مولِدکا لفظ "وَلَدَ یُولِدُ" سے مشتق ہے جسے اصطلاح میں اسمِ ظرف کہا جاتا ہےجو " مکانِ ولادت" اور "زمانِ ولادت" دونوں ہیں۔ مولِدُالنبی وہ مقام ہےجہاں حضور کی ولادت با سعادت ہوئی اور یہ مقام نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ دنیاوی تاریخ کے اعتبار سے بھی ایک نہایت منفرد و متبرک مقام ہے۔ اہلِ عرب جو اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سےاپنے گِرد و نواح میں موجود سات بڑی تہذیبوں میں غیر مقبول اورغیر معروف تھے، نبی کی بعثتِ مبارکہ سے نہ صرف اس دور میں بلکہ قیامت تک آنے والی جمیع انسانیت میں مشہور ومعروف ہوگئے۔
مسلمانوں میں اس مقام کی اہمیت اور اس کے با برکت ہونے کے حوالے سے کوئی اختلافِ رائے موجود نہیں ہے۔ یہ مقام جہاں نبی کریم کی ولادت ہوئی تاریخی طور پر
مولِد النبیحرمِ کعبہ کی مشرقی طرف
مختلف زمانوں میں علمِ
العیّاش کے مطابق حضور کے مولد کا تعین اس لیے مشکل ہے کیونکہ آپ کی ولادت زمانہ جاہلیت میں ہوئی اور اس وقت بالعموم کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ آپ ہی نبی آخر الزماں ہیں۔ اس لیے کسی نے بھی اس جگہ کو محفوظ رکھنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا۔ ان کے مطابق خود جائے ولادت کے مقام کے تعین میں اختلاف ہےکہ وہ مکّہ میں ہے یا ابواء میں۔ اسی طرح یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ مکّہ میں
امام فاکہی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه میں اس حدیث کو نقل کیا جس میں آپ نے اپنی جائے ولادت کے حوالے سے خود ارشاد فرمایا :
مولدي مكة ومهاجري المدينة. 10
میری جائےولادت" مکّہ " اور مقامِ ہجرت "مدینہ" ہے۔
یہ حدیث مسند ابی بکر صدیق میں بھی موجود ہے ۔ 11امام الفاسی نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تصدیق فرمائی ہے کہ نبی کی ولادت مکّہ مکرّمہ میں ہی ہوئی ۔ 12امام ابن جوزی نے بڑی صراحت کے ساتھ اس علمی اختلاف کا حل اپنی کتاب میں واضح الفاظ میں پیش فرمایا ہے:
لا خلاف أنه ولد صلي اللّٰه عليه وسلم بجوف مكة، وأن مولده صلي اللّٰه عليه وسلم كان عام الفيل، وكان أمر الفيل تقدمة قدّمها اللّٰه لنبيه صلي اللّٰه عليه وسلم وبيته. 13
اس بات میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ حضور کی ولادتعام الفیلوالے سال مکّہ مکرّمہ میں ہوئی ۔اللہ رب العزت نے ہاتھیوں والے واقعہ کو اپنے محبوب اور اپنے گھر سے متعلقہ نشانی( کے طور پر دلیل ) بنایا ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث اور اقوال اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ نبی کی ولادت باسعادت مکّہ مکرّمہ میں ہی ہوئی اور وہ قول جو عسفان سے متعلق ہے سیرت نگاروں کے نزدیک مردود اور نا قابل اعتنا ہے تاہم جہاں تک بات مکّہ مکرّمہ میں متعین جگہ کی ہے تو اس سے متعلق بھی آئمہ میں کچھ اختلاف رہا ہے۔ محمد بن یوسف الصالحی الشامی 14اور علی شبیر 15نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک رائے کے مطابق وہ مقام جہاں حضور کی ولادت ہوئی رَدَم کا ہو سکتا ہے لیکن مغلطائی نے ان کے اس قول کو بھی غریب قرار دیا ہے۔ جامع اللطیف میں مذکورہ پہلو پر بات کرتے ہوئے ابن ظہیرہ رقمطراز ہیں:
وقد ذكر السهيلي أنه صلي اللّٰه عليه وسلم وُلد بالشعب، وقيل بالدار التي عند الصفا التي كانت لمحمد بن يوسف أخي الحجاج......وهو غريب ونقل مغلطائی......ويقال ولد بالردم، ويقال بعسفان......وهو اغرب16
امام سہیلی نے ذکر کیا ہے کہ بلا شبہ آپشعب بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔اور یہ بھی منقول ہو اہے کہ اس گھر میں پیدا ہوئے جو صفا کے ساتھ ہے جو اب حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کا ہے۔۔۔اور یہ روایت غریب ہے۔امام مغلطائی نے نقل کیاہے کہ ۔۔۔آپردم یا عسفان نامی جگہ کے پاس پیدا ہوئےا ور یہ روایت بھی کافی غریب ہے۔
بعض علماء نے سوق الیل میں موجود اس ”شعب بنی ہاشم“ والی گلی کا ایک اور نام بھی بیان کیا ہے جو کہ ”شعب ابن ابی طالب “ہے اور کچھ نے اسی مقام کے لیے”زقاق المولد“ جس کو بعد میں”زقاق المدکک“بھی کہا گیا کا نام بھی استعمال کیا ہے ۔ محمد عبدالرؤف المناوی تحریرفرماتےہیں:
وُلد رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بمكة داخل الزقاق المعروف بزقاق المدكك. 17
حضوراکرم کی ولادت باسعادت مکّہ مکرّمہ کے مشہورمحلہ زقاق میں ہوئی جو "زقاق المدکک"کے نام سےجانا جاتاہے۔
مولد النبی کا ایک اور نام ”شعبِ علی “ بھی ہےاور ”سوق اللیل“ بھی چنانچہ اس حوالہ سے عبد اللہ محمد ابکر رقمطراز ہیں:
تقع دار مولدہ صلي اللّٰه عليه وسلم في شعب بنی هاشم قدیما ویسمي بشعب علي كما یسمي سوق اللیل وھو مكان شرقي الحرم الشریف. 18
رسول اکرمکا قدیم گھر " شعب بنی ہاشم" میں واقع ہے اور اس کو" شعبِ علی " کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے جیساکہ اس کو "سوق اللیل" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔یہ وہ مکان ہے جو حرم شریف کے مشرقی کنارہ کی طرف واقع ہے۔
اسی طرح مقام ِ مولد النبیکے محلِ وقوع کے حوالہ سے شیخ محمد بن احمد مکی روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
الموضع الذي یقال له مولد النبی صلي اللّٰه عليه وسلم وھو مشھور في الموضع الذي یقال له سوق اللیل وفي حاشیة شیخنا علي مولد الدردیر ولد بسوق اللیل علي الصحیح في الدار التي كانت لمحمد بن یوسف اخي الحجاج وكانت قبل ذلک بید عقیل ابن ابی طالب رضي اللّٰه عنه. 19
وہ جگہ جس کومولد النبیکہا جاتا ہے اور وہ مشہور بھی ہےاُس مقام پر واقع ہے جس کو "سوق اللیل" کہا جاتا ہے اور "مولد الدردیر" پر لکھے گئے ہمارے شیخ کے حاشیہ میں ہے کہ صحیح ترین روایت کی بنا پر آپ "سوق اللیل"کے اسی گھر میں متولد ہوئے جو بعد میں حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کی ملکیت میں رہا ہے۔اس سے پہلےیہ گھر حضرت عقیل بن ابی طالب کی مِلک میں تھا۔
یہ قول شیخ عبداللہ الغازی 20اور امام ابن حجر الہیثمی 21نے بھی نقل کیا ہے۔ امام ابن ظہيرہ المخزومی نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو لکھا ہے کہ یہ بات مشہور ہے اور تواتر کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے کہ نبی کی ولادت اسی سوق اللیل میں محمد یوسف والے گھر میں ہوئی جو کہ شعب بنی ہاشم میں واقع ہے۔ 22
مذکورہ بالا حوالہ جات اور علماء کی تصریحات اس طرف واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ نبی کے جائے ولادت کے حوالے سے متاخرین علماء میں کوئی اختلاف نہیں ۔ امام ازرقی نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے۔23عبداللہ محمد ابکر نے اس بات میں مزید یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اہل مکّہ عمومی طور پر اس جگہ کے بارے میں جانتے تھے اور وہ جگہ وہاں کے مکینوں میں معروف ہے۔ 24
ڈاکٹر ناصر ابن علی نے اپنی کتاب الآثارالاسلامیۃفی مکۃالمکرمۃمیں لکھا ہے کہ تمام سیرت نگاروں کے نزدیک یہ بات طے ہے کہ حضور کی ولادت اپنے دادا جان حضرت عبدالمطلب کے گھر میں ہوئی تھی جو کہ شعب بنی ہاشم میں موجو د تھا اور اسی مقام پر بنو ہاشم اور کفار مکّہ نے مسلمانوں کا سیاسی مقاطعہ کیا تھا ۔ تمام تاریخ دانوں نے واقعہ شعب ابی طالب کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جو کہ سیر ت نگاری میں درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی بات ہے ۔ جب نبی کے دادا حضرت عبدالمطلب اپنی آخری عمر میں نا بینا ہوئے تو آپ نے اپنی جائیداد اپنے بیٹوں میں تقسیم فرما دی اور شعب بنی ہاشم وہ جائیداد تھی جو ترکہ کے طور پرنبی کے والد محترم حضرت عبداللہ کے حصہ میں آئی تھی ۔عربوں کے معروف رواج کے مطابق ان کی اولاد کی پیدائش بچے کے والد کے گھر میں ہوتی تھی اسی لیے یہ بات سب سے زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ آپ کی ولادت بھی اسی گھر میں ہوئی جو کہ شعب بنی ہاشم میں موجود ہے ۔ 25
شیخ ابو سلیمان نے مکّہ سے تعلق رکھنے والے علماء ، مؤرخین و محدثین کی ایک طویل فہرست کا ذکر اپنی کتاب میں اس حوالے سے کیا ہے کہ وہ سارے علماء اس بات پر متفق تھے کہ نبی کی جائے ولادت شعب ابی طالب ہی تھی ۔ آپ فرماتے ہیں کہ مکی مؤلفین کی جانب سے مکی تاریخ نے تحقیق وتدوین کے اعتبار سےبہت منزلت پائی۔حسنِ اتفاق یہ ہےکہ اس کو اُن محدثین، فقہاءاور قضاۃ نےلکھاجو دقیق علمی معیارپرپورااترنےوالی صحیح معلومات کے علاوہ کسی قسم کی معلومات کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان مؤلفین میں مکی مؤرخین کے شیخ ابوالولید محمد بن عبد اللہ بن احمد الارزقی (متوفی 223ھ)کی کتاب "اخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار"۔۔۔ابو عبداللہ محمد بن اسحاق الفاکہی (متوفی245ھ)کی کتاب "اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ"۔۔۔حافظ ابو الطیب تقی الدین محمد بن احمد بن علی الفاسی المکی المالکی(متوفی 775ھ)کی کتاب"شفاءالغرام باخبارالبلدالحرام"۔۔۔جمال الدین محمد جار اللہ بن محمد نور الدین بن ابی بکر ابن علی ابن ظہیرہ القرشی المخزومی(986ھ) کی کتاب "الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واھلھاوبناء البیت الشریف"۔۔۔ محمد قطب الدین بن احمد علاء الدین بن محمد النھر وانی المکی المعروف قطبی (متوفی 917ھ) کی کتاب"الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ"۔۔۔علی بن عبد القادر الطبری (متوفی1070ھ) کی کتاب"الأرج المسکی فی تاریخ المکی وتراجم الملوک والخلفاء"۔۔۔علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری(1057ھ) کی کتاب "منائح الکرم فی أخبارمکۃ والبیت وولاۃ الحرم"۔۔۔محمد بن احمد بن سالم بن عمر المکی المالکی المعروف ابن صباغ (متوفی 1321ھ) کی کتاب "تحصیل المرام فی اخبارالبیت الحرام والمشاعر العظام ومکۃ والحرم وولاتھا الفخام"۔۔۔علامہ مؤرخ محدث احمد بن محمد الحضراوی(متوفی 1327ھ) کی کتاب "العقد الثمین فی فضائل البلد الامین"۔۔۔علامہ محدث عبد اللہ بن محمد الغازی المکی الحنفی (متوفی1365ھ)کی کتاب "افادۃ الانام بذکر اخبار البلد الحرام"۔۔۔مربی علامہ شیخ عبد المالک بن عبد القادر بن علی المعروف الطرابلسی(متوفی1417ھ)کی کتاب "دلیل الآثار المطلوبۃ فی مکۃ المحبوبۃ"۔۔۔اور مؤرخ شیخ عاتق بن غیث البلادی (1431ھ)کی تالیف "معالم مکۃ التاریخیۃ والاثریۃ" شامل ہیں۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتبِ مذکورہ کا مجموعہ ان معتبر مؤلفین ،عظیم محدثین ،فقہا،قاضیوں اور مکّہ مکرّمہ کے ان اہل علم حضرات کاہے جنہوں نے بچپن ہی سے مکّہ مکرّمہ میں زندگی گزاری ہے یا وہ ایسے بزرگ ہیں جو اس کے مضافات کے باسی اور رہائشی ہیں۔ان تمام اہل علم و قلم کی نبی کریمکی جائے ولادت کے بارے میں کوئی بھی بات لائق اعتبار و قابل نقل ہے جو تواتر علمی کے ساتھ اجلی صورتوں اور لطیف معنوں میں آشکار ہوجاتا ہے۔اب کوئی حاجت باقی نہیں رہی ہے کہ مزید نقول پیش کی جائیں۔ 26بیسویں صدی میں اسی مقام پر مکّہ کی سب سے بڑی لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ مکتبۃمکۃ مکرمہ کہلاتی ہے۔ اس لائبریری کا موجودہ پتہ المسجد الحرام روڈ ، الحرم ، مکّہ 24231، سعود یہ العربیہ ہے ۔
وہ خاص جگہ اور کمرہ جہاں نبی نے تولد فرمایا علماء حدیث ، تاریخ اور سیرت نے اس کی بھی وضاحت فرما ئی ہے۔شیخ محمد ابن احمد فرماتے ہیں :
وموضع مسقط رأسہ الشریف فی ھذ المحل المعروف الی الآن وھو موضع مثل التنور. 27
اس مقامِ مولد النبیمیں جو اب تک مشہور ہے ا ٓپکی (بعد ِولادت)جائے سجدہ 28(جو اپنی شکل و صورت میں)تنور کی مثل ہے ۔
ابن جبیر نے اس نور کے تنور کی مانند روشن ہونے والی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
والموضع المقدس الذي سقط فيه صلي اللّٰه عليه وسلم ساعة الولادة السعيدة المباركة التي جعلها اللّٰه رحمة للأمة أجمعين محفوف بالفضة.29
وہ خاص مقام جہاں نبی ( حالت سجدہ میں ) تشریف فرما ہوئے (یہ) وہ وقت تھا جہاں اللہ نے پوری امت مبارکہ کے لیے نبی کو رحمت بنا کر بھیجا تھا ۔ وہ جگہ آپ کی آمد سے چاندنی کی مانند روشن ہو گئی تھی ۔
مذکورہ بالا حوالہ جات اس طرف رہنمائی کرنے کے لیے کافی ہیں کہ متاخرین علماء نے نہ صرف اس شہر ، گلی اور گھر کا تعین کر دیا ہے جہاں نبی کی ولادت با سعادت ہوئی تھی بلکہ تاریخی روایات کے تناظر میں اس خاص کمرہ اور اس خاص کمرہ میں موجود اس خاص جگہ کا بھی تعین فرما دیا ہے جہاں حضور سب سے پہلے حالتِ سجدہ میں اس دنیا میں تشریف فرما ہوئے تھے اور آپ کے جسم مبارک نے اس زمین کو سب سے پہلے چھوا تھا۔ لوگ عمومی طور پر اس جگہ کی زیارت کے لیے نہ صرف یہ کہ دور دراز کا سفر کر کے آیا کرتے تھے بلکہ اس جگہ کو متبرک سمجھ کر وہاں پر اپنے لیے دعائیں بھی مانگا کرتے تھے ۔ جب خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور دوران جنگ کئی مقامات تباہ ہوئے اور بعد کی آنے والی حکومتوں نے بھی کئی متبرک مقامات کو بالارادہ ختم کر دیا تو انہی میں سے ایک یہ مقام بھی تھا جہاں نبی کی ولادت باسعادت ہوئی تھی لیکن ہمارے آئمہ اور علماء کی تصنیفات نے نہ صرف اس جگہ سے متعلقہ شواہد کو جمع کیا بلکہ مضبوط حوالہ جات کی روشنی میں اس بات کا حتمی تعین بھی فرما دیا کہ وہ کونسی جگہ تھی اور ہے تاکہ آج کی دنیا کے لوگ اور آئندہ آنے والے زمانوں کے لوگ حضور کی جائے ولادت کے حوالے سے کسی بھی قسم کے شکوک شبہات یا اختلاف سے محفوظ و مامون رہیں ۔
وہ گھر جس میں حضور کی ولادت ہوئی تھی اپنی اصل کے اعتبار سے حضرت عبد المطلب کی ملکیت تھا جو کہ آپ کے دادا جان تھے ۔ حضرت عبد المطلب سے وہ گھر وراثت میں حضرت عبداللہ کو منتقل ہوا 30جو کہ حضور کے والد ماجد تھےاور آپ سے اس کی ملکیت آپ کی طرف منتقل ہو گئی ۔ جب آپ نے مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو یہ گھر عقیل ابن ابی طالب کے قبضہ میں آگیا31جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ اس بات کو اسی انداز میں محدث عبداللہ غازی .32اور دیار البکر ی 33نے بھی نقل کیا ہے ۔ حضرت عقیل ابی طالب نے یہ گھر بعد میں حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ 34محمد بن یوسف نے یہ گھر حضرت عقیل ابن ابی طالب سےایک لاکھ دنانیر کے عوض خریدا تھا اور اس کو اپنے ذاتی مکان کا حصہ بنا دیا تھا اور اس کا نام ’’البیضاء‘‘(سفید عمارت ) رکھ دیا تھا اور یہی "بیتِ ابی یوسف"کے نام سے مشہور ہوا 35 اور پھر آج کے دور میں اسی مقام پر اب مکتبۃ مکۃ المکرمۃ موجود ہے ۔