Encyclopedia of Muhammad

قبائلی نظام

جزیرہ نما عرب میں پائی جانے والی سیاسی شکلوں میں سے اہم ترین سیاسی تشکیل، قبائلی نوعیت کی تھی جو کہ اکثر انفرادی اورکبھی اجتماعی تشکیل کی صورت میں پائی جاتی تھی جس میں کئی قبائل مل کر ایک سیاسی اکائی کے طور پر رہتے تھے۔ قبائل پورے جزیرہ نما میں سماجی اکائیوں (Social Units)کے طور پر موجود تھےلیکن جب قبائل کی بطورِ سیاسی تشکیل بات کی جائے تو اس سے مراد وہ قبائلی تشکیل ہے جس میں قبیلہ اپنے سماجی عمل کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی اکائی بھی بن جاتا تھا اور ایک خود مختار سیاسی وجود (Self-contained Political Entity)کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔1

عرب کی نیم بنجر وادیوں میں رہنے والے قبائل میں منظم ریاستوں اور حکومتوں جیسی سیاسی تنظیم نہیں تھی جو ایک مخصوص قسم کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ریاست کی ترقی اور تحفظ کےلئے کام کرتی تاہم عرب قبائل قبیلہ کو ریاست ہی کی مانند سمجھتے تھے، اس کی وفاداری کا عہد کرتے تھے اور قبیلے کے علاوہ کسی سے وفاداری نہیں کرتے تھے۔ ان کے یہاں قبیلہ دراصل وہ سیاسی اکائی تھی جو ریاست کا درجہ سنبھالتی تھی اور صحرا میں ریاست کی مانند فرائض انجام دیتی تھی۔ اس کا کوئی تحریری آئین نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی منظم ضابطہ اخلاق ۔ ان کا مدار وراثت میں ملی روایات اور ہر مستحکم رسم و رواج پر تھا جو صحرا ئی زندگی کی فطرت سے ہم آہنگ تھیں اس لیے اہل بادیہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہوتے تھے۔2

قدیم عربوں کے یہاں خواہ قبیلے کے اندرونی معاملات ہوں یا بیرونی تعلقات، بشمول جنگ، امن، معاہدے اور اتحاد کے، ان سب معاملات میں قبیلہ ایک سیاسی اکائی کے طور پر کام کرتا تھا۔عرب بادیہ (صحرائی عرب ) میں قبائلی سیاسی اتحاد، سیاسی تشکیل کی سب سے عام اور مروجہ شکل تھی۔ صحرا کی فطرت اور جفاکشی کی زندگی یہاں بسنے والے قبائل کو چراگاہوں کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور کرتی تھی۔اس طرح کی صورتِ حال میں صحرا کے ماحول اور یہاں کی زندگی کو درپیش چیلنجز کے ساتھ مطابقت رکھنے والی واحد سیاسی شکل یہی چھوٹی سیاسی اکائی یعنی قبیلہ تھی۔3

قدیم عرب میں قبیلے کی بنیاد تصورِ عصبیت پر تھی جو قبیلے کے ارکان میں یہ احسا س پیدا کرتی تھی کہ وہ سب کے سب دراصل ایک ہی خون کے رشتے سے آپس میں جڑے ہیں اور یہ خون بغیر کسی ملاوٹ کے صدیوں اور قرنوں سےان کی نسل کے ہر فرد کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ قبائلی عصبیت ایک ایسا عنصر تھا جس نے بدوی عربوں کی اجتماعی و سیاسی زندگی کو ایک غیر معمولی قوت فراہم کی اور ان کی اجتماعی زندگی کی بقاء کی ضامن تھی۔کچھ حد تک عصبیت کے اس احسا س کو آج کے شعورِ قومی سے بھی مماثل قرار دیا جا سکتا ہے تاہم خون کا تعلق "شعورِ قومی" سے بہت زیادہ قوی اور واضح تعلق تھا جو افرادِ قبیلہ کو ایک مضبوط رشتے میں جوڑ تا تھا۔ 4

قبائلی عصبیت کا یہ جذبہ دوسرے قبائل سے ہونے والے احلاف یا نسب و جوار کی وجہ سے ہونے والی قرابت اور معاہدات سے مزید وسیع تر ہو جاتا تھا۔ جزیرہ نما میں درجنوں قبائل شامل تھے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی خاص عصبیت تھی۔ تمام عرب قبائل ایک جغرافیائی ماحول میں رہتے تھے اوران کی روایات ایک دوسرے کو ساتھ جوڑے رکھتی تھیں اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک ہی زبان بولتے اور ایک ہی قو م اور ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں تاہم اس کے باوجود قبائلی عصبیتوں کے سبب ایسا معاشرہ جامع قوم پرستی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ صرف اتنا سمجھتے تھے کہ جس سرزمین میں وہ رہتے ہیں وہ ان کا وطن ہے، لہٰذا اگر وہ اسے چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں تو یہ قطعہ ِ زمین اس قبیلے کی جگہ کسی نئے قبیلے کا وطن بن جائے گا ۔ وہ اسی زمین کو اپنا وطن سمجھتے تھے جو ان کے قبیلے کے قبضے میں ہواور جو کچھ اس سرزمین سے باہر ہوتا تھا وہ ان کے لیے ایک اجنبی سرزمین اور وہاں کی حکومت ان کےلئے اجنبی حکومت ہوتی تھی اور اسی وجہ سے ان کا وطن بدلتا رہتا تھا ۔ 5

قدیم عرب میں انفرادی قبائلی تشکیلات کے ساتھ ساتھ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی عارضی یا مستقل سبب کی وجہ سے ایک قسم کی قبائلی تشکیل، متعدد قبائل کو متحد گروہوں کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے، کسی ایک قیادت یا صدارت کے تحت منظم کر دیتی تھی جس سے ایک اجتماعی قبائلی تشکیل سامنے آتی تھی جن میں 858 قبل مسیح تا824 قبل مسیح میں آشوری بادشاہ شلمنصر ثالث (The Assyrian King Shalmaneser III) کےدور میں "جینڈبو" کی قیادت میں ایک عرب فوجی قوت کی تنظیم ، 851-843 قبل مسیح دور میں عبرانی بادشاہ یہورام کے دور اور 779 قبل مسیح تا 740 قبل مسیح کے درمیان بادشاہ عزیاہ کے دور میں ہونے والے عرب قبائلی اتحاد قابلِ ذکر ہیں ۔ 6

خصوصیات

قدیم عرب کے قبائلی سیاسی نظام میں قبائل پرسردار وں کی حکومت قائم تھی ۔ ہر قبیلہ خونی رشتوں کے تعلق سے آپس میں باہم مربوط ہوتا تھا اور اس کا سیاسی و سماجی نظام ایک ایسے حاکم یا سردارکی ماتحتی میں کام کرتا تھا جو ان میں سب سے زیادہ صاحب ِ شرف و عزت تصور کیا جاتاتھا ۔ قبائل میں اس شخص کو سردار منتخب کیا جاتا تھا جو اس عہدہ کا سب سے زیادہ اہل سمجھا جاتاتھا۔ قبائل یوں وجود میں آتے تھے کہ اکثرایک شخص کی اولاد اپنے اجدادکے نام سے اپنے قبیلہ کی بنیاد رکھتی تھی جس کے نتیجے میں ایک ہی سلسلۂ نسب رکھنے والے مختلف خاندان اپنا معاشرتی اور سیاسی نظام وضع کرکے ایک نیا قبیلہ تشکیل دے دیا کرتے تھے۔ قبیلہ کا مسکن وہ مقام ہوتا تھا جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی ہوتی تھی یا جہاں وہ قبیلہ قیام پذیر ہوتا تھا۔ کبھی کبھار یوں بھی ہوتا تھا کہ سردار کی موت پر قبیلہ کے بعض افراد منتشر ہوکر الگ سکونت اختیار کرلیتے تھے۔ سردار کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری اپنے قبیلے کےلئے ایسے مسکن کی تلاش اور ایسی جگہ کا انتخاب بھی تھی جہاں پانی، ہریالی اور خوراک کے معقول انتظامات ہوں۔ قبائلی قوانین آباؤاجداد کے زمانے سے مرتب چلے آرہے ہوتے تھے تاہم موجودہ سردار نئے قوانین بنانے یا سابقہ قوانین میں ترمیم کا حق رکھتا تھا۔ سردار کی حاکمیت کی بنیاد قبیلے کے باشندوں کی سردار سے وفاداری، رسوم و رواج پر عملداری اور امن و جنگ کے موسم میں اس کے احکامات کی بجاآوری پر منحصر تھی۔شیخ یا سردار کا عہدہ اس وقت تک قائم رہتا تھا جب تک اسے اپنے قبیلے کا اعتماد حاصل رہتا تھا۔ عرب بالعموم اور بدّو بالخصوص اپنے سردار سے بھی بالکل مساوی حیثیت سے ملتے تھے ۔ان کے یہاں "مَلِک" یا "بادشاہ" کا لقب صرف غیر ملکی بادشاہوں کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ 7

ہر قبیلے کی ایک سر زمین ہوتی تھی جس پر وہ رہتا اور اسے اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ وہاں کے لوگ اجنبی کو اپنی رضامندی اور اجازت کے بغیر وہاں اترنے اور گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ قبیلے کی ہر شاخ اپنی انفرادی حیثیت رکھتی تھی اس لیے اس کی اپنی خاص سر زمین ہوتی تھی ۔وہ زمین جس پر قبیلہ آباد ہوتا وہ اس کے لیے " منزل " یعنی گھر یا مسکن تصور کیا جاتاتھا اور ان کے بعد ان کی اولاد کے لیے "منزل" ہوتا تھا ۔ وہ وہاں اپنے خیمے لگاتے اوروہ زمین ان کے لیے ایک پڑاؤ بن جاتی تھی جہاں وہ آباد ہو جاتے تھے۔ قبیلے کی سرزمین ان جگہوں تک پھیلی ہوتی تھی جہاں تک ان کے قبیلہ والوں کےگھر ہوتے تھے یا جہاں تک قبیلہ کے اثر و رسوخ کی حدود ہوتی تھیں۔ عموماً جہاں ان کی منازل یا گھر نہیں ہوتے تھے وہ علاقے ان کی حدود سے باہر تصور کیے جاتے تھے۔ سرحدوں کی تعریف ممتاز قدرتی مظاہر جیسے پہاڑیوں، وادیوں، ریت کے ٹیلوں یا ان جیسی چیزوں سے کی جاتی تھی۔ قبائل نے اپنے لیے نمایاں نشانات بنا کر زمین پر اپنی سرحدیں قائم نہیں کیں تھیں اس لیے قبائل کے درمیان مسلسل تنازعات اور مسلسل لڑائی کی وجوہات میں قبائلی سرحدیں نمایاں وجہ تھیں۔ قبیلے کی سرزمین میں کنویں، پانی کے چشمے یا پانی کے دیگر ذرائع قبیلہ کی ملکیت تصور کیے جاتے تھے جن سے وہ ضرورت مندوں کو حسبِ ضرورت استفادہ کرنے دیتے تھے تاہم یہ قبائل کے درمیان وجہِ نزاع بھی بن جایا کرتے تھے۔ کنویں اور چشمے دو طرح کے تھے۔پہلی قسم عوامی کنویں یا چشمے تھے جو کہ پورے قبیلے کی ملکیت تصور کیے جاتے تھے جبکہ دوسری قسم کے کنویں نجی نوعیت کے تھے جو افراد نے خود کھودے تھے ۔آزاد ریاستوں کی مانند ہر قبیلے کو اپنی سرزمین کی حفاظت کا حق حاصل تھااور اگر کوئی اجنبی فرد ان کی سرزمین کو عبور کرنا چاہتا تھا تو اسے قبیلہ یا اس کے کسی فرد کی حفاظت میں ہونا ضروری تھا اور اگر گزرنے والا کوئی گروہ ہوتا، مثلاً قافلہ، قبیلہ یا شاخ ہو جو کسی دوسرے ملک میں جانا چاہتا ہو اور اسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اس قبیلے کی سرزمین سے گزرنا ہو تو ضروری تھا کہ قبیلہ سے اجازت لی جائے۔دوسری صورت میں ا ن کوروکا جاتا تھا اور نوبت لڑائی اور جنگ تک آجاتی تھی لہٰذا تاجروں کے لیے ضروری تھا کہ وہ قبائل کے سرداروں کو راضی کریں تاکہ وہ ان تاجروں کو گزرنے کی اجازت دیں کیونکہ یہ اس خطہ کا رواج تھا۔8

عربوں کے یہاں قبائلی سردار کی حکمرانی کی بنیاد موروثی نہیں تھی بلکہ اس کا انتخاب قبیلے یا قبیلےکی اسمبلی کے اتفاقِ رائے سے ہو تا تھا ۔سردار کے عہدے کےلئے عمر کی بہت زیادہ اہمیت تھی کیونکہ قبائلی معاشرے میں قبائل کے درمیان تعلقات استوار رکھنے اور قبیلے کے اندر کے معاملات کو انصاف کے مطابق حل کرنے کےلئے تجربے اور دانشمندی کی ضرورت مسلّمہ تھی۔ جرأت، بردباری، سخاوت، دولت اور قبیلے کے مفادات کی فکر جیسے عوامل سردار کی اولین صلاحیتوں میں شامل سمجھے جاتے تھے ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھاکہ نیا سردار پرانے سردار کا بیٹا ہوتا تھالیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انتخابی طریقہِ کار یا انتخابی نظام (Electoral or Elective System)کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے موروثی نظام (Hereditary System)اپنا لیا گیا تھابلکہ اس کی وجہ سردار کے بیٹے میں سردار کے عہدےکیلئے مطلوب صفات اور اہلیت کا ہونا تھا۔ عرب قبائل سردار کے بیٹے کو بھی تب ہی سردار قبول کرتے تھے جب وہ اس کےلئے مطلوب معیار پر پورا اترتا ہو ۔ اس سلسلے میں ہمیں ایک قبیلے کے سردار عامر بن الطفیل کا حال ملتا ہے جسے اپنے والد (سابق سردار) کی وفات کے بعد سردار منتخب کیا گیا تھا۔ اس پر کچھ اطراف سے مورثیت کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا تو اس نےاس کی تردید کی اور ایسے الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے قبیلے نے اسے اس کی صفات اور قابلیت کی بدولت قبیلے کی بالادستی کے لیے سردار منتخب کیا نہ کہ سردار کا بیٹا ہونے کی وجہ سے۔ قدیم عربوں کے یہاں عورتوں کے لیے قبائل کا سردار منتخب ہونے کے بھی شواہد موجود ہیں ۔مصادرِ تاریخ میں کئی عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو سردار کے عہدے پر فائز رہیں ۔ 9

قدیم دور کے عربوں میں مجموعی طور پر مورثی قیادت کا رجحان نہیں تھا تاہم عربوں کے کچھ قبائل میں قیادت بیٹوں اور خاص طور پر بڑے بیٹے کو منتقل ہونے کے شواہد بھی ملتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال حسن بن حذیفہ بن بدر کی ہے جس نے اپنے بیٹے "عیینہ" کو اپنے بعد اپنی قوم کی سیادت کے لیے منتخب کیا تھا حالانکہ وہ دوسروں سے زیادہ لائق نہیں تھا۔ اس کے قبیلے نے اس کی بات مانی اور اطاعت کی اور اس کے بعد عیینہ کو اپنا سردار منتخب کر لیا ۔10

اہلِ عرب کے یہاں عام طور پر سردار کے چناؤ کے معاملے میں اہلیت و قابلیت کا خاص طور پر خیال رکھا جاتاتھا تاہم بعض اوقات سردار اپنے جانشین کے انتخاب کے لیے قبائلی اصولوں کو نظرانداز بھی کر دیتے تھے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے جسے قبیلہ قبول کر لیتا تھا اور اس کے فیصلے کی توثیق کردی جاتی تھی اوربعض اوقات ایسی بھی صورت ِحال درپیش آتی تھی کہ سردار کی متعدد ازواج سے ہونے والی اولادیں سردار کے عہدے کےلیے امیدوار ہوتیں تھیں ۔ تب قبیلے کے بااثر افراد اور بڑے لوگ مجلس لگاتے اور باہمی مشاورت سے اپنے سردار کا انتخاب کرتے تھے تاہم سردار کا انتخاب صلاحیت کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ جنوبی عرب کے قبائل میں کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آتا تھا کہ سردار کی وفات کے بعد سرداری کی کرسی خالی رہتی تھی تب بااثر افراد کی مجلس اور قبیلے کے اثر ورسوخ رکھنے والے افرادیمن کے بادشاہ سے درخواست کرتے کہ وہ ان کےقبیلے کے لیے کسی باصلاحیت سردار کا انتخاب کردیں۔ سلاطین کندہ کے دور میں سردار کے انتخاب کے اس طریقہ کارکی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ نجد اور یمامہ کے بعض علاقوں میں بھی سردار کے انتخاب کےاس طریقہِ کا ر کی مثالیں ملتی ہیں ۔ قبیلے کا اثر و رسوخ متعدد قبائل کے اتحاد سے بڑھتا تھا۔عرب کے مختلف قبائل میں سردار کو مختلف اسماء سے موسوم کیا جاتا تھا جن میں سیّد ،شیخ 11رئیس، بعل اور رب قابل ذکر ہیں جیسا کہ ہاشم بن المغیرہ "رب القریش" کے لقب سے مشہور تھا۔ اسی طرح عمرو بن العاص "سیّد "کے لقب سے، ربیعہ اور حذیفہ بن بدر "سیّد غفان" کے لقب سے معروف تھے، اس کے علاوہ اسے "رب المعاد" کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔12

قبیلے کےسردار کی حکمرانی مطلق حکمرانی نہیں ہوتی تھی بلکہ قبائلی حکومت معززینِ قبیلہ، ان کے صاحبانِ دانش و فراست اورتمام صاحب الرائے لوگوں کی بلکہ ایک طرح سے قبیلے کے تمام لوگوں کی حکومت تھی ۔ قبیلے کے سردارکا گھر اس کی مشاورت گاہ اور اس کی حکمرانی کی جگہ یاایک طرح سے ایوانِ صدارت ہوتا تھا ۔ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سمجھدار لوگ اس ایوانِ صدارت میں مل کر اس معاملے پر بات کرتے تھے۔یہاں ہر اہم معاملے پر بات کی جاتی تھی جیسے ٹیکس لگانا یا بڑھانا، جنگ کا اعلان کرنا یا اس طرح کے دیگر معاملات۔ ایسی مشاورتی کونسلیں کم و بیش تمام قبائل میں موجود تھیں۔قبائل اگر بڑے یا پھیلے ہوئے ہوتے تھے تو ہر محلے کے چیدہ چیدہ لوگ مل کر مشاورت سے جھگڑوں اور محلے میں ہونے والے دیگر معاملات کا تصفیہ کرتے تھے ۔13نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب قبائل کے یہاں دو اجتماعات یا کونسلیں ہوتی تھیں جو قبیلے کے امور کی انجام دہی میں شریک ہوتی تھیں۔ ان میں سے ایک "قبیلے کے بزرگوں کی مجلس" تھی جبکہ دوسری "عوامی مجلس " تھی جس میں قبیلے کے تمام افراد شامل تھے۔ "عوامی مجلس"میں کھلے انداز سے بحث کی جاتی تھی جس میں رائے اور دلیل کو اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ دو مخالف فریق یکے بعد دیگرے جلسۂ ِ عام میں اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے،اس پر اعتراضات ہوتے تو ان کا جواب دیتے تھے ۔ پھر جواب پر اعتراض ہوتا تھا تو اس اعتراض کا جواب دیا جاتا تھا۔کسی معاملے پر بحث کرنے والی دو جماعتیں اگر کسی معاملے کے حل پر متفق نہ ہو پاتیں تو اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے قبیلے کے عام افراد کے سامنے بحث کا موضوع پیش کیا جاتا تھا۔14

سردارکی اہم خصوصیات

دورِجاہلیت میں عرب کےلوگ عموماً سردار کے انتخاب میں کچھ خصوصیات کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے جن میں سخاوت، بہادر ی، صبر، حلم، تواضع اور قوتِ بیان خاص طور پر قابلِ ذکرتھیں۔15اس کے علاوہ مالدار ہونا ، صائب الرائے ہونا اورضعیف العمرہونے کی وجہ سے تجربہ میں کمال رکھنا بھی سرداری کےلئے اہم تصور کیا جاتا تھا۔16کسی نے قیس بن عاصم سے پوچھا کہ وہ کن خصلتوں کی بدولت اپنی قوم کا سردار بنا تھا تو قیس نے جواب دیا تھا کہ وہ سخاوت کرنے، لوگوں کو دُکھ نہ پہنچانے، دوستوں کی مدد کرنے اورمہمان نوازی میں عجلت سے کام لینے کے باعث اس مرتبے کا اہل قرار پایا تھا۔ 17مذکورہ خصوصیات کے علاوہ عقلمندی ، پاک دامنی، باادب اورصاحبِ علم ہونےپربھی اہلِ عرب کے یہاں کسی شخص کو سرداری کے منصب کا اہل قرار دیا جاسکتا تھا ۔18

اہلِ عرب کے یہاں کچھ شرائط کو سرداری کے مانع سمجھا جاتا تھا اور ان کی موجودگی کسی شخص کو اس منصب کےلئے نااہلِ قرار دے سکتی تھی ۔ سرداری کے منصب سے مانع صفات میں کم سنی، بخیل ہونا، ظالم ہونا، بیوقوف ہونا، اورمحتاجی وغیرہ جیسی صفات شامل تھیں تاہم بعض اوقات ایسا بھی ہو سکتا تھاکہ ان صفات میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ شرائط کے نہ پائے جانے کے باوجود کسی شخص کو سردار چن لیا جاتا تھا۔ ایسے کئی سرداروں کے نام عرب کی تاریخ میں ملتے ہیں جن میں یہ شرائط نہیں پائی جاتی تھیں لیکن وہ عرب کے مشہور سردار گزرے ہیں ۔ یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ ہر بڑے سردار میں کوئی نہ کوئی ایسی خصلت پائی جاتی تھی جو سرداری کے مانع ہو سکتی تھی۔ سیّد محمود شکری نے اصمعی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابو عمرو بن العلاء نے تمام سرداروں کے عیبوں اور ان مذموم خصلتوں کا ذکر کیا ہے جو اُن میں پائی جاتی تھیں پھر آخر میں اس نے کہا کہ اس نے جو چیز بھی سیادت سے مانع دیکھی اسے کسی نہ کسی سردار میں ضرور پایا۔19

کم سنی میں سردار بننے کی ایک مشہور مثال عرب کے سردار ابو جہل کی ہے جو کم عمری ہی میں سردار بن کر دار الندوہ میں شامل ہوگیا تھاجبکہ اس کی ابھی مونچھیں اور داڑھی بھی نہ نکلی تھی۔ 20اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اہلِ عرب بعض اوقات کم سنی کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر شرائط اور خوبیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی شخص کو اپنا سردار بنا نے میں حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔قبیلے کے سردار کی حکمرانی اس کی شخصیت اور مرتبے پر منحصر ہوتی تھی ۔ اگر سردار مضبوط اور پختہ ہو تا تھاتو قبیلہ کا درجہ بھی بلند تصور کیا جاتا تھا اور اسے قبائل میں ایک مقام حاصل ہوتاتھا اور وہ دوسروں پر اپنا حکم نا فذکر سکتا تھا لیکن اگر وہ کمزور، غیر فعال اور اہم معاملات کا فیصلہ کرنے میں تردد کا شکار ہوتا تو دیگر لوگ قبیلہ کی سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگتے تھے جوقبیلہ کے منتشر ہونے، اس کے ٹکڑے ہونے اور قبیلوں میں اس کے مقام کے زوال کا سبب بن جا تا تھا۔ اچھا سردار وہ ہوتا تھا جو قبیلے کی تعمیر کرتا تھا اور اس کی حیثیت کو بڑھاتا تھا اور یہی بڑے بڑے قبیلوں کے اچانک وجود میں آنے، پھر ان کے معدوم ہونے اور طویل عرصے کے بعد ان کی حیثیت کے زوال کا راز تھا۔قبیلہ کا سردار ہی اس کا درجہ بلند کرتا تھا یا اس کا درجہ گھٹاتا تھا۔وہی قبیلہ کی روح تھا اور وہی انہیں زندگی کا امرت عطا کرتا تھا۔21

قبیلے کا سردار امن و جنگ میں اپنے قبیلہ کے اراکین کا ذمہ دار ہوتا تھا اور اپنے قبیلہ کے ضرورت مندوں کا حاجت روا سمجھا جاتا تھا ۔ضرورت پڑنے پر وہ ابنائے قبیلہ کو اکھٹا کر کے ان کی ایک فوج تشکیل دے سکتا تھا 22جس کی مدد سے وہ اپنے قبیلے کا دفاع بھی کرتا اور دیگر قبائل پر حملہ کرکے انہیں تخت و تاراج بھی کردیا کرتا تھا۔

سردارکے امتیازی حقوق

قبائلی سرداروں کے کچھ مخصوص امتیازی حقوق متعین تھے جن کی پاسداری تمام اہل قبیلہ پر لازم تھی۔بالخصوص سرداروں کو دو طرح کے امتیازی حقوق حاصل تھے۔سردار کا پہلا امتیازی حق یہ تھا کہ تمام افرادِ قبیلہ پر لازم تھا کہ وہ سردار کی تعظیم کریں اور اس کے ہر فیصلہ کو قبول کریں۔ سرداروں کو حاصل دوسرا امتیازی حق یہ تھا کہ جب مالِ غنیمت ہاتھ آتا تو اس میں سرداروں کا مخصوص حصہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹر احمد ابراہیم الشریف قبیلہ کے سردار ( شیخ) کے حقوق کو ذاتی اور مادی حقوق میں تقسیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "سردار کا ذاتی حق اس کی عزت واحترام کا خیال رکھنا، اس کی رائے کا احترام کرناجیسا کہ اس کےحکم کا ماننافوج پرلازم تھا شامل تھے"جبکہ مادی حقوق میں یہ تھا کہ "سردار کو مالِ غنیمت کا چوتھائی حصہ دیاجاتاجوتمام قبیلے کے مالِ غنیمت کا چوتھائی ہوتا تھا"۔ 23

بلاذری نے ایک شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار نقل کیے ہیں جو سردار کے چوتھائی حصہ لینے پر دلالت کرتے ہیں :

  لک المرباع فینا والصفایا
وحکمک و النشیطة و الفضول.24
  ہمارے درمیان تمہارے (سردار کے لیے) مالِ غنیمت کا چوتھائی ہے اور منتخب مال ہے، وہ مال جس کا تم فیصلہ کردو اور جو سرراہ ہاتھ آجائے نیز وہ بھی جو تقسیم سے بچ رہے۔

مندرجہ بالا شعر میں "مرباع" سے مراد مالِ غنیمت کا چوتھائی حصہ، "صفی" سے مرادوہ مال جسے تقسیم سے پہلے ہی سردار اپنے لیے منتخب کرلے اور" نشیطۃ " سے مراد وہ مال ہے جو راستے میں سردار کے ہاتھ لگ جائے۔وہ مال جو تقسیم کے بعد بچ رہے اور غازیوں کی تعداد پر برابر تقسیم نہ ہو "فضول" کہلاتا تھا مثلاً تقسیم سے بچے ہوئے اونٹ گھوڑے وغیرہ ۔ان سب اقسام کے مال پر سردارِ قبیلہ کا حق ہوا کرتا تھا۔ 25 اہلِ عرب کے یہاں یہ سب حصے سردار کے امتیازی حقوق کی بنا پرمختص کیے گئے تھے اور ان حصّوں کا خاص خیال رکھنا لازمی وضروری امر تھا۔ اس طرح عرب قوم کاہرقبیلہ اپنے سردارکے احکامات کی تعمیل کرتا تھا جسےانہوں نے باہمی مشاورت اوراتفاق رائےسےمنتخب کیاہوتاتھا نیز قبیلےکےہرفردپراس کی تعظیم وتوقیرواجب ہوتی تھی۔ سردار قبیلےکےتمام افرادکی حفاظت وسلامتی کا ضامن ہوتاتھا۔

قدیم عرب قبائلی نظام میں کسی قبیلہ سے وابستگی ہی کسی فرد کے تحفظ اور معاشرہ میں اس کے مقام کی ضمانت تھی۔عرب قبائل اسی قبائلی نظام کے تحت ہزاروں سال سے عرب کے ان صحراؤں میں زندگی بسر کررہے تھے اور اپنی تہذیب و تمدن کو بیرونی اثرات سے بچائے ہوئے تھے ۔ یہ قبائل ہی ان کی پہچان تھے جن پر وہ فخر کرتے تھے۔ اسلام نے عربوں میں پائی جانے والی قبائلی عصبیت کا رخ اسلامی وحدت کی طرف موڑ دیا اور اہلِ ایمان کو ایک امت قرار دیا تاہم قبائل کے نظام کو بھی کچھ ترامیم کے ساتھ برقرار رکھا۔ اسلام نے قبائلی تعلق کو ذریعہ تفاخر کے بجائے صرف ذریعۂِ پہچان قرار دیا اور قبائلی تعلق کی اساس کے بجائے امت سے تعلق کی اساس فراہم کی جس نے تمام عرب و عجم کے انسانوں کو اسلام کی لڑی میں پرو کر یک جان کردیا اور عالمی اسلامی بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔

 


  • 1 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة ، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000ء، ص: 342
  • 2 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 194
  • 3 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة ، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000ء، ص: 342
  • 4 صالح احمد العلی، تاریخ العرب القدیم والبعثۃ النبویۃ، مطبوعۃ: شرکۃ المطبوعات للتوزیع والنشر، بیروت، لبنان، 2013ء، ص: 187-188
  • 5 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 194-195
  • 6 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة ، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000ء، ص: 342-344
  • 7 Phillip K. Hitti (1970), History of the Arabs, Macmillan Education Ltd., London, U.K., Pg. 26-28.
  • 8 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-7، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 342- 343
  • 9 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000ء، ص: 360-361
  • 10 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-7، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 349
  • 11 الدکتور أحمد إبراھیم الشریف، مکۃ والمدینۃ فی الجاھلیۃ وعھد الرسولﷺ، مطبوعۃ: دار الفکر العربی، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 30
  • 12 Muhammad Yusuf Guraya (1979), Judicial Institutions of Pre Islamic Arabia, Islamic Research Institute, Islamabad, Pakistan, Vol. 18, No. 4, Pg. 324-326.
  • 13 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-9، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 238
  • 14 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000ء، ص: 361-362
  • 15 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-7، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 350
  • 16 الدکتور أحمد إبراھیم الشریف، مکۃ والمدینۃ فی الجاھلیۃ وعھد الرسول ﷺ، مطبوعۃ: دار الفکر العربی، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 30
  • 17 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 187
  • 18 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-7، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 351
  • 19 السیّد محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 188
  • 20 أبو الفرج علی بن إبراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 34
  • 21 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج-9، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 238
  • 22 ایضاً، ج-7، ص: 343- 344
  • 23 الدکتور أحمد إبراھیم الشریف، مکۃ والمدینۃ فی الجاھلیۃ وعھد الرسولﷺ، مطبوعۃ:دار الفکر العربی، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 34
  • 24 أحمد بن یحییٰ البلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ج-11، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996 م، ص: 380
  • 25 ڈاکٹر محمد عمر خان، نور ام النور نور رحمۃ للعالمین، ج-1،مطبوعہ : شبیر بردارز، لاہور، پاکستان، 2007ء،ص: 498