Encyclopedia of Muhammad
پیدائش 595 عیسوی وفات 625 عیسوی عمر 30 سال والد الحارث ابن عبد اللہ والدہ ہند بنت وعف (حولہ)شوہر (۱)طفیل بن الحارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (علیحدگی ہوئی) (۲)حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ (شہید جنگ بدر) (۳)رسول اللہ ﷺلقب: ام المؤمنین ، ام المساکینقبیلہ: بنو ہلالمزار مبارک جنت البقیع

Languages

EnglishDutchGermanPortugueseHindi

ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ

حضرت زینب بنت خزیمہ نبی کریم کی زوجہ محترمہ تھیں۔ آپ کا شمار اپنے وقت کی نہایت فیاض، نرم اور رحم دل خواتیں میں ہوتا تھا۔ 1 آپ کو ابتداء سے ہی اپنی بے مثال سخاوت کی وجہ سے ام المساکین یعنی "ضروت مندوں کی والدہ" کا لقب دیا گیا تھا۔ 2 آپ اپنے جذبہ ہمدردی، صبر و استقامت، احسان مندی اور اللہ کی راہ میں کوشش و ہمت کی وجہ سے جمیع امہات المومنین میں نہایت ممتاز حیثیت کی مالک تھیں۔

حضرت زینب بنت خزیمہ کا نسب

حضرت زینب بنت خزیمہ کا نسب زینب بنت خزیمہ بنت عبد الله بن عمر بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ 3 بن معاویہ بن بکر بن ہوازن تھا۔ 4 آپ کی والدہ کا نام ہند بنت عوف بن حارث تھا۔ آپ کی سوتیلی بہن حضرت میمونہ بنت حارث 5 کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ حضرت زینب بنت خزیمہ کے انتقال کے بعد آپ کی زوجیت میں داخل ہوئیں۔ 6 حضرت میمونہ ازواج مطہرات میں سے وہ آخری زوجہ تھیں جن سے آپ نے نکاح فرمایا۔

نبی کریم سے نکاح سے قبل حضرت زینب بنت خزیمہ کے نکاح

حضرت زینب بنت خزیمہ کا پہلا نکاح طفیل بن حارث بن عبد المطلب کے ساتھ ہوا۔ 7 انہوں نے کچھ مدت کے بعد آپ کو طلاق دے دی اور آپ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ 8 اس کے بعد آپ کا نکاح طفیل بن حارث کے بھائی عبیدہ بن حارث سے ہوا جو جنگ بدر میں دین اسلام کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ 9 بلاذری کے مطابق آپ کا دوسرا نکاح عبد اللہ بن جحش سے ہوا تھا جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے اور اس کے بعد آپ نے آپ سے نکاح فرمایا تھا 10 لیکن پہلا قول ہی زیادہ تر سیرت نگاروں کے نزدیک صحیح ہے۔

آپ اور حضرت زینب بنت خزیمہ کا نکاح

آپ نے غزوہ بدر میں حضرت زینب بنت خزیمہ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث کے شہید ہونے پر آپ کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا 11 اور صحابہ کرام کے لیے یہ اسوہ حسنہ قائم فرمایا کہ شہداء جو اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ہوں ان کی بیوہ گان کے ساتھ نکاح کرنا نبی کی سنت ہے۔ 12 آپ نے حضرت زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ماہ رمضان المبارک میں نکاح فرمایا 13 اور چار سو دراہم بطور مہر کے آپ کو عطا فرمائے۔ 14

نکاح کے بعد آپ حضرت زینب بنت خزیمہ کو اپنے اہلخانہ کے ساتھ ملاقات کے لیے اپنے گھر لے گئے جس پر حضرت زینب بنت خزیمہ بے پناہ خوش ہوئیں اور اس بات کو اپنے لئے سعادت سمجھا کہ آپ نے انہیں اس عزت و اکرام سے نوازا۔ حضرت زینب کا آپ کی دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ کبھی کوئی مسئلہ اورنزاع نہیں رہا اور نہ ہی وہ ان میں سے کسی کے ساتھ حسد میں مبتلا ہوئیں۔ آپ کا زیادہ وقت مستحق اور غریب لوگوں کو کھانا کھلانے اور ان کے کھانے کی ضروریات کو پورا کرنے میں گزرتا تھا۔ 15

انتقال

حضرت زینب بنت خزیمہ نے آپ کے ساتھ محض 8 ماہ کا عرصہ گزار کر ماہ ربیع الثانی میں دنیا سے پردہ فرمایا۔ 16 آپ کا انتقال ہجرت کے چوتھے برس اس وقت ہوا جب آپ کی عمر 30 برس تھی۔ 17 آپ کی حیات طیبہ میں حضرت زینب بنت خزیمہ کے بعد کسی اور زوجہ کا انتقال نہیں ہوا۔ 18 آپ نے خود حضرت زینب بنت خزیمہ کا نماز جنازہ پڑھا کر آپ کی تدفین جنت البقیع میں فرمائی۔19

 


  • 1 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 157
  • 2 عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 122
  • 3 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 157
  • 4 احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 429
  • 5 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:446
  • 6 ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 173
  • 7 احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 429
  • 8 ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 173
  • 9 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:91
  • 10 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:446
  • 11 أكرم ضياء العمري، السيرة النبوية الصحيحة، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 1994م، ص:650
  • 12 محمد الطيب النجار، القول المبين في سيرة سيد المرسلين، مطبوعۃ: دار الندوة الجديدة، بيروت، لبنان، د۔ ت۔ ط، ص: 406
  • 13 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:91
  • 14 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-7، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 566
  • 15 محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 205
  • 16 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 157
  • 17 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:91- 92
  • 18 احمد احمد غلوش، السيرة النبوية والدعوة في العهد المدني، مطبوعۃ: مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 127
  • 19 احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 429