(حوالہ:علامہ جاوید اورنگزیب، مفتی سید شاہ رفیع الدین ہمدانی، ڈاکٹر مفتی عمران خان، سیرۃ النبی انسائکلوپیڈیا، جلد -5، مقالہ :2، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان،2022ء، ص: 90-218)
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ کی نسبت سے چار دانگ ِ عالم میں شہرت پانے والا خطہ عرب ارضیاتی بناوٹ کے اعتبار سے ایک جزیرہ ِ نما ہے جو لق و دق وسیع صحراؤں، بے آب و گیاہ ریتیلے چٹیل میدانوں ، وسیع صحراؤں کے درمیان کہیں کہیں اچانک نمو دار ہوجانے والے لہلہاتے سرسبزنخلستانوں، بلند سطح مرتفع، حبس زدہ گرم ساحلی میدانوں اور مغربی و جنوبی سمت واقع بلند پہاڑی سلسلوں کی سرزمین ہے۔ اس خطے کا شمار دنیا کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کے دن انتہائی گرم مگر راتیں نسبتاً خوشگوار ہوتی ہیں۔ یہاں ہزاروں میل پر محیط ریت کے ایسے سمندر ہیں جو پورے پورے انسانی قافلوں کو ریت کی چادر تلے ابدی نیند سلا سکتےہیں۔ان صحراؤں کی ریت میں کئی قدیم انسانی تہذیبیں دفن ہیں جن کا اب اس دنیا میں کوئی نام تک جاننے والا نہیں ہے۔ عرب بائدہ کے قبائل عاد ، ثمود، طسم و جدیس وغیرہ اسی خطے میں نشان ِ عبرت بنے۔یہاں دور دور تک پانی و زندگی کا تصور محال ہے تاہم ارضیاتی آثار یہ شواہد فراہم کرتے نظر آتے ہیں کہ ہزار ہا برس اُدھر ، کسی زمانے میں اس خطہِ زمین کو کئی دریا اور چشمےسیراب کرتے تھے جن کی بدولت چہار سو سبزہ اور ہریالی کا دور دورہ تھا تاہم یہ مناظر اب صرف جنوبی خطے (یمن و عمان) تک محدود ہیں۔ایشیا و افریقہ کے درمیان واقع یہ خطہ بظاہر دونوں سے الگ شناخت رکھتا ہے تاہم ایشا کا جنوب مغربی حصّہ تصور کیا جاتا ہے۔
کرۂ ارض پر سب سےبڑا جزیرہ نما"خطہِ عرب "ہےجس کا رقبہ برِ اعظم یورپ کے کل رقبے کے تہائی حصے کے برابر ہے۔ 1عمومی طور پر یہاں رہنے والے باشندے اسے "عربوں کا جزیرہ" (The Island of the Arabs)کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔جزیرہ نما عرب دراصل، جنوب مغربی ایشیا (Southwest Asia) کی ایک بنیادی ارضیاتی تشکیل (Primary Geological Formation)ہے۔ قدیم جوراسک عہد ( 199.6 ملین سال سے 145.5 ملین سال قبل تک کا دور) میں ہی بحر ہند (Indian Ocean)کے گہرے سمندر اور خلیج فارس (Persian Gulf)کی پٹی نے عرب کو خطہِ ہندوستان (India)اور خطہِ فارس (Persia)سے جدا کرکے ایک جزیرہ نما کی شکل دے دی تھی۔اُس دور کی پہاڑی تشکیل (Mountainous Conformation)آج بھی عمان (Oman)کی ساحلی پٹی پر موجود ہے۔2دنیا کے موجودہ نقشے میں جزیرہ نما عرب 13° تا 32° عرض البلد شمال اور 35° تا 60° طول البلد مشرق کے درمیان واقع ہے۔ اسے اس عظیم صحرائی پٹی کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے، جو بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean)سے، شمالی مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب سے ہوتی ہوئی ، جنوب مغربی ہندوستان کے صحرائے تھر (Thar Desert)تک پھیلی ہوئی ہے۔3 یہ اسی طرح کی قلمی چٹانوں (Crystalline Rock)سے بنا ہے جو اسی دور میں تیار ہوئیں تھیں جس دور میں کوہِ الپس کے پہاڑی سلسلوں (Alps Mountain Ranges) میں یہی عمل وقوع پذیر ہوا تھا۔4
جزیرہ نما ہونے کے سبب عرب کے تین اطراف پانی ہے۔ اس کےمغرب میں بحر احمر(Red Sea)، مشرق میں خلیجِ عربی خلیج فارس (Arabian Persian Gulf)اور جنوب میں بحیرہِ عرب ہے۔ عرب دراصل ایشیا کاجنوب مغربی حصہ ہے جو افریقہ (Africa)سے صحرائے سینا(Desert of Sinai) اورمصر (Egypt)کے راستے سے متصل ہے۔5 اگر جزیرہ نما عرب کے نقشہ کو دیکھا جائے تو یہ ایک بے قاعدہ مستطیل کی مانند نظرآتا ہے۔ شمالی حصہ میں عرب کی سرزمین فلسطین(Palestine)، شامی صحرا (Syrian Desert)اور عراق (Iraq)کے کچھ حصہ سے مل جاتی ہے۔ دریائے فرات (Eupharates)اور دجلہ (Tigris)کے درمیان موجود وادیِ میسوپوٹیمیا (Mesopotamia)اور خلیج فارس (Persian Gulf) کےعلاقے اس کےمشرق میں واقع ہیں جبکہ بحر ہند (Indian Ocean)اور خلیج عدن (Gulf of ‘Adan) اس کے جنوب میں واقع ہیں۔6 بحیرہِ عرب جو اصل میں بحر ہند کا ہی ایک توسیعی حصہ ہے، جزیرہ نما عرب کے جنوب میں واقع ہے جبکہ بحر احمر (Red Sea)اور صحرائے سینا جزیرہ نماعرب کی مغربی سمت میں واقع ہیں۔7 خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ کی بعثت کے وقت عرب کے شمال مغرب میں سلطنت روم(Roman Empire) کی حدود آ ملتی تھیں جبکہ شمال مشرق میں سلطنت فارس (Persian Empire)قائم تھی۔8الحیرہ (Al-Hirah)کی بادشاہت عرب کے مشرق میں موجود تھی۔9
جغرافیائی لحاظ سےجزیرہ نما عرب اور صحرائے شام(Syrian Desert) شمال میں بغیر کسی واضح حد بندی کے ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ایک تصوراتی لکیر مغرب میں خلیج عقبہ (Gulf of Al-‘Aqaba)سے مشرق میں وادئ دجلہ و فرات (Tigris-Euphrates Valley)تک تصور کی جاتی ہے جسے عرب کی شمالی حدسمجھاجاتا ہے10 تاہم بعض لوگ سعودی عرب اور کویت (Kuwait) کی شمالی سرحدوں کو بھی عرب کی حد قرار دیتے ہیں ۔عرب کی سر زمین جو کہ صحراؤں، پہاڑوں اور بیابانوں پر مشتمل تھی، تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سے متعدد عظیم تہذیبوں کے نزدیک ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل تھی، جزیرہ نمائے عرب جسے کبھی جزیرۃ العرب یا عربستان کہا جا تا رہا تھا، تین بر اعظموں، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے سنگم پر واقع تھا۔11یہ خطہ خشکی اور سمندر دونوں راستوں سے ان خطّوں سے جُڑا ہوا تھا اوراس کا شمال مغربی حصہ برِ اعظم افریقہ میں داخل ہونے کا راستہ بھی دیتا تھا۔12قدیم زمانے میں لو گ مکہ مکرمہ کو ناف ا رض یعنی زمین کا مرکز کہا کرتے تھے ۔13 خطہ عرب اپنے محل وقوع اور مرکزی تجارتی حیثیت کے اعتبار سے مرکز زمین قرار دیاگیا تھا۔عرب کے مغرب میں بحر احمر، مشرق میں خلیج فارس، جنوب میں بحر ہند اور مشرق وشمال میں بحرِ فرات اور شمال و مغرب میں شام اور حدودِ مصر واقع تھیں اور اس بناء پر جزیرہ نمائے سینا کے اکثر حصہ کو عرب میں داخل سمجھا جاتا تھا۔14
جزیرہ نما عرب کا کُل رقبہ تقریباً بارہ لاکھ (1200000) مربع میل ہے جو تقریباً اکتیس لاکھ ( 3100000) مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ بحر احمر(Red Sea) کی پٹی تقریباً بارہ سو ( 1200) میل یعنی انیس سو (1900 کلومیٹر)ہے جبکہ جنوب میں یمن (Yemen)سے عمان(Oman) تک اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی تیرہ سو (1300) میل یعنی اکیس سو (2100 ) کلومیٹر ہے۔سقوطرہ (Socotra) کا جزیرہ بحر ہند(Indian Ocean) میں جزیرہ نما عرب سےجنوب مشرقی سمت میں 200 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا عرب سے مضبوط جغرافیائی تعلق ہے اورسیاسی طور پر یہ یمن (Yemen)کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں جزیرہ نماعرب سیاسی تفریق کی وجہ سے متعدد ریاستوں میں تقسیم ہے۔ ان مختلف ریاستوں میں سب سے وسیع خطہ مملکتِ سعودی عرب ہے۔ اس کے علاوہ یمن(Yemen)، عمان(Oman)، متحدہ عرب عمارات(United Arab Emirates)، کویت(Kuwait)، قطر (Qatar)اور بحرین (Bahrain) اس میں شامل ہیں۔15
عرب کی ساختمانی تختی یا صفیحہِ عرب (Arabian Tectonic Plate) ایک قول کے مطابق آج سے 25 ملین یعنی ڈھائی کروڑ سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ اس کی ابتداء شمالی مشرقی افریقہ کے الگ ہونے سے ہوئی تھی جس کے وجہ سے خلیج عمان (Gulf of Aden)اور بحر احمر (Red Sea)وجود میں آئے تھے۔ عرب کی ساختمانی تختی یا صفیحہِ عرب (Arabian Tectonic Plate)کو سیارہِ زمین کی ایک کم عمر اور چھوٹی کرہِ حجری (غلافی) تختی (Lithospheric Plate)سمجھا جاتا ہے۔ اس خطے کی پرت کا اوپری حصہ، ٹھوس قلمی
ارضیاتی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو جزیرہ نما عرب میں تین بڑی ارضیاتی تقسیمات نظر آتی ہیں جن کے نتیجے میں یہ خطہ عرب کی ارضیاتی ڈھال(Arabian Shield)، زمینی/ ارضیاتی تختوں (Shelf)اور پہاڑی سلسلوں (Mountain Belt)میں تقسیم ہے۔ شمال مشرق میں جزیرہ نما عرب دجلہ و فرات (Tigris-Euphrates River)کے دریائی نظام کے رسوبی معدنیات یا تلچھٹ کے ذخائر (Sedimentary Deposits)سے ملتا ہے جو پہاڑوں کی ریت و معدنیات کو شمال اور مشرق میں بہا لانے کا سبب بنتا ہے۔ 17
قبل ازکیمبری دور (Precambrian Time)میں عرب کی ارضیاتی ڈھال (Arabian Shield)کے مستحکم ہونےکے ساتھ ہی جزیرہ نما عرب کےساختی نمونہ کا تعین ہوچکا تھا۔ ارضیاتی ڈھال کی چٹانیں (Shield Rocks) نسبتاً مستحکم ہوچکی تھیں تاہم بنیادی طور پر یہ قبل از کیمبری دور (Precambrian Time)سے ہی متحرک ہیں اور یہ جزیرہ نما عرب کا ایک بڑا حصہ تشکیل دیتی ہیں۔مغرب میں یہ نجد کا اکثر حصہ، حجاز مقدس اور عَسِیر(Asir) کا پورا خطہ تشکیل دیتی ہیں جبکہ اسی طرح جنوب مغرب میں یمن (Yemen)کا بالائی حصہ بھی ان ہی سے تشکیل پاتا ہے ۔عرب کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ یہ بکھری ہوئی سطحی چٹانوں کی صورت میں پائی جاتی ہیں۔ ٹھوس شکل اختیار کرنے اور ہموار سطح کی صورت میں ڈھلے جانےکے بعد، عرب ارضیاتی ڈھال (Arabian Shield) قدرے شمال مشرق میں آبائی بحر ٹیثس (Tethys Trough)کے پانیوں کی طرف سرک گئی تھی۔جیسے جیسے دھنسنے کا عمل جاری رہا کم گہرے سمندر قلمی چٹانوں کے گہرے بیرونی حصے کو عبور کرکے آگے بڑھ گئے اور اسے قریب قریب ہموار زمینوں کی پتلی تہوں کے نیچے دبا دیا۔18
معرب ارضیاتی ڈھال (Arabian Shield) سات لاکھ ستر ہزار ( 770000) مربع کلومیٹر کے حصہ کو گھیرے ہوئے ہے جو اندازاً جاپان (Japan)اور جرمنی (Germany) کے رقبے سے دوگنا ہے۔ عرب ارضیاتی ڈھال (Arabian Shield)کی اوپری بیرونی سطح انتہائی غیر معمولی طور پر خشک آب و ہوا میں تقریبا مکمل طور پر کھلی ہے۔یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ عرب کی ارضیاتی ڈھال (Arabian Shield) کا پچاس فیصد (%50) حصہ آتشیں چٹانوں(Plutonic) جبکہ باقی پچاس فیصد (%50) حصہ آتش فشانی (Volcanic)اور رسوبی چٹانوں (Sedimentary Rocks)سے بنا ہے ۔ آتشیں چٹانوں(Plutonic Rocks) کا ستّر فیصد حصہ (%70) گرینائٹ کی چٹانوں پر مشتمل ہے ۔ 19
نسبتاً مستحکم، کم ڈھلان والی بنیادی تہیں، مستحکم خطہ کی دوسری بنیادی ساختی حالت کی تشکیل کرتی ہیں جسے عربی تختہ یا عریبین شیلف (Arabian Shelf) کہاجاتا ہے۔20یہ جنوب مغرب میں عرب ارضیاتی ڈھال (Arabian Shelf) اور شمال مشرق میں بحرِٹیثس (Tethys Sea)کے درمیان واقع ہیں۔ 21
پوری تلچھٹ کی یہ ترتیب موٹائی میں تین ہزار (3000) میٹر سے تجاوز کرتی ہے، لیکن ہم عمر عمان کے پہاڑوں میں موجود اسی ڈھانچے کے برعکس سطحِ زمین کے عملِ تخلیق کے کم ہی آثار واضح کرتی ہے۔ اپر پرمین (Upper Permian) اور ٹرائاسک تہوں (Triassic Layers)کی موٹائی تقریبا ًسترہ سو (1700)میٹر تک پہنچتی ہے۔ پرمین کے ذخائر بنیادی طور پر دو ڈھانچوں ، ہگب اور یابانا کے محدب خطوط (Anticlines) میں ،امارت ِراس الخیمہ میں وادی بیح (Wadi Bih) کے علاقے کے ساتھ ساتھ عمان کے علاقے مسندم (Musandam) میں جزیرہ نما عرب کے مشرقی ساحل پر ظاہر ہوتے ہیں۔ٹریسئیائی دور (Triassic Period) اور حیاتِ وسطیٰ کے دور (Mesozoic Period) کے پتھر اور چٹانیں پورے علاقے میں پائے جاتے ہیں نیز یہ ساحل سے دورکئی کنوؤں میں بھی پائے گئے ہیں۔ 23میسوپوٹیمیا کا نشیبی علاقہ بڑے پیمانے پر مٹی والا ہے اور دجلہ فرات کا ڈیلٹا تیزی سے سمندرکی سمت پھیل رہا ہے۔ 24
نوخیز پہاڑوں کی ایک سرکتی ہوئی پٹی مستحکم اندرونی خطے کو گھیرے ہوئے ہے جس میں ایک تنگ راسی خطہ (Foreland Region)ہے جس کی بے ترتیبانہ تشکیل اسی دور میں ہوئی جب مرکزی پہاڑ تخلیق پائے ۔ الپائن ہمالیائی نظام میں چھوٹی کڑیاں ہیں جو کہ مختلف حدود عربی شیلف، ایران کے زگروس اور عمان کے پہاڑوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ خلیج عمان کے جنوب مغربی پڑوس میں پلیازوئیک دوراور میسوزوک دور کےپتھروں کی ایک جامع جینٹک لائن(Geanticline) ہے جہاں سینوزوک دور کی تلچھٹ پس منظر کے حصوں پر غالب ہے۔ آروگینیک سرگرمیاں یا تکوین جبال کا عمل کریٹیکیائی دور (Cretaceous Period) کےاختتام پر شروع ہوئیں اور ضُحَوی دور (Oligocene Period) اور میوسینی دور (Miocene Period) کے وسط میں دوبارہ پیدا ہوئیں۔ 25عمان کی ارضیاتی ساخت اور تیکتونیات (Tectonics) خلیج فارس کے مخالف سمت میں ارض ِ فارس کے ساتھ مربوط ہیں۔ 26یہ بات بھی اہم ہے کہ دنیا کے قدرتی گیس کے کچھ بڑے ذخائر بھی عرب کی ارضیاتی پلیٹ ( Arabian Plate ) میں ہی پائے جاتے ہیں۔ 27
ایچ سی آرمسٹرانگ (H.C. Armstrong)کے بقول تاریخ کے ایک بہت قدیم دور میں، جب یورپ برفانی دور کے گلیشیئرز کے نیچے خشک اور برفیلی سرزمین تھا، تب عرب جنگلات اور چراگاہوں سے ڈھکا ہوا علاقہ تھا اور تین بڑے دریاؤں سے سیراب تھا۔ پھر جیسے جیسے زمین اپنے محور پر گھومتی رہی ساتھ ہی اس کی سطح پر بھی جغرافیائی تبدیلیا ں رونما ہو تی رہیں۔ کہیں سطح بلند ہوتی گئی اورکہیں نشیب پیدا ہوتے گئے ۔ سطح ِ زمین کے اس اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں موسموں اور آب و ہوا میں بھی تبدیلی آئی پھر برف پگھل گئی اور یورپ میں زندگی کی نمو میں اضافہ ہوا لیکن عرب کا علاقہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں صحرا میں تبدیل ہوگیا۔بارش اتنی کم ہوگئی کہ دریا سوکھ گئے اور جنگلات ختم ہو گئے اور گھاس ریت کے میدانوں میں بہہ گئی۔28
شواہد سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ شمالی عرب کا صحرا کبھی زرخیز اور اچھی طرح سے سیراب زمین تھی اور ایک بڑی نیم خانہ بدوش آبادی کا مسکن تھی۔ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ سال کے بیشتر حصوں میں وادیاں اور خشک ندیاں پانی سے لبالب ہوتی تھیں ۔قدیم زمانوں میں موسمی حالات میں آنے والے تغیر و تبدل نے ان خطوں کی موجودہ تشکیل میں اہم کردار ادا کیا جن میں معتدل درجہ حرارت اور پانی کی وافر مقدار میں موجود گی اہم عوامل تھے جبکہ آج سوائے کچھ نخلستانوں اور سرحدی علاقوں کو چھوڑ کرکے باقی عرب صرف خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش آبادی کو ہی سہارا فراہم کرسکتا ہے۔29
سرزمین ِ عرب کو جزیرہ نما عرب (Arabian Penninsula)اور جزیرہِ عرب (Island of Arabia)بھی کہا جاتا ہے۔ جزیرہ نما کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تین اطراف سے سمندر اور سمندری خلیجوں سے گھرا ہوا قطعہ ِ زمین ہے یوں تین طرف سے پانی سے گھرا ہونے کے سبب اسے جزیرہ نما تصور کیا جاتا ہےتاہم کچھ قدیم جغرافیہ دان اسے جزیرہ نما کی بجائے ایک مکمل جزیرہ بھی شمار کرتے تھے ۔قدیم دور سے ہی عرب ایک ایسا زمینی خطہ تھا جس کے تین اطراف میں سمندر اور ایک طرف دریائے فرات تھا۔یہ سمت جس طرف دریائے فرات تھا عربوں کی نقل وحمل کے لیے نسبتاً آسان اور آرام دہ تھی کیونکہ یہاں سے ان کی آمد ورفت بآسانی ہوجایا کرتی تھی ۔ اسی محل وقوع کی بنا پر اس کو جزیرۃ العرب کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے تاہم زیادہ تر اسے جزیرہ نما عرب کہا جاتا تھا۔خطہ عرب قدیم زمانہ سے ہی چونکہ تینوں اطراف سے پانی سے گھرا ہوا تھالہٰذا اسےنہ صرف غیر مقامی افراد بلکہ یہاں کےعلاقائی باشندے یعنی اہل عرب بھی اپنی زبان میں جزیرہ نما ہی کہتے تھے۔ اسی ضمن میں الموسوعۃ الفقہیۃ کے مصنفین لکھتے ہیں:
ارض العرب تسمى ایضا جزیرة العرب وقد ورد الاسمان فى السنة النبوية والفقهاء یستعملون كلا اللفظین ویطلق كلھا منھا لغة علي الاقلیم الذي یسکنه العرب والذي ھو شبه جزيرة. 30
ارض عرب کو جزیرہ عرب بھی کہاجاتا ہے، سنت نبویہ میں یہ دونوں نام وارد ہیں اور فقہاء کے یہاں بھی دونوں لفظوں کا استعمال ہے اور لغۃً ان دونوں کا اطلاق اس خطہ پر کیاجاتا ہےجس میں عرب لوگ بستے ہیں اور یہ وہی جزیرہ نما ہے۔
اس علاقہ کا نام جزیرہ نما رکھنے کی مذکورہ وجہ کے ساتھ ایک اور وجہ بیان کرتے ہوئے امام سمہودی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
سمیت بذلک لاحاطة البحار بھا من اقطارھا یعنی بحر الحبشة والفرس ودجلة والفرات قیل هى كله بلد لم یملکو الروم ولا فارس. 31
اس کا نام جزیرہ ہرطرف سے اسے سمندر کےگھیرےرکھنے کی وجہ سے رکھا گیا یعنی بحرِ حبشہ، بحرِ فارس، دجلہ اور فرات ۔یہ بھی کہاگیا کہ ہر وہ شہر جو روم اور فارس کی ملکیت میں نہ رہا ہو، اسے جزیرہ کہاجاتا ہے۔
اسی حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں:
ان الجزیرة في اصل اللغة ما ارتفع عنه الماء اخذا من الجزر الذي ھو ضد المد ثم توسع فيه فاطلق علي كل ما دار عليه الماء ولما كان ھذا القطر يحيط به بحر القلزم من جهة الغرب وبحر الهند من جهة الجنوب وبحر فارس من جهة الشرق والفرات من جهة الشمال اطلق عليه جزيرة وان كان له اتصال بالبر وذلك علي سبیل التشبيه والمجاز.32
لغت میں جزیرے کے حقیقی معنی وہ جگہ ہے جہاں سے پانی ہٹ گیا ہو کیونکہ یہ لفظ جزر سے لیا گیا ہے جو "مد" کی ضد ہے پھر اسے وسیع معنوں میں لیتے ہوئے ہر اس جگہ کے لیے استعمال کیا گیا جس کے گرد پانی ہو کیونکہ اس ملک کو مغربی جہت سے بحر قلزم، جنوبی طرف سے بحر ہند، مشرقی سمت سے بحر فارس اور شمالی جانب سے فرات گھیرے ہوئے ہے، اس لیے اسے جزیرہ کہا گیا ۔اگرچہ یہ ملک خشکی کے ساتھ ملا ہوا ہے تاہم اسے جزیرہ کہنا تشبیہ اور مجاز کے طور پر ہے۔33
مندرجہ بالا حوالاجات سے یہ واضح ہوتا ہےکہ عرب چونکہ تین اطراف سے پانی کے درمیان گھرا ہواتھا اسی وجہ سے قدیم زمانہ سے ہی اسے جزیرہ نما عرب کہاجاتاتھا تاہم مجازی طور پر کچھ اہلِ علم اسے جزیرہ بھی کہہ دیتے تھے۔عرب جغرافیہ نویسوں نےعرب کی تحدید اس طرح کی ہے کہ عرب کا حدود اربعہ مغرب میں بادیہ شام کے بعض حصے یعنی مقام بلقاء سے مقام ایلیہ تک تھاجو عقبہ کے قریب تھا، مغرب اور جنوب میں بحرِ احمر، مدین اور جدہ سے سواحل ِ یمن تک تھا، مشرق میں بحر ِ ہند، عدن اور ظفار سے مہرہ تک تھا، مشرق میں بحرِ عمان، خلیجِ فارس، فارس، مہرہ، عمان اور بحرین سے بصرہ اور کوفہ تک تھا اور شمال میں نہر فرات و بلقاء تک پہنچتا تھا۔34
جزیرہ نما عرب ایک وسیع و عریض اور غیرآباد ریگستان تھا، اس کے مغرب میں پہاڑوں کا ایک سلسلہ شمال سے جنوب کی طرف چلا گیا تھاجس کی بلندی بعض مقامات پر دس ہزار(10000) فٹ تک پہنچ جاتی تھی۔ جنوب مغرب کے اس پہاڑی سلسلے خصوصاً یمن کے بعض علاقوں میں بارش کی سالانہ اوسط بیس (20)انچ سے بھی تجاوز کرجاتی تھی۔یہاں شہری زندگی پائی جاتی تھی اور یہی وہ خطہ تھا جہاں جنوبی عرب کی قدیم مملکتوں نے زرعی معیشت کو حیرت انگیز طور پر ترقی دی، آبپاشی کے جدید طریقوں کی ترویج کی اور وہ زراعت کو اپنی معیشت کی مضبوط اساس بنانے کے بعد عالمی تجارت میں اثر و نفوذ بڑھانے میں کامیاب ہوئیں جس کی بدولت ان کی دولت و امارت ضرب المثل بن گئی تھی۔ شمال مغرب میں پہاڑوں کے سلسلے اور مشرقی ساحل کے علاقوں میں بھی سالانہ بارش پانچ (5)سے دس (10)انچ تک ہوجاتی تھی۔ معاشی نقطۂ نظر سے یہ خطہ بھی اہم تھا اور شہری زندگی یہاں بھی ممکن تھی۔ جہاں تک جزیرہ نما کے باقی حصے تھے، ان میں بارش نہ ہونے کے برابر تھی اور انسانی زندگی کا تمام تر دارومدار نخلستان اور کنوؤں پر تھا، یہ علاقے صحرا اور میدانوں پر مشتمل تھے۔ جنوب میں الربع الخالی تھا اور شمال میں النفوذ کے ریگستان جہاں بعض اوقات حیاتِ انسانی کا وجود مشکل ہوجاتاتھا۔ جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے صحرا اور بیابان تھے جہاں موسمی بارشوں پر خانہ بدوش لوگوں کی زندگی کاانحصار تھا۔ 35
جزیرہ نما عرب کا زیادہ تر رقبہ خشک ، بنجر اور بے آب و گیاہ تھا تاہم جزیرہ نما عرب میں بعض ایسے وسیع و زرخیز میدان اور شاداب وادیاں بھی تھیں جو زرخیزی و شادابی میں ہزاروں سال سے اپنی مثال آپ تھیں ۔یہاں قدیم زمانے سے زراعت اور کاشتکاری عام تھی جس کے سبب یہاں کے باشندے خوشحال تھے اور انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں بڑے بڑے شہر اور کثیر تعدادمیں قصبے آباد کیے تھے، یہ زرخیز خطے ساحلی علاقوں میں بکثرت نظر آتے ہیں تاہم جنوب مغربی یمن کا علاقہ اپنی شادابی میں ضرب المثل تھا۔36ساحلی مقامات مثلاً یمن، عمان، حضر موت وغیرہ اس کے علاوہ نجد، خیبر اورحجاز میں طائف اور مدینہ وہ علاقے تھے جہاں زراعت ہوتی تھی۔ 37
جزیرہ نما عرب اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے سبب خطہ میں خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ سرزمین ہمیشہ بیرونی اقوام اور حملہ آوروں سےصحرا اور خشک آب و ہوا کے سبب محفوظ رہی ہےجس کی وجہ سے یہاں کے لوگ دونوں اطراف بڑی سلطنتوں اور بین الاقوامی استعماری طاقتوں کی موجودگی کے باوجود مکمل آزادی کے ساتھ رہا کرتے تھے۔38 اس جغرافیائی تفرید نے ابتدائی طور پر اہلِ عرب کو نہ صرف حیاتیاتی طور پر بلکہ زبانی، نفسیاتی اور معاشرتی لحاظ سے سامی نسل کے بہترین نمائندوں کے طور پر محفوظ رکھاہے یوں صحرائی زندگی کے یک رنگ تسلسل نے صدیوں تک ان کی اصل نسل کی باقیات کو قائم و دائم رکھا ہے۔ 39
جزیرہ نما عرب بیرونی ممالک سے تعلقات اور اپنے کلیدی محلِ وقوع کے سبب دنیائے قدیم کے معروف برّ اعظموں کا مرکزی نقطہ تھاجس کے سبب اس نے قدیم دور کےتمام متمدن ممالک سے سمندر ی اور زمینی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ یوں جزیرہ نما عرب تجارت، معاشرت، مذہب اور فنون کا ایک بڑا اہم مرکز تھا۔40 قدیم دور سے ہی خطہِ عرب اس کرہِ ارض پر جنم لینے والی قدیم ترین انسانی تہذیبوں کا قریبی ہمسایہ رہا ہے جن میں بابلی تہذیب، فارسی تہذیب، شمال مشرق اور مشرق میں سندھ کی تہذیب، مغرب میں وادئ نیل کی تہذیب، شمال میں فنیشیائی اور آشوری تہذیب اور مشرق و شمال مشرق بعید میں چینی تہذیبیں شامل تھیں۔ جدید محققین خیال کرتے ہیں کہ یہ تمام تہذیبیں عرب کے قلب سے ہجرت کرکے باقی دنیا میں پھیلنے والی تہذیبیں تھیں جنہوں نے مصری، فنیشیائی، آشوری اور بابلی تمدن کو پروان چڑھایا تھا۔ 41
جزیرہ نما عرب ، ایک زرخیر مرکزی سطح مرتفع (نجد)، کئی صحراؤں ( الربع الخالی، النفود اور الدہنا وغیرہ)، خشک دلدلی ساحلی علاقوں اور مغربی کنارے اور جنوبی سرحد پر واقع کئی پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ 42 مختلف ادوار کے ماہرین ِ جغرافیہ نے مختلف اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے جزیرہ نما عرب کی مختلف تقسیمات کی ہیں۔ یونان و روم کے قدیم جغرافیہ دان، ایراٹوستھینز(Eratosthenes)، اسٹرابو(Strabo)اور پلینی(Pliny) نے عرب کو صرف دوقدرتی حصوں شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیاتھا لیکن اس سے زیادہ مقبول اور پسندیدہ دوسری صدی میں بطلیموس(Ptolemy) کی تقسیم ہوئی اور اب تک یورپی جغرافیہ نویس اور سیاح اس تقسیم کی تقلید کرتے ہیں۔بطلیموس(Ptolemy) نے تمام ملک کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ عرب کے یہ تین حصے، عرب آبادان یا العرب المیمونۃ، عرب ریگستان یا عرب الرمال اور عرب سنگستان یا عرب الحجر تھے۔43 بعد میں آنے والے ادوار میں اس تقسیم کے اثرات مرتب ہوئے اور عرب کے دشوار گزار ریگستانوں اور پہاڑی و صحرائی علاقوں نے اس ملک کو جغرافیائی حیثیت سے شرقی و غربی، شمالی اور جنوبی خطوں میں تقسیم کر دیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان علاقوں کے باشندوں میں لسانی و نسلی، ذہنی و معاشی اور معاشرتی اعتبار سے بھی بہت بڑا فرق در آیا ۔ 44اس خطہ میں موجود اس امتیاز و تفریق کی لسانی سطح پر کچھ وضاحت عبد الرزاق کرد نے کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس جزیرہ عرب کے حدود اربعہ کو لغات کے تغیر وتبدل میں بھی دخل تھا۔45عرب کی طبعی خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے قدیم جغرافیہ دانوں نے جزیرہ نما عرب کو پانچ خطوں میں تقسیم کیاہے۔46 مختلف طبی و جغرافیائی خصوصیات کے حامل یہ خطے مندرجہ ذیل ہیں:
یہ وہ نشیبی علاقہ ہے جو بحر احمر (Red Sea) کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ینبع (Yanbu)سے نجران(یمن) تک چلا گیا ہے۔ جب ہوائیں رک جائیں تو اس خطے میں درجہ ِ حرارت بلند ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں شدید گرمی پڑتی ہے۔
یہ ایک پہاڑی اور ریتیلی اقلیم ہے جو یمن کے شمال اور تہامہ کے مشرق میں واقع ہے۔
عر ب کا یہ حصہ بلند خطے پر مشتمل ہے جو سماوہ (Samawah)کے جنوب سے یمن کے مغربی حصہ تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ یمامہ، عمان اور بحرین پر مشتمل خطہ ہے۔
یہ نجد سے شروع ہو کر جنوب کی طرف بحر ہند اور مغرب میں بحر احمر (Red Sea) کی طرف پھیلا ہواہے۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد حضر موت، الشحر (Al-Shahr)اور عمان سے ملتی ہے۔47
جبکہ یاقوت حموی نے اصمعی کے حوالہ سے جزیرہ نما عرب کو چار(4) حصوں میں تقسیم کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
قال الاصمعى جزیرة العرب اربعة اقسام الیمن والنجد والحجاز والغور وهى تھامة.48
اصمعی نے کہا: جزیرہ عرب چار اقسام پر ہے یعنی یمن، نجد، حجاز اور غور نیز یہی تہامہ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہیں:
وهي أربعة أقسام: اليمن، ونجد، والحجاز، والغور، وهو تھامة.49
اس جزیرہ (عرب) میں چار مقام شامل ہیں، یمن، نجد، حجاز اور غور جسے تہامہ کہتے ہیں۔
جزیرہ عرب میں ان مقامات کے شامل ہونے کی دو وجوہات تھیں ایک طبعی اور دوسری سیاسی۔ طبعی وجہ تو یہ تھی کہ ان کے درمیان اور جزیرہ عرب کے درمیان لق ودق صحرا، جنگل اورخشک ریگستان حائل تھے۔ سیاسی وجہ یہ تھی کہ عمان اور بحرین کی حکومتیں، ایران جو ایک غیر عرب مملکت تھی کے زیرنگین تھیں۔50
اسی طرح عراق کے ریگستانی علاقے اور شام کے ریگستانی علاقے کو مورخین"عرب عراق" اور "عرب شام"کے نام سے یاد کرتے ہیں یعنی ان حصوں کو بھی عرب میں شمار کرتے ہیں جیساکہ علامہ اصطخری نے جزیرہ عرب کے جغرافیائی حالات کو بیان کیا ۔انہوں نے عراق اور شام کے ریگستانی علاقوں کے ساتھ ایک اور علاقہ بھی شامل کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وديار العرب هي الحجاز الذي يشتمل علي مكّة والمدينة واليمامة و مخاليفھا ونجد الحجاز المتصل بارض البحرين وبادية العراق وبادية الجزيرة وبادية الشام.51
عرب کے شہر وں میں ایک حجاز تھا جو مکّہ، مدینہ، یمامہ، اس کے سامنے والا حصہ اور حجاز کا وہ نجد نامی علاقہ جوسر زمین بحرین سے متصل ہے(پر مشتمل تھا) اور(عرب کے شہروں میں) عراق کا ریگستانی علاقہ، جزیرہ کا ریگستانی علاقہ اور شام کا ریگستانی علاقہ بھی(شامل) ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ عرب میں حسب ذیل علاقے بھی شامل سمجھے جاتے ہیں:
اصطخری نے بادیۃ الجزیرہ سے وسطی الجزیرہ کا وہ صحرائی علاقہ مراد لیا جو دریائے فرات کے شمال میں واقع تھا۔ بادیۃ الشام یا صحرائے شام ایک وسیع ریگزار تھا جو جنوب مشرقی شام، شمال مشرقی اردن اور مغربی عراق میں پھیلا ہوا تھا ۔سید سلیمان ندوی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
یعنی وہ قطعہ عرب جس کو یونانی عرب سنگستانی کہتے ہیں اور جو مابین شام، مصر، بادیہ شام اور حجاز ونجد میں واقع تھا نیز یہ آبادی عرب کا بہت قدیم حصہ ہے بلکہ اولین حصہ ہے۔ اکتشافات جدیدہ سے پہلے بھی گو اس ملک کی وقعت کم نہ تھی کہ اس کے صحرا میں بنو اسرائیل کا مسکن، اس کے ایک پہاڑ پر اسرائیل کے ایک پیغمبر (حضرت موسیٰ علیہ السلام) خدا سے ہمکلام ہوئے، اس کے متصل ارض موعود واقع ہے جس کو خدائے ابراہیم واسحاق ویعقوب علیہم السلام نے فرزندان اسرائیل کو وراثتاً بخشا لیکن اکتشافات جدیدہ کے بعد اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی کہ یہاں عمالقہ عرب کی آبادی تھی اور ان ہی کھنڈروں میں ان کی عظیم الشان حکومت قائم تھی جس کا سلسلہ حجاز تک پھیلا تھا نیز جس میں بلقان، عمان، بصریٰ، تدمر وغیرہ شامل تھے۔52
بادیۃ العراق کو بادیۃ السماوہ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جواد علی اس نام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ خطّہ جسے بادیۃ السماوۃ کہاجاتا ہے یہ وہ وسیع خطہ ہے جو نہرِفرات سے شام کے مضافات تک پھیلاہوا ہے۔53اس کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں:
عرب عراق سے وہ سرزمین مراد ہے جس کو یونانی عرب ریگستانی کہتے تھے اور(یہ) خلیج فارس، دریائے فرات، بادیہ شام اور نجد کے مابین واقع ہے۔ اب عام طور سے لوگ اس کو عرب ِعراق کہتے ہیں اس حصہ میں بھی عہدِ قدیم میں عمالقہ عرب نے ایک شاندار حکومت قائم کی تھی۔54
قدیم اہلِ تاریخ و جغرافیہ نے اپنی کتب میں مندرجہ بالا تقسیمات کا ہی ذکر کیا ہے تاہم دور ِ قریب کے جغرافیہ دانوں نے عرب کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہے جو درجِ ذیل ہے:
عرب کے طبعی ِ خدوخال پر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کا زیادہ تر حصہ بے آب و گیاہ وسیع و عریض صحراؤں پر مشتمل ہے جن کا شمار دنیا کے بڑے اور گرم ترین صحراؤں میں ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عرب میں بلند سطح مرتفع اور جنوب و مغرب میں اونچے پہاڑی سلسلے بھی ہیں ۔ ذیل میں عرب کے صحراؤں، پہاڑی سلسلو ں اور سطح مرتفع کی مختصر تفصیلات درج کی جا رہی ہیں۔
جغرافیہ کے ماہرین یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی زمانے میں عرب، ایک سمت میں وسطی ایرانی صحرا اور صحرائے گوبی(Gobi Desert) جبکہ دوسری سمت میں صحرائے صحارا (Sahara Desert) سے متصل تھا۔ بعد ازاں یہ نیل کی وادی کے سرکنے 56 اور بحرِ احمر کے دباو کے نتیجے میں الگ ہو گیا تھا تاہم ابھی تک اس خطے کی خشک سالی اور بنجز پن کی حالت تبدیل نہیں ہوئی ۔57 ایک اندازے کے مطابق عرب کا تقریباً 450،000 مربع میل کا علاقہ خالصتاً صحرائی ہے۔58
عرب کے سب سے مشہور اور وسیع و عریض صحرا کو الربع الخالی کہا جاتا ہے۔ یہ صحرا جنوب مشرقی عرب سے وسطی عرب تک پھیلا ہوا ہے59جو رقبہ کے لحاظ سے تقریباً 250،000 مربع میل60یا 660،000 مربع کلومیٹر بنتاہے۔61عمان (Oman)اور یمن (Yemen)کے قریب اس کی چوڑائی اوسط 900 میل ہے جبکہ حضر موت اور نجد کے قریب اس کی چوڑائی تقریباً 500 میل ہے۔ 62 الربع الخالی کا شمار دنیا کے بڑے ریتیلے صحراؤں میں ہوتا ہے۔ صحرائے عرب کی سیٹیلائیٹ (Satellite) کی مدد سے لی گئی، عوام الناس کے لیے جاری کردہ جدید تصاویر میں مختلف ریتیلے ٹیلوں کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں جن میں مختلف رنگوں اور اقسام کے ٹیلے شامل ہیں۔ ان کامحل وقوع اور حجم وسطی علاقوں سے ریتیلے ٹیلوں والے سرحدی علاقوں تک بہت ہی سائنسی انداز سے تبدیل ہوتے ہیں۔ 63 الربع الخالی کے بڑے ٹیلوں کی اونچائی 50 میٹر سے 250 میٹر تک پائی گئی ہے جن کے درمیان موجود 2 کلومیٹر تک چوڑی سطحی گھاٹیاں انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ 64
الربع الخالی کے زیادہ تر حصے میں سالانہ 50 ملی میٹر تک ہی بارش ہوتی ہے تاہم بعض مقامات تو ایسے بھی ہیں جہاں اوسطاً صرف 25 ملی میٹر سالانہ تک ہی بارش ہوتی ہے۔ الربع الخالی کے زیادہ تر حصے دراصل بے آب وگیاہ، بنجر، ویران اور غیر آباد علاقے ہیں جہاں نہ درخت پائے جاتے ہیں اور نہ انسان و جانور۔ کہیں کہیں انتہائی کم تعداد میں بدوی قبائل آباد ہیں یا پھر بعض اوقات تیل کی تلاش میں یہاں آوارد ہونے والے ہی ان صحراؤں میں پڑاؤ کرتے تھے۔65 یہاں پانی کے کنویں شاذو نادر ہی ملتے تھے۔ ان میں سے اکثر دو قریب ترین کنوؤں کا درمیانی فاصلہ 100 میل تک ہے۔ یہاں ریت کے طوفان عام ہیں۔ اگر کوئی شخص حادثاتی طور پر ریت کے طوفان میں پھنس جائے تو اس کا وہاں سے زندہ باہر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ صحرا میں بعض مقامات پر صحرائی نباتات بھی پائی جاتی ہیں تاہم بارش کے بعد صحرا کے سرحدی علاقوں میں کچھ عارضی چراہ گاہیں بن جاتی ہیں جوچند ماہ تک ہی باقی رہتی ہیں اورپانی کی کمیابی کے سبب خشک ہوجاتی ہیں۔ سال کے اس حصے میں قرب وجوار کے بدوی قبائل اپنے مویشیوں کے ساتھ ان عارضی چراگاہوں میں آجاتے ہیں جہاں ان کے مویشوں کے لیے چارہ مل جاتا ہے تاہم جب وہاں خشک سالی ڈیرے ڈال لیتی تو یہ قبائل وہاں سے کوچ کرجاتے ہیں۔66
عرب کے بہت سے اہم مقامات الربع الخالی کی مختلف سمتوں میں واقع ہیں۔ وسیع صحرا کے شمالی حصہ میں الاحساء اور بحرین کا علاقہ موجود ہے جبکہ جنوب مشرق میں عمان (Oman) واقع ہے۔ حضر موت (Hadhramaut) اور المهرة (Al-Mohra) بھی جنوب میں بحیرہِ عرب اور بحرِ ہند کی ساحلی پٹی پر واقع ہیں۔ یمن کا مشہور شہر صنعاء، الربع الخالی کے جنوبی اور مغرب کی سمت میں واقع ہے۔ یہ شہر بحیرۂ عرب (Arabian Sea) اور بحر احمر (Red Sea) کے ساحل پر واقع ہے۔ عَسِیر (Asir) اور نجران (Najran) الربع الخالی کے مغرب کی طرف بحر احمر (Red Sea) کے ساحل پر واقع ہیں۔ بحیرہ احمر کے پانی،عسیر کے شمال میں ایک نسبتاً چھوٹے علاقے سے ملتے ہیں، جسے تہامہ کہا جاتا ہے، جو حجاز کا ایک ٹکڑا ہے۔ نجد ایک مربع کی شکل میں الربع الخالی کے شمال میں واقع ہے جبکہ حجاز کی سرزمین الربع الخالی کے مغرب میں واقع ہے۔ عراق اور شام کا صحرا الربع الخالی کے شمال میں ہے جبکہ نجد کے شمال مشرقی حصے کو یمامہ کہا جاتا تھا۔ نجد کے مغرب میں اور بحیرہ ِاحمر کے مشرق میں حجاز کا مشہور علاقہ واقع ہے جس میں مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے شہروں کے ساتھ ساتھ جدہ اور یَنبُع (Yanbu) کی بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔ خیبر اور حجر کے علاقے شام، حجاز اور نجد کے درمیان واقع ہیں۔ الاحقاف ایک مشہور ویران علاقہ ہے جو کہ الربع الخالی کے اندر اور حضرموت اور یمامہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ علاقہ کبھی قوم ِ عاد کے باشندوں کا وطن تھا۔67
النفود نامی صحرا، عرب کے شمال مغربی حصہ میں واقع ہے۔ یہ عرب کا دوسرا بڑا صحرا ہے جو الربع الخالی کے شمال میں تقریباً 800 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ نجد کا سطح مرتفع ان دونوں صحراؤں کو ملاتا ہے۔ النفود ایک بڑے صحرائی علاقے اور کئی چھوٹے حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا بڑا حصہ النفود الکبری کہلاتا ہے جبکہ چھوٹے حصوں میں النفود البتراء (Nafud Al-Batra)، النفود الِسّر (Al-Nafud Al-Sir)، النفود القنفذہ (Al-Nafud Qanfazah)، اور النفود الشقیقہ (Al-Nafud Al-Shaqiqah) شامل ہیں۔ النفود الکبری رقبہ کے لحاظ سے 180 میل طویل اور کم و بیش 140 میل عریض ہے۔ یہاں موسمِ سرما میں بارش ہوتی ہے جس کی وجہ سے مختلف اقسام کے صحرائی نباتات اُگ آتے ہیں۔68
النفود سفید اور سرخ رنگ کی ریت پر مشتمل ہے جو شمالی عرب کے بڑے حصہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ایک خشک علاقہ ہے لیکن کہیں کہیں ریگستان میں سرسبز مقامات بھی ہیں۔ النفود ایسی سفید یا سرخی مائل ریت کا سمندر ہے جو اونچے ریتیلے کناروں یا ٹیلوں میں اڑتی ہے اور شمالی عرب کے ایک بڑے علاقے پر محیط ہے۔ سوائے کہیں کہیں پائے جانے والے نخلستانوں کے یہ ایک بے آب و گیاہ اور خشک خطہ ِزمین ہے۔ تاہم کبھی کبھارموسم ِ سرما میں النفود کو اتنا پانی میسر آہی جاتا ہے جو اسے نباتات کے غالیچوں سے ڈھانپ دیتا ہے اور خانہ بدوش بدوی قبائل کے اونٹوں اور بھیڑوں کے لئے جنت ِارضی بنا دیتا ہے۔69
الدھناء نامی صحرا، النفود کے شمال مشرقی کنارے سے جنوب کی طرف الربع الخالی کی شمال مغربی سرحدوں تک پھیلا ہوا ہے، اس طرح یہ عرب کے بڑے ریگستانوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ الدھناء میں بنیادی طور پر سات بہت بڑے بڑے ریتیلے علاقے شامل ہیں جنہیں گھاس کے میدان ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔70
الدھناء کے لغوی معنی سرخ زمین کے ہیں۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ سرخی مائل ریت کی سطح ہے جو شمال میں عظیم النفود سے ہوتی ہوئی جنوب مشرق میں ایک بڑا خم لیتے ہوئے چھ سو (600) میل کی چوڑائی میں، جنوب کی سمت الربع الخالی تک پھیلی ہوئی ہے۔
الدھناء کواکثر سرخ رنگ کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مغربی حصے کو الاحقاف یا ٹیلوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم نقشوں میں الدھناء کو عام طور پر الربع الخالی کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ صحرائے الدھناء میں وقفے وقفے سے بارشیں بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کچھ مہینے یہاں بڑے پیمانے پر سبزہ پھیل جاتا ہے۔ اس دوران یہ علاقہ بدوی قبائل اور ان کے مویشیوں کے لیے چراگاہوں کی وجہ سے پرکشش رہتا ہے۔ 71دوسری جانب، گرمیوں کے موسم میں یہ خشک بے آب و گیاہ صحرا اور زندگی کی رمق سے کوسوں دور رہتا ہے۔ بعض مقامات پر الدھناء کی چوڑائی 30 کلومیٹر سے بھی کم ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ الدھناء نامی صحرا دراصل 1200 کلومیٹر کی طوالت میں پھیلا ہوا۔ یہ ایک ایسا طویل راستہ ہے جو النفود اور الربع الخالی کو آپس میں ملاتا ہے۔ 72
البادیۃ الشام یعنی شام کا صحرا، جزیرہ نما عرب میں شمال کی سمت پھیلا ہوا ہے۔ یہ موجودہ سعودی عرب کے زیادہ تر شمالی حصے، اردن کے مشرقی حصے، شام کے جنوبی حصے اور مغربی عراق کے بڑے حصے پر محیط ہے۔ یہ خشک و بنجر صحرا ہے جس میں اوسطاً 5 انچ یا 125 ملی میٹر سے بھی کم سالانہ بارش ہوتی ہے۔ یہ علاقہ بڑی حد تک لاوے کے بہاؤ سے بننے والے ٹیلوں سےڈھکا ہوا ہے جو قدیم دور میں زیر زمین موجود گرم مادے کے باہر نکلنے سے وجود میں آئے تھے۔ لاوے کے بہاؤ سے بننے والے ان ٹیلوں نے شام اور عراق کی آبادیوں کے درمیان آج تک ایک ناقابل عبور باڑ کا کردار ادا کیا ہوا ہے۔ صحرا کا جنوبی حصہ جسے عموماً الحماد (Al-Ḥammād) کہا جاتا ہے، مختلف خانہ بدوش قبائل اور عربی گھوڑوں کی چراہگاہوں کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی وجہ سے آباد ہے۔ 73
اسی خطہ میں سرحان نام کی وہ مشہور وادی ہے جو قدیم دور سے ہی شام اور عرب کے درمیان بڑے و اہم تجارتی راستے کے طور پراشیاء کی نقل و حمل اور ترسیل کا کام دیتی رہی ہے۔ اس وادی کے دونوں اطراف میں ایسے نخلستان موجود ہیں جہاں مختلف انسانی بستیاں آباد ہیں۔اس علاقے میں اس طرح کی اور بھی کئی وادیاں ہیں جو عموماً مغر ب سے مشرق کی سمت میں ہیں۔ وادیِ حوران بھی اس علاقے کی ایک مشہور وادی ہے۔ عہدِقدیم میں ان راستوں پر سفر کرنے والے شامی و عرب کاروان انہی وادیوں میں قیام کیا کرتے تھے۔بادیۃ الشام کے مشرقی، مغربی اور شمالی حصوں میں بلند پہاڑی سلسلے موجود ہیں۔ حضرت خالد بن ولید نے اس صحرا کو پانچ دنوں میں اپنی مسلمان فوج کے ہمراہ عبور کیا تھا تاکہ شام میں موجود افواج اسلام سے جاملیں۔الدھناءکی سرخ ریت کےبرخلاف البادیۃ الشام کی ریت سفید رنگ کی ہے ۔74
عرب کا نقشہ 75
ابھرے ہوئے اور شگاف زدہ لاوے پر مشتمل ریتیلے پتھروں سے ڈھکی ہوئی سطح زمین کوعربی زبان میں الحرۃ (Al-Harrah)کہا جاتا ہے۔ جزیرہ نما عرب کے مغربی اور وسطی علاقوں میں کثیر تعداد میں اس طرح کے آتش فشانی زون (Volcanic Zones) موجود ہیں جو شمال میں مشرقی حوران (Hawran) تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عرب میں سنگلاخ چٹانی علاقے (حَرّات) آتش فشاں پہاڑوں کے لاوے سے وجود میں آئے۔ آتش فشاں سے لاوانکلنے کا سلسلہ عہد نبوی کے بعد بھی جاری رہا۔ایک عرب تاریخ دان کے مطابق آخری مرتبہ 1256 عیسوی میں اس خطے کے آتش فشاں سے گرم لاوا خارج ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔ 76 حجاز میں 1256عیسوی میں ایک آتش فشاں پہاڑ پھٹا تھااور اس سے کئی ہفتوں تک انگارے برستے رہے تھےجس سے خارج ہونے والا آتشی لاوا کئی میل تک بہتا چلا گیا تھا۔ 77
حراجات کے پتھر سیاہ ہیں اور یہ عموماً کافی بلند ہیں یہاں تک کہ بعض کی بلندی پانچ ہزار (5000)فٹ سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض پر موسم ِ سرما میں برف بھی پڑتی ہے۔ بعض نے ان کی تعداد سو (100) تک شمار کی ہے۔ ان میں سے مشہور حرہِ عوریض ، حرہِ خیبر ، حرہِ سلیم اور مدینہ منورہ کے دو حرے حرہ الوبرہ اورحرہ واقم ہیں۔مدینہ کے یہ دونوں حرےحجاز کے پہاڑوں میں نہیں بلکہ اس سے متصل تہامہ کے مشرقی پہلو میں ہیں۔ حرے کی زمین بیسیوں میل پر پھیلی ہوتی ہے اور سخت کھردری اور ناہموار ہونے کے سبب جانوروں اور انسانوں کے چلنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یہ حرے یا آتش فشانی لاوے کے قطعات زیادہ تر تبوک اور مکہ کے درمیانی علاقے میں ہیں۔ 78
جزیرہ ِ نما عرب کے جنوبی اور مغربی حصے مختلف بلندیوں پر مشتمل پہاڑی سلسلوں سے گھرےہوئے ہیں ۔ جنوب کی طرف یمن میں ان پہاڑوں کی اونچائی 14000 فِٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ شمال کی جانب مَدیَن(Midian) میں 79ان کی بلندی 10000 فِٹ تک ہے ۔ 80 ان پہاڑی سلسلوں کا آغاز جنوب میں حضر موت سے ہوتا ہے اور یہ پہاڑی سلسلے ساحلی پٹی کے ساتھ چلتے چلتے یمن اور عسیر تک جاتے ہیں ۔یہ پہاڑی سلسلے حجا ز کے خطےسے گزرتے تھے اور مکہ اور طائف کے علاقوں سے ہوتے ہوئے سینائی، فلسطین، اردن، شام اور لبنان کے پہاڑی سلسلوں سے جاملتے ہیں۔
مشرقی علاقے میں چھوٹے پہاڑی سلسلے موجود ہیں، خاص طور پر عمان میں جہاں الاخضر نامی پہاڑ کی اونچائی 10000 فِٹ تک پہنچ جاتی ہے۔81 جِبَالُ السَّرَوَات کے پہاڑی سلسلے میں، یمن دارالخلافہ صنعاء کے مغرب میں جبل النبی شعیب (Jabal-un-Nabi Shu’ayb) ہے جس کی اونچائی 12300 فِٹ سے زیادہ ہے۔ جِبَالُ السَّرَوَات کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ تقریباً 39 میل چوڑا تہامہ کا ساحلی میدان ہے جو بحرِ احمر سے لے کر اس پہاڑی سلسلے کے دامن تک پھیلا ہوا ہے۔ 82
تصویر: جِبَالُ السَّرَوَات کا پہاڑی سلسلہ اور تہامہ کا ساحلی میدان۔ 83
جزیرہ نما کے مغربی جانب، پہاڑ تیزی سے بڑھتے ہیں اورسادہ اور نسبتاً زرخیز زمینوں کی ایک تنگ ساحلی پٹی کو الگ کرتے ہیں۔ مغرب کا پہاڑی سلسلہ اوسطا ً چار ہزار (4000) فٹ بلند ہے۔ 84 اس پہاڑی سلسلے کو حجا ز کہا جاتا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ پہاڑوں کا ایک دیوارنما سلسلہ ہے جو سطح مرتفع نجد اور تہامہ کے درمیان حائل ہے ، حجاز ، جبل السروات کا ایک شمالی جزء ہے۔ اس کا طول سات سو(700) میل اور عرض مع تہامہ پونے تین سو(275) میل کے قریب ہے۔ اس کے مشرق میں وسیع سطح مرتفع ہے جس کو نجد کہتے ہیں جب کہ مغرب میں تہامہ کا ساحلی میدان ہے ۔ گو کہ حجاز جبل الحجاز کو اور تہامہ ساحل و نشیب ِ حجاز کو کہتے ہیں تاہم ان دونوں پر لفظ حجاز کا اطلاق ہوتا ہے یوں اسی خطہ ِ تہامہ میں مکّہ اور مدینہ کے مقدس شہر آباد ہیں۔ جبل السروات کے جنوبی پہاڑ وسطی پہاڑوں کی نسبت بہت بلند ہیں۔ شمال اور جنوب کے پہاڑوں کے برخلاف وسطی پہاڑ سپاٹ اور خشک ہیں ۔ یہ شادابی کا سبب بننے کی بجائے ہواؤں کو گرم کرتے ہیں اور ان علاقوں کا درجہِ حرارت بڑھاتے ہیں۔ البتہ حجاز کے مشرقی دامن میں وادیا ں اور میدان نسبتاً شاداب ہیں۔ 85
جبل الحجاز کے وسطی علاقے کی سب سے اونچی چوٹی مدینہ منورہ کے قریب واقع جبل الورقان ہے جس کی بلندی 2400 میٹر یا 7874 فٹ ہے۔ نجد کی سطح مرتفع کی عمومی اونچائی 2500 فِٹ ہے۔عرب کے شمالی علاقے منطقہ ِ محمیہ میں سرخ گرینائٹ کی ایک چوٹی ہے جس کا نام آجا (Aaja’)ہے جو سطح سمندر سے پانچ ہزار پانچ سو (5500) فٹ بلند ہے۔86
مشرق میں عمان کی سرزمین پر جھریوں کی مانند پہاڑی سلسلے ہیں جو طبعی طور پر جنوبی فارس سے جاملتے ہیں۔ شام اور فلسطین کے پہاڑی سلسلےعرب کے مغربی حصہ میں موجود ہیں جو عرب کے زمینی منظر نامے میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔87
مغربی پہاڑی سلسلے کی مشرقی سمت میں ساحل ِ سمندر سےتقریبا ایک سو پچاس(150) میل اندر، وسیع بالائی زمین واقع ہے، جسے نجد کی سطح مرتفع کے نام سے جاناجاتا ہے جو آہستہ آہستہ مشرقی ساحل کی طرف ڈھلتی جاتی ہے۔88 عرب کا وسیع سطح مرتفعائی خطہ ،جزیرہ نما عرب کے پہاڑی جغرافیہ کی ایک اہم خصوصیت ہے جس کا بلند جنوب مغربی کنارہ بحیرہ احمر کی طرف پھیلا ہوا ہے جبکہ شمال مشرق میں میسوپوٹیمیا (بین النہرین، دجلہ و فرات کی وادی) کے میدانی علاقوں اور خلیج فارس کی گہرائیوں تک ایک طویل ہلکی ڈھلوان ہے۔مشرقی اور مغربی حدود کی جانب عرب کا یہ سطح مرتفعائی علاقہ مختلف النوع خصوصیات کے حامل پہاڑی مناظر سے گھرا ہوا نظر آتا ہے۔89
نجد کا سطح مرتفع شمالی اور جنوبی ریگستانوں یعنی النفوذ اور الربع الخالی کے درمیان تقریباً آٹھ سو (800) میل طویل اور تقریباً سوا دو سو (225) میل عریض ہے۔ نجد ایک نیم صحرائی لیکن شاداب خطہ ہے۔ اس میں متعدد وادیاں داخل ہوتی اور اس سے گزرتی ہیں نیز اس میں متعدد پہاڑ ہیں یوں اس علاقے کو اپنی ضرورت کا پانی مل جاتا ہے جو اسے سرسبز و شاداب بناتا ہے۔ مغربی کنارے پر اس کی بلندی ساڑھے تین ہزار (3500) فٹ اور مشرقی کنارے پر اس کی بلندی ڈھائی ہزار (2500) فٹ ہے۔ یہ اصل عربی تمدنی خصوصیات رکھنے والا مختلف النوع خطہ ہے جہاں پہاڑ بھی ہیں، وادیاں بھی، صحرائی علاقے بھی اور میدانی خطے بھی۔ اس کے بعض حصوں میں بڑے بڑے نخلستان بھی ہیں۔عرب کے عمومی خشک اور گرم ماحول میں ان امتیازی خصوصیات کی وجہ سے اہل ِعرب اس خطے کو جنت تصور کرتے تھے۔ نجد کا وہ حصہ جس کا ذکر عرب شاعری میں بکثرت ملتا ہے وہ دراصل اس کا شمالی میدانی علاقہ ہے جو حجاز، شمراور طویق کے پہاڑوں کے درمیان ہے اور اسے اب القصیم (Al Qassim) کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ کہیں کہیں میلوں تک بے قاعدہ نشیبوں میں چلا جاتا ہے ۔ان نشیبوں میں جاڑوں میں ہونے والی بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے جو موسم ِ سرما کے اختتام تک خشک نہیں ہوتا ہےقصیم میں مشرقی ہوا بڑی پرکیف ہوتی ہے جو تازگی اور کیف پیدا کرتی ہے۔اسے صبا کہا جاتا ہے اور اس کا عرب شاعری میں بہت تذکرہ ملتا ہے۔90
عرب کر ۂ ارض کا گرم ترین اور انتہائی خشک خطہ ہے۔ 91خط سرطان (Tropic of Cancer)، بحر احمر اور عرب کےسطح مرتفعائی علاقہ کے درمیان سے خلیج عمان پر مسقط تک گزرتا ہے۔ اسی لیے عرب ، صحارا کی زیادہ دباؤ والی ایکسٹرا ٹراپیکل ہائی پریشر بیلٹ (Extra-Tropical High-Pressure Belt) پر موجود ہے جبکہ فلسطین، شام اور عراق بحیرہ روم کی پٹی (Mediterranean Belt) پر واقع ہیں۔ 92اسی لیے عرب کا موسم نسبتاً سخت ہے۔ گرمیوں میں یہاں سخت گرمی پڑتی ہے اور سردیوں میں موسم کافی سرد ہوتا ہے۔ سردیوں میں شمالی اور جنوبی علاقوں میں بعض مقامات پر درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔ 93
گرمیوں میں عرب کرہِ ارض کے سب سےگرم ترین خطوں (Maximum Heat Zones)میں شمار ہوتا ہے۔ جولائی کے مہینے میں عرب کا درجۂ حرارت 95 ڈگری فارن ہائیٹ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ عرب کے اندرونی حصوں کی بنسبت عرب کے ساحلی علاقوں میں اکثر و بیشتر گرمی زیادہ اور شدید نوعیت کی ہوتی ہےکیونکہ خلیج فارس اور بحراحمر کے تین اطراف سےخشکی سے گھرے پانیوں میں آبی بخارات بننے کی وجہ سے ساحلی علاقوں کی فضا میں نمی کے تناسب میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ 94
اس خطے کے خشک نیم حاری منطقے (Arid Subtropical Zone) میں واقع ہونے کے سبب، تیز رفتار
سردیوں میں مغربی تیز ہواؤں کی بیلٹ کی خصوصیات کے حامل طوفانوں کا سلسلہ عام ہوتا ہے جو اپنی نمی لبنان اور فلسطین کی پہاڑیوں پر جمع کرتے ہیں یا پھر سلسلہءِ کوہِ مشرقی لبنان (Eastern Lebanon Mountain) سے بننے والی دوسری فصیل پر ۔ جب ہوا ان دونوں فصیلوں کو عبور کرتے ہوئے گزرتی ہےتو یہ بالکل خشک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شام کا صحرا اور صحرائے عرب کا شمالی حصہ بھی خشک ہے۔ اس پوری پٹی میں بارش نہیں ہوتی اور گرمیوں میں یہاں شدت کی گرمی پڑتی ہے جس کی وجہ سے عرب قحط سالی کا بھی شکار رہتا ہے۔ عرب میں بارشوں کا نہ ہونا یا خشک سالی کی کیفیت، ہائی پریشر بیلٹ میں اس کی پوزیشن کی وجہ سے ہے نیز اس کے کناروں پر پہاڑوں کی صورت موجود بلند و بالا رکاوٹیں بھی اس کا سبب ہیں جوکسی بھی قسم کی نمی کو اندر آنے سے روکتی ہیں۔96
اس طرح جنوب اور شمال میں موجود پہاڑی سلسلے بالترتیب بحر ہند سے آنے والی مون سون بارشوں اور سردیوں میں بحر اوقیانوس اور بحر روم سے آنے والی بارشوں کے سلسلوں کو عرب کے اندرونی حصہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اس لیے اکثر علاقوں میں بارشیں بہت ہلکی ہوتی ہیں لیکن مکہ مکرمہ، مدینہ، طائف اور ریاض سمیت کئی مقامات پر کبھی کبھار شدید بارش بھی ہو سکتی ہے۔ متعدد وادیوں، ندی نالوں اور بہتے پانی کے آثار کا وجود اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غیر واضح قدیم زمانے میں زمین ممکنہ طور پر زیادہ مرطوب تھی اور اس خطے میں کافی بارش ہوتی تھی۔97
الحجاز میں خشک سالی کا موسم ممکنہ طور پر تین یا اس سے زیادہ سالوں تک پھیلا ہوتا ہے۔ مختصر عرصے اور غیر معمولی طاقت کے باد و باراں کےطوفان مکہ اور مدینہ منورہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان بارشوں کے بعد ریگستانوں میں سخت جان جنگلی پودے نمودار ہواکرتے ہیں۔حجاز کے شمالی حصے میں بارشوں کے سبب مختلف مقامات پر بننے والے نخلستان زندگی کی بقاء کے ضامن تھے۔98
سرزمین عرب کے اکثرحصوں کی آب و ہوا گرم و خشک تھی۔ یہاں کے بلند حصوں میں گرمیوں کے زمانہ میں رات معتدل ہوتی تھی اور جاڑوں میں پانی جم جاتا تھا۔ صبا کہلانے والی مشرقی ہوا یہاں سب سے بہتر سمجھی جاتی تھی جبکہ بادِ سموم اس کے بالکل برعکس تھی جو جھلسا دینے والی گرم ہوا تھی۔ یہاں کا سب سے اچھا موسم ربیع تھا جو بارشوں کے بعد آتا تھا۔ اس موسم میں گھاس اُگ آتی تھی جس سے خشک زمینیں لہلہا اٹھتیں اور مویشیوں کے چارے کا انتظام ہوجاتا تھا۔99
عرب کا موسم عام طور پر بہت سخت سمجھا جاتا تھا لیکن تاریخ نویسوں نے عرب کے موسم کو مجموعی طور پرمعتدل یعنی قابل برداشت قرا ر دیا ہے کیونکہ اس میں سردی وگرمی اور بہار وخزاں کے سارے موسم پائے جاتے تھے۔عرب کے حجازی حصے طائف میں سخت سردی پڑتی تھی کیونکہ یہ بلند مقام تھا اور یہاں چشمے اور نہریں موجود تھے ۔ خیبر میں سخت ترین گرمی پڑتی تھی کیونکہ یہاں کی آب وہوا سخت ہونے کے ساتھ ساتھ مضر صحت بھی تھی اورعموما وبائی رہتی تھی اوراس وجہ سے یہاں رہنے والوں اور نئے آنے والوں کو شدید قسم کا بخار چڑھ جاتاتھا۔اس کے بارے میں ایک جاہلی عرب شاعر نے یوں کہا :
ومن یک امسي في بلادمقامه
یسائل اطلالا بھا لاتجاوب
وقفت بھا ابکی واشعر سخنة
كمااعتاد محمومابخیبر صالب.100
کون بلادِمقامہ میں شام کے وقت آئے اوروہاں ان کھنڈرات سے سوال کرے جو جواب نہیں دیتے۔ میں وہاں روتاروتاگیا،مجھے اس قدر گرمی محسوس ہوئی جس طرح خیبر کے علاقے میں تپ زدہ آدمی کو سخت بخار آلیتاہے۔101
سر زمین عرب پر سب سے زیادہ انتظار موسم ربیع کا ہوتا تھا۔ بارشوں کے بعد جب سبزہ لہلہانے لگتا تو ہر طرف ہریالی نظر آتی، اس موسم کا انتظار انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی ہوتا تھا جب انہیں گھاس و چارہ وافر مقدا ر میں ملتا۔ نجد بھی عرب کاایسا ہی بہترین آب وہوا والا علاقہ تھا اور یہاں بارشیں بھی بکثرت ہوتی تھیں جس کی وجہ سے اس علاقہ کی شادابی زبان زدِ عام تھی۔جاہلی عرب شاعر نے نجد کی شادابی کے متعلق یوں کہا:
تمتع من شمیم عرار نجد
فما بعد العشیةمن عرار
الا یا حبذا نفحات نجد
وریا روضه بعد القطار102
نجد کی عرارنامی بوٹی سے فائدہ اٹھالو ورنہ آج رات کے بعد کوئی عرار نہیں ملے گی۔نجدکی خوشبواور بارش کے بعد وہاں کے باغات کی مہک کس قدر بھلی معلوم ہوتی ہے۔103
عرب کے دیگر شعرا ء جو اپنی فصاحت و بلاغت اور زبان دانی کی وجہ سے مشہورتھے انہوں نےبھی اپنے قصائد میں عرب کے موسموں کا تذکرہ بہت تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔104
جزیرہ نما عرب میں ابتدائی تاریخ سے ہی انسانی آبادی موجود تھی۔105عرب کے جغرافیائی محل ِ وقوع نے بھی اس کے غیر آباد نہ ہونے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ 106تاریخ دانوں نے عرب کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک شہروں میں رہنے والے افراد تھےاور دوسرے صحرا نشین بدوی قبائل تھے۔107بدوی قبائل خانہ بدوش قبیلوں پر مشتمل تھے جو خودکواور اپنے مویشیوں کو زندہ رکھنے کے لیے خوراک کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔108 اس کے برعکس شہروں میں رہائش پذیر باشندے ایک ہی مقام میں زندگی گزارتے کیونکہ وہ لوگ یا تو تجارت سے وابستہ تھے یا کاشتکاری کرتے تھے۔ ان کے کاروبار اور تجارتی تعلقات اپنےشہر میں رہنے والے کاروباری افراد اور دوسرے شہروں کے تاجروں سے ہوتے تھے۔109 عرب کا قدیم شہر مکّہ کو تصور کیا جاتا ہے جس کا قدیم نام بکہ تھا۔110
عرب کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں واضح فرق ہے۔ عرب کے جنوبی حصہ میں یمن، خلیج فارس کی ساحلی پٹی اور بحر عرب کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ یہاں شہروں ، مختلف قصبوں اور تمدنی اور تہذیبی زندگی کا وجود تھا جبکہ اس کے برعکس عرب کے دیگر علاقے زیادہ تر خشک اور بنجز زمین پر مشتمل تھےجہاں کے رہنے والےخانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرتے تھے۔ جنوبی عرب کی زرخیزی اور بہتر سیاسی و انتظامی نظم کے سبب یہ علاقہ عرب کا ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ترین خطہ تصور کیا جاتا تھا۔111
عرب کے جنوب میں یمن اور جنوب مشرق میں خلیج فارس کی ساحلی پٹی ہے ۔ جنوبی عرب کے علاقے زرخیز، پیداواری صلاحیت رکھنے والے اور ترتیب وار موسموں کے حامل علاقے ہیں جہاں مناسب مقدار میں بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ یہاں متعدد شہر آباد ہیں اور تہذیب و تمدن قائم ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے باشندے باصلاحیت اور عقل مند بھی ہیں۔112 یہاں کے باشندے قدیم سامی، سبائی یا ہمیارائی زبان بولتے تھےجو افریقہ کے ایتھوپیائی(حبشی) زبان سے کافی مماثلت رکھتی تھی۔ جنوبی عرب کے باشندے رومی نسل کی طرح طویل الراس تھے اور اس کے ساتھ ہی ان میں ساحلی لوگوں کی صفات کا بھی عکس موجود تھا۔ ان کے چہرے گول، چوڑے جبڑوں والے چپٹے گال، عقابی ناک اور جسم پر بالوں کی کثرت تھی۔ جنوبی عرب وہ پہلے باشندے تھے جنہوں نے اپنے بل بوتے پر ایک ترقی یافتہ تہذیب پروان چڑھائی تھی۔113
جنوبی عرب میں معاشرے کا قیام زراعت کی وجہ سے تھا۔یہاں سے ملنے والے کتبوں سے یہاں پانی کے بندوں، نہروں، جگہوں کی حدود اور کرائے پر حاصل کی گئی زمینوں کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ عوامل زراعت کے شعبے میں ان کے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہونےکی طرف اشارہ کرتے ہیں۔114 جنوبی عرب کے باشندے بارشوں کا بہتر استعمال کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے بارش کے پانی کو سمندر میں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے انسانی ضروریات اور زراعت کو پروان چڑھانے کے لیے مارب میں پانی جمع کرنےکے لیے بند تعمیر کیا تھا۔ جب بلند پہاڑوں پر بارشیں ہوتیں تو 400 میٹر چوڑی وادی میں شہر مارب کے مشرقی حصہ میں دونوں طرف پہاڑوں کے سبب پانی جمع ہوجاتا تھا۔ اس کے بعد یہ پانی مختلف چشموں اور چوڑے چٹیل میدان میں پھیل جایا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے انتظامی اور تکنیکی امور میں یمن کے باشندوں نے کمال حاصل کیا تو انہوں نے دونوں پہاڑوں کے درمیان کم چوڑے مقام پر ایک بند تعمیر کیا جس کی وجہ سے پانی کی منظم ترسیل کا قیام ممکن ہوا تھا۔ انہوں نے زمین کی پیداوار اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ملکی وسائل کامہارت کے ساتھ استعمال کیا۔ حمیری تہذیب کی باقیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تہذیب اپنے دور میں بڑی شان و شوکت کی حامل تھی ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس جنگوں اور سیاسی کشمکش سے مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط وسائل بھی دستیاب تھے۔115
جنوبی عرب میں مرکلی، اناج، لوبان، خوشبوؤں اور اس کے علاوہ دیگر اشیاء کی پیداوار ہوتی تھی۔ یہ تمام اشیاء جنوبی عرب کی اہم برآمدات تھیں۔ قدرت کی جانب سے اس سرزمین کو باکمال شہرت حاصل ہوئی تھی۔ مغربی ادب میں عرب کی اشیاء کے بارے میں کثیر حوالۂ جات موجود ہیں جو جنوبی عرب کے اس خطہ اور اس میں پیدا ہونے والی اشیاء کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔116
شمالی عرب کے باشندے بھی میڈیٹرینی نسل (Mediterranean Race)سے تعلق رکھنے والے طویل الراس افراد تھے۔ اسلام سے قبل عالمی سیاسی بساط پر ان کا نام کہیں نہیں تھا اور یہ عالمی معاملات میں زیادہ اثر و رسوخ نہیں رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شمالی عرب کے زیادہ تر باشندے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارتے تھے۔ 117 یہ خالص بدوی عربی باشندے بہترین جسمانی ساخت کے حامل بلند قدو قامت رکھنے والے لوگ تھے۔ ان کی آنکھیں تیز سیاہ ، بال کالے اور کھال گہری رنگت کی تھی۔ یہ لوگ بہادر، سخت جان اور کشادہ دل لوگ تھے۔ ان کی خوراک اور عادات بہت سادہ تھیں۔ ان کی خوراک میں زیادہ تر روٹی، دودھ، کھجور اور تھوڑا بہت بکری کا گوشت شامل ہوتا تھا۔118 یہ لوگ کھجور کی چھال کے بنائے گئے مکانات میں رہتے تھے۔ ان کی زیادہ تر آبادی الحجاز اور نجد کے علاقوں میں مقیم تھی۔ یہ لوگ وہی عربی زبان بولتے تھے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔119 قدیم دور سے ہی صحرا نشین عربی قبائل کا شمار فیاض ترین باشندوں میں ہوتا تھا۔120عرب کے ان بدوی قبائل کی عورتیں بھی ایک حد تک آزادی کی زندگی گزارتی تھیں تاہم یہاں کثرت ِ ازدواج کا رواج تھا۔ ان قبائل کی عورتوں کو شوہر چننے اور وسائل مہیا نہ ہونےیا بدسلوکی کرنے کی صورت میں اسے چھوڑنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔ 121
عرب کے بدوی باشندوں کی شہریوں کی طرح وسائل سے بھرپور زندگی گزارنے کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ یہ لوگ مستقل طور پر چراگاہوں کی تلاش اور اپنی وقتی ضروریات کی تکمیل میں سرگرداں رہتے تھے۔ صحرا میں بقائے زندگی کی بنیاد قبیلے کی صورت میں رہنے پر منحصر تھی۔ 122 قبائلی زندگی میں ذاتی ملکیت کا تصور موجود نہیں تھا اس لیے ان کے یہاں سبزہ زار اور پانی کا استعمال پورا قبیلہ مشترکہ طور پرکرتا تھا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے ریوڑ بھی مشترکہ ہوتے تھے اورمختلف قبیلوں کے وسائل باہم استعمال کرلیے جاتے تھے۔ ذاتی ملکیت میں صرف وہی اشیاء ہوتیں جنہیں کوئی شخص آسانی سے اپنے ساتھ رکھ سکتا تھا۔123
بدوی قبائل چونکہ مستقل ایک مقام سے دوسرے مقام میں سفر کرتے رہتے تھے اور باقی دنیا سے تقریباً کٹےہوئے تھے اس لیے انہیں کسی عالمی قانون اور سیاسی نظام سے زیادہ آگاہی نہیں تھی تاہم وہ لوگ اپنی ذات، خاندان ، اور قبیلے کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ 124عرب کے بدوی سماج میں اکیلے فرد کے بجائے گروہ میں رہنے والے تما م افراد (قبیلہ ) معاشرتی اکائی تصور کیے جاتے تھے۔ یہ لوگ ایک گروہ کی صورت میں ذاتی حفاظت، صحرا کی سختی اور مصیبتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ساتھ رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک باپ سے چلنے والی نسل بھی قبیلے کی صورت میں رہتی تھی۔125عرب میں متعدد قبائل آباد تھے ۔ عام طور پر چھوٹا قبیلہ بڑے اور طاقتور قبائل سے اتحاد کرلیتاتھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ چھوٹے قبائل مشہور اوربڑے قبیلوں میں خود کو ضم کرلیا کرتے تھے۔ 126 بدوی قبائل کی زندگی کا انحصار مویشیوں کے ریوڑ اور گزرنے والے کاروان پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کرنے پر منحصر تھا۔ عام طور پر بدوی قبائل ایک ساتھ مل کر کسی کاروان پر حملہ کرتے جس کے ذریعے دوسرے ممالک اور اقوام سے لائی گئی اشیاء ان لوگوں تک پہنچتی رہتی تھیں۔127
عرب کے بدوی باشندے اپنے وقار اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے جو ان کی صحرائی آزاد زندگی کے ضامن تھے۔ اسی وجہ سے صحرائی باشندے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو کبھی معاف نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا مقابلہ کرنے کے عمل میں پوری طاقت لگادیتے تھے۔ اگر وہ ناانصافی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتے تو اس مقام کو ہی چھوڑ کرچلے جاتےتھے اور صحرا کے کسی اور مقام پر سکونت اختیار کرلیتے تھے۔ صحرائی زندگی کی یہ خصوصیات تہذیب کے ارتقاء ، انصاف، بہادری، مہمان نوازی، پڑوسیوں کی حفاظت، بھائی چارہ، فراخ دلی اور خیر خواہی کے جذبے پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ۔ یوں یہ خصوصیات صحرائی، دیہی اور کوہستانی زندگی میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جبکہ شہروں میں ان خصوصیات کا فقدان نظر آتا ہے۔ 128
عرب کے درختوں کا سلطان کھجور ہے۔ اسی کا پھل عرب کا اصل پھل سمجھا جاتا تھاجو آج بھی نہایت کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ کھجور عربوں کی سب سے زیادہ مرغوب غذاتھی۔ بدویوں کے دسترخوان کی زینت دودھ اور کھجور ہی تھے۔ خشک کھجوروں کو تمر کہا جاتا تھاجنہیں کافی لمبے عرصے تک سنبھال کر رکھا جاسکتا تھا۔ کھجور کے خمیر سے ہی اہلِ عرب نبیذ بناتے تھے جسے عرب میں بہت پسند کیا جاتاتھا۔129
حجاز، حضر موت، عمان، یمامہ اور بادِیۃ ُالعراق میں کھجور کی کثیر پیداوار ہوتی ہے۔ حجاز میں پیدا ہونے والی اعلی کھجوریں مدینہ میں پائی جاتی ہیں۔ کھجور کے درختوں پر پھل آنے میں 15 سال لگتے ہیں۔ ایک کھجور کے درخت پر اوسطاً 50 کلو کھجور کی پیداوار ہوتی ہے۔ عام طور پر کھجور کے درخت 20 سے 30 میٹر اونچے ہوتے ہیں اور ان کی عمر تقریباً 100 سے 200 سال ہوتی ہے۔130
کھجور کے علاوہ عرب کے بعض علاقوں میں دیگر پھلوں کی بھی پیداوار ہوتی ہے جس میں انار، سیب، انگور اور دیگر پھل شامل ہیں۔ عربوں کی شاعری میں مختلف پودوں اور درختوں کا ذکر ملتا ہے جس میں کیکر، مختلف اقسام کے تمرس جیسے اتھل، طرفہ اور غدا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جند، دیودار، مہندی، جنگلی نرگس، آرک کا درخت، جیکا رانڈا اور دیگر پودے اور درخت شامل ہیں۔131عرب میں مختلف اقسام کے پودے بھی پائے جاتے ہیں جن میں ایلوا ویبری، ایلوا فیروکس، امریکی ایلوا، ایلو ویرا، دنتیلا مکونوونا ، گُلِ خيرا، کاکا ٹنڈی، ایسپریگن ڈینسفوریلس، بارلیریا آبٹیوسا، لمبا بوگن ویلیا، بوٹل برش، گُلِ تسبیح، کروندہ، کارپوبروٹس ڈیلیسیوسس، تیج بات، سیلوسیا کرسٹاٹا، سیلوسیا پلوموز، سیفالوفیلم الستونی، کوناکارپس ایریکٹس، نربسی نرسل، سوٹی لیڈن آربی کیولیرِس،سناتھا، ڈیورنٹا پلمری، سہند، کام روپ، امریکی فِکسس، فکسس ٹمیلیسوسا، فوکس بنگلینس، گازانیہ یونی فلورا، گازانیہ اسپلینڈنس، ہیمیلیا، سورج مکھی، گڑھل، پوراوپودا، امریکی روبوسٹا، امریکی صنوبر، سیٹکریسا پلیڈا، سیسیوویم پورٹیولا کاسٹرم، مرچ کا سدا بہار درخت اور اس کے علاوہ کثیر نباتات شامل ہیں۔132 اس کے علاوہ مختلف اقسام کی گھاس، جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں ریتیلے ٹیلوں پر اگا کرتی تھیں۔ متعدد ڈھلوان نما ریتیلے ٹیلوں پر سبزہ زاروں کے آثار ملتے ہیں اور ان کی موجودگی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ صحرائی ریت میں بھی نباتاتی زندگی پنپ سکتی ہے۔ عام طور پر صحرا میں جو ریتیلی گھاس پائی جاتی ہے ان میں ابو رکبہ، اسٹیگروسٹِک ابتوسا اورشجرۃ الجمل شامل ہیں۔ 133 اس کے علاوہ عرب کے مختلف علاقوں میں مزید کئی طرح کے پھل، نباتات اور پودے بھی پائے جاتے تھے۔
جزیرہ نما عرب میں کئی اقسام کے جانور، چوپائے، پرندے، کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض پائے جاتے ہیں جو یہاں کے طبعی اور جغرافیائی خواص سے مطابقت رکھتے ہیں۔ پانی کی کم یابی، موسم کی شدت اور صحرا کی ریتیلی زمین اور کوہستانوں کی سختیوں کا باآسانی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھنےکے سبب اونٹ کرہِ ارض کے دیگر صحرائی خطوں کی طرح عربوں کے نزدیک بھی سب سے مفید اور کار آمد جانور تصور کیا جاتا ہے اسی لیے اسے عرب کا جہاز کہا جاتا ہے۔ صحرا کی ریتیلی زمین اور خشک موسم میں اونٹ کے بغیر سامان کی ترسیل اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا انتہائی مشکل سمجھا جاتاتھا۔ اونٹ عربوں کی سواری، دلہن کا جہیز، خون بہا یا دیت، قمار باز کی کمائی اور شیخ کی حیثیت کا نشان تھا یہاں تک کہ ہر چیز کا تخمینہ اونٹوں کی تعداد کے پیمانے سے بھی لگایا جاسکتا تھا یوں یہ قیمتی چیزوں کی خرید و فروخت کےلئے بطور ِ کرنسی بھی استعمال ہو تا تھا۔یہ عرب کے صحرا نشینوں کا دائمی رفیق تھا۔ 134
اونٹ ایک گھنٹہ میں 5 سے 6 میل اور 24 گھنٹوں میں 15 سے 16 گھنٹے بغیر کسی پریشانی کے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اونٹ کی اوسط عمر 30 سال ہوتی ہے۔ 135سرخ اونٹ بردباری، تحمل اور قوت برداشت کی وجہ سے عربوں میں اعلی نسل کے تصور کیے جاتے تھے۔ 136سخت گرم موسم میں بھی اونٹ کئی دنوں تک بغیر پانی کے زندہ رہ سکتا ہے جبکہ درمیانے موسم میں کئی ہفتوں تک بغیر پانی کے زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 137اہلِ عرب اونٹ کا دودھ پانی کی جگہ پیا کرتے تھے اور اس کے گوشت سے مہمانوں کو ضیافتیں کھلاتے تھے۔ اس کی کھال سے اپنا بدن ڈھانکتے اور بالوں سے خیمہ بناتے تھے۔ یہاں تک کہ اونٹ کی مینگنی ایندھن کے طور پر استعمال کی جاتی اور اس کا بول دوا اور بال بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ 138
عرب میں اونٹ کی بے شمار اقسام پائی جاتی تھیں اور ہر قسم کی اپنی اپنی کوئی نہ کوئی خصوصیت تھی جس کی بناء پر عربوں نے اونٹوں کے لیے الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے۔ان اونٹوں میں سے بعض اقسام کے نام حسب ذیل ہیں:
اونٹوں کی یہ تمام اقسام مختلف علاقوں میں پائی جاتی تھیں جن کی نسبت سے ان کے نام بھی موسوم کیے گئے تھے۔ عربوں میں اونٹ کے بعد گھوڑا سب سے مفید جانور تصور کیا جاتا تھا۔ گھوڑوں کو جنگوں اور روز مرہ کی زندگی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے اور سامان لانے لے جانے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ 140کہا جاتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل وہ پہلے شخص تھے جو گھوڑے عرب میں لے کر آئے اور انہیں سدھایا تھا 141تاہم دیگر محققین کا خیال ہے کہ عرب میں سن عیسوی سے پہلے گھوڑے موجود نہیں تھے۔ عرب میں انہیں وسطی ایشیا سے منتقل کیا گیا تھا۔ 142ان دونوں حوالوں میں پہلا حوالہ زیادہ مضبوط لگتا ہے کیونکہ نجد کا خطہ گھوڑوں کے حوالے سے اپنی شہرت رکھتا تھا نیز اس کے علاوہ عرب کے مشہور گھوڑوں کو شامی صحرا کی سرحدوں میں مقیم بدوی قبائل پالا کرتے تھے۔143
عرب کے گھوڑے اپنی عقل مندی، تحمل، جسمانی خوبصورتی اور مالک سے وفاداری کے لیے مشہور ہیں۔ اہل مغرب اچھی نسل کے گھوڑے کے جو اوصاف سوچتے ہیں یہ سب تصورات اسی نسل کےگھوڑوں سے لیے گئے ہیں۔144نجد کے گھوڑے 24 گھنٹوں تک بغیر پانی کے رہ سکتے تھے۔ ان میں سخت گرم موسم میں بھی 48 گھنٹوں تک بغیر آرام کے سفر کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہ گھوڑے اپنے مالک کے اشاروں کو سمجھنےکی خاص صلاحیت رکھتے تھے۔ انہیں مالک کی طرف سے کسی قسم کی آواز کی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ 145
عرب میں بکریاں اور بھیڑیں بھی گھریلو جانوروں میں اہم تصور کیے جاتے تھے۔ قبیلۂ بنو کلب اپنی بھیڑوں کے حوالے سے عرب میں مشہور تھا۔ 146یمن میں بنو ربیعہ اور مضر کے علاوہ تمام قبائل بکریوں اور بھیڑوں کی پرورش کیا کرتے تھے۔ انہیں اہل الغنم کہا جاتا تھا۔ 147پہاڑوں کے درمیان نخلستانوں میں، صحرا کی سرحدوں پر اور جہاں جہاں چراگاہیں پائی جاتی تھیں وہاں عرب بدو قبائل مویشی پالا کرتے تھے۔ عموماً بھیڑیں موٹی دُم والی ہوتی تھیں اور سیاہ رنگ کی بکریاں عام تھیں۔ 148
عرب میں گائے بھی پائی جاتی تھیں 149اور یہ زیادہ تر الاصحاء کے خطہ میں تھیں۔ 150اس کے علاوہ گدھا، عام پایا جانے والا کتا، شکاری کتا اور بلیّاں بھی عربوں کے گھریلو جانوروں میں شامل تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہجرت کے بعد حضور نے مصر سے خچر منگوایا تھا۔ 151اس کے علاوہ شتر مرغ، نیل گائے، ہرن اور شیر بھی عرب میں پائے جاتے تھے لیکن عرصہ ہوگیا ہے کہ یہ جانور ناپید ہوچکے ہیں۔ 152عرب میں شیر وں کی چودہ (14) مشہور کچھار پائی جاتی تھیں۔ ان میں جو زیادہ مشہور تھیں ان کے نام خفان، شرا اور ترج تھے۔ 153عرب کے دیگرجنگلی جانوروں میں چیتا، تیندوا، بھیڑیا، لگربھگا، لومڑی، گوہ خاص کر ضب پائی جاتی تھیں۔ 154بندر، بابون اور خرگوش مختلف مقامات پر عام پائے جاتے تھے۔ 155
ان کے علاوہ غير فقاریہ حشرات الارض ميں مچھر، پسو، دیمک، بھنورا، مہلک ٹڈیاں، ان گنت اقسام کی تتلیاں، پتنگے، جھانجھا اور گوشت خور حشرات
قدیم عرب میں بہت سی اقسام کےپرندے بھی پائے جاتے تھے جن میں عقاب، حُباری، باز، شاہین اور الّو شامل تھے۔ 158سفید دم والی چیلیں، سیاہ گدھ، چھوٹا عقاب، سبزہ زار میں رہنے والا پرندہ کورنکریک، پلور، مرغابی عرب کے مختلف مقامات پر پائے جاتے تھے۔ 159کووّں کی بڑی کثرت تھی۔ عام پرندوں میں ہُد ہُد، بلبل، چنڈول، کبوتر اور ایک قسم کا تیتر جو عربی زبان میں قطا کے نام سے مشہور ہے، پائے جاتے تھے۔ ابابیل کی تین اقسام عرب میں پائی جاتی تھیں۔ یہ زیادہ تر شمال، وسطی اور مشرقی عرب میں موجود تھیں۔ صحرا میں ٹڈیوں کی بہتات ہوتی تھی جو عرب بدوؤں کی من پسند غذا تھی اورخاص طورپر جب اسے نمک کے ساتھ بھون کر کھایا جاتا تھا تواسےعمدہ کھانا تصور کیا جاتا تھا۔ 160
عرب میں مقامی اور بدیسی دونوں خطوں کے پرندے پائے جاتے تھے۔ بدیسی پرندے شمالی یورپ، ہندوستان اور افریقی ممالک سے ہجرت کرکے عرب آتے تھے۔ مقامی پرندوں کی افزائش موسم سرما سے موسم بہار کے درمیان ہوتی تھی۔ ان پرندوں میں شکاری پرندے بھی پائے جاتے تھےجن میں عقاب، شاہین، شکرا، متعدد اقسام کے الّو، چنڈول، عربی قطاۃ، حُباری، چیلیں اور گدھ شامل تھے۔ اس کے علاوہ باز عسیر(Asir)میں پائے جاتے تھے۔ العاسوق نامی چھوٹا باز جسے لٹورا کہا جاتا ہے عرب میں ہر جگہ پایا جاتا تھا۔ مزید چمکیلا سیاہ کوّے جوڑے اور ریوڑ کی صورت میں اکثر دیکھنے میں آتے تھے۔ عرب میں تین اقسام کی چیلیں بھی معروف تھیں جن میں سفید دم والی، سنہری اور گندمی رنگ کی چیلیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ مصری گدھ بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ بڑے گدھ عسیر اور یمن میں بھی پائے جاتے تھے۔
ہجرت کرنے والے پرندوں میں پانی اور ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے پرندے شامل تھے جو شمالی یورپ اور خط استوا کے گرم خطوں سے موسم خزاں اور بہار میں عرب آتے تھے۔ ان پرندوں میں نحل خور، چہکنے والے نغمہ سنج، شور کرنے والے، مردار خور، ابابیل، چڑیا، چڑیوں کو کھانے والے پرندے، ہُدہد، کبوتر، بُلبُل، تغ دار (حبار) 161اور اس کے علاوہ دیگر بدیسی پرندے شامل تھے جو جوڑوں اور جھنڈ کی صورت میں ہجرت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سارس، بگلا، لال لم ٹنگو(Flamingo)، بطخ، پانی پر چلنے والے چھوٹے پرندے اور شامی شتر مرغ (Syrian Ostrich)بھی شامل تھی۔ یہ پرندے ساحل سے اور وقفہ وقفہ سے مختلف موسموں میں بننے والی جھیلوں میں اپنی خوراک اور دیگر ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ 162
ذیل میں عرب کے اہم خطوں تہامہ، حجاز، بحرین، عروض، عمان، نجد، یمامہ اور یمن کی طبعی و جغرافیائی خصوصیات اوراس کے اہم مقامات کا ذکر تفصیل سے کیا جارہا ہے۔
تہامہ نامی خطہ اپنے محل وقوع کے حساب سے عرب کا انتہائی اہم حصہ تھا کیونکہ یہ جزیرہ نما عرب کی ساحلی پٹی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔تہامہ ہی کے ایک مقام پر نبی اکرم کا مبارک بچپن گزرا تھا۔ 163تہامہ میں بحیرہ احمر اور عرب کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ موجود ساحلی پٹی کا علاقہ شامل ہے۔ اسے الغور کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔یہاں کا موسم ناقابل برداشت حد تک شدید گرم ہوتا ہے۔ بلادہذیل، صحرائے بوبات، قرن اور ینبع وغیرہ یہاں کے اہم مقامات ہیں۔
تہامہ"التہم" سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی "سخت گرمی" اور"حبس" ہے۔اس علاقہ میں گرمی ناقابل برداشت حد تک شدید پڑتی تھی اور ہوا رُکی رہتی تھی جس سے اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا اس لیے اس علاقہ کو "تہامہ" کہا گیاچنانچہ اس حوالہ سے معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتے ہیں:
تھامةوسمیت تھامة لشدة حرها وركود ریحها. 164
اور تہامہ کا علاقہ اپنی گرمی کی شدت اورہواکے ٹھہراؤکی وجہ سے تہامہ کہلایا۔
تاریخ میں اس کا دوسرا نام "الغور" مذکورہے کیونکہ نجد کے مقابلہ میں یہ علاقہ نشیب میں واقع تھا چنانچہ اسی حوالہ سے یاقوت حموی لکھتے ہیں:
فاذا انقطعت الجبال من نحو تھامةفما وراء ھا الى البحر فھو الغور والغور والتھامة واحد. 165
جب تم تہامہ کی جہت میں واقع پہاڑوں کو طے کرلو تو اس سے آگے سمندر تک کا علاقہ غور ہے اور غور وتہامہ ایک ہی ہیں۔
بحیرہ احمر اور عرب کے جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ جو ساحلی پٹی کا علاقہ ہے وہ قدیم زمانہ سےہی تہامہ کہلاتا تھا۔ ڈاکٹر شوقی خلیل لکھتے ہیں:
تہامہ وہ ساحلی پٹی تھی جو بحیرہ احمر(یعنی بحیرہ قلزم) کے ساتھ ساتھ شمال میں ینبع سے لے کر جنوب میں نجران تک پھیلی ہوئی تھی۔ 166
قدیم جغرافیہ دانوں نے اگرچہ تہامہ کو بھی ایک خاص صوبہ اور الگ حیثیت سے ذکر کیا ہے لیکن موجودہ جغرافیہ دانوں نے اس کو الگ حیثیت سے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس کو کوئی مستقل صوبہ سمجھتے ہیں بلکہ قدیم جغرافیہ دانوں کے برعکس اس کو حجاز ہی کا ایک ٹکڑاسمجھتے ہیں ۔سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
اب بہت سے اہل جغرافیہ کے نزدیک تہامہ کوئی مستقل صوبہ نہیں بلکہ وہ حجاز کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس بنا پر عرب کے حسب ذیل صوبے قرار دیے جاسکتے ہیں، عروض، نجد، یمن اور حجاز۔ ان چاروں صوبوں میں سے ہر صوبہ متفرق چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر منقسم ہے۔ 167
جن علماء نے تہامہ میں مکّہ کو بھی شامل کیا ہے ان میں سے ایک سید محمود شکری بھی ہیں۔ علامہ موصوف لکھتے ہیں:
ففیھا من البلاد مکةالمکرمة شرفھا اللّٰه تعالى. 168
پس اس (تہامہ)کے شہروں میں سے مکّہ مکّرمہ ہے۔خدا ئے تعالیٰ اسے شرف بخشے۔
لیکن جیسا کہ بیان ہوا کہ موجودہ مورخین تہامہ کو حجاز کا ایک ٹکڑا سمجھتے ہیں چنانچہ زیادہ تر علماء نے مکّہ کو حجاز ہی میں شمار کیا ہے۔
تہامہ میں بہت سے اہم علاقے تھے جن میں سے بعض ویران ہوچکے ہیں اور بعض اپنی پرانی حالت و صورت پر اب تک قائم ہیں ۔اب تک قائم رہنے والے علاقوں میں بلاد ہذیل یعنی نخلہ یمانیہ و نخلہ شامیہ سمیت بولات اورینبع شامل ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
بنی ہذیل کی دو بڑی شاخیں تہامہ کے مختلف علاقوں میں رہا کرتی تھیں جن میں سے اکثر اطرافِ مکّہ میں رہائش پذیر تھے اور تہامہ میں ایک بڑا علاقہ ان بنی ہذیل کی بستیوں کے حوالہ سے "بلادہذیل" کے نام سے مشہور تھا۔ 169یہ بلاد ہذیل مکے کے راستے میں دو رات کی مسافت پر واقع تھے جن میں دو بڑے اور باقی چھوٹے چھوٹے علاقے تھے۔ ان دو بڑے علاقوں میں دو "نخلہ" تھےچنانچہ مشہور مفسر جاراﷲ زمخشری اپنی کتاب میں اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
نخلة الیمانیة ونخلة االشامية وادیان لھذیل في طریق مکة علي لیلتین.170
مکّہ کےراستےمیں دوراتوں کی مسافت پر"نخلہ یمانیہ "اور"نخلہ شامیہ"کےنام سے دو وادیاں ہذیل کی تھیں۔
نخلہ یمانیہ کی آخری حد وادیِ یدعان تک تھی اورنخلہ شامیہ کی آخری حد بطن مر تک تھی۔اس حوالہ سے یاقوت حموی لکھتے ہیں:
واد یصب فیه یدعان. 171
نخلہ یمانیہ ایک ایسی وادی ہے جس میں وادی یدعان آکرمل جاتی ہے ۔
اسی نخلہ یمانیہ میں تہامہ کی ایک اور وادی سبوحہ بھی آکر ملتی تھی۔ جاراﷲ زمخشری لکھتے ہیں:
سبوحةواد في نخلة الیمانیة علي بستان بني عامر.172
سبوحہ،نخلہ یمانیہ میں بنی عامر کےباغات میں ایک وادی تھی۔
اسی طرح زین الدین ہمدانی یدعان وادی کی وضاحت سمیت نخلہ شامیہ کی حد ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یدعان واد به مسجد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وبه عسکرت ھوازن یوم حنین ونخلة الشامیة مجتمعھما بطن مر.173
یدعان وہ وادی ہےجس میں نبی اکرم ﷺ کی مسجد واقع ہے اورحنین کی جنگ میں قبیلہ ہوازن کی فوج یہیں خیمہ زن ہوئی تھی نيز نخلہ شامیہ بھی واقع ہے اوران دونوں کا نقطہ اتصال بطن مر ہے۔
یعنی نخلہ شامیہ اور یدعان جہاں آکر ملتےتھےاس مقام کا نام بطن مر تھا اوریہاں جو مسجد رسول واقع تھی اس کا نام لیہ تھا۔
دعان وادی میں جس مقام پر حضور نبی کریم اور صحابہ کرام خیمہ زن ہوئے تھے اس مقام پر خود رسول اﷲ نے ایک مسجد بنائی تھی۔ سمہودی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومنها مسجد لية،وبين وادي لية ووادي الطائف نحو ثمانية أميال قال ابن إسحاق سلك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين فرغ من حنين متوجها إلى الطائف على نخلة اليمانية ثم على قرن وهو مهلّ أهل نجدثم على المليج، ثم على بحرة الرّغا من ليةفابتنى بها مسجدّا وصلى فيه قال المطريوهو معروف اليوم وسط وادي لية رأيته وعنده أثر في حجر يقال به أثر خف ناقة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.174
ان ہی میں سے ایک مسجد لیہ بھی ہے، وادی لیہ اور وادی طائف کےدرمیان تقریباً ا ٓٹھ (8) میل کا فاصلہ ہےچنانچہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اﷲ حنین سے فارغ ہوکر طائف کی طرف متوجہ ہوئے تو نخلہ یمانیہ پہنچے، پھر قرن اہل نجد کےمیقات پر، پھر ملیج، پھرلیہ میں بحرۃ الرغا پہنچے۔ وہاں آپ نےمسجد بنائی اور اس میں نماز پڑھی۔حضرت مطری کہتے ہیں کہ یہ مسجد وادی لیہ میں آج کل مشہور ہےجسے میں نے دیکھا ہے اور وہاں پتھر میں ایک نشان ہے، کہتے ہیں کہ یہ رسول اﷲ کی اونٹنی کے پاؤں کا نشان ہے۔
یہ مسجدِ رسو ل کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی مسجد لیہ کے نام سے مشہورتھی اور مطری کے زمانے تک اس کی موجود گی کی روایات ملتی ہیں۔
بلاد ہذیل میں کئی چھوٹے چھوٹے درے واقع تھے جن میں ابام، ابیم، نحااورمراح مشہور تھے۔ان میں سے "ابام" اور "ابیم" چھوٹے چھوٹے پہاڑی درے تھے۔ جاراﷲ زمخشری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
ابام وابیم شعبان بنخلة الیمانیة لھذیل بینھما مسیرة ساعة من النھارقال السعدي:
ابام وابیم،نخلہ یمانیہ میں بنی ہذیل کے دو پہاڑی درے تھے جن کے درمیان دن کے وقت میں ایک گھنٹے کی مسافت ہے۔ ایک سعدی شاعر نے اپنے عشق ومحبت کا ذکر کرتے ہوئے ان دروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
وإن بھذا الجزع بين أُبيمِّ
وبين أُبام شعبة من فؤاديا. 175
اور بلا شبہ اس درے میں ابیم اورابام کے درمیان میں میرے دل کا ٹکڑا ہے۔
بلاد ِہذیل کے بالائی حصے میں اسی طرح کے کئی درے واقع تھے جن کا ذکر کرتے ہوئے سید محمود شکری لکھتے ہیں:
ثم فوق ذلک شعب یقال له نحا وكان لھذیل ایضا ثم المراخ وھي لھذیل وھي ثلاثة شعاب تصب من داءة وداءة ھي الجبل الذي یحجز بین نخلتین ثم عشر وھو شعب لھذیل یصب من داءة ایضاً وقبالة عشر من شق نخلة الاخرى شعبان یقال لھما الصھیاتان یجیئان من السراة وبینھما وبین بسوم جبل یقال له المرقبة كان مرقبة لھذیل تكون رقباؤھم فیه وشعب یقال له ھلال یجئ من السراة ایضاً من بسوم ثم شعب مثل ھذا ایضاً یقال له خیص وبسوم جبل لھذیل وشعبان یقال لھما الكفوان الكفو الابیض والكفو الاسود وھما طریقان مختصران یصعدان الي الطائف وھما مغان لا تطلع علیھا الشمس الا ساعة من نھار وھما شعبا سار وھما بلاد مھائف تھاف الغنم من المرعي الذي في التار ولا یرعیان الا في الصیف. 176
اس (ابام اور ابیم درے)سے اوپر ایک درہ ہے جسے نحا کہا جاتا ہےاوریہ بھی ہذیل کا درہ ہے، پھر مراخ ہے جو ہذیل کا ہی درہ ہے اور یہ تین درے ہیں جو داء ہ سے نیچے کواترتے ہیں۔ داء ہ وہ پہاڑ ہے جو نخلتین کے درمیان حائل ہے۔ پھر عشر ہے جوہذیل کا درہ ہے اور یہ بھی داء ہ سے نیچے کو آتا ہے ۔عشر کے بالمقابل نخلۃ الاخری کی جانب دو پہاڑی درے ہیں جنہیں صہیاتان کہا جاتا ہے اوریہ دونوں سراۃ (سروات) سے آتے ہیں۔ ان کے اور "بسوم" کے درمیان ایک پہاڑ ہے جسے مرقبہ کہا جاتا ہے اور مرقبہ بھی ہذیل کا حصہ تھا جہاں ان کے پہرے دار رہا کرتے تھے۔ ایک اور درہ ہے جسے "ہلال" کہا جاتا ہے جو"سراۃ" اور "بسوم" سے آتا ہے۔ اس کے بعد اسی قسم کا ایک اور درہ ہے جسے خیص کہتے ہیں اور"بسوم" ہذیل کا پہاڑ ہے۔ دو اور درے ہیں جنہیں کفوان کہا جاتا ہے یعنی کفو ِابیض اور کفوِ اسوداور یہ دونوں مختلف راستے ہیں جو طائف تک چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایسے مقام ہیں جہاں سورج دن میں صرف ایک گھنٹے کے لیے طلوع ہوتا ہے، یہ دونوں درے پیدل چلنے والوں کے لیے ہیں اور ان دونوں کو تشنگی آور علاقہ کہا جاتا ہے کیونکہ بھیڑ بکریاں جب "تار" کی چراگاہ میں چرائی جاتی ہیں تو سخت پیاسی ہوجاتی ہیں اوریہاں بھیڑ بکریاں بھی صرف موسم گرمامیں ہی چرسکتی ہیں ۔ 177
تہامہ کے بلاد ہذیل میں واقع یہ تمام تر درے نخلہ یمانیہ کے بالائی حصہ میں واقع تھے۔اسی طرح تہامہ میں ایک بہت بڑا صحرا بھی تھا جسے "بوبات" کہا جاتا ہے۔
تہامہ میں واقع بوبات نامی یہ صحرا، بلادِ سعد بن بکر کہلاتا تھا کیونکہ یہاں سعد بن بکر بن ہوازن کےقبائل رہا کرتے تھے ۔اس کا ذکر کرتے ہوئے معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتے ہیں:
اسم لصحراء بارض تھامة اذا خرجت من اعالي وادي النخلة الیمانیة وھي بلاد بني سعد بن بکر بن هوازن. 178
(بوبات) تہامہ کی زمین میں ایک صحراء کانام ہے، جب نخلہ یمانیہ کےاوپرکی جانب سےنکلوتووہ بنی سعدبن بکربن ہوازن کا علاقہ ہے۔
یاقوت حموی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
واد یجئ من السراة سعد ابن بکر ولبعض قریش. 179
یہ (بوبات)ایک وادی ہے جو سراۃ (سروات)سے آتی ہے اور سعد بن بکر اور چند قریشیوں کی ملکیت ہے۔
اس حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے جاراﷲ زمخشری لکھتے ہیں:
البوباة صحراء بتھامه وھي بلاد سعد بن بکر.180
بوبات تہامہ میں صحراء ہےجو سعدبن بکر کا علاقہ ہے۔
نیز عاتق حربی لکھتے ہیں:
البوباة من دیار بنی سعد بن بکر. 181
بوبات بنی سعدبن بکرکےدیار میں سےہے۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بوبات قبیلہ سعد بن بکر کا مسکن تھا یوں یہ وہی بابرکت صحراء تھا جس میں رسول اﷲ نے اپنی رضاعت کے دن گزارے ۔ حضور نبی کریم کی رضاعی ماں حضرت حلیمہ کا تعلق بنو سعد بن بکر بن ہوازن سے تھا۔ یوں بنو سعد نبی کریم کےپرورش کرنےوالوں میں سےہیں 182اور یہ صحرا ان کا مسکن تھا یو ں نبی کریم نے بوبات نامی صحراء میں پرورش پائی تھی اور اپنے بچپنِ مبارک کے ایام یہاں گزارے تھے۔
بوبات کے اسی صحراء میں ایک مقام کا نام "قرن" بھی تھا جو پہاڑی راستوں اور بوبات کے درمیان واقع ایک وادی تھی جس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے یاقوت حموی لکھتے ہیں:
قرن واد بين البوباة والمناقب وهو جبل. 183
قرن بوبات اورجبلِ مناقب کےدرمیان ایک وادی تھی۔
اسی حوالہ سے تذکرہ کرتے ہوئے جاراﷲ زمخشری لکھتے ہیں:
قرن واد بین البوباء. 184
قرن بوباء کے درمیان ایک وادی تھی۔
قرن نامی یہ وادی صحرائے بوبات کا آخری حصہ تھااور یہی جگہ اہل نجد، الاحساء، عراق، خلیج کی عرب ریاستوں اور بحرین والوں کی میقات تھی۔ یہ ان میقات میں سے ایک تھا جن کی نشاندہی خود نبی کریم نے فرمائی تھی چنانچہ ترمذی نے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر نے فرمایا:
أن رجلا قال: من أین نھل یا رسول الله قال:یھل أهل المدینة من ذي الحلیفة، وأهل الشام من الجحفة، وأهل نجد من قرن.185
ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول (ﷺ)!ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ ﷺنے فرمایا:اہل مدینہ ذی الحلیفہ سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ سے اور اہل نجد قرن سے ۔
نیز بخاری نے حضرت زید بن جبیر سے مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہے :
حدثني زيد بن جبير أنه أتي عبد الله بن عمر في منزله، وله فسطاط وسرادق، فسألته من أین یجوز أن اعتمر قال: فرضها رسول الله صلي الله عليه وسلم لأهل نجد قرنا، ولاهل المدینة ذا الحلیفة، ولأهل الشأم الجحفة. 186
زید بن جبیر نے مجھ سےبیان کیا کہ وہ عبداللہ بن عمر کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔ وہاں قنات کے ساتھ شامیانہ لگا ہوا تھا (زید بن جبیر نے کہا کہ) میں نے پوچھا کہ کس جگہ سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہیے۔ عبداللہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد والوں کے لیے قرن، مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے حجفہ (کو میقات) مقرر کیا ہے۔
اسی طرح یاقوت حموی قرن کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال الغوري هو ميقات أهل اليمن والطائف يقال له قرن المنازل.... وقال القاضي عياض: قرن المنازل وهو قرن الثعالب بسكون الراء: ميقات أهل نجد تلقاءمكة على يوم وليلة.... وقال الحسن بن محمد المهلبي قرن قرية بينھا وبين مكة أحد وخمسون ميلا وهي ميقات أهل اليمن، بينھا وبين الطائف ذات اليمين ستة وثلاثون ميلا.187
غوری نے (قرن کے متعلق) کہا ہے کہ وہ اہل یمن وطائف کا میقات ہےجسےقرن المنازل کہاجاتاہے۔۔۔ اورقاضی عیاض نے کہا: قرن المنازل قرن الثعالب(راءکی سکون کےساتھ) اہل نجدکامیقات ہےاورمکّہ اس سےایک دن اورایک رات کی مسافت پرہے۔۔۔جبکہ الحسن بن محمد المہلبی نے کہا: قرن ایک بستی ہے، اس کےاورمکّہ کےمابین اکیاون(51)میل کافاصلہ ہےاوروہ میقات اہل یمن ہے، اس کے اورطائف ذات الیمین کےمابین چھتیس(36)میل کا فاصلہ ہے۔
اب یہ مقام "السیل الکبیر" کے نام سے مشہور ہے جو مکّہ مکّرمہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔ "السیل الکبیر" مکّہ مکّرمہ سے چورانوے( 94)کلو میٹر دور ہے۔ اس حوالہ سے عبداﷲ بن عبد الملک لکھتے ہیں:
وبُعدھا عن حرم مکة المکرمة 94 كلو متراً. 188
اوراس کافاصلہ حرم مکّہ مکّرمہ سے چورانوے( 94)کلومیٹرہے۔
اسے میقات ِ مسجدِ سیل ِ کبیر بھی کہتے ہیں کیونکہ اس مقام سے بہت زیادہ عازمین آتے ہیں نیز زیادہ تر داخلی عازمین ہوتے ہیں۔ نجد، طائف کے شہری، ریاض کے مشرقی علاقوں کے لوگ اور مقیم غیر ملکی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں بھی وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو دیگر میقاتوں کی مساجد کے اطراف میں مہیا ہیں۔اس حوالہ سےشیخ محمد طاہر الکردی لکھتے ہیں:
ومیقات المتوجه من نجد الحجاز ونجد الیمن ومن الطائف قرن، بفتح القاف وسکون الراء، ویقال لها قرن المنازل، وهي علي مرحلتین من مکة لنجد، وهي تعادل السیل الكبیر یحرم منه أهل نجد الآن وقد توهم بعضهم أن قرن المنازل هو قرن الثعالب، ولیس ذلك بصحیح، بل هما موضعان، فقرن الثعالب قریب من عرفات، ولیس من المواقیت، وقرن المنازل هو الموازى للسیل الکبیر، وهو المیقات المعروف. 189
نجدحجاز، نجد یمن اورطائف سےآنےوالوں کےلیےمیقات قَرْن ہے(قاف پرزبراورراء پرسکون کےساتھ) اوراسےقرن المنازل بھی کہاجاتاہے، وہ مکّہ سےنجدکی جانب دودن کی مسافت پرہےاور سیل کبیرکی مسافت کےمساوی ہے۔اہل نجدیہاں سےاحرام باندھتےہیں، بعض لوگوں کو یہ وہم ہواہےکہ قرن المنازل ہی قرن الثعالب ہے، جبکہ یہ درست نہیں ہےبلکہ وہ دونوں الگ جگہیں ہیں، قرن الثعالب عرفات کےقریب ہےمگر میقات میں سےنہیں ہےاورقرن المنازل سیل کبیرکےمدمقابل ہےاوروہ میقاتِ مشہورہے۔
مذکورہ بالا ہر مقام کا شمارتہامہ کے اہم مقامات میں ہوتا ہے جس سے تہامہ کے محل وقوع کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتاہے۔ان علاقوں کے علاوہ تہامہ میں ایک اور اہم مقام بھی ہےجسے"ینبع" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
" ینبع" تہامہ کا ایک اہم علاقہ ہے 190جو مدینہ طیبہ کے قریب واقع ہے۔ یہ سمندر کے قریب ایک شہر تھا جہاں حضرت حسن بن علی بن ابی طالب کی اولاد رہا کرتی تھی ۔ شمس الدین سخاوی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وأكثر سکانھا والكثیر منھم زیدیة شرفاء من بني حسن سمر الألوان ویقال أن بھا وقفا لعلي یتولاه أولاده. 191
اوراس کے اکثررہائشی سانولی رنگت والے زیدی سادات ہیں جو حضرت حسن کی اولاد ہیں اورکہاجاتاہےکہ اس میں حضرت علی کاوقف(ٹرسٹ)بھی ہےجسےان کی آل چلاتی ہے۔
ان کے علاوہ قدیم زمانہ میں انصار، جہینہ اور لیث کے قبائل بھی یہاں آباد تھے جن کے متعلق زین الدین ہمدانی لکھتے ہیں:
ویسکنھا الأنصار وجھینة ولیث.192
اوراس میں انصاروجہینہ اورلیث آبادرہے ہیں۔
ینبع کے قریب ایک بندرگاہ تھی جو اس سے تقریباً ایک مرحلے (یعنی دن بھر کے سفر)کے فاصلے پر تھی جس کے حوالے سے تفصیلات بیان کرتے ہوئے قاضی سلیمان منصور پوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
یہ مشہور بندرگاہ ہے جو مصر سے جدہ کے بحری راستہ پر آتی ہے۔مدینہ منوّرہ کے لیے سب سے قریب تر بندرگاہ یہی ہےاور( اس کے) تین طرف پختہ دیوار بنی ہوئی ہےجبکہ شرق کی جانب سمندر ہے۔ یہاں کے سمندر میں بھی کوہ ہائے زیرآب بکثرت ہیں لیکن بندرگاہ کا پانی ساحل کے قریب تک بہت گہرا ہے۔جدہ میں بھی بڑے جہاز ساحل سے اس قدر نزدیک نہیں آسکتے جس قدر ینبع میں آجاتے ہیں اور اس کا فائدہ اہل تجارت کو بہت ہے۔یہاں ترکوں کے عہد کی ایک مشین سمندر کے پانی سے آب شیریں تیار کرنے کی ہے، یہ پانی بہت میٹھا اور خوش گوار ہوتا ہےنیز میں اس پانی کو چشمہ جات کے پانی پر ترجیح دیا کرتا تھا۔ ینبع خاصہ بڑا قصبہ ہےجس کی آبادی تین ہزار سے زائد ہے۔ 193
ینبع کے بالکل قریب ایک مشہور پہاڑ ہے جس کا نام رضویٰ تھا۔ 164جس کے متعلق سید محمود شکری لکھتے ہیں:
وبقربھا جبل رضوي الذي یحمل منه حجر المسن إلي الآفاق. 195
اس کے قریب رضویٰ پہاڑ ہے جہاں سے تمام دنیا میں چاقو اور دھارتیزکرنےوالاپتھر لے جایا جاتا ہے۔ 196
اس مقام پر قدیم زمانہ میں مصری حجاج کے قافلے رکا کرتے تھے۔ صالحی لکھتے ہیں:
وهو منزل الحجاج المصري.197
(رضویٰ) مصری حاجیوں کامقام قیام ہے۔
مندرجہ بالا حوالہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مقام پرمصر سے آنے والے حجاج کرام قیام کیا کرتےاور اپنی اصل منزل بیت اللہ کی زیارت کے لیے تیار ہوتے تھے۔
تہامہ کی سرزمین پر قحطانی عرب اور عدنانی عرب سے تعلق رکھنے والے بے شمار قبائل آباد تھے، تہامہ میں جو یمن کے بعض علاقے آتے ہیں ان میں اکثر قحطانی قبائل آباد تھے جبکہ باقی زیادہ تر علاقوں میں عدنانی قبائل آباد تھے۔ ان میں سے بعض اب بھی تہامہ میں موجود ہیں چنانچہ عمر بن رضا نے جن عدنانی قبائل کے نام لکھے ہیں وہ اہدل، 198جرابح، 199بُھیّ 200اوربنی دوس بن عدثان ہیں۔ 201اسی طرح قحطانی قبائل میں بنی ایاد بن نزار، 202بنی بکر بن سعد، 203بنی جہینہ 204اوربنی حارث بن بہثہ نامی قبائل کا تذکرہ کیا ہے۔ 205
ان مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوا کہ تہامہ کی سرزمین جزیرہ عرب کا ایک اہم حصہ تھی جس کا ایک نام الغور بھی تھا۔یہاں کا موسم اور آب و ہوا ناقابل برداشت حد تک گرم تھی جس کی وجہ سے ہوا رُکی رہتی اور حبس رہتا تھا۔ تہامہ میں ایک بڑا علاقہ بنی ہذیل کی بستیوں کے حوالہ سے "بلادہذیل" کے نام سے مشہور تھا اور اس میں کئی درے شامل تھے جن میں نحا، مریخ اور دیگر دروں سمیت ابام اور ابیم بہت مشہور درے واقع تھے۔اس میں کئی وادیاں شامل ہیں جن میں نخلہ یمانیہ، نخلہ شامیہ، وادی سبوح اور وہ وادی یدعان شامل ہےجہاں رسول اکرم حنین کے موقع پر ٹھہرے تھے اور ایک مسجد قائم فرمائی تھی جس کو بعد میں مسجد لیہ کے نام سے پہچانا گیا۔اسی تہامہ میں نبی اکرم کی بچپن میں دیکھ بھال کرنے والوں سمیت حضرت حلیمہ سعدیہ کی رہائش گاہ بھی تھی۔ اس میں واقع بوبات صحرا کا آخری حصہ قرن ہے جواہل نجد، احساء، عراق، خلیج کی عرب ریاستوں اور بحرین والوں کی میقات ہے۔
حجاز کے خطہ کی جغرافیائی حدود کےتعین کے بارے میں مختلف نقطہِ نظر پائے جاتے ہیں جن پر غور کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ بعض مؤرخین کےنزدیک تہامہ حجاز کا حصہ نہیں تاہم اکثرمؤرخین کے نزدیک تہامہ کو حجاز میں ہی شامل سمجھا جاتا تھا۔مدینہ منوّرہ کو نصف تہامہ اور نصف حجازکہا جاتا تھا۔ مشرق میں بعض اوقات حجاز کی حدود"مقام فید"تک بڑھادی جاتی ہیں لیکن یہ ایک انتہائی مفہوم ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ حجاز کا علاقہ شمال میں فلسطین تک چلا گیا ہے۔ شمالی حدود کی محدود ترین تعریف کے مطابق مدین اور اس کا عقبی علاقہ حتمی حجاز سے باہرتھے۔ جنوب میں ایک وقت میں حجاز کی سرحد یمن سے ملتی تھیں لیکن زمانہ حال کی تقسیم میں ان دونوں کے درمیان عسیر کے علاقے کو حائل کردیا گیا ہے۔ آج کل حجاز سے مراد وہ علاقہ ہے جو بالعموم سعودی عرب کی موجود ہ سلطنت کا مغربی حصہ ہے۔ 206
عربی ماخذوں میں بالعموم حجاز کا مفہوم "روک یا رکاوٹ" ہے یعنی دوچیزوں کے درمیان فصل "حجز" کہلاتا ہےجیسا کہ ذیلی اقتباس سے اشارہ ملتا ہے:
الحجاز لغةمن الحجز وهو الفصل بین الشیئین. 207
حجاز لغت میں حجز سے ماخوذ ہے اور یہ دو چیزوں کے درمیان فصل کرنے کے مفہوم میں آتاہے۔ حجاز کے دیگر معانی کو بیان کرتے ہوئے ابو منصور الازہری لکھتے ہیں :
الحجز ان تحجز بین مقاتلین والحجاز الاسم وكذالك الحاجز قال اللّٰه عز و جل: وجعل بين البحرين حاجزا 208اي حجازا بین ماء ملح وماء عذب لا یختلطان وذلك الحجاز قدرة اللّٰه .209
" حجز " یہ ہے کہ دولڑنے والوں کو الگ کردیا جائے ۔ حجاز اسم ہے اور اسی طرح حاجز بھی اسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ " اور اس نے دو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنائی"یعنی نمکین اور میٹھے پانی کے درمیان پردہ حائل کردیا کہ وہ دونوں آپس میں ملتے نہیں ہیں اور یہ پردہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت ہے۔
اور پہاڑوں کو بھی حجاز کہا جاتا ہے۔جیسا کہ لغت میں مذکورہے:
ويقال للجبال أيضا حجاز، أي لأنها تحجز بين أرض وأرض. 210
پہاڑوں کو بھی حجاز کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک خطہ ِ زمین اور دوسرے خطہ ِزمین کے درمیان فصل کا کام کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا امثال سے واضح ہوتا ہے کہ اس لفظ کا اطلاق کئی معنیٰ پر ہوتا ہے۔ اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہاں اس کا معنی ٰ اگر" رکاوٹ" لیا جاتا تو یقیناً اس رکاوٹ سے مراد جبل السراۃ/ جِبَالُ السَّرَوَات کا پہاڑی سلسلہ تھا جو تہامہ کی ان نشیبی زمینوں کو جو بحیرہ قلزم کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھیں، نجد سے جدا کرتا تھا جو اندرون ملک کی بلند سرزمین تھی۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہ رکاوٹ شمال میں واقع شام اور جنوب میں واقع یمن کے مابین حائل تھی۔ زمانہ حال کی طبقات الارض کی تحقیقات سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان دونوں خطوں کے پہاڑ "عربی ڈھال" کے باہر ہیں جس میں جبل السراۃ/ جبلُ السَّرَوَات شامل ہے۔ مندرجہ ذیل عبارت سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:
والحجاز البلد المعروف سمي بذلک من الحجز الذي هو فصل بین الشیئین قیل لانه فصل بین الغور (اي تهامة) والشام والبادیة. 211
مشہور ملک حجاز جسے حجز کی وجہ سے حجاز کہا گیا جو دو چیزوں کے درمیان فصل کرنے کا نام ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کا نام حجاز اس لیے ہوا کہ وہ تہامہ، شام اور بادیہ کے درمیان فاصل تھا۔
اسی طرح یاقوت حموی لکھتے ہیں:
وانما سمي حجازا لانة حجز بین تھامة ونجد.212
اور اس کا نام حجاز اس لیے رکھاگیاکہ وہ تہامہ اور نجد کے درمیان فاصل تھا۔ ابو منصور الازہری لکھتے ہیں:
سمي حجازا لان الحرار حجزت بینه وبین عالیة نجد.213
اس کا نام حجاز اس وجہ سے رکھا گیا کیونکہ وہ سیاہ پتھروں والی اراضی حجاز اور نجد کے اوپری حصہ کے درمیان فصل کرتی تھی ۔
حجاز کی سرحدوں کے تعین اور اس کے حدود اربعہ کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں۔ یاقوت حموی لکھتے ہیں:
الحجاز الجبل الممتد الذي حال بین الغور غور تھامة ونجد. 214
ہوئے پہاڑی سلسلہ کانام تھا جو تہامہ اور نجد کے درمیان حائل تھا۔
نیز یاقوت حموی اصمعی سے نقل کرتے ہوئے تحریر کرتےہیں :
الحجاز من تخوم صنعاء من العبلاء وتبالة الي تخوم الشام. 215
حجاز صنعاء کی سرحدوں عبلاء اور تبالہ سے لے کر شام کی سرحدوں تک تھا۔
حجاز صنعاء کی سرحدوں عبلاء اور تبالہ سے لے کر شام کی سرحدوں تک تھا۔
ان جبل السرة او من قعرة الیمن الي اطراف بوادي الشام سمته العرب حجازا. 216
وسط یمن کے جبل سراۃ (جبلُ السَّرَوَات) کے علاقہ سے ساحل سمندر تک کو عرب "حجاز" کہتے تھے۔
مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ عرب کے ایک بڑے خطے کو حجاز کا نام اس کے طبعی وجغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے دیاگیا تھا ۔حجاز کی حدود اربعہ میں کئی اہم ومشہور مقامات شامل تھے جو تاریخی حیثیت سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جیسے بدر اور عکاظ وغیرہ۔حجاز کی ان حدود کے حوالہ سے تفصیل بیان کرتے ہوئےسید محمود شکری لکھتے ہیں:
حد الحجاز الاول بطن نخلة وظهر حرة لیلي والحد الثاني مما یلي الشام شعب وبدا والحد الثالث مما یلي تھامة بدر والسقیا ورھاط وعکاظ والحد الرابع شابة وودان ثم ینحدر الى الحد الاول.217
حجاز کی حدود یہ ہیں:پہلی حد نخلہ کا درمیانی حصہ اور حرہ لیلیٰ کا پچھلا حصہ ہے ۔دوسری حد وہ ہے جو شام کے ساتھ ملی ہوئی ہے جو شعب وبدا ہے۔تیسری وہ ہے جو تہامہ سے ملی ہوئی ہےمثلاً بدر، سقیا، رھاط اور عکاظ اورچوتھی شابہ اور ودان ہے جس کے بعد پھر پہلی حد کی طرف اتر آتے ہیں۔ 218
حجاز میں کئی حرے یا لاوے کے بہنے والی کھردری زمینیں شامل تھیں جو اسے گھیرے ہوئے تھیں۔ ان میں حرہ واقم، حرہ راجل، حرہ لیلیٰ، حرہ بنو سلیم، حرۃ النار اورحرہ وبرہ شامل تھے جن کی تفصیل سمہودی نے دمیری کے حوالہ سے بیان کی ہے۔ 219جحاز سے متعلق تفاصیل الموسوعۃ الفقہیۃ میں بھی اسی طرح نقل کی گئی ہیں ۔ 220حجاز کی حدود بیان کرتے ہوئے عبد المالک مجاہد لکھتے ہیں:
حجاز کا طول شمالاً جنوباً، علاء سے سرحد یمن تک، تقریباًتین سو پچاس( 350) میل یعنی پانچ سو ساٹھ (560) کلومیٹرہے۔ عرف عام میں تہامہ کو ارض حجاز میں شامل سمجھا جاتا ہے اور بعض علماء نے تبوک اور فلسطین کو بھی ارض حجاز میں شامل کیا ہے۔ جبال سراۃ (جِبَالُ السَّرَوَات) کو جزیرہ نمائے عرب کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ یمن کی طرف اس کی بعض چوٹیاں خاصی بلند ہیں جہاں سردیوں کے موسم میں برف باری بھی ہوتی ہے۔ 221
حجاز کی یہ حدود اربعہ جغرافیائی اورمحل وقوع کے اعتبار سے تھیں لیکن اُن فقہاء کی اصطلاح میں جنہوں نے حدیث میں وارد جزیرۃ العرب کے حکم کو بیان کیا ہے، خاص طور پر فقہاءِشافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حجاز سے کچھ مختلف حصہ مراد ہے ۔ حجاز سے ان کی مراد حسب ذیل ہے:
قال الشافعي: والحجاز مکة والمدینة والیمامة ومخالیفها كلها ثم قال ولا یتبین ان یمنعوا ركوب بحر الحجاز ویمنعون من المقام في سواحله وكذلك ان كانت في بحر الحجاز جزائر وجبال تسکن منعوا من سکناها لانھا من ارض الحجاز. 222
شافعی نے کہا: حجاز، مکّہ، مدینہ، یمامہ اور اس کے آس پاس کے تمام علاقے ہیں، پھر انہوں نے کہا اور مناسب نہیں ہے کہ بحر حجاز میں ان (کفار اور مشرکین) کو سفر کرنے سے منع کیا جائے لیکن اس کے ساحل پر قیام کرنے سے منع کیا جائے گا اور اسی طرح اگر بحر حجاز میں جزائر اور پہاڑ ہوں جن میں سکونت کی جاسکے تو (کفار اور مشرکین) کو ان مقامات میں سکونت سے روکا جائے گا کیونکہ یہ بھی ارض حجاز ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے نزدیک حجاز کی حدود میں بحر حجاز کے جزائراور اس کے پہاڑ بھی شامل تھے جبکہ جغرافیائی اطلاق اور محل وقوع کے اعتبار سے دیکھا جائے توایسا نہیں تھا۔
حجاز کے محل وقوع کی وجہ سے یہاں کا موسم گرم اور خشک تھاجس کی وجہ سے اس علاقہ میں پانی کمیاب تھا نیز اس میں دوقسم کی ہوائیں چلتی تھیں جن میں سے ایک انسانی حیا ت کے لیے خوشگواری کا باعث تھی جبکہ دوسری ناگواری کا۔ ڈی لیسی اولیری(De Lecy O’Leary) حجاز کے موسم اور اس کی ہواؤں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حجاز کا علاقہ بہت گرم اور خشک ہے۔ زمین کا بیشتر حصہ بنجر ہے اور پہاڑ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں مگر خشک ہیں اور سورج کی تپش ان پہاڑوں کو آگ کی طرح گرم کردیتی ہے۔ ان کے اثر سے سارا علاقہ گرم ہواؤں کی زد میں آجاتا ہے۔ بارش بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے باشندے زمین کی پیداوار سے بھی محروم رہتے تھے۔ صرف طائف کا خطہ سرسبز وشاداب تھا۔عرب میں دو قسم کی ہوائیں چلتی ہیں جن کا ذکر شعرا ء نے اپنے اشعار میں اکثر کیا ہے، ایک نسیم یعنی صبح کو چلنے والی ہوا جو مشرق کی سمت سے آتی ہے اور بہت خنک وخوشگوار ہوتی ہے۔ دوسری بادِ سموم یعنی بہت گرم اور زہریلی ہوا ہےجس کے تیز وتند شعلہ بار جھونکے انسانوں اور حیوانوں کے لیے پیغامِ اجل سے کم نہ تھے۔ اس کے اثر سے پانی کے چشمے اور تالاب خشک ہوجاتے، پیڑ پودے جو کہیں کہیں ہوتے تھے، جھلس جاتے۔ اس حالت میں عرب کے اکثر قبائل پانی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتےتھے۔ خانہ بدوشی کی زندگی انہوں نے پانی کی کمیابی کے باعث اختیار کی تھی۔ یہی سبب ہے عرب شعراء کے کلام میں چشموں اور تالابوں کا ذکر کسی نہ کسی عنوان سے ضرور آتا ہے۔ 223
اس سے معلوم ہوا کہ حجاز کی آب وہوا اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے گرم تھی جس وجہ سے یہاں پانی کی قلت رہتی تھی اور اسی قلت کی وجہ سے عرب قبائل خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
سرزمین ِحجاز، عرب کا وہ شمال مغربی حصہ ہے جہاں آفتابِ ِاسلام طلوع ہوااور یہ ہر دور میں اسلام کا روحانی مرکز رہاہے جس کی وجہ سے اسے اسلام کی سرزمین قرار دیا جاتا ہے ۔ یہیں خانہ کعبہ یعنی بیت اﷲ ہے جو اس سرزمین پر واقع شہر مکّہ مکّرمہ کے وسط میں آباد ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اﷲ کا وطن مالوف ہونے کے ساتھ ساتھ مہبطِ وحی بھی ہے۔ حجاز مقدس مسلمانوں کے نزدیک انتہائی مقدس و متبرّک سرزمین ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے شہروں مکّہ مکّرمہ اور مدینہ منوّرہ کے گردوپیش کے علاقے حرم ہیں جہاں صرف مسلمانوں کو داخلے کی اجازت ہے اسی لیے حجازکے اکثر حصوں میں غیر مسلموں کے داخلے پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔ 224حجاز کے علاقے میں کئی اہم مقامات تھے جن میں کچھ بڑے اورمشہور شہر اور ان کے علاوہ کچھ چھوٹی بستیاں بھی تھیں۔تاہم ان میں سے جن بعض اہم مقامات کا اجمالی 225ذکر آگے کیا جارہا ہے ان کے نام حسب ذیل ہیں:
مکّہ مکرّمہ کے بے شمار نام ہیں تاہم ان میں سب سے مشہور نام مکّہ ہے۔ نووی فرماتے ہیں:
ولا یري في البلاد بلدة أكثر أسماء من مکة والمدینة، لکونھما أشرف الأرضو. 226
کوئی ایسا شہر نہیں ہےجس کے نام مکّہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ سے زیادہ ہوں کیونکہ یہ دونوں شہرسب شہروں سے افضل ہیں۔
نیزقرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر شہر مکّہ کا ذکر موجود ہے ۔ایک مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا 24227
اور وہی ہے جس نے سرحدِ مکّہ پر (حدیبیہ کے قریب) ان (کافروں) کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان (کے گروہ) پر غلبہ بخش دیا تھا۔ اور اﷲ ان کاموں کو جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں مکّہ کا ذکراس کے اپنے اصلی نام سے کیا گیا ہے جو نام اہل عرب کے ہاں مستعمل تھا۔
یہ لفظ"مک"سے مشتق ہے اور مک دھکیلنے اور جذب کرنے کو کہا جاتا ہے چونکہ یہ شہر بہت زیادہ آباد ہے، چلنے اور طواف کرنے میں لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں اور یہ گناہ گار انسانوں کے گناہوں کو جذب کرلیتا ہے اسی لیے اس کو مکّہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکّہ ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں پانی کی قلت ہو 228نیز یہ شہر ظالم اور جابر کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اس لیے بھی اسے مکّہ کہا جاتا ہے۔ 229اس حوالہ سے تفصیل ذیلی اقتباس میں ہے:
واختلف في سبب تسمیتھا مكة بالمیم فقیل: لأنھا تمك الجبارین أي تذهب نخوتھم، وقیل: لأنھا تمك الفاجر عنھا أي تخرجه، وقیل: كأنھا تجهد أهلها من قوله تمككت العظم إذا أخرجت مخه، وقیل: لأنھا تجذب الناس إلیھا من قوله: امتك الفصیل ما في ضرع أمه إذا لم یبق فیه شیئا، وقیل لقلة مائھا. 230
اس کا نام مکّہ (میم کے ساتھ) رکھنے کے سبب میں اختلاف ہے، ایک قول ہے: اس لیے کہ یہ ظالموں کو برباد کردیتا ہے، ان کے تکبر کو ختم کردیتا ہے یعنی نکال دیتا ہے۔ ایک قول ہے: گویاوہ اپنے باشندوں کو تھکادیتا ہے، یہ ان کے قول "تمککت العظم" سے ماخوذ ہے۔اس کا معنی ہڈی سے سارا گودا چوس لینے کے ہیں، ایک قول ہے کہ یہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، یہ"امتک الفصیل ما فی ضرع امہ" سے ماخوذ ہے جس کے معنی تھن سے سارا دودھ چوس لینا اورکچھ باقی نہ چھوڑناہے، ایک قول ہے کہ(اس کو مکّہ) اس لیے(کہاجاتا ہے) کہ اس میں پانی کی قلت ہے۔
اسی طرح فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں اس کے اشتقاقات سمیت اس کی وجوہات تسمیہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وأما مكة ففي اشتقاقها وجوه الأول أن اشتقاقھا من أنھا تمك الذنوب أي تزيلھا كلھا، من قولك امتك الفصيل ضرع أمه، إذا امتص ما فيه الثاني سميت بذلك لاجتلابھا الناس من كل جانب من الأرض، يقال امتك الفصيل، إذا استقصى ما في الضرع، ويقال تمككت العظم، إذا استقصيت ما فيه الثالث سميت مكة، لقلة مائھا، كأن أرضھا امتكت ماءها الرابع قيل إن مكة وسط الأرض، والعيون والمياه تنبع من تحت مكة، فالأرض كلھا تمك من ماء مكة، ومن الناس من فرق بين مكة وبكة، فقال بعضهم إن بكة اسم للمسجد خاصة، وأما مكة، فهو اسم لكل البلد. 231
بہرحال مکّہ کے اشتقاق میں کئی وجوہات ہیں: پہلی وجہ: مکّہ تمک الذنوب سے مشتق ہے بمعنی تمام گناہوں کو ختم کرنے والا چونکہ مکّہ کی طرف جانے سے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں اسی وجہ سے اس کومکّہ کہا جاتا ہے ۔ دوسری وجہ: مکّہ تمکت العظم سے مشتق ہے بمعنی ہڈیوں کا گودا نکل گیا چونکہ لوگ اطراف عالم سے مکّہ کی طرف نکل کر آتے ہیں اسی وجہ سے اسے مکّہ کہا جاتاہے ۔تیسری وجہ: مکّہ کی زمین پانی کو بالکل جذب کرلیتی ہے لہٰذا پانی کی کمی کی بناء پر اسے مکّہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔چوتھی وجہ:شہر مکّہ زمین کے وسط میں واقع ہے اور دنیا بھر کے دریاؤں اور چشموں کے پانی کا منبع بھی ہے اس طرح تمام روئے زمین مکّہ مشرفہ کے پانی سے سیراب اور فیض بار ہورہی ہے۔لوگوں میں بعض نے مکّہ اور بکہ دونوں میں فرق بیان کیا ہے پس بعض نے کہا کہ بکہ فقط مسجد حرم کا نام ہے اور مکّہ پورے شہر کا نام ہے۔
مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ لفظ مکّہ کے معانی میں گودا نکال دینا، تھن سے دودھ چوس کر ختم کردینا، ظالم وجابر کی سرکشی ختم کردینا وغیرہ شامل ہیں اور ان سب معانی کا تعلق مکّہ سے بنتا ہے لہذاان مذکورہ مختلف معانی کی مشابہت کی وجہ سے اسے مکّہ کہا جاتا ہے۔
مکّہ مکّرمہ کی حدود اربعہ میں جنت المعلّٰی، جبل ابی قبیس اور دیگر مشہور مقامات شامل تھےچنانچہ اس کی حدود اربعہ بیان کرتے ہوئے قطب الدین حنفی فرماتے ہیں:
مکّہ معظمہ، اﷲ تعالیٰ اس کی عزت، عظمت اور شرف ومجد کو بلند و بالا فرمائے ایک مستطیل شہر ہے جس کا ایک مبداء اور نہایت ہے۔ مبداء المعلاء (جہاں قبرستان جنت المعلاء ہے) اور اس کی انتہاء الشبیکہ اور شارع یمن سے مولد سیدنا حمزہ کے قریب تک ہے۔ اس کا عرض جبل جزل اور جبل ابی قبیس کے مابین واقع ہے۔ جبل جزل کا نام ازرقی نے جبل احمر لکھا ہے اور جبل ابی قبیس اور جبل جزل دونوں کو جبلین الاحشبان کہا جاتا ہے۔ اﷲ شانہ نے اس شہر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ بے شمار مخلوق نہایت آسانی سے اس میں سما جاتی ہے۔ ایام حج میں لاتعداد انسانوں کا جمع غفیر یہاں آتا ہے مگر سب سماجاتے ہیں۔ 232
اسی حوالہ سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
مکّہ یا بکہ جس کا نام ام القری بھی ہےیہ حجاز کا دار الحکومت ہے۔ یہ شہر ایک بزرگ پیغمبر ابراہیم کی بِنا(بنیاد واصل) ایک نوجوان نبی اسماعیل کی ہجرت گاہ اور دُر ّ ِ یتیم المرسلین حضرت محمد رسول اﷲﷺ کا مولد ہے۔ اس شہر کے چاروں طرف پہاڑوں نے قدرتی دیواریں کھینچی ہوئی ہیں۔ یہ بالفعل شرقاً غرباً تقریبا ًتیس(30) کلومیٹر لمبا اور جنوباً شمالاً تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر چوڑا ہے۔ اس کا شمال مشرقی سلسلہ جبلِ فلج، قعیقعان، جبل ہندی، جبل لعلع اور جبل کداء سے مرکب ہے۔ ان میں سے مؤخر الذکر پہاڑ وہی ہے جس کی راہ سے رسول اﷲ ﷺ فتح مکّہ کے دن شہر میں داخل ہوئے تھے۔اس کا جنوبی سلسلہ جبل ابو حدیدہ، جبل کدی اور جبل ابی قبیس کے بعض سلسلہ سے مرکب ہے۔ا س کے مشرق میں جبل ِابی قبیس اور اس کے پیچھے جبلِ جندمہ اور مغرب میں جبلِ عمر واقع ہے۔ 233
مدینہ منوّرہ، مکہ کے بعد حجاز کا سب سے مشہور اور مقدس ترین شہر ہے۔ یہ وہی مقدس اور مبارک سرزمین ہے جہاں اﷲتعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اﷲ نے ہجرت فرمائی تھی اور اب آپ وہیں آرام فرما ہیں۔ آپ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دس سال مدینہ میں گزارے اور پھر اسی مقام کواپنی آرا م گاہ کے طور پر منتخب فرمایا۔یہاں کے خوشگوار وپرسکون ماحول کی تفصیل بیان کرتے ہوئےسید محمود شکری لکھتے ہیں:
ففیه من البلاد المشهورة المدینة النبویة علي ساكنھا افضل الصلاة واكمل السلام وقیل هي من نجد وهي بلدة طیبة مباركة كثیرة الخیرات عذبة المیاہ وافرة النخیل والثمار اهلها وسكنتھا یودون الغرباء ویحبون من هاجر الیھم. 234
شہروں میں سے ایک شہر مدینہ ہے جہاں کے رہنے والے پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ بعض نے اسے نجد میں شمار کیا ہے یہ پاک، بابرکت اور گوناگوں نعمتوں والا شہر ہے۔ یہاں کا پانی میٹھا ہے اور یہاں نخلستان اور پھل بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مسافروں سے محبت رکھتے ہیں اور جو ہجرت کرکے یہاں چلا آئے اس سے دوستی قائم کرلیتے ہیں۔ 235
اس شہر کا پہلا نام یثرب تھا اورمشہور یونانی جغرافیہ دان بطلیموس(Ptolemy)نے اپنے جغرافیہ میں اس کانام یثربیہ (Jathripa) دیا ہے۔ 236حضور جب ہجرت فرماکر یثرب تشریف لائے تو آپ نے اس کا نام طیبہ اور طابہ رکھا تھا۔ 237قرآن مجید میں اس شہر مقدس کے دونوں نام یثرب 238اور مدینہ وارد ہوئے۔ 239
مدینۃ المنورہ تین( 3)درجے، پچاس( 50)دقیقے طول البلد مشرقی اورچوبیس( 24)درجے بتیس(32)دقیقہ عرض البلد شمالی میں خط استواء کے شمال میں واقع ہے۔ یہ مکّہ مکرمہ سےتین سو( 300) میل اور ینبع سے ایک سوتیس (130)میل کے فاصلے پر واقع ہے نیز سطح سمندر سےچھ سو( 600) میٹر بلند ہے۔اس کے شمال میں جبل احد (Uhud Mountain) اور جنوب میں جبل عَیر (Ayr Mountain) واقع ہیں اور دونوں پہاڑ مدینہ منوّرہ سے حالیہ دنوں تک چار( 4)کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ 240مدینہ منوّرہ کی حدود اربعہ کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے عبد المعبود لکھتے ہیں:
مدینہ منوّرہ کے طول البلد اور مکّہ مکّرمہ کے طول البلد میں تقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے یعنی ساڑھے انتالیس (39) درجہ مشرقی ہے۔ البتہ اس کا عرض البلدچوبیس( 24)درجہ شمالی ہے جبکہ مکّہ معظمہ کا عرض البلداکیس (21)درجہ شمالی ہے۔ یہ مقدس شہر ایک ایسے میدان میں آباد ہے جس کے شمال کی جانب ایک ہلکی سی پہاڑی ڈھال پائی جاتی ہے اوریہ مشرقی و مغربی سمتوں سے دو حروں اور شمال وجنوبی اطراف سے دو پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے نیزاس کے مشرق میں حرۃ الواقم اور مغرب میں حرۃ البلدۃ واقع ہیں۔ 241
جدہ، بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع عرب کاموجودہ مشہورو اہم تجارتی و ثقافتی مرکز ہے۔یہ بحیرہ احمر کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یہ ریاض کے بعد سعودی عرب کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی دار الحکومت بھی ہے۔علاوہ ازیں شہر ِ جدہ اسلام کے مقدس ترین مقامات (حرمین شریفین) یعنی مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے لیے اہم گزرگاہ کی حیثیت رکھتاہے۔ مدینہ منوّرہ میں اگرچہ ہوائی اڈہ موجود ہے جس کے ذریعہ کچھ حجاج اور زائرین براہ راست وہاں پہنچ جاتے ہیں تاہم اس سلسلے میں جدہ کے ہوائی اڈے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ماضی میں بہت سے زائرین بحری جہازوں کے ذریعہ جدہ کی بندرگاہ سے آتے جاتے تھے تاہم اب زیادہ تر ہوائی سفر ہی کرتے ہیں۔بحیرہ احمر سے قریب ہونے کی وجہ سے ملک کے دوسرے حصوں کے برعکس ماہی گیری اور سمندری غذا یہاں کی ثقافت پر غالب ہے۔
عربی زبان میں اعراب کے مختلف استعمال سے لفظ کے معنی یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اشتقاقیات اور اعراب کے مختلف استعمال کے لحاظ سے کئی قابل ذکر نظریات موجود ہیں چنانچہ جدہ کی وجہ تسمیہ میں جس طرح اختلاف ہے اسی طرح اس کے تلفظ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جن مورخین نے جو تلفظ جدہ کا ادا کیا ہے وہ اس کی وجہ تسمیہ بھی اسی کے حساب سے بیان کرتے ہیں۔جدہ نام کے حوالے سے بعض مورخین کہتے ہیں کہ اس شہر کا اصل نام "جُدَّہ" ہے جس کے عربی معنی ساحل کے ہیں۔اسی طرح بعض مورخین کہتے ہیں کہ شہر کا اصل نام "جَدَّہ" ہے جس کے معنی دادی کے ہیں۔ تاہم مشہور مورخ ابو عبید بکری نے جدہ کی وجہ تسمیہ قدیم قضاعہ کےفرد جدہ بن جرم کے حوالہ سے بیا ن کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تین ہزار(3000)سال پرانا شہر ہے اور یہ نام جدہ بن جرم بن ربان کے نام پر رکھاگیا تھا جو پہلے یہاں آباد تھے۔اس حوالہ سے البکری وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وبجدة ولد جدة بن جرم بن ربان بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعة وبھا سمي. 242
اور جدہ میں جدہ بن جرم بن ربان بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ پیدا ہوااور اسی كے نام سے اس شہر كایہ نام ركها گیا۔
جدہ سے متعلق مختلف النوع الفاظ اور ان كے معانی واطباق كے حوالہ سےقاضی سلیمان منصور پوری لكهتے ہیں:
جُدَّہ كو بكری نے معجم میں اور ابن بطوطہ نے سفرنامہ میں بالضم روایت كیا ہے۔ جُدَّہ سمندر كےخشك كنارے كو كہتے ہیں اور اس كے معنی راہ فراخ بهی ہیں چنانچہ جُدَّہ سے مكہ تك تمام راستہ بہت فراخ ہیں۔ اہل مصر اس كا تلفظ بالفتح كرتے ہیں یعنی جَدَّہ اس كے معنی بهی راہ فراخ ہیں۔عام طور پر اسے جِدَّہ بالكسر بولتے ہیں اس كے معنی وسعادت ہیں۔ 243
بعض كے نزدیك ان اقوال میں سب سے مستند قول یہی ہے كہ جَدَّہ بمعنی "دادی" ہے۔ان كے خیال میں اس كا سب سےبڑا ثبوت جَدَّہ شہر میں موجود وہ قبرستان ہےجس میں ام البشر حضرت حواء سے منسوب قبر مبارك ہے جو اس معنی كے ثبوت كے لیے كافی سمجھی جاتی ہے۔ تقی الدین فاسی جدہ شہر كے فضائل میں لكهتے ہیں:
عن ابن عباس ان فيھا قبر حواء. 244
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت حواء کی قبر مبارک جدہ میں ہے۔
ابن جبیر اندلیسی اس حوالہ سے لكهتے ہیں:
وبھا موضع فيه قبة مشیدة عتیقة یذكر انه كان منزل حواء ام البشر صلى اللّٰه عليھا عند توجهها الى مكة فبني ذلك المبني علیه تشهیر ا لبركته وفضله. والله اعلم بذلك. 245
جدہ میں ایك جگہ ہے جہاں ایك مضبوط ومحكم قبہ بنا ہوا ہے۔ كہا جاتا ہے كہ ام البشر حضرت حواء جب مکّہ معظمہ كو جارہی تهیں تو اس وقت وہ یہاں ٹھہری تهیں اور یہ مقام بركت اور فضل كے حوالے سے بہت مشہور ہے۔
اس كی مزید وضاحت كرتے ہوئے تقی الدین فاسی لکھتےہیں:
ولعل هذا الموضع هو الموضع الذي یقال له قبر حواء وهو مكان مشھور بجدة اذ لا مانع من ان تكون نزلت فیه و دفنت فيه واللّٰه اعلم. 246
شاید یہ وہی جگہ ہے جس جگہ كے بارے میں كہاجاتا ہے كہ یہ حواء كی قبر مباركہ ہے اور یہ جدہ میں مشہور مكان ہے كیونكہ یہ ماننے میں بظاہر كوئی ركاوٹ نہیں ہے كہ وہ اس مقام پر تشریف فرما ہوئیں ہوں اور اسی میں مدفون بهی، واللہ اعلم۔
اسی حوالہ سے علامہ عصامی لكهتے ہیں:
واكثر الرواة علي انھا دفنت بجدة بالمحل المعروف بھا. 247
اكثر راوی اس بات پر متفق ہیں كہ حضرت حواء جدہ میں اسی مشہور جگہ پر ہی دفن كی گئی ہیں جس كی ان كی طرف نسبت كی جاتی ہے۔
ابن عبداﷲحمیری نے بهی نقل كیا ہے كہ ان كی قبر كے جدہ میں ہونے كے بارے میں روایات ملتی ہیں۔ 248حضرت حواء سے منسوب قبر كا محل وقوع اور اس كی آنكهوں دیكهی تفصیل بیان كرتے ہوئے قاضی محمد سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں:
ام البشر حضرت حواء علیھا السلام كی قبر شرقی جانب بنی ہوئی ہے۔ اس كاطول ایك سو پچاس (150) میٹر یعنی چارسو بانوے( 492)فٹ تها جبكہ بلندی ایك(1) میٹریعنی سواتین(3) فٹ تهی اور عرضتین( 3) میٹر تهایعنی دس( 10)فٹ۔ایك محراب جیسی سرہانے پر ایك قبہ قریبا ساڑهے تین حصہ طول میں اور ایك محراب جیسی پائینتی،قبر پر بنی ہوئی تهی۔ عرض قبر پر دو دیواریں بنی ہوئی تهیں جہاں درمیان سے جگہ خالی تهی اوریہ دونوں دیواریں قبر كی چوڑائی بتاتی ہیں۔ 249
طائف حجاز مقدس کے قدیم ترین شہروں میں سے ایك ہےجو سطح سمندر سےسترہ سو( 1700)میٹر بلند ہونے كی وجہ سے عہد قدیم سے اہل مکّہ كا مصیف ( موسم گرما میں قیام كےلئے صحت افزا مقام) ہے۔ طائف كے موسم كے بارے میں فاكہی لکھتے ہیں كہ یہ عمدہ ہوا اور ٹھنڈے پانی والاشہر ہے۔ 250سید محمود شكری لکھتے ہیں:
وهو بطن من جبل غزوان بشرقي مكة وهو شدید البرد كثیر الفواكه لما فیه من كثرة البساتین التی تسقیھا العیون والجداول المنحدرة من الجبال. 251
مكے كی مشرقی جانب جبل غزوان كادرمیانی علاقہ ہے جہاں سخت سردی پڑتی ہےاور میوہ جات كی بہتات ہے اس لیے كہ یہاں بہت سے باغات ہیں جنہیں وہ چشمے اور نہریں سیراب كرتی ہیں جو پہاڑوں سے اترتی ہیں۔ 252
ڈاكٹر جواد علی اس حوالہ سےبیان كرتے ہوئے لكهتے ہیں:
وهو ابرد مكان في الحجاز وربما جمد الماء في ذروته في الشتاء ولیس بالحجاز موضع یجمد فیه الماء سوي هذا الموضع. 253
حجازمیں یہ سب سے زیادہ ٹھنڈا مقام ہے اوراكثر سردیوں كے عروج میں یہاں پانی جم جاتا ہے۔اس مقام كےسواپورےحجازمیں اس سےزیادہ ٹھنڈا مقام نہیں ہے۔
اسی مقام پر مکّہ كے اہل ِ ثروت لوگ گرم ترین دنوں اور راتوں كو بهی پر سكون طریقے سے گزارتے تهےاور یہاں كے موسم سے لطف اندوز ہوتے تهے ۔ عرب جیسے خطے میں یہاں كاموسم كسی نعمت سے كم نہیں تها۔
طائف كا قدیم نام "وج" تها جو موجودہ طائف میں ایك چهوٹی سے وادی كا نام ہے اور یہ نام عمالقہ میں ایك شخص وج بن عبد الحئی كے نام پر ركها گیا تها ۔یاقوت حموی لکھتے ہیں:
وكانت الطائف تسمي قبل ذلك وجا بوج بن عبد الحئي من العمالیق. 254
طائف سےپہلےاس كانام بوج بن عبد الحئ عملیقی كےنام پر"وج"تها۔
طائف كاایك مطلب "گهیرا" یا" فصیل" ہے ۔ قرطبی طائف كی وجہ تسمیہ بیان كرتے ہوئےالبكری كا قول نقل كرتے ہیں:
سمیت الطائف لان رجلا من الصدف یقال له الدمون بني حائطا وقال قد بنيت لكم طائفا حول بلدكم فسميت الطائف. 255
طائف كو یہ نام اس لیے دیا گیا تهاكیونكہ صدف كا ایك آدمی جسے دامون كہا جاتا تها اس نے ایك دیوار بنائی تهی اور كہا تها كہ میں نے تمہارے شہر كے ارد گرد ایك طائف بنائی ہے اس وجہ سے اس شہر كا نام طائف پڑگیا تها۔
اسی حوالے سے عبد الملك مجاہد لکھتے ہیں كہ بنوصدف كا ایك مالدار مفرور آدمی "وج "پہنچا جو اپنے چچازاد كا قاتل تها۔ اس نے شہر كو عرب قبائل كی یلغار اور لوٹ مار سے بچا نے كے لیے ایك دیوار بنانے كی تجویز دی چنانچہ اس كی مدد سے بنوثقیف نے دیوار بناكر "وج" كو قلعے كی شكل دے دی چونكہ یہ دیوار چاروں طرف سےشہر كو گهیر ے ہوئے تهی اس لیے وہ اسے طائف كہنے لگے۔ 256
البكری ابو مسكین مدنی كے حوالہ سے لكهتے ہیں:
أصاب رجل من الصّدف دما في قومه بحضر موت، وكان يقال للصّدفيّ الدّمون، وكان قتل ابن عم له، فقال فى ذلك:
وحربة ناهك أو جرت عمرا
فما لى بعده أبدا قرار257
ثم خرج هاربا حتي نزل بوجّ، فحالف مسعود بن معتّب ومعه مال عظيم، فقال لهم: هل لكم أن أبنى لكم طوفا عليكم، يكون لكم ردءا من العرب؟ قالوا: نعم فبني لهم بماله ذلك الطوف، فسمّي الطائف، لأنّه حائط يطيف بھم. 258
صدف كے ایك شخص سے حضرموت میں اپنی قوم كےایك شخص كاخون ہوگیا اور اس قبیلہِ صدف كا خونی كہا جانے لگا۔ اس شخص نے اپنےچچازادكاقتل كیاتها، اس كے بارےمیں اس نے كہا:
تیز دهار نیزے نے عمر كے حلق كو چیر دیا
پس اس كے بعد مجهے كسی پل چین (اطمینان) نہیں
پهروہ بهاگ كر"وج"آگیااورمسعودبن معتب كےساتھ تحالف(عہدوپیمان)كرلیا۔اس كےپاس بہت سارامال وزرتهاچنانچہ ان سےكہا: كیا میں تمہیں دیگر اہلِ عرب سےحفاظت كےلیےدیوارتعمیر كردوں؟ انہوں نےكہا:ہاں۔پس اس نےاپنےمال سےوہ دیوارتعمیر كروادی اسی لیےیہ"طائف"كہلایا كیونكہ ان كےچاروں طرف دیوارمحیط ہے۔
اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے كہ طائف كے شہركے ارد گرد فصیل بننے كا سبب قبیلہ ِ صدف كے ایك شخص كا اپنے چچازاد كا قتل تها جس كی وجہ سے اس صدفی نے اپنے مال وزر سے یہاں فصیل قائم كی تهی اور اسی فصیل كی وجہ سے اس شہر كو طائف كہا گیا ۔ اس فصیل كا بنیادی مقصد شہر كی حفاظت تها ۔
طائف میں چهوٹے علاقے اور بہت سی وادیاں تهیں جن میں وج، النخب، العرج، لية، جلدان اور فتق نامی علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں كا ذكر كرتے ہوئے سید محمود شكری لکھتے ہیں:
ومن بلاد الطائف وج وهو وادیھا الذي یقول فیه الثقفي:
سقیالوج وجنوب وج
واحتله غیث دراك الثج
وواد یقال له النخب وهو من الطائف علي ساعة و واد یقال له العرج وهذا غیر العرج الذي بینمكة والمدینة وواد یقال له لیة اعلاه ثقیف واسفله لنصر وبین لیة وبسل بلد یقال له جلدان تسكنه بنو نصر وبجلدان هضبة سوداء یقال لھا تبعة وبھا نقب كل نقب قدر ساعة كانت تلتقط فیه السیوف العادیة والحرز ویزعمون ان فیه قبورا لعاد. وكان یعظمون ذلك الجبل. ومن بلاد الطائف الشدیق وهو واد والھدة بینھا وبین السراة وقریة لبني نصر یقال لھا الفتق وعكاظ نخل في واد بینه وبین الطائف لیلة وبینه وبین مكة زادها اللّٰه تعالي شرفا ثلاث لیال وبه كانت تقوم سوق العرب بالابتداء وبه كانت ایام الفجار وكانوا یطوفون بصخرة هناك ویحجون الیھا وذو المجاز ماء من اصل كبكب وهو لھذیل وقال ابو عبد اللّٰه الواقدي عكاظ بین نخلة والطائف. وذوالمجاز خلف عرفة و مجنة بمر الظھران و هذہ اسواق قریش والعرب ولم یكن فیھا شي اعظم من عكاظ . 259
طائف كے علاقے میں ایك مقام "وج " ہے یہ طائف كی وادی ہے جس كے متعلق ایك ثقفی شاعر كہتا ہے:
خدا وادی وج اور جنوب وج كو سیراب كرے
اور اس پر مسلسل برسنے والی بارش نازل ہوتی رہے
یہاں ایك وادی اورہے جسے "النخب" كہتے ہیں جو طائف سے ایك گهنٹے كے فاصلے پر ہے ۔ایك وادی اور ہے جسے "العرج" كہا جاتا ہے اوریہ وہ العرج نہیں ہے جو مكے اور مدینے كے درمیان واقع ہے(بلكہ دوسری ہے)۔ ایك وادی اور ہے جسے "لیة" كہا جاتا ہے، جس كا بالائی حصہ ثقیف كا ہے اور زیرین حصہ نصر كا۔ لیہ اور بسل كے درمیان ایك شہر ہے جسے "جلدان" كہا جاتا ہے اور جہاں بنو نصر آباد ہیں۔ جلدان میں ایك سیاہ پشتہ ہے جسے " تبعہ" كہتے ہیں اوروہاں پہاڑی راستے ہیں، ہر راستے كی مسافت ایك گهنٹے كے برابر ہے، یہاں پرانی تلواریں اور منکےپائے جاتے تهے۔ لوگوں كا خیال ہے كہ یہاں قوم عاد كی قبریں تهیں چنانچہ اس پہاڑ كی بڑی تعظیم كی جاتی تهی۔ طائف كے علاقوں میں ایك علاقہ شدیق ہے جوایك وادی ہے۔ شدیق و سراة (سروات)كے درمیان ایك علاقہ ہدہ ہے ۔اسی طرح بنی نصر كا ایك گاؤں بهی یہاں ہے جسے "فتق" كہتے ہیں۔ یہاں ایك نخلستانی وادی ہے جسے عكاظ كہا جاتا ہے۔ اس كے اور طائف كے درمیان ایك رات كا فاصلہ ہے اور اس كے اور مكے كے درمیان تین راتوں كا فاصلہ ہے۔ عربوں كا میلا پہلے یہیں لگا كرتا تها اور یہیں "فجار" كی جنگیں لڑی گئیں۔ عرب یہاں ایك چٹان كا طواف كیا كرتے تهے اور حج كے لیے یہاں آیا كرتے تهے۔ ذوالمجاز كبكب كے دامن میں ہذیل كا ایك چشمہ ہے۔ابو عبداﷲ الواقدی كہتا ہے كہ عكاظ نخلہ اور طائف كے درمیان واقع ہے اور ذوالمجاز عرفہ كے پیچھےہے نیزمجنہ بمر الظهران میں ہے۔ یہ سب قریش اور عربوں كے میلے ہیں مگر ان میں كوئی بهی عكاظ سے بڑا نہیں ہے۔ 260
ان سب بازاروں میں عكاظ اور ذوالمجاز دورِ جاہلیت میں عربوں كے مشہور اور انتہائی اہم بازار اور میلے تهے اور ان كا شمار اہل ِ عرب كے بڑے بازاروں میں ہوتاتها۔ 261
حجاز كا ایك قدیم شہر خیبر بهی ہےجہاں سات( 7)ہجری بمطابق چھ سواٹهائیس( 628)عیسوی میں غزوہ خیبر واقع ہوا تها۔ اس شہر میں كئی قلعے اور زرعی زمینیں تهیں۔ بدر الدین عینی لکھتے ہیں كہ خیبر بہت بڑا شہر تها جس میں متعددقلعے اور كهیت ہیں۔ 262بعد ازاں اس مقام سے یہودیوں كو نكال دیا گیا تها جس كے بعد وہ در بدر ہو گئے تهے ۔
خیبر شہر كے جغرافیائی محل وقوع اور حدود اربعہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے كہ خیبر ایك نخلستان ہے جو سطح سمندر سے اٹهائیس سو(2800)فٹ بلند اور مدینہ منورہ سےایك سو چوراسی ( 184)كلو میٹر شمال میں واقع ہے۔ تقریباً سو (100) كلو میٹر تك خیبر كا راستہ تنگ اورپیچ دار دروں میں سے گزرتا ہے۔ خیبر ایك حرہ یعنی آتش فشانی چٹانوں كا سلسلہ ہے ۔مدینہ سے آئیں تو شہر سے پندرہ (15) بیس (20)كلو میٹر كے فاصلے پر سفید اور قابل كاشت لیكن افتادہ (غیر مزروعہ )زمینیں ملتی ہیں جو دس(10) بارہ(12) كلو میٹر تك پھیلی ہوئی ہیں بعد ازاں پهر حرہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس حرے میں شاہراہ كے دائیں جانب قدیم یہودی کھنڈرمیلوں تك پھیلے ہوئے ہیں جن میں كچھ تالابوں كے منہدم شدہ بند نظر آتے ہیں۔ گرمیوں میں جب پانی خشك ہوجاتا ہے تو ان تالابوں كی تہہ میں جمی ہوئی مہین یعنی پتلی باریك مٹی دور دور تك نظر آتی ہے۔ ان تالابوں میں ایك صہباء نامی تالاب ہے جہاں رسول كریم نے خیبر كو آتے جاتے قیام فرمایا تها۔ اس كے آگے ایك وسیع نشیبی وادی ہے جس میں شہر خیبر آباد ہے۔ یہ علاقہ نخلستانوں سے اس قدر پٹا ہوا ہے كہ كسی بلندی پر سے بهی شہر كے خدوخال نظر نہیں آتے۔ شوقی خلیل كے مطابق خیبر میں 1964ء میں عنیزہ قبیلے كے عرب آباد تهے۔فصل كٹنے كے زمانے میں یہاں كی ہنگامی آبادی پچیس سےتیس ہزار تك ہوجاتی تهی ورنہ مستقل آبادی پانچ ہزار كے لگ بھگ تهی ۔ 263
خیبر كی وجہ تسمیہ كے حوالہ سے مورخین نے كئی اقوال بیان كیے ہیں جن میں سے پہلا قول یہ ہے كہ خیبر اپنے بانی "خیبر بن قانیہ بن مہلائیل "كے نام سے منسوب ہےجو اس مقام پر سب سے پہلے آباد ہوا تها۔اس ضمن میں یاقوت حموی لکھتے ہیں:
وذكر ابو القاسم الزجاجي انھا سمیت بخیبر بن قانیة بن مهلائیل بن ارم بن عبل…وكان اول من نزل هذا الموضع. 264
ابو القاسم زجاجی نے بیان كیا ہے كہ یہ (علاقہ) خیبربن قانیہ بن مہلائیل بن ارم بن عبل كےنام سےموسوم ہوا۔۔۔ وہ پہلا شخص تهاجس نے اس جگہ سكونت اختیاركی۔
ڈاكٹر جواد علی لکھتے ہیں، میں نے بهی اس قول كو نقل كیا ہے كہ بعض لوگ یہ سمجهتے ہیں كہ یہ شہر خیبربن فاتیہ بن مہلائیل نامی شخص سےمنسوب ہے جو یہاں سكونت پذیر ہونے والا پہلاشخص تها ۔ 265
خیبر كی وجہ تسمیہ كے بارےمیں مؤرخین كا دوسرا قول بیان كرتے ہوئےسید محمود شكری ابو عبید بكری كے حوالہ سے نقل كرتے ہیں:
انھا سميت باسم رجل من العمالیق نزلھا. 266
بیشك اس كا نام عمالقہ كے ایك شخص كے نام پر ركهاگیاجو یہاں اترا تها۔
روایات میں یہ بهی آتا ہے كہ قوم ِعمالقہ كے چچا زاد یعنی ابن عاد بهی یہاں رہا كرتے تهے۔ سموال بن عادیا یہودی بهی یہیں رہتا تها۔ 267
یہاں كی آب وہوا خراب اور مضر صحت تهی جس كی وجہ سے لوگوں كو بخار ہوجایا كرتا تهااوریہاں كا بخار بهی شدید قسم كا ہوتا تها۔ یہاں كی شدید گرمی اور بخار كی كیفیت كا بیا ن ایك شاعر نے یوں كیا ہے:
ومن يك امسي في بلاد مقامه
يسائل اطلالا بھا لاتجاوب
وقفت بھا ابكي واشعر سخنة
كما اعتاد محموما (بخيبر) صالب.268
كون بلاد مقامہ میں شام كے وقت آئے اور وہاں ان كھنڈرات سے سوال كرے جوجواب نہیں دیتے۔میں وہاں ٹھہرا روتارہا، مجهے اس قدر گرمی محسوس ہورہی تهی جیسے خیبر كے علاقے میں تپ ِ دق كا شكار ہونے والے شخص كو سخت بخار آلیتا ہے۔ 269
اسی خیبر كے علاقے میں بہت سے نخلستان پائے جاتے تهے اور یہاں سے دور دراز علاقوں كو كھجوریں بھیجی جاتی تھیں۔ خارجہ بن ضرار المری اپنے اشعار میں خیبر كی كھجوروں كا حوالہ دیتے ہوئے لكھتا ہے:
اخالد هلا اذ سفهت عشيرة
كففت لسان السوء ان يتدعرا
فانك واستبضا عك الشعر نحونا
كمستبضع تمرا الي ارض خيبرا.270
اے خالد جب تمہارے قبیلے نے بیوقوفی كی تهی تو، تُونے اپنی زبان كو بدخلقی سے كیوں نہ روكے ركهاتمہارا ہمارے لیے شعر كہنا اور یہاں آنا ایسا ہی ہے جیسے كوئی اہل خیبر كے پاس كھجوریں بیچنے كے لیے آئے۔ 271
ڈاكٹرجواد علی نے بهی خارجہ بن ضرارالمری كا شعرنقل كیاہے ۔ 272یہاں آج كل ان نخلستانوں اور باغات کی كچھ باقیات موجود ہیں جہاں باوجود ویرانی كے كچھ كسان اور سیاہ فام غلام آباد ہیں۔ یہاں كی ایك بستی كا نام "فدك" ہے جہاں نخلستان، شاہی جاگیریں اور كھیت پائے جاتے تهے۔ ان كے متعلق شاعر كہتا ہے:
من عجوة الشق يطوف بالودك
ليس من الوادي ولكن من فدك.273
یہ شق كے علاقے كی عمدہ، موٹی اوررس بھری كھجور ہے جس كی چکناہٹ عیاں ہے ۔یہ وادی كی نہیں بلكہ فدك كی ہے۔
چونكہ خیبر انتہائی گرم علاقہ تها اس لیے یہاں كی كھجور عمدہ طریقے سے پك كر تیار ہوتی اور عرب میں دور دور تك بھیجی جاتی تهی نیز یہ علاقہ زر خیز بهی تها جہاں باغات تھے اور محل نما قلعے بھی تعمیر كیے گئے تھے جن كی وجہ سے اس مقام كو اہل عرب كے یہاں اہمیت دی جاتی تھی ۔اسی وجہ سے یہاں كے یہود كا اثر ورسوخ كافی زیادہ تھالیكن جب جنگ خیبر ہوئی اور یہود كو یہاں سے نكال دیاگیا تو ان كو ذلت ورسوائی كا سامنا كرنا پڑا اوردربدری ان كا مقدر بنی رہی۔
حجاز كے اہم ترین مقامات میں سے ایك مقام ِبدر بھی ہے اور یہ وہ مشہور مقام ہے جہاں سترہ (17) رمضان دو(2)ہجری بمطابق تیرہ( 13)مارچ چھ سو چوبیس (624)عیسوی كو جنگ بدر واقع ہوئی تھی۔یہ مدینے كے جنوب میں ایك سو پچاس( 150) كلومیٹر كے فاصلے پر واقع ہے اوراسے ہر طرف سے بلند پہاڑوں نے گھیر ركھا ہے۔ یہاں بدر نامی ایك مشہور كنواں بھی تھا جس كےحوالہ سے یاقوت حموی لكھتے ہیں:
بدر: ماء مشهور بين مكة والمدينة اسفل وادي الصفراء بينه وبين الجار وهو ساحل البحر ليلة. 274
بدر،مكہ اورمدینہ كےدرمیان وادی الصفراء كی نچلی جانب مشہوركنواں ہے، جو ساحل سمندر"جار" سےایك رات كی مسافت پرہے۔
یعنی ساحل سمندر سے بدر كے درمیان ایك رات كا فاصلہ ہےاور اس میں كئی كنویں اور باغات تهے جہاں قافلے عموماً پڑاؤ ڈالتے تهے۔
مقام بدر كی وجہ تسمیہ میں اختلاف پایا جاتا ہےاور اس بارے میں چار (4)اقوال ملتے ہیں۔بعض مؤرخین كے نزدیك بدركا نام قبیلہ بنی كنانہ كے ایك شخص بدر بن یخلدكی وجہ سے پڑاجس كا یہاں پڑاؤ رہا كرتا تها جبكہ بعض نے كہا ہےكہ وہ بنی ضمرہ كا ایك شخص تها ۔معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتےہیں:
ويقال انه ينسب الي بدر بن يخلد بن النضربن كنانة وقيل بل هو رجل من بني ضمرة سكن هذا الموضع فنسب إليه. 275
كہا جاتا ہے كہ یہ بدر بن یخلد بن نضر بن كنانہ سے منسوب ہے۔ یہ بهی كہا جاتا ہے كہ بدر بن یخلد قبیلہ بنی ضمرہ كا ایك شخص تهاجویہاں رہائش پذیرہواتویہ اس سےمنسوب ہوگیا۔
اس قول كو ابن حجر عسقلانی نے بهی لكها نیز وہ دیگر وجوہاتِ تسمیہ بیان كرتے ہوئے لکھتے ہیں:
هي قرية مشھورة نسبت الي بدر بن مخلد بن النضر بن كنانة كان نزلھا ويقال بدر اسم بئر التي بھا سميت بذلك لاستدارتھا او لصفاء مائھا فكان البدر يري فيھاوحكي الواقدي انكار ذلك كله عن غير من واحد شيوخ بني غفار وانما هي ماوانا ومنازلنا وما ملكھا احد قط يقال له بدر وانما هو علم عليھا كغيرها من البلاد. 276
یہ ایك مشہور بستی ہے جو بدر بن مخلد بن النضر بن كنانہ كی طرف منسوب ہے جو یہاں آكر اترا تها جبكہ بعض كہتے ہیں كہ بدر وہاں كے كنویں كا نام ہے۔اس كا یہ نام اس كی گولائی یا اس كے پانی كی صفائی كی وجہ سے پڑاگویا بدر(یعنی چودہویں كاچاند) اس كے اندر دكهائی دیتاتها ۔ واقدی نے بنی غفار كے كئی ایك شیوخ سے روایت كا انكار نقل كیا ہے، وہ كہتے ہیں كہ یہ تو ہماری پناہ گاہ اور اترنے كی جگہ تهی اور بدر نامی كوئی شخص كبهی اس كا مالك نہ تها۔ بدر اس كا نام ایسے ہی پڑگیا جیسے اور شہروں كا پڑجاتا ہے۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ مقام بدر كے حوالہ سے لكهتے ہیں:
وهي قرية فيھا حدائق نخل متصلة و بھا حصن منيع يدخل اليه من بطن واد بين جبال و ببدر عين فوارة يجري ماؤها و موضع القليب الذي سحب به اعداء اللّٰه المشركون هو اليوم بستان و موضع الشھداء خلفه و جبل الرحمة الذي نزلت به الملائكة علي يسار الداخل منه الي الصفراء و بازائه جبل الطبول و هو شبه كثيب الرمل ممتد و يزعم اهل تلك البلاد انھم يسمعون هنالك مثل اصوات الطبول في كل ليلة جمعة و موضع عريش رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم الذي كان به يوم بدر يناشد ربه جل وتعاليٰ متصل بسفح جبل الطبول و موضع الوقيعة ه و عند نخل القليب مسجد يقال له مبرك ناقة النبي صلى اللّٰه عليه و سلم . 277
یہ ایك بستی ہے جس میں نزدیك نزدیك خرموں كے باغات ہیں اور یہاں ایك نہایت بلند قلعہ ہے جس میں جانے كا راستہ اس وادی میں سے ہے جو پہاڑوں كے درمیان واقع ہے۔ بدر میں ایك ابلتا ہوا چشمہ بهی ہے جس كا پانی برابر جاری رہتا ہے اور وہیں وہ قلیب یعنی غاركاكنواں بهی ہے جس میں اﷲ كے دشمن مشركین گھسیٹ گھسیٹ كرپھینكے گئے تھے۔ آج اس مقام پر ایك باغ ہے جس كے پیچھے شہداء كا مقام ہے۔ جبل رحمت جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے صفراء سے داخل ہونے پر بائیں طرف ہے اور اس جبل كے مقابل جبل الطبول ہے۔ اس پہاڑ كی شكل ریت كے ٹیلے جیسی ہے جس كا سلسلہ دور تك چلا گیا ہے۔وہاں كی آبادیوں كے باشندوں كا خیال ہے كہ ہر جمعہ كی شب یہاں ڈهول سےمشابہ آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یہیں وہ مقام بهی ہے جہاں رسول اﷲ ﷺ بدر كے دن عریش خیمہ میں تشریف فرما تھے اور اپنے رب سے ایفائے وعدہ كے طلبگار تھے۔ خیمہ كایہ مقام جبل الطبول سےمتصل ہےاورمقام جنگ اس كے سامنے ہے ۔قلیب كےباغ كے پاس ایك مسجد ہے جس كے متعلق لوگ كہتے ہیں كہ یہ نبی ﷺكے اونٹنی بٹھانے كی جگہ تهی۔ 278
نیز بدر كی جغرافیائی تفصیلات ذكر كرتے ہوئے ڈاكٹر شوقی خلیل لكھتے ہیں:
بدر بیضوی شكل كا ساڑهے پانچ میل لمبا اور چار میل چوڑا وسیع ریگستانی میدان ہے جس كے ارد گرد اونچے پہاڑ ہیں۔ مکّہ، شام اور مدینہ جانے كے راستے جنوب، شمال اور مشرق كی وادیوں سے آكر بدر پر ملتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں بدر میں ہر سال یكم ذی قعدہ سے آٹھ روز تك ایك بڑا میلہ لگتا تها، یہاں اس وقت بنو ضمرہ آباد تھے جن كی ایك شاخ بنو غفار تھی، اس كی اصلاح وتبلیغ كے لیے حضرت ابوذر كو مامور كیا گیا، اسی لیے وہ ابو ذر غفاری كے نام سے مشہور ہو گئے ۔ بدر كو مقامی لوگ"بدرُو" بولتے ہیں۔ اس نام كا ایك گاؤں پہاڑی پر آباد ہے جہاں ایك بڑی مسجد بهی ہے۔نیچے ایك نہر بہتی ہے۔ نہر كے كنارے ہرے بهرے نخلستان ہیں ۔كہتے ہیں كہ یہ نہر وہیں سے نكلتی ہے جہاں نبی كریم ﷺ نے برساتی پانی كا ایك حوض مجاہدین كے لیے بهرلیا تها اور جب دشمنان اسلام پانی كے بغیر پریشا ن ہوئے تهے تو نبی كریم ﷺ نے صحابہ كرامكو حكم دیا تها كہ پانی دشمن پر بهی بند نہ كیاجائے۔ 279
مقام بدر كے قریب ایك بہت بڑا پہاڑ ہے جس كے اندر ایك بڑا غار ہے جس میں حضور بهی داخل ہوئے تھے چنانچہ حجاج جب اس راستے سے گزرتے تھے تو اس مقام پر قافلوں كو روك كر تبرك كے لیے نفل پڑها كرتے تهے۔اس حوالہ سے سمہودی لكھتے ہیں:
ورايت باوراق في منازل الحاج ما لفظه و من بدر الي الدخول نحو نصف فرسخ وهو الغار الذي دخل النبي صلى اللّٰه عليه وسلم فيه....وهذا الغار علي يمين المصعد من بدر ورايت الحجاج يتبركون بالصلاة فيه. 280
میں نے منازل الحاج میں لكها دیكها ہے كہ بدر میں غاركے اندر داخلے تك كا فاصلہ تقریباً نصف فرسخ یعنی چار (4)كلومیٹر تها اور یہ وہ غار تها جس میں نبی كریم ﷺ داخل ہوئے تهے۔۔۔یہ غار بدر سے آتے ہوئے دائیں طرف آتا تها اور میں نے خود دیكها كہ حاجی حضرات اس میں بركت كے لیے نمازپڑهتے تھے۔
یہیں بدر كی جنگ بهی لڑی گئی تهی اور یہ وہی دن تها جس دن مسلمانوں نے قریش كے مشركین پر غلبہ پایا تها ۔جو لوگ اس دن قتل ہوئے ان میں بدر بن الاسود بن زمعہ بن المطلب بن نوفل القرشی بهی تها جومشركوں میں سے تها۔اس كے باپ نے یہ شعر مرثیے كے طور پر كہےتهے:
اتبكي ان يضل لھا بعير
ويمنعھا من النوم السھود281
فلا تبكي علي بكر كن
علي بدر تقاصرت 282الجدود. 283
كیا یہ اس لیے رو رہی ہے كہ اس كا ایك اونٹ گم ہوگیا ہے اور بے خوابی اسے نیند سے روك رہی ہے۔تو اونٹ پر نہ ر و (بلكہ اس بات پررو) كہ بدر میں ہمارے نصیب ہی كهوئے ہوئے تھے۔
بدر ہی كے مقام پر اسلام كی سربلندی كے لیے پہلی جنگ لڑی گئی تهی جس میں مسلمانوں كی بے سروسامانی كےباوجود اللہ تبارك وتعالیٰ نے انہیں كامیابی وكامرانی سے سرفراز فرمایا تها اور كفار ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئے تهے۔
حجاز ہی كا ایك اور اہم مقام تبوك ہے جومدینہ اور شام كے درمیان واقع ہے۔ یہ مدینہ سے چودہ منزل دور ہےاور مدینہ سے دمشق كے نصف راستے پر واقع ہے۔ جلال الدین سیوطی اس كی مدینہ سے مسافت كے متعلق لکھتے ہیں:
وتبوك مكان من المدينة علي اربع عشرة مرحلة. 284
اورتبوك مدینہ منورہ سےچودہ روز كی مسافت پر ایك جگہ ہے۔
موجودہ حساب سے یہ شہرمدینہ سے تقریباًچھ سو( 600)میل یعنی تقریباًساڑھے نوسو( 950)کلو میٹر دور ہے۔ تبوک کی آبادی پچھترہزار(75000) ہے۔ 285اس مقام پر غزوہ تبوک کا معرکہ سن نو( 9)ہجری بمطابق چھ سو تیس (630)عیسوی رجب کے مہینے میں پیش آیاتھا۔ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ نبی اکرم نویں ہجری کوسرزمین شام سےتبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ 286
یہ آخری عسکری معرکہ تھا جس میں نبی کریم بنفسہ شریک تھے۔یہ شدید گرمی کا موسم تھا اورمدینہ کے طول وعرض میں کھجوروں کے باغات پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ فصل پکنے کےقریب تھی اور گزشتہ برس کے تمام ذخائر ختم ہوچکے تھے یوں تنگدستی کا عالم تھا ۔ ہر شخص کی نظر کھجوروں کی فصل پر تھی کیونکہ تمام تر معاشیات کا دارومدار اسی پر تھا۔ ان حالات میں رسول اﷲ نے اعلانِ عام کردیا کہ رومیوں سے مقابلہ کے لیے فوج تیار کرنی ہے تو سخت قحط سالی اور تنگ دستی کے عالم میں صحابہ کرام نے بڑھ چڑھ کر اس جہاد میں حصہ لیا ۔اسی وجہ سے اس کو" غزوۃ العسرۃ" یعنی تنگی کا غزوہ بھی کہا جاتا ہے۔
تبوک کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ابن الملقن شافعی لکھتے ہیں:
وسميت تبوك بالعين التي امر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الناس الا يمسوا من مائھا شيئا. 287
تبوک کانام ایک ایسے چشمہ کے نام پرپڑا جس کے متعلق رسول اﷲ ﷺنے لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ اس کے پانی کو نہ چھوؤ۔
یاقوت حموی تبوک کی نسبت ایک قلعے کی طرف کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
وهو حصن به عين ونخل وحائط ينسب الي النبي صلى اللّٰه عليه وسلم. 288
یہ ایک قلعہ تھا جہاں چشمہ، کھجور کے درخت اور باغ تھے جو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب تھا۔
سمہودی نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ 289تبوک میں جہاں نبی کریم نماز ادا کرتے تھےوہاں اب ایک مسجد بنی ہوئی ہے جوبارہ سو پینتالیس(1245)ہجری میں ایک ترکی افسر نے اپنے خرچ پر بنوائی تھی جبکہ اسی جگہ پہلے لکڑی کی بنی ہوئی مسجد تھی۔ 290ان دنوں اس مسجد میں ادارہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مرکز بھی قائم ہےاور اس سے متصل ایک پرانا ترکی قلعہ ہے جو اب جیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 291
مسجد کے قریب ہی ایک چشمہ ہے جس کے گرد وسیع منڈیر بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ چشمہ ہے جس کے متعلق صحیح مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں یہ روایت آتی ہے کہ رسول اﷲ ابھی تبوک کے راستے میں تھے کہ آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا کل تم تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے توتمہارے وہاں پہنچتے پہنچتے چاشت کا وقت ہوجائے گا لہذا تم میں سے جو شخص وہا ں پہلے پہنچ جائے تواس چشمہ کے پانی کو استعمال نہ کرے۔ جب لشکر اسلام وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دو آدمی پہلے سے وہاں پہنچے ہوئے ہیں اور چشمہ سے قطرہ قطرہ پانی نکل رہا ہے، نبی کریم نے ان دونوں آدمیوں سے دریافت کیا کہ تم نے اس چشمہ کا پانی استعمال کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ جی ہاں! آپ نے ان دونوں پر خفگی کا اظہار فرمایا۔ پھر صحابہ کرام نے چلوؤں سے ایک برتن میں اس چشمہ کا پانی جمع کیا اورنبی کریم نے اس سے اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ مبارک دھوکر اسے چشمہ میں ڈال دیا۔ اس کے گرتے ہی چشمے سے بے تحاشا پانی ابل کر نکلنا شروع ہوگیا جسے تمام اسلامی لشکر نے استعمال کیا ۔اس کے بعد نبی کریم نے حضرت معاذ سے فرمایا اے معاذ! اگر تمہاری زندگی رہی تو تم اس علاقہ کو باغوں سے بھرا ہوا پاؤگے۔
تبوک کے محکمہ شرعیہ کے رئیس شیخ صالح فرماتے ہیں کہ یہ چشمہ پونے چودہ سو سال یعنی (1957)عیسوی تک مسلسل ابلتا رہا ۔ بعد میں نشیبی علاقوں میں ٹیوب ویل کھودے گئے تو اس چشمے کا پانی ان ٹیوب ویلز کی طرف منتقل ہوگیا۔ تقریبا پچیس ٹیوب ویلز میں تقسیم ہوجانے کے بعد اب یہ چشمہ خشک ہوگیا ہے۔ 292اس پانی سے فائدہ اٹھاکر اب تبوک میں ہر طرف باغ لگائے جارہے ہیں اور نبی کریم کی پیش گوئی کے مطابق تبوک کا علاقہ باغوں سے بھرا ہوا ہے اور دن بدن بھرتا جارہا ہے۔ 293
مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حجاز شمالی وجنوبی طول کے حساب سے تقریباًتین سو پچاس( 350) میل یعنی پانچ سو ساٹھ (560) کلومیٹر پر مشتمل ہے اور تہامہ کو بھی ارضِ حجاز کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ بعض مؤرخین تبوک اور فلسطین کوبھی ارضِ حجاز میں شامل سمجھتے ہیں البتہ فقہاء کرام کے مطابق حجاز کے ارد گرد موجود جزائراور پہاڑ بھی حجاز ہی کا حصہ ہیں جنہیں علمائے جغرافیہ عموماً حجازمیں شامل نہیں کرتے۔ 294 حجاز کو تین حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے شمالی حجاز، وسطی حجاز اورجنوبی حجاز، جن میں اہم ترین حصہ وسطی خطہ ہے کیونکہ اس حصہ میں اسلامی تاریخ کے تناظر میں کئی اہم ترین واقعات و اہم ترین مقامات شامل ہیں جن مقامات میں مکّہ مکرّمہ، مدینہ منوّرہ، جدہ، طائف، خیبر، بدر اورتبوک سر فہرست ہیں۔مذکورہ بالا ہر مقام کی اپنی ایک مسلمہ اہمیت ہے اور ہر ایک میں چند ایسی خوبیاں ہیں جو اسے دوسرے سے ممتاز و مشرف کرتی ہیں مثلا حرمین شریفین کا امتیاز تو واضح ہے اور اسی طرح بدر وتبوک کا بھی شرف مسلمہ ہے۔جد ہ بندرگاہ ہے اور طائف گرم علاقے میں سرد مقام ہے جہاں سے گرمی میں ٹھنڈک کا سامان کیا جاتا ہے نیزخیبر کی کھجوریں پورے حجاز کی بہترین کھجوریں ہیں اور پورے حجاز میں بھیجی جاتی ہیں۔حجاز میں پانی کی کمیابی کی وجہ سے عمومی طور پراس کا موسم گرم و خشک ہے لیکن طائف حجاز کا وہ حصہ ہے جو سرد ترین ہے اور موسم گرما میں اہل عرب کےلئے بہترین جائے پناہ ہے ۔حجاز میں چلنے والی ہوائیں عموماً دو قسم کی ہیں جن میں ایک ہوا انسانی صحت کےلئے خوشگوارہے جبکہ دوسری انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ان سب کے علاوہ یہ جزیرہ عرب کا ایک بہترین حصہ ہے جس کے بغیر یقیناً جزیرہ نما عرب کو مکمل وخوبصورت شمار نہیں کیا جاسکتا۔
نجد، جزیرہ ِ نما عرب کا وسطی خطہ ہے جو زیادہ تر سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ نجد ایک وسیع و عریض خطہ ہے جس کافراز تہامہ اور یمن ہے جبکہ نشیب عراق وشام ہیں۔ حجاز کی طرف ذاتِ عرق سے پہاڑوں کا شروع ہونے والا سلسلہ نجد کی حد ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ کوہ ہائے مدینہ طیبہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ذات عرق کے پہاڑوں سے اس طرف تہامہ تک کا علاقہ حجاز ہے۔ اس کے شمال میں صحرائے شام، عراق اور اردن واقع تھے جبکہ مغرب میں حجاز، مشرق میں صحرائے دہناءاورجنوب میں یمامہ کا علاقہ ہے۔ خطہ ِ نجد تمام جزیرۃ العرب کا عمدہ ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا ۔ عہد ِ قدیم کے شعرا ء کے کلام میں یہاں کی آب و ہوا، یہاں کے ٹیلوں، مہکتی فضاؤں اور خوشبوؤں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔
"نجد"کا لغوی معنی "زمین کا بلند وبالااور اونچائی پر واقع حصہ"ہے ۔سخت جگہ کو بهی نجد کہا جاتاہے۔ ملا علی قاری ابن اثیر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں نجد بلند ٹیلے کو کہتے ہیں۔ 295اس حوالے سے بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
وهو في الأصل ما ارتفع من الأرض والجمع نجاد ونجود وأنجد. 296
نجد اصل میں بلند زمین کو کہتے ہیں اس کی جمع نجاد، نجود اور انجدہے۔
نجد کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ سخت اور دوسرے علاقوں کی نسبت بلند علاقہ ہے۔ یہ سطح مرتفع، سطح سمندر سےسات سوپچاس( 750) تاپندرہ سو( 1500) میٹر بلندی پر واقع ہے۔ سید سلیمان ندوی عرب کے صوبوں کی تفصیل اور وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے نجد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عرب کامشرقی حصہ عموماً بلند اور فرازہے اور کوہ سروات سے اترکر وسط ملک کو طے کرتا ہوا عراق تک چلاجاتا ہے ۔اس مشرقی حصہ کا نام نجد ہے جس کے معنی فراز وبلندی کے ہیں۔ 297یوں یہ واضح ہوتا ہے کہ نجد کو نجد اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دوسرے علاقوں کی نسبت بلند ہے۔ معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتے ہیں:
قال وكل ما ارتفع عن تھامة فهو نجد فھي ترعي بنجد وتشرب بتھامة. 298
( اصمعی) کہتے ہیں کہ تہامہ سے بلندی پر واقع سرزمین کا نام نجد ہے۔ محاورہ ہے کہ اونٹنی نجد میں چرتی ہے اور تہامہ میں سیراب ہوتی ہے۔
اس محاورے میں نجد کے سبزے اور چراگاہوں کی طرف اشارہ ہے کہ لوگوں کی اونٹنیاں نجد کے بلند علاقے میں سبزے اور شادابی کی وجہ سے چرتی تھیں اور تہامہ کے نشیب میں پانی پی کر سیراب ہوتی تھیں۔عدنانی قبیلے کے لوگ ہذیل کی بولی میں نجد کو نُجُد کہتے تھےالبتہ یہ بات طے ہے کہ نجد سے یہ بلند سطح مرتفع ہی مراد لی جاتی تھی جیسا کہ ان مقامات سے بھی واضح ہوتا ہے جن کے مرکب ناموں میں نجد کا ذکر آتا ہے۔نجد نام کے دیگر چھوٹے چھوٹے مقامات بھی عرب کے مختلف علاقوں میں موجود تھے جن میں نجد برق، نجد الوذ، نجد عقاب اور نجدِ کبکب شامل ہیں۔ نجدِ برق کے حوالے سے صفی الدین بغدادی لکھتے ہیں:
نجد برق: واد بالیمامة. 299
نجد برق یمامہ کی وادی ہے۔
نجد الوذ کے محل ِ وقوع کے متعلق یاقوت حموی لکھتے ہیں:
نجْدُ ألْوَذَ: في بلاد هذيل. 300
نجد الوذ ہذیل کےعلاقوں میں واقع ہے۔
نجد العقاب کے محل ِ وقوع سے متعلق جار اللہ زمخشری لکھتے ہیں:
نجد العقاب: بدمشق. 301
نجد عقاب دمشق میں ہے۔
اسی طرح دیگر کتب میں نجداَجا، نجد شریٰ و خال، 302نجد عفرب، نجد مریع 303اورنجد کبکب بھی منقول ہے۔ڈاکٹر جواد علی نجدِ کبکب کے محل ِ وقوع سے متعلق لکھتے ہیں:
وكبكب جبل بعرفات. 304
اور نجد کبکب عرفات کے قریب ایک پہاڑ ہے۔
تاہم جب حدیث، سیرت اور تاریخ میں خطہ ِ نجد کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے عموماً مراد سطح مرتفع نجد کا وسیع علاقہ لیا جاتا ہے جس میں آج کل ریاض کا مشہور شہر بھی آباد ہے ۔ 305
نجد وسط عرب کا بلند ترین علاقہ ہے جس کی سرحدیں حجاز سے لےکر عراق تک پھیلی ہوئی تھیں اور عراق، مدینہ، مکّہ، یمن اور شام کی سرحدوں سے بھی ملتی تھیں۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
نجدوسط عرب میں ایک سرسبز وشاداب اور بلندوفراز قطعہ ملک ہے جوسطح آب سے بارہ سو( 1200) میٹر بلند ہے اور تین (3)طرف سے آب وگیاہ اور صحراؤں سے محیط ہے۔ اسی لیے وہ اجنبی اثر واقتدار اور بیرونی آمدورفت سے محفوظ ہے، اس کے شمال میں صحرائے شام، مغرب میں صحرائے حجاز، مشرق میں صحرائے دہنا اور جنوب میں صوبہ یمامہ ہے۔ 306
نجد تین اطراف سے بے آب وگیاہ صحراؤں سے گھرا ہوا تھا اس لیے یہ علاقہ زیادہ تر بیرونی اثر ورسوخ اور حملہ آوروں سے محفوظ رہا۔ اس کے شمال میں صحرائے شام، عراق اور اردن واقع تھے جبکہ مغرب میں حجاز، مشرق میں صحرائے دہناءاورجنوب میں یمامہ کا علاقہ۔ یمامہ کے جنوب میں الربع الخالی واقع تھااورنجد کے شمال میں صحرائے نفوذ پھیلاہوا تھا۔ اس کے وسط میں کوہستان طویق تھاجسے کئی وادیاں (یعنی ندیاں) قطع کرتی تھیں جن میں سے اہم وادی الرمہ اور وادی حنیفہ تھیں۔ حدود نجد کے تعیین میں مؤرخین کے کئی اقوال منقول ہوئے۔ ازھری ہروی اصمعی کے حوالےسے لکھتے ہیں:
سمعت الباهلي يقول كل ما وراء الخندق الذي خندقه كسري علي سواد العراق فهو نجد إلي أن تميل إلي الحرة فإذا ملت إليھا فأنت في الحجاز. 307
میں نے باہلی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ کسریٰ کی کھودی ہوئی خندق سے عراق تک اوپر والا علاقہ نجد ہے یہاں تک کہ تو حرہ تک پہنچ جائے، جب تم حرہ میں پہنچ جاؤ تو سمجھو تم حجاز میں ہو ۔
اسی طرح ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
الأصمعي قال سمعت الأعراب يقولون إذا خلفت عجلزا مصعدا وعجلز فوق القريتين فقدانجدت. 308
اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے اعرابیوں سے یہ سنا ہے کہ جب تم بلندی کی طرف جاتے ہوئے عجلز کو پیچھے چھوڑ جاؤگے تو تم نجد میں داخل ہوچکے ہوگے اور عجلز قریتین سے اوپر ہے ۔
نیز ازھری ہروی ا صمعی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
وما ارتفع عن بطن الرمة والرمة واد معلوم فهو نجد إلي ثنا يا ذات عرق. 309
بطن وادی رمہ سے بلندی پر واقع علاقہ کا نام نجد ہے اور یہ ذات عرق کی گھاٹیوں تک جاتا ہے۔
یعنی نجد کے اطراف میں خندق، بلندی پرعجل اور اس کےایک نچلی جانب بطنِ وادی تھی۔اسی حوالہ سے معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتے ہیں:
وقيل نجد إذا جاوزت عزيبا إلي أن تجاوز فيد وما يليھا وقيل نجد إسم الأرض العريضة التي أعلاها تھامة واليمن وأسفلھا العراق والشام قال السكري حد نجد ذات عرق من ناحية الحجاز كما تدور الجبال معھا إلي جبال المدينة وما وراء ذات عرق من الجبال إلي تھامة فهو حجاز فإذا انقطعت الجبال من نحو تھامة فما وراءها إلي البحر فهو الغور والغور والتھامة واحد ويقال أن نجدا كلھا من عمل اليمامة وقال عمارة بن عقيل ما سال من ذات عرق مقبلا فهو نجد إلي أن تقطعه العراق. 310
ایک قول یہ ہے کہ عذیب کو عبورکرلو تو نجد آجاتا ہے یہاں تک کہ فیداور اس کے مضافات کو طے کرلو۔ ایک قول یہ ہے کہ نجد اس عریض (یعنی ترچھی) جگہ کانام ہے جس کے بلند خطے تہامہ اور یمن ہیں جبکہ نشیب میں عراق وشام ہیں۔سکری کہتے ہیں کہ حجاز کی طرف ذاتِ عرق سے پہاڑوں کا شروع ہونے والا سلسلہ نجد کی حد ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ پھرتا ہوا کوہ ہائے مدینہ طیبہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ذات عرق کے پہاڑوں سے اس طرف تہامہ تک کا علاقہ حجاز ہے۔جب تم تہامہ کی جہت میں واقع پہاڑوں کو طے کرلو تو اس سے آگے سمندر تک کا علاقہ غور ہے، غور اور تہامہ ایک ہی چیز ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سارے کا سارا نجد یمامہ کے تحت آتا ہے۔ عمارہ بن عقیل کہتے ہیں کہ ذات عرق سے آگے بڑھو تو نجد ہے یہاں تک کہ اسے عراق قطع کرے۔
بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
نجد بفتح النون وسكون الجيم قال الجوهري نجد من بلاد العرب وكل ما ارتفع من تھامة إلي أرض العراق فهو نجد وهو مذكر قلت النجد الناحية التي بين الحجاز والعراق يقال ما بين العراق وبين وجرة وغمرة الطائف نجد ويقال هو ما بين جرش وسواد الكوفة وحده من الغرب الحجاز وفي العباب نجد من بلاد العرب خلاف الغور وهو تھامة وكل ما ارتفع من تھامة إلي ارض العراق فهو نجد. 311
نجد نون کے فتحہ اور جیم ساکن کے ساتھ ہے، جوہری فرماتے ہیں: نجد عرب کا ایک علاقہ ہے اور تہامہ سے لے کر ارض عراق تک نجد ہے اور یہ لفظ مذکر ہے۔ عینی فرماتے ہیں کہ نجد وہ علاقہ ہے جو حجاز اور عراق کے درمیان واقع ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ عراق، وجرہ اورغمرۃ الطائف کے درمیان والا علاقہ نجد ہے جبکہ بعض نے یوں کہا ہے کہ جرش اور صحراء کوفہ کے درمیان نجد ہے اور مغرب میں اس کی حد حجاز تک ہے۔عباب میں لکھا ہے کہ غور یعنی تہامہ کے برخلاف عرب کا وہ سارا بلند علاقہ جو تہامہ سے ارض عراق تک ہے نجد ہے۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ سے مشرق کی جانب عجلز کو عبور کرنے سے بالائی علاقہ شروع ہوجاتا ہے جو قدیم زمانہ سے ہی نجد کی مغربی حد ہے۔ دوسرے عرب علاقوں کی نسبت نجد کی بلندی ابتداء سے ہی زیادہ ہے اورنجد کی شمالی حد عراق پر جاکر منتہی ہوتی ہےجو اس کے نشیبی علاقہ کی طرف واقع ہے۔نجد کےجنوبی بالائی علاقہ کی طرف یمن واقع ہے۔ نجد کے متعلق مختلف اقوال کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ حجاز، عراق، شام، یمن اور یمامہ کے وسط میں واقع علاقے کا نام نجد ہے۔
عرب جغرافیہ دانوں نے نجد کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سےایک نجد ِعالیہ یعنی بالائی نجد جبکہ دوسرانجدِ سافلہ یعنی نشیبی نجد۔ 312نجد عالیہ اس علاقے کو کہاگیا جو حجاز اور تہامہ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور نجد سافلہ اس علاقے کوکہاگیا جو عراق کی طرف پھیلا ہوا ہے۔اس کی حد بیان کرتے ہوئے سید محمود شکری لکھتے ہیں:
نجد اسمان السافلة والعالية فالسافلة ما ولي العراق والعالية ما ولي الحجاز وتھامة.313
نجد دو علاقوں کا نام ہے، نشیبی اوربالائی۔نشیبی وہ علاقہ ہے جو عراق سے متصل ہے اور بالائی وہ ہے جو حجاز اور تہامہ سے متصل ہے۔ 314
سید سلیمان ندوی نے نجد کی تین تقسیمات ذکر کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے دور میں نجد شمر، قصیم اور عارض تین حصوں میں منقسم ہوکر دو شیوخ کے زیر حکومت تھا۔ 315
نجد بہت زرخیز علاقہ تھا اور اس میں کچھ جگہیں صرف زرخیزی کی وجہ سےہی بہت مشہور ہیں۔شعرائے عرب نے نجد کی زرخیزی اور آب وہوا کی خوبی کی بنا پر اس کو اپنے اشعار میں بڑا ممتاز مقام دیا ۔ ایک بدوی شاعر کہتا ہے:
ألا حبذا نجد وطيب ترابه
وغلظة دنيا أهل نجد ودينھا. 316
کیا خوب ہے نجد اور اس کی مٹی کی خوشبو اور اہل نجد کی امور دین و دنیا میں سختی ۔
ساعدہ بن جویہ ہذلی نجد شریٰ کے علاقے میں اپنے سفر کی یادوں کو اپنے اشعار میں یوں بیان کرتا ہے:
تحملن من ذات السليم كأنھا
سفائن يم تنتحيھا دبورها. 317
بنو سلیم کے علاقے سے سواریاں لدی آتی ہیں گویا وہ سمندری کشتیاں ہیں جنہیں مغرب سے آنے والی ہوا کے جھونکے آگے لیے جارہے ہیں ۔
نجد کے حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں:
هي اطيب ارض في جزيرة العرب ولذلك تري الشعراء قديما وحديثا يلھجون بذكرها ويترنمون برباها وريا عطرها قال قائلھم:
تمتع من شميم عرار نجد
الا یا حبذا نفحات نجد
وریا روضه بعد القطار. 318
(نجد) تمام جزیرۃ العرب کا عمدہ ترین علاقہ ہےیہی وجہ ہے کہ شعرا ءنے قدیم زمانے میں بھی اس کا ذکر کیا اور اس دور میں بھی کرتے ہیں۔وہ یہاں کے ٹیلوں، مہکتی فضاؤں اور خوشبوؤں کے گیت گنگناتے ہیں۔ان میں سےایک شاعر نےکہا: نجد کی عرار نامی بوٹی کی خوشبو سے فائدہ اٹھا لو ورنہ آج رات کے بعد کوئی عرار نہیں ملے گی۔ نجد کی خوشبو اور بارش کے بعد وہاں کے باغات کی مہک کس قدر بھلی معلوم ہوتی ہے۔ 319
نجد کی سرزمین عمدہ ترین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی مہکتی فضاؤں کی وجہ سے عرب کا بہترین خطہ تصور کی جاتی تھی۔ جبل شمر، القصیم، سدیر (وادی فقی)، وشم، عارض، الخرج، الحریق، الافلاج اور وادی الدواسر، نجدہی کے علاقے اور مشہور مقامات میں سےتھے۔ 320
ضریہ نجد کا ایک قصبہ تھا جو معروف ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم ترین بھی ہے۔ابن سعید انصاری اس کے محلِ وقوع کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ضرية من بلاد نجد الي جھة الشام. 321
ضریہ شام کی جہت میں بلاد نجد کا ایک علاقہ ہے ۔
یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ یہ نجد کی قدیم ترین آباد بستی ہے جو بصرہ سے مکّہ جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے۔ 322اس قصبہ کے نام کے حوالے سے دو احتمالات منقول ہیں۔ ایک یہ کہ قدیم زمانہ میں یہاں پر ربیعہ بن نزار کی بیٹی ضریہ رہا کرتی تھی جس کی طرف اس قصبہ کا نام منسوب ہوا۔ ابن اثیر لکھتے ہیں:
قرية موضع معروف نسب الي ضرية بنت ربيعة بنت نزار. 323
(ضریہ)معروف مقام کی بستی ہے جو ضریہ بنت ربیعہ بنت نزار کی طرف منسوب ہوئی۔
محمود زمخشری اس حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ضریہ ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر اس جگہ کا نام ضریہ رکھا گیا ہے۔ 324دوسرا احتمال یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں ضریہ نام کا ایک قدیم کنواں تھا جس وجہ سے اس علاقے کو ضریہ کہاگیا۔ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ یہ ایک کنویں کا نام تھا ۔ 325ضریہ کا علاقہ نجد کے وسط میں تھااور یہ بہترین چراہ گاہوں پر مشتمل تھا۔ ان دنوں ضریہ نامی قصبہ ربذہ سے ایک سو پینسٹھ ( 165) کلو میٹر اور حناکیہ سےدو سوسینتالیس( 247) کلو میٹر مشرق میں، بتراء سے جو عنیزہ شاہراہ پرواقع ہےایک سو پینتیس(135) کلومیٹر جنوب میں اور عفیف سے تقریباً نوے( 90)کلومیٹر شمال میں ہے۔یہاں محمد بن مسلمہ کی قیادت میں پانچ (5)ہجری میں سریہ قرطاء پیش آیا تھا۔ قبیلہ قرطاء بنوبکر بن کلاب قیسی کی ایک شاخ تھی۔المسعودی لکھتے ہیں:
سرية محمد بن مسلمة الانصاري في المحرم الي القرطاء من بني ابي بكر ابن كلاب بناحية ضرية بموضع يقال له البكرات. 326
محمد بن مسلمہ انصاری کابنو بکر بن کلاب سے ضریہ نامی بستی میں سریہ محرم میں پیش آیا تھا جو بکرات کے مقام پر ہے۔
مندرجہ بالا روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضریہ نجد کا وہ وسطی علاقہ ہے جو ضریہ نامی عورت یا ضریہ نامی کنویں کی وجہ سے ضریہ کہلاتا تھا اور جانوروں کی افزائش نسل کے لئے بہترین تھا ۔
یہ نجد کا ایک پہاڑ تھا جس میں سرخ، سیاہ اور سفید رنگ کے قطعات تھے ۔ جبل ذات الرقاع مدینے سے تقریباً سو( 100)کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حناکیہ اورشقرہ موجودہ شقران کے درمیان واقع ہے ۔ یہیں محرم پانچ(5)ہجری میں غزوہ ذات الرقاع پیش آیا تھا۔اس غزوہ کےذات الرقاع نام رکھے جانے کے بارے میں کئی اقوال منقول ہیں ۔مثلاً اس مقام پر ایک پہاڑ تھا جس میں سرخ، سفید اور سیاہ رنگ کے پتھر تھے جس کی نسبت سے اسے یہ نام دیا گیا۔ 267اسی طرح رقاع، رقعہ کی جمع ہے جس کا معنی کپڑے کا ٹکڑا یا کپڑے کی دھجی ہے چونکہ اس جنگ میں مسلمان پیدل چلنے سے زخمی ہوگئے تھے اورانہوں نے پیروں پر کپڑوں کی دھجیاں لپیٹ لیں تھیں لہذا اس غزوہ کا نام ذات الرقاع پڑگیا۔ 328ایک قول یہ ہے کہ صحابہ کرام نے رنگ برنگ کے کپڑے کے ٹکڑوں اور دھجیوں کو جوڑ کر جھنڈا بنایا تھا اس لیے اسے ذات الرقاع کہا گیاجبکہ آخری قول یہ ہے کہ اس جگہ ایک درخت تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا اس وجہ سے اس غزوہ کا نام غزوۃالرقاع پڑگیا۔ 329اس کا مقام وقوع قصبہ حناکیہ سے دس(10)پندرہ(15) کلومیٹر جنوب میں مریہ نامی بستی کے پاس ہے۔
نجد کے بالائی حصہ میں بنوطئی کے پہاڑ ہیں جو جبل اَجا اور جبل سلمیٰ پر مشتمل ہیں ۔ " اَجا " قوم ِ عمالیق میں سے ایک شخص کا نام تھا جو سلمی نامی عورت سے عشق کرتا تھا۔ سلمی اور اَ جا کو ان ہی دو پہاڑوں پر قتل کر دیا گیا تھا جس وجہ سے یہ دونوں پہاڑ ان سے منسوب کر دیے گئے۔ اس واقعہ کوابن کثیر نے اپنی کتاب میں سہیلی سے نقل کیاہے۔ 330سہیلی اس واقعہ کو ابن کلبی سے روایت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
أن أجأ اسم رجل بعينه، وهو: أجأ بن عبد الحي، وكان فجر بسلمى بنت حام، أو اتھم بذلك، فصلبا في ذينك الجبلين، وعندهما جبل يقال له: العوجاء، وكانت العوجاء حاضنة سلمى فيما ذكر وكانت السفير بينھا وبين أجأ، فصلببت في الجبل الثالث، فسمي بھا. 331
اجا ایک خاص آدمی کا نام ہے جو اجا بن عبد الحئی ہے، ا س نے سلمی بنت حام سے بدکاری کی تھی یا اس کی تہمت لگی تھی توان دونوں کو پہاڑوں پر انہیں سولی دی گئی۔ان دونوں پہاڑوں کےپاس ایک پہاڑ ہے جسے عوجاء کہاجاتا ہے اور کسی تذکرہ کے مطابق عوجاء سلمی کی آیاتھی نیز اس کے اور اجا کے درمیان سفیر تھی تو اسے بھی تیسرے پہاڑ پر سولی دی گئی اور اس پہاڑ کو اس سے منسوب کردیا گیا۔
اس واقعہ کی مکمل تفصیلات بیان کرتے ہوئےیاقوت حموی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وذكر العلماء باخبار العرب ان اجا سمي بسم رجل وسمي سلمي باسم امراة وكان من خبرهما ان رجلا من العماليق يقال له اجا بن عبد الحئي عشق امراة من قومه يقال لھا سلميٰ وكانت لھا حاضنة يقال لھا العوجاء وكانا يجتمعان في منزلھا حتي نذر اخوت سلمي وهم الغميم والمضل وفدك وفائد والحدثان وزوجھا فخافت سلمى وهربت هي وأجأ والعوجاء، وتبعھم زوجھا وإخوتھا فلحقوا سلمى على الجبل المسمى سلمى، فقتلوهاهناك، فسمّي الجبل باسمھا ولحقوا العوجاء على هضبة بين الجبلين، فقتلوها هناك، فسمّي المكان بھاولحقوا أجأ بالجبل المسمّى بأجإ، فقتلوه فيه، فسمّي به. 332
عرب کے علمائے تاریخ نے ذکر کیا ہےکہ اجا پہاڑ کانام ایک مرد کے نام پر رکھا گیا اور سلمی پہاڑکانام ایک عورت کےنام پر رکھا گیا۔ان دونوں کے حالات میں یہ وار د ہوتا ہے کہ عمالیق قوم کاایک مرد جسے اجا بن عبد الحئی کہاجاتاتھا، اسے اپنی قوم کی ایک عورت سے محبت ہوگئی تھی جسے سلمیٰ کہاجاتا تھا اور اس سلمی کی ایک خادمہ تھی جس کا نام عوجاء تھا اور یہ دونوں اسی کے گھر میں ملاقات کرتے تھے یہاں تک کہ سلمی کے بھائی غمیم، مضل، فدک، فائد اور حدثان باخبر ہوگئے اور اس کا شوہر بھی باخبر ہوگیا۔اس صورتحال سے سلمی گھبراگئی اور بھاگ گئی ۔ اجا اور عوجاء بھی بھاگ گئے۔ سلمی کے شوہر اور اس کے بھائیوں نے ان سب کا پیچھا کیاتو سلمی کو اس پہاڑ (کوہِ سلمیٰ)پر پکڑ لیا اور اسے وہیں قتل کردیا۔ اسی وجہ سے اس پہاڑ کانام اس کے نام پر رکھا گیا۔پھر یہ سب عوجاء سے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان پھیلے ہوئے پہاڑ پر جاملے اور اسے وہیں قتل کردیا تو اس جگہ کا نام بھی عوجاء کے نام پر رکھ دیاگیا۔پھر یہ سب اجا سے دوسرے پہاڑ (کوہِ اجا) پر جاملے اور وہاں اسے قتل کردیا تو اس کے نام پر پہاڑ کا نام رکھاگیا۔
بلا د طئی کے یہ تینوں پہاڑ اسی وجہ سے مشہور ہوئے اور یہی بلاد طئی قدیم زمانہ میں عدنانی قبائل میں سے ایک بڑے قبیلہ بنی اسد کا مسکن بھی تھا جہاں یہ سب اپنے خاندانوں سمیت آباد تھے ۔اس حوالے سےعمر بن رضا لکھتے ہیں:
قبيلة عظيمة.... ان بلاد طيء كانت لبني اسد.333
یہ بڑا قبیلہ تھا ۔۔۔بے شک بلاد طئی بنی اسد کی قیام گاہ تھا۔
سخاوت، فیاضی اور مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور عرب سردار حاتم طائی کا مسکن بھی یہی خطہ تھا ۔ نجد کا خوبصورت شہر حائل بھی یہیں آباد ہےاوریہاں کی مشہور کھجور حلوۃ الجبل ہے۔موجودہ سعودی صوبہ حائل کے اہم شہر جبہ، بقعاء، غزالہ، حلیفہ، السلیمیٰ، السبعان اور المیاہ ہیں۔ حائل صوبائی دار الحکومت ہے جو جبل اَجا اور جبل سلمیٰ کی طرف سے بہنے والی ندی (یعنی وادی حائل) کے کنارے واقع ہے۔ 334حائل کے حیوانات کا تذکرہ کرتے ہوئے قاضی سلیمان منصورپوری لکھتے ہیں:
حائل میں چار بڑے قصبے پائے جاتے ہیں اور آبادی کا اندازہ چار لاکھ(400000) نفوس کا ہے۔اس علاقہ کا گھوڑا دنیا بھر کے گھوڑے سے اعلیٰ سمجھا جاتا ہے یہاں گدھے، اونٹ، گائے، بکری بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑوں میں بقروحشی، چیتا، لومڑی، بھیڑیا، ہرن، خرگوش وغیرہ بہت ملتے ہیں۔ 335
نجد کے مختلف مقامات بیان کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
آج کل نجد شمر، قصیم اور عارض تین حصوں میں منقسم ہوکر دو شیوخ کے زیر حکومت ہوگیا ہے۔ شمالی حصہ جو صحرائے شام وعراق اورحجاز کے متصل ہے، شمر کہلاتا ہے اور کبھی اپنے دار الامارۃ حائل کے نام سے حائل بھی پکارا جاتا ہے ۔جبل شمر اور جبل سلمیٰ اور کچھ وادیاں اس تقسیم میں داخل ہیں اورپہاڑی خودرو نہروں سے وادیاں شاداب رہتی ہیں ۔ 336
حائل کے ساتھ ہی ایک اور علاقہ شرقی جہت سےمتصل ہے جو نجد کا بہترین اور سرسبز علاقہ ہے اور اس علاقہ کے اکثر لوگ بادیہ نشین ہیں ۔ 337اس علاقہ کا نام قصیم ہے۔
قصیم نجد کا وسطی خطہ ہے جو وشم اور جبل طے یعنی جبل شمر کے درمیان واقع ہے۔ حرۂ خیبر اور جنوبی حائل سے آنے والی ندی صوبہ قصیم کے وسط میں بہتی ہے۔ بریدہ یہاں کا صوبائی دار الحکومت ہے۔ قصیم کے مغرب میں واقع جبل طامیہ بارہ سو چھیاسی(1286)میٹر بلند ہے اوریہاں کے اکثر لوگ بادیہ نشین ہیں۔کھجور اور دیگر میوہ جات کی پیداوار میں یہ علاقہ قدیم زمانہ ہی سے ممتاز مقام رکھتا ہے ۔یاقوت حموی اس حوالہ سے لکھتے ہیں کہ قصیم شہر میں انجیر، آڑو، انگوراور انار کے درخت پائے جاتے ہیں ۔ 338ان میوہ جات کے علاوہ زیتون، کشمش، خربوزہ، تربوز اور کھجور بھی بکثرت دستیاب ہیں۔ 339یہ قصیم کا نصف شمالی حصہ حکومت شمر میں داخل تھا اور شمر کی حکومت آج کل آل رشید کے قبضے میں ہے۔ آبادی کا تخمینہ تین لاکھ (300000)ہے ۔ شمر میں پہلے قبیلہ طے کی ایک شاخ شمر آباد تھی جس کے نام سے یہ ملک موسوم کیا گیا ۔ 340قصیم کے موجودہ مشہور مقامات میں بریدہ، عنیزہ، الرس، المذنب، البکیریہ، عقلۃ الصقور، نقرہ، قبہ اورالخبراءشامل ہیں۔ 341
یہ علاقہ کئی ناموں سے مشہور ہے تاہم پہلے اس کو "عارض" کہا جاتا تھا جبکہ موجودہ نام ریاض ہےاور یہ بنی تمیم کا صدیوں سے خاص مسکن رہا ہے۔ اس علاقہ کے محل وقوع اورشادابی کے حوالہ سےسید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
عارض جو یمن کے صوبہ احقاف کے متصل ہے نجد الیمن کہلاتا ہے اور آج کل نجد سے عموماً یہی سرزمین مراد لی جاتی ہے ۔ قصیم کا جنوبی حصہ امیر نجد آل سعود جس کے دار الامارۃ کا نام مدینۃ الریاض ہے کی حکومت کے تابع ہے اور نجد کا یہ حصہ شمر سے زیادہ سرسبزوشاداب ہے ۔ 342
نجد میں موجود بنو تمیم کی کل آبادی تین خاندانوں میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتی تھی۔پہلا خاندان حنظلہ بن مالک ابن زید مناۃ بن تمیم کا، دوسرا خاندان سعد ابن زید مناۃ بن تمیم کا اورتیسراخاندان عمرو بن تمیم کا۔ 343بنو تمیم کے یہ خاندان نجد کے باسی تھے اور یہ سب نجد ہی کے اولین مکین تھے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ جزیرہ عرب کامشرقی حصہ زیادہ تر بلند ہے اور چونکہ یہ سخت اور دوسرے علاقوں کی نسبت بلند ہے لہذا اسے نجد کا نام دے دیا گیا ۔یہ شہر سطح سمندر سےسات سوپچاس (750) تاپندرہ سو(1500) میٹر بلندی پر واقع ہے۔ اس کا محل وقوع کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ا س علاقے کی سرحدیں حجاز سے لےکر عراق تک وسیع ہیں اور عراق، مدینہ، مکّہ، یمن اور شام کی سرحدوں سے بھی ملتی ہیں۔نجد کے تین اطراف چٹیل صحرا ہیں جو ایک طرح قدرتی باڑ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کو بیرونی حملوں سے بچاتے ہیں۔پھر نجد دوحصوں میں تقسیم ہے یعنی بالائی نجد اور نشیبی نجد۔ بالائی نجد حجاز اور تہامہ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور نشیبی نجد عراق کی طرف پھیلا ہوا ہے۔نجد ہی وہ علاقہ ہے جہاں عرب کے کئی بڑے شعراء پیدا ہوئے تھے جن میں امرؤالقیس اورمہلہل سر فہرست ہیں۔نجد کی سرزمین اپنی زرخیزی وشادابی کی بنا پر شعراء کے کلام کا لازمی جزء بنی رہی۔ یہاں کئی اہم مقامات ہیں جن میں جبل شمر، قصیم، سدیر (وادی فقی)، وشم، عارض، الخرج، الحریق، الافلاج، وادی الدواسر، قصبہ ضریہ اور ریاض مشہور ہیں۔اسی طرح اس کے ایک حصہ جبال طے میں مشہور پہاڑ جبل اجا، جبل سلمی اور جبل عوجاء واقع ہیں۔ عہد نبوی میں اور اس سے قبل بھی نجد میں کئی عرب قبائل آباد تھے جن میں اولین عرب بائدہ کی قوموں میں سے طسم وجدیس بھی تھے پھر قحطانی اور ان کے ساتھ عدنانی قبائل آباد ہوگئے ۔ یہ خطہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ بنوبکر اور بنوتغلب میں چالیس سال تک جنگ بسوس کہلانے والی جو خون ریزجنگ جاری رہی تھی وہ بھی اسی سرزمین میں لڑی گئی تھی۔قبائل مضر بھی یہیں آباد تھے جنہوں نے عہد نبوی میں بھی اسلام وصاحب اسلام کے خلاف کئی دفعہ معاندانہ کاروائیاں کیں تھیں اور فتح مکّہ کے بعد اگرچہ کہ چند قبائل مسلمان ہوگئے تھے لیکن وصال نبوی سے تھوڑاعرصہ پہلے ہی یہاں فتنہ ارتداد شروع ہوگیا تھا جس کی سرکوبی کےلیے نبی کریم نے حضرت ابوقتادہ کی قیادت میں ایک لشکرروانہ فرمایا تھا نیز یہیں غزوہ ذات الرقاع پیش آیا تھا۔یوں نجد کا شمار عرب کے انتہائی اہم مرکزی خطوں میں ہوتا تھا جس کی سیاسی، معاشی، تجارتی اور سماجی اہمیت مسلمہ تھی۔
عرب کا وہ حصہ جو مشرقی نجد اور حدود عراق سے خلیج فارس اور عمان کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے عروض کہلاتا ہے۔ عروض ترچھے خطوط کو کہتے ہیں کیونکہ یہ علاقے ترچھے واقع ہوئے ہیں اس لیے انہیں عروض کہا جاتا ہے۔ یہ علاقے ساحل خلیج کے ساتھ ساتھ فارس، یمن اور عرب کے درمیان حائل ہیں۔ ان میں سطح مرتفع بھی ہے، نشیب بھی ہے، پہاڑ بھی ہیں اور وادیاں بھی ہیں۔سید محمود شکری کہتے ہیں کہ عروض دوعلاقوں یمامہ اور بلاد ِبحرین پر مشتمل ہے۔ 344عروض کا محل ِ وقوع بیان کرتے ہوئےابن الفقیہ لکھتے ہیں:
وأرض اليمامة والبحرين إلي عمان من العروض. 345
یمامہ اور بحرین کی زمین عمان تک عروض کہلاتی ہے ۔
الموسوعۃ الفقہیہ کے مصنفین اس قول کی تائید کرتے ہوئے لکھتےہیں:
وصارت بلاد اليمامة والبحرين وما والاهما العروض. 346
یمامہ، بحرین اور ان دونوں سے متصل علاقے عروض کہلاتے ہیں۔
صاحب المسالک اپنی کتاب میں عروض کا محل ِ وقوع بتاتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
وصارت بلاد اليمامة والبحرين وما والاهما العروض. 347
اوریمامہ وبحرین اوراس سےمتصل زمین بھی عروض ہیں۔
صاحب المسالک نے اپنی دوسری کتاب معجم میں 348اور یاقوت حموی نے معجم البلدان میں یہی محل ِ وقوع بیان کیا ہے۔ 349عروض میں یمامہ اور بحرین کے علاوہ عمان بھی شامل ہے۔ 350اسی حوالہ سے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
اس صوبہ میں یمامہ،بحرین اور عمان تین اقطاع ہیں،بحرین اور عمان ساحل بحر فارس پر واقع ہیں اور یمامہ بحرین اور عمان کے پار نجد حجاز اور یمن کے وسط میں ہے۔ 351
مذکورہ بالا اقتباسات سے واضح ہوتا ہےکہ عمان بھی عروض میں شامل ہے اور اکثرمؤرخین کی یہی رائے ہے جبکہ بعض علماء نے عمان کو حجاز میں شمار کیا ہے۔ تاہم اکثر علماء نے عمان کو عروض میں شامل کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔یہ تینوں شہر یعنی یمامہ، بحرین اور عمان، خطہِ عروض کا حصہ ہیں اور ان تینوں کے مجموعہ کو عروض کہا جاتا ہے۔ 352
یمامہ خطہِ عروض کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ وہی مقام ہے جس مقام پر مسیلمہ کذاب سے جنگ لڑی گئی تھی۔یہاں بنو حنیف قبیلہ آباد تھا اور باغات کی کثرت تھی۔ یہ علاقہ قدیم زمانے میں یمن میں شامل تھا اور بکثرت باغات کی وجہ سے بہت آباد اور مالدار علاقہ تھا۔ 353بدرالدین عینی یمامہ کے متعلق لکھتے ہیں:
واليمامة…مدينة بالبادية يعني مقام مسيلمة الكذاب وهي بلاد بني حنيفة وهي اكثر نخلا من سائر الحجاز . 354
اوریمامہ۔۔۔مضافات میں ایک شہر ہےیعنی مسیلمہ کذاب کامقام اور وہ بنوحنیفہ کاعلاقہ ہےاورسارےحجاز میں باغات کی کثرت والاہے۔
یمامہ عرب کی انتہائی زرخیز زمین تھی جہاں سے اناج اور پھل پورے عرب میں درآمد کیے جاتے تھے اور جزیرہ عرب کے باشندوں کی خوراک کی ضروریات کاکافی بڑا حصہ اس علاقے سے پورا ہوتا تھا۔ یہ علاقہ اپنی شادابی اور میوہ جات کے لیے بہت مشہور تھا۔گندم، جو اور دیگر خوردنی اجناس میں وہ خود کفیل تھےاس کی شادابی کے حوالہ سے علامہ طبریلکھتے ہیں:
وهي إذ ذاك من أخصب البلاد وأعمرها وأكثرها خيراً لهم فيها صنوف الثمار ومعجبات الحدائق والقصور الشامخة. 355
اور یہ علاقہ بڑا ہی سرسبز، قدیم ترین خطہ ہے اور یہاں کے لوگوں کےلیےخیر کا مرکز تھا۔اس میں مختلف اقسام کے پھل،باغات کے سلسلے اور اونچے اونچے عالیشان محلاّت تھے ۔
مکّہ مکرّمہ میں بالخصوص اکابر قریش کا عام کھانا، گیہوں روٹی اور گوشت تھا ۔ اگرچہ گیہوں یا کسی بھی جنس یا غلہ کی پیداوار مکّہ کی بے آب و گیاہ وادی میں نہیں ہوتی تھی تاہم وہ فضل الٰہی سےاس شہرمقدس میں پہنچتی رہتی تھی۔ان اجناس بلکہ قرآنی نظم میں "ثمرات کل شی" یعنی ہر شے کے ثمرات میں گیہوں بھی شامل تھا بلکہ سب سے اہم جنس تھااوریہی گیہوں بالعموم شمال مشرقی علاقے یمامہ سےمکّہ مکرّمہ میں درآمد کیا جاتا تھا جو پورے عرب کے لیے گیہوں کا گودام اور خزینہ تھا۔ 356
یمامہ عرب کا وہ علاقہ ہےجسے قدیم زمانے میں"جو " کہا جاتا تھا پھر مدتوں بعد اسے ایک عورت یمامہ کے نام سے منسوب کر دیا گیا ۔ابن اثیر 357 اور یاقوت حموی358نے اس کا پرانانام " جو " بیان کیا ہے۔ اسی طرح یمامہ"قریہ" اور "حجر"کے نام سے بھی شہرت ر کھتا تھا۔اس حوالہ سے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
یمامہ کا قدیم نام "جو" تھا لیکن زیادہ تر اپنے قصبۂ حکومت کے نام سے مشہور ہوا جس کا نام "قریہ" اور "حجر" ہے،قریہ اور حجر دو لفظ ہیں لیکن معنی ایک ہی ہے۔ ابن الحائک ہمدانی یمنی جو عرب کی قدیم زبانوں سے واقف تھا وہ کہتا ہے کہ ان دونوں لفظوں کے معنی "آبادی" کے ہیں۔ قدیم عربی زبان میں "حجر" لفظ تھا بعد کی عربی زبان میں اس کے لیے "قریہ " کا لفظ استعمال ہوا جو حجر کا بعینہ ترجمہ ہے۔ 359
اس حوالے سے یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ حجر دراصل شہرِ یمامہ ہی تھا۔ 360تینوں یمامہ کے قدیمی نام تھے اور ان کے بعد اس کا نام یمامہ پڑگیاجس کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں یہاں ایک عورت رہا کرتی تھی جس کا نام زرقاء یمامہ بنت سہم بن طسم تھا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی لکھتے ہیں:
فسميت اليمامة باليمامة بنت سهم بن طسم. 361
یمامہ بنت سہم بن طسم کےنام پریمامہ کہلایا۔
قدیم ناموں کے بعد اس شہر کا نام مذکورہ عورت کے نام پر یمامہ رکھ دیا گیاتھا جس کی وجہ اس کی نیلی آنکھیں تھیں۔اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے سمہودی لکھتے ہیں کہ یمامہ نیلی آنکھوں والی عورت تھی جس کے نام پر اس علاقہ کا نام رکھا گیا تھا ۔362اسی طرح زرکلی الاعلام میں لکھتے ہیں:
يقال لها زرقاء اليمامة و زرقاء جو لزرقة عينيها. 363
اسے اس کی نیلی آنکھوں کی وجہ سےزرقاء یمامہ اور زرقاء جو کہا جاتا تھا ۔
ابن خلدون تاریخ عرب میں یوں وضاحت کرتے ہیں:
وكانت الزرقاء أخت رباح ناكحاً في طسم وتسمّى عنزة واليمامة. 364
اورزرقاء رباح کی بہن تھی جوطسم میں بیاہی ہوئی تھی اورعنزہ ویمامہ بھی کہلاتی تھی۔
ابن جوزی لکھتے ہیں:
وكانت فيهم الزرقاء واسمها اليمامة وبها سمي بلدها اليمامة. 365
اوران میں زرقاء تھی اور اس کا نام یمامہ تھااور اسی کےنام پراس شہر یمامہ کو کہاگیا۔
علامہ ابن خلدون اس حوالے سے لکھتے ہیں:
وكانت تلك البلد تسمي جو فسميت باليمامة اسم تلك المراة. 366
اس شہر کا نام پہلے" جو" تھا پهر اس عور ت کے نام پریمامہ کے نام سے مشہور ہوا۔
رہی یہ بات کہ اس عورت كی ایسی کیا خصوصیت تھی کہ ایک شہر کے قدیم نام کو تبدیل کرکے اس کے نام پر شہر کا نیا نام رکھاگیاتو کتب تاریخ میں اس عورت کی ایک خصوصیت منقول ہے کہ یہ عام انسانی آنکھ سے زیادہ دور دیکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی اور اس دوری کی مسافت ایک دن اوررات تھی ۔ 367اس کی اتنی دور دیکھنے کی خصوصیت کے سبب اس سے ایک اہم واقعہ منسوب ہے جو یمامہ شہر کے قدیم نام کو تبدیل کرنے کا سبب بنا۔اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ یمامہ میں سب سے پہلے آباد ہونے والے دو بھائی طسم اور جدیس تھے جوحضرت نوح کےبیٹے سام کے پوتے تھے پھر جب صدیاں گزرگئیں اور یمامہ میں ان دونوں کی اولاد کی آبادی بہت بڑھ گئی تو یمامہ میں یہی دو بڑے قبائل چھا گئے یعنی ایک بنی طسم اور دوسرا بنی جدیس۔ان میں بنی طسم بہت ظالم وجابرتھے اور انہوں نے اپنی حکمرانی بنی جدیس پر بھی قائم کی ہوئی تھی۔ اس وقت بنی طسم میں ایک بادشاہ تھا جس کا نام عملیق بن ہباش بن ہیلس بن ملادس بن ہرکوس بن طسم تھا۔ 368یہ بہت ظالم و جابر بادشاہ تھا۔اس کی بنی جدیس پر حکمرانی کی طرز کو بیان کرتے ہوئے علامہ طبری لکھتے ہیں:
وكان عليهم ملك من طسم ظلوم غشوم لا ينهاه شيء عن هواه يقاله له عملوق مضرا بجديس مستذلا لهم. 369
طسم قبیلے کا بادشاہ خواہش پرست، ظالم اور جابر تھا۔ اس بادشاہ کا نام عملوق تھا اور یہ بادشاہ فطری طور پر جدیس سے عناد رکھتا تھا اور ہمیشہ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرتارہتاتھا۔ 370
اس کا بنی جدیس سے ذلت آمیز سلوک اس حدتک بڑھا ہوا تھا کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی کسی لڑکی کی شادی ہوتو خاوند سے پہلے اسے میرے پاس بھیجا جائےچنانچہ مجبوراً تمام قبائل کو اس کا حکم ماننا پڑتا تھا ۔یہاں تک کہ قبیلہ جدیس کے سردار اسود بن غفار کی بہن عفیرہ بنت غفار کی شادی کا وقت آیا تو اس کو بھی حسب روایت اس پر عمل کرنا پڑا۔ 371اس ظالم کے وحشیانہ سلوک پر عفیرہ بنت غفار نے اپنے بھائی اور اپنی قوم کو عار دلائی تو اس کی باتیں سن کر اسود کی آنکھوں میں غیظ وغضب کے شرارے کوندنے لگے۔اس نے اپنی قوم کو پکارا تو اس کی پکار پر تمام بنی طسم جمع ہو گئے اور عملیق کے قتل پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ عملیق اور اس کی قوم کو دعوت دیں گے اور پھر دعوت کے وقت ان سب کو نیست ونابود کردیا جائے گا۔ ابن ہشام لکھتے ہیں کہ جدیس طسم پرچڑھ دوڑےاوران کےبےشمارلوگوں کو قتل کردیا۔ 372الحمیری کی روایت کے مطابق انہوں نے بادشاہ عملیق اور اس کےتمام وزراء کو بھی قتل کر دیا ۔ 373
ان میں سے ایک شخص رباح بن مرہ بن طسم بچ کر یمن بھاگ گیا اوروہاں کے بادشاہ حسان بن تبع سے مدد مانگی ۔ جب رباح بن مرہ بادشاہ حسان کو لے کر جدیس قبیلے والوں کے قریب پہنچا تواس نے بادشاہ سے کہاکہ آپ یہیں ٹھہریں کیونکہ میری ایک بہن کی شادی بنو جدیس میں ہوئی ہےجسے یمامہ کہا جاتا ہےاور وہ تین دن کی مسافت سے آدمی کو دیکھ لیتی ہے 374کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں دیکھ لے اور اپنی قوم کو خبردار کردے۔یہ سن کر بادشاہ رک گیااوراس نے اپنے ایک آدمی سے کہا کہ پہاڑ پر چڑھ کر حالات کا جائزہ لو چنانچہ وہ اوپر چڑھا تو اس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا جسے صحیح کرنے کے لیے وہ جھکا تو یمامہ نے اسے دیکھ لیا۔ اس نے قوم کے لوگوں کو بتایا لیکن انہوں نے اسے مذاق سمجھا۔بعد ازاں لشکر یمن نے دھاوا بول کر بنو جدیس کو شکست فاش دے دی اور یمامہ کو گرفتار کرلیا۔بادشاہ کے حکم پر اس عورت کی آنکھیں نکالی گئیں تو پتاچلا کہ اس کی آنکھوں کے حلقے اثمد سرمہ سے بھرے ہوئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اثمد سب سے پہلے اسی نے استعمال کیا تھا ۔ 375حسان بن تبع نے حکم دیا کہ یمامہ کو "جو"کے دروازے پر سولی دے دی جائے 376چنانچہ اسے سولی چڑھادیاگیا اوراس اہم واقعہ کے سبب اس شہر کا نام یمامہ رکھ دیا گیا۔
یمامہ جزیرہ عرب کے جنوب مشرق میں واقع ہے ۔یہ علاقہ قدیم زمانے میں یمن میں شامل تھا اور بکثرت باغات کی وجہ سے بہت آباد اور مالدار علاقہ تھا۔اس کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے سید محمود شکری لکھتے ہیں:
وهي مدينة دون مدينة الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم في المقدار، كان بينها وبين البصرة ست عشرة مرحلة وبينها وبين الكوفة مثل ذلك وهي أكثر نخلا من بلاد الحجاز وفيها مياه كثيرة. 377
یہ شہر مدینۃ الرسول ﷺ سے چھوٹا شہر ہے۔ اس کے اور بصرہ کے درمیان سولہ مرحلوں کی مسافت ہےنیز اتنا ہی فاصلہ اس کے اور کوفہ کے درمیان ہے۔ اس علاقے میں حجاز سے بھی زیادہ کھجوریں پائی جاتی ہیں اور یہاں پانی کی بہتات ہے۔ 378
موجودہ زمانہ میں یہ علاقہ سعودیہ عربیہ کے شہر ریاض سے کچھ فاصلے پر آتا ہےاور اس کے مشرق میں عمان اور بحرین، شمال اور مغرب میں اصل نجد اور جنوب میں الربع الخالی ہے۔سید سلیمان ندوی یمامہ كی حدود اربعہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
مشرق میں عمان اور بحرین، مغرب میں حجاز اور بعض حصہ یمن،جنوب میں احقاف یا الربع الخالی،شمال میں نجدہے، یمامہ کا وہ حصہ جو نجد سے متصل ہے آباد وسرسبز ہے۔ 379
اکثر اہل علم نے یمامہ کو عروض میں شمار کیا ہےجن میں سید محمود شکری، 380ابوعبید اللہ بکری، 384ابن الفقیہ 382اور ڈاکٹر جواد علی شامل ہیں 383جبکہ بعض مؤرخین اسے نجد میں شامل کرتے ہیں جیساکہ معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی لکھتے ہیں:
وهي معدودة من نجد وقاعدتها حجر وتسمي اليمامة جوا و العروض بفتح العين. 384
اور یہ نجد میں شمار کیا جاتاہے اور اس کا دارالحکومت حجر ہے۔یمامہ کا پرانا نام "جو"اور عین پر زبر کے ساتھ عَروض ہے۔
یمامہ کا مرکزی مقام حجر ہے۔ مندرجہ بالا علاقوں کے علاوہ اور بھی کئی علاقے یمامہ میں شامل تھے جو اب ویران ہوچکے ہیں۔ آج کل یمامہ نام کاایک قصبہ، الخرج کے شمال مغربی مضافات میں الریاض سے تقریباً اسی( 80) کلومیٹر دور پایا جاتا ہے۔ 385
عروض جن علاقوں پر مشتمل ہے ان میں سے ایک "بحرین"ہےجو خلیج فارس کے مغربی ساحل پر ایک چھوٹی سی ریاست ہےاوراس کا رقبہ اندازاً سو(100)مربع میل ہے۔بحرین کا دارلحکومت دارین تھا۔اس حوالہ سے ڈاکٹر شوقی خلیل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
سعودی عرب کا مشرقی ساحل عہد نبوی ﷺ میں بحرین کہلاتا تھا جس میں موجودہ جزائر بحرین اور قطر بھی شامل تھے ۔اس کا دار الحکومت دارین تھا جو موجودہ ظہران کے جنوب میں ساحل پر واقع ہے جو ان دنوں امارت بحرین، خلیج عربی (یعنی خلیج فارس) کے اندر سعودی عرب اور قطر کے مابین واقع جزائر کا مجموعہ ہے جس کا دار الحکومت منامہ ہے۔386
اس دار الحکومت دارین کی خوشبو دیار عرب میں بہت مشہور تھی جس کے متعلق ابن خلدون تحریر کرتے ہیں:
دارين هي من بلاد البحرين ينسب اليها الطيب كما تنسب الرماح الي الخط بجانبها فيقال مسك دارين والرماح الخطية. 387
دارین ملک بحرین کے متعلقات و مضافات میں سے ہےاور اس کی طرف ایک خوشبو منسوب کی جاتی ہے جیسے اس کےقرب میں علاقہ خط کی طرف نیزے منسوب کیے جاتے ہیں چنانچہ کہا جاتا ہے مشک دارین اور نیزہ خطیہ۔
ابن خلدون کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے بحرین کے ایک قریبی علاقے جس کا نام "خط" تھا ا س کا نیزہ مشہور تھا اور "دارین" جو اس کادارلحکومت تھا اس کی خوشبو بھی شہرت رکھتی تھی۔
بحرین کے محل وقوع پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تین اہم علاقے بحرین کے ساتھ ملتے ہیں۔ بحرین کے جغرافیہ کا ذکر کرتے ہوئے البکری لکھتے ہیں:
وغربيها متصل باليمامة وشمالها متصل بالبصرة وجنوبها متصل ببلاد عمان. 388
بحرین مغرب میں یمامہ، شمال میں بصرہ اورجنوبی حصہ میں عمان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
بدر الدین عینی بحرین کے حوالے سےلکھتے ہیں:
والبحرين ثنية بحر في الاصل موضع بين البصرة وعمان والنسبة اليه بحراني. 389
دراصل بحرین سمندری راستہ ہےجوبصرہ وعمان کےدرمیان ایک جگہ ہے اوراس کی طرف منسوب شئی بحرانی کہلاتی ہے۔
سید محمود شکری لکھتے ہیں کہ بحرین بہت وسیع سرزمین ہے جو بحر فارس کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے اوریہاں نخلستان اور پھل بکثرت پائے جاتے ہیں۔ 390ابن الفقیہ بتاتے ہیں کہ اونٹ کے ذریعے بصرہ سے بحرین کے شہر ہجر تک پندرہ(15)دن لگتے تھے ۔ 391اسی طرح شہر بحرین اور اس کی مسافت سمیت دیگر تفصیلات بیان کرتے ہوئے ابن خلدون لکھتے ہیں:
وهذا الاقليم مسافة شھر علي بحر فارس بين البصرة وعمان شرقيھا بحر فارس وغربيھا متصل باليمامة وشماليھا البصرة وجنوبھا بعمان كثيرة المياه ببطو نھا علي القامة والقامتين كثيرة البقل والفواكه مفرطة الحر منھالة الكثبان يغلب الرمل عليھم في منازلھم وهي من الاقليم الثاني وبعضھا في الثالث. 392
اس علاقے کی مسافت بصرہ اور عمان کے درمیان بحرفارس کے کنارہ کی طرف ایک مہینہ ہےاور اس کے مشرق میں بحرفارس ہے۔ مغربی جانب میں یہ یمامہ سے متصل اور ملحق ہے جبکہ اس کےشمال میں بصرہ ہے۔ جنوب میں عمان گہرےپانی کی فراوانی والاسرسبز وشاداب ملک ہے جہاں ہر طرح کے میوے اور ترکاریاں پیدا ہوتی ہیں۔ گرمی زیادہ پڑتی ہے اور جابجاریت کے ٹیلے بھی ہیں نیز تیز ہوا چلنے سے مکانات میں ریت بھرجاتی ہے۔ یہ ملک اقلیم ثانی میں داخل ہے اور اس کا بعض حصہ اقلیم ثالث میں داخل ہے۔ 393
آج کل سعودی عرب میں واقع بحرین کا علاقہ الاحساء کہلاتا ہے۔ ماضی میں قطر سے کویت تک پھیلے ہوئے ساحل نجد کا نام بحرین تھا اورہجر اس کا اہم شہر تھا جسے ان دنوں "الہفوف" کہا جاتا ہے۔اس علاقے کا نام پہلے "الحسا ء" تھا پھر عہد عثمانی کے آخر میں اسے الاحساء کہا جانے لگا اور بحرین کا اطلاق اس بڑے علاقےپر ہونے لگا جو ساحل کے مشرق میں واقع ہے۔اس خطے کا نام "اوال "تھا اور آج کل یہ امارۃ البحرین کہلاتا ہے۔جب مملکت سعودی عرب کا قیام عمل میں آیا تو الاحساء کا نام "المنطقۃ الشرقیۃ "رکھ دیا گیا اور دمام اس منطقہ (صوبے) کا دار الحکومت ہے۔ 394
قدیم بحرین اور موجودہ بحرین کے جغرافیہ اور اہم مقامات میں بہت فرق آگیا ہے۔ بہت سے علاقے جن کو مؤرخین بحرین کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں اب یہ علاقے دیگر ریاستوں میں مل چکے ہیں۔ ابن الفقیہنے بحرین کے کئی علاقوں کے نام لکھے ہیں جن میں سےدس( 10)کے نام جواثی،الاحساء،قطیف،الارۃ،بینونۃ،زارۃ،سابور،حوس، دراین اورکثیب الاحمر تھے۔ 395ان میں سے چند کی تفصیلات ذیل میں ذکر کی جارہی ہیں:
عہد نبوی میں بحرین کا مشہور شہر جواثی تھااوراس دور میں وہاں ایک بہت بڑا قبیلہ آباد تھا جس کا سردار عبد القیس تھا۔ ابن حجر عسقلانی اس قبیلہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:
هي قبيلة كبيرة يسكنون البحرين ينسبون الي عبد القيس بن أفصي بن دعمي بن جديلة بن أسد بن ربيعة بن نزار.396
یہ بہت بڑا قبیلہ تھا جو بحرین میں رہتا تھا اور عبد القیس بن افصی بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار کی طرف منسوب تھا۔
عہد نبوی میں عبد القیس کا قبیلہ بحرین کے مختلف علاقوں میں آباد تھا اور اسی قبیلہ کے ایک وفدمیں یہ سردار بھی آٹھ(8)ہجری میں مدینہ طیبہ آکر اسلام قبول کرچکا تھا۔ملاعلی قاری اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وعبد القيس أبو قبيلة عظيمة تنتھي إلي ربيعة بن نزار بن معد بن عدنان وربيعة قبيلة عظيمة في مقابلة مضر وكان قبيلة عبد القيس ينزلون البحرين وحوالي القطيث وما بين هجر إلي ديار المضربة وكانت وفادتھم سنة ثمان. 397
عبد قیس ایک بڑے قبیلے کا سردار تھا جو ربیعہ بن نزار بن معد بن عدنان پر منتہی ہوتا ہے اور ربیعہ بنومضر کے مقابلے میں بڑا قبیلہ ہے۔ عبد القیس کے قبیلے والے بحرین اور قطیف کے اردگرد اور حجر سے قبیلہ مضر کے درمیانی علاقوں میں پڑاؤ ڈالتے تھے اور ان کا وفدآٹھ( 8)ہجری میں آیاتھا۔ 398
جواثی وہ لوگ تھے جنہوں نے بحرین سےسب سے پہلے وفد کی شکل میں حضور نبی کریم کی بارگاہ میں آکراسلام قبول کیا تھااور پھر ان لوگوں نے واپس جاکربحرین کے شہر جواثی میں ایک مسجد بنائی تھی جس میں مدینہ منوّرہ کے بعد سب سے پہلے جمعہ قائم کیا گیا تھا ۔ ابن خزیمۃ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:
أن أول جمعة جمعت بعد جمعة في مسجد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم في مسجد عبد القيس بجواثي من البحرين. 399
حضور ﷺ کی مسجد میں جمعہ کی نماز (قائم )ہونے کے بعد سب سے پہلے عبد القیس کی مسجد میں جمعہ ہوا تھا جو بحرین میں جواثی کے مقام پر تھی۔
نیز قرطبی لکھتے ہیں:
وأول جمعة جمعت بعدها جمعة بقرية يقال لھا جواثي من قري البحرين. 400
(مسجد نبوی والے)جمعہ کے بعد جوپہلاجمعہ پڑھاگیاوہ بحرین کےجواثی نامی ایک دیہات میں پڑھاگیا۔
یہ "جواثی" بحرین کی ایک بستی تھی اور زمخشری نے لکھا ہے کہ یہ بحرین کا قلعہ تھا جبکہ ابوعبید بکری نے کہاکہ یہ بحرین کا ایک شہر تھا۔ یہاں پر تجارتی سامان اور شکار بہت تھااس لیے یہاں پر تاجر بکثرت آتے تھے اور تاجروں کا بکثرت آنا اس بات کی دلیل ہے کہ جواثی کافی بڑا قصبہ اور تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔
قدیم بحرین کو ہجر بھی کہا جاتا تھا اوراس شہر کو بعد میں قرامطہ نے برباد کرکے اپنا ایک نیا شہر آباد کیا تھا جس کا نام "احساء" رکھاگیا تھا۔ سید محمود شکری لکھتے ہیں:
والمشھور فيه من البلاد هجر بفتح الھاء والجيم وكانت هذه البلدة قاعدة البحرين وخربھا القرامطة عند استيلائھم علي البحرين وبنوا مدينة الاحساء ونزلوها وصارت إذ ذاك قاعدة البحرين وهي مدينة كثيرة المياه والنخيل والفواكه وبينھا وبين اليمامة نحو أربعة أيام. 401
اس (بحرین)کے مشہور شہروں میں سے ایک ہجر تھا۔ ہاء اور جیم پر زبرکے ساتھ یہ شہر بحرین کا دار الحکومت تھا۔ جب قرامطہ بحرین پر قابض ہوئے تو انہوں نے اسے ویران کرکے"احساء" کا شہر بسایا تھا اور وہاں ٹھہرے تھے چنانچہ وہ بحرین کا دار الحکومت بن گیا تھا۔ احساء شہر میں بہت سے چشمے، کنویں، نخلستان اور میوے پائے جاتے ہیں نیز اس کے اور یمامہ کے درمیان چار یوم کی مسافت ہے۔ 402
مشہور سیاح ابن بطوطہ اس حوالہ سے اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں:
ثم سافرنا منھا الي مدينة هجر وتسمع الآن بالحسا وهي التي يضرب المثل بھا فيقال كجالب التمر الي هجر وبھا من النخيل ما ليس ببلد سواها ومنه يعلفون دوابھم واهلھا عرب واكثرهم من قبيلة عبد القيس بن أفصى. 403
پھر ہم شہر ہجر میں آئے جس مقام کو اب الحساکہا جاتا ہے۔ یہ وہی شہر ہےجس کی مثالیں دی جاتی ہیں پس کہاجاتاہے "ہجر میں کھجورلانےوالےکی طرح"۔ 404 یہاں ایسی کھجوریں بھی پائی جاتی ہیں جو اس کے سوا کہیں نہیں ملتیں، یہی ( کھجوریں ) ان کے چوپایوں کا چارہ بھی ہے، یہاں کے باشندے عرب ہیں اور اکثر قبیلہ عبد القیس بن افصی سے ہیں۔ 405
ابن خلدون لکھتے ہیں کہ قرامطہ نے ہجر کو ویران کردیا تھا اور اس کی جگہ احساء کو آباد کیا تھا۔ 406 اس سے معلوم ہواکہ قرامطہ نے پہلے اس شہر کو تباہ وبرباد کرکے اس کے اصلی باشندوں کو نکال باہر کیا اور پھر اس تباہی کے بعد اس کی جگہ پر احسا ءآباد کیا۔
مذکورہ بالاتفصیلات سےو اضح ہوتا ہے کہ عروض کے علاقو ں میں سے ایک بحرین تھا جو خلیج فارس کے قریب تقریبا ً سو(100)مربع میل پر پھیلی ہوئی ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ اس کا پرانا نام ہجر تھاجس کا دار الحکومت دارین تھا اوریہاں کے لوگ رسول اکرم کےپاس حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ بحرین کی آبادی بنوعبدقیس، بکربن وائل اورتمیم پر مشتمل تھی اور عہد نبوی میں سب سے مشہور قبیلہ بنو عبد القیس کا تھا اور اسی قبیلہ کے چند افراد نے رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تھا۔ قدیم زمانہ ہی سے بحرین ایرانیوں کے ماتحت تھا اور بادشاہِ فارس کی طرف سے بحرین کا مقررکردہ حاکم اسبذ تھا جس کی نسل میں سے منذر بن ساوی عہد نبوی میں بحرین کے حاکم تھے۔ انہیں نبی اکرم نے اسلام کی دعوت دی تھی اور انہوں نے اس دعوت کو قبول کرلیا تھا لیکن کیونکہ وہاں مذہبی اعتبار سے مشرکین، نصاریٰ، یہوداورمجوس بھی تھے تو آپ نے سب سے جزیہ لینے کا حکم دیا۔ بحرین کے اہم مقامات میں جواثی، الاحساء، قطیف، الارۃ، بینونۃ، زارۃ، سابور، حوس، دراین اورکثیب الاحمر نامی علاقےشامل ہیں۔ جواثی کے سردار نے آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا تھااور پھر واپس جاکربحرین کے شہر جواثی میں ایک مسجد بنائی تھی جس میں مدینہ منوّرہ کے بعد سب سے پہلے جمعہ قائم ہوا تھا۔ اسی شہر بحرین کے دیگر علاقوں میں قلعہ تاروت اور مشقر نامی علاقےبھی شامل ہیں نیز احساء کا مقام بھی بہت مشہور ہے کیونکہ اس شہر جیسی کھجوریں کسی اور جگہ نہیں ملتیں۔ اسی طرح اس کے دار الحکومت دارین کی خوشبو بھی بہت مشہور تھی اوراسی بحرین کے ایک قریبی "خط" نامی علاقہ کےنیزے بھی کافی مشہورتھے جن دونوں کی ضرب المثل بھی اہل عرب کے ہاں مستعمل ہے۔
عُمان یمن کا علاقہ ہے جس کا شمار دیار عرب میں کیاجاتا ہے اوریہ عرب کے جنوبی حصے میں آباد ہے۔ اس سے ملتے جلتے نام کا ایک شہر شام میں بھی ہے جو دمشق کے قریب واقع ہے جس کا تلفظ "عین" پر زبراور" میم مشدّد" کے ساتھ "عَمّان" ہے جبکہ عرب کے اس مشہور خطے کاتلفظ "عین" پر پیش اور" میم مفتوح" کے ساتھ "عُمَان" ہے۔ 407
عمان کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے مورخین سے کئی اقوال مروی ہیں مگر اکثر علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ عمان کا نام حضرت ابراہیم کے بیٹے عمان کے نام پر رکھا گیا تھاتاہم عمان اور حضرت ابراہیم کے درمیان واسطوں میں اختلاف ہے اوراس بارے میں مختلف اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ بعض علماء یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس علاقے کا نام حضرت لوط کے بیٹے عمان کے نام پر رکھا گیا تھایا پھر شایدیہ نام یمنی سردار قحطان کے بیٹے عمان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اسی طرح ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ نام قدیم یمنی بادشاہ سبا کے پوتے عمان کے نام پررکھا گیا تھا۔
عمان کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے کئی مؤرخوں نے یہی لکھا ہے کہ یہ نام حضرت ابراہیم کے بیٹےعمان کے نام پر رکھا گیا تھا جیسا کہ معروف جغرافیہ دان یاقوت حموی نے اس حوالے سے صرف اسی قول پر اکتفاء کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وقال الزجاجي سميت عمان بعمان بن ابراهيم الخليل. 408
زجاجی نے کہا: عمان، عمان بن ابراہیم خلیلکےنام پرعمان کہلایا۔
جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
عمان بلد باليمن سميت بعمان بن سبا. 409
عمان شہر یمن میں ہے اور عمان بن سبا کے نام پر اس کایہ نام رکھا گیا ہے۔
جبکہ ابن الکلبی نے حضرت ابراہیم کی نسبت سے یہ نسب اس طرح بیان کیا ہے:
سميت بعمان بن سبا بن يفثان بن ابراهيم الخليل الرحمن لانه بني مدينة عمان. 410
عمان بن سبا بن یفثان بن ابراہیم الخلیل الرحمٰن کےنام پر یہ شہرعمان کہلایاکیونکہ اس نے شہرعمان بنایاتھا۔
جبکہ سہیلی نے یہ نسب اس طرح بیان کیا ہے:
سميت بعمان بن سنان وهو ولد من ابراهيم. 411
عمان بن سنان کے نام سے یہ شہر آباد ہوااوریہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے تھا۔
حلبی نے بھی "عمان بن سنان بن ابراہیم" ذکر کیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
بلدة باليمن سميت بذلك لانه نزلھا عمان بن سنان من ولد ابراهيم. 412
عمان یمن کا ایک شہر ہے، اس کو عمان اس لیے کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے یہاں آنے والا شخص جس کی وجہ سے یہ بستی آباد ہوئی عمان بن سنان تھا اوریہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھا۔ 413
بعض علماء نے اس قول کواس بنا پر ضعیف قرار دیا ہے کہ تاریخ میں حضرت ابراہیم کے سنان نامی کسی بیٹے کا تذکرہ محفوظ نہیں ہے۔ سہیلی اس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
عمان فھو باليمن سميت بعمان بن سنان وهو ولد من إبراهيم فيما ذكروا وفيه نظر إذ لا يعرف في ولد إبراهيم لصلبه من إسمه سنان. 414
عمان یمن کا ایک شہر ہےجوعمان بن سنان کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے تھالیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ حضرت ابراہیم کا سنان نامی کوئی بیٹا نہ تھا۔
اس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ عمان کا نام حضرت ابرہیم کی نسل سے تعلق رکھنے والے عمان بن سنان کے نام پر رکھا گیا ہے البتہ ان کے اور حضرت ابراہیمکے درمیان کتنی نسلوں کا فاصلہ ہے اس سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن اس سے اس کی وجہ تسمیہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس علاقے کے نام کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے یمنی سرداروں کی طرف بھی کئی اقوال منسوب کیے گئے ہیں۔ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ عمان کا نام عمان بن قحطان کی طرف منسوب ہے۔ ابن خلدون اس حوالےسے لکھتے ہیں:
سميت بعمان بن قحطان أول من نزلھا بولاية أخيه يعرب. 415
اس شہر کو عمان اس مناسبت سے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے عمان بن قحطان اپنے بھائی یعرب کی طرف سے حاکم ہوکر یہاں آباد ہوا تھا۔ 416
ڈاکٹر جواد علی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
ويذكر الأخباريون أن عمان نسبة إلي رجل إسمه عمان بن قحطان وكان أول من نزلھا بولاية أخيه يعرب. 417
اہل اخبارکہتےہیں کہ عمان کی نسبت عمان بن قحطان سےہے۔ یہ وہ پہلاشخص تھا جواپنے بھائی یعرب کی طرف سے حاکم ہوکر یہاں آباد ہوا تھا۔
بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ اس علاقے کا نام یمن کے قدیم بادشاہ سبا کے پوتےکے نام پررکھا گیا تھا۔ مرتضی زبیدیاس حوالے سے لکھتے ہیں:
عمان باليمن سمي بعمان بن نفثان بن سبا أخي عدن. 418
عمان یمن میں ہے۔ یہ عدن کےبھائی عمان بن نفثان بن سباکےنام پریمن کہلایا۔
ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مؤرخین کے مطابق عمان بن قحطان کے نام پر عمان نام رکھا گیا ہے اور بعض کے نزدیک عمان بن نفثان ملک سبا کے پوتے کے نام پر عمان نام پڑا۔
حضرت لوط کے بیٹے کا نام عمان ہے جس کا ذکر تورات شریف میں آیا ہے تاہم عربوں کے ملک عمان کی نسبت سوائے سید سلیمان ندوی کے حضرت لوط کے بیٹے عمان کی طرف کسی نے نہیں کی۔ سیدسلیمان ندوی نے عمان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مؤرخین عرب کا بیان ہے کہ عمان، عمان بن قحطان کی طرف منسوب ہےلیکن بروایت تورات یہ عمان بن لوط کی طرف منسوب ہوناچاہیے۔ 419 سید سلیمان ندوی کی یہ رائےحقیقتِ واقعہ کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ عمان ملک کی نسبت حضرت لوط کی طرف نہیں ہےبلکہ شام کا شہر عمان ان کی طرف منسوب ہے۔ حلبی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
واما عمان بفتح العين وتشديد الميم فبلدة بالشام سميت بذلك لان عمان بن لوط كان سكنھا. 420
عمان جس میں ع پر زبر ہے یہ شام کا ایک شہر ہے۔ اس کا نام عمان اس کو آباد کرنے والے شخص عمان ابن لوط کی وجہ سے پڑا تھا۔ 421اس حوالے سے سہیلی بھی لکھتے ہیں:
واما عمان بتشديد الميم وفتح العين فھي بالشام قرب دمشق سميت بعمان بن لوط بن هاران كان سكنھا فيما ذكروا. 422
عمان عین پر زبر اور میم پر شد کے ساتھ، شام میں دمشق کے قریب ایک شہر ہے۔ یہ عمان بن لوط بن ھاران کے نام سے منسوب ہے۔ اس نے یہیں پر سکونت اختیار کی تھی۔
بہر حال اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمان کا شہر جو یمن میں ہے اس کی وجہ تسمیہ میں اولین نام حضرت ابراہیمکی نسل میں سے عمان بن ابراہیم کا آتا ہے۔ اگرچہ عمان و ابراہیم کے مابین پیڑیوں کی کمی بیشی منقول ہے تاہم ان سب سے ایک ہی شخص مراد ہے۔ بعض نے اس کی وجہ تسمیہ میں عمان بن قحطان کا نام لیا ہے اور کچھ عمان بن نفثان کا نام لیتے ہیں تاہم یہ واضح ہے کہ اس شہر کا نام عمان نامی ایک شخص کے نام پر تھا جو یا تو قحطا ن کی اولاد میں تھا یا حضرت ابراہیمکی نسل سے۔
جنوبی عرب میں عمان کے نام سے پہلے صرف ایک شہرآباد تھا لیکن اب یہ ایک الگ مستقل ریاست بن چکا ہے۔ بدر الدین عینی قاضی عیاضکے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
فرضة بلاد اليمن. 423
یہ یمن کے شہروں کا دروازہ ہے۔
ان دنوں سلطنتِ عمان کا دار الحکومت مسقط ہے جو قدیم دار الحکومت صحار کے جنوب مشرق میں تقریبا سوا دوسو (225)کلو میٹر دور خلیج عمان کے ساحل پر واقع ہے۔ 424 جزیرہ نمائے عرب کا یہ حصہ بحیرۂ عرب اور خلیج عمان کے ساحل پر واقع ہے۔ عمان کے مشرق کی طرف بحر عمان، مغرب کی طرف الربع الخالی، جنوب کی طرف بحرین اور شمال کی طرف یمامہ کے علاقے واقع ہیں۔ ابن خلدون اس کا جغرافیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عمان وهي من ممالك جزيرة العرب المشتملة علي اليمن والحجاز والشحر وحضر موت وعمان هي خامسھا اقليم سلطاني منفرد علي بحر فارس من غربيه مسافة شھر شرقيھا بحر فارس وجنوبھا بحر الھند وغربيھا بلاد حضر موت وشماليھا البحرين. 425
عمان، جزیرہ نما عرب کا ایک حصہ ہے جو یمن، حجاز، شحر، حضر موت اور عمان پر مشتمل ہے۔ عمان بحر فارس پر آباد ہےاور اس کی غربی جانب سے ایک ماہ کی مسافت پرواقع ہے۔ اس کے مشرق میں بحر فارس واقع ہے، جنوب میں بحرہند، مغرب میں شہرِ حضر موت اور شمال میں بحرین واقع ہے۔ 426
اس کا رقبہ تین لاکھ دس ہزار(310000) مربع کلو میٹر ہےاوریہ بالکل سمندر کا ساحلی علاقہ ہے۔ علامہ اسحاق المنجم اس حوالے سے لکھتے ہیں:
وهي علي ساحل البحر. 427
یہ ساحل سمندر پر واقع ہے۔
اس کے چاروں جانب بڑے بڑے پہاڑ ہیں جن کی وجہ سے یہ ہر طرح کے حملوں سے محفوظ ہے۔ ابن خلدونلکھتے ہیں:
وهي جبال منيعة فلم تحتج الي سور. 428
عمان قدرتی طور سے بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اسی وجہ سے اسے کسی شہر پناہ کی احتیاج نہیں رہتی۔ 429
عمان بحیرۂ عرب اور خلیج عمان کے ساحل پر واقع ساحلی خطہ ہے جس کا قدرتی محل وقوع اسے بیرونی حملہ سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے اپنی حفاظت کے لیے کسی قسم کی مصنوعی فصیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ یوں یہ علاقہ اپنے ارد گرد موجود پہاڑوں کی بدولت بیرونی حملہ آوروں اور دشمنوں سے محفوظ ہے۔
یمن، جزیرۃ العرب کا جنوبی وشرقی حصہ ہے اور عربستان میں اس سے زیادہ زرخیز، شاداب اور آباد کوئی خطہ نہیں تھا۔ 430 یہ عرب کا ایک قدیم اور اہم خطہ ہے اور یہ سرزمین عرب میں شروع سےہی ایک خاص مقام کا حامل رہا ہے۔ قبل از مسیح دور میں اس کا نام سبا اور اس کا دار الحکومت " مآرب " تھا۔ یہ نام کئی صدیوں تک رائج رہا لیکن پھر اس کا نام " یمن " پڑگیا۔ عہدِنبوی اور اس کے بعد سے آج تک اس کا نام یمن ہی ہے۔ 431 موجودہ یمن کا دار الحکومت "صنعاء"ہے۔ یمن کو عرب تمدن کا سب سے قدیم اور متمدن خطہ قرار دیا جاتا ہے۔ عرب مؤرخین اور تاریخ دانوں کے مطابق پورے جزیرہ نمائے عرب میں تہذیب وتمدن اور علوم وفنون میں کوئی خطہ اس کا مقابل نہیں تھا۔ قدیم تاریخوں میں اسے الیمن السعیدۃ یعنی خوش وخرم یمن یا زرخیز عرب بھی کہا جاتا رہا ہے۔432
یمن کی وجہ تسمیہ سے متعلق بھی کئی اقوال منقول ہیں۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یمن کے کئی نام تھے جو مختلف زمانوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر رکھے گئے تھے۔ مؤرخین نے اس نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ بنو قحطان چونکہ کعبہ کے دائیں جانب آباد ہوئے تھے اسی لیے ان کے خطے کا نام یمن پڑ گیا تھا۔ ابن سعداس حوالہ سے لکھتے ہیں:
ولحقت بنو يقطن بن عابر باليمن فسميت اليمن حيث تيامنوا إليھا. 433
یقطن بن عابر کی اولاد دیارِ یمن میں آباد ہوئی اور اسی وجہ سے اس کا نام یمن پڑا کیونکہ اس قوم نے اس طرف تیامن (دائیں جانب کا سفر)کیا تھا۔ 434
بنو قحطان (بنویقطن بن عابر) مکہ سے دائیں جانب سفر کرکے یمن آئے تھے اور یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے اس علاقے کو یمن کہاجانے لگا۔ 435
یمین عربی زبان میں دائیں طرف کو کہتے ہیں اور دائیں سمت مبارک خیال کی جاتی ہے۔ جب مکّہ مکّرمہ میں آبادی زیادہ ہوگئی اور عرب یہاں سے ہجرت کرنے لگے تو جو لوگ اس سمت گئے یعنی بیت اﷲ شریف کے دائیں جانب تو اس دائیں جانب کا نا م یمن پڑگیا اور اسی طرح بائیں جانب کا نام شام پڑ گیا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی ابن عباسسے نقل کرتے ہیں:
قال ابن عباس تفرقت العرب فمن تيامن منھم سميت اليمن ويقال أن الناس كثرو بمكة فلم تحملھم فالتامت بنو يمن إلي اليمن وهي أيمن الأرض فسميت بذلك. 436
ابن عباس نے فرمايا كہ عرب اس جزیرہ نما کی مختلف سمتوں میں بکھر گئے پھر جو دائیں طرف گئے ان کے رخ کی مناسبت سے اس علاقے کا نام یمن رکھ دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب مکّہ میں لوگوں کی کثرت ہوگئی اور وہاں مزید گنجائش نہ رہی تو دائیں طرف والے یمن کی طرف آباد ہوگئے اور یہ ارضِ مکّہ کے انتہائی دائیں جانب ہے لہٰذا اس کا یہ نام پڑا۔
حلبی یہی قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یمن کو یمن اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ کعبہ کے دائیں جانب ہے۔ 437 اسی مناسبت سے بیت اﷲ شریف کے ایک رکن کا نام بھی رکن یمانی ہے جو کہ یمن کی نسبت کی وجہ سے ہے۔ 438
یمن کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ یعرب بن قحطان کا ایک نام ایمن بھی تھا اور حضرت ہودنے اپنے اس پوتے کو اس لقب سے ملقب فرمایا تھااور اسی وجہ سے اس کے ہجرت کرنے کے بعد اس کے مقام سکونت کو یمن کہا گیا۔ حلبی یمن کی یہ وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويعرب هذا قيل له أيمن، لأن هودا نبي اللّٰه عليه الصلاة والسلام قال له أنت أيمن ولدي، وسمي اليمن يمنا بنزوله فيه وهو أول من قال القريض والرجز. 439
اور اسی یعرب کوایمن بھی کہاگیا کیونکہ نبی اللہ ہود نے ان سےفرمایا: میرے بیٹے تم میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ برکت والے ہو اوریمن میں آنےکی بناپروہ یمن کہلایانیز یہی پہلا آدمی ہے جس نے اشعار اور رجز کہے۔
رجز شاعری کی ايك قسم ہے جو جنگوں ميں پڑهی جاتی ہے440 اور اس کا مقصد سپاہیوں کو جنگ پر ابھارناہوتا ہےنیز ابن ہشام کی تحقیق سے اس قول کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ السُہیلی نے ابن ہشام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یعرب کا نام اصل میں یمن تھا اور چونکہ یہی اس کو آباد کرنے والے تھے لہٰذا اس کا نام یمن پڑگیا۔ اس حوالہ سے سہیلی لکھتے ہیں:
وقال ابن هشام يمن هو يعرب بن قحطان سمي بذلك لأن هوداً قال له أنت أيمن ولدي نقيبة. 441
ابن ہشام کہتے ہیں کہ یعرب بن قحطان کا نام یمن ہے کیونکہ حضرت ہود نے اس سے فرمایا تھا تو ازروئے نفس میری تمام اولاد سے بابرکت ہے۔
ڈاکٹر جواد علی نے بھی قحطان کے بیٹوں کا ذکر کرتے ہوئے یہی لکھا ہے کہ ان کے ایک بیٹے کا نام یمن تھاجس کی وجہ سے یمن کا نام یمن رکھا گیا۔ 442 یمن کے دیگر نام بھی کتب تاریخ میں منقول ہوئے ہیں۔ مورخین یمن کویمنِ خضراء کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں کیونکہ اس شہر میں کھیت و کھلیان اور باغات کی کثرت تھی۔ اس حوالہ سے یاقوت الحموی لکھتے ہیں:
سميت اليمن الخضراء لكثرة أشجارها وثمارها وزروعها. 443
اسے یمن الخضراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں درختوں، پھلوں اور فصلوں کی بہتات ہے۔ سید محمود شکری یمن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لم تزل محمودة علي السنة الأصفياء لما أودع اللّٰه فيها من البركة في جميع الأشياء وكانت تسمي الخضراء لكثرة مزارعها ونخيلها وأشجارها وأثمارها ومراعيها وريعها.
اصفیا ءاس (یمن) کی ہمیشہ تعریف کرتے رہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں کی ہر چیز میں برکت دی۔ اسے کھیتوں، نخلستانوں، درختوں، پھلوں، چراگاہوں اور پیداوار کی کثرت کی وجہ سے خضراء بھی کہا جاتا ہے۔
کلاعی اس خطے کے بارے میں اپنے قصیدے میں یوں گویا ہوتا ہے:
هي الخضراء فاسئل عن رباها.
يخبرك اليقين المخبرونا
ويمطرها المھيمن في زمان
به كل البرية يظمؤنا
وفي أجبالها عز عزيز
وأشجار منورة وزرع
وفاكهة تروق الآ كلينا.444
یہ خضراء ہے، تو اس کے ٹیلوں کی بابت دریافت کرے
تو تجھے بتانے والے یقینی بات بتادیں گے
اﷲ تعالیٰ یہاں اس زمانے میں بارش برساتا ہے
جس زمانے میں ساری دنیا پیاسی ہوتی ہے
اور اس کے پہاڑوں میں بڑی عزت ہے
جس کے مقابلے میں تمام لوگ چھوٹے معلوم ہوتے ہیں
ان کے کلیوں والے درخت کھیت اور پھل ہیں جو
کھانے والوں کو لطف دیتے ہیں۔
قدیم یمنی آثار میں اس خطہ کو یمن والخیر بھی کہا جاتا تھا۔ یمن "یمنات" سے مشتق ہےاور یمنات کا معنی خیر وبرکت والا ملک ہے نیز یونانی مؤرخوں نے یمن کو(Arabia Felix) لکھا ہے جس کے معنی بہترین عرب ہے۔ اس حوالہ سے ابو المحاسن عصفور لکھتے ہیں:
أن إسمھا مشتق من كلمة يمنات الواردة في نصوص سبئية قديمة كإسم لھذه البلاد وربما يكني بھا عن اليمن والخير لأن بلاد اليمن قديماً كانت وفيرة الخيرات أن اليونان قديما سموها بلاد العرب السعيدة Arabia felix علي احتمال أنھم ترجموا كلمة يمنت او يمنات بالبلاد السعيدة. 445
زمانہ قدیم میں یونانیوں نے عرب کےبہترین علاقوں کو Arabia Felixکہاہے، جس کا معنی محتمل یہ ہوسکتاہےکہ انہوں نے یمنت یا یمنات کاترجمہ کرکے اس سے مراد بہترین علاقے لیے ہوں۔ اس کانام اس علاقے کےنام کی طرح قدیم سبائی نصوص میں واردہونےوالےکلمہ یمنات سے مشتق ہے اور کبھی اس کو یمن وخیر سےبھی پکارا گیاکیونکہ زمانہ قدیم سے یمن کے علاقے کثرت وبرکت والے رہے ہیں۔
اس حوالہ سے ابو شہبہ لکھتے ہیں:
وقد بلغت اليمن من بسط العيش ورخاء الحياة وفخامة المدنية ما حمل معاصريھم من اليونانيين أن يسموا بلادهم بلاد العرب السعيدة. 446
یمن کی آسودہ حالی، آسان زندگی اورشہری عظمت سےمتاثرہوکران کے ہمعصر یونانیوں نے ان کے وطن کو خوشحال عرب کا نام دیا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یمن کا ایک نام الیمن والخیر بھی تھا یعنی وہ مقام جو برکت وآسودگی والا ہے کیونکہ یہاں پر باغات و ثمرات کی بہتات تھی جس نے اس خطہ کی شادابی اور خوش حالی کو چار چاند لگا دیئے تھےاسی لیے قدیم یونانیوں نے اس کانام یمن سے اپنی زبان میں منتقل کرکے Arabia Felix رکھدیاجس کا عربی میں ترجمہ العرب السعیدۃیعنی خوشحال عرب بنتا ہے۔
یمن کے قدیم و مشہور مقامات میں معین، مارب، ظفار، شیبان، اوزال، براقش، فشق، خولان، قرن شبوہ، عمران اورصنعاء وغیرہ شامل تھے جن میں سے اب اکثر مقامات ویران یا دریائے ریگ میں غرق ہوچکے ہیں تاہم بعض موجودبھی ہیں لیکن ان کے قدیم نام متروک ہو چکے ہیں۔ ملک کی کثرت آبادی اورشادابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ کئی ایک صوبوں میں منقسم تھا جنہیں اہل عرب مخلاف الیمن کہتے تھے۔ مورخ یعقوبی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے چوراسی(84) صوبے بتائے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:
طمو، عيان، طمام، همل، قدم، خيوان، سنعان، ريحان، جرش، صعدة، هوزن، حيران، مارب، زبيد، ربع، بني محيد، حضر موت، الحقلين، عنس… 447
طمو، عیان، طمام، ھمل، قدم، خیوان، سنعان، ریحان، جرش، صعدۃ، ھوزن، حیران، مارب، زبید، ربع، بنی محید، حضر موت، الحلقین، عنس۔۔ ۔
نیز یعقوبی ساحلی علاقوں کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن السواحل (عدن) وهي ساحل (صنعاء والمندب وغلافقة والحردة والشرجة وعثر والحمضة والسرين وجدة). 448
اور سواحل میں سے عدن ہے اور یہ صنعاء، المندب، غلافقۃ، الحردۃ، الشرجۃ، عثر، الحمضۃ، السرین اور جدہ كاساحل ہے۔ 449
یمن میں کئی ایک مشہور شہر اور مقامات تھے لیکن ان میں چار (4)مقامات بطور خاص تاریخ میں مذکور ہیں جن میں صنعاء، حضر موت، بلاد الاحقاف اورنجران شامل ہیں۔ ان کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے:
صنعاء یمن کا سب سے مشہو ر شہر تھاجویمن کے قلب اور بحر احمر کے سواحل پر عرب کے جنوبی اور مغربی گوشہ میں واقع ہے۔ یہ سطح سمند رسےاکیس سو چھیانوے(2196)میٹر بلند ہے اور یمن کا قدیم ترین شہر ہے حتی کہ اس کے متعلق مؤرخین کا بیان ہے کہ اس شہر کو سام بن نوح نے آباد کیا تھانیز صنعاء شہر کے کئی قدیم نام تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
ويرجع بعض أهل الأخبار بناء صنعاء إلى "سام بن نوح"، وزعموا أنھا أول مدينة بنيت باليمن...وقد ورد اسم "صنعاء" لأول مرة على ما نعلم في نص يعود عھده إلى أيام الملك "الشرح يحضب"، "ملك سبأ وذي ريدان"، ودعيت فيه بصنعو". 450
بعض مؤرخین نے صنعاء کی تعمیر کو سام بن نوح کی طرف منسوب کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہی وہ پہلا شہر تھا جو یمن میں بنایاگیا۔۔ ۔ ہماری معلومات کے مطابق صنعاء کا نام پہلی مرتبہ اس کتبہ میں وارد ہوا ہے جس کا زمانہ سبا اور ذی ریدان کے بادشاہ شاہ شرح یحضب کی طرف لوٹتا ہے اور اس میں اس شہر کو صنعو کے نام سے یاد کیاگیا ہے۔
یوں یہ معلوم ہوتا ہےکہ صنعاء کا نام قدیم زمانہ میں صنعو تھا لیکن بعد میں صنعاء مشہور ہوگیا اور یہاں ایک مشہور محل غمدان بھی تھا جس کے بارے میں جواد علی لکھتے ہیں:
وأن قصر "غمدان" كان أحد البيوت السبعة التي بنيت على اسم الكواكب السبعة، بناه "الضحاك" على اسم الزهرة وكان الناس يقصدونه إلى أيام "عثمان" فھدمه، فصار موضعه تلا عظيما....وذكروا أن قصر غمدان الذي هو بھا قصر "سام بن نوح"، أو قصر "الشرح يحضب" "ليشرح يحضب" وذكروا أيضا أنھا أول مدينة اختطت باليمن بنتھا "عاد"ورووا قصصا عن "غمدان"، فزعم بعضھم أن بانيه "سليمان" أمر الشياطين، فبنوا لبلقيس ثلاثة قصور: غمدان وسلحين وبينون وزعم بعضھم أن بانيه هو: "يشرح يحضب" أراد اتخاذ قصر بين صنعاء و"طيوة"، فانتخب موضع "غمدان. 451
غمدان کا محل ان سات گھروں میں سے ایک ہے جنہیں سات ستاروں کے ناموں پر بنایاگیا تھا۔ اسے ضحاک نے زہرہ (ستارہ)کے نام پر بنایاتھااورلوگ اس گھر کی تعظیم وتکریم کی خاطر اس کی طرف حضرت عثمانکے دور تک جایا کرتے تھے لہذا انہوں نے اس کو گروادیا تو اب وہ جگہ ایک بہت بڑا مٹی کا ٹیلہ بن گئی ہے۔۔ ۔ مؤرخین نے ذکر کیا ہےکہ غمدان کا محل جس میں سام بن نوحیا شرح یحضب کا محل بھی تھا وہ یشرح یحضب کی ملکیت تھا۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ پہلا شہر ہے جس کی حدبندی یمن میں ہوئی اور اس کو عاد نے بنایا تھانیز انہوں نے غمدان کے بارے میں کئی قصے بھی نقل کیے ہیں۔ بعض نے گمان کیا ہے کہ اس کے بانی سلیمان ہیں جنہوں نے جنات کو (اس کی تعمیر کا) حکم دیاتھا اور انہوں نے ملکہ بلقیس کے لیےتین (3)محل غمدان، سلحین اور بینون بنائے تھے۔ بعض مؤرخین نےیہ گمان کیا ہے کہ اس کا بانی یشرح یحضب تھا جس نے صنعاء اور طیوہ کے درمیان ایک محل بنانے کا سوچا تو غمدان کی جگہ کو پسند کیا۔
قصر غمدان کے عجائب کے حوالہ سے قزوینی لکھتے ہیں:
اتخذه علي أربعة أوجه وجه أحمر ووجه أبيض ووجه أصفر ووجه أخضر وبني في داخله قصرا علي سبعة سقوف بين كل سقفين أربعون ذراعا فكان ظله إذا طلعت الشمس يري علي ماء بينھما ثلاثة أميال وجعل في أعلاه مجلسا بناه بالرخام الملون وجعل سقفه رخامة واحدة وصير علي كل ركن من أركانه تمثال أسد إذا هبت الريح يسمع منھا زئير الأسد وإذا أسرجت المصابيح فيه ليلا كان سائر القصر يلمع من ظاهره كما يلمع البرق. 452
یہ محل ایک طرف سے سرخ، دوسری طرف سے سفید، تیسری طرف سے زرد اور چوتھی جانب سے سبز تھا۔ اس کے اندر ایک اور محل تھاجس کی سات منزلیں تھیں اور ہر منزل چالیس(40) ہاتھ یعنی تقریباً ساٹھ(60) فٹ بلند تھی۔ جب سورج طلوع ہوتا تھا تو اس محل (غمدان) کا سایہ تین (3)میل تک پھیل جاتا تھا۔ یشرح نے اس محل کی بالائی منزل پر ایک مجلسی دالان (میٹنگ ہال) بنوایا جو رنگین سنگ مرمر کا تھااور اس کی چھت سنگ مرمر کے ایک ہی تختے پر مشتمل تھی نیز اس کے ہر ستون پر شیر کا مجسمہ بنا ہوا تھا۔ جب ہوا چلتی تھی تو ان مجسموں سے شیر کے دھاڑنے کی سی آواز سنائی دیتی تھی۔ رات کے وقت جب قصر غمدان میں چراغ روشن کیے جاتے تھے تو سارا محل یوں چمک اٹھتا تھا جیسے بادلوں کی اوٹ سے بجلیاں چمک رہی ہوں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صنعاء یمن کا اولین شہر تھا جس کے بانیوں میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ یہاں ایک محل غمدان تھا جو بہترین طرز پر بنایاگیاتھا اور چاردانگ ِ عالم میں اپنی مثال آپ تھا۔
صنعاء جویمن کا دارالخلافہ ہے اس کا قدیمی نام ازال تھا جو بعد میں صنعاء پڑگیا۔ اس حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں:
وكانت في الزمن القديم تسمي أزال. 453
قدیم زمانہ میں اسے ازال نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وذكر الأخباريون أنھا كانت تعرف "بأزال"، "وبأوال"أخذوا ذلك على ما يظھر من "أزال" في التوراة بواسطة أهل الكتاب مثل "كعب الأحبار" ووهب بن منبه. 454
مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ شہر ازال یا اوال کے نام سے بھی پہچاناجاتا ہے، یہ بظاہرانہوں نے اہل کتاب علماء جیسے کعب الاحبار اور وہب بن منبہ کےذریعہ تورات میں وارد لفظ ازال سےاخذ کیا ہے۔
صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے مؤرخین کے دو اقوال ملتے ہیں۔ مؤرخین نے اس حوالہ سے پہلا قول یہ نقل کیا ہے کہ یہ قدیم یمنی بادشاہ صنعاء کے نام پر رکھا گیا تھا جس کا نسب یاقوت حموی اس طرح نقل کرتے ہیں:
صنعاء ابن أزال بن يقطن بن عامر بن شالخ بن أرفخشد وكان أول من بناها ثم سميت باسم إبنه لأنه ملكھا بعده فغلب إسمه عليھا.واللّٰه أعلم. 455
صنعاء بن ازال بن یقطن بن عامر بن شالخ بن ارفخشد نے سب سے پہلے اسےبنایاپھر یہ اس کےبیٹے کےنام سےموسوم ہوا کیونکہ اس نے اسے اپنی ملکیت میں لیاتھااوربعد میں اس کانام اس پرغالب آگیا۔ واللہ اعلم۔
ابن الفقیہ اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وسميت صنعاء بصنعاء بن أزال بن يقطن. 456
اور صنعاء، صنعاء بن ازال بن یقطن کےنام سےموسوم ہوا۔
جبکہ مؤرخین نے جو صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ جب اہل حبش صنعاء شہر میں وارد ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ یہ شہر پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ اس حوالہ سےعبد اللہ حمیری تحریر کرتے ہیں:
مدينة عظيمة باليمن كان اسمھا في القديم أزال فلما وافتھا الحبشة ونظروا إلى مدينتھا فرأوها مبنية بالحجارة قالوا: هذه صنعة وتفسيرها بلسانھم حصينة. 457
یمن میں ایک شہر تھا جس کا نام زمانہ قدیم میں ازال تھا۔ جب اہلِ حبشہ اس میں آئے اوراس کوپتھروں کا بناہوا دیکھاتو کہا: یہ تو صنعۃ ہے۔ ان کی زبان میں اس کا معنی قلعہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اس شہر کا نام صنعاء پڑگیا تھا۔ اسی صنعاء کی سرزمین پر عربوں کی عظیم الشان سلطنتیں مثلاً معین، سبا اور حمیر قائم ہوئی تھیں اوران کے علاوہ سد مآرب یا سدعرم اسی کی وادیوں میں تعمیر ہوا تھا۔ ظفار، مآرب اور زوال یہیں کے پایہ تخت تھے اور ملکہ سبا اسی سرزمین کی حکمران تھی۔ قصر غمدان، قصر ناعط، قصر ربدہ، قصر صراوح اور قصر مدر اسی خطے میں تعمیر ہوئے تھے جن کے آثار چوتھی صدی ہجری میں ہمدانی نے بذاتِ خود مشاہدہ کیے تھے۔ 458
حضر موت یمن کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جو ساحل بحر ہند پر واقع ہے جس کے جنوب میں الربع الخالی اور الاحقاف اور مغرب میں صنعائے یمن ہے۔ محمد بیومی اس کے محل وقوع کے بارے میں لکھتے ہیں:
تقع حضر موت إلي الشرق من اليمن علي ساحل بحر العرب. 459
حضرموت یمن کی مشرقی جانب ساحل بحر عرب پر واقع ہے۔
حضر موت یمن کے شہروں میں سے قدیم ترین شہر ہے۔ 460 اس کےنام کی وضاحت کرتے ہوئے ملاعلی قاری لکھتے ہیں:
إسم بلد باليمن وهما إسمان جعلا إسما واحدا فھو غير منصرف بالعلمية والتركيب وهو بفتح الحاء المھملة والراء والميم وسكون الضاد المعجمة وفي القاموس هو بضم الميم بلد وقبيلة. 461
(حضر موت) یمن میں ایک شہر کا نام ہے۔ یہ دو اسم ہیں جن سے ایک نام بنایا گیا ہےاورعلمیت و ترکیب کی وجہ سے یہ غیر منصرف ہے۔ حاء مہملہ، راء اور میم کے فتحہ اور ضاد معجمہ کے سکون کے ساتھ ہے۔ قاموس میں میم کے ضمہ کے ساتھ ایک شہر اور ایک قبیلہ کا نام ہے۔ 462
تورات شریف میں اس کا نام حاضر میت بتلایا گیا ہے جسے یاقوت حموی ابن کلبی سے یوں نقل کرتے ہیں:
قال ابن الكلبي إسم حضر موت في التوراة حاضر ميت. 463
ابن الکلبی کہتے ہیں کہ تورات میں حضرموت کا نام حاضر میت بتایا گیا ہے۔
حضرموت کی وجہ تسمیہ کےحوالہ سے مؤرخین نے کئی مختلف اقول بیان کیے ہیں جن میں سے پہلا یہ ہےکہ قحطان یا یقطان جو یمن کا پدر اول تھا اس کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام حضر موت تھااور اسی بیٹے کے نام پر اس شہر کا نام حضر موت رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وقيل سميت بحضر موت بن يقطن بن عامر بن شالخ. 464
اورکہاگیا ہے کہ یہ شہر حضرموت بن یقطن بن عامر بن شالخ کےنام سےموسوم ہوا۔
یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ حضرموت بن قحطان اس مقام پرفروکش ہواتو یہ اسی کے نام سے موسوم ہوا۔ 465 حضر موت کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عامر بن قحطان پہلا شخص تھا جو احقاف میں داخل ہوا اوراس کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ جس جنگ میں شریک ہوتا تھاکشتوں کے پشتے لگادیتا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتا تو لوگ کہتے "حضرموت" (یعنی موت آگئی) لہذایہی اس کا لقب ٹھہرا جو اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ اس خطہ زمین کو بھی حضرموت کہنے لگے جہاں اس کا قبیلہ رہتا تھا۔ 466
ان دو اقوال کے علاوہ مؤرخین سے اس بارے میں ایک تیسرا قول بھی منقول ہےجس کا ذکر کرتے ہوئے ملاعلی قاری لکھتے ہیں:
إن صالحا لما هلك قومه جاء مع المومنين إليه فلما وصل إليه مات فقيل حضر موت. 467
حضرت صالح کی قوم جب ہلاک ہوگئی تو وہ مومنین کے ساتھ یہاں آگئے پھرجب وہ یہاں پہنچے تو وفات پاگئے لہذا (اس موقع پر) کہا گیا حضر موت۔ 468
یعنی عذاب سے نجات پانے کے بعد جب قوم صالحاپنے نبی کےساتھ اس مقام پر پہنچی تو حکم الہی سے حضرت صالح کا یہیں وصال ہوگیا اور اس لیے اس مقام کو قوم صالحنے "حضرموت"کے نام سے موسوم کردیا۔
اس شہر کو ایک بڑی فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس شہریعنی حضر موت میں حضرت ہود کا مرقد مبارک موجود ہے جس کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آیا کرتے تھے۔ 469 اس حوالہ سے امیر المؤمنین حضرت علی سے بھی ایک روایت مروی ہے۔ حاکم نیشاپوری اس روایت کو یوں نقل کرتے ہیں:
عن أبي الطفيل عامر بن واثلة قال سمعت علي بن أبي طالب يقول لرجل من حضر موت هل رأيت كثيبا أحمر يخالطه مدرة حمراء وسدر كثير بناحية كذا وكذا؟ قال: واللّٰه يا أمير المؤمنين! إنك لتنعته نعت رجل قد رآه۔ قال: لا ولكن حدثت عنه۔ قال الحضرمي: وما شأنه يا أمير المومنين؟ قال: فيه قبر هود عليه السلام. 470
حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے حضر موت کے ایک آدمی سے کہا: کیا تو نے سرخ رنگ کا ریت کا ٹیلہ دیکھا ہے جس میں سرخ رنگ کی مٹی ملی ہوئی ہواور جس کے اردگرد ایسے ایسے بہت ساری بیریاں ہیں؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! اے امیر المؤمنین ! آ پ نے تو اس شخص کی طرح تمام اوصاف بیان کردیے ہیں جس نے اس کو دیکھا ہو۔ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ مجھے تو اس کے متعلق بتایاگیاہے۔ حضرمی نے کہا: اے امیر المؤمنین ! اس کا معاملہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس میں حضرت ہودکی قبر ہے۔
اہل حضر موت نے قدیم زمانہ میں یہاں ایک مستقل حکومت بھی قائم کرلی تھی اور قدیم زمانہ میں یہ شادابی اور سرسبزی میں صنعائے یمن سے کم بھی نہیں تھا۔ 471
حضرموت میں برہوت نامی ایک کنواں بھی تھا جس کو دنیا کا سب سے برا کنواں کہا جاتا تھا۔ اس حوالہ سے عبد الرزاق اپنی مصنف میں حضرت علیسے ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں:
عن علي قال: "خير واديين في الناس ذي مكة، وواد في الهند هبط به آدم صلى اللّٰه عليه وسلم فيه هذا الطيب الذي تطيبون به، وشر واديين في الناس وادي الأحقاف، وواد بحضرموت يقال له: برهوچت، وخير بئر في الناس زمزم، وشر بئر في الناس بلهوت، وهي بئر في برهوت تجتمع فيه أرواح الكفار".472
حضرت علیسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگوں میں خیر اور بھلائی کی دو وادیاں ہیں، ایک وادی مکّہ مکّرمہ میں اور دوسری سرزمین ہند میں جہاں حضرت آدماترےتھے، اس میں ہی یہ(عود ہندی) ہوتی ہےجو تم لگاتے ہو۔ لوگوں میں دو شر کی وادیاں ہیں، ایک وادی الاحقاف اور دوسری حضر موت میں جسے وادی برہوت کہا جاتا ہے۔ لوگوں میں سب سے اچھا اور بہترین کنواں زمزم ہے اور سب سے برا کنواں بلہوت ہے اور یہ اسی وادی برہوت میں ایک کنواں ہے جس میں کفار کی ارواح جمع کی جاتی ہیں۔
اسی روایت کو جلال الدین سیوطی نے اپنی مشہور تفسیر در منثور میں بھی نقل فرمایا ہے۔ 473
نجران بھی یمن کا تاریخی اور قدیم ترین شہر ہے جو صنعاء سے تقریباً ڈھائی سو(250)کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ سید محمود شکری اس شہر کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهي قطعة عظيمة من أرض اليمن ذات نخيل وأشجار علي القرب من صنعاء وهي بين عدن وحضر موت ويقال هي جبال من شمال اليمن إلي شمال صعدة تبعد عن صنعاء نحو عشرة مراحل وكانت من بلاد همدان بين قري ومدائن وعمائر ومياه.474
یہ یمن کی سرزمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہے جہاں نخلستان اور درخت پائے جاتے ہیں۔ یہ صنعاء کے قریب عدن اور حضر موت کے درمیان واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے شمال سے صعدہ کے شمال تک کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ صنعاء تقریباً دس(10)مرحلوں کے فاصلے پر ہےاور کبھی یہ بلاد ہمدان میں شامل اور بستیوں، شہروں، آبادیوں اور پانیوں(چشموں) کے درمیان واقع تھا۔ 475
یمن کا یہ بڑا علاقہ عہد نبوی میں بھی ایک بڑی آبادی والا شہر تھا جس میں تہتر( 73) بستیاں آباد تھیں اور یہاں جنگجوؤں کی چھاؤنی بھی تھی۔ صالحی کی روایت کردہ طویل حدیث میں نجران کے بارے میں یوں مذکور ہے:
وطول الوادي مسيرة يوم للراكب السريع وفيه ثلاث وسبعون قرية ومائة ألف مقاتل. 476
یہ وادی اتنی وسیع تھی کہ ایک تیز رفتار شخص کواسے طے کرنےمیں پوراایک دن لگتا تھاجس میں تہتر (73)بستیاں اور ایک لاکھ(100000)جنگجو تھے۔
نجران کی وجہ تسمیہ کےبارے میں مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس علاقہ کو آباد کیا تھا۔ اس حوالہ سے البلاذری ابن الکلبی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سميت نجران اليمن بنجران بن زيد بن سبا بن يشجب بن يعرب بن قحطان. 477
نجران بن زیدبن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کےنام سے یمن کا نجران موسوم ہوا۔ اس حوالہ سے یاقوت حموی لکھتے ہیں:
سمي بنجران اليمن بنجران بن زيدان بن سبا بن يشجب بن يعرب بن قحطان لأنه كان أول من عمرها ونزلها. 478
نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ علاقہ آباد کیااوراس میں فروکش ہوا۔
نجران پرانے زمانے میں تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھا ان دنوں یہ سعودی عرب کی سرحد کے اندر واقع ہےاور یہ انتہائی سرسبز وشاداب خطہ ہے۔
حضرموت کی طرح بلادِ احقاف بھی یمن کا ایک قدیم ترین شہر تھا جو حضر موت اور نجران کے مابین موجودہ ریگستان میں آباد تھا۔ اہل ِعرب ریت کے بل کھاتے ہوئے ٹیلے کو احقاف کہتے تھے۔ 479 یہ شہر اپنے دور میں خاصا مشہور اورسر سبزوشاداب شہر تھا لیکن موجودہ زمانے میں یہاں صرف ریت کے اونچے اونچے ٹیلےہی ہیں۔ یہ عہدِقدیم میں ایک بڑا شہر تھا اور اس میں بہت بڑی آبادی رہا کرتی تھی مگر اب یہاں دور دور تک کسی ذی روح کے نشان نہیں۔ اب اسے "الاحقاف" یعنی ریگستان کہتے ہیں اور یہ " الربع الخالی" نامی عرب کے سب سے بڑے ریگستان کا ایک کنارہ ہے۔ 480 اس کا کل رقبہ تین لاکھ(300000) مربع میل بتایا جاتا ہے۔ یہاں بعض مقامات پر ریت اتنی باریک ہے کہ جو چیز وہاں پہنچے اندر دھنستی چلی جاتی ہے۔ 481
يمن ميں کئی ایک وادیاں تھیں جو یمن کی شادابی میں موثر کردار اد اکرتی تھیں۔ ان وادیوں میں وادی نجران، وادی حجر اور وادی حضرموت سر فہرست ہیں۔ وادی نجران یمن کے شمال کی طرف نجران میں بہتی تھی جس کا پانی جبل طویق کے جنوب میں الربع الخالی میں جذب ہوجاتا تھا۔ حضر موت کے جنوب میں واقع وادی حجر میں جزیرہ نمائے عرب کا واحد دریا تھا جو پورا سال بہتااور بحیرہ عرب میں گرتا لیکن اس کی لمبائی سو( 100)کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔ وادیِ حضر موت، حضرموت کے شمال مشرق میں واقع تھی جوشمال اور جنوب کی طرف سے آنے والی ندیوں سے مل کر "وادی المسیلہ"کہلاتی اور سیحوت کے قریب بحیرہ عرب میں جاگرتی۔ سیحوت یمن کے مشرقی صوبے مہرہ کا ایک شہر تھاجو بحیرہ عرب کے ساحل پر مکلا سے پانچ سو بائیس( 522)کلو میٹر اور صنعاء سے تیرہ سو اٹھارہ (1318) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھااور یہاں کشتیاں بنانے کا کام بھی ہوتا تھا۔ 482
مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ یمن عرب کے جنوب مغرب میں واقع ہےاورقبل مسیح میں اس کا نام سبا تھا اور اس کادار الحکومت " مآرب " تھا لیکن مرورزمانہ سےاس کا نام " یمن " پڑگیا جسے بعد میں سرسبزی وشادابی کی بنا پر یمن خضراء کہاگیا۔ یمن ہی میں نجران کا علاقہ بھی شامل ہے جہاں کافی نخلستان ہیں اوریہاں کا کپڑا بھی عرب کا بہترین کپڑا تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں سے عہد نبوی میں ایک عیسائی وفد نبی کریم کی بارگاہ میں مناظرے کی غرض سے حاضر ہواتھا لیکن بحکم الہٰی مباہلہ کی دعوت کے بعد بنا مباہلہ کیے جزیہ دینے پر آمادہ ہوگیا تھا۔
مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ تہامہ، حجاز، نجد، عروض، عمان، یمامہ، یمن اور بحرین جزیرہ نما عرب کے اہم جغرافیائی خطےہیں جن میں سے ہر ایک میں عرب کے کئی مشہور شہر، بستیاں اور قبائل آباد تھے۔ ان خطوں کی جغرافیائی خصوصیات میں جہاں کئی ایک عوامل مشترک ہیں وہیں کئی عوامل ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ جہاں ایک طرف سینکڑوں میل تک پھیلی بے آب و گیاہ وادیاں ہیں وہیں بعض علاقوں میں سرسبز وشاداب زرعی و میدانی علاقے بھی ہیں۔ یہاں ایک طرف حبس زدہ ساحلی پٹیاں ہیں وہیں سطح مرتفع نجد کے صحت افزاء مقامات بھی ہیں جو عرب بھر میں اپنے موسم و آب و ہوا کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ یوں یہ واضح ہوتا ہے کہ عرب ایک وسیع و عریض اور وسیع الجہت اقلیم ہے جہاں کا ہر رنگ اپنے اندر انفرادیت اور خوبصورتی رکھتا ہے۔ یہ سرزمین بہت اہمیت کی حامل اس لئے ہےکیونکہ یہاں پر انسان ِ اول حضرت آدم تشریف لائے اور اسی جگہ سے انسانوں کی آباد کاری دنیا میں ہوئی۔ یہی وہ خطہ تھا جہاں سے انسانوں کی ہدایت کا سامان وحی کے ذریعہ شروع کیا گیا اور پھر دیگر انبیاء کی بعثت کے بعد پیغمبروں کے سردار حضرت محمد کو بھیج کر ہدایت کے پیغام کو مکمل فرمایا گیا۔ اسی وجہ سے اس بے آب و گیا جزیرہ نما عرب کی عزت اور حرمت کو قیامت تک آنے والے انسانوں اور خاص طور پرمسلمانوں کے لئے مسلّم کردیا۔