Encyclopedia of Muhammad

عربِ بائدہ

عرب بائدہ کی اصطلاح خطہِ عرب کے ان سب سے قدیم ترین باشندوں اور اقوام کے لئے استعمال کی جاتی ہے جن کا شمار اس خطے کے قدیم ترین اور اصل باشندوں میں ہوتا ہے جو صفحہِ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ یہ قدیم باشندے امتداد زمانہ کے ساتھ ایسے فنا کا شکار ہوئے کہ ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا 1 اور آج ان کی طرف نسبت کرنے والا کوئی بھی شخص دنیا میں موجود نہیں ہے۔ یہ اقوام و قبائل طوفانِ نوح کے بعد عرب کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے، خوب پھلے پھولے اور ترقی کی منازل طے کیں۔ ان میں سے کچھ نے طاقتور حکومتیں قائم کیں اور ایک بڑے خطے پر اپنا اقتدار اور اثر و رسوخ قائم کرکے ایک سیاسی و سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔ ابتداء میں یہ ہدایت کے راستے پر تھے مگر مرورِ وقت کے ساتھ ان میں سے اکثر حق و باطل کی تمیز بھول کر حقیقت کے راستے سے دور ہوگئے اور مختلف طرح کے توہمات کا شکار ہو کر بت پرستی میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی طرف انبیاء و مرسلین بھیجے گئے مگر یہ سرکشی اور تکبر کی راہ پر گامزن رہے۔ عذابِ الہی، موسمی تغیر و تبدّل، حوادثِ زماں، اور گردشِ دوراں نے ان میں سے اکثر کو، تاریخی دور سے ہزاروں سال پہلے،جڑ سے اکھاڑ کر فنا کے گھاٹ اتار دیا تھا تاہم انہی میں سے جو باقی بچے وہ عاربہ کہلائے۔ ان میں سے اکثر اقوام و ملل کا سوائے حجری اثرات اور کھنڈارت کے کوئی تاریخی ریکارڈ باقی نہیں بچا تاہم ان میں سے کچھ پر نازل ہونے والے عذاب کے واقعات قرانِ حکیم کی زبانی آج بھی اہلِ نظر اور متلاشیانِ حق کیلئے سامانِ عبرت ہیں۔ عربِ بائدہ میں سے مشہور ترین اقوام عادِ اولیٰ، ثمود ، طسم ، جدیس، عمالقہ، جرہم ِ اولیٰ، قوم ِ عبیل، قوم ِ امیم، قوم ِ حضور اور دیگر کو تصور کیا جاتا ہے۔

ابن سعید اندلسی، نشوۃ الطرب میں عربِ بائدہ سے متعلق لکھتے ہیں:

  فأما البائدة فكانت أمما ضخمة كعاد وثمود وطسم وجديس والعمالقة وجرھم، أبادھم الزمان، وأفناھم الدهر.2
  جہاں تک بائدہ کا تعلق ہے تو وہ قوم عاد،ثمود، طسم، جدیس، عمالقہ اورجرہم جیسی بڑی قومیں تھیں جنہیں گردشِ دوران نے جڑ سے اکھاڑدیا اوروقت نے فنا کے گھاٹ اتاردیا۔

اس حوالہ سے ڈاکٹرجواد تحریرفرماتےہیں :

  ھم عاد وثمود، وطسم وجديس وأميم وجاسم وعبيل وعبد ضخم وجرھم الأولى والعمالقة، وحضورا.وھم أقدم طبقات العرب على الإطلاق في نظر أھل الأخبار.3
  (جنہیں امم بائدہ کہا جاتا ہے) وہ عاد،ثمود، طسم، جدیس، أمیم، جاسم، عبیل، عبد ضخم، جرہمِ اولی، عمالقہ اورحضورا ہیں اوراہل اخبار(تاریخ دانوں) کی نظر میں وہ عرب کے قدیم ترین طبقات ہیں۔

ان اقوام میں سے اکثر کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنی طرف بھیجے گے انبیاء و رسل کی نافرمانی اور تکذیب کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔ تاریخ دانوں کی تصریحات سے یہ واضح ہوتاہے کہ عرب ِبائدہ دراصل اقوام ِ عرب کا وہ قدیم ترین طبقہ ہے جو تاریخی دور سےہزاروں سال پہلے نیست و نابود ہوگیا تھا البتہ ان سے متعلق كچھ اساطیر، عرب شعراء کے اشعار اور صحفِ آسمانی میں مندرج واقعات باقی ہیں جو انہیں آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ عبرت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ قوم عاد اور قوم ثمود کی جو عبرتناک داستانیں قرآن مجید میں محفوظ ہیں وہ بھی اسی دور سے متعلق ہیں۔ 4

بائدہ و عاربہ میں فرق

زیادہ تر ماہرین ِ تاریخ، فنا کا شکار ہو جانے والے عرب کے قدیم ترین قبائل کو عربِ بائدہ اور ان میں سے باقی بچ جانے والوں یا ان کے علاوہ موجود قدیم ترین قبائلِ عرب کو عربِ عاربہ کہتے ہیں تاہم بعض ماہرینِ تاریخ عرب بائدہ اور عاربہ کی اصطلاحات کو باہم مدغم بھی کردیتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ عاربہ سے مراد عرب کے اصل یا قدیم ترین باشندے لیتے ہیں جبکہ ان قدیم ترین باشندوں یعنی عاربہ میں سے تباہ و برباد ہو کر صفحہِ ہستی سے مٹ جانے والے قبائل کو "عاربہ ِ بائدہ" قرار دیتے ہیں جبکہ باقی رہنے والوں کو "عاربہِ باقیہ" کا نام دیتے ہیں۔ یوں عرب بائدہ کو بعض مؤرخین عرب عاربہ بھی شمار کردیتے جس کی وجہ یہ ہے کہ عربِ عاربہ بھی درحقیقت عربِ بائدہ ہی کے دور سے تعلق رکھنے والے بچے کچے قبائل ہیں جو تباہی سے بچ گئے۔ عربِ بائدہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے شیخ احمد مغنیہ تحریر کرتے ہیں:

  فالعرب العاربة ھي أقدم أمة من الأمم من بعد قوم نوح، وأعظمھم قدرة، وأشدھم قوة وآثاراً في الأرض، وأول أجيال العرب من الخليقة وكان لھم ملوك ودول فملوك جزيرة العرب (وھي الأرض التي يحدھا بحر الھند جنوباً، وخليج الحبشة غرباً، وخليج فارس شرقاً، وفيھا اليمن والشحر وحضرموت) امتد ملكھم إلى الشام ومصر ويقال: إنھم انتقلوا إلى جزيره العرب من بابل لما زاحمھم فيھا بنوحام، فسكنوا جزيرة العرب بادية مخيمين ثم كان لكل فرقة منھم ملوك وقصور، إلى أن غلب عليھم بنو يعرب بن قحطان وهؤلاء العرب العاربة شعوب كثيرة وھم: عاد، وثمود، وطسم، وجديس، وأميم، وعبيل، وعبد ضخم، وجرھم، وحضرموت، وحضورا، والسلفات وسمي أھل ھذا الجيل العرب العاربة، إما بمعنى الرساخة في العروبية، أو بمعنى الفاعلة للعروبية والمتبدعة لها بما كانت ھي أول أجيالھاوقد تسمى العرب البائدة بمعنى الھالكة لأنه لم يبق على وجه الأرض أحد من نسلھم.5
  عرب عاربہ حضرت نوح کی قوم کےبعد روئے زمین پرموجودامم میں سےقدیم ترین قوم تهے جو ذہانت وقابلیت، ہمت وقوت اور زمین پر اثر ورسوخ کے حامل تھے۔ یہ (نوح کے بعد) عرب کی اولین نسل كے لوگ تهے۔ ان میں بادشاہ اور امراء گزرے تھے یہاں تک کہ (ایک زمانے میں) جزیرۂ عرب (جس کی حد جنوب میں بحرہند، مغرب میں خلیج حبشہ اورمشرق میں خلیج فارس بشمول یمن، شحر اور حضرموت ہے) کے بادشاہوں کی بادشاہی شام و مصر تک پھیل چکی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب بنی حام نے ان پر زمین تنگ کردی تھی تو یہ نقل مکانی کرکے بابل سے جزیرہ نما عرب میں آئے تھے یوں وہ جزیرہ عرب کے صحراؤں میں خیمہ نشیں ہوگئے تھے۔ بعد میں ان کے ہر گروہ میں سے بادشاہ و ملوک ہوئے جنہوں نے محلّات تعمیر کئے یہاں تک کہ بنی یعرب بن قحطان ان پرغالب آگئے۔ عرب عاربہ کےبہت سےقبائل وگروہ ہیں جیسے: عاد، ثمود، طسم، جدیس، أمیم، عبیل، عبدضخم، جرہم، حضرموت،حضورا اوران سےپہلے گزرنے والے قبائل۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کوخطہِ عرب میں راسخ ہونے یا (نوح کے بعد)یہاں کی سب سے ابتدائی نسل ہونے کی وجہ سے عرب عاربہ کہا گیا۔ اور عرب بائدہ کی اصطلاح کو ہالکہ(یعنی ہلاک ہونے) کے معنیٰ میں لیا جاتا ہےکیونکہ روئےزمین پران کی نسل میں سےکوئی بھی نہ بچا۔

اس کے بارےمیں مزید و ضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر حسین الشیخ لکھتےہیں:

  وظهروا قبل زمن إبراهيم عليه السلام (أي: فيما قبل القرن التاسع عشر قبل الميلاد) وأشھر قبائلهم عاد وثمود وطسم وجديس وجرهم والعماليق وبما أنھم قد بادوا تماماً ولا يستطيع أي عربي أن يرجع بنسبه إليھم لذا نجد أن معظم النسابين يرجعون أصل العرب إلى عرب عاربة (القحطانيون) وعرب مستعربة (العدنانيون) وهم عرب الجنوب، ويعرفون بالقحطانيين نسبة إلى قحطان بن عاثر سكن القحطانيون اليمن وحضرموت وكانوا على جانب من الاستقرار والتحضر فقد عرفوا القليل من الزراعة والتجارة والصناعات اليدوية البسيطة.6
  ان کازمانہ حضرت ابراہیم (یعنی انیسویں صدی قبل مسیح) سے پہلے کا دور ہے۔ان کے مشہور قبائل عاد، ثمود، طسم، جدیس، جرہم اور عمالقہ تھے،چونکہ یہ صفحہ ہستی سےمکمل طور پر مٹادیے گئے اور کوئی عرب کا باشندہ اپنا نسب ان سے منسوب نہیں کرسکتا اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثرمؤرخین، اہلِ عرب کی اصل بیان کرتے ہوئے ان کا نسب عرب عاربہ (قحطانیوں) اور عرب مستعربہ (عدنانیوں) سے ملاتے ہیں۔ قحطانی، جنوبی عرب ہیں اور قحطان بن عابرکی نسبت سےقحطانی کہلاتے ہیں اور یہ یمن حضرموت کے خطوں میں آباد ہوئے۔ یہ قدرے مہذب اور ایک جگہ قیام پذیر ہوجانے والے لوگ تھے نیز زراعت، تجارت اور ہاتھ کی بنی معمولی مصنوعات بنانے کا کچھ علم رکھتےتھے۔

بائدہ کی تباہی کے اسباب

ان کے نیست و نابود ہونے کے اسباب واضح کرتے ہوئے مؤرخین اور ماہرین انساب کا خیال ہے کہ طسم اور جدیس ایسے دو قبیلے تھے جو باہمی خونریزی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جبکہ عاد اور ثمود شرک میں مبتلا ہونے اور اپنے رسولوں حضرت ہود اور حضرت صالح کی تکذیب پر ڈٹ جانے کی وجہ سے عذابِ الٰہی کی نذر ہوگئے۔عاد اور ثمود کا ذکر قرآن مجیدمیں کئی مقامات پر آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوب کی طرف احقاف نامی علاقےمیں رہنے والے عاد، ایک متمدن اور مہذب قوم تھے جو بڑے بڑے ستونوں والی عظیم الشان عمارتیں بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔ 7 قرآن کریم میں اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کی ہلا کت کے احوال کےبارے میں خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

  الْحَاقَّةُ 1 مَا الْحَاقَّةُ2 وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ 3كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ 4 فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ 5 وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ 68
  یقیناً واقع ہونے والی گھڑی، کیا چیز ہے یقیناً واقع ہونے والی گھڑی، اور آپ کو کس چیز نے خبردار کیا یقیناً واقع ہونے والی (قیامت) کیسی ہے، ثمود اور عاد نے (جملہ موجودات کو) باہمی ٹکراؤ سے پاش پاش کردینے والی (قیامت) کو جھٹلایا تھا، پس قومِ ثمود کے لوگ! تو وہ حد سے زیادہ کڑک دار چنگھاڑ والی آواز سے ہلاک کردئیے گئے۔

مذکورہ بالا آیات قرآنی میں قوم عاد و ثمود کے ہلاک ہونے کا سبب واضح انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قبائل عرب بائدہ میں سے تھے اور ان کی بستیاں اور روایات و اطواربعد میں آنے والے عرب باشندوں میں وراثت کے طور پر منتقل ہوئیں تھیں۔ 9 طبری کے بقول، جب قوم عاد وادی مغیث میں فنا ہوگئی تو قوم مہرہ شہر میں اس کی جانشین ہوئی۔ قوم عبیل وہاں جابسی جہاں بعد میں یثرب (مدینۃ الرسول ﷺ) آباد ہوا جبکہ عمالقہ صنعأ جاکر آباد ہوئے تھے تاہم یہ اس وقت کی بات ہے جب اس شہر کا نام بھی صنعأ نہیں پڑا تھا۔ مرور زمانہ کے بعد ان میں سے کچھ لوگوں نے یثرب جاکے وہاں سے قوم عبیل کو نکال دیا اور مقام جحفہ میں اقامت اختیار کرلی تھی۔ بعد میں ایک سیلاب آیا جو ان سب کو بہا کرلے گیا اسی وجہ سے اس علاقہ کا نام جحفہ پڑا تھا۔ قوم ثمود، مقام حجر اور اس کے مضافات میں آباد ہوئی تھی اور وہیں برباد بھی ہوئی۔ طسم اور جدیس یمامہ میں آباد ہوئےاور وہیں ہلاک بھی ہوئے۔امیم، شحر اور یمامہ کے درمیان مقام ِآبار میں آباد ہوئےاور وہیں ہلاک ہوئے۔طبری کے دور میں یہ مقام ویران تھا اور یہاں جنات غالب تھے۔ 10

تاریخ

عرب بائدہ کی تاریخی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نوح کے بعد اس خطے میں آباد ہونے والے اولین باشندے تھے۔ تاہم بعد میں عرب بائدہ سے تعلق رکھنےوالے قبائل نے عراق سے لے کر شام اور مصر تک اپنی سلطنتیں قائم کی تھیں نیز بابل اور اشور کی حکومت اور قدیمی تمدن کابانی بھی انہیں سمجھا جاتا ہے۔ عرب بائدہ سے مراد وہ قبائل اور خاندان ہیں جنہیں گردشِ لیل و نہار نے فنا کردیا تھا لیکن بعض مؤرخین کا خیال ہے قدیم عرب قبائل بالکل فنا نہیں ہوئے تھے بلکہ ان میں سے بعض کی نسل موجود ہے۔ عام طور پر عادِ اولیٰ، ثمود، طسم، جدیس، أمیم، جاسم، عبیل، عبد ضخم، جرہمِ اولی، عمالقہ اورحضورا کو امم بائدہ کہا جاتا ہے۔ 11عرب بائدہ حضرت ابراہیم کے عرب تشریف لانے سے بہت پہلے تباہ و برباد ہو کر فنا کے گھاٹ اتر چکی تھیں اس لیے ان کے دور کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم ان کی تاریخ حضرت ابراہیم سے قبل ہزاروں سال پر محیط ہے۔

عادِ بائدہ

طوفانِ نوح کے بعد عرب میں جو سب سے پہلی مقتدر اور حکمران قوم صفحہ تاریخ پر نمودار ہوئی کلامِ الہی میں اس کا نام قومِ عاد ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے عاد کو خلفائے قومِ نوح کہا ہے۔ انہیں عادِ بائدہ اور عادِ اولیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق، قومِ عاد حضرت نوح کے بیٹے سام کی اولاد میں سے ارم کی ایک نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین نے بھی ان کو ارم کی طرف منسوب کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ 6إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ 7 الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ 812
  کیا آپ نے نہیں دیکھا آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیا کیا؟، (جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے، جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا۔

مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قوم عاد کی عظمت و جلالت، سیاسی تفوق اور جسمانی قوت مسلّمہ تھی۔ قرآن پاک کے ایک اور مقام پر اسی بات کو ایک اور انداز سے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قوم عاد کا دعویٰ تھا کہ زمین پر ان سے زیادہ قوت و طاقت والا اور کوئی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ غرور و تکبراور سرکشی کی راہ پر چل نکلے اور اللہ رب العزّت کی واضح نشانیوں کا انکار کربیٹھے۔ قوم عاد کے اس دعوی کو بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ 1513
  پس جو قومِ عاد تھی سو انہوں نے زمین میں ناحق تکبر (و سرکشی) کی اور کہنے لگے: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے؟ اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اﷲ جس نے انہیں پیدا فرمایا ہے وہ اُن سے کہیں بڑھ کر طاقتور ہے، اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔

قومِ عاد خوبصورت اور بڑی عالی شان عمارتیں بنانے اور باغات لگانے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ اونچی جگہوں پر یادگاریں بناتے تھے نیز تفاخر اور فضول مشغلوں میں وقت برباد کرتے تھے۔ وہ تالابوں والے محلا ت بناتے تھے اور انہیں اس طرح مرقع و مرصع کرتے تھے کہ یہ گمان ہوتا تھا کہ شائد یہ یہاں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ جب کسی کی گرفت کرتے تو سخت ظلم و ستم سے پیش آتے تھے۔ ان کے یہاں اولاد کی شرح زیادہ تھی اور اسی طرح ان کے یہاں چوپایوں اور پالتو جانوروں کی بھی کثرت تھی۔ ان کی نصیحت کےلئے انبیائے کرام کو بھیجا گیا لیکن انہوں نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اور اس کے احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس کے رسول کی تکذیب کی جس کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا گیا۔14

قومِ عاد کا نسب و وطن

یہ عاد بن عوض بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد سے تھے اور انہیں عادِ اُولیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ 15 ان کی طرف اللہ تعا لیٰ نے حضرت ہود بن عبداللہ بن رباح بن الجلوو بن عاد بن عوص کو بطور نبی مبعوث کیا تھا۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِن کا نام ہود تھا اور یہ دراصل عابر بن شالخ بن ار فخشذ بن سام بن نوح تھے۔ 16 قوم عاد کا اصل وطن یمن اور اطرافِ یمن کا علاقہ بتایا جاتا ہے تاہم تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا اصل مسکن یمن میں احقاف نامی ایک وادی تھی جوشحر، عمان اور حضر موت کے درمیان واقع تھی۔ 17 لغوی معنیٰ میں احقاف صحرائی و ریگستانی علاقے میں واقع، ریت كے بلند و پيچ دار ٹيلوں کو کہتے ہیں اور اس سے غالباً الربع الخالی کا وہ کنارہ مراد تھا جو یمن کی مشرقی سمت میں واقع تھا اور اس کے جنوب میں حضرموت کا علاقہ تھا۔ قوم عادکے وطن الاحقاف کا قرانِ حکیم میں بھی ذکر موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

  وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ 21 18
  اور (اے حبیب!) آپ قومِ عاد کے بھائی (ہود ) کا ذکر کیجئے، جب انہوں نے (عُمان اور مَہرہ کےدرمیان یمن کی ایک وادی) اَحقاف میں اپنی قوم کو (اَعمالِ بد کے نتائج سے) ڈرایا حالانکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد (بھی کئی) ڈرانے والے (پیغمبر) گزر چکے تھے کہ تم اﷲ کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کرنا، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر بڑے (ہولناک) دن کا عذاب (نہ) آجائے۔

علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدی وادی ِ احقاف کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  عن ابن عباس أنھا واد بين عمان وأرض مهرة، وقال ابن إسحاق: الأحقاف: رمل فيما بين عمان إلى حضرموت، وقال قتادة: الأحقاف: رمال مشرفة على البحر بالشحر من أرض اليمن، قال ياقوت: فهذه ثلاثة أقوال غير مختلفة في المعنى.19
  حضرت ابن عباس نے فرمایا: الاحقاف ارض مہرہ اور عمان کے درمیان ایک وادی ہے۔اسحاق نے کہا کہ احقاف عمان اور حضرموت کے درمیان ریگستان ہےجبکہ قتادہ نے کہا کہ احقاف یمن کی سرزمین کے علاقہ شحر کے ساحلی جانب کا ریگستان ہے اوریاقوت حموی نے کہا ان تینوں اقوال میں معنوی اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے(یعنی تینوں ایک ہی خطے کی طرف اشارہ کررہے ہیں)۔

تاریخ

قوم عاد کے پہلے حاکم کا نام عاد تھا جسے خطہِ عرب کاپہلابادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ عادکو طویل عمر اور کثیر اولادنصیب ہوئی۔اس کے بعد اس کی اولاد میں شدید،شدّاداورارم بادشاہ ہوئے۔ شدادنے عدن کےصحرا میں شہرِارم تعمیر کرایا اوراس کی عمارتوں کوسونے اوریاقوت وزبرجد کےستونوں سےآراستہ کیا۔وہ اس شہرکے اوصاف اور خوبیوں کی وجہ سے اس قدر متکبروگمراہ ہو گیا کہ اس نے اس شہر کو ہی جنت قرار دیا۔کچھ مؤرخین کے نزدیک اس شہرارم کابانی ارم بن عاد ہے تاہم ابن خلدون کے مطابق ارم نامی کوئی شہر ہی نہیں ہے کیونکہ فرمان باری تعالی میں مذكور(إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ)ارم ایک قبیلہ کا نام ہےنہ کہ شہرکا۔ 20 تاہم قبیلہ کے نام پر شہر کا نام ہونا بھی بعید ازقیاس نہیں ہے۔

المسعودی کے مطابق جیرون بن سعد بن عاد، قوم عاد کے ان بادشاہوں میں سےتھاجنہوں نےشہردمشق کانقش مرتب کرکےاسے آبادکیاتھا۔ پتھر اورسنگ مرمرکےستونوں کوجمع کرکےاس شہر کو تعمیر کیااور اس کانام ارم رکھا اسی لئےشہر ِدمشق کے دروازوں میں سےایک کانام باب جیرون ہے۔ 21 پھر جب سلطنت عادمیں جاہلیت اور اس کی دعوت عام ہوناشروع ہوئی اوران کی گمراہی وتکبرعروج پرپہنچاتوانہوں نے پتھرولکڑی سےبنے مجسموں، بتوں اورمورتیوں کی عبادت و پرستش شروع کردی۔ تب اللہ تعالی نے ان کی رہنمائی کےلئے حضرت ہود کوخوشخبری اوروعیدسنانےوالابناکربھیجا۔ المسعودی وطبری نے ان کانام ہود بن عبد اللہ بن رباح بن الخلود22 بن عاد23ذکرکیاہے۔ اس زمانہ میں ان کےبادشاہ الخلجان، لقمان بن عاد بن عادیابن صدابن عادتھے، پس لقمان اوران کی قوم ہود پرایمان لےآئےجبکہ خلجان نے ان کاانکارکیا۔ اللہ تعالی نے تین برس تک ان سےبارش کوروک لیاتو انہوں نے اپنی قوم کےوفود استسقاء کےارادہ سےمکہ بھیجےجن میں لقمان بن عاداورمرثدبن سعدبن عنزبھی تھے۔یہ دونوں حضرت ہود کے ماننے والوں میں سے تھے اور ان کےپیروکار تھے لیکن یہ اپنےوفودسے پیچھےرہ گئے۔وفدنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عاجزی کےساتھ دعائےاستسقاءکی تو اللہ تعالی نے بادل پیدافرمادیےاور ان کوپکاراگیاکہ ان میں سےبادلوں کاانتخاب کرلو،انہوں نے سیاہ بدلیوں کوچنا اور انہیں ان بدلیوں کےعذاب سےآگاہ کردیاگیا۔پس وہ بدلیاں ان کی قوم کی طرف گئیں اوروہ ہلاک ہوگئے۔قرآن مجیدمیں اس کا ذکر موجود ہے۔ 24 طبری کی روایت میں ہےکہ وفد جب لوٹ رہاتھاتو معاویہ بن بکرکےپاس سےگزراتب وہاں انہیں اپنی قوم کی ہلاکت کی خبر ملی جبکہ حضرت ہود ساحل سمندرپرہی تھے۔ان کا بادشاہ خلجان ہواسےمرنےوالوں میں شامل تھا۔ یہ ہوا انسانوں کونیچےسےاٹھاکرپہاڑوں تک لےجاتی اورٹکڑے ٹکڑےکرڈالتی تھی۔درختوں کو جڑسےاکھاڑپھینکتی اورگھروں کو پلٹ دیتی تھی جس کے نتیجے میں سب کےسب ہلاک ہوگئے۔المسعودی کہتے ہیں کہ عبیل عاد بن عوص کے بھائی تھے جن کا وطن مکہ ومدینہ کےدرمیان الجحفہ نامی علاقے میں تھا تاہم انہیں سیلاب نے ہلاک کردیاتھا۔25 انہی میں سے ایک شخص نے یثرب کوآبادکیاتھا جس کا نام یثرب بن بائلہ بن مہلہل بن عبیل تھاتاہم السہیلی نے لکھاہےکہ جس شخص نے یثرب کوا ٓباد کیاوہ عمالیق میں سےیثرب بن مہلایل 26بن عوص بن عملیق تھا۔ 27

مذکور ہ بالا تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قوم ِعاد عرب ِبائدہ سے تعلق رکھنے والی اولین اقوام میں سےتھی جسے اللہ کےنبی کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب نازل کرکے نیست و نابود کردیاگیا تھا۔ ان میں سے صرف وہی لوگ عذاب سےبچ سکے تھےجنہوں نے اپنے نبی کی پیروی کی تھی اور ان پر ایمان لے آئے تھے۔

مذہب

نوح کے بعد کافی عرصہ تک انسان توحید پر قائم رہے پھر قوم عاد میں سے کچھ لوگ بت پرستی کی طرف مائل ہوگئے۔یوں یہ قوم طوفانِ نوح کے بعد بت پرستی میں مبتلا ہونے والی سب سے پہلی قوم تھی۔ابن کثیر لکھتےہیں:

  أنھم أول الامم الذين عبدوا الأصنام بعد الطوفان. 28
  بلاشبہ دیگر اقوام میں یہی(عاد) وہ پہلےلوگ ہیں جنہوں نےطوفان کے بعد بتوں کی پرستش کی۔

ابن کثیر کے مطابق قوم عاد ،تین بتوں کی پوجا کرتی تھی جن کے نام صدا، صمودا اور ھراتھے۔ 29قوم عاد کو راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ان کے درمیان حضرت ھود کو مبعوث فرمایا لیکن حضرت ھود کی قوم حقیقت پسندی اور تحقیق و جستجو کے میدانوں سے دورہو کر توہم پرستی کا شکار ہو چکی تھی یوں کچھ ہی عرصے میں ان کےمزاج میں بت پرستی جڑیں گاڑ ھ چکی تھی۔بعد میں آنے والے اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید پر ڈٹ گئے تھے اور اس کے خلاف کوئی بات سننے کےلئے تیار نہ تھے۔ آپ نے اپنی قوم کے سامنے معجزات بھی پیش کئے مگر وہ کسی دلیل کا کوئی اثر قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔30 وہ بت پرست لوگ تھے۔ ہود نے ان کو اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دی اور کہا کہ اللہ کے سواکسی اور کو مت پوجو اور لوگوں پر ظلم نہ کرو مگر انہوں نے حضرت ہود کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہ بڑھک ماری کہ ہم سےزیادہ قوت والا کون ہو سکتا ہے؟ ان میں سے بہت ہی تھوڑے لوگ ایسے تھے جوحضرت ہود پر ایمان لائے تھے۔31

قرآن حکیم میں قوم عاد کا ذکر

قرآن پاک کی دس سورتوں، سورۃ الاعراف،سورۃالہود،سورۃالمؤمنون،سورۃ الشعراء،سورۃ الفصّلت،سورۃ الاحقاف،سورۃ الذاریات، سورۃ القمر، سورۃ الحاقہ اورسورۃ الفجر میں قوم عاد کاذکرہے جن میں ایک طرف مختلف پہلوؤں سے قوم عاد کی تعمیر ات کے شعبےمیں مہارت کا ذکر کیا گیا ہے جب کے دوسری طرف ان کی نافرمانیوں اور ان کی وجہ سے ان پر آنے والے دردناک عذاب کا ذکر کیا گیاہے۔

قوم ِ عاد،قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور طاقتور ترین حکومت قائم کرنے والی پہلی قوم تھے۔وہ اپنے دورِ عروج میں جزیرہ نماعرب کے بیشتر حصّوں پر اقتدارقائم کر چکےتھے اور اس پورے خطےکی سب سے طاقتور اورزبردست قوم سمجھے جاتے تھے۔ ان پر اللہ کی نعمتوں کی کثرت اور فراوانی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 69 32
  کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے، اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد (زمین پر) جانشین بنایا اور تمہاری خلقت میں (قد و قامت اور) قوت کو مزید بڑھا دیا، سو تم اﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔

قران ِ حکیم میں قوم عاد کے نبی حضرت ہود کی زبانی اہلِ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے ،ان کے فن تعمیرکی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ بلند و بالا مقامات پر وسیع و عریض عمارتیں اور محلات بنایا کرتے تھے۔ قرانِ حکیم میں ارشاد ہے :

  أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ 128 وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ 12933
  کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار تعمیر کرتے ہو (محض) تفاخر اور فضول مشغلوں کے لیے، اور تم (تالابوں والے) مضبوط محلات بناتے ہو اس امید پر کہ تم (دنیا میں) ہمیشہ رہو گے۔

قوم ِ عاد کے فنِ تعمیراور بلند و بالا ستونوں والی عمارتوں کا ذکر قرآن مجیدمیں ایک اور مقام پر یوں ملتا ہے:

  أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ 6 إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ 7 الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ 834
  کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیسا (سلوک) کیا؟، (جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے، جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا۔

یہ فن تعمیرات میں ان کی غیر معمولی مہارت کا ثبوت ہے کہ کلام ِ الہی میں بھی ان کا ذکر اسی حوالےسے کیا گیا ہے تاہم تمام دنیاوی علوم و فنون میں اپنے زمانے کے حساب سے تمام تر مہارت رکھنےکے باوجود یہ قوم سرکشی سےباز نہ آئی اوریوں ہلاک ہوئی کہ ان کے گھر تک مسمارکردیےگئے اور ان کے آثار کو بعد والوں کےلئے نشان ِ عبرت بنا دیا گیا۔ جب یہ لوگ جادۂ حق سے ہٹ گئے تو بت پرستی جیسے قبیح فعل کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی خواہشوں کےپیروی اور اتباع شروع کردی تھی جس وجہ سے تمام ترمذموم اور قابل ِ نفرت اعمال وافعال کا ارتکاب کرنے لگےتھے۔ان کی نافرمانی اور سرکشی جب عروج پر پہنچ گئی توحضرت ہود کو اس بھولی بھٹکی ہوئی قوم کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا لیکن تکبروغرور میں مست اس قوم نے مصلحِ قوم کی نصیحتوں کی چنداں پرواہ نہ کی بلکہ تمسخراور استہزاء کے ساتھ یوں گویا ہوئے:

  قَالُوا يَاهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ 53 إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ 5435
  وہ بولے: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لیکر نہیں آئے ہو اور نہ ہم تمہارے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ ہی ہم تم پر ایمان لانے والے ہیں، ہم اس کے سوا (کچھ) نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تمہیں (دماغی خلل کی) بیماری میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہود( )نے کہا: بیشک میں اﷲ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان سے لاتعلق ہوں جنہیں تم شریک گردانتے ہو۔

مندرجہ بالا آیات کے علاوہ ، قران ِ حکیم میں مزید کئی مقامات پر قوم عاد کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کی احوال و متکبرانہ روش پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب انہوں نے اپنی طرف مبعوث ہونے والے نبی کی دعوت کو ٹھکرایا اور اللہ کی نافرمانی پر اڑے رہے اور حضرت ہود انہیں حق کی دعوت دیتے دیتے تھک کران کی اصلاح سے مایوس ہوگئے تب اللہ نے ان پر عذاب نازل فرمایا۔

قوم عاد پر عذا ب

جب قوم ِعاد نے حضرت ہود کی تکذیب کی تو ان پر متواتر قحط کے طویل ادوار آئے۔ جب ان پر مصیبت حد سےبڑھ گئی تو انہوں نے اپنے قاصد مکہ بھیجے کہ وہاں جا کر بارش کی دعا کریں۔ان قاصد وں میں قیل بن عیر،لقیم بن ہزال اور مرثد بن سعد جو ایمان لے آیا تھا مگر اسے ظاہر نہیں کیاتھا اور جہلہ بن الخبیری معاویہ بن بکر کاماموں اور لقمان بن عاد بن فلان بن عاد اکبر شامل تھے اور یہ کل70 افراد تھے۔ جب وہ مکہ آئے، تو معاویہ بن بکر کے پاس ظاہر مکہ36 میں ٹھہرے۔ معاویہ نے ان کی بڑی تعظیم کی کیونکہ وہ اس کے ماموں بھی تھے اور دامادی کا بھی تعلق تھا۔ لقیم بن ہزال کی شادی ہنزیلہ بنت بکر معاویہ کی بہن سے ہوئی تھی جس سے بچے بھی تھے جو اپنے ماموں معاویہ کے پاس رہتے تھے۔ ان کے نام عمید، عمر و ، عامر اورعمیر تھے۔یہ سب لقیم کے بیٹے تھے اور انہیں ہی عادِثانی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عاد اولیٰ کی تباہی کے بعد ان کی نسل سے باقی بچ جانے والے افراد تھے۔بارش کی دعا کےلئے مکہ جانے والے قوم ِ عاد کےتمام افرادمعاویہ کے پاس ٹھہرے رہے اور شراب نوشی و کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرتےرہے۔معاویہ کی دو لونڈیا ں انہیں گیت سناتی تھیں جن کو سن کر یہ مزید بد مست ہو جاتے تھے۔ اسی طرح جب ان کو ایک مہینہ گزر گیا تو معاویہ کو احساس ہوا کہ یہ لوگ تو ظاہر ِمکہ میں آکر پڑ گئے تھےاور جس کام کے لیے بھیجے گئے تھے اسے بھلا بیٹھے تھے تو اسے پریشانی لاحق ہوئی اوراُس نے سوچاکہ اس طرح تو اُس کے ماموں ہلاک ہو جائیں گے تاہم یہ بھی ایک مسئلہ تھا کہ وہ ماموں سے کس طرح کہے کہ وہ جس اہم کام کےلئے آئے ہیں اس کےلئے مکہ جائیں اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اس نے اپنی لونڈیوں سے اس مسئلے کا ذکر کیا توانہوں نے مشورہ دیا کہ کچھ شعر کہہ دو، وہ ہم انہیں سنادیں گی اور انہیں شاعر کا بھی علم نہیں ہوگا اور ممکن ہے اس سے ان کو اپنے مقصد کابھی خیال آجائے۔ معاویہ نے مندرجہ ذیل اشعار کہے:

  الا یاقیل ویحک قم فھینم
لعل اللّٰه یصبحنا غماما
فیقی ارض عاد ان عاد
قد امسوا الا یبیون الکلاما 37
  اے قیل تیرا بھلا ہوا۔ اٹھ کر دعا مانگ کہ شاید اللہ تعالیٰ ہم پر پانی برسائے جس سے بنی عاد کی زمین سیراب ہو جائے کیونکہ بنی عاد کی حالت ایسی ہو رہی ہے کہ پیاس کی شدت سے ان کے منہ سے بات نہیں نکلتی۔

اس کے سوا اور بھی اشعار تھے۔ جب یہ اشعار لونڈیوں نے ان کو گاکے سنائے تو انہوں نےآپس میں ایک دوسرے سےکہا کہ ہمیں ہمارے لوگوں نے اس لیے بھیجا تھا کہ جو مصیبت نازل ہوئی ہے ہم اس سے نجات کے لیے دعا مانگیں پر ہم نے دیر کر دی ہے۔ اب ہمیں چاہیےکہ حرم میں داخل ہوں اور اپنی قوم کے لیے پانی برسنے کی دعا کریں۔ یہ سن کر مرثد بن سعد نے ان سے کہا کہ تمہاری دعا سےتمہاری قوم پر مینہ نہیں برسے گا لہذا تمہیں چاہیے کہ اپنے نبی کی اطاعت کرو تب تمہیں پانی ملے گا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا اسلام ظاہر کر دیا۔ یہ دیکھ کر معاویہ کے ماموں جلہمہ بن الخبیری نے معاویہ بن بکر سے کہا کہ مرثد بن سعد کو قید کر کے رکھو اورہمارے ساتھ مت جانے دینا۔ 38

پھر یہ لوگ نوا ح ِمکہ سے نکلے کہ بنی عاد کے لیے بارش کی دعا کر یں۔ اللہ تعالیٰ نےبادل کے سفید ، سرخ ، سیاہ تین ٹکڑے بھیجے اور ان میں سے ایک منادی کرنے والے کی آواز آئی : اے قیل!تو اپنے اور اپنی قو م کے واسطے ان تینوں بادلوں میں سے ایک بادل کےٹکڑے کو پسند کرلے۔قیل نے کہا کہ میں سیاہ بدلی لیتا ہوں کیونکہ ایسے بادل سے بہت پا نی برسا کرتا ہے۔اس پر ندا آئی کہ تونے بھاری مصیبت کو اختیار کیا ہے۔ اب قوم ِعاد کا کوئی آدمی باقی نہ رہے گا۔نہ بیٹا بچے گا نہ باپ۔ سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اورصرف بنی لوذ یہ نجات پائیں گے جن کو ہدایت نصیب ہو ئی ہے۔39

بنی اللوذیہ سے مراد بنی لقیم ہیں جو ظواہر مکہ میں اپنے ماموں معاویہ بن بکر کے پاس تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سیاہ بادل کے ٹکڑے کو قوم عاد کی طرف بھیجا اور وہ ان کے اوپر ایک وادی سے ہوتا ہوانمودار ہوا۔ مغیث کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اسے دیکھا تو آپس میں ایک دوسرے کو بشارت دینے لگے اور خوش ہوگئے کہ یہ بادل ان پر برسے گا۔ قران حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

  فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ 2440
  پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے، (ایسا نہیں) وہ (بادل) تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ (یہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب (آرہا) ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے اس بادل میں چھپی مہلک ہوا کو بھانپا وہ قوم ِعاد کی ایک عورت تھی جس کے نام کا تلفظ مہدد 41 یا فہدد تھا۔42جب اس نے بادلوں کو دیکھا تو ایک چیخ ماری اور بےہوش ہو گئی، پھر جب ہوش میں آئی تو لوگوں نے پوچھا کہ تو نے کیا دیکھا؟ بولی کہ میں نے اس میں ایسی ہو ا دیکھی ہے جس میں آگ کے شعلے ہیں او رانہیں آگے آگے مرد کھینچے چلتے ہیں۔ 43 جب وہ آگے بڑھے ، تو خلجان کے چند لوگوں نے کہا کہ آؤ وادی کے کنارے پر چل کر کھڑے ہو جائیں اور اس آندھی کو لو ٹا دیں۔ مگر وہ آندھی ان میں سے ہر ایک کو اٹھا اٹھا کر پھینک دیتی او ر اس کی گردن توڑ دیتی تھی تاہم صرف خلجان باقی رہ گیا جوپہاڑ کی طرف چلا گیا اور بولا :

  لم يبق إلا الخلجان نفسه
يا لك من يوم دهاني أمسه
بثابت الوطء شديد وطسه
لو لم يجئني جئته أجسه.44
  خلجان کی ذات کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا افسوس اس دن پر کہ جس کی کل نے مجھے مصیبت میں پھنسایا۔ اس دن کی گرفت بہت ہی سخت ہے۔ کیا اچھا ہوتا جو یہ دن مجھ پر نہ آتا مگر کیا کیجئے میں خود اس کے پاس آگیا۔

یہ سن کر حضرت ہود نے اس سے کہا کہ اگر وہ ایمان لے آئے تو بچ جائے گا۔ اس نےکہا کہ اگر میں ایمان لےآوں تو مجھے کیا ملے گا ؟حضرت ہود نے فرمایا کہ جنت۔ اس نےپوچھا کہ بادل میں وہ بختی اونٹوں کی طرح کون دکھائی دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایاکہ فرشتے۔ کہاکہ اگر میں ایمان لے آو ں تو کیاتیرا رب مجھے ان سے بچا دے گا ؟ حضرت ہود نے فرمایا کہ کیا کوئی بادشاہ کسی کو اپنے لشکر سے نہیں بچا تا؟اس نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرے بھی اور مجھے بچا بھی لے تب بھی میں تیرے دین سے راضی نہیں ہوں۔ تب ہوا آئی اور اسے بھی اس کے لوگوں کے پاس پہنچا دیا۔ 45یہ عذاب آندھی کی صورت میں آیا تھا اور یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلسل چلتی رہی۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

  وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ6 سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ 746
  اور رہے قومِ عاد کے لوگ! تو وہ (بھی) ایسی تیز آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے جو انتہائی سرد نہایت گرج دار تھی، اللہ نے اس (آندھی) کو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلّط رکھا، سو تُو ان لوگوں کو اس (عرصہ) میں (اس طرح) مرے پڑے دیکھتا (تو یوں لگتا) گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کی کھوکھلی جڑیں ہیں۔

قوم ِ عاد کے لوگ ایسے تباہ ہو گئے کہ ان کے گھروں کے سوا اور کوئی چیز باقی نظر نہیں آتی تھی۔اس سے پہلے کبھی ایسا سننے میں نہیں آیا تھا کہ آندھی اس حدتک بڑھ گئی ہوکہ سب کچھ اُڑا کر رکھ دے مگریہ ہولناک آندھی اپنی شدت میں اس قدر تیز تھی کہ بڑے بڑے درختوں کو جڑوں سے اکھیٹر ڈالتی تھی اور گھروں کو گرا دیتی تھی جس سے گھر والے ان میں دب کر ہلاک ہوجاتے تھے۔ اگرچہ یہ بڑے بڑے ڈیل ڈول والے مضبوط لوگ تھے لیکن اس آندھی نے قوم ِعاد میں سے کسی آدمی کو زندہ نہ چھوڑا۔عذاب الہٰی کی صورت میں آنے والی آندھی کے گزرجانے کے بعدیہ لوگ کھجور کےکھوکھلے تنوں کی طرح اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔یہ ہوا قوم ِ عاد کےا ن مسافروں پر بھی ہو کر گزر ی جو اس وقت سفر کی وجہ سے کسی بھی دوسری جگہ موجود تھے۔اس ہوا نے پتھروں سےٹکرا ٹکرا کر ان کے دماغ پاش پاش کر دیے۔قوم عاد کے قاصد معاویہ بن بکر کے پاس لوٹ کر آئے اور اس کے پاس ٹھہرے۔ وہاں ان کے پاس ایک ناقہ سوار آیا او ر خبر دی کہ عاد کے اوپر شدیدمصیبت پڑی اور حضرت ہود بمع اپنےمتبعین کے اس سے بچ گئے ہیں۔47 اس عذاب الہی سے حضرت ہود اور ان کے ہمراہ مومنین ایک حظیرہ 48 میں پناہ گزیں ہوئے اوربچ گئے یوں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو کوئی ضرر نہ پہنچا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُودًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَنَجَّيْنَاهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ 5849
  اور جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا (تو) ہم نے ہود ( ) کو اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو اپنی رحمت کے باعث بچا لیا، اور ہم نے انہیں سخت عذاب سے نجات بخشی۔

اس شدید ترین عذاب سے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والے محفوظ رہے جبکہ منکرین ومخالفین تباہ و برباد ہو گئے۔یوں یہ قوم اللہ کی نافرمانی اور غرور و تکبر میں مبتلا ہو کر عذاب کا شکار ہو ئی اور صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والے مومن بندوں کو عذاب سے محفوظ رکھا تھا۔ یہ لوگ زندہ رہے اور پھلے پھولے۔ یہی وہ لوگ تھے جو عاد ثانیہ بھی کہلائےکیو نکہ قوم عاد کو دو طرح سےتقسیم کیاگیا ہے جس کا ماخذ خود قرا ٓن مجیدہے کہ اس میں تباہ ہونے والوں کو عاد اولیٰ کہا گیاہے:

  وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَى 5050
  اور یہ کہ اسی نے پہلی (قومِ) عاد کو ہلاک کیا۔

اس سے واضح ہوا کہ ہلاک ہونے والی قوم "عاد اولی" تھی جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قومِ عاد دوا قسام میں منقسم ہوئی،اولیٰ ہلاک ہوئی اور بچ جانے والی "عاد ثانیہ"ہوئی۔عاد ثانیہ درحقیقت عاد اولی ہی کے جانشین تھے جو بعد مرور ایام تاریخ میں متعارف ہوئے۔

ثمودِ بائدہ

قوم ثمود بھی سامی اقوام کی ایک شاخ ہے۔51ثمود ثمد سے مشتق ہے،ا س کا معنی پانی کی بہت کم مقدار ہے۔اس حوالے سے ابو موسی مدینی لکھتے ہیں :

  ثَمُود: وهو مُشتَقٌ من الثَّمَد وھو الماء القلیل.52
  ثمود ثمد سے مشتق ہے اور اس کا معنی قلیل پانی ہے۔

عادِ اولی کی ہلاکت کے وقت جو ایمان والے حضرات ہود کے ساتھ بچ گئے تھے یہ قوم ان ہی کی نسل سے ہے اسی لئے اس کو عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ 53

قوم عاد کے بعد قوم ثمود کو شہرت اور سیاسی جانشینی حاصل ہوئی اور یہ بھی قوم عاد ہی کی طرح قوت وطاقت، شان وشوکت،جاہ ومنصب اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والے لوگ تھے اور انہیں ہی قرآن مجید نے قوم عاد کا جانشین بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

  فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا إِنَّ رَبِّي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ57 54
  پھر بھی اگر تم روگردانی کرو تو میں نے واقعتاً وہ (تمام احکام) تمہیں پہنچا دیے ہیں جنہیں لے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا ہوں، اور میرا رب تمہاری جگہ کسی اور قوم کو قائم مقام بنا دے گا، اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے، بیشک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:

  وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ 74 55
  اور یاد کرو جب اس نے تمہیں (قومِ) عاد کے بعد (زمین میں) جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں سکونت بخشی تم اس کے نرم (میدانی) علاقوں میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر (ان میں) گھر بناتے ہو، سو تم اﷲ کی (ان) نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

  وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ 14956
  اور تم (سنگ تراشی کی) مہارت کے ساتھ پہاڑوں میں تراش (تراش) کر مکانات بناتے ہو۔

قرانی آیات سے واضح ہے کہ قوم ثمود،قوم ِ عاد کے بعد جانشین بنائی گئی تھی ا ور انہیں کئی طرح کی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا جن میں فنِ تعمیر میں مہارت کی صلاحیت سر فہرست تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی طویل عمر یں دیں تھیں یہاں تک کہ ان میں بعض پتھر کے مکان بناتے تھے تووہ مکان ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے مگریہ لوگ زندہ رہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی عمروں کا یہ طول دیکھاتو انہوں نے از راه تفنن پہاڑوں میں اس طرح رہائش اختیار کی کہ ان پہاڑوں کوتراش کر گھر تیار کر لیے۔ یہ لوگ بڑے عیش وعشرت میں رہتے اور آسودہ حالی اور فارغ البالی سے زندگی بسر کرتے تھے۔57

قوم ثمود کی فن تعمیر میں مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انتہائی دشوار گزار پہاڑی چٹانوں کو کاٹ کراپنے گھروں کی تعمیر کرتے تھے۔چٹانوں کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کو بھی تراش لیتے اور رہنے کےلیے جائے مسکن بنادیا کرتے تھے اور یہی ان کی شہرت کی ایک اہم ترین وجہ تھی۔ 58

مساکن

قوم ِثمود وادی القریٰ کے ان حصوں میں آباد تھے جن میں اب حِجر، عَلا اور تبوک کے شہر موجودہیں۔59 حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ تک جو میدان نظرآتا ہے یہ سب الحجر تھا تاہم آج کل یہ جگہ " فج الناقۃ" کے نام سے مشہور ہے۔قومِ ثمود کی بستیوں کے کھنڈرات اور آثار آج تک موجود ہیں اور محققین ان پر تحقیق کررہے ہیں۔ان کی بنائی ہوئی عمارتیں فن ِ تعمیر کا شاہکار تھیں۔ پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی ان عمارتوں میں متعدد کمرے اور ایک بڑا حوض بھی بنایا جاتا تھا۔60

قوم ثمود جزیرۃ العرب کے شمال مغربی حصہ میں اس مقام پر آباد تھے جہاں عہدِ قدیم میں بہت سی چھوٹی آبادیاں تھیں اوراسی لئے اس کو وادی القریٰ کہتے ہیں۔ اور اب "مدائن صالح" کے نام سے پہچانا جاتاہے۔61یہ وادی اب بھی مدینے اور شام کے درمیان موجود ہے اورسورۂ فجر میں وادی سے غالباً یہی وادی مراد ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ 962
  اور ثمود (کے ساتھ کیا سلوک ہوا) جنہوں نے وادئ (قری) میں چٹانوں کو کاٹ (کر پتھروں سے شہر تعمیر کر) ڈالا تھا۔

اس آیت کریمہ میں وادکے معنی کو بیان کرتے ہوئے صاحب روح المعانی تحریر فرماتےہیں:

  والمراد ھنا ھو وادى القرى بالقرب من المدینةالشریفة من جھةالشام. 63
  یہاں اس آیت کریمہ میں مراد وہ وادی قری ہے جو شام کی سمت میں مدینہ منورہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ہے۔

شیخ احمد مغنیہ قوم ِثمود کا وطن حجر اور وادی القریٰ کو قرار دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  فكانت ديارهم بالحجر ووادي القرى فيما بين الحجاز والشام...وفي بعض الروايات أن النبي مر على بيوتھم في غزوة تبوك ونھى عن دخولها.64
  ان (اہلِ ثمود) کا وطن حجازوشام کےدرمیان حِجراوروادی القری میں تھا۔۔۔ بعض روایات میں ہےکہ غزوۂ تبوک کے موقع پرحضورنبی اکرمﷺ قوم ثمودکےگھروں کےپاس سےگزرےتوآپﷺ نےاصحاب کو ان گھروں میں داخل ہونےسےمنع فرمایا۔

مندرجہ بالا روایت بھی یہ واضح کرتی ہےکہ ثمود کا مسکن (یثرب) مدینۃُ النبی ﷺ قسےجاتے ہوئےتبوک اور شام کے راستے میں پڑتا تھا۔ احمد امین سلیم قوم ثمودکے مساکن واماکن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  وقد وردت اشارات عنھم في الشعر الجاهلي وتكاد تجمع الكتب العربية على أن ثمودا إنما كان مقامها بالحجر إلى وادي القرى بين الحجاز والشام، على أن ارتباطها بعاد يقتضي تقاربھما في المكان، ولذا ذهب الأخباريون إلى أن ثمودا إنما كانت باليمن قديما، فلما ملكت حميرا أخرجوها إلى الحجاز، ولقد أثبتت الدراسات الحديثة أن الثموديين قدا عاشوا في شمال الجزيرة العربية منذ أعماق التاريخ .65
  شعرجاہلیت میں ان کےمتعلق اشارےموجودہیں اورعربی کتب تاریخ کا اس پر تقریبا ً اتفاق نظر آتاہےکہ قوم ثمودکامقام سکونت حجازوشام کےمابین وادی القری میں حجرکامقام تھاکیونکہ ان کاقوم عادکےساتھ مرتبط ہونا ان دونوں کےمکانی اعتبارسےبھی قریب ہونےکامتقاضی ہے،اسی لیے مؤرخین کاخیال ہےکہ قوم ثمود زمانہ قدیم سےیمن میں آبادتھی مگرجب حِمیَر نےبادشاہت قائم کی توان کو حجازکی طرف نکال دیا۔ جدید تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ قوم ثمود جزیرہ عرب کےشمال میں عرصہ دراز سےسکونت پذیرتھی۔

خلاصۃ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قوم ِ ثمود ابتدائی طورپر یمن میں سکونت پذیر ہوئی تاہم بعد کے ادوار میں جب قومِ حِمیَر کی بادشاہت قائم ہوئی تو انہوں نے قوم ثمود کوان کے آبائی وطن سے باہر نکال دیا اور یہ پھر حجازکی طرف آنکلے اور حجازوشام کےمابین وادی القری میں حجرکے مقام پر اپنی بستیاں آباد کیں۔قومِ ثمود کا دارالحکومت مقام ِحجرتھا جو حجاز سے شام کو جانے والی قدیم شاہراہ پرواقع تھانیز اس دارالحکومت کے راستے پرہی ثمود کا ایک دوسرا اہم مقام"فَجُّ النَّاقَۃ" تھا لیکن مرکزی شہر حجر ہی تھاجس کو اب عموماً مدائنِ صالح کہتے ہیں۔66اس وادی القریٰ نامی علاقے میں عہدِ قدیم سےچھوٹی چھوٹی بہت سی آبادیاں تھیں شاید اسی لیے اس کو وادی القریٰ کہتے تھے۔ یہ وادی اب بھی مدینہ اور شام کے درمیان موجود ہے۔ قومِ ثمود کی آبادیوں کے حجری آثار،کھنڈرات اور آثار قدیمہ کے متعلق مسلمان جغرافیہ دانوں نے بھی کافی لکھا ہے نیز یہ آثار آج بھی سوچنے سمجھنے والوں کےلئے نشانِ عبرت ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام کا نسب اور ان کی بعثت

ابن خلدون نے حضرت صالح کا نسب صالح بن عبيل بن اسف بن شالخ بن عبيل بن كاثر بن ثمود لکھا ہے 67 جبکہ امام بغوی ان کے نسب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

  وهو صالح بن عبيد بن آسف بن ماسح بن عبيد بن خادر بن ثمود. 68
  وہ صالح بن عبید بن آسف بن ماسخ بن عبید بن خادر بن ثمودہیں۔

حضرت صالح کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم ثمو د کی جانب اس و قت مبعوث فرمایا تھا جب یہ بہت شدت سے کفر و نافرمانی کا ارتکاب کرنے لگےتھےاور انہوں نے خدائے واحد کو چھوڑ کر مظاہر قدرت اور اجرام فلکی کی پرستش شروع کردی تھی۔حضرت صالح کی بعثت کو قرآن مجید نے مختلف مقامات پر مختلف اسالیب سے بیان کیا ہے۔سورۃ ھود میں ارشادِ ربانی ہے:

  وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ 6169
  اور (ہم نے قومِ) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح ( ) کو (بھیجا)۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور اس میں تمہیں آباد فرمایا سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔

حضرت صالح قوم ثمود میں تقریباً 20سال تک تبلیغ فرماتے رہے70اور انہیں توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے مگر چند لوگوں کےسوا اِن پر کوئی ایمان نہ لایا۔ جب حضرت صالح نے ان کے سامنے ہدایت پیش فرمائی ، انہیں خوف دلایا، الله کی وحدانیت پر ایمان کی دعوت دی اور کہا کہ اس کے سوا کسی کو مت پو جو تو ان لوگوں نے کہا کہ اےصالح! تجھ سے تو ہمیں پہلے بڑی امیدیں تھیں لیکن تو ہمیں بت پرستی سے منع کرتا ہے جس کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھےاور جس توحید کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے یقینا اس کے بارے میں ہم اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں۔71 انہوں نے صالح سے اپنی نبوت کی کوئی نشانی دکھانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر تمہارے خدا نے تمہاری بات سن لی تو ہم تمہاری اطاعت کریں گے۔72

اتمام ِمطالبہ

ان سرکش و نافرمان لوگوں کے ایک سردار نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کیا اور حضرت صالح سے کہاکہ اس چٹان سے جو کہ ایک طرف الگ تھلگ موجود ہےہمیں ایک زندہ جیتی جاگتی اونٹنی نکال کر دکھاؤ جو کہ نہ صرف بہت بڑی ہوبلکہ حاملہ بھی ہو،اگر تم ایسا کرو گے تو ہم تمہیں سچا تسلیم کرلیں گے۔ حضرت صالح نے ان سےاپنی بات پر قائم رہنے کا وعدہ لیا اور پھر اس چٹان کے پاس آئے اوروہاں نماز پڑھ کر اللہ رب العالمین سے دعا مانگی تو یکایک اس چٹان میں اضطراب پیدا ہوا۔ پھر وہ پھٹ گئی اور اس کے اندر سے جیسے وہ چاہتے تھے، ان کی آنکھوں کے سامنے، ایک اونٹنی باہرنکل آئی جوبڑےڈیل ڈول کی تھی۔اس اونٹنی نے ان کے سامنے ایک بچہ بھی دیاجسے دیکھ کر ان کا سردار جس کا نام جندع بن عمرو تھا اور اس کے ساتھ کے تمام افراد ایمان لے آئے۔73 جب ان کا اونٹنی والا مطالبہ پورا ہو چکاتو حضرت صالح نے ان سے کہا کہ ان کے پانی کے چشمے سے ایک روز یہ اونٹنی پانی پیا کرےگی اور ایک روز وہ پانی پی سکتے ہیں۔یوں آپ نے ان کے اور اونٹنی کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک نظام متعین کردیا۔اس واقعہ کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیاہے:

  قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ 153 مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ154 قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ 155 وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ 74
  وہ بولے کہ تم تو فقط جادو زدہ لوگوں میں سے ہو، تم تو محض ہمارے جیسے بشر ہو، پس تم کوئی نشانی لے آؤ اگر تم سچے ہو، (صالح نے) فرمایا: (وہ نشانی) یہ اونٹنی ہے پانی کا ایک وقت اس کے لیے (مقرر) ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی کی باری ہے، اور اِسے برائی (کے ارادہ) سے ہاتھ مت لگانا ورنہ بڑے (سخت) دن کا عذاب تمہیں آپکڑے گا۔

ا س کے بعد حضرت صالح نے اپنی قوم کو خصوصی طور پر تنبیہ فرمائی کہ اس اونٹنی کے ساتھ، جوکہ رب تعالیٰ کا عطاکردہ معجزہ ہے،ظلم و زیادتی نہ کی جائے۔ اس کی بابت قرآن مجید میں یوں مذکور ہے:

  وَيَاقَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ64 75
  اور اے میری قوم! یہ اﷲ کی (خاص طریقہ سے پیدا کردہ) اونٹنی ہے (جو) تمہارے لیے نشانی ہے سو اسے چھوڑے رکھو (یہ) اﷲ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں قریب (واقع ہونے والا) عذاب آپکڑے گا۔

قرآن میں ایک اور جگہ اسی حکم کو بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 7376
  اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح ( ) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا۔

لیکن جب قوم ثمو د نے دیگر نافرمانیوں کی طرح اس حکم کی بھی نافرمانی کی تو حضرت صالحنے ان سے کہا کہ اے قوم!تین دن تک عیش و عشرت سے رہ لو اس کے بعدتم عذاب الہی سےبرباد ہوجاؤگے۔77 یوں تین دن بعد وہ لوگ عذاب ِ الہی کا شکار ہوکرہلاک ہوگئے۔سورہ شمس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا ذکر یوں فرمایا ہے:

  كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا11 إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا12 فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا 13 فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاهَا 14 وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا 1578
  ثمود نے اپنی سرکشی کے باعث (اپنے پیغمبر صالحم کو) جھٹلایا،جبکہ ان میں سے ایک بڑا بد بخت اٹھا، ان سے اﷲ کے رسول نے فرمایا: اﷲ کی (اس) اونٹنی اور اس کو پانی پلانے (کے دن) کی حفاظت کرنا۔ تو انہوں نے اس (رسول) کو جھٹلا دیا، پھر اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ان کے رب نے ان کے گناہ کی وجہ سے ان پر ہلاکت نازل کر دی، پھر (پوری) بستی کو (تباہ کر کے عذاب میں سب کو) برابر کر دیا، اور اﷲ کو اس (ہلاکت) کے انجام کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔

یہ قوم سرکشی میں اس قدر آگے نکل چکی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت انہیں بوجھ لگ رہی تھی،اسی لیے انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اس کے نتیجے میں عذابِ الٰہی کا نشانہ بن گئے۔ جب انہوں نےاونٹنی کو قتل کر دیاتو ان میں سے ایک شخص حضرت صالح کے پاس آیا اور کہا کہ اپنی اونٹنی کی خبر لو کہ لوگوں نےاس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور پھر وہ شخص عذر پیش کرنے لگا کہ یا نبی الله، فلاں شخص نے اس کی کونچیں کاٹی ہیں اور اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔حضرت صالح نے جب یہ ماجرا دیکھا تو فرمایا اس کے بچے کو لے آؤ،اگرتم اسے لانے میں کامیاب رہے تو شاید اللہ رب العالمین تمہیں عذاب سے بچادے گا۔وہ لوگ اسے ڈھونڈھنے نکلے پردوسری جانب عالم یہ تھا کہ جب بچے نے اپنی ماں کو تڑپتے ہوئے دیکھا تو وہ پہاڑی پر چلا گیا۔جب یہ لوگ اس کو ڈھونڈھنے وہاں گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہاڑ اس قدر بلند ہو گیا کہ وہاں پرندوں کا بھی گزر ممکن نہ تھا۔ حضرت صالح بستی میں چلے آئے وہاں دیکھا تو اونٹنی کا بچہ موجود تھا اور جب بچے نے انہیں دیکھا تو رویا، یہاں تک کہ اس کے آنسو بہہ گئےپھر حضرت صالح کے پاس آیا اور تین آوازیں دیں، حضرت صالح نے ان سے کہا کہ ہر آواز کے لیے ایک دن کی بات ہے۔ 79تم تین روز تک اپنے گھروں میں آرام سے رہو(اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا وعدہ عذاب پورا ہونے والا ہے)کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہے۔ 80 اللہ کا عذاب ہر صورت نازل ہوکر رہےگا اور عذاب کی نشانی یہ ہے کہ پہلے روز تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے، دوسرے روز سرخ اور تیسرے روز سیاہ دکھائی دیں گے۔ جب صبح ہوئی تو ان کے منہ ایسے ہو گئے کہ گویا تمام چھوٹے بڑوں، مرد اور عورتوں نے زعفران ملی ہے۔پھر جب دوسرا دن ہوا تو ان کے چہرے سرخ ہوگئے اور تیسرے دن ان کے منہ ایسے کالے ہو گئے کہ گویا کسی نے سیاہی مل دی ہے۔جب یہ حالت ہوئی تو انہوں نے کفن پہنے اور مردوں کی خوشبو ئیں لگائیں پھر زمین پر لیٹ گئے۔ آنکھوں سے آسمان اور زمین کی طرف دیکھنےلگےکہ کدھر سے ان پر عذاب آئے گا۔ جب چوتھے دن کی صبح ہوئی تو آسمان سے ایک آواز آئی جیسے بجلی گرتی ہو اور اس سے ان کے دل پھٹ گئے۔81 قرآن مجید نے بھی اس عذاب الہی کو بیان کیا ہے چنانچہ اس بارے میں ارشادِ خداوندی ہے:

  فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ 66وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ 67 كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ أَلَا بُعْدًا لِثَمُودَ 6882
  پھر جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا (تو) ہم نے صالح ( ) کو اور جو ان کے ساتھ ایمان والے تھے اپنی رحمت کے سبب سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے (بھی نجات بخشی)۔ بیشک آپ کا رب ہی طاقتور غالب ہے۔اور ظالم لوگوں کو ہولناک آواز نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس طرح کی کہ اپنے گھروں میں (مُردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئے، گویا وہ کبھی ان میں بسے ہی نہ تھے، یاد رکھو! (قومِ) ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا تھا۔ خبردار! (قومِ) ثمود کے لیے (رحمت سے) دوری ہے۔

اس طرح عرب کی قومِ بائدہ کا قبیلہ ثمود اپنے ناگہانی انجام کو پہنچا اور ہلاک ہوا۔83 اس کے بعد حضرت صالح شام چلے گئے اور ارض ِفلسطین میں رہنے لگے۔ پھر وہاں سے مکّہ چلے گئے اور وہیں اقامت اختیار کر لی جہاں رہ کر تا دم ِآخر اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کرتے رہے۔

طسم ِبائدہ وجدیسِ بائدہ

جدیس اورطسم ارضِ یمامہ میں بسنے والے قدیم عرب قبائل تھے جن کی تاریخ محفوظ نہیں ہے۔جس دور میں یہ یہاں آباد تھے اس زمانہ میں یہ علاقہ زرخیزی، انسانی آبادکاری، پھلنےپھولنےاورتعمیرات کےاعتبارسےبہترین خطہِ زمین تصور کیا جاتا تھا۔ 84 قبائلِ طسم و جدیس کے کچھ واقعات نسل در نسل منتقل ہوتے مورخین تک پہنچے ہیں جنہیں انہوں نے کتب ِ تاریخ میں قلمبند کیا ہے۔تاہم ان واقعات کی ثقاہت و صحت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ قوم طسم ، طسم نامی شخص کی اولاد تھی جبکہ قومِ جدیس، جدیس نامی شخص کی اولاد تھی جبکہ طسم و جدیس دونوں بھائی تھے۔ طسم کاشجرۂ نسب طسم بن لاوذ بن سام یا طسم بن لاوذ بن ارم بیان کیا گیا ہے۔ کچھ نے طسم بن کا ثر بھی لکھا ہے جبکہ جدیس کا شجرۂ نسب جديس بن لاوذ بن إرم بن سام بن نوح بیان کیا گیاہے۔طسم وجدیس کا ذکر قرانِ حکیم میں موجود نہیں ہے اس لیے کچھ تاریخ دانو ں نے ان کے احوال کو موضوع بھی قرار دیا ہے۔ان کا وطن یمامہ کا علاقہ تھا تاہم کچھ نے بحرین اور احقاف کو بھی ان کا مسکن قرار دیا ہے۔ 85 ان کی تاریخ کے کچھ ہی واقعات کا ذکر ملتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ طسم کا بادشاہ جسےعملوق کہاجاتاتھا ایک بہت ہی ظالم وجابرشخص تھاجسے خواہشات کی تکمیل سےکوئی نہ روک سکتاتھا۔وہ قوم ِجدیس کےلیے نہ صرف باعثِ نقصان تھا بلکہ ذلت کا سبب بنارہتا تھا۔یہاں تک کہ کوئی کنواری لڑکی تب تک اس کےدولہاکونہ دی جاتی جب تک وہ عملوق کوپیش نہ کی جاتی اوروہ اس کی بکارت کو زائل نہ کردیتا تھا۔ اس کاسبب یہ تھاکہ قوم ِ جدیس کی ہزیلہ نامی ایک عورت کواس کےخاوندنےطلاق دےکراپنا بیٹا اس سے چھین لیا توعملوق نے اسےبیچنے کاحکم دےدیا۔ پس اسےبیچ دیاگیا اوراس کےخاوندنے اس کی قیمت کاخُمس(پانچواں حصہ)لےلیا۔اس عورت نے اس پرایک شعر کہاجس میں اس کے ظلم کی شکایت کی چنانچہ عملوق نے قوم ِجدیس کوحکم دیا کہ ان کی کوئی عورت بیاہی نہ جائےجب تک وہ خود اس کی بکارت زائل نہ کردے۔قوم ِجدیس عملوق کےحکم پرچلتے رہےاوریہی حالت قائم رہی یہاں تک کہ اسودکی بہن شموس عفیرہ بنت غفاربن جدیس کی شادی ہونےلگی توعملوق نے اس کی بھی بکارت خود زائل کی۔ اس پراسودبن غفارنےجدیس کے تمام سرداروں کومخاطب کرکےکہا: تم دیکھ رہےہوکہ ہم کیسی ذلت ورسوائی کی حالت میں ہیں کہ جوکتوں کےلیےبھی نہیں ہوتی، میری بات مانومیں تمہیں دائمی عزت کی دعوت دیتاہوں۔انہوں نے کہا: وہ کیسے؟ کہا: میں بادشاہ(قوم طسم اورعملوق) اورتمام قوم کودعوت دونگا۔جب وہ آجائیں گے تو ہم انہیں تلواروں سےقتل کرڈالیں گے۔ وہ سب اس پرمتفق ہوگئےچنانچہ انہوں نے تلواریں ریت میں چھپادیں اورعملوق کومع قوم کےدعوت دی۔جب وہ سب آگئےتوانہوں نے سب کوقتل کرڈالا۔اسود نے عملوق کوقتل کردیا اورسوائے رباح بن مرہ بن طسم کےکوئی نہ بچ سکا۔رباح بچ کر حسان بن تبع کےپاس امدادلینےپہنچاتوحسان اس کوبچانےکی خاطراپنے قبیلہ حمیر میں کھڑاہواجویمامہ سےتین میل پرتھا۔ رباح نے ان سےکہا: میری بہن یمامہ قبیلہ جدیس میں بیاہی ہوئی ہے جس سےزیادہ چشمِ بینا کوئی نہیں کہ وہ سوارکوتین میل سےدیکھ لیتی ہے۔مجھے اندیشہ ہےکہ وہ ہمیں دیکھ نہ لےاورقوم کوخبر کردے۔حسان نےحکم دیاکہ ہر شخص ایک درخت اکھاڑلےاوراسےاپنے ہاتھ میں پکڑکریوں چلےکہ وہ درخت کےپیچھےرہے۔سب نےایساہی کیا مگریمامہ نے انہیں دیکھ لیااورجدیس کوبتایاکہ میں درختوں کےپیچھےآدمیوں کودیکھتی ہوں جن کےہاتھ میں رسیاں ہیں اور وہ ان سے درختوں کوہلاتےہیں۔ انہوں نے اس کی بات کوبعیدازقیاس سمجھتےہوئےنظراندازکردیاچنانچہ انہیں محسوس بھی نہ ہواکہ حمیر ی تلواریں تانےان کےسروں پرپہنچ گئے۔پس حسان نےجدیس کی اینٹ سےاینٹ بجاتےہوئے دیواریں اورفصیلیں ڈھادیں اور اسودبن غفارقبیلہ طیء کےپہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا۔ حسان بن تبع نے رباح کی بہن یمامہ کوبلواکراس کی آنکھیں نکلوادیں جس نے انہیں دیکھ لیاتھا۔ کہاجاتاہےکہ اس کی آنکھوں میں سیاہ رگیں پائی گئیں جواثمدسرمہ لگانےکی وجہ سےکالی ہوگئی تھیں۔یہ گاؤں(پہلے)"جو " کہلاتاتھا (پھر بعد میں) اس عورت کےنام پراسے "یمامہ" کہاجانےلگا۔86

قوم ِ طسم کےایک کتے کا واقعہ بھی عرب میں مشہور تھا جس نے اپنے مالک پر حملہ کرکے اسے کھا لیاتھا۔ 87 طسم وجدیس دونوں قبائل کوعرب ِ بائدہ میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ دونوں آپس کی خونریزی کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوکر اس دنیا سے مٹ گئے۔کہا جاتا ہے کہ اِن کے شہر کو ان ہی کے قبیلہ کی سب سے زیادہ چشم ِ بینا رکھنے والی ایک عورت کے نام پر یمامہ کہاگیا۔

عمالقہ

قوم ِعمالقہ کو بھی تاریخ دانوں نے عرب بائدہ میں شمار کیا ہے۔ اس قوم کا نام، سام بن نوح کے پوتے عملیق کے نام پر عمالقہ یا عمالیق رکھا گیا تھا۔88یہ قوم عملیق یا عملاق ابن لاوذابن سام ابن نوح کی اولاد میں سے تھی۔ابن ہشام نے ابن عباس سے ان کے جدِ اعلیٰ کا شجرہ نسب اس طرح نقل کیا ہے:

  عملاق بن لاوذ بن إرم بن سام بن نوح النبی عليه السلام. 89
  عملاق بن لاوذ بن ارم بن سام بن نوح نبی ۔

اس روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عملاق ، سام بن نوح کے پڑپوتےتھے اور ان کی نسل کو عمالقہ کہا گیا تھا۔کہا جاتا ہےکہ سب سے پہلے عربی زبان بولنے والا بھی عملیق ہی تھا۔ 90 قومِ عمالقہ، عملیق بن لاوذکی اولاد تھے اورجسمانی قدوقامت میں ان کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ مختلف خطوں میں بکھرےہوئےتھے۔یہ مشرق، عمان، بحرین اور حجازمیں آبادتھے۔ کہا جاتا ہے کہ مصرکےفراعنہ اورشام کےجبابرہ جوکنعانی کہلاتے تھے وہ بھی انہی میں سےتھے۔ ان میں سے جوبحرین،عمان اوریثرب میں آبادتھے وہ"جاسم " کہلاتےتھے۔ ان میں سے یثرب میں رہنےوالےلوگ بنولف، بنوسعدبن ہزال، بنومطراوربنوالازرق کہلاتے تھے۔ان لوگوں میں سے جو حجازسےتیما اورنجدتک کے علاقوں میں آباد تھے وہ بنوالارقم کہلاتے تھے۔91 بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ عمالیق اس وقت سے صنعأ میں آباد تھے جب اس شہرکا نام بھی صنعأ نہیں تھا۔بعد میں ان میں سے کچھ یثرب کی طرف آگئے اور یہاں سے عبیل قبائل کو نکال باہر کیا جو جُحفہ نامی مقام پر جا آباد ہوئے جہاں سیلاب آیا اور ان کو بہا کر لے گیا۔کچھ تاریخ دانوں کا گمان ہے کہ عمالیق کا جدِ اعلیٰ ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے عربی زبان میں تب کلام کیا جب وہ بابل سے آیا تھا۔عمالیق سے متعلق زیادہ ترعلم کی بنیادیہودی مصادر اور تورات پر ہے۔92

کہا جاتا ہے کہ بنو حام کےنمرودوں کےسامنے عراق سےنکلنےکے بعد عمالقہ حجاز میں تہامہ کے علاقہ میں آباد ہوئے تھےیہاں تک کہ اسماعیل آئےتو ان میں سے کچھ اسماعیل پرایمان لائے۔اس طرح ان کی بادشاہت قائم رہی یہاں تک کہ ان میں سمیدع بن لاوذبن عملیق بادشاہ ہوا تو قحطانی قبائل سے تعلق رکھنے والےجرہم نےانہیں مکہ سے نکال دیا تویہ بکھر گئے۔ تب ان میں سےکچھ یثرب میں آباد ہوئےجیسےبنو عبیل بن مہلایل بن عوص بن عملیق۔ ایلہ کی سرزمین میں ابن ہومربن عملیق آبادہوا جس کی بادشاہت اس کی اولادتک پہنچی تھی۔ جُرجانی کے مطابق ایک زمانے میں عمالقہ مصر میں بھی حکمران بنے تھے۔کہاجاتاہےکہ حضرت ابراہیم کے زمانےکافرعون سنان بن الاشل بن عبید بن عولج بن عملیق بھی ان ہی میں سےتھا۔حضرت یوسف کافرعون الریان بن الولید بن فوران بھی ان ہی میں سےتھااورحضرت موسی کافرعون الولید بن مصعب بن ابی اہون بن الہلوان بھی ان ہی میں سےتھا۔93

امیم

اہلِ تاریخ قوم ِ امیم کو بھی طسم و جدیس کے طبقے میں شمار کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ یہ لاوذ بن عملیق یا لاوذ بن نوح کی نسل سے تھے94 اور ابار نامی علاقے میں آباد تھے۔ 95 کچھ تاریخ دان یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ ان کے مساکن ارضِ فار س کے کسی علاقے میں بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی ماہرینِ نسب میں سے کچھ نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ قوم ِ امیم میں سے ہیں اور کیومرث نامی جدِ اعلیٰ جس سے ان کا نسب منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل امیم ابن لاوذکا بیٹا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عمارتیں بنانے والے سب سے پہلے لوگ تھے۔ انہوں نے پتھروں سے مکانات اور عمارتیں تعمیر کیں اور چھتوں میں لکڑی کا استعمال کیا۔ 96 تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ان ہی کے قبائل میں سے وبار بن امیم بھی تھے جو یمامہ اور الشحر کے درمیان عالج نامی علاقے میں آباد ہوئے اور طوفانی ہواؤں سے اڑنے والی ریت کے طوفانوں میں دفن ہو کر ہلاک ہوئے اور ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ا س علاقے میں اب جنات کا بسیرا ہے۔ 97

کتب عربیہ میں قوم وبار سے متعلق کئی قصص و اساطیر موجود ہیں۔ ان میں مشہور ترین النسناس کی اساطیر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ النسناس بن امیم بن عملیق بن یلمح بن لاوذ بن سام کی اولاد میں سے تھے اور انہیں ایک سخت جان دشمن سمجھا جاتا تھا۔یہ اصلاً انسان ہی تھے لیکن اللہ عزوجل نے انہیں نسناس بنا دیا تھا۔ ان کا آدھا سر ، آدھا چہرا، ایک آنکھ، ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ تھی اور یہ جانوروں کی طرح گھاس چرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ قوم ِ وبار کا شہر الربع الخالی میں آباد تھا جہاں اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا جس کے نتیجے میں یہ شہر تباہ و برباد ہو گیا تھا۔ 98

عبیل

قوم ِ امیم کی طرح قوم ِ عبیل کے بارے میں بھی زیادہ معلومات اور تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں۔اہل ِ تاریخ کا خیال ہے کہ یہ عاد بن عوص یا عوص بن ارم کے بھائیوں کی اولاد میں سے تھے اور یثرب میں آباد تھے۔99 عمالیق نے یثرب پر حملہ کرکے انہیں بے دخل کر دیا تو یہ مقامِ جحفہ میں آباد ہوگئے جہاں کسی زمانے میں اتنا شدید سیلاب آیا کہ سب کچھ بہا کر لے گیا۔ 100 تورات میں اولادِ یقطان میں عوبال کا تذکرہ ملتا ہے جو عبیل کے قریب قریب ہے۔ لہذا کچھ علماءِ تورات کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ تورا ت میں مذکور عبیل نامی شخص ہی دراصل عوبال ہو یا پھر عوبال کا بیٹا بھی عبیل ہو سکتا ہے۔یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ یمن میں ایک جگہ کا نام بھی عبیل ہے۔اسی طرح صنعأ کے راستے میں ایک بستی آتی ہے جس کا نام عبال ہے۔یہ دونوں نام عبیل کے قریب قریب ہی ہیں۔ تاہم صرف ناموں کی مماثلت کی وجہ سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔ اسی طرح عبد ضخم نامی قبائل کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو طائف کے علاقوں میں آباد تھے اور عرب بائدہ کے ہلاک ہو جانے والے قبائل کی طرح یہ بھی ہلاکت کا شکار ہو کر صفحہِ ہستی سے مٹ گئے۔ کہا جاتاہے کہ انہوں نے سب سے پہلے عربی زبان کی تحریری شکل وضح کی۔ عرب کے اشعار میں ان کے فنا ہو نے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس حوالے سے امیہ ابن ابی الصلت کے اشعار مشہور ہیں۔ کچھ کے نزدیک گو کہ یہ قبائل ہلاکت کا شکار ہو گئے تھے تاہم عبد ضخم قبائل کے لوگ بعد کے زمانوں تک بھی پائے جاتے تھے۔ 101

جُرہم ِ اُولیٰ

جرہم ِ اولیٰ ، جرہم ِ قحطانیہ سے ہٹ کر ہیں اور ان سے پہلے کے عہد میں گزرے ہیں۔ اسی لیے انہیں جرہم ِ اولیٰ اور بعد والوں کو جرہمِ قحطانیہ کہا جاتا ہے۔ ان کا شمار طبقہ ِ بائدہ میں ہوتا ہے اور ان کا عہد قوم ِ عاد، قوم ِ ثمود اور قوم ِ عمالقہ کا ہی دور ہے۔102 مورخین کے مطابق جرہم نامی شخص حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں موجود تھا جس کی زبان قدیم عرب کی زبان تھی اور وہ جرہم اولیٰ کا مورث اعلیٰ تھا۔ علامہ الوفائی مصری لکھتے ہیں:

  كان لسان جمیع من فى سفینة نوح إلا رجلا واحدا یقال له جرهم فكان لسانه لسان العرب الأول. 103
  (سریانی)زبان حضرت نوح اوران کی کشتی میں سوارتمام افرادکی تھی، سوائے ایک شخص کے جسے جرہم کہاجاتاتھا کہ اس کی زبان قدیم عرب والی تھی۔

امام عبد الرحمن سہیلی کی نقل کردہ روایات کے مطابق جرہم نوح کے بیٹے کے بیٹے کی اولاد میں سے تھا۔ سہیلی لکھتے ہیں:

  ویقال جرھم بن عابر وقد قیل أنه كان مع نوح فى السفینة وذلک أنه من ولد ولدہ. 104
  جرہم کو ابن عابربھی کہا جاتا ہےاور یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں تھا کیونکہ وہ ان کے بیٹے کےبیٹے کی اولادسے تھا۔

یعنی جرہم حضرت نوح کا پڑپوتا تھا اور اس کی نسل کو جرہم اولیٰ کہا جاتا ہے۔ یہ عربی بولا کرتا تھا جو کہ یقیناً اپنے باپ دادا اور پر دادا یعنی حضرت نوح سے سیکھی تھی کیونکہ جرہم اولاً نہ تو نبی تھا کہ اسے وحی کے ذریعے عربی زبان سکھائی گئی ہو اور نہ ہی اس پر عربی زبان کے الہام ہونے کے کوئی شواہد موجود ہیں اس لیے جو بات الوفاعی مصری نے‘‘ذیل لب اللباب فی تحریر الانساب’ ’ میں لکھی ہے اور اس کو دیگر مؤرخین نے بھی لیا ہے کہ حضر ت نوح اور ان کے سب ساتھی سوائے جرہم کے اس کشتی میں سریانی بولتے تھےوہ محل نظر ہے کیونکہ جرہم نے وہ زبان یقیناً کسی سے سیکھی تھی اور غالب گمان کے مطابق وہ نوح سے ہی ان تک پہنچی تھی جو عربی کے مختلف لہجوں میں کلام کیا کرتے تھے اسی لیے ان کے کلام پر سریانی بولنے کا بھی اطلاق ہوتا ہے۔یہ جرہم اولیٰ جرہم ثانیہ کے وقت دنیا سے بالکل مٹ چکے تھےچنانچہ ابو العباس القلقشندی اسی جرہم کے بارے میں لکھتے ہیں:

  بنو جرهم قبیلة من العرب العاربةالبائدة. ذكرھم ابن سعد وقال كانوا على عهد عاد فبادوا ومقتضى ذلک أنھم كانوا قبل قحطان. 105
  بنوجرہم عربِ عاربہ بائدہ کاایک قبیلہ ہے، ابن سعد نے ان کاذکر کرتےہوئے کہا: وہ عادکے زمانہ میں تھےانہیں فناکردیاگیا، اس کا مطلب یہ نکلتاہے کہ وہ قحطان کےزمانہ سے پہلے تھے۔

جرہم اولیٰ عرب عاربہ بائدہ میں سے تھے اور جرہم ثانیہ سے بہت پہلے دنیا سے فنا ہوچکے تھے۔ بعض مورخین نےان کا مختصر اً تذکرہ کیا ہے تاہم یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ مکّہ کے علاقے میں آباد تھے تاہم فنا ہونے کے بعد ان کی آبادیوں او ر شہروں کے نام و نشان مٹ گئے تھے۔106

عرب ِ بائدہ کے بارے میں تاریخی شواہد کی صورت میں بہت کم معلومات ملتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قبائل و اقوام بہت پہلے تباہی و بربادی کا شکا ر ہو کر فنا کے گھاٹ اتر چکے تھے۔ ان کے کچھ واقعات قصوں، کہانیوں اور روایات کی صورت میں ہی باقی ہیں تاہم کچھ کا ذکر قرآنِ حکیم کی نصوصِ قطعیہ میں بھی محفوظ ہے۔ ان معدوم عرب اقوام کی تباہی یا تو عذاب ِ الہی کی وجہ سے ہوئی یا قدرتی آفات اور موسمی تغیر و تبدّل کی وجہ سے۔خیال کیا جاتا ہے کہ شدید نوعیت کی موسمی تبدیلیوں نے انہیں مشکلات سے دوچار کردیا تھا مثلاً کئی سالوں تک بارش کا نہ ہونا جو جانوروں کی موت اور انسان کی بھوک اور نقل مکانی کا باعث بنا جس کے باعث ان کے کچھ افراد دوسری اقوام کے ساتھ دوسرے خطوں میں جاکر آباد ہوگئے۔وقت کے ساتھ ساتھ کچھ قبائل بکھر کر منتشر ہو گئے اور کچھ دیگر قبائل میں ضم ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھے اور اپنے آپ کو انہی کے نسب میں شمار کرنے لگے۔ یوں ان قدیم قبائل کا ذکر اور ان کی اصلیت ماضی میں دفن ہو کر رہ گئی اور ان کے صرف تذکرے اور یادیں باقی رہ گئیں۔اہلِ تاریخ میں سے کچھ لوگوں نے ان معدوم شدہ عرب اقوام پر کچھ کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان مصنفین میں عبیدہ بن شرعیہ الجرہمی اور ابن الکالبی بھی شامل ہیں۔ اس موضوع پر ان کی مشہور کتابوں میں كتاب عاد الأولى والآخرة اور كتاب تفرق عاد شامل ہیں۔اسی طرح اس موضوع پر ابو لبختری اور وھب بن وھب بن کثیر کی بھی تصنیفات ہیں جن میں آخر الذکرکی تصنیف كتاب طسم وجديس شہرت رکھتی ہے تاہم ان کتب کے زیادہ تر واقعات افسانوی نوعیت کے لگتے ہیں۔107

 


  • 1 شیخ ابن سعيد الأندلسى، نشوة الطرب فى تاريخ جاهلية العرب، مطبوعة: مكتبة الأقصى، عمان، الأردن، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 73
  • 2 ایضاً
  • 3 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 295
  • 4 محمد احسان الحق سلیمانی ، تمدن عرب، مطبوعہ: قومی کتب خانہ، لاہور، پاکستان، 1953ء،ص: 20
  • 5 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 10
  • 6 الدكتور حسين الشيخ، العرب قبل الإسلام، مطبوعة: دار المعرفة الجامعية، الإسكندرية، مصر، 1993ء، ص: 68 -70
  • 7 محمد کاظم، عربی ادب کی تاریخ، مطبوعہ: سنگ ِ میل پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 17
  • 8 القرآن ، سورۃ الحاقۃ 69: 1-6
  • 9 امین احسن اصلاحی ،تدبر قرآن،ج-9، مطبوعہ: فاران فاؤنڈیشن،لاہور،پاکستان، 2012ء ،ص: 351
  • 10 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعۃ: دار التراث، بيروت، لبنان،1387 ھ، ص: 208
  • 11 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 295
  • 12 القرآن، سورۃ الفجر89 : 6 -8
  • 13 القرآن، سورۃ فصلت 15:41
  • 14 القرآن، سورۃ الشعراء 26 : 130-139
  • 15 الدکتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعۃ: دار الساقى، بیروت، لبنان،2001م، ص: 302
  • 16 ابو محمد عبد الله بن مسلم الدينورى، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 28
  • 17 الدکتور جواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعۃ: دار الساقى، بیروت، لبنان،2001م، ص: 304 -305
  • 18 القرآن، سورة الاحقاف21:46
  • 19 ابو الفيض محمد بن محمد المرتضی الزبیدی، تاج العروس من جواهر القاموس، ج-23، مطبوعة: دار الهداية، القاهرة، مصر، 1414ھ،ص: 156
  • 20 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص: 19
  • 21 أبو الحسن على بن الحسين المسعودى، مروج الذهب ومعادن الجوهر، ج-2، مطبوعة: دار الهجرة، قم، ايران،1409ھ، ص: 111
  • 22 ایضاً، ص: 124
  • 23 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث، بيروت، لبنان،1387ھ، ص: 216
  • 24 القرآن، سورۃ الاحقاف24:46
  • 25 أبو الحسن على بن الحسين المسعودى، مروج الذهب ومعادن الجوهر، ج-2، مطبوعة: دار الهجرة، قم، ايران،1409ھ، ص: 127
  • 26 أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله السهيلى، الروض الأنف فى شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-4، مطبوعة: دار إحياء التراث العلمى، بيروت، لبنان،2000 م، ص: 172
  • 27 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 10- 12
  • 28 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، قصص الانبیاء، ج-1، مطبوعۃ: دارالتأليف، القاهرة، مصر، 1968م، ص:126
  • 29 ایضاً، ص:121
  • 30 غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن، ج-5، مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان، 2013م، ص: 569-570
  • 31 ابو محمد عبد الله بن مسلم الدينورى، المعارف، ج-1، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 28
  • 32 القرآن،سورۃ الاعراف7 : 69
  • 33 القرآن،سورۃ الشعراء 26 : 128- 130
  • 34 القرآن، سورۃ الفجر 89: 6- 8
  • 35 القرآن، سورۃ ھود11: 53- 54
  • 36 جو قبائل شہرمکہ میں رہتے تھے وہ البطائح کہلاتے تھے اور جو گرد ونواح اور مضافات میں رہتے تھے وہ الظواہر کہلاتے تھے۔(ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله السهيلى،الروض الأنف فى شرح السيرة النبوية، ج-1، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 1412م، ص: 401 )
  • 37 أبو الحسن علی بن أبی الکرم ابن الأثیر الجزری، الكامل فى التاريخ، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتاب العربى، بيروت ، لبنان، 1997م،ص: 80
  • 38 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعۃ: دار التراث العربی، بيروت، لبنان، 1387 ھ،ص: 220 -221
  • 39 ابو محمدعبد الملك بن هشام المعافرى،التيجان فى ملوك حمير، مطبوعة: مركز الدراسات والأبحاث اليمنية، صنعاء، الجمهورية العربية اليمنية،1347 ھ،ص: 347
  • 40 القر آن،سورة الاحقاف 46: 24
  • 41 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث العربى، بيروت، لبنان، 1387 ھ،ص: 222
  • 42 أبو الحسن علی بن أبی الکرم ابن الأثیر الجزری، الكامل فى التاريخ، ج-1، مطبوعة: دار الكتاب العربى، بيروت، لبنان، 1997م،ص: 80
  • 43 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث العربى، بيروت، لبنان، 1387 ھ،ص: 220
  • 44 الدکتورجواد على،المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-17، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان، 2001م،ص: 395
  • 45 أبو جعفر محمد بن جرير الطبرى، تاريخ الطبرى، ج-1، مطبوعة: دار التراث العربى، بيروت، لبنان، 1387ھ،ص: 220
  • 46 القران ، سورۃ الحاقۃ69 : 6- 7
  • 47 ابو محمد عبدالملك بن هشام المعافرى، التيجان فى ملوك حمير، مطبوعة: مركز الدراسات والأبحاث اليمينية صنعاء، الجمهورية العربية اليمنية، 1347ھ، ص: 369
  • 48 حظیرہ کا معنی قبرستان کی چار دیواری یا مقبرہ کا گنبد ہے۔(مولوی نور الحسن نیّر، نور اللغات،ج-2، مطبوعہ: نیلاب پرنٹرز، راولپنڈی، پاکستان، 2006ء، ص:1399)
  • 49 القرآن، سورۃ ہود 11: 58
  • 50 القرآن، سورۃالنجم53: 50
  • 51 غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن، ج-4، مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستا ن، 2013م، ص: 209
  • 52 ابو موسی محمد بن عمر المدینی، المجموع المغیث فی غریبی القرآن والحدیث، ج-1، مطبوعۃ: دار المدنی، جدۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 1986م، ص:272
  • 53 غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن، ج-4، مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستا ن، 2013م، ص: 209
  • 54 القرآن، سورۃ ھود11: 57
  • 55 القرا ن ،سورۃ الاعراف 7: 74
  • 56 القرآن ، سورۃ الشعراء 26: 149
  • 57 ابو المظفر يوسف بن قِزاُوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-1، مطبوعۃ: دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، السوریۃ، 2013م ،ص: 356
  • 58 ڈاکٹر ذوالفقار کاظم،انبیائےکرام انسائیکلوپیڈیا،مطبوعہ: بیت العلوم،لاہور،پاکستان ، 2004ء،ص:273
  • 59 محمد رابع حسنی ندوی، جغرافیہ ممالک اسلامیہ، مطبوعہ: دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ،انڈیا (سن اشاعت ندارد)،ص:82-83
  • 60 غلام رسول سعیدی ،تفسیر تبیان القرآن، ج -4، مطبوعہ: فرید بک اسٹال ، لاہور ، پاکستان ،2000ء،ص:209
  • 61 ڈاکٹر خورشید رضوان، عربی ادب قبل از اسلام ، ج-1،مطبوعہ:ادارہ اسلامیات پبلیشرز،لاہور،پاکستان، 2010ء،ص:49
  • 62 القرآن ،سورۃ الفجر89 :9
  • 63 ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فی تفسیر القرآن، ج-10، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 432
  • 64 أبو حاتم محمد بن محمد ابن حبان التميمى، الإحسان فى تقريب صحيح ابن حبان، حديث: 6203، ج-14، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،1988م، ص:83
  • 65 أحمد أمين سليم، معالم تاريخ العرب قبل الإسلام، مطبوعة: مكتب كريدية، بيروت، لبنان، ص:63-64
  • 66 سید سلیمان ندوی،تاریخ ارض القرآن، مطبوعہ:مجلس نشریات اسلامی ،کراچی ،پاکستان،2011ء،ص:189
  • 67 ابو زیدعبدالرحمن بن محمد ابن خلدون الشبیلی، تاریخ ابنِ خلدون، ج -3، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1998م، ص:26
  • 68 أبو محمد الحسين بن مسعود البغوى، تفسير البغوى، ج-3، مطبوعۃ: دار طيبة للنشر والتوزيع، الریاض، السعودیۃ، 1417 م، ص:247
  • 69 القرآن، سورۃهود11 : 61
  • 70 ڈاکٹر ذوالفقار کاظم ،انبیائےکرام انسائیکلوپیڈیا،مطبوعہ: بیت العلوم،لاہور،پاکستان ، 2004ء،ص:273
  • 71 القرآن،سورۃ هود12:62
  • 72 ابو المظفر يوسف بن قِزاُوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-1، مطبوعۃ: دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، السوریۃ،2013 م، ص: 359 -360
  • 73 ایضاً
  • 74 القرآن، سورۃ الشعراء26: 153- 156
  • 75 القرآن، سورۃ ھود11: 64
  • 76 القرآن، سورۃ الاعراف7: 73
  • 77 القرآن، سورۃ ھود 11: 65- 66
  • 78 القرآن، سورۃ الشمس 91: 11- 15
  • 79 ابو المظفر يوسف بن قِزاُوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-1، مطبوعۃ: دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، السوریۃ، 2013م،ص:359- 360
  • 80 القرآن، سورۃ ھود65:11
  • 81 ابو المظفر يوسف بن قِزاُوغلی الشھیر بسبط ابن الجوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-1، مطبوعۃ: دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق، السوریۃ، 2013م،ص:359- 360
  • 82 القرآن، سورۃ ہود11 : 66 - 68
  • 83 الدکتور أحمد مختار عبد الحميد عمر، معجم اللغة العربية المعاصرة، ج-1، مطبوعۃ: عالم الكتب، بیروت، لبنان، 2008 م، ص: 330
  • 84 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان،1994م، ص: 13 -14
  • 85 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 334-337
  • 86 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان،1994م، ص: 13 -14
  • 87 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 336
  • 88 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص: 8-9
  • 89 ابو محمد عبد الملك بن هشام العافرى، التيجان فى ملوك حمير، مطبوعة: مركز الدراسات والابحاث اليمنية، صنعاء، الجمهورية العربيةاليمنية، 1347ھ، ص: 185
  • 90 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 207
  • 91 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان، 1994م، ص: 14- 16
  • 92 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 346
  • 93 الشيخ أحمد مغنية، تاريخ العرب القديم، مطبوعة: دار الصفوة، بيروت، لبنان،1994م، ص: 14- 16
  • 94 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 340
  • 95 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 208
  • 96 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاريخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1988م، ص: 31
  • 97 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 342
  • 98 ایضاً
  • 99 ایضاً، ص: 343
  • 100 أبو عبد الله محمد بن سعد البصرى المعروف بابن سعد، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1968 م، ص: 44
  • 101 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 344 -345
  • 102 ایضاً، ص: 345
  • 103 احمد بن احمد الوفائی المصری، ذیل لب اللباب فی تحریر الانساب، مطبوعۃ: مرکز النعمان للبحوث والدراسات الاسلامیۃ، صنعاء،الیمن، 2011م، ص: 150
  • 104 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السهیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 8
  • 105 ابو العباس احمد بن علی القلقشندی، نھایۃ الارب فی معرفۃ انساب العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتا ب اللبنانین، بیروت، لبنان، 1980م، ص: 211
  • 106 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 345
  • 107 الدکتورجواد على، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-1، مطبوعة: دار الساقى، بيروت، لبنان،2001م، ص: 353