Encyclopedia of Muhammad

مستحکم بادشاہتیں

جزیرہ نما عرب کی سیاسی تشکیلات کی تیسری قسم ان بادشاہتوں پر مشتمل تھی جو جزیرہ نما عرب کے جنوب میں قائم ہوئی تھیں ۔ یہ بادشاہتیں شمالی امارات کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار تھیں اسی لئے یہ مملکتیں تاریخ میں بہت طویل عہد تک قائم رہیں اور غیر مستحکم ریاستوں کی طرح مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے نہیں مٹیں۔1

ان حکومتوں کی اصل اساس زراعت تھی۔ عرب کے جنوبی خطے کی ہوا میں موجود نمی اور بارشوں کی کثرت نے یہاں مستحکم زرعی نظام کا قیام ممکن بنایا تو سمندروں کی قربت کے سبب ہونے والی تجارتی سرگرمیوں نے یہاں کی معاشی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی زندگی کے استحکام میں بھی اہم کردار اداکیا 2جس کی وجہ سے جزیرہ نما عرب کی جنوبی بادشاہتیں زرخیز زمینوں کے وسیع رقبوں پر اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہوئیں ۔ انہیں زرعی اقتصادی بنیاد کا علم تھا اس لیے انہوں نے صرف میدانی علاقوں میں ہی کاشتکاری پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پہاڑی علاقوں میں بھی کا شتکاری کی۔3انہوں نے چٹانوں میں ڈیم اور حوض بنائے، پانی کو جمع کیا اور خشک سالی کے دوران اس سے فائدہ اٹھایا جس کے سبب ان کی زمینیں آباد تھیں۔4بارشوں کے سبب عرب کے جنوبی خطے میں قدرتی جنگلات تھے ۔ یہاں مصالحہ جات ، جڑی بوٹیوں ، 5بخور اور عطریات کی بھی اچھی پیداوار تھی جن کی قدیم دنیا میں بہت زیادہ طلب تھی۔ 6یوں زراعت کے سبب نباتات،جڑی بوٹیوں اور مصالحہ جات کی اچھی پیداوار نے جنوبی عرب کی ریاستوں کے معاشی وسائل کواستحکام بخشا۔

جنوبی عرب کے خطے کی اقتصادی اساس کا دوسرااہم عامل مستحکم و مستقل بنیادوں پر قائم تجارت تھی۔ تاہم یہ تجارت شما لی عرب کی ریاستوں کی طرح ایک عبوری تجارت (Transit Trade) نہیں تھی کہ جس کا انحصار تجارتی خطوط اور راستوں کی بقا ء و دوام پر منحصر ہوتا بلکہ یہ مستقل تجارت تھی جو وہاں کے لوگ دیگر علاقوں کے ساتھ کرتے تھے۔ یہ بادشاہتیں بحر ِ ہنداوربحیرہِ احمر کے سنگم پر واقع تھیں جس کی وجہ سے اس خطے کی تجارتی اہمیت بہت زیادہ تھی نیز یہ تجارتی سرگرمیاں تجارتی راستوں کے تغیر و تبدل کے اثرات سے محفوظ تھیں۔ 7یہ خطہ مشرقِ بعید، ہندوستان سے یورپ اور افریقہ جانے والی تجارتی اشیاء کا مرکز تھا۔خاص طور پر ہندوستانی مصالحہ جات ، بخور و لوبان ، قیمتی لکڑی اور زیورات وغیرہ کی یورپ میں بہت زیادہ مانگ تھی جو یہاں کی بندرگاہوں اور منڈیوں سے گزر کر جاتے تھے۔8بحر ِ ہند کے ذریعے ہندکی پنجابی تہذیب سے،خلیج ِ عرب کے ذریعے سے عراق کی میسوپوٹیمیائی (Mesopotamia) تہذیب سے اور بحیرہِ احمر کے ذریعے مصر سے منسلک ہونے کے سبب یہ خطہ غرب و شرق کے درمیان ایک پل کا کام دیتا تھا۔9یوں یہ مقام مختلف سمتوں سے آنے والے تہذیبی دھاروں کا سنگم ہونے کی وجہ سے ایک ایسی تہذیب کا مرکز بن گیا تھا جو اپنے عہد کے معیارات کے مطابق ترقی اور خوشحالی کی معراج پر پہنچ چکی تھی۔10

دوسری اہم بات یہ تھی کہ یہ ریاستیں عرب کے زمینی تجارتی راستوں کے ابتداء میں واقع تھیں۔ اس لیے ان کا کوئی متبادل نہیں تھا۔ایک دوسرے سے تعلقات کی خرابی کی صورت میں راستے مسدود ہونے سے تمام ہی ریاستوں کو نقصان پہنچ سکتاتھا ۔اس لیے یہ ریاستیں ایک دوسرے سے استغناء نہیں برت سکتی تھیں اور ان سب ہی ریاستوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ہونا ضروری تھا۔ یہ ریاستیں اپنے اثر و رسوخ سے باہر موجود دیگر بستیوں اور قبائل تک اپنی حدود اور اثر و رسوخ کی توسیع کرنے کی کوشش میں رہتی تھیں۔اس دوران جنوبی عرب کی ان مستحکم بادشاہتوں کے درمیان سیاسی حاکمیت کے حصول میں کبھی برابری اور ہم آہنگی کی کیفیت ہوتی تھی تو کبھی ایک بادشاہت دوسری بادشاہت پر سبقت لے جاتی تھی یا پھر ان میں سے ایک بادشاہت ، سیاسی اتحاد قائم کرکے باقی تمام ریاستوں پر اثر و رسوخ اور اقتدار حاصل کر لیتی تھی۔11اہلِ تاریخ کے مطابق جنوبی عرب کے خطے میں مختلف زمانوں میں قائم ہونے والی چار اہم بادشاہتوں سے متعلق تاریخی شواہد اور تفصیلات محفوظ ہیں 12جن کے نام اور تفصیلات درج ِذیل ہیں:

  1. بادشاہتِ معین (Ma’inites Kingdom)۔
  2. بادشاہت ِسبا(The Kingdom of Sheba)۔
  3. بادشاہت ِقتبان(Kingdom of Qataban)۔
  4. بادشاہت ِ حمیر(Himyarite Kingdom)۔

(1)بادشاہتِ معین (Ma’inites Kingdom)

بادشاہتِ معین (Ma’inites Kingdom) جنوبی عرب کے خطے میں قائم ایک اہم ریاست تھی جواحقاف ِیمن یعنی وادی الجوف کے علاقہ میں قائم ہوئی اور اس کے مشرق میں حضر موت اور جنوب مغرب میں سبا کے علاقےواقع تھےنیز یہ ریاست اپنے عہدِ عروج میں خلیج (عدن) سے حجاز تک پھیلی ہوئی تھی۔13اس کا دار الحکومت صنعاء کے شمال مشرق میں الجوف کے جنوبی حصے میں قرنۃ (Qarnaw) کا علاقہ تھا۔14یہ ریاست اس حوالے سے بھی اہم تھی کہ یہ جنوبی عرب کی سرزمین پر قائم ہونے والی سب سے قدیم ترین باقاعدہ حکومت تھی جس کے آثار تاریخ میں محفوظ ہیں ۔

اس قدیم یمنی بادشاہت"معین" کے نام کا تلفظ قدیم مؤرخین ایراتوستھینز (Eratosthenes)، کے علاوہ سٹرابو (Strabo)، پلینی(Pliny) اور بطلیموس (Ptolemy)نے بھی Meinaiیا Minaeہی ذکر کیا ہے۔15اسی نام کو علامہ زمخشری نے بھی یوں ہی ذکر کیا ہے اور یمن میں معین نام کے ایک شہر کا ذکر بھی کیاہے 16تاہم ڈی لیسی اولیری(De Lecy O’Leary) نےاس کا ذکر "مائن "(Ma’in) کےنام سے کیا ہے۔17اسی طرح پروفیسر فلپ ہٹی (Philip Hitti) کے مطابق پرانی عربی شکل میں یہ "معان" تھا جو بدل کر " معین" ہوگیا ہے۔ 18

وجہ تسمیہ

یہ شہر چشموں اور ذرائع ِ آب سے مالامال تھا اسی لیے اس کا نام " معین" یعنی "چشمہ" اور "کثرت ِ آب والا" پڑگیا ۔ ابو عبید البکری معین کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ یمن کے شہر معین کانام پانی کےچشمہ پر ہے ۔19"معین" کا معنی ذکر کرتے ہوئے سیّد سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ معین کے لفظی معنی "منبعِ آب" اور "چشمہ" کے ہیں، دیگر سامی زبانوں میں مثلاً عبرانی میں یہ لفظ "معیان" ہے جو نہایت آسانی سے "معان" کی صورت میں بگاڑا جاسکتا ہے جو اب تک شمال عرب میں ایک آبا دی ہے۔20

زمانہ

اہلِ معین کے زمانے کے بارے میں اہلِ تاریخ وماہرینِ آثارِ قدیمہ کے یہاں کوئی متفقہ رائے تو نہیں پائی جاتی البتہ اکثر کی رائے کے مطابق سولہ سو (1600)قبل مسیح کے لگ بھگ احقافِ یمن (یعنی وادیُ الجوف) میں یہ بادشاہت قائم ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر جواد علی نے مؤرخ ہومر (Homer) کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہ ممکنات میں سےہے کہ بادشاہتِ معین کی ابتداء بارہ سو(1200)اورپندرہ سو(1500)قبل مسیح کے مابین ہو۔21دیگر مؤرخین کے اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں تاہم سب اس پر متفق ہیں کہ معین کی حکومت سبا کی حکومت سے پہلے تھی۔22

ریاستِ معین ایک عظیم الشان حکومت تھی اور کافی وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ صنعاءکے شمال مشرق میں اس کا دار الحکومت "معین" یا" القرن" واقع تھا جس سے یہ مملکت منسوب ہوئی۔ 23ان کے علاوہ مؤرخین نے چند مزیدشہروں کے نام بھی ذکر کیے ہیں جن میں میثیل، نشق، نشان، حریم اور کمنہ قابلِ ذکر ہیں۔ شہرِ معین کے کچھ کھنڈر اب تک باقی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ معین کے تمام قلعے اور شہر ایک دائرہ کی صورت میں واقع تھے اورمعین خود سبا کے قلب میں شاہراہ کے دائیں جانب واقع تھا جو مأرب کی شمال میں ہے۔

ذرائع آمدن

ریاستِ معین کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تجارت اور زراعت کے شعبے تھے۔یہ ہندوستان، یورپ اور افریقہ کے درمیان واقع تجارتی شاہراہ کا ایک اہم پڑاو ٔتھا۔ یہ فصلوں سے مالامال ملک تھا جہاں برآمد کے لیے موزوں تجارتی سامان مثلاً عطریات ، بخور اور مصالحہ جات وافر مقدار میں پائے جاتے تھے۔یہاں گھنےجنگلات اور پودے تھے ۔ ہندوستان اور چین سے درآمد شدہ کپڑے، تلواریں، سونا، ریشم اور شتر مرغ کے پروں سے بنی اشیاء سمیت دیگر سامانِ تجارت باب المندب کے راستے شمالی عرب اور وہاں سے بلادِ مغرب تک پہنچتا تھا یوں یہ ریاست ایک تجارتی واسطہ کا کردار ادا کرتی تھی۔ ایک طویل عرصے تک اہلِ معین نے ہندوستان اور بحیرہ روم کے طاس کے درمیان تجارت کی باگ ڈور پر اجارہ داری قائم رکھی جو ان کےلئے آمدنی اور خوشحالی کا بہت بڑا ذریعہ تھا۔ 24معینی حکومت کے اہم ذرائع آمدن زمینداروں اور اہلِ تجارت پر عائد ٹیکس تھے جو حکومت یہاں کے زمینداروں اور یہاں سے گزرنے والی تجارتی اشیاء پر عائد کرتی تھی اوران ٹیکسوں کو قوم کے بزرگ جمع کیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں سے بھی آمدنی حاصل ہوتی تھی۔ عبادت گاہوں کے الگ ٹیکس عوام کو ادا کرنا پڑتے تھے۔ہر معبد کے ساتھ مزروعہ اراضی کے وسیع وعریض رقبے ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ ان کے مخصوص خداؤں کی خدمت میں جو قیمتی نذرانے پیش کیے جاتےتھے وہ بھی ان عبادت گاہوں کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ تھے۔25ریاستِ معین کے آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صرف تجارتی بنیادوں پرقائم حکومت نہ تھی بلکہ یہاں جنگ و جدال کی نوبت بھی آتی رہتی تھی جس کے نتیجے میں مفتوحہ علاقوں سے بھی مال و دولت حاصل ہوتا تھا۔ ان جنگوں سے متعلق کئی ثبوت یہاں سے دریافت ہونے والی الواح پر کندہ ہیں۔ 26

اہم ملوک

سلطنتِ معین کے کھنڈروں سے جو کتبات نکلے ہیں اس میں کئی بادشاہوں کے ناموں کا ذکر ملتا ہے جن میں10بادشاہوں کے بالترتیب نام حسب ذیل ہیں:

  1. ایل صدیق۔
  2. الیفع ریام۔
  3. الیفع یثع۔
  4. ابی یدع۔
  5. ابی یفع ورقہ۔
  6. حفنم ریام۔
  7. تبع کریب۔
  8. خالی کریب۔
  9. ابی یفع یاتوش۔
  10. ہوفاعثت۔27

نیز سیّد سلیمان ندوی نےمختلف تلفظ کے ساتھ بائیس (22)نام گنوائے ہیں جو درج ذیل ہیں:

  1. ایل صادق ۔
  2. ابی یدع یاثع۔
  3. دقہ ایل صادق۔
  4. دقہ ایل یاثع۔
  5. دقہ ایل ریام۔
  6. ابی کریب یاثع ۔
  7. ابی یفع یاشر۔
  8. حُفنم صادق۔
  9. عمی یدع نابط۔
  10. حُفنم ریام۔
  11. ابی یفع یاتوش۔
  12. ابی یفع ریام۔
  13. ابی یفع یاثع۔
  14. ابی یفع دقہ۔
  15. ہوفاعشت۔
  16. ابی یدع ۔
  17. ثیع امل ریام۔
  18. ابی یدع۔
  19. خالی کریب۔
  20. تبع کریب۔
  21. حُفنم۔
  22. حُفن یاثع۔

یہ کل بائیس (22)نام ہیں جو عمارات اورمقبروں کے کتبوں سے جمع کیے گئے ہیں جو کہ تعداد اور زمانہ حکومت کے لحاظ سے بہت کم ہیں۔ متعدد نام ایسے ہیں جن کے کتبے نہیں ملے اور بہت سے ایسے ہیں جن کے نام کے کتبے سرے سے بنے ہی نہیں، اس لیے زمانہ حکومت کی وسعت کے مطابق کم از کم دس(10) بارہ(12) نام اور فرض کیے جاسکتے ہیں۔28ڈاکٹر جواد علی نے بھی "ملوک معین" کے عنوان سے کئی بادشاہوں کا تذکرہ کیا ہے۔29

مشہورمحل

سلطنتِ معین کا مشہور محل براقش تھا جس کا محل وقوع معین کی مغربی جنوبی جانب اور موجودہ صنعاء کے قریب جو کوہستانی سلسلہ ہے اس کی مغربی جانب تھا نیز براقش کا قدیم نام یثل تھا۔اہلِ معین کا تیسرا قلعہ یا شہر جو شاید یونانیوں کابیان کردہ قرن یا قرنا ہو، شمالی جوف کے وسط میں اور معین وبراقش کے شمال میں تھا۔ 30براقش اور معین نامی یمن کے دو قلعوں کا ذکر کرتے ہوئے یاقوت حموی رقمطراز ہیں:

  كان بعض التبابعة أمر ببناء سلحين فبني في ثمانين عاما وبني براقش ومعين بغسالة أيدي صنّاع سلحين، قال: ولا ترى لسلحين أثرا، وهاتان قائمتان.31
  یمن کے بعض بادشاہوں نے سلحین محل کی تعمیر کا حکم دیا تھاجو اسّی(80)برس کی مدت میں تعمیر ہوا تھاجبکہ براقش و معین سلحین محل کے کاریگروں کے ہاتھوں سے بنے تھے مگرسلحین محل کا کوئی نشان نہیں اور یہ دونوں اب تک قائم ہے۔

اس عبارت سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ یہ یمن کے بادشاہوں کی تعمیر تھے، دوم یہ کہ یہ دونوں مقامات دوسری صدی ہجری تک موجود تھے۔ براقش کا ذکر اس کے بعد بھی تاریخِ اسلام میں آٹھویں صدی ہجری تک نہایت کثرت سے آتا ہے اور اس وقت یہ آباد شہر تھا۔32مرورِ زمانہ سے مملکتِ معین پر کہنہ سالی کے آثار رونما ہوئے جس کے نتیجے میں ان کا زوال شروع ہوا ۔ ان کے انحطاط کے دور میں سبا کے علاقے میں قومِ سبا نے انگڑائی لینا شروع کی اور ارد گرد کے علاقوں کو اپنازیرِ نگیں بنا تے ہوئے مملکتِ معین کے تمام علاقوں کی سیادت پر قبضہ کرلیا۔33

(2) بادشاہت ِسبا

جنوبی عرب کی قدیم حکومتوں میں بادشاہت ِ سبا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اہلِ تاریخ کے مطابق جیسے ہی ریاست ِ معین کا زوال ہونا شروع ہوا تو اسی عہد سے سبا سلطنت کی ابتداء ہوئی جنہوں نے چاروں طرف یمن میں بڑے بڑے قلعے تعمیر کرائےیوں ایک عظیم الشان ریاست وجود میں آئی۔ سبا ایک عظیم سلطنت کا بادشاہ تھا ۔ کہا جاتا ہے یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عرب میں سب سے پہلے تاج پہنا تھا۔ 34سبا ئیوں کی پہلی بادشاہت 750 قبل مسیح سے 610 قبل مسیح کے درمیان جنوبی نجران(Najran)میں قائم ہوئی اور انہوں نے مآرب (Ma’rib) کے مغرب میں صرواح (Sirwah)نامی مقام کو اپنا پایہ تخت بنایا تھا۔ سبا کی دوسری بادشاہت 610 قبل ِ مسیح سے 115 قبل ِ مسیح تک قائم رہی جنہوں نے صنعاء سے 60 کلومیٹر دور واقع مآرب کو اپنا صدر مقام بنایا۔35ریاست ِ سبا کا ذکر قرآن، تورات، زبور، انجیل سمیت یونانی حکایات اور تمام تاریخی دستاویزات میں موجود ہے۔ سبا قحطانی قبائل کی ایک مشہور شاخ کا نام تھا جو سبا بن یخشب بن یعرب بن قحطان 36بن عابر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام ابن نوح کی اولاد تھے۔37یعقوبی کے مطابق قحطان بن ہود نبی() ابن عابر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح کی اولاد میں سے جو سب سےپہلے بادشاہ بنا وہ سبا بن یعرب بن قحطان تھا۔38

سبا کا اصل مرکز ِحکومت جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغرب میں یمن کا مغربی علاقہ تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا دائرہ مشرق میں حضرموت تک وسیع ہوتاگیا حتیٰ کہ ایک ایسا دور بھی آیا کہ ان کی سلطنت افریقہ میں حبشہ تک پھیل گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ملکہ سبا کے بیٹے مینلک نے حبشہ میں شاہی خاندان کی بنیاد ڈالی تھی۔ 39ان کا دار الحکومت شہرِ "مأرب "تھا جو یمن کے خوب صورت ترین شہروں میں سے تھا۔ اس زمانے میں تمام ممالک میں اس سے زیادہ آباد اور کوئی شہر نہ تھا۔40

وجہ تسمیہ

اہلِ علم کے یہاں سبا کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔روایات میں منقول ہے کہ سبا یمن کے ایک علاقے کا نام تھاجو صنعاء اور حضر موت کے درمیان تھا۔ 41حضرت قتادہ کے مطابق اس علاقہ کا سبا نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کی اولاد میں سے ایک شاخ آباد تھی 42یوں ملکِ سبا کا نام اس کے بانی کے نام پر ہی پڑ گیا 43تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ سبا اس ریاست کے بانی کا لقب تھااور اس کا نام عبد شمس تھا 44جبکہ مسلم دینوری کے مطابق سبا کا اصل نام بعض مؤرخین نے عامر بھی بتایا ہے۔ 45

سبا کی وجۂِ تسمیہ کے حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ "سبی "سے مشتق ہے جس کے معنی غلام بنانے کے ہیں چونکہ عبد شمس بڑا فاتح تھا اور اس نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کرکے غلام بنایاتھا اس لیے اس کا لقب" سبا" قرار پایا۔ ابن ِ ہشام نے بھی یہ نقل کیا ہے ۔46مسلم دینوری 47اور نشوان بن سعید یمنی 48نےبھی یہی وجۂِ تسمیہ بیان کی ہے۔

جدید محققین کا نقطۂ نظر اس مذکورہ نقطۂ نظر سے مختلف ہے اور وہ اس نام کی نسبت تجارت کی طرف کرتے ہیں۔ تحقیقِ جدید کے مطابق "سبی" اور "سبا" اس معنی سے ماخوذہیں جس کا مفہوم تجارت ہے۔ کُتبات میں عموماً سبا کا مادہ تجارتی سفر کے معنی میں مستعمل ہوا ہے اور عربی زبان میں یہ اب تک شراب کی تجارت، خرید وفروخت اور اس کے لیے سفر کے معنی میں مستعمل ہے۔ سبا چونکہ تاجر قوم تھی اس لیے اس لقب سے مشہور ہوئی۔49ابن کثیر نے سبا کے علاوہ اس کاایک اور لقب "الرائش" بھی بیان کیا ہے۔عرب لغت میں ریش یا ریاش کے معنی مال کے آتے ہیں۔ یہ بادشاہ چونکہ بہت بڑا فاتح و سخی تھااور لوگوں کو کثرت سے مال ومتاع دیتا رہتا تھا اس لیے اس لقب سے مشہور ہوا ۔ 50اسے "الرائش" کہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے فوجیوں میں مالِ غنیمت تقسیم کیا ۔51ابن کثیر نقل کرتے ہیں کہ کسی شخص نے حضور نبی کریم ﷺ سے سبا کے متعلق دریافت کیا کہ کیا یہ کسی مرد کا نام ہے یا عورت کا یا جگہ کا؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:یہ ایک مرد کا نام ہے جس کے دس(10) بیٹے تھے، ان میں سے چھ(6) یمن میں سکونت پذیر ہوئے اور چار(4) شام میں آباد ہوگئے۔ یمن میں آباد ہونے والے یہ تھے: مذحج، کندہ، ازد، اشعری، انمار اور حمیر، شام میں بسنے والے یہ تھے:لخم، جذام، عاملہ اورغسان 52یعنی سبا ایک آدمی کا نام تھا ۔ اسی کی نسبت سے اس کے قبیلے کو سبا کہا گیا اور جہاں وہ آباد تھے اس شہر کا نام بھی سبا پڑ گیا ۔بعد ازاں سبا نامی قبیلے اور اس شہر کے باسیوں نے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور سبا کے نام سے ریاست و حکومت قائم کی۔

مذہب

سبا کےشجرۂِ نسب میں سیّدنا ھود کا نام بھی آتا ہے جیساکہ یعقوبی نے بیان کیا ہے 53اوراسی نسبت کی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک قوم ِ سبا کا ابتدائی زمانہ شرک سے پاک تھا اور ان کا ابتدائی مذہب توحید ورسالت پر ایمان تھا۔ ابن دحیہ کلبی، ابن کثیر اور دیگر محدثین کہتے ہیں کہ سبا مسلمان تھا اور اس نے اپنی زندگی میں رسول اﷲ ﷺ کی مدح میں کچھ نعتیہ اشعار بھی کہے تھے ۔ ابن کثیر، ابن دحیہ کلبی کی مشہور کتاب "التنویر فی مولد البشیر النذیر" سے اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  سيملك بعدنا ملكا عظيما
نبي لا يرخص في الحرام
ويملك بعده منهم ملوك
يدينوه العباد بغير ذام
ويملك بعدهم مناملوك
يصير الملك فينا باقتسام
ويملك بعد قحطان نبي
تقي مخبت خير الأنام
يسمي أحمدا يا ليت أني
أعمر بعد مبعثه بعام
فاعضده وأحبوه بنصري
بكل مدجج وبكل رام
متي يظهر فكونوا ناصريه
ومن يلقاه يبلغه سلامي.54
  ہمارے بعد ایک ایسا نبی ملک کا مالک ہوگا جو حرام کے ارتکاب کی اجازت نہیں دے گا، آپﷺ کے بعد آپ ﷺ کی قوم میں سے کچھ خلفاء ہوں گے جو آپ ﷺ کی اطاعت میں خون کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے، پھر ہم میں سے بادشاہ ہوں گے جو باری باری مسندِ اقتدار پر براجمان ہوں گے۔ قحطان کے بعد ساری مخلوق کے سردار متقی نبی مالک بنیں گے جن کا نام احمدﷺ ہوگا۔ کاش! آپﷺ کی بعثت کےبعد میں ایک برس زندہ رہتا تاکہ ہرممکن طریقے سے آپﷺ کی مدد کرتا اور ہر خدمت بجالاتا۔ جب آپﷺ تشریف لائیں تو آپﷺ کے معاون بن جانا اور جس شخص کی آپﷺ سے ملاقات ہو وہ آپ ﷺ کی خدمت میں میرا سلام پہنچادے۔

بعدمیں یہ قوم مشرک ہوگئی تھی پھر ان کا مذہب "آفتاب پرستی"ہوگیا یعنی یہ لوگ سورج کے پجاری بن گئے تھےجس کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہےکہ ہُد ہُد نے حضرت سلیمان کو سبا کی ملکہ بلقیس کی خبر دیتے ہوئے کہاتھا:

  وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ 24 55
  میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اعمال (بد) ان کے لیے خوب خوش نما بنا دیے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے۔

یہودیوں کی کتاب ترگوم میں بھی ملکہ بلقیس کے سورج کی عبادت کرنے کا ذکر ہے اور یونانی مؤرخ تھیوفراسٹسٹس (Theophrastus)"آفتاب کے ہیکل" میں بخورات کے ڈھیر کا ذکر کرتا ہے نیز قبیلہ سبا کے بانی کا لقب "عبدشمس" مشہور ہے جس کے معنی بھی"پرستارِآفتاب" کے ہیں۔ اوائل اسلام میں یمن کی ایک عمارت کے کتبے پر یہ عبارت منقوش پائی گئی تھی:

  بسم اﷲ هذا ما بناه شمريرعش لسيدة الشمس.56
  اﷲ کے نام سےیہ وہ عمارت ہے جسے بادشاہ شمریرعش نے سورج دیوی کے لیے بنایا۔

ان تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ ملکہ بلقیس کے زمانہ تک ان میں شرک پھیل چکا تھااور پھر ملکہ بلقیس کوحضرت سیّدناسلیمان نے دعوتِ اسلام دی تو ملکہ بلقیس اپنے حواریوں سمیت آپ کے پاس حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگئی تھی 57لیکن پھر مرورزمانہ کےساتھ قومِ سبا دوبارہ گمراہی کا شکار ہوگئی اور سیلاب کی صورت میں عذابِ الٰہی میں مبتلا کر کے ہلاک کردی گئی۔58

حکمران

ریاست ِ سبا کی سیاسی تاریخ کے دو ادوار ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

  1. مکاربِ سبا یعنی مذہبی بادشاہ جو کہ مذہبی رہنما بھی تھے اور سیاسی رہنما بھی ۔ان کا زمانہ ایک ہزار(1000)سال قبل مسیح سےساڑھے چھ سو (650) قبل مسیح تک ہے۔
  2. ملوکِ سبا جن کازمانہ ساڑھے چھ سو (650) قبل مسیح سے ایک سو پندرہ (115)قبل مسیح تک ہے۔

شاہانِ سبا کا لقب "مکارب" یا"مکرب" تھا۔ سبائی زبان میں "رب" کا معنی "بڑا" یا"بادشاہ" اور"مکارب" کے معنی "کاہن بادشاہ"کے تھےنیز مکاربینِ سبا کا پایہ تخت صرواح تھا ۔بعض علماء کے نزدیک صرواح ایک بہت بڑا قلعہ تھا جس کو سیّدنا سلیماننے جنات کے ذریعہ سے ملکۂ بلقیس کے لیے تعمیر کیا تھا۔ 59محل کے کھنڈر آج بھی مأرب اور صنعاء کے درمیان وادی واکفہ میں پائے جاتے ہیں اور خُریبہ کے نام سے مشہور ہیں۔ مختلف کتبوں سے ایک ہزار(1000)قبل مسیح سےساڑھے چھ سو (650) قبل مسیح کے عرصے کے دوران حکومت کرنے والے سترہ(17) مکربین سبا کا پتا چلتا ہے۔ ریاست ِ سبا کے دوسرے دور یعنی چھ سو پچاس (650) قبل مسیح سے ایک سو پندرہ (115)قبل مسیح کے دوران یہاں کے حکمران کو"ملکِ سبا" کہا جاتا تھااور ان کا دار الحکومت مآرب تھاجس کو "نریابہ" بھی کہا جاتا تھا۔ 60اسی دور میں مأرب کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی تھی جسے حجازی عرب "سد" اور یمنی عرب "عرم" کہتے تھے۔

"عرم "جنوبی عرب کی زبان کے لفظِ "عرمن " سے ماخوذ ہے جس کے معنی بند کے ہیں۔ یمن کے قدیم کتبات میں یہ لفظ اس معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے، مثلاًپانچ سو بیالیس( 542)عیسوی کے لگ بھگ کا ایک کتبہ جو یمن کے حبشی گورنر ابرہہ نے سد مأرب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا تھا، اس میں اس لفظ کو بار بار "بند" کے معنی میں استعمال کیا گیاہے۔ سد مأرب تقریباً آٹھ سو( 800)قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں سلطنتِ سبا کو انتہائی عروج حاصل تھا اور انہوں نے عرب کے اندر اور عرب کے باہر جگہ جگہ اپنی نو آبادیاں قائم کرلی تھیں۔ اس "سد" کے متعلق قدیم وجدید مؤرخین اور سیاحوں نے جو حالات لکھے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ قوم ِ سبا کو فنِ تعمیرات اور ہندسہ میں کمال حاصل تھا۔ مارب کے جنوب میں دائیں بائیں دو پہاڑ ہیں جو کوہِ ابلق کے نام سے مشہور ہیں اور ان کے درمیان بہت طویل وعریض وادی ہے جس کو وادیِ اذنیہ کہتے ہیں۔ ان علاقوں میں جب بارش ہوتی تو اس کا پانی پہاڑ کے چشموں کے ساتھ مل کر دریا کی شکل اختیار کر لیتا تھا ۔ قوم ِ سبا نے یہ دیکھ کر آٹھ سو( 800)قبل مسیح میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان بند باندھنا شروع کیا اور عرصہ تک اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا ۔ سدمأرب کے بقیہ حصے پر جو کتبات ہیں ان میں اس کے بانیوں (مکاربینِ سبا) کے نام یثع امربین، سمہعلی ینوف، کرب ایل بین، ذمرعلی اور یدع ایل پڑھے گئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سد طویل زمانے میں مختلف سلاطینِ یمن کے عہد میں تعمیر ہوا تھا۔ اس نظامِ آب رسانی سے اس ریگستان کے اندردوسو (200)مربع میل میں سینکڑوں کوس تک بہشت زاد تیارہوگئی تھی جس میں انواع واقسام کے میوے اور خوشبودار درخت تھے۔ 61ملکِ سبا میں اس "بندِ آب" نے ہمہ قسم کی راحت، عیش وعشرت کی زندگی کے لیے سامان فراہم کر دیا تھا اور ان سب چیزوں پر یہ مستزاد تھا کہ یمن سے شام تک جس مشہور شاہراہ ( مبین) پر اہلِ سبا کےتجارتی قافلوں کی آمدورفت تھی۔ اس کے دونوں جانب حسین وخوبصورت بلسان اور دار چینی کے خوشبودار درختوں کا سایہ تھا اور اس پر بھی حکومتِ سبا نے ان کے سفر کو آرام دہ بنانے کے لیے کارواں سرائے بنا رکھی تھیں جو شام کے علاقہ تک ان کو اس آرام کے ساتھ پہنچاتی تھیں کہ خنک پانی، میووں اور پھلوں کی افراط انہیں سفر کی کوئی تکلیف و تھکاوٹ محسوس نہیں ہونے دیتی تھی۔

ملکہ بلقیس (ملکہ سبا)

تاریخِ سبا کا ایک اہم نام"ملکۂِ سبا"کا بھی ہے جو ملکۂ بلقیس کے نام سے مشہور ہے۔روایات کے مطابق اس کا نام بلقیس بنت ذی شیرہ تھا اور اس کے بہت گھنےاور لمبے بال تھے۔62قرطبی نے اس کا نام "بلقمہ" بیان کیا ہے63اور جلال الدین سیوطی نے حسن بصری سے اس ملکہ کا ایک نام "لیلیٰ" بھی نقل کیا ہے۔ 64ملکۂ بلقیس نے یمن پر تیرہ (13)سال حکومت کی جن میں سےنو(9)سال اس نے حضرت سلیمانپر ایمان لانے سے قبل حکومت کی اس کے بعد چار(4) سال حضرت سلیمان کی خلیفہ کے طور پر حکومت کی ۔ 65

قرآن حکیم نے سورہ نمل میں حضرت سلیمان اور ملکۂ سبا کے درمیان پیش آنے والے ایک واقعہ کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے مطابق حضرت سلیمان کے عظیم الشان دربار میں انسانوں کے علاوہ جنّات اور حیوانات بھی موجودتھے۔ حضرت سلیمان نے ہدہد کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا کہ میں ہدہد کو موجود نہیں پاتا۔ اس کی یہ بے وجہ غیر حاضری قابلِ سزا ہے اس لیے میں اس کو سخت عذاب دوں گا یا ذبح کروں گایا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بتائے۔ ہدہد نے حاضر ہوکر بتایا کہ یمن کے علاقہ میں قومِ سبا پر ایک ملکہ کی حکومت ہے جس کے پاس بےبہا خزانے ہیں اوراس کا تختِ سلطنت اپنی خاص خوبیوں کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے لیکن ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہے۔حضرت سلیماننےملکۂ سبا کے نام ایک خط لکھا۔ خط وصول کر کے ملکہ نے سردارو ں اور مشیروں کو جمع کیا اور ان کا مشورہ طلب کیا۔ سرداروں نے کہا کہ اگر جنگ کی نوبت آتی ہے تو وہ اس کےلئے ہر طرح سے تیار ہیں۔ ملکہ نے کہا کہ سلیمانکے معاملہ میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہے۔ ملکۂ سبا نے حضرت سلیمان کی خدمت میں قیمتی تحائف روانہ کیے جنہیں دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ نے مجھ کو جو کچھ مرحمت فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں تمہاری یہ بیش بہا دولت قطعاً ہیچ ہے لہٰذا تم اپنے ہدایا واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر اس نے میرے پیغام کی تعمیل نہیں کی تو میں ایسے عظیم الشان لشکر کے ساتھ سبا والوں تک پہنچوں گا کہ تم اس کی مدافعت اور مقابلہ سے عاجز رہوگے ۔ قاصدوں نے واپس جاکر ملکہ سبا کے سامنے تمام روداد سنائی، حضرت سلیمان کی شوکت وعظمت کا جو کچھ مشاہدہ کیا تھا وہ حرف بحرف کہہ سنایا اور بتایا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں ہی پر نہیں ہے بلکہ جنات اور حیوانات بھی ان کے تابعِ فرمان اور مسخر ہیں۔ملکہ سبا نے جب یہ احوال سناتو حضرت سلیمان کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ 66کچھ اہلِ علم نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ملکۂ بلقیس کا حضرت سلیمان سے عقد ہو گیا تھا اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا نام حضرت سلیمان نے اپنے والد حضرت داؤد کے نام پر "داؤد" رکھا تھا۔67

اہلِ سبا کی نافرمانی

اہل ِ سبا پر اللہ کی نعمتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے ابن کثیر حضرت قتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہاں کا یہ حال تھا کہ ایک عورت اپنے سر پر ٹوکرا اٹھائے ہوئے درختوں کے نیچے سے گزرتی تو درختوں سے خود بخود ہی اس قدر پھل گرتے کہ تھوڑی دور جانے کے بعد اس کا ٹوکرا پھلوں سے لدجاتا تھا اور پھل اس قدر پکے ہوئے اور کثرت سے ہوتے کہ انہیں توڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔68اہل سبا ایک عرصہ تک تو اس جنتِ ارضی کو خدا کی عظیم الشان آیت ونعمت ہی سمجھتےرہے اور حلقہ بگوش اسلام رہتے ہوئے احکامِ الہٰی کی تعمیل اپنا فرض یقین کرتے رہے لیکن تَمَوُّل(مالدار ہونا)، خوش عیشی اور ہر قسم کے تَنَعُّم (آسائشیں)نے آہستہ آہستہ ان میں بھی وہی اخلاقِ رذیلہ پیدا کردیے جو ان کی پیشرو گزشتہ متکبر اور مغرور قوموں میں موجود تھے اور یہ یہاں تک گراوٹ کا شکار ہوئے کہ انہوں نے دینِ حق کو بھی خیر باد کہہ دیا اور کفر وشرک کی زندگی کو اپنالیا۔تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کی فوراً گرفت نہیں کی بلکہ اس کی وسعتِ رحمت نے مہلت سے کام لیا اور انبیاء نے ان کو راہ حق کی تلقین فرمائی۔ بقول وہب بن منبہ اس درمیان میں ان کے پاس خدائے تعالیٰ کے تیرہ(13)انبیاءحقِّ رسالت ادا کرنے آئے مگر انہوں نے مطلق توجہ نہ کی اور اپنی موجودہ خوش عیشی کو دائمی وراثت سمجھ کر شرک و کفر کی بدمستیوں میں مبتلا رہے۔ 69

ان کی ناشکری اور انبیاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو وہ "بند" جس کی تعمیر پر ان کو بے حد ناز تھا اور جس کی بدولت ان کے دارالحکومت کے دونوں جانب تین سو (300)مربع میل تک خوبصورت اور حسین باغات، سرسبز وشاداب کھیتوں اور فصلوں سے یمن گلزار بنا ہوا تھا، وہ خدا کے حکم سے ٹوٹ گیا اور اچانک اس کا پانی زبردست سیلاب بنتا ہوا وادی میں پھیل گیا۔ وہ پانی مآرب اور اس تمام حصۂِ زمین پر جن میں یہ فرحت بخش باغات تھے چھاگیا اور ان سب کو غرقِ آب کرکے برباد کرڈالا اور جب پانی آہستہ آہستہ خشک ہوگیا تو اس پورے علاقہ میں باغوں کی جنت کی جگہ جھاؤ کے درختوں کے جھنڈ، جنگلی بیروں کے جہاندوں اور پیلو کے درختوں نے لے لی جن کا پھل بدذائقہ اور کڑواہٹ لیے ہوتا ہے۔ قرآن نے اس عبرتناک واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

  فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ 16 ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ 17 70
  پھر انہوں نے (طاعت سے) مُنہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر زور دار سیلاب بھیج دیا اور ہم نے اُن کے دونوں باغوں کو دو (ایسے) باغوں سے بدل دیا جن میں بدمزہ پھل اور کچھ
جھاؤ
اور کچھ تھوڑے سے بیری کے درخت رہ گئے تھے، یہ ہم نے انہیں ان کے کفر و ناشکری کا بدلہ دیا، اور ہم بڑے ناشکرگزار کے سوا (کسی کو ایسی) سزا نہیں دیتے۔

خدا کے اس عذاب کو اہل مارب اور قوم سبا کی کوئی رعب و سطوت نہ روک سکی، بند باندھنےسمیت فنِ تعمیرات اور علمِ ہندسہ کی مہارت کا جو ثبوت انہوں نے دیا تھا وہ اس کی شکستگی کے وقت ناکارہ ہوکر رہ گیا اور اہلِ سبا کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کارباقی نہ رہا کہ اپنے وطن کو چھوڑکر منتشر ہوجائیں ۔یوں وہ قوم جو عشرت و خوشحالی کی زندگی گزار رہی تھی اس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی قسمت کو کھوٹا کردیااور رب تعالیٰ کی نافرمانی کرکے اس کے عذاب کا شکار ہوکر ہلاک وبرباد ہوگئی۔

(3)بادشاہت ِ قتبان

بادشاہتِ قتبان کا قیام جزیرہ نما عرب کے جنوب میں ہوا۔ ریاستِ قتبان کے عہد کے حوالے سے بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ بادشاہت ِمعین کے ختم ہونے کے بعد وجود میں آئی اور سبا سلطنت کے ہم عصر تھی ۔ابو المحاسن عصفور لکھتے ہیں کہ "ریاستِ قتبانیہ نے بادشاہتِ معین کااختتام دیکھا تھااوروہ ریاستِ سبا اور ریاستِ حمیرکی ہم عصر تھی"۔71بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ جنوبی عرب کی یہ ریاست پانچ سو ( 500) قبل مسیح سے لےکر دوسو ( 200)عیسوی تک قائم رہی۔ 72بعض نے اس ریاست کا زمانہ ہزار ( 1000)سال قبل مسیح سے لےکر دوسو ( 200)قبل مسیح تک قرار دیا ہے73تاہم اس ریاست کے عہد کے حوالے سےدیگر اقوال بھی منقول ہیں۔74

اگرچہ تاریخ کی کتابوں میں اس کا تفصیلی ذکر موجود نہیں ہےتاہم حالیہ دو صدیوں کے درمیان دریافت ہونے والے کتبات و آثارسے اس کی تاریخ پر تھوڑی بہت روشنی پڑی ہے۔75آسٹریا کے سائنسدان "ایڈورڈ گلیزر" (Edward Glazer)نے 1882 سے 1892 عیسوی کے درمیان جنوبی عرب کے چار دورے کیے اور بڑی تعداد میں تحریریں اور نوشتہ جات اکٹھے کیے تھے۔ ان میں 600 سے زائد تحریریں اور نوشتہ جات شامل تھے جن میں سے 100 سے زیادہ نوشتہ جات قتبان کے دور سے متعلق تھے ۔ملر (Müller) ، ہیومیل (Hummel) ،اوسینڈر (Ossiander) اور دیگر ماہرین نے ان نوشتہ جات و آثار پر مزید تحقیق کی اور ان کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے ۔76ماہرینِ تاریخ کا خیال ہے کہ تاریخی متون میں ریاست ِ قتبان سے متعلق معلومات کی کمی کی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک کمزور ریاست تھی جو حکومت ِ سباکے زیر سایہ تھی تاہم اس کا ذکر جنوبی عرب کے قدیم کتبوں اور یونانی و رومی ادب میں بھی ملتا ہے۔77

یہ ریاست عرب کے شمال مغرب میں عدن کے قریب واقع تھی 78اور اس علاقہ کا نام "وادئِ بیحان" (Baihan Valley) تھا۔ اس کا دار الحکومت "تمنع" (Timna) نامی شہر تھا جو اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھا جو حضرموت، سبا اور معین کی سلطنتوں سے ہو کر گزرتی تھی ۔ "تمنع"وادی بیہان کےعلاقہ قتبان میں واقع تھا79تاہم مرورِ زمانہ کے ساتھ"تمنع" بربادہو گیا اور اس کی وقعت و اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی یہاں تک کہ یہ عظیم شہر ایک چھوٹی سی بستی میں ڈھل کر رہ گیا۔ برائٹ (Bright)نامی ماہر ِتاریخ کا خیال ہے کہ ریاستِ قتبان کا یہ دارالحکومت ولادتِ مسیحسےتھوڑا عرصہ قبل ایک وحشت ناک جنگ کی وجہ سے بربادی کا شکارہو گیا تھا۔ 80

وجہ تسمیہ

یاقوت الحموی کے مطابق قتبان عدن کے قریب ایک گاؤں کا نام تھا۔ 81یہاں آباد قوم بنو قتبان کا جدِ امجد قتبان بن ردمان بن وائل بن غوث حمیری تھا 82جس کی نسبت سے یہ "ریاستِ قتبان" کہلاتی تھی ۔ جواد علی لکھتے ہیں کہ "قتبان قبائلِ حمیرکےرعینی خاندان کی ایک شاخ تھے اورقتبان بن ردمان بن وائل بن غوث کی نسبت سےاس ریاست کا نام قتبان تھا"۔83

بادشاہ

جہاں تک اس پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کا تعلق ہے تو اہلِ علم ان کے ناموں کی مکمل فہرست جمع نہیں کر سکے اور اس میں اب بھی خلاء موجود ہےتاہم ا س سلطنت کے حکمران "مکرب" کہلاتے تھے جن کی تعداد اسی ( 80) کے قریب بیان کی گئی ہے ۔ 84ماہرین کا خیال ہے کہ مکرب کا لقب قُرب کے معنیٰ میں لیا جاتا تھا جو دیوتاؤں سے بادشاہوں کی قربت کا استعارہ تھا اور ایک مقدس لقب تصور کیا جاتا تھا۔اس میں کہا نت سے متعلق امور کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا تھا۔ بادشاہ ایک ہی وقت میں دیوتاؤں سے تعلق کا ذریعہ بھی تھا اور ان کے سامنے لوگوں کی شفاعت کرنے والی ہستی بھی تھا۔ یہ ایک حد تک معینیوں کے یہاں استعمال ہونے والے لقب "مزود" کے مترادف تھا تاہم بعد کے ادوار کے بادشاہوں کےلئے مکرب (Mukarrib)کا خطاب استعمال نہیں کیا گیا اور انہیں صرف" ملک" کا لقب دیا گیا ۔ یوں ایک طرح سے بعد کے حکمرانوں کے پاس صرف سیاسی اقتدار تھا جبکہ ابتدائی ادوار کے حکمران کو الہامی خصوصیات سے متصف بھی سمجھا جاتا تھا۔85ریاست ِ قتبان کے سب سے بڑا دیوتا کا نام "عم" (‘Amm)تھا جس کی نسبت سے وہ لوگ "بنوعم" بھی کہلائے۔86

قتبانیوں کی تحریروں کا انداز سبائیوں کی تحریروں کے مقابلے میں معینیوں سے زیادہ قریب تھا جن میں تجارت، تجارتی اسفار، قوانین اور انکی جزئیات سے متعلق عبارتیں بھی ملی ہیں ۔ان تحریروں میں قانون کے نفاذ کے حوالے سےبادشاہ کے نام کے ساتھ ساتھ لفظ "مشہود" کا ذکر بھی ملتا ہے جس کا مطلب وہ کونسل یا شوریٰ تھی جس میں مملکت کے رؤسا، شیوخ اور معززین جمع ہوتے تھے اور غور و فکر کے بعد فیصلے کرتے تھے۔ ریاست کی مرکزی شوریٰ کے ساتھ ساتھ ہر شہر کی اپنی الگ شوریٰ تھی اور اس شورائی نظام کا مرکز دارالحکومت "تمنع" تھا جو کہ کحلان کا موجودہ شہر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہم معاملات پر فیصلہ کرنے کے لیے قتبانیوں کے ہر شہر میں اسی طرح کا مشاورتی نظام موجود تھا جو کہ مقامی سطح پر فیصلہ سازی کرتا تھا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ مذکورہ قانون میں قتل کی سزا کا وضاحت کے ساتھ ذکر تھا اور قاتل کو سزائے موت دی جاتی تھی۔دیگر جرائم میں بادشاہ کے جاری کردہ احکامات اور بنائے گئے قوانین کے مطابق سزائیں دی جاتی تھیں۔دارالحکومت تمنع اور حریب نامی شہر سے دریافت ہونے والے ان سونے کے سکوں اور دھاتوں سے بنے مجسموں اور دیگر جگہوں پر پائے جانے والے دھاتی نمونوں سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اہلِ قتبان انتہائی ترقی یافتہ قوم تھے۔ان کی آثاری باقیات سے واضح ہے کہ جنوبی عرب میں تہذیب و تمدن کی ترقی و نمو میں اہلِ قتبان کا بہت بڑا حصہ تھا اور انہوں نے اس خطے کی تہذیب و تمدن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔87

(4)بادشاہت ِ حمیر (Himyarite Kingdom)

ریاست ِحمیر جنوبی عرب کی ایک بڑی ریاست تھی جس کا شمار قدیم عرب کی مشہور ترین حکومتوں میں ہوتا تھا۔ مؤرخین کے مطابق حمیر سبا کا بیٹا تھا اور اس کا شجرۂِ نسب قحطان بن عابر تک پہنچتا تھا۔ ابن عبد ربہ اندلسی نے حمیر کا شجرۂِ نسب حمیر بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان ذکر کیا ہے۔ 88مملکت ِ حمیر کی تاریخ دوسری صدی قبل مسیح کے اواخریعنی ایک سوپندرہ(115)قبل مسیح یا پہلی صدی قبل مسیح کے وسط سے شروع ہوئی تھی۔ چونکہ مملکتِ حمیر کا زمانہ دو حصوں پر پھیلا ہوا ہے اور بعض احباب سبا کی حکومت کو بھی اس سے ملادیتے ہیں اس لیے مؤرخین حکومتِ سبا اور حکومتِ حمیر کو کئی طبقات میں تقسیم کرتے ہیں ۔اس تقسیم کے مطابق بادشاہتِ سبا کا طبقہ اولیٰ، گیارہ سو(1100)قبل مسیح سے شروع ہوکر ساڑھے پانچ سو( 550)قبل مسیح پر ختم ہوتا ہےجبکہ بادشاہتِ سبا کا طبقہ ثانیہ، ساڑھے پانچ سو (550) قبل مسیح سے شروع ہوکر ایک سوپندرہ(115)قبل مسیح پر ختم ہوتا ہے جس کے بعد ریاستِ حمیر کا دور شروع ہوتا ہے۔ بادشاہت ِ حمیر کا طبقہ اولیٰ، ایک سوپندرہ(115)قبل مسیح سے شروع ہوکر تیس( 30)عیسوی پر ختم ہوتا ہے جبکہ بادشاہتِ حمیر کا طبقہ ثانیہ، تین سو(300)عیسوی کے اواخر سے شروع ہوکرپانچ سوپچیس( 525)عیسوی پر ختم ہوتا ہے۔89

مملکت حمیر ریاستِ سبا اور بحرِ احمر کے درمیان قائم ہوئی تھی۔ ان علاقوں کو پہلے قتبان کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ ابتداءمیں اس مملکت کا ظہور اسی قتبان نامی علاقہ میں ہوا تاہم بعد کے ادوار میں اس نے مملکتِ سبا اور ریدان کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا اور ریدان کو اپنا دار السلطنت مقرر کیا جو بعد میں "ظفار" (Zafar)کے نام سے مشہور ہوا۔ 90

وجہ تسمیہ

مؤرخین کے مطابق "حمیر" دراصل ریاستِ حمیر کے باسیوں کے قبیلہ کا نام تھا لیکن بعض کا خیال ہے کہ ا ن کے پہلے بادشاہ کا نام حمیر تھا۔ بعض مؤرخین نے ریاست ِ حمیر کے پہلے بادشاہ کا اصل نام "عرنجج" ذکر کیا ہے91 92اور چونکہ حمیر سبا کا بیٹا تھا اس لیے حمیر کے دورِ حکومت سے لےکر بعد تک، یمن میں ان کی اولاد میں جو بادشاہ گزر ے تھے اس پورے دورِ حکومت کو "حمیری ریاست کا دور" کہا جاتا ہے حالانکہ اس دور کے بادشاہ اپنے آپ کو "ملک سبا وذوریدان" کہا کرتے تھے۔ 93ان بادشاہوں کو شہرت اسی حمیر نام سے ملی اور اب مؤرخین اس دور اور ریاست کو حمیر ہی کے نام سے جانتے ہیں۔

سیّد سلیمان ندو ی کی رائےکے مطابق "حِمْیَر" عربی اور حبشی زبان میں "حمر" سے مشتق ہےجس کے معنی "سرخ" کے ہیں اور محاورہ میں" گورے رنگ" کو "احمر" کہتے ہیں جس کا مقابل "اسود" ہے۔ عرب کیونکہ اہلِ حبش کو "اسود" اور "سودان" کہتے تھے تو اس کے مقابلے میں یہ قوی امکان موجود ہے کہ اہلِ حبش عربوں کو "حمیر"یعنی "گورے رنگ کا " کہتے ہوں۔ بعض محققین نے "حمیر"کی وجہ تسمیہ کے بیان میں لکھا ہے کہ قومِ حمیر کا سب سے پہلا بادشاہ "عرنجج"چونکہ سرخ لباس پہنتا تھا اسی وجہ سے "حِمْیَر"کے لقب سے مشہور ہوگیا تھا، اسی کی نسبت سے اس کی اولاد "حمیر"کہلائی۔ 94

تبابعۂ یمن

حمیر کے طبقہ ثانیہ کے سلاطین کا لقب "ملکِ سبا وذوریدان وحضرموت" تھا۔ عرب ان کو تبع (جمع تبابعہ)کہتے تھے اور ممکن ہے کہ "تبع" عربی لفظ "متبوع" کے معنی میں ہو یعنی "جس کی پیروی یا اطاعت کی جائے"۔یہ اصطلاح یمن کے ان بادشاہوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی جنہوں نے بڑی فتوحات کی ہوتی تھیں۔ عبد الرحمن سہیلی المسعودی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ کسی بادشاہ کو اس وقت تک تبع نہیں کہا جاتا تھا جب تک وہ یمن، شحر اور حضر موت پر تسلط نہ جمالیتا تھا۔95ابن خلدون اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

  معني تبع الملك المتبع وقال صاحب المحكم التبابعة ملوك اليمن وأحدهم تبع لأنهم يتبع بعضهم بعضا كلما هلك واحد قام آخر تابعا له في سيرته وزادوا الباء في التبابعة لإرادة النسب قال الزمخشري قيل لملوك اليمن التبابعة لأنهم يتبعون كما قيل الأقيال لأنهم يتقيلون قال المسعودي ولم يكونوا يسمون الملك منهم تبعا حتي يملك اليمن والشحر وحضرموت وقيل حتي يتبعه بنو حشم بن عبد شمس ومن لم يكن له شيء من الأمرين فسمي ملكا ولا يقال له تبع.96
  تبع کے معنی ہیں"وہ بادشاہ جس کی پیروی و اطاعت کی جائے" اور صاحبِ محکم کہتا ہے کہ تبابعہ "ملوکِ یمن" کو کہتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو "تبع" کہیں گے کیونکہ ملوکِ یمن ایک دوسرے کے تابع ہوتے تھے۔ جب ایک بادشاہ مرجاتا تو دوسرا جو اس کا قائم مقام ہوتا تھا وہ سیرت و عادت میں اپنے ماسبق کے تابع ہوتاتھا اورانہوں نے تبابعہ میں ایک" ب" محض ارادہ نسب کے خیال سے زیادہ کردی ۔ زمخشری کہتا ہے کہ ملوک یمن کو "تبابعہ" اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے تابع ہوتے تھے اورمسعودی کا بیان یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے بادشاہ کو اس وقت تک "تبع" نہ کہتے تھے جب تک وہ یمن، شحر اورحضرموت کا بادشاہ نہ ہوجاتاتھا۔یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ "تبع "کہلائے جانے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ بنوحشم بن عبد شمس اس کے تابع ہوجائیں اور جس میں ان دونوں صفتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جاتی تو وہ ملک (بادشاہ) کہلاتا تھا نہ کہ تبع۔97

تبابعۂ ثلاثہ

یمن میں بہت سے تبابعہ گزرے ہیں تاہم ان میں سے تین زیادہ مشہور ہوئے۔ تبع اکبرحارث الرائش تھاجس کازمانہ دوسواسّی (280)عیسوی تا تین سو پندرہ (315)عیسوی تھا۔دوسراتبع اوسط اسعد ابوکرب بن کلیکرب تھاجس کا زمانہ چارسو (400) عیسوی تا چار سو پچیس (425)عیسوی تھااور تیسراتبع اصغرحسان بن تبع تھا جس کازمانہ چار سو پچیس (425)عیسوی تا چار سو پچپن (455)عیسوی تھا۔ تبع اسعد ابوکرب نے یہودیت قبول کرلی تھی ۔ ابن اسحاق کو نقل کرتے ہوئے ابن ہشام لکھتے ہیں:

  وتبان أسعد أبو كرب الذي قدم المدينة، وساق الحبرين (المدينة) إلي اليمن، وعمر البيت الحرام وكساه، وكان ملكه قبل ملك من يهود ربيعة بن نصر.98
  تبان اسعد ابو کرب وہی ہے جو مدینہ طیبہ آیا تھااور وہاں سے دو یہودی علماء کو یمن لے کر گیا تھا۔ اس نے بیت اﷲ کی تعمیر کی تھی اور اس پر غلاف چڑھایا تھا۔ اس کی بادشاہی ربیعہ بن نصر کی بادشاہی سے پہلے تھی۔

ابن ہشام کے مطابق جب ربیعہ بن نصر ہلاک ہوگیا تو تمام یمن پر ابوکرب حسان بن تباع اسعد کا قبضہ ہوگیا۔ تبان اسعد سب سے آخری تبع تھا جس کا نسب ابن کلی کرب بن زید تھا۔ زید کو تبع اول کہا جاتا ہےجس کا نسب زید بن عمر وذی الاذعار بن ابرہہ ذی المنار بن الریش تھا۔99

غیر ملکی حملے اور بیرونی تسلط

مملکتِ حمیر پر دوسری صدی عیسوی سے ساحلِ افریقہ پر آباد سبائی الاصل اکسومی حبشی قبائل نے حملے شروع کردیے تھے تاہم تبع اکبر حارث الرائش شمریہر عرش ( 280ء تا 315ء) نے انہیں حضرموت سے نکال باہر کیا اور یمن و حضرموت دونوں کا پہلا بادشاہ بن گیا۔ ٖ کے عہدِ اوّل کے آخر میں رومیوں نے یمن کی سب سے بڑی بندرگاہ عدن پر فوجی تسلط قائم کرلیا اور ان کی مدد سے اکسومی حبشیوں نے حمیر وہمدان کی باہمی کشاکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین سوچالیس ( 340)عیسوی میں پہلی بار یمن پر قبضہ کیا جو تین سو پچھتر( 375)عیسوی تک برقرار رہا۔ یوں یہ تین سوچالیس ( 340)عیسوی سے تین سو پچھتر(375) عیسوی تک اکسومی حبشی اکسوم سے یمن (حمیر) اور حضرموت پر قابض رہے۔ اس دوران شاہ اذینہ اور اس کے جانشین خود کو "ملک اکسوم وحمیر وریدان واثیوبیا وسبا وزیلغ"کہتے تھے۔100

525 ءسے 518 ء کے دوران حمیری بادشاہ ذونواس نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد نجران پر حملہ کرکے عیسائی پادریوں کو قتل کردیا اور اناجیل و گرجا گھروں کو جلا دیا توان میں سے چند عیسائی سلطنت ِ روم کے شہنشاہ جسٹینین اوّل (Justinian I)کے پاس پہنچے اور اس سے مدد مانگی ۔ شہنشاہ ِ روم نے اپنی باج گزار ممللکت ِ حبشہ کے بادشاہ نجاشی (The Negus of Ethiopia)کو یمن پر حملے کا حکم دیتے ہوئے بحری بیڑہ مہیا کیا۔نجاشی نےحملہ کرکے ذونواس کو قتل کردیا اور شدید جنگ کے بعد صنعاء پر قبضہ کرلیا۔ 101

کچھ عرصہ شاہِ حبش کے گورنر کی حیثیت سے اریاط (Ariat) نے یمن پر حکمرانی کی پھر اس کی فوج کے ایک ماتحت کمانڈر اَبرہہ اشرم (Abrahah Al-Ashram) نے اسے قتل کرکے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔اس واقعہ کو ابن ہشام نے اس طرح بیان کیا ہے:

  فأقام أرياط بأرض اليمن سنين في سلطانه ذلك، ثم نازعه في أمر الحبشة باليمن أبرهة الحبشي (وكان في جنده) حتي تفرقت الحبشة عليهما فانحاز إلي كل واحد منهما طائفة منهم، ثم سار أحدهما إلي الآخر، فلما تقارب الناس أرسل أبرهة إلي أرياط إنك لا تصنع بأن تلقي الحبشة بعضها ببعض حتي تفنيها شيئا فابرز إلي وأبرز إليك، فأينا أصاب صاحبه انصرف إليه جنده فأرسل إليه أرباط أنصفت فخرج إليه أبرهة، وكان رجلا قصيرا (لحيما حادرا) وكان ذا دين في النصرانية، وخرج إليه أرياط، وكان رجلا جميلا عظيما طويلا، وفي يده حربة له وخلف أبرهة غلام له، يقال له عتودة، يمنع ظهره فرفع أرياط الحربة فضرب أبرهة، يريد يافوخه فوقعت الحربة علي جبهة أبرهة فشرمت حاجبه وأنفه وعينه وشفته، فبذلك سمي أبرهة الأشرم، وحمل عتودة علي أرياط من خلف أبرهة فقتله، وانصرف جند أرياط إلي أبرهة، فاجتمعت عليه الحبشة باليمن، وودي أبرهة أرياط.102
  اریاط کئی سالوں تک سرزمینِ یمن کا والی رہا پھر حبشہ کے معاملہ میں ابرہہ کے ساتھ مخالفت ہوگئی یہاں تک کہ ان کی عوام تقسیم ہوکر کچھ اریاط اور کچھ ابرہہ کے ساتھ مل گئی پھر دونوں کی افواج ایک دوسرے کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئیں۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوگئے تو ابرہہ نے اریاط کی طرف پیغام بھیجا کہ ایک ہی لشکر کو باہم لڑاکر ان کی جانیں ضائع کرنے میں کوئی فائدہ نہیں، آؤ ہم آپس میں مبارزت کرتے ہیں، جو مغلوب ہوگیا اس کا لشکر دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔ اریاط کو جب یہ پیغام ملا تو اس نے کہا تمہارا یہ فیصلہ مجھے منظور ہے۔ ابرہہ مبارزت کے لیے میدان میں اترا، وہ پست قد اور فر بہ بدن کا مالک تھااور اس نے عیسائیت اختیار کر رکھی تھی ۔تب اریاط بھی معرکہ آزما ہونے کے لیے میدان میں آیا، وہ ایک حسین، جسیم اور دراز قد شخص تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا نیزہ تھا۔ ابرہہ کے پیچھے اس کا غلام عتودۃ تھا جو پیچھے سے اس کی حفاظت کررہا تھا۔ پہلے اریاط نے اپنا نیزہ اٹھایا اور ابرہہ کے سر پر مارنے کی کوشش کی لیکن اس کا نشانہ خطا گیا، نیزہ ابرہہ کے چہرے پر لگا۔ جس سے اس کی ابرو، ناک، آنکھ اور لب کٹ گئے، اسی وجہ سے اس کا نام "ابرھہ الاشرم" پڑگیا۔ عتودہ نے ابرہہ کے پیچھے سے اریاط پرحملہ کیا اور اس کو ہلاک کردیا اور اریاط کا تمام لشکر ابرہہ کے پاس چلاگیا اس طرح یمن کا پورا علاقہ ابرہہ کے زیر کمان ہوگیا۔

اس کے کچھ ہی عرصہ بعد عام الفیل کا واقعہ پیش آیا جس میں ابرہہ کی ہلاکت کے بعد اس کے دوبیٹے یکسوم اور مسروق یکے بعد دیگرے فرمانروائے یمن ہوئے۔

یمن پر فارسی اقتدار

چند سال بعد پانچ سو پچھر 575 عیسوی میں یمنیوں نے علمِ بغاوت بلند کرکے سیف ذی یزن حمیری کے بیٹے معدیکرب کی قیادت میں حبشیوں کو ملک سے نکال باہر کیا۔شاہ معد یکرب نے کچھ حبشیوں کو اپنی خدمت اور شاہی جلوس کی زینت کے لیے روک لیا لیکن یہ شوق مہنگا ثابت ہوا اور ان حبشیوں نے ایک روز معدیکرب کو دھوکے سے قتل کردیا۔ اب سیف ذی یزن نے شہنشاہِ فارس نوشیرواں کے دربار میں پہنچ کر فریاد کی کہ حبشیوں نے ہمارے ملک کو تاراج کردیا ہے۔ نوشیرواں نے سفیرِ یمن کو دس ہزار (10,000)درہم اور خلعت دے کر رخصت کردیا۔ سفیر نے دربار سے باہر نکلتے ہی درہموں کے دسوں کے دسوں

توڑے
شاہی محل کے غلاموں، کنیزوں اور دربانوں میں لٹادیے۔ نوشیرواں کو پتا چلا تو اس نے سیف کو واپس بلاکر شاہی عطیے کی اس بے توقیری کا سبب پوچھا۔ اس نے جواباً کہا میں تمہارے ان سیم وزرکے سکوں کے تحفے کا کیا کرتا! جس ملک سے میں آیا ہوں وہاں تو پہاڑ بھی سونے چاندی کے ہیں۔ نوشیرواں نے نرم پڑکر اسے کچھ دن اور ٹھہرالیا۔ مشاورت ہوئی تو وزراءِسلطنت نے رائے دی کہ شاہی جیلوں کے قیدی اس کے ہمراہ کردئیے جائیں کہ اگر یہ سارا گروہ مارا بھی گیا تو کچھ مجرم ہی کیفرِکردار کو پہنچیں گے۔ نوشیرواں کو یہ رائے پسند آئی چنانچہ آٹھ سو خونی مجرم قیدخانوں سے نکال کر فوجی افسر وہرز کی کمان میں سفیرکو دے دیے گئے۔ وہ انہیں چند جہازوں میں سوار کرکے عدن کے ساحل پر اترا اور یمنیوں کی جمعیت بھی اس ایرانی فوج سے آملی۔ ابرہہ کا بیٹا مسروق مقابلے کو نکلا مگر وہرز کے ہاتھوں مارا گیا اور حبشی فوج بھاگ نکلی۔یوں کسریٰ نے یمن کو فارس کا ایک صوبہ بنالیااور وہرز یمن کا پہلا ایرانی گورنر مقرر ہوا۔ آخری عجمی گورنر باذان نے چھ سو اٹھائیس( 628)عیسوی میں اسلام قبول کرلیا اور اس کے ساتھ ہی یمن فارسی اقتدار سے آزاد ہوکراسلام کی عملداری میں آگیا۔103 104

مذکورہ چار ریاستوں کی تفصیل سے واضح ہوتا ہےکہ جزیرہ نما عرب کی زندگی صرف صحرا اور بدؤوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ یہاں باقاعدہ عالیشان بادشاہتیں اور ریاستیں قائم تھیں۔ ان کے آثار سے ان کے ترقی یافتہ ہونے کا بھی پتا چلتا ہے نیز ان تہذیبوں میں انبیاء کا آنا اور دینِ حنیف کا موجود ہونا اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ ان کے پاس الہامی ہدایت بھی موجود تھی جس کو بعض افراد نے پسِ پشت ڈال دیا اور اس نافرمانی کی وجہ سے ان کی پوری ریاستیں تباہ و برباد ہوگئیں۔ مزید یہ کہ یہ طاقتور ریاستیں اپنی تمام تر افواج اور وسائل کے باوجود جزیرہ نما عرب کو کبھی پوری طرح متحد نہ کر پائیں اور یہ نبی کریم ﷺکا خاصہ ہے کہ اتنے قلیل وقت میں آپ ﷺ نے اس خطہ کو مشرف بااسلام فرما کر متحد فرمادیا۔

 


  • 1 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 355
  • 2 صالح احمد العلی،تاريخ العرب القديم والبعثۃ النبویۃ، مطبوعۃ: شرکۃ المطبوعات للتوزیع والنشر، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 19
  • 3 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 355
  • 4 توفيق برو، تاريخ العرب القديم ، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان ، 2001م، ص: 64
  • 5 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 250
  • 6 صالح احمد العلی، تاريخ العرب القديم والبعثۃ النبویۃ، مطبوعۃ: شرکۃ المطبوعات للتوزیع والنشر، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 19
  • 7 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 355
  • 8 Muhammad Mohar Ali (1997), Sirat Al-Nabi and the Orientalists, King Fahd Complex for the Printing of the Holy Quran, Madinah, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 30.
  • 9 Bernard Lewis (1954), The Arabs in History, Hutchinson’s University Library, London, U.K, Pg. 22.
  • 10 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 64-65
  • 11 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 355 -356
  • 12 ڈی لیسی اولیری، اسلام سے پہلے جاہلی عرب (مترجم: یاسرجواد)، مطبوعہ: نگارشات پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2015ء، ص: 89
  • 13 فلپ ہٹی، تاریخ ملت عربی(مترجم: سیّد ہاشمی فریدآبادی)، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 83
  • 14 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000 م، ص: 357
  • 15 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 73
  • 16 ابو القاسم محمود بن عمرو جاراﷲ الزمخشری، الجبال والامکنۃ والمیاہ، مطبوعۃ: دار الفضیلۃ للنشر والتوزیع، القاھرۃ، مصر، 1999م، ص: 297
  • 17 ڈی لیسی اولیری، اسلام سے پہلے جاہلی عرب (مترجم: یاسرجواد)، مطبوعہ: نگارشات پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2015ء، ص: 94-96
  • 18 فلپ ہٹی، تاریخ ملت عربی(مترجم: سیّد ہاشمی فریدآبادی)، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 83
  • 19 ابوعبید عبداﷲ بن عبد العزیز البکری، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، ج-4، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 1247
  • 20 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 207
  • 21 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 77
  • 22 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 212
  • 23 ایضا، ص: 214-215
  • 24 توفيق برو،تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر ، بیروت، لبنان ، 2001م، ص: 66
  • 25 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1420ھ، ص: 262-263
  • 26 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 214-215
  • 27 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص:81-105
  • 28 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 220
  • 29 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص:81-105
  • 30 ایضا، ص: 83
  • 31 ابوعبداللہ یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 364
  • 32 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 209
  • 33 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1420ھ، ص: 264
  • 34 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 52
  • 35 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 357
  • 36 ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-8، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 535
  • 37 ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی، التنبیہ والاشراف، مطبوعۃ: دار الصاوی، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 70
  • 38 احمد بن اسحاق ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ: منشورات المکتبۃ الحدریۃ، النجف، عراق، 1964م، ص: 168
  • 39 ڈاکٹر شوقی خلیل، اَطلس القرآن، مطبوعہ:دار السلام، لاہور، پاکستان، 1424ھ، ص: 173
  • 40 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاهرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 207
  • 41 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، ج-6، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 350
  • 42 أبو محمد عبد الرحمن بن محمد ابن أبی حاتم، تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم، ج-9، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1419ھ، ص: 2865
  • 43 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاهرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 207
  • 44 ابو حنیفۃ احمد بن داؤد الدینوری، الاخبار الطوال، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربی، القاھرۃ، مصر، 1960م، ص: 9
  • 45 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 101
  • 46 ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، التیجان فی ملوک حمیر، مطبوعۃ: مرکز الدراسات والابحاث الیمنیۃ، صنعاء، الیمن، 1347ھ، ص: 413
  • 47 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 626
  • 48 نشوان بن سعید الحمیری الیمنی، شمس العلوم ودواء الکلام العرب من الکلوم، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1999 م، ص: 2941
  • 49 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس، دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 236-237
  • 50 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج- 2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص:191
  • 51 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419م، ص: 446
  • 52 ایضا، ص: 445
  • 53 احمد بن اسحاق ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ: منشورات المکتبۃ الحدریۃ، النجف، عراق، 1964م، ص: 168
  • 54 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 446-447
  • 55 القرآن، سورۃ النمل 27: 24
  • 56 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 305- 306
  • 57 القرآن، سورۃ النمل 27-29: 44
  • 58 القرآن، سورۃ سبا17:34
  • 59 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 304
  • 60 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1420ھ، ص: 267- 268
  • 61 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ : معارف پریس، دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص: 254
  • 62 ابوبکر عبداﷲ بن محمد ابن ابی شیبۃ الکوفی، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، حدیث: 31859، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ، ص: 337
  • 63 ابو عبداﷲ احمد بن احمد القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج-13، مطبوعۃ: دار الکتب المصریۃ، القاھرۃ، مصر، 1964م، ص: 211
  • 64 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج-6، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 351
  • 65 ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر الدمشقی، تاریخ دمشق، ج-69، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 67
  • 66 القرآن، سورۃ النمل 27: 20- 44
  • 67 ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر الدمشقی، تاریخ دمشق، ج-69، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 67
  • 68 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 448
  • 69 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 192
  • 70 القرآن، سورۃ سبا 34: 16- 17
  • 71 ابو المحاسن محمد عصفور، معالم تاریخ الشرق الادنی القدیم، مطبوعۃ: دار النھضۃ العربیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 254
  • 72 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 310- 311
  • 73 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 69
  • 74 محمد بیومی مھران، دراسات فی تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، الاسکندریۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:221
  • 75 احمد معمور العسیری، موجز التاریخ الاسلامی منذ عہد آدم الی عصرنا الحاضر، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک الفھد، الریاض، السعودیۃ، 1996م، ص: 42
  • 76 توفيق برو،تاريخ العرب القديم ، دار الفكر ، بیروت ،لبنان ، 2001م، ص: 14
  • 77 محمد بیومی مھران، دراسات فی تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، الاسکندریۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 219
  • 78 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 173
  • 79 لطفی عبد الوہاب، العرب فی العصور القدیمۃ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، الاسكندریۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 137
  • 80 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 150
  • 81 ابوعبداللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-4، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 310
  • 82 ابو الفیض محمد بن محمد المرتضی الزبیدی، تاج العروس من جواھر القاموس، ج-3، مطبوعۃ: دار الہدایۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 518
  • 83 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 173
  • 84 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 310-311
  • 85 توفيق برو،تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر ، بیروت ،لبنان ، 2001م، ص: 70
  • 86 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 310-311
  • 87 توفيق برو،تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر ، بیروت ،لبنان ، 2001م، ص: 70-71
  • 88 ابو عمراحمد بن محمد ابن عبد ربہ الاندلسي، العقد الفرید، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1404ھ، ص : 320
  • 89 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 79
  • 90 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1420ھ، ص: 271
  • 91 ابو نصر اسماعیل بن حمادالجوھری، الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار العلم للملایین، بیروت، لبنان، 1987م، ص: 638
  • 92 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-4، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 164
  • 93 محمد بیومی مہران، دراسات فی تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، الاسکندریۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 266
  • 94 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-4، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 164
  • 95 ابو القاسم عبد الرحمن بن احمد السہیلی، الروض الانف، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 82
  • 96 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 58
  • 97 ابو زید عبد الرحمن بن محمدابن خلدون اشبیلی، تاریخ ابن خلدون (مترجم:حکیم احمد حسین الٰہ آبادی)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2003ء، ص: 89-90
  • 98 ابو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 20
  • 99 ایضاً، ص: 19
  • 100 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 311-312
  • 101 ابو حنیفۃ احمد بن داؤد الدینوری، اخبار الطوال، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربی، القاھرۃ، مصر، 1960م، ص: 62
  • 102 ابو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 41-42
  • 103 ابو حنیفۃ احمد بن داؤد الدینوری، اخبار الطوال (مترجم:مرزا محمد منور)، مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص: 145
  • 104 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 311-312