اسلام کی آمد کے وقت سرزمینِ عرب کے تمام افرادخود کو حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کے دین پر قائم ودائم مانتے تھے۔وہ لوگ اس حسب ونسب پر نازاں بھی رہتے تھے، ان کےخیال میں وہ دینِ حنیف ہ پر عمل پیراتھے لیکن درحقیقت انہوں نے دین ِابراہیمی کے مذہبی احکام میں اس قدر تبدیلیاں کردی تھیں کہ احکام کی اصل روح ہی ختم ہوگئی تھی اور وہ شرک وکفر کے اعمال کا مجموعہ بن کررہ گئے تھے۔اس وقت کے عرب معاشرہ میں مروجہ دینی ومذہبی رسوم ورواج دراصل دین ِابراہیمی کی بگڑی ہوئی صورت تھے، جنہیں انہوں نے زندگی میں نافذکیاہواتھااورشدت سے ان کی پاسداری وپابندی کرتے اورکرواتےتھے۔ان سے انحراف کوارتکابِ عظیم سمجھتےاورخودساختہ معبودوں کی ناراضگی کا سبب جانتےتھے۔معبودانِ باطلہ کی خوشنودی ورضا کی خاطرروزوں کی صورت میں کفارےاداکرتے،ان کاقرب پانےکی غرض سےکعبہ کی عزت کرتے، اس پرغلاف چڑھاتے، حج کرتے، یہاں تک کہ برہنہ طواف کرتے 1 تاکہ ان کےخداراضی ہوکرہمیشہ اُن پر مہربان رہیں۔
ان کےآباءواجداددینِ حنیف کے پیروکارہو گزرےتھےمگر ان کی نفسانی خواہشات اورتوہم پرستی انہیں گمراہی کی جانب ہانک لےگئی تھی جس کےنتیجہ میں ان کےمذہبی افکارپراگندہ ہوئےتو انہوں نے بت بنائے،عبادت کےاندازبدلے،رسموں کااختراع کیا،اس طرح خودساختہ معبودوں کی عبادات کی رسوم و رواج ان کےمعاشرےمیں سرائیت کرتے چلےگئے۔ فطری طورپرانسان کوجوطہارت ونفاست(اعمالِ فطرت) عطا کی گئی ہےجاہلیت کے زمانہ میں عرب بھی ان پرپابندتھےجیسےکلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھ تراشنا، ناخن تراشنا،بغل وزیرناف بال صاف کرنا،استنجاکرنا،مسواک وغیرہ ان امورمیں سےجنابت کاغسل کرنابھی ہےجووہ باقاعدگی کےساتھ کرتےبلکہ مرنےوالےافرادکی میت کوبھی غسل دیتے اورکفن پہناکرجنازہ کی نمازبھی اداکرتےاگرچہ ان کی نمازمختلف تھی۔اسی طرح روزے رکھتے اورحج بھی کرتےتھے۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب کی نمازودعاکےاندازکے حوالے سے قرآن و حدیث میں اشارےملتےہیں چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً.… 35 2
اور بیت اللہ (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی (نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سےروایت ہے:
كانت قريش تطوف بالبيت وهم عراة يصفرون ويصفقون.3
قریش ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف کرتےتھے اور اس دوران وہ سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتےتھے۔
اسی طرح اس روایت کوامام طبری نے بھی ذکر کیا ہے۔4حافظ ابن کثیر نے بھی طبری کےحوالےسےایساہی بیان کیااورحضرت ابن عباس کی روایت نقل کی کہ آپ نے فرمایاکہ حضرت عبد اللہ بن عمرکےنزدیک"مکاء"کامطلب ہے سیٹی بجانا اور"تصدیہ" کا مطلب ہے تالی بجانا۔ آپ نے سیٹی بجاکر، اپنا رخسارجھکاکراوردونوں ہاتھوں سے تالی بجاکربتایاکہ وہ کفار اس طرح کیا کرتےتھے۔5مگران میں ایسےلوگ بھی تھےجویہ تمام خرافات انجام نہ دیتے بلکہ دینِ ابراہیمی کے مطابق عبادت کرتےتھے، زمانۂ جاہلیت میں اپناحال بتاتےہوئے حضرت ابوذر غفاری نے عبادہ بن صامت سےفرمایا:
وقد صليت، يا بن أخي، قبل أن ألقى 6رسول الله صلي الله عليه وسلم بثلاث سنين قلت: لمن؟ قال: لله قلت: فأين توجه؟ قال: أتوجه حيث يوجهني ربي، أصلي عشاء حتى إذا كان من آخر الليل ألقيت كأني خفاء، حتى تعلوني الشمس…… 7
اےمیرےبھتیجے! رسول اللہ ﷺ کےساتھ ملاقات سےتین سال پہلےمیں نمازپڑھتاتھا، میں نےپوچھا: کس کےلیے؟ انہوں نے کہا: اللہ کےلیے۔ میں نے پوچھا: کس طرف منہ کرتےتھے؟انہوں نے کہا: جس طرف بھی اللہ تعالیٰ میرامنہ کردیتاتھا، میں عشاءکی نمازپڑھ لیتاتھاحتی کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تومیں اپنے آپ کو چادرکی طرح ڈال دیتا، حتی کہ مجھ پردھوپ آجاتی۔۔۔8
عبادہ بن صامت کے سوال سےمعلوم ہوتاہےکہ اہلِ عرب عمومی طورپر کسی خاص جانب کوعبادت کی غرض سے متعین کرتےتھےاور اسی وجہ سے ابوذر غفاریسے سوال کیاگیاچنانچہ تاریخ ارض القرآن میں اس حوالہ سے یوں مذکور ہے:
انہوں نے ستاروں کے گٹھنے بڑھنے کے اوقات کو بھی عبادات میں شامل کر دیا تھا کیونکہ ان کا اعتقادتھا کہ تمام ستاروں کا مرکز قطبِ شمالی ہےاور تمام ستارے آغازِ عالم سے ہر وقت اپنی جگہ سے ہٹتے اور بڑھتے رہتے ہیں لیکن قطب کا تارا ہمیشہ ایک حال پر اپنی جگہ قائم رہتا ہے اس لیے وہ قبلہ ہے لہذا اس طرف منہ کر کے وہ اپنی دعا اور مناجات پڑھا کرتے تھے ۔ دن میں تین مرتبہ ہر نماز کے لیے ان کو غسل کرنا پڑتا تھا۔ 9
حضور ﷺكی بعثت سے قبل وه بُتوں كی عبادت كرتے تهے10اوران کے سامنے سربسجودہوتے تھےجسےرب تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کاذریعہ سمجھتےتھے۔
اس غرض سے انہوں نے اپنےاپنے من پسند بت بنا رکھے تھے۔ قبیلہ کلب کا بت"ود" تھا جو دومۃ الجندل میں تھا،سواع کے بت کا نام "ہذیل " تھا،یمنی قبائل کے بت کا نام "یغوث" تھا،حمیر میں ذی الکلاع کا بت "نسر" تھا،ہمدان کا بت"یعوق" تھا،طائف میں ثقیف کا بت"لات" تھا،قریش اور بنی کنانہ کے بت کا نام "عزی "تھا اور اوس و خزرج کے بت کا نام "مناۃ" تھاان کا سب سے بڑا بت "ھبل"تھاجو کعبہ کی پشت پر تھا اور دو بت بنام "اساف " اور " نائلہ" صفا و مروہ پر تھے۔ ان کے معبود اور اصنام تمام محدود اور مقامی ہوتے یا قبیلوں کے ہوتے جو ان کے اعتقاد کے مطابق جنگ و صلح میں مدد کرتے اور دوسروں سے دشمنی رکھتے۔
ان معبودوں کی رضاجوئی اور خوشنودی کے لیے اہلِ عرب نذر و نیاز اور قربانی بھی کرتے تھے اور تحفے تحائف بھی پیش کرتے تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے معبود کب حاضر ہوتے،کب غائب ہوتےاور کس وقت کس مقام پر ہوتے تھے۔ یہ لوگ اصنام کے لیے معبد کبھی غاروں میں بناتے اور کبھی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر۔ صحرا نشین اپنے اصنام خیموں میں رکھتےاور کہیں ان کے لیے گھر بناتے، ان كے ہاں یہ مقامات مقدس ہوتے، ان کی تعظیم کی جاتی اور ان مقامات کا احترام کیا جاتا۔ اسی لیے اہلِ عرب ان بُتوں کی محدود جگہ کو حرم کہتے تھے جیسے حرمِ کعبہ، حرمِ ذی الشعری اور جو ان کی حدود میں داخل ہوجاتا، وہ ہرگزند سے محفوظ رہتا۔11
عرب میں ایسے گروہ بھی موجود تھے جو جِنات اور فرشتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ 12بنو ملیح جو قبیلۂ خزاعہ کی ایک شاخ تھی وہ ملائکہ13اورجنات کی عبادت کرتے تھے۔14بعض مفسرین کے مطابق وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتےتھے،15فرشتوں کو انہوں نے دیویاں قرار دے رکھا تھا، ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے تھے، انہیں زنانہ کپڑے اور زیور پہناتےتھے اور کہتے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، ان کی عبادت کرتےتھے، انہیں سے منتیں اور مرادیں مانگتےتھے۔16اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کے اس عقیدہ کی بڑی شدت سے تردید فرمائی ہے۔17
عرب کی عبادات ورسوم میں روزہ رکھنابھی شامل تھا، بیان کیاجاتاہےکہ قریش جاہلیت میں عاشوراءکا روزہ رکھاکرتےتھے۔18ابراہیم شریف اس روزہ کے اوقات کار بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
وكان صيامهم من الفجر إلى المغرب الشمس.19
ان کے روزے فجر سے مغرب تک ہوتےتھے۔
ہوسکتاہےکہ اس بات کوانہوں نے کسی سابقہ شریعت سےلیاہواور یہی وجہ تھی کہ وہ اسی دن کعبے پرغلاف چڑھاکراوراسی طرح کی دیگررسومات اداکرکےاس دن کی تعظیم کیا کرتےتھے۔کہاجاتاہےکہ جاہلیت کےزمانےمیں قریش نے کوئی گناہ کیا اورپھر اسے بہت بری بات سمجھاتو کسی نے کہا کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو، تمہارے گناہوں کا کفارہ اداہوجائےگا۔ ایک روایت میں یہ ہےکہ ان کے ہاں قحط پڑاپھردورہوگیاچنانچہ انہوں نے شکرانے کے طورپراس دن کا روزہ رکھا۔ 20
عرب زمانۂ جاہلیت میں حج کرتے اوراحرام باندھتےتھے۔حج کی ادائیگی کے معاملہ میں ان کےطبقات تھے جنہیں اگرمذہبی طبقات یا حج کے روایتی طبقات کہاجائے تو مناسب ہوگا، اس کی وجہ ان کا مراسم حج کی ادائیگی میں اختلاف ہے۔اس اعتبارسےکئی مؤرخین نے ان کےدو طبقات بیان کیے مگر تحقیق سےمعلوم ہواکہ ان کےتین گروہ تھے، حمس، حلہ اورطلس جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
یہ عرب کے چند قبائل تھے جو عبادات میں مخصوص حیثیت اوررسوم کےحامل تھے، ان کےعلاوہ کسی کوان جیسی حیثیت حاصل نہ تھی اورنہ ہی کوئی ان کی برابری کرسکتاتھا، ابن سعدنے واقدی سے،ازرقی نے ابن اسحاق سے اورانہوں نے کلبی سےحضرت ابن عباس کی روایت نقل کی ہے جس میں اس حوالہ سے درج ذیل تفصیل مذکور ہے:
فهم قريش وكنانة ومن ولدته قريش من سائر العرب ويضيف ابن إسحاق في روايته الأوس والخزرج وجثم وربيعة وجذام وذكوان وثقيف وعمرو اللات وغطفان وعدوان وعلاف وقضاعة أما محمد بن حبيب فيذكر أن قبائل الحمس هي قريش كلها وخزاعة لنزولها مكة ومجاورتها قريشاً، وكل من نزل مكة من قبائل العرب، فمن ولدت قريش من كلاب وكعب وعامر وكلب بنو ربيعة بن عامر بن صعصعة والحارث بن عبد مضاة بن كنانة ومدلج بن مرة بن عبد مناة بن كنانة وثقيف وعدوان ويربوع بن حنظلة ومازن بن مالك بن عمرو بن غيم وعلاف (من قضاعة) وجناب بن هبل.21
وہ قریش، کنانہ،خزاعہ اورقریش سےپیداہونےوالےتمام عرب تھے۔ابن اسحاق نے اس میں اضافہ کیاکہ اوس، خزرج، جثم، ربیعہ،جذام، ذکوان، ثقیف، عمرو اللات، غطفان، عدوان، علاف اورقضاعہ بھی ان میں سےہیں۔ البتہ محمدبن حبیب نے بیان کیاکہ حمس کے قبائل میں قریش،مکّہ میں قیام اورقریش کےپڑوس کی وجہ سےخزاعہ اورعرب کےتمام وہ قبائل جومکّہ میں فروکش ہوئے،قریش سےپیدا ہونےوالےکلاب، کعب، عامر،کلب،بنو ربیعہ بن عامربن صعصعہ، الحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ،مدلج بن مرہ بن عبد مناۃ بن کنانہ، مکّہ کے آس پاس قیام پذیرہونےکی بناپر عامر بن مناۃ بن کنانہ، مالک، ملکان بن کنانہ، ثقیف، عدوان، یربوع بن حنظلۃ، مازن بن مالک بن عمروبن غیم، علاف(قضاعہ سے)اورجناب بن ہبل شامل ہیں۔
یہ مذکورہ بالا تمام قبائل بمع اپنے افراد کےحمس میں شمار ہوتے تھے اور ان حمسیوں کے حج کے دوران کچھ خاص رسمیں ہواکرتی تھیں چنانچہ حج کے موسم میں حمسیوں کےاعمال کےضمن میں اس حوالہ سے بیا ن کرتے ہوئے امام ازرقی تحریر فرماتےہیں:
وكانت الحمس إذا أحرموا لا يأتقطوا الأقط، ولا يأكلوا السمن ولا يسلئونه، ولا يمخضون اللبن، ولا يأكلون الزبد، ولا يلبسون الوبر ولا الشعر، ولا يستظلون به ما داموا حرما، ولا يغزلون الوبر ولا الشعر ولا ينسجنه، وإنما يستظلون بالأدم، ولا يأكلون شيئا من نبات الحرم، وكانوا يعظمون الأشهر الحرم، ولا يخفرون فيها الذمة، ولا يظلمون فيها، ويطوفون بالبيت وعليهم ثيابهم، وكانوا إذا أحرم الرجل منهم في الجاهلية وأول الإسلام، فإن كان من أهل المدر يعني أهل البيوت والقرى نقب نقبا في ظهر بيته، فمنه يدخل ومنه يخرج، ولا يدخل من بابه، وكانت الحمس تقول: لا تعظموا شيئا من الحل، ولا تجاوزوا الحرم في الحج، فلا يهاب الناس حرمكم، ويرون ما تعظمون من الحل كالحرم فقصروا عن مناسك الحج والموقف من عرفة وهو من الحل، فلم يكونوا يقفون به ولا يفيضون منه، وجعلوا موقفهم في طرف الحرم من نمرة بمفضى المأزمين، يقفون به عشية عرفة، ويظلون به يوم عرفة في الأراك من نمرة، ويفيضون منه إلى المزدلفة، فإذا عممت الشمس رؤوس الجبال دفعواوكانوا يقولون: نحن أهل الحرم، لا نخرج من الحرم ونحن الحمس.22
حمسی احرام باندھنے کے بعد پنیر نہیں بناتےتھے،گھی نہ کھاتے نہ گرم کرتے تھے، دودھ نہ بلوتے، مکھن نہ کھاتے، اون اوربالوں کا لباس نہ پہنتے اورجب تک حرم میں ہوتے ان کی چھاؤں حاصل نہ کرتے،اون نہ کاتتے،نہ بالوں کےسائبان(چھتریاں)بُنتےبلکہ کھالوں کےسایہ میں رہتے،حرم میں اگنے والی اشیاء سے کچھ نہ کھاتے،حرمت والےمہینوں کی عزت کرتے،ان میں عہدشکنی نہ کرتےاورنہ ہی ظلم کرتے، طواف کرتے تو لباس پہن کرکرتے،23زمانۂ جاہلیت اورشروع اسلام میں بھی ان میں سےکوئی احرام باندھ لیتاتو وہ اہلِ مدر یعنی شہروالاہوتا۔گھرکےپیچھےکی جانب نقب لگادیتااسی میں سےگھر میں داخل ہوتا اوراسی سے نکلتااوردروازہ سے داخل نہ ہوتا۔24حمس کہتےتھے: حلال مہینوں کا احترام مت کرواورحج میں حرم سےتجاوزنہ کرو، تاکہ لوگ تمہارےحرم کوچھوڑکرنہ چلےجائیں،وہ دیکھیں کہ تم حرمت والےمہینوں کی طرح حلا ل کی بھی تعظیم کرتےہوتووہ بھی مناسکِ حج اورعرفہ کےقیام میں کمی کریں گےجبکہ وہ حِل میں سےہے، پس وہ اس میں وقوف نہ کرتےتھےاورنہ ہی اس میں سےگزرتےتھے انہوں نے حرم سےہٹ کر نمرۃمیں دونوں راستوں کے مابین مقامِ وقوف بنایا ہواتھا،اسی میں عرفہ کی رات میں وقوف کرتےاوریومِ عرفہ نمرۃ کےقریب الاراک میں گزارتے، وہاں سے مزدلفہ جاتے، پس جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں تک بلندہوتاہےتووہ روانہ ہوجاتے۔وہ کہتے تھے: ہم اہلِ حرم ہیں حالتِ حمس(حج کےکپڑوں میں یا احرام)میں ہم حرم سےنہیں نکلتے۔
یہ لوگ اہل حمس تھے جوزمانہ جاہلیت میں حج کے دوران مذکورہ مخصوص افعال مخصوص طریقوں سے سر انجام دیتے تھے۔
عرب میں سے حمسیوں کےبعدمؤرخین کی عمومی رائےکےمطابق بقیہ قبائل حِلّہ تھے سوائے چندکے جن کو بعض مؤرخین نے طلس میں شامل کیا ہے بہر حال اہلِ عرب کے حِلّہ قبائل کاتذکرہ کرتےہوئے صالح احمد علی لکھتے ہیں:
أن الحلة هم تميم ما عدا يربوعاً ومازن وضبة وحميس وظاعنة والغوث بن مرة، وقيس عيلان بأسرها، ماعدا ثقيفاً وعدوان وعامر بن صعصعة وربيعة بن نزار كلها، وقضاعة كلها ما خلا علافاً وجناباً والأنصار وخثعماً وبجيلة وبكر بن عبد مناة بن كنانة، وهذيل بن مدركة وأسداً وطيئاً وبارقاً.25
حِلّہ میں سارےتمیم ہیں سوائےیربوع کے،(اسی میں) مازن، ضبہ، حمیس،ظاعنہ،الغوث بن مرہ اور قیس عیلان ہیں اپنےتمام خاندانوں سمیت سوائےثقیف کے، (اسی میں) عدوان،عامربن صعصعہ، مکمل ربیعہ بن نزار، اور تمام قضاعہ ہیں سوائے علاف، جناب، الانصار، خثعم، بجیلہ، بکربن عبد مناۃ بن کنانہ کےاور (اسی میں) ہذیل بن مدرکہ، اسد، طئی اوربارق ہیں۔
اہلِ حمس کی طرح ان کے بھی اعمالِ حج مخصوص تھے جو مخصوص ایام واوقات میں کیے جاتے تھے چنانچہ ان اعمال ورسوم کے بارےمیں بیان کرتے ہوئے محمد بن حبیب المحبرمیں تحریر کرتے ہیں:
وكانت الحلة يحرمون الصيد فى النسك ولا يحرمونه في غير الحرم، ويتواصلون في النسك، ويمنح الغنى ماله أو أكثره في نسكه فيسلأ فقراؤهم السمن، ويجتزون من الأصواف والأوبار والأشعار ما يكتفون به، ولا يلبسون إلا ثيابهم التي نسكوا فيها، ولا يلبسون فى نسكهم الجدد ولا يدخلون من باب دار ولا باب بيت، ولا يؤويهم ظل ما داموا محرمين، وكانوا يدهنون، ويأكلون اللحم، وأخصب ما يكونون أيام نسكهم فإذا دخلوا مكة بعد فراغهم تصدقوا بكل حذاء وكل ثوب لهم ثم استكروا من ثياب الحمس تنزيها للكعبة أن يطوفوا حولها إلا فى ثياب جدد ولا يجعلون بينهم وبين الكعبة حذاء يباشرونها بأقدامهم فان لم يجدوا ثيابا طافوا عراة وكان لكل رجل من الحلة حرمي من الحمس يأخذ ثيابه فمن لم يجد ثوبا طاف عرياناوإنما كانت الحلة تستكري الثياب للطواف فى رجوعهم إلى البيت لأنهم كانوا إذا خرجوا حجاجا لم يستحلوا أن يشتروا شيئا ولا يبيعوه حتى يأتوا منازلهم إلا اللحم وكان رسول الله صلي الله عليه وسلم حرمي عياض بن حمار المجاشعي: كان إذا قدم مكة طاف في ثياب رسول الله صلي الله عليه وسلم.26
حِلّہ والےحرم میں شکارکرنےکو حرام جانتے تھے اوراس کےعلاوہ حلال مناسک میں ترتیب قائم رکھتے تھے۔ امیر آدمی اپنا سارایا مال کا بیشترحصہ مناسک کےلیےدےدیا کرتاجس سے ان کے فقراءکو گرم کیاہواگھی ملتا، وہ اون،اونٹ اوردیگر جانوروں کےبالوں پرگزاراکرتے،جس لباس میں مناسک اداکرتے وہی زیب تن کرتے،مناسک میں نیا لباس نہ پہنتے، گھروں اورحویلیوں میں دروازےسےداخل نہ ہوتے، جب تک حالتِ احرام میں رہتے سایہ میں نہ جاتے، تیل کی مالش کرتے، گوشت کھاتےاوریہ سب ایامِ مناسک میں بہت زیادہ ہوتاتھا۔پس فراغت کےبعد جب مکّہ میں داخل ہوجاتےتواپنے جوتوں اورکپڑوں کوصدقہ کرکےکعبہ کی عظمت کےپیش نظرنیاحمسی لباس کرایہ پرلیتےاوراپنے اورکعبہ کےمابین جوتےنہیں لاتےبلکہ برہنہ پاآتے،اگر لباس نہ میسرہوتاتوبرہنہ طواف کرتے،ہرشخص کے لیےایک حرمی حمسی ہوتا جس کا لباس وہ حاصل کرتااورجسے کوئی بھی لباس نہ ملتا وہ برہنہ ہی طواف کرتا۔ حِلّہ والےبیت اللہ کی جانب لوٹتےہوئے طواف کےلیےلباس کرایہ پرحاصل کرتےتھے کیونکہ جب وہ بحیثیتِ حجاج گھروں سےنکلتےتو سوائےگوشت کےخریدوفروخت کو حرام قراردےدیاکرتےیہاں تک کہ اپنےگھروں کولوٹ جاتے۔ رسول اکرم ﷺ عیاض بن حمارالمجاشعی کے حرمی تھے، وہ جب مکّہ میں آتا توآپ ﷺ کے لباس میں طواف کرتاتھا۔
ان کےاحرام ہی کےمتعلق منقول ہے کہ مردوعورت اپنے پہلےحج کاطواف برہنہ ہوکرکرتے۔بنوعامر بن صعصعہ اورعک تھےجوایساکرتےتھے، پس عورت جب طواف کرتی تو اپنا ایک ہاتھ اپنی اگلی شرمگاہ پراوردوسراپچھلی پررکھ لیتی اورکہتی:
اليوم يبدو بعضه أوكله
وما بدا منه فلا أحله.27
آج جسم کا کچھ حصہ یا سارا ہی ننگا ہوجائے اورجو ننگا ہو جائے میں اسےجائز نہیں قراردوں گی۔
عربی قبائل میں بنی عامروغیرہ کعبہ کاطواف برہنہ ہوکر کرتےتھے،مرددن میں اورعورتیں رات میں طواف کرتی تھیں۔ 28
عرب میں سے حمسیوں کوعلیحدہ کرنے کےبعدمؤرخین کی عمومی رائےکےمطابق ہونایہ چاہیےکہ بقیہ تمام قبائل حلہ شمارہوں مگرمحمد بن حبیب نے اس قسم میں ایک تیسری قسم " طلس" کا اضافہ کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وهم سائر أهل إليمن، وأهل حضرموت، وعَك، وعجيب، وإياد بن نزار.29
اور وہ تمام اہل یمن، اہل حضرموت ،عک، عجیب اورایاد بن نزار ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے حِلّہ میں سے کچھ قبائل کو علیحدہ کرکے ان کو طلس ميں شمار كيا ہے جن میں انہوں نے تمیمی قبائل کی شاخیں،یربوع، مازن، ضبہ،حمیس، ظاعنہ، غوث بن مر، اسی طرح قیس اعلان کی شاخیں، ثقیف، عدوان اورقضاعہ کی شاخیں، علاف اورجناب شامل کی ہیں ۔ اس تفصیل کو ڈاکٹر صالح احمد علی نے بھی کچھ مختلف انداز سے نقل کیا ہے30اور ان طلسی افراد کے امورِ حج کےبارےمیں تفصیل ذکرکرتے ہوئے محمدبن حبیب لکھتےہیں:
وكانت الطلس بين الحلة والحمس يصنعون في إحرامهم ما يصنع الحلة، ويصنعون في ثيابهم ودخولهم البيت ما يصنع الحمس وكانوا لا يتعرون حول الكعبة، ولا يستعيرون ثيابا، ويدخلون البيوت من أبوابها، وكانوا لا يئدون بناتهم، وكانوا يقفون مع الحلة ويصنعون ما يصنعون.31
طلس، حِلّہ وحمس کےمابین تھے، حالتِ احرام میں وہ حِلّہ کی مثل اعمال کیا کرتےتھے، جبکہ کپڑےپہننے اورگھر میں داخل ہونے کےاعمال حمس کی مانندکرتے،وہ کعبہ کے گردبرہنہ نہیں ہوتےتھے، نہ کپڑے کرایہ پرلیتےاورگھروں میں دروازوں سےہی داخل ہوتے،نہ بیٹیوں کوزندہ درگور کرتے اور حِلّہ کے ساتھ ہی وقوف کرتےاوروہی اعمال کرتےجووہ کیاکرتےتھے۔
زمانۂ جاہلیت میں وہ حج و عمرہ اد اکرتے ہوئے تلبیہ بھی کہا کرتے تھے لیکن بعض قبائل نے اس تلبیہ میں ایسے الفاظ اپنی طرف سے بڑھا دیے جس سے عقیدۂِ توحید مسخ ہوکر رہ گیا۔32
عرب جب بیت اللہ کے حج کا ارادہ کرتے تو ہر قبیلہ اپنے اپنے صنم(بُت) کے پاس کھڑا ہوتا اور اس کے پاس نماز پڑھتا پھر تلبیہ پڑھتے پڑھتے مکّہ آجاتا، دیگر باہمی مختلف رسومات کی طرح ان کے تلبیات بھی مختلف تھے چنانچہ ابن واضح یعقوبی ان تمام کے تلبیات کو نقل کرتے ہوئےتحریر کرتے ہیں:
وكانت تلبية قريش: لبيك اللهم لبيك لبيك لاشريك لك تملكه وما ملك، وكانت تلبية كنانة لبيك اللهم لبيك، اليوم يوم التعريف يوم الدعاء والوقوف، وكانت تلبية بني اسد لبيك اللهم لبيك ! يا رب اقبلت بنو اسد اهل التواني والوفاء والجد اليك، وكانت تلبية بني تميم لبيك اللهم لبيك، لبيك لبيك عن تميم قدتراها قد اخلقت أثوابها واثواب من وراء ها، واخلصت لربها دعاء ها، وكانت تلبية قيس اعلان لبيك اللهم لبيك! لبيك أنت الرحمان أتتك قيس عيلان راجلها والركبان، وكانت تلبية ثقيف لبيك اللهم ان ثقفيا قد اتوك و اخلفوا المال وقدرجوك، وكانت تلبية هذيل لبيك عن هذيل قد أدلجوا بليل في ابل وخيل، وكانت تلبية ربيعة لبيك ربنا لبيك لبيك ان قصدنا اليك (وبعضهم) يقول لبيك عن ربيعة سامعة لربها مطيعة، وكانت حمير و همدان يقولون لبيك عن حمير و همدان و الحليفين من حاشد بجيلة و الهان، وكانت تلبية الازد لبيك رب الأرباب، تعلم فصل الخطاب، لملك كل مثاب، وكانت تلبية مذحج لبيك رب الشعريٰ و رب اللات والعزيٰ، وكانت تلبية كندة وحضرموت لبيك لاشريك لك! تملكه او تهلكه، انت حكيم فاتركه، وكانت تلبية غسان لبيك رب غسان راجلها والفرسان، وكانت تلبية بجيلة لبيك عن بجيلة في بارق ومخيلة، وكانت تلبيةقضاعة لبيك عن قضاعة لربها دفاعة سمعاله وطاعة، وكانت تلبية جذام لبيك عن جذام ذي النهي والاحلام، وكانت تلبية عك والاشعريين نجح للرحمان بيتاً عجباً، مستتراً مضببًا محجبًا.33
قریش کا تلبیہ تھا "میں حاضرہوں اے اللہ ! میں حاضرہوں، میں حاضرہوں،تیرا کوئی شریک نہیں (بالفرض کوئی بنائے بھی تو) تواس کااور اس کی تمام ملکیت کا مالک ہے"۔ کنانہ کا تلبیہ تھا "اے اللہ ! میں حاضرہوں، میں حاضرہوں، آج تعریف، دعااورکھڑےہونےکادن ہے"۔بنی اسد کا تلبیہ تھا "میں حاضرہوں اے اللہ! میں حاضرہوں اےرب!بنواسدتقصیرکرنےوالے،اہلِ وفااورکوشش تیری جانب آئےہیں"۔ اور بنی تمیم کا تلبیہ تھا"میں حاضرہوں اے اللہ! میں حاضرہوں، میں حاضرہوں، میں حاضرہوں تمیم کی طرف سے، تودیکھتاہےکہ اس نے اپنا اوراپنے پیچھےوالوں کا لباس میلا کر دیا ہے اور اپنے رب سےخلوص کےساتھ دعاگوہے"۔ قیس عیلان کا تلبیہ تھا"میں حاضرہوں اے اللہ ! میں حاضرہوں،میں حاضرہوں، تو رحمان ہےتیری بارگاہ میں قیس عیلان پیدل وسوارآئے"۔ ثقیف کا تلبیہ تھا "میں حاضرہوں اے اللہ ! بےشک اہلِ ثقیف اپنامال ومتاع چھوڑکرتیرےپاس آئےاورتجھ سےفریادرس ہوئے"۔ ہذیل کا تلبیہ تھا"میں حاضرہوں!ہذیل کی طرف سے، بےشک وہ رات کے آخری پہر اونٹوں اورگھوڑوں پرداخل ہوئے"۔ربیعہ کا تلبیہ تھا "حاضر ہیں اےہمارےرب ! حاضر ہیں،حاضر ہیں، بےشک ہمارا ارادہ تجھ تک آناتھا"( جبکہ بعض )یہ کہتے"اپنے رب کے فرمانبردار اوراطاعت گزارربیعہ کی طرف سے حاضرہیں"۔ حمیر اور ہمدان (تلبیہ میں)یوں کہتے "حمیروہمدان کی طرف سے حاضرہیں جوخدمت گزاری اوردکھ درد میں دوست ہیں"۔ازدکاتلبیہ تھا "اےمالکوں کے مالک حاضرہیں تو ہرقوم کےسردارسےخوش بیانی جانتاہے"۔ مذ حج کا تلبیہ تھا "شعری ستارےاورلات وعزی کے رب حاضرہیں"۔ کندہ اور حضر موت کا تلبیہ تھا "حاضر ہیں تیراکوئی شریک نہیں، تو اس کواپنا بناتاہے یا ہلاک کرتاہےتو حکمت والاہےپس اسےچھوڑدے"۔ غسان کا تلبیہ تھا "اےغسان اوراس کے پیادہ وسوارکے مالک حاضر ہیں"اور بجیلہ کا تلبیہ تھا"قحط وباران میں بجیلہ کی طرف سے حاضرہیں "اور قضاعہ کا تلبیہ تھا"قضاعہ کی طرف سےحاضرہیں اس کے رب کا دفاع کرتے ہوئے،اس کی اطاعت وفرمانبرداری کےساتھ "۔جذام کا تلبیہ تھا"جذام کی طرف سے حاضرہیں جواہلِ عقل وفکرہیں"۔عک اور اشعریوں کا تلبیہ تھا"ہم رحمن کے پسندیدہ، پردوں والے،ازدہام وحرمت والےگھرکاحج کرتے ہیں"۔
مذکورہ بالا تمام تلبیے عربی قبائل حج کے دوران پڑھا کرتے تھے جن سے ایک طرف ان کے مذہبی خیالات واضح ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان سےیہ بھی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام قبائل حج کے دوران مخصوص طور پر متعین شدہ الفاظ کے ذریعہ اپنے اپنے مذہبی رسوم ورواج کے تحت دعائیں اور دیگر رسوم بھی سرانجام دیتےتھے۔
جس طرح ہرقبیلہ کا مخصوص تلبیہ تھا اسی طرح جاہلیت میں عرب نے تمام بُتوں کے لیے بھی علیحدہ تلبیے مختص کیے ہوئےتھےجنہیں بالتفصیل بیان کرتے ہوئے صاحب المحبر لکھتے ہیں:
وكان نسكهم لإساف، تقول: «لبيك اللهم لبيك، لبيك، لا شريك لك إلا شريك هو لك تملكه وما ملَك» وكان لكل قبيلة، بعد، تلبية فكانت تلبية من نسك للعزي: «لبيك اللهم لبيك، لبيك وسعديك، ما أحبّنا إليك» وكان تلبية من نسك لَّلات: «لبيك اللهم لبيك، لبيك، كفى ببيتنا بنية ليس بمهجور و لابلية لكنه من تربة زكية أربابه من صالحي البرية» وكانت تلبية من نسك لجهار: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، إجعل ذنوبنا جُبارواهدنا لأوضح المنار و متعنا و ملّنا بجهار» وكانت تلبية من نسك لسواع: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، اُبنا إليك إن سواع طُلبَن اليك» وكانت تلبية من نسك لشُمس: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، ما نهارنا نجرّه إدلاجه وحره وقره لانتقى شيئا ولا نضره حجا لرب مستقيم بِره» وكانت تلبية من نسك لمحرِّق: «لبيك، اللهم لبيك لبيك حجا حقا تعبدا ورِقَّاوكانت تلبية من نسك لود: لبيك، اللهم لبيك لبيك، معذرة إليك» وكانت تلبية من نسك ذا الخلصة «لبيك، اللهم لبيك، لبيك، بما هو أحب إليك» وكانت تلبية من نسك لمنطبق: «لبيك اللهم لبيك لبيك» وكانت تلبية من نسك مناة «لبيك اللهم لبيك لبيك، لولا أن بكرا دونك، يبرّك الناس ويهجرونك ما زال حج عثج يأتونك، إنا على عدوائهم من دونك» وكانت تلبية من نسك لسعيدة: «لبيك اللهم لبيك لبيك لبيك، لم نأتك للمياحه ولا طلبا للرقاحه ولكن جئناك للنصاحه وكانت تلبية من نسك ليعوق: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، بغَّض إلينا الشر، وحبِّب إلينا الخير و لاتُبطرنا فنأشر و لاتفدحنا بعثار» وكانت تلبية من نسك ليغوث: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، أحبنا بما لديك فنحن عبادك، قد صرنا إليك» وكانت تلبية من نسك لنسر: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، إننا عبيد و كلنا ميسرة عتيد و أنت وبنا الحميد اردد إلينا مُلكنا و الصيد» وكانت تلبية من نسك ذا اللبا: «لبيك اللهم لبيك لبيك، رب فاصرفنْ عنا مضر وسلِّمنْ لنا هذا السفر إن عما فيهم لمزدجرواكفنا اللهم أرباب هجر» وكانت تلبية من نسك لّمرحب: «لبيك اللهم لبيك لبيك، إننا لديك لبيك، حببنا إليك» وكانت تلبية من نسك لذّريح: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، كلنا كنود و كلنا لنعمة جحود فاكفنا كل حية رصود» وكانت تلبية من نسك ذا الكفين: «لبيك، اللهم لبيك لبيك، إن جرهما عبادك الناس طُرف وهم تلادك ونحن أولى منهم بولائك» وكانت تلبية من نسك هبل: «لبيك اللهم لبيك إننا لقاح حرَّمتنا على أسنة الرماح يحسدنا الناس على النجاح».34
اہلِ عرب کا اساف بت کے لیے تلبیہ تھا"حاضرہیں اےاللہ!حاضرہیں ،حاضرہیں تیراکوئی شریک نہیں مگر جوتیراشریک ہےاورجوکچھ اس کاہےوہ سب تیری ملکیت ہے" پس ان کا عزی بت کے لیے تلبیہ تھا "حاضرہیں اےاللہ!حاضرہیں تیری اطاعت کےلیے، ہمیں توکتنا عزیزرکھتاہے"۔ ان کا لات بت کے لیے تلبیہ تھا"حاضر ہیں اےاللہ! حاضرہیں، حاضر ہیں،ہمیں ہمارےگھرکی عمارت کافی ہے، جونہ تو چھوڑاہواہے، نہ آسیب زدہ ہے مگر وہ پاک مٹی سےبناہےاوراس کے خدمت گزارنیک لوگوں میں سے ہیں"۔ جہار بت کے لیے ان کا تلبیہ تھا"حاضر ہیں اےاللہ!حاضر ہیں، حاضرہیں، ہمارےگناہوں کو معاف کردے،ہمیں صاف نورکی طرف ہدایت دے اورہمیں اورہماری قوم کوجہارسےبہرمندکر"۔ ان کاارکان(حج)میں سواع کاتلبیہ تھا"حاضرہیں اےاللہ! حاضرہیں، حاضرہیں ہم تیری طرف لوٹ آئے،بےشک ہم سواع کی جانب طلب کیےگئے"۔ ان کاارکان(حج)میں شمس کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اے اللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کے لیےحاضرہیں، ہم اپنی صبح سےمتمتع ہوتے ہیں، دن میں سفرکرتے ہیں،اس کی گرمی سے نفع پاتےا ورثبات حاصل کرتےہیں، (اےرب!تیری حمایت کی وجہ سے) ہم کسی شےسےنہیں ڈرتےاورنہ نقصان زدہ ہوتے ہیں، ان عطیات اورنعمتوں کےباعث ہم رب کا حج کرتےہیں"۔ ان کاارکان(حج)میں محرق کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اےاللہ! حاضرہیں حج کرتے،حق اداکرتے، بندگی وغلامی کرتےہوئےتیری اطاعت کوحاضرہیں" ان کاارکان(حج)میں ودّ کاتلبیہ تھا "حاضر ہیں اےاللہ!حاضر ہیں،عذرپیش کرتےہوئے تیری اطاعت کو حاضر ہیں"۔ ان کاارکان (حج) میں ذو الخلصہ کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اےاللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کےلیے حاضر ہیں جوتجھ کو محبوب ہے"۔ ان کاارکان(حج)میں منطبق کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اےاللہ! تیری اطاعت کےلیے حاضر ہیں"۔ ان کاارکان(حج)میں مناۃ کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اے اللہ!حاضرہیں تیری اطاعت کو حاضر ہیں،اگربکر نے تیرادرنہ تھاماہوتاتولوگ تجھے چھوڑکربدک جاتے،ابھی تک لوگ حج میں کثرت سے تیرے پاس آتےہیں، تیرےبغیر ہم ان سے غیرمطمئن ہیں " ان کاارکان(حج)میں سعیدۃ کاتلبیہ تھا"حاضرہیں اےاللہ! حاضرہیں، تیری اطاعت کو حاضرہیں، ہم تیرےپاس سفارش کےلیےآئےنہ کسبِ مال کےلیے بلکہ ہم صرف خلوص کےساتھ آئےہیں"۔ ان کاارکان(حج)میں یعوق کاتلبیہ تھا"حاضرہیں اےاللہ! حاضرہیں، تیری اطاعت کو حاضرہیں، ہمارے دلوں میں برائی کی نفرت پیدافرما اور اچھائی کو محبوب بنا،ہمیں گمراہ نہ کر کہ ہم سرکش ہوجائیں اور ہمیں ہلاکت کے بوجھ تلے مت ڈال۔ان کاارکان(حج) میں یغوث کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اے اللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کوحاضر ہیں، ہم سے محبت کرپس ہم تیرےبندےہیں،تیری طرف آگئےہیں"۔ان کاارکان(حج)میں نسر کاتلبیہ تھا"حاضر ہیں اےاللہ!تیری اطاعت کےلیے حاضر ہیں،ہم سب بندےہیں، ہم سب ایسےمضبوط فوجی دستہ ہیں کہ تو ہمارا تعریف گوہے،ہماراملک اورشکارہمیں لوٹادے"۔ ارکان(حج)میں ذاللبا کاتلبیہ تھا"حاضرہیں اےاللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کو حاضر ہیں، اےرب پس مضرکوہم سےپھیردےاور ہمارایہ سفر پرامن کردے، بلاشبہ ان میں جو ہےوہ قابل سرزنش ہےاوراےاللہ!صاحبان اونٹ ہمارےلیےکافی ہوں"۔ ارکان(حج)میں مرحب کاتلبیہ تھا"حاضرہیں اےاللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کوحاضرہیں، بےشک ہم تیری بارگاہ میں حاضرہیں، پس ہمیں عزیزرکھ"۔ارکان (حج)میں ذریح کاتلبیہ تھا" حاضر ہیں اےاللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کو حاضر ہیں، ہم سب ناشکرے ہیں اورسب نعمتوں کا انکار کرنے والےہیں، پس زندہ کردینےوالی بارش سےہماری کفایت کر"۔ارکان(حج)میں ذاالکفین کاتلبیہ تھا" حاضرہیں اےاللہ!حاضر ہیں تیری اطاعت کو حاضر ہیں،بے شک جرہم والے تیرے بندے ہیں، دوسرےلوگ تو نئے ہیں البتہ وہ پرانے بندے ہیں لہذا ان کے مقابلہ میں ہم تیری دوستی کے زیادہ مستحق ہیں"۔ ارکان(حج)میں ہبل کاتلبیہ تھا" حاضرہیں اےاللہ!حاضرہیں، بےشک ہم محفوظ ہیں تونے ہمیں نیزوں کی انیوں پرحرام کردیا،لوگ ہماری کامیابی پرحسدکرتےہیں"
اہلِ عرب کا مذکورہ بالا ہر بُت کے لیے علیحدہ تلبیہ مذکورہ بُتوں کے بارے میں ان کے خیالات کا اظہار تھا اور ساتھ ہی اس طرف بھی اشارہ تھا کہ وہ ارکانِ حج میں ان سے استعانت ونصرت کے بھی خواستگار تھے۔حج کے ایام میں ان کی عظمت اہلِ عرب کے درمیان رائج تھی جس حوالہ سے ذیلی اقتباس نشاندہی کرتا ہے:
وكانوا يحجون ويطوفون سبعاً، ويهدون، ويرمون الجمار، ويمسحون الحجر، ويحرمون الأشهر الحرم فلا يغزون ولا يقاتلون فيها.35
زمانہ جاہلیت میں لوگ حج بھی کیا کرتے تھے، سات طواف کے چکر لگاتے،قربانی کرتے، رمی جمار کرتے، پتھروں کو تبرکاً چھوتےاور اشہر حرم کا احترام کرتے۔ ان مہینوں میں لڑائی جھگڑا اور قتل و قتال نہ کیا کرتے۔
اہلِ قریش اور دوسرے عرب جب حج کے لیے کعبے میں آتے تو ہبل صنم کے پاس اپنے کاموں میں مشورے لینے آتے اور پانسے پھینکتے تھے۔ ان مقاماتِ مقدسہ اور ان صنم کدوں اور بُت کدوں کا لوگ حج کرتے اور ان کے پاس میلےلگاتے تھے۔ ہر سال کے مہینے مقرر تھے جن میں جنگ و قتال کی ممانعت تھی۔ یہ "حرام" کے مہینے کہلاتے تھے اور انہیں میں حج کرتے تھے۔ حج کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ کعبہ کی طرح مشہور حج کی جگہ کعبہ ذی الشعری تھا۔ اسے "رب البیت"بھی کہتے تھے۔ ان اصنام کی نذر و نیاز بھی کرتے، انہیں اچھے اچھے تحفے دیتے، ہتھیار پیش کرتے تھے اور سامان عیش و عشرت ان کے لیے لے جاتے تھے۔ جنوبی عرب والے سونے چاندی یا لکڑی کے نقوش بھی پیش کرتے تھے۔ 36
اہلِ عرب کے ہاں دورجاہلیت میں بھی دینِ حنیف کی بہت سی عبادات باقی رہیں لیکن انہوں نے ان عبادات کے لیےچندشرائط و قیود مقرر کرکےانہیں ایسا رنگ دے دیا تھا جس میں ان عبادات کی روح فنا ہوگئی تھی۔ دینِ ابراہیمی کے مطابق وہ اپنےمردوں کو غسل دیتے تھے،کفن پہناتے تھے ،ان کی نماز جنازہ پڑھتے تھے اور سنتِ ابراہیمی کے مطابق ان کو قبروں میں دفن کرتے لیکن ان کی نماز ِجنازہ میں نہ اللہ کی حمد وثناءتھی، نہ اس میت کے لیے اللہ کی جناب میں مغفرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں بلکہ میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد جب دفن کرنے کے لیے لے جاتے تو اس میت کا کوئی قریبی رشتہ دار آگے کھڑا ہوجاتا اور اس میت کے محاسن اور کمالات بیان کرتااور اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملادیتا،37اس کے بعد تعریف کرنےوالاکہتا"علیک رحمۃ اللہ" یعنی تجھ پراللہ کی رحمت ہو 38اور پھر اس کو دفنادیاجاتا۔
نسل در نسل آباو اجداد کی اتباع وپیروی میں رواج پذیر ان طور طریقو ں میں سے ایک رسم نسئ (حرمت والے مہینوں کو مؤخر کرنا) بھی رائج تھی، یہ وہ رواج تھا جسے اسلام نے یکسر مسترد کردیا اور اُسے کفر کے مترادف قرار دیا۔"نسئ" کا معنی و مفہوم لغت کی کتب میں یوں منقول ہے:
تأخير حرمة شهر المحرَّم إلى شهر صفر في الجاهليّة حتى يتسنّى لهم القتال فيه.39
زمانہ جاہلیت میں حرمت والے مہینوں کی حرمت کو قتل و قتال کا جواز پیدا کرنے کے لیے صفر کے مہینہ کی طرف مؤخر کردیا جاتا تھا، اسے "نسئ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
تاریخی دستاویزات میں ہےکہ زمانۂ جاہلیت کےعربوں کے ہاں سال کےچندمہینے ادب وتعظیم سےمتصف تھےاوروہ ان مہینوں کی حرمت کا خاص اہتمام کرتے تھےلیکن جاہلیت سےمغلوب ہونےکی وجہ سے وہ اس وصف سے کماحقہ بہرہ مندنہ ہوپائے چنانچہ ذیل میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے:
روى التاريخ أن العرب في الجاهلية كانت تعتقد حرمة الأشهر الحرم وتعظيمها وكانت عامة معايش العرب من الصيد والغارة وكان يشق عليهم الكف عن ذلك ثلاثة أشهر متوالية وربما وقعت حروب في بعض الأشهر الحرم فكانوا يكرهون تأخير حروبهم الى الأشهر الحلال فنسئوا يعني: أخروا تحريم شهر الى شهرآ خر.40
تاریخ میں "نسئ"کی بابت مروی ہے کہ عرب زمانہ جاہلیت میں بھی اشہرِ حرم کی حرمت پر اعتقاد رکھتے تھے اور ان کی تعظیم کیا کرتے تھےلیکن چونکہ عرب والوں کی معیشت کا عمومی دار ومدارشکار،لوٹ ماری اور قتل و غارت گری پر تھا ،اس لیے انہیں یہ بات بہت ہی شاق وگراں گزرتی تھی کہ مسلسل تین ماہ تک یہ سلسلہ موقوف رہے لہٰذا اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ جب کبھی ایسا ہوتا کہ اشہرِ حرم میں جنگ وغیرہ ہو جاتی تو وہ جنگ کو مؤخر کرنے کے بجائے "نسئ"کرتے یعنی ان مہینوں کو مؤخر کر دیتے اور رد و بدل کر دیتے ۔
اور یوں وہ ان مہینوں کی حرمت کو قائم رکھنےکےزعم میں مبتلا ہوکر قتل وغارت گری سے باز نہ آتے تھے۔
نسئی کی رسم دووجہ سے رائج تھی! ان میں سے ا یک وجہ جس کا ذکر ابن اسحاق نے بھی کیا ہے وہ یہ تھی کہ اہلِ عرب محرم کو حلال اور اس کے بدلے صفر کو حرام قرار دے کر جنگ و جدل، غارت گری اور خون کے انتقام لینے کا راستہ نکال لیتے تھے۔دوسری وجہ یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے وہ ہر سال حج کو گیارہ(11) دن یا اُس سے کچھ زیادہ آگے بڑھادیتے تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ ان زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔درج ِ ذیل عبارت سے اس طرف اشارہ ملتا ہے:
وحَدثني عبدُ الله بن صَالح، عَن أَبي كُناسَةَ، عَن مشايخه قَالُوا: كانوا يحبون أن يكون يوم صدرهم عن الحج في وقت واحد من السنة، فكانوا ينتسئونه والنسيء: التأخير، فيؤخرونه في كل سنة أحد عشر يوما، فإذا وقع في عدة أيام من ذي الحجة جعلوه في العام المقبل، لزيادة أحد عشر يوما من ذي الحجة، ثم على تلك الأيام، يفعلون كذلك في أيام السنة كلها.41
عبد اللہ بن صالح نے ابی کناسہ سے، انہوں نے اپنے مشائخ سے مجھے روایت کیاکہ اہلِ عرب کو پسند تھاکہ ان کےحج سےفراغت کا وقت سال میں ایک ساہواسی لیے وہ "نسئ"کرتےتھے۔"نسئ"تاخیر ہے، پس وہ ہرسال میں سےگیارہ(11) دن مؤخرکردیتے تھےاورپھر اگر حج ذوالحجہ کےکچھ دنوں میں آجاتاتوذو الحجہ میں گیارہ(11) دن کی زیادتی کی وجہ سےاسے آئندہ سال میں شامل کردیتے، پھران دنوں پربھی زیادتی کرتے۔ ایساہی وہ سال کے تمام ایام میں کیا کرتےتھے۔
اس حوالہ سے کچھ مختلف توضیحات بیان کرنے سمیت امام جصاص رازی نے بھی ابن عباس کے حوالہ سے اس بات کو قدرے تفصیلا اس طرح لکھا ہے:
ومراد الله تعالى ذكره النسيء في هذا الموضع ما كانت العرب تفعله من تأخير الشهور، فكان يقع الحج في غير وقته واعتقاد حرمة الشهور في غير زمانه، فقال ابن عباس: كانوا يجعلون المحرم صفرا، وقال ابن أبي نجيح، وغيره: كانت قريش تدخل في كل ستة أشهر أياما يوافقون ذا الحجة في كل ثلاث عشرة سنة.42
"نسئ"سے مراد عرب کی وہ تقدیم و تاخیر ہے جو وہ زمانہ جاہلیت میں مختلف مہینوں میں کیا کرتے تھے۔عرب کی اس تقدیم و تاخیر کی وجہ سے اکثر و بیشتر حج بھی اپنے وقت سے مقدم و مؤخر ہو جا يا كرتا تها۔ اس سے عرب کا وہ اعتقاد بھی مراد ہے جو وہ غیر حرام مہینوں کی حرمت کے بارے میں رکھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن نے کہا کہ وہ محرم کو صفر بنا دیا کرتے تھے۔ابن نجیح وغیرہ نے کہاکہ اہلِ قریش ہر چھ ماہ میں کچھ دن بڑھا دیا کرتے تھے تا کہ ہر تیرہ سال میں ذی الحجہ اپنے وقت پر آ جائے ۔
اسی حوالہ سے مزید تشریح وتوضیح کرتے ہوئے ڈاکٹر صالح احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
ولما كانت العرب تستخدم الاشهر القمرية وهي تختلف عن الاشهر الشمسية فربما كان الاعتماد عليها يخل بامور التجارة التي تجري حسب فصول السنة لذلك كانت العرب في الجاهلية تكبس في كل ثلاث سنين شهرا وتسميه النسئي اي انه كان يضاف شهر في كل ثلاث سنوات لكي تتطابق السنة الشمسية مع القمرية وهذا يؤدي الي تغيير في الاشهر الحرم وكان المختص بالنسئي هو الذي يعين الشهر المضاف.43
جب اہلِ عرب قمری مہینوں سے خدمت حاصل کرتے تھے اور وہ شمسی مہینوں سے مختلف ہوتے ہیں تو بسا اوقات ان قمری مہینوں پر اعتماد کرنےسے ان کےان تجارتی امور میں خلل پڑتا تھا جو سال کے موسموں کے لحاظ سے جاری رہتے تھے،اسی وجہ سے دورِ جاہلی کے اہلِ عرب ہر تین سال میں ایک مہینہ کا اضافہ کرتے تھے اور اس کو "نسئ"کانام دیتے تھے یعنی وہ ہر تین سالوں میں ایک مہینہ کا اضافہ کردیتے تھے تاکہ شمسی سال بھی قمری کے مطابق ہوجائے جبکہ در حقیقت یہ طریقہ حرمت والے مہینوں میں تغیر وتبدل کرنے تک پہنچادیتاتھا نیز "نسئ"سے مختص کیا ہوا مہینہ وہی ہوتا تھا جو بڑھایاجاتاتھا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہلِ عرب ہرسال گیارہ دن کا اضافہ کرکے تین سال میں ایک مہینہ بڑھادیتے تھے اور یوں وہ ایک ہی موسم میں عبادات حج وغیرہ سرانجام دینے کے قابل ہوجایا کرتے تھے لیکن یہ طریقہ حکم باری تعالیٰ کی نافرمانی کے سو اکچھ نہیں چنانچہ خدائی حکم سمیت اس رسمِ نسئی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ 36إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ 37
بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (ازخود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ (حرمت والے مہینوں کو) آگے پیچھے ہٹا دینا محض کفر میں زیادتی ہے اس سے وہ کافر لوگ بہکائے جاتے ہیں جو اسے ایک سال حلال گردانتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام ٹھہرا لیتے ہیں تاکہ ان (مہینوں) کا شمار پورا کر دیں جنہیں اللہ نے حرمت بخشی ہے اور اس (مہینے) کو حلال (بھی) کر دیں جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے۔ ان کے لیے ان کے برے اعمال خوش نما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ کافروں کے گروہ کو ہدایت نہیں فرماتا۔
ان چا رمہینوں کو حرمت والے مہینے قرار دینے کی حکمت یہ تھی کہ حج اور عمرہ ادا کرنےآنے والوں کے لیے راستوں کو محفوظ و مامون بنایا جائے ۔ راستے پُرامن ہوں اور مناسکِ حج و عمرہ کرنے والوں کو کسی قسم کاخوف و خطرہ نہ ہو۔ مذکورہ بالا آیاتِ بینات میں مہینوں کی حرمت کے متعلق حکمِ خداوندی کوبیان کرنے کےبعد اس رسمِ نسئی کے بارے میں واضح فرمایا کہ یہ کفر میں اضافہ ہے۔اس کے معنی بیان کرتے ہوئے امام بغوی بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب کافروں کے کفر پر مزید زیادتی ہے 44کیونکہ اس طرح کرنے سے حکمِ خداوندی پامال ہوتا ہے۔
نسئی کی پہلی صورت تو صریحاً گناہ ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال بھی کرلیا جائے اور پھر حیلہ بازی کرکے اسے قانونی شکل بھی دے دی جائے۔ رہی دوسری صورت تو بظاہر تو وہ بے ضرر معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل و ہ بھی خدا کے قانون سےبدترین بغاوت تھی۔ تخلیقِ کائنات کے آغاز سے ہی اللہ تعالیٰ نے احکامات کی ادائیگی کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب کے مقرر کرنے میں یہ مصلحت رکھی کہ اس کے بندے زمانہ کی تمام گردشوں میں ہر قسم کے حالات و کیفیات میں اس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں 45لیکن اس رسمِ نسئی کی وجہ سے روزہ وحج یا دیگر عبادات میں من مانا موسم اپنا لیا جاتا تھا جس کے سبب یہ عملِ بد بدترین بغاوت بن گئی تھی۔
عربوں میں نسئی کے آغاز کے با رے میں" الروض الانف "میں درج ایک شعر سے یہ اندازہ ہوتا ہےکہ معد بن عدنان (عرب کے جد امجد) کے زمانے میں بھی نسئی ہوتی تھی چنانچہ صاحبِ روض الانف اس حوالہ سے تحریر کرتے ہیں:
فقال في ذلك عمير بن قيس جذل الطعان أحد بني فراس بن غنم بن ثعلبة بن مالك بن كنانة، يفخر بالنسأة على العرب:
لقد علمت معد أن قومي
كرام الناس أن لهم كراما
ألسنا الناسئين على معد
شهور الحل نجعلها حراما.46
ان باتوں کا اندازہ ان اشعار سے ہوتا ہےجو بنو فِراس بن غَنم بن ثعلبہ بن مالک بن کنانہ کے ایک شخص عمیر بن قیس ، جِذل الطَعان نے عرب کی نسی٫ پر فخریہ کہا:
میں یہ جانتا ہوں کہ میری قوم میں سب سے زیادہ کریم النفس مَعدتھا
کیا ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو مَعد کے زمانے میں "نسئی "کرتے تھے
ہم حلال مہینوں کو حرام کردیتے تھے۔
یہ طریقہ بنو کنانہ نے شروع کیا اور اسے اپنے لیے موجبِ فخر قرار دیا جس وجہ سے یہ اس کی شروعات کرنے والوں میں شمار ہوئے چنانچہ ڈاکٹر صالح احمد علی امام ازرقی47کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ان النسئي كان في كندة ثم صار في بني مالك بين كنانة ولبني القلمس منهم خاصة وقد ظلوا يقومون فيه حتي جاء الاسلام.48
بلاشبہ "نسئی "کندہ میں تھی پھر کنانہ ہی کے مابین بنی مالک میں اور خاص طورپر بنی القلمس میں ہوگئی جس پر یہ لوگ قائم رہے یہاں تک کہ اسلام آگیا۔
علامہ خراسانی نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کی تائید کی ہے کہ ناسئی بنی کنانہ میں سے ہی کوئی صاحب الرائے فرد ہوا کرتا تھا۔ 49امام مبرد اپنی کتاب الکامل میں اس حوالہ سے یوں نقل کرتے ہیں:
وكانت النسأة من بني مذلج بن كنانة....لأنهم كانوا يؤخرون الشهور فيحرمون غير الحرام ويحلون غير الحلال لما يقدرونه من حروبهم وتصرفهم فاستوت الشهور لما جاء الإسلام.50
اور یہ عمل بنی مذلج بن کنانہ کیا کرتے ۔۔۔وہ لوگ کئی کئی مہینوں کو مؤخر کر دیا کرتے تھےاور ايسا کرنے سے یہ مفسدہ پيدا ہوتا تھا کہ حرام مہینے حلال اور حلال مہینے حرام ہو جایا کرتے تھے۔ پھر جب اسلام کا ظہور ہوا تو مہینوں کا حساب درست ہو گیا ۔
جبکہ ابن اسحاق کی رائے کے مطابق قلمس نامی بادشاہ نے اس کا اجراء کیا تھا چنانچہ ابن اسحاق کے حوالہ سے امام رازی نے احکام القرآن میں تحریر کیا:
كان ملك من العرب يقال له القلمس، واسمه حذيفة أول من أنسأ النسيء، أنسأ المحرم فكان يحله عاما، ويحرمه عاما، فكان إذا حرمه كانت ثلاث حرمات متواليات.51
سب سے اول ناسئی عرب کا باد شاہ قلمس تھا جس کا نام حذیفہ تھا،وہی پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے "نسئی "کیا اور سب سے پہلا جو مہینہ "نسئی "کیا گیا وہ محرم تھا جسے ایک سال حلال کیا جاتا اور ایک سال حرام،جس سال محرم حرام کیا جاتا تواس سال تو تین اشہرِ حرم حسبِ ترتیب پے در پے آتے۔
بہر حال یہ نسئیعرب میں رائج تھی اور اس کا مقصد حدودِ الہیہ کی پاسداری خود ساختہ طریقہ سے کرنا تھی جس بنا پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس رسم کو کفر میں زیادتی سے تعبیر فرمایا اوراسے گمراہی کاسبب قراردیا۔
علامہ زبیدی نے" تاج العروس" میں ناسئیین کو مرحلہ وار بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ناسئیین مختلف لوگ تھے جو یکے بعد دیگرے منتخب ہوتے رہے اور یہ فریضۂ خود ساختہ ادا کرتے رہے۔اس حوالہ سے مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:
ذلك أنهم كانوا إذا صدروا عن منى يقوم رجل (من كنانة) فيقول: أنا الذي لا يرد لي قضاء، فيقولون: أنسئنا شهرا، أي أخر عنا حرمة المحرم واجعلها في صفر فيحل لهم المحرم،....وكان أول من نسأ قلع، نسأ سبع سنين، ونسأ أمية إحدى عشرة سنة، وكان أحدهم يقوم فيقول: إني لا أحاب ولا أعاب، ولا يرد قولي ثم، ينسأ الشهور....قال المفضل الضبي: يقال لنسأة الشهور: القلامس، واحدهم قلمس، وهو الرئيس المعظم، وكان أولهم حذيفة ابن عبد بن فقيم بن عدي بن عامر ابن ثعلبة بن الحارث بن مالك بن كنانة، ثم ابنه قلع بن حذيفة، ثم عباد بن قلع، ثم أمية بن قلع، ثم عوف بن أمية، ثم جنادة بن أمية بن عوف بن قلع.52
جب اہلِ عرب منیٰ سے جا رہے ہوتے تھے تب ناسی اعلان کرتا تھا،اور وہ بنو کنانہ سے کوئی شخص ہو تا تھا جو یہ اعلان کرتا کہ "میں وہ ہوں جس کی بات رد نہیں کی جاتی" تو سب مجمع اس کی طرف متوجہ ہوتا اور درخواست کرتا کہ ہمارے لیے "نسئی "کاا اعلان کرو،یعنی محرم کی حرمت کو صفر کی طرف مؤخر کر دو،وہ ان کے لیے محرم کو حلال کر دیتا۔۔۔ سب سے پہلے جس نے "نسئی "کی اس کا نام قلع تھا،اس نے سات(7) سال "نسئی "کی، اس کے بعد گیارہ(11) سال امیہ نے کی ۔ان میں سے ایک کھڑاہوتا اورکہتا: میری طرف نہ کوئی گناہ منسوب کیاجاتاہے، نہ ہی کوئی عیب لگایا جاتاہےاورنہ ہی میری بات ردکی جاتی ہےپھر وہ مہینوں میں "نسئی "کرتا۔۔۔ اور ناسی کا لقب قلمس ہوا کرتا تھا اور وہ سب سے بڑا سردار ما نا جاتا تھا، سب سے پہلا قلمس جو بنا اس کا نام تھا حذیفہ ابن عبدبن فقیم بن عدی بن عامر ابن ثعلبہ بن الحارث بن مالک بن کنانہ ،پھر اس کا بیٹا قلع بن حذیفہ قلمس بنا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے عباد بن قلع،امیہ بن قلع،عوف بن امیہ اور جنادہ بن امیہ بن عوف بن قلع قلمس بنے۔
البتہ اسلام آنے کےبعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قبیح رسم کا خاتمہ فرمادیا چنانچہ اس حوالہ سے امام جصاص رازی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فوفق الله تعالى رسوله في حجته استدارة زمانهم كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، فاستقام الإسلام على عدد الشهور ووقف الحج على ذي الحجة.53
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کے حج کے وقت ان ماہ وایام کی ترتیب کو بعینہ اس ترتیب کے موافق کر دیا جو بوقتِ تخلیق کائنات تھی اور حج کو بھی اپنے وقت (ذی الحجہ) كے موافق کر دیا۔
اسی حوالہ سے ایک مروی حدیث مبارکہ میں منقول ہوا کہ نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کےخطبہ میں ارشادفرمایا:
إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض السنة اثنا عشر شهرا، منها اربعة حرم، ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب شهر مضر الذي بين جمادى وشعبان.54
زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر ویسا ہو گیا جیسا اس دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان بنائے تھے، ایک برس بارہ(12) مہینے کا ہے جس میں چار مہینے حرام ہیں۔ (یعنی ان میں لڑنا بھڑنا درست نہیں) تین مہینے تو برابر لگے ہوئے ہیں، ذیقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب، مضر کا مہینہ جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں ہے۔
اہلِ عرب میں زمانہ جاہلیت میں مختلف الانواع جاہلانہ طور طریقے،رسوم و رواج اور عادات و اطوار رائج تھیں جو نسل در نسل آباو اجداد کی اتباع وپیروی میں رواج پذیر ہوتی جاتی تھیں ،عربِ جاہلیت کے ان طور طریقو ں میں سے ایک رسم "نسئی "بھی رائج تھی جسے قرآن نے یکسر مسترد کردیا اور اُسے کفر کے مترادف قرار دیا۔یوں یہ رسمِ نسئی جس سے حرمتِ الہٰیہ کی حدود ماپال ہوتی رہی تھیں اسے یکسر ختم کردیا گیا اورابتدائے زمانہ سے چلے آنےوالےحرمت کے مہینوں کی اصل کو قائم کردیاگیا۔
اہلِ عرب میں رائج بعض جاہلانہ رسوم میں سے "سلع وعشر "بھی رائج تھیں ۔ جب بارش برسنا بند ہوجاتی اور قحط سالی کا دور دورہ ہوتا تو وہ سلع اور عشر (جودو درختو ں کے نام تھے) کی ٹہنیاں کاٹ کر ایک گائے کی دم کے ساتھ باندھ دیتے پھر ان شاخوں کو آگ لگادیتے اور اس گائے کو دشوار گزار پہاڑیوں میں بھگادیتے۔اس فعل سے یہ خیال کرتے کہ ان کے اس طریقہ سے بادل امڈ کر آئیں گے، بجلی چمکے گی اور موسلا دھار بارش برسے گی۔ایک عرب شاعر اس بابت اظہارِ طنز کرتے ہوئے کہتا ہے:
شفعنا ببيقور الي هاطل الحيا
فلم يغن عنا ذاك بل ذادنا جدبا
فعدنا الي رب الحيا فاجارنا
وصير جدب الارض من عنده خصب.55
ہم نے اس گائے سے شفاعت طلب کی جس کی دم سے شاخیں باندھ کر آگ لگادی گئی تھی تاکہ موسلا دھار بارش برسے، لیکن اس چیز نے ہمیں کوئی نفع نہ پہنچایا بلکہ خشک سالی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ہم اس سے مایوس ہوکر بارش کے رب کی طرف متوجہ ہوئے اس نے ہمیں پناہ دی اور ہماری بنجر زمینوں کو زرخیز زمینوں میں تبدیل کردیا۔
اس سے واضح ہواکہ ان کے ہاں اس رسم کا رواج تھا البتہ بعض افراد اس پر طنز بھی کردیا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک جاہلانہ رسم یہ بھی تھی کہ اگر ایک اونٹ کو خارش کی بیماری لاحق ہوتی تو اس کے ساتھ جو صحت مند اونٹ ہوتا، اس کوآگ سے داغ لگائے جاتے اور یہ سمجھا جاتاکہ اس طرح خارش زدہ اونٹ صحتیاب ہوجائے گا۔ خارش زدہ اونٹ کو"ذی العر" کہا جاتا۔ عرب کی اس توہم پرستی کو شعراء نے اپنے اشعار میں بھی استعارہ کے طور پر بیان کیا ہے چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے:
فالزمتني دنبا وغيري جره
حنا نيك لاتكوا الصحيح باجربا.56
تونے مجھ پر ایک گناہ کا الزام لگایا ہے حالانکہ اس کا ارتکاب میرے علاوہ کسی اور نے کیا ہے۔ مجھ پر رحم کرو اور ایک خارش زدہ اونٹ کے بدلہ میں صحت مند اونٹ کو داغ مت لگاؤ۔
عرب کی ان جاہلانہ رسوم میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ جب کوئی شخص کسی ایسے گاؤں میں داخل ہونے کا ارادہ کرتا جس میں کوئی وبا پھوٹی ہوئی ہوتی تو اس سے بچنے کے لیے اور جنوں کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے وہ اس گاؤ ں کے دروازے پر کھڑا ہوجاتا اور اندر قدم رکھنے سے پہلے گدھے کی طرح آواز نکالتا، پھر خر گو ش کا ٹخنہ اپنے گلہ میں باندھ لیتا اور یقین کر لیتا کہ اب نہ وبا مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ یہاں کا جن مجھے کوئی اذیت پہنچا سکتا ہے ۔ اس کو وہ"تعشیر"کے لفظ سے تعبیر کرتے چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے :
ولا ينفع التعشير في جنب جر مة
ولادعدع يغني ولا كعب ارنب.57
جب کوئی جنگ بھڑک اٹھتی ہے تو گدھے کی طرح آواز نکالنا کوئی نفع نہیں دیتا، نہ اپنے مقام سے ادھر ادھر ہٹ جانا اور نہ خرگوش کے ٹخنے کو اپنے گلے میں لٹکانا سود مند ثابت ہوتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شاعر کنایہ اور بند الفاظ میں اس رسم کی طرف اشارہ کررہا ہے جو ان میں یقینی طور پر رائج تھی۔
ان کی ایک رسم یہ بھی تھی کہ جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو ایک دھاگا کسی درخت کی ٹہنی کے ساتھ باندھ دیتا یا اس کے تنے کے ارد گرد لپیٹ دیتا ۔پھر جب سفر سے واپس آتا تو اس دھاگے کو دیکھتا،اگر وہ صحیح سلامت ہوتا تو وہ سمجھتا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کوئی خیانت نہیں کی اور اگر وہ اسے ٹوٹا ہوا پاتا تو خیال کرتا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں بدکاری کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس دھاگے کو" الرتم" کہتے ۔ 58
ان کی ایک رسمِ بد کے بارے میں ابن سکیت نے روایت کیا ہے کہ عرب کہتے تھے اگر کسی شریف آدمی کو قتل کر دیا جائے اور وہ عورت جس کا بچہ زندہ نہ رہتا ہو تو وہ اس مقتول کی لاش کو روندتی ہوئی اوپر سے گزرے،اس کے بعد جو بچہ وہ جنے گی تووہ زندہ رہے گا۔ 59
ان کی ہاں ایک قبیح رسم یہ بھی تھی کہ جب کوئی آدمی مر جاتا تو وہ اس پر نوحہ خوانی کرتے، روتے، اپنے چہروں پر طمانچے مارتے، گریبان پھاڑتے اور سر منڈو ا دیتے ۔ بسا اوقا ت مرنے والا مرنے سے پہلے خود اپنے وارثوں کے نام اس رسم کی تاکید ی وصیت کر جاتا چنانچہ طرفہ بن العبد جو عرب کا ایک مشہور شاعر تھا اس نےاپنی بھتیجی کو وصیت کرتے ہواکہا:
فان مت فانعيني بما انا اهله
وشقي علي الجيب ياابنة معبد.60
ترجمہ اے معبد کی بیٹی ( معبد اس کے بھائی کا نام تھا ) جب میں مرجاؤں تو شایان شان طریقہ پر میری موت کا اعلان کر نا اور میرے لیے اپنا گریبان چاک کر دینا ۔
یہ ماتم اور نوحہ خوانی ہفتہ دس (10)دن تک جاری رہتی اور بعض اوقات ایک سال تک یہ محشر بپا رہتا، اس کےبعد گریہ وزاری اور ماتم گساری کا یہ سلسلہ کہیں جاکر اختتام پذیر ہوتا۔ اسی طرح لبیدنے اپنی دونوں بیٹیوں کو اس بابت وصیت کرتے ہوئے کہا:
فقوما وقلا بلاذي تعلمانه
ولا تخمشا وجها ولا تحلقا شعر
وقولا هو المر الذي لا خليله
اجاع ولا كان الصديق ولا غدر
الي الحول ثم اسم السلام عليكما
ومن يبك حولا كاملا فقد اعتذر.61
کہ میرے مرنے کے بعد تم دونوں کھڑی ہو جانا اور میرے محامد اور اوصا ف جو تم جانتی ہو انہیں بیان کرنا، نہ اپنےچہروں کو نوچنا اور نہ اپنے بالوں کو منڈوانا ،اور دونوں یہ کہنا کہ ہمارا باپ وہ تھا جس نے نہ کبھی اپنے دوست کو ضائع ہو نے دیا ، نہ کبھی کسی امین کی خیانت کی اور نہ کسی کے ساتھ بد عہد ی کی۔رونے دھونے کا یہ سلسلہ تم ایک سال تک جاری رکھنا پھر تم پر سلامتی ہو اور جو شخص مرنے والے پر پورا سال روئے پھر اس کے بعد وہ رونا ترک کردے تو اسے معذور سمجھا جائے گا ۔
اسلام نے جاہلیت کی دیگر قبیح رسوم کے ساتھ ساتھ اس رسم کو بھی ختم کردیا تھا چنانچہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
ليس منا من لطم الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوي الجا هلية.62
وہ آدمی جورخساروں پر طمانچے مارے، اپنے گریبانوں کو چاک کرے اور جاہلیت کے زمانے کی لافیں مارے، وہ مسلمانوں میں سے نہیں ۔
اسی حوالہ سےحضرت ابو موسیٰ اشعری رسول اکرم ﷺکافرمان بیان کرتے ہوئےنقل فرماتے ہیں:
أشهدكم أني بريء من كل حالقة أو سالقة أو خارقة قالوا أوسمعت فيه شيئا؟ قال: نعم من رسول الله صلي الله عليه وسلم.63
ميں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں ہرحالقہ،سالقہ اور خارقہ عورتوں سے بری ہوں،موجود لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے اس بارےمیں کچھ سنا ہے؟انہوں نے کہا کہ ہاں رسول اللہﷺسے سنا ہے۔
حالقہ سے مرادوہ عورت جو مصیبت کے وقت اپنا سرمنڈادے، سالقہ سے مراد وہ عورت جو بلند آواز سے نوحہ کرے اور خارقہ سے مراد وہ عورت جو اپنے گریبان کو چاک کردے۔ 64ان تین اقسام کی عورتوں سےرسول اکرمﷺنے بری الذمہ ہونے کا اعلان فرمایا۔
عربوں کے ہاں مقتول کی دیت عام طور پر ایک سو اونٹ ہوا کرتی ، قاتل پوری دیت کو ساتھ لے کر اور اپنی قوم کے معززین کی جماعت کی ہمراہی میں مقتول کے وارثوں کے پاس جاتا اور ان سے دیت قبول کرنے اور قتل معاف کرنے کی درخواست کرتا۔ اگر مقتول کےورثاء طاقتور ہوتے تو دیت کو مسترد کر دیتے اور قصاص لینے پر اصرار کرتے اور اگر وہ اتنے طاقتور نہ ہوتے کہ قاتل کے قبیلہ کا مقابلہ کر سکیں تو پھر اپنا پردہ رکھنے کے لیے وہ یہ کہتے کہ ہم خود تو اپنے مقتول کو ان سو اونٹوں کے بدلے فروخت نہیں کر سکتے البتہ اگر اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ فرمادے تو پھر ہم دیت لے لیں گے اور قصاص سے دست کش ہو جائیں گے ۔ اس بارے میں فیصلہ خداوندی معلوم کرنے کی صورت یہ تھی کہ کمان میں تیر رکھ کر آسمان کی طرف پھینکا جاتا، اگر وہ خون سے آلودہ ہو کر واپس آتا تو وہ کہتے کہ اللہ تعالی نے دیت لینے کی اجازت نہیں دی بلکہ قصاص لینے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم مجبور ہیں ۔ اگر واپس آنے والا تیر خون سے آلودہ ہوتا تو کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے دیت لینے کے بارے میں فیصلہ کردیا ۔ یہ حیلہ محض عوام کو خاموش کرنے کے لیے کیا جاتا۔ ورنہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ تیر پھینکا گیا ہو اور خون سے رنگین ہو کر واپس آیا ہو ۔ عام لوگوں کی دیت کے بارے میں تو یہ مقدار مقرر تھی لیکن اگر مقتول کو ئی بادشاہ یاامیرِ قوم ہو تا تو اس کی دیت ایک سو اونٹ کے بجائے ایک ہزار اونٹ دی جاتی۔ بادشاہ اور رئیس قبیلہ کو اس معاشرہ میں جو خصوصی امتیازات حاصل تھے ان میں سے یہ امتیاز بھی تھا۔ 65
اہلِ عرب کے ہاں رسمِ بلیہ بھی ان کےمذہبی رسم ورواج میں سے ایک رسم تھی جسے کسی کے مرنےپرادا کیا جاتاتھااوریہ رسم میت کےاونٹ یا اونٹنی کواذیت پہنچاکرپوری کی جاتی تھی۔عرب کےزمانۂ جاہلیت کی اس رسم کے حوالہ سے سیّد محمود شکری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وهي ناقة تعقل عند القبر حتى تموت فمذهب مشهور والبلية أنهم إذا مات منهم كريم بلوا ناقته أو بعيره فعكسوا عنقها وأداروا رأسها إلى مؤخرها وتركوها في حفيرة لا تعطم ولا تسقى حتى تموت وربما أحرقت بعد موتها وربما سلخت وملئ جلدها ثُماماً وكانوا يزعمون أن من مات ولم يبل عليه حشر ماشيا ومن كانت له بلية حشر راكبا على بليته قال حربية ابن الأشيم الفقعسي لابنه:
"يا سعد إما أهلكنّ فإنني
أوصيك أن أخا الوصاة الأقرب
لا أعر فنّ أباك يحشر خلفكم
تعباً يخرّ علي اليدين و ينكب
واحمل أباك علي بعيرٍ صالح
وتقي الخطئية إنه هو أصوب".66
بلیہ وہ اونٹنی ہوتی تھی جسےقبر کےپاس باندھ دیاجاتایہاں تک کہ وہ مرجاتی۔ یہ ایک مشہوررسم ہے۔بلیہ یہ تھی کہ جب کوئی ذی عزت انسان مرجاتا تووہ اس کی اونٹنی یا اونٹ کو بغیر خوراک کےچھوڑدیتےپھر اس کی گردن کوالٹاکردیتے، اس کے سر کو پھیرکرپشت کی جانب کرد یتے اور اسےایک چھوٹےسے گڑھے میں چھوڑ دیتے، اسے کھانے اورپینے کے لیےکچھ نہ دیاجاتاتاآنکہ وہ مرجاتی ۔بسااوقات اس کے مرجانے کےبعد اسےجلادیتے اورکبھی کھال اتارکرثمامہ(گھاس)اس کے اندربھردیتے۔ان کا خیال تھا کہ جس شخص کےمرنےکےبعد بلیہ نہ بنائی جائے وہ قیامت کے دن پیادہ اٹھے گااورجس کی بلیہ ہوگی وہ اپنی بلیہ پرسوارہوکراٹھےگا۔حربیہ ابن الاشیم الفقعسی اپنے بیٹےسےکہتاہے:
اےسعد! اگر میں مرجاؤں تو میں تجھے وصیت کرتاہوں کیونکہ وصیت کرنےوالا قریب ترین شخص ہوتاہے۔تمہارے بعد میں تمہارےباپ کوایسا نہ دیکھوں کہ جب اسے اٹھایاجائے تو وہ تھکا ہوا کبھی ہاتھوں کےبل گرتاہو اورکبھی راستے سے ایک طرف ہٹ جاتاہو، اپنے باپ کو تندرست اونٹنی پرسوار کرنا، خوب موٹی تازی چننایہی زیادہ صحیح بات ہے۔ 67
ان اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ عرب کے ان بعض قبائل کے ہاں جو بعثت کے قائل تھےیہ بھی ایک رسم جاری وساری تھی جس سے ان کا مقصد فوت شدہ کو بعثت پر سواری مہیا کرنا تھی۔
قبل ازاسلام جیساکہ ان کے خوشی منانے کے نئے نئے انداز تھے بالکل ویسے ہی غم منانے کے بھی نرالے طریقے تھے کیونکہ ان کے یہاں جنگ و جدل عام تھی اور بہت سارے افراد لڑائیوں میں بھی کام آجایا کرتے تھے لہٰذا اس خونریزی میں بہت ساری رسومات شامل ہوگئی تھیں مثلاًانتقام کی آگ ان کے دلوں کو ہمیشہ گرمایا کرتی تھی اور یہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کسی کا خون رائیگاں نہ چلا جائے ۔ 68
عربوں کے یہاں باہمی جنگ و جدل کے علاوہ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقاد ی نے ان کی زندگی کے ساتھ ان کی موت کو بھی مشکل بنا دیا تھا عجیب عجیب خیالات اور ان کے ساتھ رسومات نے ان کو بے انتہا مصائب میں گرفتار کر دیا تھا۔ اسی طرح اس توہم پرستی کی وجہ سے ان میں کئی طرح کی منفی رسمیں بھی نفوذ کرچکی تھیں مثلاً ان میں ایک رسم یہ بھی تھی کہ دو آدمی باہمی مقابلہ کرتے، ایک آدمی چند اونٹ ذبح کر تا اوردوسرا آدمی اس سے زیادہ کر دیتا، پھر پہلا آدمی اس سے بھی زیادہ کر تا اوردوسرا آدمی اونٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ کر کے انہیں کاٹ ڈالتا۔ جو آدمی اپنے مد مقابل سے زیادہ اونٹ ذبح کرنے سے عاجز آ جاتا، اسے شکست خوردہ تصور کیا جاتا اور پہلے کو غالب اور فاتح شمار کیا جاتا۔69یہ ایک ایسی منفی رسم تھی جس کی وجہ سے بلا ضرورت بے دریغ اونٹوں کو تلف کر دیا جاتا۔ اس میں اسراف بھی تھا اور جانوروں کا ضیاع بھی لیکن وہ لوگ عہدِ جاہلیت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے اپنے سینکڑوں اونٹ ضائع کر دیتے اور اس کو وجہ فخر و مباہات سمجھتے تھے۔
عرب عمومی طور پر چو نکہ علم کی روشنی سے دور تھے اور ضعیف الاعتقادی نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بھی ختم کر دیا تھا اس لیے وہ ہر مشکل میں کسی غیبی معاونت کے متلاشی رہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ عرب معاشرے میں کچھ ایسے ہو شیار لوگ جو کہ دور رس نگاہ رکھتے تھے اورجن کی چھٹی حس بھی تیز ہوتی تھی نیز وہ قیافہ شناسی میں بھی مہارت رکھتے تھے اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کاہن بن بیٹھے تھے۔ 70ان کےمعاشرے میں کاہنوں کی حیثیت مسلم تھی اور لوگ ان کی بتائی ہوئی باتوں پر نہ صرف یقین کرتے بلکہ ان پر عمل بھی کرتے تھے تاکہ وہ پریشانیوں سے بچے رہیں ۔ 71
کہانت ایک بلا تھی جو پورےجزیرے میں پھیلی ہوئی تھی ہر جگہ ایک یا کئی کاہن ہوتے تھے جو آئندہ واقعات کی پیش گوئیاں کرتے اور آسمانی خبریں بتاتے تھے۔ اہلِ عرب کا اعتقاد تھا اور خود کاہنوں کا دعویٰ تھا کہ ان کے ساتھ ایک ایک جن رہتا ہے۔یہ کاہن بت خانوں میں رہتے تھے اور کسی خاص بت کے پجاری ہوتے تھے اور جب لوگ ان سے غیب کی بات پوچھتے یا خود آئندہ کے متعلق پیش گوئی کرنے لگتے تو ایک خاص کیفیت اپنے او پر طاری کر لیتے۔مرد بھی کاہن ہوتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس شعبہ سےوابستہ ہوتی تھیں جو کاہنہ کہلاتی تھیں ۔72یہ مصیبتوں اور بلاؤں کے دور کرنے کے لیے بت پر ستانہ علاج اور تدبیر بتاتے تھے ۔73یہ اپنی کہانت کی اجرت میں بڑی بڑی رقمیں اور نذرانے وصول کرتے تھے، اسلام کے بعد ان میں جو مسلمان ہو گئے تھے وہ اعلانیہ اپنے ماضی کے اس فریب کا اعتراف کرتے تھے۔74
عرب ہر طرح کے ٹونے و ٹوٹکے آزمایا کرتے تھے اور ان کے بااثر ہونے پر کامل یقین بھی رکھتے تھے ۔ ٹونے ٹوٹکے اور توہم پرستی نے ان کے ذہنوں کو پرا گندہ کر دیا تھا یہاں تک کہ یہ خوشی اور غم ہر موقع پر ان کا استعمال کرتے نظر آتے تھے۔ شگون لینے میں بھی ان کا نہایت مضبوط اعتقاد تھا کہ جب کوئی مصیبت یا تباہی ان پر نازل ہوتی تھی تو پتھر کی چھوٹی کنکریوں پر کچھ پڑھ کے پھونکتے تھے اور ایسا کرنے سے اس مصیبت کے دور ہونے کی توقع رکھتے تھے۔جانوروں کے آنے اور بولنے سے بھی نیک اور بد شگون لیا کرتے تھے مثلاً اگر کوئی جانور کسی شخص کی بائیں طرف سے دائیں طر ف کا راستہ کاٹ جاتا تو اس کو نیک شگون سمجھتے تھے اور "سانح" کہتے تھے لیکن اگر دائیں جانب سے بائیں طرف راستہ کاٹ گیا تو اس کو بد شگونی سمجھتے تھے اور "جارح" کہتے تھے ۔75
عرب کےتہوار کسی نہ کسی بازارکے نام پرمنسوب ہوتےتھے جن کےقائم ہونےکے ایام مخصوص تھےاوراس لیے ان ہی کے نام پرمشہورہوگئےتھے۔یہ تہوار عرب کی تجارت سے جوعرب کےاقتصادسےجڑی ہوئی تھی اوراس کےبازاروں سے مربوط ہوتےتھے ۔ کسی بھی فرد،قوم یا مملکت کی اقتصادی حالت اس کی اجتماعی حالت کے تابع ہوا کرتی ہے ۔76منقول تفصیلات کے مطابق ان بازاروں پر عربی رنگ مکمل طور پر چڑھا ہوا تھااور عرب وہاں خرید و فروخت ، لین دین،عقد و معاملات اور حقوق و قضایا بهی نمٹاتے تھے۔ وہاں غیر عربی نظم و نسق کا داخلہ ممکن نہیں تھا مثلاً بازارِ عکاظ میں ہمیں ایسا ہی ماحول نظر آتا ہے جو گویا جاہلیت کے عرب کا ایک آئنہ نما ہے،اس کے ذریعہ ہم عرب کے اس وقت کے احوال جان سکتے ہیں کہ اس وقت عرب کے معاملات اور تعلقات کس نہج پر تھے،ان کا ماحول کیسا تھا اور وہ کیسا رہن سہن رکھتے تھے۔77اسی طرح مکّہ اور اس کے اطراف میں قائم بازار مجنہ اور ذی المجاز میں بھی ہمیں عربی ماحول ہی نظر آتا ہے اور ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان بازاروں کا ربط حجِ بیت اللہ سے بھی بہت گہرا تھا کیونکہ ان کا مقام اور وقتِ انعقاد عین وہی تھا جوحجِ بیت اللہ کا تھا جیسا کہ احمد ابراہیم نے بیان کیا ہے، وہ اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
وقد قامت في منطقة مكة أو حولها أكبر أسواق العرب في عكاظ ومجنة وذي المجازوكل هذه الأشياء كانت مرتبطة بالحج إلى بيت الله الحرام.78
مکّہ اور اس كے اطراف ميں جو بڑے بڑے بازار لگا کرتے تھے ان میں مشہور ترین عکاظ ،مجنہ اور ذی المجاز تھے اور ان کا تعلق حجِ بیت اللہ سے بھی بنتا تھا،اس لیے کہ ان کا اور حج کا وقت اور مقام ایک ہی ہوا کرتا تھا۔
ان تہواروں اور بازاروں میں سے خصوصی طور پر مذکورہ بالا بازار مذہبی رسوم ورواج کے آئینہ دار تھے اور ان ہی بازاروں سے عرب جاہلی کے افراد اپنے اپنے رواج کے مطابق جڑے ہوئے تھے۔
جاہلیت میں عرب عیدیں بھی اپنے مخصوص بُتوں کے حضور مناتے تھے تاکہ خوشی اور قربِ معبود دونوں حاصل ہوں چنانچہ تین بڑے بُتوں کی خاطر رختِ سفر باندھتےاور ان کے قدموں میں عجزونیازپیش کرکےعید کا اہتمام کرتے تھےجن سےمیلوں کے سماں بندھ جاتے تھے۔وہ تین بت حسبِ ذیل ہیں:
لات اہل طائف کابت تھاجودراصل نیک آدمی تھا اور حاجیوں کےلیے ستوبگھویا کرتا تھا۔جب وہ مرگیا تو مدت تک عرب اس کی قبر پرمقیم رہے،پھر انہوں نے اس کا بت بنایااور پھر ایک عمارت کھڑی کردی جس کا نام" بیت الربہ " رکھا۔عزیٰ اہل مکّہ کا بت تھا جو عرفات کے قریب نصب تھا، وہاں ایک درخت بھی تھا جس کے پاس اہلِ مکّہ جانورذبح کیا کرتے اور دعائیں مانگاکرتے تھے۔منات اہل مدینہ کا بت تھا۔اللہ کے ساتھ شرک کرتےہوئےوہ اس کےلیے احرام باندھاکرتے تھے۔یہ بت مکّے اورمدینے کےدرمیان ساحل کی جہت سے قدیدپہاڑ کے بالمقابل تھا۔ ان تینوں بُتوں کے پاس جمع ہونے کےلیےعربوں نے سال بھر میں مخصوص موسم مقررکررکھے تھے،ہرپہاڑی راستے سے عرب ان کا قصد کرکے آتے اورکعبےکی طرح ان کی تعظیم کیا کرتےتھے۔ان کے پجاری اوردربان مقررتھے۔ یمن میں ذوالخلصہ، خثعم اوربجیلہ کا گھر تھاجس میں بت تھےاور عرب ان کی پرستش کیاکرتےتھے۔وہاں سال میں ایک بار میلہ بھی لگاکرتاتھا۔ نبی اکرم ﷺنے جریرسےفرمایا: کیاتو ذوالخلصہ کو تباہ کرکےمیرےدل کوراحت نہ پہنچائےگا؟ جریر کہتےہیں: یہ سن کر میں ایک سوپچاس سواروں کو لےکرنکلا، پھر ہم نے اسے توڑڈالااوران تمام لوگوں کو جووہاں تھے قتل کرڈالا۔79
اہلِ عرب جاہلیت میں اپنےتہواروں،عیدوں،جنگوں اورمیلوں میں بہترین کپڑوں، فاخرہ لباس، قیمتی دوشالوں اورخوشنما چادروں کو زیبِ تن کیاکرتےتھے،گھڑ سوارگھوڑوں پرسوارہوکردوڑلگایاکرتے، سخی جؤا کھیلاکرتے، بچے مختلف قسم کے کھیل کھیلاکرتےتھے۔نوجوان دفیں اورباجے بجاتے، رجز کے اشعار اوردیگروہ اشعارگاتے جوانہوں نے جنگوں کے بارےمیں کہے ہوتےمثلاً بعاث کی جنگ کے اشعار وغیرہ ۔80
وہ تمام اوہام و خرافات جن سے شرک پرست اہلِ عرب دورِجاہلیت میں لرزہ براندام رہتے تھے اور جن کو و ہ بالذات مؤثر اور متصرف سمجھتے تھے، ان میں چھوت چھات، بدفالی اور ان جیسی دیگر چیزیں شامل تھیں جن کا طلسم آنحضرتﷺ نے بعثت کے بعد کلیۃ توڑدیا اور اعلان فرمادیا کہ ان کی کوئی اصل نہیں چنانچہ ایک حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا عدوٰي ولا طيرة ولا صفر ولا هامة.81
نہ چھوت ہے، نہ بد فالی ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہےاور نہ مردہ کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے۔
ابن ماجہ نےبھی اس روایت کو نقل کیا ہے82جس سے واضح ہوا کہ اہلِ عرب میں یہ خرافات رائج تھیں جس وجہ سے انہیں باطل قراردیاگیا۔اسی طرح درج ذیل چند احادیث میں مذکور خرافات کے بطلان سےواضح ہوتا ہےکہ اہلِ عرب میں یہ خرافات بطورِ رسم وراج کے مروج تھیں جن کو حضورﷺنے یکسر باطل قراردیا چنانچہ ایک اور صحابی سے مروی روایت میں منقول ہواکہ آپﷺ نےفرمایا:
العيافة والطيرة والطرق من الجبت.83
پرندوں کی بولی سے فال لینا، ان کے اڑنے سے فال لینا اور کنکری پھینک کر یاخط کھینچ کر حال بتانا شیطانی کام ہے۔
ایک اور صحابی آپﷺ کایہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ "فال نکالنا شرک ہے"پھر اسی صحابی نے کہاکہ "اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ اس کو توکل سے دور فرما دیتا ہے"۔ 84اسی طرح غول(جناتی چھلاوا) کے متعلق عربوں کے معتقدات یہ تھے کہ وہ لوگوں کی مختلف شکلیں اپنا کر لوگوں کو بالخصوص مسافروں کو ڈراتے اور بھٹکا دیتے تھے۔ایسے معتقدات کو آپ ﷺنےا یک لفظ سے باطل کردیا چنانچہ آپﷺنے فرمایا:
لاغول.85
غول بیابانی کچھ نہیں۔
اس قسم کے اوہام عرب میں نہایت کثرت سےپھیلے ہوئے تھے جنہیں آنحضرتﷺ نےصراحت اور تعین کے ساتھ باطل قرار دیا مثلاً سورج گرہن اور چاندگرہن کو بھی لوگ عظیم الشان واقعات اور انقلابات کی علامت سمجھتےتھے، کم و بیش دنیا کی تمام قوموں میں وہ آسمانی دیوتاؤں کے غیظ و غضب کے مظہر یقین کیے جاتےتھے۔ اسی طرح عرب کاخیال بھی یہی تھاکہ جب کوئی بڑا شخص مرجاتا ہےتو چاند یا سورج میں گرہن لگتا ہے۔نو( 9) ہجری میں اتفاق سے ایک دن سورج میں گرہن لگا اور اسی دن آپ ﷺکےصاحب زادہ حضرت ابراہیم کاانتقال ہوا تو لوگوں نے خیال کیا کہ سورج میں گرہن لگنے کا سبب حضرت ابراہیم کی وفات ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سنا تو تمام مسلمانوں کومسجدمیں جمع ہونے کاحکم دیا اور ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس خیال کی تردید کرتے ہوئےارشاد فرمایا کہ" کسوف و خسوف کو کسی کے جینے مرنے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوف دلاتاہے پس جب تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو اللہ کا ذکر،اس سے دعا اور استغفار کرو"۔ 86
اسی طرح ان کایہ خیال تھاکہ سانپ اگر مارا جائے تو اس کا جوڑا آتا ہے اور انسان کو ہلاک کرتا ہے تو حضورﷺ نے اس کی بھی نفی فرمائی ۔87 ایک دفعہ آپﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تم لوگ اس کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے تھے، لوگوں نے عرض کی ہمارایہ اعتقاد تھاکہ جب کوئی بڑا شخص مرجاتا ہے یا کوئی بڑاشخص پیدا ہوتا ہے تو ستارے ٹوٹتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ" کسی کے مرنےیا پیدا ہونے سے ستارے نہیں ٹوٹتے"۔ 88
عرب شیر خوار بچوں کے سرہانے استرا رکھ دیا کرتے تھے کہ جن ان کو ستانے نہ آئیں چنانچہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نےیہ عمل دیکھا تو استرااٹھاکر پھینک دیا اور فرمایا کہ آنحضرتﷺ ان باتوں کو ناپسند کرتے تھے۔89عرب نظرِ بد سےبچنے کےلیے اونٹوں کے گلے میں قلادہ لٹکاتے تھے، آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ کسی اونٹ کے گلے میں قلادہ نہ رہنے پائے۔ 90الغرض اسلام کی آمد کے بعد توحید کامل کی تعلیم نے عربوں کے تمام مشرکانہ ا وہام و خرافات کو ہمیشہ کے لیے مٹادیا۔
بظاہر اس دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آفتا ب و ماہتاب کی گردش اور ان کے سبب ہونے والےاختلافِ موسم کے اثرات سے ہوتی ہیں اسی لیے ستارہ پرست قوموں میں یہ اعتقاد پیدا ہوگیا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ستاروں کی گردش کے اثر سے ہوتا ہے، یہی اعتقاد عرب کے مشرکوں میں بھی پھیلاہوا تھا جس کی وجہ سے وہ سورج اور چاند کو سجدے کرتے تھے۔ اسلام نے ان کوا س شرک سے روکا اور کہا:
91 وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ 37 92
اور رات ودن اور سورج و چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لیے کیا کرو جس نے اِن (سب) کو پیدا فرمایا ہے اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو۔
اسی طرح وہ زمانہ کو دنیا کے کاروبار میں حقیقی مؤثر جانتے تھےا ور کہتے تھے:
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ 24 93
اور وہ کہتے ہیں: ہماری دنیوی زندگی کے سوا (اور) کچھ نہیں ہے ہم (بس) یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے (حالات و واقعات کے) سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا (گویا خدا اور آخرت کا مکمل انکار کرتے ہیں)، اور انہیں اس (حقیقت) کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف خیال و گمان سے کام لے رہے ہیں۔
عرب کے مشرکین بھی اسی طرح بولا کرتے تھے، ان کو جب کوئی خلاف توقع تکلیف پہنچتی تھی تو زمانہ کی شکایت کرتے تھے94 اور اس کو برا کہتے تھے۔ 95آنحضرت ﷺ نے اس سےمنع کیا اور فرمایا کہ " زمانہ کو گالی نہ دیا کرو کہ زمانہ خود خدا (کا محکوم)ہے" 96اور آپﷺنے مزید فرمایا کہ خدا ارشاد فرماتا ہے: " آدم کابیٹا مجھے تکلیف پہنچاتا ہےکہ وہ زمانہ کو برا کہتا ہےجبکہ زمانہ(کا خالق) میں ہوں، میرے ہاتھ میں وہ تمام کام ہیں اور میں شب و روز کو تبدیل کرتا ہوں"۔97یعنی جن تکلیفوں اور مصیبتوں کا خالق زمانہ کوسمجھ کر لوگ اس کو برا کہتے ہیں حقیقت میں ان کا پیدا کرنے والا خداہی ہے اس لیے یہ گالی حقیقت میں وہاں تک جاتی ہے اس لیے اس سے اجتناب کا حکم دیا گیا نیز اس سے واضح ہواکہ اہلِ عرب کے ہاں زمانہ کو موثر جاننے والے بھی بکثرت موجود تھے۔
شرک کی ایک نہایت ہی باریک صورت یہ تھی کہ لوگ غیر خدا کی قسمیں کھاتے تھے۔ قسم کھانےکے معنی حقیقت میں شہادت کے ہیں اور جس کی قسم کھائی جاتی تھیں اس کو دراصل واقعہ پرگواہ بنایا جاتا تھا، عربوں میں بُت پَرستی کے رواج کے باعث بُتوں اور دیوتاؤں کی قسمیں کھائی جاتی تھی جو صریح کفر تھیں، قریش اپنے دیوتا لات اور عزٰی کی قسمیں کھایا کرتے تھے، آنحضرتﷺ نے اس سے منع فرمایا لیکن رواج اور عادات کے باعث مسلمان ہونے کے بعد بھی بےا ختیار ان کی زبان سے ان کی قسمیں نکل جاتی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی زبان سے لات اور عزٰی کی قسم نکل جائےتو وہ فوراً لا الہ الا اللہکہہ دے 98یہ گویا اس کفر یہ کلمہ سے رجوع ہے۔
قریش میں باپ کی قسم کھانے کا رواج تھا ،اس سے بھی آپﷺ نے منع فرمایا۔ ایک دفعہ حضرت عمر کو آپ ﷺ نے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے منع کیا ہے کہ اپنے باپ کی قسم کھایا کرو، جس کوقسم کھانی ہویا تو خدا کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے، حضرت عمر نے کہا: حضور ﷺ کے ارشاد کا یہ اثر ہوا کہ اس وقت سے آج تک میں نے نہ تو خودا ور نہ کسی کی بات دہرانے میں کبھی باپ کی قسم کھائی۔ 99ماں کی قسم بھی لوگ کھایا کرتے تھے اس سے بھی آپ ﷺ نے منع فرمایا ۔اسی طرح کعبہ کی بھی قسم لوگ کھایا کرتے تھے اس پر ایک یہودی نے آکر مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم بھی شرک کرتے ہو کہ کعبہ کی قسم کھاتے ہو تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو فرمایا 100کہ کعبہ نہیں بلکہ کعبہ والے (خدا) کی قسم کھایا کرو۔101
مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوا کہ اہلِ عرب خود کو حضرت ابراہیمکی اولاد سمجھتے تھے اور ان کے دین کے پیروکار جانتے تھے۔ ان میں قبل از اسلام بھی نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسی عبادات موجود تھیں لیکن گو کہ وہ خود کو ملتِ ابراہیمی کے پیروسمجھتےاور بزعم خویش ان کے دین پر قائم ودائم رہتے ہوئے اپنے رسوم ورواج کو سرانجام دیتے تھے لیکن درحقیقت وہ دینِ ابراہیمی کی مسخ کی ہوئی شکل تھی اور ان کے رسوم ورواج شرک وکفر کا پلندہ بن کررہ گئے تھے۔ وہ توہم پرستی وضعف الاعتقادی کی انتہاؤں پر تھے یہاں تک کہ ان میں حضرت سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی اورآپ ﷺ نے ان تمام باطل رسوم ورواج وتوہمات کو یکسر ختم فرمادیاا ور ان سب شرک وکفر کے پرستار لوگوں کو توحیدِ خداوندی اور اطاعتِ الہٰیہ پر ایسالگادیا کہ وہ خود بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی توحیدِ باری تعالیٰ اور اطاعتِ الہٰیہ پر کمربستہ ہوگئیں۔