Encyclopedia of Muhammad

عرب میں عیسائیت

(حوالہ: ڈاکٹر حبیب الرحمٰن ، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-5، مقالہ:31، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان،2022ء، ص: 1017-1029)

عرب کے دورِجاہلیت میں جہاں دیگر کئی مذاہب کو عروج حاصل تھا ان میں ایک بڑا نام عیسائیت کا بھی تھا۔ عرب کے کئی قبائل نے عیسائیت کو پہلی صدی عیسوی میں بطورِ مذہب قبول کرلیا تھا۔ابتداء میں یہ مذہب عرب کے شمالی علاقہ جات میں پھیلا اور بعدازاں اس کی تبلیغ جنوب میں یمن تک جا پہنچی ۔یمن میں پہنچنے کے بعد عیسائیت کو عرب کے خطہ میں تھوڑا عروج ملا کیونکہ اس مذہب کو باقاعدہ رومیوں کی سرپرستی حاصل تھی ورنہ اس سے پہلے عیسائیت عرب میں مشکل سے ہی پنپ رہی تھی۔

ابتداء

تقریبا 50 عیسوی میں عیسائی حواری تبلیغِ عیسائیت کے لئے عرب میں پہنچے کیونکہ یہ دیگر خطوں کے بالمقابل مرکزِ مسیحیت کے بالکل قریب تھا۔جن مبلغوں نے عرب میں تبلیغ کا کام کیا ان کے نام متی، برتلمائی، توما، تدی اور تیمون بتائے جاتے ہیں۔ 1بائبل میں مذکور عبارت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ عیسائیت کے ابتدائی دور میں عرب لوگ بھی عیسائی ہوئے تھے اور یروشلم آئے تھے۔ 2سینٹ پال جو کہ ایک بڑا عیسائی مبلغ تھا اس نے بھی اپنےعرب میں تبلیغ کے سفر کا ذکر کیا ہے۔ بائبل میں اس کا ذکر یوں آیا ہے:

  Neither went I up to Jerusalem to them which were apostles before me; but I went in to Arabia and returned again unto Damascus.3
  میں (پال) نہ ان کے پاس یروشلم گیا جہاں مجھ سے پہلے پیغام پہنچانے والے موجود تھے بلکہ میں عرب میں گیا اور پھر بعد میں دمشق لوٹ آیا۔

ایک تذکرہ 70 عیسوی کا بھی ملتا ہے جس میں مذکور ہے کہ یروشلم کی بربادی کے بعد بہت سے یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ اس سانحہ سے کچھ عرصے پہلے وہاں کچھ لوگوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور وہ پہلے ہی یروشلم چھوڑ کر نکل گئے تھے اور اردن کو پار کرکے عربستان میں مقیم ہوگئے تھے۔ان کی نگرانی ایک بشپ کیا کرتا تھا 4اور ان لوگوں نے بھی عرب کے خطہ میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ بعد ازاں ایسوبیس کے مطابق بصریٰ میں ایک بشپ جس کا نام بیریلس (Beryllus) تھا دو کونسل کے ساتھ موجود تھا اور دونوں کونسل عربی تھے۔ 5بعض اسکالرز کے مطابق ایک عیسائی عرب جس کا نام فلپ (Philip the Arab) تھا روم کا سب سے پہلا عربی النسل شہنشاہ تھا جس نے 244 عیسوی سے 249 عیسوی تک حکومت کی۔ 6

سب سے پہلے جن قبائل نے عیسائیت قبول کی وہ نبطی، تنوخ اور غسانی قبائل تھے۔ نبطی ابتداء میں مشرک تھے لیکن بعد میں چوتھی صدی عیسوی میں عیسائی ہوگئے۔ 7پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں تنوخ اور غسانی قبائل نے مونوفیسائیٹزم (Monophysitism) یعنی عیسٰی کو صرف خدا ماننے کے نظریہ کو قبول کرلیا اور عیسائی بازنطینی حکومت کے حلیف بن گئے۔یہ کافی عرصہ تک ان کے حلیف بنے رہے یہاں تک کہ تنوخ کی ملکہ ماویہ نے رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔اس ملکہ کا مطالبہ یہ تھا کہ عرب بشپ سکندریہ میں تعینات کیا جائے۔ 8

مختلف خطوں میں عیسائیت

عرب میں عیسائت کے اہم مقامات شمال مشرقی ومغربی خطےتھے اور جنوب میں بعد ازاں یمن کا مقام اہمیت کا حامل ہوگیا تھا۔ 9شمال مغربی حصہ رومی سلطنت کے ماتحت کام کرنے والے مشنریوں کے کام کے باعث عیسائی ہوا تھا 10جبکہ جنوب میں خاص طور پر نجران میں اکسوم کی عیسائی سلطنت جو کہ حبشہ میں واقع تھی اس کے عمل دخل کی وجہ سے نجران کے مقام پر عیسائیوں کا ایک گڑھ بن گیا۔ 11عرب کا شمال مشرقی حصہ جو کہ لخمیوں کا مسکن تھا ساسانیوں کے قبائل سے تعلق رکھتا تھا۔ ان لوگوں نے وہاں نیستورینزم(Nestorianism) کو قبول کرلیا تھا جو کہ عیسائیت کے ایک فرقہ کے نظریات تھے۔ 12اس کے بعد چوتھی صدی عیسوی میں عرب کے مختلف خطوں میں کلیسا اور گرجا گھر تعمیر ہونا شروع ہوگئے اور عرب کے مختلف خطوں میں عیسائیت کی ترویج شروع ہوگئی ۔ 13

غسان میں عیسائیت

غسانی قبائل جو کہ عرب قبائل کے حلیف تھے فلسطین اور عرب کی سرحد پر مقیم تھے۔ یہ لوگ چھٹی صدی عیسوی میں عیسائی ہوئے اورمیافیزائٹ(Miaphysitism) فرقہ کا حصہ بن گئے جس کے مطابق یسوع مسیح ایک ہی وقت میں بشر اور خدا تھے۔ ان کا بشپ بصریٰ میں مقیم تھا اور 542 عیسوی سے عربوں کے بشپ کے نا م سے مشہور تھا۔رومیوں کے نزدیک غسانیوں کے ساتھ معاہدہ کرنا بہت اہم تھا تاکہ یہ قبائل فلسطین پر حملہ نہ کریں۔مزید یہ کہ فارس کے حملوں سے بچنے کے لئے بھی غسانیوں کی دوستی کی ضرورت تھی۔14

غسانی قبائل صدیوں رومیوں کے زیر اثر رہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنی عرب تہذیب وتمدن کو ترک کرکے رومی تہذیب وتمدن کو اپنالیا۔ غسانیوں نے اپنے علاقے میں بڑے بڑے گرجے تعمیر کیے اور رومی کنیزوں کو اپنے حرموں میں داخل کرلیا۔ ان کی عمارتوں میں سفید رنگ کا پتھر استعمال ہوتا تھا کیونکہ وہ عرصہ دراز سے رومیوں کے حلیف بن کر ایرانیوں سے برسرپیکار رہے تھے اس لیے فنونِ جنگ میں ان کو کمال حاصل ہوگیاتھا اور وہ دفاع کے طریقوں سے پوری طرح واقف تھے۔ 15

نجران میں عیسائیت

عرب میں عیسائی تاریخ کے حوالہ سے نجران کو بہت اہمیت حاصل تھی جہاں کئی صدیوں تک بڑے عروج کے ساتھ عیسائی مذہب قائم تھا اور یہ عرب کے امیرترین علاقوں میں سے ایک تھا۔ یہاں زرعی علاقے کا مرکز آباد تھا اوریہ علاقہ ریشم سے تیار کی جانے والے مصنوعات کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ متعدد عرب شہروں کی طرح یہاں بھی چمڑے اور اسلحہ سازی کی صنعتیں موجود تھیں۔ عرب شاعری میں اکثر مذکور زیادہ تریمنی ملبوسات یہیں تیار ہوتے تھے۔ اگرچہ یہ زرعی دیہات سے بھرا ہوا نہایت زرخیز علاقہ تھا لیکن یہ عظیم صحرا سے بہت قریب اور اوپر حراتک جانے والے تجارتی راستے کا جنوبی آخری مقام تھا۔ بجا طور پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ عیسائیت اسی راستے سے جنوب کی طرف گئی چنانچہ ہم نجران کو شامی کلیسا کی ایک بیرونی آبادی قرار دے سکتے ہیں۔ نجران مکّہ ویثرب کی طرح سیاسی اہمیت کا حامل تھا اور یہاں سیّد ، عقیب اور بشپ پر مشتمل اتحادِ ثلاثہ کی حکومت تھی۔ سیّد عرب قبائلی سرداروں کے عام انداز میں بطور سردار عمل کرتا، وہ بیرونی امور نمٹاتا، معاہدے کرتا، تجارت کو کنڑول کرتا، میلوں کے موقعہ پر بطور میزبان عمل کرتا اور افواج کی قیادت بھی کرتا تھا۔ عقیب کا تعلق داخلی امور سے تھا، وہ میونسپلٹی اور شہر کی پولیس کا انتظام چلاتا۔ بشپ کو تمام مذہبی امور میں مطلق حیثیت حاصل تھی اور وہ مذہبی عہدیداروں اور راہبوں پر بھی حکومت کرتا جو آبادی کا کافی بڑا حصہ تشکیل دیے ہوئے تھے لیکن اعلیٰ ترین حکومتی اختیار تینوں کے پاس مشترکہ تھا۔ 16

عیسائی مذہب کے اثر سے پہلے اہلِ نجران مشرک وبت پرست تھے جو کھجور کے ایک درخت کی عبادت کیا کرتے تھےچنانچہ ذیلی اقتباس سے اس طرف نشاندہی ہوتی ہے:

  أهل نجران علي دين العرب يعبدون نخلة طويلة بين أظهرهم لها عيد في كل سنة إذا كان ذلك العيد علقوا عليها كل ثوب حسن وجدوه وحلي النساء ثم خرجوا إليها فعكفوا عليها يوما.17
  اہل ِنجران اصنام پرست تھےاور وہ ایک بلند وبالا کھجور(کے درخت) کی پوجا کرتے تھے۔ ہر سال اس کے لیے عید مناتے، عید کے دن کھجور(کے درخت) کو عمدہ کپڑا پہناتے، زیورات سے آراستہ کرتے پھر اس کے سامنے سارا دن اعتکاف کرتے۔

جب یمن پر حبشی تسلط ہوا تو اسی زمانے میں بقول عیسائی اہلِ قلم، ایک مستجاب الدعوات اور صاحبِ کرامات زاہد جس کا نام فیمیون تھا شام سے نجران پہنچا اور وہاں کے باشندوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کی۔ اہلِ نجران نے اس کی اور اس کے دین کی سچائی کی کچھ ایسی علامات دیکھیں کہ ان تمام لوگوں نے عیسائیت کو قبول کرلیا۔ امام ابن ہشاماس کو تفصیل کے ساتھ روایت کرتے ہوئے یوں نقل کرتے ہیں:

  حتي وطئا بعض أرض العرب فعدوا عليهما فاختطفتهما سيارة من بعض العرب فخرجوا به حتي باعوهما بنجران فابتاع فيميون رجل من أشرافهم فكان فيميون إذا قام من الليل يتهجد في بيت له أسكنه إياه سيده يصلي، إستسرج له البيت نورا حتي يصبح من غيرمصباح، فرآي ذلك سيده، فأعجبه ما يري منه، فسأله عن دينه، فأخبره به، وقال له فيميون: إنما أنتم في باطل، إن هذه النخلة لا تضر ولا تنفع، ولو دعوت عليها إلهي الذي أعبده لأهلكها، وهو اﷲ وحده لا شريك له قال: فقال له سيده: فافعل، فإنك إن فعلت دخلنا في دينك، وتركنا ما نحن عليه قال: فقام فيميون فتطهر وصلي ركعتين، ثم دعا اﷲ عليها فأرسل اﷲ عليها ريحا فجعفتها من أصلها فألقتها فاتبعه عند ذلك أهل نجران علي دينه، فحملهم علي الشريعة من دين عيسيٰ بن مريم عليه السلام ثم دخلت عليهم الأحداث التي دخلت علي أهل دينهم بكل أرض فمن هنالك كانت النصرانية بنجران في أرض العرب. 18
  جب وہ سر زمینِ عرب پر عازمِ سفر تھا تو ایک قافلہ نے اسے گرفتار کرلیا اور نجران جاکر اسے فروخت کردیا۔ اہلِ نجران میں سے ایک امیر شخص نے فیمیون کو خرید لیا اوررات کے وقت جب فیمیون اپنے کمرہ میں نماز ادا کرتا تو اس کمرہ سے نور ضوفشاں ہوجاتا نیز وہ کمرہ صبح تک اجالوں سے بھرارہتا۔ جب اس کے آقا نے اس کی یہ عجیب کیفیت دیکھی تو اس سے اس کے دین کے متعلق سوال کیا۔ فیمیون نے اسے اپنے دین کے متعلق بتایا نیز بتایا کہ تمہارا یہ دین باطل ہے،کھجور کا درخت نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان،میرا معبود وحدہ لاشریک ہے، اگر میں اپنے رب سے اس کھجور کے درخت کے لیے بددعا کروں تو وہ فوراً اسے نیست ونابود کردے گا۔ آقا نے کہا تم بددعا کرو،اگر یہ( کھجورکا درخت) گرپڑا تو ہم تمہارے دین کو اختیار کرلیں گے۔ فیمون نے وضو کیا، دو رکعت نماز ادا کی پھربارگاہِ ربوبیت میں اس کھجور(کے درخت) کے لیے بددعا کی۔ اﷲ تعالیٰ نے ایسی آندھی بھیجی جس نے اس کو جڑ سے اکھیڑ کر نیچے پھینک دیا۔ اہل نجران نے جب یہ کرامت دیکھی تو وہ فیمیون کے دین میں شامل ہوگئے اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی شریعت مطہرہ پر عمل کرنے لگے۔ اس طرح نجران میں عیسائیت کا آغاز ہوا۔19

جب پورے شہرِ نجران نے عیسائی مذہب قبول کرلیا اور ایک مد ت تک عیسائیت پر قائم رہے تو اس وقت یمن کے حاکم ذونواس نے انہیں یہودیت کی طرف بلایا۔یہ حاکم یہودی تھااور یمن کا آخری حمیری بادشا ہ تھاجیساکہ درجِ ذیل عبارت میں اشارہ ملتا ہے:

  فكان آخر ملوك حمير وتهود وتهودت معه حمير وتسمي يوسف فأقام ملكه زمانا.20
  یہ حمیر کے شاہی خاندان کا آخری تاجدار تھااوریہ یہودی ہوگیاتھا جسےحمیر یوسف پکارتےتھے، اس کی حکومت کافی عرصہ تک رہی۔ 21

جب اہلِ نجران کوذونواس نے یہودیت کی طرف بلایا تو ان لوگوں نے اس کو قبول کرنےسے انکار کیا، تب ذونواس نے اہلِ یمن کو لے کر اہلِ نجران پر شدید حملہ کیا اور بیس ہزار(20,000) عیسائیوں کومار ڈالا۔ یہ افسوس ناک واقعہ اصحاب الاخدود کے نام سے مشہور ہے جس کا ذکر قرآن وصحیح احادیث میں بھی موجود ہےچنانچہ اس حوالہ سے امام ابن جریر طبریلکھتے ہیں:

  فسار إليهم ذونواس بجنوده من حمير وقبائل اليمن فجمعهم ثم دعاهم إلي دين اليهودية فخيرهم بين القتل والدخول فيها فاختاروا القتل فخد لهم الأخدود فحرق بالنار وقتل بالسيف ومثل بهم كل مثلة حتي قتل منهم قريبا من عشرين ألفا.22
  ذونواس شاہ ِیمن نے حمیریوں پر چڑھائی کردی ،فتح کے بعد انہیں بلاکر کہا کہ یہودی ہوجاؤ یا قتل کے لیے تیار ہوجاؤ تو اہل ِنجران نے قتل ہونے کو ترجیح دی۔ ذونواس نے ایک خندق کھدوائی اور ان کو آگ میں ڈال دیا جو اس خندق میں جلائی گئی تھی،جو لوگ آگ سے بچ گئے ان کو قتل کردیا گیا اوران کی لاشوں کومثلہ کیا گیا نیزاس قتل عام میں بیس ہزار( 20,000)لوگوں کوہلاک کیا گیا۔ 23

جب ذونواس یہودی نے اہلِ نجران کو آگ میں ڈالا اور تمام آبادی کو مار ڈالا تو اس میں صرف ایک شخص دوس ثعلبان بچنے میں کامیاب ہوگیا اور نجران سے نکل کر عیسائی بادشاہ قیصرِ روم کے دربار میں پہنچا اور ذونواس کے مظالم و زیادتیاں بیان کیں نیزانجیل کے جلے پھٹےاوراق د کھائے۔ قیصر روم کو اس کا یہ فعل بہت ناگوار گذرا، اس نے اسی وقت نجاشی، والی حبشہ کو اس کی اعانت کے لیے لکھا اور امداد کرنے کا کہا چنانچہ نجاشی ستر ہزار(70,000) فوج لے کر ذونواس پر حملہ آور ہوا، ذونواس کی تمام فوج کو مارڈالاگیا اور ذونواس دریا میں بھاگ کر غرق ہوگیا۔ اس حوالہ سے تفصیل درج ذیل ہے:

  فقتل ذونواس في غداة واحدة في الأخدود عشرين ألفا ولم ينج منهم سوي رجل واحد يقال له دوس ذو ثعلبان ذهب فارسا وطردوا وراء ه فلم يقدروا عليه فذهب إلي قيصر ملك الشام فكتب إلي النجاشي ملك الحبشة فأرسل معه جيشا من نصاري الحبشة يقدمهم أرياط وأبرهة فاستنقذوا اليمن من أيدي اليهود وذهب ذونواس هاربا فلجج في البحر فغرق واستمر ملك الحبشة في أيدي النصاري سبعين سنة.24
  ذونواس نے صرف ایک دن میں ان خندقوں میں بیس ہزار(20,000) افراد کو قتل کر ڈالا تھا۔ ان میں سے صرف ایک شخص جس کا نام دوس ذی ثعلبان تھا اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے بھاگ نکلا۔ ذونواس کے سپاہیوں نے اس کا پیچھا کیا مگروہ اسے پکڑ نہ سکے۔ وہ شام کے بادشاہ قیصر روم کے دربار میں پہنچا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ قیصر نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو اس کی مدد کے لیے خط لکھا۔ نجاشی نے اس کے ساتھ حبشہ کے نصرانیوں کا ایک لشکر بھیجا۔ اس لشکر میں اریاط اور ابرہہ نامی دو سردار تھے۔ انہوں نے یمن پر حملہ کرکے اس سےیہ ملک چھین لیا۔ ذونواس وہاں سے بھاگ نکلا اور سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد ستر(70) سال تک حبشہ کے نصرانیوں کا اس پر قبضہ رہا۔ 25

اس دور میں عیسائیوں نے نجران میں ایک کلیسا بھی بنایا تھا چنانچہ نجران میں کعبہ مشرّفہ (مکّہ مکرّمہ) کی طرز پر بنائے گئے کلیسا کے آثار آج تک ملتے ہیں۔

نجرانی کعبہ

مکّہ کی طرح نجران میں بھی ایک

مُکَعَّب
عمارت موجود تھی۔ غالباً اس سے قبل از عیسائی دور میں ایک خانقاہ اور عبادت گاہ مراد ہے تاہم بعد از اسلام دور میں یہ لفظ وہاں کے عظیم کلیسا، بشپ کے گرجاگھر کے لیے استعمال ہوا۔26اہلِ نجران اپنے بنائے گئے اس کلیسہ کو "کعبہ" کہتے تھے اورعرب مشرکین چالیس(40)سال اس کی زیارت کو آتے رہے۔ کعبۂِ نجران کو جاہلیت میں شہر ِنجران سے تقریباً پینتیس(35)کلو میٹر شمال مشرق میں کوہِ تصلال پر بنو عبدالمدان حارثی نے تعمیر کیا تھا۔ یہ ابرہہ اشرم کے صنعاء میں بنائے گئے کعبۂِ یمن سے الگ تھاجیساکہ تاریخ میں یوں ہے:

  ديرنجران وهو المسمي كعبة نجران كان لآل عبد المدان بن الديان سادة بني الحارث بن كعب وكان بنوه مربعا مستوي الأضلاع والأقطار مرتفعا من الأرض يصعد إليه بدرجة علي مثال بناء الكعبة فكانوا يحجونه هم وطوائف من العرب ممن يحل الأشهر الحرم ولا يحجون الكعبة وتحجه خثعم قاطبة.27
  ترجمہ:
دیرِ
نجران کونجران کا کعبہ کہاجاتاتھا جوآلِ عبد المدان بن الدیان سردارانِ بنی الحارث بن کعب کےلیےتھا۔انہوں نے اسےچاروں جانب سے برابرزمین سےبلند کرکےکعبۃ اللہ جیسا تعمیر کیاتھاکہ سیڑھی کےذریعے اس پرچڑھاجاتا چنانچہ وہ اوردیگرعرب جوحرمت کے مہینوں کو حلال کرلیاکرتےتھے کعبۃ اللہ کوچھوڑکراس کا حج کرتے جبکہ قبیلہ خثعم کے تمام لوگ اس کا حج کرتےتھے۔

اسے بازنطینی شہنشاہ کے دیے ہوئے سنگِ مرمر موزیک کے نمونوں سے سجائی گئی شاندار عمارت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔28

عرب کے عیسائی قبائل

عیسائی مذہب کو عرب میں بہت فروغ ملا۔ یمن و شام اور دیگر عرب کے کئی علاقوں میں ظہورِ اسلام کے وقت ایسے کئی قبائل موجود تھے جو عیسائی تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

  1. غسان(لخم)۔
  2. ربیعہ(تغلب)۔
  3. قضاعہ(جذم)۔
  4. نجران میں بنوحارث۔
  5. قریش بنی اسدکے بعض افراد۔

ان میں غسان، ربیعہ اور قضاعہ قبائل میں خاص طور پر عیسائی مذہب پھیل گیا تھاچنانچہ امام ابن قتیبہ لکھتے ہیں:

  كانت النصرانية في ربيعة وغسان وبعض قضاعة.29
  نصرانیت(یعنی عیسائیت)، ربیعہ، غسان اور قضاعہ کے بعض قبائل میں موجود تھی۔ 30

نیز پروفیسر عبدالباقی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

  چوتھی صدی عیسوی میں اہلِ نجران نے عیسائی مذہب قبول کرلیاتھا۔ایک روایت کے مطابق نجران میں بنوحارث، یمامہ میں بنوحنیف اور بنوطئی كے کچھ لوگ عیسائی مذہب کے پیروتھے۔ حیرہ میں بھی عیسائی موجود تھے۔ وہاں کے اسقفوں(پادریوں) کا تذکرہ تاریخ میں بار بارآیا ہے۔ یاقوت نے ایک کتبے کا حوالہ دیا ہے جس میں ہند نے خود کو حضرت عیسیٰ کی کنیز اور آپکے غلام عمرو کی ماں تحریر کیا ہے۔ یہ حیرہ کے حاکم عمرو بن ہند کی ماں تھی اور غسانی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اسی نے حیرہ میں ایک بہت بڑی خانقاہ بنوائی اور عیسائیت کی ترویج میں حصہ لیا۔ حیرہ کے آخری حاکم نعمان بن منذر ابوقابوس نے بھی عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا۔ غسانیوں کا شاہی مذہب عیسائیت تھا۔ یثرب اور شام کے درمیان کئی عیسائی قبیلے آباد تھے۔ عذرہ، جذام، قضاعہ، بلی، بہرا، کلب ولخم قبیلوں میں عیسائیت کے پیروموجود تھے ۔ اس طرح عراق سے لے کر شام تک عیسائی عربوں کے قبیلے آباد تھے لیکن پھر بھی بت پرستوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ 31

نیز عربی سلطنت حیرہ میں عیسائی مذہب کے درآنے کے حوالہ سے محمود شکری لکھتے ہیں:

  وكأنهم تلقوا ذلك عن الروم فقد كان العرب يكثرون التردد إلي بلادهم للتجارة وقد اجتمع علي النصرانية في الحيرة قبائل شتي من العرب يقال لهم العباد.32
  معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عیسائیت رومیوں سے اخذ کی تھی کیونکہ عرب تجارت کی غرض سے ان کے ملک میں اکثر آتے رہتے تھے۔ حیرہ میں عربوں کے متفرق قبائل نے اجتماعی طور پر عیسائیت قبول کرلی تھی جنہیں عِباد کہا جاتا تھا۔ 33

ان کے علاوہ عرب کے مشہور اور مضبوط قبیلے بنو تغلب کابھی عرب عیسائی قبائل میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہےجیساکہ درج ذیل عبارت سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے:

  وكان بنو تغلب أيضاً من نصاريٰ العرب وكانت لهم شوكة وقوة يد وقدصالح عمر بن الخطاب رضي الله عنه في أيام خلافته علي أن لا يغمسوا أحدا من أولادهم في النصرانية ويضاعف عليهم الصدقة فإذا وجب علي المسلم شيء في ذلك فعل النصراني التغلبي مثله مرتين. ونساؤهم كرجالهم في الصدقة فأما الصبيان فليس عليهم شئ وكذلك أرضوهم التي كانت بأيديهم يوم صولحوا فيؤخذ منهم ضعف ما يؤخذ من ما شيته ولا شئ عليهم في بقية أموالهم ورقيقهم.34
  بنوتغلب بھی عرب عیسائی تھے، یہ قبیلہ بڑی شان وشوکت اور طاقت والا تھا۔ حضرت عمر بن خطابنے ان سے اپنے عہد خلافت میں اس شرط پر صلح کی تھی کہ یہ اپنی اولاد میں سے کسی کو
بَپْتِسمَہ
نہ دیا کریں گے اور یہ کہ ان کا صدقہ دوگنا ہوگا لہٰذا جب کسی مسلمان فرد پر کوئی صدقہ واجب ہو تو قومِ تغلب کے عیسائی فرد کو اس سے دوگنا ادا کرنا ہوگا۔ اس صدقے کی ادائیگی کے معاملے میں ان کے مرد اور عورت یکساں ہوں گے البتہ بچوں پر کچھ واجب نہ ہوگا۔ یہی اصول ان کی اُن زمینوں پر عائدکیا گیا جن پر وہ صلح کے دن قابض تھے لہٰذا جس قدر لگان مسلمانوں سے لیا جاتا تھا اس سے دوگنا ان سے، ان کے بچوں اور ناقص العقل افراد کی زمین سے بھی دوگنا لگان وصول کیا جاتاتھا مگر ان کے جانوروں اور دیگر اموال اور غلاموں پر کوئی شے عائد نہ ہوتی تھی۔ 35

نیز ان کے علاوہ قبیلہ قریش کے خاندان کے بنی اسد میں بھی چند آدمی عیسائی ہوگئے تھے جن میں حضرت ورقہ بن نوفل اورعثمان بن حویرث کا نام منقول ہے چنانچہ اس حوالہ سے تاریخ میں یوں تذکرہ کیاگیا ہے:

  من تنصر من أحياء العرب فقوم من قريش من بني أسد بن عبد العزي منهم عثمان ابن الحويرث بن أسد بن عبد العزي وورقة بن نوفل بن أسد ومن بني تميم بنو إمريء القيس بن زيد مناة.36
  جو لوگ قبائلِ عرب میں سے عیسائی بنے وہ قریش کے کچھ لوگ تھے جو بنی اسد بن عبد العزیٰ سے تعلق رکھتے تھے، ان میں عثمان بن الحویرث بن اسد بن عبد العزیٰ اور ورقہ بن نوفل بن اسد شامل تھےنیز بنوتمیم سے بنی امرؤ القیس بن زید مناۃ تھے۔ 37

نیز امام ابن ہشامحضرت ورقہ بن نوفل کے بارے میں فرماتے ہیں:

  واتبع الكتب من أهلها، حتي علم علما من أهل الكتاب.38
  ورقہ بن نوفل نے اہل کتاب کی کتب ان سےسیکھیں اور ان سے بہت سا علم سیکھ لیا۔

نیز اسی طرح بخاری شریف کی مشہور حدیث وحی میں بھی ا س حوالہ سے یوں منقول ہے:

  فانطلقت به خديجة حتي أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزي ابن عم خديجة وكان إمرأ تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب.39
  حضرت خدیجہ آپﷺکو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔

انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا جسے ورقہ بن نوفل عربی میں لکھتے تھےنیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عرب کے قبیلہ بنی اسد میں بھی عیسائیت موجود تھی۔

عرب میں عیسائی فرقے

بعثتِ نبویہ ﷺتک پہنچتے پہنچتے یہ عیسائی مذہب حضرت عیسی ابن مریمکی حقیقی آسمانی اور وحیِ الہی پر مبنی تعلیمات جو توحیداوراسلام کی دعوت دیتی تھیں اس سے انحراف کرچکا تھا۔عیسائی عربوں میں

نَسطُوری
اور
حُلُولی
فرقوں کے عقائد رائج تھے۔ بنوتمیم نسطوری فرقے اور بنوتغلب حلولی فرقے کے پیرو تھے۔وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کو اﷲ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک جانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ ان تینوں میں سے ایک (یعنی ثالث ثلاثہ) ہے۔ سورہ مائدہ 40میں اس عقیدہ کو کفر میں شمار کیا گیا ہے اور پھر صاف لفظوں میں ان کی الوہیت کی تردید کی گئی ہے۔41عیسائیت کے مختلف فرقوں میں سے فرقہ یعقوبیہ اور فرقہ نسطوریہ عرب میں نمایاں نظر آتے تھے چنانچہ حیرہ اور غسان میں علی الترتیب نسطوری اور یعقوبی عقائد پائے جاتے تھے۔ 42عرب میں رہبانیت بھی بعض لوگوں میں اسی عیسائیت کے اثر سے آئی تھی۔

عیسائیت کے اثر سے عربوں میں کائنات کے مظاہر پر غور کرنے اور رہبانیت کی زندگی بسر کرنے کا میلان پیدا ہوا چنانچہ حنظلۃ الطائی کے بارے میں روایت ہے کہ اس نے اپنے قبیلے کو چھوڑ کر ایک خانقاہ بنالی تھی اور وہیں گوشہ گیری کے عالم میں اس کی وفات ہوئی۔ قیس بن ساعدہ کے بارے میں بھی ایسی ہی روایات ملتی ہیں کہ وہ اجاڑ جگہوں میں رہتا تھا،بہت کم کھاتا تھا اور جنگلی جانوروں سے مانوس تھا۔ عدی بن زید اور نعمان شاہِ حیرہ کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی حالات منقول ہیں۔43

عیسائیت فلسطین سے شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ اردگرد کے قریبی علاقوں مثلاً شام و یمن میں پھیلتی چلی گئی ۔ عیسائیت کی تعلیمات ، عبادات ،کلیساؤں کی پُر شکوہ عمارتیں اور اہل کلیسا کا کروفر اور پھر رومی و بازنطینی سلطنت اور حبشہ و یمن کی عیسائی ریاستوں کی طرف سے عیسائیت کی پشت پناہی نےعرب تاجروں اور مسافروں کے دل میں اس مذہب کے لئے عظمت و عقیدت کے جذبات پیداکردیے تھے جس کے نتیجے میں نجران سمیت عرب کے مختلف خطوں کے بعض افرادو قبائل نے عیسائیت کو بطورِ مذہب قبول کرلیا تھا ۔ اس بات کے قطعی کوئی آثار اور شواہد نہیں ملتےکہ عیسائیت عرب اور بالخصوص جزیرۃ العرب میں بھی ایک عمومی مذہبی و روحانی تحریک میں بدل سکی ہو جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عیسائیت کی دعوت و تبلیغ کا اصلی ہدف بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو واپس راہِ راست پر لانا تھا لیکن عرب میں کسی باقاعدہ مذہب کی غیر موجودگی نے عیسائیت کو یہ موقع فراہم کیا کہ الحاد و شرک سے بیزار افراد وقبائل عیسائیت کو الہامی مذہب کے طور پر قبول کرلیں۔ ایسے تمام افراد کے لئے عیسائیت بطورِ مذہب کے آخری انتخاب تھا جسے انہوں نے عیسائی مبلغین کی دعوت و کوشش کے بغیر برضاء و رغبت قبول کرلیاتھا۔عیسائیت بھی دوسرے مذاہب کی طرح آخری مصلح و نبی کے منتظر تھی لیکن یہ آخری نبی جس کا انتظار جن و انس کو تھا جب دلائل و معجزات کے ساتھ تشریف لے آئے تو بنی اسماعیل کی شاخ اور بنو ہاشم میں ہونے کی وجہ سے جس طرح دوسرے اہلِ مذاہب نے آپﷺکو سچ اور حق جاننے کے باوجود محض حسد کی بنا پر آپﷺکی نبوت کا انکار کیا،اسی طرح عیسائیوں نے بھی اپنی کم علمی کی بنا پر اور خود اپنی الہامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئےبحیثیت ِ فار قلیط کےآپﷺکوماننے سے انکار کردیا حالانکہ آپﷺ ہی وہ موعودِ فارقلیط تھے جن کا ذکراناجیلِ مقدس میں بڑی شدو مد کے ساتھ کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عیسائی عرب یاتوخود مسلمان ہوتے چلے گئے یا پھر اپنے آبائی عرب علاقوں سےترکِ سکونت کر کے رومی و بازنطینی علاقوں میں جا بسے۔

 


  • 1 پادری سلطان محمد پال، عربستان میں مسیحیت، مطبوعہ: بسم اللہ بک ہاؤس، کراچی، پاکستان، 2021ء، ص: 32-33
  • 2 The Bible, Acts 2: 5-11
  • 3 The Bible, Galatians 1: 17
  • 4 پادری سلطان محمد پال، عربستان میں مسیحیت، مطبوعہ: بسم اللہ بک ہاؤس، کراچی، پاکستان، 2021ء، ص: 34-35
  • 5 Ken Parry & David Melling (1999), The Blackwell Dictionary of Eastern Christianity, Blackwell Publishing, Massachusetts, USA, Pg. 37.
  • 6 Irfan Shahid (1984), Rome and the Arabs, Dumbarton Oaks, Washington, USA, Pg. 65–93.
  • 7 The Nabateans in the Negev (Online): https://mushecht .haifa.ac .il/index. php?option=com_con tent&view=article&id=414:the-nabateans-in-the-negev-2003&catid=214&lang=en&Itemid=178: Retrieved: 28-07-2021
  • 8 Philip K. Hitti (1967), History of the Arabs, Macmillan and St. Martin's Press, New York, USA, Pg. 78–84.
  • 9 Hugh Goddard (2000), A History of Christian-Muslim Relations, Rowman & Littlefield, Mary Land, USA, Pg. 15–17.
  • 10 Jonathan Porter Berkey (2003), The Formation of Islam: Religion and Society in the Near East: 600-1800, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 44–46.
  • 11 Hugh Goddard (2000), A History of Christian-Muslim Relations, Rowman & Littlefield, Mary Land, USA, Pg. 15–17.
  • 12 Hugh Goddard (2000), A History of Christian-Muslim Relations, Rowman & Littlefield, Mary Land, USA, Pg. 15–17.
  • 13 Kozah Mario, Abu-Husayn & Abdul Rahim (2014), The Syriac Writers of Qatar in the Seventh Century, Gorgias Press LLC., New Jersey, USA, Pg. 55.
  • 14 Augustine Cassidy & Frederick W. Norris (2008), The Cambridge History of Christianity: Constantine to 600, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Vol. 2, Pg. 109.
  • 15 پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1420ھ، ص: 282
  • 16 ڈی لیسی اولیری، اسلام سے پہلے جاہلی عرب (مترجم: یاسرجواد)، مطبوعہ: نگارشات پبلشرز، لاہور، پاکستان،2015ء، ص: 139
  • 17 أبو عبد اللہ محمد بن علی ابن حدیدۃ، المصباح المضی فی کتاب النبی الأمی ورسلہ إلی ملوک الأرض من عربی وعجمی، ج-2، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 209
  • 18 أبو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 33- 34
  • 19 ابو محمد عبدالملک بن ہشام معافری، سیرت ابن ہشام(مترجمین:ادارہ ضیاء المصنفین)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص: 106
  • 20 أبو جعفر محمد بن جریرالطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 119
  • 21 ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری(مترجم: ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی)، ج-2، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان،2004ء، ص: 242
  • 22 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-2، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 123
  • 23 ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری(مترجم: ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان،2004ء، ص: 245
  • 24 أبو الفداء إسماعیل بن عمر ابن کثیر الدمشقی، تفسیر ابن کثیر، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 363
  • 25 ابو الفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر دمشقی، تفسیر ابن کثیر(مترجم: پیر محمد کرم شاہ الازہری)، ج-4،مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2004ء، ص:853
  • 26 ڈی لیسی اولیری، اسلام سے پہلے جاہلی عرب (مترجم: یاسرجواد)، مطبوعہ: نگارشات پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2015ء، ص: 139-140
  • 27 أبو عبید عبداﷲ بن عبد العزیز البکری، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، ج-2، مطبوعۃ: عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 603
  • 28 ڈی لیسی اولیری، اسلام سے پہلے جاہلی عرب (مترجم: یاسرجواد)، مطبوعہ: نگارشات پبلشرز، لاہور، پاکستان،2015ء، ص: 139-140
  • 29 أبو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبة الدینوری، المعارف، ج-1، مطبوعۃ:الھیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، القاھرۃ، مصر، 1992م، ص:621
  • 30 ابو محمد عبداﷲ بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری، المعارف (مترجم: علی محسن صدیقی)، مطبوعہ: قرطاس پرنٹرز، کراچی، پاکستان، 2012ء، ص: 571
  • 31 قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، تاریخ وفضائل مکۃ المکرمہ(مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص: 480
  • 32 السیّد محمود شُکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص: 241
  • 33 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3، مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 152
  • 34 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الأرب فی معرفۃ أحوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية للنشر والتوزيع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص: 241-242
  • 35 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم :ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور،پاکستان، 2011ء،ص: 152
  • 36 أحمد بن أبی یعقوب ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج-1، مطبوعۃ:مکتبۃ الحیدریۃ، النجف، العراق، 1964م، ص: 227
  • 37 احمد بن ابی یعقوب ابن واضح یعقوبی ،تاریخ الیعقوبی (مترجم:مولانا اختر فتح پوری)، ج-1،مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان،(سن اشاعت اندارد)، ص: 371
  • 38 أبو محمد عبدالملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص:223
  • 39 أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 7
  • 40 القرآن، سورۃ المائدۃ73:5
  • 41 قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، تاریخ وفضائل مکۃ المکرمہ(مترجم: وسیم اکرم القادری)، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور،پاکستان، 2014ء، ص:480
  • 42 ڈاکٹر خورشید رضوی، عربی ادب از قبل اسلام، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 45
  • 43 ایضاً