Encyclopedia of Muhammad
تاریخ: 625 عیسوی/3 ہجری مہینہ: مارچ/شوالمدمقابل افواج: مسلمانان مدینہ/مشرکین مکہمسلمان مجاہدین: غزوہ احد میں شریک صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مسلمان سپہ سالار: حضرت محمد ﷺکافر سپہ سالار: ابو سفیان(بعد میں مسلمان ہوئے)مقام غزوہ: حمراء الاسد تدبیر: مشرکین پر رعب ڈالنے کے لیےرات میں 500 خیموں کو آگ سے روشن کیا گیا نتیجہ: مسلمان فتح یاب۔ قریش واپس مکہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔

Languages

EnglishPortugueseGerman

غزوہ حمراءالاسد

غزوہ حمراء الاسد شوال کے مہینہ سن 3ہجری کو غزوہ احد کے اگلے دن مدینہ منورہ سےتقریباً 8 میل کے فاصلہ پر وقوع پذیر ہوا۔ 1 دراصل یہ غزوہ اُحد کا ہی تتمہ تھا ،کیوں کہ غزوہ احد کے ایک دن بعد ہی یہ غزوہ پیش آیا اور کفار کا لشکر مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے فرار ہوگیا ۔ 3 دن کے قیام کے بعد آپ مدینہ منورہ واپس پہنچے جس کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایا:

  فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ 174 2
  پھر وہ (مسلمان) اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ واپس پلٹے انہیں کوئی گزند نہ پہنچی اور انہوں نے رضائے الٰہی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اسباب جنگ

غزوہ احدمیں جب کفار مکہ جانے لگے تو رسول اللہ نے حضرت علی سے فرمایا کہ جاکر کفار کی نقل وحرکت کے بارے میں آگاہ کریں اور اگر ان کا ارادہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا ہے تو بخدا میں خود ان کو سبق سکھانے نکلوں گا۔ 3 حضرت علی نے واپس آکر اطمینان کی خبر دی۔ رسول اللہ واپس مدینہ منورہ پہنچے تو اس رات مدینہ منورہ کی مسلح پہرہ داری کی گئی،4 کیوں کہ دشمن کے واپس آنے کا اندیشہ تھا ،آ پ یہ چاہتے تھے کہ مشرکین کے گھمنڈ کو توڑا جائے اور ان کو یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کی ہمت ابھی تازہ دم ہے ۔اسی اثنا میں آپ کو عبداللہ بن عوف مُزنی نے خبر دی کہ میں مکہ کے رستے سے آرہا تھا اورمیں نے ابو سفیان کے ارادے مسلمانوں کے بارے میں ٹھیک نہیں دیکھے۔رسول اللہ نے اسی وجہ سے یہ ارشادفرمایا تھا:

  لقد سومت لهم حجارة، لو صبحوا بها لكانوا كأمس الذاهب. 5
  ان کے لیے پتھروں پر نشانات لگا دیے گئے تھے اگر وہ لوٹتے (مدینہ کی طرف) تو مٹا دیے جاتے۔

صرف مجاہدینِ اُحد کو نکلنے کی اجازت

رسول اللہ نے منادی کروائی کہ جولوگ ہمارے ساتھ احد میں شریک تھے صرف وہی نکلنے کی تیاری کریں۔6 یہ خبر سن کر عبداللہ ابن ابی ابن سلول (رئیس المنافقین) رسول اللہ کے پاس حاضر ہوا کہ مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہےلیکن آپ نے اس کو ساتھ لے جانے سے منع فرمادیا۔ 7

حضرت جابر کے والد نے بھی ان کو غزوہ احد میں جانے سے منع کیا تھا کیوں کہ وہ خود جانا چاہتے تھے اور گھر میں حضرت جابر کی چھوٹی بہنوں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا کیوں کہ ان کی والدہ کاانتقال ہوچکا تھا ۔ جب آپ نے یہ اعلان سنا تو دوڑے ہوئے آپ کی خدمت میں پیش ہوئے اور سارا ماجرا سنایا تو آپ نے انہیں نکلنے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی۔ 8

زخمی اجسام اور قوی عزائم

غزوہ احد میں مسلمانوں کو سخت آزمائش اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ جسم ابھی زخموں سے چُور تھے۔ کسی کو دس زخم لگے ہوئے تھے کسی کو اس سے زیادہ اور کئی کے زخموں سے ابھی خون جاری تھا لیکن جب کانوں میں یہ اعلان پڑا کہ دوبارہ نکلنا ہے تو جانثار صحابہ کرام نے بلاچوں وچراں کے فورا نکلنے کی تیاری کی ۔9 رسول اللہ کی تکلیف بھی ان سے کم نہیں تھی۔ آپ کا سرمبارک اوررخسار مبارک زخمی تھے اور دانت بھی متاثر ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے مسجد سے نکلنے کا ارادہ فرمایا۔ دو رکعت نماز پڑھی، گھوڑا منگایا، جنگی لباس زیب تن کیا اور روانہ ہوگئے۔10 زخموں سے چور صحابہ کرام کے پاس سواریاں بھی نہیں تھیں جس کی وجہ سے وہ پیدل دوڑنا شروع ہوگئے۔ سیدنا عبداللہ بن سہل اور رافع بن سہل جو کہ سگے بھائی تھے اُن دونوں کے پاس سواری نہیں تھی۔ وہ دونوں کبھی تو ساتھ ساتھ چلتے اور کبھی باری باری ایک دوسرے کو پیٹھ پر بٹھاتے تاکہ رسو ل اللہ جو کافی دور جاچکے تھے ان تک جلد از جلد پہنچ سکیں۔ یہ رات میں لشکر تک پہنچے ۔ 11 سعد بن عبادہ نے تمام لشکر کے لیے 30 اونٹ وقف کردیے جن کو ذبح کرکے صحابہ کرام نے زاد راہ کے طور پراستعمال کیا۔ رسول اللہ نے مجاہدین کی ان خدمات پر انہیں خاص دعاؤں سے نوازا۔ 12

جنگی حکمت عملی

غزوہ حمراء الاسد کا ایک مقصد دشمن کو اور آس پاس کے قبائل کو یہ باور کرانا تھا کہ غزوہ احد کے ظاہری نقصان سے مسلمانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں بلکہ ابھی تک بلند ہیں مبادہ کوئی یہ نہ سوچ لے کہ مسلمان اب کمزور پڑ گئے ہیں۔ 13 اسی لیے رات کو جس جگہ لشکر نے قیام کیا وہاں آپ نے تمام لشکر کو متعدد مقامات پر آگ روشن کرنے کا کہا تاکہ دور سے دیکھنے والوں کو یہ لگے کہ لشکر بہت بڑی تعداد میں ہے ۔ 14

معبد خزاعی کا مکالمہ

رسول اللہ نے حمراء الاسد کے مقام پر قیام فرمایا۔ وہاں آ پ کی ملاقات معبد خزاعی سے ہوئی جو مکہ کی طرف محو سفر تھااور باوجود اسلام قبول نہ کرنے کے رسول اللہ سے دلی محبت رکھتا تھا ۔ مکہ کی طرف جاتے ہوئے مقامِ روحا پر اسکی ابو سفیان سے ملاقات ہوئی۔ ابو سفیان نے جب دیکھا کہ یہ مدینہ کی طرف سے آرہا ہے تو اس سے کہنے لگا :

  أصبنا حد أصحابهم وقادتهم وأشرافهم، ثم رجعنا قبل أن نستأصلهم، لنكرن على بقيتهم فلنفرغن منهم. 15
  ہم محمد() کے پایہ کے لوگوں پر قدرت پالینے کے باجود ان کا استیصال کیے بغیر واپس لوٹ گئے، ان کے باقی لوگوں پر حملہ کرتے ہیں اور ان سے چھٹکارا پالیتے ہیں ۔

معبد خزاعی اس کی باتیں سن کر کہنے لگا کہ تم یہاں ہو جب کہ میں وہاں دیکھ کر آرہا ہوں کہ محمد() تمہارے خلاف اتنا بڑا لشکر لے کرنکلے ہیں جسکا تم تصور بھی نہیں کرسکتے،اور اس بار وہ لوگ بھی ان کے ساتھ نکلے ہیں جو پہلے رہ گئے تھے ۔ابو سفیان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ لوگ جو زخموں سے چور ہیں اور اپنے کئی اعزہ واقارب کو کھو چکے ہیں وہ کیسے اپنے زخم بھلا کر اتنی جلدی ہمارے مقابلہ کےلیے نکل آئیں گے۔ اس خبر نے ابو سفیان کے اس غرور کو خاک آلود کردیا اور وہ بوکھلا کر معبد خزاعی سے کہنے لگا کہ تم بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ معبد خزاعی نے اس کو جانے سے باز رکھا لیکن وہ پھر نخوت سے کہنے لگا کہ نہیں، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم جاکر رہیں گے۔ 16 ابو سفیان نے کچھ لوگوں کو رسول اللہ اور مسلمانوں کو مرعوب کرنے کےلیے روانہ کیا تاکہ یہ جاکر وہا ں لشکر کفار کے بارے میں ان کو خبردار کرکے ان کو مرعوب کریں۔ جب یہ خبر رسول اللہ کو پہنچی تو آپ نے صرف اتنا فرمایا :

  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ173 17
  ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔

ابو سفیان کے دوبارہ جانےکا اظہار کرنے پر معبد خزاعی نے چند اشعار میں ابو سفیان کے سامنے مسلمانوں کی بہادری اور لشکر کی ہولناکی بیان کی جس کو سن کر ابو سفیان نے وہاں نہ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ 18

مدینہ منورہ واپسی

رسول جب وہاں پہنچے تو کفار کا لشکر وہاں سے بھاگ نکلا تھا۔ صرف ایک آدمی ہاتھ آیا جو سوتا رہ گیا تھا۔ یہ ابو عزہ شاعر تھا جس نے رسول اللہ سے غداری کی تھی۔ غزوہ بدر میں رسول اللہ نے اس کی جان بخشی اس شرط پر کی تھی کہ آئندہ کبھی مسلمانوں کے خلاف نہیں لڑے گا لیکن غزوہ احد میں یہ مال کی لالچ میں دوبارہ کفار کے ساتھ نکلا اور اس طرح پکڑا گیا۔ 19 آپ نے وہاں تین دن قیام فرمانے کے بعد مدینہ منورہ واپسی کی اور راستہ میں ابو عزہ کے قتل کا حکم فرمایا۔ اس کے علاوہ ایک اور جاسوس جو لشکر کفار سے بچھڑ گیا تھا مدینہ میں چھپ گیا تھا۔ رسول اللہ نے اس کو تلاش کراکر اس کو 3 دن کے اندر واپس جانے کا حکم دیا لیکن وہ شرارت سے باز نہ آیا اور بغرض جاسوسی وہیں چھپ گیا۔ آپ نے اسے تلاش کروا کر اسے بھی قتل کرنے کا حکم دیا۔ 20

نتائج

غزوہ حمراء الاسد میں مسلمانوں کا خاطر خواہ نقصان نہیں ہوا البتہ مسلمانوں کے اس خروج سے کفار پر انکی دھاک ضرور بیٹھ گئی کہ مسلمان ہر وقت ہم سے مقابلہ کےلیے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فائدہ بھی ہوا کہ کفار کے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے جو ارادے تھے وہ ارادے مٹی میں مل گئے جس کی وجہ سے مسلمان کچھ عرصے تک کفار مکہ کی طرف سے بے فکر ہوگئےاور انہیں آس پاس کے قبائل میں تبلیغ کرنے اور ان سے تعلقات قائم کرنے کا موقع مل گیا۔

 


  • 1 أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 338
  • 2 القرآن، سورۃ آل عمران 3: 174
  • 3 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م، ص: 334
  • 4 ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 334
  • 5 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبہ و مطبعہ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 104
  • 6 أبومحمدعلي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص: 140
  • 7 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص: 309
  • 8 ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 389
  • 9 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 350
  • 10 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 234
  • 11 محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 220
  • 12 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:351
  • 13 یوسف بن البر النمری، الدرر في اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1403ھ، ص: 158
  • 14 ابوالفتح محمد بن محمد الربعی، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، دار القلم، بيروت، لبنان،1993م، ص: 54
  • 15 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة،ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008م، ص:315
  • 16 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیسﷺ، ج-۱، مطبوعۃ: دارالصادر، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجوداً، ص: 448
  • 17 القرآن، سورۃآل عمران 173:03
  • 18 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:291
  • 19 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 352
  • 20 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبہ و مطبعہ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 105