Encyclopedia of Muhammad
ولادت: 549 عیسوی وصال: 577 عیسوی عمر: 30 سال والد: وہب ابن عبد مناف والده: برّۃ بنت عبد العزیٰ نکاح: عام الفیل سے ایک سال قبل (569ء) شوہر: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنه اولاد حضرت محمد صلى الله عليه وسلم قبيلہ بنو زہرہ قبر مبارك: مقام ابواء

Languages

ArabicEnglish

سيّده آمنہ بنت وہب(549 تا 577ء)

حضرت آمنہ بنت وہب حضور کی والدہ ماجدہ تھیں 1 اور آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ "بنو زہرہ" سے تھا۔ 2آپ کے والد کا نام وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرّۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر تھا۔ 3آپ کی والدہ کا نام برّۃ بنت عبد العزیٰ بن عثمان بن عبد الدار بن قصی بن کلاب بن مرّۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر تھا ۔ 4آپ کے والد اپنے قبیلے کے معزز سردار تھے اور بنو زہرہ قبیلے میں ایک مثالی حیثیت کے مالک تھے ۔ 5

آمنہ بنت وہب کے والد وہب ابن عبد مناف سگ ستارہ (Sirius) کی عبادت کیا کرتے تھے جو کہ عربوں کے عمومی مزاج اور ان کی قبائلی تاریخ کے خلاف تھا ۔اس بنیاد پر اہلِ عرب آپ کی مخالفت کرتے تھے اور آپ کو "ابوکبشہ" کہہ کر بلایا کرتے تھے کیونکہ عربی زبان میں یہ سگ ستارہ "کبشہ " کہلاتا تھااور اسی کی نسبت سے آپ کو ابوکبشہ یعنی "کبشہ ستارے کی عبادت کرنے والا" کہا جاتا تھا ۔ وہب عبد مناف کی مثل جب عربوں نے نبی کی مخالفت کی اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اجنبی سمجھتے ہوئے اسلام کو بھی عبد مناف کے دین پر قیاس کیا تو انہوں نے آپ کو بھی "عبد ابی کبشہ" کہنا شروع کر دیا 6جس سے ایک طرف وہ آپ کی نسبت وہب ابن عبدمناف کی طرف کرتے تھے وہیں دوسری طرف آپ کو ابن ابی کبشہ کہہ کر اپنے غصّے اور نفرت کا اظہار کرتے تھے۔

حضرت آمنہ کی کوئی سگی بہن یا سگا بھائی نہیں تھا البتہ آپ کے والد وہب ابن عبدِمناف کی دوسری زوجہ سے آپ کے دو سوتیلےبھائی "عبد یغوث" اور "عبید یغوث" تھے جبکہ ایک سوتیلی بہن "ضعیفہ بنت ہاشم" تھی ۔ 7اسی لیے بعد میں بنو زہرہ قبیلے کے لوگ اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ وہ نبی کے ننھیالی رشتہ دار یعنی ماموں ممانیاں ہیں اور اسی نسبت سےوہ حضرت آمنہ سے اپنی رشتہ داری کو جوڑا کر تے تھے ۔ 8

حضرت آمنہ کی خوبیاں

حضرت آمنہ اپنی ظاہری وضع قطع میں ایک خوبصورت اور باوقارخاتون تھیں اور قبیلہ قریش میں بالعموم اور بنو زہرہ قبیلے میں بالخصوص ممتاز شخصیت کی مالک تھیں۔ آپ نسب کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز شخصیت کی مالک تھیں کیونکہ آ پ اپنی والدہ برّہ کی طرف سے عبدالعزہ بن عثمان کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو کہ قصئ کی اولاد سے تھے 9جبکہ آپ کے والد بنو زہرہ قبیلہ میں سرداروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ 10حضرت آمنہ اپنے خاندانی نسب و نسبت اور ذاتی حسن و جمال کے علاوہ بھی کئی ایسی خصوصیات کی حامل تھیں جو کہ آپ کو بنو زہرہ قبیلہ کی دیگر خواتین سے ممتاز کر تی تھیں جن میں بالخصوص آپ کی پاک دامنی ، شرافت ، ذکاوت، بردباری اور حلم شامل تھا ۔

حضرت آمنہ سے متعلقہ بشارت

حضرت آمنہ بچپن سے ہی اپنی سہیلیوں میں ایک مخصوص تشخص کی حامل تھیں ۔ مشہور کاہنہ سودہ بنت زہرہ نے جب بنو زہرہ قبیلہ کا دورہ کیا تو برملا کہہ اٹھی کہ اس قبیلہ میں ایک نہایت ہی عزت اور شرف والی لڑکی موجود ہے ۔ اس نے مزید کہا کہ وہ لڑکی اور اس کا ہونے والا بیٹا تمام لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے ہوں گے اور لوگوں کو راہِ ہدایت کی طرف بلانے والے ہوں گے۔ اس نے بنو زہرہ قبیلہ کی تمام خواتین کو ایک جگہ جمع ہونے کی درخواست کی اور یکے بعد دیگرے ہر لڑکی اور عورت کو دیکھتی اور اس کے حوالے سے پیش گوئی کرتی رہی ۔ جب اس کی نظر حضرت آمنہ پر پڑی تو آپ کو دیکھ کر اس نے ایک دم کہا:

  هذه النذیرة او تلد نذیرا له شان و برهان منیر. 11
  یہی وہ لڑکی ہے جو لوگوں کو ڈرائے گی یا پھر اس کا بیٹا لوگوں کو (اللہ ) سے ڈرانے والاہو گا ، جس کی عظیم شان ہو گی اور جو روشن دلیل کی طرح ( حق کے ساتھ ) جگمگائے گا ۔

اس دن سے حضرت آمنہ بنو زہرہ قبیلہ میں اپنے اوصاف عالیہ کی وجہ سے اور بھی زیادہ مشہور ہو گئیں اور جب آپ کا نکاح حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ سے ہوا تو اس شہرت اور شان میں مزید اضافہ ہو گیا ۔

حضرت آمنہ بنت وہب کے عقائد

اللہ رب العزت نے جہاں ایک طرف حضرت آمنہ کو ظاہری حسن و جمال اور صفاتی کمالات سے نوازا تھا وہاں دوسری طرف آپ کو ہر قسم کی برائی اور نا پسندیدہ چیزوں سے بھی محفوظ رکھا تھا کیونکہ آپ کو بالآخر پوری انسانیت کے سردار اور ہادیِ عالم کی والدہ بننے کا شرف حاصل ہونے والا تھا ۔ 12حضرت آمنہ ہمیشہ شرک اور بتوں وغیرہ کی پوجا سے محفوظ و مامون رہی تھیں اور اپنے معاملات کے حوالے سے بھی نہایت ہی دیانتدار اور امانتدار تھیں۔ آپ اور آپ کے شوہر حضرت عبداللہ جو کہ حضور کے والدین کریمین بننے کے شرف سے مشرف ہوئے ، یہ دونوں ہی ہستیاں اہل فطرت میں سے تھیں جنہوں نے ہمیشہ عقیدہ توحید اپنائے رکھا اور شرک کی غلاظت سے دور رہے۔ 13آپ کی طرف منسوب شدہ کچھ اشعار کتبِ سیرت اور تاریخ میں ملتے ہیں جن کو آپ اکثر پڑھا کرتی تھیں اور بالخصوص اپنی وفات سے پہلے رسول اللہ کو سنائے تھے۔ آپ کے چند اشعار درج ذیل ہیں :

  فأنت مبعوث إلى الأنام تبعث في الحل وفي الحرام
تبعث في التحقيق والإسلام دين أبيك البر إبراهام
فالله أنهاك عن الأصنام أن لا تواليها مع الأقوام. 14
  آپ () لوگوں کی طرف ا س لیے مبعوث کیے گئے تا کہ آپ ()لوگوں میں حلال اور حرام کے فرق کو واضح کر دیں۔ آپ ()کو حق اور سلامتی کے ساتھ بھیجا گیا جو کہ آپ ()کے والد حضرت ابراہیم کا دین تھا ۔ اللہ کی قسم میں آپ () کو بتوں کی پوجا کرنے سے روکتی ہوں تاکہ آپ () ان کی طرف دیگر اقوام کے ساتھ کبھی اپنا رخ نہ کریں ۔

یہ اشعار امام قسطلانی 15،زرقانی 16،محمد ابن یوسف ابن صالحی الشامی17،حسین ابن محمد ابن الحسن الدیار بکری 18اور احمد ابن زینی دحلان 19نے بھی نقل کیے ہیں ۔

آپ کا وہ معروف نسب جو حضرت عبدالمطلب سے لے کر پیچھے حضرت ابراہیم تک جا پہنچتا ہے اور پھر ابراہیم سے لے کر آدم تک جاتا ہے، اس میں موجود تمام اشخاص کے بارے میں یہ بات نہ صرف مشہور و معروف ہے کہ وہ سارےموحد تھے بلکہ اس کا ذکر کتب ِحدیث میں بیا ن کردہ روایت میں بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ منقول ہے :

  لم أزل أنقل من أصلاب الطاهرين إلى أرحام الطاهرات۔ 20
  ( آپ نے فرمایا کہ ) میں مردوں کی پاک پشتوں سے عورتوں کے پاک رحموں میں منتقل ہوا ہوں ۔

قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے مشرکین کو ناپاک قرار دیا ہے 21اس بنیاد پر امام رازی اور دیگر مفسرین نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ آپ کے والدین میں سے مرد و عورت اس لیےبھی مشرک نہیں ہوسکتےتھے کیونکہ آپ نے اپنی حدیث میں ان کی پاکی کو بیان فرمایا ہے اور قرآن نے مشرکین کو ناپاک قرار دیا ہے۔ 22

حضرت عبدا للہ سے نکاح

عام الفیل سے ایک سال قبل یعنی پانچ سو انتّھر (569ء)میں حضرت آمنہ کا نکاح حضرت عبداللہ سے ہوا 23جوکہ اپنی شکل و صورت اور عادت و اطوار کے حساب سے قریش کے بہترین نوجوان تھے ۔24آپ نہایت ہی وجیہ شخصیت کے مالک تھے اور اپنی عفت اور شرافت کے اعتبار سے مشہورتھے۔ 25مارٹن لنگس(Martin Lingus) جو کہ ایک انگریز مؤرخ ہے، اس نے حضور کی حیات پر لکھی گئی اپنی کتاب میں حضرت عبداللہ کو حضرت یوسف سے تشبیہ دی ہے۔ 26جب سے عرب خواتین میں حضرت عبداللہ کی زندگی کے حوالے سے سو (100) او نٹوں کی قربانی والا واقعہ مشہور ہوا تب سے خواتین کی ایک بڑی تعداد آپ کی طرف نکاح کا میلان رکھتی تھی لیکن آپ کے والد حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کا نکاح بنوزہرہ قبیلہ میں کرنے کا فیصلہ فرمالیا تھا جس کی وجہ سے حضرت آمنہ کا نکاح حضرت عبداللہ سے ہو گیا۔ 27

حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ بنوزہرہ قبیلہ میں تشریف فر ما ہوئے اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے لئے حضرت آمنہ کے والد وہب بن عبد مناف سےانکا رشتہ مانگا جو کہ اپنے قبیلہ کے مشہور سردار تھے۔ 28حضرت عبدالمطلب نے خود اپنے لئے بھی حضرت آمنہ کی رشتے دار حضرت ہالہ کا انتخاب فرمایا اور اُن کے والد وہیب سے اپنے نکاح کے سلسلے میں بات چیت کی۔ یہ دونوں نکاح کے پیغامات بیک وقت قبول کیے گئے اور یہ دونوں نکاح ایک ہی دن میں یکے بعد دیگر منعقد ہوئے اور اس طرح حضرت آمنہ حضرت عبداللہ کے نکاح میں آگئیں۔ بنو زہرہ قبیلے کی روایات کے مطابق حضرت عبداللہ کو تین دن تک اپنی زوجہ حضرت آمنہ کے ساتھ آپ کے علاقے اور اہل قبیلہ کے درمیان رہنا پڑا 29جس دوران وہ نورِ نبوت جو آپ کی پیشانی پر چمکا کرتا تھا حضرت آمنہ میں منتقل ہوگیا۔

حمل مبارک

عام الفیل سے ایک سال قبل، ذوالحجہ کے مہینہ میں، جمعہ والے دن، نبی نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے بطنِ اطہر میں تمکن فرمایا۔ 30بعض مؤرخین کے مطابق استقرارِ حمل رجب کے مہینہ میں ہوا لیکن جو بات قرائن کے ذریعہ پایایہ ثبوت تک پہنچتی ہے وہ پہلا قول ہے۔استقرارِ حمل کی یہ مدت پورے نو (9) ماہ رہی لیکن اس مبارک حمل کا کمال یہ تھا کہ حضرت آمنہ کو اِس پوری مدت میں نہ تو کبھی سر درد کی شکایت ہوئی اور نہ ہی کبھی آپ کا معدہ مبارک تکلیف زدہ ہوا ۔ اسی طرح وہ دیگر عوارضات جن سے عموماًحاملہ خواتین دورانِ حمل متاثر ہوتی ہیں اُن میں سے کوئی بھی عارضہ آپ کو لاحق نہیں ہوا اور نہایت ہی اطمینان وسکون کے ساتھ آپ کی مدتِ حمل پوری ہوئی۔ 31

حضرت عبداللہ کا وصالِ پُر ملال

حضرت آمنہ سے نکاح فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ قریش کےقافلے کے ساتھ تجارتی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت آمنہ رسول اللہ کے نور پاک کی سعادت سے بہرہ مند ہوچکی تھیں ۔ حضرت عبداللہ چند ماہ تک غزہ اور اُس کے گِردو نواح کے علاقے میں تجارتی اغراض سے مصروف رہے اور سفر سے واپسی میں جب آپ نے یثرب کے علاقے میں اپنے ننھیالی رشتہ داروں میں قیام فرمایا تو اِس دوران آپ شدید علالت کا شکار ہوگئے۔ آپ نے بنی عدّی ابن النجار قبیلہ میں کچھ دن قیام فرمایا تاکہ کسی طرح آپ مکہ تک سفر کرنے کے قابل ہوسکیں لیکن اللہ کی منشاء کے مطابق آپ مزید سفر کرنے سے قاصر رہے اور 25 سال کی عمر میں ہی اس دارِ فانی سے پر دہ فرما گئے۔ 32

حضرت عبداللہ کےوصالِ پُر ملال کی یہ خبر جب حضرت آمنہ تک پہنچی تو آپ شدید صدمے سے دوچار ہوگئیں کیونکہ آپ اپنی شادی کے فقط چند ماہ بعد نہایت ہی کم عمری میں بیوہ ہوگئیں تھیں۔ابن سعد نے حضرت آمنہ کی زبانِ مبارک سے نکلنے والے اُن دکھ بھرے اشعار کو ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے:

  عفا جانب البطحاء من آل هاشم
وجاور لحدا خارجا فى الغمائم
دعته المنایا دعوة فاجابها
وما تركت فى الناس مثل ابن هاشم
عشیة راحوا یحملون سریره
تعاوره اصحابه فى التزاحم
فان تک غالته المنایا وریبها
فقد كان معطاء كثیر التراحم 33
  بطحہ کی سرزمین ہاشم کی اولاد سے آج خالی ہوگئی اور وہ جاکر حالت غم میں اپنی قبر میں لیٹ گئے،اپنے مسکن سے بہت دور۔جب موت نے اُن کو پکارا تو انہوں نے اُس کی دعوت کو قبو ل کرلیا اور ابن ہاشم کی مثل لوگوں میں کوئی اور باقی نہ رہا۔اُس رات کی قسم جس رات اُن کے متعلقین اُن کے جنازے کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کررہے تھے ،کوئی بات نہیں اگر وہ وصال فرماگئے کیونکہ اُن کی اچھائیاں اُن کو ہمیشہ باقی رکھیں گی کیونکہ وہ نہایت سخی رحم فرمانے والے تھے ۔

یہ اشعار جہاں ایک طرف حضرت آمنہ کے دکھ اور غم کی کیفیت کا اظہارہیں وہاں دوسری طرف آپ کے شاعرانہ مزاج اور عربی دانی کا بھی ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ ان اشعار سےحضرت عبداللہ کی دو عظیم صفات یعنی سخاوت اور رحم دلی کا بھی پتاچلتا ہے۔

آپ کی ولادتِ باسعادت

عام الفیل میں بارہ (12) ربیع الاول کو پیر والے دن، طلوعِ فجر سے چند لمحات قبل محمد الرسول اللہ کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ 34عیسویں تقویم کے مطابق یہ تاریخ بیس (20) یا بائس (22) اپریل سن پانچ سو اکھتّر (571ء) بنتی ہے 35لیکن بعض مؤرخین نے اس کوپان سو ستّر (570ء) کےاگست کے مہینہ کی کوئی تاریخ قرار دیا ہے۔ 36

جب حضرت آمنہ کے بطن مبارک سے آپ کا نور اس دنیا میں منتقل ہوا تو یہ خبر حضرت عبدالمطلب کو بھجوائی گئی جو اُس وقت خانہ کعبہ میں موجود تھے۔جب آپ کو یہ خبر ملی تو آپ انتہائی خوشی کے عالم میں اپنے معصوم پوتے کو دیکھنے کے لئے گھر کی جانب روانہ ہوئے ۔حضرت آمنہ نے حضرت عبدالمطلب کو اُن تمام غیر معمولی احوال سےآگاہ فرمایا جن کا تجر بہ ومشاہدہ آپ نے دورانِ حمل اور وقتِ ولادت فرمایا تھا۔آپنے حضرت عبدالمطلب کو اس حوالے سے بھی آگاہ کیا کہ کس طرح آپ کو اس پیدا ہونے والے معصوم بچے کا خاص نام رکھنے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔37حضرت عبدالمطلب آپ کو اپنی گود میں لےکر خانہ کعبہ میں تشریف لے آئے اور اللہ کی بارگاہ میں اس عظیم تحفے پر شکر بجالانے لگے۔

حضرت آمنہ نے ابتدائی سات ایام تک نبی کی رضاعت فرمائی ۔ 38اُس کے بعد عرب رواج کے مطابق آپ نے اپنے لخت جگر کو بہتر ماحول اور آب و ہوا کے لئے دیہی علاقے کی طرف بھیج دیا جس کی سعادت حضرت حلیمہ سعدیہ بنت عبداللہ ابن حارث کے حصے میں آئی جوکہ بنوسعد قبیلے کی ایک انتہائی پاک بازخاتون تھیں اور رضاعت کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دیاکرتی تھیں۔ 39جب آپ کی عمر مبارک دوسال ہوئی تو حضرت حلیمہ سعدیہ اور آپ کے شوہر آپ کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس آئےلیکن انہوں نے حضرت آمنہ کے سامنے اس بات پر شدید اسرار کیا کہ وہ اس بابرکت بچے کو مزید کچھ عرصہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں میاں بیوی نے جس محبت اور الفت کے ساتھ آپ کو اپنے ساتھ واپس لےجانے پراِصرار کیا، اُس کے سامنے حضرت آمنہ مجبور ہوگئیں اور انہیں مزید کچھ وقت کے لئے آپ کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ 40

آپ تقریباً پانچ (5) سے چھ (6) سال تک حضرت حلیمہ سعدیہ کی زیر ِکفالت رہے 41اس دوران وہ آپ کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس ملانے لاتی رہیں یہاں تک کہ واقعہ ءِشقِّ صدر رونما ہوا اور حضرت ِحلیمہ سعدیہ کو آپ کی صحت اور جان کے حوالے سے خوف لاحق ہوگیا۔ اس واقعہ کے فوراً بعدآپ حضور کو لےکر حضرت آمنہ کے پاس آگئیں اور اُس کے بعد آپ اپنی والدہ کے وصالِ پُر ملال تک اُنہیں کے پاس رہے ۔ 42

حضر ت آمنہ کا وصالِ پُر ملال

حضرت آمنہ آپ کو لے کر یثرب کی طرف اس نیت کے ساتھ روانہ ہوئیں کہ آپ کا تعارف اپنے قبیلے بنوزہرہ کے لوگوں سے کرواسکیں تاکہ مستقبل میں آپ کا ایک مضبوط تعلق اپنے ننھیالی رشتہ داروں سے قائم رہ سکے۔ اس سفر میں آپ نے اپنی معاونت کے لئے حضرت ام ایمن کو اپنے ساتھ لے لیا جو کہ حضرت عبداللہ کی وراثت سے آپ کےحصّے میں آئی تھیں۔ یہ دونوں خواتین دوعلیحدہ علیحدہ اونٹوں پر سوار ہوکر روانہ ہوئیں اور یثرب کے علاقے "دارالنابغہ" میں قیام فرمایا جو کہ حضرت عبداللہ کا مدفن تھا۔ 43بعض روایات کے مطابق اس سفر میں حضرت عبدالمطلب بھی ان دونوں خواتین کے ہم رِکاب تھے ۔ 44

حضرت آمنہ نے تقریباً ایک ماہ یثرب کے علاقہ میں اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ قیام فرمایا اور اس کے بعد واپس مکّہ جانے کا ارادہ کیا ۔ ام ایمن کے مطابق آپ کی واپسی کے اس فیصلہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ یثرب کے بعض یہودیوں نے نبی کو بحیثیت پیغمبر پہچان لیا تھا اور جب آپ نے ان کی آپس کی گفتگو کو سنا تو بلا تاخیر آپ نے خوف کے عالم میں مکہ کے لیے روانہ ہونے کا فیصلہ فرما لیا ۔ 45واپسی کے دوران آپ شدید علالت کا شکار ہو گئیں 46یہاں تک کہ ابواء کے مقام پر جو کہ یثرب سے تقریباً ایک سو سینتیس (137) میل کے فاصلے پر موجود تھا اور شام کے حُجاج کے لیے میقات تھا، 47وہاں پر آپ اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں ۔ حضرت آمنہ کی قبر مبارک ابواء کے مقام پر ایک چھوٹے سے ٹیلے پرموجود ہے 48اور زائرین ایک بڑی تعداد میں فاتحہ خوانی کے لیے وہاں تشریف لے جاتے ہیں ۔

حضور ہمیشہ اپنی والدہ ماجدہ کو نہایت ہی محبت اور عقیدت کے ساتھ یاد فرمایا کرتے تھے۔ آپ اکثر صحابہ کرام میں اپنے اس پہلے سفر، جو آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ مکّہ سے یثرب ( مدینہ طیّبہ ) کا فرمایا تھا، کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور کئی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب بھی آپ اپنی والدہ ماجدہ کے انتقالِ پُرملال کا ذکر فرماتے تو نہایت ہی غمگین اور درد کی کیفیت کا شکار ہوجایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ جب آپ اپنی والدہ ماجدہ کی قبر مبارک پر تشریف لے گئے تو بے اختیار آپ کے رخسارِ مبار ک آنسوؤں سے تَر ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے ساتھ موجود صحابہ کرام بھی بے اختیار رو پڑے۔ 49آپ نےان کی اس کیفیت کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی والدہ کی محبت ، ان کی شفقت اور ان کی رحم دلی یاد آتی ہے ۔ 50

 


  • 1 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 45
  • 2 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 68
  • 3 ابو الفداء اسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: ۲۴۹
  • 4 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 110
  • 5 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 42
  • 6 ابو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، ذخائر العقبۃ فی مناقب ذو القربۃ، دار الکتب المصریۃ، مصر، ۱۳۵۶م، ص: 257
  • 7 محمد ابن امیہ ابن عمرو الہاشمی، المنمق من اخبار قریش، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1985م، ص: 48
  • 8 ابو حاتم محمد بن حبان البستی،السیرۃ النبویۃ واخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: ۴۴
  • 9 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1996م، ص: 192
  • 10 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 42
  • 11 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 68
  • 12 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1996م، ص: 195
  • 13 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، السبل الجلیۃ فی الاباء العلیۃ، مطبوعۃ: دار الامین، القاہرۃ، مصر، 1993م، ص: 17
  • 14 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 135
  • 15 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 89
  • 16 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،1996م، ص: 311
  • 17 امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-۲، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 121
  • 18 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیسﷺ، ج-۱، مطبوعۃ: دارالصادر، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجوداً، ص: 230
  • 19 سیّد احمد بن زینی دحلان المکی، السیرۃ النبویۃ (مترجم: ذوالفقار علی)، ج-1، ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، ص: 78
  • 20 ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-13، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1420 ھ، ص: 33
  • 21 القرآن، سورۃ التوبۃ 28:09
  • 22 ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-13، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1420 ھ، ص: 33
  • 23 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 42
  • 24 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 48
  • 25 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ:دار الحلال، بیروت، لبنان،1427ھ، ص: 43
  • 26 Martin Lings (1985), Muhammad ﷺ: His Life based on the Earliest Sources, Sohail Academy, Lahore, Pakistan, Pg. 17.
  • 27 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص: 89
  • 28 احمد بن یحیی البلاذری، جمل من انساب الاشراف، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص:7
  • 29 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 95
  • 30 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 60
  • 31 ایضاً، ص: 63
  • 32 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 99
  • 33 ایضاً، ص: 100
  • 34 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر ، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 158
  • 35 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دار الحلال، بیروت، لبنان،1427ھ، ص: 43
  • 36 محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، لیس التاریخ موجوداً، ص: 126
  • 37 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر ، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 160
  • 38 امام محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 375
  • 39 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 48
  • 40 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ : شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفٰی البابی الحلبي وأولاده بمصر ، القاھرۃ، مصر ، 1955م، ص: 164
  • 41 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 154
  • 42 ابو الفداء اسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 279
  • 43 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 116
  • 44 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار الحلال، بیروت، لبنان،1427ھ، ص:48
  • 45 ابو الفداء اسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 279
  • 46 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 154
  • 47 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-۱، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 65
  • 48 أبو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی، معجم البلدان، ج-۱، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 97
  • 49 ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری ،صحیح المسلم، حدیث: 2259، مطبوعۃ :دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 392
  • 50 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 154