Encyclopedia of Muhammad

غیر مستحکم بادشاہتیں

جزیرہ ِ نما عرب میں پائی جانے والی سیاسی تشکیلات کی دوسری قسم چھوٹی مملکتوں اور غیر مستحکم ریاستوں پر مشتمل تھی۔ یہ حکومتیں اہم تجارتی مراکز کے آس پاس یا پھر دو بڑی متحارب سلطنتوں کے درمیان ایسے مقامات پر قائم ہوئیں جہاں ان کی موجودگی سے عالمی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ اس طرح کی غیرمستحکم مملکتیں دو بڑی عالمی طاقتوں (سلطنتِ روم و فارس)میں سے ہر ایک کی سرحدوں پر قائم ہوئیں جو ان میں سے کسی کے اثر و رسوخ کے دائرے میں داخل ہوتی تھیں اور اپنی سرپرستی کرنے والی عالمی طاقت کی سرحدوں پر بدوی چھاپہ ماروں یا کسی دوسری سلطنت کی طرف سے ہونے والے حملوں سے حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتی تھیں۔ 1

غیر مستحکم ریاستیں جزیرہ نما عرب کے شمالی حصے میں قائم ہوئیں جو جنوبی عرب کی مانند تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ یہ ریاستیں موجودہ عراق اور شام کے علاقوں میں قائم تھیں۔2 ان ریاستوں کے درمیان پائی جانے والی ایک مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ ان کا وجود عارضی نوعیت کاہوتاتھا جو سازگار تجارتی حالات کی برقراری یا بڑی متحارب سلطنتوں کے درمیان بین الاقوامی تعلقات اور حالات کے برقرار یا سازگار رہنے پر منحصر تھا۔ ان ریاستوں کے حالات کا بگڑنا یا ان کے وجود کا خاتمہ تجارتی خطوط میں تبدیلی یا پھر باہم برسرِ پیکار عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی ہونے پر منحصرتھا۔3اسی وجہ سے یہ حکومتیں اور ریاستیں عرب کی جنوبی ریاستوں کے مقابلے میں غیر مستحکم تھیں۔ ان میں سے پانچ(5) اہم ریاستوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

  1. غسانی بادشاہت (Ghassanids Kingdom)
  2. بادشاہتِ حیرہ (Kingdom of Al-Hirah)
  3. بادشاہتِ کندہ (Kingdom of Kindah)
  4. بادشاہت ِ تدمر (Kingdom of Palmyra/ Tadmur)
  5. ریاستِ انباط (Nabataean Kingdom)

(1) غسّانی بادشاہت

عرب کی قدیم سلطنتوں میں ایک بڑا نام "غسّانی بادشاہت " کا تھا جورومیوں کی ایک باجگزار حکومت تھی اور اُردن سے لے کر شام کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔4عالمی طاقتوں کا عرب باشندوں پر براہِ راست حکومت کرنا اور انہیں سر حدوں پر لوٹ مار سے باز رکھنا دقت طلب امرتھا اس لیے رومیوں نے سرحدی علاقوں میں عرب کے بدوؤں کی لوٹ مار روکنے اور فارسیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنو جفنہ کے سر پر دیارِ شام کی حکمرانی کا تاج رکھ دیا یوں ایک ریاست کا قیام عمل میں آیا جو ریاست غسانیہ یا غسانی بادشاہت کے نام سے مشہور ہوئی۔

وجہ تسمیہ

غسانی بادشاہ دراصل یمن کی کہلانی شاخ "ازد" سے تعلق رکھتے تھے 5اور انہیں مؤرخین آلِ غسان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ غسان بعض علماء کے نزدیک یمن میں ایک نہر کا نام تھا اور بعض کے نزدیک یمن میں ایک چشمے کا نام تھا جو سدِمآرب کے قریب واقع تھا۔ 6ابن خلکان کے مطابق بھی ان کی نسبت غسان کی طرف ہےجو بنوازدکاایک بڑاقبیلہ ہے۔ انہوں نے غسانی چشمہ سےپانی پیاجویمن میں ہےچنانچہ وہ اسی کے نام سےپکارےجانےلگے۔7مزید تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے ابن خلدون لکھتے ہیں:

  سار عمرو مزيقياء حتي إذا كان الشراة بمكة أقام هنالك بنونصر بن الأزد وعمران الكاهن وعدي بن حارثة بن عمرو بالأزد حتي نزلوا بين بلاد الأشعريين وعك علي ماء يقال له غسان بين واديين يقال لهما زبيد وزمع فشربوا من ذلك الماء فسموا غسان.8
  عمرو مزیقیاء جس وقت اثناءِ سفر میں مقامِ مکّہ پر وارد ہوا تو بنو نصر بن الازد، عمران الکاہن اور عدی بن حارثہ بن عمرو وہیں ٹھہر گئے اور بقیہ لوگ اس کے ہمراہ روانہ ہوئے حتی کہ وہ بلادِ اشعریین کے درمیان اترے اور چشمے پر ٹھہرے جسے غسان کہاجاتا ہےجوزبید اور زمع کی وادیوں کے درمیان ہے، انہوں نے اس سے پانی پیا اسی لیے انہیں غسانی کہا جاتا ہے ۔9

سمہودی نے بھی اپنی کتاب میں یہی تفصیل نقل کی ہے۔10یاقوت حموی نے نقل کیا ہے کہ اس چشمے کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ غسان نام کا ایک جانور اس میں گرپڑا تھاجس کی وجہ سے اس چشمے کا نام غسان پڑگیا تھا۔ 11یہ نام بنومازن کی تمام نسل پر محیط ہوگیا جن میں کئی قبائل شامل تھے جن میں اوس، خزرج اور بنوجفنہ وغیرہ سرِ فہرست تھے۔ سمہودی ابن حزم کے حوالہ سے صرف انہیں ہی غسانیوں میں شامل سمجھتے ہیں جو عمرو بن عامر مزیقیاء کی حقیقی اولاد میں سے تھے ۔ان میں بنو حارث ، جفنہ، مالک اور کعب شامل تھے۔12تاہم عموماً غسانیوں سے مراد صرف بنوجفنہ یعنی سرحدِ روم کے عرب فرمانرواؤں کا خاندان لیا جاتا ہے۔جو شام کی سرحدوں کی حفاظت کیا کرتے تھے اور بالخصوص جو لخمیان حیرہ کے مقابلے میں رومی سلطنت کے باجگزار تھے۔یہ خاندان اپنے جد اعلیٰ"جفنۃ" کی نسبت سے "جفنی" یا"آل جفنۃ" بھی کہلاتا ہے۔

تاریخ

سیل عرم کے پیشِ نظر یمن سے عربوں کے کئی قبیلوں نے ہجرت کی، ان ہی مسافروں میں"ازد"قبیلہ سے عمرو بن عامر مزیقیاء نے بھی دوسرے قبائل کے ساتھ ہجرت کی جو مختلف جگہوں سے گزرتے ہوئے بالآخرغسان کے مقام پر پہنچے۔ یہی لوگ غسانیوں کے آباؤاجداد تھے یوں غسانی عربوں کا تعلق یمن کے مشہورقحطانی خاندان اور پھر قحطانی خاندان کے مشہور قبیلہ "ازد" سے ہے یوں غسانیوں کا تعلق ازد کی ستائیس( 27)شاخوں میں سے سب سے پہلی شاخ سے ہے۔13

یہ لوگ جس وقت شام پہنچے تو اس وقت شام پر رومی سلطنت کی طرف سے بنوضجعم حکومت کررہے تھے۔بنو ضجعم کا تعلق بنی سلیح بن حلوان سے تھا 14جن کو بعد میں ضجاعمہ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ بنوضجعم بھی عرب میں سے تھے اور اس وقت بنوضجعم کے تین بادشاہ حکومت کرچکے تھے جن کے نام نعمان بن عمرو، مالک اور عمرو تھے۔15ضجاعمہ کا دورِ حکومت پوری دوسری صدی عیسوی پر محیط رہا۔ اس کے بعد آلِ غسان نے بنوضجعم کو شکست دی تو رومیوں نے انہیں دیارِ شام یعنی موجودہ جنوب مشرقی شام اور اُردن کے عرب قبائل کا بادشاہ تسلیم کرلیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب روم اور فارس ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھےا س لیے رومی سلطنت نے ازد قبیلہ کو برداشت کرلیا اور ان پر فوج کشی کے بجائے ان سے معاہدہ کرلیا نیز یہ علاقہ معاہدہ کرکے ازد قبیلہ کی اس غسانی شاخ کے حوالے کردیا۔اس معاہدے کے حوالہ سے ابن خلدون لکھتے ہیں:

  فخاف ملك الروم أن يعينوا عليه فارسا فكتب إليهم واستدناهم ورئيسهم يومئذ ثعلبة بن عمرو أخو جذع بن عمرو وكتبوا بينهم الكتاب علي أنه إن دهمهم أمر من العرب أمدهم بأربعين ألفا من الروم وإن دهمه أمر أمدته غسان بعشرين ألفا وثبت ملكهم علي ذلك توارثوه.16
  روم نے اس خیال سے کہ مبادا یہ گروہ فارس سے نہ مل جائے، ان کے سردار ثعلبہ بن عمر سے نامہ وپیام کرکے یہ معاہدہ کرلیا کہ "اگر کسی وقت عرب بنو غسان سے سرکشی کرے گا تو روم چالیس ہزار (40,000) رومیوں سے اس کی امداد کرے گا اور کسی وقت روم کو ضرورت پیش آئے گی تو غسان بیس ہزار (20,000)جنگ آوروں سے مدد کرے گا"۔ تکمیلِ معاہدہ کے بعد روم نے انہیں اپنی طرف سے حکمران مقرر کیا اور ان کی حکومت تسلیم کرلی۔17

چنانچہ سلطنتِ روم کے ساتھ اس معاہدہ کے بعد غسان کا پہلا بادشاہ ثعلبہ بن عمرو بن المجالد بنا اور یہ مرتے دم تک یہاں کا حاکم رہا۔ اس کے بعد ثعلبہ بن عمرو مزیقیاءحکمران ہوا18تاہم المسعود ی کے قول کے مطابق سب سے پہلے غسانی بادشاہ کا نام حارث بن عمرو تھا ۔ وہ لکھتے ہیں:

  فكان أول من ملك من ملوك غسان بالشام الحارث بن عمرو بن عامر بن حارثة بن امريء القيس ابن ثعلبة بن مازن وهو غسان بن الأزد بن الغوث.19
  شام میں غسانی بادشاہوں میں جس نے سب سے پہلے حکومت کی وہ حارث بن عمرو بن عامر بن حارثہ بن امریٔ القیس بن ثعلبہ بن مازن تھا۔ وہی درحقیقت غسان بن ازد بن غوث تھا۔20

یہ بادشاہت نسل در نسل چلتی رہی چنانچہ مؤرخین نے غسانی سلطنت کے اسلام تک جن مشہور بادشاہوں کے نام ذکر کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

  1. ثعلبہ بن عمرو بن المجالد
  2. حرث بن ثعلبہ
  3. منذر بن الحرث
  4. نعمان بن منذر
  5. ابو بشر بن الحرث بن جبلۃ
  6. الحرث الاعرج بن أبی شمر
  7. عمرو بن الحرث الاعرج
  8. منذر بن الحرج الاعرج
  9. الایہم بن جبلہ بن الحرث
  10. جبلہ بن ایہم۔21

یہ صرف ایک غسانی نسل کے بادشاہوں کے نام ہیں ورنہ عمرو بن عامر مزیقیاء کی دیگر اولاد میں سے بھی کئی غسانی سلطنت کے بادشاہ گزرے ہیں جن میں سے جفنہ، حارثہ، ثعلبہ، مالک، کعب اور عوف کے نام قبلِ ذکر ہیں ۔ مؤرخین میں اختلاف ہے کہ کل ملوکِ غسان کی تعداد کتنی تھی۔ابن خلدون کے مطابق وہ بتیس( 32)اشخاص تھے،22ابن كثير کے مطابق اکتیس( 31)23 اور مسعودی کے مطابق گیارہ(11)شاہان تھے 24 جبکہ ماہرِ انساب ابن عبد ربہ اندلسی کے مطابق یہ سینتیس (37) تھے۔25ان غسانی شاہان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں درج کیا جارہاہے :

حارث بن جبلہ

غسانی بادشاہوں میں اولین اہم شخصیت الحارث بن جبلہ کی ہے جس کا تاریخی وجودیونانی مصادر سے بھی ثابت ہےاور یہ لنگڑا ہونے کے سبب "الحارث الاعرج"یعنی "لنگڑا حارث" کے لقب سے مشہور ہے۔ یہ شخص آل جفنہ کا اہم ترین نمائندہ تھااور یونانی تاریخ میں اسے "Arethas"کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔اس کا دور تقریباً پانچ سو انتیس(529)عیسوی تا پانچ سو انہتر(569)عیسوی تک تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جسے رومیوں کی طرف سے جنگجو لخمی فرمانروا المنذر بن ماء السماء کا مدِمقابل بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ وہ منذر کی ٹکر کا آدمی ثابت ہوا اور پے در پے جنگ آزماہوکر اس نے منذر کا زور گھٹادیا جس پر بازنطینی شہنشاہ جسٹینین (Justinian) نے اسےپیٹریشیس (Patricius)اور فیلارزک (Phylarch)کے القاب سے نوازا جو "شہنشاہ" کے بعد بلند ترین اعزازات کی حیثیت رکھتے تھے۔26اس کی وفات پانچ سو انہتر(569) عیسوی میں ہوئی اور اس کے بعد ان کے بیٹے منذر کو جانشین مقرر کیا گیا۔27

المنذر

المنذر کا زمانہ پانچ سوانہتر(569) عیسوی تاپانچ سو اکیاسی(581)عیسوی کے لگ بھگ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک طبیعی فرقے کی پُرجوش سرپرستی کے باعث قسطنطنیہ کے بازنطینی دربار اورکلیسا میں اس کی مخالفت شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں کچھ عرصے کے لیے غسانیوں کے تعلقات اپنی سرپرست سلطنت روم سے کشیدہ ہوگئے۔ تاہم اپنے آخری دور میں وہ قسطنطنیہ گیا تو اس کا استقبال شایانِ شان طریقے سے کیا گیا اور پرانے اعزازات لوٹادیے گئے۔ اسی زمانے میں اس نے لخمیوں کی حریف ریاست کو تاراج کیا اور ان کے پایہ تخت حیرہ کو نذرِ آتش کرڈالا۔ تاہم عقیدے کی جو آویزش غسانیوں اور رومیوں کے مابین جنم لے چکی تھی اس کی چنگاری اندر ہی اندر برابر سلگ رہی تھی تا آنکہ حوارین کے مقام پر ایک کلیسا کا افتتاح کرنے پر المنذر کو گرفتار کرکے قسطنطنیہ لے جایا گیا اور بعد ازاں جلاوطن کرکے جزیرہ سسلی (Sicily) میں قید کردیا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام پورے کیے۔ المنذر کے بیٹے النعمان نے بازنطینی علاقوں پر حملے کرکے انہیں تاراج کرنا شروع کیا لیکن اس کا انجام بھی باپ سے کچھ مختلف نہ ہوااوراسے بھی قسطنطنیہ لے جاکر قید کردیا گیا۔ اس کے بعد آلِ غسان کا اقتدار محدود ہوتا چلا گیا اور صحرائے شام کے قبائلی سردار طوائف الملوکی کا شکار ہوگئے۔ ساسانی بادشاہ خسروپرویز نے چھ سو تیرہ (613 )عیسوی تا چھ سوچودہ(614) عیسوی میں یروشلم اور دمشق کو فتح کیا تو آلِ جفنہ کارہا سہا نام بھی مٹ گیا۔28

ایہم بن جبلہ

اس کے بعد ایہم بن جبلہ بن حارث بادشاہ ہوا جس نے عرب قبائل کو آپس میں لڑایا جس کی وجہ سے بعض قبائل عرب فنا ہوگئے۔ ابن خلدون ایہم بن جبلہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

  ثم ملك الأيهم بن جبلة بن الحارث وكان له رأي في الإفساد بين القبائل حتى أفنى بعضهم بعضا فعل ذلك ببني جسر وعاملة وغيرهم وكان منزله بتدمر وملك بعده منهم خمسة، فكان السادس منهم ابنه جبلة بن الأيهم وهو آخر ملوكهم.29
  پھر ایہم بن جبلہ بن الحارث بادشاہ بنا، اسے ایک قبیلے سے دوسرے کو لڑادینے کا بہت بڑا ملکہ حاصل تھا یہاں تک کہ بعض قبائل نے دوسرے چند قبائل کو تباہ وبرباد کردیااوریہی فعل اس نے بنوجسر، عاملہ اور دیگرقبائل سے کیا ۔یہ تدمر میں رہتا تھا اور اس کے بعد ان ہی میں سے پانچ بادشاہوں نے حکومت کی اور ان میں چھٹا بادشاہ اس کا بیٹا جبلہ بن ایہم تھا اور یہ ان کا آخری بادشاہ تھا۔

قیاس ہے کہ شاہِ ہرقل (Heraclius)، (چھ سو دس(610)تا چھ سو اکتالیس ( 641) عیسوی)نے جب چھ سو انتیس( 629) عیسوی میں ایرانیوں کو شام سے نکالا تو غسانیوں کی حیثیت بھی بحال کردی کیونکہ عساکر اسلام کے خلاف ہر قل کی فوج میں غسانیوں کی شرکت ثابت ہےچنانچہ آخری غسانی بادشاہ جبلہ بن الایہم جنگِ یرموک )چھ سوچھتیس(636)عیسوی (میں رومیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف شامل پیکار ہوا۔ بعد ازاں اس نے اسلام قبول کیا لیکن جلد ہی مرتد ہوکر واپس قسطنطنیہ چلاگیا۔ یہ حضرت عمر کے دورِ خلافت کی بات ہے۔30ساتویں صدی عیسوی تک غسان روم کی باجگزار ریاست رہا 31اور پھر حضرت عمر کی خلافت میں یہ خطہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا اور یوں سلطنتِ غسان زوال پذیر ہوگئی۔

(2)بادشاہتُ الحیرہ

شمالی عرب کی غیر مستحکم ریاستوں میں ریاستُ الحیرہ ایک اہم ریاست تھی جو سرزمینِ عراق میں قائم ہوئی۔ 32لخمیوں کے پایہ تخت " الحیرہ " کا محلِ وقوع کوفے سے تقریباً تین(3) میل 33جنوب میں قدیم بابل کے نزدیک تھا۔ بعدکے زمانوں میں جہاں بغداد، کوفہ اور بصرہ آباد ہوئے، وہاں سے لے کر خلیج کے ساتھ ساتھ بحرین تک کا علاقہ اس ریاست کی قلمرو میں شامل تھا۔34یہ سلطنتِ فارس کی باجگزار ریاست تھی اور اس خطے میں فارس کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی۔پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں اس کا شمار تہذیب و تمدن کے مراکزمیں کیا جاتا تھا۔ عرب کے جنوبی علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے باشندوں میں یمن کے بنو لخم بھی شامل تھے جو بعد ازاں یہاں کے حاکم ہوئے۔

وجہ تسمیہ

ایرانی ساسانی سلطنت کا باجگزار بننے سے پہلے حیرہ آزاد اور شاداب علاقہ تھا جو عربوں کے تسلط میں تھا ۔ اس کی قدیم تاریخ کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ یمنی حمیری بادشاہ تبع جب یمن سے نکل کر حیرہ کے مقام پر پہنچا تو مالک بن فہم بن غنم بن دوس ساز وسامان کے ساتھ یہیں ٹھہرگیا اوراس کے ساتھ تقریباً بارہ ہزار(12000) افراد مع ساز وسامان رک گئے جس پر مالک نے کہا کہ "تحیروا" یعنی اس مقام کو بھردو (یا اس مقام کو آباد کردو)اسی لیے اس جگہ کو "حیرہ "کہا گیا۔35اس کی دوسری وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ابن الفقیہ لکھتے ہیں:

  وإنما سميت الحيرة لأن تبعا لما سار إلي موضع الحيرة أخطأ الطريق وتحير هو وأصحابه فسميت الحيرة.36
  اوریہ "حیرہ"اس لیےکہلایاکہ تبع جب حیرہ کے مقام پرپہنچاتوراستہ بھٹک گیااورساتھیوں سمیت متردد اور تحیر کا شکارہواتواسی وجہ سےیہ علاقہ "حیرہ" کہلایا۔

تیسری وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے سیّد محمود شکری لکھتے ہیں:

  وهو من قولهم تحير الماء إذا اجتمع وزاد وتحير المكان بالماء إذا إمتلأ.37
  یہ تحیر الماء کے محاورہ سے لیا گیا (یہ اس وقت بولاجاتا ہے)جب پانی زیادہ مقدار میں جمع ہوجائے نیز کہتے ہیں تحیر المکان بالماء یعنی جب کوئی جگہ پانی سے پُر ہوجائے۔38

"حیرہ "کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ"الحیرہ" آرامی زبان کا لفظ ہے جو سریانی زبان کے "حِرْتا" اور عبرانی زبان کے لفظ "حَاصِر" سے مشتق ہے۔ اِس کے لغوی معنی" کیمپ، بیرک یا چھاونی "کے ہیں۔ مگر یہ نام اِسم معرفہ کی صورت میں تبدیل ہو گیا اور اِس کا اطلاق لخمی سرداروں کے مستقل کیمپوں پر ہونے لگا جو فارس کے شہنشاہوں کے ماتحت تھے۔ یہ عارضی کیمپ بعد ازاں ایک مستقل شہر کی صورت اِختیار کر گئے39جس کا نام "حیرہ" پڑگیا۔

تاریخ

حیرہ پر عربوں کی اولین حکومت مالک بن فہم نے قائم کی تھی جس کی وجہ سےمالک بادشاہوں کا ابو الاعلیٰ کہلایا۔اس کی حکومت میں حیرہ، اَنبار،40ہیت، عین التمر، غمیر قطقطانہ اورحفیہ کے جنگلات کا علاقہ شامل تھے۔ 41مالک اصلا سبا کی نسل سے تھا جو کہ جنوبی یمن کے باشندے تھے۔42احیرہ میں مالک نے بیس (20) سال حکومت کی یہاں تک کہ وہ فوت ہوگیا 43اور اس کے بعد اس کا بیٹا جذیمہ بن مالک حیرہ کا بادشاہ بنا جس نےحیرہ پر بعض مؤرخین کے نزدیک ساٹھ( 60)سال بادشاہت کی تاہم مسعودی نے اس حکو مت کا دورانیہ ایک سوا ٹھارہ(118)سال بتایاہے۔ جذیمہ بن مالک ہی وہ حکمران تھا جس کے زمانے میں بادشاہتُ الحیرہ ساسانی سلطنت کی باجگزار بن گئی تھی ۔ 44

سلطنت ِ فارس کے تسلط کا پس منظر

جب خاندان ساسان کا جدِ اعلیٰ ارد شیربن بابک پیدا ہوا تو اس نے اپنے دورِ حکومت میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا قلع قمع کرکے ایران کی وحدت وسا لمیت کو بحال کردیا اورجو عربی علاقے اس کے قرب وجوار میں تھے ان کو اپنے زیر نگین کرلیا۔ ان مقبوضہ عرب علاقوں میں حیرہ اورانبار کے علاقے بھی شامل تھے۔45اس وقت جزیرہ نمائے عرب شمال کی جانب دنیا کی دو عظیم ترین مملکتوں ایران اور روم سے متصل تھا لیکن عربوں کی قبائلی زندگی کی نوعیت اور اس سرزمین کے جغرافیائی کوائف کچھ ایسے تھے کہ ان کی سرحدی لوٹ مارسے روم و فارس زچ رہتے تھے۔ 46اردشیر نے بھی محسوس کرلیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہِ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے باز رکھنا ممکن نہیں لہٰذا اس نے ان ہی میں سے عربی کہلانی سردار جذیمہ کو حکمران بنادیا تاکہ بوقتِ ضرورت رومیوں کے خلاف ان سے مدد لی جاسکے چنانچہ شاہانِ حیرہ کے پاس فارسی فوج کی ایک یونٹ ہمیشہ موجودرہا کرتی تھی جس سے بادیہ نشین عرب باغیوں کی سرکوبی کا کام لیا جاتا تھا۔ یوں حیرہ کی حکومت سلطنتِ فارس کے ماتحت ہوگئی جو صدیوں تک یوں ہی باجگزار رہی اور بالآخر جب اسلام آیا تو یہ ریاست بھی اس خطے کی دیگر حکومتوں کی طرح اسلامی خلافت میں ضم ہوگئی۔

حیرہ کے لخمی حکمران

دوسو ارسٹھ(268)عیسوی میں جذیمہ کی وفات کے بعد عمرو بن عدی بن نصر لخمی اس کا جانشین ہوا جو جذیمہ کا بھانجا تھااورشاہ پور ساسانی کا ہم عصر تھا۔حیرہ میں ریاستِ لخم کا باضابطہ قیام اسی عمرو بن عدی لخمی سے ہوتا ہے ۔ اگرچہ عمرو سے پہلے اس کا نانا مالک بن فہم الازدی اور بعد ازاں ماموں جذیمۃ الابرش شاہپور کے باپ ارد شیر بابکان جو کہ بانیِ دولتِ ساسانیہ تھا، اس کے عہد میں دوسوچھبیس(226) تا دوسواکتالیس(241)عیسوی میں ایسے ہی منصب پر فائز تھے اور عمرو نے یہ منصب ان ہی کے تسلسل میں پایا لیکن وہ باعتبارِ خاندان ازدی تھے یعنی لخمی نہ تھے۔47یوں یہ لخمیوں کا پہلا بادشاہ بنا اوراس نے حیرہ پر ایک سو اٹھارہ( 118)سال حکومت کی 48جبکہ المسعودی کے مطابق اس کا دورِ حکومت سو(100)سال کا تھا۔49

اس کے بعد قباد بن فیروز کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی پانچ سو( 500)سال تک رہی۔ 50حیرہ کی یہ سلطنت لخمی خاندان اور اسی طرح مناذرہ کے نام سے بھی شہرت رکھتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لخمی خاندان میں کئی امیر منذر نام کے گزرے ہیں اس لیے اس کو "مناذرہ "کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہےاور سرزمینِ عراق کی نسبت سے انہیں "العراقیون"بھی کہا جاتا ہے۔51ان مناذرہ میں المنذر ثالث جو "ماء السماء" کے لقب سے مشہور تھا اس کا دور نمایاں دور سمجھا جاتا ہے۔ خانوادہ لخم کی نمایاں شخصیت المنذر ثالث ہے جس کا دور پانچ سو پانچ (505)عیسوی تا پانچ سو چون (554)عیسوی کے لگ بھگ تصور کیا جاتا ہے۔ عربوں میں وہ" المنذر بن ماء السماء" کے نام سے معروف ہے اور"ماء السماء" اس کی ماں کا لقب تھا۔ المنذر ثالث لخمیوں کے نہایت جابر، قاہر اور طاقتور شمار ہونے والے حکمرانوں میں سرِفہرست ہے اور اس کی خشم ناک(غضب ناک) وخونخوار طبیعت کے پیش نظر مناذرہ عراق میں "المنذر"(ڈرانے والا) کے مفہوم کا صحیح ترین اطلاق اسی کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ 52

اس کے دور میں ایران پر قباد کی حکومت تھی اور اسی قباد کے عہد میں مزدک (Mazdak) کا ظہور ہوا جو اباحیت کا علمبردار تھا۔ قباد اور اس کی رعایا کی بڑی تعداد نے مزدک کی ہمنوائی کی۔ قباد نے حیرہ کے بادشاہ منذر بن ماء السماء کو پیغام بھیجا کہ تم بھی یہی مذہب اختیار کرلو۔ منذر بڑا غیرت مندتھا سو انکار کربیٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قباد نے اس کو معزول کرکے اس کی جگہ مزد کی53دعوت کے ایک پیروکار حارث بن عمرو بن حجر کندی کو حیرہ کی حکمرانی سونپ دی۔ اس کے دور کے پہلے بیس(20) برس کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ منذر کو عارضی طور پر زوال آیا اور آلِ کندہ کے حارث بن عمرو نے عراق پر حملہ کرکے اسے بےدخل کردیا ۔54

قباد کے بعد فارس کی باگ ڈور کسریٰ نوشیرواں کے ہاتھ آئی، اسے مزدکیت (Mazdakism) سے سخت نفرت تھی چنانچہ اس نے مزدک اور اس کے ہمنواؤں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کروادیا او رمنذر کو دوبارہ حیرہ کاحکمران بنادیا ۔ منذر نے اپنی گزشتہ شکست کا بہت خوفناک بدلہ آلِ کندہ سے لیا اور ان کے شاہی خاندان کے اڑتالیس (48)افراد کو تہ تیغ کردیا جس کے بعد کندہ کو بتدریج مکمل زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ خود حارث بھی پانچ سوانتیس (529)عیسوی میں شکست کھاکر منذر کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ ایران کی مدِ مقابل سلطنت روم کے خلاف بھی منذر کے اقدامات بڑے شدیدتھے۔ اس نے سرزمینِ شام کو انطاکیہ کی حدود تک پامال کرڈالا۔ بالآخر رومیوں کی طرف سے آلِ غسان کا فرمانروا "الحارث الاعرج" اس علاقے پر مامور ہوا اور منذر کی ٹکر کا آدمی ثابت ہوا۔ اس کے بعد حیرہ اور غسان کی چپقلش جاری رہی حتیٰ کہ پانچ سوچون (554)عیسوی کے لگ بھگ مشہور ومعروف جنگ"یومِ حلیمہ" میں حارث الاعرج کے خلاف لڑتے ہوئے منذر مارا گیا۔55

زوال

اس کے بعد حیرہ میں لخمیوں کی حکومت میں اتار چڑھاؤ آتے رہے یہاں تک کہ چھ سوبتیس( 632)عیسوی میں لخمیوں کا اقتدارپھربحال ہوگیااور منذر بن معرور نے باگ ڈور سنبھالی مگر ابھی اسے برسرِ اقتداء آئے صرف آٹھ(8) ماہ ہوئے تھے کہ عہدِصدیقی میں حضرت خالد بن ولید اسلامی افواج کی قیادت کرتے ہوئے حیرہ میں داخل ہوگئے اور لخمی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے نام و نشان مٹا کر رکھ دیا۔ پھر دو تین سال کے اندر پورا عراق اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا اور مزید کچھ سالوں میں مسلمانوں نے سینکڑوں سال سے قائم اس وقت کی عالمی طاقت سلطنتِ فارس کا وجود بھی صفحۂِ ہستی سے مٹادیا۔56

(3) بادشاہت ِ کندہ

شمالی عرب کی تاریخ میں "بادشاہت ِ کندہ " ایک خاص مقام رکھتی تھی جس کے شاہان کا تعلق یمن کے مشہور قبیلہ قحطان سے تھا اور ان کا شجرۂِ نسب یمن کے مشہور بادشاہ سبا تک پہنچتا تھاجو ثور (کندہ) بن عفیر بن عدی بن حارث بن مرہ بن ادد کی طرف منسوب ہے۔ 57یہ ریاستِ غسانیہ اور ریاستِ حیرہ کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹی ریاست تھی۔ جس طرح ریاستِ حیرہ کے پیچھے فارس اور ریاست ِ غسان کے پیچھے روم کی طاقت تھی، ویسے ہی ریاست ِ کندہ کے اقتدار کے پیچھے یمن کے تبابع(حاکم) تھے بلکہ اس ریاست کی بنیادبھی یمن کے حاکم نے رکھی تھی جس کا نام تبع حسان تھا ۔ اس ریاست کا پہلا بادشاہ آکل المرار تھا جو یمن کے حمیری بادشاہوں کے تابع تھا ۔58 59

ریاستِ کندہ نجدکے اکثرعلاقوں پرمشتمل تھی جن میں شرقی حجاز کا علاقہ بھی شامل تھا۔ یہ شمال اور شمال مشرقی جانب شام و عراق کے مضافات تک پھیلی ہوئی تھی نیزجنوب میں عمان کےعلاقہ میں بھی بعض قبائل میں ان کا اثرونفوذتھا۔60کندہ کو نجد کے تمام قبائل پر حکمرانی حاصل تھی۔ان کے علاوہ حجاز اور عراق کی حدود تک کندہ کی حکومت تھی ۔غسانیوں کا بازنطینیوں اور لخمیوں کا فارسیوں سے جس نوعیت کا تعلق تھا، اسی نوعیت کا تعلق وسط عرب کے ملوکِ کندہ کا یمن کے خاندان تبع کے آخری بادشاہوں سے تھا۔61تاہم کندہ کو حیرہ اور غسانی سلطنتوں پر یہ امتیاز حاصل تھاکہ یہ سلطنت دیگر دونوں سلطنتوں کی طرح سرحدی حفاظت پر مامور نہ تھی بلکہ اس حوالہ سے یہ بالکل خود مختار تھی۔کندہ کا اثر و رسوخ غیر ملکی سرحدوں پر مرکوز ہونے کے بجائے جزیرہ نمائے عرب کے وسطی علاقے میں نجد اور یمامہ تک پھیلاہوا تھا اور اس علاقے میں منتشر اور خودسر قبائل کے کسی ایک سیاسی وحدت میں یکجا ہونے کا یہ پہلا تجربہ تصور کیا جاتا ہے۔62

وجہ تسمیہ

کندہ یمن کا ایک مشہور قبیلہ تھا جس کی کئی شاخیں عرب ملکوں میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ریاست ِ کندہ کی نسبت اسی قبیلۂِ کندہ کی طرف تھی۔ 63درحقیقت "کندہ" اس کالقب تھااور اصل نام ثور تھالیکن یہ اپنےلقب کندہ سے مشہور تھا۔ جیساکہ محدث ابن عبد البر مالکی لکھتے ہیں:

  كندة واسمه ثوروقال ابن اسحاق كندة هو ثور.64
  کندہ کا نام ثور تھا اور ابن اسحاق نے کہا کہ کندہ سے مراد ثور ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اُسے کندہ کا لقب اپنے والد کی نافرمانی کی وجہ سے ملا تھا۔ اس حوالہ سے ابو العباس قلقشندی لکھتے ہیں:

  كندة قبيلة من كهلان وكندة هذا أبوهم وإسمه ثور قال المؤيد صاحب حماه في تاريخه وإنما سمي كندة لأنه كند أباه أي كفر نعمه.65
  کندہ کہلان کا ایک قبیلہ ہےاوریہ کندہ ان کا باپ ہےجس کا نام ثورہے۔ صاحبِ حماہ المؤیدنےاپنی تاریخ میں کہا کہ یہ کندہ کہلایاکیونکہ اس نے اپنے باپ کےاحسانات کی ناشکری کی۔

یہ بات واضح ہے کہ ریاستِ کندہ کی نسبت قبیلۂِ کندہ کی طرف ہے اور اس قبیلے کی نسبت ان کے جدِ اعلیٰ ثور کی طرف ہے جس کا لقب کندہ تھا۔ بادشاہت ِ کندہ تقریباً ستر(70) سال قائم رہی اور اس کا زمانہ چارسو اسی ( 480) عیسوی سے ساڑھے پانچ سو( 550)عیسوی تک کا قرار دیا جاتا ہے تھا۔66

تاریخِ سلطنت کندہ

کندیوں کی یمن سے وسطی عرب میں آمد کا پس منظر یہ تھا کہ وسطی عرب میں موجود نجد کے بنوبکر قبیلے کے کم فہم لوگوں کے ہاتھ اقتدار آگیا جنہوں نے اہلِ عقل ودانش کواپنا دستِ نگر کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طاقتوروں نے کمزورں پر ظلم شروع کردیا۔ آخر صاحب رائے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا کوئی بادشاہ مقرر کرلیں جو کمزوروں کو ان کا حق دلواسکتا ہو۔ چونکہ عرب کسی صورت کسی ایک قبیلے کے سردار کو سب کا متفقہ بادشاہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوسکتے تھے لہٰذا تبع یمن سے رجوع کیا گیا یوں حسان تبع حمیری نے اندرون عرب لشکر کشی کی اور وہاں متعدد قبائل کو مطیع کرلیا اور اپنے سوتیلے بھائی حجر بن عمرو کو مفتوحہ قبائل کا حکمران مقرر کردیا۔ اس نے لخمیوں سے ٹکرلی، بنوبکر کے علاقے ان سے چھین لیےاور کندہ کا سب سے پہلا بادشاہ بن گیا 67یوں اس وقت موجود نجد کے تمام قبائل نے اس کی بادشاہت کوتسلیم کرلیا۔ کندہ پر حجر بن عمر آکل المرار نے تئیس( 23)سال حکومت کی ۔ اس حوالہ سے یعقوبی لکھتے ہیں:

  ملك حجر بن عمر آكل المرار ثلاثا وعشرين سنة وهو الذي حالف بين كندة وربيعة وكان تحالفهم بالذنائب.68
  حجر بن عمرو آکل المرار نے تئیس( 23)سال حکومت کی اور اسی نے کندہ اور ربیعہ کے درمیان معاہدہ کرایا اور ان کایہ معاہدہ "الذنائب" کے مقام پر ہوا۔ 69

اس طرح عرب وسطی کے تمام قبائل اس کی سرداری و فرمانروائی پر متفق ہوگئے جس سے ظلم و فضا کی دگرگوں صورت ختم ہوئی نیز جن قبائل نے اس کو فرمانروا تسلیم نہیں کیا تو ان سے جنگ لڑکر انہیں مجبور کیاگیا کہ اس کی بادشاہت تسلیم کریں۔حجر بن عمر کا لقب"آکل المرار" تھا۔ مرار ایک سخت کڑوا پودا ہے جس کے کھانے سے بعض روایات کے مطابق جانور مرجاتے ہیں لیکن مستند اہل لغت نے یہ توضیح کی ہے کہ یہ بہت اعلیٰ درجے کا چارہ شمار ہوتا ہے البتہ ذائقہ کڑوا ہوتا ہے جس کے کھانے سے اونٹوں کے ہونٹ سکڑکر اوپر کو چڑھ جاتے ہیں اور دانت نظر آنے لگتے ہیں۔اس توضیح کے مطابق حجر آکل المرار کی وجہ تسمیہ بھی یہی بتائی گئی ہے کہ خلقی طور پر اس (حجر بن عمرو) کے لب ودہن کی ساخت ایسی تھی کہ دانت نظر آتے رہتے تھے۔70

حجر بن عمر کی وفات کے بعد پھر اس کا بیٹا عمرو کندہ کا بادشاہ بناجس نے کندہ پرچالیس( 40)سال حکومت کی ۔71چونکہ عمرو بن حجر کندہ کی حکومت کو وسعت نہ دے سکا اس لیے یہ "المقصور " کے لقب سے مشہور ہوا جس کے حوالے سے ابن اثیر لکھتے ہیں:

  وهو المقصور ملكا بعد أبيه وإنما قيل له المقصور لأنه قصر علي ملك أبيه.72
  وہ مقصور ( یعنی عمرو بن حجر ) اپنے باپ کے بعد بادشاہ بنا اس کا لقب "مقصور" اس لیے پڑا کہ وہ باپ ہی کے مُلک میں محدودرہا ۔

المقصورکے بعد حارث حکومت کا وراث ہوااور یہ کندہ کا سب سے شجاع بادشاہ تھا۔ اس نے ایرانی بادشاہ قباذ کے مرنے کے کچھ روز بعد حیرہ پرپانچ سو انتیس(529)عیسوی میں قبضہ کرلیامگر پانچ سو اکتیس(531)عیسوی میں نوشیروا ں عادل کی تخت نشینی کے بعد یہ حکومت اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور حارث کندی لخمی منذر ثالث کے مقابلہ میں اپنا اقتدارقائم نہ رکھ سکا بلکہ منذر کے ہاتھ سے شاہی خاندان کے تقریباًپچاس(50) افراد کے ساتھ پانچ سو انتیس(529)عیسوی میں مارا گیاجن میں حارث کے دوبیٹے عمرو اور مالک بھی شامل تھے۔بعض روایات میں آتا ہے کہ حارث بنوکلب میں جاکر مقیم ہوگیا تھا اور انہوں نے اسے وہیں قتل کیا تھا۔73بنی کندہ کے اقتدار پر یہ ایسی ضرب تھی کہ پھر وہ پنپ نہ سکےچنانچہ حارث نے مرنے سے پہلےپانچ سو اٹھائیس (528) عیسوی میں سلطنت کندہ اپنے چار بیٹوں حجر، شرحبیل، معدی کرب اور سلمہ میں بانٹ دی تھی۔ اس حوالہ سے یعقوبی لکھتے ہیں:

  وفرق ملكه علي ولده وكان له أربعة أولاد حجر وشرحبيل وسلمة الغلفاء ومعدي كرب فملك حجرا في أسد وكنانة وملك شرحبيل علي غنم وطيء والرباب وملك سلمة الغلفاء علي تغلب والنمر بن قاسط وملك معدي بن كرب علي قيس بن عيلان وكانوا يجاورون ملوك الحيرة فقتلوا الحارث وقام ولده بما كان في أيديهم وصبروا علي قتال المنذر حتي كان كافئوه.74
  اس (حارث کندی) نے اپنی ریاست اپنے بیٹوں میں تقسیم کردی اور اس کے چار لڑکے تھے۔ حجر، شرحبیل، سلمۃ الغلفاء اور معدی کرب، اس نے حجر کو اسد اور کنانہ کا بادشاہ بنایا اور شرحبیل کو غنم، طی اور الرباب کا بادشاہ بنایا، سلمۃ الغلفاء کو تغلب اور النمربن قاسط کا اور معدی کرب کو قیس بن عیلان کا بادشاہ بنایا اور یہ ملوک حیرہ کےپڑوس میں رہتےتھے۔پس الحارث قتل ہوگیا اور اس کے لڑکوں کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا اسے انہوں نے سنبھال لیا اور المنذر سے جنگ کرنے پر ڈٹ گئے حتیٰ کہ اس کےلئے کافی ثابت ہوئے۔ 75

پھر یہ سب آپس میں اقتدار کے لئے لڑنے لگے جس سے ان کا شیرازہ بکھرا اور ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ان ہی لڑائیوں میں سے ایک خطرناک لڑائی" جنگِ کلاب" کے نام سے مشہور ہے جس میں ان کا بڑا سردار شرحبیل مارا گیا تھا۔76

مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ بادشاہت ِ کندہ ایک نمایاں عرب ریاست تھی جووسعت کے لحاظ سے غسانیہ اور حیرہ سے چھوٹی تھی لیکن عرب تاریخ میں اہم ریاست شمار کی جاتی تھی۔ ریاستِ کندہ کی نجد کے تمام قبائل پر حکمرانی قائم تھی اور اس کی حدود میں حجاز وعراق بھی آتے تھے۔ یہ حکومت تقریباً ستر( 70)سال قائم رہی اور اس کا عہدِ حکومت چارسو اسی ( 480) عیسوی سے ساڑھے پانچ سو( 550)عیسوی تک تھا۔

(4) بادشاہتِ تدمر

ریاستِ تدمر کا شمار شمالی عرب کی اہم غیر مستحکم ریاستوں میں ہوتا ہے۔یہ ریاست بادیہ یا صحرائی خطے کے کنارے واقع نخلستانوں میں ایک ایسےتجارتی مرکز کے طور پر وجود میں آئی جو شام کو عراق سے الگ کرتا تھا۔ یہ صحرائی خطہ شہرِ حمص کے مشرق میں 165 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔زمانۂِ قدیم میں عراق و شام کے درمیان سفر کرنے والے تجارتی قافلے ان ہی راستوں سے گزرتے تھے۔ 77اس ریاست کا مرکز تدمر نامی شہر تھا اور اسی کی نسبت سے یہ ریاستِ تدمر کہلائی تھی۔ یہ عہدِقدیم کی ایک عظیم الشان عرب ریاست شمار کی جاتی تھی اور تدمر کے علاوہ اس کو "عروس الصحراء" بھی کہاجاتاتھا ۔رومی اور یونانی زبانوں میں اس کا نام"Palmyra"تھااور انہوں نے یہ نام روم ویونان سے لیاتھا۔78اہلِ تدمر عربی نسل سے تھے نیزان کے اعلام اور ارامی کتبات میں بار بار عربی الفاظ کی تکرار پائی جاتی ہے۔ ان کی بولی نبطیہ اور مصر کی ارامی زبان کے مماثل مغربی ارامی کی شاخ تھی۔79تاریخی روایات سے پتا چلتا ہے کہ اہل ِتدمر عرب ِ بائدہ عمالقہ کی نسل سے تھے۔80

تدمر کی وجہ تسمیہ

ریاستِ تدمر کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے بعض اہلِ علم لکھتے ہیں کہ اس شہر کی بنیاد حضرت سلیمان نے رکھی تھی اور یہ اسی وقت سے تدمر کے نام سے مشہور تھا اور حضرت سلیمان نے یہاں بے شمار عمارتیں تعمیر کروائی تھیں81جبکہ بعض عرب م=رخین کے یہاں ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ سلطنت تدمر کا نام یہاں کے مشہور عربی بادشاہ اذینہ کے بیٹے حسان نے اپنی بیٹی کے نام پر رکھاتھا۔ 82اس لڑکی کا"نسب تدمربنت حسان بن اذینہ بن سمیدع بن مزید بن عملیق بن لاوذبن سام بن نوح" بیان کیا گیا ہے۔83کہا جاتا ہے کہ یہی اس شہرکی بانی تھی اور اسی کے نام سے اس علاقہ کو موسوم کیاگیا تھا اور یہیں اس کی قبرہے جبکہ حضرت سلیمان یہاں بعد میں آئے تھے۔8485 سیّد محمود شکری لکھتے ہیں کہ یہی معتمد علیہ روایت ہے کہ اذینہ بادشاہ کی پوتی کے نام سے یہ شہر مشہور ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اسے حضرت سلیمان نے بنایا تھا ان کی مراد یہ ہو کہ انہوں نے اسے خوبصورتی عطا کی تھی اور اس کی عمارتوں میں اضافہ کیا تھا تاہم حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔86نشوان بن سعید الحمیری نے بھی اسی رائے کو مستند قرار دیا ہے کہ تدمر عمالقہ کی ایک ملکہ تھی جس نے اس شہر کو تعمیر کیاتھا۔ 87

تاریخ

یہ ایک مالدار اور عظیم الشان سلطنت تھی جس کی بین الاقوامی تجارت چین تک پھیلی ہوئی تھی اور کاروانی شہر ہونے کے اعتبار سے یہ شہر بترا نامی تجارتی شہر کاصحیح معنی میں جانشین ہوگیاتھا جواس شہراہ پرایک بڑا شہر تھا۔88ریاست ِ تدمر (Palmyra) کے وجود اور استحکام کامدار اس کے محلِ وقوع کی اہمیت یعنی اہم تجارتی شاہراہ پر ہونے اور روم و فارس کی عالمی طاقتوں کے درمیان اہم مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے تھا۔89کچھ جدید م=رخین کا خیال ہے بابل کی سلطنت کے سقوط کے بعد یہ لوگ کنعان کے شرقی علاقوں میں آباد ہو گئے تھے اور بعد ازاں آرامی زبان سیکھنا،بولنا ، لکھنا اور پڑھنا شروع کردی تھی۔ مختلف سیاسی عوامل نے اس ریاست کے وجود کو متاثر کیا تاہم صحرا کے قلب میں واقع ہونے اوراپنے الگ تھلگ اور اہم مقام کا فائدہ اٹھاتے ہوئےاس ریاست نے طویل عرصے تک روم وفارس کی عالمی طاقتوں کے درمیان اپناوجود اور آزادی برقرار رکھی تاہم سلطنت ِ فارس اور سلطنت ِ روم دونوں اسے اپنے اثر میں لینا چاہتے تھے اور ان دونوں ہی کےلئے اس کی یکساں اہمیت تھی۔90

فارسیوں نے جب چھٹی صدی قبل مسیح سے چوتھی صدی قبل مسیح کے درمیان تمام مغربی ایشیا کو اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا تب تدمر ان کی تجارت کا مرکزی مقام تھا جس نے مشرقِ بعید، شام، عراق اور ترکی کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کی توسیع میں مدد دی۔ تدمر ہی وہ مرکزی جگہ تھی جو ان کی نقل و حمل کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔اس کی یہ حیثیت سلوقی ریاست(Seleucids State) کے قیام تک رہی۔سلوقیوں نے شام اور عراق کو متحد کیا اور مصر کے بطلیموسی (Ptolemy) حریفوں سے مقابلہ کےلئے تدمر سے گزرنے والے تجارتی راستے کو اہمیت دی اور اس کی ترقی کے خواہاں رہے۔ ریاست ِ تدمر نے ان کی اس پالیسی سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ اگرچہ ریاستِ تدمر اس دوران سیاسی حوالے سے سلوقی سلطنت کے زیرِ نگیں رہی مگر یہاں خوشحالی کا دور دورہ رہا۔یہ کیفیت سلطنتِ روم کے اس خطے پر کنٹرول تک برقرار رہی۔سلطنت ِ روم کے تدمر پر کنٹرول کی تاریخ کا صحیح تعین نہیں ہے تاہم تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ41 قبل مسیح میں مارک انٹونی (Mark Antony) جب سلطنت ِ فارس کے خلاف عسکری مہم مکمل کرکے واپس آرہا تھا تو واپسی پر اس نے تدمر میں قیام کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔اہل ِ شہر اس کی نیت کو بھانپ گئے تھے کہ ا س کا مقصد شہر پر قبضہ کرنا ہے اس لیے وہ شہر خالی کر کے چلے گئے اور جنگ کی تیاری شروع کردی۔ رومیوں نے اس دوران تدمر شہر میں داخل ہو کر تباہی مچائی۔ ریاست ِ تدمر پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں رومی اثر و رسوخ میں داخل ہوئی اور دوسری صدی کے آغاز میں رومی سلطنت کا حصہ بن گئی تھی اور اس کی یہ حیثیت تیسری صدی عیسوی کے آخری ربع تک برقرار رہی لیکن اس کے باوجود سلطنتِ فارس اور رومی سلطنت کے درمیان سرحدی پوزیشن کی وجہ سے، یہ کسی حد تک الگ ریاست کی حیثیت رکھتی تھی ۔سلطنتِ روم نے یہاں رومی گورنر تعینات نہیں کیے بلکہ یہاں کے حکمران مقامی ہی تھے جنہوں نے مشرقی رومی سرحد کے دفاع کی قیمت پر سلطنت ِ فارس کے توسیع پسندانہ عزائم اور کوششوں کا مقابلہ کرنے کےحوالے سے سلطنت ِ روم کے لیے غیر معمولی وفاداری کا مظاہرہ کیا۔

روم و تدمر کے تعلقات جبر و محکومی کی پالیسی کے دور کو چھوڑ کر زیادہ تر بہترہی رہے۔ 130 عیسوی میں، شہنشاہ ہیڈرین (Emperor Hadrian) نے جب فارسیوں کے ساتھ پُرامن تعلقات کے دور کا آغاز کیا تو اس نے تدمر کا بھی دورہ کیا اور اسے "ہدریانا پالمیرا" (Hadriana Palmyra) کا نام دیا اور رومی کالونی کا درجہ دیا تاہم یہ ریاست اپنے داخلی معاملات میں آزاد رہی۔ریاست کے معاملات چلانے کےلئے ایک ایگزیکٹو اتھارٹی قائم کی گئی جس کی سربراہی دو شیوخ کے پاس تھی اور دس اراکین پر مشتمل عدالت اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مجلسِ شیوخ( سینیٹ) بھی تھی جسے قانون جاری کرنے اور ٹیکسوں کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل تھا۔ 91یہ مجلس جسے بولو(Boulo) کہا جاتا تھا شورائی نظام کی ایک صورت تھی جس میں صاحبِ عزت و صاحب ِ ثروت لوگوں کو شامل کیا جاتا تھا۔ اسی طرح ہر قبیلے کی ایک الگ کونسل بھی ہوتی تھی جسے "ڈیموس" (Demos) کہا جاتاتھا ۔ شہر کا ایک گورنر ہوتا تھا جسے "آراخون" کہا جاتا تھا۔ مالی امور کا نگران، بازاروں کا نگران ، فوج کا کمانڈر اور گیریژن کمانڈریہاں کے اہم عہدے تھے۔ قافلوں کی حفاظت کے لیے ایک پولیس فورس تھی جس کی قیادت مالدار تاجروں کے ایک سردار کو سونپی گئی تھی۔ریاستِ تدمر میں موروثی شاہی حکمرانی قائم تھی جو ایک طرح سے حکمرانوں کے انفرادی اختیارات اور مجالس (کونسلوں) کے اختیارات کا سنگم تھی ۔ 92

تیسری صدی عیسوی کے وسط میں ریاستِ تدمر نے جب سلطنت ِروم کے مقابلے میں سلطنت ِ فارس کے ساتھ مفاہمت کرنے اور مصر سے وسط ایشیا تک اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش شروع کی تو سلطنتِ روم نے 272 عیسوی میں ان کے دارالحکومت پر حملہ کرکے اسے صفحۂِ ہستی سے ہی مٹا دیا ۔یوں اس ریاست کا وجود صفحۂِ تاریخ سے ہمیشہ کیلئے مٹ گیا یہاں تک کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور سیاحوں نے اس کے کھنڈرات دریافت کیے اور اس کی تاریخ و تہذیب کی تصویر مرتب کرنے کی کوشش شروع کی۔93یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بعض مؤرخین نے تدمر پر بحر ِ مردار کے جنوب میں واقع شہر "تامار " کا گمان کیا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہےحضرت ِ سلیمان نے جنات کی مدد سے جس شہرِ تامار کو تعمیر کرایا تھا وہ ایک الگ شہر تھا مذکورہ بالا ریاستِ تدمر نہیں تھا۔ 94

(5) بادشاہتُ الانباط

جزیرہ نما عرب کے شمال مغربی حصے میں سیلع یا الصخرہ نامی شہر او ر اس کے آس پاس کے علاقے میں "الانباط" کی ریاست قائم ہوئی جسے یونانی مصنفین پیٹرا(Petra) کے نام سے جانتے تھے۔95اس ریاست کو قدیم عرب کی "نبطی" قوم نے قائم کیا تھا ۔ لفظِ"نبط" کی جمع عربی میں "انباط" ہے اور یہ بھی عربوں میں سے ایک زبردست قوم تھی جوعرب کے ایک بڑے حصے پر آباد تھی۔ بعض عرب مؤرخین نبطی قوم کو عربوں میں شمار نہیں کرتے یہاں تک کہ اسلامی تاریخ میں بھی ان کا ذکر بہت کم کیاگیا ہے اس لیے نبطی قوم کے بارے میں جوکچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اکثر رومی و یونانی روایات اور کتبات سے اخذ کیا جاتا ہے اوراسی وجہ سے بعض علماء ان کو غیر عرب سمجھتے تھے۔منقول ہے کہ اہل عرب عموماً نبط کو قوماً واصلاً غیر عرب سمجھتے تھے اور انہیں بنی ارم میں شمار کرتےتھے۔ ان کے نزدیک عرب وعجم جس طرح دو مقابل نام ہیں اس طرح عربی ونبطی بھی باہم متقابل ہی تھے اور اس کا سبب معاشرت، طرزِ زندگی اور زبان کا اختلاف تھا لیکن یہ ایک کمزور رائے ہے اور مضبوط مؤقف یہی ہے کہ وہ اہل عرب ہی تھے۔اس حوالہ سے حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبطیوں سےان کا نسب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم کوثی (واقع عراق) کے نبط ہیں اور یہ بالاتفاق معلوم ہے کہ وہ اسماعیلی قریشی عرب تھے لہٰذااس سے ثابت ہوگا کہ نبط اسماعیلی عرب تھے جو عراق تک پھیلے ہوئے تھے۔ 96

اسی طرح جو کتبے دریافت ہوئے ان پر واضح الفاظ میں عربی میں نبطیوں کے نام درج ہیں اور ان کتبات پر بتوں کے نام بھی وہی ہیں جو دورِ جاہلیت کے اہلِ حجاز کے بت تھے۔ اس سے بھی یہ دلیل لی جاتی ہے کہ نبط قوم اہلِ عرب تھے اور بنو اسماعیل سے تھے۔ ڈاکٹر جواد علی نبطیوں کے اہلِ عرب ہونے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  والرأي السائد اليوم بين العلماء أن النبط عرب مثل سائر العرب وإن استعملوا الأرمية في كتاباتهم بدليل إن أسمائهم هي أسماء عربية خالصة وإنهم يشاركون العرب في عبادة الأصنام المعروفة عند عرب الحجاز مثل ذي الشري واللات والعزي وإنهم رصعوا كتاباتهم الأرمية بكثير من ألفاظ العربية….وعندي أن النبط عرب بل هم أقرب إلي قريش وإلي القبائل الحجازية التي أدركت الإسلام من العرب يعرفون بالعرب الجنوبيين والنبط يشاركون قريشا في أكثر أسماء الأشخاص كما يشاركونهم في عبادة أكثر الاصنام.97
  موجودہ زمانہ میں علماء کے مابین یہ رائے غالب ہےکہ سارے عرب کی مانند نبط بھی عرب ہیں اگر چہ کہ انہوں نے اپنی کتابت میں ارمی زبان کا استعمال کیاہے۔ اس دلیل کےتحت کہ ان کے نام خالص عربی نام ہیں اوروہ عرب کی طرح عرب کے مشہور بتوں کی پوجاکرتےہیں جیسے ذی الشری، اللات اور العزی، انہوں نے اپنی ارمی تحریروں کو عربی کے کثیر الفاظ سے مزین کیاہے۔ ۔۔میرے (جواد علی) نزدیک نبط عرب ہیں بلکہ وہ قریش اوردیگر حجازی عربی قبائل کےقریب ترہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اوریہ جنوبی عرب سے جانے جاتےہیں، ایسے ہی یہ نبط ناموں میں بھی قریش کےساتھ مشترک ہیں جیسے اکثر بتوں کی عبادت میں۔

ان اقتباسات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ نبطی قوم بھی عرب ہی میں سے تھے کیونکہ ان کے نام،ان کے اصنام اور ان کا طریقۂِ عبادت وغیرہ حجازی عربوں سے ملتا جلتا تھا ۔

تاریخ

حضرت اسماعیل کے بارہ (12) فرزند ہوئے98اور آپکی وفات کے بعد آپ کے بڑے بیٹے نابت آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔99نابت کی اولادیں کچھ عرصے تک تو اندرونِ ملک حجاز آباد تھیں لیکن جب نابت کی اولاد پر مکّہ تنگ ہوا تو یہ لوگ مکّہ سے مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگےجو بعد میں نبط کے نام سے ایک بڑی قوم بن گئے۔ تاریخ میں اسی نابت کی اولاد کو نبطی یا انباط کہا جاتا ہے۔ تاہم نابت کی اولاد نے حضرت اسماعیلکی وفات کے بعد فوراً مکّہ سے ہجرت نہیں کی بلکہ کافی عرصے بعد یہ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

جب ان لوگوں نے ہجرت کی تو ان کی آبادیاں مختلف علاقوں میں پھیل گئیں تاہم نبطیوں کے تمدّن کو شمالی حجاز میں عروج حاصل ہوا۔ انہوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کرکے گردوپیش کے تمام لوگوں پر اپنی حکومت قائم کرلی اور دوسری ریاستوں کو اپنا باجگزار بنالیا۔ پیٹرا (Petra) ان کا دار الحکومت تھاجس کے کھنڈر جنوب مغربی اردن میں موجود ہیں۔ پھر رومیوں کا دور آیا اور انہوں نے نبطیوں سے سلطنت چھین لی۔ 100

حکمران

نبطی معاشرہ اوریہاں کا سیاسی نظام منظم اور جمہوری طرزِ عمل کی وجہ سے ممتاز تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہاں غلام بہت کم تھے اور ان کا نظامِ حکومت موروثی بادشاہت کے نظام پر مبنی تھا لیکن بادشاہ ریاست کی پالیسی اور انتظام میں ایک مشاورتی کونسل کی مدد سے فیصلہ کرتا تھا جو اس کے ساتھ حکومت و فیصلہ سازی سمیت ریاست کے مختلف امور کےانتظام میں شریک ہوتی تھی۔ 101جس طرح مصر کے بادشاہوں کو فرعون، روم کے بادشاہوں کو قیصر، فارس کے بادشاہوں کو کسریٰ اور حبشہ کے بادشاہوں کو نجاشی کہا جاتا تھا اسی طرح نبطیوں کے بادشاہوں کو "حارث" کہا جاتا تھا۔ سیّد سلمان ندوی نے اپنی کتاب میں ایک فرانسیسی مستشرق کے حوالہ سےشاہانِ انباط کی ایک فہرست بمع عہد ِحکومت درج کی ہے جس کا اقتباس حسب ذیل ہے:

  • حارث اوّل..............................ایک سو انہتر(169) قبل مسیح۔
  • زید بابل.................................ایک سوچھیالیس(146)قبل مسیح۔
  • مالک اوّل................................ایک سودس(110)قبل مسیح۔
  • حارث ثانی...............................ایک سودس(110) قبل مسیح تا چھیانوے( 96) قبل مسیح۔
  • عبادہ اوّل................................نوے(90 )قبل مسیح۔
  • ریبال اوّل بن عبادہ اوّل...................ستاسی(87) قبل مسیح۔
  • حارث ثالث بن ریبال....................ستاسی(87) قبل مسیح تاباسٹھ( 62) قبل مسیح۔
  • عبادہ ثانی بن حارث ثالث.................اکسٹھ(61) قبل مسیح تاسینتالیس( 47) قبل مسیح۔
  • مالک دوم بن عبادہ ثانی....................سینتالیس( 47) قبل مسیح تا تیس( 30) قبل مسیح۔
  • عبادہ ثالث بن مالک دوم..................تیس( 30) قبل مسیح تانو( 9) قبل مسیح۔
  • حارث رابع بن مالک دوم.................(حارث سمیت درج ذیل خلدو اور شقیلہ نے)۔
  • خلدو (خالدہ) و زوجہ حارث..............نو(9)قبل مسیح تا چالیس(40) عیسوی۔
  • مالک سوم بن حارث....................چالیس(40) عیسوی تا پچھتر( 75) عیسوی۔
  • ریبال ثانی بن مالک ثانی..................(ریبال سمیت اس کی بیوی زوجہ )۔
  • جمیلہ زوجہ زیبال.......................پچھتر(75) عیسوی تاایک سو ایک(101) عیسوی۔
  • مالک چہارم............................ایک سو ایک(101) عیسوی تاایک سونو(109) عیسوی۔102

اگرچہ الانباط کی حکومت کافی وسیع رقبے پر محیط تھی تاہم پہلی صدی عیسوی کے دوران، بحیرہ احمر سے بحرِ ہند تک سمندری تجارتی لائن کے فعال ہو نے سے زمینی خطوط پر ہونے والی تجارت کا ایک اہم حصہ اُس طرف منتقل ہو گیا جس کی وجہ سے پیٹرا کی اہمیت اور تجارتی لحاظ سے حیثیت بہت کم ہو کر رہ گئی اور تجارتی اہمیت کا مرکز پیٹرا سے شمال میں تدمر کی طرف منتقل ہو گیا یوں مملکتُ الانباط کی معاشی حالت کی خرابی کے سبب اس کا زوال شروع ہو گیا۔ انباط کی ریاست نے اس دوران چٹانوں سے گھرےاپنے مستحکم اور محفوظ دار الحکومت کی وجہ سے سلطنت ِ روم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا شروع کی جس کے نتیجے میں سلطنتِ روم نے اس خطے میں اسے سلطنتِ فارس کی توسیع کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر استعمال کرنےکا فیصلہ کر لیاجس کے بعد سلطنت ِ رو م نے انباط کی ریاست (Nabataean Kingdom)کو اپنے دائرہ اثر میں متعارف کرایا جس کے نتیجے میں یہ ریاست رومی اثر میں داخل ہونا شروع ہو ئی اور انباط کی ریاست کا وجود اوراہمیت سلطنتِ روم پر منحصر ہوگئی یوں 105 عیسوی کے آس پاس یہ ریاست رومی سلطنت کا ہی ایک حصہ بن کر رہ گئی۔103

ریاست ِ انباط (Nabataean Kingdom)کا سیاسی اور معاشرتی نظام منظم اور جمہوری طرزِ عمل کا حامل تھا۔یہ نظام موروثی بادشاہت (Hereditary Monarchy System)کے طریقۂِ کار پر مبنی تھا تاہم یہاں ایک مشاورتی کونسل (Consultative Council) موجود تھی جو مملکت کی پالیسی سازی اور انتظامی امور میں بادشاہ کی مدد کرتی تھی اور انتظامی و دیگر امور میں بادشاہ کے ساتھ شریک کار ہوتی تھی۔104 جب اسلام کا ظہور ہوا تب بھی انباط دنیا سے معدوم نہ تھے بلکہ ملکِ شام میں ان کا پیشہ غلہ اور روغن فروشی رہ گیا تھا، اوپر کے شہرتدمر، معان، بصریٰ وغیرہ آلِ غسان کے ہاتھ میں اور حجر، تیما، خیبر وغیرہ جو پہلے نبطیوں کے گھراو رقلعے تھے، ان سب پر یہود قابض تھے۔ نبطیوں کی بقیہ آبادی قومی حیثیت کھوکر یہودیوں، یونانیوں اور رومیوں میں اس طرح گھل مل گئی تھی کہ عہدِ اسلام میں ان اطراف میں جب عرب پھیلے تو کوئی ایک دوسرے کو پہچان نہ سکا۔ عربوں نے ہمیشہ ان کو ایک اجنبی قوم سمجھا اور یہ خود بھی اپنے آپ کو عربی کے بجائےنبطی کہتے تھے حالانکہ اصلاً وہ عرب ہی تھے ۔

مندرجہ بالا ریاستوں کے سیاسی احوال کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جزیرہ نما عرب کی غیر مستحکم ریاستوں میں سے کچھ کی بنیاد ایک جانب جنوبی عرب سے شام کی طرف جانے والے تجارتی راستوں اور دوسری جانب عراق کی سمت جانے والے تجارتی راستوں کی اہمیت پر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب تجارتی راستوں کی اہمیت کم ہونا شروع ہوئی تو ان ریاستوں کا توازن بگڑنا شروع ہو گیا اور ان کی اہمیت اور شان و شوکت بھی ختم ہو گئی۔ ان میں سے کچھ ریاستیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کےلئے سلطنت ِ روم اور اس سے متعلق شامی و سلوقی حکام کے مفادا ت کے تحفظ اور کچھ سلطنت ِ فارس اور اس سے متعلق عراقی ، آشوری ، بارثیینی اور ساسانی حکام کے مفادات کے تحفظ پر انحصار کرتی رہیں اسی لیے یہ غیر مستحکم ریاستیں اپنے وجود کےلئے ایک مستحکم بنیاد موجود نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکیں اور سیاسی و معاشی عوامل میں تغیر و تبدل کے سبب اپنا وجود کھو بیٹھیں۔

 


  • 1 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص:344-345
  • 2 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 99
  • 3 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 353
  • 4 فلپ ہٹی،تاریخ ملت عربی(مترجم: مولوی سیّد ہاشمی فریدآبادی)، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 118
  • 5 ابو الفداء اسماعیل بن علی الملک المؤید، المختصر فی اخبار البشر، ج- 1، مطبوعۃ: المطبعۃ الحسینیۃ المصریۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:101
  • 6 ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-4، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 204
  • 7 ابو العباس احمد بن محمد ابن خلکان الاربلی، وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 163
  • 8 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 334
  • 9 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون اشبیلی، تاریخ ابن خلدون (مترجم:حکیم احمد حسین الٰہ آبادی)، ج-2، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2003ء، ص: 362
  • 10 ابو الحسن علی بن عبداﷲ السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 137
  • 11 ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-4، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 203
  • 12 ابو الحسن علی بن عبداﷲ السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 134
  • 13 محمد حفظ الرحمن سیوہاروی، قصص القرآن، ج- 3، مطبوعہ: عبداﷲ اکیڈمی، لاہور، پاکستان، 2009ء، ص: 252
  • 14 ابو محمد علی بن احمد ابن حزم اندلسی، جمھرۃ انساب العرب، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1983م، ص: 450
  • 15 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 640
  • 16 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 335
  • 17 ابو زید عبد الرحمن بن محمدابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون (مترجم:حکیم احمد حسین الٰہ آبادی)، ج-2، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 2003ء، ص: 365
  • 18 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 335
  • 19 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 85
  • 20 ابو الحسن علی بن حسین مسعودی، تاریخ المسعودی (مترجم:کوکب شادانی)، ج-2، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 1985ء، ص:72
  • 21 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 334
  • 22 ایضاً، ص: 334
  • 23 ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 323
  • 24 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 87
  • 25 ابو عمر احمد بن محمدابن عبد ربه الاندلسي، العقد الفريد، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1404ھ، ص: 336-337
  • 26 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 104-105
  • 27 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 336
  • 28 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 107-108
  • 29 ابو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 337
  • 30 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 107-108
  • 31 Encyclopedia Britannica (Online): https://www.britannica.com/place/Ghassan: Retrieved:12-01-2022
  • 32 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاهرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 175
  • 33 احمد بن اسحاق ابن واضح الیعقوبی، البلدان، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص: 146
  • 34 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 77-78
  • 35 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحمیری، الروض المعطار فی خبر الاقطار، مطبوعۃ: مؤسسۃ ناصر للثقافۃ، بیروت، لبنان، 1980م، ص: 207
  • 36 ابو عبداﷲ احمد بن محمد ابن الفقیہ الہمدانی، البلدان، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 216
  • 37 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاهرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 175
  • 38 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاكستان، 2011ء، ص: 34
  • 39 شیخ نذیر حسین، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام، ج-8، مطبوعہ: شعبہِ اردو دائرہِ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور، پاکستان، 1971ء، ص: 761
  • 40 اَنبار بغداد کے مغرب میں دریائے فرات کے کنارےپچپن( 55)کلو میٹر کے فاصلے پر ایک شہر تھا۔ اسی شہر میں بخت نصر نے بنی اسرائیل کے قیدی رکھے تھے اوریہ ان دنوں عراق کا مغربی صوبہ انبار کہلاتا ہے۔(ادارہ)
  • 41 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاهرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 175
  • 42 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 612-613
  • 43 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، مطبوعۃ: الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص: 645
  • 44 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 72
  • 45 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1420ھ، ص :277
  • 46 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 77
  • 47 ایضاً، ص: 80
  • 48 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 177
  • 49 ابو الحسن علی بن حسین المسعودی، مروج الذھب ومعادن الجواھر، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 72
  • 50 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 177
  • 51 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 78
  • 52 ایضاً، ص: 96-97
  • 53 مزدک ایک ایرانی زرتشتی فلسفی تھا جس کی وفات پانچ سو چوبیس(524)عیسوی میں ہوئی۔ یہ زرتشت مذہب کاموبد(عالم) تھا اورقبادِ اول کے دور میں اس نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی جس کا اولین ہدف یہ تھا کہ تمام انسان مساوی ہیں اور جائداد و عورت ہی وہ دوچیزیں ہیں جوامتیازات پیدا کرتی ہیں لہٰذا ان دونوں پر کسی کا بھی حق ملکیت نہیں ہونا چاہیے۔ قباد نے اس کو قبول کیا اور یوں اس کی تحریک کامیاب ہوگئی لیکن اس سے معاشرہ میں عائلی ومعاشرتی نظام تہس نہس ہوگیا پھر نوشیرواں کے تخت نشین ہوتےہی اس کے پیرو ؤں کو قتل کردیا گیا۔(ادارہ)
  • 54 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 96-97
  • 55 ایضاً، ص: 96-97
  • 56 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 320-321
  • 57 ابو المنذر ھشام بن محمد الکلبی، نسب معد والیمن الکبیر، ج-1، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 136
  • 58 احمد معمور العسیری، موجز التاریخ الاسلامی من عہد آدم الی عصر نا الحاضر، مطبوعۃ: مکتبۃ الفھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 1996 م، ص:41
  • 59 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 153
  • 60 ایضاً، ص: 152
  • 61 فلپ ہٹی، تاریخِ ملت عربی(مترجم: سیّد ہاشمی فریدآبادی)، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 129
  • 62 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 113
  • 63 ابو سعد عبدالکریم بن محمد السمعانی، الانساب، ج-11، مطبوعۃ: مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدرآباد، ہند، 1962م، ص:161
  • 64 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر المالکی، الانباہ علی قبائل الرواۃ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1985م، ص:111
  • 65 ابو العباس احمد بن علی القلقشندی، نھایۃ الارب فی معرفۃ انساب العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب البنانین، بیروت، لبنان، 1980م، ص: 408
  • 66 احمد معمور العسیری، موجز التاریخ الاسلامی من عہد آدم الی عصر نا الحاضر، مطبوعۃ: مکتبۃ الفھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 1996م، ص: 41
  • 67 ابو الحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 462
  • 68 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الحیدریۃ، النجف، عراق، 1964م، ص: 188-189
  • 69 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح یعقوبی ، تاریخ الیعقوبی (مترجم: اختر فتح پوری)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت اندارد)، ص: 310
  • 70 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب قبل از اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 114- 115
  • 71 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الحیدریۃ، النجف، عراق، 1964م، ص: 189
  • 72 ابو الحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 462
  • 73 ایضاً، ص: 463
  • 74 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الحیدریۃ، النجف، عراق، 1964م، ص: 189
  • 75 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح یعقوبی، تاریخ الیعقوبی (مترجم: اختر فتح پوری)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت اندارد)، ص: 310
  • 76 عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 327-328
  • 77 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001م، ص:111
  • 78 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-5، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 76
  • 79 فلپ ہٹی، تاریخ ملت عربی(مترجم: سیّد ہاشمی فریدآبادی)، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 117
  • 80 ابو الحسن علی بن ابی الکرم ابن الاثیر الجزری، الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 316
  • 81 ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج-14، مطبوعۃ: دار الکتب المصریۃ، القاھرۃ، مصر، 1964 م، ص: 269-270
  • 82 ابو طاھر محمد بن یعقوب فیروزآبادی، القاموس المحیط، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 393
  • 83 ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 17
  • 84 ابوعبید عبداﷲ بن عبد العزیز البکری، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، ج-1، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 307
  • 85 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-5، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان،2001م، ص: 79
  • 86 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 210
  • 87 نشوان سعید الحمیری، خلاصۃ السیر الجامعۃ لعجائب اخبار الملوک التبابعۃ، مطبوعۃ: دار العودۃ، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 82
  • 88 محمد ابراہیم الفیومی، تاریخ الفکر الدینی الجاھلی، مطبوعۃ: دارالفکر العربی، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 139
  • 89 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 349
  • 90 صالح احمد العلی، تاريخ العرب القديم والبعثۃ النبویۃ، مطبوعۃ: شرکۃ المطبوعات للتوزیع والنشر، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 45
  • 91 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان، 2001م، ص:111-114
  • 92 صالح احمد العلی،تاريخ العرب القديم والبعثۃ النبویۃ، مطبوعۃ: شرکۃ المطبوعات للتوزیع والنشر، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 59
  • 93 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 349
  • 94 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان،2001م، ص: 112
  • 95 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 349
  • 96 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج- 2، مطبوعہ : مطبع شاہی لکھنؤ، اعظم گڑھ، ہند، 1918ء، ص: 66
  • 97 الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-5، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 9-14
  • 98 ابو عبداﷲ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 43
  • 99 ابو عبداﷲ محمد بن اسحاق الفاکہی، اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ، ج-5، مطبوعۃ: دار خضر للنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1414 ھ، ص: 95
  • 100 ڈی لیسی اولیری ، اسلام سے پہلے جاہلی عرب (مترجم: یاسرجواد)، مطبوعہ: نگارشات پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2015، ص:84- 85
  • 101 توفیق برو، تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2001م، ص: 105
  • 102 سیّد سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-2، مطبوعہ : مجلس نشریات اسلام، کراچی، پاکستان، 2011ء، ص: 368-369
  • 103 لطفي عبد الوهاب، العرب في العصور القديمة، مطبوعۃ: دار المعرفة الجامعية، اسکندریۃ، مصر، 2000م، ص: 349
  • 104 توفيق برو، تاريخ العرب القديم، مطبوعۃ: دار الفكر، بیروت، لبنان،2001م، ص: 105