Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

قدیم مصر کا نظام تعلیم

اہل مصر کا شمار تاریخ انسانی کی ان ابتدائی اقوام میں ہو تا ہے جنہوں نے اپنے باطل نظریات کو اس انداز سے پھیلایااور قلم بند کیا کہ آج تک ان کے اثرات موجود ہیں۔ فلکیات، ہیئت، فلسفہ،اخلاق،تقویم، ریاضی،جراحت،طب، تحریر، کیمیا و طبیعات ، فنون لطیفہ الغرض کوئی ایساعلم نہیں جومصریوں کی علمی کاوشوں سےخالی ہو۔انہوں نے زمینوں اور فصلوں کی پیمائش کے لیےعلم ریاضی اور علم الاوسط کو ترقی دی جس پر ان کے معاشی نظام کا دارومدار تھا۔آسمان کا مشاہدہ کرکے انہوں نے کچھ ستاروں کی حرکات کا ریکارڈ مرتب کیا جس کی بدولت عہدقدیم میں علم الفلکیات کے ماہر کہلائے ۔انہوں نے انسانی جسم کے اعضاکا مطالعہ کیا جس کا مقصد بیماریوں اور حوادث کی صورت میں اس مادی دنیا میں انسانوں کے کام آنا اور ان کی مدد کرناتھا۔تاہم انہوں نے اپنے باطل افکار و نظریات کو بھی اس انداز سے محفوظ و مرتب کر کے دنیا تک پہنچایا کہ ہر آنے والے نے ان کی خامیوں اور کمزوریوں پر غور کیے بغیر ان باطل اور بے سر و پانظریات میں کشش محسوس کی۔ 1

تعلیمی ادوار

تاریخی شواہد کی کمی کے سبب قدیم مصری نظامِ تعلیم کے متعلق زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں چلتاتا ہم یہ بات یقینی ہے کہ ان کے ہاں تمام تاریخی ادوار میں تعلیم و تعلم کا ایک مستقل نظام موجود رہا تھا جس میں بچوں کو مختلف علوم و فنون کی تربیت دی جاتی تھی ۔عام علوم میں ریاضی ، لکھنا پڑھنا اور اخلاقی و مذہبی تعلیم شامل تھی۔ طبقۂ اشرافیہ نے چونکہ زمام مملکت اور اہم عہدوں کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوتی تھیں اس لیے ان کے لیےخاص علوم و فنون کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا انتہائی ضروری سمجھا جاتا تھا۔ تاہم نچلے طبقے کے افراد تعلیم حاصل کرنے کے لیےاپنے بچوں کو مکاتب و مدارس میں نہیں بھیج پاتے تھے جس کی بنیادی وجوہات قدیم مصر میں مدارس کی کمی اور ان مدارس کا شاہی خاندانوں اور طبقۂ امرا کے لیےمخصوص ہونا تھا۔ فرعونوں کے تمام عہد میں تعلیم کے لیے"sb3yt"کی عمومی اصطلاح مستعمل تھی جس سے مراد "سزا کے ماخوذ مفہوم کے ساتھ تعلیم" لی جاتی تھی۔ اساتذہ منحرف و سرکش قسم کے طلبا کے لیےچھڑی استعمال کرتے تھے۔تعلیم و تدریس کی زبانی اور تحریری دونوں صورتوں کے لیے"sb3yt" کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔2اس بات کا غالب امکان ہے کہ مخصوص طبقۂ اشرافیہ کے لئے اجرت لے کر تحریر و کتابت اورریاضی وغیرہ کی تعلیم دینے والے کچھ نجی مکاتب بھی موجود تھے جہاں سے بھاری تعلیمی اجرت کے عوض تعلیم و تربیت حاصل کر کے طبقۂ اشرافیہ کے چشم و چراغ تحریر و کتابت اور انتظامیہ سے متعلق عہدوں پر براجمان ہونے کی صلاحیت حاصل کرلیتے تھے۔ 3

مختلف نوعیت کے تاریخی استدلال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قدیم مصر کےزیادہ تر ادوار میں خواندگی کی شرح ایک فیصد سے زیادہ نہیں تھی جو دس لاکھ سے پینتالیس لاکھ کی آبادی میں دس ہزار سے پچاس ہزار کے قریب شمار کی جاسکتی ہے۔ سلطنت جدید اور یونانی رومی دور (Graeco-Roman Period) میں شرح تعلیم مزید کم ہو گئی تھی۔تعلیم معبدوں میں مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیےبھی ضروری تھی۔ عموما مذہبی تعلیم دینے والا پروہت پیپرس (Papyrus)کا ایک رول ہمراہ رکھتا تھا جس سے وہ مذہبی موادپڑھ کر سناتا تھا۔عہدمتوسط میں تعلیم دینے والے مذہبی رہنماوٴں کی قدر ومنزلت ان کی تعلیم میں مشغولیت اور اس کی ادارہ جاتی تدوین کی طرف اشارہ کرتی ہے تاہم ان پروہتوں کا بنیادی کردار جادوگروں کا ہی تھا۔قدیم مصر کی اکثر اہم تحریریں حکومتی وزرا ءنے کندہ کرائی تھیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی انتظامیہ اور مذہبی طبقہ ہی تعلیم و تعلّم سے وابستہ تھا۔ 4

تعلیمی ادارے

قدیم مصر میں تعلیم کا انتظام مذہبی طبقہ اور طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں میں تھا ۔ سماجی علوم کی تعلیم اور عملی سائنسی تعلیم بھی مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھی جس میں ریاضی، طب و ادویات اور جیومیٹری وغیرہ کے علوم شامل تھے ۔مذہبی پروہت ان علوم کو رسمی تعلیم کے مکاتب میں دیا کرتے تھے۔ فن تعمیر ، انجینئرنگ اور مجسمہ سازی جیسی پیشہ ورانہ مہارتیں ان رسمی تعلیمی اداروں کےدائرۂ تدریس میں نہیں آتی تھیں۔5 اسکول کے معنی میں استعمال ہونے والا لفظ"t-sb3yt" ایک ایسے کمرے کے لیےاستعمال ہوتا تھا جہاں ہدایات دی جاتیں ہوں ، لیکن اس حوالے سے معلوم نہیں ہوسکا کہ تمام درجوں کے طلبا کو ایک ہی کمرۂ جماعت میں پڑھایا جاتا تھا یا ہر درجے کے لیےالگ کمرے مختص تھے۔معبدوں کے اندر اور باہر واقع مدارس کی اقسام مختلف تھیں تاہم ان مدارس کے نصاب کا دارومدار مستقبل کے ان اعمال پرمنحصر تھا جنہیں پورا کرنے کی ان کاتبوں یا مذہبی پیشواوٴں سے توقع کی جاتی تھی۔ 6

شاہی خاندان اورطبقۂ اشرافیہ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی کاتبین کی سرپرستی میں حاصل کرتے تھے۔اس نصاب میں لکھنا اور پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔مثالوں کو بار بار نقل کر کے کاتب اپنے شاگردوں کو روشنائی اور قلم سے پیپیرس (Papyrus) نامی نباتاتی کاغذپر رواں خط میں لکھنا سکھاتے تھے۔جیسے جیسے تحریر میں روانی آتی جاتی تھی ویسے ہی طلبا کو طویل کلاسیکی تحریروں کی طرف لایا جاتا تھا۔مثلا وسطی عہد سلطنت میں سینوہی کی داستانیں (Tale of Sinuhe) اور کیمیت(Kemit) نامی خلاصہ بے حد مقبول تھے جن کے متن کی مشق کو عمدہ تحریر کے لیےلازمی سمجھا جاتا تھا ۔ان مشقوں کا مقصد تحریری صلاحیت میں نکھار پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار میں بھی خوبصورتی پیدا کرناتھا۔ تعلیم کو خاص افراد تک محدود کرکے شاہی خاندان اور طبقۂ امرا ءو اشرافیہ اپنے اقتدار اور معاشرے میں اعلیٰ مقام و منصب کو دوام دینا چاہتےتھے۔قدیم مصر میں تعلیم کے لیےسختی کو لازمی سمجھا جاتا تھا۔وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جہاں بچے سے چھڑی اٹھالی وہیں وہ بگڑنے لگے گا۔ان کے یہاں یہ محاورہ رائج تھا کہ بچے کے کان اس کی پیٹھ پر ہوتے ہیں اس لیے وہ تب ہی سنتا ہے جب اس کی پیٹھ پر چھڑی کی ضرب پڑتی ہے۔کتابت سکھانے والے مدارس و مکاتب کے نظم و نسق کا مقصد حکومتی وظائف کے لیےایک منظم دفتری مشینری تیار کرنا تھا۔اس قسم کا انتہائی درشت اور غیر مصالحت پسندانہ رویہ قدیم مصر کے اندازحکومت اور طاقت کے بے دریغ استعمال کا عکس تھا ۔تعلیمی نظام طلبا میں صرف ان ہی خصوصیات کی نگہداشت کرتا تھا جو حکومتی انتظامی نظام چلانے کے لیےضروری تھے۔ شہزادوں اور ان کے ہم مکتبوں کومصری تحریر میں مہارت کے بعد بابلی رسم الخط سکھایا جاتا تھا جو اس عہد کی سفارتکاری کی عالمی زبان تھی۔نصابِ تعلیم میں موسیقی اور ریاضی بھی شامل تھی۔شہزادوں کے لیےعسکری حکمت عملی میں مہارت حاصل کرنا بھی انتہائی ضروری تھا۔ 7

جماعتی تعلیم چار سال تک دی جاتی تھی اس کے بعد انفرادی پیشہ ورانہ تربیت دی جاتی تھی۔ پیشہ ورانہ شاگرد عموما مدد گار یا کاتب تصوّر کیے جاتے تھے۔ والد یا دادا کی پیشہ ورانہ تربیت دینے کی بھی مثالیں موجود ہیں۔اس کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے تعلیم کی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں طلبا گھر پر ہی مشق کر کے استاد کوتصحیح کے لیےارسال کر دیتے تھے۔ مکاتب میں تمام طلبا کی حاضری ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی ۔8

گاوٴں دیہات اور مضافاتی علاقوں میں مکاتب و مدارس کا انتظام مقامی پروہت کے ذمہ ہوتا تھاتاہم بڑے مدارس حکومتی اداروں کے دفاتر یا معبدوں سے ملحق ہوتے تھے۔ کرناک (Karnak) میں قائم آمون کا مدرسہ (The School of Amun) اعلیٰ تعلیم کا مرکز تھا جہاں سے تعلیم پانے والے طلبہ اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔استادوں کا تقرر ماہر ترین کاتبین میں سے کیا جاتا تھا۔ 9 فوج سے وابستہ ہونے والے لڑکوں کے لیےعسکری تربیت کا ادارہ قائم تھا ۔ بیکن خونسو(Beken Khonsu) کے مطابق وہ اس ادارے میں چار سال کی عمر میں کیڈٹ کے طور پر داخل ہوا تھا اور سولہ سال کی عمر میں اس شاہی تعلیم (The Royal Stable for Education) نامی ادارے میں کیپٹن کے عہدے تک پہنچ چکا تھا۔ 10

مصر کے مستقبل کے رہنماوٴں کی تربیت بچپن سے ہی خاص انداز سے کی جاتی تھی ۔ اس مقصد کے لیےخاص شاہی تربیت گاہ بنائی گئی تھی۔ عہدمتوسط میں یہاں غیر ملکی وفادار امراء کے بچوں کو بھی تربیت کی غرض سےلایا جاتا تھا۔ یہیں بچپن میں فرعون آمن ہوتپ دوئم (Amenhotep-II) اور اس کے دوستوں کے نیوبیائی اور ایشیائی شہزادوں سے تعلقات استوار ہوئے جس کی بنا پر اس کا نقطۂ نظر اپنے پیشواوٴں کے مقابلے میں زیادہ آفاقی تھا۔11

یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم تک صرف اشرافیہ کی رسائی تھی جبکہ عوام دانستہ اس بنیادی ضرورت سے بالکل محروم رکھے گئے تھے۔ غریب طبقہ کے بچےتعلیم و تربیت اپنے والدین یا رشتہ داروں سے حاصل کرتے تھے۔ غریب طبقہ کی مائیں لڑکیوں کو بچپن سے ہی کھانا پکانے اور کپڑے بنانے کی تربیت دیتی تھیں۔لڑکیا ں شاذ ونادر ہی مدارس یا مکاتب میں حصول تعلیم کے لیےجاتی تھیں ۔ان کی اکثریت پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی۔مختلف خاندانوں کی لڑکیاں سینے پرونے کے علاوہ گانے، رقص اور آلات موسیقی کی تربیت بھی حاصل کرتی تھیں جنہیں مرد پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔تاہم طبقۂ اشرافیہ کی عورتوں کی خواندگی کے شواہد بھی ملے ہیں جن میں عورتوں کے لکھے ہوئے خطوط شامل ہیں۔غریب طبقہ کے لڑکے اپنے والد یا کسی تاجر یا بیوپاری کی عملی طور پر شاگردی اختیار کر کے اس فن یا پیشے کی تربیت حاصل کرتے تھے۔12

ماہرینِ مصریات تعلیم سے متعلق بہت سی جزیات کے متعلق ابہام کا شکار ہیں جن میں بچوں کے مدرسے جانے کی عمر اور تمام طبقات اور عورتوں کی رسمی تعلیم تک رسائی ہونے یا نہ ہونے کے متعلق معلومات شامل ہیں۔ 13تاہم یہ واضح ہے کہ یہ نظام تعلیم صرف بادشاہوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیےطبقۂ اشرافیہ کی حکومتی انتظامی امورسے متعلق شعبوں میں تربیت کرتا تھا جو بادشاہوں کو ظلم و ستم پر مبنی نظام قائم رکھنے میں مددگار ہوتے تھے۔ نظام تعلیم نئی نسل کے ذہنوں کو خاص سانچہ میں ڈھالنے کا آلہ تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جس طرح آج بھی تعلیم کے ذریعہ حکومتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک مخصوص ذہن، سوچ اور صلاحیتوں کے حامل افراد کی تیاری کے طلب گار ہوتے ہیں۔

علوم

کسی بھی علم کی ابتدااوراصل کےحوالےسے قدیم تاریخی آثارکامطالعہ کریں توپتہ چلتاہے کہ مصری دورقدیم سے ہی ہر اس علم کی بنیاد رکھ چکے تھے جس پرآنے والے عہد میں انسانی تمدن کی بنیاد استوار ہوئی تھی۔قدیم مصر کے لوگ متعدد علوم مثلاً ریاضی ، نجوم اور طب کے بنیادی اصولوں سے واقف تھے۔ وہ شمار کرنے میں اعشاری نظام استعمال کرتے تھے اور مثلث اور یہاں تک کہ پائی (π)کو 3.016کے برابر مان کر دائرے تک کےرقبے کاحساب کرنا جانتے تھے۔ اجرام ِفلکی کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرنے کی بنیاد پر انہوں نے ایک جنتری بھی بنالی تھی جس میں سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں 365 دن تھے۔ لاشوں کو وسیع پیمانے پر حنوط کرنے کے رواج کی بدولت وہ جسم انسانی کی بناوٹ سے روشناس ہوگئےتھے اور جراحی کے میدان میں ترقی حاصل کرچکے تھے۔ 14

علم تحریر

اہل مصر نے تحریر کا فن ایجاد کرنے کے بعد نہ صرف اسے بہت ترقی دی بلکہ اس میں کئی جدتیں بھی پیدا کیں تھیں۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اس فن کو اس قابل بنادیا کہ تحریر کے تمام تقاضوں کو پورا کرسکے۔ انہوں نے خطوط لکھنے اور گھریلو حساب کتاب رکھنے کا سلسلہ جاری کیا۔بادشاہ اور اعلیٰ حکام نے اپنے کارناموں اور تاریخی واقعات کو قلمبند کرانا شروع کیا۔ تجارت کے زور و شور نے منشیوں اور محرروں کی قیمت بڑھادی۔ جیسے جیسے اس فن کی اہمیت بڑھتی گئی ویسے ویسے اس کی ترویج کے سامان بھی جمع ہوتے گئے تھے۔ ایک طرف درسگاہیں قائم ہوئیں اور دوسری طرف تحریر کے ضروری لوازمات ، کاغذ اور روشنائی ، دوات اور قلم فراہم ہوتے چلےگئے۔ کاغذ پیپیرس(Papyrus) کی ایجاد جو ان کا شاندار کارنامہ تھی۔ اس ایجاد کی بدولت علوم و فنون کو تیزی کے ساتھ ترقی کرنے کا موقع ملا۔ یہ کاغذ ایک خاص پودے "پیپرس"(Papyrus)سے تیار کیا جاتا تھا۔پیپرس (Papyrus)کی چھالوں کو ریشہ ریشہ کرکے بشکل عمود زمین پر پھیلادیا جاتا تھا پھر ایک قسم کا گوند لگاکر اس کے اوپر ایک دوسری تہہ عرض میں جمادی جاتی تھی۔ سوکھ جانے کے بعد کسی بھاری چیز سے اس کو ہموار اورچکنا کر دیا جاتا اس طرح کاغذ کے تختوں کو یکے بعد دیگرے جوڑ کر بڑا پلندہ بنادیا جاتا تھا۔ پیپیرس (Papyrus) کا ایک پلندہ جو برطانوی عجائب خانے میں رکھا ہوا ہے ، 135 فٹ لمبا اور 17 انچ چوڑا ہے ۔ قلم سرکنڈے کا ہوتا تھا اور روشنائی کسی دھات کے اجزاکو پانی اور گوند میں ملاکر تیار کی جاتی تھی۔ 15

کاغذ کی تیاری

روزیلی ڈیوڈ (Rosalie David) کے مطابق قدیم بادشاہت کی ابتدا سے بھی پہلےکے دور میں ریشہ دار پودے (پیپرس)خط و کتابت کےسامان کی تیاری کے لیےاستعمال میں لائےجانے لگے تھے۔ دور جدید کے ماہرین تاریخ و آثارقدیمہ کے لیےمصر کےاس قدیم ذریعۂ کتابت کی تیاری کے مختلف مراحل کی نشاندہی ممکن ہوچکی ہے۔پہلے مرحلے میں پودے کے تنے کو باریک ٹکڑوں میں کاٹا جاتا اور ریشے کو صاف کردیا جاتاتھا۔اس کے بعد ریشوں کو مزید پتلا کرنے کے لیےہتھوڑے سے کوٹا جاتا تھا۔اس کے بعد ان کواطراف سے اورآڑھی کاٹ میں دو پرتوں پر ترتیب دیا جاتا تھا۔اس عمل کے بعد ایک ہی معیا رکھنے والے صفحات الگ کرلیے جاتے اور بیس صفحات کا ایک لپٹا ہوا بنڈل تیار کرلیا جاتا تھا۔ بعض اوقات بڑی تحریر تیار کرنے کے لیےایک سے زائد بنڈلوں کو جوڑ دیا جاتا تھا۔16

" پیپیرس " (Papyrus)کا استعمال صرف اہم تحریروں، کتب اور دستاویزات تک محدود تھا اوراس کے زیادہ قیمتی ہونے کی وجہ سے اسے عام مقاصد کے لیےاستعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ بچے مکتبوں میں تختیوں پر لکھنے کی مشق کرتے تھے۔ابتدائی تعلیم کے لیے معبدوں سے ملحق درسگاہیں قائم تھیں جہاں پروہت ہی معلّمی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان مکتبوں کی عمارتوں میں بہت سی ایسی تحریریں اور مقولے لکھے ہوئے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے پڑھنے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی اور لوگ اس کی ترویج میں کوشاں تھے۔مثلا ایک جگہ تحریر ہے کہ: "پڑھنے میں دل لگاؤ"،" علم سے ویسی ہی محبت رکھو جیسی ماں سے رکھتے ہو۔" دوسری جگہ ہے کہ :" علم سے بڑھ کرکوئی شے قیمتی نہیں۔"اسی طرح ایک اور مقام پر لکھا ہوا ہے "دیکھو! کوئی ایسا پیشہ نہیں جس پر دوسرے کی حکومت نہ ہو۔ مگر تعلیم یافتہ انسان خود اپنے اوپر حکومت کرتا ہےوغیرہ۔17 اس طرح کی تحریریں جا بجا ملتی ہیں جو اہل مصر کی علم دوستی اور علمی قدر شناسی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ان تحریروں کا مقصد طلبا کے دل میں علم کی محبت و اہمیت کو اجاگر کرنا اور اہل علم کی قدومنزلت کی ترغیب دینا تھامگر حقیقتا ًوہ اپنے طلبہ کو علم نہیں بلکہ ہنر سکھاتے تھے۔

ابتدا میں ان مکتبوں کا واحد مقصد محر راور منشی پیدا کرنا تھا تاکہ شاہی دفاتراور کاروبار کی ضرورتیں پوری ہوسکیں ۔ مگر جب اس کی مزید اہمیت بڑھی تو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی مدارس قائم ہوگئے تھے۔ اس طرح کے مدارس شاہی خزانےکے دفاتر سے ملحق تھے۔ کچھ ہی عرصے میں ان مدارس نے شعرا، واقعہ نگار، فلسفی اور سائنسدان پیدا کرنا شروع کردئے۔ نیز اس طرح کے لوگ بھی فراہم کردئے جو حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکیں اور ان عہدوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرسکیں۔ اس طرح قدیم تاریخ میں مصر اور بابل نے سب سے پہلے مدرسوں کا نظام قائم کیا اور علم کی ترویج و ترقی کے ضروری اسباب فراہم کیے تھے۔

اپنی تہذیب کے تین ہزار سالہ دور میں مصر نے بہت سے اہل علم پیدا کیے جن میں شعرابھی تھے اور سائنسدان بھی، ادبا بھی اور واقعہ نگار بھی ، فلاسفہ اور مصلحین بھی ۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر اہل علم کے کارنامے تلف ہوچکے ہیں جو باقی ہیں وہ کتبوں کی شکل میں ہیں یااہرام کی عمارتوں، محلّات ، معبدوں اور ستونوں پر کندہ ہیں۔ کچھ قبروں سے "پیپرس" پر لکھی ہوئی تحریریں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ 18 تاہم یہ بات واضح ہے کہ اہل مصر نے مادی علوم میں اپنے ہم عصر بہت سی اقوام کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی حاصل کرلی تھی اور ان کا شمار اپنے عہد کی ترقی یافتہ اقوام میں ہونے لگا تھا۔

رسم الخط

روزیلی ڈیوڈ (Rosalie David)مصری رسم الخط کے حوالے سے لکھتی ہے کہ قدیم مصریوں نے کبھی بھی صحیح حروف تہجی کا نظام تیار نہیں کیا جس میں ہر علامت، نشان، یا حرف نے زبان میں ایک سادہ آواز کی نمائندگی کی ہو۔ 19 تاہم قدیم مصر میں تین رسم الخط مروج رہے، ہیروگلیفی یعنی تصویری رسم الخط (Hieroglyphic Script)، ہیرا طیقی رسم الخط(Hieratic Script) اور دیموطیقی رسم الخط (Demotic Script) ۔ سارے کا سارا پرانا مصری ادب ان ہی تینوں رسوم الخط کی تحریروں میں لکھا گیاتھا۔20

ہیرو گلیفی رسم الخط(Hieroglyphic Script)

ہیروگلیفی (Hieroglyphic Script)مصریوں کا پہلا اور سب سے قدیم رسم الخط تھاجوتصاویرپرمشتمل تھا۔ ہیروگلیف(رسم الخط ) کو بطور تصویر با آسانی پڑھا جاسکتا تھا اور ان تصویر ی علامات کے معنیٰ کو سمجھا بھی جا سکتا تھا۔21اس قدیم تصویری رسم الخط میں لکھی جانےوالی مصری تحریروں کی تعداد ہیرا طیقی رسم الخط اور دیموطیقی رسم الخط میں رقم کی جانے والی تحریروں کی بہ نسبت بہت ہی کم ہے۔لفظ ہیروگلیف (Hieroglyph)کے معنی "مقدس کندہ کاری" کے لیے جاتے تھے اور اسے پجاریوں کی مقدس تحریری زبان سمجھا جاتا تھا۔ ہیروڈوٹس (Herodotus)نے اسے (Grammata Hiero)یعنی مقدس حروف اور ڈایوڈورس (Diodorus)نے (Grammata Hieroglyphika)یعنی مقدس منقوش حروف لکھا ہے۔ مصرکے قدیم شہر اسکندریہ کے مشہور عالم کلیمنٹ(Clement)کے بقول یونانی اس رسم الخط میں لکھے ہوئے کتبوں کو(Hieroglyphika Grammat)یعنی مقدس کنندہ حروف کہتے تھے۔ یہی یونانی لفظ انگریزی میں ہیروگلیفی (Hieroglyphic)بن گیا۔

پرانے زمانے کے مصریوں کا عقیدہ تھا کہ ہیروگلیفی رسم الخط دیوتاؤں کے منشی اور عقل و دانش کے دیوتا تھوت (Thoth) نے ایجاد کیا تھا۔ چنانچہ وہ ہیروگلیفی کو دیوتا کے الفاظ کہتے تھے اور ان کے عقیدے کی رو سے اس رسم الخط کا تقدس ہمیشہ سے قائم تھا نیز یہ رسم الخط ہمہ وقت مقدس اثرات سے متصف رہتا تھا۔ ہیروگلیفی کو مصر میں کبھی بھی بھرپور عوامی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی جس کی وجہ سے عمومااسے صرف مذہبی عبارتیں لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتاتھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سلسلۂ فراعنہ کے آغاز 3100 قبل مسیح سے پہلے کی شاذ ہی ایسی تحریریں ملی ہیں جو باقاعدہ تصویری رسم الخط کا نمونہ ہوں مگر اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ یہ طرزتحریر فراعنہ کے پہلے خاندان کے زمانے میں باقاعدہ استعمال ہونا شروع ہو چکا تھا۔ چنانچہ فرعونوں کے ابتدائی چند خاندانوں کے ادوار میں ہیروگلیفی کو بڑی سرعت کے ساتھ ترقی دی گئی تھی ۔

ہیروگلیفی رسم الخط ایجاد کرنے اوراسے ترقی دینے میں بنیادی طورپرمصری معابد کے پروہتوں اور كاتبوں کا بہت اہم کردارشامل رہا تھااسی وجہ سے یہ رسم الخط اکثرمذہبی مقاصدکے لیےاستعمال ہوتاتھا۔ مصریوں کے دینی پیشواؤں اور عبادت خانوں کے کاتبین ،جن کی یہ خواہش تھی کہ تحریری طریقٔہ کا ر کو مزید سہل کیا جائےان کی حوصلہ افزائی ملنے کے بعد ، ہیروگلِفس (مصری تصویری خطاطی )کا انداز بتدریج مزید خوبصورت ہوتا گیا اوران کی مذہبی تحریر کے آہنگ کےطور پر ڈھلتا چلا گیا تھا ۔22

ہیرا طیقی رسم الخط (Hieratic Script)

ہیروگلیفی کے بعد مصریوں نے قدیم بادشاہی دور میں ایک اور رسم الخط کو فروغ دیا جو ہیرا طیقی رسم الخط(Hieratic Script)کہلاتا ہے۔ یہ ہیروگلیفی کی ہی شکستہ اور رواں صورت ہے۔ اس رسم الخط کی سب سے قدیم مثال پہلے خاندان( 3100تا2890 قبل مسیح) کے دورکی پائی گئی ہے۔اس کتبہ کا انداز ِتحریر ہیروگلیفی سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔ مگر وسطی بادشاہت کے بعد تک پہنچتے پہنچتے ہیروگلیفی اور ہیرا طیقی کی مشابہت ختم ہوچکی تھی۔ ہیرا طیقی کے اولین نمونوں میں ہیروگلیفی علامتیں صاف پہچانی جاتی ہیں مگر زمانے کے ساتھ ساتھ یہ علامتیں اس قدر شکستہ ہوگئیں کہ ان میں اور ان کے ماخذ اصل علامتوں میں قطعاً مشابہت باقی نہ رہی۔

پتھروں پر کندہ کی جانے والی عبارتوں کے مضامین پہلے پیپیرس پر ہیرا طیقی میں لکھ لیے جاتےتھے اور پھر انہیں ہیروگلیفی میں پتھروں پر کندہ کردیا جاتا تھا۔ معبدوں سے وابستہ مدرسوں میں بچوں کو ہیرا طیقی رسم الخظ بھی سکھایا جاتا تھا۔ طلبا مذہبی و ادبی عبارتوں کی مشق کرکے اس رسم الخط میں مہارت حاصل کرلیتے تھے۔ جدید شہنشاہی دوریعنی 1575 قبل مسیح تا1087 قبل مسیح میں "کتاب الاموات(The Book of the Dead)" کے نہ صرف کچھ حصے بلکہ بعض اوقات تو پورے ابواب ہی ہیرا طیقی میں لکھے جاتے تھے ۔

ہیرا طیقی رسم الخط عام طور پر دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا اسے بردی کاغذوں (پیپیرس) پر لکھتے وقت سیاہی اور برش کااستعمال کیا جاتا تھا۔ ہیرا طیقی تحریر کو عموماً افقاً لکھنے کا رواج تھا ویسے وسطی بادشاہت کے کئی پیپرس ایسے بھی ملے ہیں جن پر عبارتیں چھوٹے چھوٹے کالموں میں لکھی ہوئی ہیں۔ مصریوں کی بیشتر ادبی تخلیقات سیاہی سے پیپیر سوں (نباتاتی کاغذوں) پر ہیروگلیفی کی اسی شکستہ صورت ہیرا طیقی رسم الخط میں دائیں سے بائیں افقاً (Vertical)یا پھر عموداً (Horizontal)لکھی ہوئی ہیں۔23

دیموطیقی رسم الخط(Demotic Script)

900قبل مسیح کے لگ بھگ ایک آسان اورسادہ رسم الخط کا استعمال شروع ہوا جو دیموطیقی (Demotic Script) کہلاتا ہے۔ یہ ہیراطیقی سے ہی اخذ کیا گیا تھا اور اسی کی مخفف اور تقلیدی صورت تھی۔ اسے عوامی رسم الخط کہا جاسکتا ہے تاہم کسی بھی دیموطیقی نمونے یا تحریر میں کسی لفظ کی اصل اور قدیم ترین صورت یعنی ہیروگلیفی علامت مشکل سے ہی ملے گی۔ پہلے پہل دیموطیقی میں صرف وکیل اور تاجر پیشہ افراد ہی لکھتے تھے لیکن بعد میں دوسروں نے بھی اسے اپنالیا، یوں ہیرا طیقی وکیلوں او ر کاروباری لوگوں کے ساتھ مخصوص ہوکر رہ گئی تھی۔ اکثر ادبی تخلیقات ، مذہبی تحریریں اور عزائی بھجن وغیرہ دیموطیقی تحریرہی میں لکھے جاتے تھے۔ دیموطیقی میں مذہبی ، طلسماتی اور علمی و ادبی تحریروں کے علاوہ تجارتی عبارتیں بھی لکھی گئیں یہاں تک کہ ہیرا طیقی اور دیموطیقی یونانی اور رومی ادوار میں بھی مستعمل رہے تھے۔24

میروئٹک رسم الخط(Meroitic)

چھٹی صدی قبل مسیح میں بالائی مصر (نوبیا اور حبشہ) میں جب قبطی قوم کا عروج ختم ہوا اور وہاں حبشی غلام قوم میرؤ (Meroe) غالب آئی تو انہوں نے عوامی طرز کا رسم الخط میروئٹک(Meroitic) رائج کیا۔ فلورین کالمیس (Florian Coulmas) کے مطابق میروئٹک رسم الخط ،دوسرے ہزار سالہ قبل از مسیح دور میں میرویٔٹک زبان کے لیےاستعمال کیے جانے والے مصریوں کے طرز تحریر سے اخذ کیا گیا تھا۔ یہ زبان نیل کی وادی میں بولی جاتی تھی تاہم چوتھی صدی عیسوی تک میرویٔٹک زبان شمالی سوڈان میں بھی بولی جاتی رہی یہاں تک کے نیوبین زبان نے اس کی جگہ لے لی تھی۔25

لفظ میروئٹک نیل کے مشرقی کنارے پر واقع شہر میرؤی (Meroë)سے اخذ کیا گیا تھا۔اس شہر کے جنوب میں دریا اٹبَرا (Atbarah River)مشرق کی جانب بہتاتھا۔اس طرزتحریر میں ایک ایسی جدید اختراع موجود تھی جو ہیروگلِفک (Hieroglyphic)رسم الخط اور یونانی رسم الخط کی پرانی تحاریرمیں نہیں پائی جاتی تھی ۔ان عبارتوں میں الفاظ کو علیحدہ کرنے والی علامت موجود تھی جس طرح جدید تحاریر میں نیم وقفہ کی علامت (Colon) کاا ستعمال ہوتا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں پہلی مرتبہ میروئٹک رسم الخط کو مصدقہ قرار دیا گیا اور اس کا استعمال چوتھی صدی عیسوی کے وسط میں میرؤ (Meroe)شہر کے زوال تک جاری رہا تھا ۔ 26

میروئٹک زبان میں تحریر شدہ جو مواد اب تک دریافت ہوا ہے وہ زیادہ تر شاہی اور مخصوص امراء و مذہبی افراد کے نقوش پرمشتمل ہے جس میں ٹیمپل ریلیف ، سیاحت اور عبادت کی غرض سے کیے گئے سفر (Grafitti)اور کچھ یادگار لمحات سے متعلق طویل تحریریں شامل ہیں ۔ عام طور پر تحریر سیدھی سے الٹی جانب کی جاتی تھی اور بعض اوقات نقوش عمودی حالت میں کند ہ ہوتےتھے۔زیادہ تر تحریریں حروف تہجی پر مشتمل ہوتی تھیں۔ہر تحریر میں23علامتیں،15 حروف ِصحیح سے متعلق علامتیں، 4حروف علت کی علامتیں( ان میں سے ایک بالکل ابتدائی حصہ میں تحریر ہوتی) اور 4 علامات ِتقطیع موجود تھیں۔ 27

ادب اور شاعری

قدیم مصری ادب میں افسانے، چھوٹے چھوٹے قصے، بھوتوں اور جانوروں کی کہانیاں، کراماتی واقعات اور رومانی داستانیں شامل ہیں۔ افسانوں میں سینوہی کے افسانے(Tales of Sinuhe) زیادہ دلچسپ ہیں جن کا ذکر بارہویں خاندان کے بادشاہ آمنمہات(Amenemhat) کے عہد میں آیا ہے۔ عشقیہ داستانوں میں شہزادوں اور شہزادیوں کے ولولہ انگیز قصے ملتے ہیں۔ ان کی شاعری بڑی بڑی نظموں پر مشتمل ہے جن میں کچھ ستائش ِالٰہی کے ترانے ہیں اور کچھ محبت کے گیت۔ نظموں کے بڑے بڑے قطعے ہیں اور ہر شعر دو مصرعوں پر مرکب ہے۔نظموں میں شعرانہ خوبیاں اور ترنم پایا جاتا ہے اور جگہ جگہ کنایوں، استعاروں اور تشبیہات کا استعمال بھی کیاگیا ہے۔ بعض نظموں میں ہر قطعے کے پہلے شعر کو ایک خاص حرف سے شروع کیا گیا ہے اوربعض ترجیح بند ہیں جن میں ایک خاص مصرعے کو ہربندکے بعد دہرایا گیا ہے۔

بعض ا شعار میں لفظوں اور آوازوں کی تکرار بھی پائی جاتی ہے اور بعض مقامات پر ذو معنی الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی عشقیہ نظموں میں بیباکی اور فحاشی ہے نیز زیادہ تر یہ نظمیں بھائی اور بہن کے عشق سے متعلق ہیں جن میں بہن نے عاشق کا کردار ادا کیا ہے۔رزمیہ نظموں میں صرف ایک نظم ملی ہے جو رمیسس دوئم(Ramesses-II)کی اس دلیرانہ جنگ سے متعلق ہے جو اس نے حیتوں کے خلاف لڑی تھی۔28

واقعہ نگاری

علوم کی تمام اصناف میں واقعہ نگاری سب سے قدیم ہے اور یہ مصر کی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ شاہی خاندان کے آغاز سے پہلےجو حکمراں گزرے انہوں نے بھی اپنے عہد کے واقعات اور کارناموں کو محفوظ رکھا تھا۔ شاہی واقعہ نگار ہر طرح کی مہمات میں فراعنہ کے ساتھ رہتے تھے اور تمام واقعات کو بالتفصیل قلمبند کرتے رہتے تھے۔ تھوتمس سوم (Thutmose-III)کے عہد تک ان دستاویزوں نے مبسوط تاریخ کی شکل اختیار کرلی تھی تاہم اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ شاہی واقعہ نگاروں کے علاوہ خود بادشاہوں نے بھی مختلف مقامات پر اپنے کارناموں کو کندہ کرادیا تھا جس کے ایک بڑے حصےکو گردش دوراں بھی نہ مٹا سکی۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے عمال اور حکام بھی تھے جنہوں نے اپنی سوانح حیات کندہ کرائی جس میں ضمناً بہت سے تاریخی واقعات آگئے تھے۔ مختصر یہ کہ تاریخی مواد اس حد تک ذخیرہ کردیاگیا تھاکہ امتداد زمانہ کے ساتھ بہت کچھ فنا ہوجانے کے بعد بھی اتنا کچھ باقی رہ گیا ہے کہ قدیم مصر کی ایک جامع تاریخ مرتب کی جاسکے۔29

قدیم مصرکا ادب سیکولر اور مذہبی دونوں طرح کے مواد پر مشتمل تھا۔سیکولر ادب میں قانونی اور سائنسی مضامین شامل تھےجبکہ مذہبی ادب فرد کو مابعد الموت امور کی تفہیم کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کرنے والے موادپر مشتمل تھا۔30

علم نجوم و ہیئت

قدیم مصر کے لوگ علم نجوم و ہیئت سے واقف تھے۔وہ سمندر کے مدوجزرکا صحیح وقت معلوم کرلیتے تھےاور بہت پہلے انہوں نے جنتری ایجاد کرلی تھی۔ ان کاسال قمری تھا جسے انہوں نے تین موسموں میں تقسیم کیا تھا۔ ہر موسم چار ماہ کا اور ہر ماہ تیس دنوں کا ہوتا تھا۔ سال کےآخر میں پانچ دنوں کا اضافہ کرکے اس کو شمسی حساب کے مطابق کرلیتے تھے پھر بھی جو چھ گھنٹوں کا فرق رہ جاتا تھا اس کی تصحیح وہ نہ کرسکے۔ بہت عرصے بعد جولئیس سیزر(Julius Caeser)کے عہد میں اسکندریہ کے یونانی سائنسدانوں نے اس کی تصحیح کی اور ہر چار سال بعد مزید ایک دن کاا ضافہ کیا تھا۔ یہ جو نئی جنتری مرتب ہوئی وہ جولیئس کے نام پر جولین کلینڈر (Julian Calender)کہلائی۔31

کیمیا و طبیعات

یہ معلوم نہ ہوسکاکہ اہل مصر علم کیمیااور طبیعات سے کس حد تک واقف تھے پھر بھی اتنا ضرور معلوم ہے کہ کم از کم علم کیمیا سے وہ نابلد نہ تھے وہ حنوط سازی(Mummification) اور لاشوں کو محفوظ کرنا جانتے تھے ۔ کیمیاوی طور پر طرح طرح کے غازے اور رنگ بناتے تھے۔

علم طب

اہل مصر علم ِتشریح الاعضاء والابدان اور طب سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے اور یہ تحقیق کرچکے تھے کہ دماغ اعصابی نظام اور قلب حیاتی طاقت کا مرکز ہے۔ وہ جوڑوں اور ہڈیوں کے صحیح مقام اور کیفیت کا علم رکھتے تھے۔ انہوں نے علم طب کو خصوصیت کے ساتھ ترقی دی اورمختلف امراض کے اسباب اور علامتیں معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دوائیں بھی دریافت کرلی تھیں۔ 32

اہل مصرمدت کے تجربات کےبعد طبی مہارت تک پہنچےتھے۔ہرطبیب ایک مخصوص مرض کے لیے خاص تھا۔ان کےیہاں طبابت( ڈاکٹری) ان قواعد وضوابط کے مطابق ہوتی تھی جوتجربات کےبعد ان کی کتب میں درج تھے۔ اگرکوئی طبیب ان کی مخالفت کربیٹھتااوراس کا مریض مرجاتا توطبیب کوجان بوجھ کرقتل کرنےوالاقاتل جانا جاتا اوراس پرپھانسی کاحکم عائدکیا جاتا تھا 33کیونکہ اس نے طے شدہ قواعد و ضوابط کے خلاف اپنی فہم و دانست کے اظہار کے چکر میں کسی کی جان لی ہوئی تھی ۔

مصری طبیب اپنی حذاقت اور فراست کے لیے تمام متمدن دنیامیں مشہورتھے۔ شاہان وقت اپنے درباروں میں انہیں ملازم رکھتے تھے۔ جس علم کو ہم طب یونانی کہتے ہیں اس کے اصول و مبادی دراصل مصری طب ہی سے ماخوذ ہیں۔ بقراط اور جالینوس کا آپس میں گہرا تعلق تھا ۔مصری بادام کو مقوی بصر سمجھتے تھے کیونکہ اس کی شکل آنکھ سے مشابہ ہے۔اخروٹ مقوی دماغ ہے کہ اس کا گوداانسانی دماغ سے ملتا جلتا ہے۔ سیب مقوی دل جانا جاتا تھاکیو نکہ سیب اور دل کی شکل مشابہ ہے۔تقویت باہ کے لیے بکرے اور بیل کے اعضائے تناسل دواؤں میں کوٹ اور پیس کر مریضوں کو کھلاتے تھے کیونکہ وہ ان جانوروں کو غیر معمولی رجولیت کا مالک سمجھتے تھے۔ یونانی اطبا آج بھی انہیں اپنے مقوی نسخوں میں استعمال کرتے ہیں۔ حفظان صحت کے امور اوراچھی صحت کےاعتبارسے مصری لوگ سب سے بہترین تھے ۔ ان کے شہروں کی گلیاں کوچے صاف ستھرےتھے۔ ہر شخص بلا ناغہ صبح سویرے ٹھنڈے پانی سےغسل کرتا تھا۔ سر اور ڈاڑھی کے بال ہر تیسرے روز مونڈتےتھے۔ دوسری اقوام میں کاہن اور پروہت سر اور داڑھی کے بال بڑھاتےتھے لیکن مصری پروہتوں کو ہر روز بال صاف کرنا لازمی تھے۔ مہینے میں تین بار جلاب لیتے تھے جس سے ان کی صحت پر بڑا خوشگوار اثر پڑتا تھا۔ حقنےکی ایجاد بھی مصر ہی میں ہوئی تھی۔ 34

فلاسفہ اور اخلاقیات

فلسفہ اور اخلاقیات کا میدان بھی اہل مصر سےخالی نظر نہیں آتا ہے تاہم ان کا فلسفہ مابعد الطبیعاتی مسائل اور مجردات کی دقیق ابحاث سےخالی ہے۔ منطقی حجتیں اور فلسفیانہ طرزبیان بھی موجود نہیں ہے پھر بھی وہ اخلاقی فلسفے کے دائرے میں آتے تھے جو عملی زندگی سے متعلق ہے35یعنی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ظاہری امراض کی اصلاح پر کافی مہارت رکھتے تھے مگر باطنی امراض جن کو عرف میں روحانی امراض بھی کہا جاتا ہے اس سے مکمل پر لاعلم تھے اسی لیے فلسفہ کی طرف رغبت بہت کم تھی جبکہ اخلاقیات سرے سے ناپید تھی نہ تو اخلاقیات انکے تعلیمی میدان کا خاص موضوع تھا اور نہ ہی عملی میدان میں اسکی کوئی واضح روایات ملتی ہیں ۔

علم مساحت(Geometry)

آج یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ قدیم مصری یونانیوں کو وحشی اور اجڈ خیال کرتے تھے اور دسترخوان پر انہیں اپنے ساتھ بٹھانے سے گریز کرتے تھے۔ علم مساحت جسے یونانیوں نے جیومیٹری یعنی زمین کی پیمائش کا نام دیا ،خاص اہل مصر کی ا یجاد ہے۔ مصری آب پاشی کے لیے دریائے نیل کا پانی نالیوں سے اپنے کھیتوں میں لے جاتے تھےجس کےلیے انہیں زمین کی پیمائش اور پانی کی تقسیم کاخاص خیال رکھنا پڑتا تھا۔ اسی پیمائش کے اصولوں پر مساحت یا جیومیٹری کی تدوین کی گئی تھی۔ مصر میں بارش کا نام نہ تھا تاہم وہ دنیا کا سب سے زیادہ زرخیز اور شاداب ملک تھا۔ یہ سب کچھ دریائے نیل کے سیلابوں کی بدولت تھا جو جون سے ستمبر تک آتے رہتے تھے۔ مگر ان سیلابوں میں بالعموم پانی دریا کے کناروں سے زیادہ باہر نہ نکلتا تھا اس لیے نہروں کے ذریعہ آبپاشی کی جاتی تھی۔ ان نہروں کی تیاری کا اور پانی دینے کا انتظام حکومت بڑے پیمانے پرکرتی تھی جس کی بدولت تمام ملک میں زراعت کی ترقی سے خوشحالی اور رونق تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں نہروں کی تیاری کے عمل کے دوران علوم مساحت و ہندسہ کی بنیاد پڑی تھی۔ 36

فن مصوّری

قدیم مصر میں مصوّری نے فن تعمیر و سنگ تراشی سے علیحدہ ایک آرٹ کی شکل اختیار نہ کی ۔ پھر بھی ایک معاون فن کی حیثیت سے اس نے اپنے لیے ایک خاص مقام حاصل کر لیا تھا۔دور وسطی تک رنگین پلاسٹر کا رواج عام ہوگیا تھا اور مسالے میں رنگ کاری کا فن مصریوں نے معلوم کر لیا تھا ۔ اس عہد کے نمونوں میں ہرن اور بلی کی تصویریں اور رنگین پلاسٹر ملتے ہیں جو فنکارانہ خوبیوں کے حامل ہیں ۔اکثر تصاویر میں بلی شکار کی تاک میں بیٹھی ہوئی ہے اور دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتاہے گویا ابھی جھپٹ پڑے گی ۔

سلطنت جدیدمیں مصوروں نے طرح طرح کے رنگ اور روغن ایجاد کیے اور ان کو پتھروں کے اندر کھدے ہوئے نقوش اور مجسموں میں بھرنے کا علم حاصل کیا۔ پتھروں پر رنگ کاری کے علاوہ دیواروں ، چھتوں ، فروش اور ظروف پر حیوانات ، نباتات اور قدرتی مناظر کو کامیاب طور پر پیش کرنے کی جدّت پیدا کی اور رفتہ رفتہ اس فن میں چینیوں کے مدمقابل کے طور پر سامنے آئے۔ اس عہد کے متعدد نمونے اب بھی موجود ہیں ۔ مکانوں ،محلات، قبروں اور معبدوں کی دیواریں ،چھتیں، فرش بلکہ گوشے تک تصویروں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں بادشاہوں کے کارنامے بھی ہیں اور قدرتی مناظر اور رقص و سرورکی محفلیں بھی۔ بزم و کیف سے متعلق تصویریں زیادہ تر عریاں ہیں ۔ تصویروں میں سپاہیوں کو لڑتے ، دشمنوں کو بھاگتے اور قیدیوں کو بادشاہ کے آگے سجدہ میں پڑے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے ۔ اس فن کے ذریعے انہوں نے تاریخی واقعات کو بہترین منظر نگاری کے ساتھ پیش کرنے کی کامیاب کو شش کی ہے ۔ 37

مذکورہ بالا علوم وفنون اہل مصر کی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قدیم مصر کے معلّموں نے اپنی ہر فانی ضرورت کا حل تو نکال لیا تھالیکن دین اور آخرت کے معاملے میں اساطیر اور توہم پرستانہ روش سے آگے نہ بڑھ سکے۔ انہوں نےعلوم و فنون کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا، جدتوں کے ذریعہ انسانی مسائل کو محدود وسائل میں رہ کر حل کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن آج کے جدید سائنسی دور کی طرح علوم و فنون کے کسب کی غرض و غایت محض دنیاوی راحتوں اور مادی مفادات کا حصول ہی رہا ۔ ان علوم و فنون کا مقصد انسان کی روحانی بلندی، کردار کی پاکیزگی، اخلاق کی عظمت اور سیرت کی طہارت اور سب سے بڑھ کر زندگی کے حقیقی مقصد کا حصول ہر گز نہ تھا لہذا فکر و دانش اور علم و عقل کے باوجود پوری قوم کا اخلاق و کردار کے بحران میں مبتلا ہوجانا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ علم نور صرف اسی وقت بنتا ہے جب اس کے ساتھ آسمانی ہدایت اور وحی الہی کی روشنی جڑی ہوئی ہو ورنہ آج بھی دنیا کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بھی علم و دانش کے مدعیاں گمراہی اور فساد ، تخریب و دہشت کے سوداگر بنے ہوئے خود بھی شاہراہ ضلالت و ظلمت کے راہی بنے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کو اس راہ شیطانیت پر دوڑانا چاہتے ہیں اور یہی حال اہلیانِ مصر کا تھا۔

 


  • 1 Lionel Casson (1969), Ancient Egypt, Time Life .International, Amsterdam, Netherland, Pg. 141
  • 2 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt: A-F, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 1, Pg. 439.
  • 3 Bruce G. Trigger (1993), Early Civilizations: Ancient Egyptians in Context, The American University in Cairo Press, Cairo, Egypt, Pg. 61.
  • 4 John Baines (2007), Visual and Written Culture in Ancient Egypt, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 49-51.
  • 5 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/education/ Education-in-the-earliest-civilizations#ref88924: Retrieved: 06-11-2017.
  • 6 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt: A-F, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 1, Pg. 441.
  • 7 Toby Wilkinson (2010), The Rise and Fall of Ancient Egypt, Random House, New York, USA, Pg. 176-177.
  • 8 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt: A-F, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 1, Pg. 441-442.
  • 9 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 48.
  • 10 A. Bothwell Gosse (1915), The Civilization of Ancient Egyptians, T.C. & E.C. Jack Ltd., Edinburg, U.K., Pg. 15-16.
  • 11 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt: A-F, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 1, Pg. 439-440.
  • 12 Don Nardo (2015), Life in Ancient Egypt, Reference Point Press, Sandiego, California, USA, Pg. 54-55.
  • 13 Patricia D. Netzley (2003), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Egypt, Greenhaven Press, Sandiego, USA, Pg. 109.
  • 14 پروفیسر اے مانفرید، مختصر تاریخ عالم(مترجم: امیر اللہ خان)،ج-1، مطبوعہ: دار الاشاعت ترقی ، ماسکو، روس، 1979ء، ص:32
  • 15 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 171.
  • 16 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 245.
  • 17 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 170.
  • 18 سید عین الحق،قدیم مشرق، ج-1،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی ، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:156-158
  • 19 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 237.
  • 20 ابن حنیف ، مصر کا قدیم ادب، ج -1، مطبوعہ:بیکن ہاؤس، لاہور ، پاکستان،1992ء، ص :69
  • 21 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 210.
  • 22 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.worldhistory.org/Egyptian_Hieroglyphs/ Retrieved: 14-02-18.
  • 23 ابن حنیف ، مصر کا قدیم ادب، ج -1، مطبوعہ:بیکن ہاؤس، لاہور ، پاکستان،1992ء، ص:76-77
  • 24 ایضا، ص:66-78
  • 25 Florian Coulmas (1999), The Blackwell Encyclopedia of Writing Systems, Blackwell Publishing, Oxford, U.K., Pg. 337.
  • 26 Reginald Smith (2009), British Museum Studies in Ancient Egypt and Sudan, The British Museum, London, U.K., Pg. 2.
  • 27 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Meroitic-language Retrieved: 14-02-18
  • 28 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 174, 176 & 195.
  • 29 سید عین الحق،قدیم مشرق،جـ1، مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی ، پاکستان، ص:159-161
  • 30 Patricia D. Netzley (2003), The Green Haven Encyclopedia of Ancient Egypt, Green Haven Press., USA, Pg. 178.
  • 31 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 180-181.
  • 32 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 183-182.
  • 33 سید عین الحق،قدیم مشرق، ج-1،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی ، پاکستان، (سن اشاعت ندارد) ، ص: 156ـ163
  • 34 علی عباس جلالپوری، روایات تمدّن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، 2012ء، ص: 54-55
  • 35 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 183.
  • 36 مولاناسید طفیل احمد منگلوری، قدیم شہنشاہیاں ، مطبوعہ: اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، کراچی، پاکستان، ص :14
  • 37 سید عین الحق،قدیم مشرق،جـ1،مطبوعہ:مکتبۂ فریدی، کراچی ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:181-182