جزیرہ نما عرب چار حصوں میں منقسم تھاجن میں سےشمالی حصہ رومیوں کے زیر اثر تھا جبکہ مغربی حصہ فارسیوں کے۔ جنوبی حصہ یمن کا تھا جہاں پر ایک عظیم سلطنت قائم تھی جبکہ ایک بڑے حصہ پر بدوی قبائل مقیم تھے۔ ان میں سے شروع کے تین طبقات علوم و فنون سے حسبِ ضرورت آگاہی اور شناسائی رکھتے تھے بلکہ بعض فنون میں ان کی مہارت پر کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا مثلا تعمیرات، بعض اشیاء کی صناعت، مخصوص خطوں میں ذراعت اور اپنے ماحول کی ضروریات کے مطابق آہنگری وغیرہ البتہ عرب کا چوتھا طبقہ جو وسط ِ عرب میں اور عرب صحرا کے مختلف خطوں میں آباد تھا مستقل خانہ بدوشی اور اسفار کے تسلسل نے انہیں علم الحیوانات اور جغرافیائی علوم کی بعض شاخوں میں مسلسل مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر اچھی خاصی مہارت دے رکھی تھی۔بعض عرب بدو قبائل سنگ تراشی کے فن سے بھی بخوبی آگاہ تھے کیونکہ ان کے ہاں اصنام پرستی نے انہیں اپنے مذہبی عقیدہ کے تحفظ اور ضرورت کی خاطر اس فن کو جاننے پر مجبور کر رکھا تھالیکن باقی ماندہ علوم جس کی انہیں کوئی حاجت نہیں تھی اس کی باقاعدہ تحصیل کی طرف وہ کبھی متوجہ نہیں ہو پائے اور نہ ہی انہوں نے ایسے علم کے حصول کوکبھی محسوس کیا چنانچہ یہ عرب بدو عام عرب کے مقابلہ میں کئی علوم و فنون سے یکثر محروم تھے لیکن علی الاطلاق ان کو جاہل کہنا درست نہیں ہے جیسا کہ بعض مؤرخین نام نہاد کا یہ دعوہ ہے کہ وہ جاہل تھے۔ دورِ جاہلیت کے عرب دورِ جدید کی اصطلاح کے اعتبار سے پڑھے لکھےمتصور نہیں کیے جاسکتےمگر اس کے باوجودان میں کئی ایسے علوم رائج تھے جن کے بارےمیں پڑھ کر ان کی ذہانت وفطانت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔وہ ایک طرف اپنے کلام میں فصاحت وبلاغت رکھتے تھے تو دوسری طرف علم الانساب، قیافہ، نجوم، کہانت، طب اور
وكان لهم ملوك وأقيال دوخوا البلاد واستولوا علي كثير من أقطار الأرض كل ذلك يدل علي كمال وقوفهم علي العلوم التي لا بد منها في حفظ النظام وعليها مدار المعاش والإنتعاش وسياسة المدن وتدبير المنزل والجيوش وتأسيس المدن وإجراء المياه وغير ذلك مما لا يمكن وجوده مع الجهل وعدم المعرفة.1
ان کے یہاں شہنشاہ اوربادشاہ بھی تھے جنہوں نے شہر وں کو مسخر کیا اور زمین کے بہت سے اطراف پر قابض ہوگئے۔ یہ تمام امورایسے ہیں جن سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ عرب ایسے تمام علوم سے کامل واقفیت رکھتے تھے جو نظم ونسق کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور جن پر معیشت، نشوونما، ملک کی سیاست، تدبیرِ منزل، فوجوں کے انتظام، شہروں کی تعمیر اورنہروں کے نکالنے وغیرہ کےامور کا دارومدار ہوتاہے۔ یہ ایسے امور ہیں جن کا جہالت اورعدمِ معرفت کے عالم میں پایا جانا ناممکن ہے۔2
عربوں میں ان ہی علوم نے رواج پایا جو ان کی فطرت کے لحاظ سے ضروری تھے کیونکہ ان پر بدویت غالب تھی اور رزق کی تنگی وزرعی پیداوار کے نہ ہونے نے ان کی توجہ دودھ دینے والے جانور پالنے کی طرف مبذول کروادی تھی مگر یہ بھی ان کی ضرورتوں کے لیے کافی نہ ہوسکا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر باہمی جنگ وجدال ہونے لگا۔ اس خانہ جنگی اور چارہ وپانی کی قلت کی وجہ سے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور تھے اور چونکہ ان کے یہاں مطلع صاف رہتا تھا اور آسمان کھلارہتا تھا اس لیے ان کو نقل وحرکت کرنے کی غرض سے راستوں کی دریافت میں ستاروں کی دیکھ بھال کی ضرورت درپیش ہوئی جو آخرکار علمِ نجوم کی بنیاد بن گئی۔
اپنے دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لیے وہ ایسے ذرائع کے محتاج ہوئے جن سے وہ دشمن کے اندرونی حالات سے واقف ہوتے رہیں اور اس کی نقل وحرکت کا صحیح اندازہ کرتے رہیں۔ اس ضرورت نے انہیں علمِ نقشِ قدم سے روشناس کرایا۔ آسمانی حوادث مثلاً بارش، آندھی اور طوفان وغیرہ سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کو بارش کی علامات اور موسمی ہواؤں کے دریافت کی ضرورت پڑی جس کوعلم الانواءاور علم مہاب الریاح (موسمی ہوا کا علم) کہتے ہیں، دوسری طرف خانہ جنگیوں نے ان کو اس امر کے لیے مجبور کیا کہ وہ گروہ درگروہ مجتمع ہوکر رہیں، اس کے لیے علم الانساب کا رواج ہوا تاکہ بوقت ضرورت ایک جدی قبائل ایک دوسرے کے مددگار رہیں اور پشت درپشت انتقام کا سلسلہ جاری رکھ سکیں، ان ہی جنگوں کی وجہ سے ان کی توجہ ہتھیاروں اور گھوڑوں کی طرف منعطف ہوئی، اس لیے وہ گھوڑوں کی تربیت، پرورش اور ان کے امراض کا علاج خوب جانتے تھے۔3
دورِ جاہلیت میں عربوں کے ہاں جو علوم رائج تھے یہ دوقسم کے علوم تھے: خالص عربی علوم اور ہمسایہ اقوام سے سیکھےہوئے علوم۔جو علوم ان لوگوں نے ضروریات کے تحت قیاس واستنباط سے سیکھے تھے اور پھر وہ ان میں پشت درپشت منتقل ہوتے رہے، یہ خالص عربی علوم تھے جن میں انساب، خطابت اور قیافہ شامل تھے۔ دوسرے وہ علوم تھے جو ان لوگوں نے اپنے ہمسایہ اقوام سے سیکھے تھے جن میں علمِ نجوم، طب، نچھتر(یعنی برجوں کا علم) اور کہانت شامل تھے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علوم ان لوگوں میں رائج تھےجن کا ذکر درجِ ذیل ہے:
یہ وہ علم تھا جس کے ذریعہ لوگوں کا نسب معلوم کیا جاتا۔ دورِ جاہلیت میں اہلِ عرب اس علم میں بہت ماہر تھے اور اس علم کے ضبط کرنے اور جاننے کے معاملے میں بڑا اہتمام کیا کرتے تھے۔ان میں سے بعض افراد کو تو پورے پورے نسب نامے ازبر ہوا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ قومی ونسبی مفاخرت کے بے حد قائل تھے، ہر خاندان اور ہر قبیلہ خود کو اپنے بزرگوں کی شرافت یا ممتاز کارناموں کی وجہ سے دوسروں سے اعلیٰ خیال کرتا تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ ہر قبیلہ اپنے اندر اجتماعی واتحادی طاقت پیدا کرنے کے لیے بھی نسب کا برقرار رکھنا اوراس کی حفاظت کرنا ضروری خیال کرتا تھا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کون کون سے افراد اور گھرانے ایک ہی شخص کی اولاد میں سے ہیں اس حوالہ سے ذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:
فإنه أحد أسباب الألفة والتناصر وهم كانوا أحوج شئ إلي ذلك حيث كانوا قبائل متفرقين وأحزابا مختلفين لمتزل نيران الحروب متسعرة بينهم والغارات ثائرة فيهم فإنهم امتنعوا عن سلطان يقهرهم ويكف الأذي عنهم فحفظوا أنسابهم ليكونوا متظافرين به علي خصومهم ومتناصرين علي من شاققهم وعاداهم لأن تعاطف الأرحام وحمية الأقارب يبعثان علي التناصر والألفة ويمنعان من التخاذل والفرقة أنفة من استعلاء الأباعد علي الأقارب وتوقيا من تسلط الغرباء الأجانب.4
یہ باہمی الفت اور باہمی مدد کا سبب تھا اور عربوں کو اس امر کی سب سے زیادہ ضرورت تھی کیونکہ وہ پھیلے ہوئے قبائل اور مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ جنگوں کی آگ ان کے مابین مسلسل بھڑکتی رہتی تھی اورغارت گری کی آگ روشن رہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہر اس بادشاہ سے جو ان کومغلوب کرلینا چاہتا اور انہیں دوسروں کی اذیت سے بچائے رکھتا، محروم کر رکھا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے نسب ناموں کو محفوظ رکھا تاکہ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرسکیں اور ان لوگوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون وناصربنیں جو ان کی مخالفت یا دشمنی کریں کیونکہ قرابت داری کا میلان اور رشتہ داروں کی حمیت دونوں ایسی چیزیں ہیں کہ باہمی نصرت اور الفت کا سبب بنتی ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتی اور فرقت(تفریق) سے روکتی ہیں۔اس کا باعث یہ غیرت تھی کہ کہیں اجنبی لوگ ہمارے قرابت داروں پر غالب نہ آجائیں اور یہ خیال کہ دور کے اجنبیوں کے تسلط کے خلاف مدافعت کی جائے۔5
اہلِ عرب اپنے نسب کی حفاظت کرنے میں بہت زیادہ محتاط تھے اور یہ ان کے لیے بڑی حد تک ضروری بھی تھا کیونکہ وہ اپنی تمام تر عزت وشرافت حفاظتِ نسب میں ہی خیال کرتے تھے۔ان کے لیے جہاں تک ممکن ہوتا وہ اپنی نسل کو بے میل رکھنے کی کوشش کرتے۔ یہ لوگ باہمی جنگ وجدال اور رقابتوں کے شکار رہتےاس لیے ان کو گروہ در گروہ ہو کر رہنا پڑتا تھا۔ وہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ اپنے باپ دادا اور قبیلہ کانام لگاتے تھےتاکہ بوقت ضرورت ایک خاندان اور نسل کے لوگ ایک دوسرے کی معاونت کرسکیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو نسل جتنی خالص ہوگی اسی درجہ اس کے اندر شرافت ونجابت، عزت وحمیت، عالی حوصلہ مندی اور خصائل حمیدہ ہوں گے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی شخص بھی اپنی آبائی وجاہت، عزت واقتدار اور نیک نامی کو گرانا نہیں چاہتا تھا بلکہ اسے اور زیادہ فزوں کرنے کی فکر میں لگارہتا تھا، اس لیے وہ نہ صرف ان کارناموں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا جو اس کے مورثِ اعلیٰ کرچکے تھے بلکہ خود بھی کوئی ایسا کام کرنے کی جستجو وجدوجہد میں رہتا تھا جس سے ہمیشہ کے لیے اس کا نام زندہ رہے۔ اس لیے عربوں میں قریش کو جودوسرے قبائل پر مرتبہ وفضیلت حاصل تھی وہ کسی اور کو نہ تھی کیونکہ یہ خاندان "اَباً عَن جَدٍّ"ایسے ہی ممتاز کارنامے کرتا چلا آیا تھا اور ان کا تدبر بھی ضرب المثل تھا۔ ہر شخص جس قدر ممکن ہوتا اپنا اور اپنے خاندان کا شجرہ نسب یاد رکھتا لیکن ان ہی میں سے پھر ایک ایسا طبقہ بن گیا جس کا کام صرف یہ تھا کہ وہ انساب یاد رکھے۔ قبیلہ کا ہر فرد ایسے شخص سے اپنے نسب کا پورا حال دریافت کرلیتا تھاچانچہ تاریخ میں مذکور ہے:
كان العرب لمزيد اعتنائها بحفظ الأنساب أكثر الناس معرفة بها ولم تخل قبيلة من قبائلهم من نسابة يلحق الفروع بأصولها وينفي عنها من ليس منها حتي كادوا يكونون جميعا علي هذه الصفة.6
چونکہ عرب نسب کی حفاظت کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے اس لیے انہیں اس کا علم بھی سب سے زیادہ تھا۔ کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس میں کوئی ایسا نسب دان نہ ہوجو فروع کواصول سے ملادے اور ایسے لوگوں کو باہر نہ نکال دے جو قبیلے میں سے نہ ہوں یہاں تک کہ تقریباً سب میں یہ صفت پائی جاتی تھی۔7
اسی طرح نسب کے معاملے میں دورِ جاہلیت کی دیگر اقوام بھی بہت محتاط تھیں جن میں یونانیوں کا تو یہ حال تھا کہ وہ افراد کے علاوہ اپنے بتوں اور دیوتاؤں کے جھوٹے نسب نامے بھی محفوظ کرکے رکھتے تھے۔ یونانیوں میں زمانہ جاہلیت میں بہت سے افراد ایسے بھی تھے جن کاجھوٹا نسب نامہ زبردستی دیوتاؤں سے ملایاجاتاتھا تاکہ ان کی جھوٹی عظمت کو ثابت کیاجاسکے، یہی حال اہلِ روما کا بھی تھا۔ جو قبیلہ ان کے یہاں بطارقہ کے نام سے مشہور تھا، وہ دیوتاؤں کی اولاد خیال کیا جاتا تھا۔ یہودی بھی اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد میں شمار کرتے آئے تھے اور اپنی قوم میں سے ہر قبیلہ کا نسب حضرت ابراہیم خلیل اﷲ تک پہنچاتے تھے مگر علم الانساب والے لوگ جھوٹ اور سچ کے درمیان بالکل واضح فرق کرکے صحیح انساب تک لوگوں کی رہنمائی کیاکرتےتھے۔
وقت گزرنےکےساتھ کوئی نہ کوئی شخص نسب دانی میں مہارت حاصل کرلیتاتھااورمشہورہوجاتاتھا، اس لحاظ سےعرب میں کئی مشہور نساب (نسب داں) ہوگزرے جن میں دغفل سدوسی، ابن لسان، زید بن الکیس النمری، النخار بن اوس بن الحرث بن ھذیم القضاعی، صعصعہ بن صوحان، ابو ضمضم عمیرہ، عبداﷲ بن عبد الحجر، عبید بن شریہ اورمالک بن خیر خاص طور پر شامل تھے۔یہ تمام عربوں کے مشہور نسب دان تھے اور انساب کا علم رکھنے میں ضرب المثل ہوگئے تھےجیسا کہ ذیلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے:
وممن عرف واشتهر بعلم النسب وأخذ النسب عن الجاهليين.8
یہ وہ تھے جو علم الانساب میں ماہر اورجاہلی عرب سے نسب ملانے والوں میں مشہورہوئے۔
ان میں سے بعض کا مختصر تعارف حسبِ ذیل ہے۔
دغفل بن حنظلہ السدوسی عرب کا بہت بڑا نسب دان اور علمِ نجوم کا ماہر تھا۔اس نے حضور ﷺکا زمانہ بھی پایا چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن قتیبہ دینوری لکھتے ہیں:
أدرك النبي صلي الله عليه وسلم ولم يسمع منه شيئا.9
اس نے نبی کریم ﷺکا زمانہ پایا مگر ان سے کچھ سماعت نہ کی۔10
اہل عرب اس کی نسب دانی کے حوالہ سے مثال دیا کرتے تھے کہ فلاں دغفل سے بھی زیادہ نسب دان ہے چنانچہ اس حوالہ سے ابو العباس قلقشندی لکھتے ہیں:
دغفل بن حنظلة النسابة الذي يضرب به المثل في النسب وقد كان له معرفة بالنجوم وغيرها أيضامن علوم العرب.11
نسب دان دغفل بن حنظلہ، نسب دانی میں جس کی مثال دی جاتی ہے، وہ عرب کے علوم میں سےستاروں کا علم بھی جانتاتھا۔
نیز ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
إنه كان عالما بالعربية والأنساب والنجوم وقد أغلبته النسب.12
وہ عربی زبان، انساب اورعلمِ نجوم کا ماہر تھا جبکہ علم الانساب اس پرغالب تھا۔
یعنی دیگر علوم کے ساتھ ساتھ یہ نسب دانی میں بھی کافی مہارت رکھتا تھا۔
ان ماہرین انساب میں سے ایک ابن لسان بھی تھاجس کے بارے میں آتا ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے تھا جو عربوں کے انساب کا علم رکھنے میں ضرب المثل ہوگئے تھےچنانچہ عربوں کی ایک مثال ہے:
أنسب من ابن لسان الحمر.13
ابن لسان الحمرہ سے بھی زیادہ نسب دان۔
یہ بنی تیم اللات بن ثعلبہ کا ایک فرد تھا، اس کا نام حصین بن ربیعہ اور کنیت ابو کلاب تھی چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
ابن لسان الحمرة، رجل من العرب له ذكر، اسمه حصين بن ربيعة بن صقر بن كلاب التيمي.14
ابن لسان الحمرہ، عرب کا ایک شخص تھا، عرب تاریخ میں اس کاتذکرہ بھی ہے، اس کا نام حصین بن ربیعہ بن صقر بن کلاب التیمی تھا۔
یہ عربوں کا سب سے بڑا نسب دان تھا اور بڑائی کے اعتبار سے بھی سب سے بڑا تھا۔ اس حوالہ سے امام ابن قتیبہ دینوری لکھتے ہیں:
وكان أنساب العرب وأعظمهم بصرا.15
یہ عربوں کے نسب دانوں میں سب سے بڑا نسب دان اور اس پر نگاہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ نظر رکھنے والا تھا۔16
یعنی ابن لسان بھی علم الانساب میں انتہائی مہارت رکھنے والا عرب تھا۔
زید بن الکیس النمری بھی اس حوالہ سے بہت مشہور تھا۔ یہ بنی عوف بن سعد بن تغلب بن وائل میں سے تھا چنانچہ اس حوالہ سے ابو نصر فارابی لکھتے ہیں:
زيد بن الكيس النمري النسابة.17
زید بن الکیس النمری نسب دان تھا۔
ابو الحسن مرسی نے بھی اس کے حوالہ سے یہی لکھا ہے۔18 زید الکیس ان عربوں میں سے تھا جو علمِ نسب میں دغفل نسب دان کے قریب قریب شمار ہوتا ہے۔ امام ابن منظور افریقی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
وكانا عالمي العرب بأنسابها وأيامها وحكمها.19
وہ دونوں عرب کے انساب، ایام ِواقعات اورضرب الامثال کےعالم تھے۔
یعنی زید ودغفل اس علم میں برابری کے حامل تھے۔
النخار بن اوس بن الحرث بن ہذیم القضاعی بھی عرب کے ضرب المثل نسب دانوں میں سے ایک تھا۔ یہ عربوں کا ماہر نسب دان تھا اور علمِ نسب میں مقدم لوگوں میں سے مانا جاتا تھا چنانچہ ابن حزم اندلسی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
كان أنسب العرب.20
یہ سب سے بڑا نسب دان تھا۔
یعنی نخار بن اوس عربوں کے نسب دانوں میں اس علم کا سب سے بڑا ماہر تھا۔
اسی طرح ان لوگوں میں ایک بڑا نام صعصہ بن صوحان کا بھی لیاجاتاتھاجس کےحوالہ سے سیّد محمود شکری لکھتے ہیں:
قد كان صعصعة هذا من المشاهير بمعرفة أنساب العرب من المقدمين بعلم أحوال قومه في الجاهلية.21
صعصعہ عربوں کے نسب جاننے کے معاملے میں شہرت پانے والے لوگوں میں سے تھا۔ عہد جاہلیت میں اپنی قوم کے حالات جاننے کے سلسلے میں جو لوگ مقدم تھے اسے بھی ان میں شمار کیا جاتا تھا۔22
زمانہ اسلام میں بھی اس امر کی طرف پوری توجہ رکھی گئی اور صحابہ کرام ﷺنے اس کو کافی حد تک محفوظ رکھا یہاں تک کہ حضرت عمر فرماتے ہیں:
تعلموا النسب ولا تكونوا كنبط السواد إذا سئل أحدهم عن أصله قال من قرية كذا.23
نسب نامہ سیکھو، عراق کے نبط کی طرح نہ بن جاؤ کہ جب ان میں سے کسی سے پوچھا جائے کہ تم کس خاندان سے ہو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم فلاں شہر کے ہیں۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق عرب کے بہترین نسب دان تھےچنانچہ اس حوالہ سے عبداﷲ عبدالجبار مصری لکھتے ہیں:
وكان من أشهر النسابين في العصر الجاهلي وما بعده: أبوبكر الصديق.24
جاہلیت اور مابعد دور میں سب زیادہ مشہور نسب دان حضرت ابوبکر صدیق تھے۔
حفاظت نسب کی اہمیت اسلام میں بھی اس قدر زیادہ رہی کہ بعد کے لوگ محدثین میں سے ایسے شخص کی روایتِ حدیث قبول نہیں کرتے تھے جو مجہول النسب ہوتا تھا یعنی جس کا نسب مشہور ومعلوم نہ ہوتا تھا یہاں تک کہ علمِ اصولِ حدیث کا یہ ایک قانون بن گیا کہ اگر راوی مجہول النسب ہوگا تو اس کی روایت مردود اور ناقابلِ قبول ہوگی۔ عرب نہ صرف یہ کہ اپنے ہی انساب کی حفاظت کرتے تھے بلکہ اپنے گھوڑوں کے انساب کا بھی خیال رکھتے تھے اور یہ بھی اسی لیے کہ ان کے مطابق گھوڑوں کی نسل میں میل ہونے کی وجہ سے ان کے اندر سے جدی خصائص وشرافت زائل ہوجاتی تھی۔25 پوری دنیا میں جہاں بھی نجابت، شرافت اور کرامت کا تصور موجود ہے وہاں نسل اور نسب کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہےتاکہ بد نسل اور بے نسل آدمی اقتدار اور اخلاقِ حیات کو تباہ و برباد نہ کر دے۔نسب اور صحیح النسل شخص بہرصورت معاشرتی روایات کا امین اور اخلاقی اقدار کا کسی نہ کسی درجہ میں پاسدار ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس بد نسب اور بے نسب شخص سے آپ کسی بھی وقت اور موقع پر کسی بھی قسم کی خباثت اور رذالت کی توقع کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں تمام اقوامِ عالم اور بالخصوص عربوں نے صحتِ نسب و نسل کی طرف بھرپور توجہ دے کر اپنے نسب و نسل کی حفاظت کی جس کے نتیجے میں حضورﷺ اور صحابہ کرام کے خاندان، نسب و نسل کی پاکیزگی و طہارت، آپﷺ کی نجابت و کرامت اور صحابہ کرام کے خانوادوں کی شرافت و طہارت نےان ذواتِ مقدسہ کواپنے اور ما بعد کےادوار کےطعن و تشنیع سے قیامت تک محفوظ فرماکر آپ ﷺکے پیغام ہدایت (اسلام) کوبھی جوصحابہ کرام کے ذریعہ پوری انسانیت تک پہنچا ہے ہر طعن و تشنیع اور تہمت سے محفوظ کر دیا۔
اہلِ عرب کے خالص علوم میں سے دوسرا علم خطابت تھا۔اہلِ عرب کیونکہ اکثر حالت جنگ میں رہتے تھےاور اپنے دشمنوں سے برسرپیکار رہتےتھےاس وجہ سے ان کے لیےیہ ازحد ضروری تھا کہ ان کی اقوام میں کچھ ایسے لوگ بھی موجودرہیں جو ان کے جنگی جذبات، قومی احساسات اور نسلی تفاخر کو اجاگر کرکے ان کو میدانِ جنگ میں جوہردکھانے کےلیےابھارسکیں اور یہ کام شعراء کے ساتھ مل کرسب سےبہتر انداز میں ایک عمدہ خطیب ہی سرانجام دیاکرتاتھا۔یہ خطابت ان کے لیےاس وجہ سے بھی ضروری تھی کہ وہ اپنے وفود قریب کی ہمسایہ حکومتوں کے پاس وقتاً فوقتاً بھیجتے رہتے تھے اور اظہارِ مدعا کے لیے اس سے زیادہ پر اثر ذریعہ اور کوئی نہ تھا چنانچہ آلِ منذر جو حیرہ میں حکمران تھے اپنے اکثر وفود شاہانِ فارس کے پاس بھیجتے رہتے تھے جو ان کی بڑی سرپرست حکومت تھی۔ ایسے ہی یمن اور مشرقی عرب سے بھی عمال کی شکایت کے لیے عموماً اپنے وفود حکام بالا کے پاس بھیجا کرتے تھے اور ان تمام امور کے لیے خطابت لازمی چیز تھی اس لیے وہ خطابت کی طرف مائل ہوئے۔
عربوں کے خطیبوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتاتاہم اس زمانہ کے مشہور خطباء میں قس بن ساعدہ الایادی، سحبان وائل باھلی، دوید بن زید، زہیر بن جناب بن ہبل الحمیری، مرثد الخیر الحمیری، الحرث بن کعب المذحجی، قیس بن زہیر العبسی، الربیع بن ضبیع الفزاری، ابو الطمحان القینی اورذو الاصبع العدوانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
یہ سب کے سب نہایت فصیح وبلیغ مقرر تھے۔ ان کی تقریر کا ہرجملہ بلکہ ہر لفظ موقع و محل کے نہایت مناسب ہوتا جو طبائع میں بے حد اثر پیدا کرتا تھا۔ ان میں قس بن ساعدہ اور سحبان وائل بہت زیادہ مشہور تھے۔جن کا ذکر ذیل میں مختصراً کیا جارہا ہے۔
اس کا نام تمام خطباء سے زیادہ مشہور ہے اور یہ سب سے زیادہ بلند مرتبہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے کلام کی روایت کی ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے خاکستری رنگ کے اونٹ پر کھڑے ہونے اور وعظ کرنے کا ذکر کیا ہےچنانچہ اس حوالہ سے امام ابونعیم اصفہانی روایت کرتے ہیں:
عن ابن عباس قال لما قدم وفد إياد علي رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لهم رسول الله صلي الله عليه وسلم أيكم يعرف قس بن ساعدة الإيادي؟، قالوا كلنا نعرفه يا رسول الله، قال فما فعل؟، قالوا مات يا رسول الله، قال رسول الله صلي الله عليه وسلم رحم الله قس بن ساعدة ما أنساه، وكأني أنظر إليه بسوق عكاظ في الشهر الحرام علي جمل له أورق أحمر وهو يخطب الناس، ويتكلم بكلام عليه حلاوة وهو يقول أيها الناس اجتمعوا واستمعوا واحفظوا وعوا، من عاش مات، ومن مات فات، وكل ما هو آت آت، ليل داج، وسماء ذات أبراج، بحار تزخر، ونجوم تزهر، ومطر ونبات، وآباء وأمهات، وذاهب وآت، وضوء وظلام، وبر وآثام، لباس ومركب، ومطعم ومشرب، إن في السماء لخبرا، وإن في الأرض لعبرا، مهاد موضوع، وسقف مرفوع، ونجوم تمور، وبحار لا تغور، أقسم قس قسما حقا، لئن كان في الأرض رضا ليكون سخطا، إن لله دينا هو أحب الأديان إليه من دينكم الذي أنتم عليه، ما لي أري الناس يذهبون ولا يرجعون، أرضوا بالمقام هناك فأقاموا، أم تركوا هناك فناموا؟ ثم قال أقسم قس قسما برا لا إثم فيه ما لله علي الأرض دين هو أحب إليه من دين أظلكم إبانه، وأدرككم أوانه، طوبي لمن أدركه فاتبعه، وويل لمن أدركه ففارقه، ثم أنشأ يقول:
في الذاهبين الأولين
من القرون لنا بصائر
لما رأيت مواردا
للموت ليس لها مصادر
ورأيت قومي نحوها
تمضي الأصاغر والأكابر
لا يرجع الماضي إلي
ولا من الباقين غابر
أيقنت أني لا محالة
حيث صار القوم صائر
فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يرحم الله قس بن ساعدة، لأرجو أن يأتي يوم القيامة أمة وحده.26
حضرت عبداﷲبن عباس سےروایت ہےآپ نے بیان فرمایا کہ جب وفدبنو ایاد نبی کریم ﷺکے پاس آیاتو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی شخص قس بن ساعدہ ایادی کو جانتا ہے؟ وہ کہنے لگے یا رسول اﷲ! ہم سب اسے جانتے ہیں۔ فرمایا: اس کا کیا حال ہے؟ عرض کیا یا رسول اﷲ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: اﷲ قس بن ساعدہ پر رحمتیں نازل کرے میں اسے بھلانہ سکوں گا، یوں لگتا ہے کہ میں آج بھی اسے بازار عکاظ میں دیکھ رہا ہوں۔ جب وہ ذی القعدہ میں اپنے بادامی رنگ والے اونٹ پر سوار ہوکر آیا اور لوگوں سے نہایت خوش کلامی کے ساتھ مخاطب ہوا۔اے لوگو! آؤ سنو اور یاد رکھو ہر زندہ مرکر رہااور ہر مرنے والا فنا ہوگیا۔ جو فیصلہ ہوچکا وہ پورا ہوکر رہے گا۔ رات سیاہ ہے، آسمان برج دار ہے، سمندر میں طغیانی آتی رہے گی، ستارے جھلملاتے رہیں گے، بارش ہوتی رہے گی، زمین سبزہ اگلتی رہے گی اورمرد وعورت باپ اور ماں کا روپ دھارتے رہیں گے۔موت وحیات کا سلسلہ جاری رہے گا، روشنی اور سایہ کا ساتھ قائم رہے گا اور نیکی و بدی کی جنگ جاری رہے گی۔ لباس، سواری اور کھانے پینے کی نعمتیں بٹتی رہیں گی۔ آسمان اپنی بلندی میں کسی کارساز کی خبر دے رہا ہے، زمین اپنی بناوٹ میں کسی مدبر کا پتا دے رہی ہے، فرش بچھا ہے، چھت قائم ہے، ستارے متحرک ہیں اور سمندر موجوں پر ہیں۔ قس نےسچی قسم اٹھائی کہ اﷲ کا ایک دین ہے جو اسے تمہارے دین سمیت ہر دین سے محبوب تر ہے۔ کیا وجہ ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ چلے جاتے ہیں واپس نہیں آتے۔ جہاں گئے تھے وہیں ان کا دل لگ گیا ہے یا یونہی سوئے پڑے ہیں کہ کچھ خبر ہی نہیں؟پھر وہ کہنے لگا کہ قس سچی قسم اٹھاتا ہے جس میں جھوٹ نہیں کہ اﷲ کو جودین زمین پر باقی تمام ادیان سے پیارا ہے اس کا وقت آگیا ہے، خوش قسمت ہے جو اس کی پیروی کرے گا اور بدبخت ہے جو اس کی مخالفت کرے گا۔ پھراس نے یہ اشعار کہے:
گزشتہ زمانوں میں فنا ہوجانے والے پہلے لوگوں میں ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔
جب میں دیکھتا ہوں کہ موت وہاں وہاں آدھمکی جہاں اس کے آنے کا تصور بھی نہیں تھا۔
اور میں دیکھتا ہوں کہ میری قوم کے سب چھوٹے بڑے راہِ مرگ پر گامزن ہیں۔
کوئی جانے والا میری طرف لوٹ کر نہیں آتااور نہ ہی زندوں میں سے کوئی موت سے آزاد رہ سکےگا۔
تو مجھے یقین ہوگیا کہ یقیناً میرا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو دوسروں کا ہوچکا ہے۔
اس کے بعد نبی کریمﷺنے فرمایا: اﷲ قس بن ساعدہ پر رحمت فرمائے مجھے امید ہے کہ روزِ قیامت وہ تنہا بحیثیتِ امت اٹھایاجائےگا۔
عرب کے دوسرے بڑے خطیب سحبان بن وائل تھے۔ ان کی فصاحت نہ صرف عرب میں زبانِ زد عام تھی بلکہ تمام دنیا میں اس کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ ایسا خطیب تھا جس کے بیان کی مثال دی جاتی تھی چنانچہ عرب جب بیان میں کسی انسان کی تعریف کرنا چاہتے توکہتے فلاں سحبان وائل سے بھی زیادہ فصیح البیان ہےچنانچہ اس حوالہ سے امام ابن قتیبہ دینوری لکھتے ہیں:
وكان خطيباً فضرب به المثل قال الشاعر في ضيف نزل به:
أتانا ولم نعدله سحبان وائل
بيانا وعلما بالذي هو قائل
فما زال عنه اللّقم حتّى كأنه
من العىّ لمّا أنّ تكلّم باقل.27
یہ شخص بہت بڑا خطیب تھا اور خطابت میں ضرب المثل ہوگیا تھا۔ ایک شاعر نے ایک مہمان کے بارے میں جو اس کے ہاں مقیم تھا یہ شعر کہے:
وہ مہمان ہمارے ہاں آیا اور ہم نے خطابت وعلم میں سحبان وائل کو بھی اس کا ہم پلہ نہ قراردیا۔مگر وہ مسلسل خاموش رہا۔ ایسا معلوم ہوا کہ وہ باقل جیسا عاجز گفتار تھا۔28
جب یہ خطبہ دیتا تو اس کا پسینہ بہنے لگتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی بڑی بڑی تقریروں میں نہ کسی لفظ کو دہراتا تھا نہ درمیان میں کوئی لفظ سوچنے کے لیے ٹھہرتا تھا، اس کی تقریر ایک پرسکون سمندر کی طرح تھی جس کی سطح پر اس کی زبان کی کشتی رواں دواں بے روک ٹوک جاری ہوجاتی۔ الغرض دورِ جاہلیت میں شاعروں کے بعد ان خطباء کو بہت بلند مقام حاصل تھا لیکن اسلام نے شعراء کے درجہ کوگھٹا دیاکیونکہ شعراء بالعموم اپنے کلام میں اس درجہ مبالغہ پیدا کرتے جو صراحتاً جھوٹ ہوتا تھا۔ بعض اشعار محض ان کے تخیل کی پیداوار ہوتے تھے اور ان کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہ ہوتا۔ اسلام میں شعراء کا درجہ اس وجہ سے بھی کم ہوگیا کیونکہ تبلیغ کے لیے اسلام کو خطیبوں کی ضرورت تھی نہ کہ شعراء کی۔29
دور جاہلی کےعلومِ عرب میں ایک خاص اور معروف علم قیافہ شناسی کا بھی تھا جو عربوں کے خود ساختہ علوم میں سے ایک تھا۔ اس کوانہوں نے دیگر اقوا م سے نہیں سیکھا تھا بلکہ خود ایجاد کیا تھا۔ اس علم کی طرف بھی انہیں شدید احتیاج تھی اور اسی احتیاج وضرورت نے انہیں اس کی ایجاد پر مجبور کیا تھا۔ ابن عبد ربہ اندلسی اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكان في العرب خاصة القيافة لم يكن في جميع الأمم أحد ينظر إلي رجلين أحدهما قصير والآخر طويل أو أحدهما أسود والآخر أبيض فيقول هذا القصير ابن هذا الطويل وهذا لأسود ابن هذا الأبيض إلا في العرب.30
عربوں میں خصوصیت سے قیافہ شناسی پائی جاتی تھی۔ عربوں کے ماسوا کسی بھی قوم کے کسی فرد میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ دواشخاص کو دیکھے جن میں سے ایک لمبا ہو اور دوسرا پستہ قامت یا ان میں ایک کالا ہو اور دوسرا گورا اور وہ یہ کہہ دے کہ یہ پستہ قامت اس دراز قد کا فرزند ہے اور یہ کالا اس گورے کا بیٹا ہے۔ یہ چیز صرف عربوں میں تھی۔
قیافہ کا منشاء کسی شے کی اصلیت اور اس کی اہمیت معلوم کرکےنتائج تک پہنچنا ہےچنانچہ مؤرخین قیافہ کو دو حصوں پر تقسیم کرتے ہیں:
قیافۃ الاثر کا مطلب یہ ہے کہ انسانی نقشِ قدم یا گھوڑے اور اونٹ وغیرہ کے پیروں کی شناخت وپہچان حاصل کرنا جیسا کہ ذیلی عبارت سے واضح ہوتا ہے:
قيافة آثار الأقدام والأخفاف والحوافر للإستدلال مها علي أصحابها وتعيين النسب في حالة الشك فيه.31
قدموں کے نشانات، جانوروں کےکھراورٹاپوں کے آثارسے ان کے اصحاب کی صحیح شناخت کرنا اورشک کی حالت میں صحیح نسب کاتعیّن کرنا۔
یہ علم عرب کے لیے بے حد کارآمد علوم میں سے تھا اور اس سے وہ بڑے بڑے کام نکال لیتے تھے۔ یہی وہ علم تھا جس کے ذریعہ سے وہ بھاگے ہوئے آدمی اور گم شدہ جانوروں کا پتا لگالیتے تھے۔ اس علم میں انہوں نے اس درجہ کمال حاصل کرلیا تھا کہ وہ بوڑھے اور جوان، مرد اور عورت، عورتوں میں شادی شدہ وغیر شادی شدہ کی شناخت بھی صرف ان کے نشان ِقدم ہی کے ذریعہ سے حاصل کرلیتے تھے، یہاں تک کہ وہ یہ اندازہ بھی لگالیتے تھے کہ اس راستہ سے گزرنے والا انسان یا جانور جسمانی اعتبار سے توانا وتندرست ہے یا بیمار، فربہ ہے یالاغرجیساکہ ذیلی اقتباس معلوم ہوتا ہے:
ونفع هذا العلم بين إذ القائف يجد بهذا العلم الفآر من الناس والضال من الحيوان يتتبع آثارها وقوائمها بقوة الباصرة وقوة الخيال والحافظة حتي يحكي أن بعضهم يفرق بين أثر قدم الشاب والشيخ وقدم الرجل والمرأة والبكر والثيب.32
اس علم کا نفع واضح ہے کیونکہ اس علم کے ذریعہ سے قیافہ شناس بھاگے ہوئے انسان اور گم شدہ جانور کو اس کے نقشِ قدم اور جانوروں کےکھروں کے نشان کو تلاش کرکے اپنی بینائی، خیال اور حافظہ کی طاقت کے ذریعہ پالیتا ہے۔ یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ بعض قیافہ شناس جوان اور بوڑھے، عورت اور مرد، کنواری اور بوڑھی عورت کے نقشِ قدم میں امتیاز کرلیتے ہیں۔33
سیرت النبیﷺ کے ایک مشہور واقعہ میں بھی اس کا ذکر منقول ہوا ہے۔ ہجرت کے وقت مشرکین مکّہ کاحضورﷺ کی گزرگاہ معلوم کرکے غارثور کے منہ تک پہنچنا اسی علم کے بدولت تھا چنانچہ اس وقت علقمہ بن کرز قیافہ میں بہت ماہر تھے اور کفارِ قریش نے اس کام کے لیے آپ ہی کو چنا تھا۔ اس حوالہ سے امام صالحی شامی بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:
وذكر البلاذري في تاريخه وأبو سعيد في الشرف أن المشركين استأجروا رجلا يقال له علقمة بن كرز بن هلال الخزاعي وأسلم عام الفتح فقفا لهم الأثر حتي انتهي إلي غار ثور وهو بأسفل مكة فقال: ههنا انقطع أثره ولا أدري أخذ يمينا أم شمالا أم صعد الجبل. فلما انتهوا إلي فم الغار قال أمية بن خلف ما أربكم في الغار؟ إن عليه لعنكبوتا كان قبل ميلاد محمدثم جاء فبال.34
بلاذری نے تاریخ میں اور امام ابو سعید نے شرف میں لکھا ہےکہ مشرکین نے ایک شخص علقمہ بن کرز کو اجرت پر لیا، اس نے فتح مكّہ کے سال اسلام قبول کرلیا تھا۔یہ آپ ﷺکے قدمین شریفین کے نشانات پر چلتا رہاحتیٰ کہ غارِثور تک پہنچ گیا۔ اس نے کہا قدمین شریفین کے نشانات اس جگہ ختم ہیں۔ میں نہیں جانتا آپ ﷺدائیں یا بائیں یا اوپر چلے گئے۔ جب وہ غار کے دہانے تک پہنچے تو امیہ بن خلف نے کہا: تمہیں غار کے اندر جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر مکڑے نے جالا تنا ہے جو محمد عربی ﷺ کی ولادت مبارکہ سے بھی پہلے کا ہے پھر وہاں آکر اس نے پیشاب کیا۔
اسی طرح حضور نبی کریم ﷺکے بچپن کے ایک واقعہ میں بھی بنی مدلج والوں کی قیافہ شناسی کے حوالہ سے ذکر موجود ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ جب بنومدلج قبیلہ کے ایک گروہ نے رسول کریم ﷺکو دیکھا توانہوں نے آپ ﷺکو پاس بلایا اور آپ ﷺکے قدمین شریفین کی طرف دیکھا۔35 ادھر حضرت عبد المطلب نے جب آپ ﷺکو گم پایا تو آپ ﷺ کی تلاش میں نکلے حتیٰ کہ وہ آپ ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب وہ گروہ رسول کریم ﷺکو ہاتھوں میں اٹھا کر غور سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس بچے سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟ تو حضرت عبد المطلب نےجواب دیا کہ یہ میرے بیٹے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کی حفاظت کیجئے گا کیونکہ ہم نے مقامِ ابراہیم کے قدموں کے ساتھ ان کے قدموں سے زیادہ مشابہہ کوئی قدم نہیں دیکھے۔36 ابن برہان الدین حلبی اسی روایت کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقال لعبد المطلب قوم من بني مدلج: أي وهم القافة العارفون بالآثار والعلامات: احتفظ به، فإنا لم نر قط ما أشبه بالقدم التي في المقام منه. أقول: أي فإن إبراهيم عليه الصلاة والسلام، أثرت قدماه في المقام: وهو الحجر الذي كان يقوم عليه عند بناء البيت وهو الذي يزار الآن بالمكان الذي يقال له مقام إبراهيم.37
بنی مدلج کے کچھ لوگوں نے جو قیافہ شناس تھے اور چہرہ مہر ہ دیکھ کر آدمی کے مستقبل کے متعلق بتلادیا کرتے تھے ایک دفعہ حضرت عبد المطلب سے کہا: اس بچے کی حفاظت کرو اس لیے کہ مقام ابراہیم پر (حضرت ابراہیم کے) قدم کا جو نشان ہے اس سے شباہت رکھنے والا قدم ہم نے اس بچے کے سوا کسی کا نہیں دیکھا۔مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم کعبے کی تعمیر کے وقت کھڑےہوا کرتے تھے۔ اس پتھر پر بطور معجزہ ان کے پیروں کے نشان پڑگئے تھے۔ یہی پتھر ہے جس کی لوگ زیارت کرتے ہیں اور جو مقام ابراہیم کہلاتا ہے۔
اسی حوالہ سے ایک مرفوع حدیث بخاری میں بھی منقول ہے 38 اور ایک صحابی، حضرت جہم بن حذیفہ جو کعبہ کی تعمیرِ قریش اورتعمیرِ ابن زبیر میں شریک تھےوہ فرمایا کرتے تھے:
ما رأيت شبها كشبه قدم النبي صلي الله عليه وسلم بقدم إبراهيم التي كنا نجدها في المقام.39
حضرت ابراہیم کے جو نقوشِ قدمین شریفین ہم مقام ابراہیم میں دیکھتے ہیں ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے قدموں سے زیادہ کسی کی مشابہت میں نے نہیں دیکھی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حجاز کی ایک کاہنہ کے حوالہ سے امام احمد بن حنبل ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:
إن قريشا أتوا كاهنة، فقالوا لها: أخبرينا بأقربنا شبها بصاحب هذا المقام؟ فقالت: إن أنتم جررتم كساء علي هذه السهلة، ثم مشيتم عليها أنبأتكم۔ فجروا، ثم مشي الناس عليها، فأبصرت أثر محمد صلي الله عليه وسلم فقالت هذا أقربكم شبها به. فمكثوا بعد ذلك عشرين سنة، أو قريبا من عشرين سنة، أو ما شاء الله، ثم بعث صلي الله عليه وسلم .40
قریش ایک کاہن عورت کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں اس آدمی کے متعلق بتاؤ جو ہم میں سب سے زیادہ اس مقام (مقام ابراہیم ) والے کے مشابہہ ہے۔ تو اس نے کہا کہ اگر تم اس نرم ریت پر چادر گھسیٹو اورپھر اس پر چلو تو میں تمہیں بتاؤں گی، انہوں نے چادر گھسیٹی اورپھر اس پر چلے تواس نے نبی کریم ﷺ کے نقوش پاک مبارک دیکھے تو کہا: یہ آدمی تم سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہیں۔ اس کے تقریباً بیس (20)سال یا جتنے سال اﷲ تعالیٰ نے چاہے اتنے سال بعد آپ ﷺکو نبوت (کے اعلان) سے سرفراز فرمائے گا۔
یعنی صرف مقامِ ابراہیمکو دیکھ کر عرب کے قیافہ شناس حضرت ابراہیمکے قدم کی ہئیت جانتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے نبی مکرم ﷺکے قدمین شریفین کو دیکھ کر کہا تھاکہ آپﷺ کے قدمین مطہرین حضرت ابراہیمسے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔
قیافہ کی دوسری قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے چہرے اور اعضاءِ ظاہری کے اشکال وتناسب سے اس کے کچھ باطنی خصائص وخصائل اور عادات وحالات کا پتا لگایا جائے اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ کس قبیلہ کا ہے اور کس باپ کا بیٹا ہے؟ اس علم میں بھی عربوں کو کچھ کم کمال حاصل نہ تھاچنانچہ اس حوالہ سے سیّد محمود شکری لکھتے ہیں:
قيافة البشر فهي الاستدلال بهيئات أعضاء الشخصين علي المشاركة والإتحاد بينهما في النسب والولادة في سائر أحوالهما وأخلاقهما.41
قیافۃ البشر میں دو شخصوں کے اعضاء کی ہیئت وصورت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دونوں شخص نسب، ولادت اور دیگر حالات اور اخلاق میں باہم شریک اور متحد ہیں۔42
یہ قیافہ کی دوسری قسم تھی جس میں اہلِ عرب پہلی قسم کی طرح ماہر تھے۔
عرب اس علم میں ممتاز درجہ رکھتے تھے اور یہ علم ان سے زیادہ کوئی دوسری قوم نہ جانتی تھی۔ ویسے تو عرب کا ہر فرد اس سے واقف تھا لیکن بعض قبائل اس علم میں خاص امتیاز وخصوصیت کے حامل تھے اور وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اس میں مخصوص دلچسپی لی تھی اور بہت زیادہ محنت کی تھی۔ اس علم کے ماہر و مشہور قبائل میں بنی مدلج، بنی لہب، بنی ربیعہ، بنی مضر، بنی نزاراورقریش کے نام سرِ فہرست تھے۔ذیلی عبارت سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:
وقد اشتهرت بها بنو مدلج خاصة حتي قيل للقائف مدلجي بسبب هذا الاختصاص وبنو لهب وأحياء مضر.43
قیافہ شناسی میں بنو مدلج اس قدر مشہورہوئے کہ اس خصوصیت کی وجہ سے ہر قیافہ شناس کو(قیافہ شناس کے بجائے)مدلجی کہاجانےلگا۔اسی طرح بنو لہب اور بعض مضری قبائل بھی مشہور ہوئے۔
سبط ابن الجوزی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
القيافة في مضر وربيعة وأنمار أولاد نزار وكذا في إياد ومذحج.44
قیافہ شناسی مضر، ربیعہ، انماراور نزارکی اولادکی طرح ایادومذحج میں بھی تھی۔
یہ قبائل اگرچہ اس حوالہ سے بہت مشہور تھے تاہم ظہورِ اسلام کے وقت قریش بھی اس علم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ہوا کدھر کو چل رہی ہے، مٹی اڑکر کدھر جاتی ہے، پرندہ چھوڑا جائے تو کدھر کا رخ کرتا ہے، ان باتوں سے قیافہ کرنا اورنیک وبدشگون کا اندازہ کرنا ان کے لیے مخصوص تھا۔45
بہرحال عربوں کو علمِ قیافہ وفراست میں بڑا کمال حاصل تھا۔ وہ انسان کی وضع، شکل اور رنگ دیکھ کر اس کے اخلاق اور عادات سے پوری واقفیت حاصل کرلیتے تھے اور یہی ان کی ذکاوتِ طبع کی روشن دلیل تھی۔ اس حوالہ سے امام حلبی لکھتے ہیں:
أي ومشابهة قدمه صلي الله عليه وسلم لقدم سيدنا إبراهيم تدل علي أن تلك الأقدام بعضها من بعض كما تقدم في قول مجزز المدلجي في اسامة بن زيدرضي الله عنهما وقد ناما وغطيا رؤوسهما وبدت أقدامهما: إن هذه الأقدام بعضها من بعض، فسرّ بذلك صلي الله عليه وسلم لأن في ذلك رداً علي من كان يطعن في نسب أسامة بن زيد.46
حضور ﷺ کے قدم مبارک کے حضرت ابراہیم کے قدموں کے نشان سے مشابہ ہونے سے ظاہر ہے کہ یہ ایک ہی نسل اور خاندان کے آدمیوں کے ہیں(یعنی اس سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺ حضرت ابراہیم ہی کی اولاد میں سے ہیں اور یہ روایت آپ ﷺ کے شجرہ نسب کا ثبوت بنتی ہے)جیساکہ گزشتہ ابواب میں حضرت اسامہ بن زید کےبارے میں مشہور قیافہ شناس مجزر مدلجی کا قول گزرا۔(اسامہ بن زید سے رسول کریمﷺ کو بہت تعلق تھا۔ وہ کالے رنگ کے تھے کیونکہ ان کی ماں ام یمن برکہ حبشیہ سیاہ فام تھیں مگر حضرت اسامہ کے والد حضرت زیدگورے چٹے تھے اس لیے منافقین حضرت اسامہکے نسب میں طعن کیا کرتے تھے کہ وہ حضرت زید کے بیٹے نہیں ہیں جس سے حضورﷺ کو رنج اور تشویش تھی۔)جب مجزر مدلجی نےدیکھا کہ دو آدمی ایک چادر اوڑھے پڑے سورہے ہیں جن کے پیر نظر آرہے تھے اگرچہ ان میں دوپیر سیاہ تھے اور دو سفید مگر مجزز نے علمِ قیافہ سے دیکھتے ہی حیرت سے کہا کہ یہ پیر جو رنگ کے لحاظ سے مختلف ہیں، ایک ہی نسل کے ہیں۔ اس خبر سے حضور ﷺ کو بہت اطمینان ہوا کیونکہ یہ ان منافقین کا رد تھاجو حضرت اسامہ بن زیدپر طعن کیا کرتے تھے۔
یہ علم نجد کے ایک قبیلہ میں اب بھی پایا جاتا ہے۔یہ لوگ موجود ہ زمانہ میں اس علم کوسب سے بہتر جانتے ہیں اگرچہ انہوں نے اس سلسلہ میں کتابیں وغیرہ نہیں لکھیں تاہم ان میں سے بعض لوگ صرف نقش قدم دیکھ کر آدمیوں کو پہچان لیتے ہیں۔بعض لوگ اونٹ کا نقش قدم دیکھ کر بتلادیتے ہیں کہ یہ فلاں کا اونٹ ہے اور ایسے لوگ تو بے شمار ہیں جو اس امر کا امتیاز کرلیتے ہیں کہ یہ نقش قدم عراقی کا ہے یا شامی کا، مصری کا ہے یا مدنی کا۔47
نسب، خطابت اورقیافہ یہ تینوں علوم اہلِ عرب کے وہ مخصوص علوم تھےجوعربوں کے خود ساختہ تھے اور قیاس وتجربہ کی بنا پر انہوں نے اس میں مہارت تامہ حاصل کی تھی۔ ان کے بالمقابل کچھ علوم ایسے بھی تھے جو انہوں نے دیگر اقوام سے حاصل کیے تھےجن میں سے ایک علمِ نجوم تھا۔علمِ نجوم کا تعلق تاریخِ انسانی کے قدیم ترین علوم سے ہے۔ یہ علم صدیوں تک ہیئت، طب، ریاضی اور فلسفہ کا لازمی جز رہا اور قدیم حکیم اور شاعر وغیرہ اس کے طالب رہے۔اسی طرح یہ علم اہلِ عرب کے قدیم ترین علوم میں سے ایک ہےاور بیان کیا جاتا ہے کہ یہ علم عربوں نے کلدانیوں سے حاصل کیا۔ مؤرخین کے نزدیک بابل کے کلدانی اس علم میں بہت ماہر تھے اور اس علم میں سب سے پہلے ان ہی لوگوں نے مہارت حاصل کی اور یہی قوم علمِ نجوم میں دنیا بھر کی استادسمجھی جاتی ہے، ان ہی سے یونانیوں، ہندوؤں، مصریوں اور دیگر اقوام نے سیکھا۔اس حوالہ سے مزیدوضاحت کرتے ہوئےپروفیسر سیّد احمد ظہیر زیدی لکھتے ہیں:
پانچویں صدی قبل مسیح میں جب اہلِ فارس نے کلدانیوں کے ملک پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا اور ان پر تشدد کرکے ان کے معابد کو مٹاڈالا تو یہ بات ان پر نہایت شاق گزری اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنے قریب کے ہمسایہ ملکوں میں چلے گئے۔ ان کی اس ہجرت کا رخ بلادِ عرب کی طرف خاص طور سے تھا کیونکہ ان کے خیال میں یہی علاقہ ان کے لیے سب سے محفوظ تھا کہ اس کا ریگستانی ودشوار گزار علاقہ ہونا ہر بیرونی حملہ آور دشمن کے لیے سخت ہمت شکن تھا، پھر یہ کہ کلدانیوں کی زبان بھی عربی سے ملتی جلتی تھی کیونکہ یہ دونوں ایک ہی زبان سمیاطیقی کی شاخیں تھیں۔ ان مہاجرین میں ایک جماعت کاہنوں اور نجومیوں کی بھی تھی۔ عربوں نے ان ہی لوگوں سے علمِ نجوم حاصل کیا، ستاروں کے نام، ان کے خواص، بروج و مقامات اور شمس وقمر کی منازل معلوم کیں اگرچہ اس سے قبل بھی اہلِ عرب بطور خود کچھ نہ کچھ نجوم کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔ تاہم فی الجملہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہلِ عرب علمِ نجوم میں کلدانیوں کے مرہون منت تھے۔ اس امر کا یقین اس چیز سے ہوتا ہے کہ عربی میں سیارگان، بروج اور منازل کے جو نام ہیں وہ لفظاً اور معناً کلدانی ناموں کے بہت زیادہ مشابہ ہیں۔48
اسی طرح اس حوالہ سے عبداﷲ عبدالجبار مصری لکھتے ہیں:
وإن تشابه أسماء السيارات والأبراج أو اتحادها في العربية والكلدانية، لدليل على اعتماد العرب في هذه المعارف على الصابئة.49
عربی وکلدانی زبانوں میں ستاروں اوربرجوں کےناموں کی مشابہت یا یکسانیت اس بات کی دلیل ہے کہ عرب کو ستارہ پرستی میں کتنی معرفت حاصل تھی۔
عربی زبان میں ایک سیارہ کا نام مریخ ہےاور اس کو کلدانی زبان میں مرواخ کہتے ہیں، دونوں میں زبردست لفظی مشابہت ہے۔ اسی طرح زحل کو کلدانی میں کاوان کہتے ہیں اور دونوں کے معنی بلندی کے ہیں۔ حمل کو کلدانی میں امرا، ثور کو ثورا، عقرب کو عقرباء، سرطان کو سرطان، دلوکو دولا اور اسد کو اریا کہتے ہیں، حوت کو کلدانی میں نون کہتے ہیں، دونوں کے معنی مچھلی کے ہیں۔ الفاظ اور معنی کی مشابہت یہ مان لینے پر مجبور کرتی ہے کہ علمِ نجوم کی اصطلاحیں عربوں نے کلدانیوں سے حاصل کیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض اصطلاحیں بالکل جداگانہ بھی ہیں جن میں کوئی مشابہت نہیں لیکن اس سے اصل مقصد کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا کیونکہ اعتبار اکثر کا ہوتا ہے۔50
سیاروں کی پہچان میں بھی عرب مشہور تھے۔ وہ لوگ سیاروں، بروج اور ثوابت کی ایک بہت بڑی تعداد کو پہچان لیتے تھے۔ انہوں نے علمِ نجوم کلدانیوں سے سیکھا ضرور لیکن اس میں ترقی کرنے اور اس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں ان کی ذکاوتِ طبع اور ذہانت کو بڑا دخل رہا۔ عربوں کو قحط سے بچنے کے لیے جہاں بارش اور ہواؤں کے متعلق واقفیت حاصل کرنا ضروری تھا وہاں صحیح راستوں پر گامزن ہونے کے لیے ستاروں کا علم بھی ضروری تھا۔ اس میں ستاروں کا طلوع اور غروب ہونا، ان کے رنگ واقسام، اکیلے اور اکھٹے ستاروں کی صورتیں اور جو کچھ ان سے مرتب ہوتا ہے شامل تھا۔یہ کوئی تعجب خیزبات نہیں کیونکہ ان کے لیے سفر کرنا اس وقت تک ممکن ہی نہ تھا جب تک انہیں ستاروں کا حال معلوم نہ ہوجاتا، ستارے ہی سفر میں ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی شہر کا راستہ دریافت کرتا تو اس سے کہہ دیتے کہ فلاں ستارے کی سیدھ پر چلے جاؤتو وہ اسی سیدھ پر جاتا اور منزل مقصود پر پہنچ جاتا۔ مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اہلِ عرب نے فلک کو بارہ(12)حصوں پر تقسیم کیا اور ہر حصے کا نام برج رکھا۔51
انہوں نے فلک کو جن بارہ ( 12)حصوں پر تقسیم کیا ان کے نام حسب ذیل ہیں:
اسی طرح اہلِ عرب اس میں سے چھ( 6)کو شمالی برج کہتے اور بقیہ چھ( 6)کو جنوبی برج کہتے۔ عرب نے ہر تین برجوں کو سال کی چار فصلوں میں سے کسی نہ کسی فصل کے لیے مقر ر کر رکھا تھا، کسی نے ان برجوں کو اس ترتیب میں جو عربوں کے یہاں معتبر ہے اس انداز میں منظوم کردیاہے:
حمل الثور جوزه السرطان
ورعي الليث سنبل الميزان
ورمي عقرب بقوس لجدي
نزح الدلو بركة الحيتان.
بیل (ثور)نے سرطان کا اخروٹ اٹھالیا (حمل)اور شیر (اسد)نے میزان کی بالیوں (سنبل)کو کھالیا۔ عقرب نے پہلے (جدی)کو قوس سے تیر مارا اور دلو نے مچھلیوں (حوت)کا تالاب پانی سے خالی کردیا۔52
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے بعض خاندان علمِ نجوم میں بہت ماہر و مشہور گزرے تھے، ان ہی میں قبیلہ کلب سے بنوماریہ اور قبیلہ شیبان سے بنو مرہ ابن ہمام انتہائی مشہور تھے۔53
زمانہ جاہلیت میں اہلِ عرب کے پاس جتنے علوم تھے ان میں ایک عام علمِ کہانت بھی تھا اوران کے جھگڑوں اور تنازعات کے فیصلہ کرنے کا دارومدار اس علم پر تھا۔ یہ ایک قوتِ ادراکی کا نام تھا جو مخصوص قسم کی ریاضتِ جسمانی ومشقتِ بدنی کے ذریعہ حاصل کی جاتی تھی۔اس کے ذریعہ انسان بعض ماوراء حواس، غیبی قسم کی چیزیں جان لینے پر قادر ہوجاتا تھا اگرچہ ان کے صحیح ہونے کا خود اس کو بھی یقین نہیں ہوتاتھا۔اس کہانت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام مسعودی اپنی کتا ب میں تحریر کرتے ہیں:
کہانت جسمِ انسانی کی وہ لطافت ہے جو اس کی مادیت پر غالب آکر اعجاز کے قریب پہنچ جاتی ہے، یہ چیز عربوں میں بطورِ نُدرَت (اعجاز) اکثر پائی گئی جو مزاجِ طبیعی کی لطافت سے حاصل ہوتی ہے اور مادی قوتوں پر نورِ نفس کو غالب کردیتی ہے۔ یہ قوت کثرت وحدت کو پھاڑ کر انسانی جسم کی کثافت کو کم اور عفتِ نوری کو بڑھادیتی ہے جس سے بوقتِ غور وفکر انسان کی نگاہوں کے سامنے جملہ اسرارِغیبی آجاتے ہیں جو نفسِ انسانی کی عفت وحرمت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسی قوت سے انسان آئندہ وقوع پذیر ہونے والے اسرار کے بارے میں پیشگوئی کرسکتا ہے۔54
عربوں میں کہانت ان ہی ذرائع سے پہنچی جن ذرائع سے علمِ نجوم پہنچا تھا۔عربوں کے نزدیک کاہنوں کا جو درجہ تھا وہ ان بے شمار واقعات سے معلوم ہوتا ہے جو ان کی تاریخوں میں مذکور ہیں یہاں تک کہ ان کا کوئی کام بغیر کاہنوں کے مشورہ کے نہ ہوتا تھا۔ کاہن ان کے نزدیک حکیم، عالم، فلسفی اور مذہبی پیشوا تک ہوتا تھا۔اہلِ عرب کے نزدیک کاہنوں کے مقام کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدیوں تک حجاز میں جاری شدہ دینِ ابراہیمی کو ایک کاہن عمرو بن لحی نے چند ہی دنوں میں اپنے باطل نظریات سے بدل ڈالا۔ یہ چونکہ ایک بہت بڑا کاہن تھا اس لیے اہلِ عرب نے اس کی کوئی مخالفت نہیں کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اس کاہن نے حجاز میں دین ابراہیمی کو مٹاکر بت پرستی کو رواج دے دیا۔ اس حوالہ سے امام طبرانینے حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أول من غير دين إبراهيم عمرو بن لحي بن قمعة بن خندف أبو خزاعة.55
پہلا وہ شخص جس نے حضرت ابراہیم کے دین کو بدلا عمرو بن لحی بن قمعہ بن خندف ابو خزاعہ ہے۔
نیز اسی حوالہ سے سیّد محمود شکری لکھتے ہیں:
وكان عمرو بن لحي كاهنا.56
عمرو بن لحی کاہن تھا۔57
اسی طرح امام حلبی لکھتے ہیں:
وكان لعمرو تابع من الجن.58
ایک جن عمرو بن لحی کے تابع تھا۔
نیزامام حلبی لکھتے ہیں:
وقد بلغ عمرو بن لحي في العرب من الشرف ما لم يبلغه عربي قبله ولا بعده في الجاهلية: وهو أول من أطعم الحج بمكة سدائف الإبل ولحمانها علي الثريد: والسدائف جمع سديف وهو شحم السنام وذهب شرفه في العرب كل مذهب حتي صار قوله دينا متبعا لا يخالف وفي كلام بعضهم صار عمرو للعرب ربا لا يبتدع لهم بدعة إلا اتخذوها شرعة لأنه كان يطعم الناس ويكسوهم في الموسم وربما نحر لهم في الموسم عشرة آلاف بدنة وكسا عشرة آلاف حلة.59
عمرو بن لحي نے دور جاہلیت میں عرب میں وہ عزت وشرف حاصل کیا جو اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی کو نہیں ملا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے مکے میں حاجیوں کو ثرید کے کھانے پر اونٹ کی چربی کھلائی، عرب میں اس کی عزت اور نام ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ایسا دین بن جاتی جس کو سب مانتے تھے۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ عمرو بن لحي عربوں کا ایسا خدا بن گیا تھا کہ جو بدعت بھی وہ جاری کرتا تھا لوگ فوراً اس کو دین اور شریعت کی حیثیت سے قبول کرلیتے تھے کیونکہ عمرو لوگوں کو کھانا کھلاتا تھا اور حج کے موسم میں انہیں لباس پہناتا تھا۔ کبھی کبھی وہ حج کے موسم میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا تھا اور دس ہزار جوڑے پہناتا تھا۔60
کاہنوں کے بارے میں عربوں کے مختلف خیالات تھے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ کاہنوں کو یہ علم ان ارواح کے ذریعہ ہوتا ہے جو بتوں میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ ان کے پاس فرشتے آتے ہیں، کچھ کا اعتقاد یہ تھا کہ ان کے پاس جنات آسمان سے خبریں لاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنا علاج کاہنوں سے کراتے تھے۔ کاہن کبھی ان کا علاج جنتر منتر کے ذریعہ کرتے، کبھی جھاڑ پھونک سے اور کبھی دوائیں استعمال کراتےچنانچہ امام نووی اہلِ عرب کے کاہنوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
الكهانة في العرب ثلاثة أضرب أحدها: أن يكون للإنسان ولي من الجن يخبره بما يسترقه من السمع من السماء وهذا القسم بطل من حين بعث النبي صلي الله عليه وسلم والثاني: أن يخبره بما يطرأ ويكون في أقطار الأرض وما خفي عنه مما قرب أو بعدوالثالث: المنجمون وهذا الضرب يخلق اﷲ تعالي في بعض الناس قوة ما لكن الكذب فيه أغلب ومن هذا الفن العرافة فصاحبها العراف وهو الذي يستدل علي الأمور بأسباب ومقدمات يدعي معرفتها بها كالزجر والطرق بالحصي وهذه الأضراب كلها تسمي كهانة.61
عربوں میں کہانت تین طرح کی تھی ایک یہ کہ کسی انسان کا کوئی تابع جن ہو جو اسے ان باتوں کی خبر دے جو وہ آسمان سے چھپ کے سن لے۔ مگر جب نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی تو یہ قسم ختم ہوچکی تھی۔دوسری قسم یہ تھی کہ یہ جن اس انسان کو پیش آنے والے حادثات اور ان واقعات کی خبر دے جو اطراف زمین میں ہونے والے ہوں نیز ان چیزوں کی خبر دیں جو اس انسان سے مخفی ہیں خواہ یہ چیزیں قریب ہوں یا بعید۔تیسری قسم منجموں کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس قسم کے ضمن میں بعض لوگوں کو ایک قوت عطا کردیتا ہے لیکن اس میں بالعموم جھوٹ زیادہ ہوتا ہے۔ اسی فن کی ایک قسم "عرافہ" ہے جس کے جاننے والے کو عراف کہا جاتا ہے۔ عراف وہ ہے جو ان اسباب ومقدمات کے ذریعے جن کے علم کا اسے دعویٰ ہوتا ہے بعض امور کو معلوم کرلیتا ہے مثلاً زجر اور کنکریاں مارنا۔ ان تمام قسموں کو کہانت کہا جاتا ہے۔
اہلِ عرب کے مشہور کاہنوں میں خنافربن توام حمیری، سواد بن قارب، طریفہ یمنی، ، زھرا حضرمی، سلمہ ہمدانی، عفیراء حمیری، فاطمہ مکیہ، شق بن انماراور سطیح بن ربیع 62شامل تھے جن میں سے بعض مشہور کاہنوں کا ذکر حسب ذیل ہے:
کاہن سواد بن قارب اسلام لانے سے قبل عرب کا سب سے بڑا عالم اور اہلِ عرب کا بہت بڑاکاہن تھا جیساکہ ذیلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے:
وكان في دوس كاهن إسمه سواد بن قارب الدوسي.63
قبیلہ دوس میں ایک کاہن سواد بن قارب دوسی تھا۔
یعنی ا ن کا تعلق دوس قبیلہ سے تھااور یہ کہانت کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی بہت مشہور تھےچنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئےامام یوسف نبہانی لکھتے ہیں:
سواد بن قارب وكان من دوس قوم أبي هريركان يتكهن في الجاهلية وكان شاعراً ثم أسلم.64
حضرت سواد بن قارب حضرت ابوہریرہ کے قبیلہ بنی دوس سے تعلق رکھتے تھے، ایام جاہلیت میں وہ کہانت کرتے تھے اور شاعر بھی تھے پھرانہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
ان کی کہانت کے بارے میں بہت طویل روایات تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ان روایات میں سے ایک طویل روایت حضرت سواد بن قارب کے اپنے ایمان لانے کے واقعہ کے بارے میں بھی ہے۔ اس حوالہ سے امام اسماعیل اصبہانی روایت کرتے ہیں:
عن محمد بن كعب القرظي قال بينما عمر بن الخطاب رضي الله عنه جالس في مسجد المدينة ومعه ناس إذ مر رجل في ناحية المسجد فقال له رجل من القوم يا أميرالمؤمنين أتعرف هذا قال: لا فمن هو قال هذا رجل من أهل اليمن له فيهم شرف وموضع يقال له يخلو بن قارب وهو الذي أتاه رئيه التابع من الجن بظهور رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم .65
حضرت محمد بن کعب قرظی سے روایت ہے کہ حضرت عمر ایک روز تشریف فرما تھے کہ ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا، عرض کیا گیا اے امیر المومنین! کیا آپ اس گزرنے والے شخص کو پہچانتے ہیں؟ فرمایا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سواد بن قارب ہے جس کے پاس اس کی جنیہ رسول اﷲﷺ کے ظہور کی خبر لائی تھی۔
جب ان سے حضرت عمر نے آغازِ اسلام کی تفصیل بیان کرنے کو کہا تو انہوں نے اپنے ایمان لانے کا جوواقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اس میں منقول ہے:
بينا أنا ذات ليلة بين النائم واليقظان إذ أتاني رئيي وضربني برجله وقال قم يا سواد بن قارب واسمع مقالتي واعقل إن كنت تعقل إنه قد بعث رسول من لؤي بن غالب يدعو إلي دين اﷲ عزوجل وإلي عبادته ثم أنشأ يقول:
عجبت للجن وتطلابها
وشدها العيس باقتابها
تهوي إلي مكة تبغي الهدي
ما صادق الجن ككذابها
فارحل إلي الصفوة من هشام
ليس قداماها كأذنابها
فقلت دعني أنام فإني أمسيت ناعساً ولم أرفع بما قال رأساً فلما كانت الليلة الثانية أتاني فضربني برجله وقال قم يا سواد بن قارب فاسمع مقالتي واعقل إن كنت تعقل إنه قد بعث رسول من لؤي بن غالب يدعو إلي اﷲ عزوجل وإلي عبادته ثم أنشأ يقول:
عجبت للجن وتخبارها
وشدها العيس بأكوارها
تهوي إلي مكة تبغي الهدي
ما مؤمن الجن ككفارها
فارحل إلي الصفوة من هاشم
بين روابيها وأحجارها
فقلت دعني أنام فإني أمسيت ناعساً ولم أرفع بما قال رأساً فلما كانت الليلة الثالثة أتاني فضربني برجله وقال قم يا سواد بن قارب فاسمع مقالتي واعقل إن كنت تعقل إنه بعث رسول من لؤي بن غالب يدعو إلي اﷲ عزوجل وإلي عبادته ثم أنشأ يقول:
عجبت للجن وتجساسها
وشدها العيس باحلاسها
تهوي إلي مكة تبغي الهدي
ما خير الجن كأنجاسها
فارحل إلي الصفوة من هشام
واسمُ بعينيك إلي رأسها
فقمت وقلت امتحن اﷲ قلبي فرحلت ناقتي حتي أتيت مكة.66
میں ایک رات سونے اور جاگنے کے درمیان تھا کہ اچانک میراجن آیا۔ اس نے اپنے پاؤں سے مجھے ٹھوکر ماری اور کہا :اے سواد! کھڑا ہو اور میری بات سن، اگر تجھ میں عقل ہے توسمجھ لے کہ لوی بن غالب میں ایک رسول مبعوث ہوچکا ہے جو اﷲ کے دین اور اس کی عبادت کی دعوت دیتا ہے پھر اس نے مندرجہ ذیل اشعارپڑھے:
میں نے جنوں سے تعجب کیا، ان کی طلب اور ان کے سفید اونٹوں پر کجاوے کسنے سے تعجب کیا (جو)تیزی سے مکّہ کی طرف جارہے ہیں اورہدایت کے متلاشی ہیں۔ سچے جن جھوٹے جنوں کی مانند نہیں ہوسکتے پس بنی ہاشم کے ایک برگزیدہ شخص کی طرف کوچ کرو کہ اس کے عظیم لوگ معمولی لوگوں کی طرح نہیں ہیں۔
میں نے کہا مجھے سونےدو! میری ساری شام بے خوابی میں گئی ہے اورمیں نے اس کی بات پر سر اوپرنہ اٹھایا۔ جب دوسری رات ہوئی تووہ میرے پاس آیا اور پاؤں کی ٹھوکرمار کر کہنے لگا کہ سواد اٹھ، میری بات غور سے سن اور ذہن نشین کرلے کہ لوی بن غالب میں ایک رسول مبعوث ہوا ہے جو اﷲ کی طرف بلاتا ہے اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہے۔ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے:
میں نے جنوں اور ان کی حیرانی سے تعجب کیا اور ان کے سفید اونٹوں پر کاٹھی کس کر دوڑانے سے کہ وہ ہدایت کی تلاش میں مکّہ کی طرف اڑتے جارہے ہیں، ایمان لانے والے جن کافر جنوں کی طرح نہیں ہیں لہٰذا تو بنی ہاشم کے اس چنیدہ شخصیت کی طرف روانہ ہوجو ریت کے ٹیلوں اور پتھروں کے درمیان سکونت پذیرہے۔
میں نے اس سے کہا مجھے سونے دوکیونکہ میں شام سے سو نہیں سکا پس جب تیسری رات آئی تواس نے مذکورہ بالا بات دہرائی اور یہ اشعار پڑھے۔
میں نے جنوں، ان کی تلاش و جستجو اور اونٹوں پر پالن کس کردوڑانے سے حیرانی کا اظہار کیا جوہدایت کے متلاشیوں کو لے کر مکّہ کی جانب دوڑ رہی ہے۔ اچھے جن نجس جنوں کی مثل نہیں ہوتے لہٰذا تو بنوہاشم کے اس ممتاز فرد کی طرف سفراختیار کر اور اپنی آنکھیں اس کے چہرہ اقدس کے دیدار سے شاد کر۔
سواد کہتے ہیں میں نے اس جن کے یہ اشعار سنے تو فوراً کھڑا ہوگیا اورکہا اﷲ تعالیٰ نے میرے دل کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر روانہ ہوگیا حتیٰ کے مکّہ شریف آگیا۔
اس واقعہ کو امام طبرانی نے بھی معجم کبیر میں تفصیلاً روایت کیا ہے۔67اس کے بعد آپایمان لے آئے اور آپکو عظیم صحابی رسول ﷺ ہونے کا درجہ ملا۔ایمان لانے کےبعد پھر آپ نے کہانت چھوڑدی۔
شق بن انمار بھی اہلِ عرب کے مشہور کاہنوں میں سے ایک تھا۔ اس کےحوالہ سے امام ابن خلدونلکھتے ہیں:
واشتهر منهم في الجاهلية شق بن أنمار بن نزار وسطيح بن مازن بن غسان ومن مشهور الحكايات عنهما.68
جاہلیت میں شق بن انماربن نزار اور سطیح بن مازن بن غسان مشہور کاہن تھے ان دونوں کاہنوں کے قصے مشہور ہیں۔69
اس کا جسم بہت عجیب وغریب تھاجس کے حوالہ سے امام یافعی لکھتے ہیں:
وكان شق وسطيح من أعاجيب الدنيا.70
شق اورسطیح دنیا کے عجائبات میں سے تھے۔
یہ عجیب خلقت کا انسان تھا، اس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ تھی۔امام عبد الحئی حنبلی اس کےحوالہ سے لکھتے ہیں:
وكان شق نصف إنسان له يد ورجل.71
شق نصف انسان تھا اس کا ایک ہاتھ، ایک ٹانگ تھی۔
شاہِ یمن ربیعہ بن نضر نے جب خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کے لیے اہلِ عرب کے تمام کاہنوں کو طلب کیا تواس میں شق بن انمار بھی تھا۔اس کے خواب کی تعبیر میں جہاں دیگر کئیں چیزیں شق نے بیان کی تھیں ان میں ایک حضور ﷺ کے ظہور کی خبر بھی دینا تھا۔یہ ایک طویل خواب اورتعبیر ہے جن کو امام ابن ہشام نے نقل کیا ہے۔ اس میں ہے کہ شق نے یمن پر ذی یزن کی حکومت کی خبر دی اس کے بعد شاہِ یمن نے اہلِ عرب کے مشہور کاہن شق سے پوچھا:
أفيدوم سلطانه أم ينقطع؟ قال: بل ينقطع برسول مرسل يأتي بالحق والعدل بين أهل الدين والفضل يكون الملك في قومه إلي يوم الفصل قال: وما يوم الفصل؟ قال: يوم تجزي فيه الولاة ويدعي فيه من السماء بدعوات يسمع منها الأحياء والأموات ويجمع فيه بين الناس للميقات يكون فيه لمن اتقي الفوز والخيرات قال: أحق ما تقول؟ قال: أي ورب السماء والأرض وما بينهما من رفع وخفض إن ما أنبأتك به لحق ما فيه أمض.72
اس کی حکومت دائمی ہوگی یا ختم ہوگی؟ شق نے کہا اس کی سلطنت عارضی ہوگی، ایک رسول مکرم ﷺ جو حق اور عدل کے ساتھ تشریف لائیں گے وہ اس کی حکومت کو ختم کردیں گے۔ وہ (نبی کریم ﷺ)دین وفضل والے ہوں گے پھریہ اقتدار روزِ قیامت تک ان کی قوم کے پاس ہی رہے گا۔ بادشاہ نے پوچھا یہ روزِ قیامت کیا ہے؟ شق نے کہا وہ ایسا دن ہے جس میں والیانِ امر کو بدلا ملے گا، آسمان سے پکار آئے گی جس کو زندہ اور مردہ سب سنیں گے، جس میں لوگوں کو ایک خاص عرصہ کے لیے جمع کیا جائے گا۔ خدا ترس اس روز نعمتوں اور کامیابیوں سے سر فراز ہونگے۔اس شاہِ یمن نے پوچھا: جوکچھ تو کہہ رہاہے واقعی وہ سچ ہے؟اس نے کہا: زمین وآسمان کے پروردگار کی قسم! زمین وآسمان کے نشیب وفراز کی قسم! میں نے آپ سے حق بیان کیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں جو حق کے خلاف ہو۔73
شق کی طرح سطیح بھی کاہنوں کے گروہ میں مسلّم تھا۔
سطیح بن ربیع بھی اہلِ عرب کا بہت مشہور کاہن تھا اور اس کا جسم بھی شق کی طرح بہت عجیب و غریب تھا۔ اس کو اس طرح لپیٹ دیا جاتا تھا جس طرح کپڑے کو لپیٹ لیا جاتا ہے۔ اس میں کھوپڑی کے علاوہ کوئی ہڈی نہ تھی۔ امام ابن منظور افریقی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
كان لا عظم فيه سوي رأسه.74
اس کےجسم میں سرکےعلاوہ کوئی ہڈی نہ تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اس کا چہرہ اس کے سینے میں تھا۔ اس حوالہ سے امام سہیلی لکھتے ہیں:
وكان وجهه في صدره.75
سطیح کا چہرہ اس کے سینے میں تھا۔76
اس کا نہ سر تھا نہ گردن اور نہ یہ کھڑا ہوسکتا تھا اور نہ ہی بیٹھ سکتا تھا۔ اس حوالہ سے امام ابومنصور ہرویلکھتے ہیں:
لايقدر علي قيام ولا قعود وكان مُنْسَطِحاًفي الأرض.77
وہ اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہ رکھتاتھا، وہ زمین پربکھراپڑارہتاتھا۔
یہ اپنے زمانہ کا مشہور ترین کاہن تھا۔اس نے کئی خبریں دی تھیں جن میں حبشیوں کا یمن پر قبضہ اور مضر یعنی اہل قریش میں نبوت کا ظہور بھی تھا۔ اس حوالہ سے امام ابن خلدون لکھتے ہیں:
ومن مشهور الحكايات عنهما تأويل رؤيا ربيعة بن مضر وما أخبراه به ملك الحبشة لليمن وملك مضر من بعدهم وظهور النبوة المحمدية في قريش، ورؤيا الموبذان التي أولها سطيح لما بعث إليه بها كسريٰ عبد المسيح فأخبره بشأن النبوة وخراب ملك فارس وهذه كلها مشهورة.78
ان دونوں سے جو حکایات مروی ہیں ان میں سے مشہور یہ ہیں، ربیعہ بن مضر کے خواب کی تعبیر اور جن امور کی انہوں نے اطلاع دی یعنی حبشی یمن پر قابض ہوجائیں گے اور ان کے بعد مضر اور یہ (اطلاع بھی)کہ قریش میں نبوت محمدیہ (ﷺ)کا ظہور ہوگا۔ اسی طرح موبذان کا خواب اور جب کسریٰ نے عبد المسیح کو سطیح کے پاس بھیجا تو جو اس نے خواب کی تعبیر بیان کی پھر اس نے اسے نبوت کا حال سنایا اور فارس کی سلطنت کی تباہی کی خبر دی۔ اور یہ تمام واقعات مشہور ہیں۔79
اسی وجہ سےعرب میں کہانت کا دوردورہ تھا اورکاہنوں کی انتہائی عزت کی جاتی تھی البتہ یہ علم گوکہ مستعار تھا لیکن اس میں بہت بڑا دخل ان کی باطنی قوتوں کا بھی تھا جس سے یہ علم کہانت میں انتہائی ماہر ہوگئے تھے۔
یہ ایک فطری علم ہے جو ہر قوم اور ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود رہا ہے۔ دورِ جاہلیت میں عربوں کو بھی علمِ طب میں کافی دسترس حاصل تھی اور بعض علماء کے نزدیک یہ علم ان لوگوں نے بابل کے کلدانی کاہنوں سے سیکھا تھا۔
کلدانی پہلی قوم ہے جس نے امراض کا علاج دریافت کیا۔ وہ لوگ اپنے مریض کو سڑکوں پر ڈال دیتے تھے اور جب وہاں سے کوئی ایسا شخص گزرتا جو اس مرض میں مبتلا رہ چکا ہوتا تو وہ بتلادیتا تھا کہ کس غذا، دو ایا ذریعہ سے اس نے شفا پائی تھی۔ اس دوا کو وہ لوگ تختیوں پر لکھ کر رکھ لیتے تھے اور طب کے دیوتا ہیکل کی گردن میں ڈال کر سجادیتے، اسی لیے علمِ طب ان کے یہاں صرف کاہنوں میں ہی مخصوص تھا۔ اہلِ بابل سے دوسری قدیم اقوام نے یہ علم حاصل کیا جن میں عرب بھی ہیں لیکن جب یہ علم یونانیوں میں منتقل ہوکر آیا تو انہوں نے اس میں بیش بہا اضافے کیے اور اس کی تدوین وترتیب بھی کی پھر ان سے اہلِ اٹلی وفارس نے سیکھا۔ عرب کا ملک چونکہ ان دونوں حکومتوں کے درمیان واقع تھا اس لیے اہلِ عرب نے طب کو اس ترقی یافتہ شکل میں ان سے اخذ کیا اور کچھ اپنے تجربات سے بھی اس میں اضافہ کیا، ان سب کا مجموعہ علمِ طب بن گیا۔ ابتداء ً ان کے یہاں بھی طبیب کاہن ہی ہوتا تھا جیسا کہ اہلِ بابل کا قاعدہ تھا۔80
اہلاہلِ عرب نے علم طب کے حوالہ سے بعض باتیں اگرچہ کلدانی کاہنوں سے بھی سیکھیں تاہم عربوں کے ہاں یہ علم ان کے تجربوں پر موقوف تھا جو ان لوگوں میں سینہ بسینہ چلا آرہا تھا۔ان کا یہ علمِ طب نہ تو کسی طبعی قانون پر مبنی تھا اور نہ مزاج کی مطابقت پرچنانچہ سیّد محمود شکری عربوں میں علم طب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
كان للعرب حظ وافر من معرفة الطب المبني في غالب الأمر علي تجربة قاصرة علي بعض الأشخاص متوارثاً عن مشائخ الحي وعجائزه وربما يصح منه البعض إلا أنه ليس علي قانون طبيعي ولا علي موافقة المزاج بعقاقير وأدوية من نباتات وأغذية يحصل لغالبهم البر العاجل بإستعمالها.81
عربوں کو علمِ طب میں وافر دستگاہ(مہارت) حاصل تھی، یہ علم بالعموم اس تجربے پر موقوف تھا جو چند اشخاص تک محدود تھا اور جو قبیلے کے بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں سے وراثتاًان کے پاس چلاآتا تھا۔ بعض لوگ جڑی بوٹیوں، نباتاتی دواؤں اور غذاؤں کے ذریعے صحت یاب ہوجاتے تھے۔ اکثر لوگ ان چیزوں کے استعمال سے فوراًصحت یاب ہوجاتے مگر یہ طریقہءِ علاج نہ تو کسی طبعی قانون پر مبنی تھا اور نہ مزاج کی مطابقت پر۔82
البتہ اہلِ عرب کے ہاں اس طرح کرنا علاج کے طریقوں میں سے ایک طریقہ تھا۔
دورِ جاہلیت میں اہلِ عرب کے ہاں علاج دو طریقوں سے رائج تھا:
عرصہ دراز تک عربوں میں طبیب وکاہن ایک ہی شخص ہوتا تھا لیکن بعد میں طَبابَت(طب کا پیشہ) کے ساتھ قیافہ دانی اور علمِ نجوم کو بھی شریک کردیا گیا۔ یہ صرف عربوں کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھا بلکہ اس زمانہ کے جملہ اطباء بلااستشنائےعرب وعجم طبابت کے ساتھ ان دونوں علوم میں سے ایک ضرور جانتے تھے۔ دورِ جاہلیت میں اہلِ عرب کے ہاں کاہنوں کے ذریعہ جو طریقۂِ علاج رائج تھا وہ منتروں اور جھاڑ پھونک سے عبارت تھا۔ اس طریق علاج کو "رقی" معالج کو"راقی" اور جو کچھ پڑھ کر پھونکا جاتا اسے "رقیہ" کہتے تھے۔
دورِ جاہلیت میں اہلِ عرب کے ہاں علمِ طب اپنی حقیقی ابتدائی صورت میں بھی موجود تھا جس کی بنیاد شخصی تجربات اور قبیلے کے بڑے بوڑھوں کی سینہ بسینہ معلومات پر تھی۔ علاج میں وہ صرف مفر ددوائیں استعمال کرتے تھے جس میں شہد کا استعمال کثرت سے ہوتا تھا۔ خصوصاً امراضِ شکم میں تو وہ اس کو اکسیر خیال کرتے تھے۔ اسی طرح بعض امراض میں مختلف جڑی بوٹیوں اور مشروبات کے استعمال کے علاوہ سینگیاں لگانے اور داغنے کا رواج بھی تھا۔ یہ بھی ان کے یہاں علاج کے طریقوں میں سے تھے۔ اس حوالہ سے ذیلی اقتباس سے نشاندہی ہوتی ہے:
وقسم منهم يعالجون أدواء هم بالكي فيحصل لهم البرء مما يشكون بأقل زمان وأيسر وقت.83
بعض لوگ وہ ہیں جو بیماریوں کا علاج "داغنے" سے کرتے ہیں اور انہیں کم سے کم وقت میں بیماری سے صحت حاصل ہوجاتی ہے۔84
اسی وجہ سے ان کے یہاں بہترین ماہر فصاد وحجام(فصدیعنی پچھنے لگانےوالااورحجامہ کرنےوالا)پائے جاتے تھے۔ لقمان بن عاد کا قول بھی اس حوالہ سے منقول ہوا کہ آخری علاج داغنا ہےچنانچہ اس حوالہ سے نوفل طرابلسی لکھتے ہیں: طب کے متعلق انہوں نے جو باتیں کہی ہیں ان میں سے بعض اب تک باقی ہیں جو بطور مقولوں کے کہی جاتی ہیں چنانچہ لقمان بن عاد کا یہ قول ہے:
كل داء حسم بالكي آخر الأمر.85
ہر ایک بیماری کا آخری حل داغناہے۔
تلوار وغیرہ کو آگ میں تپا کرمتاثرہ حصہ بدن کو کاٹ پھینکنے کا عمل جراحی"قطع" یا"بتر" کہلاتا تھا۔ روایات کے مطابق حضرت خنساء کے بھائی صخر کے پیٹ پر نیزے کے زخم سے گوشت کا ایک کلیجی جیسا ٹکڑا باہر کو ابھر آیا تھا چنانچہ ایک تیز دھار آلے کو تپاکر اسے کاٹ پھینکا گیا۔ آگ میں تپانا جراثیم سے پاک کرنے کے ابتدائی شعور کا پتادیتا ہے۔ بھینگے پن کے بارے میں ان کا یہ خیال تھا کہ چکی کے گھومتے ہوئے پاٹ پر نظر جمانے سے یہ مرض دور ہوسکتا ہے۔ بعض قسم کے بخاروں میں گرم پتھروں پر لیٹنا اور بعض میں سردپانی سے نہالینا مفید خیال کیا جاتا تھا۔86
اونٹ اور گھوڑے عربوں کی سب سے بڑی دولت تھے لہٰذا طبِ انسانی کے ساتھ ساتھ وہ طبِ حیوانی سے بھی ضروری واقفیت رکھتے تھے۔ یہ فن"بیطرہ"کہلاتا تھا اور جانوروں کے معالج کو"بیطار" یا "بطیر"یا "مبیطر" کہتے تھے۔ قدیم عربوں کی بیطری معلومات سینہ بسینہ موجودہ دور کے بدوی قبائل تک پہنچی اور وسطِ صحرا کے بچے کچے بدواب تک ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ جانوروں خصوصاً گھوڑوں کی تشریحِ اعضاء اور صفات پر قدیم عربوں کی گہری نظر تھی جس کا اثر ان کی شاعری میں بھی جابجا ملتا ہے جیسا کہ ذیلی عبارت سے واضح ہوتا ہے:
وكذلك لهم العلم التام في معالجة الدواب من الخيل والبعال والحمير والإبل ونحو ذلك ومعرفة تربيتها علي أحسن وجه مما لا يبلغهم به غيرهم كل ذلك مشهور عنهم مسلم لهم.87
اسی طرح عربوں کو چوپایوں مثلاً گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ وغیرہ کے علاج کا مکمل علم حاصل تھا اور انہیں ان کی تربیت کرنے کا بہترین طریقہ معلوم تھا کہ دیگر اقوام اس علاج میں ان کی برابری نہیں کرسکتیں۔ یہ سب کچھ عربوں کے متعلق مشہور اور مسلّم ہے۔88
یعنی اہلِ عرب کے ہاں علم طب میں انسانوں کے لیے تو طریقہ علاج رائج تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے قیمتی جانوروں کے لیے بھی علمِ طب میں طریقہ علاج ڈھونڈ لیا تھا اور وہ اس میں بھی مہارت حاصل کرتے تھے۔
عربوں کے مشہور اطباء میں سب سے اول حضرت لقمان تھےاور ان کے علاوہ دورِ جاہلیت کے مشہور اطباء کے نام حسب ذیل ہیں:
ان میں ابن کلدہ ثقفی اور ابن حذیم کے بارے میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہے۔
حارث بن کلدہ ثقفی طائف کا باشندہ تھا اور اس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔ اس نے ایران کا سفر اختیار کیا اور وہیں سے علمِ طب اخذ کیا۔ اس نے زمانہ اسلام بھی پایاچنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصبیمار ہوئے تو حضور نبی کریمﷺ نے حارث کو بلوانے کا مشورہ دیا اور اس کے علاج سے شفا ہوئی۔ علی قفطی لکھتے ہیں:
قال سعد مرضت فأتاني النبي صلي الله عليه وسلم يعودني فوضع يده بين ثديي حتي وجدت بردها علي فؤادي فقال إنك رجل مفود ائت الحارث بن كلدة أخا ثقيف فإنه يتطيب فمره فليأخذ سبع تمرات فليجاهن بنواهن وليدلك بهن.89
حضرت سعدفرماتےہیں میں بیمارہوگیاتو نبی اکرم ﷺ میری عیادت کو تشریف لائے، آپﷺ نے اپنادستِ شفقت میرےسینے پررکھاتو مبارک ہاتھ کی ٹھنڈک مجھےدل میں اترتی محسوس ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا: تم کمزوردل انسان ہو، بنو ثقیف کے بھائی الحارث بن کلدہ کے پاس جاؤ کہ وہ علاج کرے۔اسے کہنا کہ سات (عجوہ)کھجوریں گٹھلی سمیت پیس کراس کا لیپ کرے۔
اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا۔ علم طب سیکھا اور بیاری یعنی رات کےکھانےسےہونےوالی بادی بیماری اور اس کا علاج معلوم کیاجیسا کہ ذیلی اقتباس سے نشاندہوتی ہے:
فإنه من ثقيف ومن أهل الطائف ذكر أنه سافر إلي البلاد وتعلم الطب بناحية فارس علي رجل من أهل جنديسابور وغيرها وتمرن هناك وطب بأرض فارس.90
وہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا آدمی ہے، بیان کیاگیاہےکہ اس نے کئی ممالک کا سفر کیا، فارس کی جانب سے جندیساپورسمیت دیگر علاقوں کے لوگوں سےعلم طب سیکھا اوروہیں فارس کی سرزمین پرہی اس کی مشق کی۔
حارث کا بیٹا نضر بھی باپ کے علم کا وارث تھااور یہ جنگ بدر میں مارا گیا۔ابن ابی اصبیعہ کہتا ہےکہ یہ عربوں کا طبیب تھا اور اس نے بہت سے لوگوں کا علاج کیا۔ اسے عربوں کی عادات اور ان چیزوں کا علم تھا جن کی علاج میں ضرورت ہوتی ہے۔
ابن حذیم کوبھی علمِ طب میں یدطولیٰ حاصل تھا اور اسے اس فن میں بڑی مہارت حاصل تھی۔اس حوالہ سے ابن عمر بغدادی ابو الندی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ابن حذيم رجل من تيم الرباب كان أطب العرب وكان أطب من الحارث بن كلدة.91
ابن حذیم تیم الرباب کا ایک شخص ہے اور یہ عربوں کا سب سے بڑا طبیب تھا۔ طب میں اس کا رتبہ الحارث بن کلدہ سے بھی بڑا تھا۔
داغنے کے فن میں اسے خصوصی مہارت حاصل تھی چنانچہ کہاجاتاکہ"أطب من ابن حذیم"ابن حذیم سے بڑھ کر حاذق، اس کے علاوہ: "أطب بالکی من ابن حذیم" بھی روایت میں آیا ہے یعنی "داغنے میں ابن حذیم سے بڑھ کر ماہر"چنانچہ اس حوالہ سے ابن عمر بغدادی لکھتے ہیں:
إنه كان طيبا حاذقا يضرب به المثل في الطب فيقال أطب بالكي من ابن حذيم.92
وہ ایک ماہرطبیب تھا اورطب میں اس کی مثال دی جاتی تھی چنانچہ کہاجاتا: داغ کرعلاج کرنے میں ابن حذیم سےزیادہ ماہرہے۔
ان کے ہاں عموماًعلاج کے مختلف طریقے موجود تھے البتہ کچھ مخصوص امراض کا مخصوص طریقہ علاج بھی ان میں رائج تھا۔ان کے علاج کی اقسام سے ایک قسم یہ بھی تھی کہ وہ احول(بھینگے)شخص کو چکی کے پتھر پرنظر جمانے کے لیے کہتے تھے جبکہ وہ گھوم رہی ہو، ان کا خیال تھا کہ اس عمل سے نظر میں قیام پیداہوتا ہے۔ اسی طرح حذر(خوف وڈر)جوایک قسم کا تشنج ہوتا ہےاور اس کی وجہ سے آدمی اپنے اعضا کو حرکت نہیں دے سکتا، اس کا علاج اس طرح کرتے تھے کہ جو شخص اس مرض میں مبتلا ہوتاتو اس کے سامنے اس کی محبوب ترین شخصیت کو لاتے تھے۔93
عرب کے مستعار علوم میں سے نچھتر کا علم بھی تھااوریہ بھی عربوں کو ان کی ضرورت نے سکھایا تھا۔ ان کی زندگی چونکہ عموماً سفر میں گزرتی تھی اس لیے ضروری تھا کہ بارشوں اور موسمی ہواؤں کے حالات سے واقف ہوں کیونکہ ان کے یہاں بعض اوقات ایسی ہوا بھی چلتی تھی جو پورے قافلہ اور قبیلہ کو تباہ وبرباد کردیتی تھی۔ موسمی ہواؤں اور بارش سے متعلق جوعلم تھا وہ اسےعلم الانواء یعنی علم نچھتر کہتے تھے۔ اس علم میں کواکب ونجوم کے طلوع وغروب کو بیان کیا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک موسموں کا تغیر اور بارشوں کا ہونا ان کواکب کے طلوع وغروب ہی کے زیر اثر تھا۔یہ علم اہلِ عرب نے ذاتی مشاہدے کے نتیجے میں مختلف ستاروں کے طلوع وغروب کے موسمی تغیرات کے ساتھ باہمی ربط سے طے کرلیا تھاچنانچہ سیّد محمود شکری اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وكانت دارهم كثيرة القحط قليلة الأنهار والعيون فامتدت أعناقهم نحو السماء لمطالعة علائم الظفر بمقصودهم ومطلوبهم فكانت لهم مخايل لصوادق الأنواء لاتكذب فعرفوا السحاب المطر من غيره وميزوا البرق الخلب عما سواه ووصفوا الغيث والمطر بأقسامه ووقفوا علي الرياح وخواصها وأدركوا ما يعقبها من الحوداث من غير إستناد إلي آلة حدثت بعدهم بعدة قرون. بل فهموا ذلك من علائم ظهرت لهم وقد استوي في معرفتها صغيرهم وكبيرهم وذكرهم وأنثاهم ولذلك شواهد.94
ان کے ملک میں اکثر قحط پڑجایا کرتا تھا، دریا اور چشمے نہایت کم تھے لہٰذا اپنے مقصود اور مطلوب کو حاصل کرنے کی علامات کا مطالعہ کرنے کی غرض سے ان کی گردنیں آسمان کی طرف اٹھی رہتی تھیں چنانچہ ان کے ہاں سچے انواء کے بارش برسانے والے بادل بھی تھے جو کبھی جھوٹے ثابت نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے بارش برسانے والے اور نہ برسانے والے بادل کو پہچانا اور نہ بارش برسانے والی بجلی اور بارش والی بجلی میں امتیاز کیا۔ انہوں نے بارش کی تمام اقسام کا وصف بیان کیا، ہواؤں اور ان کے خواص سے مطلع ہوئے اور بغیر کسی آلے کی مدد کے جو ان سے کئی صدیوں بعد ایجاد ہوئے انہوں نے ان حادثات کو معلوم کرلیا جو ان کے بعد رونما ہوئے۔ انہوں نے اس کو ان علامات کے ذریعے سمجھا جو ان کے لیے ظاہر ہوئیں اور ان علامات کے جاننے میں ان کا چھوٹا اور بڑا، نر اور مادہ سب برابر تھے۔95
ان کے اشعار میں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسم کے تبدیلیوں اور آسمانی حوادث کو مختلف ستاروں کے طلوع وغروب کا اثر خیال کرتے تھے جیسے:
إذا ما قارن القمر الثريا
لثالثة فقد ذهب الشتاء
إذا ما البدر تم مع الثریا
أتاک البرد أوله الشتاء
وقد برد اللیل التمام بأھله
وأصبحت العواء للشمس نزلا.96
جب قمر(چاند)اور ثریا تیسری رات کو مل جائیں تو سمجھو کہ جاڑے کا موسم ختم ہوگیا۔جس وقت بدر ثریا کے ساتھ پورا ہوجائے تو سمجھنا چاہیے کہ جاڑے کی ابتداء ہوگئی۔رات اب لوگوں کے لیے ٹھنڈی ہوگئی کیونکہ آفتاب منزل عواء میں آگیا۔
یہ اور اسی طرح کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کو اس علم سے کتنا شغف تھا؟ وہ اس علم کے اس درجہ معتقد ہوگئے تھے کہ کواکب کی تاثیر کو بالذات خیال کرنے لگے تھے۔ کلدانیوں کی طرح ان کا اعتقاد تھا کہ نجوم کی تاثیر انسان کے اعمال وافعال پر ہوتی ہے۔97
اہلِ عرب کے پاس کوئی تاریخ نہ تھی، وہ چونکہ امی تھے اس لیے ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس سے وہ اپنی قومی تاریخ محفوظ رکھ سکتے۔ تاہم پھربھی یہ لوگ ماضی کے واقعات کو یادرکھنے کی وجہ سے اس دورِ جاہلیت کے مطابق دیگر اقوام پر علم التاریخ کے اعتبارسے سبقت رکھتے تھےجیسا کہ ذیلی عبارت سے یوں معلوم ہوتا ہے:
كان للعرب أيام جاهليتهم من السابقة في رواية الأخبار ومعرفة القرون الحالية أحوال الأمم الماضية وسير الأجيال السالفة كما دل علي ذلك شعرهم وأمثالهم وسائر أقوالهم.98
زمانہ جاہلیت میں عربوں کو لوگوں کے حالات روایت کرنے، گزشتہ صدیوں کے جاننے، گزشتہ امتوں کے حالات معلوم کرنے اور سابقہ قوموں کی سیرت کے علم میں دیگر امتوں پر سبقت حاصل تھی جیسا کہ ان کے اشعار، ان کی امثال اور دیگر اقوال سے پتاچلتا ہے۔99
عرب ہر اس سال سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے جس میں کوئی مشہور واقعہ پیش آیا ہوچنانچہ انہوں نے ہاتھیوں والے سال سے تاریخ مقرر کی اور اسی سال نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔"توقیت"یعنی ضبط اوقات کا علم سالانہ تقویم اور مہینوں اور دنوں کے تعین کی بنیاد تھا۔ مختلف بادشاہوں کے اقتدار میں آنے یا اشخاص وقبائل یا اہم واقعات وحوادث کے حوالے سے مختلف تقویمیں استعمال ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک تقویم کی بنیاد "عام الفیل" پر تھی۔100
ان لوگوں کا ماضی کے اہم واقعات کو یاد کرنے(جس کو علم التاریخ سے تعبیر کیا گیا ہے)کا طریقہ کار یہ تھا کہ لوگ اپنی لڑائیوں کا حال عموماً منظوم کرلیتے تھے اور ان نظموں کو زبانی یاد رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ عرب کے مشہور واقعات جیسے سدمآرب، جنگ ابی کرب جس نے یمن کو فتح کیا، شاہ ذونواس کا حملہ، اصحاب الاخدود کا قصہ، حبشہ ویمن کی لڑائی، اصحاب فیل کا واقعہ، اہل فارس کی یمن پر چڑھائی، بنی جرہم کی حکایت، زمزم کا واقعہ، کعبہ کی تاریخ، نجار کی لڑائی، حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کی حکایت اور دیگر بے شمار واقعات انہیں زبانی یاد تھے۔ ان کے سینے ان تمام تاریخی واقعات کے خزانے تھے، جس میں ان کی تمام قومی وملکی تاریخ کا ذخیرہ تھا 101لیکن بایں ہمہ ان کے پاس کوئی ایسی مرتب شدہ تاریخ نہ تھی جس کو صحیح معنوں میں تاریخ کہا جاسکے یا جو محفوظ رہ سکی۔
مذکورہ بالا تمام تفاصیل اورتاریخ کےمطالعہ سے معلوم ہوتاہےکہ عرب میں باقاعدہ طورپرکوئی مدرسہ، اسکول، کالج یایونیورسٹی نما کوئی ادارہ موجود نہیں تھا جہاں وہ اپنے ناخواندہ افرادکوتعلیم دے سکتے۔بنیادی طورپروہ امی ہوتےتھےیعنی لکھناپڑھنانہ جانتے تھے، فطری طورپرعربی درشت مزاج، شدید الغضب، ضدی، زبان درازقسم کےتھےمگراس کے باوجود وہ عشقیہ شعرکہتے، جنگوں میں رجزپڑھتے، بڑےبڑےاجتماعات میں خطاب کرتےاوراپنےبچوں کو نسب سکھاتےتھے۔ساتھ ہی ساتھ کئی علوم میں وہ خاندانی اور قبائلی طور پر ماہر ہوتےتھے جن میں کہانت، تاریخی واقعات، قیافہ شناسی، نجوم، فلکیات سمیت دیگر علوم بھی شامل ہیں۔ان علوم سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علوم سے آشنا قوم تھی گو کہ باقاعدہ کم پڑھی لکھی تھی۔ بعض لوگ ان کےاکھڑمزاج اورباضابطہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں جاہلیت کے عرب قراردیتے ہیں لیکن ایسا کرنا درست نہیں ہےکیونکہ باضابطہ تعلیمی نظام نہ ہونے کےباوجودبھی عرب میں رائج علوم ان کی روزمرہ کی زندگی میں سرایت پذیرتھےجوکاغذوکتاب کی قیدسےآزادتھے۔
قدیم زمانہ کے برعکس دورِحاضر کے عربوں کے پاس مال ودولت کے ساتھ علوم کو سیکھنے کے تمام جدید وسائل بھی باکثرت موجود ہیں۔ان کے پاس دورِ جدید کی ہر وہ نعمت ہے جس سے کسی بھی فن اورعلم میں مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔اگر موجودہ دور کے عرب اپنی اولادوں کومغربی ممالک بھیجنے کے بجائے خود اپنے ہی ممالک میں جدید لیبارٹریز، انڈسٹریز، اور علوم وفنون کے مراکزقائم کریں تو یقیناًجس طرح آج دنیاعلوم وفنون کے حصول کے لیےمغرب کا رخ کرتی ہےتو وہ سارا رخ عرب ممالک کی طرف ہوسکتا ہےاور سائنس وٹیکنالوجی میں عرب مسلم دنیا کی قیادت کرسکتے ہیں جس کے لیے صرف انہیں اپنے وسائل کارخ جدیدعلوم کے مراکزکے قیام کی طرف موڑنا ہوگا کیونکہ موجودہ عرب وسائل سے مالا مال ہیں اور یہ بات ان جیسی باصلاحیت قوم کے لیےنہایت ہی آسان اور قابل ِ عمل ہے۔