك في جرهم ومفتاح الكعبة وسدانتھا مع بني إسماعيل ومن قائل إن قيدار توجته أخواله جرھم وملكوه عليھم بالحجاز وسدانة البيت الحرام ومفاتيحه كانت في بني إسماعيل بلا خلاف حتى انتھى ذلك إلى نابت من ولد إسماعيل وصارت السدانة بعدھم لجرھم.22
حجاز پربادشاہی کےمعاملہ میں مؤرخین کااختلاف ہےکہ حکومت قبیلہِ جرہم کی تھی یا بنو اسماعیل کی چنانچہ کسی نےکہاکہ بادشاہی جرہم کی تھی اورکعبہ کی کنجیاں اورخدمت بنو اسماعیل کےپاس،کسی نےکہاکہ قیدارکےماموں جرہم نے اسےتاج پہناکرحجازپربادشاہ بنایاجبکہ بیت الحرام کی خدمت کنجیوں سمیت بلااختلاف بنی اسماعیل کےپاس تھیں یہاں تک کہ بنی اسماعیل سےنابت پریہ سلسلہ ختم ہوااوران کےبعدخدمت کی ذمہ داری جرہم کےسپردہوگئی۔
یہ لوگ اسماعیلکی اولاد تھے جواندازاً انیسویں صدی قبل مسیح کے قریب حجاز میں پروان چڑھے اور یہاں انہوں نے جرہم کے شاہی خاندان میں شادیاں کیں چنانچہ یہاں ان کی نسل آگے بڑھی لیکن یہ لوگ زمانہ کی گردش کےایسے شکار ہوئےکہ ان کے بارے میں کچھ پتانہ چل سکا اور تاریخ میں پہلی بار جو شخص گمنامی سے ابھر کر سامنے آیا وہ عدنان تھااور اسی سے معروف عربی نسب شروع ہوتا ہے۔ 23عرب مستعربہ اور بنو اسماعیل میں سب سے زیادہ شہرت بنی عدنان کو حاصل ہوئی جن کے قبائل کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
عرب مستعربہ یعنی شمالی عرب کے قبائل کی سرزمین دراصل عربی زبان و ادب کا گہوارہ ہے اور انہی کے معاشرتی سانچے میں عربی ادب کی بیشتر روایات ڈھلی ہیں۔آنحضرت ﷺ کا ظہور ان ہی لوگوں میں ہوا اور قرآن ان ہی کی زبان میں اترا۔یہ لوگ "عدنان" کی اولاد ہونے کے سبب عدنانی پھر عدنان کے بیٹے "معد" اور پوتے "نزار"کی نسبت سے "معدی" اور"نزاری"بھی کہلاتے ہیں۔اس کے بعد یہ دو بڑی شاخوں"ربیعہ"اور"مضر" میں بٹ جاتے ہیں۔24 یہ گروہ جیسا عربِ عاربہ سے نسباً قریب ہے ویسا ہی زمانہ کے لحاظ سےبھی قریب ہے۔ اس گروہ نے خوب ترقی کی،دولت، حکومت اور عزت نے مدتوں اس گروہ کا ساتھ دیانیزحمیر اور کہلان اسی گروہ کے نامی گرامی خاندانوں میں سے ہیں ۔ 25
عدنانی قبائل کے جدِ اعلیٰ ،عدنان26 کے دو بیٹے عک اور معدّ ہوئے پھرمعدّ کے آٹھ (8)بیٹے ہوئے البتہ ا ن میں سے فقط چار(4) کے متعلق تفصیلات محفوظ ہیں اور ان کی آل واولاد کا ذکر ملتا ہے۔ معد ّکے چار بیٹے یہ تھے:
(1) ایاد:یہ بڑے قبائل کی طرف منسوب ہوئے البتہ ان میں بذات خود کوئی قبیلہ مشہور نہیں ہوا۔بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ قومِ ثقیف ان میں سے تھی۔
(2)نزار:ان کے ہاں مضر،ربیعہ اور انمار پیدا ہوئے۔
(3)قنص: کچھ مؤرخین حیرہ کے آل منذر کہلانے والےملوک کوقنص ہی کی اولاد میں شمار کرتے ہیں۔
(4)قضاعہ :یہ عین کی جانب جابسے اور یمنی شمار ہوئے۔27
نسبِ رسول اللہﷺ (یعنی وہ آبائی نسل جس میں رسول اللہﷺ کی ولادت ہوئی) میں ، "نزار"کے ان ہی چار بیٹوں میں سے "مضر " شامل ہے۔ 28 ربیعہ اور مضر کا نسب حضرت اسماعیلکی اولا د میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے29 اور یہ دونوں ہی عرب کے دو بڑے قبیلے شمار ہوتے ہیں۔ قبیلہ ربیعہ کی رہائش نجد کے علاقوں سے لے کر تہامہ کے نشیبی علاقوں تک تھی اور قبیلہ مضر حجاز میں پھیلا ہواتھا ۔ مضری قبائل کے حوالہ سے ابن خلدون لکھتے ہیں:
مضر بن نزار وكانوا أھل الكثرة والغلب بالحجاز من سائر بنى عدنان وكانت لهم ریاسة بمکة.30
حجاز میں یہ فخر واعزاز بنومضر بن نزار ہی کو حاصل تھا کہ وہ تمام بنوعدنان میں کثرت وغلبہ کے لحاظ سے زیادہ تھے اوران کی ریاست وحکومت مکّہ میں تھی۔31
آنے والے ادوار میں ان کی نسل بہت بڑھی اور پھلی پھولی یہاں تک کہ انہوں نے نجدکے بہت سے علاقوں پر اقتدار حاصل کرلیا اور مکّہ مکّرمہ میں حرم کی سیادت کا شرف ان ہی کو حاصل ہوا۔
بنو نِزار معد بن عدنان کی اولاد ہیں۔ان کی دو مشہور شاخیں ہیں جن میں سے پہلی بنو مُضَر ہے جس میں بہت سے عدنانی قبائل شامل ہیں جن میں سے کئی فنا ہو چکے ہیں جبکہ ان کی دوسری مشہور شاخ بنو ربیعہ کہلاتی ہے۔ قدیم عرب کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ "مضر" کے ہاں "الیاس" اور "عیلان" پیداہوئے جبکہ "انمار" کے ہاں" خثعم "اور"بجیلہ" پیداہوئے جو یمن کی جانب چلے گئےاور یوں مضر کی دو بڑی شاخیں "قیسِ عیلان" اور "الیاس" وجود میں آئیں ۔ 32
نِزار کی اولاد میں سےبنو مضر قبائل میں قیس عیلان سب سے ممتاز ہے جو قیس بن عیلان بن مضر کی اولاد ہیں۔33 قیس بن عیلان کے بیٹے خصفہ ،سعد اور عَمر و تھے۔ عَمر و کی اولاد میں بنو فہم تھے جن کے متعلق قضاعی نے لکھا ہے کہ وہ فتحِ مصر کے موقع پر موجود تھے ۔ بنو فہم میں طرود بن فہم بھی تھے جو کہ ارض نجد میں آباد ہوا کرتے تھے۔ سعد بن قیس کی اولاد میں بنو غطفان بن سعد بن قیس بن عیلان مشہور ترین قبیلہ ہے۔ اس کی کئی شاخیں ہیں۔ ان کے مساکن وادی القریٰ اور جبل طئی کے آس پاس کے علاقوں میں تھے تاہم فتوحات اسلامیہ کے بعد یہ قبائل مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔بنو غطفان کی مشہور شاخوں میں بنو عبس تھے جو کہ بنو عبس بن بغيض بن ريث ابن غطفان تھے۔بنو غطفان کی ہی ایک شاخ ذبیان تھی جو کہ بنو ذبیان بن بغيض بن ريث ابن غطفان تھے۔ذبیان کی اولاد میں سعد، فزارہ اور مازن تھے۔انہی میں سے بنی ثعلبہ بن سعد اور بنی عامر تھے۔ انہیں میں بنی یشکراور بنی سلیمان تھے جو کہ بنو عبس کے سلسلہِ نسب میں سے تھے اور انہیں بنو دلاص کہا جاتا تھا۔بنو ذبیان کی ایک شاخ بنو فرازہ تھی جن میں بنو مأزن اور بنو عدی تھے۔ بنو فرازہ کے مساکن بھی نجد اور وادی القریٰ کے آس پاس کے علاقوں میں تھے تاہم فتوحات اسلامیہ کے بعد یہ بھی دیگر علاقوں میں پھیل گئے جن میں مصر کے کچھ علاقوں میں ان کے آباد ہونے شواہد بھی ملتے ہیں۔ بنو فرازہ کی ایک شاخ بنو بدر بھی ہے جو کہ دراصل بنو بدر بن عدی بن فرازہ ہے۔ بنو غطفان کی سربراہی بنو فرازہ کے ہاتھ میں تھی۔قیس عیلان قبائل کی دوسری مشہور شاخ بنو ہوازن تھی جو دراصل بنو ہوازن بن منصور بن عكرمہ بن خَصفہ بن قيس عيلان تھے۔ انہی میں سے بنو غزیہ تھے جو دراصل بنو غزيہ بن جشم بن معاويہ بن أبی بكر بن ہوازن تھے۔ان کے مساکن تہامہ اور نجد کے درمیان تھے۔ بنو ہوازن کا ایک اور قبیلہ بنو صعصعہ بن معاويہ بن ہوازن تھا۔ ان میں سے عامر بن صعصعہ کی اولاد میں بنو کلاب تھے جو دراصل بنو کلاب بن ربيعہ ابن عامر بن صعصعہ تھے۔ بنو الوحيد، بنو ربيعہ اور بنو عمرو بھی ان میں سے ہی تھے۔ان کے مواطن حمی ضریہ، حمی کُلیب اور زبدہ وغیرہ مدینہ منورہ کے قریب تھے۔ اس کے علاوہ فدک اور عوالی میں بھی آباد تھے تاہم بعد میں یہ بھی بلادِ شام کی طرف ہجرت کرگئے۔ ان کی حلب اس کے نواح اور دیگر کئی شہروں پر حکومت بھی قائم رہی۔ ان میں پہلا بادشاہ صالح بن مرادس تھا۔ عامر بن صعصعہ کی اولاد میں بنوہلال بھی تھے جو دراصل ہلال بن عامر بن صعصعہ تھے۔ہلال کے پانچ بیٹے شُعبہ، ناشرہ، نہيك، عبد مناف اور عبد الله تھے جن کے نام پر اس قبیلے کی مختلف شاخیں ہیں۔انہی کی نسبت سے شام کا جبل الہلال مشہور ہے۔بنو ہلا ل کی ہی ایک شاخ بنو رباح بھی تھی۔بنو رباح میں سے بنو فادع اور بنو عامر بھی تھے۔ اس کے علاوہ بنو رفاعہ، بنو حجیر ، بنو عزیز بھی ان کے مشہور قبائل تھے،اخمیم میں سے بنو قُرّہ تھے جن کی شاخیں بنو عقبہ اور بنو جمیلہ تھیں۔ عامر بن صعصعہ کی اولاد میں بنو عُقیل بن کعب بھی تھے جن کے مساکن بحرین میں تھے ۔ بنو عُقیل ، بنو تغلب اور بنو سلیم کا شمار بحرین کے سب سے بڑے قبائل میں ہوتاتھا۔بنو عامر کی ایک شاخ بنو عامر بن عوف بن مالك تھی ۔اسی طرح بنوعقیل ایک مشہور قبیلہ تھا جس کی شاخوں میں بنو عبادہ بن عقیل تھے جن کا ایک گروہ بنوعز تھا۔بنو عقیل کی ایک شاخ بنو خَفاجہ تھی ۔ 34
قیس عیلان سے بنو سُلیم تھے جو دراصل سُلیم بن منصور بن عكرمہ بن خَصفہ بن قيس بن عيلان تھے۔ان کے مساکن نجد کے بالائی حصے میں خیبر کے قریب تھے جن میں حرہ سليم، حرہ النار وادی القریٰ اور تیماء کے درمیان کا علاقہ شامل تھا۔ان کے مشہور قبائل بنو زيد،بنو حمدان اور بنوزيان وغیرہ تھے۔بنو سُلیم کی ہی ایک شاخ بنو لَبِید تھی جو ایک بڑا قبیلہ شمار ہوتا تھا۔ ان کے مساکن و مواطن ارضِ برقہ میں تھے۔ بنو سُلیم کی ایک اور شاخ بنو عوف تھے جو کہ بنو عوف بن بُهثة بن سُلیم تھے جن کی ایک شاخ بن عِلاف تھی جن سے الکعوب تھے جن کی اولاد میں بنو ابی اللیل تھے جو کہ عرب کے اکابر اور صاحب ِ اختیار و اقتدار لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ بنو سُلیم میں سے ہی بنو ذباب تھے جو دراصل بنو ذباب بن مالك بن بُهثة بن سُلَيم تھے۔ بنو سُلیم کی ایک اور شاخ بنو ھیب تھی جو کہ بنو ھیب بن بُهثة بن سُلَيم تھے جن کی مشہور شاخیں بنو احمد اور بنو شماخ ہیں۔ بنو سُلیم سے ہی قبائلِ محارب تھے۔ قیس عیلان کے گروہ سے تعلق رکھنے والے قبائل میں ہی بنو عَدوان تھے جو کہ حارث بن قیس بن عمرو کی اولاد میں سے تھے۔ ان کی شاخوں میں زید، یشکر اور دوس قبائل شامل تھے۔یہ بڑے قبائل تھے جن کی منازل و مساکن نجد کے علاقے طائف میں تھے تاہم ثقیف کے غلبے کے بعد یہ تہامہ کی طرف چلے گئے تھے۔35
بنو ربیعہ، ربیعہ بن نِزار بن معد بن عدنان کی نسل سے تھے۔ ربیعہ کے بیٹوں میں اسد، ضبيعہ،عمرو، أكلب، خلف اور خثعم شا مل ہیں جن سے مختلف قبائل ہوئے ۔ ان کے مساکن یمامہ، بحرین اور عراق کے درمیان تھے۔ اسد کے بیٹے جديلہ، وعَنزہ، وعُمَيرہ تھے۔ بنو عنزہ کے مساکن عراق میں الانبار کے قریب تھے جہاں سے یہ خیبر کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ بنو وائل بھی بنو ربیعہ ہی کی ایک شاخ تھے جو کہ دراصل وائل بن قاسط بن هنب بن افصی بن دُعمی بن جديلہ بن اسد بن ربيعہ کی اولاد میں سے تھے۔وائل کے بیٹوں میں بكر، تغلب، عنز، الشُّخَيص شامل تھے ان میں سے بنو بکر بن وائل زیادہ معروف ہیں جو بكر بن وائل بن قاسط بن هنب بن أفصی بن دُعمی بن جديلہ بن أسد بن ربيعہ کی اولاد ہیں ۔ اس کی اولاد میں علی، یشکر اور بدن تھے جن میں سے بدن قبیلہ، یشکر میں ضم ہو گیا تھا۔ یہ شہرت و تعداد میں مشہور تھے۔ بنوبکر بن وائل میں بنو عجل بھی تھے جو عجل بن لجيم بن صعب بن علی بن بكر ابن وائل کی اولاد میں سے تھے۔ عجل کے بیٹوں میں سعد، صعب، ربيعہ اور ضبيعہ تھے جن کی نسبت سے ان قبائل کی مختلف شاخیں تھیں۔ یمامہ اور بصرہ کے درمیان انکی آبادیاں اور مساکن تھے۔ بنو وائل کے قبائل میں سے ہی بنوتغلب تھے جو تغلب بن وائل کی اولاد تھے۔ بنو تغلب کو الغَلباء کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔بنو تغلب کی شاخیں اوس ، غنم اور عمران تھیں۔ان کے مساکن و دیار جزیرہِ فُراتیہ کی طرف سِنجار اور نصیبین کی جانب تھے اور دیارِ ربیعہ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ مسالکِ الابصار کے مطابق بُزرع اور بُصریٰ نامی اقوام ان کی نسل سے ہی تھیں۔ بنی ربیعہ کا شمار بھی ان ہی میں ہوتا ہے جن کے مساکن حجاز کے علاقوں میں تھے۔ 36
الیاس بن مضر کے تین بیٹے تھے،مدرکہ،طابخہ اورقمعہ۔یہ دراصل بنو الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان تھے۔بنو الیاس کی اولاد کو خندف کہاجاتا ہے کیونکہ الیاس کی بیوی کو خندف کہاجاتاتھا پس ان ہی کی طرف الیاس کی اولاد کو منسوب کیاجاتاہے37 جبکہ بیوی کااصل نام لیلیٰ بنت حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ تھا۔38 الیاس کے بیٹوں میں مدرکہ ، طابخہ اور قَمعہ کے نام ملتے ہیں۔عمود ِ نسب ِ نبوی ﷺ میں ان میں سے مدرکہ آتے ہیں۔39 الیاس کی اولاد سے کثیر قبائل وجود میں آئے۔ جن میں سے چند اہم قبائل کے نام ذیل میں مذکور ہیں:
(1) خزاعہ :یہ قمعہ بن الیاس کی نسل سے تھے۔
(2) مزینہ: یہ اسد بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضرسے تھے۔
(3) تمیم:یہ سعد بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس سے تھے۔
(4) خزیمہ:یہ مدرکہ سے تھے۔
(5) ہونیہ :خزیمہ بن مدرکہ سے تھے جن سے بعد میں القارہ ہوئے۔
(6) اسد:یہ بھی خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر سے تھے۔
(7) کنانہ: یہ بھی خزیمہ سے تھے۔40
مدرکہ بن الیاس بہت بڑا قبیلہ تھا جس سے کئی شاخیں نکلیں جو عرب کے مختلف علاقوں میں پھیل گئیں جن میں ہذیل ،قریش، اسد اور کنانہ زیادہ اہم ہیں۔ہذیل سے سعد،لحیان اور عمیر پیداہوئے۔41 ان مدرکی قبائل کے حوالہ سے ابن خلدون لکھتے ہیں کہ مدرکہ بن الیاس کئی شاخوں والا نہایت عظیم الشان قبیلہ تھا۔42 ابن خلدون کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ قبیلہِ مدرکہ عرب کا ایک انتہائی اہم اور بڑا قبیلہ تھاجس سے عر ب اور حجاز میں کئی شاخیں پھیلیں اورانہوں نے خوب ترقی کی جن میں بنو کنانہ خاص طور پرقابلِ ذکرہے۔
ہمدانی نے ثعلبہ مصر اور ثعلبہِ شام کو قبائلِ خندف سے قرار دیا ہے۔قبائلِ خندف میں سے ہی بنو ہذِیل تھے جو کہ ہذِیل بن مدرکہ بن الیاس کی اولاد سے تھے۔ بنوہُذِیل میں قبائلِ سعد ، لحیان، بطن ، عمیرہ اور ہرمہ بطن شامل ہیں۔عبداللہ ابن مسعود، مشہور صحابی اور أبو ذؤيب الهذلی نامی شاعر انہیں میں سے تھے۔ ان کے دیار ومساکن السروات میں جبلِ غزوان کے پاس طائف سے متصل تھے۔ ان کے پانیوں کے چشمے اور دیار و اماکن نجد اور تہامہ کی جانب بھی ہیں۔مکہ کی وادی نخلہ میں ان کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جو اپنی طاقت و جوانمردی کے سبب مشہور تھے۔ ان ہی کے بطون میں سے حتارشہ اور بنو رِیشہ تھے جو کہ نخلہ کے قریب ہی آبا دتھے۔اخمیم کا بظوخۃ الجبل نامی گروہ بھی ان ہی میں سے قرار دیا جاتا ہے جنہیں بنی شاد بھی کہا جاتا ہے۔43 یونس بن حبیب کے قول کے مطابق بنو ہذیل اپنے شعراء ، تیز اندازوں اور اپنے دشمنوں سے سختی سے پیش آنے کے سبب مشہور تھے۔ 44
بنوکنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر ایک بڑا عرب قبیلہ تھا جس کے مساکن آغاز اسلام کے وقت مکہ کے گرد نواح کے اس علاقے میں تھے جو شہر کے جنوب مغرب میں تہامہ سے لے کر شہر کے شمال مشرق تک پھیلے ہوئے تھے ۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ کنانہ کے بیٹوں میں نضر تھے جو عمود ِ نسب ِ رسول ﷺ میں آتے ہیں۔کنانہ کے دیگر بیٹوں میں مَلک، ملكان، الحارث، عامر، سعد، غنم، عوف، مجريہ، جرول، عزوان اور جرال شامل ہیں۔ان کی اولاد سے منسوب قبائل یمن، مکہ، مصر اور دیگر علاقوں میں آبا دتھے۔45 بنوکنانہ میں بنوبکر، عبد مناۃ بن کنانہ کی نسل سے ایک بڑا قبیلہ تھا۔ 46 ان میں بنو اللیث اور بنو ضمرہ تھے۔ بنو لیث، عبید بن عمیر اللیثی اور عبد اللہ بن شداد کی قوم تھے۔بنومدلج،یہ مدلج بن مُرہ بن عبد مناۃ بن کنانہ سے تھے ۔صحابی ِ رسول ،حضرت عمرو بن امیہ الضمری کا تعلق بنوضمرہ سے تھا ۔47 بنو مدلج علم قیا فہ میں مہارت کے سبب شہرت رکھتے تھے۔ انہیں میں سےمحرز المدلجی نامی صحابی ِ رسول تھے جنہوں نے حضرت زید بن حارث اور اسامہ بن زید کے پیروں کو دیکھ کر علم ِقیافہ سے پہچان لیا تھا کہ ان دونوں کا نسب ایک ہے۔ مسالک الابصار میں ہے کہ بنو مدلج دمیاط اور اس کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ بنو کنانہ میں ہی بنو فراس بن غنم بن ثعلبہ بن الحارث بن مالك بن كنانہ تھے اور ان ہی میں سے بنو جماعۃ تھے ۔48 اس کے علاوہ بنو حارث تھے جو کہ بنو الرشد کہلائے گئے۔پہلے یہ بنو غوی کہلاتے تھےمگر رسول اللہﷺ نے انہیں بنی الرشدپکارا۔49
کنانہ کی اولاد میں "نضر" اہم شخصیت کے حامل تھے اور نضر کی اولاد میں سے" مالک" اور مالک کی اولاد میں سے "فہر" اہمیت کے حامل تھے نیز فہر ہی کو "قریش" کہا گیا۔ 50 ان قبائل میں "مدرکہ" اور ان کے بیٹے" خزیمہ" نبی کریمﷺ کے اجداد میں سے تھے۔
قریش عرب کا مشہور ترین قبیلہ تھا اور اس کی اہمیت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھانیز یہ قبیلہ خانہ ِ کعبہ کی تولیت اور تجارتی سرگرمیوں کے سبب باقی عرب قبائل کے درمیان ایک بااثر قبیلہ تصور کیاجاتا تھا۔ یہ لوگ خوشحال اور متمدّن تھے اور ان کے تجارتی مراسم شام،عراق،یمن اور حبشہ سے استوار تھے۔معاشرتی امور و مسائل پر بھی ان کی گرفت مضبوط تھی اور ان کی سماجی حیثیت کو بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔اس قبیلہ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے تعلق کا اندازہ حضور ﷺ کے ارشادات گرامی سے بخوبی کیاجاسکتا ہے۔51 قبیلہِ قریش کے بارے میں بے شمار فضائل احادیث وسیرت کی کتابوں میں بیان ہوئےہیں۔52 یہاں اس قبیلہ کا مختصراً 53 تذکرہ کیا جارہاہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کے آباؤ اجداد میں سے ایک جدِ اعلیٰ "فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ" کا لقب "قریش" تھاجن کی اولاد کی تمام شاخیں قریش کہلائیں۔تاہم کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کا نام قریش اور لقب فہر تھا۔ فہر بن مالک کی تمام اولاد کو بنو قریش یا قریشی کہا جاتا ہے۔ قریش کا مادہ "قرش "ہے، جس کے معنی " کمانا" کے علاوہ " تفتیش کرنا" اور "جستجو کرنا " بھی ہیں۔ فہر بن مالک نے اس لقب کو اپنے استیلاء اور غلبہ کے اظہار کے لیے اختیار کیا تھا۔ وہ ضرورت مندوں کو تلاش کرکے ان کی حاجات پوری کرتے، غریبوں کی مال سے مدد کرتے اور خوف زدہ لوگوں کا خوف دور کرتے تھے۔ ان کے عظیم اوصاف کی وجہ سے ان کے قبیلے کا نام ان ہی کے نام پر پڑ گیا۔
شعبی کے نزدیک"تقریش"" بمعنی "تفتیش "کے ہے۔اس خاندان کے آباواجداد غریب اور نادار لوگوں کو تلاش کرکے ان کی ضروریات و حاجات پوری کیا کرتے تھےاور حجاج کرام کے حالات دریافت کرتے نیز ان کی مدد و اعانت بھی کیا کرتے تھے اس لیے انہیں قریش کہا جاتا۔ تاہم قریش کو قریش کہنے کی وجہ تسمیہ کی بابت دیگر روایات بھی منقول ہیں۔ایک رائے کے مطابق یہ"تقرش " سے ماخوذ ہےجس کا معنی "التجمع والالتئام"یعنی کسی کا منتشر ومتفرق ہوجانے کے بعد اکٹھا اور مجتمع ہونا ہیں۔ قریش کا قبیلہ پہلے سارے عرب میں منتشر تھا پھر حضرت قصَی بن کلاب نے انہیں مکّہ مکّرمہ میں یکجا کیا اور حرم کے آس پاس آباد کیا اس لیے یہ نام پڑا گیا۔اس حوالہ سےقرطبی لکھتے ہیں:
والتقریش الإكتساب، وتقرشوا أى تجمعوا وقد خانوا متفرقین فى غیر الحرم، فجمعھم قصى بن كلاب فى الحرم، حتی اتخذوہ مسكنا قال الشاعر:
أبو ناقصى كان یدعى مجمعا به
یجمع اللّٰه القبائل من فھر.54
اور "تقریش " کا معنی کمانا ہے جبکہ "تقرشوا " کا معنی ہے وہ جمع ہوئے، چونکہ وہ حرم کے علاوہ دیگرجگہوں میں بکھرے ہوئے تھے توقصی بن کلاب نے انہیں حرم میں جمع کردیا یہاں تک کہ قریش نے حرم کو اپنا مسکن بنالیا۔شاعر کہتا ہے:
ہمارا باپ قصی جسے مجمع کہا جاتا تھا
فہر کی نسل کے قبائل کو اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ جمع کیا
قرطبی کے نقل کردہ مذکورہ بالا حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فہر بن مالک کے خاندان کی مختلف شاخو ں کے جمع ہونے کی وجہ سے قریش نام پڑنے کا احتمال بھی رد نہیں کیاجاسکتا۔
قبائل عرب میں قریش ایک بڑا اور اہم قبیلہ تھا اور اس کی متعدد شاخیں تھیں۔ بعض نےقبیلہ قریش کی دس(10) اور بعض نے بارہ ( 12) شاخوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے جو حسب ذیل ہیں:
(1) بنی ہاشم۔
(2) بنی امیہ۔
(3) بنی نوفل۔
(4) بنی عبد الدار۔
(5) بنی اسد۔
(6) بنی تمیم۔
(7) بنی مخزوم۔
(8) بنی عدی۔
(9) بنی جہم۔
(10) بنی سہم۔
ابن حدیدہ اور دیگر کئی علماء مندرجہ ذیل دو شاخوں کا بھی تذکرہ کرتے ہیں:
(11) بنو ابن عامر۔
(12) بنو حارث بن فہر۔55
مندرجہ بالا بارہ (12) شاخوں کو قبائل ِقریش کے نام سے جاناجاتا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اورپھر بعد از اسلام تک مکّہ مکّرمہ میں ان قبائل کا اثر ورسوخ رہا۔ علامہ حلبی سیرۃ ِحلبیہ میں لکھتے ہیں:
وأنزل القبائل من قريش أى فإنه جعلھا اثنتى عشر قبيلة.56
قصی نے قریش کے لوگوں کو مکے میں لاکر بسایا اوراس نے قریش کو بارہ (12)قبیلوں میں تقسیم کردیا۔
قصی نے ان تمام قبائل کو سرزمین مکّہ میں پھیلا کر مندرجہ ذیل دو حصوں میں تقسیم کردیا:
(1) قریشِ بطاح۔
(2) قریش ظواہر۔
جن قبیلوں کو آپ نے بیت اﷲ شریف کے قریب بسایا یعنی پہاڑیوں کے قریب انہیں "قریشِ بطاح" کہا گیا اور جن قبائل کو مکّہ مکّرمہ کے میدانی علاقوں میں بسایا انہیں "قریشِ ظواہر "کہا گیا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں:
وأنزل قصى قبائل قریش أباطح مکة وأنزل طائفة منھم ظواھرھا فکان یقال قریش البطاح وقریش الظواھر.57
قصی نے قریش کے قبائل کو مکہ کی وادیوں میں لاکر آباد کیا اوران کے ایک گروہ کو مکہ کے بالائی حصہ میں بسایا چنانچہ وہ قریش بطاح کہلائے اوردیگر قریش ظواہرکہلائے۔
ابن ِ کثیر کے نقل کردہ قول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ پہاڑی و میدانی علاقہ مکہ کے نواح میں تھا جس کےپہاڑی حصے میں بسنے والے "بطاح کے قریشی "کہلائے جبکہ میدانی حصے میں بسنے والے "قریش ظواہر "کہلائے۔قریش بطاح میں بنو قصی بن كلاب اور بنو كعب بن لؤی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ باقی تمام قریش ِ ظواہر ہیں۔ظہورِ اسلام کے وقت قریش کی مشہور شاخوں اور بطون میں بنو الحارث بن فہر، بنو جذيمۃ، بنو عائذة، بنو سامۃ، بنو لؤی بن غالب، بنو عامر بن لؤی، بنو عدی بن كعب بن لؤی، بنو فہم بن عمرو بن هُصيص بن كعب بن لؤی، بنو جمح، بنو مخزوم، بنو تميم بن مرة، بنو زهرة بن كلاب، بنو اسد بن عبد العزی، بنو عبد الدار، بنو نوفل، بنو عبد المطلب، بنو امیہ اور بنو هاشم وغیرہ شامل تھے۔ 58
بنو عدی،عدی بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر کی اولاد تھے۔59 عدی کے بیٹوں میں زراح بن عدی اور عویج بن عدی تھے۔ 60 زراح کا ایک بیٹا قرط تھا جس کا ایک بیٹا عبداللہ ہوا۔ عبداللہ کا بیٹا ریاح تھا جس کا ایک بیٹا عبدالعزیٰ ہوا۔ عبد العزیٰ کا بیٹا نفیل سرداران ِ قریش میں سے تھا۔ یہی نفیل خطاّب کا والد اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کا دادا تھا۔61 حضرت عمر بن خطاب کی اولاد عُمَری کہلائی اور مصر و شام میں آباد ہوئی۔ قریش کی ایک اور اہم شاخ بنو جُمَح تھی جو بنو جمح بن ھصيص بن كعب بن لؤی کی اولاد تھے۔ان میں بنو حُذافہ اور بنو سعد تھے۔ خلف کے بیٹوں اُمیہ اور اُبی، مخالفین و دشمنانان رسول ِ اکرم ﷺکا تعلق اسی بنو حُذافہ سے ہی تھا۔ بعض اقوال کے مطابق کلدۃ بن اُسید جس کے متعلق لقد خَلقنا الإنسان في كبد نازل ہوئی تھی اور جمیل بن معمر جس کے متعلق ما جعل الله لرجل من قلبين في جوفه نازل ہوئی تھی، ان دونوں کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا۔
بنو سہم، سہم بن عمرو بن هصيص کی اولاد تھے جن سے بنو سعد اور بنو سعید ہوئے۔ قیس بن عدی کا تعلق اسی بنو سعد بن سہم سے تھا۔سعید بن سہم سے العَمروی ہوئے جو سنہ 20 ہجری میں مصر فتح کرنے والے صحابیِ رسول ﷺ عمرو بن العاص بن وائل بن هاشم بن سعيد بن سہم کی اولاد تھے اور فسطاط میں آباد ہوئے۔ 62
بنو تمیم، تميم بن مُرة بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر کی اولاد تھے۔صحابیِ رسول ﷺ حضرت طلحہ جو عشرہ ِ مبشرہ میں سے تھے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ بَکَرِی قبائل جو کہ ابو بکر صدیق کی اولاد سے تھے، بنو تمیم سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ابو بکر صدیق کا نام عبداللہ یا عتیق بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تميم تھا۔ 63
بنو مخزوم، مخزوم بن يَقْظۃ بن مرة بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر کی اولاد تھے۔64 دورِ جاہلیت میں ان کا شمار اشرافِ قریش میں ہوتا تھا۔ مخزوم کے بیٹوں میں عمر، عامر اور عمران شامل تھے جن کی نسبت سے اس قبیلہ کی شاخیں مشہور ہوئیں۔ مسلمانوں کے مشہورعسکری جنرل، خالد بن ولید اسی قبیلہ سے تھے۔ان کا نسب خالد ابن الوليد بن المُغيرۃبن عبد الله بن عمر بن مخزوم تھا۔ ابو جہل بن ہشام، بھی اسی قبیلہ سے تھا جو غزوہ ِ بدر میں قتل ہوا تھا۔ اس کے بھائی سلمہ بن ہشام مسلمان ہو گئے تھے اور خیار المسلمین میں شمار کیے جاتے تھے۔ 65
بنوزہرہ، زہرہ بن عبد الدار بن قصی بن كلاب بن مرّة ابن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالك کی اولاد تھے۔66 کلاب كا نام بهی نبی اكرم ﷺ كے عمود ِ نسب میں آتا ہے۔ زہرہ کے دو بیٹے عبد مناف اور حارث تھے جن کی نسبت سے ان کی شاخیں ہیں۔ نبی ِ اکرم ﷺکی والدہِ ماجدہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا۔ عشرہِ مبشرہ میں سے سعد ابن ِ ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف بھی اسی قبیلے سے تھے۔عبدالرحمن بن عوف کی اولاد اسلامی حکومت کے ادوار میں مصر اور الجیزہ کے علاقوں میں آباد ہوگئی تھی۔ 67
قریش کی ایک اور اہم شاخ'' بنو عبد الدار'' تھی۔ یہ عبدالدار بن قُصیّ بن كلاب بن مرّة بن كعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالك کی اولاد تھے۔جناب ِ قصیّ كا نام بهی نبی اكرم ﷺ كے عمود ِ نسب میں شامل ہے۔یہ عبد الدار کے تین بیٹوں عثمان، عبد مناف اور السباق کی اولاد تھے۔ ان میں سے کچھ نے مضاف کی طرف نسبت کرتے ہوئے اپنے آپ کو '' عبدی''، جبکہ کچھ نے مضاف الیہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے خود کو '' داری'' کہلایا تاہم ان میں سے کچھ نے دونوں ہی کی طرف نسبت کی اور خود کو'' عبدری'' کہلایا۔ یہ عرب میں رائج تھا جیسے کہ عبد الشمس سےعبشمی اور عبد القیس سے عبقسی کا استعمال رائج تھا۔ نضر بن حارث کا تعلق بھی بنی عبدالدار سے تھا جو غزوہِ بدر میں قتل ہواتھا۔ قصیّ نے جب ابی غُبشان الخزاعی سے کعبۃ اللہ کی چابیاں حاصل کیں تھیں تب سے ہی کعبۃ اللہ کی حجابت جناب ِ عبد الدار اور پھر انکی اولاد کے ہاتھ میں رہی۔ بنی عبد الدارکی ایک شاخ بنو شیبہ تھی۔ یہ شَيبہ بن عثمان بن طلحہ بن عبد الدار بن قصی کی اولاد تھے۔ کعبۃ اللہ کی سدانت یعنی اس کی صفائی ستھرائی، دروازے کھولنے اور بند کرنے اور دیگر امور کی ذمہ داری انکے پاس تھی۔نبی اکرم ﷺ نے خانہ کعبہ کی چابیاں فتح مکہ کے بعد عثمان بن طلحہ کے پاس ہی رہنے دیں۔68
قریش کی ایک اور اہم شاخ بنو اسد ہے جو ا سد بن عبد العزی بن قصیّ کی اولاد ہیں۔69 نبی اکرم ﷺکی زوجہ ِ مطہرّہ ام المومنین حضرت خدیجہ بنتِ خویلد ، ورقہ بن نوفل اور عشرہِ مبشرہ میں سے زبیر بن عوام کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔ زبیر بن عوام کی اولاد زبیری یا بنو زبیر کہلائے۔ زبیر بن عوام کے دس بیٹے ہوئے جو عبداللہ، المنذر، عروۃ، الھاجر، مصعب، عبیدہ، جعفر، عمرو اور خالد تھے۔عبد الله کی اولاد سے بنو بدر، بنو مصلح اور بنو رمضان نامی قبائل ہوئے۔بنی مصعب سے محمد بن رواق والی جماعت ہے۔ عروۃ کی اولادسے بنو عتی ہیں۔70 بنو اسد میں ہی حکیم بن حزام گزرا ہے جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ جوف کعبہ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ایک سو بیس سال کے قریب عمر پائی تھی۔71 بنو اسد کے لوگ، فنِ خطابت میں مہارت کی وجہ سے مشہور تھے۔ اسی لیے یونس بن حبیب نے کہا تھا کہ:
"ليس في بني أسد إلا خطيب، أو شاعر، أو قائف، أو زاجر، أو كاهن، أو فارس.72
بنی اسد میں خطیب یا شاعر یا ماہرین ِ نسب یا زاجر (ہُدی خوان )یا کاہن یا گھڑ سوار ہی پائے جاتے ہیں۔
یہ اُميّہ بن عبد شمس بن عبد مناف کی اولاد سے تھے۔ ان میں دو گروہ تھے ایک امیہ اکبر تھے جبکہ دوسرا گروہ امیہ الاصغر کہلایا۔ امیہ اکبر کے دس بیٹے تھے جن میں سے چار کو الاعیاص کہا جاتا ہے جن میں العاص، وابو العاص، والعيص، وابو العيص شامل ہیں۔ بقیہ چھ کو عنابس کا نام دیا جاتا ہے جو کہ حرب، ابو حرب، سفيان، ابو سفيان، عمرو اورابو عمرو ہیں۔ انہیں العنابس حرب کے ایک بیٹے عنبسہ کی نسبت سے کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنی ، حضرت معاویہ بن ابو سفیان ، حکم بن العاص اور شام و اندلس کی اُموی خلفاء ان ہی کی اولاد سے ہیں۔ بنو امیہ کا دوسرا گروہ اُمیّہ الاصغر ہے جسے العَبلات بھی کہا جاتا ہے۔ جوہری کے مطابق ان کی والدہ عبلہ کی نسبت سے انہیں العَبلات کہا جاتا ہے۔73
یہ ہاشم بن عبدمناف کی اولاد تھے۔عبد مناف کے چار بیٹے تھے۔ ہاشم، مطلب، عبدالشمس اور نوفل۔ان میں سے ہاشم اور عبدالشمس جڑواں بھائی تھے۔یہ داستان مشہور ہے کہ پیدائش کے وقت ہاشم کے پاؤں کا انگوٹھا عبدالشمس کی پیشانی سے جڑاہوا تھا جسے ان کے والد عبدمناف ابن قصی نے تلوار سے الگ کردیا یوں ان کی نسلوں کے درمیان تلوار حائل ہو گئ جس نے ان کا بے تحاشہ خون بہایا۔ تاہم نوفل و عبد الشمس کے برخلاف حضرت عبدالمطلب کی اولاد کو بنو ہاشم کا کفو سمجھا جاتا تھا اور بنو ہاشم کی طرح ان پر بھی صدقہ حرام ہے۔74 جنابِ ہاشم بن قصی نے ہی قبیلہ ِقریش کے شام اور یمن کی طرف تجارتی اسفار شروع کیے اور قحط کے دور میں اہلِ مکہ کو ثرید کھلانے کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔75 ان کے دو بیٹے تھے عبد المطلب اور اسد۔ حضرت علی کی والدہ فاطمہ انہیں اسد بن ہاشم کی دختر تھیں۔ عبدالمطلب کے بارہ بیٹے ہوئے جن میں عبداللہ ، ابو طالب، زبیر اور عبدالکعبہ فاطمہ بنت عمر المخزومی کی اولاد تھے جبکہ عباس اور ضرار کی والدہ نُفيلہ بنت جَناب تھیں۔ حمزہ ،المقوِّم اور حَجّل کی والدہ هالہ بنت اهيب تھیں۔اس کے علاوہ ابو ليث، قُثم، الغَيداق اور الحارث بھی آپ کے فرزند تھے۔ ہاشم کی اولاد سے ہی عباسی اور طالبی مشہور خاندان ہوئے۔ عباسی یا بنو عباس نبی اکرم ﷺ کے چچا عباس کی اولاد تھے۔ عبداللہ بن عبا س کی قبر طائف میں، عبید اللہ بن عباس کی قبر مدینہ میں، فضل بن عباس کی قبر شام میں، قثم بن عباس کی قبر سمر قند میں جبکہ معبد بن عباس کی قبر افریقہ میں ہے۔ اس کے علاوہ تمام، کثیر اور حارث بھی آپ کے فرزند تھے۔ خلفائے بنی عباس حبر الاُمۃ عبداللہ بن عباس کی اولاد سے تھے۔76
بنو ہاشم میں سے ہی ابو طالب کی اولاد ہے جنہیں طالبی کہا جاتا ہے۔77 ان کے بیٹوں میں سے طالب، عقیل، جعفر اور علی تھے جن کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔طالبیوں میں سے ہی جعفر تھے جن کا لقب طیّار تھا۔ان کی اولاد کو الجعافرۃکہا جاتا ہے۔ان کے دو بیٹے تھے محمد اور عبداللہ تھے۔ حضرت علی کی اولاد کو علوی کہتا جاتا ہے۔حضرت علی کی اولاد میں حسن بن علی اور حسین بن علی ، حضرت فاطمہ بنت محمدﷺ سے تھے جبکہ عمر بن علی ، حمنہ بنت جحش سے اور طلحہ بن علی، حمنہ سے تھے۔ اس کے علاوہ یحی بن علی، اسماعیل بن علی اور یعقو ب بن علی کی والدہ ام ایمن بنت ِ معاویہ تھیں۔موسیٰ بن علی ، زکریا بن علی اور یوسف بن علی کی والدہ اُمِ کلثوم بنت ابو بکر الصدیق تھیں۔ اس کے علاوہ حضرت علی کے بیٹوں میں محمد بن الحنفیہ، سجاد بن علی، یحیٰ بن علی، اسحاق بن علی، یعقوب بن علی، موسیٰ بن علی اور عباس بن علی بھی شامل تھے۔ حضرت علی کی زیادہ تر نسل ان کے بیٹوں حسن ، حسین ، محمد بن حنفیہ ، عمر اور عباس سے منسوب ہے۔78
قریش دورِ جاہلیت سے ہی ممتاز و مکرم تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی و سماجی معاملات کی مشاورت کےلیے دارالند وہ نامی ادارہ تشکیل دیانیز حجاج کی خدمت اور مہمان نوازی کی وجہ سے پورا عرب انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ انہیں پورے عرب میں اما ن حاصل تھا اور وہ جہاں چاہتے اپنے قافلوں کو بلا خطر لے جاتے تھے۔تاہم قریش کو جو عزت، رفعت اور عظمت نسبت ِ رسول ﷺ کے سبب حاصل ہوئی اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ذیل میں قریش کی کچھ ایسی اہم باتوں کا ذکر کیا جا رہاہے جو قریش کےلئے سبب ِ عزت و شوکت اور وجہِ قدر و منزلت ثابت ہوئیں۔
دارالند وہ کی تشکیل اورحجاج کے لیے رفاہی کاموں کی انجام دہی میں قصی بن کلاب کی خدمات نے قریش کی شہرت میں اہم کردار ادا کیا۔ قریش کوعزت دینے والے اوران کے فخر کو نمایاں کرنے والے پہلے شخص حضرت قصی بن کلاب ہی تھے۔اس کے علاوہ خانہ کعبہ کی کلید برداری بھی قریش (قصی بن کلاب کے خاندان )میں ہی تھی۔ وہ مختلف علاقوں کے لوگوں سے رابطے میں رہتے تھے یوں ان کی شہرت ہر طرف پھیل گئی تھی۔عظمت اور بزرگی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ امام صالحی اس حوالہ سےتحریر فرماتے ہیں:
وبنى دار الندوة. والندوة في اللغة: الاجتماع لأنھم كانوا يجتمعون فيھا للمشورة وغير ذلك، فلا تنكح امرأة ولا يتزوج رجل من قريش، ولا يتشاورون في أمر إلا في داره، ولا يعقدون لواء حرب إلا فيھا يعقدھا لھم قصي أو بعض بنيه قال أبو عبيدة: ولما ولي قصي أمر مكة قال: يا معشر قريش، إنكم جيران اللّٰه وجيران بيته، وأھل حرمه، وإن الحاج زوّار بيت اللّٰه فھم أضياف اللّٰه وأحق الأضياف بالكرامة أضياف اللّٰه فترافدوا، فاجعلوا لھم طعاماً وشراباً أيام الحج حتى يصدروا، ولو كان مالي يسع ذلك قمت به، ففرض عليھم خرجا تخرجه قريش من أموالھا فتدفعه إليه فيصنع به طعاماً وشراباً ولبناً وغير ذلك للحاج بمكة وعرفة فجرى ذلك من أمره حتى قام الإسلام.79
قصی نے دار الندوہ تعمیر کیا۔ ندوہ لغت میں اجتماع کو کہا جاتا ہے کیونکہ قریش مشاورت کے لیے اس حویلی میں جمع ہوتے تھے۔قریش کی کسی عورت کا نکاح نہ کیا جاتا، نہ کوئی مرد نکاح کرتا،نہ ہی وہ کسی معاملہ کے بارے میں مشاورت کرتے مگر یہ کہ مذکورہ بالا تمام امور دار الندوہ میں طے پاتے تھے اورجنگ کے لیے جھنڈا بھی اسی حویلی میں باندھا جاتا تھا نیز یہ جھنڈا قصی یا ان کا کوئی بیٹا باندھتا تھا۔ابو عبید نے لکھا ہے کہ جب قصی مکّہ مکر مہ کے معاملات کے والی تھےتو انہوں نے کہا:اے گروہ قریش تم رب تعالیٰ اور اس کے مقدس گھر کے پڑوسی ہو،اس کے حر م کے مکیں ہو،حاجی اوربیت اﷲ کی زیارت کرنے والے رب تعالیٰ کے مہمان ہیں اورمہمان کی عزت وتوقیر کرنا گویا کہ رب تعالیٰ کی عزت وتوقیر کرنا ہے لہذاتم عطیات دو۔ ان کے لیے کھانے اور پینے کا بندوبست کرو حتیٰ کہ وہ واپس لوٹ جائیں اور اگر میرے پاس اتنا مال ہوتا تو میں سارے امور خود ہی کر گزرتا۔انہوں نے قریش پر ان اخراجات میں سے حصہ مقرر کیا جو قریش انہیں دیتے تھے جس سے وہ کھانا،پینا اور دودھ وغیرہ کا مکہ وعرفات کے حاجیوں کے لیےانتظام کرتے تھےپھر یہ معاملہ اسی طرح رہا حتیٰ کہ اسلام کا سورج طلوع ہوگیا۔ 80
یوں جنابِ قصی نے حاجیوں اور ناداروں کے لیے ضیافت کا پورا نظام وضع کرکے اہلِ قریش کو اس میں شریک کیاجس سےان کی عظمت و رفعت میں مزید اضافہ ہوا۔
ہاشم بن عبد مناف نے بھی زائرین بیت اللہ کی سہولت کے لیے ہر ممکن کوششیں کی۔انہوں نے اہل مکّہ کو حاجیوں کااحترام کرنے کی ترغیب دی اوران سےکہاکہ بیت اللہ شریف کی زیارت کےلیےآنے والوں کی جس حدتک ممکن ہوسکے خدمت کریں۔81 حضرت ہاشم کی خدمات کو بیان کرتے ہوئے عبد الرحمن السہیلی لکھتے ہیں:
أن هاشما كان يستعين على إطعام الحاج بقريش فيرفدونه بأموالهم ويعينونه ثم جاءت أزمة شديدة فكره أن يكلف قريشا أمر الرفادة فاحتمل إلى الشام بجميع ماله واشترى به أجمع كعكا ودقيقا، ثم أتى الموسم فهشم ذلك الكعك كله هشما، ودقه دقا، ثم صنع للحجاج طعاما شبه الثريد فبذلك سمي هاشما لأن الكعك اليابس لا يثرد وإنما يھشم هشما، فبذلك مدح حتى قال شاعرهم فيه وهو عبد اللّٰه بن الزبعرى:
كانت قريش بيضة فتفقأت ... فالمح خالصه لعبد مناف
الخالطين فقيرهم بغنيھم ... والطاعنين لرحلة الأضياف
والرائشين وليس يوجد رائش ... والقائلين هلم للأضياف
عمرو العلا هشم الثريد لقومه ... قوم بمكة مسنتين عجاف.82
جناب ِ ہاشم، قریش کے تعاون سے حاجیوں کے لیے کھانا تیار کیا کرتے تھے، قریش اپنے اموال سے ان کی بھر پور اعانت کرتے تھے۔ ایک دفعہ قریش کو شدید قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا تو جناب ِہاشم نے قریش کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا اور وہ اپنا تمام مال لے کر شام کی طرف گئےجس سے خشک روٹیاں اور آٹا خریدا۔ جب حج کے دن آئے تو انہوں نے تمام خشک روٹیوں کوکوٹااور پیس کر ان میں آٹاملاکر ایک عمدہ کھانا تیار کیا اور اسے حاجیوں کو پیش کیا۔ اسی وجہ سے ان کا نام ہاشم پڑگیا کیونکہ خشک روٹیوں کا ثرید نہیں بنتا بلکہ اسے کوٹ کرباریک کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے عبداﷲ بن الزبعری مدح سرائی کرتے ہوئے کہتا ہے: قریش ایک انڈہ (کی مانند) تھے جو پھٹ گیا، اس کی خالص زردی عبد مناف کے حصہ میں آئی،وہ اپنے غرباء کو اپنے اغنیاء کے ساتھ ملاتے ہیں، وہ مہمانوں کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں، وہ خوب سخاوت کرتے ہیں، وہ اس وقت کھلاتے تھے جب کھلانے والا نہ ہوتا تھا، وہ مہمانوں سے کہتے ہیں ادھر آؤ، بلند مرتبت عمرو نے اپنی قوم کے لیے ثرید تیار کیا۔وہ قوم جس کا مسکن مکّہ تھا اور اس کو سخت قحط سالی نے آلیا تھا۔
قبیلہ ِقریش عرب کا وہ ممتاز و مکرم قبیلہ تھا جسے امان نامہ اور اہلِ حرم ہونے کی وجہ سے تجارت کے مواقع بآسانی فراہم تھے۔قریش کےا ہل حرم ہونے کی وجہ سےیہ عام تاجروں کےمقابلہ میں زیادہ محفوظ تھے کیونکہ ان پر جب کبھی ڈاکو حملہ کرتے تو یہ اپنا تعارف اہل حرم کے طور پر کروادیا کرتے تھے۔ قرآن پاک میں سورۃ قریش میں اسی بات کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔83 اسی حوالہ سے جلال الدین سیوطی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت قتادہ نے فرمایا:
كان أھل مکة یتعاورون البیت شتاء وصیفا تجارا آمنین لا یخافون شیئا لحرمھم وكانت العرب لا یقدرون على ذلک ولا یستطیعونه من الخوف فذكرھم اللّٰه ماكانوا فیه من الأمن حتى إن كان الرجل منھم لیصاب فى الحى من أحیاء العرب فیقال حرمى.84
اہل مکّہ موسم سرما اور موسم گرما میں باری باری تجارت کی غرض سے بیت اﷲ شریف سے (یمن و شام وغیرہ کی طرف)سفر کرتے تھے اور وہ بالکل پرامن ہوتے تھے، اپنے حرم (سے تعلق )کے سبب وہ کسی شئے کا خوف نہیں رکھتے تھے۔ جب کہ دیگر عرب قبائل کایہ معاملہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ خوف (برداشت کرنے) کی استطاعت رکھتے تھے چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اسی امن کا ذکر فرمایا جو انہیں حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی آدمی کو قبائل عرب میں سے کسی قبیلہ میں کوئی تکلیف پہنچائی جاتی تھی تو کہا جاتا تھا یہ حرمی (یعنی حرم کا رہنے والا ) ہے۔
حرم سے نسبت کےسبب قریش کو حاصل ہونے والے فوائد سے متعلق قرطبی لکھتے ہیں:
وقال الهروي وغيره: وكان أصحاب الإيلاف أربعة إخوة: هاشم، وعبد شمس، والمطلب، ونوفل، بنو عبد مناف. فأما هاشم فإنه كان يؤلف ملك الشام، أي أخذ منه حبلا وعهدا يأمن به في تجارته إلى الشام. وأخوه عبد شمس كان يؤلف إلى الحبشة. والمطلب إلى اليمن. ونوفل إلى فارس. ومعنى يؤلف يجير. فكان هؤلاء الإخوة يسمون المجيرين. فكان تجار قريش يختلفون إلى الأمصار بحبل هؤلاء الاخوة، فلا يتعرض لهم. قال الأزهري: الإيلاف: شبه الإجارة بالخفارة ، يقال: ألف يؤلف: إذا أجار الحمائل بالخفارة. والحمائل: جمع حمولة . قال: والتأويل: أن قريشا كانوا سكان الحرم، ولم يكن لهم زرع ولا ضرع، وكانوا يميرون في الشتاء والصيف آمنين، والناس يتخطفون من حولهم، فكانوا إذا عرض لهم عارض قالوا: نحن أهل حرم اللّٰه، فلا يتعرض الناس لهم.85
امام ہروری اور دوسرے علماء نے کہا :اصحاب ایلاف چار تھے ہاشم، عبد شمس، مطلب اور نوفل، یہ سب بنو عبد مناف تھے۔ جہاں تک جنابِ ہاشم کا تعلق ہے تو انہوں نے شام کے بادشاہ سے معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی شام کی طرف تجارت پرامن تھی۔ان کے بھائی عبد شمس تھے، انہوں نے حبشہ والوں سے معاہدہ کیا تھا۔ مطلب نے یمن والوں سے معاہدہ کیا تھا اور نوفل نے فارس والوں سےمعاہدہ کیا تھا۔یؤلف کا معنی پناہ دینا بھی ہے کہ انہیں بھائیوں کو پناہ دینے والے بھی کہا جاتا تھا۔قریش کے تاجر، اِن بھائیوں کے معاہدہ کی وجہ سے مختلف شہروں کی طرف آیا جایا کرتے تو ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جاتا تھا۔ ازہری نے کہا ایلاف اجارہ کو خفارہ سے تشبیہ دیناہے۔ اجارہ کا معنی مدد کرنا اور حمایت کرنا ہے اور خفارہ کا معنی امان ہے۔ ألف یؤلف کا جملہ اس وقت بولا جاتا ہے،جب کسی نے بوجھ اٹھانے والے اونٹوں کو امان دے کر مددکی ہو۔ حمائل: حمولہ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے کہ قریش حرم کے رہائشی تھے،ان کے لیے کوئی کھیتی اور جانور نہ تھے، وہ موسم سرما اور گرما میں امن سے تجارت کو جاتے تھے جبکہ ان کے ارد گرد کےلوگ لوٹ مار کا شکار ہوتے رہتے تھےتاہم جب کوئی اِن کے سامنے رکاوٹ بنتا تو کہتے ہم اﷲ کے حرم والے ہیں تو لوگ ان کا راستہ چھوڑدیتے تھے۔86
عرب کے لوگوں کی اکثریت خانہ کعبہ کو مقدس سمجھتی تھی اور اہل کعبہ اور اہل حرم کا احترام کیاجاتا تھا۔ قریش چونکہ اپنے آپ کو اہل حرم سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے لیے خصوصی مذہبی امتیازات اختیار کیے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو اہل حمس کہا کرتے تھے۔قریش اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ دیندار جانتے اور خود کو دوسروں سے زیادہ برتر سمجھتے تھے۔ محمود شکری اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
تحج اليھا ملوك حمير وكندة وغسان ولخم فيدينون للحمس من قريش ويزيدون فى تعظيمھم ويرون الاقداء بآثارھم من الشرف والفرائض وكان اهلها آمنين يغزون الناس ولا يغزون ويحكمون على الناس ولا يحكم عليھم احد.87
حمیر، کندہ، غسان اور لخم کے بادشاہ یہاں حج کے لیے آتے اور قریش کے حمس قبائل کے مقام کو تسلیم کرتے تھے اور ان کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ وہ بادشاہ ان کے آثار کی پیروی کو اپنے لیے باعث شرف جانتے اور فرائض میں سے سمجھتے۔ یہاں کے لوگ پرامن زندگی گزارتے۔ یہ دوسرے لوگوں پر چڑھائی کرتے مگر ان پر کوئی چڑھائی نہ کرتا۔ یہ لوگوں پر حکمرانی کرتےتھے اور ان پر کوئی حکمرانی نہ کرسکتا تھا۔
قریش کی شہرت میں اضافہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مکّہ عرب کا سب سے اہم تجارتی مرکز تھا اور عرب اور یمن کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا تھا یوں یہ حبشہ،یمن اور خطہ شام کے تجارتی راستوں کے درمیان میں واقع تھا۔ اس تجارت میں یمن،حضرت موت، (مشرق میں )حیرہ،(شمال میں )بصری، شام، غزہ اور مصر شامل تھے۔ اہلِ قریش نے تجارت کی وجہ سے جنگ و جدل سے کنارہ کشی کر لی تھی تا کہ قیدی بننے اور اپنے مال سے ہاتھ دھونے کی نوبت نہ آئے۔ اس کے علاوہ قریش نے،اپنے تقدس کی وجہ سے، مکّہ کے پہاڑوں پر مقیم متعدد گروہوں کے ساتھ معاہدےکرنے کے بعد مزید طاقت حاصل کر لی تھی چونکہ عرب اپنی طاقت میں اضافے کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے اور اسے عزت کی علامت سمجھتے تھے اس لیے قریش کا یہ اقدام ان کی شہرت اور برتری کا باعث بنا تھا۔
قبیلہِ قریش کی اصل عظمت،ان کا رسول مکرم ﷺسے تعلق تھااوراس تعلق کی اہمیت کااندازہ حضور نبی کریمﷺ کے ان ارشادات گرامی سے بخوبی کیاجاسکتا ہےجن میں حضور نبی کریم ﷺ نےاس تعلق کو بیان فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کاایک فرمان حدیث مبارکہ میں یوں منقول ہے:
أنا النبى لا كذب، أنا ابن عبد المطلب، أنا اعرب العرب ولدتنى قريش ونشأت في بنى سعد بن بكر، فأنى يأتينى اللحن؟ 88
میں نبی(ﷺ)ہوں اس میں ذرہ بھر جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا فرزند ارجمند ہوں، میں سارے عرب سے فصیح عربی بولنے والا ہوں، میں قریش میں پیدا ہوا اور بنوسعد میں پروان چڑھاتو میرےکلام میں خطاکیسےہوسکتی ہے؟
اسی طرح کے الفاظ ایک اور حدیث میں یوں منقول ہوئے :
أنا أفصح العرب بید أنی من قریش و نشأت فى بنی سعد.89
میں عربوں میں سے سب سے زیادہ فصیح ہوں کیونکہ میں قریش سے ہوں اور میں نے بنی سعد میں پرورش پائی ہے۔
آپ ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ان الفاظ میں بھی مذکور ہے:
أنا أعربکم أنا من قریش ولسانی لسان بنی سعد بن بکر.90
میں آپ سب سے زیادہ فصیح ہوں، میں قریش میں سے ہوں اور میری زبان بنی سعد بن بکر کی زبان ہے۔
در اصل قریش کی یہ عظمت ورفعت عطیہ خداوندی تھا جس کا اصل سبب ان میں نبی مکرم ﷺ کی آمد وبعثت تھی اور اسی وجہ سے ان پر رحمتیں اور برکتیں نازل کی گئیں۔ اسلام سے پہلے بھی یہ قبیلہ لوگوں میں معززو مشرف اور سرداری کا حامل تھا اور اسلام کے بعد بھی اس قبیلے نے کئی صدیوں تک اسلامی دنیا پر حکومت کی۔عثمانیوں سے پہلے کے تمام خلفاء قریشی تھے حتی کے ابتدا میں زیادہ تر حکمران بھی قریشی تھے۔انہوں نے حرم شریف کے گرد ونواح میں سکونت اختیار کی،تجارت، صحت اور اقتصادیات کےمحکمہ جات ان ہی کے ہاتھ میں تھے اور جب انہوں نے اسلامی دعوت کو قبول کیا تو پھر ان کی عزت، عظمت اورفعت کو چار چاند لگ گئے اور آج تک خاندانِ قریش کا کوئی بھی فرد خواہ وہ عرب میں ہو یا عجم میں، بڑے فخر سے اپنی نسبت کاذکرکرتاہےکیونکہ قریشی ہونے کا مطلب رسول ِخدا ﷺ کے خاندان سے ہونا ہےجوایک مسلمان کے لیےبہت بڑااعزازہے۔
حضرت ابراہیم کی تین بیویاں تھیں اور آپکی ان تینوں بیویوں سے الگ الگ نسلیں چلیں۔ حضرت سارہکی اولاد بنی اسرائیل اور حضرت ہاجرہ سے بنی اسماعیل اور تیسری بیوی حضرت قطورا سے جو اولاد ہوئی وہ بنی قطورا کہلائی۔یہ کنعانی خاتون تھیں جن سے حضرت ابراہیم نے نکاح کیا تھا اورایک قول کے مطابق یہ آپ کی باندی تھیں۔ بنی قطورا کی رہائش بھی عرب کے علاقوں میں رہی اس لیے یہ بھی اہل عرب میں شمار ہوئے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ 35 91
اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم () نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
عام طور پر مؤرخین نے حضرت ابراہیمکے دو بیٹوں کا ہی تذکرہ کیا ہے جبکہ آیت کریمہ میں بنیّی کا لفظ اصل میں بنون ہے جو یائے متکلم کی طرف اضافت کی وجہ سے بنیی بن گیا ہے۔اس کا حقیقی معنی مراد لینے کے لیے حضرت ابراہیم کے کم از کم تین بیٹے ماننے پڑیں گے ورنہ آیت کریمہ کا حقیق معنی معاذ اللہ عبث ٹھہرےگا لہذا آیت کریمہ میں موجود لفظ بنیّی سے ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیمکے کم از کم تین بیٹے تھے اور ممکن ہے کہ زیادہ بھی ہوں جیساکہ کتاب مقدس میں تیسری بیوی کے چھ بیٹے بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے حضرت مدین بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ حجاز ہی میں آباد ہوگئے تھے اور پھر یہی خاندان آگے چل کر ایک بڑا قبیلہ بن گیا۔ حضرت شعیب بھی چونکہ اسی نسل اور قبیلہ سے تھے اس لیے ان کی بعثت کے بعد یہ قوم "قوم شعیب"کہلائی۔ بیضاوی لکھتے ہیں:
وإلى مدين أخاهم شعيبا أى وأرسلنا إليھم، وهم أولاد مدين بن إبراهيم بن خليل اللّٰه.92
"اورمدین کی جانب ان کےبھائی شعیب کو بھیجا" اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ)نے ان اولاد مدین بن ابراہیم خلیل اللہ کی طرف حضرت شعیب کو بھیجا۔
ان کے اس نام رکھے جانے کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے قرطبی لکھتے ہیں:
وفي تسميتھم بذلك قولان: أحدهما: أنھم بنو مدين بن إبراهيم، فقيل: مدين والمراد بنو مدين. كما يقال مضر والمراد بنو مضر. الثاني: أنه اسم مدينتھم، فنسبوا إليھا. قال النحاس: لا ينصرف مدين لأنه اسم مدينة.93
ان کی اس وجہ تسمیہ میں دو قول ہیں:ایک قول یہ ہے کہ وہ مدین بن ابراہیم کی اولاد ہیں تو وہ مدین کہلائےجبکہ اس سے مراد بنومدین ہیں (یہ بالکل ایسا ہی ہے ) جیسے مضر کہا جاتا ہے اور مراد بنومضر ہوتے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ان کے شہر کا نام ہے اس لیے اس کی طرف ان کو منسوب کردیا گیا۔ نحاس نے کہا :مدین غیر منصرف ہے کیونکہ یہ شہر کا نام ہے۔
حضرت شعیب کی مدین کے ساتھ نسبت کی وجہ سے بنی قطورا اہل مدین کہلاتے تھے اور پھر جب یہ لوگ ہجرت کرکے خلیج عقبہ کی بندرگاہ کے آس پاس کےعلاقوں میں بس گئے تو پھر اس علاقے کو بھی ان کی مناسبت سے "مدین"کہا جانے لگاچنانچہ اسی حوالہ سے ابن کثیر لکھتے ہیں:
وتطلق مدين على القبيلة وعلى المدينة.94
لفظ ِمدین کااطلاق قبیلہ پر بھی ہوتا ہے اور شہر پر بھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ لفظ مدین قبیلہ کا بھی نام ہوااور ہجرت کےبعد ان کا علاقہ بھی ان کےنام سے موسوم ہو کر "مدین"کہلایا۔
بنو قطورا کو شہرت حضرت شعیب اور ان کے دادا حضرت مدین سے ملی۔ جب حضرت مدین کی اولاد بہت زیادہ ہوگئی تو پھر اسی نام پر ان لوگوں کا الگ قبیلہ وجود میں آگیا جو مدین کےنام سے مشہور ہوا نیز ان ہی کی طرف حضرت شعیب کو بھی مبعوث فرمایا گیاجن کا شجرہ نسب ابن اسحاق کے نزدیک شعیب بن میکائیل بن یشجربن مدین بن ابراہیم 95ہےجبکہ بعض علماء نے ان کا شجرہ نسب شعیب بن یثرون بن مدین بن ابراھیم بیان کیا ہے۔96 یہ قبیلہ چونکہ حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت مدین کی نسل سے تھا جو ان کی تیسری بیوی حضرت قطورا کے بیٹے تھے اس لیے حضرت ابراہیم کا یہ خاندان تاریخِ عرب میں بنو قطورا کے نام سے موسوم ہوا۔
اہل مدین خطہِ عرب کے باشندے تھے۔ ان کی بستیاں خلیج عقبہ کی بندرگاہ اَیلہ کے جنوب میں خلیج عقبہ اور بحیرہ قلزم کے ساتھ ساتھ اور مشرق میں تبوک تک واقع تھیں۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر شوقی خلیل لکھتے ہیں:
مدین کا قبیلہ بحیرہ قلزم کے مشرقی ساحل کے ساتھ، عرب کے شمال مغرب میں اور خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر اسی نام کی بستی کے آس پاس آبادتھا۔یہ جگہ شام (اردن) سے متصل حجاز کا آخری حصہ تھی اور عہد نبوی میں حجاز والوں کو شام،فلسطین بلکہ مصر تک جانے میں مدین کے کھنڈرات راہ میں پڑتے تھے۔ مدین کا علاقہ تبوک کے بالمقابل واقع ہے۔مدین میں البدع،الحمیدہ،مقنا،الخربیہ،تریم،المویلع اورضبا نامی بستیاں آباد ہیں۔97
یہ بستیاں اہلِ مدین کے مختلف خطے شمار کی جاتی ہیں۔ مدین سے گزرنے والے اہل حجاز کے تجارتی راستے کو قرآن مجید میں "امام مبین"98 (کھلی اور صاف شاہراہ) قرار دیا گیا ہے۔یہ شاہراہ قومِ لوط اور اہل مدین دونوں کے علاقوں سے گزرتی تھی۔
قرآن پاک میں جہاں حضرت شعیب کے ذکر میں اہل مدین کا ذکر کیاگیاہے99 وہیں ان کےساتھ ساتھ "اصحاب اَیکہ" (جنگل والوں) کا بھی ذکرکیاگیا ہے۔100 مفسرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ مدین اور اصحاب اَیکہ ایک ہی قبیلہ کے دو نام تھے یا دو جدا جدا قبیلے تھے۔بعض کا خیال ہے کہ دونوں جُدا جُدا قبیلے تھے۔مدین متمدن اور شہری قبیلہ تھا اور "اصحاب اَیکہ"دیہاتی اور بدوی قبیلہ جو " بَن "یعنی جنگل میں آباد تھا اس لیے اس کو "بن والے"یا "جنگل والے"کہا گیا۔ دیگر مفسرین دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آب وہوا کی لطافت اور نہروں اور آبشاروں کی کثرت نے اس مقام کو شاداب وپُر فضا بنادیا تھا اور یہاں میووں، پھلوں اور خوشبودار پھولوں کے اس قدرباغات تھے کہ اگر ایک شخص آبادی سے باہر کھڑا ہوکر نظارہ کرتا تھا تو اسے یہ معلوم ہوتا کہ یہ نہایت خوبصورت، شاداب اورگھنے درختوں کے جھنڈ ہیں، اسی وجہ سے قرآن عزیز نے اس کو "ایکہ"کہہ کر متعارف کروایا۔101
اکثر مورخین کے نزدیک قوم مدین اور اصحاب اَیکہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں جو باپ کی نسبت سے مدین کہلائی اور زمین کی طبعی وجغرافیائی حیثیت سے اصحاب اَیکہ کے لقب سے مشہور ہوئی چنانچہ ابن کثیر اسی قول کو صحیح قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
هم أهل مدين على الصحيح. وكان نبي اللّٰه شعيب من أنفسھم، وإنما لم يقل هاهنا أخوهم شعيب؛ لأنهم نسبوا إلى عبادة الأيكة، وهي شجرة. وقيل: شجر ملتف كالغيضة، كانوا يعبدونھا؛ فلھذا لما قال: كذب أصحاب الأيكة المرسلين، لم يقل: "إذ قال لھم أخوهم شعيب"، وإنما قال: إذ قال لھم شعيب، فقطع نسب الأخوة بينھم؛ للمعنى الذي نسبوا إليه، وإن كان أخاهم نسبا. ومن الناس من لم يفطن لھذه النكتة، فظن أن أصحاب الأيكة غير أهل مدين، فزعم أن شعيبا عليه السلام، بعثه اللّٰه إلى أمتين، ومنھم من قال: ثلاث أمم.102
صحیح بات یہی ہے کہ اصحاب ایکہ اور اہل مدین ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ اللہ کے نبی حضرت شعیب ان ہی میں سے تھے۔ یہاں حضرت شعیب کو "اخوھم"یعنی ان کابھائی نہیں کہاگیا کیونکہ ان کی نسبت ایکہ کی طرف کی گئی جس کی یہ عبادت کیاکرتےتھے۔ درختوں کے گھنے اورگنجان جھنڈ کو ایکہ کہاجاتاہے، بعض نے کہاہے کہ ایکہ کا معنی درخت ہےچونکہ یہ ایکہ کےپجاری تھے اس لیے جس طرح دیگر پیغمبروں کو ان کی قوموں کا بھائی کہاگیا ہے، اس طر ح حضرت شعیب کوان کا بھائی نہیں کہاگیاحالانکہ آپ ان کے نسبی بھائی تھے، بعض لوگ جو اس بات کو نہیں سمجھ سکے وہ کہتے ہیں کہ اصحاب ایکہ اور اہل مدین دو الگ الگ قومیں تھیں اور ان دونوں کی ہدایت کےلیے حضرت شعیب کو مبعوث فرمایاگیا۔ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہا ہےکہ آپ کو ان کے علاوہ ایک تیسری امت کی طرف بھی بھیجا گیاتھا۔ 103
یعنی سورہ اعراف کی طرح حضرت شعیب کے لیےسورۃ الشعراءمیں" قوم مدین کے بھائی"کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ 176إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ 177104
باشندگانِ ایکہ (یعنی جنگل کے رہنے والوں) نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا،جب ان سے شعیب نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو۔
اس آیت کریمہ میں باوجود مدین وایکہ کے ایک ہونے کےیہ نہیں فرمایاگیا کہ جب ان کے بھائی شعیب نے ان سے کہا بلکہ صرف یہ فرمایاکہ" جب شعیب نے ان سے کہا"۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سبب سے قوم کی نسبت ایکہ یعنی بَن کی طرف کی گئی جس سے درخت یا جنگل مراد ہے توحضرت شعیب سے اس نسبت کو قطع کرنے کی غرض سے یہاں انہیں ان کا بھائی قرار نہیں دیا گیااگرچہ کہ وہ نسبی طور پر ان کے بھائی ہی تھے تاہم غالب امکان یہی ہے کہ یہ دواقوام نہیں بلکہ ایک ہی قوم تھی۔
بنوقطورا یعنی اہل مدین اپنی تجارتی سرگرمیوں اور دیگر قوموں سے میل جول کی بدولت تہذیب و تمدن کے میدان میں انتہائی ترقی اور عروج حاصل کرچکےتھے۔سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں:
مدین کے قبائل ایک منظم زندگی رکھتے تھے، شہر میں مذہبی رسوم وآداب کی تلقین ومحافظت کے لیے کاہن (مذہبی عہدہ دار )ہوتے تھے اور اکثر حالات میں یہی کاہن شہر کے قانونی حاکم بھی قرار پاتے تھے۔105
ابتداء میں یہ لوگ موحد تھے اور ایک خدا پر ایمان رکھتے تھےلیکن رفتہ رفتہ یہ شرک میں گرفتار ہوگئے۔ جب یہ لوگ مدین میں آباد تھے تو اس وقت یہ بت پرست تھےچنانچہ حضرت شعیب کو اﷲ تعالیٰ نے ان ہی کی طرف مبعوث فرمایا۔حدیث میں حضرت شعیب کو "خطیب الانبیاء" کہا گیا ہے کیونکہ وہ اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دیتے وقت فصاحت وبلاغت اور زبان و بیان کی اعلیٰ صلاحیت سے کام لیتے تھے۔ 106
اہل مدین جب شرک کی راہ پر چلنے لگےتو اس کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی برائیوں کابھی شکار ہوگئے۔یہ لوگ رہزنی کرتے، مسافروں میں دہشت پھیلاتے اور ایکہ نامی ایک درخت کی پوجابھی کرتے تھے۔ یہ لوگ لین دین کے معاملات میں بھی انتہائی بددیانت تھے۔ناپ تول میں کمی کرتے، لیتے وقت بڑے پیمانے سے ناپتے اور بڑے باٹوں سے تولتے اور دیتے وقت چھوٹے پیمانے اور کم وزن کے باٹ استعمال کرتے تھے۔ سیدسلیمان ندوی اہلِ مدین اور اہلِ مواب کے بارے میں لکھتے ہیں:
مدین اور مدین کے قریب مواب آباد تھے، مذہباً اور اخلاقاً دونوں قوموں کی بدترین حالت تھی۔ تمدن کے جراثیم جن امراض کو پیدا کرتے ہیں وہ ایک ایک کرکے پیدا ہوچکے تھے، بتوں کی پرستش اور ان کے لیے قربانی ان کا مذہب تھا۔ تمام بتوں کا سردار "بغل فور"دیوتا تھا۔ اخلاقی حالت اس درجہ پست تھی کہ شرفائے خاندان کی لڑکیاں انسانیت کا بدترین نمونہ تھیں اور مردوں کا حال یہ تھا کہ ظلم وستمگری ان کی زندگی کا معمولی پیشہ تھا۔107
حضرت شعیب نے اپنی قوم کو اﷲ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دی اور انہیں حکم دیا کہ وہ ناپ تول میں کمی نہ کریں نیز آپ نے انہیں زمین میں فتنہ وفساد پھیلانے سےبھی روکا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ84 108
اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (کو بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے۔
حضرت شعیب نے اپنی قوم کی ہر طرح سے خیر خواہی کی۔ انہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل شدہ خیروبرکت یاد دلائی اور برائیوں سے روکا مگر قوم نے ماننے کے بجائے آپکو سنگسار کرنے اور بستی سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں۔109
ا ہل مدین یعنی بنی قطورا کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نےان کی سرزنش کی۔اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب جب قوم سے مایوس ہوگئے تو فرمایا:
وَيَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ 93 110
اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ کام کرتے رہو میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ تم عنقریب جان لوگے کہ کس پر وہ عذاب آپہنچتا ہے جو رسوا کر ڈالے گا اور کون ہے جو جھوٹا ہے، اور تم بھی انتظار کرتے رہو اور میں (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔
اس سرزنش کےباجود جب قوم نہ سدھری تو مقررہ وقت پرعذاب الہی آن پہنچا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ 94 111
اور جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے شعیب () کو اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو اپنی رحمت کے باعث بچالیا اور ظالموں کو خوفناک آواز نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں (مردہ حالت) میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
یہاں"الصیحۃ"کا لفظ ہے جس کے معنی زبردست چیخ کے ہیں اور سورہ الشعراء میں "عذابُ یومِ الظُلّۃ"کے الفاظ ہیں112 جس کے معنی سائبان کے دن کا عذاب ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ قوم عذاب الٰہی کی ان دونوں صورتوں میں مبتلا ہوئی تھی۔اﷲ تعالیٰ نے انہیں بے حد شدید گرمی میں مبتلا رکھاجس سے ان لوگوں کا سانس لینا محال ہوگیا اور جب انہیں اپنی موت قریب آتی محسوس ہونے لگی تو پھر ایک بادل آکر ان کے سروں پر سایہ فگن ہوگیا اور وہ گرمی سے بچنے کے لیے اس کے سائے میں جاکھڑے ہوئے۔ جب وہ سب کے سب جمع ہوگئے تو وہ ان پر گر پڑا اور ساتھ ہی ایک زور دار چیخ بھی سنائی دی جس کی وجہ سے یہ ہلاک ہوگئے۔113
عذاب الہی سے صرف حضرت شعیب اور کچھ مومنین ہی بچےجوبعد میں مکّہ مکرّمہ ہجرت کرگئے تھے اور وہیں زندگی گزارنے کے بعدان لوگوں کی وفات ہوئی114 نیز بعض علماء فرماتے ہیں کہ بیت اﷲ شریف کے قریب ہی ان کی قبور واقع ہیں۔ اس طرح بنی قطورا کی قوم اپنی نافرمانی اور نبی کی تکذیب وتضحیک کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کےعذاب کا شکار ہوگئی اور دنیا کے نقشہ سے ان کا نام ونشان مٹ گیا اور ان میں سے صرف بعض لوگ جو مومنین تھے اور حضرت شعیب پر ایمان لے آئے تھے وہی اس عذابِ الہی سے بچ سکے۔
ادوم (אֱדוֹם)،بنو ادوم یا ادومی قبائل (The Edomite People) جنوبی شام کے علاقوں میں آبا د سامی النسل قبائل تھے جو کہ عیسو (Esau) کی اولاد تھے۔ 115 116 عیسو،حضر ت یعقوب کا جڑواں بھائی اور حضر ت اسحاق کا بیٹا تھا جسے سرخ رنگت کی وجہ سے ادوم (Edom) کہا گیا۔ 117 کتاب ِ مقدس کے مطابق عیسو ایک ماہر شکاری تھا 118 اور یہ جبل الشراۃ (Mount Seir)کے علاقے میں آباد تھا۔ 119 عیسو کی اولاد یا قوم ِادوم، صحرائے نقب (Negev Desert ) اور بحیرہِ مردار (Dead Sea) اور خلیج ِ الآت(Gulf of Elat) کے درمیان واقع وادی ِ اراوہ (Aravah Valley )کے علاقوں میں آباد تھی۔ 120 ان کا اولین مسکن جبلِ سعیر تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ پھیلتے گئے اور ایک بہت بڑے علاقے میں آباد ہو گئے جس میں بحیرہ مردار سے لے کر بحیرہ احمر کی مشرقی خلیج بشمول پہاڑ سیئر سمیت کنعان کی تمام جنوبی سرحدیں شامل ہیں۔ 121 یوں یہ فلسطین کے جنوبی علاقوں میں آباد تھے تاہم ان کے مراسم بنی اسرائیل سے معاندانہ نوعیت کے تھے۔ 122 بائبل کے بیان کے مطابق یہ کوہستان ِ عیسو میں آبا دتھے اور انہیں ان کے دلوں میں موجود گھمنڈ کی وجہ سے اقوام کے درمیان ذلیل کر دیا گیا تھا۔ یہ اپنے آپ کو عقاب کی مانند بلند پر واز خیال کرتے تھے۔ انہوں نے یروشلم پر حملہ آور ہونے والے لشکروں کا ساتھ دیا اور بنی اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔ یہ بنی یہوداہ کی ہلاکت کے روز شاداں و فرحاں ہونے والوں میں شامل تھے۔ 122
بائبل کی روایات کے مطابق بنو ادوم حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل سے معاندانہ رویّہ رکھتے تھے اور انہیں اپنی زمینوں اور راستوں سے گزرنے نہیں دیتے تھے۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تھے تو راستے میں جب وہ شہر قادس پہنچے تو انہوں نے شاہِ ادوم سے گزارش کی کہ انہیں راستہ دیا جائے اور وہ صرف شاہراہوں سے ہو کر گزریں گے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائیں گے مگر شاہ ِادوم نے جواب دیا کہ تم میرے ملک سے ہو کر نہیں جا پاو گے ورنہ میں تلوار لے کر تمہارا مقابلہ کروں گا۔بنی اسرائیل نے راستے میں چوپایوں کے استعمال میں آنے والے پانی کا معاوضہ دینے کی بھی پیشکش کی مگر شاہِ ادوم نے انہیں راستہ دینے سے انکار کر دیا۔124 عیسو یا ادوم کے بیٹے اِ لیفز (Eliphaz)،رعوایل (Reuel)، یعوس ( Jeush)، یعلام (Jaalam) اور قورح (Korah)تھے۔ اِ لیفز کے بیٹے تیمان (Teman)، اومر (Omar)، صفو (Zephi)، جعتام (Gatam)، قنز (Kenaz)، تمنع (Timna) اور عمالیق (Amalek) تھے۔ رعوایل کے بیٹے نحت (Nahath)، زراح (Zerah)، سمّہ (Shammah)اور مزّہ (Mizzah) تھے۔125 انہیں فرزندان ادوم کی اولاد سے مختلف قبائل ہوئے جنہوں نے اپنی حکومت و بادشاہت بھی قائم کی۔
بنی ادوم کا طرزِ حکومت بھی ارد گرد کی دیگر ریاستوں کی طرح قبائلی تھا تاہم ان کے بادشاہ ہوتے تھے جنہیں قبائل کے سردار چنتے تھے۔ ان کا بنیادی ذریعہ ِ معاش تجارت تھا اور یہ خشکی کے راستوں پر سفر کرنے والے قافلوں کی صورت میں تجارتی سفر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ مویشی پالنے، گلہ بانی، زراعت اور انگوروں کی شراب کی کشید سے بھی وابستہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کان کنی سے بھی وابستہ تھے۔ ابتداء سے ہی بنو ادوم اور خاص طور پر ان کی تیمانی شاخ (Temanite Branch) اپنی دانش اور عقلمندی کے حوالے سے شہرت رکھتی تھی۔126 قدیم کتب میں ایلات (Elath) یا ایلوت (Eloth) نامی شہر کا تذکرہ ملتا ہے جو کہ قوم ِ ادوم کے مشہور شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ 127
بنی ناحور حضرت ابرا ہیم کے بھائی ناحور بن تارح کی اولاد ہیں۔ جب تارح اپنے بیٹے حضرت ِ ابراہیم اور پوتے حضرت لوط کے ہمراہ کلدیسیوں کے شہرِ اُر (Ur of Chaldees) سےکنعان (Canaan) کی طرف ہجرت کر گیا128 تب اس کا بیٹا ناحور(Nahor) اپنے اہل و عیال کے ساتھ وہیں رک گیا تھا اور اس نے ان کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی اور وہیں فرات کے مشرقی کنارے پر مقیم رہا تھا تاہم دو نسلوں کے بعد ناحور کی نسل کے بھی حاران میں قیام کا تذکرہ ملتا ہے۔129 ناحور کے بیٹوں کے نام عُوض (Huz)، بُوز (Buz)، قموایل (Kemuel)، کسد (Chesed)، حزُو (Hazo)، فلداس (Pildash)، اِ دلاف (Jidlaph)،بیتوایل (Bethuel)،طبخ (Tebah)، حاجم (Gaham)، تخص (Tahash)اور معکہ (Maakah) تھے۔ ان میں سے پہلے آٹھ اس کی بیوی ملکاہ (Milkah)سے جبکہ آخری چار اسکی باندی رُومہ (Reumah)سے تھے۔ 130
حضرت ابراہیم کی اولاد اور ناحور کی اولاد کے درمیان تعلق قائم رہا اور آپس میں شادیاں بھی ہوئیں تاہم حضرت یعقو ب کے حاران سے چلے جانے کے بعد یہ تعلق نظر نہیں آتا۔ بنی ناحور نے اس دوران اپنے ارد گرد موجود قبائل و اقوام سے تعلقات قائم رکھے۔131 ابن خلدون کے مطابق ان میں سے کا س کی اولاد میں کلدانی تھے جن میں سے بخت نصر اور بابل کے بادشاہ تھے۔ بعد کے ادوار میں ان کی نسل فنا ہو کر معدوم ہو گئی سوائے قمویل بن ناحور کی اولاد میں سے ارمن کی نسل باقی رہی۔ ابن ِ خلدو ن کے دور میں یہ نصرانی تھے اور قسطنطنیہ کے مشرق میں آرمینیہ کی طرف آباد تھے۔ 132
بنی حاران یا بنی حرّان حضرت ابراہیم کے بھائی حاران بن تارح کی اولاد ہیں۔ حضرت لوط حاران کے بیٹے تھے 133جبکہ حاران کی بیٹیوں کے نام ملکہ (Milcah)اور یسکہ (Iscah)تھے۔ حاران کا انتقال اپنے والد کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا 134 جبکہ ان کے بیٹے حضرت لوط ، اپنے دادا تارح اپنے چچا حضرت ِ ابراہیم کے ساتھ کنعان (Canaan) کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ 135بائبل میں حضرت لوط کے دو بیٹوں مو آب اور بن عمّی کا تذکرہ ملتا ہے جن سے موآبی اور بنی عمّون اقوام ہوئیں۔ 136 حضرت شعیب کی دادی کے متعلق یہ منقول ہے کہ وہ حضرت لوط کی بیٹی تھیں۔ 137
بابل سے نکلنے کے بعد یہ عرصہ ِدراز تک حرّان کے مقام پر مقیم رہے تھے۔ پھر وہاں سے اردن کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ 138 ابن خلدون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کے بیٹوں مآب اور عمّون کی اولاد میں برکت عطا فرمائی اور شام کے کئی قبائل ان کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے مساکن بقا ءنامی سرزمین میں تھے اور ان کے شہر معاذ، معان اور ان دونوں کے اردگرد کی سرزمین میں تھے۔ ان کی بنی اسرائیل کے ساتھ جنگیں ہو تی رہیں۔ ان ہی میں سے بلعام بن باعورا بن رسيوم بن برسيم بن موآبی بھی تھا جس کا واقعہ مشہور ہے کہ کنعان کے بادشاہ نے اسے حضرت ِموسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کے خلاف بد دعا کر نے کو کہا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے کنعانیوں کی طرف ہی پلٹ دیا تھا۔139 بائبل کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے اور یہودیوں کے درمیان تعلقات معاندانہ نوعیت کے تھے۔ بائبل میں بنی اسرائیل کے بادشاہ یہوسفط سے بنی موآب (بنو ماب)اور بنی عمون کی جنگ کا تذکرہ ملتا ہے۔ 140 یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ بت پرستی کا شکار رہے اور اس دوران یہ مختلف دیوتاؤں کی پرستش کرتے رہے۔ 141
ہم نے مذکورہ بالا قبائلی تقسیم کی زمانی و مکانی ترتیب کے ذریعہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ عرب اصلاً عرب ہی تھے اور ہیں۔ گو کہ عرب کے قبائلِ اصلیہ کا اب تاریخ میں واضح ذکر اور تفصیلات دستیاب نہیں ہیں تاہم بعد کے تمام عرب انہی عربو ں کی براہِ راست یا بالواسطہ اولاد ہیں لہذا بائدہ، عاربہ اور مستعربہ کی تقسیم کے تحت اصل اور غیر اصل عرب کا قاعدہ کلیہ وضع کر کے معلوم عرب قبائل اور خاندانوں کو درجہ ِ دوئم کے عرب ثابت کرکے ان کی اہمیت کو کم کرنا یا تو کسی خاص مقصد کی طرف اشارہ ہے یا پھر بلا سوچے سمجھے ایک غیر منصفانہ تقسیم کو من و عن قبول کر کے اسے علمی قاعدہ و ضابطہ بتانے کی کوشش کرنے کے مترادف ہے ورنہ علمی دنیا میں کسی چیز کے اثبات کےلئے جن قاعدوں اور کلیوں کا سہارا لیا جاتا ہے وہ معلوم سے نامعلوم کو دریافت کرنے سے متعلق ہوتے ہیں۔نا معلوم سے معلوم کورد یا مسترد کر دینے کےاصول کو پیش نظر رکھ کر دنیا میں کسی بھی قوم کے آباء و اجداد اور خود اس قوم کے اصل ابناء الارض ہونے کو دریافت کرنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر دنیا کی کوئی قوم بھی اصل نہیں قرار پا سکے گی کیونکہ نامعلوم اجداد ہی اگر اصل ِ قوم ٹھہرائے جائیں تو پھر شائد ہی دنیا کی کسی قوم کے وہ اجداد جو چار ہزار برس پہلے گزر چکے ہیں ان کو دریافت کرنا یا ان کی بازیافت ممکن ہو سکے گی۔ نتیجہ کے طور پر ہر قوم کو غیر اصل ابنائے وطن ماننا پڑے گا جو یقیناً ہر سمجھدار انسان کے نزدیک ایک مضحکہ خیز عمل یا کوشش تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن حقیقی اور قابلِ قبول کوشش ہرگز نہیں ہو سکتی۔
اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اصل ہونے کا حقیقی معیار غیر معلوم ہو نا کیسے ہو سکتا ہے اور غیر اصل کےلئے معیارِ قبولیت معلوم ہونا کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ بھی کوئی مضحکہ خیز بات ہو سکتی ہے۔ اگر اسی قاعدہ کو قبول کر لیا جائے تو خود اہلِ کتاب اور بالخصوص یہود کے آباء و اجداد، جو کہ اصل بنی اسرائیل تھے، کے احوال بھی عربِ بائدہ کی طرح مفقود ہیں اور جو دستیاب ہیں ان کی حیثیت قصوں، کہانیوں اور اساطیر سے زیادہ نہیں ہے۔ تو کیا اس قاعدہ کی رو سے تمام بنی اسرائیل کو غیر اصل بنی اسرائیل قرار دے کر ان کی پیش کردہ ہر چیز کو رد کر دیا جائے ؟
بنی اسماعیل اور دیگر مذکورہ بالا اقوام کو عرب مستعربہ میں شمار کیا جاتا ہے جس سے بعد میں عرب کہلانے والے اور عربی زبان و تہذیب کو اختیار کرنے والے قبائل و اقوام مراد لیے جاتے ہیں تاہم یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایسی کوئی تقسیم قبل از اسلام دور میں اور نہ ہی اوائلِ اسلام کے دور کے ماہرینِ نسب اور تاریخ دانوں کے یہاں نظر آتی ہے۔یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ قدیم ماہرین ِ نسب و تاریخ نے تمام عربوں کو اصل عرب ہی قرار دیا ہے اور کسی قوم یا قبیلے کے غیر ملکی ہونے یا باہر سے آکر یہاں آباد یا قابض ہونے کا تاثر کبھی نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور کے مورخین عربِ بائدہ اور عربِ عاربہ کی اصطلاحات ہی استعمال کرتے ہیں اور قحطانیوں، عدنانیوں اور دیگر قبائل کو عرب ِ عاربہ یا اصل عرب میں ہی شمار کرتے ہیں۔ بعض مؤرخین اور اہلِ علم کی یہ بھی رائے ہے کہ عرب مستعربہ کی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد عرب کے قدیم قبائل کی نظر میں عدنانی قبائل اور تارح کی نسل کے عرب میں آباد دیگرقبائل کی قدر ومنزلت کم کرنا اور انہیں مہاجر یا باہر سے آکر آباد ہونے والا قرار دینا ہے، حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ایسا صرف انہی قبائل کے ساتھ کیا گیا جنہیں بنی اسرائیل اپنا مخالف یا دشمن گردانتے تھے۔ یوں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بنی اسماعیل ہوں یا بنی قطورا، بنی ناحور ہوں یا بنی ادوم یا بنی حاران سب ہی سے بنی اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت خوشگوار نہیں تھی اور شاید اسی لیے ان سب ہی کو بعد کے ادوار میں اہلِ عرب کی ایک نئی قسم مستعربہ ایجاد کرکے اس میں شامل کردیا گیا جبکہ آج بھی کئی جدید محقیقین عرب کی دو ہی تقسیمات عربِ بائدہ اور عرب عاربہ ہی بیان کرتے ہیں اور انہیں ہی زیادہ معتبر گردانتے ہیں۔