Encyclopedia of Muhammad

عرب میں بُت پَرستی

جز یرہ عرب میں طلوعِ اسلام سے قبل عرب مختلف مذاہب اور خود ساختہ اقدار کو سینے سے لگائے ہو ئے تھے۔ کہیں بُت پَرستی اورکہیں سورج کی پرستش ہو رہی تھی، کہیں انسان ستاروں کے آگے سر بسجود تھا اور کہیں آتش پرستی سے سکونِ قلب کا سامان مہیا کرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی تھیں۔ خانہ کعبہ میں خداپرستی کی جگہ اصنام پرستی نےلےلی تھی جہاں تین سو ساٹھ(360) بت رکھ دیے گئے تھے۔ ہر قبیلے کا الگ بت تھا، ہبل، لات، منات، عزّٰی، اساف ونائلہ،یعوق اور نسر زیادہ مشہور بت تھے جن کے آگے سجدہ ریزہوکر دعائیں مانگی جاتیں اورانہیں ملجا وماوی سمجھتےہوئے حاجت روائی کی فریادیں کی جاتیں تھیں۔ اس طرح وہ لوگ معبودِ حقیقی کی عظمت و جلالت کو فراموش کر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی قدرو قیمت اوردینِ ابراہیمی کاشرف کھوبیٹھےتھے ۔

بُت پَرست

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خالق، مخلوق کی ابتدا اور ا یک طرح سے دوبارہ لوٹائے جانےکا تو اقرار کیا مگر رسولوں کےمنکر رہے۔ یہ بتوں کی عبادت کرتے، 1ان ہی کے پاس جاکر حج کرتے، نذرانے پیش کرتے، قربانیاں پیش کرکے ان کا قرب حاصل کرنا چاہتےاور عبادات کے مقامات کے ذریعے ان کےقرب کے متمنی رہتے۔ کچھ چیزوں کو اپنے تئیں حلال سمجھتے اور کچھ کوحرام۔ عربوں کا جمِ غفیر اسی عقیدے کا مالک تھا، خالق پر ان کا جو ایمان تھا اسے توحیدِ ربوبیت کہا جاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کا اقرار تمام کے تمام کفار کرتے تھے اور اس ا صولی بات کی

ثنویت
اور چند مجوسیوں کے سواکسی نے مخالفت نہیں کی۔ کفر و شرک کے فرقو ں میں سے ان دو کے علاوہ جتنے بھی دیگر فرقے تھےان سب کا اس بات پر اتفاق تھاکہ جہان کاخالق، رازق، ان کےا مور کی تدبیر کرنے والا، ان کو نفع اور نقصان پہنچانے والا ، ان کو پناہ دینے والا ایک خدا ہے جس کے سوا نہ تو کوئی رب ہے نہ خالق، نہ رازق ، نہ مدبر، نہ نفع رساں، نہ ضرر رساں اور نہ پناہ دینے والا۔2اس بات کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہوا ہے چنانچہ اللہ ربُّ العزّت کاارشادہے:

  وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ38 3
  اور اگر آپ اُن سے دریافت فرمائیں کہ آسمانوں اور زمین کو کِس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، آپ فرما دیجئے: بھلا یہ بتاؤ کہ جن بتوں کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ (بُت) اس کی (بھیجی ہوئی) تکلیف کو دُور کرسکتے ہیں یا وہ مجھے رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ (بُت) اس کی (بھیجی ہوئی) رحمت کو روک سکتے ہیں، فرما دیجئے: مجھے اللہ کافی ہے، اسی پر توکل کرنے والے بھروسہ کرتے ہیں۔

اسی طرح اہل عرب اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا خالق مانتے تھے چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ 87 4
  اور اگر آپ اِن سے دریافت فرمائیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے: اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

اسی طرح وہ اس جہان کو ملکیت باری تعالیٰ ہی تصور کرتے تھے جیساکہ قرآ ن مجید میں مذکورہوا:

  قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 84 سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ 85 5
  (ان سے) فرمائیے کہ زمین اور جو کوئی اس میں (رہ رہا) ہے (سب) کس کی مِلک ہے، اگر تم (کچھ) جانتے ہو، وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ (سب کچھ) اللہ کا ہے، (تو) آپ فرمائیں: پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟

اسی طرح ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:

  قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ 31 6
  آپ (ان سے) فرما دیجئے: تمہیں آسمان اور زمین (یعنی اوپر اور نیچے) سے رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کان اور آنکھوں (یعنی سماعت و بصارت) کا مالک کون ہے، اور زندہ کو مُردہ (یعنی جاندار کو بے جان) سے کون نکالتا ہے اور مُردہ کو زندہ (یعنی بے جان کو جاندار) سے کون نکالتا ہے، اور (نظام ہائے کائنات کی) تدبیر کون فرماتا ہے؟ سو وہ کہہ اٹھیں گے کہ اللہ، تو آپ فرمائیے: پھرکیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں۔

مذکورہ بالا آیاتِ بینات سے واضح ہوا کہ اہلِ عرب بنیادی طورپراللہ تعالیٰ پرہی ایمان رکھتےتھے،اسی کو اپنا خالق و رازق سمجھتے تھے اور زمین وآسمان کو اسی کی ملکیت شمار کرتے تھے مگر ان سب کے باوجودانہوں نے باری تعالیٰ کےساتھ کئی اقسام کے شریک بنالیےتھےجیساکہ اس حوالہ سے قرآن مجیدمیں یوں مذکورہوا:

  أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ…… 33 7
  کیا وہ (اﷲ) جو ہر جان پر اس کے اعمال کی نگہبانی فرما رہا ہے اور (وہ بت جو کافر) لوگوں نے اﷲ کے شریک بنا لیے (ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں)۔

ان شرکاء میں جنات بھی شامل تھے اوران کے یہ تمام شرکاء یاان میں سےاکثران کےعقیدہ کےمطابق اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں بھی تھے چنانچہ سورۃ الانعام میں یوں مذکور ہوا:

  وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ 100 8
  اور ان کافروں نے جِنّات کو اﷲ کا شریک بنایا حالانکہ اسی نے ان کو پیدا کیا تھا اورانہوں نے اللہ کے لیے بغیر علم (و دانش) کے لڑکے اور لڑکیاں (بھی) گھڑ لیں۔ وہ ان (تمام) باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے جو یہ (اس سے متعلق) کرتے پھرتے ہیں۔

ان کےعقیدہ باطلہ میں ایک نکتہ قابل غورہےکہ اہل عرب جن خودساختہ خداؤں کی عبادت کرتےتھےان کےنزدیک ان کا مقام ومرتبہ یکساں نہ تھابلکہ وہ اللہ تعالیٰ کےسواتھےاوران کادرجہ کم تھا،عرب ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھےکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزاروں کےلیے اس کی بارگاہ میں شفاعت وسفارش کرنےوالےتھے۔ان کےبارےمیں قرآن کریم میں مذکور ہوا:

  وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ 18 9
  اور (مشرکین) اللہ کے سوا ان (بتوں) کو پوجتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور (اپنی باطل پوجا کے جواز میں) کہتے ہیں کہ یہ (بت) اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں، فرما دیجئے: کیا تم اللہ کو اس (شفاعتِ اَصنام کے من گھڑت) مفروضہ سے آگاہ کر رہے ہو جس (کے وجود) کو وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں (یعنی اس کی بارگاہ میں کسی بت کا سفارش کرنا اس کے علم میں نہیں ہے)۔ اس کی ذات پاک ہے اور وہ ان سب چیزوں سے بلند و بالا ہے جنہیں یہ (اس کا) شریک گردانتے ہیں۔

اسی طرح مشرکین کا ان شرکاء کےبارےمیں یہ بھی عقیدہ تھا کہ ان کی عبادت کرنے سے قربِ الہی حاصل ہوگا چنانچہ اس حوالہ سے قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد یوں مذکور ہوا:

  أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ 3 10
  (لوگوں سے کہہ دیں:) سُن لو! طاعت و بندگی خالصۃً اﷲ ہی کے لیے ہے، اور جن (کفّار) نے اﷲ کے سوا (بتوں کو) دوست بنا رکھا ہے، وہ (اپنی بُت پَرستی کے جھوٹے جواز کے لیے یہ کہتے ہیں کہ) ہم اُن کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اﷲ کا مقرّب بنا دیں، بے شک اﷲ اُن کے درمیان اس چیز کا فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، یقیناً اﷲ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے، بڑا ناشکر گزار ہے۔

قرآن مجید میں طاغوت کا ذکربھی ان شرکاء کے طور پر آیاہے چنانچہ مذکور ہوا:

  لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 56 اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ 57 11
  دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔اﷲ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں (حق کی) روشنی سے نکال کر (باطل کی) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں، یہی لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

مفسرین نے طاغوت سے دیگر معانی12مراد لیے ہیں13البتہ ان سب میں راجح یہی ہے کہ طاغوت سےمراد قریش کابت ہبل ہے۔14

بُت پَرستی کا رواج

بتوں کی پرستش کے معاملے میں ان کا اعتقاد یہ تھا کہ وہ بتوں کی پرستش کے ذریعے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کا قرب حاصل کرتےہیں، مگر طریقے مختلف تھے چنانچہ ایک فرقہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے ہم میں ا للہ کی بلا واسطہ عبادت کرنے کی اہلیت نہیں پائی جاتی لہٰذا ہم بتوں کی اس لیے پرستش کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔دوسرے فرقے کے بقول ملائکہ کو اللہ کے یہاں منزلت اور مرتبہ حاصل ہے لہٰذا ہم نے ملائکہ کی صورت پر بت بنالیے تاکہ یہ ہمیں اللہ کےقریب کردیں۔تیسرےفرقے نے کہا: ہم نے بتوں کوا للہ کی عبادت کے معاملے میں قبلہ بنایا ہوا ہے، جس طرح کعبہ اللہ کی عبادت کا قبلہ ہے۔ایک اور فرقے کا کہنایہ تھاکہ اللہ کے حکم سے ہر بت پر ایک شیطان مقرر ہے لہٰذا جو اس بت کی پرستش کرنےکا حق اداکرے گا شیطان اللہ کے حکم سے اس کی حاجات کو پورا کردے گا ورنہ بصورتِ دیگر یہ شیطان اللہ کے حکم سے اسے تکلیف پہنچائے گا۔ 15

ان وجوہات کی بناپرعرب نے بُت پَرستی اپنائی،رہی بات ان کےبتوں کوپوجنےکے طریقۂِ کارکی تویہ تصوران میں کعبہ معظّمہ کے عشق اور محبت سےپیداہوا۔وہ اس وقت بھی خانہ کعبہ کی تعظیم کرتے، حج اور عمرہ کرتے اور اس وراثت پر کاربند تھے جو انہیں اپنے باپ حضرت اسماعیل سے ملی تھی۔ 16بُت پَرستی کی وجہ اورتصورجان لینےکےبعدیہ جانناضروری معلوم ہوتاہےکہ اس کی ابتداءکرنےوالاکون تھااور کس طرح اس نے اہلِ عرب میں اس کی ترویج کی کہ سارا عرب ہی بت پرستی میں مبتلا ہوگیا۔

ابتداء

تاریخ میں دو افراد کا تذکرہ ملتا ہے جو عرب میں بُت پَرستی کی ابتداء کا باعث قرار پائے ۔ قبیلہ مضر کا پہلا شخص جو مکّے میں فروکش ہوا وہ خزیمہ بن مدرکہ تھا یہی وہ شخص ہے جس نے پہلے پہل ہبل (بت) کو نصب کیا تھا اور اسی بنا پر اس بت کو صنمِ خزیمہ (یعنی خزیمہ کا بت ) کہتے تھے 17جبکہ اکثرمؤرخین کااتفاق ہےکہ عرب میں بُت پَرستی کوشروع کرنےوالاشخص عمروبن لحي تھا۔ یہی وہ پہلا شخص تھاجس نے سب سے پہلے دین اسماعیل کو بگاڑا، بت کھڑے کیے، سائبہ، وصیلہ، بحیرہ اور حام جانوروں کی رسم نکالی،اس کا نام عمرو بن ربیعہ تھا اورربیعہ کا نام ربیعہ لحي بن حارثہ بن عمرو بن عامر الازدی تھا جو خزاعہ کا باپ تھا۔18الحرث کعبہ کا والی ہوا کرتا تھا پھر جب عمرو بن لحي بڑا ہواتو اس نےکعبے کی ولایت کے ضمن میں اس سے جھگڑا کیا اور بنو اسماعیل کو ساتھ لے کر جرہم کے خلاف جنگ کرکے انہیں مکّے سے نکال کر خود بیت اللہ کا محافظ بن بیٹھا۔ اس کے بعد یہ سخت بیمار پڑ گیا تو کسی نے اس سے کہا کہ شام کے علاقہ بلقاء میں ایک گرم پانی کا چشمہ ہے، اگر تو وہاں چلا جائے تو شفایاب ہوجائے گا۔19یہ وہاں گیا، اس گرم پانی میں غسل کیا اور صحت یاب ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں کے باشندے بتوں کو پوجتے ہیں تو اس نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہم ان کے ذریعے بارش مانگتے ہیں اور دشمن کے خلاف مدد طلب کرتے ہیں۔20اس نے ان سے درخواست کی کہ ان میں سے کچھ بت اسے دیں۔ ا نہوں نے اسے کچھ بت دے دیے۔ یہ ان بتوں کو لے کر مکّہ آگیا اورانہیں کعبہ کےگرد گاڑھ دیا۔ 21اس کی مزید تفصیل درج ذیل اقتباس میں مذکور ہے:

  فقد قال بعضهم تظافرت نصوص العلماء علي ان العرب من عهد ابراهيم استمرت علي دينه اي من رفض عبادة الاصنام الي زمن عمرو بن لحي فهو اول من غير دين ابراهيم و شرع للعرب الضلالات فعبد الاصنام و سيب السائبة وبحر البحيرة.22
  اس بات پر علماء کرام کی باکثرت تصریحات ہیں کہ اہلِ عرب حضرت ابراہیم کے زمانہ سے لے کر عمرو بن لحي کے زمانے تک آپ کے عقائد پر ہی ثابت قدم رہے ۔ یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ ابراہیمی کو تبدیل کیا اور اہلِ عر ب کے لیے طرح طرح کی گمراہیاں شروع کیں، اس نے بتوں کی پو جا کی اور سائبہ وبحیرہ کی بدعت کا آغاز کیا۔

گمراہیوں کو اہلِ عرب نے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ یہ انہیں مالدار ہونے کی وجہ سےکھلاتاپلاتا تھا اور ان کی دیگر ضروریات کو پوری کرتا تھا23جیسا کہ ذیلی عبارت سے نشاندہی ہوتی ہے۔

  صار عمرو للعرب رباً لا يبتدع لهم بدعة الا اتخذوه ها شرعة لانه كان يطعم الناس و يكسوهم في الموسم و ربما نحر لهم في المو سم عشرةآلاف بدنه و كسا عشرة آلاف حلة.24
  عمرو اہلِ عرب کے لیے رب بن گیا ،دین میں جس نئی بات کا وہ آغاز کرتا لوگ اسے دین سمجھ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ موسمِ حج میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا اور انہیں لباس پہنایا کرتا تھا۔بسا اوقات وہ موسم حج میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا اور دس ہزار ناداروں کو لباس پہناتا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ عمرو بن لحي ایک کا ہن تھا اور اس نے کچھ وجوہات کی بناء پر عرب میں بُت پَرستی کی ابتداء کی تھی ۔ کلبی نے کہا کہ عمرو بن لحي کاہن تھا جس کا ہمزاد جن تابع تھا اوراس نے عمروسے درج ذیل الفاظ کہے:

  عجل الیسر والظعن من تهامة، بالسعد والسلامة ائت جدة تجد اصناماً معدة فاوردها تهامة ولا تهب، ثم ادع العرب الي عبادتها تجب.25
  تہامہ سے جلدی روانہ ہو جاؤ اور کوچ کر جاؤ ،سعادتمندی اور سلامتی کے ساتھ ، جدہ جاؤ وہاں تمہیں تیار بت ملیں گے،انہیں تہامہ میں لے آؤ ۔خوف نہ کھاؤ ،پھر عربوں کو ان کی پو جا کرنے کی دعوت دو لوگ تمہاری بات مان لیں گے۔ 26

پھرعمرو نے ایسا ہی کیااور لوگوں کو بُت پَرستی کی طرف بلانے لگا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

  عمر بن لحي هو اول من غير دين اسمعيل و عبد الاوثان وا مر العرب لعباد تهاومنه قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: « رايت عمرو بن لحي يجر قصبه في النار » يعني أحشائه.27
  عمرو بن لحي وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ اسماعیل کو تبدیل کیا اور بتوں کی پر ستش شروع کی نیزاہلِ عرب کو ان کی عبادت کا حکم دیا، اسی کے بارے میں نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ میں نے عمرو بن لحي کو دیکھا کہ وہ آتش جہنم میں اپنا قصب یعنی اپنی آنتیں گھسیٹ رہاتھا ۔

یہ وہ شخص تھا جس نے عرب کو توحید باری تعالیٰ سے ہٹاکربُت پَرستی کی ذلت سےدوچارکیا اور اس کے نظریات کی مقبولیت میں اس کےمال خرچ کرنے نے بہت فائدہ دیا۔

بتوں کے لیے غلو

بُت پَرستی اور بتوں کے لیے ان کی عقیدت و احترام نے رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں بتوں کی الفت میں یہاں تک اضافہ کیا کہ وہ تمام خدائی کام ان سے منسوب کیا کرتے تھے اور ان کی شان میں قصائد کہتے جس میں ان بتوں کے اوصاف بیان کیے جاتے ۔ عربوں کی فطرت میں مبالغہ آرائی شامل تھی، وہ اونٹوں اور گھوڑوں کے فضائل بیان کرنے میں حد سے آگے بڑھ جاتے تھے، یہ بت تو ان کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے خدا تھے ، یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان کی تعریف و توصیف بیان نہ کرتے اور ان کو اپنی زندگی میں امتیازی مقام نہ عطا کرتے۔ ان پتھروں کو وہ انصاب کہا کرتے تھے۔28

بتوں کے تقرب کا حصول

جاہلی عرب کے مشرکین وکفار بتوں کی عبادت رب تعالیٰ کے تقرّب کے خاطر بھی کرتے تھے اور ان کےتقرّب حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپایوں کی مختلف اقسام کی نذر مانتے تھے ،ان کی تردید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

  وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ 138 29
  اور اپنے خیالِ (باطل) سے (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ (مخصوص) مویشی اور کھیتی ممنوع ہے، اسے کوئی نہیں کھا سکتا سوائے اس کے جسے ہم چاہیں اور (یہ کہ بعض) چوپائے ایسے ہیں جن کی پیٹھ (پر سواری) کو حرام کیا گیا ہے اور (بعض) مویشی ایسے ہیں کہ جن پر (ذبح کے وقت) یہ لوگ اﷲ کا نام نہیں لیتے (یہ سب) اﷲ پر بہتان باندھنا ہے۔

قرب حاصل کیے جانے والے جانوروں کے بتوںمیں سے بالخصوص بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام قابل ذکر ہیں۔

بحیرہ وسائبہ

بحیرہ کا وزن فعیله ہے اور یہ مفعول کے معنی میں مستعمل ہے، بحر سے مشتق ہے جس کا معنی چیر ناہے۔ اس کے معنی میں متعدد اقوال منقول ہوئے، ایک قول یہ ہےکہ وہ اونٹنی جو دس بچے جنتی، اس کا کان چیر دیا جاتا اور اس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا، وہ جہاں چرے پھرے اسے منع نہ کیا جاتا اور وہ جہاں سے بھی پانی پیے، اسے روکا نہ جاتاجبکہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بحیرہ، سائبہ کی بچی کو کہا جاتاتھا۔30

سائبہ فعلِ ثلاثی مجردکا اسم فاعل ہے۔ اس کا معنی ترکته واھملته ہے یعنی میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ اگر اونٹ ہو تو اسے سائب اور اگر اونٹنی ہوتو اسے سائبہ کہتے۔ حضرات ابن عباس و ابن مسعو سے اس کی تشریح یوں منقول ہے:

  هي التي تسيب للاصنام وتعطي للسدنة. ولايعطم من لبنها الا ابناء السبيل ونحوها.31
  یعنی یہ وہ اونٹنی ہے جو بتوں کے لیے چھوڑ دی جاتی اور ان بتوں کے خدمت گاروں کو دے دی جاتی ۔

اس کادودھ مسافروں او ر ضرورت مندوں کے بغیرا ور کوئی نہیں پی سکتاتھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سائبہ اس اونٹنی کو کہا جاتا تھا جس سے دس بار پے دَر پے مادہ بچے پیدا ہوں، درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہو ۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس پر سواری نہیں کی جاتی تھی، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد اسے آزاد چھوڑ دیا جاتا۔

وصیلہ

وصیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھاجو پانچ دفعہ پے درپے دو دو مادہ بچےجنتی ( یعنی پانچ بار میں دس بارمادہ بچے پیدا ہوتے) درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھاکہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑدیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد و عورت سب ہی کھا سکتے تھے۔ 32

حام

یہ حمی سے مشتق ہے جس کا معنی روکنا، منع کرنا ہے۔ فراء نے ا س کا معنی یہ بتایا ہے کہ وہ نر اونٹ جس کا بچہ جفتی کے قابل ہوجائے تو کہتے ہیں " قد حما ظھرہ فلم یُرکب ولم ینتفع وسیِّب لا صنامہم فلا یحمل علیہ " یعنی اس نے اپنی پشت کو محفوظ کرلیا ہے لہذا ا س پر سواری نہیں کی جائے گی، اسے بتوں کی خاطر چھوڑ دیا گیا تو اس پر بوجھ بھی نہیں لادا جائے گا۔ 33حضرت ابن عباس و ابن مسعود سے اس کی تشریح یوں منقول ہے:

  اذا نتجت من صلب الفحل عشرة ابطن، قالوا: قد حمي ظهره….فلا يحمل عليه.34
  جس کی پشت سے دس بچے پیدا ہوتے، عرب کہتے اس نےاپنی پیٹھ کو محفوظ کرلیا ہے۔ پس اس پر بوجھ نہ لادا جائے گا۔

حام اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جُفتی سے پے درپے دس مادہ بچے پیدا ہوتے، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا ۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کردی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھابلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑدیا جاتا تھا نیز اس سے اس کے سوا کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔ 35دور ِ جاہلیت کی بُت پَرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نےا رشاد فرمایا:

  مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ 103 36
  اللہ نے نہ تو بحیرہ کو (اَمرِ شرعی) مقرر کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو، لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں، اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔

ایک دوسری جگہ فرمایا:

  وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ 139 37
  اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مَردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کر دیا گیا ہے، اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عنقریب وہ انہیں ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بیشک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے۔

چوپایوں کی مذکورہ اقسام یعنی بحیرہ سائبہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کیے گئے ہیں جوابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدر ے مختلف ہیں۔حضرت سعید بن مُسیّب کا بیان ہےکہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے اورصحیح بخاری میں مرفوعاً مروی ہے کہ عمرو بن لحَی پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر چھوڑے گئے جانوروں كے حرام ہوجانے کی رسم نکالی ۔ 38

مختلف الانواعِ بت

جب اہلِ عرب بُت پَرستی میں مبتلا ہوئےتو ان کا حال یہ ہوگیا کہ جس قدر ان میں مختلف قبائل تھے اسی قدر بُت پَرستی بھی مختلف الانواع تھی۔ہرقبیلےکابت الگ، اس کانام الگ، اس کا کام الگ اوران کےمقام جُداالغرض ہرشخص اپنی حیثیت کےمطابق بُت پَرستی کرتاتھا۔اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابو المنذر کلبی لکھتےہیں :

  استهترت العرب في عبادة الأصنام فمنهم من اتخذ بيتا، ومنهم من اتخذ صنما ومن لم يقدر عليه ولا على بناء البيت، نصب حجرا أمام الحرم وأمام غيره مما استحسن، ثم طاف به كطوافه بالبيت.39
  عرب بُت پَرستی میں منہمک رہے،کسی نے تو ایک بت خانہ بنا رکھا تھا اورکسی نے بت تیار کر لیا تھا۔ جو بت خانہ نہیں بنا سکتا تھا یا بت تیار نہیں کر سکتا تھا وہ حرم کے سامنے ایک پتھر گاڑ دیتا یا حرم کے علاوہ جہاں بہتر سمجھتا پتھر گاڑ کر اس کے ارد گرد اس شان سے طواف کرتا جس طرح بیت اللہ کے گرد طواف کیا جاتا ہے۔ 40

اسی حوالہ سے بیان کرتے ہوئےڈاکٹرجوادعلی تحریر کرتےہیں:

  فکان الرجل إذا سافر فنزلا منزلا، أخذ أربعة أحجار، فنظر إلى أحسنها فاتخذه ربا، وجعل ثلاث أثافي لقدره فإذا ارتحل تركه، فإذا نزل منزلا آخر، فعل مثل ذلك فكانوا ينحرون ويذبحون عند كلها ويتقربون إليه.41
  جب کوئی شخص سفرکوروانہ ہوتااورکسی مقام پرپڑاؤڈالتاتوچار(4) عددپتھرلےکر،سب سےاچھا چھانٹ کراسےمعبودسمجھ لیتااورباقی تین کوچولہےکےطورپررکھ لیتا۔ جب وہاں سےروانہ ہوتااورکسی اورمقام پرپڑاؤڈالتاتواسی طرح کرتا۔وہ اس کےلیےخون بہاتےاورقربانیاں پیش کرتےتاکہ اس کا قرب پاسکیں۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے مکّہ جیسی مقدس سر زمین کی بے حرمتی کی بلکہ ان کافسق و فجور روزبروز بڑھتا جارہا تھا یہاں تک کہ اگر ان کے کسی شخص کو زنا کے لیے کوئی جگہ نہ ملتی تو وہ خود کعبے میں آکر بدکاری کرتا ۔42المنتظم کی ایک روایت ہےجس میں ابو عثمان الہندی نےزمانۂ جاہلیت میں عرب کی بُت پَرستی کاحال بیان کرتے ہوئے یوں لکھا:

  كنا في الجاهلیة نعبد حجرا، فسمعنا مناديا ينادي: يا أهل الرحال، إن ربكم قد هلك فالتمسوا ربا، قال: فخرجنا على كل صعب وذلول، فبينا نحن كذلك نطلب إذا نحن بمناد ينادي: إنا قد وجدنا ربكم أو شبهه، قال: فجئنا فإذا نحن بحجر فنحرنا عليه الجزر.43
  زمانہ جاہلیت میں ہم ایک بت کی پوجا کیا کرتے تھے، ایک روز ہم نے ایک اعلان سنا: کوئی کہہ رہا تھا کہ اے لوگو! تمہارا خدا ہلاک ہو گیا ہے اب کو ئی نیا رب تلاش کرو،ہم نکلے اور وادی کے سارے نشیب و فراز کو چھان مارا تاکہ ہمیں کوئی ایسا پتھر مل جائے جس کو ہم اپنا خدا بنا لیں ۔اسی اثنا میں ہم نے ایک منادی کرنے والے کی بلند آواز سنی کہ لوگو آجاؤ ہم نے تمہارے لیے ایک خدا ڈھونڈ لیا ہے ۔جب ہم وہاں آئے تو ایک پتھر رکھا ہواتھا، ہم نے اس پر جانور ذبح کیے، خون سے اس کو لت پت کر دیا اورا اس کے بعد اس کی پوجا شروع کر دی۔

ان کی بُت پَرستی کودیکھتے ہوئے اگر یوں کہاجائےکہ بتوں کے بارے میں ان کے رویے نہایت عجیب اور مضحکہ خیز تھے تودرست ہوگا،اس لیے کہ ان کواس معاملہ میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔ بتوں کے انتخاب میں ان کا کوئی معیار بھی نہیں تھا کہ کس طرح کا بت ہو نا چاہیے جو ان کی قوم، قبیلے یا ان کے ذہنی رجحان کا معیار بتا سکے۔

جاہلیت کے مشہور اصنام

جزیرہ عرب میں قبیلہ قریش کو خانہ کعبہ کی وجہ سےمرکزیت حاصل تھی اوران کابت ہبل تھاجسےقریش اورمکّہ کی وجہ سےعرب کاعظیم بت کہاجاتاتھا۔

ہبل

یہ انسانی شکل کا سرخ عقیق سے بنا ہوا بت تھاجس کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔قریش کو یہ بت اسی طرح ملا تھابعدمیں انہوں نے اس کا ہاتھ سونے کا بنادیا تھا۔ اسے سب سے پہلے خزیمہ بن مدرکہ نے یہاں لاکر رکھا تھا چنانچہ اسے ہبلِ خزیمہ کہا جاتا تھا۔ اس کےسامنے سات تیر پڑے ہوئے تھے جن میں سے پہلے پر "صریح"(خالص ) اور دوسرے پر "ملصق" (ساتھ چمٹایاہوا) لکھا ہوتا تھا۔ جب انہیں کسی نوزائیدہ کے متعلق شک گزرتا تو تحفے پیش کرنے کے بعد تیروں سے قرعہ اندازی کرتے، اگر "صریح" والا تیر نکلتا تو اسے اپنے ساتھ ملالیتے اور اگر "ملصق" نکلتا تو اسے نکال دیتے۔ ایک تیر مردےکے لیے چلاتے اور ایک نکاح کے لیے۔ تین اور تیر بھی تھے جن کی تشریح نہیں کی گئی۔ 44جب وہ کسی معاملے میں جھگڑ پڑتے یاسفر کا ارادہ کرتےیاکسی اور کام کا تو ہبل کے پاس آتے اور قرعہ اندازی کرتے، پھر جس طرح کا تیر نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور مقصد تک پہنچ جاتے۔ 45

اساف ونائلہ

اہل مکّہ کے دو معبودوں کے نام اساف اور نائلہ تھے جو اصلاً انسان تھے۔انہوں نے کعبہ معظّمہ میں تنہائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنا کیا تواس گناہ کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم مسخ فرماکر انہیں پتھر کا بنادیا۔ابتداءً تو ان دونوں سے عبرت حاصل کی جاتی رہی لیکن کچھ عرصے کے بعد ان دونوں کی پوجا ہونے لگی۔اساف بنی جرہم کا ایک مرد تھا جس کا پورا نام اساف بن یعلیٰ تھا اور نائلہ ایک عورت تھی جس کا پو را نام نائلہ بنت زید تھا ، یہ بھی جرہم قبیلہ سے تھی اور یہ دونوں یمن میں رہتے تھے ۔ قافلہ کے ساتھ حج کرنے کے لیے یہ دونوں مکّہ آئے اوراسی اثناء میں کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں اور کوئی آدمی نہیں تھا، اس تنہائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خانہ خدا میں بد فعلی کا ارتکاب کیا اوراللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو پتھر بنا دیا۔جب دوسرے لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان کو اس مسخ شدہ حالت میں دیکھ کر وہاں سے اٹھا یا اور باہر رکھ دیا تاکہ ان کے دردناک انجام سے لوگ عبرت حاصل کریں۔ 46جب انہیں یہاں پڑےپڑےا یک مدت گزر گئی اور بت پوجنےکا رواج ہوگیا تو اور بتوں کے ساتھ ان کی بھی پوجا ہونے لگی۔ ان میں سے ایک کعبے سے متصل تھا دوسرا زم زم کےمقام پر تھا۔ قریش نے کعبے کے پاس والےکواٹھاکر دوسرے کےساتھ رکھ دیا،عرب ان دونوں کے پاس آکر جانور اور اونٹ ذبح کیا کرتے تھے۔ جب فتح مکّہ کے دن رسول اللہﷺ غالب آگئے تو آپ ﷺ مسجد حرام میں داخل ہوئے، ابھی تک یہ بت کعبے کے گرد رکھے ہوئےتھے، نبی اکرمﷺ اپنی کمان کے خمیدہ حصے کو ان کی آنکھوں اورچہروں میں چبھوتے اور فرماتے جاتے:

  وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا 81 47
  اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔

اس کے بعد آنحضرت ﷺنے حکم دیا کہ ان کواوندھے منہ کردیا جائےا ور انہیں مسجدِ حرام سے نکال کر جلادیا گیا۔48

الخلصہ،نہیک اورمطعم الطیر

یہ تینوں عرب کے وہ بت تھے جن پر یہ چڑھاوے بھی چڑھایا کرتے تھے چنانچہ اس بارےمیں امام ازرقی ابواسحاق 49سےروایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  نصب عمرو بن لحي الخلصة بأسفل مكة....ونصب على الصفا صنما يقال له نهيك مجاود الريح، ونصب على المروة صنما يقال له مطعم الطير.50
  عمرو بن لحي نے مکّہ کےزیریں علاقہ میں "الخلصہ"بت کونصب کیا۔۔۔اس نےصفاپرہواچلانےوالاایک بت"نہیک" نصب کیااورپرندوں کوکھلانے والابت مروہ پرنصب کیا۔

یعنی خلصہ،نہیک اور معطم الطیر یہ تینوں بت تھے اور انہیں نصب کرنے والا عمرو بن لحي تھا۔اس اقتباس سے یہ بھی واضح ہواکہ اہل عرب نہیک کے بارےمیں یہ عقید رکھتے تھے کہ یہ بت ہواؤں کو چلاتا ہے۔

مناف

ان کا ایک بت "مناف" بھی تھا۔مناف کا معنی ہے بلندی ، عربوں نے اسی کے نام پر عبدمناف نام رکھا ۔ حائضہ عورتیں نہ تو ان بتوں کے قریب آتی تھیں اورنہ انہیں چھوتی تھیں۔ صرف ایک طرف ہوکر کھڑی ہوتی تھیں۔ اس بت کی نسبت یہ معلوم نہیں ہوا کہ یہ بت کہا ں نصب کیا گیا تھا اور اسےکس نے نصب کیا تھا۔ 51

لات

لات ایک مربع پتھر تھا جو طائف میں اس جگہ نصب تھا جہاں اب طائف کی مسجد کا بایاں منارہ ہے ۔ اس کے مجاور بنی ثقیف تھے جنہوں نے اس کے اوپر ایک مکان بنا دیا تھا۔ قریش اورتمام عرب اس کو پوجتے تھے، اس کی تعظیم کرتے تھے اور عربوں نے اس کےزید اللات او ر تیم اللات نام رکھے۔ 52جب بنی ثقیف مسلمان ہو گئے تو آنحضرتﷺنے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو اس کو ڈھانے کےلیے بھیجا اور انہوں نے اس کو ڈھا کر اس میں آگ لگادی تھی۔ 53

عزیٰ

لات کے بعد انہوں نے عزیٰ بنایا تھا۔ عبد العزی بن کعب کا نام اسی بت کے نام پرتھا، ا سے ظالم بن اسعد نے بنایا تھا۔ یہ نخلہ شامیہ کی ایک وادی میں مکّہ سے عراق کو جاتے ہوئے مصعد کی دائیں جانب ذاتِ عرق سے اوپر کونو(9)میل کے فاصلے پر نصب تھا۔ ظالم بن اسعد نے اس پر ایک عمارت بنادی، عرب اس میں سے آواز سنا کرتے تھے۔ قریش کے نزدیک یہ سب سے بڑا بت تھا اور وہ کعبے کا طواف کرتے ہوئے یوں کہا کرتے تھے:

  واللات، والعزي ومناة الثالثة الاخري فانهن الغرانيق العلي وان شفاعتهن لترتجي.54
  لات اور عزیٰ کی قسم اور تیسرے مناۃ کی کیونکہ یہ بلندکونچیں ہیں اور ان کی سفارش کی امید رکھی جاسکتی ہے۔

قریش نے اس بت کے نام وادی حراض کی ایک زمین وقف کر دی تھی جس کو انہوں نے حرم کعبہ کی طرح اس بت کا حرم قرار دے دیا تھا اور اس بت کےلیے ایک قربان گاہ بنائی تھی جس میں اس کے نام پر قربانیاں کرتے تھے ۔ اس قربان گاہ کا نام غبضب تھا۔ قریش اس بت کی سارے بتوں سے زیادہ تعظیم کرتے تھے اور اس کے مجاوربنی شیبان تھے ۔ فتح مکّہ کے دن آنحضرت ﷺنے حضرت خالد بن ولیدکو اس کے انہدام اور ان تین درختوں کے کاٹنے کےلیے بھیجا جو وہاں کھڑے تھے ۔حضرت خالد بن ولید نے ان درختوں کو کاٹ ڈالا اور عزیٰ کا نام و نشان مٹا دیا۔ 55

منات

یہ بت ساحلِ سمندر پر مدینے اور مکّہ کے درمیان قدید میں مشلل کی جانب نصب کیا ہوا تھا ۔ عربوں نے عبدِ مناۃ اور زیدِ مناۃ نام اسی کےنام پہ رکھے۔ہذیل، خزاعہ اور تمام عرب اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس کے پاس قربانیاں کرتے تھے، خصوصاً مدینہ کے دوگروہ اوس و خزرج اس کی سب سے زیادہ تعظیم کرتےتھے ۔ 56سن آٹھ (8)ہجری میں جس سال مکّہ فتح ہو ا آنحضرت ﷺنے حضرت علی کو اس کے ڈھانے کے لیے بھیجاتھااور حضرت علینے اس کو ڈھادیاتھا۔ 57

ابو المنذ ر کا بیان ہے کہ قریش اور مکّے کے باشندے ایسی تعظیم کسی بت کی نہیں کرتےتھے جیسی عزیٰ کی کرتے تھے کہ عزیٰ ان کا خاص بت تھا جس کی وہ لوگ کثرت سے زیارت کرتے تھے اور اس پر نذریں چڑھاتےتھے۔ عزیٰ کے بعد ان کے نزدیک لات کا رتبہ تھا اور اس کے بعد منات کا ۔ جس طرح قریش کا خاص بت عزیٰ تھا، اسی طرح ثقیف کا خاص بت لات اور اوس و خزرج کا منات تھا ، لیکن یہ سب عزیٰ کی بھی تعظیم کرتے تھے اور ان کی تعظیم پر سب کا اتفاق تھا۔ 58

اہلِ عرب قیامت کے دن ان کی شفاعت کی امید رکھتے تھے اور وہ کہا کرتے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تو یہ اللہ کےپاس سفارش کریں گی۔ پھر جب اللہ نے اپنا رسول مبعوث کیا تو ان پر یہ آیت نازل فرمائی:

  أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى 19 وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى 20 أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى 21 تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى 22 59
  کیا تم نے لات اور عزٰی (دیویوں) پر غور کیا ہے، اور اُس تیسری ایک اور (دیوی) منات کو بھی (غور سے دیکھا ہے؟ تم نے انہیں اﷲ کی بیٹیاں بنا رکھا ہے؟)، (اے مشرکو!) کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اس (اﷲ) کے لیے بیٹیاں ہیں، (اگر تمہارا تصور درست ہے) تب تو یہ تقسیم بڑی ناانصافی (کی) ہے۔

مذکورہ بالاتفصیلات سے یہ بات واضح ہوئی کہ اہل عرب ان تین بتوں کی حد درجہ تعظیم کرتے تھے اور انہیں (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھتے تھے جس کو قرآن مجید میں ناانصافی قراردیاگیا اور انہیں اس کی شناعت(برائی) سے آگاہ کیاگیا۔

ود

ود نامی بت دومۃ الجندل میں نصب تھا اور بنی کلب اس کو پوجتے تھے ۔ یہ تہمد باندھے ہوئےاور چادر اوڑھے ہوئے ایک دراز قد آدمی کی صورت پر بنا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں تلوار پڑی تھی اور یہ ہاتھ میں کمان کھینچے ہوئے تھانیز آگے ایک تیروں سے بھرا ہوا ترکش اور لڑائی کا جھنڈا تھا۔60رسول اللہ ﷺنے خالد بن ولید کو اس بت کے گرانے کےلیے مامور کیا۔ 61بنی عذرہ اور بنی عامر نے خالد بن ولید سے اس کے ڈھانے میں مزاحمت کی تو خالد بن ولید نے ان سےجنگ کر کے ان کو قتل کر دیا اور اس بت کو گرا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ 62

سواع

سواع نامی بت منبع میں نصب تھا اور اس بت کے مجاور بنی لحیان تھے ۔مضر و ہذیل اور جو لوگ اس کے آس پاس رہتےتھے اس کو پوجتےتھے چنانچہ اس حوالہ سے ایک شاعر نےکہا:

  تراهم عند قبلتهم عكوفا
كما عكفت (هذيل) علي سوا.63
  تو انہیں اپنے قبلہ کے پاس مقیم دیکھےگا جس طرح ہذیل سواع کے گرد بیٹھے رہتے ہیں ۔ 64

اس سے معلوم ہوا کہ یہ ان بتوں کے پاس اعتکاف بھی کرتے تھے اور عاجزی وانکساری کااظہا ر بھی کیا کرتے تھے۔

یغوث

یغوث بت سرزمینِ یمن کے ایک ٹیلہ پر نصب تھاجس کو مذحج اور اہل جرش پوجتے تھے ۔ ابو عثما ن کہتے ہیں کہ میں نے یغوث کو دیکھا (جوسیسہ کی ایک قسم)رانگ کا بنا ہوا تھا، لوگ اسے اونٹ پر لادے پھرتےتھے ۔ جہاں اونٹ بیٹھ جاتا، یہیں اس کو پوجنے لگتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا پر وردگا ر اس منزل سے خوش ہے ۔ 65یہ پہلے بنی مراد کا معبودتھا پھر سبأ کےپاس بنی غطیف بھی اس کی پوجا میں شریک ہوگئے۔

یعوق ونسر

اس کی صورت گھوڑےجیسی تھی اوریہ قریہ خیوان میں نصب تھا جو صنعاء سے دورات کے فاصلہ پر تھا۔ ہمدان اور وہ اہلِ یمن جو اس کے آس پاس رہتے تھے اس کو پوجتے تھے۔ نسر نامی بت بلخ میں نصب تھا، حمیرہ اور جو اس کے آس پاس رہتے تھے اس کو پوجتے تھے ۔ طرابلسی بیان کرتے ہیں کہ نسرکی شکل عقاب کی مانندتھی۔ 66

یہ پانچ بت وہ تھے جن کی نوح کی قوم بھی پوجا کرتی تھی اور ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:

  وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا 23 67
  اور (قومِ نوح کے افراد)کہتے رہے کہ تم اپنے معبودوں کو مت چھوڑنا اور وَدّ اور سُوَاع اور یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر (نامی بتوں) کو (بھی) ہرگز نہ چھوڑنا۔

ابو المنذران مذکورہ پانچ بتوں کے بنائے جانےکے بارےمیں بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:

  كان ود وسواع ويغوث ويعوق ونسر قوما صالحين ماتوا في شهر فجزع عليهم ذوو أقاربهم فقال رجل من بني قابيل يا قوم هل لكم أن أعمل لكم خمسة أصنام على صورهم غير أني لا أقدر أن أجعل فيها أرواحا قالوا نعم فنحت لهم خمسة أصنام على صورهم ونصبها لهم.68
  ود، سواع، یغوث، یعوق اورنسر قوم کےصالحین تھے،ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے لواحقین پران کاشدید صدمہ ہواجس پرایک شخص نےانہیں کہا: اےلوگو!کیا میں تمہارےلیے ان کی صورت میں پانچ بت نہ تیارکردوں ؟بس میں ان میں روح نہیں پھونک سکتا۔انہوں نےکہا: ہاں ضرور۔پس اس نے ان کی صورتوں پرپانچ بت بناکران کےلیےنصب کردیے۔

یعنی یہ پانچوں در اصل قوم کے صالحین افراد میں سے تھے جن کی وفات نے اہلِ قرابت کو انتہائی غمزدہ کردیا تھا، کسی نے ان کی غمزدگی کوکم کرنے کے لیے ان کے بت بنائے لیکن مرورِزمانہ کے بعد اگلی نسلوں میں سے کسی نے ان کی پوجاشروع کردی جس وجہ سے عرب جاہلیت تک کے مشرکین ان کی پوجا کرتے تھے۔

یعبوب وباجر ودوار

عرب کےزمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے یعبوب نامی بت بھی تھا جس کے متعلق بیان کرتے ہوئے محمود آلوسی لکھتےہیں:

  وكان لجدیلة طئ صنم يقال له اليعبوب وكان لهم صنم أخذته منهم بنو أسد فتبدلوا اليعبوب.69
  قبیلہ طئ کی شاخ جدیلہ کا بھی ایک بت تھا جسے یعبوب کہا جاتا تھا۔ دراصل ان کااپنا بت ا یک تھا جسے بنو اسد ان سے چھین کر لے گئے تھے۔ ا س کے بعد انہوں نے اس کی جگہ یعبوب بنالیا۔ 70

اسی طرح ایک بت کا نام باجر بھی تھا جو قبیلہ ازد، بنی طئی اور قضاعہ کی پوجا کا مرکز تھا 71جبکہ دوارنامی بت کےمتعلق ابومنصورازہری لکھتےہیں:

  الدوار صنم كانت العرب تنصبه، يجعلون موضعا حوله يدورون به، واسم ذلك الصنم والموضع الدوار، ومنه قول امرؤ القيس:
فعن لنا سرب كان نعاجه
عذار ي دوار في ملاء مذیل.72
  دوارایک بت تھاجسےعرب نصب کرلیاکرتےتھے، اس کےارگردجگہ بناکراس کےگردگھومتےتھے، اس جگہ اوربت کا نام الدوارتھا۔ اس ضمن میں امرؤالقیس کا شعر ہے: ہمیں جنگلی گایوں کا ایک گلہ نظرآیا جس کی گائیں حسن ولطافت اور خوبی رفتار میں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ گویا وہ کنواری لڑکیاں ہیں، جو لمبی چوڑی چادروں میں دوار کے گرد طواف کر رہی ہیں ۔

ابن منظورافریقی نے بھی اس دوار کا ذکر جاہلی عرب کے بتوں میں کیا ہے۔73امرؤ القیس کےشعر سےواضح ہوتا ہےکہ عرب زمانۂِ جاہلیت میں اس کی غایت درجہ تعظیم و تکریم کرتے تھے اور مرد و عورت سب اس کا طواف کرتے تھے تاہم تاریخی کتب کتاب الاصنام اوربلوغ الارب74میں "دوار" ان کےطواف کانام بتایاگیاہے چنانچہ ابو المنذر الکلبی لکھتے ہیں:

  واستهترت العرب في عبادة الأصنام فمنهم من اتخذ بيتا ومنهم من اتخذ صنما ومن لم يقدر عليه ولا على بناء بيت نصب حجرا أمام الحرم وأمام غيره مما استحسن ثم طاف به كطوافه بالبيت وسموها الأنصاب فإذا كانت تماثيل دعوها الأصنام والأوثان وسموا طوافهم الدوار.75
  عرب بتوں کی عبادت کرنے میں مشہور ہوگئے چنانچہ کسی نے ایک گھر بنالیا اور کسی نے ایک بت اور جسے نہ بت بنانے کی طاقت تھی اور نہ گھر بنانے کی وہ حرم کے سامنے یا کسی اور چیز کے سامنے جسے وہ پسند کرتا ایک پتھر رکھ کر اسی کا طواف کرنے لگ جاتا بعینہ اسی طرح جس طرح کعبے کا کیا کرتا تھا ۔ وہ ان پتھروں کو انصاب کہا کرتے تھے، اگر ان کی صورت ہوتی تو انہیں اصنام اور اوثان کہا جاتا ۔ ان کے گرد طواف کرنے کو وہ "دوار" کہا کرتے تھے۔

ممکن ہے کہ بت کے نام کی وجہ سے طواف کا نام بھی "دوار" رکھ دیاگیا ہو کیونکہ ابن منظور افریقی کی تصریح سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بت کا نام تھا۔

سعیرو عوض وغمیانس

غنزہ کا بت سعیر تھا جس کے نام پر وہ قربانی کرتے تھے اور اس کے گرد طواف کرتے تھے ۔ 76اسی طرح عوض نامی بت بکر بن وائل کا تھا چنانچہ ایک شاعرنے کہا :

  حلفت بما ئرات حول عوض
وانصاب تركن لدي السعير.77
  میں عوض کے گردبہنےوالےخونوں اوران پتھروں کی قسم کھاتاہوں جوسعیر کےپاس چھوڑ دیے گئے ہیں ۔ 78

غمیانس خولان کا بت تھا۔ وہ اپنے مویشی اور کھیتی میں ایک حصہ خدا کے نام کا مقرر کرتے تھے اور ایک حصہ اس بت کے نام ۔ غمیانس کے حصہ میں سے اگر کوئی چیز خدا کے حصہ میں مل جاتی تو اس کو نکال لیتے اور اگر خدا کے حصے میں سے کوئی چیز غمیانس کے حصہ میں شامل ہو جاتی تو اس کو نہ نکالتے ۔ 79اسی سے متعلق قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی ہے :

  وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ 136 80
  انہوں نے اﷲ کے لیے ان ہی (چیزوں) میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جنہیں اس نے کھیتی اور مویشیوں میں سے پیدا فرمایا ہے پھر اپنے گمانِ (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) اﷲ کے لیے ہے اور یہ ہمارے (خود ساختہ) شریکوں کے لیے ہے، پھر جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لیے ہے سو وہ تو اﷲ تک نہیں پہنچتا اور جو (حصہ) اﷲ کے لیے ہے تو وہ ان کے شریکوں تک پہنچ جاتا ہے، (وہ) کیا ہی برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یعنی توحید کے ساتھ شرک ہی برا فعل ہے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اللہ کا مقر ر کیاگیا حصہ بنسبت شریک کے مقرر کیے گئے حصہ سے کم اہمیت کا حامل تھا۔

قیصر ونہم

قیصرنامی بت مشارف شام میں تھا۔ قزاعہ، لخم ، جذام ، عاملہ اور غطفان اسے پوجتے تھے ۔ 81قبیلہ مزینہ کے بت کا نام نہم تھا اورخزاعی بن عبدنہم اس کا مجاور تھا۔ جب اس نے آنحضرتﷺ کا ذکر سنا تو اللہ نے اسے ہدایت دی اور اس نے بت کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا پھر درج ذیل شعر پڑھے :

  ذهبت الي نهم لا ذبح عنده
عتيره نسك كالذي كنت افعل
فقلت لنفسي حين راجعت عقلها
اهذا اله ابكم ليس يعقل
ابيت فد يني اليوم دين محمد
اله السما ء الماجد المتفض.82
  میں نہم کی طرف گیا تا کہ اس کے پاس قربانی کروں جیسا کہ میں ہمیشہ کیا کرتا تھا ۔ پھر جب میں نے عقل کی طرف رجوع کیا تو اپنے دل میں سوچا کہ کیا یہ گونگا اوربے عقل معبود ہو سکتا ہے؟ میں اس بات کو نہیں مانتا لہٰذا آج سے میرا دین (نبی)محمد(ﷺ) کا دین ہے اور آسمان کا معبود بزرگی اور فضل والا ہے ۔

پھر وہ آنحضرتﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر مشرف بہ ا سلام ہو ا اور اپنی قوم مزینہ کے اسلام کا ذمہ لیا۔83

عائم وذوالخلصہ

عرب کے زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے ایک بت عائم بھی تھا جوازدالسراۃ کا بت تھا۔ 84ایک بت الخلصہ نامی بھی تھا جس کو عمرو بن لحي نے ہی لگایا تھا85پھر ا س کے گرد چار دیواری کی گئی اور اس کے مکمل مجموعہ کو ذو الخلصہ کا نام دیا گیا۔اہلِ عرب اس کی حد درجہ تعظیم کرتے او راس پر طرح طرح کے چڑاھاوے چڑھاتے تھے چنانچہ امام فاکہی اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  فكانوا يلبسونها القلائد، ويهدون إليها الشعير والحنطة، ويصبون عليها اللبن، ويذبحون لها، ويعلقون عليها بيض النعام.86
  توعرب اس کوہارپہناتے،جواورگندم بطورِ تحائف پیش کرتے، اس پردودھ ڈالتے،اس کےلیے قربانیاں کرتےاورشترمرغ کےانڈے رکھتےتھے۔

ذوالخلصہ سفید پتھر کا بنا ہوا تھا جس پر تاج کی شکل کنندہ تھی، مکّے سے سات دن کے رستے پر مکّے اور مدینے کے درمیان تبالہ میں نصب تھا او راس کے اوپر ایک مکان بنا ہوا تھا ۔خثعم دوس، بجیلہ او ر جو اس کے آس پاس رہتے تھے، اس کو پوجتے تھے اور اس پر نذر یں چڑھاتے تھے ۔ حضرت جریر نے رسول اللہﷺکے حکم سے اس مکان کو گرا دیا اور اس بت میں آگ لگا دی جس سے وہ بت جل کر خاکستر ہو گیا۔ 87

سعد

سعد نامی بت ساحلِ جدہ پر نصب تھا جسے بنی ملکان نےنصب کیا تھا۔ یہ ایک لمبا پتھر تھاجس کے آس پاس کےلوگ اسے پوجتے تھے اور اس کے نام پر قربانی کرتے تھے ۔ 88

منات ثانی

منات ثانی لکڑی کا تھا ، عمرو بن الجموح نے جو قبیلہ بنی سلمہ میں ایک سردار تھا اسے اپنے گھر میں نصب کیا تھا۔ حضرت معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرووغیرہ اس کوہر شب غلاظت میں ڈال دیتے تھے ۔ عمرو بن الجموح اسے صبح کو تلاش کر کے ہر روز دھوتا اور خوشبو سے معطر کرتا تھا ۔ آخر انہیں اللہ نے ہدایت دی اور وہ مسلمان ہو گئے اور اس بت کا قصہ تمام ہو گیا۔ 89

ذو الکفین

ذو الکفین نامی بت قبیلہ دوس کا تھا۔90دوس قبیلے کے مسلمان ہونے کے بعد طفیل بن عمرو دوسی نے آنحضرتﷺکے ارشاد کے مطابق اس کو جلا دیا۔ 91

ذوالشری

ذوالشری بت بنی حارث بن يشکر کا بت تھا جو قبیلہ ازد میں سے تھا ۔انباط نے بھی اس کی پرستش کی اوراس کےنام پرعرب اپنی اولادوں کےنام رکھتےتھے۔ 92

ضمار

ضمار نامی بت مرد اس بن ابی العباس بن مرد اس کا تھا جسے وہ عمر بھر پوجتا رہا۔ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹے عباس کو وصیت کی کہ بیٹا ضمار کو پوجتے رہنا، یہ تجھے نفع بھی پہنچا سکتا ہے او ر نقصان بھی۔ اس وصیت کے مطابق عباس نے بھی کچھ دنوں اس کی پرستش کی ۔ ایک دن وہ اس کی عبادت میں مصروف تھا کہ یکایک اس کے اندر سے یہ ابیات سنائی دیے:

  قل للقبائل من سليم كلها
اودي ضمار و عاش اهل المسجد
ان الذي ورث النبوة و الهدي
بعد ابن مريم من قريش مهتدي
اودي ضما روكا ن يعبد مرة
قبل الكتاب الي النبي محمد.93
  اے سننے والے ! بنی سلیم کے تمام قبائل سے کہہ دے کہ ضما ر ہلا ک ہوا اور مسجد والوں نے زندگی پائی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ شخص جو قریش میں سے عیسیٰ بن مریم کے بعد نبوت اور ہدایت کا وارث ہوا ہے سیدھی راہ پر ہے ۔ ضمار جو خدا کے نبی محمد(ﷺ) کی طرف کتاب نازل ہونے سے پہلے پوجا جاتا تھا ہلاک ہوا۔

یہ آواز سنتے ہی عباس نے ضمار میں آگ لگا کر اس کو خاکِ سیاہ کر دیا اور آنحضرت ﷺکی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوا۔ 94

ذو الکعبات و رُضاء

ذوالکعبات سندادمیں بنی ایادووائل کےابناء بکراورتغلب کابت تھا۔ 95اسی طرح بنی ربیعہ بن کعب بن سعدبن زید مناۃ بن تمیم کا بھی اپنا ایک بت خانہ تھاجس کا نام رضاءتھا۔ اس کو بھی زمانۂ اسلام میں گرایاگیا اوراس کےگرائےجانےپربنی ربیعہ کےشاعرمستوغربن ربیعہ بن کعب 96نےکہاتھا:

  ولقد شددت على رضاء شدة
فتركتها قفرا بقاع أسحما.97
  میں نےرضاء نامی بت خانےکوگرانےمیں ایسی زبردست اورطاقتورضربیں لگائیں کہ اسے بالکل تہ تیغ کرڈالا۔ 98

رضاء نام اگرچہ کہ بت خانہ کا تھا لیکن عموماً بت کے نام پر ہی بت خانہ کا نام رکھا جاتا ہے اسی وجہ سے اس کو بھی بت شمار کیاگیا ہے۔

رئام و الفلس

صنعاء میں حمیر کا ایک معبد تھا جسےبیتِ رئام کہاجاتاتھا،حمیر اس کی تعظیم کرتےاوراس کی قربت کی خاطر قربانیاں کرتے۔99انسانی مجسمہ کی ہیئت والا"اجا" پہاڑی پرنمایاں "الفلس" بنو طئ کا معبودتھا۔اس پرتحفےتحائف پیش کیےجاتے،کوئی خوف زدہ اس کےپاس آتا تو ان کے عقیدہ کے مطابق امان پالیتا، اگرکوئی شکارکرتاتواس کا ایک حصہ ضروراس کوپیش کرتا اوراس کےخدام بنی بولان تھے۔حضورﷺنے حضرت علی کو اس کی طرف بھیجاکہ اسےمنہدم کردیں۔ 100

نوفل طرابلسی اورصالح احمدنے عرب کے مزیدبتوں کا ذکربھی کیاہےجیسے کثری،جدیس وطسم کا بت تھا۔ تیم،بنی تمیم کا۔الجہار، بنی ہوازن کا۔اوال،بنی بکروتغلب کا۔المحرق، بنی بکربن وائل کا۔ ایسےہی السعیدۃ،احدپہاڑ پرتھا بنو سعد، ازد، ہذیم اورقضاعہ اس کی عبادت کرتےتھےاوربنوعجلان اس کےخدام تھے۔ 101مشقر میں ذواللیاتھا،عبد القیس اس کےپجاری تھےاوربنو عامرخدام تھے۔جنوبی یمن کےالنجیرمیں بنوکندہ کابت ذریح تھا جبکہ حضرموت میں مرحب بت تھا۔پیتل کابناہوا بت المنطبق سلف، عک اوراشعریوں کا بت تھا۔102

یہ بھی عرب کے بت تھےاگرچہ یہ زیادہ مشہورنہ تھےمگردیگر بتوں کی طرح ان کی بھی زمانۂِ جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی، انہیں پکاراجاتا، ان سےمنتیں مانی جاتیں، مرادیں مانگی جاتیں، امیدیں اورتمنائیں پوری ہونےکی آس لگائی جاتی، بدلےمیں قربانیاں، تحفےتحائف پیش کئے جاتے، ان کی خوشی ورضاکی خاطرہرممکن جدوجہدکی جاتی اوران کی ناراضگی سےممکنہ حدتک بچنےکی کوشش کی جاتی تھی الغرض اہلِ عرب پربُت پَرستی اس قدر غالب آچکی تھی کہ اس زمانہ میں ان کی مذہبی فکراس دائرہ سےباہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتی تھی۔ اگرچہ ان کی سوچ نے ترقی کربھی لی مگر تب بھی وہ معبودِحقیقی کا راستہ نہ پاسکےبلکہ بتوں کوچھوڑکرکسی اورمخلوق کی عبادت میں پڑگئے یہاں تک کہ ان میں سیّدنا محمدرسول اللہﷺ مبعوث کیے گئے اور ان کی بعثت کے بعد ان کی تمام شرکیہ و کفریہ عبادات واعتقادات کی حقیقت واضح کردی گئی کہ یہ محض پتھر اور مخلوق ہیں جن کی اس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں۔ اہلِ عرب نے بالآخر اس دعوت پر لبیک کہااور کفریہ وشرکیہ مذاہب واعتقادات کو ترک کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔

 


  • 1 ابوالفتح محمد بن عبد الکریم الشھرستانی، الملل والنحل، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ و النشر، بیروت، لبنان، 1975م، 235-236
  • 2 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:67
  • 3 القرآن، سورۃ الزمر 39: 38
  • 4 القرآن، سورۃ الزخرف 43: 87
  • 5 القرآن، سورۃ المومنون 23: 84
  • 6 القرآن، سورۃ یونس 10: 31
  • 7 القرآن، سورۃ الرعد33:13
  • 8 القرآن، سورۃ الانعام100:6
  • 9 القرآن، سورۃ یونس18:10
  • 10 القرآن، سورۃ الزمر 39: 3
  • 11 القرآن، سورۃ البقرۃ2: 256- 257
  • 12 جن معانی میں مقدس گھراور یہودیوں کاسردارکعب بن اشرف بھی شامل ہیں۔(ادارہ)
  • 13 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، جامع البيان في تأويل القرآن، ج-8، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2000م، ص:461 -465
  • 14 الدكتور صالح أحمد العلي، تاريخ العرب القديم والبعثة النبوية، مطبوعة: شركة المطبوعات للتوزيع والنشر، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 210
  • 15 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3، مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:68-69
  • 16 ایضاً، ص:74
  • 17 ابو عبداللہ محمد بن سعدبصری، طبقات ابن سعد(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)،مطبوعہ: نفیس اکیڈمی ،کراچی ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص:80
  • 18 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:8-9
  • 19 أبو الفتح محمد بن أحمد الأبشيهي، المستطرف في كل فن مستطرف، مطبوعۃ: عالم الكتب، بيروت، لبنان، 1419هـ، ص:329
  • 20 سیّد محمود شکری آلوسی ،بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ ، لاہور ، پاکستان ، 2002 ء، ص:75
  • 21 نوفل الطرابلسي، صناجة الطرب في تقدمات العرب، مطبوعة: دار الرائد العربي، بيروت، لبنان،1982م، ص:77
  • 22 ابو الفرج علی بن براہیم الحلبی،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعة:مصطفی البابی الحلبی، القاھرۃ، مصر، 1349 ھ ، ص:10
  • 23 أبو الفداء إسماعيل بن عمر ابن كثير الدمشقي، البداية والنهاية، ج-2، مطبوعة: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1989م، ص:236 -237
  • 24 ابو الفرج علی بن براہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعة: مصطفی البابی الحلبی، القاھرۃ، مصر، 1349 ھ ، ص:10
  • 25 السيدمحمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج - 2، مطبوعۃ : مكتبة ابن تيمية والنشر و التو زیع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص:213
  • 26 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:97
  • 27 ابوزید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الاشبیلی، تاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص:37
  • 28 ابو الحسن علی ندوی ،انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا ا ثر ،مطبوعہ: مجلس نشریات اسلام،کراچی،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص: 58
  • 29 القرآن، سورۃالانعام 138:6
  • 30 ابو محمد عبدالملک بن ھشام المعافری، السیرۃ النبویۃ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:81
  • 31 ابو الحسن علی بن احمد الواحدی النیسابوری، التفسیرالبسیط، ج-7، مطبوعۃ: عمادۃ البحث العلمی،الریاض، السعودیۃ 1430ھ، ص: 553
  • 32 ابومحمد الحسین بن مسعود البغوی، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، ج-2 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص: 94
  • 33 ابو الحسن علی بن احمد الواحدی النیسابوری، الوسیط فی تفسیر القرآن المجید، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 338
  • 34 ایضاً، ص: 235
  • 35 ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع ا لبیان فی تاویل القرآن، ج- 11، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص: 126
  • 36 القرآن، سورۃ المائدۃ 5: 103
  • 37 القرآن، سورۃ الانعام 6: 139
  • 38 ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 1212، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية، 1999م،ص:191
  • 39 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:33
  • 40 ابو الحسن علی ندوی ، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا ا ثر ،مطبوعہ: مجلس نشریات اسلام،کراچی،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص: 58
  • 41 الدكتور جواد علي، المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام، ج-11، مطبوعة: دار الساقي، بيروت، لبنان،2001م، ص:66
  • 42 ابو جعفرمحمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج-2، مطبوعۃ: مطبعہ الاستقامۃ، القاہرۃ، مصر، 1939م، ص:74
  • 43 أبو الفرج عبد الرحمن بن علي ابن الجوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوك، ج-7، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1992 م،ص:60
  • 44 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:82-83
  • 45 أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني، الملل والنحل، ج-2، مطبوعة: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت، لبنان، 1975م، ص:81
  • 46 پیر محمدکرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی ﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان 1415ھ، ص: 318-319
  • 47 القرآن، سورۃ الاسرٰی 17 :81
  • 48 نوفل الطرابلسي، صناجة الطرب في تقدمات العرب، مطبوعة: دار الرائد العربي، بيروت، لبنان، 1982م، ص:77
  • 49 أبو عبد الله محمد بن إسحاق الفاكهي، أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، حديث:1439، ج-2، مطبوعة: مكتبة الأسدي، مكة المكرمة، السعودية،2009م، ص:241
  • 50 أبو الوليد محمد بن عبد الله الأزرقي، أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار، ج-1، مطبوعة: مكتبة الأسدي، مكة المكرمة، السعودية، 2012م، ص:196
  • 51 الدكتور صالح أحمد العلي، تاريخ العرب القديم والبعثة النبوية، مطبوعة: شركة المطبوعات للتوزيع والنشر، بيروت، لبنان،2013م، ص:215
  • 52 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:78
  • 53 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:16
  • 54 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار ابن تیمیۃ للنشر والتوزیع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص:203
  • 55 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب(مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:79-80
  • 56 رزق الله بن يوسف شيخو، مجاني الأدب في حدائق العرب، ج -3 ، مطبوعة :الآباء اليسوعيين، بيروت، لبنان، 1913 م، ص:316
  • 57 أبو عبد الله محمد بن إسحاق الفاكهي، أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، حديث:72، ج-5، مطبوعة: دار خضر، بيروت، لبنان،1414ھ، ص:141
  • 58 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:79-80
  • 59 القرآن، سورۃ النجم 53 : 19-22
  • 60 نوفل الطرابلسي، صناجة الطرب في تقدمات العرب، مطبوعة: دار الرائد العربي، بيروت، لبنان،1982م، ص:78
  • 61 ابوالفداء إسماعيل بن عمر ابن كثير الدمشقي، البداية والنهاية، ج-1، مطبوعة: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص:68
  • 62 أبو عبد الله محمد بن إسحاق الفاكهي، أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، حديث:71، ج-5، مطبوعة: مكتبة الأسدي، مكة المكرمة، السعودية، 2009م، ص:141
  • 63 السیّد محمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-2، مطبوعۃ: دار ابن تیمیۃ للنشر والتوزیع، القاھرۃ، مصر،2012م،ص:203
  • 64 سیّد محمود شکری آلوسی ،بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ ، لاہور، پاکستان ، 2002ء، ص:76
  • 65 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري، تاريخ الرسل والملوك، ج-1، مطبوعۃ: دار التراث، بيروت، لبنان، 1387 هـ،ص:179
  • 66 نوفل الطرابلسي، صناجة الطرب في تقدمات العرب، مطبوعة: دار الرائد العربي، بيروت، لبنان،1982م، ص:78
  • 67 القرآن، سورۃ نوح 71: 23
  • 68 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي، كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:51
  • 69 السيدمحمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج - 2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية والنشر و التو زیع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص:211
  • 70 سیّد محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:92
  • 71 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:63
  • 72 أبو منصور محمد بن أحمد الهروي، تهذيب اللغة، ج-14، مطبوعة: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان،2001م، ص:108
  • 73 أبو الفضل محمد بن مكرم ابن منظور الافريقي، لسان العرب، ج-4، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1414هـ، ص:297
  • 74 السيدمحمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج - 2، مطبوعۃ: مكتبة ابن تيمية والنشر و التو زیع، القاھرۃ، مصر،2012م، ص:206
  • 75 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي، كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:33
  • 76 ایضاً، ص:41
  • 77 السيدمحمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج - 2، مطبوعۃ : مكتبة ابن تيمية والنشر و التو زیع، القاھرۃ، مصر،2012م، ص:210
  • 78 سیّد محمود شکری آلوسی،بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم:ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-3،مطبوعہ:اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:91
  • 79 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:75
  • 80 القرآن،سورة الانعام6: 136
  • 81 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي، معجم البلدان، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:238
  • 82 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:39
  • 83 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي، معجم البلدان، ج-5، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:327
  • 84 السيدمحمود شکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج - 2، مطبوعۃ : مكتبة ابن تيمية والنشر و التو زیع، القاھرۃ، مصر، 2012م، ص:210
  • 85 أبو الوليد محمد بن عبد الله الأزرقي، أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار، ج-1، مطبوعة: مكتبة الأسدي، مكة المكرمة، السعودية،2012م، ص:196
  • 86 أبو عبد الله محمد بن إسحاق الفاكهي، أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، حديث:1439، ج-2، مطبوعة: مكتبة الأسدي، مكة المكرمة، السعودية،2009م، ص:241
  • 87 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:34-36
  • 88 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:75-76
  • 89 پروفیسر قاضی داؤد عبد الباقی المجاہد، مدینۃ الرسول: تاریخ و فضائل مدینۃ النبیﷺ، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر، لاہور ، پاکستان، 2014ء، ص:71
  • 90 أبو جعفر محمد بن حبيب البغدادي، المحبر، مطبوعة: دار الآفاق الجديدة، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:318
  • 91 أبو عبد الله محمد بن سعد البصري، الطبقات الكبرى، ج-4، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1990م، ص:181
  • 92 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي، معجم البلدان، ج-3، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:331
  • 93 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2009م، ص:754
  • 94 أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي، معجم البلدان، ج-3، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، 1995م، ص:462
  • 95 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2009م، ص:81
  • 96 المنذر هشام بن محمد الكلبي، كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:30
  • 97 أبو محمد عبد الملك بن هشام المعافري، السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:80
  • 98 ابومحمد عبد الملک بن ہشام معافری، سیرۃ ابن ہشام(مترجم:مولوی قطب الدین محمودی)، ج-1، مطبوعہ: الفیصل ناشران، لاہور، پاکستان،2006ء، ص:9
  • 99 أبو المنذر هشام بن محمد الكلبي،كتاب الأصنام، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر، 2000م، ص:13-11
  • 100 الدكتور صالح أحمد العلي، تاريخ العرب القديم والبعثة النبوية، مطبوعة: شركة المطبوعات للتوزيع والنشر، بيروت، لبنان، 2013م، ص:225
  • 101 نوفل الطرابلسي، صناجة الطرب في تقدمات العرب، مطبوعة: دار الرائد العربي، بيروت، لبنان،1982م، ص:78
  • 102 الدکتورصالح أحمد العلي، تاريخ العرب القديم والبعثة النبوية، مطبوعة: شركة المطبوعات للتوزيع والنشر، بيروت، لبنان،2013م