عرب جن خوبیوں اور اوصاف کے مالک تھے شجاعت، بہادری اور دلیری ان سب میں سرفہرست تھی۔ اہل عرب اپنی عزت و ناموس اور غیرت کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ اہل عرب عین نوجوانی میں اپنی حیاتِ مستعار کو عزت و غیرت کے تحفظ کے لیے قربان کردیتے تھے۔ میدانِ جنگ میں اس قدر دلیری کا مظاہرہ کرتے کہ انسانی عقل ششدر رہ جاتی تھی۔ غیرت اور اپنی آبرو کے تحفظ کے لیے گروہ درگروہ تلواروں اور نیزوں کی چھاؤں میں خون کی ہولی کھیلتے تھے۔ وہ لوگ بستر پر ایڑیاں رگڑتے مرجانے کو پسند نہیں کرتے تھے بلكہ ان کا پسندیدہ شغل میدانِ جنگ میں اپنی متاعِ زیست کو قربان کردینا تھا۔اپنی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے تو اکثر لوگ جان کی بازی لگا ہی دیتے تھے مگر اہل عرب اپنے قبیلے کی سربلندی اورعزت بچانے کے لیے بھی خون کا نذرانہ پیش کرنا اپنا فرضِ اولین خیال کرتے تھے۔
عرب نہایت بہادر اور نڈر تھے۔ لڑنے مرنے کو وہ کھیل سے زیادہ وقعت نہیں دیتے تھے۔ ان کی شجاعت اور جوانمردی کا اندازہ ان قِصّوں اور واقعات سے ہوتا ہے جن سے ان کے دَواوِین بھرے پڑے ہیں۔ 1 عرب کی صفتِ شجاعت بیان کرتے ہوئے سیّد محمود شکری آلوسی لکھتے ہیں:
وحيث كان العرب لاتقدم شيئا علي العز و صيانة العرض ومحاماة الحريم هانت عليهم نفوسهم دون ذلك وقد اختار العرب منهم سكني البوادي علي الحضر لماكان فقد العز فيه والجبن انما ينشأ من حب رغد العيش وطيب الحياة وعدم المبالاة بما يزري بعلو الحسب واين ذلك منهم؟ وبهذا تعلم ماكانوا عليه من الشجاعة والاقدام علي المهالك ولقد كابد منهم رسول الله صلي الله عليه وسلم في تاليفهم واتحاد كلمتهم ماجاوز منه الحزام الطُبيين وسال منه عرق القربة.2
عرب کہیں بھی ہوں عزت و آبرو اور حریم کی حفاظت پر کسی بھی اور شے کو مقدم نہ جانتے تھے، ان چیزوں کی حفاظت کرنے کے معاملے میں وہ اپنی جانوں کو حقیر جانتے تھے چنانچہ ان میں سے اکثر لوگوں نے شہروں کو چھوڑ کر صحراؤں میں رہنا اختیار کرلیا تھاجس کی وجہ شہروں میں عزت واحترام کا فقدان اور( آرام اور مزے کی زندگی سےپیداہونے والی) بزدلی تھا، یہ ان چیزوں کی پروا نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے جو عالی حسب شخص کو عیب دار بنادیں، تو کجا یہ بات اور کجا عرب۔ اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عرب کس قدر بہادر تھے اور مقاماتِ ہلاکت کی طرف کس جرأت کیساتھ پیش قدمی کرتے تھے۔رسول اللہﷺنے ان میں باہمی الفت پیدا کرنے اور ان میں اتحاد پیدا کرنے کےلیےوہ تکالیف جھیلیں کہ شمار نہیں کی جاسکتیں۔آپﷺ کو اس معاملہ میں حد سے زیادہ مشقت اٹھانی پڑی۔ 3
اس اقتباس سے ایک طرف تو یہ واضح ہوا کہ اہل عرب میں شجاعت وبہادری اپنی آخری حدوں تک پہنچی ہوئی تھی اور اس وجہ سے وہ اپنی ہلاکت کی جانب جانےسے بھی گریز نہیں کرتےتھے اور دوسری طرف یہ بھی واضح ہوا کہ رسول کریمنےنعمتِ خداوندی کی صورت تشریف لاکر ان میں جو الفت واخوّت پیدا فرمائی 4 یہ انتہائی مشکل اور صعب ترین امر تھاجس میں آپکو بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پیدا شدہ نبوی الفت عدیم المثال تھی اور آج تک عدیم المثال ہے۔
ان کا جذبۂ غیرت بھی ان کی شجاعت اور ان کی مروت کا ایک مظہر تھا۔۔۔اس لیے ان کے شرفاء اور نجباء اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے ایسی بیویوں کا انتخاب کیا کرتے تھے جن کا دامنِ عصمت فِسق وفُجور کے بدنما داغوں سے پاک صاف ہوتا۔ وہ ظاہری حسن وجمال پر اس امر کو ترجیح دیتے کہ وہ خاتون، جس نے ان کی اولاد کی ماں بننا ہے یا ان کی ہونے والی بہو اگر کسی سے رنگ وروپ میں کم ہوتو ہو لیکن شرافت اور عفت میں اس کا معیار بہت ہی بلند ہونا چاہیے۔5
عرب کے یہ بادیہ نشین اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کے لیے خون کے دریا بہادینا اور کشتوں کے پشتے لگادینا اپنا اہم ترین فریضہ سمجھتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کی ناموس کی طرف بری نگاہ سے دیکھ سکے اور وہ اسے خاموشی سے برداشت کرلیں۔ اسی جذبہ سے سرشار ہونے کے باعث وہ اپنے نسب کی حفاظت کیا کرتے تھے اور اپنے شجرہ نسب کو یاد رکھا کرتے تھے۔ ان کی بڑی بڑی جنگوں کے پس منظر میں اکثر اسی قسم کے واقعات ہوا کرتے تھے۔کسی بڑے سے بڑے سردار نے اگر کسی کی ما ں کو ایسی خدمت بجا لانے کا حکم دیا جو اس کےمرتبہ سے فرو تر ہوتی تو وہ خاتون اس تذلیل پر سیخ پا ہوجاتی اور اپنے خاوند، بھائیوں اور فرزندوں کو للکارتی۔ ایک عورت کی للکار پر سینکڑوں تلواریں بے نیام ہوجاتیں اور آنِ واحد میں خون کے دریا بہنے لگتے۔6
اس کی مثال عمرو بن ہند اور عمرو بن کلثوم کےدرمیان پیش آنے والا واقعہ ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
وأما (عمرو) بن كلثوم فكان من فتكه أن مضرط الحجارة، وهو عمرو بن المنذر بن ماء السماء اللخمي….كان شديد الملك، فقال يوما لجلسائه: «هل تعلمون أن أحدا من العرب من أهل مملكتي يأنف من أن تخدم أمه امي؟» قالوا: «نعم، عمرو بن كلثوم! فان امه ليلى بنت مهلهل بن ربيعة وعمها كليب بن وائل وزوجها كلثوم وابنها عمرو» فسكت عمرو على ما فى نفسه ثم بعث إلى عمرو بن كلثوم يستزيره ويسأله أن يزير امه ليلى امه هندا فقدم عمرو بن كلثوم في فرسان تغلب ومعه امه ليلى فنزل على شاطئ الفرات وبلغ عمرو بن هند قدومه فأمر بحجرته فضربت فيما بين الحيرة والفرات وأرسل إلى وجوه أهل مملكته فصنع لهم طعاما ثم دعا الناس إليه فقرب إليهم الطعام على باب السرادق وهو وعمرو بن كلثوم وخواص من الناس في السرادق ولاُمه هند في جانب السرادق قبة وليلى ام عمرو بن كلثوم معها في القبة وقد قال عمرو بن هند لأمه: «إذا فرغ الناس من الطعام فلم يبق إلا الطرف فنحى خدمك عنك فإذا دعوت بالطرف فاستقدمى ليلى ومريها فلتناولك الشيء بعد الشيء» ففعلت هند ما أمرها به حتى إذا نادى بالطرف، قالت هند لليلى: «ناوليني ذلك الطبق» قالت: «لتقم صاحبة الحاجة إلى حاجتها» فقالت: «ناوليني» وألحت عليها فقالت ليلى: «وا ذلاه! يال تغلب» فسمعها عمرو بن كلثوم فثار الدم فى وجهه والقوم يشربون ونظر عمرو بن كلثوم فعرف الشر وقد سمع قول امه: «يال تغلب» ونظر إلى سيف عمرو بن هند معلقا في السرادق منصلتا فضرب به رأس عمرو بن هند فقتله وخرج فنادى: «يال تغلب» فانتهبوا ماله وخيله، وسبوا النساء، ولحقوا بالجزير.7
بہر حال عمرو بن کلثوم کے مقابلہ بازی والے کارنامے میں سے یہ ہے کہ عمرو بن المنذر بن ماء السماءاللخمی۔۔۔انتہائی جابر قسم کا بادشاہ تھا تو اس نے ایک دن اپنے ہمنشینوں سے کہا: کیا تم میری مملکت میں کسی ایک بھی ایسے عرب کو جانتے ہو جو اس بات کو ناپسند کرتا ہو کہ اس کی ماں میری ماں کی خدمت کرے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں وہ عمرو بن کلثوم ہے کیونکہ اس کی ماں لیلیٰ بنت مہلہل بن ربیعہ ہے اور لیلیٰ کا چچا کلیب بن وائل ہے اور اس کا شوہر کلثوم ہے اور بیٹا عمرو ہے۔ عمرو یہ سن کر اپنے دل کی بات بتانے سے خاموش ہو گیا پھر اس نے عمرو بن کلثوم کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ اس کی زیارت کا خواہش مند ہے اور اس سے یہ بھی کہا کہ اس کی ماں لیلیٰ اس کی ماں کو بھی دیکھنے آئے۔ پس یہ لوگ فرات کے کنارے پر وارد ہوئے اور عمرو بن ہند کو ان کے آنے کی خبر پہنچ گئی تو اس نے ان کے لیے حجرے بنانے کا حکم دیا اور حیرہ فرات کے درمیان ان کے لیے حجرے بنا دیے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ بادشاہ نے اپنی مملکت کے معززین کو بھی پیغام بھیج دیا اور ان سب کے لیے دعوت طعام کا بندو بست کر وایا پھر لوگوں کو کھانے پہ بلواکر شامیانہ کے دروازہ پر کھانا کھلایا جبکہ عمرو بن کلثوم اور معززین خیمہ میں ہی موجود تھے۔ عمرو کی ماں ہند کے لیے شامیانہ کے جانب ایک قبّہ بنایا گیا تھا اور عمرو بن کلثوم کی ماں اس کے ساتھ قبّہ میں تھی اور عمرو بن ہند نے اپنی ماں سے کہہ دیا تھا کہ جب لوگ کھانے سے فارغ ہو جائیں اور بچا کچھا ہی باقی رہ جائے تب آپ کے خادم آپ سے بے توجہ ہو جائیں اور پھر جب آپ بقیہ بچا کچھا منگوائیں تو لیلیٰ کو آگے کردیں اور اسے حکم دیں کہ یکے بعد دیگرے آپ کو چیزیں دیتی رہے۔ پس ہند نے وہی کیا جس کا عمرو نے اسے حکم دیا یہاں تک کہ اس نے بچاکچھا منگوایا ہند نے لیلیٰ سے کہا کہ مجھے یہ تھال تو پکڑائیں تو لیلیٰ نے کہا کہ ضرورت مند کو چاہیے کہ اپنی ضرورت خود پوری کرے۔ اس نے پھر کہا کہ مجھے یہ تھال تو پکڑائیں اور اس پر زیادہ زور دیا تو لیلیٰ نے کہا: اے آل تغلب یہ کیسی ذلت آمیزی ہے تو اس بات کو عمرو بن کلثوم نے سن لیا جس وجہ سے اس کا چہرہ غم و غصہ سے بھر گیا جبکہ قوم مشروبات پی رہی تھی۔ عمرو بن کلثوم نے دیکھا، اس نے برائی کو بھانپ لیا اور اپنی ماں کا قول" اے آل تغلب" بھی سن لیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شامیانہ میں عمرو بن ہند کے سرپر ہی ایک ننگی تلوار لٹک رہی رہے تو اس نے اسی تلوار سے عمرو بن ہند کا سراڑا دیا اور اسے قتل کر دیا۔ شامیانہ سے نکل کر اس نے پکارا کہ اے آل تغلب تو انہوں نے اس بادشاہ کا مال اور گھوڑا اچک لیا اور اس کی بیویوں کو قیدی بنایا اور اپنے جزیرہ واپس چلے گئے۔
یہی نہیں کہ ایک بادشاہ کو اس کے حواریوں کی پرواہ کیے بغیر چند لوگوں نے اپنے قبیلہ کی معزز خاتون کی بے عزتی کرنے پر نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مال و اسباب بھی لوٹ لیا۔ اس سے بڑھ کر عرب کا ایک بہادر بھی کئی جوانمردوں سے یکے بعد دیگرے لڑتا اور سب کر پچھاڑ دیتا تھا جس کی گواہی دشمن بھی دیتے تھے چنانچہ العقد الفرید میں اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے ابن عبد ربہ نقل کرتے ہیں:
وقيل للمهلب بن أبي صفرة: ما أعجب ما رأيت في حرب الأزارقة؟ قال: فتى كان يخرج إلينا منهم في كل غداة فيقف فيقول:
وسائلة بالغيب عنّي ولو درت
مقارعتي الأبطال طال نحيبها
إذا ما التقينا كنت أول فارس
يجود بنفس أثقلتها ذنوبها
ثم يحمل فلا يقوم له شيء إلا أقعده، فإذا كان من الغد عاد لمثل ذلك.8
بن ابی صفرہ سے پوچھا کہ تو نے ان جنگوں میں جو تمہاری ازارقہ کے ساتھ ہوئیں کونسی عجیب ترین بات دیکھی مہلب نے کہا ہرروز ازارقہ کی طرف سے ایک نوجوان نکل کر ہماری طرف آتا اور یہ دو شعر پڑھتا:
ایک عورت میری غیر حاضری میں میری بابت لوگوں سے پوچھتی ہے۔اگر اسے بہادروں کے ساتھ میرے جنگ کرنے کے (انداز)کا پتا چل جائے تو مدت تک روتی رہے۔
پھر حملہ کرتا جو کوئی بھی اس کے مقابلہ کے لیے کھڑا ہوتا وہ اسے بٹھا دیتا ہر روز اس کا یہی طریقہ تھا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عرب قو ت وطاقت میں اپنی مثال آپ تھے اور بالخصوص جنگوں میں یا کسی ناگہانی صورتحال میں وہ قوت وبہادری کے مکمل جوہر دکھاتے تھے۔اسی حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے سیّد محمود شکری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
روي ابو بكر بن دريد عن ابي عبيدة قال خرج دريد بن الصمة في فوارس من بني جُشَم حتي اذا كانوا في واد لبني كنانة يقال له الأخرم وهم يريدون الغارة علي بني كنانة رفع لهم رجل في ناحية الوادي ومعه ظعينة فلما رآه قال لفارس من أصحابه صح به "خل الظعينة وانج انت بنفسك" وهم لا يعرفونه فانتهي اليه الفارس فصاح به وألح عليه فلما رأي إباءه ألقي زمام الراحلة وقال للظعينة:
سيري علي رسلك سير الآمن
سيررداح ذات جأش ساكن
إن انثنائي دون قرني شائني
أبلي بلائي واخبري وعايني
ثم حمل عليه فصرعه وأخذ فرسه وأعطاه الظعينة، فبعث دريد فارساً آخر لينظر ماصنع صاحبه فلما انتهي اليه ورآه صريعاً صاح به فتصامم عنه فظن انه لم يسمع فغشيه فألق زمام الراحلة الي الظعينة ثم رجع وهو يقول:
خل سبيل الحرمة المنيعة
انك لاق دونها ربيعة
في كفه خطية مطيعة
أو، لا فخذها طعنة سريعة
فالطعن مني في الوغي شريعة
ثم حمل فصرعه فلما ابطأ علي دريد بعث فرساً ثالثاً لينطر ماصنعافلما انتهي اليهما رآهما صريعين ونظر اليه يقود ظعينته ويجر رمحه فقال له خل سبيل الظعينة فقال للظعينة اقصدي قصد البيوت ثم اقبل عليه يقول:
ماذا تريد من شتيم عابس
ألم ترالفارس بعد الفارس؟
أرادهما عامل رمح يابس
ثم حمل عليه فصرعه وانكسر رمحه وارتاب دريد وظن انهم قد اخذوا الظعينة وقتلوا الرجل فلحق ربيعة وقد دنا من الحي ووجد اصحابه قد قتلوا فقال ايها الرجل: ان مثلك لايقتل ولا اري معك رمحاً والخليل ثائرة بأصحابها فدونك هذا الرمح فاني منصرف الي اصحابي فمثبطهم عنك فانصرف دريد وقال لأصحابه: ان فارس الظعينة قد حماها وقتل اصحابكم وانتزع رمحي ولامطمع لكم فيه فانصر فوا فانصر القوم.9
ابوبکر بن درید نے ابوعبیدہ سے روایت کی ہے کہ درید بن الصمہ بنی جشم کے کچھ سوار ساتھ لے کر نکلا یہاں تک کہ بنی کنانہ کی ایک وادی میں پہنچا جسے الاخرم کہتے ہیں۔ان کا ارادہ بنی کنانہ پر چھاپہ مارنے کا تھا مگر اس وقت وادی کی ایک طرف انہیں ایک شخص دیکھائی دیاجس کے ساتھ اس کی بیوی تھی، جب درید نے اسے دیکھا تو اپنےایک سوار سے کہا: اسے للکار اور کہہ کہ بیوی کو چھوڑ جا اور اپنی جان بچا کرلے جا۔ یہ لوگ اسے جانتے نہ تھے تویہ سوار اس شخص کے پاس جا پہنچا، للکارا اور بالاصرار للکارا، جب اس شخص نے دیکھا کہ یہ باز نہیں آ رہا تو اُس نے سواری کی مہار ہاتھ سے چھوڑ دی اور بیوی سے کہا:
بے خوف شخص کی طرح مزے سے چلتی جا جس طرح کوئی موٹی سرینوں والی پرسکون دل کے ساتھ چلتی ہے اپنے حریف کے سامنے سے ہٹ جانامجھے عیب لگا دے گا پس میری مصیبت کو آزما، تجربہ کر اور دیکھتی جا۔
اس کے بعد اس شخص نے سوار پر حملہ کر کے اسے پچھاڑ دیا اور اس کا گھوڑا لے کر بیوی کو دے دیا۔ پھردرید نے ایک اور سوار کو بھیجا کہ دیکھے اس کے ساتھی کا کیا حشر ہوا۔جب وہ سوار ساتھی کے پاس پہنچا اور اسے زمین پر پڑا ہوا دیکھا تو اس نےاس شخص کوآواز دی مگر اس نے یوں ظاہر کیا جیسے اس نے سنا ہی نہیں۔ اس نے خیال کیا کہ اس شخص نے سنا نہیں لہٰذا وہ اس کے پاس چلا آیا۔ اس پر اس نے سواری کی مہار عورت کے حوالے کردی اور یہ کہتے ہوئے سوار کی طرف لوٹا:
شریف زادی اور محفوظ عورت کا راستہ چھوڑ دے تجھے اس تک پہنچنے سے پہلے ربیعہ کاسامنا کرنا ہوگا جس کے ہاتھ میں خطی نیزہ ہے اگر ایسا نہیں کرتا تو یہ لو کس سرعت سے نیزہ آیا، جنگ میں نیزہ سے وار کرنا میرا مذہب ہے۔
اس کے بعد اس پر حملہ کرکے اسے بھی زمین پر مار گرایا، جب اس نے درید (کے پاس واپس جانے میں) دیر کردی تو اس نے تیسرا سوار بھیجا کہ وہ دیکھے کہ ان پر کیا گزری۔ جب وہ ان دونوں کے پاس پہنچا تو انہیں زمین پر پڑا ہوا پایا اور اسے دیکھا تو وہ عورت کو کھینچتا اور نیزے گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا، اس نے اس سے کہا: عورت کو چھوڑ دے۔ اس نے بیوی سے کہا کہ تو تو اپنے گھر کو جا اور خود اس کی طرف یہ کہتا ہوا متوجہ ہوا:
تو کریہ منظر والے ترش رو انسان سےکیا چاہتا ہے؟ کیا تو نے یکے بعد دیگرے ان سواروں کا حشر نہیں دیکھاکہ ان دونوں کو خشک نیزے کے پھل نے ہلاک کیا ہے۔
اس کے بعد اس شخص نے اس سوار پر حملہ کیا، اسے بھی زمین پر مار گرایا اوراس کا نیزہ ٹوٹ گیا۔ درید کو شک گزرا اور خیال کیا کہ انہوں نے اس شخص کو قتل کرکے عورت کو گرفتار کر لیا ہے چنانچہ وہ خود ربیعہ سے جا ملادرآنحال کہ وہ قبیلے کے قریب پہنچ چکا تھا اور دیکھا کہ اس کے ساتھی قتل ہو چکے ہیں۔ یہ جان کر اس نے کہا: اے شخص تمہارے جیسے کو تو قتل نہیں کیا جائے گا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے پاس نیزہ بھی نہیں ہے اور گھڑ سوار اپنے ساتھیوں کی وجہ سے جوش میں ہیں۔ یہ نیزہ لے لواورمیں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جاکرانہیں تمہاری طرف آنےسے روکتا ہوں۔ یہ کہہ کر درید واپس چلا گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: بیوی والے سوار نے بیوی کو بچا لیا ہے، اس نے تمہارے ساتھیوں کو قتل کر دیا ہے اور مجھ سے نیزہ چھین لیا ہے لہٰذا تم اس کا خیال چھوڑدو اور واپس چلے جاؤ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔ 10
لیکن عرب میں دیگر ذرائع بھی تھے جن سے اس طرح کے معاملات کو خوش اسلوبی سے بھی حل کیاجاتاتھا چنانچہ منقول ہوا کہ قبیلہ خشعم کا ایک یمنی اپنی بیٹی کے ہمراہ مکّہ مکرّمہ میں گیا، ایک انتہائی طاقتور مکی ابن الحجاج نے لڑکی کو طاقت و قوت کے بل بوتے پر زبرد ستی اٹھا لیا۔ والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ حلف الفضول میں درخواست کرے، ابن الحجاج کے گھر کا فوراً محاصرہ کر لیا گیا، اپنے دفاع کا کوئی راستہ نہ پاتے ہوئے اس نے درخواست کرنا شروع کر دی کہ اسے اس حسین و جمیل لڑکی کے ساتھ صرف ایک رات گزارنے کی اجازت دی جائے جس نے اس کا دل چرا لیا ہے، کوئی بات بھی حلف الفضول والوں کو اپنے موقف سے دستبردار نہ کر سکی اور ابن الحجاج کو اسی وقت، اسی لمحے لڑکی کے والد کو اس کی بیٹی واپس کرنا پڑی۔ 11
اسی جوہرِ غیرت کی وجہ سے عرب کے شاعروں نے شجاعت و دلیری کے بارے میں لاتعداد اشعار اپنے دواوین کی زینت بنائے چنانچہ ایک شاعر نے تو عرب کی شجاعت کو اشعار میں یوں بیان کیا ہے کہ زخموں کا خون پشت پر نہیں بلکہ سینہ پر ٹپکتا ہے۔ 12 سموال شاعرنے بھی عرب کی شجاعت کواسی اندازمیں بیان کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہماری قوم جنگ وجدل میں موت کو عار نہیں سمجھتی خواہ دیگر لوگ عار سمجھیں۔13
عرب کے شاعروں نےغیرت وحمیت اور شجاعت و دلیری کے بارے میں لاتعداد اشعارکہے۔ حیان بن ربیعہ طائی اپنی قومی شجاعت پر فخر کرتے ہوئے فخریہ طور پر درج ذیل اشعاریوں کہتا ہے:
لقد علم القبائل أن قومي
ذو وجد اذا لبس الحديد
وانا نِعم احلاس القوافي
اذا استعر التنافر والنشيد
وانا نضرب الملحاء حتي
تولي والسيوف لنا شهود.14
تمام قبائل کو معلوم ہے کہ جب لوگ زرہیں پہن لیں تو میری قوم خوب مستعد ہوتی ہے اور(یہ بھی معلوم ہےکہ) جب باہمی فخرومشاعر ہ کا بازار گرم ہوتا ہے تو ہم اشعار کی پیٹھ پر مضبوطی سے سوار ہوجاتے ہیں۔ جب ہمارا کسی لشکرِ جرار سے پالا پڑتا ہے تو ہم اسے مسلسل تلوار سے ضرب لگاتے ہیں یہاں تک کہ وہ جنگ سے پھر جائے اور ہماری تلواریں اس امر پر گواہ ہیں۔
یعنی ہماری تلواریں بھی ہماری شجاعت وبسالت پر گواہ ہیں کہ ہم ایسے ہی بہادرہیں۔ ایک عربی شاعر عرب کی شجاعت کو اشعار میں یوں بیان کرتا ہے:
فلسنا على الأعقاب تدمى كلومنا
ولكن على أقدامنا تقطر الدم.15
ہمارے زخموں کا خون ہماری ایڑیوں پر نہیں گرتا بلکہ ہمارے قدموں پر ٹپکتا ہے۔
کیونکہ نیزوں اور بھالوں کے زخم میدانِ جنگ میں سینوں پر آتے ہیں نہ کہ پشت پر۔سموال بن عا دیا٫ اپنی اس صفتِ شجاعت کو بیان کرتے ہو ئے کہتا ہے:
وإنا لقوم لا نرى القتل سبه
إذا ما رأته عامر وسلول
فنحن كماء المزن ما في نصابنا
كهام ولا فينا يعد بخيل.16
ہم وہ قوم ہیں جو لڑائی میں موت کو عار نہیں سمجھتے جبکہ بنو عامر اور بنو سلول نےاس کو عار سمجھا۔ ۔۔ ہم پاکیزگیِ خاندان میں آبِ باراں کی طرح ہیں اور ہماری نسل میں کوئی بخیل اور کند نہیں ہوتا۔
وہ مزید کہتاہے:
ومامات مناسيد حتف انفه
ولاطل منا حيث كان قتيل
تسيل على حد الظبات نفوسنا
وليس على غير السيوف تسي.17
ہمارا کوئی سردار طبعی موت نہیں مرا اور نہ ہی ہمارے کسی مقتول کا خون ضائع ہوا۔ ہمارا خون تلواروں کی دھاروں پر بہتا ہے اور تلواروں کے سوا کہیں اور نہیں بہتا۔
صحرا کے پرانے قانون کی رو سے خون کا بدلہ خون تھا۔ قصاص کے سوا اور کوئی سزا تسلیم نہیں کی جاتی تھی، قتل کے قصاص کی جنگ چالیس چالیس سال تک جا ری رہتی تھی۔ اس كی واضح مثال عدنانی اور قحطانی قبائل کے درمیان چوتھی صدی عیسوی میں لڑی جانے والی جنگ (یوم بیضاء) ہے جوسب سے قدیم جنگ ہے، اس جنگ کا سبب یہی تھا کہ ایک یمنی قبیلہ مذحج تلاش معاش میں تہامہ آیا جو قبائل معد کا مسکن تھا اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ معدی قبائل کو یہ نہایت ناگوار گزرا اور نتیجتاً قبائل معد نے بنی عدوان کے سردار" عامر بن ظرب" کی سرکردگی میں بنو مذحج سے مقام بیضاء پر جنگ لڑی جس میں بنو مذحج کو شکست فاش ہوئی۔ 18
اہل عرب اپنی عزت و عظمت کے لیے، اپنے حقوق کے تحفظ اور ان کی بازیابی کے لیے نیز اپنے قبیلہ کی رفعتِ شان کے لیےاپنی متاعِ حیات کو قربان کرنے پر بلا تامل تیار ہوجایا کرتے تھے۔ اپنا سر کٹا دینا، اپنے جسم کے پرزے اڑا دینااور عالمِ شباب میں موت کا تلخ پیالہ لبوں سے لگالینا ان کے لیے ادنیٰ سی بات تھی۔ وہ زندگی اور اس کے عیش و طرب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اپنی عزت اور اپنے قبیلہ کی آبرو کو بچانے کے لیے موت سے کھیل جانا ان کے لیے قطعاً کوئی خوفناک کھیل نہ تھا۔ وہ اپنے خیال کے مطابق اپنے اعلیٰ مقاصد کے لیے اپنی جان اور خون کا نذرانہ پیش کرنا اپنا فرضِ اولین سمجھا کرتے تھے۔ وہ میدان جنگ کی موت کو بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر ترجیح دیتے تھے۔19
بستر کی موت ان کے لیے کس قدرقابل مذمت تھی اس کا اندازہ اس جواب سے کیا جا سکتا ہے کہ جو ایک عرب یعنی عبداللہ بن زبیرنےاپنے بھائی (مصعب )کے قتل ہوجانے کی اطلاع ملنے پر دیا تھا، اس نےبڑے سکون سے کہا:
إن يقتل فقد قتل أخوه وأبوه وعمه، إنا والله لا نموت حتفا ولكن قعصا بأطراف الرماح، وموتا تحت ظلال السيوف.20
(یہ کونسی حیران کن بات ہے)اگر وہ قتل ہوا ہے تو( اس سے پہلے) اس کاباپ، اس کا بھائی اور اس کا چچا سب ہی توقتل ہوئے۔ خدا کی قسم ہم بستر پر نہیں مرا کرتے بلکہ نیزوں کی انیوں سے ہم موقع پر ہی ہلاک ہوتےاور تلواروں کے سائے میں مرتے ہیں۔
اس جواب سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عرب کس قدر شجاع و دلیر تھے اور موت ان لوگوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتی تھی۔ اہل عرب جنگ و جدل کو اپنی زندگیوں کا جزوِ لاینفک سمجھتے تھے۔ عرب کی کشادہ فضا، کھلا ماحول، سادہ غذا اور بلا تکلف زندگی نے ان لوگوں کے اندر بے خوفی، نڈر پن اور موت سے آنکھیں چار کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اونٹ دوڑ اور جانوروں کو پانی پلانے میں پہل حاصل کرنے جیسی معمولی سی بات پر قبیلوں کے درمیان جھگڑے کا آغاز ہوتا تو جنگ و جدل کا یہ سلسلہ سالوں تک چلتا رہتا یہاں تک کہ دو فریقین میں سے کوئی باقی نہ بچتااور سب کے سب جنگ کی نذر ہوجاتے مگر خون آشام تلواریں پھر بھی نیام سے باہر ہی رہتیں چنانچہ عرب کے ایام میں اس بات کا ثبوت بخوبی نظر آتا ہے۔
اہل عرب کی فطرت گویا جنگجو تھی اوراس فطرت کے باعث ان میں ایسی عادات و خصائل جڑ پکڑ چکے تھے جن کی وجہ سےوہ ایک وحشی قوم بن چکے تھے جنہیں کسی کی تابعداری یا فرمانبرداری کرنا اپنی توہین لگتی تھی نیز وہ کسی کے سامنے سر جھکانا تحقیر و تذلیل سمجھتے تھے۔ ابن خلدون عرب کی اس فطرت کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ"انہم امۃ وحشیۃ" یعنی "عرب ایک وحشی قوم تھی"جن میں وحشیانہ عادات و خصائل ایسے جڑ پکڑ گئےتھے کہ یہ ان کی جبلی و فطری عادات لگتی تھیں اور یہ وحشت ان کواس لیے پسندتھی کہ اس میں ان کو کسی کی تابعداری نہیں کرنی پڑتی تھی، نہ ہی سر جھکانا پڑتا تھا بلکہ خودمختاری کے ساتھ زندگی گزارسکتےتھے، اسی وجہ سے وہ لوٹ مار کرکے گزر بسر کرلیتےتھے اورلوگوں کا مال زبردستی لے لینا ان کے لیے فخر کی بات تھی، گویا ان کا رزق نیزوں سے ان کو ملتاتھا پھر اس پر اکتفا نہیں کرتے تھےبلکہ جس چیز پر ان کی نگاہِ انتخاب پڑجاتی تھی اسے کسی بھی جائز و ناجائز طریقہ سے حاصل کرنا ہی ان کا مقصدبن جاتا تھا۔ 21
یہی وجہ ہے کہ عربوں کے نیزے ہمیشہ ایک دوسرے سے اُلجھتے رہے، ان کی عمریں جنگوں میں فنا ہوتی رہیں، تلواریں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہیں اور ان کے بہادر میدانِ وفا میں مبتلائے کشاکش رہے۔ انہوں نے زندگی اور دل پسند لذتوں سے ہاتھ اُٹھائے رکھے اور اپنی عزت کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی خواہشات کے سائے میں آرام کرنے سے اعراض کیا۔ وہ حتمی موت کے مدح خواں تھے اور بستر پر پڑ ے مرنے کی ہجو کیا کرتے تھے۔ وہ اس پرافسوس کرتے ہوئےکہتے تھے كہ فلاں بستر پر طبعی موت مرگیاچنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شہاب الدین تحریر کرتے ہیں:
وما زالت العرب يتمادحون بالموت قعصا، ويتسابّون بالموت على الفراش، ويقولون فيه: مات فلان حتف أنفه.22
عرب ہمیشہ سے نیزوں کی انیوں سےمرنےکو پسندکرتے ہیں، بستر پر مرنے کو برابیان کرتےہیں اورکہتے ہیں: فلاں اپنی ناک کی موت مرا۔
یعنی طبعی موت مرنے کو وہ معیوب سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ اہل عرب چادر، چار دیواری اور غیرت و ناموس کی حفاظت پر کسی چیز کو مقدم نہیں سمجھتے تھے اور اس مقصد کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کر دیتے تھے۔اسی حوالہ سے فخریہ انداز میں مشہور شاعر عنترہ بن شداد کہتا ہے:
دعوني في القتال أمت عزيزا
فموت العز خير من الحياة.23
مجھے میدان جنگ میں چھوڑ دیں، میں عزت سے مرنا چاہتا ہوں۔ عزت کی موت زندگی سے بہتر ہے۔
وہ اسی حوالہ سے مزید کہتا ہے:
لا تسقيني ماء الحياة بذلة
بل فأسقني بالعز كاس الحنظل
ماء الحياة بذلة كجهنم
وجهنم بالعز اطيب منزل.24
مجھے ذلت کے ساتھ آبِ حیات نہ پلا بلکہ عزت کے ساتھ (کڑوا) اندرائن کا پیالہ دے (جسےمیں بخوشی پی لوں گا ) ذلت کےساتھ آبِ حیات پینا ایسے ہے جیسے جہنم میں جلنا اور اگر جہنم میں عزت محفوظ ہو تو جہنم ہی بہترین جگہ ہے۔
عرب لوگ فطری طور پر دلیر اور خوددار تھے۔ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ طاقتور کسی کمزور، عاجز، بوڑھے یا صنفِ نازک پر زیادتی کرے۔ اگر کوئی ان سے مدد طلب کرتا تو اس کی مدد کرتے اور پناہ لینے والے کو بے یارومددگار چھوڑ دینا کمینگی سمجھتے تھے۔
شجاعت اور تفاخر میں عرب کس قدر بہادر، جسور اور غیور تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میدان جنگ میں عرب عورتیں بھی مردوں کے دوش بدوش موجود رہا کرتی تھیں جو رجزکہا کرتی تھیں۔ بہادروں کو مقابلہ پر اکساتیں، کامیابی کی صورت میں تعاون و وفاداری کا وعدہ کرتیں اور ہزیمت و شکست کی صورت میں علیحدگی اور نفرت کا۔ یہی وجہ ہے کہ عرب جنگ میں پیٹھ پھیرنے کے بجائے دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کو تیار رہتے تھے۔
بالعموم عرب اور بالخصوص بدو پیدائشی آزاد پسند ہوتے تھے۔ ان کے معاشرے اونچ نیچ سے پاک تھے۔وہاں سب کی حیثیت مساویانہ ہوتی تھی البتہ ان میں جمہوریت کے ساتھ ایک امیرانہ انداز ضرور موجود رہتا تھا اوروہ اپنے آپ کو انسانیت کے کمال کا مجسمہ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عرب اپنے خون کی پاکیزگی، فصاحت، شاعری، تلوار، گھوڑے اور خاندانی وجاہت کو سرمایۂ افتخار جانتے ہیں۔ ایک عربی فطری طور پر آزادی سے عشق کی حد تک محبت کرتا تھا۔ اس کا جینا اور مرنا اسی کے لیے تھا۔ وہ آزاد فضا میں اس طرح نشونما پاتا کہ اس پر کسی کا تسلط نہ ہوتا۔ وہ اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ ذلت والی زندگی گزارے یا کوئی اس کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالے، خواہ ساری زندگی تکلیفوں میں گزارنی پڑے۔ 25 اہل عرب کے اذہان میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ وہ آزاد پید اہوئے لہٰذا وہ آزادی پسند ہوئے اور آزاد رہنا چاہا۔عموی طور پروہ ہمیشہ آزاد رہے اوربالخصوص شمالی عرب کے باشندوں کی حریت پسندی تو اپنی مثال آپ تھی جس میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا، انہوں نے کبھی کسی دوسری قوم کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں نہیں ڈالا۔عرب لوگ ذلت قبول نہیں کرتے تھے، وہ نہایت خود دار اور مساوات پسند تھے۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی بڑےسے بڑے آدمی کے سامنے برابری کے ساتھ بے باکانہ بیٹھ کر گفتگو کر تا تھا، ذرا سی بے قدری اور توہین یا ذلت ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی اور نہایت خون ریز جنگ چھیڑ دیتے تھے۔ وہ حد سے زیاده خوددار تھے، کسی کے زیر بار ہوکراحسان مند ہو نا پسند نہیں کرتےتھے، حد سے زیادہ جفا کش تھے، محنت سے کتراتے اور نہ جی چراتے تھے اور وہ حرب و ضرب میں طاق تھے۔
عرب حوصلے کی بلندی اور دل کی مضبوطی کے ساتھ جسمانی قوت و بہادری میں بھی معروف تھے۔ ایک جاہلی عرب علوی کہتا ہے:
محزمة أكفأل خيلي على القنا
ودامية لتاتنها و نحورها
حرام على أرماحنا طعن مدبر
و تندق منها في الصدور صدورها.26
نیزوں پر میرے گھوڑے کے پٹھے حرام ہیں بلکہ اس کا سینہ اور اس کی گردن خون سے لہو لہان ہوتی ہے۔ اس طرح ہمارے نیزوں پر حرام ہے کہ وہ کسی پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کو اپنانشانہ بنائیں بلکہ ہمارے نیزوں کے سینے اپنے مد مقابل کے سینہ میں جا کر گرتے ہیں اور دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔
شجاعت، بہادری اور دلیری ایک فطری صفت و طبعی خصلت ہے اور نفس کی معنوی قوت ہے جسے انسان اس کے نشانات اور غایات ہی سے سمجھ سکتا ہے اور جس کا علم شجاعت کے مقتضیات اور علامات کے بغیر نا ممکن ہے، یہ علامات اہل عرب میں اس طور پر پائی جاتی تھیں کہ جہاں لوگ پیچھے ہٹتےوہ آگے بڑھتے، نہ زندگی کی پرواکرتے اور نہ موت سے ڈرتے اور ان علامات کے کامل اور مکمل مصداق عرب ہی نظر آتے ہیں۔
اس شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ عموما ًغیظ وغضب زیادہ ہوتا ہے اور ذراسی بات پر ہنگامہ اور قتل وغارت گری بپا ہوجاتی ہے جیساکہ عرب تاریخ سے ظاہر ہے لیکن اس کے باوجود عرب میں ایک نمایاں وصف بھی موجود تھا جس سے غیظ و غضب متوازن رہتاتھا۔اس وصف کو حلم وبردباری سے تعبیر کیاجاتا ہے گوکہ یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب کمیاب تھالیکن عرب دورِ جاہلیت میں بھی شجاعت وبسالت کی انتہاؤں پر فائض ہونے کے باوجود بھی حلم وبربادری کے حوالہ سے قابل ستائش تھے۔ عربوں کے حلم کے حوالہ سےسیّد محمود شکری لکھتے ہیں:
إن حلم الإنسان لا يتم إلا بإمساك الجوارح كلها اليد عن البطش واللسان عن الفحش والعين عن فضولات النظر ومن دقق النظر في شعرهم وخطبهم وقف علي لغتهم تبين لديه كل ما ذكرناه فقد كانوا يحرمون الظلم ويتحالفون علي الكف عنه ويتناهون عن الحفشاء والمنكر ولغتهم تكني عن كل ما يستقبح التصريح به تحرزا من التلفظ بكلمة تاباها مروء تهم. 27
انسان کا حلم صرف اسی وقت مکمل ہوسکتا ہے جب وہ اپنے تمام جوارح پر قابو رکھ سکے مثلاً ہاتھ پر قابو ہو کہ وہ گرفت نہ کرے، زبان پر قابو ہو کہ وہ فحش بات نہ کہے اور آنکھ پر قابو ہو کہ بد نظری سے بچے۔ جو شخص ان (عربوں) کے اشعار اور خطبوں کو باریک بین نگاہوں سے دیکھے گا اور ان کی زبان سے واقف ہوگا، اس پر یہ تمام مذکورہ بالاامور واضح ہوجائیں گے۔ عرب ظلم کرنے کو حرا م قرار دیتے اور ظلم کرنے سے باز رہنے کے لیے آپس میں قسمیں اٹھاتے تھے۔ عرب فحش اور ناپسندیدہ باتوں سے باز رہتے اور ان کی زبان ہر اس چیز کو کنایۃً بیان کرتی ہےجس کا تصریحاً بیان کرنا قبیح سمجھا جاتاہے تاکہ وہ ایسے لفظ سے بچیں جس سے ان کی نخوت انہیں روکتی ہے۔ 28
ان کے ہاں ایک جملہ تھا جو غصے اور جھگڑے کے موقعوں پر بولا جاتا تھا۔ جب کوئی شخص جو دل کی بھڑاس نکالنے اور انتقام لینے کے درپے ہوتا اگر یہ جملہ سن لیتا تو انتقام لینے سے باز آجاتاوہ جملہ یہ تھا:
إذا ملكت فاسجح.29
جب تو غالب ہوگیا تو درگزرکر۔
جب قوتِ غضبیہ بھڑک اٹھتی تو اس جملے کے کہنے کا مقصد معافی اور حلم کی درخواست کرنا ہوتا تھاچنانچہ اس حوالہ سے ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وللعرب كلمة تقولها عند طلب العفو والحلم وفي مواطن الغضب والتشاجر هي اذا ملكت فاسجح يقصد بها طلب العفو والحلم عند ثوان الغضب. ولهم كلمات اخري كثيرة في الحث علي التحلي بالحلم والصبر.30
عرب کے ہاں ایک جملہ ہےجو وہ معافی، بردباری طلب کرنے، جوش وغضب اورلڑائی جھگڑے کے موقع پرکہتے ہیں: "إذا ملکت فاسجح"یعنی "جب تو غالب ہوگیا تو درگزرکر"۔ جب کوئی غیظ وغضب میں ہو تواس کے ذریعے معافی وبردباری مانگتے ہیں۔ اس کےعلاوہ بھی ان کے ہاں بہت سے کلمات ہیں جن کےذریعے صبر وحلم کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔
نیز سیّدمحمودشکری عربوں کے حلم کے حوالہ سے مزیدلکھتے ہیں:
ولو لم يكونوا أملك لنفوسهم وأقدر علي مجاراة عقولهم لما تمكنوا علي الإرتداع إذا قارنت تلك الكلمة منهم السماع فهم أحلم في النفار من كل حليم وأسلم في الخصام من كل سليم وإذا منوا بجفوة أحد لم يوجد منهم نادرة ولم يخفر عليهم ببادرة ولا حليم غيرهم إلا ذو عثرة ولا وقور سواهم إلا ذو هفوة.31
اگرعربوں کو دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ پر زیادہ قابو نہ ہوتا اور اپنی عقلوں کا ساتھ دینے پر زیادہ قادر نہ ہوتے تو وہ اس کلمہ کے سننے کے باوصف انتقام لینے سے باز رہ سکنے پر قادر نہ ہوتے، لہٰذا یہ لوگ شرافت کے جھگڑوں میں ہر حلیم الطبع انسان سے زیادہ حلیم اور مخاصمت میں ہر سلیم الطبع سے زیادہ صلح جو ہیں اور جب انہیں کسی کی بدخوئی سے پالا پڑ جائے تو (جب بھی) ان میں کوئی انوکھی بات نہیں پائی جاتی اور نہ ہی کسی کی جلد بازی کی وجہ سے پیماں شکنی ان کا دستور ہے حالانکہ ان کے سوا ہر حلیم الطبع انسان لغزش کھا جاتا ہے اور ان کے سوا ہر صاحبِ وقار انسان پھسل جاتا ہے۔ 32
یعنی اہل عرب میں نخوت کے باوجود حلم وبردباری موجود تھی جس کے سبب عین قوتِ غضبیہ کے عروج کے موقع پر کہے جانے والے بہترین جملے بھی اپنا فوری اثر کرتے تھے اور سامنے والا اپنا غیظ و غضب بھول کر غلطی معاف کردیا کرتا تھا۔
بنی تمیم کے سردار قیس بن عاصم المنقری کے بارے میں دورِ جاہلیت میں حلم کے حوالہ سے ایک مشہور واقعہ منقول ہے جس کی مثال دی جاتی ہے۔واقعہ اس طرح منقول ہے کہ قیس بن عاصم منقری ایک روز پنڈلیوں اور کمر کے گرد پٹکا ڈالے بیٹھا اپنے ساتھیوں کے ساتھ باتیں کررہا تھا کہ اس کے مقتول بیٹے اور اس کے ایک چچازاد بھائی کو جسے رسیوں میں جکڑا ہوا تھا لایا گیا اور لوگوں نے کہا: اس نے تمہارے اس بیٹے کو قتل کردیا مگر قیس نے نہ گفتگو روکی اور نہ چوکڑی کو کھولا یہاں تک کہ جب اپنی بات سے فارغ ہوگیا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا میرا فلاں بیٹا کہاں ہے؟ وہ آیا تو اس نے کہا بیٹا! اٹھو اس چچا زاد کو آزاد کردو، اپنے بھائی کو دفن کردو، مقتول کی ماں کے پاس جاؤ اور اسے ایک سو اونٹنی دے دو اس لیے کہ وہ یہاں پردیسی ہے تاکہ اس کا غم غلط ہوجائے۔ اس کے بعد اس نے اپنے بائیں پہلو پر ٹیک لگا کر یہ شعر کہے:
إني إمرؤ لا شائن حسبي
دنس يغيره ولا أفن
من منقر في بيت مكرمة
والغصن ينبت حوله الغصن
خطباء حين يقول قائلهم
بيض الوجوه أعفة لسن
لا يفطنون لعيب جارهم
وهم بحسن جواره فطن.33
میں تو وہ شخص ہوں جس کے اخلاق کو نہ کوئی میل کچیل لاحق ہوتا ہے اورنہ ضعفِ عقل جس کی وجہ سے مجھے بیوقوف کہا جاسکے۔میں بنی منقر کے بزرگی کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ایک ٹہنی کے گرد دوسری ٹہنیاں اگ ہی آتی ہیں۔جب ان میں سے کوئی کہنے والا کوئی بات کہتا ہے تو یہ خطیب ہوتے ہیں، یہ شرفاء ہیں، فصیح وبلیغ ہیں، (فصاحت میں کوئی کسی سے کم نہیں)وہ اپنے پڑوسی کے عیوب کو نہیں جانتے مگر اس پڑوسی کے حق کی حفاظت کرنے کے معاملے کو خوب سمجھتے ہیں۔
اہل عرب اپنی شجاعت وبسالت کے باوصف حلم اور بردباری میں بھی دیگر قوموں سے زیادہ قوی تھے اور یہ چیز ان کے بڑوں سے لےکر چھوٹوں تک میں موجود تھی جس سے ان کی قوت وشجاعت سمیت حلم وبردباری میں بھی پختگی واضح ہوتی ہے۔اہل عرب کے رذائل ومفاسد اگرچہ ان کے دورِ جاہلیت کی تصویر کا ایک رخ تھا لیکن اسی دور کا دوسرا رخ ان کی بہادری وبردباری بھی تھا۔اگرچہ یہ لوگ مختلف نوع کی برائیوں میں مبتلاہوگئےتھے مگرمکمل طورپراخلاق سے عاری نہیں ہوئے تھے اور پھر ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے حسنِ خلق کے چشمے ازسرنو صاف وشفاف ہو کر جاری وساری ہوگئے۔
دورِ حاضر کے عربوں میں بھی یہ صلاحیت قدرتی طور پرموجود ہے اور اس کی شاندار مثال فلسطین، غزہ، عراق اور شام کے عرب مسلمان ہیں جو بے سروسامانی کے عالم میں بھی دشمن سے بر سرِ پیکارہتے ہیں اور ان کی مائیں اپنے بچوں کو یکے بعد دیگرے اللہ کے دین کے خاطر قربان ہونے کے لیےمیدان ِ عمل اور جہاد میں بھیجتی رہتی ہیں لیکن اس کے ساتھ اگر وہ عرب ممالک جن کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی فراوانی دی ہے اپنی قوت وطاقت کو منظم کریں اور باقاعدہ طور پر میدانِ عمل میں اپنی جوانمردی کا منظم انداز میں مظاہرہ کریں تو آج بھی دنیا کی ساری بڑی طاقتیں ان کے آگے سرنگوں ہوسکتی ہیں اور یہ ان پر نہ صرف اپنی دھاک بٹھاسکتے ہیں بلکہ اصلاً دنیا کی حکمرانی کرسکتے ہیں۔