اہل عرب امرؤالقیس کو اپنے اشرافیہ میں شمار کرتے تھے اور اس کودورِ جاہلی کی شاعری کا نمائندہ شاعر سمجھتے تھے 1نیز یہ زمانہ جاہلی کے شعراء کےطبقات میں سب سے پہلے طبقہ سے تعلق رکھتا تھا اور اکثراہل عرب کے نزدیک اس طبقہ میں بھی سب سے نمایاں مقام کا حامل تھا۔اس کا تعلق اہل نجد سے تھا 2 جبکہ ابن عساکر کہتے ہیں کہ امرؤ القیس کا تعلق دمشق کے ایک علاقے سے تھا جس کا ذکر اس نے اپنے اشعار میں بڑے خوبصورت انداز سے کیا ہے۔ 3
امرؤ القیس کندی کی پیدائش تقریباًپانچ سو چالیس(540) عیسوی میں ہوئی تھی اور یہ عرب کے مشہور قبیلہ کندہ کا فرد تھا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف تحریر کرتےہیں:
امرؤالقیس من قبيلة كندة، ومن بيت السيادة فيھا، وھي قبيلة يمنية كانت تنزل في غربي حضر موت، وهاجرت منھا جماعة كبيرة الى الشمال مع ھجرات اليمنيين المعروفة، واستقرت جنوبى وادى الرمة الذى يمتد من شمالى المدينة الى العراق.4
امرؤالقیس کندہ قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بھی سرداری والے گھر سے جو یمنی قبیلہ ہے۔یہ قبیلہ حضرموت کے مغربی حصہ میں وارد ہوا تھا اور اس سے ایک بڑی جماعت نے معروف یمنیوں کے ساتھ شمال کی طرف ہجرت کی تھی۔اس قبیلہ نےاس وادی رمہ کے جنوبی حصہ میں مستقل سکونت اختیار کی جو مدینہ کے شمالی جانب سے عراق تک پھیلا ہوا ہے۔
لیکن اس سردار قبیلہ سے تعلق رکھنے اور اس کا شہزادہ ہونےکے باوجود اس نے اپنی زندگی بے راہ روی میں ہی گزارکر تباہ و برباد کردی تھی۔
امرؤ القیس کے مختلف سوانح نگاروں نے اس کے مختلف نام و القاب بیان کیےہیں اور اسی طرح اس کے نام کے پڑھے جانے کے مختلف طریقہ بھی واضح کیےہیں۔اس کے نام و القاب اور کنیتوں کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمن مصطاوی دیوان ِامرؤ القیس کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:
اسمه حُنْدُج وقيل: عَدىْ وقيل: مُلَيْكَة. وعُرف بثلاث كُنى ھى: ابو وھب، وابو زيد، وابو الحارث. 5
اس کا نام حُنْدُج ہے جبکہ عدی بھی کہا گیاہے اور ملیکہ بھی بیان کیاگیا ہے۔ ۔۔ یہ تین کنیتوں سے بھی پہچاناجاتاہے جو ابو وہب، ابو زید اور ابو الحارث ہیں۔
مذکورہ کنیتوں کواسی طرح ابن عساکر نے بھی بیان کیا ہے6 اور حندج کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:
والحندج يضم الحاء المهلة والدال وسكون النون وآخر ه جيم وھو فى اللغة الرملة الطيبة وقيل كثيب من الرمل أصغر من النقا.7
حُندُج بغیر نقطہ والی حاء اور دال کے پیش، نون کے جزم اور آخر میں جیم کے ساتھ ہے۔لغت میں خوشبودار مٹی کو کہاجاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حندج ریت کی وہ ڈھیری ہوتی ہے جو ریتلے ٹیلے سے چھوٹی ہوتی ہے ۔
جبکہ اس کا لقب امرؤ القیس ہے8 اوراس لقب کو پڑھنے کے بھی کئی طرق منقول ہیں جن کی وضاحت ابن الانباری اپنی کتاب میں یوں تحریر کرتےہیں:
وسمعت ابا العباس احمد بن يحى يقول: امرؤ القيس بمنزلة عبد اللّٰه وعبدالرحمن وفى اعرابه أربعة أوجه، يقال: قال امرؤ القيس بضم الراء والھمزة، وقال امرأ القيس بفتح الراء وضم الھمزة، وقال مُرءُ القيس بضم الميم والھمزة بغير ألف، ويقال مَرءُالقيس يفتح الميم وضم الھمزة .9
میں نے ابو العباس احمد بن یحییٰ کو کہتے ہوئے سنا کہ امرؤ القیس(کا نام) عبد اللہ اور عبد الرحمن (ناموں)کی طرح ہے اور ا سے چا ر طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے۔ امرَؤَالقیس یعنی راء اور ہمزہ کے زبر کے ساتھ، امرَؤُ القیس یعنی راء کے زبر اور ہمزہ کے پیش کے ساتھ، مُرءُ القیس یعنی بغیر الف کے میم اور ہمزہ کے پیش کے ساتھ اور مَرءُ القیس یعنی میم کے زبر اور ہمزہ کے پیش کے ساتھ۔
امرؤالقیس کے لقب سے ملقب ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے صاحب خزانۃ الادب تحریر کرتے ہیں:
وامرؤ القيس لقب له لقب به لجماله وذلك أن الناس قيسو اليه فى زمانه فكان أفضلھم. 10
امرؤالقیس اس کو لقب دیاگیا ہے اور اس لقب سے ملقب ہونے کی وجہ اس کا حسن وجمال تھا اور اس كے زمانہ میں لوگوں کا اس کے حسن و جمال سے اندازہ کیا جاتا تھا اور یہ ان سب سے افضل یعنی حسین تھا۔
اسی حسن وجمال کی وجہ سے یہ عیاشیوں میں مست رہتا تھااور بجائے اس کے کہ یہ حسن وجمال کی وجاہت قائم کرتا اس نے اپنے آپ کو مزید فسق وفجور اور معاشرتی برائیوں میں گرفتار کیے رکھا۔امرؤ القیس کے دیگر القاب بھی ہیں جن کو عبد الرحمن مصطاوی یوں تحریر کرتےہیں:
ولقب بذى القروح وبالملك الضليل، وبامرء القيس، وطغى ھذا اللقلب على اسمه وعرف به.11
یہ تین لقبوں سے ملقب تھا پہلا ذی القروح یعنی زخموں والا، دوسرا الملک الضلیل یعنی بگڑاہوا نواب اور تیسرا امرؤ القیس اور یہ لقب اس کے نام پر غالب ہوگیا اور اسی سے یہ مشہور ہوگیا۔
اس کو بگڑاہوانواب اس لیے کہا جاتا تھا کہ یہ اپنے سردار باپ کا نالائق بیٹا تھا جس کا کام فقط عیاشی تھا اورزخموں والا اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کی موت زہریلے چغہ کو پہننے کی وجہ سے جسم میں ہونے والے زخموں سے ہوئی تھی ۔
امرؤالقیس کے نسب نامہ کو بعض کتب میں قریبی آباؤاجداد تک بیان کیا گیا ہے اور بعض میں مکمل بیان کیا گیا ہےچنانچہ قریبی آباؤاجدادتک نسب نامہ کو بیان کرتے ہوئے صاحب طبقات فحول الشعراءتحریر کرتے ہیں:
امرؤالقيس بن حجر بن الحارث بن عمروبن حجر آكل المرار بن عمرو بن معاوية بن يعرب بن ثور بن مرتع بن معاوية ابن كنده.12
امرؤ القیس بن حجر بن الحارث بن عمرو بن حجر آکل المرار بن عمرو بن معاویۃبن یعرب بن ثور بن مرتع بن معاویۃ ابن کندہ۔
ابن عساكر نے بھی اسی نسب کو بیان کیا البتہ عمرو بن معاویہ کےبعد حارث ابن یعرب کا اضافہ بھی ذکر کیا ہے13جبکہ صاحب خزانۃ الادب نے اس نسب کے مزید افراد کے نام بھی نقل کیے ہیں ۔انہوں نے ابن کندہ اور اس سے آگے نسب نامہ کی وضاحت کرتے ہوئے یوں تحریر کیاہے:
ثورالأكبر وھو كندة بن عفير بن عدى بن الحارث بن مرة ابن أدد الشاعر المقدم.14
ثور اکبر اور وہی کندہ بن عفیر بن عدی بن الحارث بن مرہ ہیں اور مرہ ابن ادد قدیم شاعر ہیں۔
اور اس سے آگے کے نسب کو بیان کرتے ہوئے ابن الانباری اس طرح تحریر کرتےہیں:
ابن زيد بن كھلان بن سبأبن يعرب بن قطحان بن عابر بن شالخ بن أرفخشذ بن سام بنى نوح النبى عليه السلام.15
ابن زید بن کہلان بن سبا بن یعرب بن قحطان بن عابر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نبی نوح ۔
اس مکمل نسب نامہ سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ امرؤ القیس اہل عرب کا انتہائی بلند شاعر تھا جس وجہ سے اس کے نسب نامہ کو یوں یاد رکھا گیا وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب کےہاں نسب نامہ کی بڑی اہمیت ہوتی تھی جو قبیلہ اور فرد کےشرف و عظمت کی علامت کے طورپر جانا جاتا تھا۔
اس شاعر کی زندگی کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں سے پہلا اس کی عبث جوانی ہے اور دوسرا مرحلہ سرداری کے حصول کی ناکام کوشش کاہے۔ان دونوں مرحلوں کے درمیان اس کے والد کا سانحۂ قتل ہے۔حندج نجد کے اس موروثی خاندان میں پروان چڑھا جس سے قبائل عرب ربیعہ ومضر کے قریبی مراسم تھے۔یہ اپنے باپ کے خاندان اور اپنے ماموں بنی تغلب کے سردار مہلہل کے خاندان میں خو دکی شان وشوکت اور اپنے والد کی سرداری کی وجہ سے متکبرانہ انداز میں آتا جاتا رہتا تھا۔اس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمن مصطاوی تحریر کرتے ہیں:
نشأ حندج فى نجد من أسرة توارثت الملك، ودانت لھا قبائل العرب من ربيعة ومضر، ومضى يتردد بين أسرة أبيه وأسرة خاله المھَلھِل من تغلب، مزھواً بنفسه وبملك أبيه، غارقاً فى لذائذ الدنيا إن مال إلى اللھو وجد بين الإماء والقيان طِلبته، وإن طلب الطرد والقنص سارفى ركابه فتيان مجان، يبغون مايبغى من نزو على الجياد، ومطاردة للفرائس وعندما تنادى امرؤ القيس فى ضلاله طرده أبوه، فلم يزدالطرد مجانته إلا اطراداً، وإلحاحاًعلى الغىّ، إذراح ينفق عمره فى الشهوات، ويعايش من شذّ وتصعلك، ومن غوى وفسق وبينما هو غارق فى لذائذه، وقعت واقعة نقلته من المجون إلى الشجون، ومن الخمر والقمر، الى الغمّ والهم .16
اگر یہ لہو ولعب کی طرف متوجہ ہوتا تو خدام اور کنیزوں کے درمیان رہ کر اپنی مراد پالیتا اور اگر شکاری مہم و شکار کی طلب کرتا تو آوارہ نوجوان اس کے ہمنوا ہوجاتے اور باہم مل کر کھیل کود کرتےاور شکار کھیلتے ۔پھر جب امرؤ القیس کی بےراہ روی زبان زد عام ہوگئی تو اس کے والد نے اسے اپنے ملک سے نکال دیا جس سے اس کی بے راہ روی مزید بڑھ گئی اور یہ مزید برے کاموں میں الجھتا چلا گیا چونکہ اس نے مکمل زندگی ہی خواہشات کی اتباع میں گزاری تھی تو یہ ان لوگوں کے ساتھ باہم مل جل کررہا جو قبائل سے الگ تھلگ ہوکر ڈاکہ زنی کیا کرتے اور گمراہی وفسق وفجور میں پڑے رہتے۔اسی اثناء میں کہ وہ اپنی لذتوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک ایسا حادثہ وقوع پذیر ہو ا جس نے اس شاعر کو کھیل کو دسے دردکی طرف اور شراب خوری و جوئے سے غم واندوہ کی طرف دھکیل دیا۔
یہ واقعہ اس کے والد کے قتل کیے جانے کا ہے اوراس واقعہ نے امرؤ القیس کی زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کردیا تھا ۔ اس واقعہ نے اس کی شاعری پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور یہاں سے گویا اس کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے ۔
امرؤالقیس کے والد کا نام حجر تھا اور یہ قبیلہ غطفان و قبیلہ اسد کا سردار تھا اور اس کی ماں فاطمہ بنت ربیہ تھی جو مہلہل و کلیب کی بہن تھی ۔ 17اس کے دادا حارث بن عمرو کو قباذ فارس کے بادشاہ نے اہل عرب کا سردار بنایا تھا جبکہ یمنی کہتےہیں کہ تبع اخیرنے بنایا تھا کیونکہ حارث اس کی بہن کا بیٹا تھا۔پھر جب قباذ فوت ہوگیا اور نوشروان اس کا جانشین بنا تو اس نے حیرہ کا سردار منذر بن سماء کو بنادیا جو امرؤالقیس کی پھوپھی کا شو ہر تھا۔پھر اس کےبعد بنو اسد نے اپنا سردار حجر بن عمرو الکندی یعنی امرؤ القیس کے والد کو بنایا لیکن اس نے سردار بننے کے بعد ان کے ساتھ برا سلوک کرنا شروع کردیا ۔ امرؤالقیس کےوالد اور اس کی سرداری کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں تحریر کرتےہیں:
وملّك حجر على بنى أسد، فكان يأخذ منھم شيئا معلوما، فامتنعوا منه، فسار إليھم فأخذ سرواتھم فقتلھم بالعصىّ، فسمّوا «عبيد العصا» وأسر منھم طائفة، فيھم عبيد بن الأبرص، فقام بين يدى الملك فقال:
عين ما فأبكى بني أسد هم أهل النّدامة
أنت المليك عليهم وهم العبيد إلى القيامة
رجمھم الملك وعفا عنھموردّهم إلى بلادهم.18
حجر بنو اسد کا سردار بن گیا اور وہ ان سے معلوم اشیاء(یعنی لگان)وصول کرنے لگا تو انہوں نے دینےسے انکار کردیا جس کی وجہ سے حجر نے ان کی طرف پیش قدمی کی، ان کےمال واسباب کو ضبط کرلیا، ان کی اس نافرمانی کے سبب انہیں قتل کردیا اور وہ" نافرمان بندے" کہلائے۔ان میں سے ایک گروہ کو قیدی بنالیا گیا جس میں عبید بن ابرص بھی تھا اور اس نے سردار حجر کے سامنے کھڑے ہوکر چند اشعار کہے:
جو بھی آنکھ ہے وہ بنی اسد پہ روئے جو شرمسار ہیں
آپ ان کے سردار ہیں اور وہ قیامت تک غلام ہیں
اس کو سن کر بادشاہ نے ان پر رحم کیا اور انہیں معاف کر کے ان کے شہروں میں واپس بھیج دیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ امرؤالقیس کا والد انتہائی جابر تھا اور اس کی سرداری سے لوگ مانوس نہیں تھے بلکہ ناراض تھے البتہ چونکہ یہ سرداران ِعرب اپنی مدح کو پسند کرتے تھے تو بعض اوقات ان کی مدح کرنا لوگوں کے لیے ان کی جان بخشی کا سبب بن جاتی تھی اور یوں وہ اپنی جان ومال اور دوست و احباب سمیت بچ جاتے تھے۔
امرؤ القیس کا والد بنو اسد کا سردار تھا جس وجہ سے یہ شہزادہ تھا اور اس کی زندگی نازو نعم میں گزری اور یہ عیاش رہا۔اس کا والد گو کہ اس کی عیاشیوں سے نالاں رہتا تھا اور ا س سے ناراض بھی لیکن کبھی اس کو گھر سے بے دخل نہیں کیا تھا البتہ ایک موقع پر اس نے خاندان کی عزت کو داؤپرلگادیاتھا۔اس لیے اس کے والد نے اسے گھر سے بے دخل کردیا تھا۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب فحول الشعراء ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے تحریر کرتےہیں:
وكان امرؤ القيس طرده أبوه لمّا صنع فى الشعر بفاطمة ما صنع، وكان لھا عاشقا، فطلبھازمانه فلم يصل اليھا، وكان يطلب منھا غرّة،حتى كان منھا يوم الغديربدارةجلجل ماكان، فقال: فقا نبك منّ ذكرى حبيب و منزل...19 فلمّا بلغ ذلك حجرا أباه دعا مولى له يقال له ربيعة فقال له: اقتل امرأ القيس وأتنى بعينيه فذبح جوذرا فاتاه بعينيه، فندم حجر على ذلك، فقال: أبيت اللّعن! إنى لم أقتله،قال: فأتنى به، فانطلق فإذا هو قد قال شعرا فى رأس جبل، وهو قوله:
فلا تتركنّى يا ربيع لهذه
وكنت أرانى قبلها بك واثقا
فردّه إلى أبيه، فنهاه عن قول الشعر، ثم إنّه قال: ألا انعم صباحا أيّھا الطّلل البالى فبلغ ذلك أباه فطرده .20
امرؤالقیس کے والد نے اس وقت اسے گھر سے بے دخل کردیا تھا جب اس نے اپنے اشعار میں فاطمہ کے ساتھ جس کا وہ عاشق تھا وہ کیا جو کیا۔عرصہ درازتک اس نے فاطمہ کو حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن حاصل نہیں کرسکا اور وہ پھر بھی اسے بہلا پھسلا کر حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا یہاں تک کہ غدیر کے دن دار جلجل میں ان دونوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا سو آیا۔جس وجہ سے اس نے یہ غزل کہی(جس کاپہلاشعریہ ہے) کہ (اے دونوں دوستو) ذرا ٹھہرو تاکہ ہم محبوبہ اور (اس کے اس) گھر کی یاد تازہ کر کے رو لیں۔۔۔ پھر جب یہ غزل اس کے والد حجر تک پہنچی تو اس نے اپنے ربیعہ نامی غلام کو بلایا اور اس سے کہا کہ امرؤالقیس کو قتل کرکے اس کی دونوں آنکھیں میرے پاس لاؤ تو ربیعہ نے جنگلی گائے کو ذبح کیا اور اس کی دونوں آنکھیں حجر کے پاس لے آیا جس پر وہ پشیمان ہوا، ربیعہ نے کہا کہ تو سلامت رہے میں نے اسے قتل نہیں کیا تو حجر نے کہا کہ پھر اسے میرے پاس لے آؤ ۔ربیعہ اس کی تلاش میں نکلا تو وہ امرؤالقیس تک پہنچ گیا اور یہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی چند اشعار کہہ چکا تھا جس کا مطلع یہ شعر ہے: اےربیعہ مجھےاس(محبوبہ )کےلیے ہرگز نہ چھوڑنااور میں اس سےپہلے بھی خود کو تجھ پر بھروسہ کرتا ہوا پاتا ہوں ۔۔۔پھر ربیعہ نے امرؤالقیس کو اس کے والد کے پاس پہنچادیا تواس کے والد نے اسے شعر گوئی سے منع کیا لیکن پھر اس نے یہ غزلیہ نظم کہہ دی(جس کا مطلع یہ ہے): اے گھر کی یادگاروں تمہاری صبح سلامتی والی ہو۔۔۔جب یہ غزل اس کے والد تک پہنچی تو اس نے اسے بے دخل کردیا۔
امرؤ القیس نے اپنے والد کے منع کرنے کے با وجو داس غزل میں اپنی ایک اور محبوبہ سلمی کے حوالہ سے عشقیہ اشعار اور وصال کے چند لمحات کو بیان کیا ہے جس وجہ سے اس کے والد نے برہم ہوکر اس کو گھر سے بے دخل کردیا تھا۔21
والد کے گھر سے نکال دینے کے بعد اس کی عیاشیوں میں مزید اضافہ ہی ہوا اور یہ دوستوں کے ساتھ مزید آوارہ گردی میں لگا رہا یہاں تک کہ اس کو ایک پڑاؤ پر اس کے والد کے قتل کی خبر ملی جس سے اس کی زندگی میں طوفان برپا ہوگیا اور اس نے لہو ولعب کو ترک کردیا۔تاریخ کے مطابق جب امرؤالقیس کے والد کو بنواسد نے اپنا سردار بنایاتواس نے بنو اسد پر ان کی زندگی اجیرن کردی اور وہ برداشت کرتے کرتے تھک گئے تو انہوں نے اسے اچانک قتل کرنے کی ٹھانی جیساکہ منقول ہے کہ جب اس نے اپنی مدح سے خوش ہوکر بنو اسد کے قیدیوں اور دیگر افراد کی جان بخشی کی اور وہ تھوڑا ہی سفر کرکے آگے بڑھے تو ان کےکاہن نے کہانت کی جس کو بیان کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتےہیں:
حتّى إذا كانوا على مسيرة يوم من تھامة، تكھنّ كاھنھم عوف بن ربيعة الأسدىّ، فقال: يا عباد قالوا: لبّيك ربّنا! فقال: والغلّاب غير المغلّب، فى الإبل كأنھا الرّبرب، لايقلق رأسه الصّخب، ھذا دمه يثعب، وھو غدا أول من يسلب. قالوا: من ھو ربّنا؟ قال: لولا تجيش نفس جايشه أنباتكم أنّه حجر ضاحيه فركبت بنو أسد كلّ صعب وذلول، فما أشرق لھم الضّحى حتّى انتھوا إلى حجر، فوجدوه نائما فذبحوه، وشدّوا على هجائنه فاستاقوها.22
یہاں تک کہ جب وہ تہامہ سے ایک دن کی مسافت تک پہنچے تو ان کے کاہن عوف بن ربیعہ اسدی نے کہانت کرتے ہوئے کہا:اے بندو!انہوں نے کہا کہ ہمارے آقا ہم حاضر ہیں۔تو اس نے کہا کہ غالب آنے والا مغلوب نہیں ہوتا، اونٹوں میں جیسے جنگلی گائیوں کا ریوڑ، چیخ وپکار اس کے سر کو نہیں پھاڑتی، یہ اس کا خون ہے جوپھوٹ رہا ہے اور وہ کل سب سے پہلے لوٹا جائےگا۔انہوں نے کہا کہ وہ کون ہے؟ ا ے ہمارے آقا!تو اس نے کہا کہ اگر نفس غم کے مارے ابال کی وجہ سے نہ ابلے تو میں نے تم پر بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ نرا پتھرہے۔یہ سن کر بنو اسد کا ہر کس وناکس روانہ ہوگیا یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے سردار حجر کے پاس پہنچ گئے۔انہوں نے اس کو سوتے ہوئے پایا توانہوں نے اسے قتل کردیا اور اس کے جانوروں سے باندھ کر اسے ہانک دیا۔
جبکہ ڈاكٹر شوقی ضیف نے صاحب الآغانی کے حوالہ سے امرؤالقیس کے والد کے قتل کی چار مختلف روایات کا تذکرہ کیا ہے اور سب کا مدعا ایک ہی ہے البتہ قتل کے وجوہات میں اختلاف ہے۔ان میں سے ایک کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
أن حجرا لما استجار عوير بن شجنة لبنيه وأهله تحول عن بنى أسد فأقام فى عشيرته كندة مدة، وجمع لبنى أسد منهم جمعا عظيما، وأقبل مدلاّ بمن معه من الجنود، فتآمرت بنو أسد بينها، وقالوا: واللّٰه لئن قهركم هذا ليحكمن عليكم حكم الصبى! وما خير عيش يكون بعد قهر وأنتم بحمد اللّٰه أشدّ العرب فموتوا كراما. فساروا إلى حجر وقد ارتحل نحوهم فلقوه، فاقتتلوا قتالا عنيفا، وكان صاحب أمرهم علباء بن الحارث فحمل على حجر فطعنه، فقتله، وانهزمت كندة وفيهم يومئذ امرؤ القيس بن حجر، فهرب على فرس له شقراء، وأعجزهم. وقد قتلوا من أهل بيته طائفة وأسروا أخرى وملأوا أيديهم من الغنائم، وأخذوا جوارى حجر ونساءه وكل ما كان معه من أموال، واقتسموا ذلك جميعه.23
جب حجر نے عویر بن شجنہ سے اپنے بیٹوں اور اپنے گھر والوں کے لیے پناہ طلب کی تو اس نے بنو اسد سے منہ پھیرلیا اور عویر کے کندہ خاندان میں عرصہ دراز تک رہا، ان سے بنو اسد کے لیے ایک عظیم لشکر جمع کیااور اپنے ساتھ موجود لشکر پر بھروسہ کر تےاورفخر کرتےہوئے واپس متوجہ ہوا۔بنو اسد نے اپنے درمیان اس حوالہ سے لائحہ عمل تیار کیا اور کہا:اللہ کی قسم اگر اس نے تم پر غلبہ پالیا تو یہ تم پر ایسے حکم چلائےگا جیسے ایک بچہ پر چلایا جاتا ہے اور غلبہ کے بعد تو زندگی بھی خوشحال نہیں ہوتی جبکہ تم بحمد اللہ اہل عرب میں انتہائی طاقتور ہو لہذا عزت کی موت مرو۔بنو اسد یہ سن کر حجر کی طرف چل دیے اور اس نے بھی ان کی طرف کوچ کیا تو کسی ایک مقام پر ان کی آپس میں ملاقات ہوگئی اور انہوں نے باہم سخت قتال کیا۔ اس وقت بنو اسد کا حاکم علباء بن الحارث تھا جس نے حجر پر حملہ کیا اور اس کو نیزہ مارکر قتل کردیا۔کندہ کو شکست ہوگئی اور اس دن ان میں امرؤ القیس بن حجر بھی تھا جو اپنے سرخ وزرد رنگ کےگھوڑے پر بیٹھ کر بھا گ گیا اور انہیں اپنے قتل سے عاجز کرگیا۔بنو اسد نے اس کے گھر کے بعض افراد کو قتل کیا، بعض کو قیدی بنالیا اور اپنے ہاتھوں کو مال غنیمت سے بھرلیا، حجر کی کنیزوں اور بیویوں کو اٹھالیا اور جو کچھ مال ومتاع اس کے پاس تھا سب اٹھاکر آپس میں تقسیم کرلیا۔
اسی حوالہ سےوضاحت کرتےہوئے ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب میں یوں تحریر کرتے ہیں:
ثم ملّكت بنو أسد حجرا عليھا، فساءت سيرته، فجمّعت له بنو أسد، واستعان حجر ببنى حنظلة بن مالك بن زيد مناة بن تميم... فبعثت بنو أسد إلى بنى حنظلة تستكفّھا وتسألھا أن تخلى بينھا وبين كندة، فاعتزلت بنو حنظلة، والتقت كندة وأسد، فانھزمت كندة وقتل حجر، وغنمت بنو أسد أموالھم... وكان قاتل حجر علباء بن الحرث الأسدىّ، وأفلت امرؤ القيس يومئذ، وحلف لا يغسل رأسه ولا يشرب خمرا حتّى يدرك ثأره ببنى أسد.24
پھر بنو اسد نے حجر کو اپناسردار بنالیا اور اس کارویہ برا ہوگیا تو بنو اسد نے اس سے لڑنے کے لیے لشکر جمع کیا۔حجر نے بنو حنظلہ بن مالک بن زید مناۃ بن تمیم سے مدد مانگی۔۔۔تو بنواسد نے بنو حنظلہ کی طرف اس مدد سے رک جانے کےلیے قاصد بھیجا اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ بنو اسد اور کندہ کے درمیان راستہ خالی کردے ۔بنو حنظلہ یہ سن کر اس معاملہ سے الگ تھلگ ہوگئے اور اسد و کندہ آپس میں قتال کرنا شروع ہوگئے۔کندہ کو شکست ہوگئ اور انہوں نے حجر کو قتل کردیا ۔بنو اسدنے ان کے مال ومنال کو لوٹ لیا۔۔۔حجر کا قاتل علباء بن الحارث الاسدی تھا اور اس دن امرؤالقیس شکست خوردہ ہوگیا اور اس نے قسم اٹھائی کہ وہ اپنا سر اس وقت تک نہیں مونڈھے گا اور نہ ہی اس وقت تک شراب پیےگا جب تک بنو اسد سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ نہیں لے لےگا۔
قتل کا واقعہ جیسا بھی ہوا ہو البتہ یہ بات تو طے ہے کہ یہی وہ واقعہ ہے جس نے امرؤ القیس کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا اور اس نے تمام عیاشیاں چھوڑ کر اپنی بقیہ زندگی اپنے والد کے قصاص کے خاطر گزاردی جس کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمن مصطاوی تحریر کرتے ہیں:
فعندما وصله خبر أبيه قال: (ضيّعني صغيراً، وحمّلني دمه كبيراً لا صحو اليوم، ولا سكر غداً اليوم خمرُ وغداً أمر) فآلى ألا يأكل لحماً، ولا يشرب خمراً، ولا يدھن، ولا يصيب امرأة، حتى يدرك ثأره.25
پھر جب اس کےپاس اس کے والد کے قتل کی خبر پہنچی تو اس نے یہ اشعار کہے"اس(یعنی والد)نے مجھے بچپن میں ضائع کردیا اور بڑا ہونے پر ا س نے اپنے خون کا بوجھ مجھ پر ڈالدیا۔آج کوئی ہوش نہیں ہوگا اور کل کوئی مدہوشی نہیں ہوگی، آج کا دن نشے والاہے اور کل کادن بدلہ کا"پھر اس نے قسم اٹھائی کہ وہ نہ گوشت کھائےگا اور نہ ہی شراب پیے گا، نہ سر پر تیل لگائےگا اور نہ ہی کسی عورت سے ملاقات کرےگا یہاں تک کہ اپنے والد کے قاتل کو پکڑ لے۔
اس ناگہانی خبر نے امرؤ القیس کو انتہائی رنجیدہ اور کبیدہ خاطر کردیا تھا اور چونکہ اس کا باپ اس سے ناراض تھا اور اس سےنالاں ہونے کی وجہ سے اس کو گھر سے نکال چکا تھا اسی وجہ سے اس کے قتل کی خبر نے اس کو غم واندوہ میں مبتلا کردیا تھا اور اس کی زندگی کو شاعری و خوش رنگینی سے نکال کر قصاص اور حرب وجنگ کی طرف پلٹا دیا تھا۔
امرؤالقیس نے اولاً اہل عرب کی عاد ت کے مطابق اپنے باپ کا بدلہ لینے کے حوالہ سے فال نکالی تو وہ ارادہ کے خلاف نکلی جس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عساکر تحریر کرتے ہیں:
عن ابن الكلبي قال لما أقبل امرؤ القيس بن حجر يريد بني أسد ثائرا بأبيه وكان مرثد بن علس بن ذي جدن ملك جهينة قد أمده بخمسمائة رجل من حمير رماة فسار حتى مر بتبالة وبھاذو الخلصة وكانت العرب كلھا تعظمه فدخل امرؤ القيس عليه وعنده قداح ثلاثة الآمر والناھي والمتربص يستقسم في قتال بني أسد فخرج الناھي فأعاد فخرج الناھي فكسر الأقداح وضرب به وجه ذى الخلصة وقال عضضت بأير أبيك لو كان أبوك المقتول لما عوقتني26 ثم أغار على بني أسد قتلهم قتلا ذريعا فلم يستقم عند ذي الخلصة.27
ابن کلبی سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ جب امرؤالقیس بن حجر اپنے باپ کے انتقام کے لیے بنو اسد کو قتل کرنے کا ارادہ کرکے اس جانب اس حال میں متوجہ ہوا کہ جہینہ کے سردار مرثد بن علس بن ذی جدن نے قبیلہ حمیر کے پانچ سو(500)تیر انداز دے کر ا س کی مدد کی تھی۔یہ انہیں لے کر چلا یہاں تک کہ(یمن کے ایک مقام)تبالہ کے پاس سے گزرا جہاں ذو الخلصہ نامی بت تھا جس کی تمام اہل عرب تعظیم کرتے تھے۔امرؤالقیس اس کے پاس گیا تو وہاں (فال نکالنے والے)تین پیالے رکھے تھے(جن میں لکھا تھا)"حکم ہے"، "منع ہے" اور" انتظا ر ہے"۔امرؤالقیس نے بنو اسد کے قتال کے بارے میں ان سے فال نکالا تو " منع ہے" والا فال نکلا، اس نے دوبارہ فال نکالا تب بھی یہی فال نکلا تو اس نے غصہ میں (فال والے)پیالوں کو توڑ دیا اور اور اس ذو الخلصہ کے چہرے پریہ کہتے ہوئے مارا کہ تو اپنے باپ کا ذکر چبائے، اگر تیرا باپ قتل ہوتا توتو مجھے تاخیر نہ کرواتا۔پھر اس نے بنو اسد پر حملہ کردیا اور ان کا بے دریغ قتل کیا۔ذوالخلصہ کےپا س اس واقعہ کے بعد پھر کبھی فال نہیں نکالا گیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو نافذ فرمادیا۔
اس واقعہ سے پہلے امرؤالقیس نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بکر بن وائل سے بھی مدد طلب کی تھی اور اس نے امرؤالقیس کی ایک لشکر دینے کی صورت میں مدد بھی کی تھی جس کے بارے میں تذکرہ کرتےہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتےہیں:
استجاش بكر بن وائل فسار إليھم وقد لجؤوا إلى كنانة، فأوقع بھم .28
امرؤالقیس نے بکر بن وائل سے (اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے)ایک لشکر طلب کیا(جسے اس نے پورا کردیا اور اس لشکر کے ساتھ)یہ بنو اسد کی طرف چل پڑا جبکہ انہوں نے تو کنانیوں کی پناہ لے لی تھی، پس یہ ان سب پر ٹوٹ پڑا۔
بنو اسد نے اس کو پیشکش بھی کی کہ کسی طرح یہ بدلہ سے ٹل جائے29لیکن یہ نہ مانا کیونکہ اس نے بدلہ لینے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا ۔اس حوالہ سے وضاحت کرتےہوئےڈاکٹر شوقی ضیف تحریر کرتے ہیں:
ويظھر أن بنى أسد خافوا العاقبة، فأرسلوا إليه فى رواية للخليل بن أحمدوفدا للمفاوضة، وعرض عليه الوفد إحدى ثلاث: القصاص أو الفداء أو النّظرة (الإمھال) حتى تضع الحوامل، فتعقد الرايات وتكون الحرب، فقال: لقد علمت العرب أن لاكف لحجر فى دم، وإنى لن أعتاض به جملا أو ناقة، فأكتسب بذلك سبّة الأبد، وفتّ العضد، وأما النظرة فقد أوجبتھا الأجنّة فى بطون أمھاتھا، ولن أكون لعطبھا سببا، وستعرفون طلائع كندة من بعد ذلك تحمل القلوب حنقا وفوق الأسنة علقا (دما) ورويدا ينكشف لكم دجاھا عن فرسان كندة وكتائب حمير، فنھضوا عنه وقد عرفوا أنه طالبھم. 30
اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنو اسد کو انجام کا خوف تھا تو بمطابق خلیل بن احمد کی روایت کے انہوں نے امرؤالقیس کی طرف مذاکرات کے لیے وفد بھیجا جس نے اس کے سامنے تین چیزیں رکھیں۔پہلی قصاص، دوسرافدیہ اورتیسرا تنی مہلت کہ حاملہ مائیں وضع حمل کرلیں پھر عَلَموں کو باندھا جائے اور جنگ کی جائے۔اس نے یہ سن کر کہا کہ اہل عرب جانتےہیں کہ حجر کےخون میں کوئی برابر نہیں ہوسکتا اور میں اس کے بدلے کسی اونٹ یا اونٹنی کو معاوضہ میں ہرگز نہیں لوں گا کہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی مول لوں اور اپنا ہاتھ خود توڑلوں۔رہی مہلت توجنین نے اپنی ماؤں کے شکموں میں اسے واجب کردیاہے اور میں ہرگز انہیں ضائع کرنے کاسبب نہیں بنوں گا جبکہ ا س کے بعد عنقریب تم لوگ کندہ قبیلہ کے ہر اول دستہ کو پہچان جاؤگے جس سے دل تکلیف اٹھائیں گے اور نیزوں کی نوک پر خون کے لوتھڑے بن جائیں گے نیز آہستہ آہستہ کندہ کے گھڑ سواروں اور حمیری لشکروں کے اندھیرے چھٹیں گے۔پھر یہ لوگ اس کے پاس سے یہ جان کر اٹھ گئے کہ یہ ان سےبدلہ لے کر رہے گا۔
یہی وجہ تھی کہ حملہ کے لیے کوچ کرنے کے بعد راستہ میں اپنے ارادہ کے خلاف نکلے ہوئے فال سے بھی اس کا عزم تبدیل نہیں ہوا اورجب بنو اسد تک اپنے وفد کے ذریعہ اس کے عزم ِمصمم کی خبر پہنچی تو وہ اپنے گھروں کو چھوڑکر کسی اور قبیلہ میں منتقل ہوگئے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتے ہیں:
وبلغ الخبر بنى أسد فانتقلوا عن منازلھم، فنزلوا علي قوم من بنى كنانة بن خزيمة، والكنانيّون لا يعلمون بمسير امرءالقيس إليھم، فطرقھم فى جند عظيم، فأغار على الكنانييّن وقتل منھم، وھو يظنّ أنھم بنو أسد، ثم تبيّن أنھم ليسوا ھم... ثم تبع بنى أسد فأدركھم وقتل فيھم قتلا ذريعا.31
بنو اسد تک جب یہ خبر پہنچی تو وہ اپنے گھروں سے منتقل ہوگئے اور بنو کنانہ بن خزیمہ کے پاس چلے گئے جبکہ کنانی بنواسد کی طرف امرؤالقیس کے حملہ کے لیے آنے کےبارے میں نہیں جانتے تھے تو اس نے ان کی بڑے لشکر کے ساتھ اینٹ سے اینٹ بجادی، کنانیوں پر بھی حملہ کیا اور ان میں سے بعض افراد کو بنو اسد سمجھتے ہوئے قتل کردیا پھر کچھ دیر بعد اس پر ظاہر ہوا کہ یہ بنو اسد نہیں ہیں۔۔۔پھر اس نے بنو اسد کا پیچھا کیا اور ان تک پہنچتے ہی انہیں بے دریغ قتل کیا۔
لیکن بنو اسد کے بعض افراد پھر بھی بچ کر بھاگ نکلے جس کی وجہ سے امرؤالقیس کو اپنی امدادی مہم میں تحریک پیدا کرنی پڑگئی ۔اس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمن مصطاوی تحریر کرتے ہیں:
فلبس امرؤ القيس لامة الحرب، وحاولت قبيلة أسد أن تترضاه، فلم يرضَ، فقاتلهم حتى كثرت الجراح والقتلى فيهم، وحجز الليل بينهم، وهربت بنو أسد.لم تشف هذه المقتلة غلّ امرئ القيس، واستنصر بقَيْل يُدعى مرثد الخير بن ي جَدن الحِمْيريْ فنصره وأمّده بخمسمائة رجل من حِمير، ولكن هذا المدد لم يحقق النصر لامرئ القيس، فاضطر امرؤ القيس إلى التجول من أمير إلى أمير، وإلى تجرع الغصص غصّة بعد غصّة، فترك ماله وأسلحته لدى السموأل بن عادياء، ويممّ شطر قيصر فأحسن قيصر وفادته، لكنّه لم يعنه على استرداد ملكه.32
پھر امرؤ القیس جنگی ساز وسامان سے لیس ہوا اور اسد قبیلہ نے اس کو راضی کرنے کی سر توڑ کوششیں شروع کردیں لیکن یہ راضی نہ ہوا لہذ اس نے بنو اسد سے والد کے بدلے قتال کیا یہاں تک کہ ان میں کثیر زخمی ہوئے اور اتنے ہی مقتول ہوئے۔پھر ان کے درمیان رات حائل ہوگئی جس کی وجہ سے بنو اسد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن اس خون ریزی نے بھی امرؤ القیس کےسینہ کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کیا۔اس نے قیل جس کو مرثد الخیر بن جدن الحمیری کہا جاتا ہے اس سے مدد چاہی اور اس نے پانچ سو حمیری جوانوں سے اس کی مددکی لیکن اس مدد نے بھی امرؤ القیس کی کامیابی کو یقینی نہیں بنایا۔امرؤ القیس اس وجہ سے ایک سردار سے دوسرے سردار کی مدد کے حصول اور شدید تر غصہ کو پینے پر مجبور ہوا۔اس نے اپنا مال واسلحہ(نامی گرامی شاعر) سموال بن عادیاء کےپاس چھوڑا اور سر زمین قیصر کی طرف چل پڑا، قیصر نے اس کا خیر مقدم کیا لیکن اس کے والد کی سرداری کو واپس حاصل کرنے کے لیے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔
بہر حال یہ مزید مدد طلب کرتے کرتے قیصر تک جاپہنچا اور وہاں سے اس نے اس معاملہ کے مکمل حل اور تکمیل کے لیے اپنی درخواست دائر کردی چنانچہ اس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتے ہیں:
ولم يزل يسير فى العرب يطلب النصر، حتّى خرج إلى قيصر... ونظرت إليه ابنة قيصر فعشقته، فكان يأتيھا وتأتيه، وطبن الطّمّاح بن قيس الأسدىّ لھما، وكان حجر قتل أباه، فوشى به إلى الملك، فخرج امرؤ القيس متسرّعا.33
امرؤالقیس ہمیشہ پورے عرب میں مدد طلب کرنے کےلیے پھرتا رہا یہاں تک کہ قیصر تک جاپہنچا جب اس كوقيصر ر وم کی بیٹی نے دیکھا تو اس کی عاشق ہوگئی اور پھر یہ اس کے پاس جانے لگا اور وہ اس کے پاس آنے لگی ۔ ان دونو ں کے اس معاملہ کو طماح بن قیس الاسدی نے بھانپ لیا جس کے باپ کو امرؤالقیس نے قتل کیا تھا تو اس نے اس معاملہ کی خبر قیصر کو دےدی جس کی وجہ سے امرؤالقیس وہاں سے جلد از جلد نکل کھڑا ہوا۔
امرؤالقیس عیاش اور فاجر شخص تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ فصیح وبلیغ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی حسین وجمیل بھی تھا جس وجہ سے یہ بآسانی اپنی دلی خواہشات پوری کرلیا کرتا تھا اور یہاں پر بھی اس نے ایسا ہی کیا اورواپس انتقام لینے کے لیے بنو اسد کی طرف چل پڑا۔
جب یہ بادشاہ کے پاس سے لاؤلشکر سمیت واپس بنو اسد کی طرف نکلا تو راستہ میں اس کے ساتھ عجیب و غریب حادثہ پیش آیاجس کے حوالہ سے ڈاکٹر شوقی ضیف تفصیل بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
انتهى إلى قيصر فى القسطنطينية، وهو حينئذ جوستنيان فأكرمه ورفع منزلته، وضم إليه جيشا كثيفا. ولما فصل اندس إلى جوستنيان رجل من بنى أسد يقال له الطمّاح فقال له: «إن امرأ القيس غوىّ عاهر، وإنه لما انصرف عنك بالجيش ذكر أنه كان يراسل ابنتك ويواصلها، وهو قائل فى ذلك أشعارا يشهّرها بها فى العرب، فيفضحها ويفضحك. فبعث إليه القيصر حينئذ بحلّة وشى مسمومة منسوجة بالذهب، وقال له: إنى أرسلت إليك بحلتى التى كنت ألبسها تكرمة لك، فإذا وصلت إليك فالبسها باليمن والبركة، واكتب إلىّ بخبرك من منزل منزل. فلما وصلت إليه لبسها واشتد سروره بها، فأسرع فيه السم وسقط جلده، فلذلك سمّى ذا القروح. 34
امرؤالقیس قسطنطنیہ کے بادشاہ کے پاس پہنچا جو اس وقت جوستنیان تھا اور اس بادشاہ نے اس کی تعظیم کی اور اس کی قدر ومنزلت بڑھائی نیز اس کے ساتھ اپنے ایک طاقتور لشکر کو ملادیا۔جب یہ لشکر سمیت جدا ہوگیا تو بنو اسد کے طماح نامی بندہ نے جوستنیان سے اس کے بارے میں بات کی اورکہا:امرؤالقیس ایک عیاش اور بدکردار آدمی ہے اور جب یہ لشکر سمیت تجھ سے واپس لوٹے گا تو لوگوں میں مشہور کردےگا کہ وہ تیری بیٹی سے رابطہ میں تھا اور اس سے چوری چھپے ملاقاتیں کیاکرتا تھا جبکہ وہ تو ایسے معاملوں میں اشعار بھی کہےگا جنہیں اہل عرب میں مشہور کردےگا اور یوں تجھے اور تیری بیٹی کو سرِ بازارذلیل ورسوا کرےگا۔ پھر قیصر نے اس کی طرف ایک جبہ اور سونے سے ڈھکی کوئی زہریلی چیز بھیجی اور ساتھ یہ پیغام بھی بھیج دیا کہ میں تیری عزت افزائی کے لیےتیرے پاس اپنا وہ جبہ بھیج رہا ہوں جسے میں بذاتِ خود پہنتا تھا لہذا جب یہ جبہ تجھ تک پہنچے تو اسے سعادتمندی و نیک نیتی سے زیب تن کرلینا نیز منزل بہ منزل اپنی خبر مجھے دیتے رہنا۔جب یہ پیغام اس تک پہنچا تو اس نے جبہ پہن لیا اور اس سے اس کی خوشی میں مزید اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے اس کے جسم میں زہر جلدی سرایت کرگیا اور اس کی کھال گرگئی۔
اسی حوالہ سے ابن قتیبہ دینوری نے اپنی کتاب میں یوں وضاحت کی ہے:
فبعث قيصر فى طلبه رسولا، فأدركه دون أنقرة بيوم، ومعه حلّة مسمومة، فلبسھا فى يوم صائف، فتناثر لحمه وتفطّر جسده.35
قیصر نے اس کو بلوانے کےلیے ایک قاصد کو بھیجا تو اس نے امرؤالقیس کو انقرہ سے ایک دن کی مسافت پر پالیا۔قاصد کے پاس ایک زہریلہ جبہ تھا جسے امرؤالقیس نے سردی کے موسم میں پہنا تو اس کا گوشت جھڑگیااور جسم پھٹ گیا۔
اور یوں اس کی لہو ولعب کے بعد والی بقیہ زندگی اپنے والد کے قتل کا بدلہ لیتے لیتے گزر گئی لیکن یہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا اور اپنی غلطیوں اور مزاج کی کجیوں کے باعث بنو اسد سے مکمل بدلہ لینے سے پہلےہی بادشاہ کے زہریلے جبہ پہننے کی وجہ سے اس دنیا سے چل دیا۔
امرؤ القیس بن حجر کو اپنے زمانے کا عظیم ترین شاعر گردانا گیا ہے ا ور عربی شاعری میں اس کے مجموعہ کلام (معلّقہ) کو سات معلّقات میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔ اس كے متعلق وضاحت كرتے ہوئے ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں:
امرء القيس بن حجر الكندى صاحب إحدى المعلقات وھى أفخرھن وأشھرھن التى أولھا: قفا نبك من ذكرى حبيب ومنزل. 36
امرؤالقیس بن حجر الکندی سبعہ معلقات کے قصائد میں سے اُس قصیدہ والا ہے جو بقیہ تمام قصائد میں سب سے زیادہ باعث فخر اور سب سے زیادہ مشہور ہے نیز اس کا اول مصرعہ"قفا نبک من ذکر حبیب و منزل" ہے۔
امرؤالقیس کا عربی شاعری میں کوئی ثانی نہیں تھا اور یہ در حقیت عرب جاہلی کا امیر الشعراء تھا کیونکہ اس کے اس منصب کا ذکر خود رسول مکرم ﷺنے فرمایا ہے ۔اس حوالہ سے ابن عساکراپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں:
عن ابن الكلبى أن قوما أتوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فسألوه عن أشعر الناس فقال ائتوا ابن الفريعة يعنى حسان فأتوه فقال ذو القروح يعنى امرأ القيس فرجعوا فأخبروا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال صدق رفيع فى الدنيا خامل فى الآخرة شريف فى الدنيا وضيع فى الآخرة ھو قائد الشعرا إلى النار.37
ابن کلبی سے مروی ہے کہ ایک قوم رسول اللہﷺکے پاس آئی اور آپ ﷺسے لوگوں میں سب سے بڑے شاعر کے بارے میں دریافت کیا توآپ ﷺنے ارشادفرمایاکہ ابن الفریعہ یعنی حسان بن ثابت کے پاس جاؤ تو وہ وہاں چلے گئے۔حضرت حسان نے فرمایا کہ سب سے بڑا شاعرذوالقرح یعنی امرؤالقیس ہے۔لوگ واپس پلٹے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺکو یہ خبر دی تو نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا کہ اس نے سچ ہی کہا کہ وہ دنیا میں بلند مرتبہ اور آخرت میں بے قدرہے، دنیا میں باعزت اور آخرت میں مردود ہے اور وہی شعراء کا جہنم کی طرف لے جانے والا قائد ہے۔
ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے سامنے ایک وفد نےامرؤ القیس کے متعلق آنے والے واقعہ کا ذکر کیا تو دوبارہ نبی کریمﷺنے اس کے متعلق یہی ارشاد فرمایا جس کو نقل کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:
معديكرب عن أبيه عن جده. قال: بينا نحن عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذ أقبل وفد من اليمن فقالوا يا رسول اللّٰه لقد أحيانا اللّٰه ببيتين من شعر امرئ القيس. قال: وكيف ذاك؟ قالوا أقبلنا نريدك حتى إذا كنا ببعض الطريق أخطأنا الطريق فمكثنا ثلاثا لا نقدر على الماء فتفرقنا إلى أصول طلح وسمر ليموت كل رجل منا في ظل شجرة فبينا نحن بآخر رمق إذا راكب يوضع على بعير فلما رآه بعضنا قال والراكب يسمع:
ولما رأت أن الشريعة همها وأن البياض من فرائصها دامي
تيممت العين التي عند ضارج يفيء عليها الظل عرمضها طامي
فقال الراكب: ومن يقول هذا الشعر وقد رأى ما بنا من الجهد؟ قال قلنا امرؤ القيس بن حجر قال والله ما كذب هذا ضارج عندكم فنظرنا فاذا بيننا وبين الماء نحو من خمسين ذراعا فحبونا إليه على الركب فاذا هو كما قال امرؤ القيس عليه العرمض يفيء عليه الظل فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: «ذاك رجل مذكور في الدنيا منسي في الآخرة، شريف في الدنيا خامل في الآخرة، بيده لواء الشعراء يقودهم إلى النار».38
معدیکرب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ ایک دن ہم رسول کریمﷺکی خدمت میں حاضر تھے، اتنے میں یمن کا ایک وفد آیا اور انہوں نےعرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ امرؤ القیس کے دو شعروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کی جان بچائی تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ کیسے؟تو انہوں نے اس کا قصہ عرض کیاکہ ہم آپﷺکی زیارت اور ملاقات کے لیے سفر پر نکلے یہاں تک کہ کسی جگہ پہنچ کر راستہ بھٹک گئے جس وجہ سے ہم وہاں تین راتوں تک ٹھہرے رہے اور اس دوران ہم پانی بھی تلاش نہیں کرسکے تو ہم کیلے کے درخت کی جڑوں اور تاریکی میں بٹ گئے تا کہ ہم میں سے ہر کوئی درخت کے سایہ كے نیچے مرے۔اس اثناء میں کہ ہم مرنے کے انتہائی قریب تھے کہ اونٹ پر سامان لادا ہوا ایک سوار آیا اورا س نے ہم میں سے کسی ایک کو یہ اشعار کہتےہوئے سنا:
جب زیبرے نے پانی کے تالاب کو اپنی منزل جانا
جبکہ اس کے درمیان سینہ کی سفیدی خون آلود تھی
تو اس نے اس چشمہ کا ارادہ کیا جو ضارج کے پاس تھا
بلند گھاس اس پر سایہ کیے ہوئے اسے ڈھانپی ہوئی تھی
یہ سن کر وہ اونٹ سوار بولا: یہ شعر کس کے ہیں؟ اور اس نے ہماری حالت دیکھ لی تھی۔راوی نے کہا کہ ہم نے کہا کہ یہ امرؤالقیس بن حجر کے اشعار ہیں۔سوار نے کہا قسم بخدا اس نے جھوٹ نہیں بولا کیونکہ یہ ضارج نامی جگہ تمہارے قریب ہی ہے۔پھر جب ہم نے غور کیا توہمارے اور پانی کےچشمہ کے درمیان پچاس گز کا فاصلہ تھا تو ہم سواری پر اس کے قریب ہوئے ۔وہ چشمہ امرؤالقیس کے کہے گئے اشعار کے مطابق ہی تھا جس پر بلند گھاس تھی اور اس کا سایہ چشمہ کو ڈھانپا ہوا تھا۔پھر رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: وہ دنیا میں بلند مرتبہ اور آخرت میں بے قدرہے، دنیا میں باعزت اور آخرت میں مردود ہے اور وہی شعراء کا جہنم کی طرف لے جانے والا قائد ہے۔
اس حدیث مبارکہ کی وجہ سے صاحب بلوغ الارب نے امرؤالقیس کے اس منصب کے بارے میں یوں تحریر فرمایا ہے:
هو امير الشعراء بشهادة خير الانبيا وسيد الفصحاصلوات اللّٰه وسلامه وعليه وذلك انه ذكرعنده يوما فقال صلى اللّٰه عليه وسلم ذلك رجل مذكور في الدنيا منسي في الآخرة يجئي يوم القيامة وبيده لواء الشعراء يقودهم الي النا.39
امرؤالقیس افضل الانبیاء اور سید الفصحاءﷺ کی شہادت کے مطابق شعراء کا سردار ہے اور ہوا کچھ یوں کہ ایک دن آپﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا توآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آدمی دنیا میں تو مشہور ہے لیکن آخرت میں گمنام ہے جو قیامت کے دن اس حال میں آئےگا کہ اس کے ہاتھوںمیں شعراء کا جھنڈا ہوگا اور وہ انہیں جہنم کی طرف لے جارہا ہوگا۔
یہ فرمان مبارک امرؤالقیس کی زندگی کے مطالعہ سے واضح ہے کیونکہ یہ مشرک تھا اور فسق وفجور کی زندگی میں بھی یہ بہت منہمک رہتا تھا لیکن دنیا میں اس کا نام وکمال اس کے فن شاعری کی بنا پر ہی ہے۔اس حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمن مصطاوی تحریر کرتے ہیں:
هو من شعراء الطبقة الأولى في العصر الجاهلي، وهم زهير بن أبي سُلمى، والنابغة الذبياني، والأعشى ميمون، وامرؤ القيس. ثم اختلفوا في تقديم أحدهم على طبقته، وفضّل كثيرٌ من الأدباء شاعرنا أكثر من الذين فضّلوا سواه، ومن هؤلاء الأدباء ابن رشيق القيرواني الذي يقول: (ولكلّ واحد منهم طائفة تفضّله وتتعصّب له. وقلما يُجْتَمع على واحد إلا ما روي عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم في امرئ القيس: أنه أشعر الشعراء وقائدهم إلى النار). ويروى أن عليّاً كرّم اللّٰه وجهه فضّله على شعراء الجاهلية (لأنه لم يقلْ لرغبةٍ ولا لرهبة). وأيضاً عمر بن الخطّاب رضي اللّٰه عنه والفرزدق، وابن سلّام الجُحميّ صاحب كتاب طبقات (فحولة الشعراء) كلهم شهدوا له بالسبق.40
امرؤ القیس زمانہ جاہلی کے طبقہ اولی کے شعراء میں سے ہے جو زہیر بن ابی سلمی، نابغہ، ذیبانی، اعشی میمون اور امرؤ القیس پر مشتمل ہے۔پھر اس طبقہ کے افراد کی آپس کی تقدیم میں اختلاف ہے البتہ کثیر عربی ادیبوں نے ہمارے اس شاعر ہی کو افضل قراردیا ہے بنسبت ان لوگوں کے جنہوں نے ا س کے سوا کسی اور کوافضل قرار دیا ہے۔ان ادیبوں میں سے ابن رشیق قیروانی بھی ہیں جنہوں نے امرؤ القیس کے بارے میں کہا ہے کہ اس طبقہ کے ہر فرد کے پاس ایک جماعت موجود ہے جو اسے دوسروں پر افضل مانتی ہے اور اس بارے میں متعصب بھی ہے اور بہت ہی کم ہیں جو کسی ایک پر جمع ہوں مگر وہ روایت جو نبی کریمﷺ سے امرؤ القیس کے بارے میں روایت کی گئ ہے جس میں آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ "امرؤ القیس شعراءمیں سب بڑا شاعر ہے اور جہنم کی طرف جانےمیں ان کا پیشوا ہے" اور حضرت علی المرتضیٰ سے بھی یہ روایت کیا گیا ہے کہ آپ بھی اس کو زمانہ جاہلی کے دیگرشعراء سے افضل قراردیتے ہیں کیونکہ اس نے کسی سے ڈر اور کسی لالچ کےبغیر شعر کہے۔اسی طرح حضرت عمربن الخطاب فرذدق شاعر اور کتاب طبقات فحولۃ الشعراء کے مصنف ابن سلّام جُحمیّ، نے بھی امرؤ القیس ہی کی سبقت کی گواہی دی ہے ۔
امرؤالقیس کی یہ سبقت اس کی شاعری کےانداز، فصاحت وبلاغت اور اسلوب بیان سے بھی واضح ہے کیونکہ اس کی شاعری عام شعراء سے جداگانہ طرزکی حامل ہے جس کی سب سےبڑی دلیل سبع معلقات میں اس کے معلقہ پہلے نمبر پر ہونا ہے۔ 41
امرؤالقیس کی زندگی کی طرح اس کی شاعری کے بھی دو اسلوب اوردو مرحلے کیے جاسکتے ہیں جن میں اول اسلوب میں حسن وجمال، دلفریب مناظر، پیار، وصال اورہجر جیسے دلنشین و پر سوز مضامین ملتے ہیں اور دوسرے میں طرز بیان بالکل بدلاہوا ہے گو كہ اس میں بھی اول الذکر مضامین موجود ہیں لیکن ان پر حزن وملال غالب ہوگیا ہے ۔ذیلی اقتباس سے اس کی نشاندہی یوں ہوتی ہے:
كان شعر امرء القيس في المرحلة الأولى من حياته غزلاً ووصفاً لمجالس الأنس والخمر، والحصان رفيقه في الصيد، ومطيته في ميادين القتال، وفي المرحلة الثانية غلب على شعره المدح والهجاء والفخر بالملك القديم ووصف الناقة وسيلته في قطع الفلوات. ومن حيث العواطف، كان شعره في المرحلة الأولى يتّفجر حيوية وتفاؤلاً وزهواً، واعتزازاً، فلما فُجع بأبيه، غرق في الشكوى والحزن والتذمّر من غدْر الناس والزمان.وفي الأسلوب كانت ألفاظ الشاعر في المرحلة الأولى أقرب إلى العذوبة والوضوح، والانسياب، ولم يفارق أسلوبه هذه الخصائص في المرحلة الثانية لكن ألفاظه شابها المقت، وخالطتها الكآبة.42
امرؤ القیس کی پہلے مرحلہ کی زندگی کے اشعار غزل اور محبت و شراب کی محافل کی تعریف وتوصیف پر مشتمل ہیں اورگھوڑے کی تعریف پر بھی جو اس کے شکار کا ساتھی اور میدان قتال میں اس کی سواری تھاجبکہ زندگی کے دوسرے مرحلہ کی شاعری میں لوگوں کی تعریف و برائی کرنا، قدیم سرداری پر فخر وغرور کرنا اور وسیع بیابانوں کو عبور کرتے ہوئے اونٹنی کےا وصاف بیا ن کرنا غالب ہوگیا تھا۔بحیثیت احساسات اس کے پہلے مرحلہ زندگی کے اشعار زندگی بخش، نیک نیتی، روشن اور اعزاز بخش ہوا کرتے تھے لیکن جب اسے اچانک اپنے والد کے قتل کی خبر ملی تو وہ شکوی وشکایت، غم واندوہ اور زمانہ ولوگوں کے دھوکوں کی مذمت کرنے میں مشغول ہوگیا۔اسلوب کے لحاظ سے پہلے مرحلہ زندگی کے شاعر کے الفاظ مٹھاس، وضاحت اور روانی و سلاست کےقریب تھے اور اپنی زندگی کے دوسرے مرحلہ میں بھی شاعری اسلوب میں یہ خصائص باقی رہے لیکن اب کی بار اس کے الفاظ میں خفتگی اور رونا پیٹنا شامل ہوگیا۔
ان دونوں اسالیب میں اس نے حد درجہ کمال حاصل کیا تھا کیونکہ اس کی فطرت اور تجربہ نے اس کی شاعری کو حقیقت سے قریب تر کردیا تھا۔اپنے اسی پر لطف و پر جوش مزاج کی وجہ سے اس نے اپنی شاعری میں حسین تر تخیلات اور حسن وجمال کو دلکش انداز اور بہترین پیرائے میں دیگر شعراءسےمنفرد انداز سے بیان کیا اور یہ اس میں اتنا آگے نکل گیا تھا کہ فن شاعری میں کئی چیزوں کو نت نئے انداز سے داخل کرنے والا قرارپایا۔اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن قتیبہ دینوری تحریر کرتے ہیں:
وقد سبق امرؤ القيس إلى أشياء ابتدعھا، واستحسنھا العرب، واتّبعته عليھا الشعراء، من استيقافه صحبه فى الديار، ورقّة النسيب، وقرب المأخذ.43
امرؤالقیس کئی ایسی اشیاء کی طرف سبقت لے گیا تھا جو اس نے خود ایجاد کیں جسےاہل عرب نےاچھا سمجھااور دیگر شعراء نے ان چیزوں میں اس کی پیروی کی یعنی اپنے ہمجولیوں کو (محبوباؤں کے)گھروں (کی چوکھٹوں)پہ رکوانا، عورتوں کے متعلق ہلکے شعر کہنا اور اشعار کے مراجع کا قریب سے لینا(شامل ہیں)۔
یہی وہ شاعر ہے جس نے سب سے پہلے عربی شاعری میں محبوبہ کے دیار پر کھڑے ہو کر رونے کی رسم نکالی ا ور اپنے معلقہ میں گھوڑے اور محبوبہ کا سراپا کھینچنے، تاریک اور وحشتناک رات اور اس کی درازی و پانی کھل کر برس جانے کی منظر کشی میں بڑی فنی مہارت اور قدرتِ زبان، قوتِ تخیل اور ندرت بیان دکھائی۔ 44 یہی وجہ ہے کہ عربی ادب میں اس کا معلّقہ اول نمبر پر رکھا جاتا ہے جس کے ابتدائی چند مشہور اشعار درج ذیل ہیں:
قفا نبك من ذكرى حبيب ومنزل بسقط اللوى بين الدخول فحومل
ترى بعر الآرام في عرصاتها وقيعانها وكأنها حب فلفل
كأني غداة البين يوم تحملوا لدى سمرات الحى ناقف حنظل
وقوفًا بها صحبى على مطيهم يقولون لا تهلك أسى وتجمل45
(اے دونوں دوستوں) ذرا ٹھہرو تاکہ ہم محبوبہ اور (اس کے اس) گھر کی یاد تازہ کر کے رو لیں جو ریت کے ٹیلے کے آخر میں مقامات دخول، حومل اورتوضح و مقراۃ کے درمیان واقع ہے اورجس کے نشانات اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اس پر جنوبی و شمالی ہوائیں برابر چلتی ہیں۔۔۔سفید ہرنوں کی مینگنیاں اس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسی پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے۔یومِ فراق کی صبح کو جب کہ وہ (معشوقہ کے ہمراہ) روانہ ہوئے تو گویا میں قبیلہ کے ببول کے درختوں کے اندر حنظل (اندرائن) توڑنے والا تھا۔میں رو رہا تھا اور احباب میرے پاس ان میدانوں میں اپنی سواریوں کو روکے ہوئے کہہ رہے تھے کہ (غمِ فراق سے) ہلاک نہ ہو اور صبرِ جمیل اختیار کر۔
اسی طرح اس کے چند اشعار یہ بھی ہیں:
ألا قبح اللّٰه البراجم كلها وجدع یربوعا وعز دارما 46
واللّٰه أنجح ما طلبت به والبرّ خير حقيبة الرّحل 47
تلک السحاب اذاالرحمن انشاها ردى بها من محول الارض ایباسا 48
تلک الموازین والرحمن ارسلها رب البربة بین الناس مقیاسا 49
خدا ساری(قومِ) براجم کا برا کرے، (قومِ)یربوع کو ہلا ک کرے اور(قومِ) دارم کو عزت بخشے۔خدا تجھے تیرے مقصد میں کامیاب کرے۔ نیکی انسان کے لیے بہترین زادراہ ہے۔جب خدائے کریم ان بادلوں کو اٹھاتا ہے تو اس سے زمین کی خشک چیزوں کو سیراب کرتا ہے۔یہ میزان ہیں خدائے رحیم اور رب العالمین نے ان کو لوگوں کے درمیان پیمانہ بناکر اتارا ہے۔
یہ اشعار عرب کے چوٹی کے شاعر امراؤ القیس کے ہیں جن کی بےانتہاء مقبولیت اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اس کی شاعری عربوں کے عام خیالات و تصورات سمیت انسانی فطرت اور اس میں موجود خواہشات کی صحیح ترجمان بھی ہے۔ان اشعار میں اس نے اپنی محبوبہ کے فراق کی وجہ سے شدت گریہ کے ذریعہ اپنی پریشانی و تکلیف کو بیان کیا ہے اور اس کے علاوہ مذکورہ معلقہ میں امرؤالقیس کی ہی چند ایجاد کردہ چیزیں بھی موجود ہیں جن میں محبوبہ کے گھر کے دروازہ پر کھڑے ہوکر رونا وغیرہ شامل ہے نیز ایسی چیزیں مذکورہ معلقہ میں کافی زیادہ ہیں اور تمام کی تمام عربی ادب کا نادر ترین نمونہ ہیں۔
عربی شعراء میں سے امرؤالقیس کی پروازِ فکر اور قوتِ تخیل عام شعراء سے کئی درجہ بلند وبالا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے ابو منصور ثعالبی تحریر فرماتے ہیں:
من عجيب شأنه أنه قال في الجاھلية ما جاء فيه شرائط أھل الجنة وأوصافھا، وإن كان لم يعرفھا ولم يؤمن بھا حيث قال:
ألا عم صباحًا أيها الطلل البالي وهل يعمن من كان في العصر الخالي
وهل يعمن إلا سعيد مخلد قليل الهموم ما يبيت بأوجال50
اس کا منفرد انداز یہ ہے کہ اس نے دور جاہلی میں وہ کچھ کہ دیا تھا کہ جو اہل جنت کے اوصاف اور اس کی شرائط سے مطابقت رکھتے تھے حالانکہ وہ انہیں پہچانتا بھی نہیں تھا اور نہ ان پر ایمان رکھتا تھا۔ جیساکہ اس نے کہا:
اے گھر کی یادگاروں تمہاری صبح سلامتی والی ہو
اور کیا وہ نازونعم میں رہ سکتا ہے جو گزرے زمانہ میں(ڈوبا)ہو
اور ناز ونعم میں نہیں رہ سکتا مگر وہ جو ہمیشہ سے نیک بخت ہو
اس کے غم کم ہوں اور جو رات خوف(ہجر ) میں نہ گزارتا ہو
اس شعر میں اس نے اس سعادت کا ذکر کیا ہے جو دنیا وآخرت کی بھلائیوں کی جامع ہے پھر اس کے بعد اس ہمیشگی کا جو جنتیوں کی سب سے عمدہ حالت ہے۔پھر اس نے غموں کی قلت کاذکر کیا جوخواہشات کی موت ہے پھر اس نے اس امن کی طرف اشارہ کیا ہے جو بہترین عطا ہے۔
اس کی رگ و روپ میں شاعری یوں رچ بس گئی تھی کہ بادشاہ کےدیے ہوئے مسموم جبہ سے مرتےاوراس دنیا سے جاتے ہوئےبھی اس نے ایک شعر کہہ دیا تھا جس کو نقل کرتے ہوئےابن اثیر الجزری تحریر کرتے ہیں:
رب خطبة مسحنفره، وطعنة مثعنجره، وجفنة متحيره، حلت بأرض أنقره. 51
بہت سے فصیح و بلیغ خطبے، خون آلود نیزے اور لبریز پیالے زمین انقرہ میں رہ جائیں گے۔ 52
ابن قتیبہ دینوری کے مطابق یہ اشعار اس نے اپنی زندگی کے آخری الفاظ کے طور پر کہے تھے53 اور یہ اشعار کہنے کے بعد جسم میں زہریلی پوشاک کے زہر کے سرایت کرنے سےمرگیاتھا نیزابن اثیر کے مطابق اس کو انقرہ میں عسیب نامی پہاڑ ی کے نزدیک موجود ایک رومی بادشاہ کی بیٹی کی قبر کے پاس ہی دفناکر اس کی قبر وہیں بنادی گئی تھی۔54
امرؤالقیس کی عرب شاعری آج بھی مسلمہ طور پر فن شاعری کا کمال اور بلندی تصور کی جاتی ہے اور متاخرین شعراء نے ہمیشہ اسی کی شاعری کو بنیاد بنا کر اپنے قصائد و غزلیں لکھ کر سامعین سے داد تحسین وصول کی ہے۔ بطورِ شاعر اور وہ بھی نہایت فصیح وبلیغ شاعر کےاہل عرب اور متاخرین نے شاعری میں اس کے انداز و اسلوب بیان، اس کی فصاحت وبلاغت، اس کے اندازِ تخیل اور بلند ئِ افکار کے متعلق خوب داد تحسین دی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس کے اشعار فن شاعری میں انتہائی بلند قامت اور انتہائی معتبر ومعظم سمجھے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سےامرؤالقیس فرمان نبویﷺکے مطابق دنیامیں تو شعراءکا قائد اور امام ماناگیا ہے لیکن آخرت میں اس کو عزت وشرف کے تمام مراتب سے محروم کردیاجائےگا کیونکہ اخروی کامیابی کی اساس دنیاوی فن وادب میں مہارت نہیں بلکہ ایمان اور عملِ صالح پر مبنی زندگی گزارنا ہے جس سے امرؤالقیس زندگی بھر محروم رہا۔