Encyclopedia of Muhammad

عربِ عاربہ

اہلِ رُواۃ و اہلِ اخبار نے خطہِ عرب کے باشندوں کو تاریخی، جغرافیائی اور نسبی اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ وہ عموماً اہلِ عرب کی عربِ بائدہ، عربِ عاربہ اور عربِ مستعربہ یا پھر عربِ عاربہ، عربِ متعربہ اور عربِ مستعربہ یا پھر عربِ عاربہ، عربِ مستعربہ، عربِ تابعہ اور عربِ مستعجمہ کی تقسیمات کرتے ہیں۔ کچھ اہلِ علم انہیں دو طبقات عربِ بائدہ اور عربِ باقیہ میں ہی تقسیم کرتے ہیں اور عربِ باقیہ کو پھر آگے عربِ متعربہ اور عربِ مستعربہ میں تقسیم کرتے ہیں۔ 1 طبری کی ایک روایت میں بھی عاربہ اور متعربہ کی تقسیم کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ 2 تاہم اہل تاریخ ونسب اہلِ عرب کی دو اقسام پر متفق نظر آتے ہیں جن میں سے ایک العاربہ جبکہ دوسری المستعربہ ہے۔ الجوہری کے بقول العاربہ وہ خالص اوراولین عرب ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے عربی زبان کا فہم عطا فرمایا تھا اور انہوں نے عربی میں کلام کیا تھا پس انہیں عاربہ کہا گیا جس کے معنیٰ عربیت میں راسخ ہونے کے لیے گئے ہیں یعنی اس لفظ کو عربی زبان کی ابتداء کرنے والوں اور اس میں کلام کرنے والے اولین لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے بالمقابل عربِ مستعربہ کی اصطلاح ان کے لیے استعمال کی گئی جنہوں نے بعد میں عربی زبان کو اختیار کیا۔ انہیں اکثر متعربہ بھی کہا جاتا ہے۔ عاربہ اور مستعربہ کی اصطلاحات کے استعمال میں اہلِ تاریخ کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابنِ اسحاق اور طبری کے یہاں عاربہ میں عاد، ثمود، طَسْم، جَديس، اُميم، عَبيل، عمالقہ، عبد ضَخْم، جُرْہم الاولی جو کہ عاد کے زمانے میں تھے وغیرہ شامل ہیں جبکہ مستعربہ میں بنو قحطان بن عابر بن شالخ اور بنو اسماعیل بن ابراہیم شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عابر بن شالخ (Eber) کی زبان سریانی یا عبرانی تھی جبکہ بنو قحطان نے عربی زبان اپنے زمانے کے عربِ عاربہ سے سیکھی جبکہ بنو اسماعیل نے عربی جرہم قبائل سے سیکھی جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ شہرِ مکّہ کے مقام پر مقیم ہوئے تھے جو تب بے آب و گیاہ وادی تھا۔ تاہم بعض اہلِ تاریخ نے، جن میں صاحب حماہ بھی شامل ہیں، بنو قحطان کو عاربہ میں شمار کیا ہے۔ صاحب العبر نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور یہی دلیل دی ہے کہ نوح کے زمانے سے لیکر عابر بن شالخ تک ان میں کوئی ایسا نہیں گزرا جو عربی زبان بولتا ہو۔ انہوں نے اپنے سے پہلے سے اس خطے میں آباد قبائل عاد، ثمود اور ان کے ہمعصر قبائل سے عربی زبان سیکھی تھی۔ 3

بعض اہلِ علم كے نزدیك عربِ عاربہ وه خالص عرب ہیں جنہوں نے تمدن میں اختلاط نہیں کیا جبکہ مستعربہ وہ عرب ہیں جن کے یہاں تمدن میں اختلاط پایا جاتاہے۔ 4 تاہم علمائے نسب، عربِ عاربہ کی نسبت یمنی قبائل کی طرف کرتے ہیں جبکہ عربِ مستعربہ کی نسبت عدنان کی طرف کرتے ہیں۔ 5 یوں عربِ عاربہ سے مراد قحطانی قبائل لیے جاتے ہیں جو جنوبی عرب کے خطے میں یمن کے علاقوں میں قیام پذیر تھے۔ 6 بعض اہلِ تاریخ کے یہاں عربِ عاربہ کی یعرب بن قحطان ( یُقطان) بن عابر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح کی نسل سے تخصیص بھی ملتی ہے جو یشجُب بن یعرب کو قبائلِ عاربہ کا جدِ اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ 7 یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عربِ عاربہ و مستعربہ کی تقسیم دورِ جاہلیت اور صدرِ اسلام کے دور میں اس طرح نہیں ملتی۔ بنو امیہ کے دور اور اس کے بعد کے ماہرینِ انساب نے یہ تقسیمات اختیار کی ہیں۔ 8

بنو قحطان

عرب عاربہ کا مشہور قبیلہ بنو قحطان ہے جن کا مسکن یمن کا علا قہ تھا 9 اسی لیے عموماًعربِ عاربہ سے جنوبی عرب یعنی اہل یمن مراد لیے جاتے ہیں جن کو ان کے جدِ اعلیٰ "قحطان" کی نسبت سے قحطانی 10 یا بنو قحطان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ یمن اور اس کے قرب و جوار میں بھی آباد ہیں۔ 11 ان کے مشہور قبیلے جرہم اور یعرب ہیں جن سے بعد میں بےشمار قبائل اور خاندان معرض وجود میں آئے ہیں۔ 12 تاریخ دانوں کے مطابق، بنو قحطان یمن آنے سے قبل عراق کے خطےمیں آباد تھے تاہم انہیں اپنا اصل وطن (عراق) چھوڑنا پڑا جس کے بعد وہ یمن اور اطراف ِیمن میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ یمن میں آباد ہونے والے ان لوگوں کی اولاد میں سبا نام کا ایک مشہور شخص گزرا ہے 13 جس کا اصل نام عبدالشمس تھا اور اس کا تعلق بنو یعرب سے تھا۔ 14 یہ بنو قحطان کی متعدد شاخوں کا مورثِ اعلیٰ تھا بلکہ تمام معروف قحطانی نسلوں کا مورثِ اعلیٰ اسے ہی سمجھا جاتا ہے تاہم اس کی اولاد کی تین شاخیں قابل ذکر ہیں، پہلی سبا، دوسری حِمیَراورتیسری لان۔ یہ ساری شاخیں اور نسلیں جنوبی جزیرۃ العرب خصوصا یمن میں پھلی پھولیں لیکن ان میں سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ نسل قوم سبا تھی۔ 15 یہ بڑے مہذّب اور شائستہ لوگ تھے اور اطرافِ مُلک میں ان کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں۔ عظیم محلّات کے آثار اُن کی عظمت اور رفعت کی یاد دلاتے ہیں اور اُن کے کرّوفر پر شاہد ہیں۔ 16

نسب

بنوقحطان، ارفخشذ بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے۔ سام کے بیٹے ارفخشذ کی اولاد عراق، شام اور جنوبی عرب میں پھیلی اور آباد ہوئی۔ ارفحشذ کی اولاد میں ایک شاخ وہ تھی جس میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط اور ان دونوں کا خاندان تھا 17 جس کا مورث اعلیٰ فلج (Peleg)تھا۔ 18 دوسری شاخ وہ تھی جس کا مورثِ اعلیٰ قحطان/یُقطان (Joktan) تھا۔ 19 قحطان/یُقطان اور فلج دونوں عابر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح کے فرزند تھے۔ 20 حضرت ابراہیم والی شاخ عموماً شام میں آباد رہی اور اس کی بعض شاخیں جزیرۃ العرب کے شمالی حصوں میں بھی آکر بسیں جبکہ قحطانی نسل، ان سے پہلے، جزیرۃ العرب کے جنوبی علاقے میں آکر آباد ہوئی اوراس کا وطن یمن سے عُمان تک رہا۔ جزیرۃ العرب کے سب سے قدیم باشندے ارم بن سام بن نوح کی نسل سے ہیں پھر ان کے بعد قحطانی اور ان کے بعد بعض وہ نسلیں ہیں جو حضرت ابراہیم سے تعلق رکھتی ہیں جن کو اسماعیلی کہا جاسکتا ہے۔ 21 بنو قحطان، عابر بن شالخ بن ار فخشذ بن سام بن نوح کے بیٹے یقطن (قحطان) کی اولاد سے ہیں جسے اہلِ نسب و تاریخ اہل ِ عرب کی تعریب کے مطابق، قحطان قرار دیتے ہیں۔ ابن خلدون لکھتے ہیں :

  وفي التوراة أن عابر ولد اثنين من الولد هما فالغ ويقطن، وعند المحققين من النسّابة أن يقطن هو قحطان عربته العرب هكذا.22
  تورات میں ہے کہ عابرکے ہاں دوبیٹے فالغ اوریقطن پیدا ہوئے اوراہل انساب ومحققین کے نزدیک یقطن ہی قحطان ہے کیونکہ عرب نے اس کی تعریب ایسے ہی کی ہے۔

تورات میں قحطان کے تیرہ بیٹوں کے نام الموداد، سلف/شلف، حضرموت/حصار ماوت، اراخ، ہدورام، اوزال، دِقلہ، عوبل، ابی مائیل، سِبا، اوفیر، حویلہ اور یُوباب مذکور ہیں۔ یہ سب بنی یُقطان (بنی قحطان) تھے اور ان کی آبادی میسا سے مشرق کے ایک پہاڑ سفار کی طرف تھی۔ 23 24 یہی تفصیل بیہقی نے دلائل النبوۃ میں 25 اور جواد علی نے المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام 26 میں بھی نقل کی ہے۔ قحطان (یُقطن) بن عابر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح کے ان تیرہ بیٹوں کی اولاد بنی قحطان کہلاتی ہے جو یمن کے علاقے میں صدیوں آباد رہے اوریہاں ان کی عظیم الشان حکومتیں قائم رہیں۔ عرب کی قدیم قومی روایات اور جنوبی اور متوسط عرب کی آبادیوں اور مقامات کے ناموں کی ان سے نسبت ایسی قوی اور مضبوط شہادتیں ہے جو ان کی اس خطے میں وجود اور اقتدار کی دلیل ہیں۔ قحطان کے تیرہ بیٹوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

المودد

تورات کی کتابِ پیدائش اور کتاب التواریخ اوّل میں قحطان (یُقطن) کے پہلے بیٹے المودد אַלְמוֹדָ֖ד‎(Almodad) کا صرف تذکرہ ملتا ہے تاہم اسکی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ تورات کی تشریحات میں مذکور ہے کہ المودود کی وجہ شہرت یہ تھی کہ اس نے لکیروں (خطوط) کے ذریعے زمین کی پیمائش کی۔ 27 المودد کا شمار جنوبی عرب کے خطے میں آباد قبائل کے اجداد میں ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر جواد علی، تورات کے مفہوم کے مطابق "الموداد"، "مودد" "المودد" یا قحطان (یُقطن) کاسب سے پہلا بیٹا تھا جس کی نسبت سے قحطانی (یقطانی) قبائل میں سے ایک قبیلہ بھی مراد لیا جاتا تھا۔ کچھ علمائے تورات کا خیال ہے کہ ان کا مسکن جنوبی عرب (Southern Arabia) کا غربی خطہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنوبی عرب سے تعلق رکھنے والی عربی اور کچھ غیرعربی نصوص میں چند کلمات وارد ہوئے ہیں جو اس لفظ سے قریب ترپائے گئے ہیں۔ مثلاً بابلی نصوص میں "موددی " کا لفظ ملتا ہے نیز "مودادو" اور "موددو " کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:

  ووردت لفظة "مودد" في كتابات "جبانية" "كبانية" "Gebanitae"، في نصوص تدل على تقرب ملوك "حبان" "جبن" "كبن" "جبان" من ملوك معين، وإلى سيادة "معين" على "الجبأنيين" في ذلك الحين فورد "مودد ملك معين" بمعنى "المتودد لملك معين" و"المحب لملك معين" ويرى "كلاسر" أن هذه الجملة لا تعني "أحباء ملوك معين" وأصفياءهم، وإنما تحكي وظيفة لها علاقة بالإله "ود"، مثل كهانة الإله "ود" وسدانته ومسكن هؤلاء "الجبأنيين" في الزاوية الجنوبية الغربية لجزيرة العرب كما ورد اسم "مودد" في الكتابات السبئية، وفي كتاب الإكليل للهمداني وقد ذكره قبل "السلف"، مما يدل على أنه اسم مكان مجاور للسلف و أورد "بطلميوس" في الجغرافية اسم شعب عربي دعاه "Allumaeotae" يرى "فورستر" أنه شعب "الموداد" الذي نتحدث عنه ويقع مكان هذا الشعب في جغرافية "بطلميوس" جنوب "الجرعاء" "Gerraea" "Vicus Jerachaeorum"، ويتصور أنه على ساحل الخليج العربي عند "قطن".28
  جبانی و کبانی (Gebanita) کتبات میں لفظ "مودد" ان جملوں میں وارد ہوا ہے جو "حبان"، "جبن"، "کبن" اور "جبان" نامی معینی بادشاہوں کی قربت پر دلالت کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں یوں اس زمانہ میں "الجبأنيين" پر معینیوں کی حکمرانی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ یہاں"موددملک معین" دراصل "المتودد لملك معين" اور "المحب لملك معين" یعنی معینی بادشاہ سے محبت رکھنے والا کے معنیٰ میں وارد ہوئے ہیں تاہم گلاسر کی رائے ہے کہ یہ جملہ معینی بادشاہوں اور چنیدہ سرداروں سے محبت کے طور پر استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہاں ان کے معبود "ود" کی بات کی گئی ہے اور اس سے مراد معبود "ود" کے کاہن اور خدمت گزار وغیرہ ہیں۔ جبأنيين کا مقام ِسکونت جزیرہ عرب کے جنوب مغربی خطےمیں تھا۔ اسی طرح "مودد" نام صابیانیوں یا سبائیوں (Sabaean) کی تحریروں میں بھی ملتاہے اور ہمدانی کی کتاب الاکلیل میں بھی۔ انہوں نے اسے "السلف " سے ماقبل استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ "سلف" کے قریب کسی جگہ کا نام ہے۔ بطلیموس نے جغرافیہ میں ایک عربی قوم کا ذکر کیا ہے جسے (Allumaeotae) پکارا ہے، فورسٹر کا خیال ہے کہ اس سے مراد "الموداد" قوم ہی ہے۔ بطلمیوس کے جغرافیہ کے مطابق اس قوم کا محل وقوع "الجرعاء" (Vicus Jerachaeorum / Gerraea) کے جنوب میں ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ وہ "قطن" کے پاس خلیج عرب کے ساحل پر واقع ہے۔

سلف / شالف

تورات کے مطابق قحطان (یُقطان) کے دوسرے بیٹے کا نام شالف שלף (Sheleph) تھا۔ 29 Hitchcock کی بائبل ڈکشنری کے مطابق شالف (Sheleph) نام کے معنیٰ "نکالنے والا" یا "کھینچنے والا" کیے جاتے ہیں۔ 30شالف (Sheleph) سے متعلق تورات میں تفصیل نہیں ملتی اور نہ ہی دیگر تاریخی دستاویزات میں اس کا کوئی تفصیلی تذکرہ ملتا ہے تاہم شالف نام کا ایک قبیلہ یمن میں پایا جاتا ہے اوراسی طرح ایک علاقے کا نام بھی قدیم سبائی تحریروں (Sabaean Inscriptions) کے مطابق شالف ہے جس کی نشاندہی عرب جغرافیہ دانوں نے بھی کی ہے۔ یہ علاقہ جنوبی عرب میں واقع ہے۔ 31نیبور (Niebuhr) نے یمن کی ایک جگہ کا نام "سلفیہ" ذکر کیا ہے جو کہ "سلا" (Sula) نامی علاقے میں ہوسکتی ہے جسے یمن کی قدیم عربی تقسیم کے مطابق"مِخلف" (Mikhlaf) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ "سلفیہ" اسی جگہ کا نام ہو جس کی نیبور (Niebuhr) نے اپنے نقشہ میں نشاندہی کی ہے۔ تاہم وہاں یہ حرف علت کے ساتھ لکھا ہوا ہے اس لیے "سُلیفیہ" بھی ہو سکتا ہے۔ یہ صنعاء سے تقریباً 60 میل جنوب میں عرض بلد 14N میں 30 ڈگری پر واقع ہے۔ یاقوت الحمیری کی معجم میں ہے کہ السیلف یا السلاف ایک قدیم یمنی قبیلہ ہے جسکے متعلق ابن ہشام نے لکھا ہے کہ وہ قحطان کی اولاد میں سے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے جدِ اعلیٰ شالف بن قحطان کی نسبت سے اپنے آپ کو السیلف یا السلاف کہا۔ یہ بھی مذکور ہے کہ السلاف ذوکلاع قبیلے کی ایک شاخ تھی۔ دیگر شواہد بھی اس بات کو تقویت پہنچاتے ہیں یہ خطہ اور قبیلہ دونوں ہی شالف (Sheleph) سے منسوب ہیں کیونکہ قحطان (یقطان) کے دیگر بیٹوں مثلاً حضر موت، سبا اور دیگر قحطانی ناموں کے علاقے اور قبائل بھی اس کے قرب و جوار میں موجود ہیں۔32 ڈاکٹر جواد علی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وأما "شالف" "Sheleph" الذي ورد في التوراة بعد "الموداد"، فلم يتمكن العلماء من تشخيصه أيضًا و يرى بعضهم أنه شعب "Salepeni" المذكور في جغرافية "بطلميوس"ويرى آخرون أنه "السلف"، وهم بطن من ذي الكلاع من حمير، وهو "السلف بن يقطن"، أو "السلاف"، أو "بنو سلفان" و"السلف" أقرب هذه الأسماء إلى "شالف"، وخاصة إذا أخدنا بما قاله النسابون من انتساب هذه القبيلة إلى جد أعلى هو "السلف بن يقطن"، وذكر "نيبور" في رحلته اسم موضع في اليمن يقال له "سلفية"، قد تكون لاسمه علاقة ب "شالف"، وفي منطقة "يريم "ممر يقال له "نجد الأسلاف"، وقد رأى "كلاسر" احتمال وجود صلة بينه وبين "شالف".33
  شالف (Sheleph) کا ذکر تورات میں "الموداد" کے بعد وارد ہوا ہے تاہم اس کے متعلق بھی محققین کوئی خاص وضاحت نہیں کرسکے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ جغرافیہ بطلیموس میں مذکور (Salepeni) قوم ہے۔ دیگر کا خیال ہے کہ "السلف " قوم حمیر کے ذی الکلاع قبیلے کی ایک شاخ ہے جو "السلف بن یقطن" یا "السلاف" یا "بنوسلفان" ہے نیز "السلف" ان تمام ناموں میں "شالف" سے قریب تر ہے بالخصوص جب اس قبیلہ کی نسبت ماہرین انساب کے مطابق اس کے جدِ اعلی "السلف بن یقطن" کی طرف کرنے کے قول کو مان لیا جائے۔ نیبور نے اپنے سفرنامہ میں یمن کی ایک جگہ کا نام ذکر کیا ہے جسے "سلفیہ" کہتے ہیں، ممکن ہے کہ اس کا "شالف" سے کوئی تعلق ہو اور "یریم" میں ایک راہ گزرہے جسے "نجد الاسلاف" کہا جاتا ہے اور اس کے بارے میں "گلاسر" کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق "شالف" سے ہو۔

حضر موت / حصار ماوت

تورات کے مطابق قحطان (یُقطان) کے تیسرے بیٹے کا نام حضر موت یا حصار ماوت חֲצִרמָוֶת (Hazarmaveth) تھا۔ 34 اسی کے نام پر جنوبی عرب کے ایک شہر کا نام بھی حضر موت پڑگیا تھا جس کے متعلق مؤرخین کی رائے ہے کہ شہر "حضرموت" پہلے اس نام سے موسوم نہیں تھا۔ صاحب"معارک الاسلام" اس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  وما كانت حضرموت بھذا الاسم، إلا بعد أن وجد حضر موت بن قحطان، الذي إذا هاجم بجيش قومًا أكثر القتل فيھم، فصار إذا جاء قالوا: حضر الموت، لذلك أطلق عليه ثم على بلاد حضر موت هذا الاسم.35
  حضرموت اس نام سےموسوم نہیں تھا یہاں تک کہ حضرموت بن قحطان یہاں آیا جو اگر کسی قوم پر فوج کشی کرتا تو ان میں خوب قتل و غارت کرتا تھا، اسی لیے جب وہ کہیں جاتا تو کہا جاتا "حضرموت" (یعنی موت آن وارد ہوئی)۔ یوں پہلے اس نام کا اس پر اطلاق ہوا پھر شہر پر بھی۔

قحطان (یقطان) کے بیٹے حضرموت (Hazarmaveth) کی اس علاقے میں سکونت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ قحطان (یقطان) عرب کے جنوبی ساحل پر یمن کے علاقے میں ہی سکونت پذیر ہوا تھا مزید یہ کہ یہاں کے باشندوں کی خصوصیات اور قحطان کے دیگر بیٹوں سے متعلق ملنے والے شواہد بھی اس امر کی تائید کرتے ہی نظر آتے ہیں۔ حضرموت نامی علاقہ موجودہ دور کے یمن کا ایک صوبہ ہے جو اس کے مشرق میں واقع ہے۔ جزیرہ نما عرب کے جنوب کا ایک بہت بڑا حصہ اسی صوبے پر مشتمل ہے۔ اس کا صدر مقام شیبم (Shibam) نام کا ایک انتہائی قدیم شہر ہے جبکہ اس کی اہم بندرگاہیں مرباط (Mirbat) اور زافری (Zafri) ہیں۔ یہاں کے اولین بادشاہ حضرموت کی اولاد میں سے ہی تھے۔36

ابن خلدون کے مطابق حضرموت (Hazarmaveth) اور اس کی اولاد کا شمار عرب عاربہ میں ہوتا ہے۔ حضرموت کی اولاد میں بادشاہت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ابن خلدون لکھتے ہیں:

  وأما حضرموت فمعدودون في العرب العاربة لقرب أزمانھم وليسوا من العرب البائدة لأنھم باقون في الأجيال المتأخرة، إلّا أن يقال ان جمهورهم قد ذهب من بعد عصورهم الأولى واندرجوا في كندة، وصاروا من عدادهم، فهم بھذا الاعتبار قد هلكوا وبادوا واللّٰه أعلم وقال عليّ بن عبد العزيز إنه كان فيھم ملوك التبابعة في علو الصيت ونھاية الذكر قال وذكر جماعة من العلماء أن أول من انبسط ملكه منھم، وارتفع ذكره عمرو الأشنب بن ربيعة بن يرام بن حضرموت ثم خلفه ابنه نمر الأزج، فملك مائة سنة وقاتل العمالقة، ثم ملك كريب ذو كراب...وكان أول من رتب الرواتب وأقام الحرس والروابط ثم ملك منعم بن ذي الملك دثّار بن جذيمة بن منعم، ثم يشرح بن جذيمة بن منعم، ثم نمر بن بشرح، ثم ساجن المسمى ابن نمر وفي أيامه تغلبت الحبشة على اليمن هذه قبائل هذا الجيل من العرب العاربة وما كانوا عليه من الكثرة والملك إلى أن انقرضوا وأزال اللّٰه من أمرهم بالقحطانيّة.37
  اور جہاں تک حضرموت کا تعلق ہے تو یہ لوگ عرب عاربہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عربِ بائدہ سے زمانی طور پر قریب تھے مگر یہ ان میں سے نہیں ہیں کیونکہ اِن کی اگلی نسلیں باقی رہیں (جبکہ بائدہ کی نسلیں فنا ہوکر یا دوسرے قبائل میں ضم ہوکر مٹ گئیں)۔ تاہم یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے زیادہ تر لوگ گزرے زمانوں میں کندہ (قبائل) کی طرف چلے گئے تھے اور یوں انہیں میں شمار ہونے لگے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک طرح سے انہیں ہلاک یا فنا شدہ کہا جاسکتا ہے تاہم اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔ علی بن عبد العزیز کے بقول تبابعہ کے قابلِ قدر اور مشہور بادشاہ انہی میں سے تھے۔ ان کے بقول علماء کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ ان میں سب سے پہلے جس بادشاہ کو طویل بادشاہت اور شہرت نصیب ہوئی وہ عمرو بن الاشنب بن ربیعہ بن یرام بن حضرموت تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے بیٹے نمر الازج کو اپنا جانشین بنایا جس نے ایک سو سال بادشاہت کی اور عمالقہ سے جنگ کی۔ اس کے بعد کریب ذوکراب بادشاہ ہوا پھر نمرالازج نے ایک سوتنتیس (133) برس بادشاہت کی اوراس کے زمانہِ بادشاہت میں ہی اس کے بھائی فوت ہوگئے۔ پھر مرثد ذومروان بن کریب ایک سو چالیس (140) برس تک بادشاہ ہوا، پہلے وہ مأرب میں رہتا تھا پھر حضرموت منتقل ہوگیا، پھر علقمہ ذوقیعان ابن مرثدذی مروان حضرموت میں تیس (30) سال تک بادشاہ رہا، پھر ذوعیل بن ذی قیعا دس (10) برس بادشاہ رہا جو صنعاء میں رہتا تھا۔ اس نے ملکِ چین سے جنگ کرکے اس کے بادشاہ کو قتل کردیا اور اس کی چمکتی تلوار حاصل کرلی تھی۔ پھر ذوعیل بن ذی عیل حضرموت پر دس سال بادشاہ ہوا۔ جب چین کی جنگ کے نتیجہ میں تکلیف دہ نیزے ظاہر ہوئے تو ذوعیل صنعاء کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس کا حملہ شدید تھا، یمن کے بادشاہوں میں وہ پہلا تھا جس نے روم سے جنگ کی اور یمن میں ریشم و مخمل لایا۔ پھر بدعات بن ذی عیل حضرموت میں چار (4) سال تک بادشاہ رہا۔ پھر بدعیل بن بدعات بادشاہ ہواجس نے فصیلیں بنائیں اور کافی آثار چھوڑے۔ اس کے بعد بدیع ذوعیل بادشاہ ہوا پھر حماد بن بدعیل حضرموت میں بادشاہ ہوا جس نے اپنا مضبوط محل بنایا اور سابور ذی الاکتاف کے زمانہ میں فارس سے جنگ کی جس میں اس نے خوب تباہی و بربادی پھیلائی اور لوگوں کو قیدی بنایا۔ اس کی بادشاہت اسی (80) برس قائم رہی اور وہ ان میں پہلا بادشاہ تھا جس نے نقاب کیا۔ پھر یشرح ذوالملک بن ودب بن ذی حماد بن عاد حضرموت کے شہروں پر ایک سو (100) سال تک بادشاہ ہوا۔ یہ پہلا بادشاہ تھا جس نے تنخواہیں مقررکیں، پہرہ دار تعینات کیے اور تعلقات بنائے، پھر منعم بن ذی الملک دثار بن جذیمہ بن منعم، پھر یشرح بن جذیمہ بن منعم، پھر نمر بن یشرح، پھر ساجن مسمی ابن نمر بادشاہ ہوا جس کے زمانہ میں حبشہ یمن پرغالب آیا۔ عرب عاربہ کی اس نسل کے یہ قبائل کثیرالتعداد اور اصحاب حکومت رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قحطانیوں کے ذریعے ان کو زوال دیا۔

یارح

تورات کے بیان کے مطابق یقطان کے چوتھے بیٹے کا نام یارحיֶרִח (Jerah/ Yerah) تھا 38 جس کے معنیٰ چاند، مہینہ اور خوشگوار مہک لیے جاتے ہیں۔39 اسی نام سے عرب کا ایک قبیلہ بنو ہلال بھی موسوم تھا جس کا مسکن حضرموت اور ہدورام کے قبائل کے قریب ہی تھا۔ حضر موت کے قریب کوہِ ہلال نامی ایک پہاڑ اور ہلال نام کے ساحلی خطہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔40 یارح اور اس سے متعلقہ ممکنات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:

  "يارح" (Yerah) فإن معناه "قمر" و"شھر" ولهذا ذهب بعض الباحثين إلى أنه اسم قبيلة عربية وبين العرب قبيلة تعرف ب"بني هلال"، فلا يبعد أن يكون "يارح" اسم قبيلة وقد عثر في كتابات تدمر على اسم "يارح"، وقد ورد اسم علم، كما أن اسم "شھر" من الأسماء المعروفة عند الجاهليين، وقد سُمِّي به عددٌ من الملوك الذين عاشوا قبل الميلاد وبعده ويرى "كلاسر" أن الشعب كان يقيم في "مهرة"، أو في جنوب عمان في موضع قد يكون المكان الذي سماه "بطلميوس" "Jerakon kome و"يارح" هو "يرخ" و"ورخ" في اللهجات العربية الجنوبية، وتعني "شھرًا" "قمرًا" وهناك مواضع متعددة في العربية الجنوبية تسمى بأسماء قريبة من هذه الكلمة، مثل "وراخ" و "يراخ" وقد ذكر الهمداني اسم موضع دعاه "وراخ" 41 في مخلاف "العود" لذلك رأى بعض العلماء وجود صلة بين هذه المواضع و "يارح" كما ورد في جغرافية "بطلميوس" اسم مكان دعاه "Insula Jerachaeorum"، وهو جزيرة تقع في البحر الأحمر جنوب جُدَّة وورد اسم محل آخر سمي " Vicus Jerachaeorum"، ويقع في مقابل النھر الذي دعاه نھر "الآر" (Lar) الذي يصب على زعم "بطلميوس" في الخليج العربي "الخليج الفارسي" (Sinus Persicus).42
  یارح (Yerah) کے معنیٰ "چاند" اور"مہینے" کے لیے جاتے ہیں اس لیے بعض محققین نے اسے ایک عربی قبیلہ کے نام کے معنیٰ میں لیا ہے اور عرب میں ایک قبیلہ "بنی ہلال" کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ بعید نہیں کہ "یارح" قبیلہ کا نام بھی ہو۔ تَدمُرسے ملنے والے کتبوں تحریروں میں "یارح" اسم علم کے طور پر پایا گیا ہے جیسے کہ اہل جاہلیت کے ہاں "شَہَر" یعنی "مہینہ" اسمائے معلومہ میں سے ہے اور ولادت مسیح سے پہلے اور بعد میں اس نام سے کئی بادشاہ بھی موسوم ہوئے۔ "گلاسر" کے نزدیک اس نام کی ایک قوم تھی جو"مہرہ" یا عمان کےجنوب میں اس مقام پرآباد تھی جس کو بطلیموس نے"Jerakon Kome" بتایا ہے۔ اورجنوبی عربی لہجوں میں "یارح"، "یرخ" اور "ورخ" ہے، جس کا معنی "مہینہ" اور "چاند" ہے۔ اس کے علاوہ بھی جنوبی عربی لہجوں میں کئی نام ایسے ہیں جو اس کلمہ کے قریب تر ہیں جیسے"وراخ" اور "یراخ"۔ ہمدانی نے "العود" کے مضافات میں ایک جگہ کا نام ذکر کیا ہے جسے "وراخ" بتایا ہے اسی لیے بعض علماء کا خیال ہے کہ اس جگہ اور "یارح" کے درمیان کوئی نہ کوئی تعلق پایا جاتا ہے جیسے بطلیموس کے جغرافیہ میں ایک جگہ کانام "Insula Jerachaeorum" بتایا گیا ہے جو جدہ کے جنوب میں بحر احمر میں ایک جزیرہ ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام کا نام ذکر ہوا ہے جسے "Vicus Jerachaeorum" کہا گیا جو اس نہر کے مقابل تھا جسے نہرِ الآر (Lar) کہا جاتا تھا، بطلیموس کے خیال کے مطابق یہ نہر خلیج عربی اور خلیج فارس (Sinus Persicus) میں گرتی ہے۔

یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ تورات میں اگرچہ یارح (Yerah) نام مذکور ہے جو کہ عبرانی کا لفظ ہے اور اس کے معنیٰ چاند کے ہیں مگر فی الحقیقت عرب میں یقطان کے اس بیٹے کی نسبت سے جو قبائل اور مقامات ہیں وہ بنو ہلال اور کوہِ ہلال وغیرہ ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یارح کا اصل نام ہلال تھا جو کہ ایک عربی نام ہے۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یقطان کے دور میں یہاں کی زبان عربی تھی اور تورات میں مذکور نام اصل نام نہیں ہیں بلکہ اصل نام کا عبرانی ترجمہ ہے جو بعد میں کیا گیا تھا۔

ہدورام

تورات میں قحطان (یُقطان) کے پانچویں بیٹے کا نام ہدورام הֲדוֹרָם (Hadoram) مذکور ہے 43 44 جس کے معنیٰ خوبصورتی اور قوت کے ہیں۔ 45 اسے جنوبی عرب (Arabia Felix) کے ہدورام قبیلہ کا جدِاعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ جیسینئس (Gesenius) کے خیال میں یہ قبیلہ دراصل Adramitae نامی قبیلہ تھا جس کا مسکن بطلیموس (Ptolemy) نے جنوبی عرب میں حِمیَری اور گروہی قبائل (Socialite) کے درمیان بیان کیا ہے۔ 46 ہدورام (Hadoram) کےمتعلق یہ بھی منقول ہے کہ یہی دراصل جرہم تھا جو ابن سعد كے مطابق ہذرم بن عامر ہے۔ 47 طبری نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ جرہم کانام ہذرم بن عابربن یقطن بن عابربن شالخ بن ارفخشذبن سام بن نوح ہے۔ 48 طبری کا بیان کردہ یہ نسب تورات میں "ہذرم" اور "یقطن" کے درمیان "عابر" (Eber) کے اضافہ کے ساتھ مذکور ہے جو کہ ایک ایسی خطا ہے جو اکثر (تبدیل شدہ) تورات سے منقول ہوکر عربی کتب میں پائے جانے والے انساب میں پائی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ طبری کا ماخذ ابن کلبی ہے جبکہ ابن کلبی کا ماخذ اہلِ کتاب ہیں۔ 49

تورات کے شارحین کے حوالے سے ہدورام بن یقطان کے متعلقات اور ممکنات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں کہ ہدورام (Hadoram) کے بارے میں "ملر" (Muller) اور"گلاسر" یہ احتمال پیش کرتے ہیں کہ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق "صنعاء" کے قریب واقع "دورم" نامی مقام سے بھی ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی رائے کی تائید عربی تالیفات میں مذکور "صنعاء" کے قدیم نام "ازال" سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ "ہدورام" کا بھائی تھا اور تورات کی ترتیب میں اس کا ذکر "ہدورام" کے بعد ملتا ہے۔ یوں ممکنہ طور پر "ازال" نامی علاقے کے قریب واقع "دورم" نام کا علاقہ "ہدورام" کے نام سے منسوب ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ مزید یہ کہ عربی کتب میں دو ایسے مقامات کے نام مذکور ہیں جنہیں "الہدار" کہا جاتا ہے۔ ہمدانی نے ایک کے بارے میں کہا کہ یہاں قلعے، کھجور کے باغات اورمحلات ہیں جبکہ دوسرے کے بارے میں کہا کہ وہ بنی الحریض کی سرزمین ہے۔ ہمدانی نےاس میں "القطنیہ" نامی جگہ کا بھی ذکرکیا ہے اور یہ دوسرا مقام "ہدورام" سے زیادہ قریب ہے اور لفظ "القطنیہ" کی اہمیت لفظ "یقطان" سے قربت کی وجہ سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ 50 مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہدورام کے بارے میں اب اگرچہ زیادہ تفصیلات اور حتمی شواہد موجود نہیں ہیں تاہم مندرجہ بالا مقامات اور قبائل کے ناموں کی "ہدورام" سے مماثلت اور قرب و جوار میں اس کے دیگر بھائیوں کے آثار کی موجودگی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ اور اس کی اولاد اسی خطے میں آباد تھی۔

اوزال

تورات کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق اوزال אוּזָל(Uzal) قحطان (یقطان) کا چھٹا بیٹا تھا۔ 51 52 اوزال کا لفظ، گھومنے پھرنے، اِدھر اُدھر بھٹکنے اور سفر میں رہنے کے معنی ٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ 53 ذرا سی تبدیلی سے اس لفظ کی فعلی صورت "کسی چیز کو گھمانے" اور "سوت کاٹنے" (Yarn) کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ 54 تاریخی کتب اور دیگر مصادر اوزال بن قحطان کی شخصیت کے تعین اور اس کے متعلق معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں یہاں تک کہ تورات کے شارحین بھی شش و پنج کا شکار نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر جواد علی کے بقول علمائے تورات بھی ابھی تک "ازال" کے تعین پرمتفق نہیں ہیں تاہم مؤرخین ذکر کرتے ہیں کہ عہدِ جاہلیت میں یمن کا دارالحکومت صنعاء "ازال" کے نام سے مشہور تھا۔ یہ روایت وہب بن منبہ کی طرف لوٹتی ہے جن کا دعوی ہے کہ انہوں نے زمانہ قدیم کی نازل شدہ کتابوں میں پڑھا ہے: " أزالَ أزالَ كَلّ عليك، وأنا أتحنن عليك" 55 یعنی: اے شہرِ ازال! تجھ پر شکستگی و زوال آچکا ہےاور میں تجھ سے ہمدردی کرتا ہوں۔ ان کا گمان ہے کہ "ازال" ہی دراصل "صنعاء" ہے۔ نیبور (Niebuhr) نے بھی اپنے یمن کے سفر کے دوران یہاں کے مقامی لوگوں سے اسی طرح کی بات سنی تھی۔ 56 تاہم جاہلیت کی تاریخ میں ایسا کچھ بھی نہیں ملتا جو یہ ثابت کرسکے کہ صنعاء، "ازال" کے نام سے جانا جاتا تھا بلکہ ہمارے سبا اور ذی ریدان کے بادشاہ "یشرح یحضب" کے زمانہ کی ایک روایت ملتی ہے (جو تقریباً میلادِ مسیح سے قبل دوسری صدی کے آخر اور پہلی صدی کے شروع کا زمانہ بنتا ہے) جس میں "صنعو" کا لفظ وارد ہوا ہے جو دراصل صنعاء ہے۔ گلاسر کا خیال ہے کہ صنعاء کے لیے ازال کا نام یہودیوں کے یمن میں داخل ہونے اور اس میں پھیل جانے کے بعد وضع کیا گیا تھا تاہم البکری نے ذکر کیا کہ صنعاء حبشی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی "مضبوط" اور "محفوظ" کے ہیں۔ 57 یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب حبشی (Abyssinians) یہاں داخل ہوئے تو اس خطے کا نام اُزدل (Uzdl) تھا۔ انہوں نے اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اسے صنعاء کا نام دیا جس کے معنیٰ "خوبصورت" کے ہیں۔ 58 اس خطے میں اس کے علاوہ بھی چند مقامات ایسے ہیں جو "ازال" کے نام سے مشہور ہیں جن میں سے ایک "یازل" ہے جو "حضور" پہاڑ کے قریب ہے، ایک اور مقام حجاز میں ہے مگر موجودہ زمانے میں یہ ممکن نہیں کہ ہم حتمی طور پر یہ کہہ سکیں کہ ان سے مراد تورات والا "ازال" ہے۔ 59 صنعاء میں اس وقت بھی یہودیوں کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار (15000) کے قریب ہے جبکہ پورے یمن میں یہ تعداد دو لاکھ (200000) نفوس تک ہے۔ 60

دِقلہ

تورات کے مطابق قحطان کے ساتویں بیٹے کا نام دِقلہ (דִּקּלָה Diklah) تھا۔ 61 دقلہ کے نام سے جنوبی عرب کا ایک قبیلہ بھی پہچانا جاتا تھا جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ دقلہ کی اولاد میں سے تھے اور یہ اس علاقے کا بھی نام تھا جہاں یہ قبیلہ آباد تھا۔ 62 دقلہ کا لفظ کھجور کے درختوں کے لیے بھی استعمال کیاجاتا ہے اور جہاں کھجور کے درخت کثرت سے ہوں اس جگہ کو دقلہ کہا جاتا ہے۔ تاہم اس طرح کے عرب میں کافی مقامات موجود ہیں جو کھجوروں کی کثرت کی سبب سے دقلہ کہلاتے ہیں۔ 63 جواد علی کے بقول قبیلہِ دقلہ کے اصل مساکن کا حتمی طور پر تعین کرنا ممکن نہیں ہے اور اس کے بارے میں مختلف آراء موجود ہیں۔ جواد علی رقمطراز ہیں:

  ولم يتمكن علماء التوراة من البت في موضع "دقلة" (Diklah) أيضًا ويرى بعض المستشرقين أن هذا الاسم يشير إلى مكان يجب أن يكون كثير التمر، وقد رأى "هومل" أنه موضع "حدّ دقل" وذكر "ياقوت الحموي" موضعًا في اليمامة سماه "دقلة" 64 ولكن الباحثين في هذا الموضوع لم يقطعوا برأي فيه.65
  علماءِ تورات "دقلہ" (Diklah) کے مقام کے معاملہ میں حتمی رائے نہیں رکھتے، بعض مستشرقین کا خیال ہے کہ یہ نام ایسے مقام کی جانب اشارہ کرتا ہے جہاں کھجور کثرت سے پائی جاتی ہو، "ہومل" کا اندازہ ہے کہ وہ ایک "حدّ دقل" نامی جگہ ہے۔ یاقوت الحموی نے یمامہ میں ایک مقام کا ذکر کیا ہے جسے "دقلہ" کہا گیا ہے مگر محققین نے اس میں جزم کے ساتھ رائے قائم نہیں کی۔

یوں یہ واضح ہوتا ہے کہ دقلہ بن قحطان کی شخصیت اور اس کی اولاد کے مساکن کا حتمی طور پر تعین کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم جنوبی عرب میں حجاز کی مشرقی سمت، ایک قبیلہ اب بھی دُقلئی کہلاتا ہے جو غالباً دقلہ ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ 66

قحطان / یقطان کے دیگر بیٹے

تورات میں مذکور یقطان کے دیگر بیٹوں میں عوبال (Ebal / Obal)، ابیمائیل (Abimael)، شبا (Sheba)، اوفور (Ophir)، حویلہ (Havilah) اور یوباب (Jobab) شامل ہیں۔ 67 ان تمام کے احوال و مساکن کی تفصیلات نہیں ملتیں تاہم یمن کے علاقے میں ان ناموں سے ملتے جلتے قبائل کا تذکرہ ملتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ اس خطے میں آباد تھے۔ ڈاکٹر جوادعلی لکھتے ہیں کہ قومِ "عبیل" کا تعلق عوبال (Ebal / Obal) سے ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ حجاز میں تہامہ کے "عیبال" اور یمن کے مقامات "عبال" اور "عبیل" کا تعلق بھی عوبال بن قحطان سے ہو سکتا ہے۔ فارسٹر (Forestor) کی رائے کے مطابق "عوبال بن قحطان" اور "Avalitae" یا "Abalitae" نامی ایک عربی قوم کے مابین بھی کسی تعلق کا احتمال ممکن ہے۔ گلاسر نے اس بات کا بھی احتمال ظاہر کیا ہے کہ وادیٔ اتمہ، قوم ِابیمائیل (Abimael) کا مسکن ہے۔ 68

یقطان کا دسواں بیٹا "شبا" (Sheba) ہے۔ 69 یقطان کے دیگر بیٹوں کی طرح شبا کی شخصیت کے بارے میں مزید تفصیلات میسر نہیں ہیں۔ تاہم تورات میں "شبا" نامی ایک قوم کا تذکرہ ملتا ہے جس کے بادشاہ کی حضرت سلیمان سے ملاقات کا قصہ بیان کیا گیا ہے جہاں"سبا" کے نام سے یقطانی نسلوں میں سے ایک نسل مراد لی گئی ہے۔ تورات میں ایک دوسری جگہ "شبا" نامی ایک اور شخص کا تذکرہ بھی موجود ہے جو یقشان کا بیٹا تھا۔ یقشان ابراہیم کا فرزند تھا جو ان کی بیوی "قطورہ" (Keterah) کے بطن سے تھا اور اسماعیل کا ان کے والد کی طرف سے بھائی تھا۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تورات "سبا" کو بغیر نقطوں کے سین کے ساتھ "کوش" کے تمام بیٹوں کے ذکر میں بیان کرتی ہے۔ مشہور یہ ہے کہ عبرانیوں کے نزدیک "کوش" سے مراد "حامی" یعنی افریقی اقوام ہیں یوں "سبا" افریقی اقوام میں سے ایک کا نام بھی ہے۔ نسب کے اس تعدد کا مطلب سبائیوں کا پھیلنا (نسل کا بڑھنا) اور ان کے رہنے کے مقامات کا کثیر التعداد ہونا ہے۔ اس چیز نے تورات کے کاتبوں کو افریقہ میں رہنے والے سبائیوں کے نسب کو "کوشیین" کے نسب میں اور "ددان" کے رہنے والے سبائیوں کو "رعمہ" کی نسل میں داخل کرنے پر آمادہ کیا۔ 70

تورات میں شبا کے بعد اوفیر (Ophir) بن یقطان کا نام مذکور ہے جو کہ قحطان (یُقطان) کا گیارہواں بیٹا ہے۔ 71 اوفیر کی شخصیت کے بارے میں بھی معلومات موجود نہیں ہیں تاہم اس نام سے ایک مقام کا تذکرہ ملتا ہے جو عبرانیوں کے یہاں سونے، چاندی، صندل کی لکڑی اور قیمتی پتھروں کی کثرت کی وجہ سےمشہورتھا۔ اس کے محل وقوع کے تعیّن میں اختلاف ہے تاہم تورات کے اکثر علماء کا خیال ہے کہ وہ جزیرہ عرب میں ہے تاہم اس کے اصل محل کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک وہ یمن میں ہے اور بعض کے نزدیک وہ عسیر میں ہے جبکہ بعض کے نزدیک وہ یمامہ یا العویفرہ کے مقام پر ہے جو جبل طویق کے اطراف سے زیادہ دور نہیں ہے تاہم ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ وہ حجاز میں "مہد الذہب" کا وہ علاقہ ہے جو اسلام سے زمانہ قبل سونا نکالنے کے حوالے سے مشہور تھا۔ محققینِ تورات کے ایک اور گروہ کا یہ بھی خیال ہے کہ تورات میں مذکور زمین "اوفیر" کے اوصاف ہند کی زمین جیسے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ وہاں سے حاصل ہونے والی ہندی اشیاء ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندی اشیاء یمن کی تجارتی بندرگاہوں پر بکثرت آتی تھیں۔ ایک گروہ کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ علاقہ افریقہ میں ہے۔ 72

یقطان کا بارہواں بیٹا حویلہ (Havilah) ہے۔ 73 حویلہ کی شخصیت کے بارے میں بھی معلومات موجود نہیں ہیں تاہم اس نام سے ایک مقام کا تذکرہ ملتا ہے۔ تورات نے حویلہ کو ایک اور مقام پر "کوش" کے جملہ بیٹوں اور "سبا " کے ساتھ ذکر کیا ہے جو افریقہ میں اسی نام سے پکارے جانے والے کسی دوسرے قبیلہ کا وطن ہونے پر دلالت کرتا ہے جو کہ ہوسکتا ہے کہ عرب کے "حویلہ" کی کوئی شاخ ہو۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ حویلہ عرب کا ایک شہر تھا جو بادیۃ الشام میں تھا یا پھر خلیجِ عقبہ کے قریب واقع تھا۔ تاہم بعض محققین کا خیال ہے کہ وہ جزیرہ عرب کے وسط میں ہے یا "جبل شمر" نامی علاقہ میں ہے جبکہ گلاسر کا گمان ہے کہ وہ یمامہ میں ہے۔ ہمدانی نے ایک گروہ کا ذکر کیا جسے "الحولیین" کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حوالۃ کے رہنے والے تھے اوروہاں یمن کی قبائل کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جسے "بنوحوالہ" کہا جاتا ہے جیسے کہ اسم "حویل" کے متعلق وارد ہوا ہے۔74

تورات میں ایک مقام پر چار مشہور دریاؤں یا ندیوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے پہلا دریا "فیسون" (Pishon) جس نے زمین کو گھیرے ہوئے تھا، اس کا نا م "حویلہ" مذکور ہے۔ کتابِ پیدائش (Genesis) میں ہے:

  וְנָהָר יֹצֵא מֵעֵדֶן לְהַשְׁקוֹת אֶת-הַגָּן וּמִשָּׁם, יִפָּרֵד וְהָיָה לְאַרְבָּעָה רָאשִׁים.שֵׁם הָאֶחָד פִּישׁוֹן--הוּא הַסֹּבֵב אֵת כָּל-אֶרֶץ הַחֲוִילָה אֲשֶׁר-שָׁם הַזָּהָב. וּזְהַב הָאָרֶץ הַהִוא טוֹב שָׁם הַבְּדֹלַח וְאֶבֶן הַשֹּׁהַם. וְשֵׁם-הַנָּהָר הַשֵּׁנִי גִּיחוֹן--הוּא הַסּוֹבֵב אֵת כָּל-אֶרֶץ כּוּשׁ. וְשֵׁם הַנָּהָר הַשְּׁלִישִׁי חִדֶּקֶל הוּא הַהֹלֵךְ קִדְמַת אַשּׁוּר; וְהַנָּהָר הָרְבִיעִי, הוּא פְרָת.75
  عدن سے ایک دریا نکلتا تھا جو اس باغ کو سیراب کرتا ہوا چار ندیوں میں بٹ جاتا تھا۔ پہلی ندی کا نام فیسون ہے جو حویلہ کی ساری زمین کو جہاں سونا ہوتا ہے گھیرے ہوئے ہے۔ اس زمین کا سونا عمدہ ہوتا ہے اور وہاں موتی اور سنگِ سلیمانی بھی ہیں۔ دوسری ندی کا نام جیحون ہے جو کوش کی ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ تیسری ندی کا نام دجلہ ہےجو اسور کے مشرق کو جاتی ہے اور چوتھی ندی کا نام فرات ہے۔ 76

بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ دریا "کارون" (Karun River) یا شط العرب (Shatt Al-Arab) یا پھر کوئی اور دریا ہے۔ یوں ممکن ہے کہ اس لحاظ سے حویلہ کی سرزمین خلیج کے شروع کے علاقہ میں واقع ہو۔ 77

تورات میں مذکور یقطان کے بیٹوں میں سے آخری بیٹے کا نام "یوباب" (Jobab) ہے۔ 78 گلاسرکی رائےہےکہ یہ قبیلہ"يهيبب" کانام ہےجو صابیانی یا سبائی (Sabaean) روایات میں وارد ہواہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ قوم "وبار" کانام ہےاوربطلیموس کے(بیان کردہ)جغرافیہ میں وارد " Jobarital" نام کی اصلاح ہے۔ 79

قحطان یا یقطان کےیہ مذکورہ تیرہ بیٹےتھےجن سےیقطان کی نسل عرب کے مختلف علاقوں میں پھیلی اور بعد میں ان سے مزید شاخیں نکلیں ۔ انہی کی اولاد کو اہلِ نسب نے "عرب عاربہ" قرار دیا ہے ۔ قحطان کے ان تیرہ بیٹوں میں سے جرہم اور یعرب کی اولاد زیادہ معروف ہوئی تاہم چند مورخین ان دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں۔ ان کی اولاد مختلف قبائل اور شعوب میں تقسیم ہو کر مختلف خطوں میں پھیل گئی اور عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں۔ تاہم عرب عاربہ کے دور کی قدامت کی وجہ سے ان سلطنتوں اور حکومتوں کے قیام اور ان سے متعلق اہم واقعات کی صحیح تاریخوں اور ادوار کا تعین مشکل نظر آتا ہے۔ ذیل میں عرب ِ عاربہ کے چند مشہور قبائل کا تذکرہ کیا گیا ہے:

جرہم

جرہم (Banu Jurhum/Gorrhamite)قدیم عرب کا ایک بہت بڑا اور مشہور قبیلہ گزرا ہے جو اصلاً یمنی تھے اورانہوں نے صدیوں تک حجاز اوربالخصوص مکّہ پر حکومت کی تھی۔ بعض مؤرخین کے مطابق مکّہ کی سب سے پہلی آبادی کا سلسلہ بھی جرہم قبیلہ سے شروع ہوا تھا جو اس کے بعد صدیوں تک مکّہ میں آباد رہے۔ قبیلہ جرہم مکّہ میں اس وقت آباد ہوا تھا جب یہاں کسی قسم کی کوئی آبادی نہ تھی اور بقول بعض مورخین اس وقت یہ قبیلہ دوسو(200) خیموں پر مشتمل تھا۔ 80 جرہم کی دو اقسام ہیں جن میں ایک جرہم ِ اولیٰ تھے جو عاد و ثمود کے زمانے کے قبیلے تھے اور یہ صفحہِ ہستی سے مٹ گئے تھے اس لیے انہیں عربِ بائدہ میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے جرہم ِ ثانیہ تھے جنہیں عربِ عاربہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے ابن کثیر لکھتے ہیں:

  أما جرهم فهم صنفان، جرهم الأولى: وكانوا على عهد عاد، فبادوا ودرست أخبارهم وهم من العرب البائدة وأما جرهم الثانية: فهم من ولد جرهم بن قحطان وكان جرهم أخا يعرب بن قحطان فملك يعرب اليمن وملك أخوه جرهم الحجاز، ثم ملك بعد جرهم ابنه عبد يا ليل بن جرهم، ثم ابنه جرشم بن عبد يا ليل، ثم ابنه عبد المدان بن جرشم، ثم ابنه ثقيلة بن عبد المدان، ثم ابنه عبد المسيح بن ثقيلة، ثم ابنه مضاض بن عبد المسيح، ثم ابنه عمرو بن مضاض، ثم أخوه الحارث بن مضاض، ثم ابنه عمرو بن الحارث، ثم أخوه بشر بن الحارث، ثم مضاض بن عمرو بن مضاض، وجرهم المذكورون هم الذين اتصل بھم إِسماعيل عليه السلام، وتزوج منھم.81
  جہاں تک جرہم کا تعلق ہے تو اس کی دوشاخیں ہیں: جرہم الاولی: یہ قوم عادکےزمانہ میں تھےجوناپیدہوگئےاوران کےصرف آثارباقی رہ گئے، یہ عرب بائدہ میں سےتھے۔ جبکہ جرہم الثانیہ، جرہم بن قحطان کی اولادمیں سےتھے۔ جرہم یعرب بن قحطان کابھائی تھا۔ یعرب نےیمن پرحکومت کی اوراس کےبھائی جرہم نے حجازپر، جرہم کےبعداس کابیٹاعبد یالیل بن جرہم بادشاہ بنا۔ اس کےبعدجرشم بن عبد یالیل اس کےبعداس کابیٹاعبدالمدان بن جرشم اس کےبعداس کابیٹاثقیلہ بن عبد المدان اس کےبعداس کابیٹاعبدالمسیح بن ثقیلہ اس کےبعداس کابیٹامضاض بن عبد المسیح اس کےبعداس کابیٹاعمروبن مضاض اس کےبعداس کابھائی الحارث بن مضاض اس کے بعد اس کابیٹاعمروبن الحارث پھراس کابھائی بشربن الحارث، پھرمضاض بن عمروبن مضاض بادشاہ بنا، مذکورہ بالا جرہم وہ ہیں جن سے حضرت اسماعیل کی ملاقات ہوئی تھی اورپھر آپ نے ان میں نکاح فرمایا تھا۔

جرہم اولیٰ اُمم ِسامیہ میں سے عاد کے ہم عصر تھے اور نوح کے پوتے جرہم کی اولاد میں سے تھے جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھا اور اسکی زبان قدیم عربی تھی۔ 82 یہ قحطان (یُقطان ) کے دور سے بہت پہلے گزرےتھے اور جرہمِ ثانیہ کے دور میں دنیا سے بالکل مٹ چکے تھے ۔ 83

جرہم ثانی

جرہم ثانیہ عرب کے اہم اور مشہور قبائل تھے جن کا تعلق قحطانی یمنی نسل سے تھا ۔ عام طور پر جب جرہم کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی جرہم ثانیہ کے ہوتے ہیں کیونکہ تاریخ میں جرہم اولیٰ کا تذکرہ بہت کم محفوظ ہے اور زیادہ تر تفصیلات جرہم ِ ثانیہ سے متعلق ہیں۔ قبائلِ جرہم، قحطان(یقطان) کے بیٹے جرہم کی اولاد تھے۔ یہ لوگ یعرب کے بنو عم یعنی چچا زاد تھے 84 85 اور ان کا سلسلہ نسب سام بن نوح تک پہنچتا ہے۔ جرہم کے متعلق یہ منقول ہے کہ وہ دراصل ہدورام (Hadoram) بن یُقطان (قحطان)تھا جو ابن سعد كے مطابق ہذرم بن عامر ہے۔ 86 ابن ہشام نے ابن ِاسحاق کی روایت نقل کرتے ہوئے جرہم کا شجرہِ نسب جرہم بن يقطن بن عيبر بن شالخ بیان کیا ہے۔ 87 اس کی مزید تائید مضاض نامی جرہمی بادشا ہ کے شجرہ ِ نسب سے ہوتی ہے جو ابن ِ ھشام نے مضاض بن عمرو بن سعد بن الرقیب بن ھی بن نبت بن جرہم بن قحطان بیان کیا ہے 88 یوں یہ واضح ہوتا ہے کہ قبیلہِ جرہم، قحطان (یقطان ) کے بیٹے جرہم کی اولاد تھے نہ کہ جرہم بن عامر بن سبا بن یقطن کی۔

قبائلِ جرہم کا قدیم مسکن یمن تھا جہاں سے بعد میں وہ حجاز منتقل ہوئے تھے۔ قبائلِ جرہم کو قحطانیہ کی شاخ قرار دیتے ہوئے عمر رضا لکھتے ہیں:

  جرهم بطن من القحطانیة كانت منازلھم اولا الیمن ثم انتقلوا الحجاز. 89
  جرهم قحطانیہ کی شاخ ہیں جن کےمساکن پہلے یمن میں تھے پھر وہ حجاز منتقل ہوگئے۔

روایات کے مطابق قبیلہِ جرہم کے لوگوں سے ہی حضر ت اسماعیل نے عربی زبان سیکھی تھی۔ امام عبد الرحمن سہیلی لکھتے ہیں:

  ومنھم تعلم إسماعیل العربیة...وھو ابن أربع عشرة سنة. 90
  حضرت اسماعیل نے ان سے ہی عربی زبان سیکھی تھی۔ ۔ ۔ اوراس وقت آپ کی عمر مبارک چودہ (14)سال تھی ۔

مذہب

روایات سے پتا چلتا ہے کہ قبائلِ جرہم کا پہلا دور شرک و بت پرستی میں گزرا تھا تاہم بعد میں جب یہ لوگ یمن سےمکّہ ہجرت کرگئے اوروہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تعلیمات کی بدولت ان لوگوں نے دینِ ابراہیمی قبول کرلیا تھا۔ اس کے بعدآخر تک زیادہ تربنوجرہم کا مذہب دینِ ابراہیم ہی رہا تاہم ان میں سے بعض لوگ کفر پربھی تھے ان میں بے شمار برائیاں داخل ہوگئیں تھیں جن کی وجہ سے ان لوگوں پر عذاب مسلط کردیا گیا اورمکّہ سے ان لوگوں کانام و نشان مٹا دیا گیا۔ 91 مکّہ کی اولین تاریخ پرنظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس وقت مکّہ میں قبائل جرہم و عمالقہ ہی آباد تھے اور ان قبائل کے سردار اور ان کے لوگوں کے نبی، حضرت اسماعیل ہی تھے۔ آپ نے دین ِ حق کی تبلیغ کے ذریعے ان قبائل کے بے شمار افراد کو کفر وشرک کی ظلمتوں سے نکال کر دنیاوی و اُخروی کامیابی کے راستے پر ڈالا۔ 92 93

سردار

جب قبائل ِجرہم یمن سے ہجرت کرکے مکّہ پہنچے تھے تو اس وقت جرہم کے سردار کا نام مضاض بن عمروتھا جیساکہ ابن ہشام نے لکھا ہے:

  وملکت بنو جرهم علیھم مضاض بن عمرو.94
  اور بنی جرہم نے مضاض بن عمرو کو اپنا بادشاہ بنالیا۔

اسی طرح امام ازرقی کی روایت میں بھی ہے:

  فكان مضاض بن عمرو ملک جرهم والمطاع فیھم.95
  اور مضاض بن عمرو جرہم کا بادشاہ اورفرمانروا تھا۔

مضاض کا پورا شجرہ نسب ابن ہشام نے اس طرح بیان کیا ہے:

  مضاض بن عمرو بن سعد بن الرقیب بن هي بن نبت بن جرھم بن قحطان.96
  مضاض بن عمرو بن سعد بن الرقیب بن ھی بن نبت بن جرہم بن قحطان۔

مضاض کے بعدآنے والےجرہمی سرداروں کے نام یعقوبی نےیوں بیان کیے ہیں:

  ثم ملک بعدہ الحارث بن مضاض ثم ملک عمرو بن الحارث بن مضاض ثم ملک المعتسم بن الظلیم ثم ملک الحواس بن حجش بن مضاض ثم ملک عداد بن صداد بن جندل بن مضاض ثم ملک فسحص ابن عداد ابن صداد ثم ملک الحارث بن عمرو بن مضاض وكان آخر من ملک من جرھم. 97
  پھر اس کے بعد الحارث بن مضاض بادشاہ بنا، پھر عمرو بن الحارث بن مضاض بادشاہ بنا، پھر المعتسم بن الظلیم بادشاہ بنا، پھرالحواس بن حجش بن مضاض بادشاہ بنا، پھر عداد بن صداد بن جندل بن مضاض بادشاہ بنا، پھر فسحص بن عداد بن صداد بادشاہ بنا، پھر الحارث بن مضاض بن عمرو بادشاہ بنا اور یہ جرہم میں سے تخت نشین ہونے والاآخری بادشاہ تھا۔ 98

مذکورہ بالاجرہمی بادشاہ کئی نسلوں تک قبیلہ جرہم کی فرمانروائی کرتے رہے اور قبیلہِ جرہم اِن کی رہنمائی اور قیادت میں اپنا کاروان ِ حیات خوش اسلوبی سے آگے بڑھاتا رہا۔

تاریخ

قبائلِ جرہم مکّہ سے قبل بھی یمن میں آباد تھے تاہم ان کی اصل تاریخ سرزمین مکّہ سے شروع ہوتی ہے۔ جس وقت سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل اور سیدہ ہاجرہ یہاں تشریف لائے، اس وقت مکّہ ایک خشک، بے آب و گیاہ صحرا تھا۔ یہاں نہ کوئی انسان آباد تھا نہ کوئی چرند و پرند۔ تب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضرت اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لیے، زمین سے آب زمزم جاری کیا گیاجس کے کچھ ہی عرصہ بعد یمن سے جرہم قبیلہ ہجرت کرکے مکّہ آپہنچا ۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو وادی مکّہ میں سکونت اختیار کیے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس وادی سے جرہم قبیلہ کے قافلہ کا گزر ہوا جو شام جانا چاہتا تھا۔ اس نے وہاں پانی دیکھا تو حضرت ہاجرہ کی اجازت سے وہیں پڑاؤ ڈال لیا اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ 99 یوں حضرت ابراہیم کی وہ دعا پوری ہوئی جو انہوں نے مکّے کی بے آب وگیاہ وادی کو آباد کرنے کے لیے کی تھی۔ 100 قبیلہ ِ جرہم شہر ِمکّہ پر صدیوں حکمران رہے تاہم بعد میں ان کی اولادوں نے اﷲ کے احکام کی نافرمانی شروع کردی جس کی وجہ سے ان پر عذاب مسلط کردیا گیا اور بالآخر ان کےہاتھ سے مکّہ کی حکومت نکل گئی اور وہ رسوا ہو کر یمن لوٹ گئے۔

کعبہ کی بےحرمتی

جب بنی جرہم نے مکّہ مکّرمہ کی پاک زمین پر ظلم وفساد مچایا، لوٹ مار شروع کی اور خانہ ِ کعبہ کی بے حرمتی کرنا شروع کردی تو اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا بلکہ ان لوگوں کو مکّہ مکّرمہ سےذلیل کرکے نکال دیا گیا۔ یہ لوگ نافرمانی و سرکشی اور گناہوں کی دلدل میں اس حد تک غرق ہو چکے تھے کہ صحیح اور غلط کی تمیز بھول بیٹھے۔ ان لوگوں کی بے باکیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ یہ کعبۃ اللہ کی حرمت کو بھی بھلا بیٹھےاور ان میں سے دو بدبختوں مرد و عورت نے مسجد ِ حرام کے اندر فحاشی وزنا کا ارتکاب کر ڈالا۔ اسی وقت ان دونوں پر عذابِ الٰہی نازل ہوا اور ان دونوں کے اجسام کو پتھر کی صورت میں وہیں منجمد کرکے خلقِ خدا کےلیے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

  ثم بغت جرهم بمکة وأكثرت فیھا الفساد وألحدوا بالمسجد الحرام حتی ذكرأن رجلا منھم یقال له إساف بن بغی وامرأة یقال لها نائلة بنت وائل اجتمعا فى الکعبة فكان منه إلیھا الفاحشة فمسخهما اللّٰه حجرین. 101
  پھر مکّہ مکّرمہ میں جرہمی بغاوت پر اُتر آئے اور بیت اﷲ میں بہت زیادہ فساد برپا کیا اور اس کی بےحرمتی کی اور وہاں گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے ۔ حتیٰ کہ ایک آدمی جس کو اساف بن بغی کہا جاتا تھا اور ایک عورت جس کو نائلہ بنت وائل کہا جاتا تھا، یہ دونوں کعبہ میں گئے اور اﷲ کے گھر میں بدکاری کے مرتکب ہوئے پس اﷲ تعالیٰ نے ان کو پتھروں کی صورت میں مسخ کردیا۔

اسی حوالہ سے قاضی داؤد لکھتے ہیں:

  بنو جرہم ایک زبردست باوقار سلطنت کے والی تھےمگر جب انہوں نے حدود خداوندی کو توڑا۔ ۔ ۔ اور حدیہ کردی کہ کعبہ شریف کے اندر قبیلہ جرہم کے دو یمنی مرد و عورت، اساف ونائلہ نے بدکاری جیسے قبیح جرم کا ارتکاب کیا (جن کو اﷲ تعالیٰ نے پتھر بنادیا) تو پھر ان کے مقدر کا ستار ہ گردش میں آگیا۔ ان کا جاہ وجلال اور کرو فر، ذلت وخواری اور تباہی وبربادی کے اندھیروں میں ڈوبنے لگا۔ جب یہ اندھیر نگری مضاض بن عمرو بن حارث بن مضاض بن عمرو الجرہمی نے دیکھی تو اپنی قوم سے مخاطب ہوکر کہنے لگا:اے میری قوم! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور بیت اﷲ کی بے حرمتی سے باز آجاؤ، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جس قوم نے بھی اس مقدس گھر کی عزت وحرمت کو پامال کیا وہ تباہ وبرباد ہوئی، اور عمالقہ کی ذلت ورسوائی کی المناک داستان تمہارے سامنے ہے۔ ایسا نہ ہو کہ افعال بد کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ تم پر کوئی دوسری قوم مسلط کردے اور تم ذلیل وخوار ہوجاؤ۔ مگر قوم مضاض کی ناصحانہ باتوں سے بےپرواہ ہو کر کہنے لگی:ہم بے حد عزت والے عرب ہیں اورہماری افرادی قوت زبردست ہے، ہمارے پاس سامان حرب وضرب بے حساب ہے تو ہمیں کون شکست دے سکتا ہے؟ مضاض نے کہا:جب اﷲ تعالیٰ کی گرفت آجاتی ہے تو تمام تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، اور نافرمان قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں لیکن قوم بدکاری کی ایسی دلدادہ اور خوگر بن چکی تھی کہ مضاض کی نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب مضاض قوم کی اصلاح سے نامید ہوگیا تو اس نے کعبہ شریف کی قیمتی اشیاء کو چاہ زمزم میں ڈال کر راتوں رات اسے مٹی سے بھردیا۔ اس نے سونے کے دو ہرن جو کعبہ شریف میں رکھے ہوئے تھے، خزانہ کعبہ، غلاف کعبہ اور قلعی دار تلواریں دفن کردیں۔ بالآخر خزاعہ نے زبردست حملہ کرکے نہایت ذلت ورسوائی سے بنو جرہم کو مکّہ سے بے دخل کردیا اور وہ مکّہ کے فراق کا حزن وملال دل میں لیے یمن کی طرف کوچ کرگئے۔ 102

یوں قبیلہ جرہم نے مشرف ومکرم ہونے کے باوجود جب خلق خدا کو ظلم کا نشانہ بنایا، حرم شریف کی عزت وعظمت کو تاخت وتاراج کیا، آنے والے زائرین اور مسافروں کی عزت وآبرو اور مال ومتاع کو لوٹنا معمول بنالیا، بیت اﷲ شریف کی نذر ونیاز کو نوالہ تر بنانے سمیت خزانہ کعبہ پر دست درازی کی تو ان کو بھی قانون الہی نے کچھ مہلت دینے کےبعد تہس نہس کرکےبے نام ونشان کردیا۔

سبا

سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کی اولاد تاریخ میں قومِ سبا کے نام سے موسوم ہوئی۔ سباکے دوبیٹوں کہلان اورحمیر کو بہت شہرت ملی اور عرب عاربہ کے اہم قبائل ان کی طرف منسوب کیے گئے ہیں جن کی تفصیلات درج ِ ذیل ہیں:

بنوحمیر کے معروف قبائل

بنو حمیر کی مشہور شاخوں کے نام حسب ذیل ہیں:
(1)بنوقضاعہ
(2)بنوسکسک
(3)زید الجمہور اور دیگر۔

(1) بنوقضاعہ

مالک بن حمیر کی اولاد میں سے قبیلہ قضاعہ مشہور ہے تاہم اس کا حمیری ہونا مختلف فیہ ہے۔ انہوں نے یمن سے ترک وطن کرکے حدود عراق میں بادیہ سماوہ کے اندر بودوباش اختیار کی۔ رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں قضاعہ کی شاخیں کلب، عذرہ اور جہینہ مشہور تھیں۔

(2) بنوسکسک

زید بن وائلہ (وائل) بن حمیر کے بیٹے سکسک کی اولاد سکاسک کہلائی۔ سکسک یمن کا بادشاہ تھا اورسکسک سبا کا پوتا تھاجووائل کے بعد بادشاہ بنا۔ اس حوالہ سے ابن ہشام لکھتے ہیں:

  سبا وبعدہ ابنه وائل بن حمیر وبعدہ ابنه السکسک بن وائل. 103
  سبا (بادشاہ بنا)، اس کے بعد اس کابیٹا وائل بن حمیر اور اس کے بعد اس کابیٹاسکسک بن وائل (بادشاہ )بنا۔

اس کا لقب مقعقع الحمد (بہت زیادہ سفر کرنے والا) تھاچنانچہ المقریزی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

  السکسک بن وائل الذى یقال له مقعقع الحمد.104
  سکسک بن وائل وہی ہےجسے مقعقع الحمد کہاجاتاہے۔

ان کی اولاد کی کئی شاخیں پھیلیں اور بنوسکسک کے نام سے مشہور ہوئیں۔

(3)زید الجمہور

یہ بنو حمیر کی تیسری شاخ تھی جن کا نسب نامہ ابو العباس قلقشندی نے اس طرح بیان کیا ہے:

  زید الجمهور بن سھل بن عمرو بن قیس بن معاویة بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن الغوث بن قطن بن غریب بن زھیر بن الغوث بن أبین بن الھمیسع بن حمیر .105
  زید الجمہور بن سہل بن عمر و بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن الغوث بن قطن بن غریب بن زہیر بن الغوث بن ابین بن الہمیسع بن حمیر۔

زید الجمہور سے پھر کئی شاخیں نکلیں جو عرب کے مختلف علاقوں میں پھیل گئیں۔ ان میں الاوزاع، الحارث بن کعب، حضور بن مالک، زید بن سہل وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ 106

بنو کہلان کے معروف قبائل

بنو کہلان کی مشہور شاخوں کے نام حسب ذیل ہیں:
(1)طی
(2)خم
(3)جذام
(4)خزاعہ
(5)کندہ
(6)ازد
(7) اوس و خزرج
(8)جفنہ
(9)ہمدان
(10)انمار و دیگر
بنو کہلان کے مشہور قبائل میں سے چند کی تفصیلات درجِ ذیل ہیں:

(1) طَی

عرب قبائل کے مشہور قبیلوں میں سے ایک بڑا قبیلہ بنو طے کا بھی تھا جن کا تعلق بنی قحطان کی کہلانی شاخ سے تھا اور یہ یمن میں آباد تھے۔ 107 مشہور سخی عرب سردار حاتم طائی کا تعلق اسی قبیلے سے تھا جس کے فرزند حضرت عدی بن حاتم کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتاہے۔

طائی جس کی نسبت کی وجہ سے یہ قبیلہ طائی مشہور ہوا اس کا اصل نام جلہمہ تھا۔ ابن اثیر اس کا شجرہ نسب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  الطائی ھذہ النسبة إلى طى واسمه جلھمة بن ادد بن زید بن یشجب بن عریب بن زید بن كهلان بن سبا.108
  الطائی نسبت ہے طئ کی طرف اوراس کا نام جلہمہ بن ادد بن زید بن یشجب بن عریب بن زید بن کہلان بن سبا ہے۔

اس قبیلے نے بنوازد کے ترک وطن کے بعد(یمن سے) شمال کا رخ کیا اور نجد کے دو مشہور پہاڑ اجا اور اسلمیٰ کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت اختیار کی چنانچہ اس حوالہ سے عمر بن رضا دمشقی لکھتے ہیں:

  ونزلوا سميراء وفيد في جوار بني أسد ثم غلبوهم على أجأ وسلمى، وهما جبلان من بلادهم فاستقروا بھما.109
  اوروہ بنو اسد کے پڑوس میں سمیراءوفیدکےمقام پرقیام پذیر ہوئےپھر اجا اورسلمیٰ کےمقام پران پر غالب آگئے، یہ دونوں پہاڑ ہیں جن پر یہ لوگ مستقل سکونت پذیر ہوگئے۔

بنو طے کے اجا اور سلمٰی نامی پہاڑوں پر مستقل سکونت اختیارکرنے کی وجہ سے بعد میں یہ دونوں پہاڑ قبیلہ طے کی نسبت سے مشہور ہوگئے۔ ان کی مشہور شاخیں درجِ ذیل ہیں:
(1) بنو جديلہ۔ (2)جندب ۔ (3)بنو رومان۔ (4)بنو جدعاء بن رومان۔ (5)الثعالب۔ (6)بنو قسيم (مصابيح الظلام)۔ (7) بنو علوہ۔ (8) بنو زنمہ بن عمرو۔ (9) بنو لام بن عمرو بن ظريف۔ (10)بنو اشنع بن عمرو۔ (11) بنو مصاد۔ (12)بنو حجيّہ۔ (13) بنو قرواش۔ (14)ثعلب۔ (15) سلامان۔ (16)جزول۔ (17)بنو بختر بنو عنين۔ (18)بنوعتود۔ (19) بنو فرير۔ (20)بنو سلسلہ۔ (21) بنو دغش۔ (22)بنو ہذمہ بن عنّاب۔ (23)بنو شمّر۔ (25)بنو سنبس۔ (26) بنو شمجی۔ (27)بنو نبہان بن عمرو۔ (28)بنو نابل۔ (29)بنو المشر۔ (30)بنو الصامت۔ (31)بنو بولان اور(32) بنو صيفی وغیرہ۔ 110

(2) لخم و جذام

لخم و جذام کا شمار مشہور کہلانی قبائل میں ہوتا ہے۔ ان ہی کی اولاد میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہانِ آلِ مُنذِر کا جد ِ اعلیٰ ہے۔ 111 یہ لخم بن عدی اور جذام بن عدی کی اولاد تھے۔ لخم کا ایک بیٹا حدس تھا جس کی اولاد میں کئی قبائل ہوئے۔ اسی طرح غنم بن لخم کی اولاد میں بھی کئی شاخیں ہو ئی ہیں۔ بنو لخم میں ہی بنو دار بن ہانی بھی تھے جن میں سے تمیم الداری مشہور صحابی گزرے ہیں۔ جزام کی اولاد میں حرام بن جزام اور حشم بن جزام ہوئے ہیں۔ حرام کے بیٹے غطفان اور مالک تھے ۔ غطفان سے نضلہ، بنوالاحنف، بنو الضّبيب، بنو ہدالہ، بنو نفاثہ، بنو ضليع، بنو عائذہ، بنو شبرہ، بنو عبد الله، بنو الخضراء، بنو سليم، بنو بجالہ، بنو غنم اور بنو فاكہ مشہور شاخیں گزری ہیں۔ مالک بن حرام بن جزام کے دو بیٹے سعد بن مالک اور وائل بن مالک ہوئے ۔ بنو سعد بن مالک کی کئی شاخیں ہوئیں جن میں بنو عوف، بنو عائذہ، بنو فہيرہ، بنو صبحہ، بنو الأخنس، بنو حیّ وغيرہ شامل ہیں۔ اسی طرح بنو وائل بن مالک سے بھی کئی شاخیں ہوئیں ۔ حشم بن جذام سے پانچ شاخیں ہوئیں جن میں حطمہ بھی شامل ہیں۔ 112

(3)کندہ

قبائل ِکندہ کا شمار عرب کے مشہور کہلانی قحطانی قبائل میں ہوتا ہے۔ قبائل ِکندہ اپنی نسب کندہ کی طرف کرتے ہیں جس کا نام ثور بن عفیر بن عدی بن حارث بن مرہ بن ادد بن زید بن یشجب بن عریب بن زید بن کہلان تھا۔ ان میں یمن اور نجد کے حکمران گزرے ہیں۔ یہ جلسد نامی بت کی پوجا کرتے تھے113 یہ پہلے بحرین میں موجودہ الاحساء کے علاقے میں آباد تھے ۔ وہاں سے یہ حضر موت چلے گئے جہاں سے وہ نجد منتقل ہوئے۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشان حکومت کی بنیاد ڈالی مگر یہ حکومت پائیدار ثابت نہ ہوئی اور جلد ہی اس کے آثار ناپید ہو گئے۔ 114

(4) ازد

قبائل ِ ازد کاشمار عرب کے بڑے اور مشہور کہلانی قحطانی قبائل میں ہوتا ہے جو اپنا نسب الازد بن الغوث بن نبت بن مالك بن كہلان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کو ازد شنوءہ، ازد غسان، ازد السراۃ اور ازد عمان میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قبائل کے مشہور مساکن مأرب، بارق، الحال، بيش، أبيدہ، مرأۃ، القفس، ريسوت، تثنيث، توام، العداف، بحری منفلوط اور الحرف تھے۔ 115

نصر (شنوء ہ ) بن ازد

اس شاخ سے تعلق رکھنے والے قبائل نے تہامہ میں سکونت اختیار کی اوریہ لوگ اَزد شنوء ہ کہلائے۔ شنوء ہ کے حوالہ سے عمر بن رضا لکھتے ہیں:

  ازد شنوة نسبتھم الى كعب بن الحارث بن كعب بن عبداللّٰه بن مالک بن نصر بن الازدكانت منازلھم السراة.116
  ازد شنوءہ کی نسبت کعب بن الحارث بن کعب بن عبد اللہ بن مالک بن نصر بن الازدسےہے، ان کے مسکن سراۃ تھے۔

نیز نصر شنوء ہ کی اولاد میں بنو دوس نے شہرت پائی نیز حضرت طفیل بن عمرو دوسی اسی قبیلے سے تھے۔ 117 شنوء ہ ازد قبائل کا اصل علاقہ تہامہ میں پہاڑی سلسلہ سراۃ کے آس پاس تھا ۔ اس حوالہ سے صفی الدین بغدادی لکھتے ہیں:

  تثنیث موضع بالسراة من مساكن ازد شنوة. 118
  تثنیث، سراۃ میں ازدشنوءۃ کےمساکن کےقریب ایک جگہ ہے۔

تاہم یہ لوگ سراۃ پہاڑوں کے علاوہ طائف اور صنعاء تک پھیلے ہوئے تھے اور غسان و عمان میں بھی ان کے بعض قبائل آباد تھے چنانچہ اس حوالہ سے عاتق بلادی لکھتے ہیں:

  ازد شنوة بالسراة بین الطائف وصنعاء وازد عمان بعمان وغیرھم من تشتت فى الیمن وحضر موت وبقاع آخر. 119
  ازد شنوءہ سراۃ میں طائف وصنعاء کےمابین ہیں اور ازد عمان، عمان میں جبکہ ان کےعلاوہ جو بکھرے وہ یمن، حضر موت اوردیگر اماکن میں ہیں۔

ازد شنوءہ کے مختلف خاندانوں کےمساکن طائف، صنعاء، عمان، یمن اور حضر موت میں تھے جہاں وہ اپنی زندگی کے شب وروز گزارتے تھے۔

بنو مازن بن ازد

بنومازن بن ازد نے اپنے سردار عمران بن عمرو مزیقیا بن عامر ماء السماء کے مشورے پرترکِ وطن کیا۔ یہ پہلے تو یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ بعد میں انہوں نے شمال کا رخ کیا اور مختلف شاخیں مختلف جگہ سکونت پذیر ہوئیں۔ ان قبائل میں ثعلبہ بن عمرو مزیقیاء، اوس وخزرج، جفنہ آل غسان اور اہل کندہ آتے ہیں ۔ 120 بنو جفنہ بن عمر، مزيقياء بن عامر اور شام کے غسانی بادشاہ ان ہی کی نسل سے تھے۔ 121

ا وس وخزرج

اوس وخزرج بعض مؤرخین کے مطابق بنو کہلان کی شاخ ہیں 122 جو سبا بن یعرب بن قحطان کی نسل سے ہیں اوراسی وجہ سے ان کاشمار عرب عاربہ میں کیاجاتا ہے جوانتہائی اہمیت کےحامل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مدینہ کےقدیم باشندے تھے۔ اوس وخزرج کی تاریخ بہت پرانی ہے کیونکہ ان کا نسبی تعلق کہلان بن سباسے ہے۔ 123

تمام انصار اوس اور خزرج کی اولاد ہیں اور اوس اور خزرج حارثہ بن ثعلبہ کی اولاد ہیں 124 یوں ان کا شمار قوم ِ سبا کی شاخوں میں ہوتا ہے۔ لغوی معنیٰ کی بحث کرتے ہوئےعلماء نے اوس کا معنی "عطیہ" بیان کیا ہےاور خزرج کا معنی "ٹھنڈی ہوا" بیان کیا ہے ۔ امام سہیلی لکھتے ہیں:

  الأوس الذئب والعطیةأیضاً والخزرج الریح الباردة ولا أحسب الأوس فى اللغة إلا العطیة خاصة. 125
  لفظ اوس بمعنیٰ بھیڑیا اور عطیہ استعمال ہوتاہے جبکہ خزرج کا معنی ٹھنڈی ہوا ہے لیکن میرا گمان ہے کہ لغۃً اوس عطیہ کے ساتھ ہی خاص ہے۔ 126

جبکہ امام حلبی نے"اوس" کا معنی بیان کرتے ہوئے یوں بھی لکھا ہے:

  ويقال لرجل اللهو واللعب. 127
  اور کھیل کھود کے شوقین آدمی کو بھی اوس کہا جاتا ہے۔

یعنی اوس کے معنی میں عموم ہے اور اس کی تخصیص کا قول بے دلیل ہے۔

شجرہ نسب

اکثرمورخین کے نزدیک اوس وخزرج کا شجرہ نسب یمن کے مشہور خاندان کہلان تک پہنچتا ہے ۔ ابن ہشام لکھتے ہیں:

  والأنصار بنو الأوس والخزرج ابنی حارثة بن ثعلبة...128
  تمام انصار اوس اور خزرج کی اولاد ہیں اور اوس اور خزرج حارثہ بن ثعلبہ کی اولاد ہیں۔ 129

ابن خلدون نے اسی قول کو صحیح قرار دیاہے۔ 130 اوس و خزرج اور حارث بن ثعلبہ کا کہلان تک نسب بیان کرتے ہوئے مشہور مورخ امام ابن قتیبہ لکھتے ہیں:

  وھما أوس والخزرج أبنا حارثة بن ثعلبة بن عمرو بن عامر بن حارثة بن إمرى القیس بن ثعلبة بن مازن بن عبداللّٰه بن الأزد بن الغوث بن النبت بن مالک بن زید ابن كهلان بن سبأ: وھما أبنا قیلةنسبا إلى أمھما. 131
  اوس اور خزرج حارثہ بن ثعلبہ بن عمرو بن عامر بن حارثہ بن امری القیس بن ثعلبہ بن مازن بن عبداﷲ بن ازد بن غوث بن النبت بن مالک بن زید ابن کہلان بن سبا کے بیٹے ہیں۔ ان کی ماں کا نام قیلہ تھا اور یہ دونوں اس کی جانب منسوب کیےجاتے ہیں۔ 132

تاہم بعض علماء کے نزدیک پہلے اوس وخزرج کا شجرہ نسب سیدنا اسماعیل تک پہنچتا ہےاور انہوں نے اپنے اس موقف کی بنیاد اس روایت پر رکھی ہے کہ تمام عرب سیدنا اسماعیل کی نسل سے ہیں ۔ 133

قبیلہ ِخزرج کی مشہور شاخیں درج ِ ذیل ہیں:
(1)جشم بن الخزرج
(2)بنو تزید
(3)بنو سلمہ
(4)بنو بیاضہ
(5)بنو سالم
(6)بنوحبلی
(7)بنوالقوافل
(8)بنوالنجار
(9)نوساعدہ

قبیلہ ِاوس کی مشہور شاخیں درج ِ ذیل ہیں:
(1)بنوالاشہل
(2)بنو ظفر
(3)بنوالحارثہ
(4)اہل قباء
(5)جحجبی
(6)لجعادرہ
(7)بنوواقف
(8)السلم بن مالک
(9)بنو خطمہ 134

تاریخ

مدینہ شریف کا قدیم نام یثرب تھا اور تاریخی اعتبار سے مدینہ شریف میں آباد قبائل کے حوالے سے تاریخ میں تین بڑے نام مذکورہوئے ہیں۔ سب سے پہلے یثرب میں عرب سامیہ اولیٰ آباد تھے پھر دوسرا بڑا نام یہود کا آتا ہے جو وہاں سکونت پذیر تھے اور تیسرا اوس وخزرج کا آتا ہے ۔ جب سیل ِعرم کے پیشِ نظر یمن سے عربوں کے کئی قبیلوں نے ہجرت کی تو ان ہی مسافروں میں "ازد"قبیلہ سے ایک سردار عمرو بن عامر مزیقیاء نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی جو پہلے مکّہ آئے اور پھر اپنی اولاد حارثہ، اس کے بیٹوں اوس و خزرج اور دیگر لوگوں کے ہمراہ یثرب چلے آئےجہاں یہود پہلے ہی سے آباد تھے۔ روایات سے پتا چلتا ہے کہ پہلے پہل تو یہود نے ان لوگوں کو یثرب میں داخل نہ ہونے دیا اور یہ لوگ شہر کے مضافاتی علاقوں میں اقامت گزین ہوئے ۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ نے ان کی تعداد میں افزائش بخشی تو ان میں اتنا اضافہ ہوا کہ انہوں نے اپنی قوت ِ بازو سے یہود کو شہر سے نکال دیا اور خود یثرب پر قابض ہوگئے۔ شروع میں یہ لوگ یہود کے ساتھ قریظہ، نضیر، خیبر، تیما اور وادی القریٰ کے درمیان ٹھہرے اور پھراکثر مدینہ میں مقیم ہوئے۔135

مذکورہ بالا تاریخی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں یہود قبائلِ اوس و خزرج پر بھاری تھے اس لیےجب اوس وخزرج یثرب پہنچے تو شہر کے باہر ہی ڈیرے ڈالے لیکن جب بعد میں اوس وخزرج کی آبادی زیادہ ہوگئی تب وہ یہود پرغالب ہوگئے ۔ اس حوالہ سے محمود شکری آلوسی لکھتے ہیں:

  افترقت الأزد من مأرب فى حادثة سیل العرم فنزل الأوس والخزرج یثرب على الإسرائیلین ولھم ملک یقال له القطیعون فقتلوہ وكان قاتله سید الحیین أعنی الأوس والخزرج واسمه مالک بن العجلان وھو ابن عم سالم بن عوف الخزرجى فلما قتل الملک وقعت الصیحة بالیھود فقتلوھم أبرح القتل وابقوا منھم بعض القوم لعمارة الأراضى وملک الأوس والخزرج یثرب حتی بعث النبی فھداھم اللّٰه تعالى لطاعته ولم یسلم قبلھم بطن من العرب فصارت تلک فضیلة لھم من أحسن الفضائل والمآثر. 136
  قبیلہ ازد سیل عرم کے حادثے کی وجہ سے مارب سے نکل کر بکھر گئے چنانچہ اوس وخزرج نےیثرب میں آکر اسرائیلیوں کے پاس ڈیرہ ڈال دیا۔ اسرائیلیوں کے بادشاہ کا نام قطیعون تھاجسے اوس وخزرج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قطیعون کا قاتل اوس وخزرج کے دونوں قبیلوں کا سردار مالک بن العجلان تھا۔ یہ مالک بن العجلان سالم بن عوف خزرجی کا چچازاد بھائی تھا۔ بادشاہ کے قتل ہوجانے کے بعد یہودیوں میں واویلا مچ گیا اور پھر اوس وخزرج نے انہیں نہایت ہی بری طرح قتل کیا تاہم وہاں کی زمینوں کی آباد کاری کے لیے کچھ لوگوں کو زندہ رہنے دیا۔ اس طرح اوس وخزرج یثرب کے مالک بن گئےحتیٰ کہ نبی ِ اکرمﷺ مبعوث ہوئے اور اﷲ تعالیٰ نے ان (اہل یثرب) کو اپنی اطاعت کی راہ دکھادی۔ ان سے پہلے کوئی بھی پورا کا پورا قبیلہ ایمان نہ لایا تھا لہٰذا یہ بات ان کے لیے بہترین فضیلت اور خوبی شمار ہونے لگی (کہ ان کا تمام قبیلہ مشر ف با اسلام ہو گیا تھا)۔ 137

جب اوس وخزرج یثرب میں وارد ہوئے تھے اس وقت یثرب میں یہود کے کئی بڑے قبیلے سکونت پذیر تھے جن میں دس بڑے قبیلوں کے نام حسب ذیل ہیں:
(1)بنو قریظہ
(2)بنو نضیر
(3)بنو محمحم
(4)بنوزعورا
(5)بنوقینقاع
(6)بنو ثعلبہ
(7)بنوعکوہ
(8)بنوناغصہ
(9)بنو زہرہ
(10)بنو زبالہ 138

ان کے علاوہ بھی دیگر کئی قبائل سکونت پذیر تھے جن میں سے بعض قبائل کے ساتھ اوس و خزرج کی لڑائی بھی ہوئی تھی تاہم لڑائیوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔

باہمی جنگ

جب یہود کو ان لوگوں نے شکست دی تو پھر یہ آپس میں سرداری کے لیے لڑنے لگے۔ ان کی لڑائیاں "یوم بعاث" کے نام سے مشہور ہیں جس میں پہلے قبیلہ خزرج کو فتح ہوئی جبکہ بعدمیں قبیلہ اوس کو فتح ہوئی۔ 139 اسی حوالہ سے مزید تفصیل بیان کرتے ہوئےعبد المعبود لکھتے ہیں:

  ان ہر دو خاندانوں نے متعدد قلعے تعمیر کرلیے اور عرصہ تک اتفاق واتحاد اور یگانت کے ساتھ خوشحالی اور فارغ البالی سے پرلطف زندگی گزارتے رہے لیکن بعد میں وہ بھی انتشار وافتراق اور خانہ جنگی کا شکار ہوگئے۔ اپنی تمام تر توانائیاں اور اپنےنامور سردار باہمی جنگ وجدال میں تباہ کرواڈالے ۔ ان کی سب سے آخری اور انتہائی تباہ کن جنگ "بعاث" کے نام سے مشہور ہوئی جس میں دونوں خاندان تباہ وبرباد ہوئے۔ بالآخر جنگ سے چور چور بچے کچے لوگ آپس میں صلح کرنے پر مجبور ہوگئے اور طے پایا کہ کسی ایک سردار کو دونوں خاندان متفقہ طور پر بادشاہ تسلیم کرکے امن وآشتی اور راحت والفت کی زندگی بسر کریں چنانچہ عوف بن خزرج کے رئیس عبداﷲ بن ابی بن سلول پر دونوں قبائل متفق ہوگئے۔ 140

ٹھیک اسی وقت مکّہ سے طلوع ہونے والے آفتاب ِ رسالت کی شعائیں یثرب تک پہنچ آئیں اوریوں عبداﷲ بن ابی (منافق )کی سرداری کی تاج پوشی نہ ہوسکی البتہ تمام اہل یثرب اور قبائل ِاوس وخزرج نے متفقہ طور پر حضور نبی کریم ﷺ کو اپنا سردار تسلیم کرلیا ۔ یوں اوس وخزرج کی صدیوں سے جاری نااتفاقی ختم ہوگئی ۔

مذہب

اسلام سے قبل اوس وخزرج مشرک و بت پرست تھے اور کئی دیوتاؤں اور بتوں کو پوجتے تھے۔ ان میں سب سے مشہور اور ان کے یہاں سب سے بڑا سمجھا جانے والا بت "منات" تھا جو تمام عرب میں بہت شہرت رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ اسے اہل مکّہ کے یہاں بھی تیسرے درجے پر سب سے اہم بت سمجھا جاتا تھا۔ منات نامی اس بت کی تمام عرب پوجا کیا کرتے تھے۔ ان میں ہذیل، خزاعہ، قریش اور اوس وخزرج وغیرہ تمام اہل عرب شامل تھے۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر جواد علی تحریر کرتے ہیں:

  ولکن القبائل العربیة الأخرى كانت تعظمه كذلك، وفي جملتھا قریش وهذیل وخزاعة. وأزد شنوءة، وغیرهم من الأزد وقیل ثقیف أیضًا، وذكرت روایة أخري أن العرب جمیعًا كانت تعظمه وتذبح حوله أما سدنته، فالغطاریف من الأزد وكانت خزاعة والأوس والخزرج یعظمون مناة، ویھلون منھا للحج إلى الکعبة. 141
  مگر عرب کے دیگر قبائل اس کی تعظیم کرتےتھے، ان میں قریش، ہذیل اورخزاعہ شامل تھے۔ یہ ازد شنوءہ ودیگر جوکہ ازد سے ہیں اورثقیف کے بارے میں بھی کہاگیاہے۔ ایک اورروایت کے مطابق تمام عرب اس کی تعظیم کرتےتھے اوراس کے گرد قربانیاں چڑھاتے تھےجبکہ ازد کےسردار بھی اپنے آپ کو اس کے خدام شمار کرتے تھے۔ خزاعہ، اوس وخزرج منات کی تعظیم بجا لاتےاور آس پاس سے ہو کر خانہِ کعبہ کے حج کےلیے جاتے تھے۔

انصار زمانہ جاہلیت میں مناتِ طاغیہ کی سب سے زیادہ پرستش کیا کرتے تھے چنانچہ اس حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں:

  وكانت العرب جمیعا تعظمه وتذبح حوله وكان أشد الناس إعظاما له الأوس والخزرج.142
  تمام اہلِ عرب اس کی تعظیم کرتے تھےاور اس کے گرد جانور ذبح کیا کرتے تھے تاہم اوس وخزرج تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کی تعظیم کیا کرتے تھے ۔ 143

قبائلِ اوس و خزرج منات کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ جب حج مکمل کرکے واپس یثرب روانہ ہوتے تو منات کے بت کے پاس احرام اتارا کرتے جبکہ بنو ازد اور بنو غسان تو باقائدہ اسی بت کا حج بھی کرتے تھے۔ اوس و خزرج، حج کے اعمال انجام دینے کے بعدمنیٰ میں جاکر سرمنڈوانے کے بجائے اپنے شہر یثرب کی سمت منات کے پاس سرمنڈاتے تھے۔ اہل یثرب کے نزدیک حج کی تکمیل تب تک نہ ہوتی تھی جب تک منات کی عبادت نہ بجا لائی جائے۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:

  أن هذا الصنم كان معظمًا، خاصة عند الأوس والخزرج، أي أهل یثرب ومن كان یأخذ مأخذ هم من عرب المدینة والأزد وغسان "فکانوا یحجون ویقفون مع الناس المواقف كلها، ولا یحلقون رؤو سھم، فإذا نفروا أتوا مناة وحلقوا رؤوسھم عندہ وأقاموا عندہ لا یرون لحجهم تمامًا إلا بذلک. 144
  بالخصوص اوس وخزرج کے یہاں یعنی اہل یثرب(مدینہ) کے عرب، ازد اورغسان میں سےجوان کے ہم مذہب تھے (ان کے نزدیک)یہ بت بہت قابلِ تعظیم سمجھا جاتاتھا چنانچہ وہ حج کرتے اورحج کے تمام اعمال کرتے اور سرنہیں منڈواتے تھے۔ جب وہاں سے روانہ ہوتے تو منات کے پاس آکر سر منڈواتے اوراسی کے پاس قیام کرتے تھے۔ ان کے نزدیک اس کےبغیر حج مکمل نہیں ہوتاتھا۔

منات نامی عرب کے اس قدیم ترین بت کا اصل مقام مکّہ اور یثرب کے درمیان میں تھا۔ اس حوالہ سے امام بدر الدین عینی لکھتے ہیں:

  أي مناة اسم صنم كائن بین مکة والمدینة...وفى (تفسیر ابن عباس) كانت مناة على ساحل البحر تعبد.145
  منات، مکّہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت تھا اور تفسیر ابن عباس میں مذکور ہے کہ منات ساحل سمندر پر ایک بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی۔

روایات سے یہ واضح ہوتا ہےمنات نامی یہ بُت مکّہ اور مدینہ کے درمیان مشلل نامی علاقہ میں قدیدکے مقام پر سمندر کے قریب نصب تھا۔ ابن ملقن شافعی نے الحازمی کا قول نقل کیا ہے جس کے مطابق یہ مقام مدینہ (یثرب) سےسات( 7) میل کے فاصلے پر تھا۔ 146 یہ بات واضح ہے کہ یہ بت اہل ِعرب کا ایک انتہائی اہم بت تھا جس کی وہ انتہائی تعظیم وتکریم کرتے تھے۔ خاص طور پرقبائلِ اوس وخزرج اس کی پرستش میں خاصے مشہور تھے یہاں تک کہ ان کا حج بھی اس بت کے سامنے حاضری دیے بغیر مکمل نہیں ہوتاتھا۔

ظہورِ اسلام کے وقت مدینہ منوّرہ (یثرب) میں یہی قبائلِ اوس و خزرج سکونت پذیر تھے۔ جب ان تک اسلام کی دعوت پہنچی تو یہ دونوں قبیلے اسلام لے آئے۔ ان کی خدمات کی بنا پر انہیں بارگاہِ ایزدی سےانصار کا خطاب ملنے147 کے بعد اوس و خزرج کے بجائے انصار کہا جانے لگاچنانچہ ابن قتیبہ اوس وخزرج کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ یہی (اوس وخزرج) انصار (یعنی اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے مدد گار)کہلاتے ہیں۔ 148

مسلمان ہونے کے بعدیہ دونوں قبائل اسلام کے عظیم خدمت گار بن گئے۔ ان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئےمحمود شکری لکھتے ہیں:

  نصروا رسول اللّٰه فى جمیع المواطن ولم یکن لھم عسکر حتی صار بینھم فسماھم الأنصار فصار ذلک الزم لھم من النسب والاسم فھذہ فضائل خصھم اللّٰه تعالى بھا ثم إنه كان منھم ماكان من غزو المشركين وجهاد الکافرین ما ھو مشهور وأقام بینھم حتی توفى رسول اللّٰه بالمدینة وھى دار الأوس والخزرج وھم أ كثر الناس بھا عدداً وأعلاھم فیھا یدا.149
  انہوں (انصار) نے آنحضرت ﷺ کی تمام مواقع پر مدد کی اور آپ ﷺ کے یہاں آنے سے پہلے ان کے پاس کوئی لشکر نہ تھا۔ آپ ﷺ نے ان کا نام انصار رکھا چنانچہ یہ نام ان کے ساتھ ان کے نسب اور ان کے اپنے نام پرغالب آ گیا۔ یہ وہ فضائل ہیں جن کے ساتھ اﷲ نے انہیں مخصوص کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وہ کارنامے انجام دیے جو عیاں ہیں ۔ مثلاً مشرکین کے خلاف جنگ کی اور کافروں کے خلاف جہاد کیا۔ آنحضرت ﷺ تا دم آخر انہیں کے یہاں رہے۔ مدینہ اوس اور خزرج کا گھر تھا ان کی تعداد یہاں زیادہ تھی اور ان ہی کی بالادستی تھی۔ 150

یوں یہ واضح ہوا کہ اسلام سے پہلے اوس وخزرج کا مذہب بت پرستی تھا لیکن جب مدینہ شریف میں اسلام آیا تو سب سے پہلے اوس وخزرج نے بڑھ چڑھ کر اسلام قبول کیا اور اپنا سب کچھ اسلام کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی تمام مواقع پر مدد کی اور اوس وخزرج اور مہاجرین سے ترتیب دیاگیا لشکر، اسلام کا سب سے پہلا لشکر تھا۔ مہاجرین مکّہ کے ساتھ جوشاندارسلوک اوس وخزرج نے کیا یہ انسانی تاریخ کا ایسا انوکھا واقعہ ہے جس کی نظیر شاید ہی دنیا میں کہیں اور مل سکے۔ اس کی وجہ حضور ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی سیرت و اخلاق کی عظمت و رفعت کے وہ پہلو ہیں جنہوں نے انصار و مہاجرین کی آپس میں محبت و الفت کو خونی رشتوں سے بھی زیادہ محترم و معزز بنادیا تھا۔ اوراوس و خزرج کے اس بے مثال ایثار و قربانی اور حسن ِ سلوک کی وجہ سے ان کو خود رب تعالیٰ نے انصار کا لقب عطا فرمایا۔

عربِ عاربہ کے قبائل کی درجِ بالا تفصیلات ابن قتیبہ دینوری نے اپنی کتاب "معارف" 151 میں اور ڈاکٹر جوادعلی نے"المفصل " 152 میں انتہائی تفصیل سے بیان کی ہیں جس سے عرب عاربہ کے قبائل کا ایک خاکہ واضح ہوجاتا ہے نیز ان تفصیلات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے عربِ عاربہ کے قبائل، عربِ بائدہ سے باہمی قرب وتعلق بھی رکھتے ہیں جس وجہ سےبعض مؤرخین نے انہیں ایک ہی شمار کیا ہے۔

عرب ِ عاربہ کے اہم بادشاہ

قحطان اوراس کی اولاد کی مختلف ادوار میں، مختلف مقامات پربادشاہتیں اور حکومتیں قائم رہیں جن میں سب سے مشہور اور اولین یمن کی حکومت تھی۔ بعد کے ادورا میں یمن کے علاوہ مزید کئی مقامات پر آلِ قحطان کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے علاوہ حیرہ اور غسان کی بادشاہتیں بھی عرب ِ عاربہ سے تعلق رکھتی ہیں۔

یمن اور حیرہ کے حکمران

مؤرخینِ عرب ودیگرماہرین ِ تاریخ و نسب اس پرمتفق نظر آتے ہیں کہ قحطان عرب عاربہ سے تعلق رکھنے والا وہ پہلاشخص تھاجو نہ صرف یمن میں آبادہوا بلکہ ان کاپہلابادشاہ بھی تھا۔ قحطان کے بعد یہ بادشاہت اس کی نسل میں چلتی رہی یکے بعددیگرے قحطان کی نسل میں کئی بادشاہ گزرے۔ ابن کثیر اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  إن بعد تبلبل الألسن، وتفرق بني نوح عليه السلام، أول من نزل اليمن قحطان بن عابر ابن شالح المقدم الذكر، وقحطان المذكور أول من ملك أرض اليمن ولبس التاج ثم مات قحطان وملك بعده ابنه يعرب بن قحطان، وهو أول من نطق بالعربية على ما ذكر ثم ملك بعده ابنه يشحب بن يعرب ثم ملك بعده ابنه عبد شمس بن يشحب، ولما ملك أكثر الغزو في أقطار البلاد، فسمي سبا، وهو الذي بنى السد بأرض مأرب، وفجر إليه سبعين نھراً، وساق إليه السيول من أمد بعيد، وهو الذي بنى مدينة مأرب، وعرفت بمدينة سبا، وقيل أن مأرب لقب للملك الذي يلي اليمن، وقيل أن مأرب هو قصر الملك، والمدينة سبا وخلف سبأ المذكور عدة أولاد منھم: حمير وعمرو، وكهلان، وأشعر...ولما مات سبأ ملك اليمن بعده ابنه حمير بن سبا، ولما ملك أخرج ثمود من اليمن إلى الحجاز ثم ملك بعده ابنه واثل بن حمير ثم ملك بعده ابنه السكسك بن واثل ثم ملك بعده يعفر بن السكسك ثم وثب على ملك اليمن ذورياش وهو عامر بن باران بن عوف بن حمير ثم نھض من بني واثل النعمان بن يعفر بن السكسك بن واثل بن حمير، واجتمع عليه الناس، وطرد عامر بن باران عن الملك، واستقل النعمان المذكور بملك يمن، ولقب نعمان المذكور بالمعافر.153
  زبانوں کےبدل جانےاوراولادنوح کےپھیل جانےکےبعدسرزمینِ یمن میں سب سےپہلےقحطان بن عابر بن شالح آٹھہرےجن کاذکرابھی گزرا ہے۔ قحطان مذکورنے سرزمینِ یمن کووطن بنایااورتاج ِ بادشاہت پہنا۔ پھرقحطان کے مرنےکےبعداس کابیٹا یعرب بن قحطان بادشاہ ہوا اوریہی وہ پہلاشخص ہےجس نے عربی میں کلام کیاجیساکہ تاریخ میں مذکورہے۔ پھر اس کےبعد اس کابیٹایشحب بن یعرب بادشاہ ہواپھر اس کابیٹاعبدشمس بن یشحب ہوا۔ جب وہ بادشاہ بنا تو ممالک میں خوب جنگیں کیں جس کی بناپر"سبا" کہلایا، یہ وہ ہےجس نے سرزمین مارب کابندبنایا، اس میں سترنہریں نکالیں اورسیلاب کوکافی دوری سےاس کی جانب رواں کیا، اسی نے شہرِ مارب بنایاجوشہرسباسےمشہورہوا۔ کہاجاتاہےکہ مارب اس ملک کانام ہےجویمن سےملاہواہے اوریہ بھی کہاگیاہےکہ مارب بادشاہ کامحل ہےاورشہرسباہے۔ مذکورسبانےاپنے پیچھےچنداولادیں چھوڑیں جن میں حمیر، عمرو، کہلان اوراشعروغیرہ ہیں۔ جب سبا فوت ہوگیاتو اس کےبعد اس کابیٹاحمیربن سبایمن کابادشاہ ہوااوراس نے قومِ ثمود(عاربہ)کویمن سےنکال کرحجاز کی جانب ہانک دیا۔ پھر اس کےبعداس کابیٹاواثل بن حمیربادشاہ بنا، اس کےبعد اس کابیٹاسکسک بن واثل بنا، اس کےبعد اس کابیٹایعفربن سکسک تخت نشین ہوا۔ پھر ذوریاش عامربن باران بن عوف بن حمیرنے تخت یمن پراقتدار قائم کیاپھربنی واثل میں سےنعمان بن یعفربن سکسک بن واثل بن حمیر کھڑاہوا کیونکہ لوگ اس کےحق میں متفق ہوئےاورعامربن باران کوبادشاہت سےنکال دیاگیا، اس طرح نعمان مذکورمستقل طورپریمن کابادشاہ ہوااوراس کالقب معافرہوا۔

معافر کی موت کے بعد اس کابیٹاتخت نشین ہواجس کانام نشوۃ الطرب میں"اسمح بن المعافر" مذکورہے۔ صاحب نشوۃ تحریر کرتے ہیں:

  ولى بعد أبيه فلم تكن له نجدة، وكان يقال له: لواء الرمل لأنه لم يقم منه مقام ما، فتفرقت كلمة بني قحطان على ملوك لم ينته إلى عددهم.154
  اپنےوالدکےبعد یہ جانشین ہوا، اس میں شجاعت وبہادری جیسی کوئی بات نہ تھی اوراسے"صحرا کی ریت کا جھنڈا" کہاجاتاتھاکیونکہ اس سےکوئی مقام نہ بن پایااوربنی قحطان کااتحادباقی نہ رہاجس وجہ سےیہ کئی بادشاہوں میں تقسیم ہوگیا۔

اسمح بن المعافر کی ناکام بادشاہت کےبعدشدادبن عادبادشاہ ہوا اور اس نے باغیوں کا سر کچلنے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی علاقوں کو فتح کیا اور انہیں اپنی سلطنت میں شامل کیاجس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب تیجان اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  ثم استجمع أمر حمير وبني قحطان على شداد بن عاد ملطاط بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن حمير بن سبأ بن يشجب بن يعرب ابن قحطان قال وهب: لما ولي (شداد بن عاد) الملك جمع الجنود وكان امرءاً حازماً فسار يدوس الأرض وبلغ أرمينية الكبرى فقتل فيھا كل ثائر بھا ثم عبر الفرات إلى المشرق فبلغ أقصاها لا أحد يقف له إلا هلك، ثم مضى على ساحل سمرقند إلى أرض التبت، ثم عطف على أرمينية فأمعن، ثم جاز إلى الشام وبلغ إلى المغرب فأكثر الآثار في المغرب حتى بلغ البحر المحيط يبني المدن ويتخذ المصانع فأقام في المغرب مائتي عام، ثم قفل إلى المشرق فأنف أن يدخل غمدان ومضى إلى مأرب فبنى به القصر العتيق الذي يسميه بعض الرواة (ارم بن العماد) فلم يدع باليمن دراً ولا جوهراً ولا عقيقاً ولا جزعاً ولا بأرض بابل وأرسل في الآفاق بجمع ذلك جواهر الدنيا من الذهب والفضة والحديد والقصدير والنحاس والرصاص، فبنى فيه وزخرفه ورصعه بجميع ذلك الجواهر وجعل أرضه رخاماً أبيض وأحمر وغير ذلك من الألوان وجعل تحتھا أسراباً فاض إليھا ماء السد فكان قصراً لم يبن في الدنيا مثله ثم مات شداد بن عاد بعد أن عمر خمسمائة عام فنقبت له مغارة في جبل شمام ودفن بھا وجعل فيھا جميع أمواله.155
  پھر حمیروبنی قحطان بادشاہت کے معاملہ میں شداد بن عاد ملطاط بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن حمیر بن سبأ بن یشجب بن یعرب ابن قحطان پر متفق ہوئے۔ وہب نے ذکر کیا: جب شداد بن عاد بادشاہ ہوا تو افواج کو جمع کیا کیونکہ وہ اپنی دھن کا پکا آدمی تھا پس زمین کو روندتا ہوا بڑھا اور ارمینیہ کبری تک پہنچا، اس میں ہر فتنہ انگیز کو قتل کیا پھر فرات کو عبور کرتا ہوا مشرق کی جانب دور تک بڑھتا چلا گیا، اسے روکنے والا ہلاک ہوئے بغیر نہ رہا۔ پھر سمرقند کے ساحل سے ہوکر تبت کی سرزمین کی طرف، پھر ارمینیہ کی جانب لوٹا اور دور تک گیا، پھر شام کو تجاوز کرتا ہوا مغرب تک پہنچا، وہاں بہت سے آثار چھوڑتا ہوا بحرمحیط تک گیا جہاں شہرآباد کیے اور کارخانے بنائے، مغرب میں دوسو برس قیام کیا پھر مشرق کی طرف پلٹااور شروع سے غمدان میں داخل ہوکر مارب تک گیا جہاں اس نے ایک محل تعمیر کیا جسے بعض راوی (ارم ذات العماد) کہتے ہیں۔ یمن اور بابل میں کوئی موتی، جوہر، عقیق اور کوئی ٹکڑا نہ چھوڑا یہاں تک کہ پوری دنیا سے سونا، چاندی، لوہا، تانبا، سیسہ اور قلعی جمع کرنے کی غرض سے لوگ بھیجے، جن سے محل کی تزیین کی اور اس میں سارے جواہر کو جڑدیا۔ اس کی زمین کو سرخ و سفید اور دیگر رنگوں کے سنگ مرمر سے بنایا اور اس کے نیچے بند سے پانی کی نہریں بچھائیں۔ یہ ایسا محل تھا کہ اس جیسا کبھی دنیا میں محل نہیں بنا تھا، پانچ سو برس کی عمر میں شداد بن عاد مرگیا تو جبل شمام میں ایک غار کھودی گئی اور اسے اس کے تمام اموال و متاع کے ساتھ اس میں دفن کردیا گیا۔

پھر اسی بادشاہت کو یکے بعد دیگرے اس کے دو بھائیوں نے سنبھالا دیا اور سلسلہِ بادشاہت کو جاری و ساری رکھا۔ ان کے بعد اگلی نسل بادشاہ ہوئی اور ان میں کسی زمانہ میں حضرت ذوالقرنین بھی بادشاہ بنے جن کی بادشاہت کا ذکر قرآن مجید نے بھی کیاہے156 ابن کثیر اپنی کتاب " المختصر" میں تحریر کرتے ہیں:

  ثم ملك بعده أخوه لقمان بن عاد، ثم ملك بعده أخوه ذو سدد بن عاد، ثم ملك بعده ابنه الحارث بن ذي سدد، ويقال له الحارث الرائش، وقيل إن حارث الرائش المذكور، هو ابن قيس بن صيفي بن سبأ الأصغر، وهو تبع الأول ثم ملك بعده ابنه ذو القرنين، الصعب بن الرائش...وانتقل الملك حينئذ من ولد حمير بن سبأ إلى ولد أخيه كهلان بن سبأ، وكان عمران المذكور كاهناً. ثم ملك بعده أخوه مزيقيا عمرو بن عامر الأزدي، وقيل له مزيقياء لأنه كان يلبس في كل يوم بدلة، فإذا أراد الدخول إلى مجلسه رمى بھا فمزقت لئلا يجد أحداً فيھا ما يلبسه بعده.157
  پھر اس کےبعد اس کابھائی لقمان بن عادبادشاہ ہوا۔ پھر اس کےبعداس کابھائی ذوسددبن عادپھراس کابیٹاالحارث بن ذی سددجانشین ہوا جسےالحارث الرائش بھی کہاجاتاہےاور حارث الرائش بھی!یہ ابن قیس بن صیفی بن سبأالاصغراورتبع اول ہے۔ اس کےبعد اس کابیٹاذوالقرنین الصعب بن الرائش بادشاہ بنا۔ ابن سعید نے نقل کیاہےکہ حضرت ابن عباس سےذوالقرنین کےمتعلق پوچھاگیاجس کاذکراللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایاہےتو انہوں نےکہا:وہ حمیر سےہے۔ یہ الصعب مذکورہی ہےچنانچہ قرآن مجیدمیں مذکورذوالقرنین ہی الصعب بن الرائش مذکورہے، اسکندررومی نہیں۔ پھر اس کےبعد اس کابیٹا ذوالمنارابرہہ بن ذی القرنین بادشاہ بنا۔ پھر اس کےبعد اس کابیٹاافریقس بن ابرہہ، اس کےبعداس کابھائی ذوالاذعارعمروبن ذی المناربادشاہ بنا۔ پھر شرحبیل بن عمرو بن غالب بن المنتاب بن زید بن یعفربن السکسک بن واثل بن حمیربادشاہ بنا۔ حمیرکےنزدیک ذوالاذعارناپسندیدہ تھاچنانچہ انہوں نے اس کی فرمانبرداری سےروگردانی کی اورمذکوربادشاہ شرحبیل کی پیروی کوبہترجانا، شرحبیل اورذی الاذعارکےمابین شدیدقتل وغارت گری ہوئی اورکئی جانیں اس جنگ میں ضائع ہوئیں تاہم شرحبیل بادشاہت پرقائم رہا۔ اس کے بعد اس کابیٹاالہدہادبن شرحبیل جانشین تخت ہواپھراس کی بیٹی بلقیس بنت الہدہادتخت نشین ہوئی، وہ بیس سال برسراقتداررہی، سلیمان بن داؤد نےاس سےنکاح فرمایا، اس کےبعد اس کاچچاناشر النعم بن شرحبیل تخت پربیٹھا۔ کہاجاتا ہےکہ ناشرالنعم کانام مالک بن عمروبن یعفربن عمروتھا اوروہ المنتاب بن زیدالحمیری کی اولادسےتھا۔ اس کےبعدشمر یرعش بن ناشرالنعم تخت پربیٹھا جسےشمربن افریقس بن ابرہہ ذی المناربھی کہاگیاہے۔ اس کےبعداس کابیٹاابو مالک بن شمربادشاہ ہواپھرعمران بن عامر الازدی بادشاہ بنا۔ وہ عمران بن عامربن حارثہ بن امرئ القیس بن ثعلبہ بن مازن بن الازدبن الغوث بن نبت بن مالک بن اددبن زیدبن کہلان بن سبأہے۔ پھر بادشاہت حمیر بن سبأکی اولادسےاس کےبھائی کی اولادکہلان بن سبأکومنتقل ہوگئی۔ عمران مذکورکاہن بھی تھا۔ اس کےبعداس کابھائی مزیقیا عمرو بن عامرالازدی بادشاہ بنا جسےمزیقیا اس لیےکہاگیاکہ وہ ہرروزایک لباس پہنتاجب مجلس میں جانےکاارادہ کرتاتواسےاتار پھینکتااور پھاڑ دیتاتاکہ کوئی اوراس کےبعدنہ پہن سکے۔

اسی مزیقیاء کےوالد کے بارے میں ابن ہشام التیجان میں لکھتےہیں:

  وكان اسم أبيه عامر ماء المزن لأنه كان إذا نزل بقومه جدب فتح بيوت أمواله وعالهم حتى يخصبوا ويقوم لهم مقام المطر إذا فقد وكانوا يقولون: كفانا عامر هو ماء المزن لنا. 158
  اس کےوالدکانام عامر ماءالمزن(بادل کاپانی)تھاکیونکہ اس کی قوم پرکبھی قحط آجاتاتووہ اپنےمال ودولت کےدروازےکھول دیتااوران کی مددکرتایہاں تک کہ وہ خوشحال ہوجاتے۔ اگربارش نہ ہوتی تووہ ان کے لیےبارش کی مثل ثابت ہوتا۔ وہ کہتےتھے: ہمیں عامرکافی ہےوہ ہمارےلیے بادلوں سے برسنے والے پانی کی مانند ہے۔

ابو الفداء مزید بادشاہوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئےاپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:

  إن الذي ملك بعد أبي مالك بن شمر المذكور، قبل عمران الأزدي، ابنه الأقرن بن أبي مالك، ثم ملك بعده ذو حبشان بن الأقرن، وهو الذي أوقع بطسم وجديس ثم ملك بعده أخوه تبع بن الأقرن، ثم ملك بعده ابنه كليكرب بن تبع، ثم ملك بعده أبو كرب أسعد وهو تبع الأوسط، وقتل ثم ملك بعده ابنه حسان بن تبع، وتتبع قتلة أبيه فقتلهم عن آخرهم، ثم قتله أخوه عمرو بن تبع، وملك بعده وتواترت الأسقام بعمرو المذكور، حتى كان لا يمضي إلى الخلاء إلا محمولاً على نعش، فسمي ذا الأعواد لذلك...ثم ملك بعده مسروق بن أبرهة، وهو آخر من ملك اليمن من الحبشةثم عاد ملك اليمن إلى حمير وملكها سيف بن ذي يزن الحميري وهو الذي ملكه كسرى أنوشروان، وأرسل مع سيف المذكور أحد مقدمي الفرس، واسمه وهرز بجيش من العجم، فساروا إلى اليمن وطردوا الحبشة عنھا، وقرروا سيف بن ذي يزن في ملك اليمن، ولما استقر سيف في ملك أجداده باليمن وطرد الحبشة عنھا، وجلس في غمدان يشرب، وهو قصر كان لأجداده باليمن، فامتدحته العرب بالأشعار. 159
  ابو مالک بن شمر مذکورکےبعدعمران الازدی سےپہلےجوبادشاہ بناوہ اس کابیٹاالاقرن بن ابی مالک تھا، اس کےبعدذوحبشان بن الاقرن بادشاہ بناجس نے طسم وجدیس کوشکست دی۔ اس کےبعداس کابھائی تبع بن الاقرن تخت نشین ہوا، اس کے بعداس کابیٹاکلیکرب بن تبع بادشاہ بنا۔ پھراس کےبعدابو کرب اسعدبادشاہ بنا۔ یہی تبع الاوسط ہےجو بعد میں قتل ہوگیا اوراس کےبعداس کابیٹاحسان بن تبع بادشاہ ہوا۔ اس نےاپنےوالدکےقاتلوں کاسراغ لگایااورسب کےسب کوقتل کردیا۔ پھراس کےبھائی عمروبن تبع نے اسےقتل کرڈالااوراس کےبعدبادشاہ بن بیٹھا تاہم بیماریوں نے اس کاپیچھانہ چھوڑایہاں تک کہ خلاء(رفع حاجت)کےلیےبھی اسےچارپائی پراٹھاکرلےجایاجاتااسی وجہ سےوہ لکڑیوں والاکہلایا۔ پھر اس کے بعد کلال بن ذی الاعوادبادشاہ بنا۔ اس کےبعدتبع بن حسان بن کلیکرب جوکہ تبع الاصغرہے بادشاہ بنا۔ اس کےبعداس کے بھائی کابیٹاالحارث بن عمروتخت نشین ہوا۔ الحارث مذکوریہودی ہوگیاتھا جس کے بعد مرثدبن کلال تخت نشین ہوا۔ اس کےبعدحمیرکی بادشاہت تفرقہ کاشکارہوگئی تھی تاہم اس کےبعدجومشہورہوا وہ وکیعہ بن مرتدبادشاہ تھا۔ اس کےبعدابرہہ بن الصباح بادشاہ ہواپھرصہبان بن محرث، پھرعمروبن تبع، پھرذوشناتر، پھرذونواس بادشاہ بناوہ ایساتھاکہ اگرکوئی یہودیت قبول نہ کرتاتواسے آگ سےبھرے گڑھےمیں پھنکوادیتااسی لیےاسےصاحب الاخدودکہاگیا۔ اس کےبعد ذوجدن حمیری بادشاہوں میں سب سےآخری بادشاہ ہوا، ان کی مدت حکومت دوہزاربیس (2020)سال بتائی گئی ہے۔ حبشیوں نےذی جدن الحمیری کےبعدیمن پرقبضہ جمالیا تھا چنانچہ ان میں سےیمن پرپہلابادشاہ ارباط بنا۔ اس کے بعدابرہہ الاشرم ہاتھیوں والابادشاہ بناجس نےمکّہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف ڈھانےکی کوشش کی تھی۔ اس کےبعد یکسوم، پھرمسروق بن ابرہہ جوحبشیوں کاسب سےآخری بادشاہ ہوا۔ پھر یمن کی بادشاہی حمیر کو دوبارہ مل گئی اورسیف بن ذی یزن الحمیری بادشاہ بناجسےنوشروان کسری نے بادشاہت دلائی تھی۔ اس نےسیف کےساتھ اپناایک سپہ سالاروہرزنامی فوج کے ہمراہ بھیجا۔ انہوں نےحبشیوں کویمن سے دھکیل دیااورسیف بن ذی یزن کویمن میں بادشاہ مقررکردیا۔ جب سیف حبشہ کویمن سےنکالنےکےبعد اپنےآباءواجدادکےتخت پربیٹھااورغمدان یشرب میں براجمان ہواجو یمن میں اس کےاجدادکامحل تھاتوعرب نےاپنےاشعارمیں اس کی مدح سرائی کی۔

یہ وہی سیف بن ذی یزن ہے جس کو اس کی بادشاہت کی مبارکباد دینےکے لیے کئی رؤسائے عرب سمیت نبی اکرم ﷺ کے محترم داداحضرت عبد المطلب بھی تشریف لے گئے تھے اور وہاں اس نے آپ کو بہت عزت وتکریم دی تھی نیز اسی سیف بن ذی یزن بادشاہ نےاپنی سابقہ کتب کے حوالے سے آپ کو نبی اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشخبری بھی دی تھی۔ 160 اسی بادشاہ کےقتل کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے صاحبِ مختصرتحریرکرتےہیں:

  وكان سيف بن ذي يزن المذكور، قد اصطفى جماعة من الحبشان، وجعلهم من خاصته فخلوا به يوما، وهو في متصيد له، فزرقوه بحرابھم فقتلوه وهربوا في رءوس الجبال، وطلبھم أصحابه، فقتلوهم جميعا161 فأرسل كسرى عاملاً على اليمن، واستمرت عمال كسرى على اليمن إلى أن كان آخرهم باذان الذي كان على عهد رسول اللّٰه ، وأسلم162
  سیف بن ذی یزن مذکورنے حبشیوں میں سےایک گروہ کو چن کر اپنےلیےخاص کرلیاتھا۔ پس ایک دن انہوں نےجب وہ اپنی شکارگاہ میں تھاخنجروں سےوارکرکےقتل کردیااورپہاڑوں کی بلندیوں کی طرف بھاگ کھڑےہوئے، اس کےساتھی ان کی تلاش میں آئےتوان سب کوبھی قتل کردیا چنانچہ کسری نے یمن پراپناعامل بھیج دیااس طرح یمن پرکسری کےوالی آتےرہےیہاں تک کہ آخری والی باذان آیاجوعہدرسالت مآب ﷺ میں تھااوراس نےاسلام قبول کرلیا۔

عرب عاربہ کے یمنی بادشاہوں کی تفصیلات سےمعلوم ہوتا ہےکہ عرب عاربہ کی اولین بادشاہت یمن میں قائم ہوئی اور پھربعدمیں مختلف زمانوں اور ادوار میں ان کی بادشاہت کا سلسلہ مختلف علاقوں میں قائم رہا یہاں تک کہ حیرہ کا علاقہ بھی ان کی بادشاہت میں شامل ہوگیا۔ یہ عرب عاربہ ہی کےقحطانی خاندان تھے جنہوں نےحیرہ میں اقتدار اور بادشاہت قائم کی اور حیرہ کی بادشاہت کا یہ تسلسل بھی یمنی بادشاہت کی طرح(عرصہِ دراز تک) قائم ودائم رہا ۔ 163

غسانی وجرہمی بادشاہ

غسانی بادشاہ شامی عرب پررومی قیصروں(شہنشاہوں)کےباج گزاراورعاملین تھےجن کی اصل یمن میں بنی الازدابن الغوث بن نبت بن مالک بن ادد بن زیدبن کہلان بن سباسےتھی۔ سیلابِ عرم کی وجہ سے یمن سےنکل کرشام میں غسان نامی جگہ منتقل ہوئے جہاں پانی وافر میسر تھا۔ ان سےقبل شام میں جوعرب تھےوہ سلیح سےالضجاعمہ کہلاتےتھے۔ غسان نے انہیں ان کےوطن سےنکال کران کےبادشاہوں کوقتل کرڈالااور ان کے علاقوں پرقبضہ جمالیاتھا۔ صاحب المختصران کےبادشاہوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے تحریر کرتےہیں:

  وأول من ملك من غسان جفنة بن عمرو بن ثعلبة بن عمرو بن مزيقيا ثم هلك وملك بعده ابنه عمرو بن جفنة ثم ملك بعده ابنه ثعلبة بن عمرو ثم ملك بعده ابنه الحارث بن ثعلبة ثم ملك ابنه جبلة بن الحارث بعده ابنه الحارث بن جبلة ثم ملك بعده ابنه المنذر الأكبر بن الحارث بن جبلة بن الحارث بن ثعلبة ابن عمرو بن جفنة الأول، ثم هلك المنذر الأكبر المذكور وملك بعدها أخوه النعمان بن الحارث ثم ملك بعده أخوه جبلة بن الحارث، ثم ملك بعدهم أخوهم الأيھم بن الحارث ثم ملك أخوهم عمرو بن الحارث ثم ملك جفنة الأصغر بن المنذر الأكبر ثم ملك بعده أخوه النعمان الأصغر بن المنذر الأكبر، ثم ملك النعمان ابن عمرو بن المنذر ثم ملك بعد النعمان المذكور ابنه جبلة بن النعمان ثم ملك بعده النعمان بن الأيھم بن الحارث بن ثعلبة، ثم ملك أخوه الحارث بن الأيھم ثم ملك بعده ابنه النعمان بن الحارث ثم ملك بعده ابنه المنذر بن النعمان، ثم ملك أخوه عمرو بن النعمان، ثم ملك أخوهما حجر بن النعمان ثم ملك ابنه الحارث بن حجر، ثم ملك ابنه جبلة بن الحارث، ثم ملك ابنه الحارث بن جبلة، ثم ملك ابنه النعمان بن الحارث، وكنيته أبو كرب، ولقبه قطام ثم ملك بعده الأيھم بن جبلة بن الحارث، وهو صاحب تدمر، وكان عامله بقال له القين بن خسرثم ملك بعده أخوه المنذر بن جبلة، ثم ملك بعده أخوهما شراحيل بن جبلة، ثم ملك أخوهم عمرو بن جبلة، ثم ملك بعده ابن أخيه جبلة بن الحارث بن جبلة ثم ملك بعده جبلة بن الأيھم بن جبلة، وهو آخر ملوك غسان، وهو الذي أسلم في خلافة عمر رضي الله عنه، ثم عاد إِلى الروم وتنصر.164
  غسان میں سب سےپہلےجفنہ بن عمرو بن ثعلبہ بن عمرو بن مزیقیابادشاہ بنا۔ وہ مراتواس کےبعداس کابیٹاعمرو بن جفنہ بادشاہ بناپھراس کابیٹاثعلبہ بن عمرو۔ اس کے بعد اس کابیٹاالحارث بن ثعلبہ، پھراس کابیٹاجبلہ بن الحارث بادشاہ بنا۔ اس کےبعداس کابیٹاالحارث بن جبلہ پھر اس کا بیٹاالمنذرالاکبربن الحارث بن جبلہ بن الحارث بن ثعلبہ ابن عمرو بن جفنہ الاول بادشاہ بنا، پھر المنذرالاکبرہلاک ہواتواس کابھائی النعمان بن الحارث بادشاہ ہوا۔ اس کےبعداس کابھائی جبلہ بن الحارث، ان کےبعد ان کابھائی الایہم بن الحارث بادشاہ بنا۔ پھر ان کابھائی عمروبن الحارث پھر جفنہ الاصغربن المنذرالاکبربادشاہ بنا۔ اس کےبعداس کابھائی النعمان الاصغربن المنذرالاکبر، پھرالنعمان ابن عمروبن المنذربادشاہ بنا اورپھر النعمان مذکورکےبعداس کابیٹاجبلہ بن النعمان۔ اس کےبعدالنعمان بن الایہم بن الحارث بن ثعلبہ، پھر اس کابھائی الحارث بن الایہم اوراس کے بعد اس کابیٹاالنعمان بن الحارث۔ پھر اس کےبعداس کابیٹاالمنذربن النعمان، پھراس کابھائی عمروبن النعمان اورپھران دونوں کابھائی حجربن النعمان، پھر اس کابیٹاالحارث بن حجر، پھراس کابیٹاجبلہ بن الحارث، پھراس کابیٹاالحارث بن جبلہ، پھراس کابیٹاالنعمان بن الحارث بنا، اس کی کنیت ابوکرب اورلقب قطام تھا، بادشاہ ہوا۔ پھراس کابیٹاالایہم بن جبلہ بن الحارث بنا جوتدمرکابادشاہ تھااوراس کا عامل القین بن خسرتھا۔ اس کے بعد اس کابھائی المنذربن جبلہ پھران دونوں کابھائی شراحیل بن جبلہ، اس کےبعدان کابھائی عمروبن جبلہ پھر اس کےبھائی کابیٹاجبلہ بن الحارث بن جبلہ، اس کےبعدجبلہ بن الایہم بن جبلہ بادشاہ ہوا۔ وہ غسان کاآخری بادشاہ تھاجوحضرت عمر فاروق کے زمانہ میں اسلام لایاتھامگر پھر نصرانی ہوگیااورروم چلاگیا تھا۔

یہ عرب عاربہ کے غسانی وجرہمی بادشاہ تھےجن کی بادشاہتیں بعثت نبوی ﷺ کے زمانہ تک چلیں اور پھر اسلام کے عروج کے زمانہ میں اسلامی حکومت میں شامل ہوکر خلافت ِ راشدہ کا حصہ بن گئیں۔ یوں عرب عاربہ کا سلسلہ جو عربِ بائدہ سے شروع ہوا تھا وہ عربِ مستعربہ میں ضم ہوگیا۔

 


  • 1 محمد بيومى مهران، دراسات فى تاريخ العرب القديم، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، مصر، ص: 137
  • 2 محمد بن جرير بن يزيد الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-3، مطبوعۃ: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387ھ، ص: 361
  • 3 أبو العباس أحمد بن على القلقشندى، قلائد الجمان فى التعريف بقبائل عرب الزمان، ج-1، مطبوعۃ: دارالكتاب المصرى، مصر، 1982م، ص: 12
  • 4 ابو المظفر یوسف بن قزاوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزى، مرآة الزمان فى تواريخ الأعيان، ج-1، مطبوعة: دار الرسالة العالمية، دمشق، السوریۃ، 2013م، ص:33
  • 5 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:158
  • 6 محمد الطيب النجار، القول المبين فى سيرة سيد المرسلين، ج-1، مطبوعة: دار الندوة الجديدة، بيروت، لبنان، 1411ھ، ص:44
  • 7 صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعة: دار ابن حزم، بيروت، لبنان، 2010م، ص:22
  • 8 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:158
  • 9 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء، ص:253
  • 10 ڈاکٹر خورشید رضوان، عربی ادب قبل از اسلام، ج-1، مطبوعہ:ادارہ اسلامیات پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص:47
  • 11 زین العابدین سجاد میرٹھی و مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی، تاریخ ملت، ج-1، مطبوعہ:ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 1991ء، ص:29
  • 12 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء، ص:253
  • 13 محمد رابع حسنی ندوی، جغرافیہ ممالک اسلامیہ، مطبوعہ:دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، انڈیا، 1962ء، ص:88
  • 14 زین العابدین سجاد میرٹھی و مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی، تاریخ ملت، ج-1، مطبوعہ:ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 1991ء، ص:29
  • 15 محمد رابع حسنی ندوی، جغرافیہ ممالک اسلامیہ، مطبوعہ: دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، انڈیا، 1962ء، ص:88
  • 16 محمد احسان الحق سلیمانی، تمدنِ عرب، مطبوعہ :قومی کتب خانہ، لاہور، پاکستان، 1953ء، ص:21
  • 17 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری(مترجم: ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی)، ج -1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2004ء، ص:133
  • 18 کتاب مقدس، پیدائش، باب:11، آیت نمبر:16 -26، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، 1995ء
  • 19 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری (مترجم: ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی)، ج -1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2004ء، ص:133
  • 20 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص:11
  • 21 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الطبری (مترجم:ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی)، ج -1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2004ء، ص:133
  • 22 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص:11
  • 23 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26 -31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، 1995ء
  • 24 کتاب مقدس، تواریخ اول، باب:1، آیت نمبر:20-23، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، 1995ء
  • 25 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج- 1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1405ھ، ص:56
  • 26 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:75
  • 27 Targum Psalms (Onine): http://www.targum.info/pss/tg_ps_index.htm: Retrieved: 28-07-2021.
  • 28 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص: 75-77
  • 29 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26 -31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 30 Hitchcock’s Bible Names Dictionary (Online): https://www.biblestudytool s.com/dictionaries/hitchcocks-bible-names/sheleph.html Retrieved: 28-07-2021.
  • 31 International Standard Bible Encyclopedia: https://www.internationalstandardbible.com/S/sheleph.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 32 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/S/sheleph.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 33 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:75-77
  • 34 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-27، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 35 محمد بن أحمد باشميل، من معارك الإسلام الفاصلة، ج-10، مطبوعة: المكتبة السلفية، القاهرة، مصر، 1988م، ص:220
  • 36 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/H/hazarmaveth.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 37 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص:32-34
  • 38 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-27، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 39 Hitchcock’s Bible Names Dictionary (Online): https://www.biblestudytools.com/dictionaries/hitchcocks-bible-names/jerah.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 40 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/J/jerah.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 41 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموى، معجم البلدان، ج-5، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:369
  • 42 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:77-78
  • 43 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 44 کتاب مقدس، تواریخ اول، باب:1، آیت نمبر:20-23، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 45 Hitchcock’s Bible Names Dictionary (Online): https://www.biblestudytools.com/dictionaries/hitchcocks-bible-names/Hadoram.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 46 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/H/hadoram.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 47 ابوعبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990م، ص:37
  • 48 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387ھ، ص:207
  • 49 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:78-79
  • 50 ایضاً
  • 51 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 52 کتاب مقدس، تواریخ اول، باب:1، آیت نمبر:20 -23، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 53 Hitchcock’s Bible Names Dictionary (Online): https://www.biblestudytools.com/dictionaries/hitchcocks-bible-names/uzal.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 54 International Standard Bible Encyclopedia (Online): https://www.internationalstandardbible.com/U/uzal.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 55 أبو الفيض محمد بن محمد المرتضیٰ الزبيدى، تاج العروس من جواهر القاموس، ج-21، مطبوعة: دار الهداية، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:370
  • 56 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/U/uzal.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 57 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:79-80
  • 58 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/U/uzal.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 59 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:79-80
  • 60 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/U/uzal.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 61 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 62 International Standard Bible Encyclopedia (Online): https://www.internationalstandardbib le.com/D/diklah.html: Retrieved: 28-07-2021.
  • 63 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/D/diklah.html: Retrieved: 28-07-2021
  • 64 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموى، معجم البلدان، ج-2، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:459
  • 65 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص: 80
  • 66 Biblical Cyclopedia (Online): https://www.biblicalcyclopedia.com/D/diklah.html: Retrieved: 28-07-2021
  • 67 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 68 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:80-82
  • 69 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، پاکستان، 1995ء
  • 70 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:80-82
  • 71 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 72 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:80-82
  • 73 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 74 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:80-82
  • 75 The Bible, Genesis, 2: 10-14
  • 76 کتاب مقدس، پیدائش، باب:2، آیت نمبر:10-14، مطبوعہ: انٹر نیشنل بائبل سوسائٹی، امریکہ، 2005ء
  • 77 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:80-82
  • 78 کتاب مقدس، پیدائش، باب:10، آیت نمبر:26-31، مطبوعہ: بائبل سوسائٹی، لاہور، پاکستان، 1995ء
  • 79 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م، ص:80-82
  • 80 قاضی داؤد عبد الباقی، تاریخ وفضائل مکۃ المکرمۃ (مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص: 256
  • 81 ابو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:73- 74
  • 82 احمد بن احمد الوفائی المصری، ذیل لب اللباب فی تحریر الانساب، مطبوعۃ: مرکز النعمان للبحوث والدراسات الاسلامیۃ، صنعاء، الیمن، 2011م، ص: 150
  • 83 ابو العباس احمد بن علی القلقشندی، نھایۃ الارب فی معرفۃ انساب العرب، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتا ب اللبنانین، بیروت، لبنان، 1980م، ص:211
  • 84 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-2، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 12
  • 85 أبو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:99
  • 86 ابوعبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990م، ص:37
  • 87 ابو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 5
  • 88 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافرى، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 412
  • 89 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص:183
  • 90 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السهیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 8
  • 91 اس کا تفصیلی ذکر تاریخ مکہ قبل از اسلام کی جلد میں آرہا ہے۔ (ادارہ)
  • 92 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السهیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 47
  • 93 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 49
  • 94 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافرى، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 412
  • 95 ابو الولید محمد بن عبداﷲ الازرقی، اخبار مکۃ وما جاء فیھا من الاثر، ج-1، مطبوعۃ: دار الاندلس للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 85
  • 96 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافرى، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 412
  • 97 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح اليعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الحیدریۃ، النجف، عراق، 1964م، ص :194
  • 98 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح يعقوبی، تاریخ یعقوبی (مترجم:مولانا اختر فتح پوری)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت اندارد)، ص:319-320
  • 99 ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3364، مطبوعۃ:دار السلام، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:562
  • 100 ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری(مترجم: سید محمد ابراہیم ندوی)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2004ء، ص: 184-185
  • 101 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص:233
  • 102 پروفیسر قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، تاریخ وفضائل مکۃ المکرمۃ(مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص:256
  • 103 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 88
  • 104 تقی الدین احمد بن علی المقریزی، المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1418ھ، ص:39
  • 105 ابو العباس احمد بن علی القلقشندی، نہایۃ الارب فی معرفۃ انساب العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب اللبنانین، بیروت، لبنان، 1980م، ص: 279
  • 106 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص:490
  • 107 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 689
  • 108 ابوالحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، اللباب فی تہذیب الانساب، ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 271
  • 109 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 689
  • 110 عمر بن رضا الدمشقى، معجم قبائل العربالقديمة والحديثة، ج-2، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 689
  • 111 صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعة: دار ابن حزم، بيروت، لبنان،2010م، ص:24
  • 112 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 101
  • 113 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 998 -1000
  • 114 صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعة: دار ابن حزم، بيروت، لبنان،2010م، ص:22
  • 115 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 15
  • 116 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 15
  • 117 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 259
  • 118 صفی الدین عبد المؤمن بن عبد الحق البغدادی، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ والبقاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص: 255
  • 119 عاتق بن غیث البلادی، معجم المعالم الجغرافیۃ فی السیرۃ النبویۃ، مطبوعۃ: دار مکۃ للنشر والتوزیع، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ،1982م، ص:154
  • 120 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 248
  • 121 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 1024
  • 122 عمر بن رضا الدمشقی، معجم قبائل العرب القدیمۃ والحدیثۃ، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 15
  • 123 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 109
  • 124 ابو محمد عبدالملک بن ہشام معافری، سیرت ابن ہشام (مترجمین:ادارہ ضیاء المصنفین)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص: 60
  • 125 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السھیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 54
  • 126 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام (مترجمین:ادارہ ضیاء المصنفین)، ج-1، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص: 60
  • 127 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:8
  • 128 ابو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر،1955م، ص: 9
  • 129 ابو محمد عبدالملک بن ہشام معافری، سیرت ابن ہشام (مترجمین:ادارہ ضیاء المصنفین)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص: 60
  • 130 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 344
  • 131 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 109
  • 132 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری، المعارف (مترجم: پروفیسر علی محسن صدیقی)، مطبوعہ: قرطاس پرنٹرز، کراچی، پاکستان، 2012ء، ص: 170
  • 133 ان دونوں موقفوں پر فریقین کی جانب سے کئی دلائل دئیے جاتے ہیں جس کی مکمل تحقیق وتفصیل ان شاء اﷲ تاریخ مدینہ منورہ کی جلد میں آئے گی۔(ادارہ)
  • 134 أبو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:109-111
  • 135 ابو الحسن علی بن عبداﷲ السمهودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 137
  • 136 السید محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 189
  • 137 سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ ، لاہور،پاکستان، 2011ء، ص:420-421
  • 138 ابو عبداﷲ محمد بن محمود ابن النجار، الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ، مطبوعۃ: شرکۃ دار الارقم بن ابی الارقم، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 30
  • 139 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:8
  • 140 محمد عبد المعبود، تاریخ مدینہ منورہ ،مطبوعہ:مکتبہ رحمانیہ، لاہور، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)، ص: 85
  • 141 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-11، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م ، ص: 248
  • 142 السید محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 202
  • 143 سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج۔3،مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ ، لاہور،پاکستان ، 2011ء، ص: 78
  • 144 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-11، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص:247-248
  • 145 ابو محمد محمود بن احمد بدر الدین العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج-19، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:203
  • 146 ابو حفص عمر بن علی ابن الملقن الشافعی، التوضیح لشرح الجامع الصحیح، ج-11، مطبوعۃ: دار النوادر، دمشق، السوریۃ، 2008م، ص: 492
  • 147 القرآن، سورۃ التوبۃ 100:9
  • 148 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 109
  • 149 السید محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 191
  • 150 سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1،مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 424
  • 151 أبو محمد عبد الله بن مسلم الدينورى، المعارف، مطبوعة: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر،1992م، ص:101-111
  • 152 الدكتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-2، مطبوعة: دار الساقي، بيروت، لبنان،2001م، ص:5-25
  • 153 أبو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:66
  • 154 شیخ ابن سعيد الأندلسى، نشوة الطرب فى تاريخ جاهلية العرب، مطبوعة: مكتبة الأقصى، عمان، الأردن، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:103
  • 155 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافرى، التيجان فى ملوك حمير، مطبوعة: مركز الدراسات والأبحاث اليمنية، صنعاء، اليمن،1347ھ، ص:74
  • 156 القرآن، سورۃ الکھف83:18 -98
  • 157 أبو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:67
  • 158 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافرى، التيجان فى ملوك حمير، مطبوعة: مركز الدراسات والأبحاث اليمنية، صنعاء، اليمن،1347ھ، ص:273
  • 159 أبو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:68
  • 160 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ:دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976م،ص:336
  • 161 أبو محمد عبد الله بن مسلم الدينورى، المعارف، مطبوعة: الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة، مصر،1992م، ص:638-639
  • 162 أبو الفداء إسماعيل بن على الملك المؤيد، المختصر فى أخبار البشر، ج-1، مطبوعة: المطبعة الحسينية المصرية، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:69
  • 163 ايضاً، ص: 69 -72
  • 164 ايضاً، ص:72 -73